You are on page 1of 10

‫پچھلے دنوں "سیدنا ابوسفیان رض اور سیدہ ام حبیبہ رض کے نکاح" سے متعلق ایک‬

‫تحریر لکھی جس میں محدثین کے اقوال و تتبع کے تحت یہ ثابت کیا گیا کہ صحیح مسلم‬
‫میں موجود اس روایت کے متن میں نکارت پائی جاتی ہے اور اس روایت کے متن سے‬
‫متعلق عالمہ ابن حزم سے لیکر قاضی عیاض‪ ،‬اور عالمہ ابن قیم و ابن کثیر سے لیکر امام‬
‫نووی تک سب نے تحفظات کا اظہار فرما کر اس روایت کی تطبیق کرنے کی کوشش کی‬
‫ہے۔ ہماری مذکورہ تحریر کے بعد ہمارے ایک نہایت فاضل و محب رفیق محمد حماد‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا کہ‬ ‫االثری صاحب نے اعتراضا ً پوسٹ لگائی جس میں بڑی شدومد سے یہ‬
‫’’نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے ام حبیبہ رض سے نکاح فتح مکہ کے بعد کیا تھا اور فتح مکہ‬
‫سے قبل حبشہ میں نکاح کی روایات ثابت نہیں‘‘۔ جبکہ پچھلے ‪ ۱۰۰۰‬سالوں میں کسی‬
‫ایک محدث نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس روایت کا متن اپنے ظاہری معنوں میں من و عن‬
‫درست ہے اور نبی صلی ہللا علیہ وسلم نےسیدہ ام حبیبہ رض سے نکاح فرمایا ہی فتح مکہ‬
‫کے بعد تھا۔ پھر مقام حیرت یہ ہے کہ ابن حزم‪ ،‬قاضی عیاض‪ ،‬امام نووی‪ ،‬ابن کثیر‪ ،‬ابن‬
‫حجر عسقالنی‪ ،‬ابن الصالح‪ ،‬امام ذہبی وغیرہم ان سب کو صرف اس مفروضہ کی بناء پر‬
‫اس روایت کی تاویل کرنے کی بابت غلطی پر قرار دیدیا گیا ہے کہ ’’ یہ روایت سند و متن‬
‫کے لحاظ سے بالکل صحیح ہے‪ ،‬اسی لئے اما م رحمہ ہللا اسے اپنی صحیح میں الئے‬
‫ہیں‘‘ گویا ان سارے محدثین سے غلطی ہوسکتی ہے لیکن امام مسلم سے سہو ممکن نہیں‬
‫اور امام مسلم کی صحیح کا ہر حرف و شوشہ محفوظ ہے۔ دراصل انکار حدیث کے رد‬
‫عمل میں یہی وہ غیر مناسب طرز عمل ہے جس نے مذموم روایت پرستی کو جنم دیا۔کہاں‬
‫اس بابت امام ابن حزم‪ ،‬ابن قیم‪ ،‬امام نووی‪ ،‬ابن کثیر‪ ،‬قاضی عیاض اور ابن حجر عسقالنی‬
‫کی ٓاراء ہیں اور کہاں ان ٓاراء کا رد تفسیر مقاتل بن سلیمان‪ ،‬تفسیر سمعانی وغیرہم سے کیا‬
‫جارہا ہے جبکہ ان تفاسیر میں یہ سارے اقوال بے سند نقل ہوئے ہیں۔ مقام حیرت ہے کہ‬
‫حبیبہ کا نبی ﷺ سے قبل از فتح مکہ‬ ‫ؓ‬ ‫ایک جگہ تو حماد بھائی سیدہ ام‬
‫نکاح کی خبر مشہور کو واقدی پر جرح کرکے رد فرمارہے ہیں تو دوسری طرف اس‬
‫نکاح کے بعد از فتح مکہ ہونے سے متعلق جس قدر حوالہ جات دے رہے ہیں وہ سب بے‬
‫سند ہیں۔پھر ان تفاسیر کی بابت امام احمد بن حنبل کا یہ قول بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ تفسیر‬
‫و مغازی میں کثرت سے بے سند اقوال و ضعیف روایات ہوتی ہیں سو انکا اعتبار نہیں‬
‫کرنا چاہیئے۔‬

‫مقام حیرت ہے کہ صحیح مسلم کی اس روایت کے دفاع میں حماد بھائی جیسے علم والے‬
‫حبیبہ کا نبی ﷺ سے قبل از فتح مکہ حبشہ میں نکاح کی‬ ‫ؓ‬ ‫انسان کو سیدہ ام‬
‫خبر مشہور کے انکار کے لئے اس طرح کے ضعیف و بے سند اقوال سے احتجاج کرنا‬
‫پڑا۔ اس کی وجہ اور کچھ نہیں صرف یہی ہے کہ پاکستان میں موجود متاخرین اہلحدیث‬
‫کے ایک گروہ کے ذہنوں میں یہ بات شدت سے بٹھائی جارہی ہے کہ صحیح بخاری و‬
‫مسلم ’’اصح الکتاب بعد کتاب ہللا ‘‘ نہیں بلکہ ’’اصح الکتاب مع کتاب ہللا‘‘ ہیں۔ اس لئے‬
‫ہم نے مناسب سمجھا کہ اس بابت بھی کچھ گزارشات محدثین و اکابرین کے اقوال کے‬
‫حوالے سے قارئین کے سامنے رکھ دیں اور پھر اس کے بعد اس روایت کی بابت مزید‬
‫کالم کریں۔‬

