Professional Documents
Culture Documents
تحریر لکھی جس میں محدثین کے اقوال و تتبع کے تحت یہ ثابت کیا گیا کہ صحیح مسلم
میں موجود اس روایت کے متن میں نکارت پائی جاتی ہے اور اس روایت کے متن سے
متعلق عالمہ ابن حزم سے لیکر قاضی عیاض ،اور عالمہ ابن قیم و ابن کثیر سے لیکر امام
نووی تک سب نے تحفظات کا اظہار فرما کر اس روایت کی تطبیق کرنے کی کوشش کی
ہے۔ ہماری مذکورہ تحریر کے بعد ہمارے ایک نہایت فاضل و محب رفیق محمد حماد
ٰ
دعوی کیا کہ االثری صاحب نے اعتراضا ً پوسٹ لگائی جس میں بڑی شدومد سے یہ
’’نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے ام حبیبہ رض سے نکاح فتح مکہ کے بعد کیا تھا اور فتح مکہ
سے قبل حبشہ میں نکاح کی روایات ثابت نہیں‘‘۔ جبکہ پچھلے ۱۰۰۰سالوں میں کسی
ایک محدث نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس روایت کا متن اپنے ظاہری معنوں میں من و عن
درست ہے اور نبی صلی ہللا علیہ وسلم نےسیدہ ام حبیبہ رض سے نکاح فرمایا ہی فتح مکہ
کے بعد تھا۔ پھر مقام حیرت یہ ہے کہ ابن حزم ،قاضی عیاض ،امام نووی ،ابن کثیر ،ابن
حجر عسقالنی ،ابن الصالح ،امام ذہبی وغیرہم ان سب کو صرف اس مفروضہ کی بناء پر
اس روایت کی تاویل کرنے کی بابت غلطی پر قرار دیدیا گیا ہے کہ ’’ یہ روایت سند و متن
کے لحاظ سے بالکل صحیح ہے ،اسی لئے اما م رحمہ ہللا اسے اپنی صحیح میں الئے
ہیں‘‘ گویا ان سارے محدثین سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن امام مسلم سے سہو ممکن نہیں
اور امام مسلم کی صحیح کا ہر حرف و شوشہ محفوظ ہے۔ دراصل انکار حدیث کے رد
عمل میں یہی وہ غیر مناسب طرز عمل ہے جس نے مذموم روایت پرستی کو جنم دیا۔کہاں
اس بابت امام ابن حزم ،ابن قیم ،امام نووی ،ابن کثیر ،قاضی عیاض اور ابن حجر عسقالنی
کی ٓاراء ہیں اور کہاں ان ٓاراء کا رد تفسیر مقاتل بن سلیمان ،تفسیر سمعانی وغیرہم سے کیا
جارہا ہے جبکہ ان تفاسیر میں یہ سارے اقوال بے سند نقل ہوئے ہیں۔ مقام حیرت ہے کہ
حبیبہ کا نبی ﷺ سے قبل از فتح مکہ ؓ ایک جگہ تو حماد بھائی سیدہ ام
نکاح کی خبر مشہور کو واقدی پر جرح کرکے رد فرمارہے ہیں تو دوسری طرف اس
نکاح کے بعد از فتح مکہ ہونے سے متعلق جس قدر حوالہ جات دے رہے ہیں وہ سب بے
سند ہیں۔پھر ان تفاسیر کی بابت امام احمد بن حنبل کا یہ قول بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ تفسیر
و مغازی میں کثرت سے بے سند اقوال و ضعیف روایات ہوتی ہیں سو انکا اعتبار نہیں
کرنا چاہیئے۔
مقام حیرت ہے کہ صحیح مسلم کی اس روایت کے دفاع میں حماد بھائی جیسے علم والے
