You are on page 1of 4

‫اسالمیات اسائنمنٹ‬

‫نام عبدالصمد‬

‫قرآن کا بنیادی تصور‬


‫ساتویں صدی عیسوی میں تمام عالم پر کفر و شرک ‪ ،‬ضاللت و گمراہی کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں۔ ظلم و‬
‫سرکشی‪ ،‬کفر و نافرمانی کی ہر طرف عام تھی۔ زمین پر بسنے والے انسان خدائے واحد کو بھول گئے تھے۔ انبیاء کی‬
‫تعلیمات کو مسح کر دیا گیا تھا۔ خدا پرستی‪ ،‬نفس کشی‪ ،‬علم و فن‪ ،‬امن وامان‪ ،‬شرم و حیاء ‪ ،‬رحم و کرم‪ ،‬عدل و انصاف‪،‬‬
‫تہذیب و اخالق‪ ،‬الفت و دیانت کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ مردہ خوری‪ ،‬انسانی قربانی‪ ،‬دختر کشی‪ ،‬خود کشی‪ ،‬قمار بازی‪ ،‬شراب نوش انسانی‬
‫مزاج کا حصہ بن گئی تھی۔ اتنے میں اسالم کا سورج طلوع ہوا‪ ،‬رحمت خداوندی جوش میں آئی اور رپ کا ئنات نے آپ مل ایام کو مبعوث‬
‫فرمایا اور آپ کو نسخہ کیمیا یعنی قرآن پاک عطا فرمایا۔ قرآن کریم پوری انسانیت کے لئے ہللا تعالی کا اتنا بڑا انعام ہے کہ دنیا کی کوئی‬
‫بڑی سے بڑی دولت اس کی برابری نہیں کر سکتی۔ یہ وہ نسخہ شفا ہے جس کی تالوت‪ ،‬جس کا دیکھنا‪ ،‬جس کا سننا سنانا‪ ،‬جس کا سیکھنا‪،‬‬
‫سکھانا‪ ،‬جس پر عمل کرنا اور جس کی کسی بھی حیثیت سے نشر و اشاعت کی خدمت کرنا دنیا اور آخرت دونوں کی عظیم سعادت ہے۔‬

‫تعارف قرآن‬
‫قرآن کے لغوی معنی کی وضاحت‬

‫قرآن" در اصل قَ َرأ َ یَ ْق َرأ ُ سے نکال ہے ‪ ،‬جس کے لغوی معنی ہیں " جمع کرنا " پھر یہ لفظ " پڑھنے" کے معنی میں اس لیے استعمال ہونے "‬
‫لگا کہ اس میں حروف اور کلمات کو جمع کیا جاتا ہے۔ قرأ َ یقرا کا مصدر‬

‫‪:‬قراءة" کے عالوہ “قرآن" بھی آتا ہے۔ چنانچہ باری تعالی کا ارشاد ہے"‬

‫‪ (Past‬ترجمہ ‪ " :‬بالشبہ اس (کتاب) کا جمع کرنا اور پڑھنا ہمارے ہی ذمہ ہے۔" پھر عربی زبان میں کبھی کبھی مصدر کو اسم مفعول‬
‫کے معنی میں استعمال کر لیا جاتا ہے‪ ،‬کالم ہللا کو " قرآن " اس معنی میں کہا جاتا ہے‪ ،‬یعنی " پڑھی ہوئی کتاب یہ کتاب )‪participate‬‬
‫" پڑھنے کے لئے نازل ہوئی ہے‪ ،‬اور قیامت تک پڑھی جاتی رہے گی‪ ،‬چنانچہ یہ ایک مسلمہ‬
‫حقیقت ہے کہ قرآن کریم ساری دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔‬

‫قرآن کا اصطالحی مفہوم‬


‫قرآن کریم کی اصطالحی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے‪ :‬المنزل على الرسول محمد المكتوب في المصاحف المنقول البنا‬
‫ترجمہ ‪ " :‬ہللا تعالی کا وہ کالم جو محمد رسول ہللا صلی ہم پر نازل ہوا‪ ،‬مصاحف میں لکھا گیا‪ ،‬اور آپ صلی نظام سے بغیر کسی شہر کے‬
‫" تواتر امنقول ہے ۔‬