‫محدثین سلف نے صحیح بخاری و صحیح مسلم کے جو ’’اصح الکتاب بعد کتاب ہللا ‘‘ کی‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیاہے تو وہ ان کتب کی جمہور احادیث سے متعلق ہے‪،‬نہ کہ بال‬ ‫بابت اجماع کا‬
‫استثناء ان کے ایک ایک حرف ‪ ،‬شوشہ اور حدیث سے متعلق۔کیونکہ خود علمائے سلف‬
‫صحیحین کی روایات پر کالم کرتے ٓائے ہیں‪ ،‬جیسا کہ صحیح مسلم کی زیر تجزیہ روایت‬
‫سے ثابت ہوتا ہے۔ اسی بات کو امام ابن تیمیہ اپنی کتاب منھاج السنتہ جلد ‪ ۴‬صفحہ ‪۵۹‬‬
‫‪:‬میں اس طرح بیان کرتے ہیں‬

‫اس فن کے ٓائمہ (محدثین کرام) نے ان دونوں (صحیحین)کتابوں کا بغو ر مطالعہ کیا اور’’‬
‫ان روایات کی صحت پر ان کے ساتھ اتفاق کیا جن کو ان دونوں (امام بخاری و مسلم) نے‬
‫صحیح کہا ہے سوائے بیس احادیث کے قریب جن میں اکثر مسلم میں ہیں اور بعض حفاظ‬
‫‘‘حدیث نے ان دونوں کتابوں کی ان احادیث پر تنقید کی ہے۔‬
‫اسی طرح سے خود امام مسلم کے استاد امام ابوزعہ رازی نے صحیح مسلم کے تین رواۃ‬
‫پر سخت تنقیدیں کی ہیں اور ان سے روایت النے پر امام مسلم سے کافی ناراض بھی ہیں‬
‫اور امام مسلم کی ان رواۃ سے روایت کی گئی احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ وہ تین رواۃ‬
‫عیسی مصری ہیں (سیر اعالم النبالء جلد ‪،۱۲‬‬
‫ٰ‬ ‫اسباط بن نصر‪ ،‬قطن بن نسیر اور احمد بن‬
‫صفحہ ‪)۵۷۱‬‬
‫اسی طرح عالمہ کمال الدین ابن الہمام فتح القدیر کے باب النوافل جلد ‪ ۱‬صفحہ ‪ ۴۴۵‬میں‬
‫‪:‬لکھتے ہیں‬
‫پھر شیخین (امام بخاری و مسلم) یا ان میں سے کسی ایک کا کسی معین راوی کے بارے’’‬
‫میں یہ فیصلہ کرنا کہ وہ شرائط صحت کا جامع ہے‪ ،‬اس بات کو مستلزم نہیں کہ واقع اور‬
‫نفس االمر میں بھی وہ ایسا ہی ہو‪ ،‬امر واقعہ اس کے برخالف بھی ہوسکتا ہے چنانچہ امام‬
‫مسلم نے کتنے ہی ایسے راویوں سے حدیثیں لی ہیں جو جرح کی ٓافتوں سے محفوظ نہیں‬
‫‘‘ہیں۔‬

‫امام دارقطنی نے اپنی کتاب ’’استدراکات‘‘ اور ’’التتبع‘‘‚ میں بخاری و مسلم کی چند‬
‫روایات پر کالم کیا ہے۔ اسی طرح ابو مسعود الدمشقی نے بھی ان دونوں کتب پر‬
‫استدراکات لکھے ہیں جبکہ ابو علی غسانی نے بھی اپنی کتاب میں صحیحین کی بعض‬
‫روایات پر کالم کیا ہے۔ امام ابن حجر عسقالنی کے استاد حافظ عراقی نے اپنے الفی ٰہ کی‬
‫شرح میں بخاری و مسلم کی دو روایات پر کالم کیا ہے جن میں سے ایک مسلم کی یہی‬
‫حبیبہ کے نکاح سے متعلق ہے ۔‬
‫ؓ‬ ‫زیر بحث روایت جو کہ سیدنا ابو سفیان ؓ اور ام‬

