You are on page 1of 10

Submitted To: Sir Abdur Rahman

Submitted by: Muhammad Abdur


Rehman
Assignment #: 1
Date: 5/29/2020
REG NO#: 13384
‫‪RIPHAH INTERNATIONAL‬‬
‫‪UNIVERSITY‬‬
‫تدوین قرآن مجید ایک تحقیقی جائزہ‬
‫ِ‬ ‫‪ ‬‬

‫تعالی کی آخری کتاب ےہ‪ ،‬جو آخری نبی جناب محمد رسول ہللا ﷺ پر نازل‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫‪”    ‬قرآن مجید “‬
‫دستور کہن ےہ جو ہمارے‬ ‫ِ‬ ‫ہوئی ےہ‪ ،‬قیامت تک کوئی اور کتاب نازل نہ ہوگی‪ ،‬یہ زندگی کا وہی‬
‫ً‬
‫آبائے اولین کو مال تھا‪ ،‬اس میں اصوال اسی کا اعادہ اور عہد کی تجدید ےہ‪ ،‬یہ خدائی عطیہ‪ ،‬ہمارا‬
‫مشترکہ روحانی ترکہ ےہ‪ ،‬جو منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ےہ‪ ،‬اسے دوسری آسمانی کتابوں کا‬
‫ادنی تغیر و تبدل کے‬ ‫آخری اور دائمی ایڈیشن بھی کہا جا سکتا ےہ۔ ابتدائے نزول سے آج تک بال کسی ٰ‬
‫سر مو کوئی فرق نہیں آیا‪ ،‬ایک ملحہ کے لےی نہ تو قرآن مسلمانوں سے جدا ہوا اور نہ‬ ‫باقی ےہ‪ ،‬اس میں ِ‬
‫َ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫مسلمان قرآن سے جدا ہوئے‪ ،‬اس میں باطل کے در آنے کی کوئی گنجائش نہیں ےہ‪ ” :‬ال یأ ِت ْی ِہ الب ِ‬
‫اط ُل ِمن‬
‫َْ‬ ‫اَل‬
‫َب ْی َن َی َد ْی ِہ َو ِم ْنخل ِفہ “(حم سجدہ)‬

‫‪(                ‬ترجمہ‪ ):‬قرآن مجید میں باطل نہ تو سامےن سے آ سکتا ےہ اور نہ ہی اس کے‬


‫پیچھے سے۔‬

‫‪                ‬آسمانی کتابوں میں قرآن مجید ہی کو یہ خصوصیت بھی حاصل ےہ کہ یہ قیامت تک‬
‫تعالی نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ےہ‪ ،‬ایک جگہ بڑے ذور‬‫ٰ‬ ‫اپنی اصل حالت پر رےہ گا‪ ،‬خود ہللا‬
‫َ‬ ‫َّ َ ْ ُ َ َّ ْ َ ّ ْ َ َ َّ َ ُ َ َ ُْ‬
‫الذکر و ِانا لہ لحا ِفظون(حجر‪)۹ ‬‬‫دار انداز میں ارشاد فرمایا‪ِ  :‬انا نحننزلنا ِ‬
‫‪(                ‬ترجمہ‪ ):‬ہم نے ہی ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ےہ اور ہم ہی اس کی حفاظت‬
‫کریں گے۔‬