‫قرآن کے اسماء‬
‫عالمہ ابو المعالی نے قرآن کریم کے پچپن ‪ 55‬نام شمار کیے ہیں اور بعض حضرات نے ان کی تعداد نوے ‪ 90‬سے متجاوز بتائی ہے لیکن‬
‫حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کی صفات مثال ً مجید ‪ ،‬کریم اور حکیم وغیرہ کو نام قرار دے کر تعداد اس حد تک پہنچا دی ہے ‪ ،‬ورنہ‬
‫صحیح معنوں میں قرآن کریم کے کل نام پانچ ہیں‪ :‬القرآن‪ ،‬الفرقان‪ ،‬الذکر ‪ ،‬الکتاب اور التزیل ۔ خود قرآن کریم نے یہ پانچوں الفاظ اسم علم‬
‫کے طور پر ذکر فرمائے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور نام "قرآن" ہے چنانچہ خود ہللا تعالی نے‬
‫کم از کم اکسٹھ ‪ 61‬مقامات پر اپنے کالم کو اس نام سے یاد کیا ہے۔‬
‫اسالمیات اسائنمنٹ‬
‫نام عبدالصمد‬
‫قرآن کے فضائل‬
‫قرآن مجید ہللا تعالی کی وہ آخری اور مستند ترین کتاب ہے جسے دین کے معاملے میں حضرت محمد‬
‫می بینم پر انسانیت کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اس کتاب ہدایت سے استفادہ انسان تب ہی کر سکتا‬
‫ہے جب وہ اسے پڑھے گا‪ ،‬اس کی تالوت کرے گا‪ ،‬اس کے معانی و مفہوم کو سیکھے گا‪ ،‬سکھائے گا اور اس پر‬
‫عمل کرے گا۔ ایسی متعدد آیات و احادیث موجود ہیں جو فضیلت قرآن سے متعلق ان تمام امور کا احاطہ‬
‫کرتیں ہیں‪ ،‬انسان جس بھی نیت سے قرآن پاک کے ساتھ اپنا رابطہ جوڑے گا اس کے متعلق اسرار ورموز‬
‫اس پر منکشف ہوتے رہیں گے اور وہ اس کی فضیلتوں سے فیض یاب ہو تا رہے گا۔‬

‫تالوت قرآن کی فضیلت‬


‫‪:‬تالوت قرآن کی فضیلت احادیث کی روشنی میں واضح ہے جیسا کہ حضور علی ای ایم کی حدیث ہے‬
‫جو شخص قرآن پاک کا ایک حرف پڑھے گا اس کو دس نیکیوں کے برابر نیکی ملتی"‬
‫(ترمذی ہے۔‬
‫یہ خیال رہے کہ ہللا ایک حرف نہیں بلکہ الف‪ ،‬الم‪ ،‬میم تین حروف ہیں۔ لہذا فقط اتنا پڑھنے سے تیں نیکیاں ملیں گے۔ خیال رہے کہ الم‬
‫حروف مقطعات میں سے ہے جس کے معنی ہم نہیں جانتے مگر اس کے پڑھنے پر ثواب ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ تالوت قرآن کا ثواب‬
‫اس کے سمجھنے پر موقوف‬
‫نہیں بلکہ بغیر سمجھے بھی باعث ثواب ہے۔‬
‫جو لوگ قرآن کی تالوت کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں‪ ،‬قرآن روز محشر ان کے حق میں ان کی مغفرت‬
‫بخشش کے لیے ہللا کے روبرو سفارشی بن جائے گا جیسا کہ رسول ہللا صلی الہ یکم فرماتے ہیں‪" :‬قرآن پڑھا کرو‪ ،‬اس لیے کہ قرآن اپنے‬
‫پڑھنے والوں کے لیے قیامت کے دن‬
‫)سفارش کرے گا"۔ (مسلم‬
‫وہ لوگ جو قرآن کو اٹک اٹک کر پڑھتے ہیں‪ ،‬ان کے لیے حدیث میں دُگنے اجر کی خوش خبری دی‬