‫شیخ احمد محمد شاکر جنہوں نے مسند احمد کی ترقیم ‪ ،‬تخریج اور شرح کی ہے‪ ،‬مسند ابو‬
‫ہریرہ کے ضمن میں جو صحیفہ ہمام بن منبہ کے نام سے معروف ہے اور شیخ احمد‬‫ؓ‬
‫محمد شاکر کے نسخہ کی ‪۱۶‬ویں جلد میں مرتب ہے‪ ،‬اس صحیفہ کے متعلق مقدمہ میں‬
‫‪:‬شیخ شاکر لکھتے ہیں‬
‫یہ صحیفہ ہمام بن منبہ جس کی چند احادیث بخاری و مسلم نے لی ہیں اور چند احادیث’’‬
‫تنہا امام بخاری نے اور چند تنہا امام مسلم نے لی ہیں اور کچھ ایسی ہیں جن کو دونوں میں‬
‫سے کسی نے نہیں لیا ہے۔ یہ صحیفہ اس بات کی دلیل ہے کہ شیخین جس حدیث کی‬
‫اعلی درجہ کی نہیں ہوتی۔‬
‫ٰ‬ ‫‘‘تخریج پر متفق ہوں وہ ہمیشہ صحت کے اعتبار سے‬
‫اسی طرح ایسے متاخرین اہلحدیث حضرات جو کہ صحیحین کے ایک ایک لفظ کے‬
‫محفوظ ہونے کے قائل ہیں‪ ،‬ان کی رد میں فضیلتہ الشیخ عالمہ ارشاد الحق اثری حفظہ ہللا‬
‫‪:‬رقم طراز ہیں‬
‫بعض اہل علم نے ان الفاظ کو صرف اس بناء پر صحیح باور کرلیا ہے کہ یہ صحیح’’‬
‫بخاری میں ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ جبکہ صحیح بخاری و مسلم میں شیخین ایسی حدیث‬
‫بھی الئے ہیں جو مقصود کے اعتبار سے تو صحیح ہوتی ہے‪ ،‬یعنی من حیث المجوع‪،‬‬
‫اگرچہ کوئی ٹکڑا اس کا انکے معیار صحت کے مطابق نہیں ہوتا‪ ،‬بلکہ اس میں بعض‬
‫رواۃ کا وہم ہوتا ہے۔صحیحین کا غائر نظر سے مطالعہ کرنے والے حضرات کے لئے یہ‬
‫بات نئی نہیں۔‘‘ (توضیح‚ الکالم صفحہ ‪)۱۳۲‬‬
‫اسی طور پر فضیلتہ الشیخ حافظ صالح الدین یوسف حفظہ ہللا اپنی کتاب ’’واقعہ معراج‬
‫اور اس کے مشاہدات‘‘ میں صفحہ ‪ ۷۷‬میں معراج سے متعلق صحیح بخاری کی ایک‬
‫روایت کے راوی پر کالم کرتے ہوئے ’’شریک بن عبدہللا کی روایت اور اس کا وہم و‬
‫‪:‬تفرد‘‘ کی سرخی قائم کرکے رقم طراز ہیں‬
‫انس سے بیان کرنے’’‬ ‫پس شریک کی یہ (صحیح بخاری کی ) روایت ایسی ہے جو سیدنا ؓ‬
‫والے دیگر تمام راویوں سے بہت مختلف ہے اور اس میں اس کے ایسے تفردات ہیں جو کہ‬
‫کسی روایت میں نہیں ہیں۔ اسی لئے محدثین نے اس کے ان تفردات کو اس کا وہم قرار دیا‬
‫‘‘ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس کے ایسے دس اوہام بیان کئے ہیں۔‬
‫‪:‬اسی شریک بن عبدہللا کے بارے میں امام نووی قاضی عیاض کے حوالے سے لکھتے ہیں‬
‫شریک کی اس حدیث معراج کی روایت میں بہت اوہام ہیں جن پر علماء نے گرفت کی’’‬
‫ہے‘‘ (شرح نووی جلد ‪ ،۲‬صفحہ ‪)۲۰۹‬‬

‫المختصر ہماری اس تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ صحیحین کو اس امت میں جو تلقی‬


‫بالقبول حاصل ہے تو وہ اس کی اصحیت کی بنیاد پر حاصل ہے یعنی صحیحین کی جمہور‬
‫احادیث صحت کے اعلی معیار پر پورا اترتی ہیں اور چند ایک کو چھوڑ کر صحیحین کی‬
‫تمام احادیث الئق حجت ہیں۔ سو ہم اپنی اس تمہید کو محمد خبیب احمد جو کہ ادارہ علوم‬
‫اثریہ ‪ ،‬فیصل ٓاباد کے فاضل اور ارشاد الحق اثری کے الئق شاگرد ہیں‪ ،‬کے ان الفاظ پر‬
‫ختم کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے مقالہ ’’صحیح مسلم پر امام ابو زرعہ کے اعتراضات کا‬
‫‪:‬جائزہ‘‘ میں لکھے ہیں‬
‫بناء بریں یہ سمجھنا کہ صحیح بخاری و مسلم کا ہر ہر لفظ محفوظ ہے‪ ،‬کسی لفظ‪ ،‬جملے’’‬
‫یا حدیث کو کوئی استثناء حاصل نہیں‪ ،‬درست موقف نہیں ہے۔ ملحوظ رہے کہ صحیحین‬
‫کے قابل اعتراض جملوں پر محدثین نقد کرچکے ہیں جن میں امام دارقطنی‪ ،‬حافظ ابن‬
‫عمار الشہید‪ ،‬حافظ ابو علی غسانی الجبانی وغیرہ سرفہرست ہیں‪ ،‬اور ان کا دفاع کرنے‬
‫والے بھی اپنا حق ادا کرتے رہے ہیں جن میں حافظ ابو مسعود الدمشقی‪ ،‬حافظ رشید الدین‬
‫یحیی بن علی عطار‪ ،‬امام نووی اور حافظ ابن حجر پیش پیش ہیں۔‘‘ (االعتصام‪ ۲۴،‬جمادی‬
‫ٰ‬
‫ٰ‬
‫االخری‪۱۴۳۸ ،‬ھ‪ ،‬صفحہ ‪)۱۶‬‬