حبیبہ کا نبی ﷺ سے قبل از فتح مکہ حبشہ میں نکاح کی ؓ انسان کو سیدہ ام
خبر مشہور کے انکار کے لئے اس طرح کے ضعیف و بے سند اقوال سے احتجاج کرنا
پڑا۔ اس کی وجہ اور کچھ نہیں صرف یہی ہے کہ پاکستان میں موجود متاخرین اہلحدیث
کے ایک گروہ کے ذہنوں میں یہ بات شدت سے بٹھائی جارہی ہے کہ صحیح بخاری و
مسلم ’’اصح الکتاب بعد کتاب ہللا ‘‘ نہیں بلکہ ’’اصح الکتاب مع کتاب ہللا‘‘ ہیں۔ اس لئے
ہم نے مناسب سمجھا کہ اس بابت بھی کچھ گزارشات محدثین و اکابرین کے اقوال کے
حوالے سے قارئین کے سامنے رکھ دیں اور پھر اس کے بعد اس روایت کی بابت مزید
کالم کریں۔
محدثین سلف نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کے جو ’’اصح الکتاب بعد کتاب ہللا ‘‘ کی
ٰ
دعوی کیاہے تو وہ ان کتب کی جمہور احادیث سے متعلق ہے،نہ کہ بال بابت اجماع کا
استثناء ان کے ایک ایک حرف ،شوشہ اور حدیث سے متعلق۔کیونکہ خود علمائے سلف
صحیحین کی روایات پر کالم کرتے ٓائے ہیں ،جیسا کہ صحیح مسلم کی زیر تجزیہ روایت
سے ثابت ہوتا ہے۔ اسی بات کو امام ابن تیمیہ اپنی کتاب منھاج السنتہ جلد ۴صفحہ ۵۹
:میں اس طرح بیان کرتے ہیں
اس فن کے ٓائمہ (محدثین کرام) نے ان دونوں (صحیحین)کتابوں کا بغو ر مطالعہ کیا اور’’
ان روایات کی صحت پر ان کے ساتھ اتفاق کیا جن کو ان دونوں (امام بخاری و مسلم) نے
صحیح کہا ہے سوائے بیس احادیث کے قریب جن میں اکثر مسلم میں ہیں اور بعض حفاظ
‘‘حدیث نے ان دونوں کتابوں کی ان احادیث پر تنقید کی ہے۔
اسی طرح سے خود امام مسلم کے استاد امام ابوزعہ رازی نے صحیح مسلم کے تین رواۃ
پر سخت تنقیدیں کی ہیں اور ان سے روایت النے پر امام مسلم سے کافی ناراض بھی ہیں
اور امام مسلم کی ان رواۃ سے روایت کی گئی احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ وہ تین رواۃ
عیسی مصری ہیں (سیر اعالم النبالء جلد ،۱۲
ٰ اسباط بن نصر ،قطن بن نسیر اور احمد بن
صفحہ )۵۷۱
اسی طرح عالمہ کمال الدین ابن الہمام فتح القدیر کے باب النوافل جلد ۱صفحہ ۴۴۵میں
:لکھتے ہیں
پھر شیخین (امام بخاری و مسلم) یا ان میں سے کسی ایک کا کسی معین راوی کے بارے’’
میں یہ فیصلہ کرنا کہ وہ شرائط صحت کا جامع ہے ،اس بات کو مستلزم نہیں کہ واقع اور
نفس االمر میں بھی وہ ایسا ہی ہو ،امر واقعہ اس کے برخالف بھی ہوسکتا ہے چنانچہ امام
مسلم نے کتنے ہی ایسے راویوں سے حدیثیں لی ہیں جو جرح کی ٓافتوں سے محفوظ نہیں
‘‘ہیں۔
امام دارقطنی نے اپنی کتاب ’’استدراکات‘‘ اور ’’التتبع‘‘‚ میں بخاری و مسلم کی چند
روایات پر کالم کیا ہے۔ اسی طرح ابو مسعود الدمشقی نے بھی ان دونوں کتب پر
استدراکات لکھے ہیں جبکہ ابو علی غسانی نے بھی اپنی کتاب میں صحیحین کی بعض
