Professional Documents
Culture Documents
سنت فجر اگر فرض نماز سے پہلے یااقامت کے بعد نہ پڑھیں ہوں تو کس وقت پڑھیں جائیں
اگر کسی شخص سے سنت فجر چھوٹ جائیں یا نماز قائم ہو گئی اور وہ جماعت کے ساتھ شامل ہوگیا تو کس وقت ان کو ادا کیا
جائے گا تو اس میں فقہائے کرام کا اختالف ہے
فصل اول
نماز فجر کے بعد سنت فجر پڑھنے والوں کے دالئل اور احناف کی طرف سے توجیہات
پہلی حدیث
عن قیس قال خرج رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فأقیمت الصلوة فصلیت معہ الصبح ثم انصرف النبی صلی ہللا علیہ وسلم فوجد نی
اصلی فقال مھال یاقیس اصالتان معا؟ قلت یارسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم انی لم اکن رکعت رکعتی الفجر قال فال اذن سنن الترمذی
ج،2ص462
حضرت قیس سےروایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نماز کے لئے نکلے نماز کی اقامت شروع ہو گئی میں نے فجر کی
نماز رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی پھر جب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے نماز
پڑھتے ہوئے پایا،فرمایا کہ رک جاؤ اے قیس کیا تم دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھ رہے ہو؟ میں نے کہا کہ یا رسول ہللا صلی ہللا
علیہ وسلم میں نے سنت فجر نہیں پڑھی تھی رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۔
دوسری حدیث۔
وعن عطاء بن ابی رباح ،عن رجل من االنصار قال رای رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم رجال یصلی بعد الغداة ،فقال یارسول ہللا
صلی ہللا علیہ وسلم لم اکن صلیت رکعتی الفجر فصلیتھما اآلن فلم یقل لہ شیئا
حضرت عطاء بن ابی رباح نے انصار میں سے ایک آدمی سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ایک آدمی کو
دیکھا کہ وہ فجر کی نماز کے بعد سنتیں پڑھ رہا تھا تو اس نے کہا کہ یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم میں نے سنت فجر نہیں
پڑھی تھی تو اب پڑھ رہا ہوں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اسے کچھ بھی نہیں کہا۔
ان احادیث کی بناء پر مجوزین حضرات شافعیہ اور غیر مقلدین ان احادیث سے استدالل کرتے ہیں کہ سنت فجر بعد نماز فجر کے
پڑھنا ان احادیث کی بناء پر بغیر کراہت جائز ہے.
محدثین اور فقہاء کی طرف سے احادیث کی توجیہات
اکثر محدثین اور فقہاء نے ان احادیث کے ارسال و انقطاع کو ترجیح دی ہے لیکن شمس الحق عظیم آبادی صاحب نے باوجود ان
تصریحات کے ان احادیث کو متصل ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن اسکی یہ تمام کوشش بے سود ہے اس لئے کہ ان
جبال العلم محدثین کے مقابلہ میں شمس الحق عظیم آبادی صاحب کا ان احادیث کو متصل ثابت کرنا ہی چاند کو انگلی سے چھپانے
کے مترادف ہے پھر بھی اگر بفرض محال ہم ان روایات کو متصل مان بھی لیں تو پھر بھی روایات ان قولی روایات کے مقابلہ
میں مرجوح ہے کہ جو روایات صلوة بعد الفجر کی ممانعت پر داللت کرتی ہیں کیونکہ خاص واقعات وافعال تخصیص کا احتمال
رکھتے ہیں جب کہ قولی روایات میں عموم ہوتا ہے ۔
پہلی توجیہ ۔
غیر مقلدین جو اپنے نظریہ پر ترمذی شریف کی جو حدیث پیش کرتے ہیں وہ منقطع ہے
پہلی تصریح۔
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ
واسناد ھذا الحدیث لیس بمتصل محمد بن ابراھیم التیمی لم یسمع من قیس سنن الترمذی ج،1ص96
یہ حدیث متصل االسناد نہیں ہے کیونکہ محمد بن ابراہیم تیمی نے قیس سے سماع نہیں کیا۔
دوسری تصریح
عالمہ عینی فرماتے ہیں کہ
واما حدیث حدیث قیس بن عمرو فقال فی االمام اسنادہ غیر متصل و محمد بن ابراھیم لم یسمع من قیس وقال ابن حبان ال یحل
