You are on page 1of 26

‫‪BP537592‬‬ ‫امتحانی مشق نمبر ‪1‬‬ ‫کورس‪:‬عربی زبان و ادب (القرآن و الحدیث) کورس کوڈ‪4639‬‬

‫سمسٹر‪:‬بہار‪2020 ،‬ء‬
‫قرآن مجید کا جامع تعارف تحریر کریں۔‬ ‫سوال‬
‫قرآن مجید کا تعارف ہللا تعالی نے بھی کرایا اور رسول اکرمﷺنے بھی۔ نیزسلف نے‬ ‫نمبر‬
‫بھی اصطالحی تعریف پیش کی۔‬ ‫‪1‬۔‬
‫ہللا تعالی کے نزدیک‪:‬‬
‫سورۃ الشعراء میں قرآن کریم کا تفصیلی تعارف ہے کہ یہ کس کی طرف سے ہے؟ کس کے ذریعے آیا‬
‫ہے؟ کس پر نازل ہوا ہے ؟ مقصد نزول کیا ہے؟ عربی میں کیوں نازل ہوا؟‬
‫‌وح اأْل َ ِمينُ ﴿‪َ ﴾١٩٣‬علَ ٰى قَ ْلبِكَ لِتَ ُكونَ ِمنَ ا ْل ُمن ِذ ِر‌ينَ ﴿‪﴾١٩٤‬‬
‫‌ب ا ْل َعالَ ِمينَ ﴿‪ ﴾١٩٢‬نَزَ َل بِ ِه ُّ‬
‫الر ُ‬ ‫{ َوإِنَّهُ لَتَن ِزي ُل َر ِّ‬
‫سا ٍن َع َ‌ربِ ٍّي ُّمبِي ٍن ﴿‪َ ﴾١٩٥‬وإِنَّهُ لَفِي ُزبُ ِ‌ر اأْل َ َّولِينَ ﴿‪ (}﴾١٩٦‬الشعراء‪۱۹۲:‬۔‪ )۱۹۶‬۔‬ ‫بِلِ َ‬
‫بالشبہ یہ قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ ہے جسے روح االمین لے کر نازل ہوئے‪ ،‬آپ‬
‫ﷺ کے قلب اطہر پرانہوں نے نازل کیا تاکہ آپ ﷺ متنبہ کرنے والے‬
‫ہوں۔صاف عربی زبان میں ہے۔ اور بالشبہ( اس کا ذکر) پچھلی کتب میں بھی ہے۔‬
‫سورہ القمر میں اسے آسان کتاب فرمایا‪:‬‬
‫س ْرنَا ا ْلقُ ْر ٰانَ لِ ِّ‬
‫لذ ْک ِر فَہَ ْل ِمنْ ُّم َّد ِک ٍر }‪( ‬القمر‪)۱۷ :‬‬ ‫{ َولَقَ ْد یَ َّ‬
‫بالشبہ ہم نے قرآن کریم کو آسان بنادیا ہے تو کیا کوئی ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرنے واال ہو؟‬
‫رسول اکرم ﷺکے نزدیک‪:‬‬
‫امام ترمذی رحمہ ہللا نے اپنی سنن کے باب فضائل القرآن (‪ )۲۹۰۶‬میں درج ذیل حدیث بیان کی ہے جس‬
‫میں آپ ﷺ نے قرآن کا تعارف پیش کیا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫خبردار رہنا! عنقریب فتنے اٹھیں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول ہللا! ان سے بچا کیسے جاسکتا ہے؟‬
‫آپ ﷺ نے فرمایا‪ :‬ہللا کی کتاب سے۔ جس میں تم سے پہلے جو کچھ ہوا اس کی خبریں‬
‫ہیں اور جو بعد میں ہوگا اس کی بھی اطالعات ہیں‪ ،‬جو تمہارے مابین اختالف ہوگا اس کا فیصلہ بھی‬
‫ہے۔یہ فیصل کتاب ہے مذاق وٹھٹھہ نہیں ہے۔ جو مغرور اسے چھوڑے گا ہللا تعالی اسے توڑ کر رکھ‬
‫دے گا۔ جس نے اس کے عالوہ کہیں اور سے راہنمائی لی اسے ہللا بھٹکا دے گا۔یہ قرآن ہللا کی بڑی‬
‫مضبوط رسی ہے اور بڑا حکیمانہ ذکر ہے۔ یہی صراط مستقیم ہے۔ یہی قرآن ہے جس سے خواہشات‬
‫کبھی نہیں بہکتیں نہ ہی زبانیں لڑکھڑاتی ہیں ‪ ،‬علماء اس سے کبھی سیراب نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ بار‬
‫ہا پڑھنے سے پرانا لگتا ہے۔اس کے عجائب نہ ختم ہونے والے ہیں۔ یہ وہی قرآن ہے جسے سن کرجن‬
‫نہ رک سکے اور پکار اٹھے‪ :‬بالشبہ ہم نے بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راستی کی طرف راہنمائی کرتا‬
‫ہے ہم اس پر ایمان الئے( سورہ الجن) جس نے اس قرآن کے مطابق بات کہی اس نے سچ کہا اور جس‬
‫نے اس کے کہے پر عمل کیا اس نے اجر پایا اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ دیا اس نے انصاف کیا‬
‫اور جس نے اس کی طرف بالیا اسے صراط مستقیم کی راہ دکھا دی گئی۔(عن علی بن ابی طالب)‬
‫قرآن کریم کی خصوصیات‪:‬‬
‫مندرجہ باال تعریف میں قرٓان مجید اور اس کی خصوصیات کا اجمالی (‪ )summery‬تذکرہ آگیا ہے۔ جن‬
‫کی تفصیل حسب ذیل ہے‪:‬‬
‫کالم ہللا‪:‬‬
‫قرٓان میں صرف ہللا تعالی کا کالم ہے۔ کسی انسان‪ ،‬جن یافرشتے کا کالم اس میں شامل نہیں۔ اسے ہللا‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫تعالی نے خود ہی کالم ہللا یا ٓایات ہللا فرمایا ہے۔ ارشاد باری‬
‫س َم َع کَاَل َم ہّٰللا ِ} (التوبۃ‪)۶:‬‬
‫{۔۔‪َ  ‬ح ٰتّی یَ ْ‬
‫‪....‬تاکہ وہ کالم ہللا کو سن لے۔‬
‫ت ہّٰللا ِ}( آل عمران‪)۱۱۳ :‬‬
‫{۔۔۔یَ ْتلُ ْونَ ٓایَا ِ‬
‫وہ ہللا کی ٓایات کی تالوت کرتے ہیں۔‬
‫غیر مخلوق‪:‬‬
‫قرآن ہللا تعالی کا کالم ہے اور کالم کرنا ہللا تعالی کی صفت ہے اس لئے یہ بھی ہللا تعالی کی ذات کی‬
‫طرح غیر مخلوق ہے۔گوہم اس صفت کی حقیقت نہیں جانتے اور نہ ہی اسے مخلوق کی طرح سمجھتے‬
‫ہیں۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ {لیس کمثلہ شئ}۔ اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں۔ دو فرقے اس بارے میں‬
‫گمراہ ہوگئے۔ ایک قدریہ معتزلہ ہے جو ہللا تعالی کی صفات کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر تاویلیں کرتا‬
‫ہے۔ تاویل سے صفات کی تخفیف وانکار الزم آتا ہے جو انتہائی کفر ہے۔ دوسرا فرقہ مشبہہ مجسمہ ہے‬
‫وہ اس صفت کو مخلوق کے مشابہ بتاتا ہے یہ بھی پہلے سے کم گمراہ نہیں۔ مناسب یہی ہے کہ جو ہللا‬
‫تعالی کی صفات قرآن کریم اور حدیث رسول میں آئی ہیں ان کے لفظی معنی معلوم ہونے کے بعد پھر‬
‫کیفیت کی کھدیڑ نہ کی جائے۔جب اصل حقیقت کا علم نہیں تو اسے مخلوق کے مشابہ قرار دینا کون سی‬
‫دانش مندی ہے۔یہ ازلی صفات کا اقرار ہے اور تاویل کا انکار۔‬
‫یعنی قرآن مجید کا کوئی لفظ زائد نہیں بلکہ اس کے فوائد ہیں۔ یہ مختصر‪ ،‬جامع‪ ،‬تعمیری‪ ،‬اور واقعیت‬
‫پسندی کے ساتھ اپنے معانی و اہداف کو بیان کرتے ہیں ۔ مثالً طہ‪ ،‬ألم ‪ ،‬عسق وغیرہ۔ انہیں ہم زائد نہیں‬
‫کہتے مگر اس کے فوائدعرب بہتر جانتے ہیں کیونکہ ان کے خطباء کے ہاں ان کی زبردست اہمیت ہے۔‬
‫ان کی مراد ہللا تعالی ہی بہترجانتے ہیں۔امام حسن بصری رحمہ ہللا کے حلقہ میں کچھ لوگ کہا کرتے کہ‬
‫یہ الفاظ زائد اور بے فائدہ ہیں۔جس پر انہوں نے فرمایا‪:‬‬
‫ُخ ُذ ْوا ٰہ ُؤاَل ِ‬
‫ئ‪َ ،‬و َجنِّبُ ْوہُم فِ ْی َحشَا ا ْل َح ْلقَ ِۃ۔‬
‫انہیں پکڑو اور انہیں ہمارے حلقے سے الگ کرکے اس کے حاشئے میں بٹھادو۔ اس لئے انہیں حشویہ‬
‫کہا گیا۔‬
‫ظاہری معنی ہی مراد ہوگا‪:‬‬
‫اس کے باطنی معنی لینے کی کوئی دلیل ہے اور نہ ہی ہم اس کے مکلف ہیں۔ایسے دعوے دراصل قرآن‬
‫کریم کو اپنے من پسند عقائد ونظریات میں ڈھالنے کی دعوت ہے۔مگر جو معنی ومفہوم ہللا تعالی نے‬
‫اپنے رسول کو بتائے‪ ،‬صحابہ کرام نے جن پر عمل کیا انہیں قابل اعتناء نہ سمجھا جائے یہ کون سی‬
‫قرآن دانی ہے؟۔‬
‫باطنیہ کہا کرتے‪:‬‬
‫قرآن کے الفاظ کا ظاہری مفہوم مراد نہیں لیا جاسکتا اور اس کے باطن کا مفہوم ہر کوئی نہیں جانتا۔‬
‫اسے صرف ہمارے باطنی ائمہ ہی جانتے ہیں۔ باطنی معنی میں اشاری معنی بھی آجاتا ہے ۔ مثالً کوئی یہ‬
‫کہے کہ اس لفظ کے معنی ومفہوم کا مجھے اشارہ ہوا ہے۔ یہ اشارے اگر ہللا کے رسول کے کہے یا‬
‫مراد کے مطابق ہوں تو درست ورنہ یہ شیطانی اشارے بھی ہو سکتے ہیں۔یہ دونوں انداز فکر رسول ہللا‬
‫ﷺ سے اور امت کے اجماع سے جان چھڑانے اور اپنی الگ شریعت سازی کے مترادف‬
‫ہیں۔‬
‫عربی گرامر کے مطابق اسم‪ ،‬فعل اور حرف کی جامع تعریف تحریر کریں‪ ،‬نیز قرآن مجید میں سے دس‬ ‫سوال‬
‫دس اسما‪ ،‬افعال اور حروف کا واضح اعراب کے ساتھ جدول بنائیں۔‬ ‫نمبر‬
‫کلمہ‪ ‬کی تین اقسام ہیں۔‪ ‬اس َم‪ :‬وہ کلمہ ہے جو کسی شخص‪ ،‬جگہ یا چیز کے لیے استعمال ہو۔‬ ‫‪2‬۔‬
‫مثال‪ :‬پاکستان‪ ،‬کراچی‪ ،‬الہور‪،‬اسالم آباد‪ ،‬فصیح‪ ،‬ثاقب‪ ،‬شاہدہ‪ ،‬منتظر‪ ،‬حنا‪،‬‬
‫پہاڑ‪ ،‬دریا‪ ،‬سمندر‪ ،‬زمین‪ ،‬آسمان‪ ،‬کرسی‪ ،‬میز‪ ،‬قلم‪ ،‬دوات‪ ،‬گھڑی‪ ،‬کمپیوٹر‪ ‬وغیرہ‪ ،‬فعل‪ :‬وہ کلمہ ہے جس‬
‫میں کسی‪ ‬کام‪  ‬کا کرنا‪ ،‬ہونا یا سہنا زمانے کے لحاظ سے پایا جائے۔ مثال‪ :‬سوتا ہے‪ ،‬سوئے گا‪ ،‬کھائے‬
‫گا‪ ،‬کھاتا ہے‪ ،‬پیتا ہے‪ ،‬پیئے گا‪ ،‬پڑھا لکھا ہے‪ ،‬پڑھے گا‪ ،‬وہ آتا ہے‪ ،‬اسلم آیا‪ ،‬عرفان گیا‬
‫وغیرہ۔‪ ‬حرف‪ :‬وہ کلمہ ہے جو نہ تو اسم ہو اور نہ ہی فعل ہو مگر اسم اور فعل کوآپس میں مال کر مطلب‬
‫پورا کرے۔ مثال‪ :‬کی۔ کا۔ کے‪ ،‬کو‪ ،‬تک‪ ،‬پر‪ ،‬سے وغیرہ‬
‫جملے میں کم از کم دو کلموں کا ہونا ضروری ہے ایک مسند اور دوسرا مسند الیہ عام ہے کہ وہ دونوں‬
‫ض َر َب زَ ْی ٌد‪ ‬اور‪ ‬زَ ْی ٌد قَائِ ٌم) اور ایک‬
‫کلمے لفظی ہوں یاایک لفظی ہو ایک تقدیری لفظی کی مثال جیسے ( َ‬
‫ض ِر ْب) کہ دوسرا کلمہ یعنی‪ ‬اَ ْنتَ ‪ ‬ضمیر اس میں پوشیدہ ہے اور‬
‫لفظی ہو ایک تقدیری کی مثال جیسے (اِ ْ‬
‫جملے میں کلمات دو سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں اور زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ مصنف ؒ فرماتے ہیں کہ‬
‫جب کسی جملہ میں کلمات زیادہ ہوں تو اس کے اندر چار باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے‬
‫‪  )۱( ‬اسم ‘ فعل ‘ حرف کو الگ الگ کرنا‬
‫(‪  )۲‬معرب اور مبنی کو پہچاننے میں غور کرنا‬
‫(‪  )۳‬عامل اور معمول کو پہچاننا‬
‫(‪   )٤‬کلمات کا آپس میں تعلق معلوم کرنا تاکہ مسند اور مسند الیہ ظاہر ہو جائیں اور جملے کا معنی‬
‫تحقیقی طور پر معلوم ہو جائے‬
‫‪ ‬عالمات اسم‪   ‬عالمات اسم گیارہ ہیں جو مثالوں کے ساتھ درج ذیل ہیں‬
‫‪  )۱( ‬شروع میں الف الم کا داخل ہونا‪             ‬جیسے‪           ‬اَ ْل َح ْم ُد‪  ‬‬
‫(‪  )۲‬شروع میں حرف جر کا داخل ہونا‪          ‬جیسے‪           ‬بِزَ ْی ٍد‬
‫(‪  )۳‬آخر میں تنوین کا ہونا‪                         ‬جیسے‪           ‬زَ ْی ٌد‬
‫(‪  )٤‬مسند الیہ ہونا‪                                    ‬جیسے‪           ‬زَ ْی ٌد قَائِ ٌم‬
‫(‪  )۵‬مضاف ہونا‪                                      ‬جیسے‪ُ            ‬غاَل ُم زَ ْی ٍد‬
‫(‪  )٦‬مصغر ہونا‪                                       ‬جیسے‪           ‬قُ َر ْی ٌ‬
‫ش‬
‫(‪  )۷‬منسوب ہونا‪                                      ‬جیسے‪           ‬بَ ْغدَا ِد ٌّ‬
‫ی‪          ‬‬
‫(‪  )۸‬مثنی ہونا‪                                          ‬جیسے‪َ            ‬ر ُجاَل ِن‬
‫(‪  )۹‬مجموع ہونا‪                                      ‬جیسے‪ِ            ‬ر َجا ٌل‪  ‬‬
‫(‪  )۱۰‬موصوف ہونا‪                                  ‬جیسے‪َ            ‬ر ُج ٌل عَالِ ٌم‬
‫(‪  )۱۱‬آخر میں تائے متحرکہ کا ہوتا جو سکون کے وقت ’ہ ‘بن جائے‪          ‬جیسے‪ ‬طَ ْل َحۃٌ‘ َ‬
‫ضا ِربَۃٌ‬
‫‪ ‬بقیہ عالمات اسم‪   ‬تمام چیزوں کے نام‘‪  ‬مکبر ہونا ‘‪  ‬مستثنی ہوتا ‘‪  ‬مستثنی منہ ہونا‘‪  ‬منصرف‬
‫ہونا‘‪  ‬غیر منصرف ہونا‘‪  ‬معرفہ ہونا‘‪  ‬نکرہ ہونا‘‪  ‬مذکر ہونا‘‪  ‬مؤنث ہونا‘‪  ‬فاعل ہونا‘‪  ‬مفعول ہونا‬
‫‘‪ٰ   ‬‬
‫منادی ہونا‘‪  ‬ذوالحال ہونا‬
‫‪ ‬عالمات فعل‪   ‬عالمات فعل آٹھ ہیں جو مثالوں کے ساتھ درج ذیل ہیں‬
‫‪  )۱( ‬شروع میں‪ ‬قَ ْد‪ ‬ہونا‪                     ‬جیسے‪           ‬قَ ْد َ‬
‫ض َر َب‬
‫ب‬
‫ض ِر ُ‬
‫سی َ ْ‬
‫(‪  )۲‬شروع میں سین زائدہ کا ہونا‪       ‬جیسے‪َ            ‬‬
‫ب‬
‫ض ِر ُ‬
‫س ْوفَ یَ ْ‬
‫س ْوفَ کا ہونا‪             ‬جیسے‪َ            ‬‬
‫(‪  )۳‬شروع میں َ‬
‫(‪  )٤‬شروع میں حرف جزم کا ہونا‪      ‬جیسے‪           ‬لَ ْم یَ ْ‬
‫ض ِر ْب‬
‫ض َر ْبتُ‬
‫(‪  )۵‬ضمیر مرفوع متصل کا ہونا‪       ‬جیسے‪َ             ‬‬
‫ض َربَتْ‬
‫(‪  )٦‬تائے ساکنہ کا آخر میں ہونا‪        ‬جیسے‪َ             ‬‬
‫ض ِر ْب‬
‫(‪  )۷‬امر ہونا‪                                ‬جیسے‪           ‬اِ ْ‬
‫(‪  )۸‬نہی کا صیغہ ہونا‪                     ‬جیسے‪          ‬اَل ت ْ‬
‫َض ِر ْب‬
‫‪ ‬بقیہ عالمات فعل‪   ‬حروف ناصبہ کا شروع میں ہونا‘‪  ‬حروف اتین کا شروع میں ہونا‘‪  ‬ماضی ہونا‘‪  ‬نون‬
‫تاکید ثقیلہ اور خفیفہ کا آخر میں آنا‬
‫‪ ‬عالمات حرف‪  ‬حرف کی عالمت ایک ہی ہے کہ اسم و فعل کی عالمات سے خالی ہو‬
‫‪    ‬تثنیہ و جمع تو اسم کی عالمات میں سے ہیں پھر فعل میں کیوں پائی جاتی ہیں کیونکہ فعل بھی تو‬
‫ض َربُ ْوا‪ ‬جمع ہے؟‬
‫ض َربَا‪ ‬تثنیہ اور‪َ  ‬‬
‫تثنیہ و جمع ہوتا ہے جیسے‪َ  ‬‬
‫‪    ‬فعل تثنیہ و جمع نہیں ہوتا بلکہ اس میں فاعل کی ضمیر تثنیہ و جمع ہوتی ہے اور فاعل ہمیشہ اسم‬
‫ض َربُ ْوا‪ ‬میں ماریں دو یا زیادہ نہیں ہوئیں بلکہ مارنے والے دو یا دو سے زیادہ‬
‫ض َربَا‪ ‬اور‪َ  ‬‬
‫ہوتا ہے ل ٰہذا‪َ  ‬‬
‫ہوئے‬
‫‪ ‬فائدہ‪   ‬عالمت کے لغوی معنی نشانی ہیں اور اصطالح میں عالمت کے معنی ہیں (ما یوجد فیہ وال یوجد‬
‫فی غیرہ)یعنی جو اسی چیز میں پائی جائے اس کے غیر میں نہ پائی جائے‬
‫اسم کی عالمات‬
‫‪۱‬۔ کلمہ کی ابتدا میں الف الم ہو جیسے اَ َ‬
‫لحم ُد ‪۲‬۔ حرف جر جیسے بِزی ٍد ‪۳‬۔ تنوین جیسے زی ٌد ‪۴‬۔ علم یعنی‬
‫کسی چیز یا آدمی کا نام ہو جیسے زید‪ ،‬مسجد‪۵‬۔مسند الیہ جیسے زی ٌد قائ ٌم ‪۶‬۔مضاف الیہ جیسے غال ُم زی ٍد‬
‫ی ‪۱۰‬۔تثنیہ جیسے‬ ‫‪۷‬۔تصغیر جیسے قُ َر ٌ‬
‫یش‪۸‬۔ ابتدا میں حرف ندا جیسے یَا زی ُد ‪۹‬۔یائی نسبت جیسے بغدا ِد ٌّ‬
‫ضا ِربُونَ (‪۱۲ )۱‬۔موصوف جیسے رج ٌل عال ٌم ‪۱۳‬۔تاء چھوٹی حرکت والی‬
‫رجالن ‪۱۱‬۔جمع جیسے ِر َجال‪َ ،‬‬
‫ِ‬
‫ضا ِربَۃٌ ‪۱۴‬۔ضمائر جیسے ُھ َو‪ُ ،‬ھ َما‪ ،‬ھُم وغیرہ‪۱۵‬۔ اسماء اشارہ جیسے َذا‪َ ،‬ذ ِ‬
‫ان ‪۱۶‬۔ اسماء‬ ‫جیسے َ‬
‫ب ‪۱۸‬۔ الف مقصورہ‪۱۹‬۔ الف‬
‫سا ِ‬
‫الح َ‬ ‫موصولہ جیسے اَلَّ ِذی وغیرہ ‪۱٧‬۔حروف ناصبہ جیسے اِنَّ ہللاَ َ‬
‫سری ُع ِ‬
‫مضروب۔ معلوم ہوا کہ اسم کی بعض عالمات لفظی ہیں‪ ،‬بعض‬
‫ٌ‬ ‫ممدودہ ‪۲۰‬۔ ابتداء میں میم زائدہ جیسے‬
‫معنوی۔‬
‫۔۔۔۔۔‬
‫(‪  )۱‬فعل ہمیشہ مفرد ہوتا ہے‪ ،‬فعل کو تثنیہ و جمع فاعل کے اعتبار سے کہا جاتا ہے‪ ،‬حقیقۃً ضمیر فاعل‬
‫معنی ہے دو آدمیوں نے مارا‪ -‬ضربوا کی‬
‫ٰ‬ ‫جو اسم ہے وہ تثنیہ و جمع ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ ضربا کی‬
‫معنی ہے بہت آدمیوں نے مارا تو یہ تثنیہ و جمع مارنے والےہیں جو فعل کے فاعل ہیں فعل ایک ہے‬
‫ٰ‬
‫ضرب۔‬
‫۔۔۔۔۔‬
‫فعل کی عالمات‬
‫ب ‪۲‬۔ابتدا میں قد جیسے قَد‬
‫ب‪ ،‬نَض ِر ُ‬
‫ب‪ ،‬اَض ِر ُ‬
‫ب‪ ،‬تَض ِر ُ‬
‫۔ کلمہ کی ابتدا میں حرف اتین زائدہ ہو‪ ،‬جیسے یَض ِر ُ‬
‫ب ‪۵‬۔ حرف جازمہ جیسے‬
‫سوفَ یَض ِر ُ‬
‫ب‪۴‬۔ ابتدا میں سوف جیسے َ‬
‫سیَض ِر ُ‬
‫ض َر َب ‪۳‬۔ ابتدا میں سین جیسے َ‬
‫َ‬
‫لَم یَض ِرب ‪۶‬۔ حرف ناصبہ جیسے لَن یَّض ِر َب ‪۷‬۔ضمیر مرفوع متصل جیسے َ‬
‫ض َربتَ ‪۸‬۔آخر میں تاء ساکن‬
‫ض َربَت ‪۹‬۔ امر جیسے اِض ِرب ‪۱۰‬۔ نہی جیسے اَل تَض ِرب ‪۱۱‬۔ النافیہ جیسے اَل یَض ِر ُ‬
‫ب ‪۱۲‬۔ نون ثقیلہ‬ ‫جیسے َ‬
‫‪۱۳‬۔نون خفیفہ جیسے اِض ِربَنَّ ‪ ،‬اِض ِربَن‪۱۴‬۔ الف ضمیر ‪۱۵‬۔ نون ضمیر ‪۱۶‬۔ نا ضمیر ‪۱۷‬۔ تم ضمیر ‪۱۸‬۔‬
‫واو ضمیر ‪۱۹‬۔ تُنَّ ضمیر ‪۲۰‬۔ ماضی۔‬
‫‪ ‬حرف کی عالمات‬
‫عل حرف کی‬
‫سم َوالفِ ِ‬
‫اال ِ‬
‫ت ِ‬‫جو کلمہ اسم و فعل کی عالمات سے خالی ہو وہ حرف ہو گا یعنی ت ََج ُّرد عَن عَال َما ِ‬
‫عالمت ہے۔‬
‫سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ‪ 90‬تا ‪ 93‬کا کسی مستند تفسیر سے مطالعہ کریں اور ان آیات کو واضح‬ ‫سوال‬
‫اعراب کے ساتھ تحریر کریں نیز ان آیات میں مذکور احکام الگ الگ کر کے جامع انداز میں تحریر‬ ‫نمبر‬
‫کریں۔‬ ‫‪3‬۔‬
‫ان فَ ْ‬
‫اجتَنِبُوهُ لَ َعلَّ ُك ْم تُ ْفلِ ُحونَ [‬ ‫ش ْيطَ ِ‬‫س ِمنْ َع َم ِل ال َّ‬ ‫اب َواأْل َ ْزاَل ُم ِر ْج ٌ‬
‫ص ُ‬ ‫س ُر َواأْل َ ْن َ‬ ‫يَا أَيُّ َها الَّ ِذينَ آ َمنُوا إِنَّ َما ا ْل َخ ْم ُر َوا ْل َم ْي ِ‬
‫ص َّد ُك ْم عَنْ ِذ ْك ِر هَّللا ِ َو َع ِن‬ ‫ضا َء فِي ا ْل َخ ْم ِر َوا ْل َم ْي ِ‬
‫س ِر َويَ ُ‬ ‫ش ْيطَانُ أَنْ يُوقِ َع بَ ْينَ ُك ُم ا ْل َعدَا َوةَ َوا ْلبَ ْغ َ‬ ‫‪ ]90‬إِنَّ َما يُ ِري ُد ال َّ‬
‫صاَل ِة فَ َه ْل أَ ْنتُ ْم ُم ْنتَهُونَ [‪]91‬‬
‫ال َّ‬
‫[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد]‪ ‬اے لوگو جو ایمان الئے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک‬
‫کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں‪ ،‬شیطان کے کام سے ہیں‪ ،‬سو اس سے‬
‫بچو‪ ،‬تاکہ تم فالح پائو۔‪ ]90[ ‬شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمھارے درمیان‬
‫دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمھیں ہللا کے ذکر سے اور نماز سے روک دے‪ ،‬تو کیا تم باز آنے والے‬
‫ہو۔‪]91[ ‬‬
‫تعالی بعض چیزوں سے روکتا ہے۔ شراب کی ممانعت فرمائی‪ ،‬پھر جوئے کی روک کی۔‬
‫ٰ‬ ‫ان آیتوں میں ہللا‬
‫امیر المونین علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ سے مروی ہے کہ‪” ‬شطرنج بھی جوئے میں داخل‬
‫ہے۔“‪[ ‬ابن ابی حاتم]‪ ‬‬