‫‪                ‬صرف الفاظ نہیں؛ بلکہ معانی و مطالب کی تشریح و توضیح کی ذمہ داری بھی خود ہللا‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫تعالی نے لی ےہ‪ ،‬ایک جگہ ارشاد ےہ‪ ” :‬ث َّم ِا َّن َعل ْی َنا َب َیانہ‪( “‬ترجمہ) پھر ہم پر ہی اس کا بیان‬
‫ٰ‬
‫(بھی) ہے۔‬
‫‪                ‬قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا‪ ،‬کبھی ایک آیت‬
‫کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں‪ ،‬نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ تھی‪ ،‬یہ سلسلہ پورے‬
‫حیاتمبارکہ کے آخری ملحات تک جاری رہا؛ اس لےی‬ ‫ِ‬ ‫عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول ہللا ﷺ کی‬
‫آپ ﷺ کے سامےن آج کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل؛ بلکہ ناممکن تھا‪ ،‬ہاں! یہ بات‬
‫ضرور ےہ کہ ہر آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی ہللا علیہ وسلم لکھوا لیےت تھے اور زمانہ کے لحاظ سے‬
‫نہایت ہی پائدار چیز پر لکھواتے تھے؛ چناں چہ پورا قرآن مجید بال کسی کم و کاست کے لکھا ہوا‪ ،‬آپ‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کے حجرہٴ مبارکہ میں موجود تھا‪ ،‬اس میں نہ تو کوئی آیت لکھےن سے رہ گئی تھی‬
‫اور نہ ہی کسی کی ترتیب میں کوئی کمی تھی؛ البتہ سب سورتیں الگ الگ تھیں‪ ،‬اور متعدد چیزوں پر‬
‫لکھی ہوئی تھیں‪ ،‬کتابی شکل میں جلد سازی اور شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی‪:‬‬
‫ُ ُ ُّ‬
‫ض ٍع واح ٍد۔‬‫مجموع في َمو ِ‬
‫ٍ‬ ‫القرآنکلہ‪ ‬مکتوبا ً فی َع ْہ ِدہ صلی ہّٰللا علیہ وسلم لکن غی َر‬ ‫‪            ‬قد کان‬
‫دوین قرآن ص‪)۴۳ ‬‬ ‫(الکتابي ج‪۲ ‬ص‪ ۳۸۴ ‬بحوالہ ت‪ِ C‬‬
‫‪(                ‬ترجمہ‪ ):‬پورا قرآن مجید رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھا ہوا‬
‫تھا؛ لیکن ایک جگہ جمع نہیں تھا۔‬

‫‪                ‬حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے کتابی شکل میں جمع کرایا اور حضرت‬
‫عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے اس کی محقق نقلیں تیار کرکے ہر طرف پھیالیا؛ بلکہ پوری‬
‫امت کو اس پر جمع کیا۔ آج تک قرآن مجید اسی کے مطابق موجود ہے۔‬

‫نزول قرآن‬
‫علمائے اسالم کا نزول قرآن کی کیفیت میں اختالف ہے کہ آیا وہ ایک ہی بار میں مکمل نازل ہوا یا بتدریج‬
‫اترا۔ بعض آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک ہی دفعہ‪ C‬میں نازل ہوا جبکہ کچھ آیتیں بتدریج نزول کو‬
‫بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ اس اختالف کو یوں رفع کیا گیا کہ نزول قرآن کے متعدد مراحل طے کیے گئے‬
‫جو حسب ذیل ہیں‪:‬‬