االحتجاج بہ عمدة القاری ج،5ص78
اور رہی بات قیس بن عمرو کی تو امام نامی کتاب میں کہا گیا ہے کہ اسکی سند متصل نہیں ہے اور محمد بن ابراہیم کا سماع قیس
سے ثانت نہیں ہے اور ابن حبان نے کہا کہ اس حدیث سے حجت پکڑنا درست نہیں ہے
جب حدیث منقطع ہے متصل السند نہیں ہے تو پھر غیر مقلدین کے نزدیک تو یہ حدیث حجت نہیں رہی کیونکہ غیر مقلدین کے
نزدیک منقطع روایت ضعیف ہوتی ہے جیسا کہ زبیر علی زئی نے اپنی کتاب دین میں تقلید کا مسئلہ میں لکھا ص 34
اسکے عالوہ زبیر علی زئی صاحب ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں کہ
ایسی منقطع اور بے سند روایت کو انتہائی اہم مسئلہ میں پیش کرنا آخر کونسی دین کی خدمت ہے تعداد رکعات قیام رمضان
ص30
یہ بات انہوں نے تراویح کے متعلق کہی ہے کہ احناف نے جو بیس رکعت تراویح کی دلیل دی ہے وہ منقطع ہے اس کا جواب
دینے کا یہ موقع نہیں ۔ بارحال تراویح سے ذیادہ تو اہم مسئلہ سنت فجر کا ہے کہ نماز فجر کے بعد سنتیں نہ پڑھنے پر کئی
احادیث وارد ہوئی ہے لیکن سنت فجر کے معاملہ میں ایک منقطع روایت کو دلیل بنا کر صحیح حدیث پر عمل نہ کرنا کون سی
دین کی خدمت ہے ۔
پس یہ بات معلوم ہوگئی کہ منقطع روایت غیر مقلدین کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے تو ایک صحیح حدیث کے مقابلہ میں ضعیف
حدیث پر عمل کرنے کو عمل بلحدیث کس طرح کہ سکتے ہیں ؟
شمس الحق عظیم آبادی صاحب کا امام بدر الدین عینی کا رد
شمس الحق عظیم آبادی صاحب امام بدر الدین عینی پر زبان تراشی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ
ترجمہ :اور عینی نے عمدة القاری میں جو یہ کہا ہے کہ ابن حبان نے کہا ہے کہ قیس بن عمرو قابل احتجاج نہیں ہے تو یہ قول
مردود ہے ہم اسکو دیوار پر مارتے ہیں اور اسکی ( امام بدر الدین عینی ) شرح ہدایہ اور عمدة القاری میں یہ عادت ہے کہ جب
حدیث اسکے مذھب کے خالف ہوتی ہے تو وہ اس کے راویوں پر کالم کرتا ہے جرح پیش کرتا ہے اور تعدیل سے خاموش رہتا
ہے اور جب حدیث اسکے مذہب کے موافق ہوتی ہے تو وہ جرح سے سکوت کرتا ہے اگرچہ اس حدیث میں شدید ضعف ہی کیوں
نہ ہو اور یہ اسکی کی کتاب کے عیبوں میں سے ہے اعالم اھل العصر ص 210،211
ع
شمس الحق عظیم آبادی صاحب نے عالمہ عینی پر جو اعتراض کیا ہے جیسا کہ ماقبل سطور میں گزر چکا ہے وہی بات در اصل
شمس الحق عظیم آبادی صاحب میں موجود ہے شمس الحق عظیم آبادی نے اپنی کتاب اعالم اھل العصر میں ایک حدیث روایت کی
ہے لکھتا ہے کہ
واخرج ابن حزم فی المحلی عن الحسن بن ذکوان عن رجل من االنصار قال رأی رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم رجال یصلی بعد الغداة
فقال یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم لم اکن صلیت رکعتی الفجر فصلیتھما اآلن فلم یقل لہ شیئا اعالم اھل العصر ص223
عطاء بن ابی رباح نے ایک انصاری سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر کی
نماز کے بعد نماز پڑھ رہا ہے تو اس نے کہا کہ یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم میں نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھی تو ابھی
پڑھ رہا ہوں تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اسے کچھ بھی نہیں کہا۔
اب اعتراض کا جواب سمجھیے کہ شمس الحق عظیم آبادی صاحب نے یہ حدیث ابن حزم کی کتاب المحلی سے نقل کی تو کردی
لیکن چونکہ یہ حدیث اسکے مذہب کی تائید کررہی تھی اس لئے اس نےاس حدیث کے راویوں پر کالم نہیں کیا حاالنکہ کہ اس
