Professional Documents
Culture Documents
4639 1
4639 1
سمسٹر:بہار2020 ،ء
قرآن مجید کا جامع تعارف تحریر کریں۔ سوال
قرآن مجید کا تعارف ہللا تعالی نے بھی کرایا اور رسول اکرمﷺنے بھی۔ نیزسلف نے نمبر
بھی اصطالحی تعریف پیش کی۔ 1۔
ہللا تعالی کے نزدیک:
سورۃ الشعراء میں قرآن کریم کا تفصیلی تعارف ہے کہ یہ کس کی طرف سے ہے؟ کس کے ذریعے آیا
ہے؟ کس پر نازل ہوا ہے ؟ مقصد نزول کیا ہے؟ عربی میں کیوں نازل ہوا؟
وح اأْل َ ِمينُ ﴿َ ﴾١٩٣علَ ٰى قَ ْلبِكَ لِتَ ُكونَ ِمنَ ا ْل ُمن ِذ ِرينَ ﴿﴾١٩٤
ب ا ْل َعالَ ِمينَ ﴿ ﴾١٩٢نَزَ َل بِ ِه ُّ
الر ُ { َوإِنَّهُ لَتَن ِزي ُل َر ِّ
سا ٍن َع َربِ ٍّي ُّمبِي ٍن ﴿َ ﴾١٩٥وإِنَّهُ لَفِي ُزبُ ِر اأْل َ َّولِينَ ﴿ (}﴾١٩٦الشعراء۱۹۲:۔ )۱۹۶۔ بِلِ َ
بالشبہ یہ قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ ہے جسے روح االمین لے کر نازل ہوئے ،آپ
ﷺ کے قلب اطہر پرانہوں نے نازل کیا تاکہ آپ ﷺ متنبہ کرنے والے
ہوں۔صاف عربی زبان میں ہے۔ اور بالشبہ( اس کا ذکر) پچھلی کتب میں بھی ہے۔
سورہ القمر میں اسے آسان کتاب فرمایا:
س ْرنَا ا ْلقُ ْر ٰانَ لِ ِّ
لذ ْک ِر فَہَ ْل ِمنْ ُّم َّد ِک ٍر }( القمر)۱۷ : { َولَقَ ْد یَ َّ
بالشبہ ہم نے قرآن کریم کو آسان بنادیا ہے تو کیا کوئی ہے جو اس سے نصیحت حاصل کرنے واال ہو؟
رسول اکرم ﷺکے نزدیک:
امام ترمذی رحمہ ہللا نے اپنی سنن کے باب فضائل القرآن ( )۲۹۰۶میں درج ذیل حدیث بیان کی ہے جس
میں آپ ﷺ نے قرآن کا تعارف پیش کیا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خبردار رہنا! عنقریب فتنے اٹھیں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول ہللا! ان سے بچا کیسے جاسکتا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا :ہللا کی کتاب سے۔ جس میں تم سے پہلے جو کچھ ہوا اس کی خبریں
ہیں اور جو بعد میں ہوگا اس کی بھی اطالعات ہیں ،جو تمہارے مابین اختالف ہوگا اس کا فیصلہ بھی
ہے۔یہ فیصل کتاب ہے مذاق وٹھٹھہ نہیں ہے۔ جو مغرور اسے چھوڑے گا ہللا تعالی اسے توڑ کر رکھ
دے گا۔ جس نے اس کے عالوہ کہیں اور سے راہنمائی لی اسے ہللا بھٹکا دے گا۔یہ قرآن ہللا کی بڑی
مضبوط رسی ہے اور بڑا حکیمانہ ذکر ہے۔ یہی صراط مستقیم ہے۔ یہی قرآن ہے جس سے خواہشات
کبھی نہیں بہکتیں نہ ہی زبانیں لڑکھڑاتی ہیں ،علماء اس سے کبھی سیراب نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ بار
ہا پڑھنے سے پرانا لگتا ہے۔اس کے عجائب نہ ختم ہونے والے ہیں۔ یہ وہی قرآن ہے جسے سن کرجن
نہ رک سکے اور پکار اٹھے :بالشبہ ہم نے بڑا عجیب قرآن سنا ہے جو راستی کی طرف راہنمائی کرتا
ہے ہم اس پر ایمان الئے( سورہ الجن) جس نے اس قرآن کے مطابق بات کہی اس نے سچ کہا اور جس
نے اس کے کہے پر عمل کیا اس نے اجر پایا اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ دیا اس نے انصاف کیا
اور جس نے اس کی طرف بالیا اسے صراط مستقیم کی راہ دکھا دی گئی۔(عن علی بن ابی طالب)
قرآن کریم کی خصوصیات:
مندرجہ باال تعریف میں قرٓان مجید اور اس کی خصوصیات کا اجمالی ( )summeryتذکرہ آگیا ہے۔ جن
کی تفصیل حسب ذیل ہے:
کالم ہللا:
قرٓان میں صرف ہللا تعالی کا کالم ہے۔ کسی انسان ،جن یافرشتے کا کالم اس میں شامل نہیں۔ اسے ہللا
تعالی ہے:
ٰ تعالی نے خود ہی کالم ہللا یا ٓایات ہللا فرمایا ہے۔ ارشاد باری
س َم َع کَاَل َم ہّٰللا ِ} (التوبۃ)۶:
{۔۔َ ح ٰتّی یَ ْ
....تاکہ وہ کالم ہللا کو سن لے۔
ت ہّٰللا ِ}( آل عمران)۱۱۳ :
{۔۔۔یَ ْتلُ ْونَ ٓایَا ِ
وہ ہللا کی ٓایات کی تالوت کرتے ہیں۔
غیر مخلوق:
قرآن ہللا تعالی کا کالم ہے اور کالم کرنا ہللا تعالی کی صفت ہے اس لئے یہ بھی ہللا تعالی کی ذات کی
طرح غیر مخلوق ہے۔گوہم اس صفت کی حقیقت نہیں جانتے اور نہ ہی اسے مخلوق کی طرح سمجھتے
ہیں۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ {لیس کمثلہ شئ}۔ اس جیسا کوئی ہے ہی نہیں۔ دو فرقے اس بارے میں
گمراہ ہوگئے۔ ایک قدریہ معتزلہ ہے جو ہللا تعالی کی صفات کے ظاہری معنی کو چھوڑ کر تاویلیں کرتا
ہے۔ تاویل سے صفات کی تخفیف وانکار الزم آتا ہے جو انتہائی کفر ہے۔ دوسرا فرقہ مشبہہ مجسمہ ہے
وہ اس صفت کو مخلوق کے مشابہ بتاتا ہے یہ بھی پہلے سے کم گمراہ نہیں۔ مناسب یہی ہے کہ جو ہللا
تعالی کی صفات قرآن کریم اور حدیث رسول میں آئی ہیں ان کے لفظی معنی معلوم ہونے کے بعد پھر
کیفیت کی کھدیڑ نہ کی جائے۔جب اصل حقیقت کا علم نہیں تو اسے مخلوق کے مشابہ قرار دینا کون سی
دانش مندی ہے۔یہ ازلی صفات کا اقرار ہے اور تاویل کا انکار۔
یعنی قرآن مجید کا کوئی لفظ زائد نہیں بلکہ اس کے فوائد ہیں۔ یہ مختصر ،جامع ،تعمیری ،اور واقعیت
پسندی کے ساتھ اپنے معانی و اہداف کو بیان کرتے ہیں ۔ مثالً طہ ،ألم ،عسق وغیرہ۔ انہیں ہم زائد نہیں
کہتے مگر اس کے فوائدعرب بہتر جانتے ہیں کیونکہ ان کے خطباء کے ہاں ان کی زبردست اہمیت ہے۔
ان کی مراد ہللا تعالی ہی بہترجانتے ہیں۔امام حسن بصری رحمہ ہللا کے حلقہ میں کچھ لوگ کہا کرتے کہ
یہ الفاظ زائد اور بے فائدہ ہیں۔جس پر انہوں نے فرمایا:
ُخ ُذ ْوا ٰہ ُؤاَل ِ
ئَ ،و َجنِّبُ ْوہُم فِ ْی َحشَا ا ْل َح ْلقَ ِۃ۔
انہیں پکڑو اور انہیں ہمارے حلقے سے الگ کرکے اس کے حاشئے میں بٹھادو۔ اس لئے انہیں حشویہ
کہا گیا۔
ظاہری معنی ہی مراد ہوگا:
اس کے باطنی معنی لینے کی کوئی دلیل ہے اور نہ ہی ہم اس کے مکلف ہیں۔ایسے دعوے دراصل قرآن
کریم کو اپنے من پسند عقائد ونظریات میں ڈھالنے کی دعوت ہے۔مگر جو معنی ومفہوم ہللا تعالی نے
اپنے رسول کو بتائے ،صحابہ کرام نے جن پر عمل کیا انہیں قابل اعتناء نہ سمجھا جائے یہ کون سی
قرآن دانی ہے؟۔
باطنیہ کہا کرتے:
قرآن کے الفاظ کا ظاہری مفہوم مراد نہیں لیا جاسکتا اور اس کے باطن کا مفہوم ہر کوئی نہیں جانتا۔
اسے صرف ہمارے باطنی ائمہ ہی جانتے ہیں۔ باطنی معنی میں اشاری معنی بھی آجاتا ہے ۔ مثالً کوئی یہ
کہے کہ اس لفظ کے معنی ومفہوم کا مجھے اشارہ ہوا ہے۔ یہ اشارے اگر ہللا کے رسول کے کہے یا
مراد کے مطابق ہوں تو درست ورنہ یہ شیطانی اشارے بھی ہو سکتے ہیں۔یہ دونوں انداز فکر رسول ہللا
ﷺ سے اور امت کے اجماع سے جان چھڑانے اور اپنی الگ شریعت سازی کے مترادف
ہیں۔
عربی گرامر کے مطابق اسم ،فعل اور حرف کی جامع تعریف تحریر کریں ،نیز قرآن مجید میں سے دس سوال
دس اسما ،افعال اور حروف کا واضح اعراب کے ساتھ جدول بنائیں۔ نمبر
کلمہ کی تین اقسام ہیں۔ اس َم :وہ کلمہ ہے جو کسی شخص ،جگہ یا چیز کے لیے استعمال ہو۔ 2۔
مثال :پاکستان ،کراچی ،الہور،اسالم آباد ،فصیح ،ثاقب ،شاہدہ ،منتظر ،حنا،
پہاڑ ،دریا ،سمندر ،زمین ،آسمان ،کرسی ،میز ،قلم ،دوات ،گھڑی ،کمپیوٹر وغیرہ ،فعل :وہ کلمہ ہے جس
میں کسی کام کا کرنا ،ہونا یا سہنا زمانے کے لحاظ سے پایا جائے۔ مثال :سوتا ہے ،سوئے گا ،کھائے
گا ،کھاتا ہے ،پیتا ہے ،پیئے گا ،پڑھا لکھا ہے ،پڑھے گا ،وہ آتا ہے ،اسلم آیا ،عرفان گیا
وغیرہ۔ حرف :وہ کلمہ ہے جو نہ تو اسم ہو اور نہ ہی فعل ہو مگر اسم اور فعل کوآپس میں مال کر مطلب
پورا کرے۔ مثال :کی۔ کا۔ کے ،کو ،تک ،پر ،سے وغیرہ
جملے میں کم از کم دو کلموں کا ہونا ضروری ہے ایک مسند اور دوسرا مسند الیہ عام ہے کہ وہ دونوں
