You are on page 1of 20

Abasyn University Islamabad Campus

ASSIGNMENT 1

ISLAMIC
STUDIES

Name; Furqan Ahmad


Reg No; 23PL-BSCS-8297
Submitted To, Sir Ahsan Ullah
‫سوال‪ -:‬قرآن کی لغوی اور اصطالحی معنی‬
‫‪:-‬جواب‬
‫اس لفظ (قرآن) کے بارے میں ائمہ مفسرین اور ماہریِن لغت کا اختالف ہے‪ ،‬بعض کہتے ہیں کہ یہ‬
‫اسِم علم غیر مشتق ہے اور ہللا تعالی کے کالم کے لیے مخصوص ہے اس لیے یہ مہموز نہیں‪ ،‬اور‬
‫بعض کہتے ہیں کہ یہ لفظ َق رنسے ماخوذ ہے جس کے معنی جمع کے آتے ہیں جیسے‪ :‬قرنت الشيء‬
‫بالشيء‪ ،‬لیکن راجح قول کے مطابق قرآن اصل میں قرٔا يقرٔاباب فتح سے نکال ہے ‪ ،‬جس کے‬
‫لغوی معنی ہیں " پڑھنا"‪ ،‬اور اصطالحی معنی ہے"ہللا تعالٰی کا وہ کالم جو محمد رسول ہللا صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم پر نازل ہوا‪ ،‬مصاحف میں لکھا گیا‪ ،‬اور آپ ﷺ سے بغیر کسی شبہ کے تواترًا منقول‬
‫ہے"۔‬

‫سوال‪ -:‬جمع ابو بکر اور جمع عثمان اور ان دونوں جمعوں میں فرق‬
‫‪:-‬جواب‬
‫عہدصدیقیؓ میں جمع قرآن اور اسکی نوعیت‬
‫آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا‪ ،‬سارے‬
‫اجزا الگ الگ تھے‪ ،‬حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے ان قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک‬
‫ہی جلد میں مجلد کروانے کا کام حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا؛ چنانچہ ایسا نسخہ مرتب ہو‬
‫صحابہ کرام کی اجماعی تصدیق حاصل ہوئی۔‬
‫ٴ‬ ‫گیا جس کو سارے‬
‫حضرت ابوبکر صدیؓق کے دوِر حکومت میں تدوین قرآن کی صورت یہ تھی کہ اسے مختلف پارچوں‬
‫سے نقل کرکے ایک جگہ (کاغذ) پریکجا کیا گیا۔یہ نسخہ بہت سے صحیفوں پر مشتمل تھا اورہر‬
‫سورت الگ الگ صحیفے میں لکھی گئی تھی۔اور صرف وہی کچھ لکھا گیا جس کا قرآن ہونا تواتر‬
‫سے ثابت ہوا تھا۔ ( وہ آیات اور حروف نکال دیے گئے جن کی تالوت منسوخ ہو چکی تھی۔)‬
‫دوِر صدیقی میں قرآِن کریم کے منتشر حصوں کو یکجا کرنے کا مقصد قرآن مجید کی حفاظت کو‬
‫یقینی بنانا تھا‪ ،‬کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں حاملین قرآن اور حفاظ صحابؓہ کی وفات سے قرآِن مجید کا‬
‫کوئی حصہ ضائع نہ ہوجائے۔‬

‫‪:‬صحف صدیقی کی حقیقت‬


‫عہد صدیقی میں قرآن مجید ایک مصحف میں بشکِل کتاب مرتب نہیں ہوا تھا‪ ،‬بلکہ مختلف چیزوں سے‬
‫صحیفوں (کتابچوں‪ /‬اوراق) میں لکھ لیا گیا تھا ۔۔ حدیث نبوی میں ان کو “صحف” (صحیفوں) کا نام دیا‬
‫گیا ہے اور حافظ ابن حجؒر کی تشریح کے مطابق وہ منتشر اوراق (االوراق المجردۃ) تھے۔ مصحف‬
‫اور صحف کا فرق بتاتے ہوئے حافظ موصوف نے لکھا ہے کہ مصحف تو سورتوں کی ترتیب کے‬
‫مطابق اور بشکل کتاب ہوتا ہے‪ ،‬جب کہ صحف منتشر اوراق ہیں جن میں سورتیں ترتیب کے ساتھ‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کر دی گئی تھیں۔ یہی صحف صدیقی ہیں۔ فتح الباری‪9/24 ،‬‬
‫ان کو صحف صدیقی کہنا اس لیے بھی مناسب و موزوں معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت کے حکم سے‬
‫قرآن کریم کو اوراق و قراطیس میں جمع کرکے محفوظ کر دیا گیا تھا۔ بعض روایات میں ان کو‬
‫صحیفہ بھی کہا گیا ہے‪ ،‬لیکن واحد بول کر جمع مراد لی گئی ہے۔ دوسری تاریخی اور واقعاتی سند یہ‬
‫ہے کہ انہی “صحف صدیقی” کی بنا پر حضرت عثمان بن عفان اموی رضی ہللا تعالٰی عنہ کے عہِد‬
‫خالفت میں مصحف اور مصاحف تیار کیے گئے تھے‪ ،‬جن کی تعداد مختلف روایات میں مختلف آئی‬
‫ہیں‪ ،‬لیکن سات مصاحف کی روایت کو سب سے معتبر کہا گیا ہے۔ ان مصاحف کو حضرت عثمان‬
‫رضی ہللا تعالٰی عنہ کے ناِم نامی سے موسوم کر کے “مصاحف عثمانی” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔‬

‫پس منظر حدیث کی روشنی میں‬


‫حضوِر پاک صلی ہللا علیہ وسلم کے مرض الوفات کے ساتھ ہی فتنے ابھرنے شروع ہوگئے اور آپ کی‬
‫وفات کے بعد ان فتنوں نے شدت اختیار کرلی‪ ،‬حضرت صدیق اکبر رضی ہللا عنٗہ نے ان فتنوں کی‬
‫سرکوبی کے لیے پوری طاقت وقوت صرف کردی اور بہت سے معرکےاس دوران پیش آئے جن میں‬
‫سے ایک اہم معرکہ جنگ یمامہ کا ہے‪ ،‬جس میں بہت سے قراء شہید ہوئے جن کا انداز ‪ /۷۰‬اور ایک‬
‫قول کے مطابق ‪/۷۰۰‬تک لگایا گیا ہے (تفسیرقرطبی‪ ،۱/۳۷:‬عمدۃ القاری‪ )۱۳/۵۳۳:‬درباِر رسالت کے‬
‫مشہور قاری سالم مولی ابوحذیفہ رضی ہللا عنہ بھی اسی معرکہ میں شہید ہوئے (مناہل العرفان‪)۱۷۹:‬‬
‫اس عظیم سانحہ کی وجہ سے بعض اجلۂ صحابہ رضی ہللا عنہم بالخصوص حضرت عمر رضی ہللا‬
‫عنہ کو تشویش الحق ہوئی جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنہ اس‬
‫” ‪:‬طرح بیان فرماتے ہیں‬
‫جنِگ یمامہ کے بعد مجھے امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے بالیا میں پہنچا تو‬
‫وہاں پہلے سے حضرت عمر رضی ہللا عنہ بھی تشریف فرما تھے‪ ،‬حضرت صدیق اکبررضی ہللا عنٗہ‬
‫نے فرمایا کہ یہ عمررضی ہللا عنہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ یمامہ کے شدید معرکہ میں‬
‫بہت سے حفاظ کام آگئے ہیں‪ ،‬مجھے اندیشہ ہے کہ اگر ایسے ہی دیگر معرکوں میں حفاظ شہید ہوتے‬
‫رہے تو قرآن مجید کا بہت سا حصہ ان کے سینوں ہی میں چالجائے گا؛ اس لیے عمررضی ہللا عنٗہ‬
‫کہتے ہیں کہ میں (ابوبکررضی ہللا عنٗہ ) قرآن مجید کے جمع وتدوین کا اہتمام کروں (حضرت ابوبکر‬
‫صدیق رضی ہللا عنٗہ فرماتے ہیں کہ) میں ان سے کہہ چکا ہوں کہ جس کام کو حضور صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں (لیکن) عمررضی ہللا عنٗہ کہتے ہیں خدا کی قسم اس میں سراپا‬
‫خیر ہی ہے یہ مجھ سے بار بار تقاضا کرتے رہے؛ آخر ہللا تعالٰی نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے‬
‫کھول دیا اور اب میری بھی وہی رائے ہے جو عمررضی ہللا عنٗہ کی ہے‪ ،‬زید کہتے ہیں‪ :‬حضرت‬
‫ابوبکرصدیق رضی ہللا عنٗہ نے مجھ سے فرمایا‪ :‬تم نوجوان ہو سمجھدار ہو کسی طرح کی تہمت بھی‬
‫ہم تمہارے (اور تمہارے دین ودیانت کے)بارے میں نہیں پاتے اور تم رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫کے کاتِب وحی بھی ہو تم قرآن کریم (کے مختلف اجزاء) کو تالش کرو اور اس کو جمع کرو! حضرت‬
‫زید رضی ہللا عنٗہ کہتے ہیں‪ :‬کہ خدا کی قسم اگر وہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کے ایک جگہ سے‬
‫دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم فرماتے تو یہ میرے لیے زیادہ آسان تھا‪ ،‬بنسبت اس کام کے جس کا‬
‫انھوں نے مجھے حکم دیا ہے‪ ،‬یعنی جمع قرآن کا حضرت زید رضی ہللا عنٗہ کہتے ہیں‪ :‬کہ میں نے ان‬
‫سے کہا کہ آپ حضرات ایسا کام کیسے کررہے ہیں جس کو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے نہیں کیا‬
‫تو حضرت ابوبکر رضی ہللا عنٗہ نے فرمایا‪ :‬بخدا یہ تو اچھا ہی کام ہے‪ ،‬حضرت زید رضی ہللا عنٗہ‬
‫فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی ہللا عنٗہ اس بارے میں بار بار مجھ سے اصرار کرتے رہے؛‬
‫یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی ہللا عنٗہ وعمر رضی ہللا عنٗہ کی طرح ہللا تعالٰی نے میرا سینہ بھی‬
‫اس کام کے لیے کھول دیا (پھر میں صرف حکم کی تعمیل میں نہیں بلکہ واقعی ایک اہم ضرورت‬
‫سمجھ کر اس کام کے لیے تیار ہوگیا) پھر میں نے قرآن کریم کے اجزاء کو تالش کرنا شروع کیا او‬
‫راسے کھجور کی شاخوں‪ ،‬پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا؛ یہاں تک کہ‬
‫سورۃ توبہ کی آخری آیتیں “َلَقْد َج اَئ ُک ْم َر ُسْو ٌل ِمْن َأْنُفِس ُکْم َع ِز ْی ٌز َع َلْی ِہ َم اَع ِنُّت ْم َح ِر یٌص َع َلْیُکْم ِباْلُمْؤ ِم ِنْی َن َر ُء‬
‫وٌف َر ِحْی ٌم ” (التوبۃ‪“ )۱۲۸:‬ابوخزیمہ انصاری رضی ہللا عنٗہ کے پاس ملی جو کسی اور کے پاس نہیں‬
‫تھیں”۔‬
‫)صحیح بخاری‪ ،‬کتاب فضائل القرآن‪ ،‬باب جمع القرآن‪(۲۰/۴۹۸۶:‬‬
‫یہ حدیث حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنہ سے مروی ہے۔ وہی ان صحیفوں کے کاتب بھی ہیں جن‬
‫میں مختلف چیزوں سے قرآنی آیات اور سورتیں جمع کر کے لکھی گئیں تھیں۔‬
‫ممکن ہے کہ مذکورہ حدیث میں سورت توبہ کی آخری آیت واال حصہ پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ‬
‫اشکال پیدا ہو کہ حضرت زید کو یہ آیت دیگر صحابہ کے پاس کیوں نہ ملی؟ ہم اسکی یہاں مختصر‬
‫وضاحت کردیتے ہیں کہ حضرت زید کا مقصد یہ بتانا نہیں تھا کہ یہ آیت کسی کو یاد بھی نہیں تھی‬
‫بلکہ یہ کہ یہ آیت حضرت خزیمہ کے عالوہ کسی اور صحابی کے پاس لکھی ہوئ نہ تھی۔(االتقان ‪،‬ج‬
‫‪،۱‬ص‪)۱۰۱‬‬
‫دوسرے سینکڑوں حفاظ کے عالوہ خود حضرت زید بھی حافظ تھے اور ان کو یہ معلوم تھا کہ یہ‬
‫آیات کہا ں اور کس سورت سے متعلق ہیں اسی لیے انہوں نے اسکو صحابہ کے پاس تالش بھی‬
‫کیا ۔!! اس ضمن میں صحابہ کی تالش تائید وتقویت کے لئے تھی کہ حفظ وحافظے کے عالوہ لکھے‬
‫ہوئے سے بھی اسکی تائید ہوجائے اور وہ ابوخزیمہ انصاری سے مل گئی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے‬
‫کہ حضرت زید نے تنہاء حافظے پر اعتماد نہیں کیا ‪،‬سورئہ براءة کی آخری آیات باوجودیکہ حضرت‬
‫زید کو حفظ تھیں اور ان کے عالوہ متعدد صحابہ کو بھی حفظ تھیں ‪ ،‬لیکن اس وقت تک ُانہیں درج‬
‫نہیں کیا جب تک کہ کسی صحابی (حضرت خزیمؓہ ) کے پاس بھی لکھی شہادت نہیں مل گئی ۔یہ اس‬
‫بات کی گواہی ہے کہ تدوین کے سلسلے میں کس قدر احتیاط کا اہتمام کیا گیا۔‬

