Professional Documents
Culture Documents
Abdurehman Life & Living
Abdurehman Life & Living
تعالی کی آخری کتاب ےہ ،جو آخری نبی جناب محمد رسول ہللا ﷺ پر نازل ٰ ہللا
” قرآن مجید “
دستور کہن ےہ جو ہمارے ِ ہوئی ےہ ،قیامت تک کوئی اور کتاب نازل نہ ہوگی ،یہ زندگی کا وہی
ً
آبائے اولین کو مال تھا ،اس میں اصوال اسی کا اعادہ اور عہد کی تجدید ےہ ،یہ خدائی عطیہ ،ہمارا
مشترکہ روحانی ترکہ ےہ ،جو منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ےہ ،اسے دوسری آسمانی کتابوں کا
ادنی تغیر و تبدل کے آخری اور دائمی ایڈیشن بھی کہا جا سکتا ےہ۔ ابتدائے نزول سے آج تک بال کسی ٰ
سر مو کوئی فرق نہیں آیا ،ایک ملحہ کے لےی نہ تو قرآن مسلمانوں سے جدا ہوا اور نہ باقی ےہ ،اس میں ِ
َ ْ َ َ
مسلمان قرآن سے جدا ہوئے ،اس میں باطل کے در آنے کی کوئی گنجائش نہیں ےہ ” :ال یأ ِت ْی ِہ الب ِ
اط ُل ِمن
َْ اَل
َب ْی َن َی َد ْی ِہ َو ِم ْنخل ِفہ “(حم سجدہ)
آسمانی کتابوں میں قرآن مجید ہی کو یہ خصوصیت بھی حاصل ےہ کہ یہ قیامت تک
تعالی نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ےہ ،ایک جگہ بڑے ذورٰ اپنی اصل حالت پر رےہ گا ،خود ہللا
َ َّ َ ْ ُ َ َّ ْ َ ّ ْ َ َ َّ َ ُ َ َ ُْ
الذکر و ِانا لہ لحا ِفظون(حجر)۹ دار انداز میں ارشاد فرمایاِ :انا نحننزلنا ِ
( ترجمہ ):ہم نے ہی ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ےہ اور ہم ہی اس کی حفاظت
کریں گے۔
صرف الفاظ نہیں؛ بلکہ معانی و مطالب کی تشریح و توضیح کی ذمہ داری بھی خود ہللا
َ َ ُ
تعالی نے لی ےہ ،ایک جگہ ارشاد ےہ ” :ث َّم ِا َّن َعل ْی َنا َب َیانہ( “ترجمہ) پھر ہم پر ہی اس کا بیان
ٰ
(بھی) ہے۔
قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا ،کبھی ایک آیت
کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں ،نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ تھی ،یہ سلسلہ پورے
حیاتمبارکہ کے آخری ملحات تک جاری رہا؛ اس لےی ِ عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول ہللا ﷺ کی
آپ ﷺ کے سامےن آج کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل؛ بلکہ ناممکن تھا ،ہاں! یہ بات
ضرور ےہ کہ ہر آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی ہللا علیہ وسلم لکھوا لیےت تھے اور زمانہ کے لحاظ سے
نہایت ہی پائدار چیز پر لکھواتے تھے؛ چناں چہ پورا قرآن مجید بال کسی کم و کاست کے لکھا ہوا ،آپ
صلی ہللا علیہ وسلم کے حجرہٴ مبارکہ میں موجود تھا ،اس میں نہ تو کوئی آیت لکھےن سے رہ گئی تھی
اور نہ ہی کسی کی ترتیب میں کوئی کمی تھی؛ البتہ سب سورتیں الگ الگ تھیں ،اور متعدد چیزوں پر
