You are on page 1of 11

‫کنزاال یمان اور عرفان القرآن‬

‫ایک علمی و تحقیقی جائزہ‬

‫از ‪:‬‬

‫پروفیسر ڈاکٹر مجید ہللا قادری‬

‫امام احمد رضا خاں قادری" برکاتی محدث بریلوی قدس سرہ العزیز نے اپنی انتہائی علمی و قلمی‬

‫مصروفیات کے باوجود" چند احباب بالخصوص موالنا حکیم امجد علی اعظمی (المتوفی" ‪1367‬ھ‪/‬‬
‫‪1948‬ء)‬

‫ب ”بہار شریعت“ کے اصرار پر قرآن کریم کا اردو ترجمہ ‪1330‬ھ ‪1911 /‬ء میں امال کروا کر‬‫صاح ِ‬
‫مکمل فرمایا۔"‬

‫راقم کو امام احمد رضا کے امال کردہ ترجمے کا عکس ‪1988‬ء میں مفتی عبد المنان کلیمی‪ ،‬شیخ‬
‫الحدیث‪ ،‬جامعہ اکرام العلوم نعیمیہ مراد آباد‪ ،‬کے توسط سے حاصل ہوا۔ اصل مسودہ مفتی صاحب کے‬
‫کسی عزیز کے پاس کانپور" میں موجود ہے۔ اصل مسودے کے چند ابتدائی اور چند درمیان کے اوراق"‬
‫موجود نہیں کیونکہ مسودے کی حالت بہت بوسیدہ تھی۔ اصل مخطوطہ" ‪ 325‬بڑے صفحات پر مشتمل‬
‫ہے جس پر صرف" ترجمہ لکھا ہوا ہے۔ یہ تحریر" موالنا حکیم امجد علی اعظمی صاحب کی ہے جنہوں‬
‫ترجمہ قرآن کا امال لکھا تھا۔ موالنا امجد علی اعظمی علیہ الرحمة نے جگہ جگہ‬
‫ٴ‬ ‫نے امام احمد رضا کے‬
‫تاریخ بھی رقم کردی ہے۔‬

‫سب سے پہلی تاریخ صفحہ ‪ 31‬پر اس طرح لکھی ہے‬


‫”شب بست و نہم قبل عشا با ختام جماد االول“‬

‫اسی طرح کئی صفحات پر جگہ جگہ تاریخ مذکور" ہے۔ تمام تاریخوں میں وقت شب ہی لکھا گیا ہے جس‬
‫سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کام مغرب اورعشا کے درمیان وقت میں کیا جاتا تھا۔ بعض جگہ تاریخ‬
‫ترتیب کے ساتھ بھی لکھی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترجمہٴ قرآن کا یہ کام تسلسل کے ساتھ‬
‫روزانہ" بھی تھوڑا تھوڑا" کیا جاتا رہا۔ مسودے کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایک ہی‬
‫نشست؟ میں آدھے پارے سے بھی زیادہ کا ترجمہ امال کرادیاگیا۔ مسودے کے آخری صفحے پر سورة‬
‫الناس کے ترجمے کے بعد موالنا امجد علی اعظمی علیہ الرحمة نے اپنا نام لکھ کر دستخط" کیے ہیں‪:‬‬
‫”شب ‪ 28‬جمادی االخر ‪1330‬ئھ کتابت فقیر ابو العال امجد علی اعظمی غفرلہ“‬

‫کنزاالیمان کے اس مسودے کی اول تاریخ معلوم نہ ہوسکی کیونکہ ابتدائی چند صفحات کا عکس حاصل‬
‫نہ ہوسکا مگر بقیہ تاریخوں سے اندازہ کیا جاسکتا" ہے کہ یہ کام وقفے وقفے سے برابر جاری رہا۔‬

‫اگرچہ بعض دفعہ یہ ترجمے کا کام ہفتوں نہ ہوسکا مگر لگ بھگ ‪13‬ماہ کی جدوجہد کے بعد چند‬
‫نشستوں میں یہ کام مکمل کرلیا گیا۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫کنزاال یمان اور عرفان القرآن‬


‫ایک علمی و تحقیقی‬
‫قسط نمبر ‪2‬‬

‫از ‪:‬‬
‫پروفیسر ڈاکٹر مجید ہللا قادری‬

‫ترجمہ قرآن سے قبل اور کئی معروف مترجمین کے تراجم شائع‬


‫ٴ‬ ‫امام احمد رضا محدث بریلوی کے‬
‫ہورہے تھے مثالً شاہ رفیع الدین دہلوی (المتوفی" ‪1233‬ھ ‪1818 /‬ء) کا‬