‫‪ :‬کام کی نوعیت‬
‫پورا قرآن عہد رسالت میں لکھا جاچکا تھا مگر اس کی آیتیں اور سورتیں یکجا نہ تھی حضرت ابو‬
‫بکر رضی ہللا عنہ نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی ترتیب کے مطابق اس کو ایک جگہ جمع کیا ۔‬
‫‪ :‬عالمہ سیوطی ابو عبدہللا محاسبی کی کتاب ”فہم السنن”کے حوالے سے لکھتے ہیں‬
‫قرآن کی کتابت کوئ نئی چیز نہ تھی نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم بذات خود اس کے لکھنے کا حکم”‬
‫دیا کرتے تھے البتہ وہ کاغذ کے ٹکڑوں‪،‬شانہ کی ہڈیوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر بکھرا پڑا تھا ۔‬
‫حضرت ابو بکررضی ہللا تعاٰل ی عنہ نے متفرق جگہوں سے اس کو یکجا کرنے کا حکم دیا یہ سب‬
‫اشیاء یوں تھیں جیسے آنحضور صلی ہللا علیہ وسلم کے گھر میں اوراق منتشر پڑے ہوں اور ان میں‬
‫قرآن لکھا ہو اہو‪ ،‬ایک جمع کرنے والے (حضرت ابوبکررضی ہللا تعاٰل ی عنہ )نے ان اوراق کو جمع‬
‫کرکے ایک دھاگے سے باندھ دیا تاکہ ان میں سے کوئی چیز ضائع نہ ہوپائے۔(البرہان ‪،‬ج‪،۱‬ص‬
‫‪،۲۳۸‬االتقان‪،‬ج‪،۱‬ص‪)۱۰۱‬‬
‫وکان القرآُن فیہا ُم ْن َت ِش رًا َف َج َمَع ہا جامٌع و َر َب َط َہ ا بخیٍط ۔ (االتقان ‪)۱/۸۳‬‬
‫اور (رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے گھر میں قرآن مجید کی مکمل یاد داشتوں کا جو )‪:‬ترجمہ(‬
‫ذخیرہ تھا) اس میں (قرآنی سورتیں) الگ الگ لکھی ہوئی تھیں؛ پس اس کو (حضرت ابوبکر کے حکم‬
‫سے) جمع کرنے والے (زید بن ثابت) نے ایک جگہ (ساری سورتوں کو) جمع کر دیا‪ ،‬اور ایک دھاگا‬
‫سے سب کی شیرازہ بندی کر دی۔‬

‫تدوین کا طریِق کار‬


‫جمِع قرٓان کے سلسلہ میں حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنٗہ کے طریقہ کار کو اچھی طرح سمجھ لینا‬
‫چاہیے۔ زید خود حافظ قرٓان تھے؛ لٰہ ذا وہ اپنی یادداشت سے پورا قرٓان لکھ سکتے تھے ان کے عالوہ‬
‫بھی سینکڑوں حفاظ اس وقت موجود تھے ان کی ایک جماعت بناکربھی قرٓان کریم لکھا جاسکتا تھا؛‬
‫نیز قرٓان کریم کے جو مکمل نسخہ ٓانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھ لئے گئے تھے‬
‫حضرت زید رضی ہللا عنٗہ ان سے بھی قرٓان کریم نقل فرماسکتے تھے؛ لیکن انھوں نے احتیاط کے‬
‫پیِش نظر ان میں سے صرف کسی ایک طریقہ پر اکتفا نہیں فرمایا؛ بلکہ ان تمام ذرائع سے بیک وقت‬
‫کام لیکر اس وقت تک کوئی ٓایت اپنے صحیفوں میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی‬
‫تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں اس کے عالوہ ٓانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے قرٓان کریم‬
‫کی جو ٓایات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں وہ مختلف صحابہ رضی ہللا عنہم کے پاس محفوظ تھیں‬
‫حضرت زید رضی ہللا عنٗہ نے انھیں یکجافرمایا تاکہ نیا نسخہ ان سے ہی نقل کیا جائے؛ چنانچہ یہ‬
‫اعالن عام کردیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرٓان کریم کی کچھ بھی ٓایات لکھی ہوئی ہو ں وہ‬
‫حضرت زید کے پاس لے ٓائے (فتح الباری‪ ،۹/۱۷:‬علوم القرٓان‪۱۸۳:‬۔ االتقان‪)۱۲۸:‬‬
‫اس کام کی حضرت صدیق اکبر رضی ہللا عنٗہ خود نگرانی فرماتے رہے اور انھیں اپنے مفید مشوروں‬
‫سے نوازتے رہے؛ چنانچہ روایات سے ثابت ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی ہللا عنٗہ کو بھی‬
‫بطوِر معاون کے حضرت زید کے ساتھ اس کام میں لگادیا تھا (االتقان‪۱/۱۲۹:‬۔ فتح الباری‪ )۹/۱۹:‬اور‬
‫ساتھ ہی حضرت عمر رضی ہللا عنٗہ اور زید رضی ہللا عنٗہ کو یہ حکم بھی فرمادیا تھا‪“ :‬کہ مسجد کے‬
‫دروازے کے پاس بیٹھ جأو؛ پھرجوشخص بھی تمہارے پاس قرٓان کریم کے کسی جزء پر دوگواہ لے‬
‫ٓائے اس کو صحیفوں میں لکھ لو” (االتقان‪۱/۱۲۸:‬۔ فتح الباری‪)۹/۱۷:‬‬
‫الغرض جو جو شخص بھی حضرت زید کے پاس قرٓان مجید کی ٓایتیں لے کر ٓاتا حضرت زیدرضی ہللا‬
‫‪:‬عنٗہ چارطریقوں سے اس کی تصدیق کرتے تھے‬
‫سب سے پہلے اپنے حافظہ سے اس کی تصدیق کرتے تھے۔)‪(۱‬‬
‫پھر جیسا کہ اوپر تحریر کیا جاچکا‪ ،‬حضرت صدیق اکبر رضی ہللا عنٗہ نے حضرت عمر رضی)‪(۲‬‬
‫ہللا عنٗہ کو بھی اس کام میں ان کا معاون بنادیا تھا اس لیے حضرت عمر رضی ہللا عنہ بھی اپنے‬
‫حافظہ سے اس کی جانچ کرتے تھے۔‬
‫کوئی لکھی ہوئی ٓایت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ دوقابل اعتبارگواہوں نے اس)‪(۳‬‬
‫بات کی گواہی نہ دیدی ہو کہ یہ تحریر رسول پاک صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے‪،‬‬
‫حافظ سیوطی رحمہ ہللا کہتے ہیں کہ بظاہر اس بات کی بھی گواہی لی جاتی تھی کہ یہ لکھی ہوئی‬
‫ٓایتیں حضور پاک صلی ہللا علیہ وسلم کی وفات کے سال ٓاپ پر پیش کردی گئی تھی اور ٓاپ نے اس‬
‫بات کی تصدیق فرمادی تھی کہ یہ ان حروِف سبعہ کے مطاق ہے جن پر قرٓان کریم نازل ہوا ہے‬
‫(االتقان‪ )۱/۱۲۸،۱۲۹:‬عالمہ سیوطی رحمہ ہللا کی اس بات کی تائید متعدد روایات سے بھی ہوتی ہے‬
‫)االتقان‪(۱/۱۱۰:‬‬
‫اس کے بعد ان لکھی ہوئی ٓایتوں کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا‪ ،‬جو مختلف صحابہ)‪(۴‬‬
‫رضی ہللا عنہم نے تیار کررکھے تھے‪ ،‬امام ابوشامہ فرماتے ہیں‪“ :‬کہ اس طریِق کار کا مقصد یہ تھا‬
‫کہ قرٓان کریم کی کتابت میں زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے اور صرف حافظہ پر اکتفا‬
‫کرنے کے بجائے بعینہ ان تحریرات سے نقل کیا جائے جو ٓانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے‬
‫لکھی گئی تھی‬
‫)االتقان‪(۱/۱۲۸:‬‬
‫صحابہ کرام نے‬
‫ٴ‬ ‫جب اجتماعی تصدیق کے ساتھ ”قرآن مجید“ کی جمع و تدوین کا کام مکمل ہو گیا‪ ،‬تو‬
‫ْف‬
‫صحابہ کرام نے اس کا نام ”ِس ر“‬
‫ٴ‬ ‫آپس میں مشورہ کیا کہ‪ :‬اس کو کیا نام دیا جائے؟ چناں چہ بعض‬
‫رکھا؛لیکن یہ نام یہودیوں کی مشابہت کی وجہ سے پاس نہیں ہوا‪ ،‬اخیر میں ” مصحف“ نام پر سارے‬
‫صحابہ کرام کا اتفاق ہو گیا۔ (االتقان ‪)۱/۷۷‬‬
‫ٴ‬