لکھی ہوئی تھیں ،کتابی شکل میں جلد سازی اور شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی:
ُ ُ ُّ
ض ٍع واح ٍد۔مجموع في َمو ِ
ٍ القرآنکلہ مکتوبا ً فی َع ْہ ِدہ صلی ہّٰللا علیہ وسلم لکن غی َر قد کان
دوین قرآن ص)۴۳ (الکتابي ج۲ ص ۳۸۴ بحوالہ تِ C
( ترجمہ ):پورا قرآن مجید رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھا ہوا
تھا؛ لیکن ایک جگہ جمع نہیں تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے کتابی شکل میں جمع کرایا اور حضرت
عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے اس کی محقق نقلیں تیار کرکے ہر طرف پھیالیا؛ بلکہ پوری
امت کو اس پر جمع کیا۔ آج تک قرآن مجید اسی کے مطابق موجود ہے۔
نزول قرآن
علمائے اسالم کا نزول قرآن کی کیفیت میں اختالف ہے کہ آیا وہ ایک ہی بار میں مکمل نازل ہوا یا بتدریج
اترا۔ بعض آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن ایک ہی دفعہ Cمیں نازل ہوا جبکہ کچھ آیتیں بتدریج نزول کو
بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ اس اختالف کو یوں رفع کیا گیا کہ نزول قرآن کے متعدد مراحل طے کیے گئے
جو حسب ذیل ہیں:
پہلے مرحلے میں قرآن لوح محفوظ پر نازل ہوا۔ اس نزول کا مقصد یہ تھا کہ اسے لوح محفوظ میں ثبت
اور قرآن کو ناقابل تغیر کر دیا جائے۔[ ]56اس نزول کی دلیل قرآن سے اخذ کی گئی ہے بَلْ ه َُو قُرْ ٌ
آن
[ا]
ح َّمحْ فُو ٍظ
فِي لَوْ ٍ َّم ِجي ٌد
لوح محفوظ سے آسمان میں موجود ایک مقام بیت العزت میں شب قدر کو نازل ہوا۔ اس کی دلیل قرآن کی
ار َك ٍة إِنَّا ُكنَّا ُمن ِذ ِرينَ [ ب] ،إِنَّا أَنزَ ْلنَاهُ فِي لَ ْيلَ ِة ْالقَ ْد ِر[ پ]۔ درج
یہ آیتیں ہیں إِنَّا أَنزَ ْلنَاهُ فِي لَ ْيلَ ٍة ُّمبَ َ
ذیل حدیثیں بھی اس کی دلیل ہیں :عبد ہللا بن عباس سے مروی ہے ،فرماتے ہیں کہ "قرآن کو لوح محفوظ
سے نکال کر آسمان دنیا کے ایک مقام بیت العزت پر اتارا گیا ،جہاں سے جبریل پیغمبر پر لے جایا کرتے
تھے"۔[ ]57ابو شامہ مقدسی نے اپنی کتاب المرشد والوجيز Cعن هذا النزول میں لکھا ہے" :علما کی ایک
جماعت کا کہنا ہے کہ قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں ایک ہی رات کو مکمل نازل ہوا اور جبریل
نے اسے یاد کر لیا۔ کالم الہی کی ہیبت سے آسمان والے غش کھا گئے ،جب جبریل کا ان پر سے گزر ہوا
تو انہیں ہوش آیا اور کہنے لگےَ :واَل تَنفَ ُع ال َّشفَا َعةُ ِعن َدهُ إِاَّل لِ َم ْن أَ ِذنَ لَهُ َحتَّى إِ َذا فُ ِّز َع عَن قُلُوبِ ِه ْم قَالُوا َما َذا
[ ت]۔ بعد ازاں جبرئیل نے کاتب فرشتوں Cکو اس کا امال کرایا، ق َوهُ َو ْال َعلِ ُّي ْال َكبِي ُر