‫پہلے مرحلے میں قرآن‪ ‬لوح محفوظ‪ ‬پر نازل ہوا۔ اس نزول کا مقصد یہ تھا کہ اسے لوح محفوظ میں ثبت‬
‫اور قرآن کو ناقابل تغیر کر دیا جائے۔[‪ ]56‬اس نزول کی دلیل قرآن سے اخذ کی گئی ہے‪    ‬بَلْ ه َُو قُرْ ٌ‬
‫آن‬
‫[ا]‬
‫ح َّمحْ فُو ٍظ‪ ‬‬
‫‪ ‬فِي لَوْ ٍ‬ ‫َّم ِجي ٌد‪ ‬‬
‫لوح محفوظ سے آسمان میں موجود ایک مقام‪ ‬بیت العزت‪ ‬میں‪ ‬شب قدر‪ ‬کو نازل ہوا۔ اس کی دلیل قرآن کی‬
‫ار َك ٍة إِنَّا ُكنَّا ُمن ِذ ِرينَ ‪[    ‬ب]‪   ،‬إِنَّا أَنزَ ْلنَاهُ فِي لَ ْيلَ ِة ْالقَ ْد ِر‪[    ‬پ]۔ درج‬
‫یہ آیتیں ہیں‪   ‬إِنَّا أَنزَ ْلنَاهُ فِي لَ ْيلَ ٍة ُّمبَ َ‬
‫ذیل حدیثیں بھی اس کی دلیل ہیں‪ :‬عبد ہللا بن عباس‪ ‬سے مروی ہے‪ ،‬فرماتے ہیں کہ "قرآن کو لوح محفوظ‬
‫سے نکال کر آسمان دنیا کے ایک مقام بیت العزت پر اتارا گیا‪ ،‬جہاں سے جبریل پیغمبر پر لے جایا کرتے‬
‫تھے"۔[‪ ]57‬ابو شامہ مقدسی نے اپنی کتاب‪ ‬المرشد والوجيز‪ C‬عن هذا النزول‪ ‬میں لکھا ہے‪" :‬علما کی ایک‬
‫جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں ایک ہی رات کو مکمل نازل ہوا اور جبریل‬
‫نے اسے یاد کر لیا۔ کالم الہی کی ہیبت سے آسمان والے غش کھا گئے‪ ،‬جب جبریل کا ان پر سے گزر ہوا‬
‫تو انہیں ہوش آیا اور کہنے لگے‪َ    :‬واَل تَنفَ ُع ال َّشفَا َعةُ ِعن َدهُ إِاَّل لِ َم ْن أَ ِذنَ لَهُ َحتَّى إِ َذا فُ ِّز َع عَن قُلُوبِ ِه ْم قَالُوا َما َذا‬
‫‪[  ‬ت]۔ بعد ازاں جبرئیل نے کاتب فرشتوں‪ C‬کو اس کا امال کرایا‪،‬‬ ‫ق َوهُ َو ْال َعلِ ُّي ْال َكبِي ُر‪ ‬‬
‫قَا َل َربُّ ُك ْم قَالُوا ْال َح َّ‬
‫[ٹ][‪]58‬‬
‫‪ ‬‬ ‫چنانچہ قرآن میں مذکور‪ C‬ہے‪   :‬بِأ َ ْي ِدي َسفَ َر ٍة‪ ‬‬

‫بیت العزت سے جبریل نے بتدریج قلب پیغمبر پر اتارا‪ ،‬نزول قرآن کا یہ مرحلہ تیئیس برس کے عرصہ‬
‫‪[  ‬ث]۔ تمام آسمانی‪ C‬کتابوں میں‬ ‫پر محیط ہے۔ قرآن میں ہے‪    :‬قَا َل َكاَّل فَ ْاذهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا َم َع ُكم ُّم ْستَ ِمعُونَ ‪ ‬‬
‫ال الَّ ِذينَ َكفَرُوا لَوْ اَل نُ ِّز َل‬
‫قرآن واحد کتاب ہے جو بتدریج نازل ہوئی‪ ،‬چنانچہ قرآن میں مذکور‪ C‬ہے‪َ    :‬وقَ َ‬
‫‪[  ‬ج]۔ علما نے قرآن کے بتدریج نزول کی‬ ‫َك َو َرتَّ ْلنَاهُ تَرْ تِياًل ‪ ‬‬ ‫َعلَ ْي ِه ْالقُرْ آنُ ُج ْملَةً َو ِ‬
‫اح َدةً َك َذلِكَ لِنُثَبِّتَ بِ ِه فُؤَاد َ‪C‬‬
‫درج ذیل حکمتیں بیان کی ہیں‪:‬‬

‫کفار کی مخالفت‪ ،‬اذیت رسانی‪ C‬اور سخت کشیدہ حاالت میں پیغمبر محمد کی دل بستگی‪ ،‬سورہ فرقان میں‬
‫ك لِنُثَبِّتَ بِ ِه فُؤَادَكَ َو َرتَّ ْلنَاهُ تَرْ تِياًل ‪[    ‬چ]۔‬
‫ال الَّ ِذينَ َكفَرُوا لَوْ اَل نُ ِّز َل َعلَ ْي ِه ْالقُرْ آنُ ُج ْملَةً َوا ِح َدةً َك َذلِ َ‬
‫ہے‪َ    :‬وقَ َ‬
‫آیت "ورتلناہ ترتيالً" میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ قرآن کے بتدریج نزول کا مقصد اس کے یاد‬
‫رکھنے اور سمجھنے میں سہولت بہم پہنچانا ہے۔‬