‫قرآن جو انھوں نے ‪1200‬ئھ میں مکمل کیا تھا اور غالبا ً ‪1204‬ء میں پہلی بار اسالم پریس کلکتہ سے‬
‫شائع ہوا تھا جب کہ ان کے بھائی شاہ عبد القادر دہلوی (المتوفی" ‪1230‬ھ ‪1814 /‬ء )‬

‫کا ترجمہٴ قرآن جو انھوں نے ‪1205‬ء میں مکمل کیا تھا اور ‪1838‬ء میں موضح القرآن کے نام سے‬
‫مطبع احمدی سے شائع ہوا تھا۔‬

‫یہ دونوں تراجم ان معنی میں اولیت رکھتے ہیں کہ شاہ رفیع الدین کا ترجمہ" لفظی ہے جبکہ شاہ عبد‬
‫القادر دہلوی" کا ترجمہ بامحاورہ ہے اور ان سے قبل کوئی اور اردو" ترجمہٴ قرآن مکمل شائع نہیں ہوا‬

‫یہ دونوں تراجم تسلسل کے ساتھ شائع ہوتے رہے اگرچہ بعض اشاعتی اداروں نے ان تراجم میں ترمیم‬
‫و اضافہ" بھی کیامگر" سلسلہٴ اشاعت جاری رہا اور آج بھی جاری ہے۔‬

‫ث بریلوی کے ترجم ِٴہ قرآن سے قبل اور شاہ برادرز" کے ترجم ِہ قرآن کے بعد اردو‬
‫امام احمد رضا محد ِ‬
‫زبان میں متعدد تراجم کیے گئے جن میں سے بیشتر کم از کم ایک مرتبہ شائع بھی ہوئے۔‬

‫ان میں سے چند معروف" مترجمین میں مندرجہ" ذیل حضرات شامل ہیں‪:‬‬

‫‪1‬۔ پانچ مترجمین کا اردو ترجم ِٴہ قرآن جس کی نگرانی ڈاکٹر گل کرائسٹ کر رہے تھے جو فورٹ ولیم‬
‫کالج میں اہم ذ ّمے داری پر فائز تھے‬

‫ان پانچ مترجمین نے ‪ 2‬سال کی جدوجہد کے بعد ‪1219‬ھء ‪1804 /‬ءء میں یہ ترجمہ مکمل کیا اور‬
‫فورٹ ولیم کالج کی طرف" سے یہ شائع بھی ہوا۔‬

‫تفسیر قرآن از سر سید احمد خاں ‪1297‬ئھ ‪1880 /‬ءء علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ پر یس سے‬
‫ِ‬ ‫‪2‬۔ ترجمہ و‬
‫شائع ہوا۔‬

‫ترجمہ قرآن از مولوی حافظ" ڈپٹی نذیر احمد دہلوی ‪1895‬ءء میں مکمل ہوا۔‬
‫ٴ‬ ‫‪3‬۔‬
‫ترجمہ قرآن کرکے اپنے‬
‫ٴ‬ ‫ترجمہ قرآن از مولوی عاشق ٰالہی میرٹھی۔ مترجم" نے ‪ 20‬سال کی عمر میں‬
‫ٴ‬ ‫‪4‬۔‬
‫ہی مطبع سے ‪1319‬ئھ میں شائع کیا۔‬

‫ترجمہ قرآن فتح الحمید کے نام سے ‪1318‬ئھ ‪1900 /‬ءء میں‬


‫ٴ‬ ‫‪5‬۔ مولوی فتح محمد جالندھری" کا‬
‫امرتسر سے شائع ہوا۔‬

‫تاریخی اعتبار سے ڈپٹی نذیر احمد کا اول ترجمہ ہے جو آپ ڈپٹی صاحب سے نقل کرنے کے لیے لے‬
‫گئے تھے مگر نیت بدل گئی اور ترجمہ شائع کرکے مترجم بن گئے۔‬

‫کاترجمہ" قرآن ”موضحة الفرقان“ کے نام سے ‪1323‬ئھ ‪/‬‬


‫ٴ‬ ‫‪6‬۔ مولوی مرزا نواب وحید الزماں کانپوری‬
‫‪1905‬ءء میں گیالنی پریس الہور سے شائع ہوا۔‬