‫حفظ قرآن کی فضیلت‬


‫‪:‬حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ا ہم نے فرمایا‬
‫بیشک وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ (یار) نہ ہو‪ ،‬دو ویر ان گھر کی طرح ہے‬
‫"۔ یعنی جیسے ویران گھر خیر و برکت اور رہنے والوں سے خالی ہوتا ہے ‪ ،‬ایسے ہی اس شخص کا دل غیر و برکت اور روحانیت سے‬
‫خالی ہوتا ہے جسے قرآن مجید کا کوئی بھی حصہ یاد نہیں۔ اس سے ہر مسلمان کو قرآن مجید کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور زبانی یاد کرنا‬
‫اور یاد رکھنا چاہیے تاکہ وہ اس وعید سے محفوظ رہے۔ قرآن یاد کرنے کی فضیلت ایک اور حدیث سے بھی واضح ہوتی ہے کہ قرآن یاد‬
‫کرنے واال ہر‬
‫‪:‬آیت کے بدلے جنت میں ایک درجہ ترقی کرتا چال جائے گا‬
‫حضرت ابو سعید خدری نے روایت کرتے ہیں کہ رسول ہللا صلی علیم نے فرمایا‪ :‬صاحب قرآن جب جنت میں داخل ہو گا تو اس کو حکم ہو‬
‫گا کہ قرآن پڑھ اور اوپر چڑھتا چال جا۔ وہ قرآن مجید پڑھتا چال جائے گا اور ہر آیت کے بدلے ایک درجہ ترقی کرتا چال جائے گا یہاں تک‬
‫" کہ جہاں اس کی آخری آیت ہو گی اتنا ہی اس کا جنت میں بلند درجہ ہو گا۔‬
‫اسالمیات اسائنمنٹ‬
‫نام عبدالصمد‬

‫قرآن سیکھنے اور سکھانے کی فضیلت‬


‫حضرت عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ﷺ نے فرمایا‪" :‬تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے‬
‫سکھائے "‬
‫جو لوگ قرآن کی تعلیمات و‬
‫تالوت سے دور ہوتے ہیں اور اپنی زندگی اپنی مرضی و چاہت سے بسر کرتے ہیں تو پھر ایسوں کو ہللا تعالی‬
‫دنیا و آخرت میں ذلیل و خوار کر دیتے ہیں۔‬

‫قرآن مجید کا اعجاز‬


‫قرآن کریم کی حقانیت کی ایک اور واضح دلیل اس کا اعجاز ہے۔ یعنی ایک ایسا کالم ہے جس کی نظیرپیش کرنا انسانی قدرت سے باہر ہے‬
‫اسی وجہ سے اس کو سرور کو نین ملی ایم کا سب سے بڑا معجزہ کہا جاتاے۔ یہ یقینا ہللا تعالی ہی کا کالم ہے اور کسی بشری ذہن کا اس‬
‫میں کوئی دخل نہیں۔‬
‫لیکن لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اعجاز قرآن کی خصوصیات کا احاطہ بشری طاقت سے باہر ہے‬
‫تاہم محدود انسانی بصیرت کی بنا پر ان خصوصیات کو چارعنوانات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے‬
‫ا الفاظ کا اعجاز ‪۲‬۔ ترکیب کا اعجاز ‪ -۳‬اسلوب کا اعجاز ‪ -‬نظم کا اعجاز‬

‫)ا( الفاظ کا اعجاز‬


‫کسی زبان کا کوئی شاعر یا ادیب‪ ،‬خواہ اپنے فن میں کمال کے کتنے ہی بلند مرتبے کو پہنچا ہوا ہو‪ ،‬یہ دعوئی نہیں کر سکتا کہ اس کے کالم‬

‫میں کہیں بھی کوئی لفظ غیر فصیح استعمال نہیں ہوا‪ ،‬کیونکہ بسا اوقات انسان اپنے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے کسی نہ کسی غیر فصیح لفظ‬

‫کے استعمال پر مجبور ہو جاتا ہے‪ ،‬لیکن پورے قرآن کریم میں (الحمد سے لے کر والناس تک نہ صرف یہ کہ کہیں کوئی ایک لفظ بھی غیر‬

‫فصیح نہیں ہے بلکہ ہر لفظ جس مقام پر آیا ہے وہ فصاحت و بالغت کے اعتبار سے ایسا اٹل ہے کہ اسے بدل‬

‫کر اس فصاحت و بالغت کے ساتھ دوسر الفظ النا ممکن ہی نہیں ہے۔‬

‫عربی زبان ایک انتہائی وسیع زبان ہے جو اپنے ذخیرہ الفاظ کے اعتبار سے دنیا کی دولت مند ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ چنانچہ اس‬

‫میں ایک مفہوم کے لیے معمولی فرق سے بہت سے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم الفاظ کے اس وسیع ذخیرہ الفاظ میں‬