‫مشرکین کے پیش کردہ شبہات کا رد اور ان کے دالئل کا یکے بعد دیگرے اِبطال‪َ    :‬واَل يَأْتُونَكَ بِ َمثَ ٍل إِاَّل‬

‫‪[  ‬ح]۔‬ ‫ق َوأَحْ َسنَ تَ ْف ِسيرًا‪ ‬‬


‫ك بِ ْال َح ِّ‬
‫ِج ْئنَا َ‬

‫پیغمبر محمد اور ان کے ساتھیوں‪ C‬کے لیے قرآن کا یاد رکھنا اور اسے سمجھنا آسان ہو۔‬

‫احکام قرآن کے نفاذ میں آسانی فراہم‪ C‬کرنا۔ انسان کے لیے یہ آسان نہیں ہوتا کہ جن رسوم‪ C‬و رواج اور‬
‫عادتوں میں وہ برسوں اور صدیوں سے جکڑا ہوا ہے انہیں دفعتا ً چھوڑ دے‪ ،‬مثالً‪ ‬شراب پینا۔‬

‫حسب ضرورت احکام کا نزول‪ ،‬یعنی بسا اوقات صحابہ‪ C‬کسی پیش آمدہ صورت‪ C‬حال پر حکم الہی جاننا‬
‫چاہتے تو اس وقت متعلقہ آیت نازل ہوتی۔‪C‬‬
‫بتدریج نزول قرآن کی مقدار کا تذکرہ‪ ‬احادیث‪ ‬میں ملتا ہے کہ جب جتنی ضرورت ہوتی اتنا نازل ہوتا۔ نیز‬
‫تاریخ قرآن کو دو ادوار میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہال دور عہد نبوی کا جس میں قرآن کا‪ ‬وحی‪ ‬کے‬
‫ذریعہ نزول ہوا اور دوسرا‪ C‬دور‪ C‬خلفائے راشدین‪ ‬کا جس میں قرآن کو ایک‪ ‬مصحف‪ C‬میں یکجا کرکے‬
‫محفوظ کر دیا گیا۔‬

‫سورتیں اور آیات‬


‫قران ‪ 114‬سورتوں پر مشتمل ہے جو طوالت میں یکسر مختلف ہیں۔[‪ ]78[]77‬پھر یہ سورتیں آیا‬
‫مکی ہیں یا مدنی ہیں۔‪ ‬مکی سورہ‪ ‬وہ کہالتی ےہ جو‪ ‬ہجرت مدینہ‪ ‬سے قب‪C‬ل‪ C‬نازل ہ‪C‬و‪C‬ئی۔‪ C‬ان سورتوں‬
‫میں عموما عقیدہ‪ ،‬توحید اور اس کی دالئل کے مضمون شامل ہیں۔ یہ کل ‪ 86‬سورتیں ہیں۔[‪ ]77‬مدنی‬
‫سورہ‪ ‬وہ ےہ جو ہجرت مدینہ کے بعد‪ ‬مدینہ منورہ‪ ‬میں نازل ہوئی۔ ان سورتوں میں عموما شریعت‪،‬‬
‫احکام اور‪ ‬حالل‪ ‬و‪ ‬حرام‪ ‬کے مضمون موجود ہیں۔ یہ کل ‪ 28‬سورتیں ہیں۔[‪ ]77‬تالوت کی آسانی کے لئے‬
‫علما نے ان سورتوں کی ‪ 3‬اقسام کی ہیں۔ طوال مفصل یعنی‪ ‬سورہ بقرہ‪ ،‬وآل عمران‪ ،‬والنساء‪،‬‬
‫واملائدہ‪ ،‬واالنعام‪ ،‬واالعراف‪ ،‬وبراءة۔ وسميت بالطوال لطولها‪ ،‬والطوال جمع طولى۔[‪]79‬۔‪ C‬اوسا‪C‬ط‪C‬‬
‫م‪C‬فصل جو طوال م‪C‬فصل‪ ،‬یہ وہ سورتیں ہیں جن میں ت‪C‬قریبا ً ‪ 100‬آیتیں ہیں۔[‪ ]79‬تیسری قسم ےہ‬
‫[‪]79‬‬
‫قصار مفصل جس میں تمام چھوٹی سورتیں شامل ہیں جو اوساط مفصل میں نہیں ہیں۔‬