روایات پر کالم کیا ہے۔ امام ابن حجر عسقالنی کے استاد حافظ عراقی نے اپنے الفی ٰہ کی
شرح میں بخاری و مسلم کی دو روایات پر کالم کیا ہے جن میں سے ایک مسلم کی یہی
حبیبہ کے نکاح سے متعلق ہے ۔
ؓ زیر بحث روایت جو کہ سیدنا ابو سفیان ؓ اور ام
شیخ احمد محمد شاکر جنہوں نے مسند احمد کی ترقیم ،تخریج اور شرح کی ہے ،مسند ابو
ہریرہ کے ضمن میں جو صحیفہ ہمام بن منبہ کے نام سے معروف ہے اور شیخ احمدؓ
محمد شاکر کے نسخہ کی ۱۶ویں جلد میں مرتب ہے ،اس صحیفہ کے متعلق مقدمہ میں
:شیخ شاکر لکھتے ہیں
یہ صحیفہ ہمام بن منبہ جس کی چند احادیث بخاری و مسلم نے لی ہیں اور چند احادیث’’
تنہا امام بخاری نے اور چند تنہا امام مسلم نے لی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جن کو دونوں میں
سے کسی نے نہیں لیا ہے۔ یہ صحیفہ اس بات کی دلیل ہے کہ شیخین جس حدیث کی
اعلی درجہ کی نہیں ہوتی۔
ٰ ‘‘تخریج پر متفق ہوں وہ ہمیشہ صحت کے اعتبار سے
اسی طرح ایسے متاخرین اہلحدیث حضرات جو کہ صحیحین کے ایک ایک لفظ کے
محفوظ ہونے کے قائل ہیں ،ان کی رد میں فضیلتہ الشیخ عالمہ ارشاد الحق اثری حفظہ ہللا
:رقم طراز ہیں
بعض اہل علم نے ان الفاظ کو صرف اس بناء پر صحیح باور کرلیا ہے کہ یہ صحیح’’
بخاری میں ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ جبکہ صحیح بخاری و مسلم میں شیخین ایسی حدیث
بھی الئے ہیں جو مقصود کے اعتبار سے تو صحیح ہوتی ہے ،یعنی من حیث المجوع،
اگرچہ کوئی ٹکڑا اس کا انکے معیار صحت کے مطابق نہیں ہوتا ،بلکہ اس میں بعض
رواۃ کا وہم ہوتا ہے۔صحیحین کا غائر نظر سے مطالعہ کرنے والے حضرات کے لئے یہ
بات نئی نہیں۔‘‘ (توضیح‚ الکالم صفحہ )۱۳۲
اسی طور پر فضیلتہ الشیخ حافظ صالح الدین یوسف حفظہ ہللا اپنی کتاب ’’واقعہ معراج
اور اس کے مشاہدات‘‘ میں صفحہ ۷۷میں معراج سے متعلق صحیح بخاری کی ایک
روایت کے راوی پر کالم کرتے ہوئے ’’شریک بن عبدہللا کی روایت اور اس کا وہم و
:تفرد‘‘ کی سرخی قائم کرکے رقم طراز ہیں
انس سے بیان کرنے’’ پس شریک کی یہ (صحیح بخاری کی ) روایت ایسی ہے جو سیدنا ؓ
والے دیگر تمام راویوں سے بہت مختلف ہے اور اس میں اس کے ایسے تفردات ہیں جو کہ
کسی روایت میں نہیں ہیں۔ اسی لئے محدثین نے اس کے ان تفردات کو اس کا وہم قرار دیا
‘‘ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس کے ایسے دس اوہام بیان کئے ہیں۔
:اسی شریک بن عبدہللا کے بارے میں امام نووی قاضی عیاض کے حوالے سے لکھتے ہیں
شریک کی اس حدیث معراج کی روایت میں بہت اوہام ہیں جن پر علماء نے گرفت کی’’
ہے‘‘ (شرح نووی جلد ،۲صفحہ )۲۰۹