قَا َل َربُّ ُك ْم قَالُوا ْال َح َّ
[ٹ][]58
چنانچہ قرآن میں مذکور Cہے :بِأ َ ْي ِدي َسفَ َر ٍة
بیت العزت سے جبریل نے بتدریج قلب پیغمبر پر اتارا ،نزول قرآن کا یہ مرحلہ تیئیس برس کے عرصہ
[ ث]۔ تمام آسمانی Cکتابوں میں پر محیط ہے۔ قرآن میں ہے :قَا َل َكاَّل فَ ْاذهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا َم َع ُكم ُّم ْستَ ِمعُونَ
ال الَّ ِذينَ َكفَرُوا لَوْ اَل نُ ِّز َل
قرآن واحد کتاب ہے جو بتدریج نازل ہوئی ،چنانچہ قرآن میں مذکور Cہےَ :وقَ َ
[ ج]۔ علما نے قرآن کے بتدریج نزول کی َك َو َرتَّ ْلنَاهُ تَرْ تِياًل َعلَ ْي ِه ْالقُرْ آنُ ُج ْملَةً َو ِ
اح َدةً َك َذلِكَ لِنُثَبِّتَ بِ ِه فُؤَاد َC
درج ذیل حکمتیں بیان کی ہیں:
کفار کی مخالفت ،اذیت رسانی Cاور سخت کشیدہ حاالت میں پیغمبر محمد کی دل بستگی ،سورہ فرقان میں
ك لِنُثَبِّتَ بِ ِه فُؤَادَكَ َو َرتَّ ْلنَاهُ تَرْ تِياًل [ چ]۔
ال الَّ ِذينَ َكفَرُوا لَوْ اَل نُ ِّز َل َعلَ ْي ِه ْالقُرْ آنُ ُج ْملَةً َوا ِح َدةً َك َذلِ َ
ہےَ :وقَ َ
آیت "ورتلناہ ترتيالً" میں اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ قرآن کے بتدریج نزول کا مقصد اس کے یاد
رکھنے اور سمجھنے میں سہولت بہم پہنچانا ہے۔
مشرکین کے پیش کردہ شبہات کا رد اور ان کے دالئل کا یکے بعد دیگرے اِبطالَ :واَل يَأْتُونَكَ بِ َمثَ ٍل إِاَّل
پیغمبر محمد اور ان کے ساتھیوں Cکے لیے قرآن کا یاد رکھنا اور اسے سمجھنا آسان ہو۔
احکام قرآن کے نفاذ میں آسانی فراہم Cکرنا۔ انسان کے لیے یہ آسان نہیں ہوتا کہ جن رسوم Cو رواج اور
عادتوں میں وہ برسوں اور صدیوں سے جکڑا ہوا ہے انہیں دفعتا ً چھوڑ دے ،مثالً شراب پینا۔
حسب ضرورت احکام کا نزول ،یعنی بسا اوقات صحابہ Cکسی پیش آمدہ صورت Cحال پر حکم الہی جاننا
چاہتے تو اس وقت متعلقہ آیت نازل ہوتی۔C
بتدریج نزول قرآن کی مقدار کا تذکرہ احادیث میں ملتا ہے کہ جب جتنی ضرورت ہوتی اتنا نازل ہوتا۔ نیز
تاریخ قرآن کو دو ادوار میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہال دور عہد نبوی کا جس میں قرآن کا وحی کے
ذریعہ نزول ہوا اور دوسرا Cدور Cخلفائے راشدین کا جس میں قرآن کو ایک مصحف Cمیں یکجا کرکے
محفوظ کر دیا گیا۔
قرآن کی زبان
قرآن کی زبان فصیح عربی ےہ جسے آج بھی ادبی مقام حاصل ےہ اور باوجودیکہ عربی کے کئی لہجے
(مصری ،مراکشی ،لبنانی ،کویتی وغیرہ) پیدا ہو چکے ہیں ،قرآن کی زبان کو ابھی تک
عربی کے لےی ایک معیار کی حیثیت حاصل ےہ۔ عربی کے بڑے بڑے عالم جن میں غیر مسلم بھی شامل
ہیں قرآن کی فصیح ،جامع اور انسانی نفسیات سے قریب زبان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اتنی