‫سے اپنے مقصد کی ادائیگی کے لیے وہی لفظ منتخب فرماتا ہے جو عبارت کے سیاق‪ ،‬معنی کی ادائیگی اور اسلوب‬

‫کے لحاظ سے موزوں ترین ہو۔ یہ بات چند مثالوں سے واضح ہو سکے گی۔‬

‫زمانہ جاہلیت میں "موت" کے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے بہت سے عربی الفاظ مستعمل تھے‪،‬‬

‫مثالا‪ :‬موت‪ ،‬پالک‪ ،‬فنا‪ ،‬حف‪ ،‬شعوب‪ ، ،‬فود‪ ،‬مقدار ہے۔‬


‫اسالمیات اسائنمنٹ‬
‫نام عبدالصمد‬

‫)‪ (۲‬نظم کا اعجاز‬

‫قرآن کریم کا ایک اعجاز اس کی آیات کے باہمی رابط و تعلق اور نظم و ترتیب میں بھی ہے۔ اگر سرسری نظر سے قرآن کریم کی تالوت کی‬

‫جائے تو بظاہر یہ محسوس ہو گا کہ اس کی ہر آیت جداجدا مضمون ‪ .‬کی حامل ہے اور ان کے درمیان کوئی ربط نہیں پایا جاتا۔ لیکن حقیقت‬

‫یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیات کے بر در میان نہایت لطیف ربط پایا جاتا ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ اگر کوئی ترتیب ملحوظ‬

‫نہ ہوئی تو ! ترتیب نزول اور ترتیب کتابت میں فرق رکھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی‪ ،‬جس ترتیب سے قرآن کریم نازل ہو ہوا تھا‪ ،‬اسی‬

‫ترتیب سے لکھ لیا جاتا۔ یہ جو کتابت میں حضور صلی الہ ہم نے ایک الگ ترتیب قائم فرمائی ہے وہ کو اس بات کی بڑی دلیل ہے کہ قرآنی‬

‫آیات میں ربط موجود ہے۔ البتہ اس ربط تک پہنچنے کے لیے گہرے ا‬

‫غور و فکر کی ضرورت ہے‬

‫)‪ (۳‬ترکیب کا اعجاز‬

‫نظم کے اعجاز کے بعد جملوں کی ترکیب‪ ،‬ساخت اور نشست کا نمبر آتا ہے۔ اس معاملے میں بھی قرآن کریم کا اعجاز کمال درجے پر ہے۔‬

‫قرآن کریم کے جملوں میں وہ تسلسل اور مٹھاس ہے کہ اس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی۔ اس حوالے سے اتنا ہی کہنا کافی ہو گا کہ‬

‫پڑھنے واال محسوس کرتا ہے کہ زبان از خود ایک جملے سے دوسرے جملے کی طرف پھیلتی جارہی ہے اور کہیں اٹکاؤ نہیں۔ یوں لگتا ہے‬

‫کہ ہموار زمین ہے یا پھر ٹھہرے سمندر کی سطح آب۔ مثال ً‬

‫قابل تعریف بات تھی اور اس کے فوائد ظاہر کرنے کے لیے عربی میں کئی مقولے مشہور تھے‬
‫قاتل سے قصاص لینا اہل عرب میں بڑی ِ‬

‫)‪ (۴‬اسلوب کا اعجاز‬


‫اعجاز کالم کے لیے رعنائی خیال اور بلندی مضمون کے ساتھ ساتھ دلکش اور موثر اسلوب یعنی حسین و جمیل طرز بیان بھی الزمی ہے۔‬
‫کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بلند اور نادر مضامین بھی بھونڈے اور فرسودہ انداز بیان کی وجہ سے اپنی تاثیر کھو دیتے ہیں اور اس کے بر‬
‫عکس بعض معمولی باتیں بھی اپنی جادو بیانی اور حسین طرز کالم کی وجہ سے بہت عمدہ بن جاتی ہیں۔ قرآن پاک جو عربی ادب کا بے بدل‬
‫اور الزوال نمونہ ہے اس کا سب سے بڑا اعجاز یہ ہے کہ بلند معانی اور الہامی تعلیمات کے ساتھ اس نے بیان کارہ اسلوب اختیار کیا جس‬
‫کی مثال پیش کرنے سے اہل عرب عاجز رہ گئے۔ قرآن کریم کے اعجاز کا سب سے زیادہ روشن مظاہرہ اس کے اسلوب میں ہوتا ہے‬

You might also like