‫سو اوپر کے مبحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ جو ہمارے چند احباب صحیح مسلم‬
‫کی زیر بحث روایت سے متعلق سلف کی توضیحات و تشریحات کو باالئے طاق رکھ کر‬
‫یہ فرمارہے ہیں کہ صحیح مسلم کی روایت ہونے کے سبب سے یہ روایت ہر قسم کے‬
‫شک و شبہ سے باالتر ہے تو یہ انتہائی ناقص بات اور فہم سلف و محدثین سے ناشناسائی‬
‫کا نتیجہ ہے۔ دراصل جب ہم نے پہلی بار اس روایت کی بابت کالم کیا تھا تو تب بھی ہم‬
‫نے تصریح کردی تھی کہ کچھ خاص وجوہات کی بناء پر ہم اس روایت کے رواۃ پر کالم‬
‫نہیں کر رہے اور وہ خاص وجہ یہی تھی کہ اس طرح کے مباحث سے کلمۃ الحق ارید بھا‬
‫الباطل کے مصداق منکر حدیث فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اب چونکہ مذموم‬
‫روایت پرستی کے زیر اثر سلف کی تشریحات کے خالف اس روایت کی صحت پر‬
‫اصرار کیا جارہا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت کی استنادی حیثیت بھی ہدیہ‬
‫قارئین کردی جائے۔ اس روایت کو موضوع قرار دیتے ہوئے امام ابن حزم اس روایت کا‬
‫وضاع عکرمہ بن عمار کو قرار دیتے ہیں سوبہتر معلوم ہوتا ہے کہ کتب الرجال سے اس‬
‫‪:‬عکرمہ بن عمار کا تفصیلی حال معلوم کرلیا جائے‬
‫امام ذہبی میزان االعتدال میں عکرمہ بن عمار سے متعلق جرح و تعدیل دونوں طرح کے‬
‫‪:‬اقوال النے کے بعد اپنی بحث ٓاخر میں ان الفاظ میں ختم کرتے ہیں‬
‫صحیح مسلم میں امام مسلم نے اس راوی کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے جو ’’‬
‫عباس سے نقل کیا ہے‪ ،‬اور‬
‫ؓ‬ ‫منکر ہے‪ ،‬جسے انہوں نے سماک حنفی سے سیدنا عبدہللا بن‬
‫ؓ‬
‫سفیان کے تین مطالبات والی ہے اور اس عکرمہ نے تین اور ایسی‬ ‫وہ روایت سیدنا ابو‬
‫احادیث نقل کی ہیں جو منکر ہیں۔‘‘ ( جلد ‪ ۵‬تحت الترجمۃ عکرمہ بن عمار)‬
‫یہ بات یاد رہے کہ عالمہ ذہبی کا رجحان عکرمہ بن عمار کی تعدیل کی جانب ہی زیادہ‬
‫ہے لیکن پھر بھی ٓاخر میں وہ ان کی صحیح مسلم کی زیر بحث روایت کو منکر قرار دے‬
‫رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے ممدوح بھائی اس روایت کو امام ذہبی کی توضیح کے باوجود‬
‫صحیح باور کروانے پر مصر ہیں۔‬
‫ابن ابی حاتم اپنی کتاب الجرح و التعدیل جلد ‪ ۷‬میں عکرمہ بن عمار سے متعلق تبصرہ‬
‫‪:‬کرتے ہوئے لکھتے ہیں‬
‫یحیی بن ابی کثیر سے جتنی احادیث نقل ’’‬
‫ٰ‬ ‫یحیی بن سعید القطان کا قول ہے کہ عکرمہ‬
‫کرتا ہے وہ سب ضعیف ہوتی ہیں۔ ابن ابی حاتم لکھتے ہیں کہ مجھے عبدہللا بن احمد نے‬
‫احمد کا یہ قول لکھ کر بھیجا کہ عکرمہ کی صرف وہ روایات درست ہوتی ہیں جو یہ ایاس‬
‫بن سلمہ سے نقل کرتا ہے بقیہ روایات مضطرب ہوتی ہیں۔ میرے والد ابو حاتم فرماتے‬
‫ہیں‪ ،‬عکرمہ اپنی ذات کے لحاظ سے تو سچا ہے لیکن اسے وہم ہوتا ہے‪ ،‬غلطیاں بہت‬
‫‘‘کرتا ہے اور بعض روایات میں راوی چھوڑ دیتا ہے۔‬
‫عکرمہ کی بابت اسی طور کی جرح حافظ ابن حجر عسقالنی نے بھی کی ہے۔ وہ اپنی‬
‫‪:‬کتاب ’’تقریب التہذیب‘‘‚ میں عکرمہ کے ترجمہ کے تحت لکھتے ہیں‬
‫یحیی بن ابی کثیر سے جو روایات نقل کرتا ہے‪’’،‬‬
‫ٰ‬ ‫عکرمہ صدوق ہے۔ غلطیاں کرتا ہے۔‬
‫‘‘اس میں اضطراب ہوتا ہے۔ اس کے پاس لکھی ہوئی روایات موجود نہیں۔‬