‫عطاء‪ ،‬مجاہد اور طاؤس رحمہ ہللا علیہم سے یا ان میں سے دو سے مروی ہے کہ‪” ‬جوئے کی ہر چیز‬
‫میسر میں داخل ہے گو بچوں کے کھیل کے طور پر ہو۔“‬
‫جاہلیت کے زمانے میں جوئے کا بھی عام رواج تھا جسے اسالم نے غارت کیا۔ ان کا ایک جوا یہ بھی‬
‫تھا کہ گوشت کو بکری کے بدلے بیچتے تھے‪ ،‬پانسے پھینک کر مال یا پھل لینا بھی جوا ہے۔ قاسم بن‬
‫محمد رحمہ ہللا فرماتے ہیں کہ‪” ‬جو چیز ذکر ہللا اور نماز سے غافل کر دے وہ جوا ہے۔“‬
‫ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع غریب حدیث میں ہے کہ‪ ‬رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا‪ :‬ان‬
‫پانسوں سے بچو جن سے لوگ کھیال کرتے تھے‪ ،‬یہ بھی جوا ہے‪ ‬۔‪[ ‬تفسیر ابن ابی حاتم‪:‬‬
‫‪:1196/4‬ضعیف]‪ ‬‬
‫صحیح مسلم شریف میں ہے‪ ‬پانسوں سے کھیلنے واال گویا اپنے ہاتھوں کو سور کے خون اور گوشت‬
‫میں آلودہ کرنے واال ہے‪ ‬۔‪[ ‬صحیح مسلم‪ ]2260:‬‬
‫سنن میں ہے کہ‪ ‬وہ ہللا اور رسول کا نافرمان ہے‪ ‬۔‪[ ‬سنن ابوداود‪،4938:‬قال الشيخ األلباني‪:‬حسن]‪  ‬سیدنا‬
‫ابوموسی رضی ہللا عنہ کا قول بھی اسی طرح مروی ہے۔‪َ « ‬وهللاُ اَ ْعلَ ُم»‪،‬‬
‫ٰ‬
‫مسند میں ہے‪ ‬پانسوں سے کھیل کر نماز پڑھنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قے اور‬
‫گندگی سے اور سور کے خون سے وضو کر کے نماز ادا کرے‪ ‬۔‪[ ‬مسند احمد‪:370/5:‬ضعیف]‪ ‬‬
‫سیدنا عبدہللا رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪” ‬میرے نزدیک شطرنج اس سے بھی بری ہے۔“‪ ‬سیدنا علی‬
‫رضی ہللا عنہ سے شطرنج کا جوئے میں سے ہونا پہلے بیان ہو چکا ہے۔ امام مالک رحمہ ہللا‪ ،‬امام ابو‬
‫حنیفہ رحمہ ہللا‪ ،‬امام احمد رحمہ ہللا تو کھلم کھال اسے حرام بتاتے ہیں اور امام شافعی رحمہ ہللا بھی‬
‫اسے مکروہ بتاتے ہیں۔‬
‫اب»‪  ‬ان پتھروں کو کہتے ہیں جن پر مشرکین اپنے جانور چڑھایا کرتے تھے اور انہیں وہیں ذبح‬
‫ص ُ‬‫«أَن َ‬
‫کرتے تھے۔‬
‫«اَ ْزالَ ُم»‪ ‬ان تیروں کو کہتے ہیں جن میں وہ فال لیا کرتے تھے۔ ان سب چیزوں کی نسبت فرمایا کہ‪ ” ‬یہ‬
‫ہللا کی ناراضگی کے اور شیطانی کام ہیں۔ یہ گناہ کے اور برائی کے کام ہیں تم ان شیطانی کاموں سے‬
‫بچو انہیں چھوڑ دو تاکہ تم نجات پاؤ “۔‬
‫اس فقرے میں مسلمانوں کو ان کاموں سے روکنے کی ترغیب ہے۔ پھر رغبت آمیز دھمکی کے ساتھ‬
‫مسلمانوں کو ان چیزوں سے روکا گیا ہے۔‬
‫س َعلَى‬ ‫غ ا ْل ُمبِينُ [‪ ]92‬لَ ْي َ‬ ‫اح َذ ُروا فَإِنْ ت ََولَّ ْيتُ ْم فَا ْعلَ ُموا أَنَّ َما َعلَى َر ُ‬
‫سولِنَا ا ْلبَاَل ُ‬ ‫سو َل َو ْ‬‫َوأَ ِطي ُعوا هَّللا َ َوأَ ِطي ُعوا ال َّر ُ‬
‫ت ثُ َّم اتَّقَ ْوا َوآ َمنُوا ثُ َّم‬ ‫ط ِع ُموا إِ َذا َما اتَّقَ ْوا َوآ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ‬
‫صالِ َحا ِ‬ ‫اح فِي َما َ‬‫ت ُجنَ ٌ‬ ‫الَّ ِذينَ آ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ‬
‫صالِ َحا ِ‬
‫اتَّقَ ْوا َوأَ ْح َ‬
‫سنُوا َوهَّللا ُ يُ ِح ُّب ا ْل ُم ْح ِ‬
‫سنِينَ [‪]93‬‬