میں ایک راوی حسن بن ذکوان پر محدثین نے کالم کیا ہے کہ یہ قدری مذہب واال تھا اس سے حدیث میں حطاء ہو جاتی تھی ،اور
یہ مدلس بھی تھا اور مدلس جب عن سے روایت کرتا ہے تو وہ روایت علت سے خالی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود شمس الحق
عظیم آبادی صاحب بالکل خاموشی اختیار کر گئے اور راوی کی اس کیفیت سے اعراض کر گئے کیونکہ یہ حدیث ان کے مذہب
کے موافق تھی لیکن جب بات دوسروں کے دالئل کی آتی ہے اور حدیث دوسروں کے مذہب کے موافق ہوتی ہے تو عالمہ صاحب
اس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔
مثال کے طور پر حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم عصر کے بعد نماز پڑھتے تھے لیکن دوسروں کو اس سے منع فرماتے تھے ،اور وہ خود لگاتار
روزے رکھتے تھے لیکن دوسروں کو لگاتار روزے رکھنے سے منع فرماتے تھے ابو داؤد کتاب التطوع حدیث 1289
اسی طرح مسند احمد میں ام سلمہ کی روایت ہے فرماتی ہیں کہ
میں نے پوچھا یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کیا ہم سنت فجر کی قضاء پڑھ لیا کرے جبکہ ہم سے قضاء ہوجائیں تو آپ صلی ہللا
علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔
مسند امام احمد بن حنبل ج،6ص315
ان دو روایتوں کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے عالمہ صاحب نے اپنی کتاب اعالم اھل العصر ص 197،209میں خوب زور لگایا
اور ان احادیث کو کمز ور ثابت کیا ہے حاالنکہ محدثین نے ان احادیث کے اسناد کی تصحیح فرمائی ہے۔مگر پھر بھی چونکہ یہ
حدیث عالمہ صاحب کے مذہب کے خالف تھی اس لئے وہ ان کو رد کرنے میں مبالغے سے کام لیتے رہے حاالنکہ یہ احادیث ان
متواتر احادیث کے موافق ہیں کہ جن میں نماز فجر کے اور عصر کے بعد نوافل پڑھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے لیکن پھر بھی
وہ ان احادیث کو مجروح قرار دیتا ہے اور جب بات اپنے مذہب کی تائید کی آتی ہے تو پھر وہ حدیث کے رواة پر تحقیق کرنے
کی زحمت نہیں کرتے اور حدیث کی علتوں کو ظاہر کرنے کی زحمت نہیں کرتے ۔
مگر پھر بھی وہ جا ک ر امام االحناف امام بدر الدین عینی پر اسی بات کی وجہ سے رد کرتا ہے کہ جو شمس الحق عظیم آبادی
صاحب میں خود موجود ہے۔
اب اگر کوئی انصاف کی نظر سے دیکھے تو اسے یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ احناف حتی االمکان حدیث رسول پر عمل کرتے
ہیں جب تک حدیث شدید ضعیف نہ ہو اور صریح متواتر احادیث کے خالف نہ ہو یہاں تک کہ احناف فضائل میں مرسل ،
مدلس،اور منقطع تک کی احادیث پر قیاس کرتے ہیں جیسا کہ احناف کے اصول میں یہ بات مصرح ہے ،پس جو شخص انصاف
کی نظر سے دیکھے تو اسے یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ شمس الحق عظیم آبادی صاحب وہی ہے کہ جو بعض احادیث کو بعض
احادیث کی وجہ سے رد کرتا ہے جیسا کہ انہوں نے اس جگہ پر کیا ہے کہ ایک مرسل روایت کے لئیے اس نے حدیث صحیح کو
ضعیف کے ساتھ خاص کردیا۔
اب آپ حضرات کو خود یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ شمس الحق عظیم آبادی صاحب کا خود کا یہ فعل کہ وہ اپنے مذہب کی تائید کے
لئے ضعیف حدیث کو بھی صحیح بنا کر پیش کرتا ہے دیوار پر مارنے کے قابل ہے کہ نہیں جیسا کہ اس نے عالمہ عینی پر زبان
تراشی کرتے ہوئے کہی تھی کہ عالمہ عینی کا یہ قول مردود ہے ہم اس کو دیوار پر مارتے ہیں یقینا شمس الحق عظیم آبادی
صاحب کا یہ عمل اس قابل ہے کہ ہم اس کو دیوار پر دے ماریں ۔
عالمہ ابم قدامہ حنبلی فرماتے ہیں کہ
وحدیث قیس مرسل ،قالہ احمد والترمذی النہ یرویہ محمد بن ابراھیم عن قیس ولم یسمع منہ وروی من طریق یحی بن سعید عن جدہ
