Professional Documents
Culture Documents
اسلامیات اسائنمنٹ
اسلامیات اسائنمنٹ
نام عبدالصمد
تعارف قرآن
قرآن کے لغوی معنی کی وضاحت
قرآن" در اصل قَ َرأ َ یَ ْق َرأ ُ سے نکال ہے ،جس کے لغوی معنی ہیں " جمع کرنا " پھر یہ لفظ " پڑھنے" کے معنی میں اس لیے استعمال ہونے "
لگا کہ اس میں حروف اور کلمات کو جمع کیا جاتا ہے۔ قرأ َ یقرا کا مصدر
:قراءة" کے عالوہ “قرآن" بھی آتا ہے۔ چنانچہ باری تعالی کا ارشاد ہے"
(Pastترجمہ " :بالشبہ اس (کتاب) کا جمع کرنا اور پڑھنا ہمارے ہی ذمہ ہے۔" پھر عربی زبان میں کبھی کبھی مصدر کو اسم مفعول
کے معنی میں استعمال کر لیا جاتا ہے ،کالم ہللا کو " قرآن " اس معنی میں کہا جاتا ہے ،یعنی " پڑھی ہوئی کتاب یہ کتاب )participate
" پڑھنے کے لئے نازل ہوئی ہے ،اور قیامت تک پڑھی جاتی رہے گی ،چنانچہ یہ ایک مسلمہ
حقیقت ہے کہ قرآن کریم ساری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔
قرآن کے اسماء
عالمہ ابو المعالی نے قرآن کریم کے پچپن 55نام شمار کیے ہیں اور بعض حضرات نے ان کی تعداد نوے 90سے متجاوز بتائی ہے لیکن
حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی صفات مثال ً مجید ،کریم اور حکیم وغیرہ کو نام قرار دے کر تعداد اس حد تک پہنچا دی ہے ،ورنہ
صحیح معنوں میں قرآن کریم کے کل نام پانچ ہیں :القرآن ،الفرقان ،الذکر ،الکتاب اور التزیل ۔ خود قرآن کریم نے یہ پانچوں الفاظ اسم علم
کے طور پر ذکر فرمائے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور نام "قرآن" ہے چنانچہ خود ہللا تعالی نے
کم از کم اکسٹھ 61مقامات پر اپنے کالم کو اس نام سے یاد کیا ہے۔
اسالمیات اسائنمنٹ
نام عبدالصمد
قرآن کے فضائل
قرآن مجید ہللا تعالی کی وہ آخری اور مستند ترین کتاب ہے جسے دین کے معاملے میں حضرت محمد
می بینم پر انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اس کتاب ہدایت سے استفادہ انسان تب ہی کر سکتا
ہے جب وہ اسے پڑھے گا ،اس کی تالوت کرے گا ،اس کے معانی و مفہوم کو سیکھے گا ،سکھائے گا اور اس پر
عمل کرے گا۔ ایسی متعدد آیات و احادیث موجود ہیں جو فضیلت قرآن سے متعلق ان تمام امور کا احاطہ
کرتیں ہیں ،انسان جس بھی نیت سے قرآن پاک کے ساتھ اپنا رابطہ جوڑے گا اس کے متعلق اسرار ورموز
اس پر منکشف ہوتے رہیں گے اور وہ اس کی فضیلتوں سے فیض یاب ہو تا رہے گا۔
میں کہیں بھی کوئی لفظ غیر فصیح استعمال نہیں ہوا ،کیونکہ بسا اوقات انسان اپنے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے کسی نہ کسی غیر فصیح لفظ
کے استعمال پر مجبور ہو جاتا ہے ،لیکن پورے قرآن کریم میں (الحمد سے لے کر والناس تک نہ صرف یہ کہ کہیں کوئی ایک لفظ بھی غیر
فصیح نہیں ہے بلکہ ہر لفظ جس مقام پر آیا ہے وہ فصاحت و بالغت کے اعتبار سے ایسا اٹل ہے کہ اسے بدل
کر اس فصاحت و بالغت کے ساتھ دوسر الفظ النا ممکن ہی نہیں ہے۔
عربی زبان ایک انتہائی وسیع زبان ہے جو اپنے ذخیرہ الفاظ کے اعتبار سے دنیا کی دولت مند ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ چنانچہ اس
میں ایک مفہوم کے لیے معمولی فرق سے بہت سے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم الفاظ کے اس وسیع ذخیرہ الفاظ میں
سے اپنے مقصد کی ادائیگی کے لیے وہی لفظ منتخب فرماتا ہے جو عبارت کے سیاق ،معنی کی ادائیگی اور اسلوب
کے لحاظ سے موزوں ترین ہو۔ یہ بات چند مثالوں سے واضح ہو سکے گی۔
زمانہ جاہلیت میں "موت" کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے بہت سے عربی الفاظ مستعمل تھے،
قرآن کریم کا ایک اعجاز اس کی آیات کے باہمی رابط و تعلق اور نظم و ترتیب میں بھی ہے۔ اگر سرسری نظر سے قرآن کریم کی تالوت کی
جائے تو بظاہر یہ محسوس ہو گا کہ اس کی ہر آیت جداجدا مضمون .کی حامل ہے اور ان کے درمیان کوئی ربط نہیں پایا جاتا۔ لیکن حقیقت
یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات کے بر در میان نہایت لطیف ربط پایا جاتا ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اگر کوئی ترتیب ملحوظ
نہ ہوئی تو ! ترتیب نزول اور ترتیب کتابت میں فرق رکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی ،جس ترتیب سے قرآن کریم نازل ہو ہوا تھا ،اسی
ترتیب سے لکھ لیا جاتا۔ یہ جو کتابت میں حضور صلی الہ ہم نے ایک الگ ترتیب قائم فرمائی ہے وہ کو اس بات کی بڑی دلیل ہے کہ قرآنی
آیات میں ربط موجود ہے۔ البتہ اس ربط تک پہنچنے کے لیے گہرے ا
نظم کے اعجاز کے بعد جملوں کی ترکیب ،ساخت اور نشست کا نمبر آتا ہے۔ اس معاملے میں بھی قرآن کریم کا اعجاز کمال درجے پر ہے۔
قرآن کریم کے جملوں میں وہ تسلسل اور مٹھاس ہے کہ اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔ اس حوالے سے اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ
پڑھنے واال محسوس کرتا ہے کہ زبان از خود ایک جملے سے دوسرے جملے کی طرف پھیلتی جارہی ہے اور کہیں اٹکاؤ نہیں۔ یوں لگتا ہے
قابل تعریف بات تھی اور اس کے فوائد ظاہر کرنے کے لیے عربی میں کئی مقولے مشہور تھے
قاتل سے قصاص لینا اہل عرب میں بڑی ِ