‫سو عکرمہ بن عمار کے تراجم سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عکرمہ غلطیاں کیا کرتا تھا‬
‫حبیبہ کا نکاح فتح مکہ کے بعد نبی‬
‫ؓ‬ ‫سو وہی غلطی اس نے اس روایت میں بھی کی کہ ام‬
‫ﷺ سے کروادیا۔ سو عکرمہ بن عمار کی وجہ سے یہ روایت الئق حجت‬
‫نہیں کہ اسکو مسلمہ تاریخی حقائق کے برخالف پیش کیا جائے۔ اسی لئے امام ذہبی نے‬
‫تو برمال اس روایت کو منکر لکھ دیا جبکہ قاضی عیاض‪ ،‬امام نووی اور ابن الصالح کے‬
‫نزدیک یہ روایت اپنے ظاہری متن کے ساتھ قابل قبول نہیں جب کہ ابن حزم اس روایت‬
‫کو موضوع کہتے ہیں۔‬

‫عالمہ ابن کثیر البدایۃ و النہایۃ جلد ‪ ۴‬صفحہ ‪ ۱۳۰‬میں اس روایت کی بابت فرماتے ہیں کہ‬
‫یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کے باعث امام مسلم پر سخت اعتراضات‚ کئے گئے ہیں۔اسی‬
‫طرح سے امام نووی نے بھی شرح صحیح مسلم میں اس حدیث کی بابت لکھا ہے کہ یہ‬
‫حدیث مسلم کی ان مشہور احادیث میں سے ہے جن پر اعتراضات‚ کئے گئے ہیں۔ ابن حجر‬
‫ؓ‬
‫سفیان میں لکھتے ہیں کہ اہل سیر میں‬ ‫عسقالنی االصابہ جلد ‪ ۸‬تحت الترجمۃ رملہ بنت ابو‬
‫حبیبہ سے فتح مکہ سے‬ ‫ؓ‬ ‫اس بابت کوئی اختالف نہیں کہ نبی ﷺ نے سیدہ ام‬
‫قبل حبشہ میں نکاح فرمایا تھا‪ ،‬سوائے اس کے جو صحیح مسلم میں ہے ۔۔ ۔۔۔ لیکن یہ‬
‫بعض راویوں کا وہم ہے۔ اس کے وہم ہونے پر اعتماد کرنے میں بھی تامل ہے‪ ،‬بعض ٓائمہ‬
‫ؓ‬
‫سفیان نے عقد کی تجدید کا ارادہ کیا ہو۔‬ ‫نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ احتمال ہے کہ ابو‬
‫سفیان کے اسالم النے سے قبل ٓاپﷺ‬ ‫ؓ‬ ‫ہاں! اس میں اختالف نہیں کہ ابو‬
‫حبیبہ کے پاس ٓائے۔‬
‫ؓ‬ ‫(نکاح کرنے کے بعد) ام‬

‫اب قارئین خود دیکھ لیں کہ اہل سیر و محدثین میں اس بابت کوئی اختالف ہی نہیں کہ نبی‬
‫حبیبہ سے نکاح فتح مکہ سے قبل حبشہ میں فرمایا تھا لیکن یہاں‬
‫ؓ‬ ‫ﷺ نے ام‬
‫ہمارے معترض بھائی ابن حزم‪ ،‬ابن قیم‪ ،‬ابن کثیر‪ ،‬قاضی عیاض‪ ،‬امام نووی‪ ،‬ابن حجر‬
‫عسقالنی ‪ ،‬امام ذہبی وغیرہم سب کے برخالف عکرمہ بن عمار کی اس منکر روایت کی‬
‫صحت پر اصرار کرکے کس جزم سے سب کو غلط ٹھہرا کر اپنا تفرد بیان فرمارہے ہیں۔‬
‫اگر اسکا نام سلف کا تتبع ہے تو پھر تفرد و غامدیت کس بال کا نام ہے۔ ٓاخر میں مناسب‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس بابت صحیح حدیث بھی پیش کردیں جس میں صراحت موجود ہے‬
‫حبیبہ سے نکاح فتح مکہ سے قبل کیا تھا۔ اور یہی وجہ‬
‫ؓ‬ ‫کہ نبی ﷺ نے ام‬
‫ہے کہ امام ذہبی و امام ابن حزم نے صحیح مسلم کی بعد از فتح مکہ نکاح والی روایت کو‬
‫منکر قرار دیا جبکہ جملہ محدثین میں سے کسی نے بھی اس روایت کو ظاہری معنوں میں‬
‫بال تطبیق قبول نہیں کیا۔‬