وھو مرسل ایضا المغنی علی مختصر الخرقی ج،2ص69
اور بھی کئی محدثین سے ثابت ہے کہ عن قیس قال خرج رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فأقیمت الصلوة فصلیت معہ الصبح ثم
انصرف النبی صلی ہللا علیہ وسلم فوجد نی اصلی فقال مھال یاقیس اصالتان معا؟ قلت یارسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم انی لم اکن
رکعت رکعتی الفجر قال فال اذن۔ یہ حدیث منقطع ہے ۔
احناف اور حنابلہ کے نزدیک کلمہ اذن اس مقام پر منع لے لئے ہے
لفظ اذن کی تحقیق
کلمہ فال اذن کس چیز سے مرکب ہے
عالمہ کافیجی حنفی فرماتے ہیں
قال العالمة الکافیجیبان کلمة اذن فی قولہ تعالی ،ولئن اطعتم بشرا مثلکم انکم اذا لخاسرون ،لیست اذا ھذا الکلمة المعھودة ،وانما ھی
اذا الشرطیة حدفت جملتھا التی تضاف الیھا وعوض عنھا التنوین ،کما فی یومئذ
االتقان فی علم القرآن النوع االربعون ج،1ص150
کلمہ اذن ہللا تعالی کے اس ارشاد ولئن اطعتم بشرا مثلکم انکم اذا لخاسرون کی وجہ سے متبادرہ نہیں ہے بلکہ اس میں اذا شرطیہ
ہے اور اس کے مضاف الیہ جملہ کو حذف کردیا گیا ہے اور اسکے عوض میں اس کو تنوین دی گئی ہے جیسا کہ یومئذ می اکیا
گیا ہے۔
کلمہ فال اذن میں کی مراد میں میں احناف اور شوافع کا اختالف
واختلف الحنفیة والشافعیة فی مرادہ فقال الحنفیة معناہ فال تصل اذن
اعتراض
فال اذن میں کلمہ فاء فصیحہ مربوطہ ہے ما قبل کے ساتھ یعنی اسکا ربط ما قبل کے ساتھ نہ کہ انکار کے ساتھ جیسا کہ احناف
کہتے ہیں ،کیونکہ معرض انکار میں فاء داخل نہیں ہوتا ،تو اس لحاظ سےشوافع کی شرح درست ہے کہ فال اذن کا معنی ال باس
ہے اور فاء کا داخل ہونا اس شرح کے موافق درست ہے؟
ہم اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ کلمہ فاء معرض انکار میں داخل ہی نہیں ہوتا ۔
کلمہ فاء کے معرض انکار میں داخل ہونے کا ثبوت قرآن کریم سے
ارشاد باری تعالی ہےکہ افسحر ھذا ام انتم ال تبصرون
عالمہ ذمخشری اسکی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ
یعنی کنتم تقولون للوحی ھذا سحر ،افسحر ھذا؟ یرید اھذا المصدق ایضا سحر ؟ ودخلت الفاء لھذا المعنی ،،ام انتم التبصرون ،،کما
کنتم التبصرون فی الدنیا یعنی ام انتم عمی عن المخبر عنہ کما کنتم عمیا عن الخبر وھذا تقریع وتھکم الکشاف ج،3ص140
یعنی تم اس وحی کو جادو کہتے ہو افسحر ھذا سے مراد یہ ہے کہ کیا مصداق بھی جادو ہے تو یہاں بھی کلمہ فاء اس معنی یعنی
(یعنی انکار پر داخل ہے) ام انتم التبصرون جیسا کہ تم دنیا میں نہیں دیکھتے تھے یعنی کیا تم اس وحی کی خبر دینے والے سے
اندھے ہو جیسا کہ تم اس خبر سے اندھے تھے یہ تو محض ہٹ دھرمی ہے
کلمہ اذن کے انکار کے لئے استعمال کے نظائر
پہلی نظیر۔
مسلم بن حجاج مسلم شریف کے اندر حضرت نعمان بن بشیر سے روایت کرتے ہے کہ فرمایا
انطلق بی ابی یحملنی الی رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فقال یارسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم اشھد انی قد نحلت النعمان کذا وکذا من
مالی فقال أکل بنیک قد نحلت مثل ما نحلت النعمان قال ال قال فاشھد علی ھذا غیری ثم قال أ یسرک ان یکونوا الیک فی البر سواء قال
بلی قال فال اذا صحیح مسلم ج 2کتاب الہبات
میرے والد صاحب مجھے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور فرمایا لہ یارسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم آپ گواہ
رہیئے کہ میں نے اپنے مال میں سے فالں چیز نعمان کو ہبہ کردی تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم نے