‫عہِدصدیقی میں تیار کردہ نسخہ کی خصوصیات‬


‫صحابہ کرام کے پاس بھی قرآن مجید لکھا ہوا تھا؛ لیکن جن خصوصیات کا حامل حضرت‬
‫ٴ‬ ‫دوسرے‬
‫ابوبکر صدیق واال اجماعی نسخہ تھا‪ ،‬ان سے دوسرے سارے نسخے خالی تھے‪ ،‬اسی وجہ سے‬
‫‪:‬صحابہ کرام کے درمیان ُاسے ”ُام“ کہا جاتا تھا‪،‬اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں‬
‫ٴ‬
‫اس نسخہ میں ٓایاِت قرٓانی حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مرتب تھیں؛)‪(۱‬‬
‫لیکن سورتیں مرتب نہ تھیں ہرسورت الگ الگ پاروں کی شکل میں لکھی ہوئی تھی۔(فتح الباری‬
‫‪)۹/۲۲‬‬
‫اس نسخہ میں ایسی کوئی ٓایت ٓانے نہیں دی گئی جس کی تالوت منسوخ ہوچکی ہو۔)‪(۲‬‬
‫اس نسخہ کے تیار کرنے میں پوری باریک بینی سے تالش وتفحص کیا گیا اور پوری احتیاط کے)‪(۳‬‬
‫ساتھ اسے قلمبند کیا گیا۔‬
‫یہ نسخہ ساتوں حروف کی رعایت پر مشتمل تھا۔(مناہل العرفان ‪(۴))۲۴۷ ،۱/۲۴۶‬‬
‫اس کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی ”اجماعی تصدیق“ سے تیار ہو)‪( ۵‬‬
‫جائے؛ تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جا سکے (علوم القرآن از مفتی محمد تقی‬
‫عثمانی ص‪)۱۸۶‬‬
‫اس نسخہ میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر‪ ،‬ایک ہی جلد)‪( ۶‬‬
‫میں مجلد کرایا گیا تھا‪ ،‬اور یہ کام حکومت کی طر ف سے انجام دیا گیا‪ ،‬یہ کام رسول ہللا صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو پایا تھا‪( ،‬تدوین قرآن ص‪)۴۰‬‬

‫حضرت صدیق اکبر رضی ہللا عنٗہ کی اس کوشش سے پہلے بعض صحابہ مثًال حضرت علی رضی‬
‫ہللا عنٗہ وغیرہ نے قرٓان کریم کے جمع کرنے کی کوشش کی تھی جیسا کہ بعض روایات سے معلوم‬
‫ہوتا ہے (فتح الباری‪ ،۹/۱۵:‬االتقان‪ )۱/۱۲۸:‬اور کسی حد تک اس میں کامیاب رہے؛ لیکن وہ ان کی‬
‫اپنی انفرادی کوشش تھی‪ ،‬ان کا نسخہ ان خصوصیات سے خالی تھا جو حضرت صدیق اکبر رضی ہللا‬
‫عنٗہ کے تیار کردہ نسخہ میں پائے جاتے تھے‪ ،‬اس کے عالوہ امت کی اجماعی تصدیق بھی اسے‬
‫حاصل نہ تھی؛ اس کے برعکس حضرت ابوبکرصدیق رضی ہللا عنہ وہ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے‬
‫پورے امت کی اجماعی تصدیق سے ایک معیاری نسخہ”قرٓان عظیم” کا تیار کروایا اس لیے حضرت‬
‫علی رضی ہللا عنہ کا ارشاد ہے قرٓان کریم کے تعلق سے سب سے زیادہ اجر پانے والے حضرت‬
‫ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ ہیں‪ ،‬ہللا ابوبکر رضی ہللا عنٗہ پر رحم فرمائے؛ انھوں نے سب سے پہلے‬
‫قرٓان کو جمع فرمایا۔‬
‫)فتح الباری‪(۹/۱۵:‬‬
‫قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کے پاس رہا‪ ،‬جب ان وفات ہو‬
‫گئی تو حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے پاس محفوظ رہا‪ ،‬جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو (وصیت‬
‫المومنین حضرت حفصہ رضی ہللا عنہا کے پاس محفوظ رکھا رہا (صحیح‬ ‫کے مطابق) آپ کی بیٹی ام ٴ‬
‫بخاری‪ )۲/۷۴۶‬حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے ان کے پاس سے ہی منگوا کر نقول تیار کرائے‬
‫تھے۔‬
‫)صحیح بخاری‪ ،‬فضائل القرآن‪ ،‬باب جمع القرآن‪ ،۲/۷۴۶:‬رقم‪(۴۹۸۷:‬‬

‫عہدعثمانؓ میں جمع قرآن اور اسکی نوعیت‬


‫جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ جمِع قرآن ہے‪ ،‬اسی طرح‬
‫حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ پوری امت کو قرآن مجید کے اس متفق‬
‫علیہ نسخہ پر جمع کرنا ہے جو ”عہِد صدیقی“ میں تیار کیا گیا تھا‪،‬اس کی تفصیل یہ ہے کہ شروع میں‬
‫آیات کے مضمون و معنی کی حفاظت کرتے ہوئے الفاظ میں ادنی تبدیلی کے ساتھ پڑھنے کی اجازت‬
‫دی گئی تھی‪( ،‬مناہل العرفان) جب حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ کا زمانہ آیا اور اسالم کا دائرہ‬
‫بہت وسیع ہو گیا‪ ،‬تو جن لوگوں نے مذکوہ باال رعایتوں کی بنیاد پر اپنے اپنے قبائلی اور انفرادی‬
‫لہجوں یا مختلف متواتر تلفظ کے لحاظ سے قرآن مجید کے مختلف نسخے لکھے تھے‪ ،‬انکے درمیان‬
‫شدید اختالف رونما ہو گیا؛ حتی کہ ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی‪،‬کافی غوروخوض کے بعد‬
‫تمام صحابہ کراؓم اس بات پرمتفق ہوگئے کہ سبعة أحرف کی رعایت کرتے ہوئے کچھ مصاحف تیار‬
‫کئے جائیں اور ہر عالقہ کی طرف ایک مصحف کا نسخہ روانہ کردیا جائے تاکہ وہ اختالف اور‬
‫جھگڑے کے وقت اس کی طرف رجوع کرسکیں اور ان مصاحف کے عالوہ باقی تمام صحیفے ختم‬
‫کردیے جائیں ۔ یہی وہ قابل اعتماد صورت تھی جس سے مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کیا اور‬
‫اختالف کو جڑ سے اکھیڑا جاسکتا تھا۔ (تفصیل کے لے دیکھئے‪ :‬تدویِن قرآن ‪ ،۵۴ ،۴۴‬تحفة االلمعی‬
‫‪ ،۷/۹۴،۹۵‬مناہل العرفان وغیرہ)‬

