Professional Documents
Culture Documents
ASSIGNMENT 1
ISLAMIC
STUDIES
سوال -:جمع ابو بکر اور جمع عثمان اور ان دونوں جمعوں میں فرق
:-جواب
عہدصدیقیؓ میں جمع قرآن اور اسکی نوعیت
آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا ،سارے
اجزا الگ الگ تھے ،حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے ان قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک
ہی جلد میں مجلد کروانے کا کام حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا؛ چنانچہ ایسا نسخہ مرتب ہو
صحابہ کرام کی اجماعی تصدیق حاصل ہوئی۔
ٴ گیا جس کو سارے
حضرت ابوبکر صدیؓق کے دوِر حکومت میں تدوین قرآن کی صورت یہ تھی کہ اسے مختلف پارچوں
سے نقل کرکے ایک جگہ (کاغذ) پریکجا کیا گیا۔یہ نسخہ بہت سے صحیفوں پر مشتمل تھا اورہر
سورت الگ الگ صحیفے میں لکھی گئی تھی۔اور صرف وہی کچھ لکھا گیا جس کا قرآن ہونا تواتر
سے ثابت ہوا تھا۔ ( وہ آیات اور حروف نکال دیے گئے جن کی تالوت منسوخ ہو چکی تھی۔)
دوِر صدیقی میں قرآِن کریم کے منتشر حصوں کو یکجا کرنے کا مقصد قرآن مجید کی حفاظت کو
یقینی بنانا تھا ،کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں حاملین قرآن اور حفاظ صحابؓہ کی وفات سے قرآِن مجید کا
کوئی حصہ ضائع نہ ہوجائے۔
:کام کی نوعیت
پورا قرآن عہد رسالت میں لکھا جاچکا تھا مگر اس کی آیتیں اور سورتیں یکجا نہ تھی حضرت ابو
بکر رضی ہللا عنہ نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی ترتیب کے مطابق اس کو ایک جگہ جمع کیا ۔
:عالمہ سیوطی ابو عبدہللا محاسبی کی کتاب ”فہم السنن”کے حوالے سے لکھتے ہیں
قرآن کی کتابت کوئ نئی چیز نہ تھی نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم بذات خود اس کے لکھنے کا حکم”
دیا کرتے تھے البتہ وہ کاغذ کے ٹکڑوں،شانہ کی ہڈیوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر بکھرا پڑا تھا ۔
حضرت ابو بکررضی ہللا تعاٰل ی عنہ نے متفرق جگہوں سے اس کو یکجا کرنے کا حکم دیا یہ سب
اشیاء یوں تھیں جیسے آنحضور صلی ہللا علیہ وسلم کے گھر میں اوراق منتشر پڑے ہوں اور ان میں
قرآن لکھا ہو اہو ،ایک جمع کرنے والے (حضرت ابوبکررضی ہللا تعاٰل ی عنہ )نے ان اوراق کو جمع
کرکے ایک دھاگے سے باندھ دیا تاکہ ان میں سے کوئی چیز ضائع نہ ہوپائے۔(البرہان ،ج،۱ص
،۲۳۸االتقان،ج،۱ص)۱۰۱
وکان القرآُن فیہا ُم ْن َت ِش رًا َف َج َمَع ہا جامٌع و َر َب َط َہ ا بخیٍط ۔ (االتقان )۱/۸۳
اور (رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے گھر میں قرآن مجید کی مکمل یاد داشتوں کا جو ):ترجمہ(
ذخیرہ تھا) اس میں (قرآنی سورتیں) الگ الگ لکھی ہوئی تھیں؛ پس اس کو (حضرت ابوبکر کے حکم
سے) جمع کرنے والے (زید بن ثابت) نے ایک جگہ (ساری سورتوں کو) جمع کر دیا ،اور ایک دھاگا
سے سب کی شیرازہ بندی کر دی۔