‫ترجمہ" قرآن ‪1325‬ئھ ‪/‬‬


‫ٴ‬ ‫‪7‬۔ عبدہللا چکڑالوی جو فرق ِٴہ" اہل قرآن کے بانی تصور کیے جاتے ہیں ان کا‬
‫‪1907‬ءء میں ”ترجمة القرآن بآیات القرآن“ کے نام سے اسٹیم پریس الہور سے شائع ہوا۔‬

‫ترجمہ قرآن ‪1326‬ئھ ‪1908 /‬ءء میں مطبع ِٴہ مجتبائی دہلی سے شائع ہوا۔‬
‫ٴ‬ ‫‪8‬۔ مولوی اشرفعلی تھانوی" کا‬

‫‪9‬۔ مولوی محمد عبد الحق حقانی دہلوی کا ترجم ِٴہ قرآن معہ تفسیر قرآن ‪1318‬ئھ ‪1900 /‬ءء میں شائع ہوا۔‬

‫تراجم قرآن کی ایک بڑی تعداد کا ذکر تاریخ‬ ‫ِ‬ ‫‪10‬۔ ان کے عالوہ بھی غیر مطبوعہ اور غیر معروف" اردو‬
‫میں ملتا ہے ‪..........‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کنزاال یمان اور عرفان القرآن‬

‫ایک علمی و تحقیقی جائزہ‬

‫قسط نمبر ‪3‬‬

‫از ‪:‬‬
‫پروفیسر ڈاکٹر مجید ہللا قادری‬

‫زیر مطالعہ آرہے تھے‬


‫امام احمد رضا محدث بریلوی کے زمان ِٴہ حیات میں جو تراجم عام مسلمانوں میں ِ‬
‫ان میں مذکورہ قسط" میں ذکر کیے گئے تراجم شامل تھے۔‬

‫مفسر قرآن کے لیے‬


‫ِ‬ ‫مترجم قرآن یا‬
‫ِ‬ ‫ان تراجم میں اکثر یا تو مترجم ان تمام شرائط پر پورا نہیں اترتے جو‬
‫عالمہ جالل الدین سیوطی" نے اپنی کتاب‬

‫”االتقان فی علوم القرآن“ میں بیان کی ہیں۔‬

‫یہ شرائط" ‪ 27‬علوم پر مہارت کی متقاضی ہیں اور یہ سب علوم قرآن سے متعلق ہیں جن کے بغیر کالم‬
‫ہللا کی منشا سمجھ میں نہیں آسکتی اور جب ان‪ 27‬علوم پر مہارت نہ ہوگی تو مترجم قرآن اپنی عقل اور‬
‫لغت کا سہارا لے کر ترجم ِٴہ قرآن کرتا ہے‬

‫جو پھر حقیقی روح قرآن کے خالف ہوتا ہے۔‬

‫ث صحیحہ کے برخالف کیے ہیں اور ترجمہ‬


‫تفسیر ماثور اور احادی ِ‬
‫ِ‬ ‫ترجمہ قرآن‪،‬‬
‫ٴ‬ ‫بعض مترجمین نے‬
‫کرتے وقت اپنی رائے اور عقل و لغت کا سہارا لیا ہے۔‬

‫ایسے ترجمے جب قاری کی نظر سے گزرتے ہیں تو وہ ان ترجموں کو ہی اصل قرآن سمجھ لیتا ہے‬
‫اور اسالم کے بنیادی" عقائد سے ہٹ جاتا ہے۔‬

‫اب دونوں قسم کے مترجمین کے تراجم نے پاک و ہند و بنگلہ دیش کے مسلمانوں کے صدیوں پرانے‬
‫اور اسالف کرام کے دور سے قرآن و حدیث سے تواتر کے ساتھ ثابت شدہ عقائد کو بدلنے کی کوشش‬
‫کی‬

‫اور لوگوں میں ایک ذہنی الجھن پیدا کردی۔‬

‫اس پریشانی" کو دیکھتے ہوئے امام احمد رضا" کے محبین خاص کر قرب یافتہ مریدین اور خلفا نے آپ‬
‫سے گذارش کی کہ جہاں آپ اتنی محنت کر رہے ہیں‬

‫اور ہر قسم کی کتب تصنیف" فرمارہے ہیں وہاں ترجمہ" قرآن کی بھی اشد ضرورت ہے۔‬

‫چنانچہ امام احمد رضا نے اپنے خلیفہ حضرت موالنا حکیم محمد امجد علی اعظمی کی ذ ّمے داری‬
‫لگائی کہ آپ میرے پاس مغرب و عشا کے درمیان کاغذ قلم لے کر آجایا کریں‬