‫قرآن کی زبان‬
‫قرآن کی زبان فصیح عربی ےہ جسے آج بھی ادبی مقام حاصل ےہ اور باوجودیکہ عربی کے کئی لہجے‬
‫(مصری‪ ،‬مراکشی‪ ،‬لبنانی‪ ،‬کویتی وغیرہ) پیدا ہو چکے ہیں‪ ،‬قرآن کی زبان کو ابھی تک‬
‫عربی کے لےی ایک معیار کی حیثیت حاصل ےہ۔ عربی کے بڑے بڑے عالم جن میں غیر مسلم بھی شامل‬
‫ہیں قرآن کی فصیح‪ ،‬جامع اور انسانی نفسیات سے قریب زبان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اتنی‬
‫بڑی کتاب ہونے کے باوجود اس میں کوئی گرامر کی غلطی بھی موجود نہیں۔ بلکہ عربی حروف ابجد کے‬
‫مد نظر رکھا جائے تو قرآن میں ایک جدید تحقیق کے مطابق جو ڈاکٹر‬ ‫لحاظ سے اگر ابجد کے اعداد کو ِ‬
‫راشد الخلیفہ نے کمپیوٹر (کمپیوٹر) پر کی ےہ‪ ،‬قرآن میں باقاعدہ ایک حسابی نظام موجود ےہ جو‬
‫کسی انسان کے بس میں نہیں۔ قرآن میں قصے بھی ہیں اور‪ ‬تاریخی واقعات‪ ‬بھی‪ ،‬فلسفہ بھی ملے گا اور‬
‫منطق بھی‪ ،‬پیچیدہ سائنسی باتیں بھی ہیں اور عام انسان کی زندگی گذارنے کے طریقے بھی۔ جب قرآن‬
‫نازل ہوا اس وقت جو عربی رائج تھی وہ بڑی فصیح تھی اور اس زمانے میں شعر و ادب کو بڑی‬
‫اہمیت حاصل تھی ٰلھذا یہ ممکن نہیں کہ قرآن میں کوئی غلطی ہوتی اور دشمن اس کے بارے میں بات‬
‫نہ کرتے۔ بلکہ قرآن کا دعوہ تھا کہ اس جیسی ایک آیت بھی بنا کر دکھا دیں مگر اس زمانے‬
‫کے لوگ جو اپنی زبان کی فصاحت اور جامعیت کی وجہ سے دوسروں کو عجمی (گوں گا)‬
‫کہتے تھے‪ ،‬اس بات میں کامیاب نہ ہو سکے۔‬

‫قرآن کی پہلی اور آخری آیت‬


‫قرآن مجید کی پہلی آیت‪: ‬‬

‫” (اے حبیب!) اپےن رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس‬
‫ّ‬
‫رحممادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھیئے‬ ‫نے انسان کو ( ِ‬
‫اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ےہ۔ جس نے قلم کے ذریعے (لکھےن پڑھےن کا) علم‬
‫سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے عالوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا‬
‫“‬ ‫[‪]80‬‬
‫تھا۔‬

‫قرآن مجید کی آخری آیت‪ : ‬۔ اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو‪ ،‬جبکہ تم ہللا کی طرف‬
‫واپس ہوگے‪ ،‬وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے‬
‫[‪]81‬‬
‫گا اور کسی پر ظلم ہر گز نہ ہوگا۔‬