ض َر َب زَ ْی ٌد اور زَ ْی ٌد قَائِ ٌم) اور ایک
کلمے لفظی ہوں یاایک لفظی ہو ایک تقدیری لفظی کی مثال جیسے ( َ
ض ِر ْب) کہ دوسرا کلمہ یعنی اَ ْنتَ ضمیر اس میں پوشیدہ ہے اور
لفظی ہو ایک تقدیری کی مثال جیسے (اِ ْ
جملے میں کلمات دو سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں اور زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ مصنف ؒ فرماتے ہیں کہ
جب کسی جملہ میں کلمات زیادہ ہوں تو اس کے اندر چار باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے
)۱( اسم ‘ فعل ‘ حرف کو الگ الگ کرنا
( )۲معرب اور مبنی کو پہچاننے میں غور کرنا
( )۳عامل اور معمول کو پہچاننا
( )٤کلمات کا آپس میں تعلق معلوم کرنا تاکہ مسند اور مسند الیہ ظاہر ہو جائیں اور جملے کا معنی
تحقیقی طور پر معلوم ہو جائے
عالمات اسم عالمات اسم گیارہ ہیں جو مثالوں کے ساتھ درج ذیل ہیں
)۱( شروع میں الف الم کا داخل ہونا جیسے اَ ْل َح ْم ُد
( )۲شروع میں حرف جر کا داخل ہونا جیسے بِزَ ْی ٍد
( )۳آخر میں تنوین کا ہونا جیسے زَ ْی ٌد
( )٤مسند الیہ ہونا جیسے زَ ْی ٌد قَائِ ٌم
( )۵مضاف ہونا جیسےُ غاَل ُم زَ ْی ٍد
( )٦مصغر ہونا جیسے قُ َر ْی ٌ
ش
( )۷منسوب ہونا جیسے بَ ْغدَا ِد ٌّ
ی
( )۸مثنی ہونا جیسےَ ر ُجاَل ِن
( )۹مجموع ہونا جیسےِ ر َجا ٌل
( )۱۰موصوف ہونا جیسےَ ر ُج ٌل عَالِ ٌم
( )۱۱آخر میں تائے متحرکہ کا ہوتا جو سکون کے وقت ’ہ ‘بن جائے جیسے طَ ْل َحۃٌ‘ َ
ضا ِربَۃٌ
بقیہ عالمات اسم تمام چیزوں کے نام‘ مکبر ہونا ‘ مستثنی ہوتا ‘ مستثنی منہ ہونا‘ منصرف
ہونا‘ غیر منصرف ہونا‘ معرفہ ہونا‘ نکرہ ہونا‘ مذکر ہونا‘ مؤنث ہونا‘ فاعل ہونا‘ مفعول ہونا
‘ٰ
منادی ہونا‘ ذوالحال ہونا
عالمات فعل عالمات فعل آٹھ ہیں جو مثالوں کے ساتھ درج ذیل ہیں
)۱( شروع میں قَ ْد ہونا جیسے قَ ْد َ
ض َر َب
ب
ض ِر ُ
سی َ ْ
( )۲شروع میں سین زائدہ کا ہونا جیسےَ
ب
ض ِر ُ
س ْوفَ یَ ْ
س ْوفَ کا ہونا جیسےَ
( )۳شروع میں َ
( )٤شروع میں حرف جزم کا ہونا جیسے لَ ْم یَ ْ
ض ِر ْب
ض َر ْبتُ
( )۵ضمیر مرفوع متصل کا ہونا جیسےَ
ض َربَتْ
( )٦تائے ساکنہ کا آخر میں ہونا جیسےَ
ض ِر ْب
( )۷امر ہونا جیسے اِ ْ
( )۸نہی کا صیغہ ہونا جیسے اَل ت ْ
َض ِر ْب
بقیہ عالمات فعل حروف ناصبہ کا شروع میں ہونا‘ حروف اتین کا شروع میں ہونا‘ ماضی ہونا‘ نون
تاکید ثقیلہ اور خفیفہ کا آخر میں آنا
عالمات حرف حرف کی عالمت ایک ہی ہے کہ اسم و فعل کی عالمات سے خالی ہو
تثنیہ و جمع تو اسم کی عالمات میں سے ہیں پھر فعل میں کیوں پائی جاتی ہیں کیونکہ فعل بھی تو
ض َربُ ْوا جمع ہے؟
ض َربَا تثنیہ اورَ
تثنیہ و جمع ہوتا ہے جیسےَ
فعل تثنیہ و جمع نہیں ہوتا بلکہ اس میں فاعل کی ضمیر تثنیہ و جمع ہوتی ہے اور فاعل ہمیشہ اسم
ض َربُ ْوا میں ماریں دو یا زیادہ نہیں ہوئیں بلکہ مارنے والے دو یا دو سے زیادہ
ض َربَا اورَ
ہوتا ہے ل ٰہذاَ
ہوئے
فائدہ عالمت کے لغوی معنی نشانی ہیں اور اصطالح میں عالمت کے معنی ہیں (ما یوجد فیہ وال یوجد
فی غیرہ)یعنی جو اسی چیز میں پائی جائے اس کے غیر میں نہ پائی جائے
اسم کی عالمات
۱۔ کلمہ کی ابتدا میں الف الم ہو جیسے اَ َ
لحم ُد ۲۔ حرف جر جیسے بِزی ٍد ۳۔ تنوین جیسے زی ٌد ۴۔ علم یعنی
کسی چیز یا آدمی کا نام ہو جیسے زید ،مسجد۵۔مسند الیہ جیسے زی ٌد قائ ٌم ۶۔مضاف الیہ جیسے غال ُم زی ٍد
ی ۱۰۔تثنیہ جیسے ۷۔تصغیر جیسے قُ َر ٌ
یش۸۔ ابتدا میں حرف ندا جیسے یَا زی ُد ۹۔یائی نسبت جیسے بغدا ِد ٌّ
ضا ِربُونَ (۱۲ )۱۔موصوف جیسے رج ٌل عال ٌم ۱۳۔تاء چھوٹی حرکت والی
رجالن ۱۱۔جمع جیسے ِر َجالَ ،
ِ
ضا ِربَۃٌ ۱۴۔ضمائر جیسے ُھ َوُ ،ھ َما ،ھُم وغیرہ۱۵۔ اسماء اشارہ جیسے َذاَ ،ذ ِ
ان ۱۶۔ اسماء جیسے َ
ب ۱۸۔ الف مقصورہ۱۹۔ الف
سا ِ
الح َ موصولہ جیسے اَلَّ ِذی وغیرہ ۱٧۔حروف ناصبہ جیسے اِنَّ ہللاَ َ
سری ُع ِ
مضروب۔ معلوم ہوا کہ اسم کی بعض عالمات لفظی ہیں ،بعض
ٌ ممدودہ ۲۰۔ ابتداء میں میم زائدہ جیسے
معنوی۔
۔۔۔۔۔
( )۱فعل ہمیشہ مفرد ہوتا ہے ،فعل کو تثنیہ و جمع فاعل کے اعتبار سے کہا جاتا ہے ،حقیقۃً ضمیر فاعل
معنی ہے دو آدمیوں نے مارا -ضربوا کی
ٰ جو اسم ہے وہ تثنیہ و جمع ہے ،یہی وجہ ہے کہ ضربا کی
معنی ہے بہت آدمیوں نے مارا تو یہ تثنیہ و جمع مارنے والےہیں جو فعل کے فاعل ہیں فعل ایک ہے
ٰ
ضرب۔
۔۔۔۔۔
فعل کی عالمات
ب ۲۔ابتدا میں قد جیسے قَد
ب ،نَض ِر ُ
ب ،اَض ِر ُ
ب ،تَض ِر ُ
۔ کلمہ کی ابتدا میں حرف اتین زائدہ ہو ،جیسے یَض ِر ُ
ب ۵۔ حرف جازمہ جیسے
سوفَ یَض ِر ُ
ب۴۔ ابتدا میں سوف جیسے َ
سیَض ِر ُ
ض َر َب ۳۔ ابتدا میں سین جیسے َ
َ
لَم یَض ِرب ۶۔ حرف ناصبہ جیسے لَن یَّض ِر َب ۷۔ضمیر مرفوع متصل جیسے َ
ض َربتَ ۸۔آخر میں تاء ساکن
ض َربَت ۹۔ امر جیسے اِض ِرب ۱۰۔ نہی جیسے اَل تَض ِرب ۱۱۔ النافیہ جیسے اَل یَض ِر ُ
ب ۱۲۔ نون ثقیلہ جیسے َ
۱۳۔نون خفیفہ جیسے اِض ِربَنَّ ،اِض ِربَن۱۴۔ الف ضمیر ۱۵۔ نون ضمیر ۱۶۔ نا ضمیر ۱۷۔ تم ضمیر ۱۸۔
واو ضمیر ۱۹۔ تُنَّ ضمیر ۲۰۔ ماضی۔
حرف کی عالمات
عل حرف کی
سم َوالفِ ِ
اال ِ
ت ِجو کلمہ اسم و فعل کی عالمات سے خالی ہو وہ حرف ہو گا یعنی ت ََج ُّرد عَن عَال َما ِ
عالمت ہے۔
سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 90تا 93کا کسی مستند تفسیر سے مطالعہ کریں اور ان آیات کو واضح سوال
اعراب کے ساتھ تحریر کریں نیز ان آیات میں مذکور احکام الگ الگ کر کے جامع انداز میں تحریر نمبر
کریں۔ 3۔
ان فَ ْ
اجتَنِبُوهُ لَ َعلَّ ُك ْم تُ ْفلِ ُحونَ [ ش ْيطَ ِس ِمنْ َع َم ِل ال َّ اب َواأْل َ ْزاَل ُم ِر ْج ٌ
ص ُ س ُر َواأْل َ ْن َ يَا أَيُّ َها الَّ ِذينَ آ َمنُوا إِنَّ َما ا ْل َخ ْم ُر َوا ْل َم ْي ِ
ص َّد ُك ْم عَنْ ِذ ْك ِر هَّللا ِ َو َع ِن ضا َء فِي ا ْل َخ ْم ِر َوا ْل َم ْي ِ
س ِر َويَ ُ ش ْيطَانُ أَنْ يُوقِ َع بَ ْينَ ُك ُم ا ْل َعدَا َوةَ َوا ْلبَ ْغ َ ]90إِنَّ َما يُ ِري ُد ال َّ
صاَل ِة فَ َه ْل أَ ْنتُ ْم ُم ْنتَهُونَ []91
ال َّ
[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد] اے لوگو جو ایمان الئے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک
کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں ،شیطان کے کام سے ہیں ،سو اس سے
بچو ،تاکہ تم فالح پائو۔ ]90[ شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمھارے درمیان
دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمھیں ہللا کے ذکر سے اور نماز سے روک دے ،تو کیا تم باز آنے والے
ہو۔]91[
تعالی بعض چیزوں سے روکتا ہے۔ شراب کی ممانعت فرمائی ،پھر جوئے کی روک کی۔
ٰ ان آیتوں میں ہللا
امیر المونین علی بن ابی طالب رضی ہللا عنہ سے مروی ہے کہ” شطرنج بھی جوئے میں داخل
ہے۔“[ ابن ابی حاتم]
عطاء ،مجاہد اور طاؤس رحمہ ہللا علیہم سے یا ان میں سے دو سے مروی ہے کہ” جوئے کی ہر چیز
میسر میں داخل ہے گو بچوں کے کھیل کے طور پر ہو۔“
جاہلیت کے زمانے میں جوئے کا بھی عام رواج تھا جسے اسالم نے غارت کیا۔ ان کا ایک جوا یہ بھی
تھا کہ گوشت کو بکری کے بدلے بیچتے تھے ،پانسے پھینک کر مال یا پھل لینا بھی جوا ہے۔ قاسم بن
محمد رحمہ ہللا فرماتے ہیں کہ” جو چیز ذکر ہللا اور نماز سے غافل کر دے وہ جوا ہے۔“
ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع غریب حدیث میں ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :ان
پانسوں سے بچو جن سے لوگ کھیال کرتے تھے ،یہ بھی جوا ہے ۔[ تفسیر ابن ابی حاتم:
:1196/4ضعیف]
صحیح مسلم شریف میں ہے پانسوں سے کھیلنے واال گویا اپنے ہاتھوں کو سور کے خون اور گوشت
میں آلودہ کرنے واال ہے ۔[ صحیح مسلم ]2260:
سنن میں ہے کہ وہ ہللا اور رسول کا نافرمان ہے ۔[ سنن ابوداود،4938:قال الشيخ األلباني:حسن] سیدنا
ابوموسی رضی ہللا عنہ کا قول بھی اسی طرح مروی ہے۔َ « وهللاُ اَ ْعلَ ُم»،
ٰ
مسند میں ہے پانسوں سے کھیل کر نماز پڑھنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قے اور
گندگی سے اور سور کے خون سے وضو کر کے نماز ادا کرے ۔[ مسند احمد:370/5:ضعیف]
سیدنا عبدہللا رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں” میرے نزدیک شطرنج اس سے بھی بری ہے۔“ سیدنا علی
رضی ہللا عنہ سے شطرنج کا جوئے میں سے ہونا پہلے بیان ہو چکا ہے۔ امام مالک رحمہ ہللا ،امام ابو
حنیفہ رحمہ ہللا ،امام احمد رحمہ ہللا تو کھلم کھال اسے حرام بتاتے ہیں اور امام شافعی رحمہ ہللا بھی
اسے مکروہ بتاتے ہیں۔
اب» ان پتھروں کو کہتے ہیں جن پر مشرکین اپنے جانور چڑھایا کرتے تھے اور انہیں وہیں ذبح
ص ُ«أَن َ
کرتے تھے۔
«اَ ْزالَ ُم» ان تیروں کو کہتے ہیں جن میں وہ فال لیا کرتے تھے۔ ان سب چیزوں کی نسبت فرمایا کہ ” یہ
ہللا کی ناراضگی کے اور شیطانی کام ہیں۔ یہ گناہ کے اور برائی کے کام ہیں تم ان شیطانی کاموں سے
بچو انہیں چھوڑ دو تاکہ تم نجات پاؤ “۔
اس فقرے میں مسلمانوں کو ان کاموں سے روکنے کی ترغیب ہے۔ پھر رغبت آمیز دھمکی کے ساتھ
مسلمانوں کو ان چیزوں سے روکا گیا ہے۔
س َعلَى غ ا ْل ُمبِينُ [ ]92لَ ْي َ اح َذ ُروا فَإِنْ ت ََولَّ ْيتُ ْم فَا ْعلَ ُموا أَنَّ َما َعلَى َر ُ
سولِنَا ا ْلبَاَل ُ سو َل َو َْوأَ ِطي ُعوا هَّللا َ َوأَ ِطي ُعوا ال َّر ُ
ت ثُ َّم اتَّقَ ْوا َوآ َمنُوا ثُ َّم ط ِع ُموا إِ َذا َما اتَّقَ ْوا َوآ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ
صالِ َحا ِ اح فِي َما َت ُجنَ ٌ الَّ ِذينَ آ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ
صالِ َحا ِ
اتَّقَ ْوا َوأَ ْح َ
سنُوا َوهَّللا ُ يُ ِح ُّب ا ْل ُم ْح ِ
سنِينَ []93
[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد] اور ہللا کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور بچ جاؤ ،پھر اگر تم
پھر جائو تو جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمے تو صرف واضح طور پر پہنچا دینا ہے۔ ]92[ ان لوگوں
پر جو ایمان الئے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جو وہ کھا چکے ،جب کہ
وہ متقی بنے اور ایمان الئے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ،پھر وہ متقی بنے اور ایمان الئے ،پھر وہ
متقی بنے اور انھوں نے نیکی کی اور ہللا نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔]93[
اب ہم یہاں پر حرمت شراب کی مزید احادیث وارد کرتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی ہللا
عنہ فرماتے ہیں شراب تین مرتبہ حرام ہوئی۔ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم جب مدینے شریف میں آئے
تو لوگ جواری شرابی تھے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال ہوا اور
س ۡ َواِ ْثـ ُم ُه َمآ اَ ْكبَ ُر ِمنْ نَّ ْف ِع ِه َما»-2[ البقرۃ:
س ِر قُ ْل فِ ْي ِه َمآ اِ ْث ٌم َكبِ ْي ٌر َّو َمنَافِ ُع للنَّا ِ
سـٔـََٔـلُ ْونَ َك َع ِن ا ْل َخــ ْم ِر َوا ْل َم ْي ِ
آیت« يَ ْ
]219نازل ہوئی۔
اس پر لوگوں نے کہا یہ دونوں چیزیں ہم پر حرام نہیں کی گئیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ” ان میں بہت
بڑا گناہ ہے اور لوگوں کیلئے کچھ فوائد بھی ہیں “۔ چنانچہ شراب پیتے رہے۔
ایک دن ایک صحابی رضی ہللا عنہ اپنے ساتھیوں کو مغرب کی نماز پڑھانے کیلئے کھڑے ہوئے تو
س ٰك ٰرى َح ٰتّى تَ ْعلَ ُم ْوا َما تَقُ ْولُ ْونَ
ص ٰلوةَ َواَ ْنتُ ْم ُ
«يٓاَيُّ َھا الَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا اَل تَ ْق َربُوا ال َّ
قرأت خط ملط ہو گئی اس پر آیتٰ
سبِ ْي ٍل َح ٰتّى تَ ْغت َِسلُ ْوا»-4[ النسآء ]43:نازل ہوئی۔ یہ بہ نسبت پہلی آیت کے زیادہ سخت َواَل ُجنُبًا اِاَّل عَابِ ِر ْ
ي َ
تھی اب لوگوں نے نمازوں کے وقت شراب چھوڑ دی لیکن عادت برابر جاری رہی۔
اب َوااْل َ ْزاَل ُم
ص ُ «يٓاَيُّ َھاالَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْٓوا اِنَّ َما ا ْل َخ ْم ُر َوا ْل َم ْي ِ
س ُر َوااْل َ ْن َ اس پر اس سے بھی زیادہ سخت اور صریح آیتٰ
اجتَنِبُ ْوهُ لَ َعلَّ ُك ْم تُ ْفلِ ُح ْونَ »-5[ المائدہ ]90:نازل ہوئی اسے سن کر سارے صحابہ ش ْي ٰط ِن فَ ْ
س ِّمنْ َع َم ِل ال َّ
ِر ْج ٌ
رضی ہللا عنہم بول اٹھے« اِ ْنتَ َه ْینَا َربَّنَا»” اے ہللا ہم اب باز رہے ،ہم رک گئے۔“
پھر لوگوں نے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا جو شراب اور جوئے کی حرمت کے نازل ہونے
س َعلَى الَّ ِذينَ سے پیشتر ہللا کی راہ میں شہید کئے گئے تھے اس کے جواب میں اس کے بعد کی آیت« لَ ْي َ
ت ثُ َّم اتَّقَوا َّوآ َمنُوا ثُ َّم اتَّقَوا اح فِي َما طَ ِع ُموا إِ َذا َما اتَّقَوا َّوآ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ
صالِ َحا ِ ت ُجنَ ٌ آ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ
صالِ َحا ِ
َّوأَ ْح َ
سنُوا َوهَّللا ُ يُ ِح ُّب ا ْل ُم ْح ِ
سنِينَ »-5[ المائدہ ، ]93:نازل ہوئی اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :اگر
ان کی زندگی میں یہ حکم اترا ہوتا تو وہ بھی تمہاری طرح اسے مان لیتے ۔[ مسند احمد:
:351/2ضعیف]
مسند احمد میں ہے عمر بن خطاب رضی ہللا عنہ نے تحریم شراب کے نازل ہونے پر فرمایا یا ہللا ہمارے
سامنے اور کھول کر بیان فرما پس سورۃ البقرہ کی آیت« فِي ِه َما إِ ْث ٌم َكبِي ٌر»-2[ البقرہ ]219:نازل ہوئی۔
سیدنا عمر فاروق رضی ہللا عنہ کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس کی تالوت کی گئی پھر بھی آپ
رضی ہللا عنہ نے فرمایا” اے ہللا تو ہمیں اور واضح لفظوں میں فرما!۔“
بیہقی کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص شراب بیچتے تھے اور بہت خیرات کیا کرتے تھے سیدنا ابن
عباس رضی ہللا عنہ سے شراب فروشی کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ رضی ہللا عنہ نے فرمایا” یہ حرام ہے
اور اس کی قیمت بھی حرام ہے ،اے امت محمد صلی ہللا علیہ وسلم اگر تمہاری کتاب کے بعد کوئی کتاب
اترنے والی ہوتی اور اگر تمہارے نبی صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اور آنے واال ہوتا ،جس
طرح اگلوں کی رسوائیاں اور ان کی برائیاں تمہاری کتاب میں اتریں تمہاری خرابیاں ان پر نازل ہوتیں
لیکن تمہارے افعال کا اظہار قیامت کے دن پر مؤخر رکھا گیا ہے اور یہ بہت بھاری اور بڑا ہے۔“
پھر سیدنا عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا” سنو میں حضور صلی