‫جیسے جیسے وقت ملے گا احقر ترجمہ امال کروادے گا۔‬


‫یہ اہم ترین کام کس تاریخ کو شروع ہوا اس کی نشاندہی تو تاریخ کے اوراق" میں نہ ہوسکی‬

‫البتہ چند ماہ کی جدوجہد کے بعد یہ ترجمہ قرآن ‪1330‬ھ ‪1911 /‬ء میں پائے تکمیل کو پہنچا‬

‫اور جلد ہی حسنی پریس یا مراد آباد کے کسی پریس سے اول بغیر حاشیے کے شائع ہوا‬

‫اعلی حضرت کے خلیفہ موالنا سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمة کے حاشیے‬
‫ٰ‬ ‫اور جلد ہی‬

‫”خزائن العرفان“ کے ساتھ مراد آباد سے شائع ہوا اور آج پاک و ہند کا شاید کوئی مطبع نہیں جو یہ‬
‫ترجمہ شائع نہ کر رہا ہو۔‬

‫پاکستان کے قیام" کے بعد اول تاج کمپنی نے یہ ترجمہٴ قرآن شائع کیا اس کے بعد موالنا مفتی ظفر علی‬
‫نعمانی‪،‬‬
‫بانی دارالعلوم امجدیہ رضویہ و مکتبہ رضویہ نے اس کو کراچی پاکستان سے ‪1955‬ء کے لگ بھگ‬
‫شائع کرایا۔‪......‬‬

‫مضمون جاری ہے‪ ‬۔‬


‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫کنزاال یمان اور عرفان القرآن‬


‫ایک علمی و تحقیقی جائزہ‬

‫قسط نمبر ‪4‬‬


‫از ‪:‬‬
‫پروفیسر ڈاکٹر مجید ہللا قادری‬

‫ترجمہ قرآن کنز االیمان کے بعد مزید کسی اردو ترجمے کی ضرورت" محسوس‬
‫ٴ‬ ‫امام احمد رضا کے‬
‫نہیں ہوتی تھی‬

‫کیونکہ علما کے خیال میں اس سے زیادہ بہتر اور کوئی ترجمہ" نہیں کیا جاسکتا تھا‬
‫(علوم دینیہ‪ ،‬نقلیہ و عقلیہ‪ ،‬قدیمہ و جدیدہ) پر امام احمد رضا مہارت و دسترس‬
‫ِ‬ ‫اس لیے جتنے کثیر علوم‬
‫رکھتے تھے اُتنے کثیر علوم کو جاننے والی کوئی شخصیت نہ آپ کے زمانے میں تھی اور نہ ہی آپ‬
‫کے بعد کوئی ایسی شخصیت سامنے آسکی ہے‬

‫ترجمہ قرآن تو کیا جاسکتا تھا مگر وہ ترجمہ امام احمد رضا کے ترجمے سے بہتر نہیں ہوسکتا" تھا‬
‫ٴ‬

‫ترجمہ قرآن کرنے کی سعادت‬


‫ٴ‬ ‫چنانچہ ان کے ترجمے کے بعد اہلسنّت کی طرف" سے کئی مترجمین نے‬
‫حاصل کی‬

‫ترجمہ قرآن کے‬


‫ٴ‬ ‫اور یہ ترجمے شائع بھی ہوئے مگر آج تک کسی بھی ترجمے کو امام احمد رضا کے‬
‫مقابل پذیرائی حاصل نہ ہوسکی۔‬

‫حقیقت یہ ہے کہ جب سورج چمک رہا ہو تو کسی کے دیے جالنے سے روشنی" میں اضافہ نہیں ہوسکتا‬

‫تقاضائے مسلک تو یہ ہے کہ اس مستند ترین ترجمہٴ قرآن کو مطالعے میں رکھا جائے‬

‫اور جہاں ابھی متعارف" نہیں وہاں اسی کو متعارف" کرایا جائے۔‬

‫تفسیر قرآن‬
‫ِ‬ ‫یہی وجہ ہے کہ اہ ِل سنت وجماعت کے بعض جید علما نے کنزاالیمان کی اشاعت کے بعد‬
‫لکھی‬
‫لیکن قرآنی آیات کا اپنی طرف سے ترجمہ" کرنے کے بجائے امام احمد رضا" علیہ الرحمة کے ترجمہٴ‬
‫قرآن کنزاالیمان کو برقرار" رکھا۔‬
‫اہل سنت گروہوں کے علما اور نوخیز" فرقوں کے‬‫مخالف ِ‬
‫ِ‬ ‫ترجمہ قرآن کے بعد دیگر‬
‫ٴ‬ ‫امام احمد رضا کے‬
‫ترجمہ" قرآن کے سلسلے کو نہ صرف" جاری رکھا بلکہ اس میں اور تیزی آگئی۔‬
‫ٴ‬ ‫بانیوں نے‬