حضرت صدیق اکبر رضی ہللا عنٗہ کی اس کوشش سے پہلے بعض صحابہ مثًال حضرت علی رضی
ہللا عنٗہ وغیرہ نے قرٓان کریم کے جمع کرنے کی کوشش کی تھی جیسا کہ بعض روایات سے معلوم
ہوتا ہے (فتح الباری ،۹/۱۵:االتقان )۱/۱۲۸:اور کسی حد تک اس میں کامیاب رہے؛ لیکن وہ ان کی
اپنی انفرادی کوشش تھی ،ان کا نسخہ ان خصوصیات سے خالی تھا جو حضرت صدیق اکبر رضی ہللا
عنٗہ کے تیار کردہ نسخہ میں پائے جاتے تھے ،اس کے عالوہ امت کی اجماعی تصدیق بھی اسے
حاصل نہ تھی؛ اس کے برعکس حضرت ابوبکرصدیق رضی ہللا عنہ وہ پہلے صحابی ہیں جنھوں نے
پورے امت کی اجماعی تصدیق سے ایک معیاری نسخہ”قرٓان عظیم” کا تیار کروایا اس لیے حضرت
علی رضی ہللا عنہ کا ارشاد ہے قرٓان کریم کے تعلق سے سب سے زیادہ اجر پانے والے حضرت
ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ ہیں ،ہللا ابوبکر رضی ہللا عنٗہ پر رحم فرمائے؛ انھوں نے سب سے پہلے
قرٓان کو جمع فرمایا۔
)فتح الباری(۹/۱۵:
قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کے پاس رہا ،جب ان وفات ہو
گئی تو حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے پاس محفوظ رہا ،جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو (وصیت
المومنین حضرت حفصہ رضی ہللا عنہا کے پاس محفوظ رکھا رہا (صحیح کے مطابق) آپ کی بیٹی ام ٴ
بخاری )۲/۷۴۶حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے ان کے پاس سے ہی منگوا کر نقول تیار کرائے
تھے۔
)صحیح بخاری ،فضائل القرآن ،باب جمع القرآن ،۲/۷۴۶:رقم(۴۹۸۷:
اسی طرح ایک اور روایت میں ٓاتا ہے کہ حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ کی خالفت کے زمانہ میں
(مدینہ منوّر ہ میں) ایک معلم ایک قرٔات کے مطابق قرٓان پڑھتا تھا اور دوسرا معلم دوسری قرٔات کے
مطابق ،جب بچے ٓاپس میں ملتے تھے تو قرٔات میں ایک دوسرے سے اختالف کرتے تھے اور رفتہ
رفتہ اختالف معلمین تک پہنچ جاتا تھا؛ پھران میں بھی اختالف رونما ہوکر بسااوقات ایک دوسرے کی
تکفیر تک نوبت پہنچ جاتی تھی ،جب حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ کو اس کی خبر پہنچی تو ٓاپ
رضی ہللا عنٗہ نے خطبہ دیا اور فرمایا“ :تم میرے پاس ہوتے ہوئے اس طرح اختالف کررہے ہو تو جو
لوگ مجھ سے دور شہروں میں ہوں گے وہ تم سے زیادہ اختالف کریں گے”۔
)فتح الباری۲۲//۹:۔ االتقان(۱/۱۳۱:
حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ کا یہ خیال بالکل سچ نکال جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت
انس رضی ہللا عنٗہ بن مالک سے اس طرح منقول ہے :کہ حضرت حذیفہ رضی ہللا عنٗہ جو اس وقت
اہِل “عراق” کے ساتھ ملِک “شام” میں “ٓارمینیۃ” اور “ٓازربائیجان” کے محاذ پر برسِر پیکار تھے،
حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ کے پاس ٓائے ،ان کو لوگوں کے اختالِف قرٔات سے بہت تشویش تھی،