ہللا علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں تھا۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم گوٹھ لگائے ہوئے بیٹھے تھے فرمانے
لگے جس کے پاس جتنی شراب ہو وہ ہمارے پاس الئے ۔ لوگوں نے النی شروع کی ،جس کے پاس
جتنی تھی حاضر کی۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :جاؤ اسے بقیع کے میدان میں فالں فالں جگہ
رکھو۔ جب سب جمع ہوجائے مجھے خبر کرو ۔ جب جمع ہوگئی اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم سے کہا گیا
تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم اٹھے میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے داہنے جانب تھا آپ صلی ہللا علیہ
وسلم مجھ پر ٹیک لگائے چل رہے تھے۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ جب آئے تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے مجھے ہٹا دیا اپنے بائیں
کردیا اور میری جگہ سیدنا ابو بکر رضی ہللا عنہ نے لے لی ،پھر سیدنا عمر رضی ہللا عنہ سے مالقت
ہوئی تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے مجھے اور پیچھے ہٹا دیا اور جناب فاروق رضی ہللا عنہ کو اپنے
بائیں لے لیا اور وہاں پہنچے لوگوں سے فرمایا :جانتے ہو یہ کیا ہے؟ سب نے کہا ہاں جانتے ہیں یہ
شراب ہے۔
فرمایا :سنو اس پر اس کے بنانے والے پر ،بنوانے والے پر ،پینے والے پر ،پالنے والے پر ،اٹھانے
والے پر ،اٹھوانے والے پر ،بیچنے والے پر ،خریدنے والے پر ،قیمت لینے والے پر ہللا کی پھٹکار
ہے ۔ پھر چھری منگوائی اور فرمایا :اسے تیز کرلو ۔ پھر اپنے ہاتھ سے مشکیں پھاڑنی اور مٹکے
توڑنے شروع کئے لوگوں نے کہا بھی کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم مشکوں اور مٹکوں کو رہنے
دیجئیے اور کام آئیں گی۔ فرمایا :ٹھیک ہے لیکن میں تو اب ان سب کو توڑ کر ہی رہوں گا یہ غضب و
غصہ ہللا کیلئے ہے کیونکہ ان تمام چیزوں سے رب ناراض ہے ۔ سیدنا عمر رضی ہللا عنہ نے فرمایا
حضور صلی ہللا علیہ وسلم آپ صلی ہللا علیہ وسلم خود کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم حاضر ہیں۔
فرمایا :نہیں میں اپنے ہاتھ سے انہیں نیست و نابود کروں گا۔[ بیھقی:287/8:صحیح]
بیہقی کی حدیث میں ہے کہ” شراب کے بارے میں چار آیتیں اتری ہیں۔ پھر حدیث بیان فرما کر کہا کہ
ایک انصاری نے دعوت کی ہم دعوت میں جمع ہوئے خوب شرابیں پیں۔ نشے میں جھومتے ہوئے اپنے
نام و نسب پر فخر کرنے لگے ،ہم افضل ہیں۔ قریشی نے کہا ہم افضل ہیں۔ ایک انصاری نے اونٹ کے
جبڑا لے کرسیدنا سعد رضی ہللا عنہ کو مارا اور ہاتھا پائی ہونے لگی پھر شراب کی حرمت کی آیت
اتری۔“[ صحیح مسلم ]1748:
بیہقی میں سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ یہ شراب پی کر بدمست ہو گئے اور آپس
میں الف زنی ہونے لگی جب نشے اترے تو دیکھتے ہیں اس کی ناک پر زخم ہے اس کے چہرے پر زخم
ہے اس کی داڑھی نچی ہوئی ہے اور اسے چوٹ لگی ہوئی ہے ،کہنے لگے مجھے فالں نے مارا میری
بے حرمتی فالں نے کی اگر اس کا دل میری طرف سے صاف ہوتا تو میرے ساتھ یہ حرکت نہ کرتا دلوں
میں نفرت اور دشمنی بڑھنے لگی پس یہ آیت اتری۔
اس پر بعض لوگوں نے کہا جب یہ گندگی ہے تو فالں فالں صحابہ رضی ہللا عنہم تو اسے پیتے ہوئے ہی
رحلت کر گئے ہیں ان کا کیا حال ہو گا؟ ان میں سے بعض احد کے میدان میں شہید ہوئے ہیں اس کے
ت»-5[ المائدة ]93:الخ اتری۔[ بیہقی السنن س َعلَى الَّ ِذينَ آ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ
صالِ َحا ِ جواب میں اگلی آیت« لَ ْي َ
الکبری:285/8:حسن]
ابن جریر میں ہے” ابوبریدہ رضی ہللا عنہ کے والد کہتے ہیں کہ ہم چار شخص ریت کے ایک ٹیلے پر
بیٹھے شراب پی رہے تھے دور چل رہا تھا جام گردش میں تھا ناگہاں میں کھڑا ہوا اور حضور صلی ہللا
علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سالم کیا وہیں حرمت شراب کی یہ آیت نازل ہوئی۔ میں پچھلے
پیروں اپنی اسی مجلس میں آیا اور اپنے ساتھیوں کو یہ آیت پڑھ کر سنائی ،بعض وہ بھی تھے ،جن کے
منہ سے جام لگا ہوا تھا لیکن وہللا انہوں نے اسی وقت اسے الگ کر دیا اور جتنا پیا تھا اسے قے کر
کے نکال دیا اور کہنے لگے یا ہللا ہم رک گئے ہم باز آ گئے۔[ تفسیر ابن جریر الطبری:12527:ضعیف]
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ” جنگ احد کی صبح بعض لوگوں نے شرابیں پی تھیں اور میدان میں
اسی روز ہللا کی راہ میں شہید کر دیئے گئے اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی۔“[ صحیح بخاری:
]4618
س َعلَي بزار میں یہ ذیادتی بھی ہے کہ اسی پر بعض یہودیوں نے اعتراض کیا اور جواب میں آیت« لَ ْي َ
ت ثُ َّم اتَّقَ ْوا َّو ٰا َمنُ ْوا ثُ َّم اتَّقَ ْوا اح فِ ْي َما طَ ِع ُم ْٓوا اِ َذا َما اتَّقَ ْوا َّو ٰا َمنُ ْوا َو َع ِملُوا ال ٰ ّ
صلِ ٰح ِ ت ُجنَ ٌ الَّ ِذيْنَ ٰا َمنُ ْوا َو َع ِملُوا ال ٰ ّ
صلِ ٰح ِ
هّٰللا
سنُ ْوا َو ُ يُ ِح ُّب ا ْل ُم ْح ِ
سنِيْنَ »-5[ المائدہ ]93:نازل ہوئی۔ َّواَ ْح َ
یعلی موصلی میں ہے کہ ایک شخص خیبر سے شراب ال کر مدینے میں فروخت کیا کرتا تھا ایک دن
ابو ٰ
وہ ال رہا تھا ایک صحابی رضی ہللا عنہ راستے میں ہی اسے مل گئے اور فرمایا شراب تو اب حرام ہو
گئی وہ واپس مڑگیا اور ایک ٹیلے تلے اسے کپڑے سے ڈھانپ کر آگیا اور حضور صلی ہللا علیہ
وسلم سے کہنے لگا کیا یہ سچ ہے کہ شراب حرام ہو گئی؟ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :ہاں سچ
ہے ۔ کہا پھر مجھے اجازت دیجئیے کہ جس سے لی ہے اسے واپس کر دوں۔ فرمایا :اس کا لوٹانا بھی
جائز نہیں ، کہا پھر اجازت دیجئیے کہ میں اسے ایسے شخص کو تحفہ دوں جو اس کا معاوضہ مجھے
دے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :یہ بھی ٹھیک نہیں ۔ کہا حضور صلی ہللا علیہ وسلم اس میں
یتیموں کا مال بھی لگا ہوا ہے۔ فرمایا :دیکھو جب ہمارے پاس بحرین کا مال آئے گا اس سے ہم تمہارے
یتیموں کی مدد کریں گے ۔ پھر مدینہ میں منا دی ہوگئی۔ ایک شخص نے کہا حضور صلی ہللا علیہ
وسلم شراب کے برتنوں سے نفع حاصل کرنے کی اجازت دیجئیے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے
فرمایا :جاؤ مشکوں کو کھول ڈالو اور شراب بہا دو اس قدر شراب بہی کہ میدان بھر گئے ۔ یہ حدیث
ابویعلی:1884:ضعیف]
ٰ غریب ہے۔[ مسند
مسند احمد میں ہے کہ ابوطلحہ رضی ہللا عنہ نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے
ہاں جو یتیم بچے پل رہے ہیں ان کے ورثے میں انہیں شراب ملی ہے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے
فرمایا :جاؤ اس بہا دو ۔ عرض کیا اگر اجازت ہو تو اس کا سرکہ بنا لوں؟ فرمایا :نہیں ۔ یہ حدیث مسلم
ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔[ صحیح مسلم ]1983:
ابن ابی حاتم میں صحیح سند سے مروی ہے کہ” عبدہللا بن عمرو رضی ہللا عنہ نے فرمایا” جیسے یہ
تعالی نے حق کو نازل فرمایا تاکہ اس کی وجہ سے باطل کو
ٰ آیت قرآن میں ہے تورات میں بھی ہے کہ ہللا
دور کر دے اور اس سے کھیل تماشے باجے گاجے بربط دف طنبورہ راگ راگنیاں فنا کر دے۔ شرابی
تعالی نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ ” جو اسے حرمت کے بعد