‫[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد]‪ ‬اور ہللا کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور بچ جاؤ‪ ،‬پھر اگر تم‬
‫پھر جائو تو جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمے تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے۔‪ ]92[ ‬ان لوگوں‬
‫پر جو ایمان الئے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جو وہ کھا چکے‪ ،‬جب کہ‬
‫وہ متقی بنے اور ایمان الئے اور انھوں نے نیک اعمال کیے‪ ،‬پھر وہ متقی بنے اور ایمان الئے‪ ،‬پھر وہ‬
‫متقی بنے اور انھوں نے نیکی کی اور ہللا نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‪]93[ ‬‬
‫اب ہم یہاں پر حرمت شراب کی مزید احادیث وارد کرتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے‪ ‬سیدنا ابوہریرہ رضی ہللا‬
‫عنہ فرماتے ہیں شراب تین مرتبہ حرام ہوئی۔ نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬جب مدینے شریف میں آئے‬
‫تو لوگ جواری شرابی تھے نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬سے اس بارے میں سوال ہوا اور‬
‫س ۡ َواِ ْثـ ُم ُه َمآ اَ ْكبَ ُر ِمنْ نَّ ْف ِع ِه َما»‪-2[ ‬البقرۃ‪:‬‬
‫س ِر قُ ْل فِ ْي ِه َمآ اِ ْث ٌم َكبِ ْي ٌر َّو َمنَافِ ُع للنَّا ِ‬
‫سـٔـََٔـلُ ْونَ َك َع ِن ا ْل َخــ ْم ِر َوا ْل َم ْي ِ‬
‫آیت‪« ‬يَ ْ‬
‫‪  ]219‬نازل ہوئی۔‬
‫اس پر لوگوں نے کہا یہ دونوں چیزیں ہم پر حرام نہیں کی گئیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ‪ ” ‬ان میں بہت‬
‫بڑا گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ فوائد بھی ہیں “۔ چنانچہ شراب پیتے رہے۔‬
‫ایک دن ایک صحابی رضی ہللا عنہ اپنے ساتھیوں کو مغرب کی نماز پڑھانے کیلئے کھڑے ہوئے تو‬
‫س ٰك ٰرى َح ٰتّى تَ ْعلَ ُم ْوا َما تَقُ ْولُ ْونَ‬
‫ص ٰلوةَ َواَ ْنتُ ْم ُ‬
‫«يٓاَيُّ َھا الَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا اَل تَ ْق َربُوا ال َّ‬
‫قرأت خط ملط ہو گئی اس پر آیت‪ٰ  ‬‬
‫سبِ ْي ٍل َح ٰتّى تَ ْغت َِسلُ ْوا»‪-4[ ‬النسآء‪  ]43:‬نازل ہوئی۔ یہ بہ نسبت پہلی آیت کے زیادہ سخت‬ ‫َواَل ُجنُبًا اِاَّل عَابِ ِر ْ‬
‫ي َ‬
‫تھی اب لوگوں نے نمازوں کے وقت شراب چھوڑ دی لیکن عادت برابر جاری رہی۔‬
‫اب َوااْل َ ْزاَل ُم‬
‫ص ُ‬ ‫«يٓاَيُّ َھاالَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْٓوا اِنَّ َما ا ْل َخ ْم ُر َوا ْل َم ْي ِ‬
‫س ُر َوااْل َ ْن َ‬ ‫اس پر اس سے بھی زیادہ سخت اور صریح آیت‪ٰ  ‬‬
‫اجتَنِبُ ْوهُ لَ َعلَّ ُك ْم تُ ْفلِ ُح ْونَ »‪-5[ ‬المائدہ‪  ]90:‬نازل ہوئی اسے سن کر سارے صحابہ‬ ‫ش ْي ٰط ِن فَ ْ‬
‫س ِّمنْ َع َم ِل ال َّ‬
‫ِر ْج ٌ‬
‫رضی ہللا عنہم بول اٹھے‪« ‬اِ ْنتَ َه ْینَا َربَّنَا»‪” ‬اے ہللا ہم اب باز رہے‪ ،‬ہم رک گئے۔“‬

‫پھر لوگوں نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا جو شراب اور جوئے کی حرمت کے نازل ہونے‬
‫س َعلَى الَّ ِذينَ‬ ‫سے پیشتر ہللا کی راہ میں شہید کئے گئے تھے اس کے جواب میں اس کے بعد کی آیت‪« ‬لَ ْي َ‬
‫ت ثُ َّم اتَّقَوا َّوآ َمنُوا ثُ َّم اتَّقَوا‬ ‫اح فِي َما طَ ِع ُموا إِ َذا َما اتَّقَوا َّوآ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ‬
‫صالِ َحا ِ‬ ‫ت ُجنَ ٌ‬ ‫آ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ‬
‫صالِ َحا ِ‬
‫َّوأَ ْح َ‬
‫سنُوا َوهَّللا ُ يُ ِح ُّب ا ْل ُم ْح ِ‬
‫سنِينَ »‪-5[ ‬المائدہ‪ ، ]93:‬نازل ہوئی اور آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا‪ :‬اگر‬
‫ان کی زندگی میں یہ حکم اترا ہوتا تو وہ بھی تمہاری طرح اسے مان لیتے‪ ‬۔‪[ ‬مسند احمد‪:‬‬
‫‪:351/2‬ضعیف]‪ ‬‬
‫مسند احمد میں ہے عمر بن خطاب رضی ہللا عنہ نے تحریم شراب کے نازل ہونے پر فرمایا یا ہللا ہمارے‬
‫سامنے اور کھول کر بیان فرما پس سورۃ البقرہ کی آیت‪« ‬فِي ِه َما إِ ْث ٌم َكبِي ٌر»‪-2[  ‬البقرہ‪  ]219:‬نازل ہوئی۔‬
‫سیدنا عمر فاروق رضی ہللا عنہ کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس کی تالوت کی گئی پھر بھی آپ‬
‫رضی ہللا عنہ نے فرمایا‪” ‬اے ہللا تو ہمیں اور واضح لفظوں میں فرما!۔“‬