اپنی ساری اوالد کو اتنا مال ہبہ کردیا جتنا کہ نعمان کو؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں ،رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر
تم میرے عالوہ کسی اور کو اس پر گواہ بناؤ پھر فرمایا کہ تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ تمہاری اوکاد بھالئی میں تمہارے لئے
برابر ہو،انہوں نے کہا کیوں نہیں ! یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ،پھر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔
اس حدیث میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نےحضرت بشیر کو کلمہ فال اذا کہ کر منع فرمایا کہ ایسا نہ کرو بعض اوالد کو
بعض اوالد پر ہبہ میں برتری نہ دو
دوسری نظیر ۔
امام بخاری بخاری شریف کے اندر حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت نقل کرتے ہے کہ
عن عائشة ان صفیة بنت حیی زوج النبی صلی ہللا علیہ وسلم حاضت فذکرت ذلک لرسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فقال احابستناھی
قالوا انھا قد افأ ضت قال فال اذا صحیح بخاری ابواب الحج ج،2ص625
حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ صفیہ بنت حیی نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی زوجہ حائضہ ہوئی تو میں نے اسکا
ذکر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ کی کیا اس نے ہمیں طواف سے روک لیا ؟ تو
انہوں نے فرمایا کہ وہ طواف افاضہ کر چکی ہے تو آپ نے فرمایا کہ پھر ہم پر حبس نہیں ہے۔
تیسری نظیر ۔
مشکل اآلثار میں امام طحاوی نے حضرت عائشہ صدیقہ سے ایک طویل حدیث روایت کی کہ جس میں ہے
فقال ھل قال یوما واحدا اللھم انی اعوذبک من نار جھنم ؟ قلت ال ما کان یدری ما جھنم قال فال اذا مشکل اآلثار ج،4ص4
آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اس نے ایک دن بھی یہ دعا مانگی ہے کہ اے ہللا میں تم سے جہنم کی آگ سےپناہ
مانگتی ہوں ؟ میں نے کہا کہ نہیں وہ نپیں جانتا کہ جہنم کیا ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ پھر کبھی نہیں۔
ان احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے جو لفظ اذن کو معنی فال تصل اذن لیا ہے وہ بلکل درست ہے
کیونکہ اگر اسکا معنی یہ نہ لیا جائے تو پھر ان احادیث کی مخالفت آئے گی کہ جن میں ال صلوة بعد الصبح کے الفاظ آئے ہیں جو
کہ آئندہ تفصیل کے ساتھ آئینگی ۔اور بفرض محال لفظ اذن کا معنی فال بأس اذن لیا جائے ( جیسا کہ کبھی کبھی اذن کا معنی
اجازت کے لئے آتا ہے جیسا کہ ترمذی شریف کی ایک حدیث میں آیا ہےکہ جس حدیث کو امام ابو عیسی ترمذی شریف جلد ثانی
کتاب االشربہ باب الرخصة ان ینتبذ فی الظروف میں ذکر کیا ہے ) تو یہ حدیث منقطع ہے اور غیر مقلدین کے نزدیک منقطع
روایت کو حجت بنا جائز نہیں
لہذا سنت فجر کو صبح کی فرض کے فورا بعد نہیں بلکہ طلوع آفتاب کہ بعد پڑھا جائیگا جسکی وضاحت آگے آئیگی۔ان
شاءاللہفصل ثانی
نماز فجر کے بعد فجر کی سنتیں اور دیگر نوافل پڑھنے کی ممانعت احادیث مبارکہ کی روشنی میں
پہلی حدیث
عن ابی ھریرة ان رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نھی عن لصلوة بعد العصر حتی تغرب الشمس وعن الصلوة بعد الصبح حتی تطلع
الشمس بخاری شریف ج،1ص211
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز (سنتیں )
پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور اسی طرح نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک نماز (سنتیں ) پڑھنے سے منع فرمایا ہے
دوسری حدیث