ٰ کیلئے شراب نقصان دہ ہے۔ ہللا
پئے گا اسے میں قیامت کے دن پیاسا رکھوں گا اور حرمت کے بعد جوا سے چھوڑے گا میں اسے جنت
کے پاکیزہ چشمے سے پالؤں گا “۔“[ تفسیر ابن ابی حاتم:1196/4:موقوف]
حدیث شریف میں ہے جس شخص نے نشہ کی وجہ سے ایک وقت کی نماز چھوڑی وہ ایسا ہے جیسے
کہ سے روئے زمین کی سلطنت جھن گئی اور جس شخص نے چار بار کی نماز نشے میں چھوڑ دی ہللا
ال» پالئے گا۔ پوچھا گیا کہ یہِ « طينَ ِة ا ْل َخبَا ِل» کیا ہے؟ فرمایا :جہنمیوں کا لہو پیپ
تعالی اسےِ « طينَ ِة ا ْل َخبَ ِ
ٰ
پسینہ پیشاب وغیرہ ۔[ مسند احمد:178/2:حسن]
ابو داؤد میں ہے کہ ہر عقل کو ڈھانپنے والی چیز خمر ہے اور ہر نشہ والی چیز حرام ہے اور جو
شخص نشے والی چیز پئے گا اس کی چالیس دن کی نمازیں ناقبول ہیں۔ اگر وہ توبہ کرے گا تو توبہ
تعالی اسے ضرورِ « طينَ ِة ا ْل َخبَا ِل» پالئے گا پوچھا
ٰ قبول ہو گی اگر اس نے چوتھی مرتبہ شراب پی تو ہللا
گیا وہ کیا ہے؟ فرمایا جہنمیوں کا نچوڑ اور ان کی پیپ اور جو شخص اسے کسی بچہ کو پالئے گا جو
تعالی پر حق ہے کہ اسے بھی جہنمیوں کا پیپ پالئے ۔[ سنن ابوداود:
ٰ حالل حرام کی تمیز نہ رکھتا ہو ہللا
،3680قال الشيخ األلباني:صحیح]
بخاری مسلم وغیرہ میں ہے دنیا میں جو شراب پیئے گا اور توبہ نہ کرے گا وہ جنت کی شراب سے
محروم رہے گا ۔[ صحیح بخاری ]5575:
صحیح مسلم شریف میں ہے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نشے والی چیز خمر ہے اور
ہر نشے والی چیز حرام ہے اور جس شخص نے شراب کی عادت ڈالی اور بے توبہ مر گیا وہ جنت کی
شراب سے محروم رہے گا ۔[ صحیح مسلم ]2003:
تعالی قیامت کے دن نظر رحمت سے نہ دیکھے گا ،ماں
ٰ نسائی وغیرہ میں ہے تین شخصوں کی طرف ہللا
باپ کا نافرمان ،شراب کی عادت واال اور ہللا کی راہ میں دے کر احسان جتالنے واال ۔[ سنن نسائی:
،2563قال الشيخ األلباني:صحیح]
مسند احمد میں ہے کہ دے کر احسان جتانے واال ،ماں باپ کا نافرمان اور شرابی جنت میں نہیں جائے
گا ۔[ مسند احمد:27/3:صحیح]
مسند احمد میں اس کے ساتھ ہی ہے کہ زنا کی اوالد بھی ۔[ مسند احمد:203/2:صحیح]
سیدنا عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں” شراب سے پرہیز کرو وہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔
سنو اگلے لوگوں میں ایک ولی ہللا تھا جو بڑا عبادت گزر تھا اور تارک دنیا تھا۔ بستی سے الگ تھلگ
ایک عبادت خانے میں شب و روز عبادت ٰالہی میں مشغول رہا کرتا تھا ،ایک بدکار عورت اس کے
پیچھے لگ گئی ،اس نے اپنی لونڈی کو بھیج کر اسے اپنے ہاں ایک شہادت کے بہانے بلوایا ،یہ چلے
گئے لونڈی اپنے گھر میں انہیں لے گئی جس دروازے کے اندر یہ پہنچ جاتے پیچھے سے لونڈی اسے
بند کرتی جاتی۔ آخری کمرے میں جب گئے تو دیکھا کہ ایک بہت ہی خوبصورت عورت بیٹھی ہے ،اس
کے پاس ایک بچہ ہے اور ایک جام شراب لبالب بھرا رکھا ہے۔ اس عورت نے اس سے کہا سنئے جناب
میں نے آپ کو درحقیقت کسی گواہی کیلئے نہیں بلوایا فی الواقع اس لیے بلوایا ہے کہ یا تو آپ میرے
ساتھ بدکاری کریں یا اس بچے کو قتل کر دیں یا شراب کو پی لیں درویش نے سوچ کر تینوں کاموں میں
ہلکا کام شراب کا پینا جان کر جام کو منہ سے لگا لیا ،سارا پی گیا۔ کہنے لگا اور الؤ اور الؤ ،خوب پیا،
جب نشے میں مدہوش ہو گیا تو اس عورت کے ساتھ زنا بھی کر بیٹھا اور اس لڑکے کو بھی قتل کر دیا۔
پس اے لوگو! تم شراب سے بچو سمجھ لو کہ شراب اور ایمان جمع نہیں ہوتے ایک کا آنا دوسرے کا
جانا ہے۔“[ بیہقی]
امام ابوبکر بن ابی الدنیا رحمتہ ہللا علیہ نے اپنی کتاب ذم المسکر میں بھی اسے وارد کیا ہے اور اس
«وهللاُ اَ ْعلَ ُم»
میں مرفوع ہے لیکن زیادہ صحیح اس کا موقوف ہونا ہےَ
اس کی شاہد بخاری و مسلم کی مرفوع حدیث بھی ہے جس میں ہے کہ زانی زنا کے وقت ،چور چوری
کے وقت ،شرابی شراب خوری کے وقت مومن نہیں رہتا ۔[ صحیح بخاری ]5578:
مسند احمد میں ہے سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں” جب شراب حرام ہوئی تو صحابہ رضی
ہللا عنہم نے سوال کیا کہ اس کی حرمت سے پہلے جو لوگ انتقال کر چکے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ اس
ت اح ِفي َما طَ ِع ُموا إِ َذا َما اتَّقَوا َّوآ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ
صالِ َحا ِ ت ُجنَ ٌ س َعلَى الَّ ِذينَ آ َمنُوا َو َع ِملُوا ال َّ
صالِ َحا ِ پر یہ آیت« لَ ْي َ
سنِينَ »-5[ المائدہ ، ]93:نازل ہوئی یعنی ” ان پر اس میں ثُ َّم اتَّقَوا َّوآ َمنُوا ثُ َّم اتَّقَوا َّوأَ ْح َ
سنُوا َوهَّللا ُ يُ ِح ُّب ا ْل ُم ْح ِ
کوئی حرج نہیں “ اور جب بیت المقدس کا قبلہ بدال اور بیت ہللا شریف قبلہ ہوا اس وقت بھی صحابہ
رضی ہللا عنہم نے پہلے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے انتقال کر جانے والوں کی نسبت دریافت کیا
تو آیتَ « و َما َكانَ اللَّـهُ لِيُ ِ
ضي َع إِي َمانَ ُك ْم»-2[ البقرۃ ]143:الخ ،نازل ہوئی یعنی ” ان کی نمازیں ضائع نہ
ہوں گی “۔[ مسند احمد:295/1:صحیح]
تعالی کی ناراضگی اس پر رہتی ہے اگر وہ
ٰ مسند احمد میں ہے جو شخص شراب پئے چالیس دن تک ہللا
تعالی اس کی توبہ قبول فرمائے گا
ٰ اسی حالت میں مرگیا تو کافر مرے گا ہاں اگر اس نے توبہ کی تو ہللا
تعالی دوزخیوں کا فضلہ پالئے گا ۔[ مسند احمد:295/1:حسن]
ٰ اور اگر اس نے پھر بھی شراب پی تو ہللا
اور روایت میں ہے کہ جب یہ حکم اترا کہ ایمانداروں پر حرمت سے پہلے پی ہوئی کا کوئی گناہ نہیں تو
حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :مجھ سے کہا گیا ہے کہ تو انہی میں سے ہے ۔[ صحیح مسلم:
]2454
عربی گرامر میں فعل ماضی سے مضارع بنانے کا قاعدہ پڑھیں ،اور ثالثی مجرد کے تمام ابواب کے سوال
فعل ماضی سے فعل مضارع ان قواعد کے مطابق بنائیں اور خوشخط ،واضح اعراب کے ساتھ تحریر نمبر
کریں۔ 4۔
صیغوں میں فرق کی ان چار وجوہات کو یہاں ایک ایک کر کے کوٹ کرتے ہیں اور انکا اطالق فعل
مضارع پر کرتے ہیں
-1پہلی وجہ کا فعل مضارع پر اطالق
-۱سب سے پہلے تو ہر زمانے کا علیحدہ صیغہ ہوتا ہے یعنی ماضی کا علیحدہ اور مضارع کا علیحدہ
اور امر کا علیحدہ صیغہ ہوتا ہے جیسے اردو اور انگلش میں بھی ماضی حال اور مستقبل کے لئے
علیحدہ عالمات استعمال کی جاتی ہیں مثال تھا ،ہے ،گا ،وغیرہ
اوپر بتائی گئی صیضوں میں فرق کی پہلی وجہ کے تحت مضارع کو پہچاننے کے لئے کچھ عالمات
استعمال ہوتی ہیں جنکو عالمت مضارع کہا جاتا ہے وہ عالمات چار ہیں یعنی الف ،تاء ،یاء ،نون -انکا
مجموعہ اتین کہالتا ہے یہ عالمات جب فعل ماضی کے شروع میں لگا دیں اور تھوڑی سی اور تبدیلی کر
لیں تو فعل مضارع بن جاتا ہے
عالمات مضارع یعنی اتین میں آنے والے چاروں حروف کا استعمال مندرجہ ذیل چیزوں کے لئے ہو
سکتا ہے
فعل ماضی کو ہم نے دو سب زمانوں یعنی ماضی مثبت اور ماضی منفی میں تقسیم کیا تھا مگر یہاں فعل
مضارع کو ہم دو سے زیادہ سب زمانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں مثال مضارع مثبت ،منفی ،نہی ،نفی
جہد بلم ،نفی تاکید بلن وغیرہ پس یہاں اس دوسری وجہ سے صیغے دو اقسام یعنی صرف مثبت اور
منفی کے نہیں ہوں گے بلکہ نہی وغیرہ کے بھی صیغے پڑھیں گے