‫ار ٰى»‪-4[ ‬النساء‪  ]43:‬نازل ہوئی اور مؤذن جب‪« ‬حی‬ ‫صاَل ةَ َوأَنتُ ْم ُ‬


‫س َك َ‬ ‫پس سورۃ نساء کی آیت‪« ‬اَل تَ ْق َربُوا ال َّ‬
‫علی الصلوۃ»‪ ‬کہتا تو ساتھ ہی کہہ دیتا کہ نشہ باز ہرگز ہرگز نماز کے قریب بھی نہ آئیں۔‬
‫سیدنا عمر رضی ہللا عنہ کو بلوایا گیا اور یہ آیت بھی انہیں سنائی گئی لیکن پھر بھی آپ رضی ہللا عنہ‬
‫نے یہی فرمایا کہ‪” ‬اے ہللا اس بارے میں صفائی سے بیان فرما۔“‪ ‬پس سورۃ المائدہ کی آیت اتری آپ‬
‫ضا َء فِي ا ْل َخ ْم ِر‬ ‫ش ْيطَانُ أَن يُوقِ َع بَ ْينَ ُك ُم ا ْل َعد َ‬
‫َاوةَ َوا ْلبَ ْغ َ‬ ‫رضی ہللا عنہ کو بلوایا گیا اور یہ آیت‪« ‬إِنَّ َما يُ ِري ُد ال َّ‬
‫صاَل ِة فَ َه ْل أَنتُم ُّمنتَهُونَ »‪-5[ ‬المائدہ‪  ]91:‬سنائی گئی جب‪« ‬فَ َه ْل أَنتُم‬ ‫ص َّد ُك ْم عَن ِذ ْك ِر هَّللا ِ َوع َِن ال َّ‬ ‫َوا ْل َم ْي ِ‬
‫س ِر َويَ ُ‬
‫ُّمنتَهُونَ »‪ ‬تک سنا تو فرمانے لگے‪ « ‬اِ ْنتَ َه ْینَا اِ ْنتَ َه ْینَا»‪ ‬ہم رک گئے ہم رک گئے۔‪[ ‬سنن ابوداود‪ ،3670:‬قال‬
‫الشيخ األلباني‪:‬صحیح]‪ ‬‬
‫بخاری و مسلم میں ہے کہ‪” ‬سیدنا فاروق اعظم رضی ہللا عنہ نے منبرنبوی پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا‬
‫کہ‪”  ‬شراب کی حرمت جب نازل ہوئی اس وقت شراب پانچ چیزوں کی بنائی جاتی تھی‪ ،‬انگور‪ ،‬شہد‪،‬‬
‫کھجور‪ ،‬گہیوں اور جو۔ ہر وہ چیز جو عقل پر غالب آ جائے خمر ہے۔ یعنی شراب کے حکم میں ہے اور‬
‫حرام ہے۔“‪[ ‬صحیح بخاری‪ ]4619:‬‬
‫صحیح بخاری میں ابن عمر رضی ہللا عنہ سے مروی ہے کہ‪” ‬شراب کی حرمت کی آیت کے نزول کے‬
‫موقع پر مدینے شریف میں پانچ قسم کی شرابیں تھیں ان میں انگور کی شراب نہ تھی۔“‪[ ‬صحیح بخاری‪:‬‬
‫‪ ]4616‬‬
‫ابوداؤد طیالسی میں ہے‪ ‬سیدنا ابن عمر رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪” ‬شراب کے بارے میں تین آیتیں‬
‫سأَلُونَكَ َع ِن ا ْل َخ ْم ِر َوا ْل َم ْي ِ‬
‫س ِر قُ ْل فِي ِه َما إِ ْث ٌم َكبِي ٌر»‪-2[ ‬البقرۃ‪  ]219:‬والی آیت اتری تو‬ ‫اتریں۔ اول تو آیت‪« ‬يَ ْ‬
‫کہا گیا کہ شراب حرام ہوگئی۔ اس پر بعض صحابہ رضی ہللا عنہ نے فرمایا رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ‬
‫تعالی نے فرمایا‪ ،‬آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬خاموش‬
‫ٰ‬ ‫وسلم‪ ‬ہمیں اس سے نفع اٹھانے دیجئیے جیسے کہ ہللا‬
‫ار ٰى»‪-4[ ‬النساء‪  ]43:‬والی آیت اتری اور کہا گیا کہ شراب‬ ‫صاَل ةَ َوأَنتُ ْم ُ‬
‫س َك َ‬ ‫ہوگئے۔ پھر آیت‪« ‬اَل تَ ْق َربُوا ال َّ‬
‫حرام ہوگئی۔ لیکن صحابہ رضی ہللا عنہم نے فرمایا رسول ہللا ہم بوقت نماز نہ پئیں گے۔ آپ‪ ‬صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم‪ ‬پھر چپ رہے پھر یہ دونوں آیتیں اتری اور خود رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمادیا‬
‫کہ‪ ‬اب شراب حرام ہوگئی‪ ‬۔‪[ ‬بیهقی فی شعب االیمان‪:5570:‬ضعیف]‪ ‬‬
‫مسلم وغیرہ میں ہے کہ‪ ‬حضور‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کا ایک دوست تھا قبیلہ ثقیف میں سے یا قبیلہ دوس‬
‫میں سے۔ فتح مکہ والے دن وہ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬سے مال اور ایک مشک شراب کی آپ‪ ‬صلی ہللا‬
‫تعالی نے‬
‫ٰ‬ ‫علیہ وسلم‪ ‬کو تحفتا ً دینے لگا آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا‪ :‬کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہللا‬
‫اسے حرام کر دیا ہے‪ ‬۔ اب اس شخص نے اپنے غالم سے کہا کہ جا اسے بیچ ڈال‪ ،‬آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم‪ ‬نے فرمایا‪ :‬کیا کہا؟‪ ‬اس نے جواب دیا کہ بیچنے کو کہہ رہا ہوں۔ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے‬
‫فرمایا‪ :‬جس ہللا نے اس کا پینا حرام کیا ہے اسی نے اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے‪ ‬۔ اس نے اسی وقت‬
‫کہا جاؤ اسے لے جاؤ اور بطحاء کے میدان میں بہا آؤ‪ ‬۔‪[ ‬صحیح مسلم‪ ]1579:‬‬
‫یعلی موصلی میں ہے کہ‪ ‬سیدنا تمیم دارمی رضی ہللا عنہ‪ ،‬نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کو تحفہ دینے‬
‫ابو ٰ‬
‫کیلئے ایک مشک شراب کی الئے‪ ،‬آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬اسے دیکھ کر ہنس دیئے اور فرمایا‪ :‬یہ تو‬
‫تمہارے جانے کے بعد حرام ہو گئی ہے‪ ‬۔ کہا خیر یا رسول ہللا میں اسے واپس لے جاتا ہوں اور بیچ کر‬
‫قیمت وصول کر لوں گا‪ ،‬یہ سن کر آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا‪ :‬یہودیوں پر ہللا کی لنعٹ ہوئی کہ‬
‫تعالی نے‬
‫ٰ‬ ‫ان پر جب گائے بکری کی چربی حرام ہوئی تو انہوں نے اسے پگھال کر بیچنا شروع کیا‪ ،‬ہللا‬
‫شراب کو اور اس کی قیمت کو حرام کر دیا ہے‪ ‬۔‪[ ‬طبرانی کبیر‪:1275:‬ضعیف]‪ ‬‬
‫مسند احمد میں بھی یہ روایت ہے‪ ،‬اس میں ہے کہ‪ ‬ہر سال دارمی ایک مشک ہدیہ کرتے تھے‪ ،‬اس کے‬
‫آخر میں حضور‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کا دو مرتبہ یہ فرمانا ہے کہ‪ ‬شراب بھی حرام اور اس کی قیمت بھی‬
‫حرام‪ ‬۔‪[ ‬مسند احمد‪:227/4:‬صحیح]‪ ‬‬
‫ایک حدیث مسند احمد میں اور ہے اس میں ہے کہ‪ ‬کیسان رضی ہللا عنہ شراب کے تاجر تھے جس سال‬
‫شراب حرام ہوئی اس سال یہ شام کے ملک سے بہت سی شراب تجارت کیلئے الئے تھے حضور‪ ‬صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم‪ ‬سے ذکر کیا۔ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا‪ :‬اب تو حرام ہوگئی‪ ‬۔ پوچھا پھر میں اسے‬
‫بیچ ڈالوں؟ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا‪ :‬یہ بھی حرام ہے اور اس کی قیمت بھی حرام ہے‪ ‬۔ چنانچہ‬
‫کیسان رضی ہللا عنہ نے وہ ساری شراب بہا دی‪ ‬۔‪[ ‬مسند احمد‪:335/4:‬ضعیف]‪ ‬‬
‫مسند احمد میں ہے‪ ‬سیدنا انس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪ ،‬میں ابوعبیدہ بن جراح ابی بن کعب‪ ،‬سہل بن‬
‫بیضاء اور صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کی ایک جماعت کو شراب پال رہا تھا دور چل رہا تھا سب لذت‬
‫اندوز ہو رہے تھے قریب تھا کہ نشے کا پارہ بڑھ جائے‪ ،‬اتنے میں کسی صحابی رضی ہللا عنہ نے آکر‬
‫خبر دی کہ کیا تمہیں علم نہیں شراب تو حرام ہو گئی؟ انہیں نے کہا بس کرو جو باقی بچی ہے اسے‬
‫لنڈھا دو ہللا کی قسم اس کے بعد ایک قطرہ بھی ان میں سے کسی کے حلق میں نہیں گیا۔ یہ شراب‬
‫کھجور کی تھی اور عموما ً اسی کی شراب بنا کرتی تھی‪ ‬۔ یہ روایت بخاری مسلم میں بھی ہے۔‪[ ‬صحیح‬
‫بخاری‪ ]5582:‬‬
‫اور روایت میں ہے کہ شراب خوری کی یہ مجلس سیدنا ابوطلحہ رضی ہللا عنہ کے مکان پر تھی‪ ،‬ناگاہ‬
‫منادی کی آواز پڑی مجھ سے کہا گیا باہر جاؤ دیکھو کیا منادی ہو رہی ہے؟ میں نے جا کر سنا منادی ندا‬
‫دے رہا ہے کہ شراب تم پر حرام کی گئی ہے‪ ،‬میں نے آکر خبر دی تو ابو طلحہ رضی ہللا عنہ نے فرمایا‬
‫اٹھو جتنی شراب ہے سب بہادو میں نے بہادی اور میں نے دیکھا کہ مدینے کے گلی کوچوں میں شراب‬
‫بہہ رہی ہے۔ بعض اصحاب رضی ہللا عنہم نے کہا‪” ‬ان کا کیا حال ہوگا جن کے پیٹ میں شراب تھی اور‬
‫ت ُجنَ ٌ‬
‫اح فِي َما‬ ‫صالِ َحا ِ‬ ‫س َعلَى الَّ ِذينَ آ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ‬ ‫وہ قتل کر دیئے گئے؟“‪ ‬اس پر اس کے بعد کی آیت‪« ‬لَ ْي َ‬
‫سنِينَ »‪-5[  ‬‬ ‫ت ثُ َّم اتَّقَوا َّوآ َمنُوا ثُ َّم اتَّقَوا َّوأَ ْح َ‬
‫سنُوا َوهَّللا ُ يُ ِح ُّب ا ْل ُم ْح ِ‬ ‫طَ ِع ُموا إِ َذا َما اتَّقَوا َّوآ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ‬
‫صالِ َحا ِ‬
‫المائدہ‪ ، ]93:‬نازل ہوئی یعنی ان پر کوئی حرج نہیں ۔‪[ ‬صحیح بخاری‪ ]2464:‬‬
‫ابن جریر کی روایت میں اس مجلس والوں کے ناموں میں ابودجانہ اور معاذ بن جبل رضی ہللا عنہم کا نام‬
‫بھی ہے اور یہ بھی ہے کہ ندا سنتے ہی ہم نے شراب بہا دی‪ ،‬مٹکے اور پیپے توڑ ڈالے۔ کسی نے‬
‫وضو کر لیا‪ ،‬کسی نے غسل کر لیا اور ام سلیم رضی ہللا عنہا کے ہاں سے خوشبو منگوا کر لگائی اور‬
‫مسجد پہنچے تو دیکھا نبی کریم‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬یہ آیت پڑھ رہے تھے‪ ،‬ایک شخص نے سوال کیا کہ‬
‫حضور‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬اس سے پہلے جو لوگ فوت ہو گئے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ پس اس کے بعد‬
‫آیت اتری۔‬
‫کسی نے قتادہ رحمة هللا سے پوچھا کہ آپ نے یہ حدیث خود سیدنا انس رضی ہللا عنہ سے سنی ہے؟‬
‫فرمایا‪” ‬ہاں ہم جھوٹ نہیں بولتے بلکہ ہم تو جانتے بھی نہیں کہ جھوٹ کسے کہتے ہیں؟“‪[ ‬تفسیر ابن‬
‫جریر الطبری‪:12531:‬صحیح بالشواهد]‪ ‬‬
‫تعالی نے شراب اور پانسے اور‬
‫ٰ‬ ‫مسند احمد میں ہے‪ ‬حضور‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬فرماتے ہیں ہللا تبارک و‬
‫بربط کا باجا حرام کر دیا ہے‪ ،‬شراب سے بچو‪ُ « ‬غبَ ْی َرا»‪ ‬نام کی شراب عام ہے‪ ‬۔‪[ ‬مسند احمد‪:‬‬
‫‪:422/3‬ضعیف]‪ ‬‬
‫مسند احمد میں ہے‪ ‬عبدہللا بن عمرو رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے‬
‫فرمایا‪ :‬جو شخص مجھ سے وہ بات منسوب کرے جو میں نے نہ کہی ہو وہ اپنی جگہ جہنم میں بنالے‪ ‬۔‬
‫میں نے آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬سے سنا ہے کہ شراب جوا پانسے اور غبیرا سب حرام ہیں اور ہر نشے‬
‫والی چیز حرام ہے‪[ ‬مسند احمد‪:171/2:‬صحیح]‪ ‬‬
‫مسند احمد میں ہے‪  ‬شراب کے بارے میں دس لعنتیں ہیں خود شراب پر‪ ،‬اس کے پینے والے پر‪ ،‬اس کے‬
‫پالنے والے پر‪ ،‬اس کے بیچنے والے پر‪ ،‬اس کے خریدنے والے پر اس کے نچوڑنے والے پر‪ ،‬اس کے‬
‫بنانے والے پر‪ ،‬اس کے اٹھانے والے پر اور اس پر بھی جس کے پاس یہ اٹھا کر لے جایا جائے اور‬
‫اس کی قیمت کھانے والے پر‪ ‬۔‪[ ‬سنن ابوداود‪،3674:‬قال الشيخ األلباني‪:‬صحیح]‪ ‬‬
‫مسند میں ہے‪ ‬سیدنا ابن عمر رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬باڑے کی طرف‬
‫نکلے میں آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے ساتھ تھا۔ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے دائیں جانب چل رہا تھا جو‬
‫سیدنا ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ آئے میں ہٹ گیا اور آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے داہنے سیدنا صدیق‬
‫اکبر رضی ہللا عنہ چلنے لگے تھوڑی دیر میں سیدنا عمر رضی ہللا عنہ آگئے میں ہٹ گیا آپ رضی ہللا‬
‫عنہ حضور‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے بائیں طرف ہوگئے۔ جب آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬باڑے میں پہنچے تو‬
‫دیکھا کہ وہاں پر چند مشکیں شراب کی رکھی ہوئی ہیں۔ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے مجھے بالیا اور‬
‫فرمایا‪ :‬چھری الؤ‪ ‬۔ جب میں الیا تو آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے حکم دیا کہ یہ مشکیں کاٹ دی جائیں‪،‬‬
‫پھر فرمایا‪  :‬شراب پر‪ ،‬اس کے پینے والے پر‪ ،‬پالنے والے پر‪ ،‬بیچنے والے پر‪ ،‬خریدار پر‪ ،‬اٹھانے‬
‫والے پر‪ ،‬اٹھوانے والے پر‪ ،‬بنانے والے پر‪ ،‬بنوانے والے پر‪ ،‬قیمت لینے والے پر سب پر لعنت‬
‫ہے‪ ‬۔‪[ ‬مسند احمد‪:71/2:‬صحیح]‪ ‬‬
‫مسند احمد کی اور روایت میں ہے کہ‪ ‬حضور‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے یہ مشکیں کٹوا دیں پھر مجھے اور‬
‫میرے ساتھیوں کو چھری دے کر فرمایا جاؤ جتنی مشکیں شراب کی جہاں پاؤ سب کاٹ کر بہا دو‪ ،‬پس‬
‫ہم گئے اور سارے بازار میں ایک مشک بھی نہ چھوڑی‪ ‬۔‪[ ‬مسند احمد‪:132/2:‬صحیح]‪ ‬‬

‫بیہقی کی حدیث میں ہے کہ‪ ‬ایک شخص شراب بیچتے تھے اور بہت خیرات کیا کرتے تھے سیدنا ابن‬
‫عباس رضی ہللا عنہ سے شراب فروشی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ رضی ہللا عنہ نے فرمایا‪” ‬یہ حرام ہے‬
‫اور اس کی قیمت بھی حرام ہے‪ ،‬اے امت محمد‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬اگر تمہاری کتاب کے بعد کوئی کتاب‬
‫اترنے والی ہوتی اور اگر تمہارے نبی‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے بعد کوئی نبی اور آنے واال ہوتا‪ ،‬جس‬
‫طرح اگلوں کی رسوائیاں اور ان کی برائیاں تمہاری کتاب میں اتریں تمہاری خرابیاں ان پر نازل ہوتیں‬
‫لیکن تمہارے افعال کا اظہار قیامت کے دن پر مؤخر رکھا گیا ہے اور یہ بہت بھاری اور بڑا ہے۔“‬
‫پھر سیدنا عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا‪” ‬سنو میں حضور‪ ‬صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے ساتھ مسجد میں تھا۔ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬گوٹھ لگائے ہوئے بیٹھے تھے فرمانے‬
‫لگے‪ ‬جس کے پاس جتنی شراب ہو وہ ہمارے پاس الئے‪ ‬۔ لوگوں نے النی شروع کی‪ ،‬جس کے پاس‬
‫جتنی تھی حاضر کی۔ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا‪ :‬جاؤ اسے بقیع کے میدان میں فالں فالں جگہ‬
‫رکھو۔ جب سب جمع ہوجائے مجھے خبر کرو‪ ‬۔ جب جمع ہوگئی اور آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬سے کہا گیا‬
‫تو آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬اٹھے میں آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬کے داہنے جانب تھا آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم‪ ‬مجھ پر ٹیک لگائے چل رہے تھے۔‬
‫سیدنا ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ جب آئے تو آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے مجھے ہٹا دیا اپنے بائیں‬
‫کردیا اور میری جگہ سیدنا ابو بکر رضی ہللا عنہ نے لے لی‪ ،‬پھر سیدنا عمر رضی ہللا عنہ سے مالقت‬
‫ہوئی تو آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے مجھے اور پیچھے ہٹا دیا اور جناب فاروق رضی ہللا عنہ کو اپنے‬
‫بائیں لے لیا اور وہاں پہنچے لوگوں سے فرمایا‪ :‬جانتے ہو یہ کیا ہے؟‪ ‬سب نے کہا ہاں جانتے ہیں یہ‬
‫شراب ہے۔‬
‫فرمایا‪  :‬سنو اس پر اس کے بنانے والے پر‪ ،‬بنوانے والے پر‪ ،‬پینے والے پر‪ ،‬پالنے والے پر‪ ،‬اٹھانے‬
‫والے پر‪ ،‬اٹھوانے والے پر‪ ،‬بیچنے والے پر‪ ،‬خریدنے والے پر‪ ،‬قیمت لینے والے پر ہللا کی پھٹکار‬
‫ہے‪ ‬۔ پھر چھری منگوائی اور فرمایا‪ :‬اسے تیز کرلو‪ ‬۔ پھر اپنے ہاتھ سے مشکیں پھاڑنی اور مٹکے‬
‫توڑنے شروع کئے لوگوں نے کہا بھی کہ حضور‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬مشکوں اور مٹکوں کو رہنے‬
‫دیجئیے اور کام آئیں گی۔ فرمایا‪ :‬ٹھیک ہے لیکن میں تو اب ان سب کو توڑ کر ہی رہوں گا یہ غضب و‬
‫غصہ ہللا کیلئے ہے کیونکہ ان تمام چیزوں سے رب ناراض ہے‪ ‬۔ سیدنا عمر رضی ہللا عنہ نے فرمایا‬
‫حضور‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬خود کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم حاضر ہیں۔‬
‫فرمایا‪ :‬نہیں میں اپنے ہاتھ سے انہیں نیست و نابود کروں گا۔‪[ ‬بیھقی‪:287/8:‬صحیح]‪ ‬‬
‫بیہقی کی حدیث میں ہے کہ‪” ‬شراب کے بارے میں چار آیتیں اتری ہیں۔ پھر حدیث بیان فرما کر کہا کہ‬
‫ایک انصاری نے دعوت کی ہم دعوت میں جمع ہوئے خوب شرابیں پیں۔ نشے میں جھومتے ہوئے اپنے‬
‫نام و نسب پر فخر کرنے لگے‪ ،‬ہم افضل ہیں۔ قریشی نے کہا ہم افضل ہیں۔ ایک انصاری نے اونٹ کے‬
‫جبڑا لے کرسیدنا سعد رضی ہللا عنہ کو مارا اور ہاتھا پائی ہونے لگی پھر شراب کی حرمت کی آیت‬
‫اتری۔“‪[ ‬صحیح مسلم‪ ]1748:‬‬