‫َاق)‬
‫صد ِ‬ ‫اح‪( ‬بَابُ ال َّ‬ ‫سنن أبي داؤد‪ِ  :‬كتَابُ النِّ َك ِ‬
‫سنن ابو داؤد‪ :‬کتاب‪ :‬نکاح کے احکام و مسائل‪( ‬باب‪ :‬حق مہر کے احکام و مسائل)‬
‫ُّ‬
‫ك‪َ ،‬ح َّدثَنَا َم ْع َم ٌر َع ِن الز ْه ِريِّ‪2107 . ،‬‬ ‫ُور‪َ ،‬ح َّدثَنَا ابْنُ ْال ُمبَا َر ِ‬
‫وب الثَّقَفِ ُّي‪َ ،‬ح َّدثَنَا ُم َعلَّى بْنُ َم ْنص ٍ‬ ‫َح َّدثَنَا َحجَّا ُج بْنُ أَبِي يَ ْعقُ َ‬
‫صلَّى هَّللا ُ‬
‫ي َ‬ ‫ض ْال َحبَ َش ِة‪ ،‬فَزَ َّو َجهَا النَّ َجا ِش ُّي النَّبِ َّ‬
‫ش‪ ،‬فَ َماتَ بِأَرْ ِ‬ ‫َت تَحْ تَ ُعبَ ْي ِد هَّللا ِ ب ِْن َجحْ ٍ‬‫ع َْن عُرْ َوةَ‪ ،‬ع َْن أُ ِّم َحبِيبَةَ‪ ،‬أَنَّهَا َكان ْ‬
‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم َم َع ُش َرحْ بِي َل اب ِْن َح َسنَةَ‪ .‬قَا َل أَبو‬ ‫ُول هَّللا ِ َ‬‫ث بِهَا إِلَى َرس ِ‬ ‫ف‪َ ،‬وبَ َع َ‬ ‫َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم‪َ ،‬وأَ ْمهَ َرهَا َع ْنهُ أَرْ بَ َعةَ آاَل ٍ‬
‫‪.‬دَاود‪َ :‬ح َسنَةُ ِه َي أُ ُّمهُ‬
‫حکم ‪ :‬صحیح‬
‫ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی ہللا عنہا ( اپنے متعلق ) بیان کرتی ہیں کہ یہ پہلے عبیدہللا بن حجش‪2107 . ‬‬
‫کی زوجیت میں تھیں اور وہ حبشہ جا کر فوت ہو گیا تو نجاشی نے ان سے شادی نبی کریم صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کے ساتھ کر دی اور اپنی طرف سے ان کو چار ہزار ( درہم ) مہر ادا کیا ۔ پھر انہیں شرجیل بن حسنہ‬
‫رضی ہللا عنہ کی معیت میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا ۔ امام ابوداؤد رحمہ ہللا‬
‫وضاحت فرماتے ہیں کہ شرجیل بن حسنہ میں ” حسنہ “ ان کی والدہ کا نام ہے ۔‬

‫یاد رہے کہ یہ حدیث ہم نے اہلحدیث مکتبہ فکر کی سب سے معتمد ویب سائٹ ’’محدث‘‘‬
‫سے لی ہے جہاں اس روایت پر ’’صحیح‘‘‚ کا حکم اوپر دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سے‬
‫عالمہ البانی نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور زہری اور عروہ کے درمیان‬
‫سماع کی تصریح کی ہے۔ اسی صحیح روایت اور مستند تاریخی حوالہ جات کے تحت‬
‫حبیبہ کا نکاح نبی ﷺ سے قبل از فتح‬ ‫ؓ‬ ‫جمیع محدثین و مورخین نے سیدہ ام‬
‫مکہ قرار دیا ہے اور یہی وجہ ہوئی کہ ابن الصالح سے لیکر امام نووی تک سب نے‬
‫صحیح مسلم کی اس حدیث کی تاویل کی ہے۔‬

‫سو ہم امید کرتے ہیں کہ ہماری مندرجہ باال تصریحات اور اوپر پیش کردہ صحیح حدیث‬
‫کے بعد محمد حماد اثری بھائی اس روایت سے متعلق اپنے نظرئیے پر نظرثانی فرمائیں‬
‫گے اور ضدو بحث کی راہ چھوڑ کر سلف کا تتبع اختیار کریں گے۔‬

‫نوٹ‪ :‬ہم یہ وضاحت کردیں کہ ہمارے نزدیک صحیحین کا درجہ اصح الکتاب بعد کتاب ہللا‬
‫کا ہے اور ہم صحیحین کی جمہور روایات کو اصحیت کے اعلی درجہ پر مانتے ہوئے ان‬
‫کے الئق حجت ہونے کے قائل ہیں اور صحیحین کی صرف ان چند روایات کی بابت‬
‫توقف اختیار کرتے ہیں جن کی بابت سلف نے تحفظات کا اظہار فرمایا ہو جیسا کہ صحیح‬
‫ٰ‬
‫فتوی‬ ‫مسلم کی زیر بحث روایت۔ سو مناسب ہے کہ ہم پر کسی طور کے انکار حدیث کا‬
‫لگانے سے گریز کیا جائے کیونکہ صحیحین کی بابت ہمارا نظریہ وہی ہے جو کہ جمہور‬
‫محدثین اور علماء کا ہے۔‬