یہ فرق فعل ماضی کی طرح ہی ہوتا ہے پس ہم فعل مضارع میں جب اوپر دوسری والی قسمیں (مثبت،
منفی ،نہی وغیرہ) پڑھ رہے ہوں گے تو ہر ایک کے اندر معروف اور مجہول کو اسی طرح پڑھیں گے
جس طرح ماضی میں پڑھا تھا
پس اب ہمارے پاس مضارع مثبت کے دو سب زمانے (معروف اور مجہول) ہوں گے اسی طرح مضارع
منفی کے بھی دو سب زمانے اور اسی طرح مضارع نہی کے وغیرہ وغیرہ
البتہ مضارع میں مجہول بنانے کا طریقہ ماضی سے تھوڑا سا مختلف ہے یہاں عالمت مضارع کو ضمہ
(پیش) دیتے ہیں اور آخر سے پہلے حرف کو فتحہ (زبر) دیتے ہیں
یہ صیغوں کا اختالف اسی طرح ہو گا جس طرح ماضی میں ہوا تھا البتہ تھوڑی سی تبدیلی آئے گی بڑی
تبدیلیاں دو قسم کی ہوں گی
-aکیونکہ یہاں شروع میں اتین میں سے کوئی حرف آ چکا ہو گا جس کے بارے اوپر پڑھ چکے ہیں کہ
ہم انکو مخاطب اور غائب اور مونث اور متکلم وغیرہ کی عالمات کے لئے استعمال کر سکتے ہیں پس
یہاں ماضی والی مخاطب کی ضمیریں یعنی تائے مخاطبہ اور مونث کی ضمیر تائے ساکنہ اور متکلم کی
ضمیروں کی عالمات استعمال نہیں ہوں گی بلکہ یہ کام اتین سے لیا جائے گا
-bاوپر یہ بھی پڑھا ہے کہ فعل مضارع معرب ہوتا ہے اور معرب کی آخری حالت بدلتی ہے جیسے اسم
معرب میں آخر پر پیش اور زبر اور زیر آتے ہیں (البتہ مضآرع میں دو صیغے مبنی ہوتے ہیں یعنی جمع
مونث غائب اور جمع مونث حاضر)
لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ کچھ فعل مضارع ایسے ہوں گے کہ جو ہوں گے تو معرب یعنی
انکی آخر کی حالت کو تبدیل ہونا چاہیے مگر کسی مجبوری کی وجہ سے ہم اسکو تبدیل نہ کر سکتے
ہوں گے پس وہاں پھر ہم اعراب زبر زیر کی بجائے کسی اور طریقے سے ظاہر کریں گے
ب فعل ماضی کا پہال صیغہ ہے اسکا مضارع بنانے کے لئے شروع میں اتین میں سے یاء
ض ِر ِ
مثال ِ
ب بن جاتا ہے جو رفعی حالت ہے اسکی نصبی حالت یَض ِر َب ہو گی
لگاتے ہیں تو یَض ِر ُ
ض َربَا فعل ماضی کا دوسرا صیغہ ہے اسکے شروع میں یاء لگا کر اسکو جب مضآرع بناتے
اسی طرح َ
ہیں تو یہ یَض ِربا بن جاتا ہے مگر یہاں آخر پر الف ساکن ہے جس سے اسکے رفی یا نصبی وغیرہ حالت
کا پتا نہیں چل سکتا لیکن یہاں اعراب کو ظاہر کرنا بھی الزمی ہے پس ہم یہاں آخر میں ایک اعراب کی
عالمت لگاتے ہیں جس کو نون اعرابی کہتے ہیں پس جب نون ساتھ لگا ہو گا تو وہ رفعی حالت میں ہو
بان اور نصبی
گا اور جب نون نہیں لگا ہو گا تو وہ نصبی حالت میں ہو گا پس رفعی حالت میں وہ یِض ِر ِ
حالت میں وہ صرف یض ِربا بن جائے گا
اب ہم دوسری اور تیسری وجہ یعنی زمانے کی تبدیلی (مثبت ،منفی ،نہی ،معروف ،مجہول وغیرہ) کی
وجہ سے عالمتوں میں تبدیلی پڑھتے ہیں
-1مثبت
مضارع مثبت ماضی مثبت سے ہی بنتا ہے یعنی ماضی کے شروع میں مناسب عالمت مضارع لگا کر
بناتے ہیں مضارع مبنی کے لئے اتنا ہی کافی ہے مثال ضربنَ سے یضربنَ اور ضربتُن سے تضربنَ
(مضارع میں دو صیغے مبنی ہوتے ہیں جن کے آخر پر نون نسوہ یا نون اعرابی آتا ہے یعنی جمع مونث
غائب اور حاضر )
البتہ مضارع معرب کے بارہ صیغے چونکہ معرب ہوتے ہیں تو ان کے آخر کو اعراب بھی دینا ہوتا ہے
پس ان بارہ صیغوں میں ماضی کے شروع میں عالمت مضارع لگانے کے بعد آخر کو پیش دے دیتے
ب وغیرہ
یضرب اور ضربت سے تض ِر ُ
ُ ہیں مثال ضرب سے
اگر پیش دینا ممکن نہ ہو تو اعراب کی عالمت کے لئے نون اعرابی لگا لیتے ہیں مثال ضربو سے
یضربان وغیرہ
ِ یضربون ضربا سے
-2منفی
مضارع مثبت کے شروع میں ال لگانے سے مضارع منفی بن جاتا ہے کبھی کبھی ما بھی لگا دیتے ہیں
ب -یضربون سے ال یضربونَ
یضرب سے ال یض ِر ُ
ُ مثال
-3نہی
یہاں مضارع مثبت کے شروع میں ال لگا کر آخر کو ساکن کر دیتے ہیں
-4نفی جحد بلم
یہاں مضارع مثبت کے شروع میں لم لگا کر آخر کو ساکن کر دیتے ہیں مثال لم یضرب -لم لگانے سے
معنی ماضی منفی میں ہو جاتا ہے
-5نفی تاکید بلن
یہاں مضارع مثبت کے شروع میں لن لگا کر آخر کو نصب (زبر) دے دیتے ہیں مثال لن یض ِر َب -یہ صیغہ
میں منفی اور تاکید کے معنی پیدا کرتا ہے اور مستقبل کے ساتھ خاص کر دیتا ہے
نوٹ:نفی اور نہی میں فرق کی پہچان
کسی صیغہ کا جب معنی کرتے ہیں تو اس میں یا تو خبر کا معنی ہوتا ہے یا حکم کا معنی ہوتا ہے پھر یہ
خبر یا حکم یا تو کام کرنے کے بارے ہوتا ہے یا کام نہ کرنے کے بارے میں ہوتا ہے پس گراف کے چار
کواڈرینٹ کی طرح مندرجہ ذیل چار احتماالت ہو سکتے ہیں
-1خبر کا معنی ہو کام کرنے کے ساتھ مثال تو پڑھتا ہے یا پڑھے گا (اسکو مثبت کا صیغہ کہتے ہیں)
-2خبر کا معنی ہو کام نہ کرنے کے ساتھ مثال تو نہیں پڑھتا ہے یا نہیں پڑھے گا (اسکو منفی کا صیغہ
کہتے ہیں)
-3حکم کا معنی ہو کام کرنے کے ساتھ مثال تو پڑھ (اسکو امر کا صیغہ کہتے ہیں)
-4حکم کا معنی ہو کام نہ کرنے کے ساتھ مثال تو نہ پڑھ (اسکو نہی کا صیغہ کہتے ہیں)
اب ہم اوپر وضاحت کے مطابق فعل مضارع کے ممکنہ صیغوں کے خاکے کو مندرجہ ذیل چارٹ میں
دیکھتے ہیں
تفسیر کبیر کا جامع تعارف تحریر کریں نیز اسم معرفہ اور اسم نکرہ کی تعریف کرتے ہویے کتاب میں سوال
مذکور تفسی ِر کبیر کے حصہ میں سے اسم معرفہ اور اسم نکرہ کی دس دس مثالیں واضح اعراب کے نمبر
ساتھ خوشخط تحریر کریں۔ 5۔
مفاتیح الغیب'' یعنی تفسیر کبیر کا شمار تفسیر بالرائے کے طریقہ پر لکھی گئی اہم ترین تفاسیر میں''
ہوتا ہے۔ اس کی تصنیف چھٹی صدی ہجری کے نام ور عالم اور متکلم امام محمد فخر الدین رازی (
۵۴۳ھ ۔ ۶۰۶ھ) نے شروع کی ،لیکن اس کی تکمیل سے قبل ہی ان کا انتقال ہو گیا ۔ بعد میں اس کی
تکمیل ،حاجی خلیفہ کی رائے کے مطابق قاضی شہاب الدین بن خلیل الخولی الدمشقی نے اور ابن حجر
کی رائے کے مطابق شیخ نجم الدین احمد بن محمد القمولی نے کی۔ یہ بات بھی معین طور پر معلوم نہیں
کہ تفسیر کا کتنا حصہ خود امام صاحب لکھ پائے تھے ۔ ایک قول کے مطابق سورۂ انبیا تک ،جبکہ
دوسرے قول کے مطابق سورۂ فتح تک تفسیر امام صاحب کی اپنی لکھی ہوئی ہے۔ ۱تاہم اس معاملے
میں سب سے زیادہ تشفی بخش اور مدلل نقطہ نظر االستاذ عبد الرحمن المعلمی نے اپنے مضمون ''حول
تفسیر الفخر الرازی'' میں اختیار کیا ہے۔ انھوں نے مضبوط داخلی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ تفسیر
کے درج ذیل حصے خود امام صاحب نے لکھے ہیں ،جبکہ باقی اجزا الخولی یا القمولی کے لکھے
:ہوئے ہیں
۔ سورۂ فاتحہ تا سورۂ قصص۱
۔ سورۂ صافات ،سورۂ احقاف۲
۔ سورۂ حشر ،مجادلہ اور حدید۳
۔ سورۂ ملک تا سورۂ ناس ۴۲
خصوصیات جامعیت
تفسیر کبیر کی نمایاں ترین خصوصیت ،جس کا اعتراف اکابر اہل علم نے کیا ہے ،اس کی جامعیت ہے۔
وہ جس مسئلہ پر لکھتے ہیں ،اس کے متعلق جس قدر مباحث ان سے پہلے پیدا ہو چکے ہیں ،ان سب
:کا استقصا کر دیتے ہیں۔ محمد حسین ذہبی لکھتے ہیں
رازی کی تفسیر کو علما کے ہاں عام شہرت حاصل ہے کیونکہ دوسری کتب تفسیر کے مقابلے میں''
اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں مختلف علوم سے متعلق وسیع اور بھرپور بحثیں ملتی ہیں۔ ''(التفسیر
والمفسرون)۲۹۳ /۱
:عالمہ انور شاہ صاحب کشمیری فرماتے ہیں
قرآن کریم کی مشکالت میں مجھے کوئی مشکل ایسی نہیں ملی جس سے امام رازی نے تعرض نہ کیا''
ہو ،یہ اور بات ہے کہ بعض اوقات مشکالت کا حل ایسا پیش نہیں کر سکے جس پر دل مطمئن ہوجائے۔