بڑی کتاب ہونے کے باوجود اس میں کوئی گرامر کی غلطی بھی موجود نہیں۔ بلکہ عربی حروف ابجد کے
مد نظر رکھا جائے تو قرآن میں ایک جدید تحقیق کے مطابق جو ڈاکٹر لحاظ سے اگر ابجد کے اعداد کو ِ
راشد الخلیفہ نے کمپیوٹر (کمپیوٹر) پر کی ےہ ،قرآن میں باقاعدہ ایک حسابی نظام موجود ےہ جو
کسی انسان کے بس میں نہیں۔ قرآن میں قصے بھی ہیں اور تاریخی واقعات بھی ،فلسفہ بھی ملے گا اور
منطق بھی ،پیچیدہ سائنسی باتیں بھی ہیں اور عام انسان کی زندگی گذارنے کے طریقے بھی۔ جب قرآن
نازل ہوا اس وقت جو عربی رائج تھی وہ بڑی فصیح تھی اور اس زمانے میں شعر و ادب کو بڑی
اہمیت حاصل تھی ٰلھذا یہ ممکن نہیں کہ قرآن میں کوئی غلطی ہوتی اور دشمن اس کے بارے میں بات
نہ کرتے۔ بلکہ قرآن کا دعوہ تھا کہ اس جیسی ایک آیت بھی بنا کر دکھا دیں مگر اس زمانے
کے لوگ جو اپنی زبان کی فصاحت اور جامعیت کی وجہ سے دوسروں کو عجمی (گوں گا)
کہتے تھے ،اس بات میں کامیاب نہ ہو سکے۔
” (اے حبیب!) اپےن رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔ اس
ّ
رحممادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھیئے نے انسان کو ( ِ
اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ےہ۔ جس نے قلم کے ذریعے (لکھےن پڑھےن کا) علم
سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے عالوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا
“ []80
تھا۔
قرآن مجید کی آخری آیت : ۔ اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو ،جبکہ تم ہللا کی طرف
واپس ہوگے ،وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے
[]81
گا اور کسی پر ظلم ہر گز نہ ہوگا۔
حروف مقطعات( عربی :مقطعات ،حواميم ،فواتح) قرآن مجیCد Cکیبعضآیات کےشروعمیں آتےہیں
اور الگ الگ پڑھے جاتے ہیں ،ان کو آیات مقطعات اور ان حروف کو حروف مقطعات کہا جاتا ےہ،
ال الم۔ Cیہ قرآن کیانتیس سورتوں کےآغازمیں آتےہیں۔ Cیہ کل چودہ Cحروفہیں ا ،ل ،م ،ص ،ر، مث ً
ک ،ہ ،ی ،ع ،س ،ج ،ق ،ن۔ مسلمان علما کا متفقہ نظریہ ےہ کہ ان کا حقیقی مطلب ہللا ہی کو
معلوم ےہ۔ مقطعات کا لفظی مطلب قطع شدہ ،ٹکڑے ،کترنیں کے ہیں۔ بعض علما کے مطابق یہ عربی
الفاظ کے اختصارات ہیں اور بعض علما کے مطابق یہ کچھ رمز ( )codeہیں۔[ ]82یہ حروف 29
ٰ
الشوری ( سورۃ کا شمار )42 :کی دوسری آیت کے سورتوں کی پہلی آیت کے طور پر ہیں اور سورۃ
طور پر بھی آتے ہیں۔ یعنی یہ ایک سے پانچ حروف پر مشتمل 30جوڑ ( )combinationsہیں۔ جو
29سورتوں کے شروع میں قرآن میں ملتے ہیں۔
-1بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جو سورتیں مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں وہ سورتیں مکی