سو اوپر کے مبحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ جو ہمارے چند احباب صحیح مسلم
کی زیر بحث روایت سے متعلق سلف کی توضیحات و تشریحات کو باالئے طاق رکھ کر
یہ فرمارہے ہیں کہ صحیح مسلم کی روایت ہونے کے سبب سے یہ روایت ہر قسم کے
شک و شبہ سے باالتر ہے تو یہ انتہائی ناقص بات اور فہم سلف و محدثین سے ناشناسائی
کا نتیجہ ہے۔ دراصل جب ہم نے پہلی بار اس روایت کی بابت کالم کیا تھا تو تب بھی ہم
نے تصریح کردی تھی کہ کچھ خاص وجوہات کی بناء پر ہم اس روایت کے رواۃ پر کالم
نہیں کر رہے اور وہ خاص وجہ یہی تھی کہ اس طرح کے مباحث سے کلمۃ الحق ارید بھا
الباطل کے مصداق منکر حدیث فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اب چونکہ مذموم
روایت پرستی کے زیر اثر سلف کی تشریحات کے خالف اس روایت کی صحت پر
اصرار کیا جارہا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت کی استنادی حیثیت بھی ہدیہ
قارئین کردی جائے۔ اس روایت کو موضوع قرار دیتے ہوئے امام ابن حزم اس روایت کا
وضاع عکرمہ بن عمار کو قرار دیتے ہیں سوبہتر معلوم ہوتا ہے کہ کتب الرجال سے اس
:عکرمہ بن عمار کا تفصیلی حال معلوم کرلیا جائے
امام ذہبی میزان االعتدال میں عکرمہ بن عمار سے متعلق جرح و تعدیل دونوں طرح کے
:اقوال النے کے بعد اپنی بحث ٓاخر میں ان الفاظ میں ختم کرتے ہیں
صحیح مسلم میں امام مسلم نے اس راوی کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے جو ’’
عباس سے نقل کیا ہے ،اور
ؓ منکر ہے ،جسے انہوں نے سماک حنفی سے سیدنا عبدہللا بن
ؓ
سفیان کے تین مطالبات والی ہے اور اس عکرمہ نے تین اور ایسی وہ روایت سیدنا ابو
احادیث نقل کی ہیں جو منکر ہیں۔‘‘ ( جلد ۵تحت الترجمۃ عکرمہ بن عمار)
یہ بات یاد رہے کہ عالمہ ذہبی کا رجحان عکرمہ بن عمار کی تعدیل کی جانب ہی زیادہ
ہے لیکن پھر بھی ٓاخر میں وہ ان کی صحیح مسلم کی زیر بحث روایت کو منکر قرار دے
رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے ممدوح بھائی اس روایت کو امام ذہبی کی توضیح کے باوجود
صحیح باور کروانے پر مصر ہیں۔
ابن ابی حاتم اپنی کتاب الجرح و التعدیل جلد ۷میں عکرمہ بن عمار سے متعلق تبصرہ
:کرتے ہوئے لکھتے ہیں
یحیی بن ابی کثیر سے جتنی احادیث نقل ’’
ٰ یحیی بن سعید القطان کا قول ہے کہ عکرمہ
کرتا ہے وہ سب ضعیف ہوتی ہیں۔ ابن ابی حاتم لکھتے ہیں کہ مجھے عبدہللا بن احمد نے
احمد کا یہ قول لکھ کر بھیجا کہ عکرمہ کی صرف وہ روایات درست ہوتی ہیں جو یہ ایاس
بن سلمہ سے نقل کرتا ہے بقیہ روایات مضطرب ہوتی ہیں۔ میرے والد ابو حاتم فرماتے
ہیں ،عکرمہ اپنی ذات کے لحاظ سے تو سچا ہے لیکن اسے وہم ہوتا ہے ،غلطیاں بہت