حضرت حذیفہ رضی ہللا عنٗہ نے حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ سے عرض کیا :اے امیرالمٔومنین! قبل
اس کے کہ یہ امت یہودونصارٰی کی طرح ہللا تعالٰی کی کتاب کے بارے میں اختالفات کی شکار
ہوجائے اس کو سنبھال لیجئے۔
)صحیح بخاری۔ فضائل القرٓان ،باب جمع القرٓان۲۰/۷۴۶:۔ رقم(۴۹۸۷:
اور فرمایا میں “ٓارمینیۃ” کے محاذ پر برسرپیکار تھا وہاں میں نے دیکھا کہ شام والے ابی بن کعب کی
قرٔات پر قرٓان پڑھتے ہیں ،جس کو عراق والوں نے نہیں سنا اور عراق والے عبدہللا بن مسعود رضی
ہللا عنٗہ کی قرٔات کے مطابق قرٓان پڑھتے ہیں جس کو شام والوں نے نہیں سنا؛ پھر یہ لوگ ٓاپس میں
ایک دوسرے کی تکفیر کرنے لگتے ہیں۔
)فتح الباری(۹/۲۱:
حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ پہلے سے اس مسئلہ میں فکرمند تھے ،حضرت حذیفہ رضی ہللا عنٗہ کے
واقعہ نے انھیں اور زیادہ سوچنے پر مجبور کردیا؛ انھوں نے صحابہ رضوان ہللا علیہم اجمعین کو
جمع فرمایا اور اس بارے میں ان سے مشورہ کیا اور فرمایا”:مجھے یہ خبر پہونچی ہے کہ بعض لوگ
کہتے ہیں کہ میری قرٔات تمہاری قرٔات سے بہتر ہے اور یہ بات کفر تک پہونچ سکتی ہے” صحابہ
کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین نے عرض کیآ :اپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ حضرت عثمان
رضی ہللا عنٗہ نے فرمایا :میری رائے ہے کہ ہم لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کردیں؛ تاکہ ان کے
درمیان اختالف نہ ہو ،صحابہ کرام رضی ہللا عنٗہ نے اس رائے کی تحسین فرماکر اس کی تائید
فرمائی۔
)االتقان ،۱/۱۳۰:فتح الباری(۹/۲۲:
اس کے بعد حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ نے حضرت حفصہ رضی ہللا عنٗہ کے پاس پیغام بھیجا کہ
وہ صحیفے (جو حضرت ابوبکر رضی ہللا عنٗہ کے حکم سے تیار کئے گئے) جو ٓاپ کے پاس موجود
ہے ،ہمارے پاس بھیج دیں ،ہم اس کی نقل کرواکر ٓاپ کو واپس کردیں گے ،تو حضرت حفصہ رضی
ہللا عنٗہ نے وہ صحیفے حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ کے پاس بھیج دیئے اس کے بعد حضرت عثمان
رضی ہللا عنٗہ نے اس اہم کام کی تکمیل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جن کے بنیادی طور پر چار
:ارکان تھے
حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنٗہ ()۲عبدہللا بن زبیر رضی ہللا عنٗہ ()۳سعید بن العاص رضی ہللا)(۱
عنٗہ ()۴عبدالرحمن رضی ہللا عنٗہ بن حارث بن ہشام ،حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ نے ان کو اس کام
پر مامور فرمایا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی ہللا عنٗہ کے صحیفوں سے قرٓان مجید نقل کروا کر ایسے
مصاحف تیار کرے جو سورتوں کے اعتبار سے مرتب ہو۔
)صحیح بخاری ،فضائل القرٓان ،باب جمع القرٓان۲/۷۴۶:۔ رقم(۴۹۸۷:
ابتداء میں تو حضرت عثمان رضی ہللا عنٗہ نے چار ہی حضرات کو اس کام کے لیے مامور کیا تھا؛