'' (البنوری ،محمد یوسف ،یتیمۃ البیان )۲۳
طریق تفسیر
:ہر آیت کی تفسیر میں امام صاحب کا طریقہ حسب ذیل ہے
۔ آیت کی تفسیر ،نحوی ترکیب ،وجوہ بالغت اور شان نزول سے متعلق سلف کے تمام اقوال نہایت۱
مرتب اور منضبط انداز میں پوری شرح ووضاحت سے بیان کرتے ہیں۔
۔ آیت سے متعلق فقہی احکام کا ذکر تفصیلی دالئل سے کرتے ہیں اور امام شافعی رحمہ ہللا علیہ کے۲
مذہب کو ترجیح دیتے ہیں۔
۔ متعلقہ آیات کے تحت مختلف باطل فرقوں مثالً جہمیہ ،معتزلہ ،مجسمہ وغیرہ کا استدالل تفصیل سے۳
ذکر کر کے اس کی تردید کرتے ہیں۔
ان میں سے پہلے دو امور کا ذکر اگرچہ دوسرے اہل تفسیر بھی کرتے ہیں ،لیکن یہ ذخیرہ ان میں
منتشر اور بکھرا ہوا ہے ،جبکہ تفسیر کبیر میں یہ تمام مباحث یک جا مل جاتے ہیں۔ البتہ تیسرے امر
کے اعتبار سے تفسیر کبیر اپنی نوعیت کی منفردتفسیر ہے۔
ترجیح و محاکمہ
امام صاحب نے اپنی تفسیر میں جمع اقوال پر اکتفا نہیں کی ،بلکہ دالئل کے ساتھ بعض اقوال کو ترجیح
دینے کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس سے تفسیر کے متعلقہ علوم وفنون میں ان کی دسترس کا اندازہ کیا
جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ تفسیر گویا سابقہ تفسیری ذخیرے پر ایک محاکمہ کا درجہ رکھتی ہے۔
مختلف تفسیری اقوال میں ترجیح قائم کرتے ہوئے امام صاحب بالعموم حسب ذیل اصول پیش نظر رکھتے
:ہیں
۔ اگر کسی قول کی تائید میں صحیح حدیث موجود ہو تو اس کو ترجیح دیتے ہیں۔۱
ونفخ فی الصور' کی تفسیر میں تین اقوال نقل کرتے ہیں :ایک یہ کہ صور ایک آلہ ہے ،جب اس کو'
تعالی نے دنیا کی بربادی اور اعادۂ اموات
ٰ پھونکا جائے گا تو ایک بلند آواز پیدا ہوگی ۔ اس کو خداوند
کی عالمت قرار دیا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ لفظ بفتح الواو ہے اور 'صورۃ' کی جمع ہے ۔ مراد یہ ہے کہ
''جب صورتوں میں روح پھونکی جائے گی۔'' تیسرا یہ کہ یہ ایک استعارہ ہے جس کا مقصد مردوں کا
اٹھانا اور ان کو جمع کرنا ہے۔ امام رازی نے ان اقوال میں سے پہلے قول کو اس بنا پر ترجیح دی ہے
کہ اس کی تائید میں رسول ہللا کی حدیث موجود ہے۔ ۳
۔ جو مفہوم عقل کے مطابق ہو ،اس کو راجح قرار دیتے ہیں۔۲
سورۂ نساء کی آیت 'خلقکم من نفس واحدۃ وخلق منھا زوجھا' کی تفسیر میں عام مفسرین کا خیال یہ ہے
کہ حضرت حوا علیہا السالم کو حضرت آدم علیہ السالم کی پسلی سے پیدا کیا گیا اور اس کی تائید میں
حدیث بھی موجود ہے۔ لیکن امام رازی ابو مسلم کی تفسیر کو ترجیح دیتے ہیں جن کے نزدیک اس آیت
کا مطلب یہ ہے کہ ہللا نے آدم علیہ السالم کی جنس سے ان کی بیوی کو پیدا کیا۔ امام صاحب کہتے ہیں
تعالی حضرت آدم علیہ السالم کو مٹی سے پیدا کر سکتے تھے ،اسی طرح حضرت حوا
ٰ کہ جس طرح ہللا
علیہا السالم کو بھی کر سکتے تھے ،پھر ان کو حضرت آدم علیہ السالم کی پسلی سے پیدا کرنے کی کیا
ضرورت تھی؟ ۴
:اسی طرح سورۂ کہف میں ذو القرنین کے قصہ میں ارشاد باری ہے
س َو َج َدھَا تَ ْغ ُر ُ
ب فِ ْی َع ْی ٍن َح ِم َء ٍۃ ۔ ( الکہف )۸۶ :۱۸ َح ٰتّی اِ َذا بَلَ َغ َم ْغ ِر َب ال َّ
ش ْم ِ
یہا ں تک کہ جب وہ آفتاب کے غروب ہونے کے مقام پر پہنچا تو سورج کو کیچڑ کی ایک نہر میں''
''ڈوبتے دیکھا۔
اس کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ سورج درحقیقت کیچڑ میں ڈوبتا ہے ،لیکن امام رازی کے نزدیک
یہ تفسیر بالکل عقل کے خالف ہے ،کیونکہ سورج زمین سے کئی گنا بڑا ہے اس لیے وہ زمین کی
کسی نہر میں کیسے ڈوب سکتا ہے؟ ۵
۔ جب تک کسی لفظ کا حقیقی اور معروف معنی مراد لینا ممکن ہو ،اس وقت تک اس کا مجازی یا غیر۳
معروف معنی مراد نہیں لیتے۔
مثالً حضرت نوح علیہ السالم کے واقعہ میں 'وفار التنور'کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ لفظ 'تنور' کی
تفسیر میں متعدد اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے مراد وہی تنور ہے جس میں روٹی پکائی جاتی ہے۔
دوسرا یہ کہ اس سے مراد سطح زمین ہے۔ تیسرا یہ کہ اس سے مراد زمین کا بلند حصہ ہے۔ چوتھا یہ
کہ اس سے مراد طلوع صبح ہے۔ پانچواں یہ کہ یہ محاورتا ً واقعہ کی شدت کی تعبیر ہے۔ ان اقوال کو
نقل کرنے کے بعد امام رازی لکھتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ کالم کو حقیقی معنی پر محمول کرنا چاہیے
اورحقیقی معنی کے لحاظ سے تنور اسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں روٹی پکائی جاتی ہے۔ ۶
اسی طرح 'ومن یغلل یات بما غل یوم القیامۃ'' '،جس نے مال غنیمت میں خیانت کی ،وہ اس مال کے
ساتھ قیامت کے دن حاضر ہوگا'' کی تفسیر میں دو قول نقل کرتے ہیں :ایک یہ کہ حقیقتا ً ایسا ہی ہوگا ۔
دوسرا یہ کہ اس تعبیر سے محض عذاب کی سختی بیان کرنا مقصود ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ علم قرآن
میں جو اصول معتبر ہے ،وہ یہ ہے کہ لفظ کو اس کے حقیقی معنی پر قائم رکھنا چاہیے ،اال یہ کہ کوئی
اور دلیل اس سے مانع ہو۔ یہاں چونکہ ظاہری معنی مراد لینے میں کوئی مانع نہیں اس لیے اسی کو قائم
رکھنا چاہیے۔ ۷
۔ اس قول کو مختار قرار دیتے ہیں جو کالم کی نحوی ترکیب کے وجوہ میں سے بہتر وجہ کے مطابق۴
ہو۔
سورۂ بقرہ کی آیت 'ولکن الشیاطین کفروا یعلمون الناس السحر وما انزل علی الملکین' کی تفسیر میں
مفسرین کا اختالف ہے کہ 'ما انزل' میں 'ما ' نافیہ ہے یا موصولہ ،نیز اس کا عطف 'السحر' پر ہے یا
'ما تتلوا الشیاطین'پر۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ 'ما 'کو موصولہ قرار دینا اور اس کا عطف 'السحر' پر
کرنا زیادہ بہتر ہے ،کیونکہ جو لفظ قریب ہے ،اس پر عطف کرنا بعید لفظ پر عطف کرنے سے زیادہ
مستحسن ہے۔ ۸
آیات وسور میں باہمی ربط
امام رازی قرآن مجید میں نظم کے قائل ہیں اور اپنی تفسیر میں آیات اور سورتوں کا باہمی ربط نہایت
اہتمام سے بیان کرتے ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے جو کوششیں کی ہیں ،ان کی اہمیت کے بارے میں
:دو رائیں ہیں۔ موالنا تقی عثمانی کا خیال یہ ہے
آیتوں کے درمیان ربط ومناسبت کی جو وجہ وہ بیان فرماتے ہیں ،وہ عموما ً اتنی بے تکلف ،دل نشین''
اور معقول ہوتی ہے کہ اس پر دل نہ صرف مطمئن ہو جاتا ہے ،بلکہ اس سے قرآن کریم کی عظمت کا
غیر معمولی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ ''(علوم القرآن )۵۰۴،
:جبکہ موالنا امین احسن اصالحی فرماتے ہیں
اس سلسلے میں ان کی کوششیں کچھ زیادہ مفید ثابت نہیں ہوئیں کیونکہ نظم قرآن کھولنے کے لیے''
جو محنت درکار تھی ،اس کے لیے ان کے جیسے مصروف مصنف کے پاس فرصت مفقود تھی۔''
(مبادی تدبر قرآن)
تاہم اصولی طور پر امام رازی نظم کی رعایت پر نہایت شدت سے اصرار کرتے ہیں۔ چنانچہ سورۂ حم
:السجدہ کی آیت 'ولوجعلناہ قرآنا اعجمیا لقالوا لو ال فصلت آیاتہ ' کی تفسیر میں لکھتے ہیں
لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے جواب میں اتری ہے جو ازراہ شرارت یہ کہتے تھے کہ اگر''
قرآن مجید کسی عجمی زبان میں اتارا جاتا تو بہتر ہوتا ۔ لیکن اس طرح کی باتیں کہنا میرے نزدیک کتاب
ال ٰہ ی پر سخت ظلم ہے۔ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ قرآن کی آیتوں میں باہم دگر کوئی ربط وتعلق نہیں