‘‘کرتا ہے اور بعض روایات میں راوی چھوڑ دیتا ہے۔
عکرمہ کی بابت اسی طور کی جرح حافظ ابن حجر عسقالنی نے بھی کی ہے۔ وہ اپنی
:کتاب ’’تقریب التہذیب‘‘‚ میں عکرمہ کے ترجمہ کے تحت لکھتے ہیں
یحیی بن ابی کثیر سے جو روایات نقل کرتا ہے’’،
ٰ عکرمہ صدوق ہے۔ غلطیاں کرتا ہے۔
‘‘اس میں اضطراب ہوتا ہے۔ اس کے پاس لکھی ہوئی روایات موجود نہیں۔
سو عکرمہ بن عمار کے تراجم سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عکرمہ غلطیاں کیا کرتا تھا
حبیبہ کا نکاح فتح مکہ کے بعد نبی
ؓ سو وہی غلطی اس نے اس روایت میں بھی کی کہ ام
ﷺ سے کروادیا۔ سو عکرمہ بن عمار کی وجہ سے یہ روایت الئق حجت
نہیں کہ اسکو مسلمہ تاریخی حقائق کے برخالف پیش کیا جائے۔ اسی لئے امام ذہبی نے
تو برمال اس روایت کو منکر لکھ دیا جبکہ قاضی عیاض ،امام نووی اور ابن الصالح کے
نزدیک یہ روایت اپنے ظاہری متن کے ساتھ قابل قبول نہیں جب کہ ابن حزم اس روایت
کو موضوع کہتے ہیں۔
عالمہ ابن کثیر البدایۃ و النہایۃ جلد ۴صفحہ ۱۳۰میں اس روایت کی بابت فرماتے ہیں کہ
یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کے باعث امام مسلم پر سخت اعتراضات‚ کئے گئے ہیں۔اسی
طرح سے امام نووی نے بھی شرح صحیح مسلم میں اس حدیث کی بابت لکھا ہے کہ یہ
حدیث مسلم کی ان مشہور احادیث میں سے ہے جن پر اعتراضات‚ کئے گئے ہیں۔ ابن حجر
ؓ
سفیان میں لکھتے ہیں کہ اہل سیر میں عسقالنی االصابہ جلد ۸تحت الترجمۃ رملہ بنت ابو
حبیبہ سے فتح مکہ سے ؓ اس بابت کوئی اختالف نہیں کہ نبی ﷺ نے سیدہ ام
قبل حبشہ میں نکاح فرمایا تھا ،سوائے اس کے جو صحیح مسلم میں ہے ۔۔ ۔۔۔ لیکن یہ
بعض راویوں کا وہم ہے۔ اس کے وہم ہونے پر اعتماد کرنے میں بھی تامل ہے ،بعض ٓائمہ
ؓ
سفیان نے عقد کی تجدید کا ارادہ کیا ہو۔ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ احتمال ہے کہ ابو
سفیان کے اسالم النے سے قبل ٓاپﷺ ؓ ہاں! اس میں اختالف نہیں کہ ابو
حبیبہ کے پاس ٓائے۔
ؓ (نکاح کرنے کے بعد) ام
اب قارئین خود دیکھ لیں کہ اہل سیر و محدثین میں اس بابت کوئی اختالف ہی نہیں کہ نبی
حبیبہ سے نکاح فتح مکہ سے قبل حبشہ میں فرمایا تھا لیکن یہاں
ؓ ﷺ نے ام
ہمارے معترض بھائی ابن حزم ،ابن قیم ،ابن کثیر ،قاضی عیاض ،امام نووی ،ابن حجر
عسقالنی ،امام ذہبی وغیرہم سب کے برخالف عکرمہ بن عمار کی اس منکر روایت کی
صحت پر اصرار کرکے کس جزم سے سب کو غلط ٹھہرا کر اپنا تفرد بیان فرمارہے ہیں۔
اگر اسکا نام سلف کا تتبع ہے تو پھر تفرد و غامدیت کس بال کا نام ہے۔ ٓاخر میں مناسب
معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس بابت صحیح حدیث بھی پیش کردیں جس میں صراحت موجود ہے
حبیبہ سے نکاح فتح مکہ سے قبل کیا تھا۔ اور یہی وجہ
ؓ کہ نبی ﷺ نے ام
ہے کہ امام ذہبی و امام ابن حزم نے صحیح مسلم کی بعد از فتح مکہ نکاح والی روایت کو
منکر قرار دیا جبکہ جملہ محدثین میں سے کسی نے بھی اس روایت کو ظاہری معنوں میں
بال تطبیق قبول نہیں کیا۔
َاق)
صد ِ اح( بَابُ ال َّ سنن أبي داؤدِ :كتَابُ النِّ َك ِ
سنن ابو داؤد :کتاب :نکاح کے احکام و مسائل( باب :حق مہر کے احکام و مسائل)
ُّ
كَ ،ح َّدثَنَا َم ْع َم ٌر َع ِن الز ْه ِريِّ2107 . ، ُورَ ،ح َّدثَنَا ابْنُ ْال ُمبَا َر ِ
وب الثَّقَفِ ُّيَ ،ح َّدثَنَا ُم َعلَّى بْنُ َم ْنص ٍ َح َّدثَنَا َحجَّا ُج بْنُ أَبِي يَ ْعقُ َ
صلَّى هَّللا ُ
ي َ ض ْال َحبَ َش ِة ،فَزَ َّو َجهَا النَّ َجا ِش ُّي النَّبِ َّ
ش ،فَ َماتَ بِأَرْ ِ َت تَحْ تَ ُعبَ ْي ِد هَّللا ِ ب ِْن َجحْ ٍع َْن عُرْ َوةَ ،ع َْن أُ ِّم َحبِيبَةَ ،أَنَّهَا َكان ْ
صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم َم َع ُش َرحْ بِي َل اب ِْن َح َسنَةَ .قَا َل أَبو ُول هَّللا ِ َث بِهَا إِلَى َرس ِ فَ ،وبَ َع َ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َمَ ،وأَ ْمهَ َرهَا َع ْنهُ أَرْ بَ َعةَ آاَل ٍ
.دَاودَ :ح َسنَةُ ِه َي أُ ُّمهُ
حکم :صحیح
ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی ہللا عنہا ( اپنے متعلق ) بیان کرتی ہیں کہ یہ پہلے عبیدہللا بن حجش2107 .
کی زوجیت میں تھیں اور وہ حبشہ جا کر فوت ہو گیا تو نجاشی نے ان سے شادی نبی کریم صلی ہللا علیہ
وسلم کے ساتھ کر دی اور اپنی طرف سے ان کو چار ہزار ( درہم ) مہر ادا کیا ۔ پھر انہیں شرجیل بن حسنہ
رضی ہللا عنہ کی معیت میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا ۔ امام ابوداؤد رحمہ ہللا
وضاحت فرماتے ہیں کہ شرجیل بن حسنہ میں ” حسنہ “ ان کی والدہ کا نام ہے ۔
یاد رہے کہ یہ حدیث ہم نے اہلحدیث مکتبہ فکر کی سب سے معتمد ویب سائٹ ’’محدث‘‘
سے لی ہے جہاں اس روایت پر ’’صحیح‘‘‚ کا حکم اوپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سے
عالمہ البانی نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور زہری اور عروہ کے درمیان
سماع کی تصریح کی ہے۔ اسی صحیح روایت اور مستند تاریخی حوالہ جات کے تحت
حبیبہ کا نکاح نبی ﷺ سے قبل از فتح ؓ جمیع محدثین و مورخین نے سیدہ ام
مکہ قرار دیا ہے اور یہی وجہ ہوئی کہ ابن الصالح سے لیکر امام نووی تک سب نے
صحیح مسلم کی اس حدیث کی تاویل کی ہے۔