‫‪-‬پس منظر اور اختالف کی نوعیت‬


‫حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ کے دوِر خالفت میں اسالمی سرحدیں دور دور تک پھیل چکی تھیں اور‬
‫اسالم حدوِد عرب سے نکل کر روم وفارس اور افریقہ کے “بربری” قبائل تک پہنچ چکا تھا‪ ،‬ہرنئے‬
‫عالقہ کے لوگ جب مسلمان ہوتے تھے تو اس عالقہ کے سب سے مشہور قاری کی قرٔات کے مطابق‬
‫قرٓان پڑھنا سیکھتے تھے‪ ،‬مثًال شام کے رہنے والے حضرت ابی بن کعب رضی ہللا عنٗہ کی قرٓات کے‬
‫مطابق قرٓان پڑھتے تھے‪ ،‬کوفہ والے حضرت عبدہللا بن مسعود رضی ہللا عنٗہ کی قرٔات کے مطابق‬
‫قرٓان پڑھتے تھے؛ اسی طرح بعض عالقہ والے حضرت ابوموسٰی اشعری رضی ہللا عنٗہ کی قرٔات‬
‫کے مطابق قرٓان پڑھتے تھے اور ان حضرات کے درمیان حروف کی ادائیگی اور قرٔات کے طریقوں‬
‫میں اختالف پایا جاتا تھا؛ یہاں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ہللا تعالٰی نے اہِل عرب کی سہولت‬
‫وٓاسانی کے لیے سات حروف (سات حروف کے متعلق تفصیل جاننے کے لیے دیکھئے “علوم القرٓان”‪:‬‬
‫‪ )۹۷‬پر قرٓان نازل فرمایا؛ تاکہ مختلف لب ولہجوں میں قرٓان کا پڑھنا ان کے لیے ٓاسان ہوجائے اور‬
‫صحابہ کرام چونکہ اس حقیقت سے واقف ہوچکے تھے اس لیے ان کے درمیان قرٔاتوں میں اختالف‬
‫ہونے کے باوجود وہ ٓاپس میں ایک دوسرے کا ادب واحترام کرتے تھے؛ لیکن جو لوگ نئے نئے‬
‫اسالم میں داخل ہورہے تھے وہ اس حقیقت سے واقف نہیں تھے اور ان کے لیے ساتوں حروف کو‬
‫مکمل طور سے جاننا ٓاسان بھی نہ تھا‪ ،‬کہ اختالف ہونے کی صورت میں اس کے ذریعہ فیصلہ‬
‫کرسکیں‪ ،‬اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ ٓاپس میں ملتے تھے اور ٓاپس میں قرٔاتوں کے درمیان اختالف‬
‫دیکھتے تھے تو ایک دوسرے کی تغلیط کرتے تھے اور بسااوقات انکار تک نوبت ٓاجاتی تھی(مناہل‬
‫العرفان‪)۱۸۴:‬‬
‫ان حاالت میں اس بات کا خدشہ تھا کہ لوگ قرآن مجید کی متواتر قرارتوں کو غلط قرار دینے کی‬
‫سنگین غلطی میں مبتال ہو جائیں گے۔دوسرے ‪،‬حضرت زید بن ثابؓت کے لکھے ہوئے نسخہ کے‬
‫سواپورے عالم اسالم میں کوئی نسخہ نہ تھا جو پوری امت کے لیے حجت بن سکے۔اس نسخہ کے‬
‫عالوہ باقی نسخے صحابہ کراؓم کے ذاتی نسخے تھے۔ان میں سات حروف کو یکجا کرنے کا کوئی‬
‫اہتمام نہ تھا۔ہر کسی نے اپنی اپنی قرارت کے مطابق اپنااپنا نسخہ تحر یر کررکھا تھا۔اس طرح کے‬
‫جھگڑوں کے تصفیہ کے لیے کوئی قابِل اعتماد صورت یہی ہوسکتی تھی کہ ایسے نسخے عالم اسالم‬
‫میں پھیالدئے جائیں جن میں ساتوں حروف جمع ہوں اورانہی کو دیکھ کہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ کون‬
‫سی قرارت صحیح اور کون سی غلط ہے۔ حضرت عثماؓن نے یہی کار نامہ سر انجام دیا۔‘‘ (علوم‬
‫القرآن ‪ ،‬تقی عثمانی صفحہ ‪)178‬‬
‫قرات کے اختالف کے عالوہ قرآن کے متداول نسخوں میں قرآن کے اصل الفاظ اور ان کے ساتھ‬
‫آسانی کے لیے لکھی گئی تشریح و تاویل ایک دوسرے میں خلط ملط ہونے لگے تھے۔بعد میں آنے‬
‫والے بعض لوگوں نے غیر قرآن کو غلطی سے قرآن سمجھ لیاتھا۔ اس وقت ضرورت تھی کہ قرآن‬
‫کے متفق علیہ نسخہ کو عام کیاجائے‪،‬تاکہ لوگوں کے ِاختالفات اور ان کی غلط فہمیاں دور ہوں‪،‬‬
‫قرآن ‪ ،‬غیر قرآن سے ممتاز ہوجائے اور لوگوں کو نِّص قرآن کا یقینی علم حاصل ہوجائے۔ اگر کوئی‬
‫عبارت قرآن کے متفق علیہ نسخہ کےنص سےمختلف ہوتو قطعی طور پر اس کے قران نہ ہونے‬
‫کافیصلہ کیاجاسکے۔ قرآن کا متفق علیہ نسخہ تیار ہوجانے کے بعد اس کے عالوہ کسی مصحف‬
‫کےباقی رہنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ اسی لیے حضرت عثماؓن نے بقیہ تمام نسخوں کوجالئے جانے‬
‫کاحکم دے دیا‪ ،‬تاکہ آئندہ تمام ِاختالفات کا خاتمہ ہوجائے اور قرآن ہر طرح کے التباس سے محفوظ‬
‫ہوجائے۔ ( کتاب من قضایا القرآن ص‪)79-77‬‬

‫اسی طرح ایک اور روایت میں ٓاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ کی خالفت کے زمانہ میں‬
‫(مدینہ منوّر ہ میں) ایک معلم ایک قرٔات کے مطابق قرٓان پڑھتا تھا اور دوسرا معلم دوسری قرٔات کے‬
‫مطابق‪ ،‬جب بچے ٓاپس میں ملتے تھے تو قرٔات میں ایک دوسرے سے اختالف کرتے تھے اور رفتہ‬
‫رفتہ اختالف معلمین تک پہنچ جاتا تھا؛ پھران میں بھی اختالف رونما ہوکر بسااوقات ایک دوسرے کی‬
‫تکفیر تک نوبت پہنچ جاتی تھی‪ ،‬جب حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ کو اس کی خبر پہنچی تو ٓاپ‬
‫رضی ہللا عنٗہ نے خطبہ دیا اور فرمایا‪“ :‬تم میرے پاس ہوتے ہوئے اس طرح اختالف کررہے ہو تو جو‬
‫لوگ مجھ سے دور شہروں میں ہوں گے وہ تم سے زیادہ اختالف کریں گے”۔‬
‫)فتح الباری‪۲۲//۹:‬۔ االتقان‪(۱/۱۳۱:‬‬
‫حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ کا یہ خیال بالکل سچ نکال جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت‬
‫انس رضی ہللا عنٗہ بن مالک سے اس طرح منقول ہے‪ :‬کہ حضرت حذیفہ رضی ہللا عنٗہ جو اس وقت‬
‫اہِل “عراق” کے ساتھ ملِک “شام” میں “ٓارمینیۃ” اور “ٓازربائیجان” کے محاذ پر برسِر پیکار تھے‪،‬‬
‫حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ کے پاس ٓائے‪ ،‬ان کو لوگوں کے اختالِف قرٔات سے بہت تشویش تھی‪،‬‬
‫حضرت حذیفہ رضی ہللا عنٗہ نے حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ سے عرض کیا‪ :‬اے امیرالمٔومنین! قبل‬
‫اس کے کہ یہ امت یہودونصارٰی کی طرح ہللا تعالٰی کی کتاب کے بارے میں اختالفات کی شکار‬
‫ہوجائے اس کو سنبھال لیجئے۔‬
‫)صحیح بخاری۔ فضائل القرٓان‪ ،‬باب جمع القرٓان‪۲۰/۷۴۶:‬۔ رقم‪(۴۹۸۷:‬‬
‫اور فرمایا میں “ٓارمینیۃ” کے محاذ پر برسرپیکار تھا وہاں میں نے دیکھا کہ شام والے ابی بن کعب کی‬
‫قرٔات پر قرٓان پڑھتے ہیں‪ ،‬جس کو عراق والوں نے نہیں سنا اور عراق والے عبدہللا بن مسعود رضی‬
‫ہللا عنٗہ کی قرٔات کے مطابق قرٓان پڑھتے ہیں جس کو شام والوں نے نہیں سنا؛ پھر یہ لوگ ٓاپس میں‬
‫ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگتے ہیں۔‬
‫)فتح الباری‪(۹/۲۱:‬‬
‫حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ پہلے سے اس مسئلہ میں فکرمند تھے‪ ،‬حضرت حذیفہ رضی ہللا عنٗہ کے‬
‫واقعہ نے انھیں اور زیادہ سوچنے پر مجبور کردیا؛ انھوں نے صحابہ رضوان ہللا علیہم اجمعین کو‬
‫جمع فرمایا اور اس بارے میں ان سے مشورہ کیا اور فرمایا‪”:‬مجھے یہ خبر پہونچی ہے کہ بعض لوگ‬
‫کہتے ہیں کہ میری قرٔات تمہاری قرٔات سے بہتر ہے اور یہ بات کفر تک پہونچ سکتی ہے” صحابہ‬
‫کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین نے عرض کیا‪ٓ :‬اپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ حضرت عثمان‬
‫رضی ہللا عنٗہ نے فرمایا‪ :‬میری رائے ہے کہ ہم لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کردیں؛ تاکہ ان کے‬
‫درمیان اختالف نہ ہو‪ ،‬صحابہ کرام رضی ہللا عنٗہ نے اس رائے کی تحسین فرماکر اس کی تائید‬
‫فرمائی۔‬
‫)االتقان‪ ،۱/۱۳۰:‬فتح الباری‪(۹/۲۲:‬‬
‫اس کے بعد حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ نے حضرت حفصہ رضی ہللا عنٗہ کے پاس پیغام بھیجا کہ‬
‫وہ صحیفے (جو حضرت ابوبکر رضی ہللا عنٗہ کے حکم سے تیار کئے گئے) جو ٓاپ کے پاس موجود‬
‫ہے‪ ،‬ہمارے پاس بھیج دیں‪ ،‬ہم اس کی نقل کرواکر ٓاپ کو واپس کردیں گے‪ ،‬تو حضرت حفصہ رضی‬
‫ہللا عنٗہ نے وہ صحیفے حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ کے پاس بھیج دیئے اس کے بعد حضرت عثمان‬
‫رضی ہللا عنٗہ نے اس اہم کام کی تکمیل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جن کے بنیادی طور پر چار‬
‫‪:‬ارکان تھے‬
‫حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنٗہ (‪)۲‬عبدہللا بن زبیر رضی ہللا عنٗہ (‪)۳‬سعید بن العاص رضی ہللا)‪(۱‬‬
‫عنٗہ (‪)۴‬عبدالرحمن رضی ہللا عنٗہ بن حارث بن ہشام‪ ،‬حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ نے ان کو اس کام‬
‫پر مامور فرمایا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی ہللا عنٗہ کے صحیفوں سے قرٓان مجید نقل کروا کر ایسے‬
‫مصاحف تیار کرے جو سورتوں کے اعتبار سے مرتب ہو۔‬
‫)صحیح بخاری‪ ،‬فضائل القرٓان‪ ،‬باب جمع القرٓان‪۲/۷۴۶:‬۔ رقم‪(۴۹۸۷:‬‬
‫ابتداء میں تو حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ نے چار ہی حضرات کو اس کام کے لیے مامور کیا تھا؛‬
‫پھر بعد میں ضرورت پڑنے پر مزید ٓاٹھ حضرات کو بطوِر معاون ان کے ساتھ کردیاجن میں سے‬
‫بعضوں کے نام یہ ہیں‪“ :‬مالک بن ابی عامر رضی ہللا عنٗہ ‪ ،‬کثیر بن افلح رضی ہللا عنٗہ ‪ ،‬ابی بن کعب‬
‫رضی ہللا عنٗہ ‪ ،‬انس بن مالک رضی ہللا عنٗہ ‪ ،‬عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنٗہ ”۔‬
‫)فتح الباری‪۹/۲۲،۲۳:‬۔ اتقان‪(۱/۱۳:‬‬