پھر بعد میں ضرورت پڑنے پر مزید ٓاٹھ حضرات کو بطوِر معاون ان کے ساتھ کردیاجن میں سے
بعضوں کے نام یہ ہیں“ :مالک بن ابی عامر رضی ہللا عنٗہ ،کثیر بن افلح رضی ہللا عنٗہ ،ابی بن کعب
رضی ہللا عنٗہ ،انس بن مالک رضی ہللا عنٗہ ،عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنٗہ ”۔
)فتح الباری۹/۲۲،۲۳:۔ اتقان(۱/۱۳:
:قرآن کی ترتیب
صحِف قرآنی” جو حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کے عہد میں مرتب کیے گئے تھے ،چونکہ“
الگ الگ اوراق تھے ،لٰہ ذا ان میں سورتیں ترتیب سے نہیں تھی۔ حضرت عثمان رضی ہللا عنہ نے
جب انہیں مصحف کی شکل دی تو موجودہ ترتیب لگائی گئی ۔
سورتوں کی ترتیب کے متعلق قاضی باقالنؒی کا قول حافظ ابن حجر عسقالنؒی نے نقل کیا ہے کہ
سورتوں کی ترتیب نہ تو تالوت میں واجب ہے ،نہ نماز میں اور نہ ہی درس و تعلیم میں۔۔ ترتیب کے
لحاظ سے صحابہ کے مصاحف میں جو اختالف اور فرق تھا دوسری بڑی وجوہات مثال وہ ترتیب
نزولی کے لحاظ سے ساتھ ساتھ لکھ گئے تھے’ کے عالوہ ایک یہ بھی تھا ۔
مال علی قارؒی نے اس موضوع پر بہت عمدہ بحث کی ہے۔ اسے ہم یہاں اپنے الفاظ میں پیش کرتے
ہیں :فرماتے ہیں ہیں کہ قرآن مجید ،جتنا جس مقدار میں اور جس طریقہ سے موجود ہے وہ ہللا تعالٰی
کا کالم ہے ،جو تواتر سے ثابت ہے۔ اس پر اہل علم و تحقیق کا اجماع ہے۔ اس میں جو شخص کمی
بیشی کرے گا وہ کافر قرار پائے گا۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ قرآن مجید کی آیات کی ترتیب توقیفی
یعنی من جانب ہللا ہے۔ اس کا (ایک) ثبوت یہ ہے کہ آپ پر جو آخری آیت نازل ہوئی وہ ہےَ :و اَّتُقوا
َي ْو ًما ُتْر َج ُعوَن ِفيِه ِإَلى هَّللا ۔ ۔ ۔ (البقرۃ )281:آپ سے جبریؒل نے کہا کہ اسے سورۃ بقرۃ میں سود سے
متعلق آیات اور آیِت مداینہ (قرض کے احکام سے متعلق آیت) کے درمیان رکھا جائے۔ چانچہ یہ اسی
جگہ ہے۔ اسی لیے کسی سورت کی آیات کی ترتیب الٹ دینا حرام ہے۔
جہاں تک سورتوں کی ترتیب کا سوال ہے اس میں اختالف ہے۔ اس لیے (حرمت کی بات تو نہیں کی
جا سکتی البتہ یہ کہا جائے گا کہ) بغیر کسی عذر کے اس کی ترتیب بدل دینا مکروہ ہے۔ حدیث میں
آتا ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ و علی آلہ وسلم نے نماز (تہجد) میں سورۃ آل عمران سے پہلے
سورۃ نساء پڑھی تھی۔ ممکن ہے آپ نے بیاِن جواز کے لیے ایسا کیا ہو۔ یہ بھول کر بھی ہو سکتا ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے ،گو کہ صحابہ کرام کے مصاحف اپنی
ترتیب کے لحاظ سے مختلف تھے۔ صحابہ کرام میں سے بعض نے قرآن کو ترتیِب نزول کے لحاظ
سے مرتب کیا تھا ،جیسے پہلے اقراء ،پھر مدثر ،اس کے بعد سورۃ نون ،مزمل ،تبت اور تکویر ،اسی
طرح جس ترتیب سے مکی اور مدنی سورتیں نازل ہوئیں۔
حضرت عثمان رضی ہللا عنہ کے جمِع قرآن کی بنیاد اس ترتیب پر تھی جس ترتیب سے رسول ہللا