‫تحریر‪ :‬محمد فھد حارث‬

‫ث ن‬ ‫ج‬
‫ت‬ ‫نق‬ ‫ن‬ ‫ب ق‬ ‫ہ ن پن‬
‫م‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ے ا ی پوسٹ می ں اب وداؤد اور ن ی کی فس ن الکب ری کی روای ت ل کی ھی جس کو ہور محد ی ن ے‬
‫سل ع پ ٰ‬ ‫مص ق‬
‫ے‬ ‫پ‬
‫ے ن می ں عالمہ ال ب ا ی اور ی لماء یش یش ہ ی ں۔ ی ہ روای ت چک ھ اس طرح سے ہ‬‫ج‬ ‫‪ :‬یح ح رار دی ا ہ‬
‫ام المؤمنین سیدہ ام حبیبہ رضی ہللا عنہا ( اپنے متعلق ) بیان کرتی ہیں کہ یہ پہلے عبیدہللا بن حجش کی‬
‫زوجیت میں تھیں اور وہ حبشہ جا کر فوت ہو گیا تو نجاشی نے ان سے شادی نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫کے ساتھ کر دی اور اپنی طرف سے ان کو چار ہزار ( درہم ) مہر ادا کیا ۔ پھر انہیں شرجیل بن حسنہ‬
‫رضی ہللا عنہ کی معیت میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا ۔ امام ابوداؤد رحمہ ہللا‬
‫وضاحت فرماتے ہیں کہ شرجیل بن حسنہ میں ” حسنہ “ ان کی والدہ کا نام ہے ۔‬

‫اس روایت کو امام ابو داؤد اپنی کتاب میں تین جگہ الئے ہیں (ابو داؤد ‪ )۲۱۰۷،۲۱۰۸ ،۲۰۸۶ :‬جبکہ‬
‫امام نسائی اس روایت کو دو جگہ الئے ہیں (النسائی‪ ،)۵۴۸۶ ،۳۳۵۰ :‬اسی طرح امام بیہقی‚ اپنی سنن‬
‫الکبری میں بھی کئی مقامات‚ پر اس روایت کو عن زہری عن عروہ کی سند سے الئے ہیں۔ الغرض مسند‬‫ٰ‬
‫احمد سے لیکر طبرانی اور دیگر کئی کتب میں یہ روایت پائی جاتی ہے۔ محدثین نے اس روایت کے ‪۲۵‬‬
‫اخراج یعنی حوالہ جات درج کئے ہیں جس میں سے ‪ ۱۳‬صحیح ‪ ۹ ،‬حسن‪ ۱ ،‬ضعیف اور ‪ ۲‬موضوع‚‬
‫بتائے ہیں۔ جبکہ اس روایات کے مختلف کتب احادیث میں ‪ ۶۵‬شواہد ملتے ہیں جس میں سے سے ‪۱۴‬‬
‫صحیح اور ‪ ۹‬حسن ہیں۔ چونکہ جمہور محدثین کا یہ ماننا ہے کہ امام زہری کی عروہ سے عن والی‬
‫روایات سماع پر محمول ہوتی ہیں اسی لئے عالمہ البانی سے لیکر جمیع محدثین اس روایت کو درست‬
‫جانتے ہیں۔‬

‫نیچے اس حدیث کی تصحیح سے متعلق ہم اہلحدیث مکتبہ فکر کی سب سے معتمد ویب سائٹ ’’محدث‘‘‬
‫سے کچھ اسکین دے رہے ہیں۔ ساتھ ہی ایک اور سلفی ویب سائٹ سے بھی اس حدیث کے شواہد اور تخریج‬
‫ٰ‬
‫دعوی میں صائب ثابت ہوسکیں۔‬ ‫کے اسکین دے رہے ہیں تاکہ ہم اپنے‬
‫حبیبہ کا نکاح نبی‬
‫ؓ‬ ‫جب یہ حدیث صحیح ثابت ہوچکی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ سیدہ ام‬
‫ﷺ سے حبشہ میں ہوا تھا جیسا کہ حدیث میں صراحت ہے اور یہ نکاح نجاشی نے پڑھایا‬
‫حسنہ کے ساتھ مدینہ ٓائیں۔ تمام اہل سیر و تاریخ اس بات پر‬
‫ؓ‬ ‫حبیبہ شرحبیل بن‬
‫ؓ‬ ‫تھا اور نکاح کے بعد سیدہ ام‬
‫متفق ہیں کہ حبشہ سے مہاجرین کا ٓاخری وفد فتح خیبر کے وقت سیدنا جعفر بن ابی طالب ؓ کی سرکردگی‬
‫میں مدینہ پہنچا تھا۔ عالمہ صفی الرحمٰ ن مبارکپوری نے اس بابت تفصیل سے بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ‬
‫صلح حدیبیہ کے بعد نبی ﷺ نے جب مختلف شاہان عرب کو خط بھیجے تو نجاشی کو بھی‬
‫خط بھیجا۔ نجاشی خط پڑھ کر ایمان الیا۔ اس خط میں جہاں نجاشی کو اسالم قبول کرنے کی دعوت دی گئی‬
‫تھی وہی مہاجرین حبشہ کو مدینہ بھیجنے کا حکم بھی دیا تھا۔ عالمہ صفی الرحمٰ ن مبارکپوری ’’الرحیق‬
‫‪:‬المختوم ‘‘صفحہ ‪ ۴۷۹‬میں لکھتے ہیں‬