‫کام کی نوعیت اور طریِق کار‬


‫۔حضرت صدیق اکبر رضی ہللا عنٗہ کے زمانہ میں جن صحیفوں میں قرٓان جمع کیا گیا تھا وہ‪1‬‬
‫سورتوں کے اعتبار سے مرتب نہ تھا؛ بلکہ ہرسورت علیحدہ صحیفہ میں لکھی گئی تھی‪ ،‬حضرت‬
‫عثمان کے دور میں ان حضرات نے پورے قرٓان کو سورتوں کے اعتبار سے مرتب کردیا اور ان سب‬
‫کو ایک مصحف میں جمع کردیا۔‬
‫۔اب تک قرٓان کریم کا صرف ایک ہی نسخہ تھا‪ ،‬جسے پوری امت کی اجتماعی تصدیق حاصل تھی‪2،‬‬
‫ان حضرات نے اس نئے مرتب مصحف کے ایک سے زائد نقلیں تیار کیں‪،‬حضرت عثماؓن نے جو‬
‫مصاحف تیار کروا کر مختلف عالقوں میں بھیجے تھے‪ُ ،‬ان کی تعداد کے متعلق علما کے متعدد اقوا ل‬
‫ہیں ۔ جن میں صحیح ترین اور قرین قیاس قول یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ نے چھ مصاحف تیار‬
‫کروائے تھے‪ :‬بصری مصحف‪ ،‬کوفی مصحف‪ ،‬شامی مصحف‪ ،‬مکی مصحف‪ ،‬ایک مدنی مصحف جو‬
‫عام اہل مدینہ کے لئے تھا اور دوسرا مدنی مصحف جو حضرت عثمانؓ نے اپنے پاس رکھا تھا جو‬
‫‘مصحفِ امام ‘کے نام سے موسوم ہے۔اس نام کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت عثمانؓ نے‬
‫سب سے پہلے یہی مصحف تیارکروایا تھا اور پھر اسی کو سامنے رکھ کر مصاحف کی مزید نقلیں‬
‫تیار کی گئیں ۔ اس اعتبار سے مصاحف عثمانیہ میں سے ہر مصحف کوبھی ‘مصحفِ امام’ کہا جاسکتا‬
‫ہے کہ جہاں وہ مصحف بھیجا گیا‪ ،‬وہاں کے لوگوں نے اس کی اقتدا کی تھی۔‬
‫)فتح الباری‪۹/۲۵:‬۔ علوم القرٓان‪(۱۹:‬‬
‫مزید حضرت عثمانؓ کا مقصد حضرت ابوبکؓر کی طرح صرف قرآن کریم کو دو گتوں کے درمیان‬
‫جمع کرنا نہیں تھا‪،‬بلکہ مسلمانوں کو ان تمام قراء ات پر جمع کرنا تھاجو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫سے ثابت اور معروف تھیں ۔ اور مقصد ایسی تمام قراء ات کو خارج کرنا تھا جو آپ صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم سے ثابت اور معروف نہیں تھیں ۔ ایک ایسا مصحف ُامت کے لئے پیش کرنا تھاجس میں کوئی‬
‫کمی بیشی‪ ،‬نہ تقدیم و تاخیر اور نہ کوئی ایسی قراء ت یا آ یت شامل ہونے پائے جس کی تالوت‬
‫منسوخ ہو چکی تھی۔ اور اس انداز سے لکھا جائے کہ اس کے رسم الخط میں تمام قراء ات محفوظ ہو‬
‫جائیں ۔تاکہ بعد میں کسی خرابی یا شبہات کے راہ پانے کا امکان ختم ہو جائے ۔(اإلتقان في علوم‬
‫القرآن‪1:‬؍‪)69‬‬
‫۔اس کے لیے قرٓان کریم کو اس انداز سے لکھا گیا کہ اس کے رسم الخط میں تمام متواتر قرٔاتیں‪3‬‬
‫سماجائیں‪ ،‬قرٓان کریم کے اندر کچھ کلمات تو وہ ہیں کہ اگر نقطے اور حرکات نہ لگائی جائیں تو تمام‬
‫متواتر قرٔاتیں اس میں سماجائے‪ ،‬مثًال‪ِ“ :‬اْن َج ٓاَئ ُک ْم َف اِس ٌقم ِبَن َب ٍا َفَت َب َّی ُنْٓو ا” (الحجرات‪ )۶:‬میں ایک قرٔاۃ‬
‫“َفَت َب َّی ُنْٓو ا” ہے اور دوسری قرٔات “َفَت ْس َب ُتْٓو ا” ہے‪ ،‬اس طرح ‘تتلو’ اور ‘تبلو’ میں نقطوں اور حرکات سے‬
‫خالی کرنے کی صورت میں دونوں قرٔاتیں اس میں سماگئیں؛ ۔ بعض مواقع پر ایسا ممکن نہ ہوسکا تھا‪،‬‬
‫مختلف قراءتیں ایک رسم الخط کے تحت نہ آسکیں تو بعض مصاحف میں ایک قراءت لکھی گئی اور‬
‫بعض دیگر مصاحف میں دوسری قراءت ‪ ،‬مثًال ہللا تعالٰی کے اس ارشاد “َو َو ّٰص ی ِبَھ ٓاِاْب ٰر ٖھ ُم َب ِنْی ِہ‬
‫َو َی ْع ُقْو ُب ” (سورۃ البقرۃ‪ )۱۳۲:‬میں”َو ّٰص َی ” ایک قرٔات ہے اور “َاْو َص ی”دوسری قرٔات ہے‪ ،‬یہ دونوں‬
‫کسی بھی صورت میں ایک کلمہ میں سما نہیں سکتے اس لیے اس جماعت نے یہ کیا کہ ایک قرٔات کو‬
‫ایک مصحف میں اور دوسری قرٔات کو دوسرے مصحف میں نقل کردیا؛ تاکہ تمام متواتر قرٔاتیں ان‬
‫مصاحف میں سماجائیں۔‬
‫)مناہل العرفان‪(۱۸۵،۱۸۶:‬‬
‫۔اس کام کی انجام دہی کے لیے ان حضرات نے بنیادی طور پر اسی صحیفہ کو اپنے پیِش نظر رکھا‪4‬‬
‫جو عہد صدیقی میں تیار کیا گیا تھا‪ ،‬اس کے عالوہ مزید احتیاط کے پیِش نظر انھوں نے وہی طریِق‬
‫کار اختیار فرمایا جو حضرت ابوبکر رضی ہللا عنٗہ کے زمانہ میں اختیار کیا گیا تھا؛ چنانچہ وہ‬
‫تحریریں جو ٓانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی تھی اور جن پر ٓاپ کی تصدیق ثبت‬
‫تھی جو مختلف صحابہ رضی ہللا عنہم کے پاس بکھری ہوی تھی ان سب کو دوبارہ طلب کیا گیا اور‬
‫ان صحیفوں کا ان تحریروں کے ساتھ مقابلہ کرکے نئے مصاحف تیار کئے گئے‪ ،‬اس مرتبہ سورٔہ‬
‫احزاب کی ٓایت “ِمَن اْلُمْٔو ِم ِنْی َن ِر َج اٌل َص َد ُقْو ا َم اَع اَھ ُد ْو ا َہّٰللا َع َلْی ِہ َف ِم ْن ُھْم َم ْن َقَض ی َن ْح َب ُہ َو ِم ْن ُھْم َم ْن َی ْن َت ِظ ُر‬
‫تحریری شکل میں سوائے حضرت خزیمہ بن ثابت انصاری )سورٔہ احزاب‪َo” (۲۳:‬و َم اَب َّد ُلْو ا َت ْبِدْی اًل‬
‫رضی ہللا عنٗہ کے کسی اور صحابی رضی ہللا عنٗہ کے پاس نہیں ملی اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ٓایت‬
‫صرف حضرت خزیمہ رضی ہللا عنٗہ ہی کو معلوم تھی ان کے عالوہ کسی اور کو اس کے ٓایت ہونے‬
‫کا علم نہ تھا یاکسی کو یاد نہ تھی یاتحریری شکل میں کسی کے پاس موجود نہ تھی؛ بلکہ صحیح‬
‫بخاری (صحیح بخاری‪ ،‬فضائل القرٓان‪ ،‬باب جمع القرٓان‪۲۰/۷۴۶:‬۔ رقم‪ )۴۹۸۷:‬کی روایت میں حضرت‬
‫زید رضی ہللا عنٗہ فرماتے ہیں کہ مصحف لکھتے وقت سورٔہ احزاب کی ایک ٓایت نہیں ملی جس کو‬
‫میں رسول پاک صلی ہللا علیہ وسلم سے پڑھتے ہوئے سنا تھا؛ پھرہم نے اس کی تالش شروع کی تو‬
‫وہ حضرت خزیمہ بن ثابت رضی ہللا عنٗہ کے پاس ملی‪ ،‬اس روایت سے معلوم ہوا کہ وہ ٓایت حضرت‬
‫زید رضی ہللا عنہ کو بھی یاد تھی اور دیگر صحابہ رضوان ہللا علیہم اجمعین کو بھی اور وہ ٓایت‬
‫حضرت ابوبکر رضی ہللا عنٗہ کے زمانہ میں لکھے گئے صحیفوں میں بھی موجود تھیں‪ ،‬اس لیے‬
‫حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنٗہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ سورٔہ احزاب کی اس ٓایت کے سوا‬
‫باقی تمام ٓایتیں جو حضور کے سامنے لکھی گئی تھی متعدد صحابہ رضی ہللا عنہم کے پاس ملی؛ لیکن‬
‫سورٔہ احزاب کی یہ ٓایت حضرت خزیمہ بن ثابت رضی ہللا عنٗہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ملی۔‬
‫)علوم القرٓان‪(۱۹۲:‬‬
‫۔ نسخ‪/‬لکھنے کے کام میں قریشی حضرات کو شامل کیا کہ وہ لساِن قریش کے سب سے بڑے ماہرین‪5‬‬
‫بھی تھے اور نوجوان کاتبین تھے۔ کیوں کہ معیاری مصحِف قرآن صرف قریشی زبان میں ہی ممکن‬
‫تھا۔ غیرقریشی زبانوں کی کثرت کے سبب اتحاد ناممکن تھا۔‬
‫۔ ان چار مرتبیِن کرام کا انتخاب بھی مشورے‪ ،‬سوچ بچار اور پوری چھان بین کے بعد کیا گیا تھا۔‪6‬‬
‫اصحاِب رائے و علم سے مشورہ سے معلوم ہوا کہ لوگوں میں سب سے عظیم کاتب (من اکتب الناس)‬
‫کاتِب رسول صلی ہللا علیہ و علی آلہ وسلم حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنہ تھے۔ لوگوں میں سب‬
‫سے زیادہ فصحیح و اعرب (افصح‪/‬اعرب) حضرت سعید بن العاص اموی رضی ہللا عنہ تھے۔ ایک‬
‫دوسرے روایت کے مطابق قرآِن کریم کی عربیت حضرت سعدی بن العاص اموی رضی ہللا عنہ کی‬
‫لسان پر قائم کی گئی کیوں کہ وہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ و علی آلہ وسلم کے لہجہ کے سب سے زیادہ‬
‫قریب اور مشابہ تھے۔ (النہ کان اشبہہم لہجًۃ برسول ہللا صلی ہللا علیہ وعلی آلہ وسلم)‬
‫۔ حضرت عثمان رضی ہللا عنہ نے اس مشورے و اجماع کے بعد فیصلہ فرمایا کہ حضرت سعید بن‪7‬‬
‫العاص اموی رضی ہللا عنہ امال کرائیں اور حضرت زید بن ثابت خزرجی رضی ہللا عنہ کتابت‬
‫فرمائیں‪ ،‬ان دونوں نے کام کا آغاز کیا‪ ،‬حضرت عثمان رضی ہللا عنہ نے کام کی تعیین بھی کر دی‬
‫تھی۔‬
‫۔ لیکن کتابِت قرآن مجید کا کام کافی دقت طلب اور مشکل تھا۔ لٰہ ذا دوسروں کی امداد و اعانت کی‪8‬‬
‫ضرورت پڑی‪ ،‬لٰہ ذا حضرت عثمان رضی ہللا عنہ کے حکم اور صحابہ کے مشورے اور اجماع سے‬
‫حضرات عبدہللا بن زبیر اور عبدالرحٰم ن بن حارث بن ہشام رضی ہللا عنہما کا نام بڑھایا گیا۔‬
‫۔ روایات کے مطابق حضرت ابی بن کعب خزرجی رضی ہللا عنہ کو بھی امالء کے کام میں شامل‪9‬‬
‫کیا گیا اور بعض دوسرے صحابہ کا اضافہ بھی ممکن ہے کیوں کہ مصاحف کی تعداد کے مطابق ان‬
‫کی تعداد ہونی ضروری تھی۔ بلکہ ایک ہی مصحف کی کتابت کے لیے کئی کاتبوں کی ضرورت تھی‪،‬‬
‫خواہ امال کرانے والے دو ہی حضرات ہوں۔ امال یا کتابت میں حضرت ابی بن کعب خزرجی مدنی‬
‫رضی ہللا عنہ کی شمولیت بھی معنی خیز ہے۔ وہ غیر قریشی ہونے کے باوجود حضرت زید کی مانند‬
‫کاتِب رسول صلی ہللا علیہ و علی آلہ وسلم اور کاتِب وحی تھے اور ان کا انتخاب اس بنا پر ہوا تھا۔‬
‫۔ بعض صحابہ کو بعض روایات کے مطابق امال و کتابِت قرآن مجید کا کام شامل نہ کیے جانے پر‪10‬‬
‫شدید قلق ہوا‪ ،‬ان میں سب سے اہم گرامی شخصیت حضرت عبدہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ کی تھ۔ ان‬
‫کو حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنہ جیسے نوجوان کے ترجیح دیے جانے پر شکوہ تھا۔ کیونکہ وہ‬
‫مرِد بزرگ اور معلِم قرآن کبیر تھے۔ لیکن وہ ہذلی تھے‪ ،‬اگرچہ مدتوں سے مکہ و مدینہ کے باشندہ‬
‫تھے‪ ،‬قبیلہ ہذیل کا لہجہ و قراءت اور تلفظ مختلف تھا اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہذلی‬
‫حضرات اپنے تلفظ پر قابو نہیں پا سکتے تھے۔بعض مستشرقین نے اس بنیاد پر یہ اعتراض گھڑا کہ‬
‫ابن مسعود مصحف عثمانی سے متفق نا تھے‪ ،‬حاالنکہ یہاں واضح ہے کہ انہیں یہ اعتراض نسخہ پر‬
‫نہیں بلکہ حضرت زید کو ان پر ترجیح دیے جانے کی بنیاد پر تھا۔‬
‫۔ حضرت عثمان رضی ہللا عنہ اور بعض افاضِل صحابہ کو حضرت عبدہللا بن مسعود رضی ہللا‪11‬‬
‫عنہ کے اعتراضات ناپسند ہوئے اور بجا طور سے ناپسندیدہ ٹھہرے‪ ،‬کیونکہ اول تو حضرت ابن‬
‫مسعود رضی ہللا عنہ کوفہ میں تھے اور تدویِن مصاحف کا کام مدینہ میں ہوا‪ ،‬مگر اس سے بڑی وجہ‬
‫یہ تھی کہ صحِف صدیقی کے کاتب بھی تو حضرت زید بن ثابت خزرجی رضی ہللا عنہ ہی رہے تھے‬
‫جو عہِد صدیقی میں تو اور بھی نوجوان تھے۔ ان کی وجِہ انتخاب ان کا کاتِب نبوی ہونا تھا۔‬
‫حافظ ابن حجر عسقالنی نے فتح الباری میں ا س نقطہ نگاہ کی وضاحت کی ہے حضرت عثماؓن نے یہ‬
‫کام مدینہ طیبہ میں کیا تھا۔ ابن مسعوؓد اس وقت کوفہ میں تھے۔ حضرت عثماؓن اس کام کو مؤخر نہیں‬
‫کرنا چاہتے تھے حضرت زید ابن ثابؓت ‪ ،‬حضرت ابو بکر صدیؓق کے دور میں تدوین قرآن مجید کاکام‬
‫کرچکے تھے‪ ،‬لٰہ ذا انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ یہ مرحلہ بھی انہی کے ہاتھوں تکمیل کو پہنچے‘‘۔‬
‫‪۵۵‬‬
‫مزید حضرت عثمان کو اس وقت جو مسئلہ درپیش تھا وہ فوری نوعیت کا مسئلہ تھا ۔ عمومی مقام و‬
‫مرتبہ کا مسئلہ نہ تھا‪ ،‬یہ بات اپنی جگہ کہ حضرت زید جنکو ترجیح دی گئی د وہ ان مشہور صحابہ‬
‫میں سے تھے جو قرآِن کریم کے پختہ حافظ‪ ،‬ماہر قاری‪ ،‬اس کے حروف کے شناور اور اعراب‬
‫القرآن و لغات القرآن کے جید عالم تھے اور وہ ہمیشہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی وحی لکھنے‬
‫پر مامور رہے۔ نیز وہ جبریلؑ امین کے ساتھ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے آخری دورِ قرآنی میں‬
‫بھی موجود تھے۔ اس کے عالوہ وہ نہایت عقل مند اور ذہین ‪ ،‬زہدو ورع کے پیکر‪ ،‬مجسمۂ دین و‬
‫عدالت‪ ،‬قرآن کے امین اور اپنے دین و اخالق کے حوالے سے بے عیب تھے۔ اس طرح ان میں بیک‬
‫وقت ایسی خوبیاں اور خصوصیات جمع ہوگئیں تھیں جو بعض کبار صحابہ میں بھی یکجا نہیں تھیں ۔‬
‫یہ وجہ تھی جس کی بنیاد پر حضرت ابوبکر صدیؓق نے اس عظیم کام کے لئے ان کا انتخاب کیا۔‬
‫۔ خلیفہ وقت امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی ہللا عنہ یا ان کے دوسرے اصحاِب‪ٍ12‬‬
‫شورٰی اور ارباِب علم و تقٰو ی نے ان مصاحِف عثمانی کا غائر مطالعہ کیا ۔ ان کے اتفاق و تصدیق کے‬
‫بغیر استناد کی مہر نہیں لگائی جا سکتی تھی۔ روایات میں واضح طور سے ذکر آتا ہے کہ صحابہ‬
‫کرام کے اجماع سے یہ کام ہوا‪ ،‬لٰہ ذا اس کا الزمی نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی نظر سے تمام مصاحف‬
‫گزرے۔‬
‫۔قرآِن کریم کو نقل کرنے کا زیادہ تر انحصارہمیشہ تلقی اور سماع پر رہا ہے کہ خلف نے سلف‪13‬‬
‫سے‪ ،‬ثقہ نے ثقہ سے اور امام نے امام سے سن کرآگے بیان کردیا یہاں تک کہ یہ سلسلہ دوِر رسالؓت‬
‫تک جا پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عثماؓن نے مصاحف کی اشاعت اور ُانہیں مختلف‬
‫عالقوں میں بھیجنے کا پروگرام بنایا تو ُانہوں نے صرف مصاحف بھیجنے پر اکتفا نہیں کیا کہ صرف‬
‫وہی تنہا مرجع بن کر رہ جائیں بلکہ ہر مصحف کے ساتھ اسے پڑھانے کے لئے حفظ وعدالت میں ثقہ‬
‫و ماہرِ فن قاری بھی بھیجا جس کی قراء ت غالب طور پر ُاس مصحف کے مطابق تھی۔ چنانچہ‬
‫حضرت عثمانؓ نے زید بن ثابتؓ کو مدنی مصحف پڑھانے کا حکم دیا ۔ عبدہللا بن سائب کو مکی‬
‫مصحف کے ساتھ بھیجا۔ مغیرہ بن شہاؓب کو شامی مصحف کے ساتھ بھیجا ‪ ،‬ابوعبدالرحمن سلمی کو‬
‫کوفی مصحف کے ساتھ بھیجا اور عامر بن عبدالقیؓس کو بصری مصحف کے ساتھ روانہ کیا۔‬