ہیں اور جو سورتیں مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں وہ سورتیں مدنی ہیں ،گویا مکی و مدنی
مکان نزول کے ہے۔
ِ سورتوں کی وجہ تسمیہ باعتبار
-2مفسرین کی ایک دوسری جماعت کی رائے یہ ےہ کہ جن سورتوں میں اہل مکہ سے
اہل مدینہ سے ےہ وہ
خطاب کیا گیا ےہ وہ سورتیں مکی ہیں اور جن سورتوں میں خطاب ِ
سورتیں مدنی ہیں ،ان کے نزدیک گویا وجہ تسمیہ میں مخاطب کا اعتبار کیا گیا ہے۔
-3مفسرین کا تیسرا قول جو زیادہ مشہور اور راجح ےہ وہ یہ ےہ کہ جو سورتیں رسول ہللا ﷺ کے
مدینہ منورہ ہجرت کرنے سے پہلے نازل ہوئیں تھی وہ سورتیں مکی ہیں اور جو سورتیں ہجرت کے بعد
نازل ہوئیں وہ سورتیں مدنی ہیں ،اس تعریف کے اعتبار سے وجہ تسمیہ میں قرآن کریم کے زمانہ نزول
کا اعتبار کیا گیا ےہ۔ ٰلہذا سورہ فتح جو صلح حدیبیہ سے واپسی کے سفر میں نازل ہوئی اور سورہ
توبہ کی بہت سی آیات جو غزوہ تبوک کے سفر میں نازل ہوئیں یہ سب مدنی ہیں ،اگرچہ یہ آیات یا
سورتیں مدینہ منورہ میں نازل نہیں ہوئیں۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آخری آیات بعض روایات کے
ﷺ آپ اور ﷺ آپ تحفہ
بطور
ِ مطابق معراج کے موقع پر
کی امت کو عطا کی گئیں ،جو نہ مکہ میں نازل ہوئیں نہ مدینہ میں ،لیکن قبل از ہجرت
نزول کی وجہ سے یہ آیات مکی کہالتی ہیں۔
وہ سورتیں جن کے مکی اور مدنی ہونے میں اختالف ےہ [جن میں سے بعض کے بارے میں کہا گیا ےہ کہ
دو بارنازل ہCوCئی ہیں[:]]2
فرائض اور حدود کو ان سورتوں میں بیان کیا گیا ہے؛ .1
مدنی سورتیں طویل ہیں؛ .2
بڑی اور طویل آیتوں کی حامل ہیں؛ .3
شہری ،عدلی ،معاشرتی اور حکومتی قوانین نیز جنگ و صلح کے قوانین .4
مدنی آیات کی اہم ترین خصوصیت سمجھے جاتے ہیں؛
یہ آیات "یا ایہا الذین آمنوا" جیسے خطاب کی حامل ہیں؛ .5
ان آیات میںاہل کتاب کے فاسد عقائد کی تشریح ہوئی ےہ اور ان کو اسالم کی .6
دعوت کے مسئلے پر تاکید ہوئی ہے؛
منافقین کے حاالت اور اقدامات کا بیان اور ان کے سامےن مسلمانوں اور پیغمبر .7
اسالم(ص) کا موقف بھی ان آیات کی خصوصیات میں سے ہے۔
یہ خصوصیات کی نوعیت قطعی اور 100فیصد نہیں ےہ اور ہر خصوصیت کے لےی ایک استثناء کا
پایا جانا بھی ممکن ےہ۔ مثال کے طور پر سورہ بقرہ میں حضرت آدم(ع) کا قصہ بیان ہوا لیکن یہ
سورت مکی نہیں ےہ؛ حاالنکہ مندرجہـ باال قواعد کے مطابق اس کو مکی ہونا چاہےی تھا؛ اور سورہ
نصربا وجود اس کےمجموعیطورپر بھیچھوٹیہےاوراس کیآیتیں بھیچھوٹیہیں
اور مکی آیات سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ےہ لیکن مکی نہیں ےہ بلکہ مدینہ میں نازل
[]8
ہوئی ہے۔