‫بیہقی میں سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ یہ شراب پی کر بدمست ہو گئے اور آپس‬
‫میں الف زنی ہونے لگی جب نشے اترے تو دیکھتے ہیں اس کی ناک پر زخم ہے اس کے چہرے پر زخم‬
‫ہے اس کی داڑھی نچی ہوئی ہے اور اسے چوٹ لگی ہوئی ہے‪ ،‬کہنے لگے مجھے فالں نے مارا میری‬
‫بے حرمتی فالں نے کی اگر اس کا دل میری طرف سے صاف ہوتا تو میرے ساتھ یہ حرکت نہ کرتا دلوں‬
‫میں نفرت اور دشمنی بڑھنے لگی پس یہ آیت اتری۔‬
‫اس پر بعض لوگوں نے کہا جب یہ گندگی ہے تو فالں فالں صحابہ رضی ہللا عنہم تو اسے پیتے ہوئے ہی‬
‫رحلت کر گئے ہیں ان کا کیا حال ہو گا؟ ان میں سے بعض احد کے میدان میں شہید ہوئے ہیں اس کے‬
‫ت»‪-5[ ‬المائدة‪  ]93:‬الخ اتری۔‪[ ‬بیہقی السنن‬ ‫س َعلَى الَّ ِذينَ آ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ‬
‫صالِ َحا ِ‬ ‫جواب میں اگلی آیت‪« ‬لَ ْي َ‬
‫الکبری‪:285/8:‬حسن]‪ ‬‬
‫ابن جریر میں ہے‪” ‬ابوبریدہ رضی ہللا عنہ کے والد کہتے ہیں کہ ہم چار شخص ریت کے ایک ٹیلے پر‬
‫بیٹھے شراب پی رہے تھے دور چل رہا تھا جام گردش میں تھا ناگہاں میں کھڑا ہوا اور حضور‪ ‬صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم‪ ‬کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سالم کیا وہیں حرمت شراب کی یہ آیت نازل ہوئی۔ میں پچھلے‬
‫پیروں اپنی اسی مجلس میں آیا اور اپنے ساتھیوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی‪ ،‬بعض وہ بھی تھے‪ ،‬جن کے‬
‫منہ سے جام لگا ہوا تھا لیکن وہللا انہوں نے اسی وقت اسے الگ کر دیا اور جتنا پیا تھا اسے قے کر‬
‫کے نکال دیا اور کہنے لگے یا ہللا ہم رک گئے ہم باز آ گئے۔‪[ ‬تفسیر ابن جریر الطبری‪:12527:‬ضعیف]‪ ‬‬
‫صحیح بخاری شریف میں ہے کہ‪” ‬جنگ احد کی صبح بعض لوگوں نے شرابیں پی تھیں اور میدان میں‬
‫اسی روز ہللا کی راہ میں شہید کر دیئے گئے اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔“‪[ ‬صحیح بخاری‪:‬‬
‫‪ ]4618‬‬
‫س َعلَي‬ ‫بزار میں یہ ذیادتی بھی ہے کہ اسی پر بعض یہودیوں نے اعتراض کیا اور جواب میں آیت‪« ‬لَ ْي َ‬
‫ت ثُ َّم اتَّقَ ْوا َّو ٰا َمنُ ْوا ثُ َّم اتَّقَ ْوا‬ ‫اح فِ ْي َما طَ ِع ُم ْٓوا اِ َذا َما اتَّقَ ْوا َّو ٰا َمنُ ْوا َو َع ِملُوا ال ٰ ّ‬
‫صلِ ٰح ِ‬ ‫ت ُجنَ ٌ‬ ‫الَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا َو َع ِملُوا ال ٰ ّ‬
‫صلِ ٰح ِ‬
‫هّٰللا‬
‫سنُ ْوا َو ُ يُ ِح ُّب ا ْل ُم ْح ِ‬
‫سنِيْنَ »‪-5[ ‬المائدہ‪  ]93:‬نازل ہوئی۔‬ ‫َّواَ ْح َ‬
‫یعلی موصلی میں ہے کہ‪ ‬ایک شخص خیبر سے شراب ال کر مدینے میں فروخت کیا کرتا تھا ایک دن‬
‫ابو ٰ‬
‫وہ ال رہا تھا ایک صحابی رضی ہللا عنہ راستے میں ہی اسے مل گئے اور فرمایا شراب تو اب حرام ہو‬
‫گئی وہ واپس مڑگیا اور ایک ٹیلے تلے اسے کپڑے سے ڈھانپ کر آگیا اور حضور‪ ‬صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم‪ ‬سے کہنے لگا کیا یہ سچ ہے کہ شراب حرام ہو گئی؟ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا‪ :‬ہاں سچ‬
‫ہے‪ ‬۔ کہا پھر مجھے اجازت دیجئیے کہ جس سے لی ہے اسے واپس کر دوں۔ فرمایا‪ :‬اس کا لوٹانا بھی‬
‫جائز نہیں‪ ،  ‬کہا پھر اجازت دیجئیے کہ میں اسے ایسے شخص کو تحفہ دوں جو اس کا معاوضہ مجھے‬
‫دے۔ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا‪ :‬یہ بھی ٹھیک نہیں‪ ‬۔ کہا حضور‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬اس میں‬
‫یتیموں کا مال بھی لگا ہوا ہے۔ فرمایا‪ :‬دیکھو جب ہمارے پاس بحرین کا مال آئے گا اس سے ہم تمہارے‬
‫یتیموں کی مدد کریں گے‪ ‬۔ پھر مدینہ میں منا دی ہوگئی۔ ایک شخص نے کہا حضور‪ ‬صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم‪ ‬شراب کے برتنوں سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دیجئیے۔ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے‬
‫فرمایا‪ :‬جاؤ مشکوں کو کھول ڈالو اور شراب بہا دو اس قدر شراب بہی کہ میدان بھر گئے‪ ‬۔ یہ حدیث‬
‫ابویعلی‪:1884:‬ضعیف]‪ ‬‬
‫ٰ‬ ‫غریب ہے۔‪[ ‬مسند‬
‫مسند احمد میں ہے کہ‪ ‬ابوطلحہ رضی ہللا عنہ نے رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬سے سوال کیا کہ میرے‬
‫ہاں جو یتیم بچے پل رہے ہیں ان کے ورثے میں انہیں شراب ملی ہے۔ آپ‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے‬
‫فرمایا‪ :‬جاؤ اس بہا دو‪ ‬۔ عرض کیا اگر اجازت ہو تو اس کا سرکہ بنا لوں؟ فرمایا‪ :‬نہیں‪ ‬۔ یہ حدیث مسلم‬
‫ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔‪[ ‬صحیح مسلم‪ ]1983:‬‬
‫ابن ابی حاتم میں صحیح سند سے مروی ہے کہ‪” ‬عبدہللا بن عمرو رضی ہللا عنہ نے فرمایا‪” ‬جیسے یہ‬
‫تعالی نے حق کو نازل فرمایا تاکہ اس کی وجہ سے باطل کو‬
‫ٰ‬ ‫آیت قرآن میں ہے تورات میں بھی ہے کہ ہللا‬
‫دور کر دے اور اس سے کھیل تماشے باجے گاجے بربط دف طنبورہ راگ راگنیاں فنا کر دے۔ شرابی‬
‫تعالی نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ‪ ” ‬جو اسے حرمت کے بعد‬
‫ٰ‬ ‫کیلئے شراب نقصان دہ ہے۔ ہللا‬
‫پئے گا اسے میں قیامت کے دن پیاسا رکھوں گا اور حرمت کے بعد جوا سے چھوڑے گا میں اسے جنت‬
‫کے پاکیزہ چشمے سے پالؤں گا “۔“‪[ ‬تفسیر ابن ابی حاتم‪:1196/4:‬موقوف]‪ ‬‬
‫حدیث شریف میں ہے‪ ‬جس شخص نے نشہ کی وجہ سے ایک وقت کی نماز چھوڑی وہ ایسا ہے جیسے‬
‫کہ سے روئے زمین کی سلطنت جھن گئی اور جس شخص نے چار بار کی نماز نشے میں چھوڑ دی ہللا‬
‫ال»‪ ‬پالئے گا۔ پوچھا گیا کہ یہ‪ِ « ‬طينَ ِة ا ْل َخبَا ِل»‪ ‬کیا ہے؟ فرمایا‪ :‬جہنمیوں کا لہو پیپ‬
‫تعالی اسے‪ِ « ‬طينَ ِة ا ْل َخبَ ِ‬
‫ٰ‬
‫پسینہ پیشاب وغیرہ‪ ‬۔‪[ ‬مسند احمد‪:178/2:‬حسن]‪ ‬‬
‫ابو داؤد میں ہے کہ‪ ‬ہر عقل کو ڈھانپنے والی چیز خمر ہے اور ہر نشہ والی چیز حرام ہے اور جو‬
‫شخص نشے والی چیز پئے گا اس کی چالیس دن کی نمازیں ناقبول ہیں۔ اگر وہ توبہ کرے گا تو توبہ‬
‫تعالی اسے ضرور‪ِ « ‬طينَ ِة ا ْل َخبَا ِل»‪ ‬پالئے گا‪ ‬پوچھا‬
‫ٰ‬ ‫قبول ہو گی اگر اس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تو ہللا‬
‫گیا وہ کیا ہے؟ فرمایا‪ ‬جہنمیوں کا نچوڑ اور ان کی پیپ اور جو شخص اسے کسی بچہ کو پالئے گا جو‬
‫تعالی پر حق ہے کہ اسے بھی جہنمیوں کا پیپ پالئے‪ ‬۔‪[ ‬سنن ابوداود‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫حالل حرام کی تمیز نہ رکھتا ہو ہللا‬
‫‪،3680‬قال الشيخ األلباني‪:‬صحیح]‪ ‬‬
‫بخاری مسلم وغیرہ میں ہے‪ ‬دنیا میں جو شراب پیئے گا اور توبہ نہ کرے گا وہ جنت کی شراب سے‬
‫محروم رہے گا‪ ‬۔‪[ ‬صحیح بخاری‪ ]5575:‬‬
‫صحیح مسلم شریف میں ہے‪ ‬رسول ہللا‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬فرماتے ہیں ہر نشے والی چیز خمر ہے اور‬
‫ہر نشے والی چیز حرام ہے اور جس شخص نے شراب کی عادت ڈالی اور بے توبہ مر گیا وہ جنت کی‬
‫شراب سے محروم رہے گا‪ ‬۔‪[ ‬صحیح مسلم‪ ]2003:‬‬
‫تعالی قیامت کے دن نظر رحمت سے نہ دیکھے گا‪ ،‬ماں‬
‫ٰ‬ ‫نسائی وغیرہ میں ہے‪ ‬تین شخصوں کی طرف ہللا‬
‫باپ کا نافرمان‪ ،‬شراب کی عادت واال اور ہللا کی راہ میں دے کر احسان جتالنے واال‪ ‬۔‪[ ‬سنن نسائی‪:‬‬
‫‪،2563‬قال الشيخ األلباني‪:‬صحیح]‪ ‬‬
‫مسند احمد میں ہے کہ‪ ‬دے کر احسان جتانے واال‪ ،‬ماں باپ کا نافرمان اور شرابی جنت میں نہیں جائے‬
‫گا‪ ‬۔‪[ ‬مسند احمد‪:27/3:‬صحیح]‪ ‬‬
‫مسند احمد میں اس کے ساتھ ہی ہے کہ‪ ‬زنا کی اوالد بھی‪ ‬۔‪[ ‬مسند احمد‪:203/2:‬صحیح]‪ ‬‬
‫سیدنا عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪” ‬شراب سے پرہیز کرو وہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔‬
‫سنو اگلے لوگوں میں ایک ولی ہللا تھا جو بڑا عبادت گزر تھا اور تارک دنیا تھا۔ بستی سے الگ تھلگ‬
‫ایک عبادت خانے میں شب و روز عبادت ٰالہی میں مشغول رہا کرتا تھا‪ ،‬ایک بدکار عورت اس کے‬
‫پیچھے لگ گئی‪ ،‬اس نے اپنی لونڈی کو بھیج کر اسے اپنے ہاں ایک شہادت کے بہانے بلوایا‪ ،‬یہ چلے‬
‫گئے لونڈی اپنے گھر میں انہیں لے گئی جس دروازے کے اندر یہ پہنچ جاتے پیچھے سے لونڈی اسے‬
‫بند کرتی جاتی۔ آخری کمرے میں جب گئے تو دیکھا کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت بیٹھی ہے‪ ،‬اس‬
‫کے پاس ایک بچہ ہے اور ایک جام شراب لبالب بھرا رکھا ہے۔ اس عورت نے اس سے کہا سنئے جناب‬
‫میں نے آپ کو درحقیقت کسی گواہی کیلئے نہیں بلوایا فی الواقع اس لیے بلوایا ہے کہ یا تو آپ میرے‬
‫ساتھ بدکاری کریں یا اس بچے کو قتل کر دیں یا شراب کو پی لیں درویش نے سوچ کر تینوں کاموں میں‬
‫ہلکا کام شراب کا پینا جان کر جام کو منہ سے لگا لیا‪ ،‬سارا پی گیا۔ کہنے لگا اور الؤ اور الؤ‪ ،‬خوب پیا‪،‬‬
‫جب نشے میں مدہوش ہو گیا تو اس عورت کے ساتھ زنا بھی کر بیٹھا اور اس لڑکے کو بھی قتل کر دیا۔‬
‫پس اے لوگو! تم شراب سے بچو سمجھ لو کہ شراب اور ایمان جمع نہیں ہوتے ایک کا آنا دوسرے کا‬
‫جانا ہے۔“‪[ ‬بیہقی]‪ ‬‬
‫امام ابوبکر بن ابی الدنیا رحمتہ ہللا علیہ نے اپنی کتاب ذم المسکر میں بھی اسے وارد کیا ہے اور اس‬
‫«وهللاُ اَ ْعلَ ُم»‬
‫میں مرفوع ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہے‪َ  ‬‬
‫اس کی شاہد بخاری و مسلم کی مرفوع حدیث بھی ہے جس میں ہے کہ‪ ‬زانی زنا کے وقت‪ ،‬چور چوری‬
‫کے وقت‪ ،‬شرابی شراب خوری کے وقت مومن نہیں رہتا‪ ‬۔‪[ ‬صحیح بخاری‪ ]5578:‬‬
‫مسند احمد میں ہے سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪” ‬جب شراب حرام ہوئی تو صحابہ رضی‬
‫ہللا عنہم نے سوال کیا کہ اس کی حرمت سے پہلے جو لوگ انتقال کر چکے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ اس‬
‫ت‬ ‫اح ِفي َما طَ ِع ُموا إِ َذا َما اتَّقَوا َّوآ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ‬
‫صالِ َحا ِ‬ ‫ت ُجنَ ٌ‬ ‫س َعلَى الَّ ِذينَ آ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ‬
‫صالِ َحا ِ‬ ‫پر یہ آیت‪« ‬لَ ْي َ‬
‫سنِينَ »‪-5[  ‬المائدہ‪ ، ]93:‬نازل ہوئی یعنی‪ ” ‬ان پر اس میں‬ ‫ثُ َّم اتَّقَوا َّوآ َمنُوا ثُ َّم اتَّقَوا َّوأَ ْح َ‬
‫سنُوا َوهَّللا ُ يُ ِح ُّب ا ْل ُم ْح ِ‬
‫کوئی حرج نہیں “‪ ‬اور جب بیت المقدس کا قبلہ بدال اور بیت ہللا شریف قبلہ ہوا اس وقت بھی صحابہ‬
‫رضی ہللا عنہم نے پہلے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے انتقال کر جانے والوں کی نسبت دریافت کیا‬
‫تو آیت‪َ « ‬و َما َكانَ اللَّـهُ لِيُ ِ‬
‫ضي َع إِي َمانَ ُك ْم»‪-2[ ‬البقرۃ‪  ]143:‬الخ‪ ،‬نازل ہوئی یعنی‪ ” ‬ان کی نمازیں ضائع نہ‬
‫ہوں گی “۔‪[ ‬مسند احمد‪:295/1:‬صحیح]‪ ‬‬
‫تعالی کی ناراضگی اس پر رہتی ہے اگر وہ‬
‫ٰ‬ ‫مسند احمد میں ہے‪ ‬جو شخص شراب پئے چالیس دن تک ہللا‬
‫تعالی اس کی توبہ قبول فرمائے گا‬
‫ٰ‬ ‫اسی حالت میں مرگیا تو کافر مرے گا ہاں اگر اس نے توبہ کی تو ہللا‬
‫تعالی دوزخیوں کا فضلہ پالئے گا‪ ‬۔‪[ ‬مسند احمد‪:295/1:‬حسن]‪ ‬‬
‫ٰ‬ ‫اور اگر اس نے پھر بھی شراب پی تو ہللا‬
‫اور روایت میں ہے کہ‪ ‬جب یہ حکم اترا کہ ایمانداروں پر حرمت سے پہلے پی ہوئی کا کوئی گناہ نہیں تو‬
‫حضور‪ ‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ ‬نے فرمایا‪ :‬مجھ سے کہا گیا ہے کہ تو انہی میں سے ہے‪ ‬۔‪[ ‬صحیح مسلم‪:‬‬
‫‪ ]2454‬‬
‫عربی گرامر میں فعل ماضی سے مضارع بنانے کا قاعدہ پڑھیں‪ ،‬اور ثالثی مجرد کے تمام ابواب کے‬ ‫سوال‬
‫فعل ماضی سے فعل مضارع ان قواعد کے مطابق بنائیں اور خوشخط‪ ،‬واضح اعراب کے ساتھ تحریر‬ ‫نمبر‬
‫کریں۔‬ ‫‪4‬۔‬
‫صیغوں میں فرق کی ان چار وجوہات کو یہاں ایک ایک کر کے کوٹ کرتے ہیں اور انکا اطالق فعل‬
‫مضارع پر کرتے ہیں‬
‫‪-1‬پہلی وجہ کا فعل مضارع پر اطالق‬
‫‪-۱‬سب سے پہلے تو ہر زمانے کا علیحدہ صیغہ ہوتا ہے یعنی ماضی کا علیحدہ اور مضارع کا علیحدہ‬
‫اور امر کا علیحدہ صیغہ ہوتا ہے جیسے اردو اور انگلش میں بھی ماضی حال اور مستقبل کے لئے‬
‫علیحدہ عالمات استعمال کی جاتی ہیں مثال تھا‪ ،‬ہے‪ ،‬گا‪ ،‬وغیرہ‬