سو ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری مندرجہ باال تصریحات اور اوپر پیش کردہ صحیح حدیث
کے بعد محمد حماد اثری بھائی اس روایت سے متعلق اپنے نظرئیے پر نظرثانی فرمائیں
گے اور ضدو بحث کی راہ چھوڑ کر سلف کا تتبع اختیار کریں گے۔
نوٹ :ہم یہ وضاحت کردیں کہ ہمارے نزدیک صحیحین کا درجہ اصح الکتاب بعد کتاب ہللا
کا ہے اور ہم صحیحین کی جمہور روایات کو اصحیت کے اعلی درجہ پر مانتے ہوئے ان
کے الئق حجت ہونے کے قائل ہیں اور صحیحین کی صرف ان چند روایات کی بابت
توقف اختیار کرتے ہیں جن کی بابت سلف نے تحفظات کا اظہار فرمایا ہو جیسا کہ صحیح
ٰ
فتوی مسلم کی زیر بحث روایت۔ سو مناسب ہے کہ ہم پر کسی طور کے انکار حدیث کا
لگانے سے گریز کیا جائے کیونکہ صحیحین کی بابت ہمارا نظریہ وہی ہے جو کہ جمہور
محدثین اور علماء کا ہے۔
ث ن ج
ت نق ن ب ق ہ ن پن
م ہ ی
ے ا ی پوسٹ می ں اب وداؤد اور ن ی کی فس ن الکب ری کی روای ت ل کی ھی جس کو ہور محد ی ن ے
سل ع پ ٰ مص ق
ے پ
ے ن می ں عالمہ ال ب ا ی اور ی لماء یش یش ہ ی ں۔ ی ہ روای ت چک ھ اس طرح سے ہج :یح ح رار دی ا ہ
ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی ہللا عنہا ( اپنے متعلق ) بیان کرتی ہیں کہ یہ پہلے عبیدہللا بن حجش کی
زوجیت میں تھیں اور وہ حبشہ جا کر فوت ہو گیا تو نجاشی نے ان سے شادی نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم
کے ساتھ کر دی اور اپنی طرف سے ان کو چار ہزار ( درہم ) مہر ادا کیا ۔ پھر انہیں شرجیل بن حسنہ
رضی ہللا عنہ کی معیت میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا ۔ امام ابوداؤد رحمہ ہللا
وضاحت فرماتے ہیں کہ شرجیل بن حسنہ میں ” حسنہ “ ان کی والدہ کا نام ہے ۔
اس روایت کو امام ابو داؤد اپنی کتاب میں تین جگہ الئے ہیں (ابو داؤد )۲۱۰۷،۲۱۰۸ ،۲۰۸۶ :جبکہ
امام نسائی اس روایت کو دو جگہ الئے ہیں (النسائی ،)۵۴۸۶ ،۳۳۵۰ :اسی طرح امام بیہقی‚ اپنی سنن
الکبری میں بھی کئی مقامات‚ پر اس روایت کو عن زہری عن عروہ کی سند سے الئے ہیں۔ الغرض مسندٰ
احمد سے لیکر طبرانی اور دیگر کئی کتب میں یہ روایت پائی جاتی ہے۔ محدثین نے اس روایت کے ۲۵
اخراج یعنی حوالہ جات درج کئے ہیں جس میں سے ۱۳صحیح ۹ ،حسن ۱ ،ضعیف اور ۲موضوع‚
بتائے ہیں۔ جبکہ اس روایات کے مختلف کتب احادیث میں ۶۵شواہد ملتے ہیں جس میں سے سے ۱۴
صحیح اور ۹حسن ہیں۔ چونکہ جمہور محدثین کا یہ ماننا ہے کہ امام زہری کی عروہ سے عن والی
روایات سماع پر محمول ہوتی ہیں اسی لئے عالمہ البانی سے لیکر جمیع محدثین اس روایت کو درست
جانتے ہیں۔
نیچے اس حدیث کی تصحیح سے متعلق ہم اہلحدیث مکتبہ فکر کی سب سے معتمد ویب سائٹ ’’محدث‘‘