وعن ابن عباس قال سمعت غیر واحد من اصحاب النبی صلی ہللا علیہ وسلم منھم عمر بن الخطاب وکان احبھم الی ان رسول ہللا صلی
ہللا علیہ وسلم نھی عن الصلوة بعد الفجر حتی تطلع الشمس وبعد العصر حتی تغرب الشمس بخاری شریف ج ،1ص212
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے اصحاب میں کئی صحابہ سے سنا ہے جن
حضرت عمر بن خطاب بھی شامل ہیں جو کہ ان سب میں سے مجھے ذیادہ محبوب ہیں انہوں نے فرمایا کہ رسول ہللا صلی ہللا
علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز(سنتیں) پڑھنے سے منع فرمایا
ہے
تیسری حدیث
عن ابی سعید الخدری قال قال رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ال صلوة بعد صلوة العصر حتی تغرب الشمس و ال بعد الفجر حتی تطلع
الشمس بخاری شریف ج ،1ص561
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ عصر کی نماز کے بعد
غروب آفتاب تک اور فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہیں ۔
اس حدیث پاک کے متعلق ابن بطال فرماتے ہیں کہ یہ حدیث متواتر ہے اور امام طحاوی فرماتے ہیں کہ ان اوقات میں نماز
پڑھنارسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے متواتر احادیث پہنچی ہیں ۔
چوتھی حدیث۔
وعن ابی ھریرة قال قال رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم من لم یصل رکعتی الفجر فلیصلیھما بعد ما تطلع الشمس ترمذی شریف
ج،1ص287
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے سنت فجر نہیں پڑھی
ہو تو وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھے۔
پانچویں حدیث
عن نافع عن ابن عمر انہ صلی رکعتی الفجر بعد ما اضحی مصنف ابن ابی شیبہ ج،2ص59
نافع نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا کہ وہ سنت فجر طلوع آفتاب کے بعد پڑھتے تھے ۔
چھٹی حدیث
وعن عمروبن عبسة قال یا نبی ہللا اخبرنی عن الصلوة قال صل صلوة الصبح ثم اقصر عن الصلوة حتی تطلع الشمس وترتفع فانھا
تطلع بین قرنی الشیطان وحینئذ یسجد لھا الکفار ثم صل فان الصلوة مشھودة مخضورة حتی یستقل الظل بالرمح ثم اقصر عن الصلوة
فان حینئذ تسجر جھنم فاذا اقبل الفیء فصل فان الصلوة مشھودة مخضورة حتی تصل العصر ثم اقصر عن الصلوة حتی تغرب فانھا
تغرب بین قرنی الشیطان و حینئذ یسجد لھا الکفار مسلم شریف ج،1ص
حضرت عمرو بن عبسہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے فرمایا کہ اے ہللا کے
نبی مجھے نماز کے اوقات کے متعلق بتائیے تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صبح کی نماز پڑھ کر رک جا
یہاں تک کہ سورج طلوع ہو کر صحیح روشن ہوجائے ،کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے اور
اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں ،پھر (سورج کے خوب روشن ہونے کے بعد ) نماز پڑھ کیونکہ اس وقتطلی نماز میں
مالئکہ حاضر ہوتےہیں یہاں تک کہ سایہ نیزے کے برابر گھٹ جائے (یعنی مشرق و مغرب کی طرف مائل نہ ہو) پھر نماز
پڑھنے سے رک جا کیونکہ اس وقت جہنم خوب دھکائی جاتی ہے پس جب سایہ مشرق کی طرف مائل ہو جائے تو پھر نماز پڑھ
کیونکہ اس وقت مالئکہ حاضر ہوتےہیں یہاں تک کہ عصر کی نماز پڑھ لو پھر نماز پڑھنے سے رک جا یہاں تک کہ سورج
غروب ہو جائے کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار اسکو سجدہ کرتے ہیں۔
اس حدیث شریف میں اوقات مکروہ میں نماز نہ پڑھنے کی وجہ بتائی گئی ہے کہ ان اوقات میں شیطان کی عبادت کی جاتی ہے تو
اسکی مشابہت کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ اس حدیث میں ہے کہ سورج شیطان کے سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اس کا