‫اوپر بتائی گئی صیضوں میں فرق کی پہلی وجہ کے تحت‪ ‬مضارع کو پہچاننے کے لئے کچھ عالمات‬
‫استعمال ہوتی ہیں جنکو عالمت مضارع کہا جاتا ہے وہ عالمات چار ہیں یعنی الف‪ ،‬تاء‪ ،‬یاء‪ ،‬نون ‪ -‬انکا‬
‫مجموعہ‪ ‬اتین‪ ‬کہالتا ہے یہ عالمات جب فعل ماضی کے شروع میں لگا دیں اور تھوڑی سی اور تبدیلی کر‬
‫لیں تو فعل مضارع بن جاتا ہے‬

‫عالمات مضارع یعنی‪ ‬اتین‪ ‬میں آنے والے چاروں حروف کا استعمال مندرجہ ذیل چیزوں کے لئے ہو‬
‫سکتا ہے‬

‫الف‪ ‬واحد متکلم کی عالمت ہوتی ہے‬


‫تاء‪ ‬مخاطب یا مونث کی عالمت ہو سکتی ہے‬
‫یاء‪ ‬غیب کی عالمت ہوتی ہے‬
‫نون‪ ‬جمع متکلم کی عالمت ہوتی ہے‬

‫‪-2‬دسری وجہ کا فعل مضارع پر اطالق‬


‫‪-۲‬پھر ہر زمانہ کے اندر جملوں کو مختلف قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے مثال مثبت‪ ،‬منفی یا‬
‫‪ Assertive, Negative‬وغیرہ پس مثبت کے لئے ہمیں علیحدہ صیغہ بنانا ہو گا اور منفی کا علیحدہ‬
‫صیغہ‬

‫فعل ماضی کو ہم نے دو سب زمانوں یعنی ماضی مثبت اور ماضی منفی میں تقسیم کیا تھا مگر یہاں فعل‬
‫مضارع کو ہم دو سے زیادہ سب زمانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں مثال مضارع مثبت‪ ،‬منفی‪ ،‬نہی‪ ،‬نفی‬
‫جہد بلم‪ ،‬نفی تاکید بلن وغیرہ پس یہاں اس دوسری وجہ سے صیغے دو اقسام یعنی صرف مثبت اور‬
‫منفی کے نہیں ہوں گے بلکہ نہی وغیرہ کے بھی صیغے پڑھیں گے‬

‫‪-3‬تیسری وجہ کا فعل ماضی پر اطالق‬


‫‪-۳‬اسکے بعد مثبت یا منفی وغیرہ میں سے ہر ایک کے اندر معروف اور مجہول کے علیحدہ صیغے‬
‫درکار ہوں گے کیونکہ یہ بھی صیغوں کے اختالف کی ایک وجہ یا بنیاد ہے جیسے انگلش اور اردو میں‬
‫بھی ‪ Active voice‬اور ‪ Passive voice‬کے علیحدہ الفاظ ہو تے ہیں‬

‫یہ فرق فعل ماضی کی طرح ہی ہوتا ہے پس ہم فعل مضارع میں جب اوپر دوسری والی قسمیں (مثبت‪،‬‬
‫منفی‪ ،‬نہی وغیرہ) پڑھ رہے ہوں گے تو ہر ایک کے اندر معروف اور مجہول کو اسی طرح پڑھیں گے‬
‫جس طرح ماضی میں پڑھا تھا‬
‫پس اب ہمارے پاس مضارع مثبت کے دو سب زمانے (معروف اور مجہول) ہوں گے اسی طرح مضارع‬
‫منفی کے بھی دو سب زمانے اور اسی طرح مضارع نہی کے وغیرہ وغیرہ‬
‫البتہ مضارع میں مجہول بنانے کا طریقہ ماضی سے تھوڑا سا مختلف ہے یہاں عالمت مضارع کو ضمہ‬
‫(پیش) دیتے ہیں اور آخر سے پہلے حرف کو فتحہ (زبر) دیتے ہیں‬

‫‪-4‬چوتھی وجہ کا فعل ماضی پر اطالق‬


‫‪ -۴‬اسکے بعد ہر معروف یا مجہول کے اندر اپنے چودہ صیغے ہو سکتے ہیں انکے اختالف کی بنیاد یا‬
‫وجہ ایک ہی ہوتی ہے یعنی فاعل کی ضمیر کا اختالف‬

‫یہ صیغوں کا اختالف اسی طرح ہو گا جس طرح ماضی میں ہوا تھا البتہ تھوڑی سی تبدیلی آئے گی بڑی‬
‫تبدیلیاں دو قسم کی ہوں گی‬

‫‪-a‬کیونکہ یہاں شروع میں اتین میں سے کوئی حرف آ چکا ہو گا جس کے بارے اوپر پڑھ چکے ہیں کہ‬
‫ہم انکو مخاطب اور غائب اور مونث اور متکلم وغیرہ کی عالمات کے لئے استعمال کر سکتے ہیں پس‬
‫یہاں ماضی والی مخاطب کی ضمیریں یعنی تائے مخاطبہ اور مونث کی ضمیر تائے ساکنہ اور متکلم کی‬
‫ضمیروں کی عالمات استعمال نہیں ہوں گی بلکہ یہ کام اتین سے لیا جائے گا‬