سے کچھ اسکین دے رہے ہیں۔ ساتھ ہی ایک اور سلفی ویب سائٹ سے بھی اس حدیث کے شواہد اور تخریج
ٰ
دعوی میں صائب ثابت ہوسکیں۔ کے اسکین دے رہے ہیں تاکہ ہم اپنے
حبیبہ کا نکاح نبی
ؓ جب یہ حدیث صحیح ثابت ہوچکی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ سیدہ ام
ﷺ سے حبشہ میں ہوا تھا جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے اور یہ نکاح نجاشی نے پڑھایا
حسنہ کے ساتھ مدینہ ٓائیں۔ تمام اہل سیر و تاریخ اس بات پر
ؓ حبیبہ شرحبیل بن
ؓ تھا اور نکاح کے بعد سیدہ ام
متفق ہیں کہ حبشہ سے مہاجرین کا ٓاخری وفد فتح خیبر کے وقت سیدنا جعفر بن ابی طالب ؓ کی سرکردگی
میں مدینہ پہنچا تھا۔ عالمہ صفی الرحمٰ ن مبارکپوری نے اس بابت تفصیل سے بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ
صلح حدیبیہ کے بعد نبی ﷺ نے جب مختلف شاہان عرب کو خط بھیجے تو نجاشی کو بھی
خط بھیجا۔ نجاشی خط پڑھ کر ایمان الیا۔ اس خط میں جہاں نجاشی کو اسالم قبول کرنے کی دعوت دی گئی
تھی وہی مہاجرین حبشہ کو مدینہ بھیجنے کا حکم بھی دیا تھا۔ عالمہ صفی الرحمٰ ن مبارکپوری ’’الرحیق
:المختوم ‘‘صفحہ ۴۷۹میں لکھتے ہیں
بالکل یہی بیان طبری اپنی تاریخ میں الئے ہیں اور شائد عالمہ صفی‚ الرحمٰ ن مبارکپوری نے یہ بیان وہی
سے لیا ہو۔ عالمہ ابن حجر عسقالنی نے بھی االصابہ جلد ۱ول صفحہ ۴۵۸میں یہی لکھا ہے اور ساتھ ہی
یہ بھی لکھا ہے کہ ’’یہ سب کچھ مغازی میں متعدد صحیح روایات سے ثابت ہے۔‘‘ المختصر اہل سیر و
محدثین اس بات پر متفق ہیں کہ حبشہ سے ہجرت کرکے ٓاخری وفد ۷ہجری میں مدینہ ٓاچکا تھا سو نبی
ﷺ کا حبشہ میں ام حبیبہ ؓ سے نکاح کا واقعہ فتح مکہ سے قبل کا ہی ہوسکتا ہے کیونکہ‚ یہ
حبیبہ اکیلے حبشہ میں رہ گئی ہوں جبکہ نبی ﷺ نے خاص نجاشی کو ؓ تو ممکن نہیں کہ ام
خط لکھ کر سارے مسلمانوں کو مدینہ بلوالیا تھا۔سو اوپر مذکورہ باال حدیث اور تصریحات سے یہی ثابت
حبیبہ سے فتح مکہ سے پہلے حبشہ میں ہوچکا تھا اورؓ ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کا نکاح سیدہ ام
یہی وجہ رہی کہ امام ابن حزم ،ابن قیم ،ابن خلدون ،قاضی عیاض ،ابن حجر عسقالنی ،امام نسائی ،امام
بیہقی ،امام ابو داؤود ،ابن قیم ،امام احمد ،طبرانی وغیرہم سب نے یہی روایت کیا کہ نبی ﷺ
حبیبہ سے نکاح فتخ مکہ سے قبل حبشہ میں نبی ﷺ سے ہوچکا تھا۔ ؓ کا ام
امید ہے کہ اس تفصیلی تبصرے کے بعد محمد حماد بھائی کی تشفی ہوچکی ہوگی اور وہ اپنا موجودہ دور
کا تفرد چھوڑ کر اس بابت سلف کا طریقہ اپنائیں گے اور صحیح احادیث جو کہ نسائی ،بیہقی ،ابوداؤد اور
مسند احمد میں پائی جاتی ہیں ،ان کا تتبع کرینگے۔