‫‪ :‬قرآن کی ترتیب‬
‫صحِف قرآنی” جو حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کے عہد میں مرتب کیے گئے تھے‪ ،‬چونکہ“‬
‫الگ الگ اوراق تھے‪ ،‬لٰہ ذا ان میں سورتیں ترتیب سے نہیں تھی۔ حضرت عثمان رضی ہللا عنہ نے‬
‫جب انہیں مصحف کی شکل دی تو موجودہ ترتیب لگائی گئی ۔‬
‫سورتوں کی ترتیب کے متعلق قاضی باقالنؒی کا قول حافظ ابن حجر عسقالنؒی نے نقل کیا ہے کہ‬
‫سورتوں کی ترتیب نہ تو تالوت میں واجب ہے‪ ،‬نہ نماز میں اور نہ ہی درس و تعلیم میں۔۔ ترتیب کے‬
‫لحاظ سے صحابہ کے مصاحف میں جو اختالف اور فرق تھا دوسری بڑی وجوہات مثال وہ ترتیب‬
‫نزولی کے لحاظ سے ساتھ ساتھ لکھ گئے تھے’ کے عالوہ ایک یہ بھی تھا ۔‬
‫مال علی قارؒی نے اس موضوع پر بہت عمدہ بحث کی ہے۔ اسے ہم یہاں اپنے الفاظ میں پیش کرتے‬
‫ہیں‪ :‬فرماتے ہیں ہیں کہ قرآن مجید‪ ،‬جتنا جس مقدار میں اور جس طریقہ سے موجود ہے وہ ہللا تعالٰی‬
‫کا کالم ہے‪ ،‬جو تواتر سے ثابت ہے۔ اس پر اہل علم و تحقیق کا اجماع ہے۔ اس میں جو شخص کمی‬
‫بیشی کرے گا وہ کافر قرار پائے گا۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ قرآن مجید کی آیات کی ترتیب توقیفی‬
‫یعنی من جانب ہللا ہے۔ اس کا (ایک) ثبوت یہ ہے کہ آپ پر جو آخری آیت نازل ہوئی وہ ہے‪َ :‬و اَّتُقوا‬
‫َي ْو ًما ُتْر َج ُعوَن ِفيِه ِإَلى هَّللا ۔ ۔ ۔ (البقرۃ‪ )281:‬آپ سے جبریؒل نے کہا کہ اسے سورۃ بقرۃ میں سود سے‬
‫متعلق آیات اور آیِت مداینہ (قرض کے احکام سے متعلق آیت) کے درمیان رکھا جائے۔ چانچہ یہ اسی‬
‫جگہ ہے۔ اسی لیے کسی سورت کی آیات کی ترتیب الٹ دینا حرام ہے۔‬
‫جہاں تک سورتوں کی ترتیب کا سوال ہے اس میں اختالف ہے۔ اس لیے (حرمت کی بات تو نہیں کی‬
‫جا سکتی البتہ یہ کہا جائے گا کہ) بغیر کسی عذر کے اس کی ترتیب بدل دینا مکروہ ہے۔ حدیث میں‬
‫آتا ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ و علی آلہ وسلم نے نماز (تہجد) میں سورۃ آل عمران سے پہلے‬
‫سورۃ نساء پڑھی تھی۔ ممکن ہے آپ نے بیاِن جواز کے لیے ایسا کیا ہو۔ یہ بھول کر بھی ہو سکتا ہے۔‬
‫صحیح بات یہ ہے کہ سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے‪ ،‬گو کہ صحابہ کرام کے مصاحف اپنی‬
‫ترتیب کے لحاظ سے مختلف تھے۔ صحابہ کرام میں سے بعض نے قرآن کو ترتیِب نزول کے لحاظ‬
‫سے مرتب کیا تھا‪ ،‬جیسے پہلے اقراء‪ ،‬پھر مدثر‪ ،‬اس کے بعد سورۃ نون‪ ،‬مزمل‪ ،‬تبت اور تکویر‪ ،‬اسی‬
‫طرح جس ترتیب سے مکی اور مدنی سورتیں نازل ہوئیں۔‬
‫حضرت عثمان رضی ہللا عنہ کے جمِع قرآن کی بنیاد اس ترتیب پر تھی جس ترتیب سے رسول ہللا‬
‫صلی ہللا علیہ و علی آلہ وسلم نے دوسری مرتبہ وفات سے پہلے حضرت جبریل کو قرآن سنایا تھا اور‬
‫حضرت جبریل نے آپ کو سنایا تھا۔ اس بات کی دلیل کہ سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے‪ ،‬یہ ہے کہ‬
‫“حوامیم” (وہ سورتیں جو ٰح م) سے شروع ہوتی ہیں) ایک ترتیب سے اور مسلسل ہیں۔ اسی طرح‬
‫“طواسین” (وہ سورتیں جو ٰط س سے شروع ہوتی ہیں) مسلسل ہیں لیکن مسبحات (جو سورتیں سّبح اور‬
‫یسّبح سے شروع ہوتی ہیں) ان میں تسلسل نہیں ہے۔ درمیان میں دوسری سورتیں ہیں۔ اسی طرح مکی‬
‫اور مدنی سورتیں الگ الگ نہیں‪ ،‬بلکہ ملی جلی ہیں۔ یہ تمام امور اس بات کا ثبوت ہیں کہ سورتوں کی‬
‫ترتیب بھی توقیفی ہے۔‬
‫)مال علی قاری‪ ،‬مرقاۃ المصابیح‪ ،‬شرح مشٰکوۃ المصابیح‪ 734/4 :‬۔ دار الفکر بیروت (‬