‫قرآن میں موجود حروف مقطعات‬

‫حروف مقطعات‪( ‬عربی‪ :‬مقطعات‪ ،‬حواميم‪ ،‬فواتح) قرآن مجی‪C‬د‪ C‬کیبعضآیات کےشروعمیں آتےہیں‬
‫اور الگ الگ پڑھے جاتے ہیں‪ ،‬ان کو‪ ‬آیات مقطعات‪ ‬اور ان حروف کو‪ ‬حروف مقطعات‪ ‬کہا جاتا ےہ‪،‬‬
‫ال‪ ‬الم۔‪ C‬یہ قرآن کیانتیس سورتوں کےآغازمیں آتےہیں۔‪ C‬یہ کل چودہ‪ C‬حروفہیں‪ ‬ا‪ ،‬ل‪ ،‬م‪ ،‬ص‪ ،‬ر‪،‬‬ ‫مث ً‬
‫ک‪ ،‬ہ‪ ،‬ی‪ ،‬ع‪ ،‬س‪ ،‬ج‪ ،‬ق‪ ،‬ن۔ مسلمان علما کا متفقہ نظریہ ےہ کہ ان کا حقیقی مطلب ہللا ہی کو‬
‫معلوم ےہ۔ مقطعات کا لفظی مطلب قطع شدہ‪ ،‬ٹکڑے‪ ،‬کترنیں کے ہیں۔ بعض علما کے مطابق یہ عربی‬
‫الفاظ کے اختصارات ہیں اور بعض علما کے مطابق یہ کچھ رمز (‪ )code‬ہیں۔[‪ ]82‬یہ حروف ‪29‬‬
‫ٰ‬
‫الشوری‪ ( ‬سورۃ کا شمار‪ )42 :‬کی دوسری آیت کے‬ ‫سورتوں کی پہلی آیت کے طور پر ہیں اور‪ ‬سورۃ‬
‫طور پر بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ ایک سے پانچ حروف پر مشتمل ‪ 30‬جوڑ (‪ )combinations‬ہیں۔ جو‬
‫‪ 29‬سورتوں کے شروع میں قرآن میں ملتے ہیں۔‬

‫مکی و مدنی سورتوں کی تعریف اور وجہ تسمیہ‬


‫واضح رہے کہ قرآن کریم کی سورتیں دو قسم کی ہیں‪ ،‬بعض سورتیں مکی ہیں اور بعض مدنی ہیں۔‬
‫سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے کا کیا معیار وضابطہ ےہ؟ اس حوالے سے مفسرین کرام کے تین اقوال‬
‫ہیں‪:‬‬

‫‪ -1‬بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جو سورتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں وہ سورتیں مکی‬
‫ہیں اور جو سورتیں مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں وہ سورتیں مدنی ہیں‪ ،‬گویا مکی و مدنی‬
‫مکان نزول کے ہے۔‬
‫ِ‬ ‫سورتوں کی وجہ تسمیہ باعتبار‬

‫‪ -2‬مفسرین کی ایک دوسری جماعت کی رائے یہ ےہ کہ جن سورتوں میں اہل مکہ سے‬
‫اہل مدینہ سے ےہ وہ‬
‫خطاب کیا گیا ےہ وہ سورتیں مکی ہیں اور جن سورتوں میں خطاب ِ‬
‫سورتیں مدنی ہیں‪ ،‬ان کے نزدیک گویا وجہ تسمیہ میں مخاطب کا اعتبار کیا گیا ہے۔‬