‫تراجم قرآن شائع ہوکر سامنے آئے‬


‫ِ‬ ‫آپ تعجب کریں گے پچھلے سو سالوں میں ایک سو سے زیادہ اردو‬
‫ہیں اور آپ یہ بھی پڑھ کر تعجب کریں گے کہ مترجمین کی اکثریت عالم و فاضل نہیں ہے اور ان‬
‫مترجم قرآن کے لیے ضروری" ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫شرائط پر بھی پوری" نہیں اترتی جو ایک‬

‫اکثر مترجمین تووہ ہیں جو بغیر اعراب کے عربی متن بھی نہیں پڑھ سکتے اور نہ ہی انہوں نے‬
‫مترجم قرآن کی صف میں شامل‬
‫ِ‬ ‫علوم اسالمیہ کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی مگر وہ بھی‬
‫ِ‬ ‫مدارس دینیہ میں‬
‫ِ‬
‫ہیں۔‬

‫مفسر قرآن ہیں جو بنیادی طور پر صحافی یا سیاسی لیڈرہیں‬


‫ِ‬ ‫ایسے بھی مترجم اور‬

‫تراجم قرآن کی سعادت حاصل کرلی اور قید و بند سے جب باہر آئے تو‬
‫ِ‬ ‫اور دوران قید وبند انھوں نے‬
‫مترجم قرآن بن گئے۔‬
‫ِ"‬ ‫مفسر اور‬

‫ایسے مترجم قرآن بھی ہیں جو احادیث نبوی کے قطعی منکر ہیں مثالً‬

‫مولوی عبدہللا چکڑالوی‪ ،‬مولوی" عنایت ہللا مشرقی‪ ،‬مولوی" چودھری غالم احمد پرویز" وغیرہ وغیرہ یا‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم" کی نبوت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‬ ‫وہ مترجم بھی شامل ہیں جو ِ‬

‫اور ان کے خاتم النبیین ہونے کے باوجود ان کے بعد کسی اور نبوت کے دعوے دار کو بھی معاذ ہللا‬
‫نبی مانتے ہیں‬
‫مثالً مرزا بشیر الدین محمود‪،‬‬

‫مولوی محمد علی الہوری"‬

‫شان رسالت کی پامالی کی ہے اور ہللا‬


‫شان الوہیت اور ِ‬
‫اور ایسے مترجمین کی تو کثرت ہے جنھوں نے ِ‬
‫تعالی اور اس کے رسول" صلی ہللا علیہ وسلم" کی بعض صفات اور خصائص کا انکار کرتے ہیں اور‬
‫ٰ‬
‫بعض صفات پر گستاخانہ کالم کرکے کفر کے مرتکب ہوتے ہیں۔‬

‫مثالً سید مودودی" صاحب‪،‬‬

‫مولوی محمود" الحسن دیوبندی‪،‬‬

‫مولوی اشرفعلی تھانوی‪،‬‬

‫مولوی ابوالکالم آزاد‪،‬‬

‫مولوی عبد الماجد دریا آبادی‪،‬‬


‫مولوی فرمان علی‪،‬‬

‫مولوی عبد الرحمٰ ن جونا گڑھی‬

‫مولوی فیروز الدین رومی" (بانی مبلغ فیروز سنز)‬

‫مولوی محمد نعیم دہلوی‪،‬‬

‫مولوی وحیدالدین وغیرہم۔"‪......‬‬

‫مضمون جاری ہے ‪....‬‬


‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫کنزاال یمان اور عرفان القرآن‬


‫ایک علمی و تحقیقی جائزہ‬

‫قسط نمبر ‪5‬‬

‫از ‪:‬‬

‫پروفیسر ڈاکٹر مجید ہللا قادری‬

‫ترجمہ قرآن کی مسلسل پذیرائی اور اشاعت نے ان تمام‬


‫ٴ‬ ‫ث بریلوی قدس سرہ کے‬ ‫امام احمد رضا محد ِ‬
‫مکتبوں اور مطبع خانوں کو ماند کردیا جو دیگر مترجمین قرآن کے اردو تراجم کو شائع کرتے اور‬
‫کاروبار" کرتے تھے۔‬