مطلب بیان کرنے کےلئے امام نووی نے کئی توجیہات پیش کی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
شیطان کے سینگوں سے مراد شیطان کا لشکر اور اس کے اتباع کرنے والے ہیں ۔اس سے مراد شیطان کی قوت،غلبہ اور اسکا
فساد و انتشار ہے۔سینگوں سے مراد شیطان کے سر کے دونوں کونے ہیں اور یہ اپنے ظاہر پر اور قوی ہے۔اور یہ بھی کہا جاتا
ہے کہ شیطان ان اوقات میں اپنا سر سورج کے قریب کردیتا ہے تاکہ سورج کو سجدہ کرنے والے کفار گویا کہ اس کو سجدہ کر
رہے ہیں اور اس وقت شیطان اور اسکی اوالد کا تسلط ظاہر ہوتا ہے تاکہ یہ نمازیوں کے نماز میں التباس ڈالدے تو اسی وجہ سے
ان اوقات میں نماز پڑھنے کو اس التباس سے بچنے کے لئے منع کیا گیا ہے جیسا کہ ان جگہوں پر نماز پڑھنے کو ممنوع کر دیا
گیا ہے جو جگہ شیاطین کے ٹھکانے ہوتے ہیں۔ شرح مسلم للنووی ج،1ص 1مکتبہ رحمانیہ
خالصہ باب۔
عالمہ عینی فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے ان احادیث سے یہ استنباط کیا ہے کہ نماز فجر کے بعد نوافل( جس میں سنت فجر
بھی داخل ہیں ) پڑھنا مکروہ ہے ۔یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے ،اور یہی قول حسن بصری،سعید بن مسیب،عالءبن ذیاد
،حمید بن عبد الرحمن سے منقول ہے اور امام نخعی نے فرمایا کہ وہ ( ان اوقات میں نوافل پڑھنے کو) مکروہ سمجھتے تھے اورا
سی طرح صحابہ کی جماعت سے بھی منقول ہے ،ابن بطال نے کہا کہ ان اوقات ( نماز فجر اور عصر) نوافل پڑھنے کی ممانعت
میں رسول ہللا سے متواتر احادیث منقول ہیں ،اور حضرت عمر تو اس شخص کو صحابہ کرام کی موجودگی میں مارتے تھے جو
شخص نماز عصر کے بعد نوافل پڑھتا اور کسی نے بھی آپ پر نکیر نہیں کی پس اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ رسول ہللا کا
نماز عصر کے بعد نوافل پڑھنا آپ کی خصوصیت تھی امت کو اسکی اجازت نہیں ہے،اور اسکو مندرجہ ذیل صحابہ کرام بھی
مکروہ جانتے تھے ۔ علی بن ابی طالب،عبدہللا بن مسعود ،ابوہریرہ،سمرہ بن جندب،زید بن ثابت ،سلمہ بن عمرو،کعب بن
مرہ،ابوامامہ،عمربن عبسہ،عائشہ صدیقہ ،صنابحی جن کا نام عبد الرحمن بن عسیلہ ہے،عبد ہللا بن عمر،عبد ہللا بن عمرہ و غیر
ذلک۔ فوائد ابی شیخ میں ہےکہ حضرت حذیفہ نے ایک شخص کو عصر کے بعد نوافل پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسے منع کیا اس
شخص نے کہا کہ ہللا تعالی مجھے نفل پڑھنے پر عذاب دیگا؟ تو حضرت حذیفہ نے کہا کہ ہللا تعالی تجھے خالف سنت کرنے پر
عذاب دیگا۔
عالمہ عینی فرماتے ہیں کہ جب دو حدیثیں آپس میں ایک چیز کی حرمت و اباحت میں متعارض ہوں تو ترجیح حرمت والے پہلو
کوہوگی عالمہ عینی کی عبارت مندرجہ ذیل ہے ۔
استقرت القاعدة ان المبیح و الحاظر اذا تعارضا جعل الحاظر متأخرا عمدة القاری ج،5ص78
اور یہی بات امام حلبی نے بھی کبیری کے اندر لکھی فرماتے ہیں کہ ان المحرم مقدم علی المبیح عند التعارض غنیة المتملی شرح
منیة المصلی ص 209
پس اسی قاعدہ کی بنیاد پر علماء احناف حرمت کے پہلو کو از روئے احتیاط ترجیح دیتے ہیں ۔اور سنت فجر پڑھنے سے ان اوقات
میں منع کرتے ہیں ۔
فصل ثالث
نماز فجر کے بعد سنت فجر و دیگر نوافل پڑھنے کا حکم فقہائے احناف کی نظر میں
شیخ حسن بن عمار بن علی شرنباللی مراقی الفالح میں لکھتے ہیں کہ
( و)یکرہ التنفل( بعد صلوتہ) ای فرض الصبح (و )یکرہ التنفل (بعد صلوة )فرض( العصر )وان لم تتغیر الشمس الخ وقال الطحطاوی
علی حاشیتہا ۔۔ قولہ (بعد صلوتہ) ای فرض الصبح ولو سنة سواء ترکہا بعذر او بدونہ۔