ہے ،حاالنکہ یہ کہنا قرآن حکیم پر بہت بڑا اعتراض کرنا ہے۔ ایسی صورت میں قرآن کو معجزہ ماننا تو
الگ رہا ،اس کو ایک مرتب کتاب کہنا بھی مشکل ہے۔ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ یہ سورہ
شروع سے لے کر آخر تک ایک مربوط کالم ہے۔ ''(التفسیرالکبیر )۱۳۳ /۲۷
:اس کے بعد اس آیت کی تفسیر لکھ کر فرماتے ہیں
ہر منصف جو انکار حق کا عادی نہیں ہے ،تسلیم کرے گا کہ اگر سورہ کی تفسیر اس طرح کی جائے''
جس طرح ہم نے کی ہے تو پوری سورہ ایک ہی مضمون کی حامل نظر آئے گی اور اس کی تمام آیتیں
ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کریں گی۔ ''(التفسیرالکبیر )۱۳۳ /۲۷
عقلی انداز
امام رازی اپنے زمانے کے عقلی اور فلسفیانہ علوم کے بلند پایہ عالم تھے ۔ مسلمانوں کے مابین پیدا
ہونے والے کالمی اختالفات اور ان کی مذہبی وعقلی بنیادوں پر ان کی گہری نظر تھی اور اسالم کے
مختلف مسائل پر یونانی فلسفہ کے زیر اثر پیدا ہونے والے اعتراضات سے بھی وہ پوری طرح آگاہ
تھے۔ چنانچہ قدرتی طور پر ان کی تفسیر پر عقلی رنگ غالب ہے اوران کی بحثوں میں ان تمام علوم کی
بھرپور جھلک دکھائی دیتی ہے جن کے مطالعہ کا موقع امام صاحب کو میسر آیا تھا۔ تفسیر کبیر میں اس
:عقلی ذوق کا اظہار حسب ذیل صورتوں میں ہوا ہے
۔ اسالمی عقائد کی براہین ودالئل سے تائید۱
امام صاحب نہ صرف اسالمی عقائد کا دفاع بڑی حمیت اور جوش سے کرتے ہیں ،بلکہ اس سلسلے میں
تعالی نے
ٰ معذرت خواہانہ رویہ کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ سورۂ سبا کی آیت ۱۲میں ذکر ہے کہ ہللا
حضرت سلیمان علیہ السالم کے لیے ہوا اور جنات کو مسخر کر دیا۔ بعض لوگوں نے اس کی تاویل یہ
کی ہے کہ ہوا سے مراد تیز رفتار گھوڑے اور جنات سے مراد طاقت ور انسان ہیں۔ امام رازی یہ قول
:نقل کر کے لکھتے ہیں
یہ بات بالکل غلط ہے۔ کہنے والے نے اس لیے کہی ہے کہ اس کا اعتقاد کمزور ہے اور اسے ہللا کی''
قدرت پر اعتماد نہیں ہے۔ ہللا تعالی ہر ممکن پر قادر ہیں اور یہ باتیں بھی ممکنات میں سے
ہیں۔''(التفسیر الکبیر)۲۵/۲۴۷
۔ اسالمی فرقوں کے کالمی جھگڑے۲
کالمی اختالفات امام صاحب کی دلچسپی کا خاص موضوع ہیں اور وہ موقع بموقع معتزلہ اور اشاعرہ
کے مابین نزاعی مسائل پر بحثیں کرتے ہیں۔ امام صاحب اشاعرہ کے گرم جوش ترجمان ہیں اور جیسا
کہ ہم آگے عرض کریں گے ،ان کی حمایت میں حدود سے تجاوز بھی کر جاتے ہیں۔
۔ دینی حقائق کی عقلی تعبیر۳
امام صاحب کا طریقہ یہ ہے کہ ایسی آیات جن میں عقل سے ماورا حقائق کا اظہار کیا گیا ہو ،عام
طریقے سے ان کی تفسیر کرنے کے بعد ان کی فلسفیانہ تعبیر بھی پیش کرتے ہیں۔
۔ ملحدین کے اعتراضات کے جوابات۴
تفسیر کبیر میں قرآنی مضامین پر ملحدین کے اعتراضات سے بکثرت تعرض کیا گیا ہے۔ ان کے جواب
میں امام صاحب یا تو مناظرانہ انداز میں ان کی تردید کرتے ہیں یا آیات کی توجیہ وتاویل کر کے ان کا
صحیح مفہوم واضح کرتے ہیں۔
۔ احکام شریعت کے اسرا ر۵
تفسیر کبیر میں بہت سے مقامات پر شرعی احکام کے اسرار اور ان کی حکمتیں بھی زیر بحث آئی ہیں۔
کتاب کے عمومی مزاج کے تحت ان کی توضیح میں بھی فلسفیانہ ذوق غالب ہے۔
اسرائیلیات
تفسیر بالروایت کے طریقے پر لکھی گئی کتب تفسیر میں ایک بڑا حصہ اسرائیلی روایات کا ہے۔ قرآن
مجید میں امم سابقہ یا رسول ہللا کے زمانہ کے جن واقعات واحوال کا اجماالً تذکرہ ہوا ہے ،ان کی
تفصیالت مہیا کرنے کے شوق میں غیر محتاط مفسرین نے بے سروپا روایات کا ایک انبار لگا دیا ہے۔
یہ روایات بالعموم روایت کے معیار کے لحاظ سے ناقابل استناد اور عقل ودرایت کے اعتبار سے بالکل
بے تکی ہیں۔ اسی لیے محقق مفسرین نے ان کو اپنی تفسیروں میں جگہ دینے سے گریز کیا ہے ۔ امام
رازی کا طریقہ بھی اس سلسلے میں احتیاط پر مبنی ہے۔
:اسرائیلی روایات ،درحقیقت ،دو طرح کی ہیں
بعض ایسی ہیں کہ ان میں واردتفصیالت قرآن وسنت کے مسلمات سے تو نہیں ٹکراتیں ،لیکن فہم قرآن
کے حوالے سے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں امام رازی ان کو نقل تو کرتے ہیں ،
لیکن ان کی تردید یا تائید کیے بغیر یہ کہہ کر گزر جاتے ہیں کہ ان سے اعتنا کرنا ایک بے کار کام ہے ،
کیونکہ یہ تفسیر کے اصل مقصد کے لحاظ سے کارآمد نہیں ہیں۔
حضرت آدم علیہ السالم کو جنت میں جس درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا ،اس کی تعیین میں
تفسیری روایات مختلف ہیں۔ بعض کے مطابق یہ گیہوں کا درخت تھا ،بعض کے نزدیک انگور اور بعض
کے ہاں انجیر کا۔ امام رازی ان روایات کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کے ظاہر الفاظ
سے اس درخت کی تعیین نہیں ہوتی ،اس لیے ہم کو بھی اس تعیین کی ضرورت نہیں ،کیونکہ اس قصہ
کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم کو متعین طور پر اس درخت کا علم ہو۔ جو چیز کالم کا اصل مقصود نہیں
ہوتی ،اس کی توضیح بعض اوقات غیر ضروری ہوتی ہے۔ ۹
قرآن مجید میں مذکور قیامت کی عالمات میں ایک عالمت دابۃ االرض کا نکلنا بھی ہے۔ مفسرین نے اس
جانور کے حجم ،اس کی خلقت اور اس کے نکلنے کے طریقے کے متعلق بے شمار روایات اکٹھی کی
ہیں ،لیکن امام رازی فرماتے ہیں کہ قرآ ن مجید سے ان میں سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی ،اس لیے
اگر ان کے متعلق رسول ہللا سے کوئی حدیث مروی ہو تو وہ قبول کر لی جائے گی ،ورنہ وہ ناقابل
التفات قرار پائے گی۔ ۱۰
اسی طرح حضرت نوح علیہ السالم کی کشتی کی ساخت اور اس کی لمبائی چوڑائی کے متعلق مختلف
تفسیری اقوال نقل کر کے لکھتے ہیں کہ اس قسم کی بحثیں مجھے اچھی نہیں لگتیں ،کیونکہ ان کا علم
غیر ضروری ہے اور اس سے کوئی فائدہ نہیں اور ان میں غور و فکر کرنا فضول ہے ،بالخصوص
ایسی حالت میں جبکہ ہم کو یقین ہے کہ اس جگہ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو صحیح جانب پر داللت
کرے۔ ۱۱
دوسری قسم ان روایات کی ہے جوقرآن وسنت کے مسلمات کے صریح معارض اور ان کی بنیاد کو ڈھا
دینے والی ہیں۔ ایسی روایات بالعموم بعض انبیا سابقین کے واقعات کے تحت نقل ہوئی ہیں۔ تمام محقق
مفسرین نے ان کی تردید کی ہے ،چنانچہ امام رازی نے بھی حسب ذیل روایات کو بے اصل قرار دیا ہے
:
واقعہ ہاروت وماروت کے ضمن میں مروی روایات جن کے مطابق یہ دونوں فرشتے تھے جو زمین پر
بھیجے گئے اور ایک عورت کے ساتھ بدکاری کی خواہش میں بت پرستی ،شراب نوشی اور قتل کے
مرتکب ہوئے۔ ۱۲
سورۂ اعراف کی آیت ۲۴کے الفاظ 'فلما آتاھما صالحا جعال لہ شرکاء فی ما آتاھما' کے تحت مروی
روایت جس میں ذکر ہے کہ اس آیت میں حضرت آدم علیہ السالم اور حضرت حوا علیہا السالم کا ذکر ہے
جنھوں نے ابلیس کے ورغالنے میں آکر اپنے بیٹے کا نام عبد الحارث رکھ دیا۔ ۱۳
حضرت یوسف علیہ السالم کے واقعہ کے ضمن میں مروی روایت جس کے مطابق حضرت یوسف علیہ
تعالی نے حضرت جبرئیل علیہ السالم کو بھیجا جنھوں نے ان
ٰ السالم آمادۂ گناہ ہو گئے تھے جس پرہللا
کو دھکیل کر ہٹایا اور وہ بالکل ناکارہ ہو گئے۔ ۱۴
حضرت داؤد علیہ السالم کے واقعہ کے تحت مروی روایات جن کے مطابق حضرت داؤد علیہ السالم
اوریا کی بیوی پر فریفتہ ہو گئے اور اس کے خاوند کو قتل کرا کے اس سے نکاح کر لیا۔ ۱۵