‫ب فکر کے علما کو اعتماد‬


‫چنانچہ ایک سازش کی گئی اور ان اداروں کے ذمے دارافراد" نے دیگر مکات ِ‬
‫ٰ‬
‫عالم اسالمی سے ایک فتوی جاری کرایا‬ ‫میں لے کر اپنے تمام اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے رابطہ ِ‬
‫جس میں امام احمد رضا کے ترجمہٴ قرآن کو مشرکانہ ترجمہ (معاذ ہللا) قرار دیا‬

‫اور دنیائے عرب بالخصوص سعودی" عرب ‪،‬کویت اور عرب امارت میں ‪1983‬ء میں اس پر حکومتی‬
‫سطح پر پابندی بھی لگوائی گئی۔‬

‫حج کے دوران مولوی" محمود الحسن دیوبندی" کے ترجمہٴ قرآن کو عرب حکومت کی طرف سے شائع‬
‫کرکے تمام حجاج میں مفت تقسیم کیا گیا‬

‫تاکہ مسلمانوں کو کنزاالیمان کے مطالعے سے دور رکھا جائے۔‬

‫یہ ترجمہ الکھوں کی تعداد میں شائع ہوتا رہا ہے اور اسی کو حاجیوں میں تقسیم کیا جاتا رہا مگر ہللا تعا‬
‫لی کا کرم دیکھیے کہ پابندی" لگنے کے بعد کنزاالیمان کی اشاعت میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ اضافہ‬
‫ٰ‬
‫ہوگیا‬

‫اور آج پاک و ہند کے جتنے بھی بڑے بڑے مکتبے اور مطبع خانے ہیں وہ اس کی اشاعت کی صورت‬
‫ہیں اور ادھر سعودی" حکومت نے از خود محمود الحسن دیوبندی" کے ترجمے کی اشاعت اور تقسیم بھی‬
‫اہل سنت کے عقائد کی‬
‫بند کردی" کیونکہ اس میں بھی حاشیے میں وسیلے اور بعض دیگر امور" میں ِ‬
‫تائیدی عبارات تھیں۔‬

‫‪1983‬ء میں کنزاالیمان پر پابندیوں اور اس ترجمے کو غلط قرار" دینے کے خالف صرف" ملکی نہیں‬
‫بلکہ عالمی پیمانے پر صدائے احتجاج بلند ہوئی۔‬

‫ت امام احمد رضا" کی‬


‫ادارہ تحقیقا ِ‬
‫ٴ‬ ‫ملکی اوربین االقوامی" طور پر بے شمار احتجاجی جلسے منعقد ہوئے‬
‫جانب سے ‪1984‬ء میں ساالنہ امام احمد رضا کانفرنس کے موقع پرتمام" مقاال نگار حضرات نے‬
‫کنزاالیمان کے حوالے سے مقاالت پیش کیے‬

‫اس میں سب سے جامع مقالہ جس کا دورانیہ" ایک گھنٹے سے بھی زیادہ تھا پروفیسر طاہر القادری‬
‫صاحب کا تھا جس کا عنوان‬

‫”کنزاالیمان کا اردو تراجم میں مقام“ تھا۔‬

‫ادارہ منہاج القرآن کی جانب سے کتابی صورت میں شائع‬


‫ٴ‬ ‫اس مقالے کو بہت زیادہ سراہا گیا۔ بعد میں‬
‫بھی ہوا اور ادارے کی طرف سے ساالنہ معارف" رضا شمارہ ‪ 5‬میں بھی شائع ہوا۔‬

‫یہ زمانہ پروفیسر" طاہر القادری کی علمی سطح پر تعارف" کا ابتدائی دور تھا۔ کنزاالیمان پر مقالہ پڑھنے‬
‫فن خطابت کے زور"‬ ‫کے بعد ان کو پاک و ہند میں بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی اور انھوں نے صرف" ِ‬
‫پر نہیں بلکہ علمی اورتحقیقی مقالہ پیش کرکے امام احمد رضا کی علمیت کو اجاگر کیا‬

‫ترجمہ" قرآن کو اردو زبان کے تراجم‬


‫ٴ‬ ‫اور جنہوں نے پابندی لگوائی تھی ان کو بھر پور جواب دیا کہ اس‬
‫میں کتنا بلند مقام حاصل ہے کہ نہ آج تک ایسا ترجمہ ہوا اور نہ ہی شاید اتنا عظیم ترجمہ کیا جاسکے‬
‫گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫مضمون جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬


‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫کنزاال یمان اور عرفان القرآن‬


‫ایک علمی و تحقیقی جائزہ‬
‫قسط نمبر ‪6‬‬

‫از ‪:‬‬
‫پروفیسر ڈاکٹر مجید ہللا قادری‬

‫ا۔ اب مالحظہ کیجیے چند اقتباسات جو پروفیسر طاہر القادری صاحب کے مقالے سے اخذ کیے گئے ہیں‬

‫ابتدا میں فرماتے ہیں‪:‬‬

‫ادنی طالب علم کی حیثیت سے اور بغیر کسی تعصب اور کسی مخصوص وابستگی کہ‬
‫”قرآن کریم کے ٰ‬
‫یہ حقیقت واضح کرنا چاہوں گا کہ موالنا احمد رضا" خاں کے کیے ہوئے ترجمے‬

‫”کنزاالیمان“ کو تمام تراجم" میں جو شاہ رفیع الدین کے دور سے لے کر آج تک چلے آئے ہیں اس‬
‫قرآنی ترجمے کو چھ اعتبارات سے منفرد اورممتاز" پایا‬

‫گو اس کے عالوہ کئی اعتبارات اور بھی ہوسکتے ہیں یہ چھ پہلو مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬

‫‪1‬۔ کنزاالیمان کے امتیاز اور شرف و کمال اور اس کا اسلوب ترجمہ۔‬

‫‪2‬۔ ترجمے کا انداز بیان۔‬

‫‪3‬۔ کنزاالیمان ترجمہ کی جامعیت‪ ،‬معنویت اور مقصدیت ۔‬

‫‪4‬۔ صوتی حسن‪ ،‬اس کی سالست و ترنم و نغمگی۔‬

‫‪5‬۔ ترجمے کا فہم و تدبر۔‬

‫ب رسالت۔‬
‫ب الوہیت اور اد ِ‬
‫‪6‬۔اد ِ‬

‫(معارف" رضا شمارہ ‪1995 ،5‬ء ص ‪)34‬‬

‫پروفیسر طاہر القادری کے پیش کردہ چھ امتیازات سے ایک ایک اقتباس مالحظہ کیجیے‪:‬‬

‫‪1‬۔پاک و ہند میں اردو ادب کی دنیا میں بعض تراجم لفظی اسلوب اور بعض صرف بامحاورہ اسلوب پر‬
‫لکھے گئے ہیں‬

‫کالم ٰالہی ہے اس‬


‫جبکہ خود قرآن کا اسلوب نہ تو صرف لفظی ہے اور نہ صرف با محاورہ کیونکہ یہ ِ‬
‫ب بیان ہے۔‬
‫لیے اس کا اپنا ایک جداگانہ اسلو ِ‬
‫قرآن کے اس اسلوب کو نہ تو لفظی ترجمے کرنے والے اس کو اپنے اندر سموسکے اور نہ بامحاورہ‬
‫ترجمے کرنے والوں کے ترجموں میں اس کا اسلوب پایا گیا۔‬

‫امام احمد رضا نے قرآ ِن کریم" کا اردو زبان میں ایک ایسا ترجمہ ”کنزاالیمان“ کے نام سے تخلیق کیا‬
‫جو لفظی نقائص سے بھی پاک و صاف تھا اور بامحاورہ ترجمے کے حسن سے بھی واقف تھا۔‬

‫کنزاالیمان میں ترجمہ اس انداز سے کیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف" جدید اسلوب کے لحاظ سے بامحاورہ‬
‫ہے اور نہ صرف قدیم" اسلوب کے لحاظ سے لفظی ہے۔‬

‫قرآن پاک کے ہر‬


‫ِ‬ ‫اس ترجمے کا اپنا اسلوب ہے کہ اس میں لفظی ترجمے کے کماالت کے حوالے سے‬
‫ہر لفظ کا مفہوم ہے اور ایسا مفہوم پڑھنے کے بعد کسی لغت کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت" باقی‬
‫نہیں رہتی‬

‫اور با محاورہ ترجمے کے حسن کو بھی اسی انداز سے سمیٹا ہے کہ اس کے پڑھنے کے بعد کسی قسم‬
‫کا بوجھ عبارت کے اندر باقی نہیں رہتا۔‬