اور مکروہ ہے نفل پڑھنا اسکے نماز کے بعد یعنی صبح کے فرض کے بعد اور اسی طرح مکروہ ہے نفل پڑھنا نماز عصر کے
فرض کے بعد اگر چہ آفتاب میں تغیر نہ ہوا ہو ۔۔الخ اور عالمہ طحطاوی نے اسکے حاشیہ پر لکھا ہےکہ مصنف کا یہ قول کہ
صبح کے فرض کے بعد( یعنی صبح کے فرض کے بعد نوافل پڑھنا مکروہ ہیں )اگرچہ سنت فجر ہی کیوں نہ ہو برابر ہے کہ
عذر کی وجہ سے چھوٹ گئی ہوں یا بغیر عذر کے۔ حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفالح ص 188
عالمہ شیخ ابراہیم حلبی غنیة المتملی شرح منیة المصلی میں لکھتے ہیں کہ
(وھما) ای الوقتان المذکوران (مابعد طلوع الفجر الی ان ترتفع الشمس) فانہ یکرہ فی ھذہ الوقت النوفل کلھا (اال سنة الفجر )لما روی
مسلم عن حفصة قالت کان رسول ہللا اذا طلع الفجر ال یصلی اال رکعتین خفیفتین۔۔۔الخ(وما بعد صالة العصر الی غروب الشمس)۔۔۔۔الخ
اور وہ دو مکروہ اوقات جن کا ذکر ہوچکا ہے کہ ان میں صرف نوافل پڑھنا منع ہے وہ طلوع فجر سے لیکر طلوع شمس تک کا
وقت ہے کہ اس وقت تمام نوافل کا پڑھنا مکروہ ہے سوائے سنت فجر کے کیونکہ امام مسلم حضرت حفصہ کی روایت بیان کرتے
ہےکہ انہوں نے کہا کہ جب صبح صادق نکل آتی تو رسول ہللا صرف دو ہلکی سی رکعتی پڑھ لیتے تھے اور نماز عصر کے بعد
غروب شمس تک۔۔۔۔۔۔الخ غنیة المتملی ص 209
عالمہ ابن نجیم بحر الرائق میں لکھتے ہیں کہ
قولہ (وعن التنفل بعد صلوة الفجر والعصر ال عن قضاء فائتة و سجدة تالوة و صلوة جنازة )ای منع عن التنفل فی ھذین الوقتین قصدا
ال عن غیرہ۔۔۔۔الخ
اور ماتن کا کہنا کہ اور منع کیا گیا نماز فجر اور عصر کے بعد نوافل پڑھنے سے نہ کہ فوت شدہ نمازوں کی قضاء سے اور
سجدہ تالوت سے اور نماز جنازہ سے یعنی ان دو وقتوں میں صرف نوافل وغیرہ سے قصدا منع کیا گیا ہے نہ کہ دیگر نمازوں
سے ( یعنی فرئض ،سجدہ تالوت اور نماز جنازہ وغیرہ سے ) بحر الرائق البن نجیم ج،1ص 437مکتبہ رشیدیہ
عالمہ سرخسی المبسوط کے اندر اوقات مکروہا پر کالم کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ
(ووقتان آخران ما بعد العصر قبل تغیر الشمس وما بعد صلوة الفجر قبل طلوع الشمس )فانہ ال یصلی فیھما شیء من النوافل ۔۔۔۔۔۔۔۔ولکن
یجوز اداء الفریضة فی ھذین الوقتین و کذلک الصلوة علی الجنازة و سجدة التالوة وانما النھی عن التطوعات خاصة ۔۔۔۔الخ المبسوط
لسرخسی ج،1ص 141دار الکتب العلمیة
اور دو اور مکروہ اوقات میں سے نماز عصر کے بعد تغیر شمس سے پہلے کا وقت اور نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے
کا وقت ہے پس ان اوقات میں نوافل میں سے کوئی بھی نماز نہیں پڑھی جائے گی۔۔۔۔۔۔لیکن ان فو وقتوں میں فرائض کا اداء کرنا
جائز ہے اور اسی طرح نماز جنازہ اور سجدہ تالوت بھی خائز ہے اور ممانعت نوافل (و سنتوں وغیرہ) کے ساتھ ہے۔
عالمہ میدانی اللباب فی شرح الکتاب میں لکھتے ہیں کہ
(ویکرہ ان یتنفل) قصدا ولو لھا سبب( بعد صلوة الفجر حتی تطلع الشمس ) وترتفع (وبعد صلوة العصر) ولو لم تتغیر الشمس (حتی
تغرب۔۔۔۔۔۔۔الخ) اللباب فی شرح الکتاب ج،1ص 44دار الکتاب العربی
اور مکروہ ہے قصدا نوافل پڑھنا اگرچہ اسکا کوئی سبب بھی ہو نماز فجر کے بعد یہاں تک سورج طلوع ہو کر خوب روشن ہو
جائے اور اسی طرح نوافل پڑھنا مکروہ ہے نماز عصر کے بعد اگرچہ سورج میں زردی نہ آئی ہو یہاں تک کہ سورج غروب
ہوجائے ۔
یہ تمام تر فقہائے احناف کی عبارات تھی کہ جن میں نماز فجر کے بعد نوافل وغیرہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور ان کا ماخذ
اصلی وہ احادیث ہیں کہ جن کو میں نے باب سابقہ میں ذکر کر دیا۔ وہللا ورسولہ اعلم ۔