‫‪ :‬امت میں پائے جانے والے دیگر مصاحف کا حال‬


‫قرآن کا ہر لحاظ سے معیاری مستند اور متفقہ نسخہ تیار ہوجانے کے بعد حضرت عثمان غنی رضی‬
‫صحابہ کرام اور تابعین عظام کے پاس موجود سارے نسخوں کو نذِر آتش کرنے کا حکم‬
‫ٴ‬ ‫ہللا عنہ نے‬
‫نافذ فرما دیا (فتح الباری ‪ )۹/۱۳‬۔‬
‫حضرت عثمان رضی ہللا عنہ کے اس کاِر عظیم پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا تھا اور مستشرقین‬
‫اور اسالم دشمن عناصر آج بھی اپنے اپنے اعتراضات و الزامات سے فارغ نہیں ہو سکے۔ گزشتہ‬
‫تفاصیل سے بھی یہ واضح ہے کہ دیگر مصاحف کے بارے میں حضرت عثمان کی حکمت مومنانہ‬
‫تھی اور حکیمانہ بھی۔‬
‫گزشتہ تفصیل سے یہ واضح ہے کہ مصاحف میں متفقہ قرات پر ناسمجھی کی وجہ سے اختالف‪ ،‬شاذ‬
‫قرآت کے اختالفات‪ ،‬تفاسیر کا الفاظ کے ساتھ لکھاجانا بعد کی عوام کو اختالف اور اشکاالت میں مبتال‬
‫کررہا تھا ‪ ،‬جس کے نتیجے میں گروہ بندیاں ہونے لگی تھیں اور بات تکفیر تک جا پہونچی تھی۔‬
‫صحابہ کرام کو فکر ہو چلی تھی کہ مسلمان بھی یہود و نصاٰر ی کی مانند کتاب اٰل ہی کو لفظی و معنوی‬
‫تحریفات تک نہ پہونچا دیں۔ اختالفات اور غلطیوں سے پاک اور متفقہ اور مستند مصاحف تیار ہوجانے‬
‫کے بعداختالف کی جڑ کاٹنے کی ایک یہی صورت تھی کہ باقی تمام مصاحف چاہے کسی صحابی‬
‫کے بھی کیوں نا ہوں’ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔‬
‫مصاحف عثمانی ک ان زیادات سے پاک تھے جن کو توضیح وتفسیر تفسیر مجمل یا اثبات مخدوف کے‬
‫طور پر بڑھایا گیا تھا اور انفرادی مصاحف میں جو شاذ کلمات تھے ان کو بھی ان خارج کردیا گیا‬
‫تھا ۔ مزید قرات کے اختالفات کو ختم کرنے کے لیے عثمانی مصاحف میں نقطے اور اعراب نہیں‬
‫لگائے گئے تھے جس کا نتیجہ یہ ہواکہ ان میں تمام ثابت قراتیں سما گئیں ۔‬
‫اسی لیے حضرت عثمان رضی ہللا عنہ نے اسی مقصِد عظیم کی خاطر کہ کتاب اٰل ہی میں کسی اختالف‬
‫کی گنجائش نہ رہ جائے‪ ،‬ایک طرف تو سات مصاحف عثمانی تیار کرا کے تمام بالِد اسالمی میں پھیال‬
‫دیے اور ان کو معیاری مصحف قرار دے کر صرف انہی کی نقول کرنا الزمی قرار دیا‪ ،‬دوسری‬
‫طرف ایسے تمام نسخوں اور صحیفوں کو صفحہ ہستی سے نابود کر دیا جو اس اصل معیاری قرآن‬
‫مجید کے نسخہ سے مختلف تھے‪ ،‬تاکہ امت اسالمی کتاب ہللا پر متحد و متفق رہے‪ ،‬اختالف سے بچے‬
‫اور ایک قرآن کی پابند رہے۔ یہ کارنامہ عظیم تھا جس نے وحدِت کتاِب اٰل ہی کے ذریعہ وحدِت امت‬
‫‪:‬اور اتحاد اسالمی کی راہ ہموار کی۔ یہی حکمت تھی کہ حضرت علیؓ نے فرمایاتھا‬
‫لو کنت الوالي وقت عثمان لفعلُت في المصاحف مثل الذي فعل عثمان‬
‫اگر حضرت عثماؓن کی جگہ پر میں حکمران ہوتا تو میں بھی وہی کچھ کرتا جو حضرت عثماؓن نے”‬
‫کیا ہے۔”(تفسیر قرطبی‪1 :‬؍‪)54‬‬
‫قرآن کریم کے انفرادی نسخوں کےجالنے کا یہ اقدام حضرت عثمان رضی ہللا عنہ نے صحابہ کے‬
‫مشورے کے مطابق کیا تھا۔ تمام مصاحف قرآنی کے فنا ہونے کے بعد صرف مصحِف عثمانی کی‬
‫صورت میں قرآِن مجید کا مستند ترین متن مقدس محفوظ ہو گیا تھا اور اس پر صحابہ کرام کا اجتماع و‬
‫اجماع اور اتفاق تھا‪ ،‬حتی کہ حضرت عبدہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ جیسے صحابہ کرام کو بھی‪ ،‬جن‬
‫کو اپنے ذاتی مصاحف کی تلفی کا شدید غم اور حضرت عثمان سے بہت شکوہ تھا(انکی اس کے ساتھ‬
‫یادیں وابستہ تھیں ناکہ اس وجہ سے کہ ان میں مصاحف عثمانی سے ہٹ کر کوئی خاص بات تھی ‪،‬‬
‫سورتوں کی ترتیب کا فرق جو ترتیب نزولی آیات کی وجہ سے تھا ‘ کے عالوہ اس میں کوئی فرق‬
‫کسی صحیح روایت سے نہیں ملتا )‪ ،‬مصاحف عثمانی کی صورت میں اتحاِد امت اور وحدت قرآن کی‬
‫حکمت سمجھ میں آ گئی تو ان کا شکوہ جاتا رہا اور وہ بھی متفق ہو گئے۔‬
‫‪:‬ابن ابی داؤد نے حضرت علیؓ سے صحیح سند سے بیان کیا ہے کہ ُانہوں نے فرمایا‬
‫حضرت عثماؓن کے متعلق سواے بھالئی کی بات کے‪ ،‬کچھ نہ کہو۔ ہللا کی قسم !ُانہوں نے جو کچھ”‬
‫کیا‪ ،‬ہمارے مشورے سے کیا۔ ُانہوں نے ہم سے پوچھا تھا‪ :‬ان قراء ات کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟‬
‫کیونکہ مجھے اطالعات مل رہی ہیں کہ کچھ لوگ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں کہ میری قراء ت‬
‫تمہاری قراء ت سے زیادہ بہتر ہے‪ ،‬حاالنکہ یہ بات کفر تک پہنچا سکتی ہے۔ ہم نے کہا‪ :‬آپ کا کیا‬
‫خیال ہے؟ فرمایا‪ :‬میری رائے یہ ہے کہ ہم سب لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کر دیں تاکہ پھر کوئی‬
‫افتراق اور اختالف نہ ہو ۔ہم نے کہا ‪:‬آپکی رائے بہت شاندار ہے۔”(فتح الباری‪9:‬؍‪)18‬‬