‫ترجمہ قرآن کو اگر یہ کہا جائے کہ یہ قرآن کے اسلوب سے قریب تر ہے تو غلط نہ‬
‫ٴ‬ ‫امام احمد رضا کے‬
‫ہوگا۔‬

‫(ایضا ً ص ‪...........)35-36‬‬

‫مضمون جاری ہے‪......‬‬


‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫کنزاال یمان اور عرفان القرآن‬


‫ایک علمی و تحقیقی جائزہ‬

‫قسط نمبر ‪7‬‬

‫از ‪:‬‬
‫پروفیسر ڈاکٹر مجید ہللا قادری‬

‫پروفیسر طاہر القادری صاحب اپنے مقالے میں دوسرے امتیازی پہلو ”ترجمہٴ قرآن کا انداز بیان“ کے‬
‫حوالے سے فرماتے ہیں‪:‬‬

‫”یہ درست ہے کہ ہللا رب العزت کا کالم اس کی ذات اور اوصاف" کے کماالت کا آئینہ دار ہے‬

‫لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خدا کی ذات یعنی نیک بندوں کی روحوں کو اپنی‬
‫صفاتی تجلیات اور صفاتی فیضان سے منور بھی کیا کرتی ہے‬
‫ت‬
‫اور یہ عین ممکن ہے وہ ذات کسی پر اپنا اس طرح لطف و کرم کرے کہ وہ اپنے کالم کی صفا ِ‬
‫تجلیات سے کسی بھی شخص کے ترجمہ کو اپنا آئینہ دار بنادے اور جو حسن و کمال اس کے کالم میں‬
‫جھلکتا ہے‬

‫اس کامظہر کسی کے ترجمے کو بنادے اور جب یہ خدا کا فیضان امام احمد رضا پر ہوا تو انہوں نے‬
‫قرآن کی تقریر کو نہ تحریر میں بدال اور قرآن کا جو اسلوب تھا اس کو قائم رکھا‬

‫ترجمہ قرآن نہ صرف تقریری" اسلوب رکھتا ہے اور نہ صرف تحریری" اسلوب بلکہ‬
‫ٴ‬ ‫لہٰذا ان کا کیا ہوا‬
‫ً‬
‫قرآن کے اصل اسلوب کو مدِّنظر رکھ کر اسی اسلوب کے مطابق ترجمہ کیا۔“ (ایضا ص ‪)38‬‬

‫پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا ایک اور اقتباس مالحظہ کیجیے جو انہوں نے کنزاالیمان کے‬
‫تیسرے امتیازی پہلو میں بیان کیا‪:‬‬

‫”جو معنویت قرآ ِن کریم کے الفاظ اور اس کی آیت میں ہے اگر تعصب کے پردے اٹھا کر اس ترجمے‬
‫کا مطالعہ کیا جائے تو وہللا اُسی معنویت کا رنگ اس ترجمے میں بھی دکھائی" دیتا ہے۔‬

‫” ٰذلِ َ‬
‫ک ْال ِک ٰتبُ اَل َری َ‬
‫ْب فِ ْی ِہ“ کا ترجمہ تمام مترجمین نے یہ کیا ہے کہ ”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی"‬
‫شک نہیں“‬

‫ٰذلک کی حکمت کسی مترجم کے ترجمے میں دکھائی نہیں دیتی اور وہ معنویت جو ِ‬
‫اسم اشارہ بعید کے‬
‫استعمال کے لیے ہے اس کا اظہار کسی اور ترجمے میں نہیں ہوتا اور یہ اظہار صرف اور صرف‬
‫واحد ترجمے ”کنزاالیمان“" سے ہوتا ہے امام احمد رضا نے ترجمہ کیا!‬
‫”وہ بلند رتبہ کتاب کوئی شک کی جگہ نہیں “‬

‫قرآن کریم میں ٰذلک کی معنویت کی جو حکمت ہے وہ صرف اسی ترجمے سے حاصل ہوتی ہے۔‬
‫ِ‬

‫یہ وہ حکمتیں ہیں جو تفاسیر کے اوراق کو پڑھ کر پھر سمجھ میں آتی ہیں لیکن کنزاالیمان اتنا جامع اور‬
‫کامل ترجمہ ہے کہ لفظ کا معنی سامنے رکھ کر سینکڑوں تفاسیر کے مطالعے سے بے نیاز کردیتا"‬
‫ہے۔“ (ایضا ً ص ‪...........)40-39‬‬

‫مضمون جاری ہے۔‬


‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

You might also like