‫‪-b‬اوپر یہ بھی پڑھا ہے کہ فعل مضارع معرب ہوتا ہے اور معرب کی آخری حالت بدلتی ہے جیسے اسم‬
‫معرب میں آخر پر پیش اور زبر اور زیر آتے ہیں (البتہ مضآرع میں دو صیغے مبنی ہوتے ہیں یعنی جمع‬
‫مونث غائب اور جمع مونث حاضر)‬
‫لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ کچھ فعل مضارع ایسے ہوں گے کہ جو ہوں گے تو معرب یعنی‬
‫انکی آخر کی حالت کو تبدیل ہونا چاہیے مگر کسی مجبوری کی وجہ سے ہم اسکو تبدیل نہ کر سکتے‬
‫ہوں گے پس وہاں پھر ہم اعراب زبر زیر کی بجائے کسی اور طریقے سے ظاہر کریں گے‬
‫ب فعل ماضی کا پہال صیغہ ہے اسکا مضارع بنانے کے لئے شروع میں اتین میں سے یاء‬
‫ض ِر ِ‬
‫مثال ِ‬
‫ب بن جاتا ہے جو رفعی حالت ہے اسکی نصبی حالت یَض ِر َب ہو گی‬
‫لگاتے ہیں تو یَض ِر ُ‬
‫ض َربَا فعل ماضی کا دوسرا صیغہ ہے اسکے شروع میں یاء لگا کر اسکو جب مضآرع بناتے‬
‫اسی طرح َ‬
‫ہیں تو یہ یَض ِربا بن جاتا ہے مگر یہاں آخر پر الف ساکن ہے جس سے اسکے رفی یا نصبی وغیرہ حالت‬
‫کا پتا نہیں چل سکتا لیکن یہاں اعراب کو ظاہر کرنا بھی الزمی ہے پس ہم یہاں آخر میں ایک اعراب کی‬
‫عالمت لگاتے ہیں جس کو نون اعرابی کہتے ہیں پس جب نون ساتھ لگا ہو گا تو وہ رفعی حالت میں ہو‬
‫بان اور نصبی‬
‫گا اور جب نون نہیں لگا ہو گا تو وہ نصبی حالت میں ہو گا پس رفعی حالت میں وہ یِض ِر ِ‬
‫حالت میں وہ صرف یض ِربا بن جائے گا‬
‫اب ہم دوسری اور تیسری وجہ یعنی زمانے کی تبدیلی (مثبت‪ ،‬منفی‪ ،‬نہی‪ ،‬معروف‪ ،‬مجہول وغیرہ) کی‬
‫وجہ سے عالمتوں میں تبدیلی پڑھتے ہیں‬
‫‪-1‬مثبت‬
‫مضارع مثبت ماضی مثبت سے ہی بنتا ہے یعنی ماضی کے شروع میں مناسب عالمت مضارع لگا کر‬
‫بناتے ہیں مضارع مبنی کے لئے اتنا ہی کافی ہے مثال ضربنَ سے یضربنَ اور ضربتُن سے تضربنَ‬
‫(مضارع میں دو صیغے مبنی ہوتے ہیں جن کے آخر پر نون نسوہ یا نون اعرابی آتا ہے یعنی جمع مونث‬
‫غائب اور حاضر )‬
‫البتہ مضارع معرب کے بارہ صیغے چونکہ معرب ہوتے ہیں تو ان کے آخر کو اعراب بھی دینا ہوتا ہے‬
‫پس ان بارہ صیغوں میں ماضی کے شروع میں عالمت مضارع لگانے کے بعد آخر کو پیش دے دیتے‬
‫ب وغیرہ‬
‫یضرب اور ضربت سے تض ِر ُ‬
‫ُ‬ ‫ہیں مثال ضرب سے‬
‫اگر پیش دینا ممکن نہ ہو تو اعراب کی عالمت کے لئے نون اعرابی لگا لیتے ہیں مثال ضربو سے‬
‫یضربان وغیرہ‬
‫ِ‬ ‫یضربون ضربا سے‬
‫‪-2‬منفی‬
‫مضارع مثبت کے شروع میں ال لگانے سے مضارع منفی بن جاتا ہے کبھی کبھی ما بھی لگا دیتے ہیں‬
‫ب ‪ -‬یضربون سے ال یضربونَ‬
‫یضرب سے ال یض ِر ُ‬
‫ُ‬ ‫مثال‬
‫‪-3‬نہی‬
‫یہاں مضارع مثبت کے شروع میں ال لگا کر آخر کو ساکن کر دیتے ہیں‬
‫‪-4‬نفی جحد بلم‬
‫یہاں مضارع مثبت کے شروع میں لم لگا کر آخر کو ساکن کر دیتے ہیں مثال لم یضرب‪ -‬لم لگانے سے‬
‫معنی ماضی منفی میں ہو جاتا ہے‬
‫‪-5‬نفی تاکید بلن‬
‫یہاں مضارع مثبت کے شروع میں لن لگا کر آخر کو نصب (زبر) دے دیتے ہیں مثال لن یض ِر َب‪ -‬یہ صیغہ‬
‫میں منفی اور تاکید کے معنی پیدا کرتا ہے اور مستقبل کے ساتھ خاص کر دیتا ہے‬
‫نوٹ‪:‬نفی اور نہی میں فرق کی پہچان‬
‫کسی صیغہ کا جب معنی کرتے ہیں تو اس میں یا تو خبر کا معنی ہوتا ہے یا حکم کا معنی ہوتا ہے پھر یہ‬
‫خبر یا حکم یا تو کام کرنے کے بارے ہوتا ہے یا کام نہ کرنے کے بارے میں ہوتا ہے پس گراف کے چار‬
‫کواڈرینٹ کی طرح مندرجہ ذیل چار احتماالت ہو سکتے ہیں‬
‫‪ -1‬خبر کا معنی ہو کام کرنے کے ساتھ مثال تو پڑھتا ہے یا پڑھے گا (اسکو مثبت کا صیغہ کہتے ہیں)‬
‫‪ -2‬خبر کا معنی ہو کام نہ کرنے کے ساتھ مثال تو نہیں پڑھتا ہے یا نہیں پڑھے گا (اسکو منفی کا صیغہ‬
‫کہتے ہیں)‬
‫‪-3‬حکم کا معنی ہو کام کرنے کے ساتھ مثال تو پڑھ (اسکو امر کا صیغہ کہتے ہیں)‬
‫‪-4‬حکم کا معنی ہو کام نہ کرنے کے ساتھ مثال تو نہ پڑھ (اسکو نہی کا صیغہ کہتے ہیں)‬
‫اب ہم اوپر وضاحت کے مطابق فعل مضارع کے ممکنہ صیغوں کے خاکے کو مندرجہ ذیل چارٹ میں‬
‫دیکھتے ہیں‬
‫تفسیر کبیر کا جامع تعارف تحریر کریں نیز اسم معرفہ اور اسم نکرہ کی تعریف کرتے ہویے کتاب میں‬ ‫سوال‬
‫مذکور تفسی ِر کبیر کے حصہ میں سے اسم معرفہ اور اسم نکرہ کی دس دس مثالیں واضح اعراب کے‬ ‫نمبر‬
‫ساتھ خوشخط تحریر کریں۔‬ ‫‪5‬۔‬
‫مفاتیح الغیب'' یعنی تفسیر کبیر کا شمار تفسیر بالرائے کے طریقہ پر لکھی گئی اہم ترین تفاسیر میں''‬
‫ہوتا ہے۔ اس کی تصنیف چھٹی صدی ہجری کے نام ور عالم اور متکلم امام محمد فخر الدین رازی (‬
‫‪۵۴۳‬ھ ۔ ‪۶۰۶‬ھ) نے شروع کی ‪ ،‬لیکن اس کی تکمیل سے قبل ہی ان کا انتقال ہو گیا ۔ بعد میں اس کی‬
‫تکمیل‪ ،‬حاجی خلیفہ کی رائے کے مطابق قاضی شہاب الدین بن خلیل الخولی الدمشقی نے اور ابن حجر‬
‫کی رائے کے مطابق شیخ نجم الدین احمد بن محمد القمولی نے کی۔ یہ بات بھی معین طور پر معلوم نہیں‬
‫کہ تفسیر کا کتنا حصہ خود امام صاحب لکھ پائے تھے ۔ ایک قول کے مطابق سورۂ انبیا تک ‪ ،‬جبکہ‬
‫دوسرے قول کے مطابق سورۂ فتح تک تفسیر امام صاحب کی اپنی لکھی ہوئی ہے۔ ؂‪ ۱‬تاہم اس معاملے‬
‫میں سب سے زیادہ تشفی بخش اور مدلل نقطہ نظر االستاذ عبد الرحمن المعلمی نے اپنے مضمون ''حول‬
‫تفسیر الفخر الرازی'' میں اختیار کیا ہے۔ انھوں نے مضبوط داخلی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ تفسیر‬
‫کے درج ذیل حصے خود امام صاحب نے لکھے ہیں ‪ ،‬جبکہ باقی اجزا الخولی یا القمولی کے لکھے‬
‫‪:‬ہوئے ہیں‬
‫۔ سورۂ فاتحہ تا سورۂ قصص‪۱‬‬
‫۔ سورۂ صافات ‪ ،‬سورۂ احقاف‪۲‬‬
‫۔ سورۂ حشر‪ ،‬مجادلہ اور حدید‪۳‬‬
‫۔ سورۂ ملک تا سورۂ ناس ؂‪۴۲‬‬
‫خصوصیات جامعیت‬
‫تفسیر کبیر کی نمایاں ترین خصوصیت‪ ،‬جس کا اعتراف اکابر اہل علم نے کیا ہے‪ ،‬اس کی جامعیت ہے۔‬
‫وہ جس مسئلہ پر لکھتے ہیں‪ ،‬اس کے متعلق جس قدر مباحث ان سے پہلے پیدا ہو چکے ہیں‪ ،‬ان سب‬
‫‪ :‬کا استقصا کر دیتے ہیں۔ محمد حسین ذہبی لکھتے ہیں‬
‫رازی کی تفسیر کو علما کے ہاں عام شہرت حاصل ہے کیونکہ دوسری کتب تفسیر کے مقابلے میں''‬
‫اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں مختلف علوم سے متعلق وسیع اور بھرپور بحثیں ملتی ہیں۔ ''(التفسیر‬
‫والمفسرون‪)۲۹۳ /۱‬‬
‫‪ :‬عالمہ انور شاہ صاحب کشمیری فرماتے ہیں‬
‫قرآن کریم کی مشکالت میں مجھے کوئی مشکل ایسی نہیں ملی جس سے امام رازی نے تعرض نہ کیا''‬
‫ہو‪ ،‬یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات مشکالت کا حل ایسا پیش نہیں کر سکے جس پر دل مطمئن ہوجائے۔‬
‫'' (البنوری‪ ،‬محمد یوسف ‪،‬یتیمۃ البیان ‪)۲۳‬‬
‫طریق تفسیر‬
‫‪:‬ہر آیت کی تفسیر میں امام صاحب کا طریقہ حسب ذیل ہے‬
‫۔ آیت کی تفسیر‪ ،‬نحوی ترکیب‪ ،‬وجوہ بالغت اور شان نزول سے متعلق سلف کے تمام اقوال نہایت‪۱‬‬
‫مرتب اور منضبط انداز میں پوری شرح ووضاحت سے بیان کرتے ہیں۔‬
‫۔ آیت سے متعلق فقہی احکام کا ذکر تفصیلی دالئل سے کرتے ہیں اور امام شافعی رحمہ ہللا علیہ کے‪۲‬‬
‫مذہب کو ترجیح دیتے ہیں۔‬
‫۔ متعلقہ آیات کے تحت مختلف باطل فرقوں مثالً جہمیہ‪ ،‬معتزلہ‪ ،‬مجسمہ وغیرہ کا استدالل تفصیل سے‪۳‬‬
‫ذکر کر کے اس کی تردید کرتے ہیں۔‬
‫ان میں سے پہلے دو امور کا ذکر اگرچہ دوسرے اہل تفسیر بھی کرتے ہیں ‪ ،‬لیکن یہ ذخیرہ ان میں‬
‫منتشر اور بکھرا ہوا ہے‪ ،‬جبکہ تفسیر کبیر میں یہ تمام مباحث یک جا مل جاتے ہیں۔ البتہ تیسرے امر‬
‫کے اعتبار سے تفسیر کبیر اپنی نوعیت کی منفردتفسیر ہے۔‬
‫ترجیح و محاکمہ‬
‫امام صاحب نے اپنی تفسیر میں جمع اقوال پر اکتفا نہیں کی ‪،‬بلکہ دالئل کے ساتھ بعض اقوال کو ترجیح‬
‫دینے کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس سے تفسیر کے متعلقہ علوم وفنون میں ان کی دسترس کا اندازہ کیا‬
‫جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ تفسیر گویا سابقہ تفسیری ذخیرے پر ایک محاکمہ کا درجہ رکھتی ہے۔‬
‫مختلف تفسیری اقوال میں ترجیح قائم کرتے ہوئے امام صاحب بالعموم حسب ذیل اصول پیش نظر رکھتے‬
‫‪ :‬ہیں‬
‫۔ اگر کسی قول کی تائید میں صحیح حدیث موجود ہو تو اس کو ترجیح دیتے ہیں۔‪۱‬‬
‫ونفخ فی الصور' کی تفسیر میں تین اقوال نقل کرتے ہیں‪ :‬ایک یہ کہ صور ایک آلہ ہے ‪ ،‬جب اس کو'‬
‫تعالی نے دنیا کی بربادی اور اعادۂ اموات‬
‫ٰ‬ ‫پھونکا جائے گا تو ایک بلند آواز پیدا ہوگی ۔ اس کو خداوند‬
‫کی عالمت قرار دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ لفظ بفتح الواو ہے اور 'صورۃ' کی جمع ہے ۔ مراد یہ ہے کہ‬
‫''جب صورتوں میں روح پھونکی جائے گی۔'' تیسرا یہ کہ یہ ایک استعارہ ہے جس کا مقصد مردوں کا‬
‫اٹھانا اور ان کو جمع کرنا ہے۔ امام رازی نے ان اقوال میں سے پہلے قول کو اس بنا پر ترجیح دی ہے‬
‫کہ اس کی تائید میں رسول ہللا کی حدیث موجود ہے۔ ؂‪۳‬‬
‫۔ جو مفہوم عقل کے مطابق ہو‪ ،‬اس کو راجح قرار دیتے ہیں۔‪۲‬‬
‫سورۂ نساء کی آیت 'خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا' کی تفسیر میں عام مفسرین کا خیال یہ ہے‬
‫کہ حضرت حوا علیہا السالم کو حضرت آدم علیہ السالم کی پسلی سے پیدا کیا گیا اور اس کی تائید میں‬
‫حدیث بھی موجود ہے۔ لیکن امام رازی ابو مسلم کی تفسیر کو ترجیح دیتے ہیں جن کے نزدیک اس آیت‬
‫کا مطلب یہ ہے کہ ہللا نے آدم علیہ السالم کی جنس سے ان کی بیوی کو پیدا کیا۔ امام صاحب کہتے ہیں‬
‫تعالی حضرت آدم علیہ السالم کو مٹی سے پیدا کر سکتے تھے‪ ،‬اسی طرح حضرت حوا‬
‫ٰ‬ ‫کہ جس طرح ہللا‬
‫علیہا السالم کو بھی کر سکتے تھے‪ ،‬پھر ان کو حضرت آدم علیہ السالم کی پسلی سے پیدا کرنے کی کیا‬
‫ضرورت تھی؟ ؂‪۴‬‬
‫‪ :‬اسی طرح سورۂ کہف میں ذو القرنین کے قصہ میں ارشاد باری ہے‬
‫س َو َج َدھَا تَ ْغ ُر ُ‬
‫ب فِ ْی َع ْی ٍن َح ِم َء ٍۃ ۔ ( الکہف ‪)۸۶ :۱۸‬‬ ‫َح ٰتّی اِ َذا بَلَ َغ َم ْغ ِر َب ال َّ‬
‫ش ْم ِ‬
‫یہا ں تک کہ جب وہ آفتاب کے غروب ہونے کے مقام پر پہنچا تو سورج کو کیچڑ کی ایک نہر میں''‬
‫''ڈوبتے دیکھا۔‬
‫اس کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ سورج درحقیقت کیچڑ میں ڈوبتا ہے ‪ ،‬لیکن امام رازی کے نزدیک‬
‫یہ تفسیر بالکل عقل کے خالف ہے ‪ ،‬کیونکہ سورج زمین سے کئی گنا بڑا ہے اس لیے وہ زمین کی‬
‫کسی نہر میں کیسے ڈوب سکتا ہے؟ ؂‪۵‬‬
‫۔ جب تک کسی لفظ کا حقیقی اور معروف معنی مراد لینا ممکن ہو‪ ،‬اس وقت تک اس کا مجازی یا غیر‪۳‬‬
‫معروف معنی مراد نہیں لیتے۔‬
‫مثالً حضرت نوح علیہ السالم کے واقعہ میں 'وفار التنور'کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ لفظ 'تنور' کی‬
‫تفسیر میں متعدد اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے مراد وہی تنور ہے جس میں روٹی پکائی جاتی ہے۔‬
‫دوسرا یہ کہ اس سے مراد سطح زمین ہے۔ تیسرا یہ کہ اس سے مراد زمین کا بلند حصہ ہے۔ چوتھا یہ‬