‫جعفر اور دوسرے مہاجرین حبشہ’’‬


‫ؓ‬ ‫نبی ﷺ نے نجاشی سے یہ بھی طلب کیا تھا کہ وہ سیدنا‬
‫ضمری کے ساتھ دو کشتیوں میں ان کی روانگی‚ کا‬‫ؓ‬ ‫کو روانہ کردے۔ چنانچہ اس نے سیدنا عمرو بن امیہ‬
‫اشعری اور کچھ دوسرے‬
‫ؓ‬ ‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫جعفر اور سیدنا ابو‬
‫ؓ‬ ‫انتظام کردیا۔ ایک کشتی کے سوار جس میں سیدنا‬
‫صحابہ تھے‪ ،‬براہ راست خیبر پہنچے کر خدمت نبویﷺ میں حاضر ہوئے اور دوسری‬ ‫ؓ‬
‫کشتی کے سوار جن میں زیادہ تر بال بچے تھے سیدھے مدینہ پہنچے۔ (عالمہ مبارکپوری حاشیہ میں‬
‫لکھتے ہیں کہ یہ بات کسی قدر صحیح مسلم کی روایت سے اخذ کی جاسکتی ہے جو سیدنا انس ؓ سے مروی‬
‫ہے)‘‘۔‬

‫بالکل یہی بیان طبری اپنی تاریخ میں الئے ہیں اور شائد عالمہ صفی‚ الرحمٰ ن مبارکپوری نے یہ بیان وہی‬
‫سے لیا ہو۔ عالمہ ابن حجر عسقالنی نے بھی االصابہ جلد ‪۱‬ول صفحہ ‪ ۴۵۸‬میں یہی لکھا ہے اور ساتھ ہی‬
‫یہ بھی لکھا ہے کہ ’’یہ سب کچھ مغازی میں متعدد صحیح روایات سے ثابت ہے۔‘‘ المختصر اہل سیر و‬
‫محدثین اس بات پر متفق ہیں کہ حبشہ سے ہجرت کرکے ٓاخری وفد ‪ ۷‬ہجری میں مدینہ ٓاچکا تھا سو نبی‬
‫ﷺ کا حبشہ میں ام حبیبہ ؓ سے نکاح کا واقعہ فتح مکہ سے قبل کا ہی ہوسکتا ہے کیونکہ‚ یہ‬
‫حبیبہ اکیلے حبشہ میں رہ گئی ہوں جبکہ نبی ﷺ نے خاص نجاشی کو‬ ‫ؓ‬ ‫تو ممکن نہیں کہ ام‬
‫خط لکھ کر سارے مسلمانوں کو مدینہ بلوالیا تھا۔سو اوپر مذکورہ باال حدیث اور تصریحات سے یہی ثابت‬
‫حبیبہ سے فتح مکہ سے پہلے حبشہ میں ہوچکا تھا اور‬‫ؓ‬ ‫ہوتا ہے کہ نبی ﷺ کا نکاح سیدہ ام‬
‫یہی وجہ رہی کہ امام ابن حزم ‪ ،‬ابن قیم‪ ،‬ابن خلدون‪ ،‬قاضی عیاض‪ ،‬ابن حجر عسقالنی ‪ ،‬امام نسائی‪ ،‬امام‬
‫بیہقی‪ ،‬امام ابو داؤود‪ ،‬ابن قیم‪ ،‬امام احمد‪ ،‬طبرانی وغیرہم سب نے یہی روایت کیا کہ نبی ﷺ‬
‫حبیبہ سے نکاح فتخ مکہ سے قبل حبشہ میں نبی ﷺ سے ہوچکا تھا۔‬ ‫ؓ‬ ‫کا ام‬

‫امید ہے کہ اس تفصیلی تبصرے کے بعد محمد حماد بھائی کی تشفی ہوچکی ہوگی اور وہ اپنا موجودہ دور‬
‫کا تفرد چھوڑ کر اس بابت سلف کا طریقہ اپنائیں گے اور صحیح احادیث جو کہ نسائی‪ ،‬بیہقی‪ ،‬ابوداؤد اور‬
‫مسند احمد میں پائی جاتی ہیں‪ ،‬ان کا تتبع کرینگے۔‬

You might also like