صلی ہللا علیہ و علی آلہ وسلم نے دوسری مرتبہ وفات سے پہلے حضرت جبریل کو قرآن سنایا تھا اور
حضرت جبریل نے آپ کو سنایا تھا۔ اس بات کی دلیل کہ سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے ،یہ ہے کہ
“حوامیم” (وہ سورتیں جو ٰح م) سے شروع ہوتی ہیں) ایک ترتیب سے اور مسلسل ہیں۔ اسی طرح
“طواسین” (وہ سورتیں جو ٰط س سے شروع ہوتی ہیں) مسلسل ہیں لیکن مسبحات (جو سورتیں سّبح اور
یسّبح سے شروع ہوتی ہیں) ان میں تسلسل نہیں ہے۔ درمیان میں دوسری سورتیں ہیں۔ اسی طرح مکی
اور مدنی سورتیں الگ الگ نہیں ،بلکہ ملی جلی ہیں۔ یہ تمام امور اس بات کا ثبوت ہیں کہ سورتوں کی
ترتیب بھی توقیفی ہے۔
)مال علی قاری ،مرقاۃ المصابیح ،شرح مشٰکوۃ المصابیح 734/4 :۔ دار الفکر بیروت (
یہی اعتماد ان مصاحف کو تمام عالم اسالم میں مال ،جن عالقوں میں یہ مصاحف بھیجے گئے تھے،
وہاں کے باشندوں نے بھی ان مصاحف کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان مصاحف کو ان کے ہاں اعلٰی مقام
اور مقدس حیثیت حاصل ہوگئی ،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان مصاحف کی تدوین کسی فرِد واحد کی
کارروائی نہیں ہے ،بلکہ ان کی پشت پر قرآن کے اولین حفاظ ،کاتبین وحی تمام اصحاِب رسوؐل کا
ِاجماع موجود ہے ،جنہیں درباِر رسالؐت سے مدح و توصیف کا وہ پروانہ عطا ہوا ہے جس کے وہ
واقعی مستحق تھے۔
:سوال
حضور علیہ السالم کے وصال کے بعد قرآن مجید کو کتابی صورت میں
کس نے جمع کیا؟
جواب:
قرآن مجید کو جمع کرنے واال سب سے پہلے ہللا تعالی خود ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد
فرمایا :
ِإَّن َع َلْي َن ا َج ْم َع ُه َو ُقْر آَن ُه
القيامة 17
بے شک اسے (آپ کے سینہ میں) جمع کرنا اور اسے (آپ کی زبان سے) پڑھانا ہمارا ِذّمہ ہےo
َف ِإَذ ا َقَر ْأَن اُه َف اَّت ِبْع ُقْر آَن ُه
القيامة 18
پھر جب ہم اسے (زباِن جبریل سے) پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی پیروی کیا کریںo
حضور صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم دوسرے جامع القرآن ہیں ،آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے مختلف
اشیاء پر قرآن مجید کو لکھوا کر جمع کیا۔ سارا قرآن مختلف اشیاء میں لکھا ہوا تھا۔
تیسرے جامع القرآن حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ ہیں۔ جنگ یمامہ میں جب کثیر تعداد میں
حفاظ وقراء صحابہ کرام شہید ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے حضرت عمر فاروق
رضی ہللا عنہ کے مشورے سے قرآن مجید کو مختلف اشیاء سے کتابی شکل میں جمع کیا۔ تو اس
طرح سب سے پہلے حضور علیہ الصالۃ والسالم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی ہللا عنہ نے
قرآن مجید کو کتابی شکل میں مدون کروایا۔
حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ چوتھے جامع القرآن ہیں ،آپ کے زمانہ خالفت میں جب فتوحات