‫کہ اس سے مراد طلوع صبح ہے۔ پانچواں یہ کہ یہ محاورتا ً واقعہ کی شدت کی تعبیر ہے۔ ان اقوال کو‬
‫نقل کرنے کے بعد امام رازی لکھتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ کالم کو حقیقی معنی پر محمول کرنا چاہیے‬
‫اورحقیقی معنی کے لحاظ سے تنور اسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں روٹی پکائی جاتی ہے۔ ؂‪۶‬‬
‫اسی طرح 'ومن یغلل یات بما غل یوم القیامۃ'‪' '،‬جس نے مال غنیمت میں خیانت کی‪ ،‬وہ اس مال کے‬
‫ساتھ قیامت کے دن حاضر ہوگا'' کی تفسیر میں دو قول نقل کرتے ہیں ‪ :‬ایک یہ کہ حقیقتا ً ایسا ہی ہوگا ۔‬
‫دوسرا یہ کہ اس تعبیر سے محض عذاب کی سختی بیان کرنا مقصود ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ علم قرآن‬
‫میں جو اصول معتبر ہے‪ ،‬وہ یہ ہے کہ لفظ کو اس کے حقیقی معنی پر قائم رکھنا چاہیے ‪ ،‬اال یہ کہ کوئی‬
‫اور دلیل اس سے مانع ہو۔ یہاں چونکہ ظاہری معنی مراد لینے میں کوئی مانع نہیں اس لیے اسی کو قائم‬
‫رکھنا چاہیے۔‪ ۷‬؂‬
‫۔ اس قول کو مختار قرار دیتے ہیں جو کالم کی نحوی ترکیب کے وجوہ میں سے بہتر وجہ کے مطابق‪۴‬‬
‫ہو۔‬
‫سورۂ بقرہ کی آیت 'ولکن الشیاطین کفروا یعلمون الناس السحر وما انزل علی الملکین' کی تفسیر میں‬
‫مفسرین کا اختالف ہے کہ 'ما انزل' میں 'ما ' نافیہ ہے یا موصولہ‪ ،‬نیز اس کا عطف 'السحر' پر ہے یا‬
‫'ما تتلوا الشیاطین'پر۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ 'ما 'کو موصولہ قرار دینا اور اس کا عطف 'السحر' پر‬
‫کرنا زیادہ بہتر ہے ‪ ،‬کیونکہ جو لفظ قریب ہے‪ ،‬اس پر عطف کرنا بعید لفظ پر عطف کرنے سے زیادہ‬
‫مستحسن ہے۔ ؂‪۸‬‬
‫آیات وسور میں باہمی ربط‬
‫امام رازی قرآن مجید میں نظم کے قائل ہیں اور اپنی تفسیر میں آیات اور سورتوں کا باہمی ربط نہایت‬
‫اہتمام سے بیان کرتے ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے جو کوششیں کی ہیں‪ ،‬ان کی اہمیت کے بارے میں‬
‫‪ :‬دو رائیں ہیں۔ موالنا تقی عثمانی کا خیال یہ ہے‬
‫آیتوں کے درمیان ربط ومناسبت کی جو وجہ وہ بیان فرماتے ہیں ‪ ،‬وہ عموما ً اتنی بے تکلف‪ ،‬دل نشین''‬
‫اور معقول ہوتی ہے کہ اس پر دل نہ صرف مطمئن ہو جاتا ہے ‪ ،‬بلکہ اس سے قرآن کریم کی عظمت کا‬
‫غیر معمولی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ ''(علوم القرآن ‪)۵۰۴،‬‬
‫‪:‬جبکہ موالنا امین احسن اصالحی فرماتے ہیں‬
‫اس سلسلے میں ان کی کوششیں کچھ زیادہ مفید ثابت نہیں ہوئیں کیونکہ نظم قرآن کھولنے کے لیے''‬
‫جو محنت درکار تھی‪ ،‬اس کے لیے ان کے جیسے مصروف مصنف کے پاس فرصت مفقود تھی۔''‬
‫(مبادی تدبر قرآن)‬
‫تاہم اصولی طور پر امام رازی نظم کی رعایت پر نہایت شدت سے اصرار کرتے ہیں۔ چنانچہ سورۂ حم‬
‫‪ :‬السجدہ کی آیت 'ولوجعلناہ قرآنا اعجمیا لقالوا لو ال فصلت آیاتہ ' کی تفسیر میں لکھتے ہیں‬
‫لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے جواب میں اتری ہے جو ازراہ شرارت یہ کہتے تھے کہ اگر''‬
‫قرآن مجید کسی عجمی زبان میں اتارا جاتا تو بہتر ہوتا ۔ لیکن اس طرح کی باتیں کہنا میرے نزدیک کتاب‬
‫ال ٰہ ی پر سخت ظلم ہے۔ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ قرآن کی آیتوں میں باہم دگر کوئی ربط وتعلق نہیں‬
‫ہے ‪ ،‬حاالنکہ یہ کہنا قرآن حکیم پر بہت بڑا اعتراض کرنا ہے۔ ایسی صورت میں قرآن کو معجزہ ماننا تو‬
‫الگ رہا‪ ،‬اس کو ایک مرتب کتاب کہنا بھی مشکل ہے۔ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورہ‬
‫شروع سے لے کر آخر تک ایک مربوط کالم ہے۔ ''(التفسیرالکبیر ‪)۱۳۳ /۲۷‬‬
‫‪:‬اس کے بعد اس آیت کی تفسیر لکھ کر فرماتے ہیں‬
‫ہر منصف جو انکار حق کا عادی نہیں ہے‪ ،‬تسلیم کرے گا کہ اگر سورہ کی تفسیر اس طرح کی جائے''‬
‫جس طرح ہم نے کی ہے تو پوری سورہ ایک ہی مضمون کی حامل نظر آئے گی اور اس کی تمام آیتیں‬
‫ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کریں گی۔ ''(التفسیرالکبیر ‪)۱۳۳ /۲۷‬‬
‫عقلی انداز‬
‫امام رازی اپنے زمانے کے عقلی اور فلسفیانہ علوم کے بلند پایہ عالم تھے ۔ مسلمانوں کے مابین پیدا‬
‫ہونے والے کالمی اختالفات اور ان کی مذہبی وعقلی بنیادوں پر ان کی گہری نظر تھی اور اسالم کے‬
‫مختلف مسائل پر یونانی فلسفہ کے زیر اثر پیدا ہونے والے اعتراضات سے بھی وہ پوری طرح آگاہ‬
‫تھے۔ چنانچہ قدرتی طور پر ان کی تفسیر پر عقلی رنگ غالب ہے اوران کی بحثوں میں ان تمام علوم کی‬
‫بھرپور جھلک دکھائی دیتی ہے جن کے مطالعہ کا موقع امام صاحب کو میسر آیا تھا۔ تفسیر کبیر میں اس‬
‫‪:‬عقلی ذوق کا اظہار حسب ذیل صورتوں میں ہوا ہے‬
‫۔ اسالمی عقائد کی براہین ودالئل سے تائید‪۱‬‬
‫امام صاحب نہ صرف اسالمی عقائد کا دفاع بڑی حمیت اور جوش سے کرتے ہیں ‪ ،‬بلکہ اس سلسلے میں‬
‫تعالی نے‬
‫ٰ‬ ‫معذرت خواہانہ رویہ کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ سورۂ سبا کی آیت ‪ ۱۲‬میں ذکر ہے کہ ہللا‬
‫حضرت سلیمان علیہ السالم کے لیے ہوا اور جنات کو مسخر کر دیا۔ بعض لوگوں نے اس کی تاویل یہ‬
‫کی ہے کہ ہوا سے مراد تیز رفتار گھوڑے اور جنات سے مراد طاقت ور انسان ہیں۔ امام رازی یہ قول‬
‫‪:‬نقل کر کے لکھتے ہیں‬
‫یہ بات بالکل غلط ہے۔ کہنے والے نے اس لیے کہی ہے کہ اس کا اعتقاد کمزور ہے اور اسے ہللا کی''‬
‫قدرت پر اعتماد نہیں ہے۔ ہللا تعالی ہر ممکن پر قادر ہیں اور یہ باتیں بھی ممکنات میں سے‬
‫ہیں۔''(التفسیر الکبیر‪)۲۵/۲۴۷‬‬
‫۔ اسالمی فرقوں کے کالمی جھگڑے‪۲‬‬
‫کالمی اختالفات امام صاحب کی دلچسپی کا خاص موضوع ہیں اور وہ موقع بموقع معتزلہ اور اشاعرہ‬
‫کے مابین نزاعی مسائل پر بحثیں کرتے ہیں۔ امام صاحب اشاعرہ کے گرم جوش ترجمان ہیں اور جیسا‬
‫کہ ہم آگے عرض کریں گے‪ ،‬ان کی حمایت میں حدود سے تجاوز بھی کر جاتے ہیں۔‬
‫۔ دینی حقائق کی عقلی تعبیر‪۳‬‬
‫امام صاحب کا طریقہ یہ ہے کہ ایسی آیات جن میں عقل سے ماورا حقائق کا اظہار کیا گیا ہو ‪ ،‬عام‬
‫طریقے سے ان کی تفسیر کرنے کے بعد ان کی فلسفیانہ تعبیر بھی پیش کرتے ہیں۔‬
‫۔ ملحدین کے اعتراضات کے جوابات‪۴‬‬
‫تفسیر کبیر میں قرآنی مضامین پر ملحدین کے اعتراضات سے بکثرت تعرض کیا گیا ہے۔ ان کے جواب‬
‫میں امام صاحب یا تو مناظرانہ انداز میں ان کی تردید کرتے ہیں یا آیات کی توجیہ وتاویل کر کے ان کا‬
‫صحیح مفہوم واضح کرتے ہیں۔‬
‫۔ احکام شریعت کے اسرا ر‪۵‬‬
‫تفسیر کبیر میں بہت سے مقامات پر شرعی احکام کے اسرار اور ان کی حکمتیں بھی زیر بحث آئی ہیں۔‬
‫کتاب کے عمومی مزاج کے تحت ان کی توضیح میں بھی فلسفیانہ ذوق غالب ہے۔‬
‫اسرائیلیات‬
‫تفسیر بالروایت کے طریقے پر لکھی گئی کتب تفسیر میں ایک بڑا حصہ اسرائیلی روایات کا ہے۔ قرآن‬
‫مجید میں امم سابقہ یا رسول ہللا کے زمانہ کے جن واقعات واحوال کا اجماالً تذکرہ ہوا ہے‪ ،‬ان کی‬
‫تفصیالت مہیا کرنے کے شوق میں غیر محتاط مفسرین نے بے سروپا روایات کا ایک انبار لگا دیا ہے۔‬
‫یہ روایات بالعموم روایت کے معیار کے لحاظ سے ناقابل استناد اور عقل ودرایت کے اعتبار سے بالکل‬
‫بے تکی ہیں۔ اسی لیے محقق مفسرین نے ان کو اپنی تفسیروں میں جگہ دینے سے گریز کیا ہے ۔ امام‬
‫رازی کا طریقہ بھی اس سلسلے میں احتیاط پر مبنی ہے۔‬
‫‪:‬اسرائیلی روایات‪ ،‬درحقیقت ‪ ،‬دو طرح کی ہیں‬
‫بعض ایسی ہیں کہ ان میں واردتفصیالت قرآن وسنت کے مسلمات سے تو نہیں ٹکراتیں ‪ ،‬لیکن فہم قرآن‬
‫کے حوالے سے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں امام رازی ان کو نقل تو کرتے ہیں ‪،‬‬
‫لیکن ان کی تردید یا تائید کیے بغیر یہ کہہ کر گزر جاتے ہیں کہ ان سے اعتنا کرنا ایک بے کار کام ہے ‪،‬‬
‫کیونکہ یہ تفسیر کے اصل مقصد کے لحاظ سے کارآمد نہیں ہیں۔‬
‫حضرت آدم علیہ السالم کو جنت میں جس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا‪ ،‬اس کی تعیین میں‬
‫تفسیری روایات مختلف ہیں۔ بعض کے مطابق یہ گیہوں کا درخت تھا‪ ،‬بعض کے نزدیک انگور اور بعض‬
‫کے ہاں انجیر کا۔ امام رازی ان روایات کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کے ظاہر الفاظ‬
‫سے اس درخت کی تعیین نہیں ہوتی ‪ ،‬اس لیے ہم کو بھی اس تعیین کی ضرورت نہیں ‪ ،‬کیونکہ اس قصہ‬
‫کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم کو متعین طور پر اس درخت کا علم ہو۔ جو چیز کالم کا اصل مقصود نہیں‬
‫ہوتی‪ ،‬اس کی توضیح بعض اوقات غیر ضروری ہوتی ہے۔ ؂‪۹‬‬
‫قرآن مجید میں مذکور قیامت کی عالمات میں ایک عالمت دابۃ االرض کا نکلنا بھی ہے۔ مفسرین نے اس‬
‫جانور کے حجم‪ ،‬اس کی خلقت اور اس کے نکلنے کے طریقے کے متعلق بے شمار روایات اکٹھی کی‬
‫ہیں‪ ،‬لیکن امام رازی فرماتے ہیں کہ قرآ ن مجید سے ان میں سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی ‪ ،‬اس لیے‬
‫اگر ان کے متعلق رسول ہللا سے کوئی حدیث مروی ہو تو وہ قبول کر لی جائے گی ‪ ،‬ورنہ وہ ناقابل‬
‫التفات قرار پائے گی۔ ؂‪۱۰‬‬
‫اسی طرح حضرت نوح علیہ السالم کی کشتی کی ساخت اور اس کی لمبائی چوڑائی کے متعلق مختلف‬
‫تفسیری اقوال نقل کر کے لکھتے ہیں کہ اس قسم کی بحثیں مجھے اچھی نہیں لگتیں ‪ ،‬کیونکہ ان کا علم‬
‫غیر ضروری ہے اور اس سے کوئی فائدہ نہیں اور ان میں غور و فکر کرنا فضول ہے‪ ،‬بالخصوص‬
‫ایسی حالت میں جبکہ ہم کو یقین ہے کہ اس جگہ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو صحیح جانب پر داللت‬
‫کرے۔ ؂‪۱۱‬‬
‫دوسری قسم ان روایات کی ہے جوقرآن وسنت کے مسلمات کے صریح معارض اور ان کی بنیاد کو ڈھا‬
‫دینے والی ہیں۔ ایسی روایات بالعموم بعض انبیا سابقین کے واقعات کے تحت نقل ہوئی ہیں۔ تمام محقق‬
‫مفسرین نے ان کی تردید کی ہے‪ ،‬چنانچہ امام رازی نے بھی حسب ذیل روایات کو بے اصل قرار دیا ہے‬
‫‪:‬‬
‫واقعہ ہاروت وماروت کے ضمن میں مروی روایات جن کے مطابق یہ دونوں فرشتے تھے جو زمین پر‬
‫بھیجے گئے اور ایک عورت کے ساتھ بدکاری کی خواہش میں بت پرستی ‪،‬شراب نوشی اور قتل کے‬
‫مرتکب ہوئے۔ ؂‪۱۲‬‬
‫سورۂ اعراف کی آیت ‪ ۲۴‬کے الفاظ 'فلما آتاھما صالحا جعال لہ شرکاء فی ما آتاھما' کے تحت مروی‬
‫روایت جس میں ذکر ہے کہ اس آیت میں حضرت آدم علیہ السالم اور حضرت حوا علیہا السالم کا ذکر ہے‬
‫جنھوں نے ابلیس کے ورغالنے میں آکر اپنے بیٹے کا نام عبد الحارث رکھ دیا۔ ؂‪۱۳‬‬
‫حضرت یوسف علیہ السالم کے واقعہ کے ضمن میں مروی روایت جس کے مطابق حضرت یوسف علیہ‬
‫تعالی نے حضرت جبرئیل علیہ السالم کو بھیجا جنھوں نے ان‬
‫ٰ‬ ‫السالم آمادۂ گناہ ہو گئے تھے جس پرہللا‬
‫کو دھکیل کر ہٹایا اور وہ بالکل ناکارہ ہو گئے۔ ؂‪۱۴‬‬
‫حضرت داؤد علیہ السالم کے واقعہ کے تحت مروی روایات جن کے مطابق حضرت داؤد علیہ السالم‬
‫اوریا کی بیوی پر فریفتہ ہو گئے اور اس کے خاوند کو قتل کرا کے اس سے نکاح کر لیا۔ ؂‪۱۵‬‬

You might also like