‫یہی اعتماد ان مصاحف کو تمام عالم اسالم میں مال ‪ ،‬جن عالقوں میں یہ مصاحف بھیجے گئے تھے‪،‬‬
‫وہاں کے باشندوں نے بھی ان مصاحف کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان مصاحف کو ان کے ہاں اعلٰی مقام‬
‫اور مقدس حیثیت حاصل ہوگئی‪ ،‬کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان مصاحف کی تدوین کسی فرِد واحد کی‬
‫کارروائی نہیں ہے‪ ،‬بلکہ ان کی پشت پر قرآن کے اولین حفاظ‪ ،‬کاتبین وحی تمام اصحاِب رسوؐل کا‬
‫ِاجماع موجود ہے‪ ،‬جنہیں درباِر رسالؐت سے مدح و توصیف کا وہ پروانہ عطا ہوا ہے جس کے وہ‬
‫واقعی مستحق تھے۔‬

‫‪ :‬سوال‬
‫حضور علیہ السالم کے وصال کے بعد قرآن مجید کو کتابی صورت میں‌‬
‫کس نے جمع کیا؟‬

‫جواب‪:‬‬
‫قرآن مجید کو جمع کرنے واال سب سے پہلے ہللا تعالی خود ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد‬
‫فرمایا ‪:‬‬
‫ِإَّن َع َلْي َن ا َج ْم َع ُه َو ُقْر آَن ُه‬

‫القيامة ‪17‬‬

‫بے شک اسے (آپ کے سینہ میں) جمع کرنا اور اسے (آپ کی زبان سے) پڑھانا ہمارا ِذّمہ ہے‪o‬‬
‫َف ِإَذ ا َقَر ْأَن اُه َف اَّت ِبْع ُقْر آَن ُه‬

‫القيامة ‪18‬‬

‫پھر جب ہم اسے (زباِن جبریل سے) پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریں‪o‬‬

‫حضور صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم دوسرے جامع القرآن ہیں‪ ،‬آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے مختلف‬
‫اشیاء پر قرآن مجید کو لکھوا کر جمع کیا۔ سارا قرآن مختلف اشیاء میں لکھا ہوا تھا۔‬

‫تیسرے جامع القرآن حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ ہیں۔ جنگ یمامہ میں جب کثیر تعداد میں‬
‫حفاظ وقراء صحابہ کرام شہید ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے حضرت عمر فاروق‬
‫رضی ہللا عنہ کے مشورے سے قرآن مجید کو مختلف اشیاء سے کتابی شکل میں جمع کیا۔ تو اس‬
‫طرح سب سے پہلے حضور علیہ الصالۃ والسالم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی ہللا عنہ نے‬
‫قرآن مجید کو کتابی شکل میں مدون کروایا۔‬

‫حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ چوتھے جامع القرآن ہیں‪ ،‬آپ کے زمانہ خالفت میں جب فتوحات‬
‫بہت زیادہ ہو گئی اور مختلف زبانیں بولنے والے جب دائرہ اسالم میں داخل ہوئے تو انہون نے قرآن‬
‫مجید کی مختلف قراءتوں شروع کر دیں۔ تو اس وقت امت مسلمہ سے اختالف کو ختم کرنے کے لئے‬
‫اور ایک قرات پر جمع کرنے کے لئے آپ رضی ہللا عنہ نے قرآن مجید کو ایک قرات پر جمع کیا۔‬

‫قرآن مجید کے ساتھ جو تفسیر لکھی گئی تھی‪ ،‬اس تفسیر کو بھی ختم کروایا۔ لہذا آپ رضی ہللا عنہ‬
‫نے اصل قرآن مجید کو تفسیروں سے الگ کر کے جمع کیا‪ ،‬اس وجہ سے آپ رضی ہللا عنہ کو جامع‬

‫القرآن کہا جاتا ہے۔‬

‫‪ :‬سوال‬
‫حدیث کیا ہے اور کس طرح ہیں اور کس قسم کے ہوتے ہیں‬

‫جواب‪:‬‬
‫حدیث کے لغوی معنی جدید یا نئی چیز کے ہیں اور ِاس کی جمع خالِف قیاس االحادیث آتی ہے۔‬
‫ِاصطالح حدیث میں ہر ُاس قول‪ ،‬فعل یا تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے جس کی نسبت پیغمبر اسالم‬
‫حضرت محمد مصطفٰی صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کی جاتی ہو‬

‫صحاح ستہ‬
‫صحاح“ صحیح کی جمع ہے۔ محسوسات اور معنویات میں استعمال ہوتا ہے اگر محسوسات میں”‬
‫استعمال ہوتو لغتًا اس کا معنی ہوگا ”الشیء السلیم من األمراض والعیوب“ یعنی وہ چیز جو امراض‬
‫وعیوب سے صحیح سالم ہو‪ ،‬اس سے معلوم ہوا کہ واضِع لغت نے اس لفظ کو سالمت من العیوب ہی‬
‫کے لیے وضع کیا ہے؛ لٰہ ذا یہی اس کا معنی حقیقی ہے اور معنویات میں یہ جس معنی کے لیے‬
‫مستعمل ہے‪ ،‬وہ اس کا معنی مجازی ہے۔ مثًال قول وحدیث کی صفت صحیح آتی ہے تواس وقت ترجمہ‬
‫ہوگا ”َم ا اعُت مد علیہ“ یعنی قول صحیح وہ ہے جس پر اعتماد کیا جائے۔[‪ ]1‬اور اصطالح میں صحیح‬
‫خبرواحد کی ایک قسم ہے۔ صحاِح ستہ کے معنی “مستند چھ“ یعنی کہ چھ مستند کتابیں ہیں‪ ،‬کیمبرج‬
‫‪:‬کی تاریِخ ایران کے مطابق[‪]2‬‬

‫صحاِح ستہ سے مراد‬


‫صحاِح ستہ سے مراد حدیث پاک کی چھ مشہور و معروف مستندکتابیں ہیں‪ :‬ان چھ کتابوں کو ”اصوِل‬
‫ستہ‪ ،‬صحاِح ستہ‪ ،‬کتِب ستہ اور امہاِت ست“ بھی کہتے ہیں [‪]3‬‬

‫حدیث کے ‪ 6‬مستند اور مشہور مجموعوں کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ ان کتابوں کو اسالمی تعلیم‬
‫‪:‬سمجھنے میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ کتابیں مندرجہ ذیل ہیں‬

‫صحیح بخاری (امام بخاری)‬


‫محمد بن اسماعیل البخاری جنہوں نے حدیث کی مستند ترین کتاب صحیح بخاری مرتب کی‪ ،‬اس کتاب‬
‫کو مرتب کرنے میں ُانہیں سولہ (‪ )16‬سال کا عرصہ لگا۔ روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری‬
‫کسی بھی حدیث کو محفوظ کرنے سے پہلے غسل کرکے نوافل پڑھتے اور پھر حدیث کو محفوظ‬
‫فرماتے۔ امام بخاری کا انتقال ‪256‬ھ‪869-70/‬ء کو سمرقند میں ہوا۔‬
‫صحیح مسلم (امام مسلم)‬
‫مسلم بن حجاج النیشاپوری‪ :‬جن کا انتقال ‪261‬ھ‪ 874-5/‬کو نیشاپور میں ہوا۔ انہوں نے حدیث کی‬
‫دوسری مستند ترین کتاب صحیح مسلم مرتب کی۔‬
‫جامع ترمذی (امام ترمذی)‬
‫ابو عیٰس ی محمد بن ترمذی‪ :‬جنہوں نے مشہور ترمذی شریف مرتب کی۔ آپ امام بخاری کے شاگرد‬
‫تھے۔ آپ کا انتقال ‪279‬ھ‪892-3/‬ء میں ہوا۔‬
‫سنن ابی داؤد (امام ابو داؤد)‬
‫أبو داود سليمان بن األشعث بن إسحاق بن بشير األزدی السجستانی‪ :‬ایک عرب نژاد فارسی جن کا اانتقال‬
‫‪275‬ھ‪888-9/‬ء میں ہوا۔‬
‫سنن نسائی (امام نسائی)‬
‫احمد بن شعيب النسائی جو خراسان سے تھے اور ‪303‬ھ‪915-16/‬ء میں انتقال کرگئے۔ ُانہوں نے‬
‫حدیث کی معروف کتاب سنن نسائی ترتیب دی۔‬
‫سنن ابِن ماجہ (امام ابِن ماجہ)‬
‫محمد بن يزيد ابن ماجہ‪ :‬ان کا انتقال ‪273‬ھ‪886-87/‬ء میں ہوا۔‬
‫صحاح ستہ کا حقیقی مطلب‬
‫صحاح ستہ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان چھ کتابوں میں جتنی روایات ہیں‪ ،‬سب صحیح ہیں اور نہ‬
‫یہ نظریہ درست ہے کہ صرف ان ہی کتِب ستہ کی روایات صحیح ہیں۔ باقی کتب حدیث کی روایات‬
‫درجہ صحت تک نہیں پہنچتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ نہ صحاح ستہ کی ہر حدیث صحیح ہے اور نہ ُان‬
‫سے باہر کی ہر حدیث ضعیف ہے حقیقت یہ ہے کہ ان کتابوں کی روایات زیادہ تر صحیح ہیں‪ ،‬اس‬
‫‪:‬فرماتے ہیں ‪‬لیے انہیں صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی‬

‫کتب ستہ کہ مشہور اند دراسالم گفتہ اند صحیح بخاری وصحیح مسلم وجامع ترمذی وسنن ابی داؤد”‬
‫وسنن نسائی وسنن ابن ماجہ است۔ ودریں کتب آنچہ اقساِم حدیث است از صحاح وِحسان وِض عاف ہمہ‬
‫موجود است‪ ،‬وتسمیہ آں بصحاح بطریِق تغلیب است“[‪]4‬‬
‫چھ کتابیں جو اسالم میں مشہور ہیں‪ ،‬محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری‪ ،‬صحیح مسلم‪ ،‬جامع”‬
‫ترمذی‪ ،‬سنن ابی داؤد‪ ،‬سنن نسائی‪ ،‬سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں‬
‫“صحیح‪ ،‬حسن اور ضعیف‪ ،‬سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔‬

‫محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول‬
‫ہللا صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان ہللا علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی‬
‫واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل‬
‫بھروسا ہیں۔‬

You might also like