‫‪ -3‬مفسرین کا تیسرا قول جو زیادہ مشہور اور راجح ےہ وہ یہ ےہ کہ جو سورتیں رسول ہللا ﷺ کے‬
‫مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے پہلے نازل ہوئیں تھی وہ سورتیں مکی ہیں اور جو سورتیں ہجرت کے بعد‬
‫نازل ہوئیں وہ سورتیں مدنی ہیں‪ ،‬اس تعریف کے اعتبار سے وجہ تسمیہ میں قرآن کریم کے زمانہ نزول‬
‫کا اعتبار کیا گیا ےہ۔ ٰلہذا سورہ فتح‪  ‬جو صلح حدیبیہ سے واپسی کے سفر میں نازل ہوئی‪  ‬اور سورہ‬
‫توبہ کی بہت سی آیات جو غزوہ تبوک کے سفر میں نازل ہوئیں یہ سب مدنی ہیں‪ ،‬اگرچہ یہ آیات یا‬
‫سورتیں مدینہ منورہ میں نازل نہیں ہوئیں۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آخری آیات بعض روایات کے‬
‫ﷺ‬ ‫آپ‬ ‫اور‬ ‫ﷺ‬ ‫آپ‬ ‫تحفہ‬
‫بطور‬
‫ِ‬ ‫مطابق معراج کے موقع پر‬
‫کی امت کو عطا کی گئیں‪ ،‬جو نہ مکہ میں نازل ہوئیں نہ مدینہ میں‪ ،‬لیکن قبل از ہجرت‬
‫نزول کی وجہ سے یہ آیات مکی کہالتی ہیں۔‬

‫مکی سورتوں کی تعداد جس پر سب کا اتفاق ہے‪:‬‬


‫سورہ بقرہ‪،‬سورہ مائدہ‪،‬سورہ نور‪،‬سورہ فتح‪،‬سورہ جمعہ‪،‬سورہ مجادلہ‪،‬سورہ‬ ‫‪)1‬‬
‫تحریم‪،‬سورہ آل عمران‪،‬سورہ انفال‪،‬سورہ احزاب‪،‬سورہ حجرات‪،‬سورہ حشر‪،‬‬
‫سورہ منافقون‪،‬‬ ‫‪)2‬‬
‫سورہ نصر‪،‬‬ ‫‪)3‬‬
‫سورہ نساء‪،‬‬ ‫‪)4‬‬
‫سورہ توبہ‪،‬‬ ‫‪)5‬‬
‫سورہ محمد‪،‬‬ ‫‪)6‬‬
‫سورہ حدید‪،‬‬ ‫‪)7‬‬
‫سورہ ممتحنہ‪،‬‬ ‫‪)8‬‬
‫سورہ طالق‬ ‫‪)9‬‬

‫وہ سورتیں جن کے مکی اور مدنی ہونے میں اختالف ےہ [جن میں سے بعض کے بارے میں کہا گیا ےہ کہ‬
‫دو بارنازل ہ‪C‬و‪C‬ئی ہیں[‪:]]2‬‬

‫سورہ فاتحہ‪،‬‬ ‫‪.1‬‬


‫سورہ صف‪،‬‬ ‫‪.2‬‬
‫سورہ رعد‪،‬‬ ‫‪.3‬‬
‫سورہ تغابن‪،‬‬ ‫‪.4‬‬
‫سورہ رحمن‪،‬‬ ‫‪.5‬‬
‫سورہ مطففین‪،‬‬ ‫‪.6‬‬
‫سورہ قدر‪،‬‬ ‫‪.7‬‬
‫سورہ بینہ‪،‬‬ ‫‪.8‬‬
‫سورہ زلزال‪،‬‬ ‫‪.9‬‬
‫سورہ اخالص‪،‬‬ ‫‪.10‬‬
‫سورہ فلق‪،‬‬ ‫‪.11‬‬
‫سورہ ناس۔‬ ‫‪.12‬‬
‫[‪]3‬‬
‫اس حساب سےقرآن‪ ‬کی باقی ماندہ سورتیں مکی محسوب ہوتی ہیں جن کی تعداد ‪ 82‬ہے۔‬