بہت زیادہ ہو گئی اور مختلف زبانیں بولنے والے جب دائرہ اسالم میں داخل ہوئے تو انہون نے قرآن
مجید کی مختلف قراءتوں شروع کر دیں۔ تو اس وقت امت مسلمہ سے اختالف کو ختم کرنے کے لئے
اور ایک قرات پر جمع کرنے کے لئے آپ رضی ہللا عنہ نے قرآن مجید کو ایک قرات پر جمع کیا۔
قرآن مجید کے ساتھ جو تفسیر لکھی گئی تھی ،اس تفسیر کو بھی ختم کروایا۔ لہذا آپ رضی ہللا عنہ
نے اصل قرآن مجید کو تفسیروں سے الگ کر کے جمع کیا ،اس وجہ سے آپ رضی ہللا عنہ کو جامع
:سوال
حدیث کیا ہے اور کس طرح ہیں اور کس قسم کے ہوتے ہیں
جواب:
حدیث کے لغوی معنی جدید یا نئی چیز کے ہیں اور ِاس کی جمع خالِف قیاس االحادیث آتی ہے۔
ِاصطالح حدیث میں ہر ُاس قول ،فعل یا تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے جس کی نسبت پیغمبر اسالم
حضرت محمد مصطفٰی صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کی جاتی ہو
صحاح ستہ
صحاح“ صحیح کی جمع ہے۔ محسوسات اور معنویات میں استعمال ہوتا ہے اگر محسوسات میں”
استعمال ہوتو لغتًا اس کا معنی ہوگا ”الشیء السلیم من األمراض والعیوب“ یعنی وہ چیز جو امراض
وعیوب سے صحیح سالم ہو ،اس سے معلوم ہوا کہ واضِع لغت نے اس لفظ کو سالمت من العیوب ہی
کے لیے وضع کیا ہے؛ لٰہ ذا یہی اس کا معنی حقیقی ہے اور معنویات میں یہ جس معنی کے لیے
مستعمل ہے ،وہ اس کا معنی مجازی ہے۔ مثًال قول وحدیث کی صفت صحیح آتی ہے تواس وقت ترجمہ
ہوگا ”َم ا اعُت مد علیہ“ یعنی قول صحیح وہ ہے جس پر اعتماد کیا جائے۔[ ]1اور اصطالح میں صحیح
خبرواحد کی ایک قسم ہے۔ صحاِح ستہ کے معنی “مستند چھ“ یعنی کہ چھ مستند کتابیں ہیں ،کیمبرج
:کی تاریِخ ایران کے مطابق[]2
حدیث کے 6مستند اور مشہور مجموعوں کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ ان کتابوں کو اسالمی تعلیم
:سمجھنے میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ کتابیں مندرجہ ذیل ہیں
کتب ستہ کہ مشہور اند دراسالم گفتہ اند صحیح بخاری وصحیح مسلم وجامع ترمذی وسنن ابی داؤد”
وسنن نسائی وسنن ابن ماجہ است۔ ودریں کتب آنچہ اقساِم حدیث است از صحاح وِحسان وِض عاف ہمہ
موجود است ،وتسمیہ آں بصحاح بطریِق تغلیب است“[]4
چھ کتابیں جو اسالم میں مشہور ہیں ،محدثین کے مطابق وہ صحیح بخاری ،صحیح مسلم ،جامع”
ترمذی ،سنن ابی داؤد ،سنن نسائی ،سنن ابن ماجہ ہیں۔ ان کتابوں میں حدیث کی جتنی قسمیں ہیں
“صحیح ،حسن اور ضعیف ،سب موجود ہیں اور ان کو صحاح کہنا تغلیب کے طور پر ہے۔
محدثین کی ان کتابوں میں ایک طرف دینی معلومات جمع کی گئیں اور دوسری طرف ان میں رسول
ہللا صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ رضوان ہللا علیہم اجمعین کے زمانے کے صحیح تاریخی
واقعات جمع کیے گئے ہیں۔ اس طرح احادیث کی یہ کتابیں دینی و تاریخی دونوں اعتبار سے قابل
بھروسا ہیں۔