‫مکی اور مدنی سورتوں خصوصیات[ترمیم]‬


‫مکی سورتوں کی خصوصیات[ترمیم]‬

‫آیات سجدہ‪ ‬ان سورتوں میں مندرج ہیں؛‬ ‫‪.1‬‬


‫جس سورت میں لفظ " کاّل [=ہرگز]" آیا ہے وہ مکی ہے؛‬ ‫‪.2‬‬
‫جن سورتوں کا آغاز‪ ‬حروف مقطعہ‪ /‬حروف تہجی ـ جیسے‪ :‬الم‪ ،‬الر‪ ،‬طسم‪ ،‬حم‪،‬‬ ‫‪.3‬‬
‫"ق" اور "‌ن" وغیرہ‪ ،‬ـ سے ہوتا ہے وہ مکی ہیں؛‬
‫مکی سورتیں چھوٹی ہیں؛‬ ‫‪.4‬‬
‫مکی آیات کی تاکید زیادہ تر‪ ‬توحید‪ ‬اور یکتا پرستی اور معاشرے کے بت پرستی‬ ‫‪.5‬‬
‫اور‪ ‬شرک‪ ‬سے پاک کرنے جیسے موضوعات پر ہے؛‬
‫ان آیات میں کم ہی کوئی قانون سازی ہوئی ےہ اور کم ہی شرعی احکام وضع‬ ‫‪.6‬‬
‫ہوئے ہیں؛‬
‫ان آیات میں‪ ‬انبیاء‪ ‬کے حاالت زندگی اور ان کے قصص کو زیادہ توجہ دی‬ ‫‪.7‬‬
‫گئی ہے؛‬
‫اس دور کی آیات حیرت انگیز اعجاز و بالغت سے بہرہ ور ہیں؛‬ ‫‪.8‬‬
‫ان سورتوں میں خاص قسم کے خطابات ـ جیسے "‌یا بنی آدم" اور "یا ایہا‬ ‫‪.9‬‬
‫[‪]7‬‬
‫الناس‌" ـ پائے جاتے ہیں۔‬
‫مدنی سورتوں کی خصوصیات[ترمیم]‬

‫فرائض اور حدود کو ان سورتوں میں بیان کیا گیا ہے؛‬ ‫‪.1‬‬
‫مدنی سورتیں طویل ہیں؛‬ ‫‪.2‬‬
‫بڑی اور طویل آیتوں کی حامل ہیں؛‬ ‫‪.3‬‬
‫شہری‪ ،‬عدلی‪ ،‬معاشرتی اور حکومتی قوانین نیز جنگ و صلح کے قوانین‬ ‫‪.4‬‬
‫مدنی آیات کی اہم ترین خصوصیت سمجھے جاتے ہیں؛‬
‫یہ آیات "‌یا ایہا الذین آمنوا" جیسے خطاب کی حامل ہیں؛‬ ‫‪.5‬‬
‫ان آیات میںاہل کتاب‪ ‬کے فاسد عقائد کی تشریح ہوئی ےہ اور ان کو اسالم کی‬ ‫‪.6‬‬
‫دعوت کے مسئلے پر تاکید ہوئی ہے؛‬
‫منافقین‪ ‬کے حاالت اور اقدامات کا بیان اور ان کے سامےن مسلمانوں اور‪ ‬پیغمبر‬ ‫‪.7‬‬
‫اسالم(ص) کا موقف بھی ان آیات کی خصوصیات میں سے ہے۔‬
‫یہ خصوصیات کی نوعیت قطعی اور ‪ 100‬فیصد نہیں ےہ اور ہر خصوصیت کے لےی ایک استثناء کا‬
‫پایا جانا بھی ممکن ےہ۔ مثال کے طور پر‪ ‬سورہ بقرہ‪ ‬میں‪ ‬حضرت آدم(ع) کا قصہ بیان ہوا لیکن یہ‬
‫سورت مکی نہیں ےہ؛ حاالنکہ مندرجہـ باال قواعد کے مطابق اس کو مکی ہونا چاہےی تھا؛ اور سورہ‬
‫نصربا وجود اس کےمجموعیطورپر بھیچھوٹیہےاوراس کیآیتیں بھیچھوٹیہیں‬
‫اور مکی آیات سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ےہ لیکن مکی نہیں ےہ بلکہ مدینہ میں نازل‬
‫[‪]8‬‬
‫ہوئی ہے۔‬

You might also like