You are on page 1of 6

‫باب چہارم‬

‫سنت فجر اگر فرض نماز سے پہلے یااقامت کے بعد نہ پڑھیں ہوں تو کس وقت پڑھیں جائیں‬
‫اگر کسی شخص سے سنت فجر چھوٹ جائیں یا نماز قائم ہو گئی اور وہ جماعت کے ساتھ شامل ہوگیا تو کس وقت ان کو ادا کیا‬
‫جائے گا تو اس میں فقہائے کرام کا اختالف ہے‬

‫فصل اول‬
‫نماز فجر کے بعد سنت فجر پڑھنے والوں کے دالئل اور احناف کی طرف سے توجیہات‬
‫پہلی حدیث‬
‫عن قیس قال خرج رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فأقیمت الصلوة فصلیت معہ الصبح ثم انصرف النبی صلی ہللا علیہ وسلم فوجد نی‬
‫اصلی فقال مھال یاقیس اصالتان معا؟ قلت یارسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم انی لم اکن رکعت رکعتی الفجر قال فال اذن سنن الترمذی‬
‫ج‪،2‬ص‪462‬‬
‫حضرت قیس سےروایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نماز کے لئے نکلے نماز کی اقامت شروع ہو گئی میں نے فجر کی‬
‫نماز رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی پھر جب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے نماز‬
‫پڑھتے ہوئے پایا‪،‬فرمایا کہ رک جاؤ اے قیس کیا تم دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھ رہے ہو؟ میں نے کہا کہ یا رسول ہللا صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم میں نے سنت فجر نہیں پڑھی تھی رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ۔‬
‫دوسری حدیث۔‬
‫وعن عطاء بن ابی رباح ‪،‬عن رجل من االنصار قال رای رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم رجال یصلی بعد الغداة ‪،‬فقال یارسول ہللا‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم لم اکن صلیت رکعتی الفجر فصلیتھما اآلن فلم یقل لہ شیئا‬
‫حضرت عطاء بن ابی رباح نے انصار میں سے ایک آدمی سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ایک آدمی کو‬
‫دیکھا کہ وہ فجر کی نماز کے بعد سنتیں پڑھ رہا تھا تو اس نے کہا کہ یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم میں نے سنت فجر نہیں‬
‫پڑھی تھی تو اب پڑھ رہا ہوں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اسے کچھ بھی نہیں کہا۔‬
‫ان احادیث کی بناء پر مجوزین حضرات شافعیہ اور غیر مقلدین ان احادیث سے استدالل کرتے ہیں کہ سنت فجر بعد نماز فجر کے‬
‫پڑھنا ان احادیث کی بناء پر بغیر کراہت جائز ہے‪.‬‬
‫محدثین اور فقہاء کی طرف سے احادیث کی توجیہات‬
‫اکثر محدثین اور فقہاء نے ان احادیث کے ارسال و انقطاع کو ترجیح دی ہے لیکن شمس الحق عظیم آبادی صاحب نے باوجود ان‬
‫تصریحات کے ان احادیث کو متصل ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن اسکی یہ تمام کوشش بے سود ہے اس لئے کہ ان‬
‫جبال العلم محدثین کے مقابلہ میں شمس الحق عظیم آبادی صاحب کا ان احادیث کو متصل ثابت کرنا ہی چاند کو انگلی سے چھپانے‬
‫کے مترادف ہے پھر بھی اگر بفرض محال ہم ان روایات کو متصل مان بھی لیں تو پھر بھی روایات ان قولی روایات کے مقابلہ‬
‫میں مرجوح ہے کہ جو روایات صلوة بعد الفجر کی ممانعت پر داللت کرتی ہیں کیونکہ خاص واقعات وافعال تخصیص کا احتمال‬
‫رکھتے ہیں جب کہ قولی روایات میں عموم ہوتا ہے ۔‬
‫پہلی توجیہ ۔‬
‫غیر مقلدین جو اپنے نظریہ پر ترمذی شریف کی جو حدیث پیش کرتے ہیں وہ منقطع ہے‬
‫پہلی تصریح۔‬
‫امام ترمذی فرماتے ہیں کہ‬
‫واسناد ھذا الحدیث لیس بمتصل محمد بن ابراھیم التیمی لم یسمع من قیس سنن الترمذی ج‪،1‬ص‪96‬‬
‫یہ حدیث متصل االسناد نہیں ہے کیونکہ محمد بن ابراہیم تیمی نے قیس سے سماع نہیں کیا۔‬
‫دوسری تصریح‬
‫عالمہ عینی فرماتے ہیں کہ‬
‫واما حدیث حدیث قیس بن عمرو فقال فی االمام اسنادہ غیر متصل و محمد بن ابراھیم لم یسمع من قیس وقال ابن حبان ال یحل‬
‫االحتجاج بہ عمدة القاری ج‪،5‬ص‪78‬‬
‫اور رہی بات قیس بن عمرو کی تو امام نامی کتاب میں کہا گیا ہے کہ اسکی سند متصل نہیں ہے اور محمد بن ابراہیم کا سماع قیس‬
‫سے ثانت نہیں ہے اور ابن حبان نے کہا کہ اس حدیث سے حجت پکڑنا درست نہیں ہے‬
‫جب حدیث منقطع ہے متصل السند نہیں ہے تو پھر غیر مقلدین کے نزدیک تو یہ حدیث حجت نہیں رہی کیونکہ غیر مقلدین کے‬
‫نزدیک منقطع روایت ضعیف ہوتی ہے جیسا کہ زبیر علی زئی نے اپنی کتاب دین میں تقلید کا مسئلہ میں لکھا ص ‪34‬‬
‫اسکے عالوہ زبیر علی زئی صاحب ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں کہ‬
‫ایسی منقطع اور بے سند روایت کو انتہائی اہم مسئلہ میں پیش کرنا آخر کونسی دین کی خدمت ہے تعداد رکعات قیام رمضان‬
‫ص‪30‬‬
‫یہ بات انہوں نے تراویح کے متعلق کہی ہے کہ احناف نے جو بیس رکعت تراویح کی دلیل دی ہے وہ منقطع ہے اس کا جواب‬
‫دینے کا یہ موقع نہیں ۔ بارحال تراویح سے ذیادہ تو اہم مسئلہ سنت فجر کا ہے کہ نماز فجر کے بعد سنتیں نہ پڑھنے پر کئی‬
‫احادیث وارد ہوئی ہے لیکن سنت فجر کے معاملہ میں ایک منقطع روایت کو دلیل بنا کر صحیح حدیث پر عمل نہ کرنا کون سی‬
‫دین کی خدمت ہے ۔‬
‫پس یہ بات معلوم ہوگئی کہ منقطع روایت غیر مقلدین کے نزدیک ضعیف ہوتی ہے تو ایک صحیح حدیث کے مقابلہ میں ضعیف‬
‫حدیث پر عمل کرنے کو عمل بلحدیث کس طرح کہ سکتے ہیں ؟‬
‫شمس الحق عظیم آبادی صاحب کا امام بدر الدین عینی کا رد‬
‫شمس الحق عظیم آبادی صاحب امام بدر الدین عینی پر زبان تراشی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ‬
‫ترجمہ ‪ :‬اور عینی نے عمدة القاری میں جو یہ کہا ہے کہ ابن حبان نے کہا ہے کہ قیس بن عمرو قابل احتجاج نہیں ہے تو یہ قول‬
‫مردود ہے ہم اسکو دیوار پر مارتے ہیں اور اسکی ( امام بدر الدین عینی ) شرح ہدایہ اور عمدة القاری میں یہ عادت ہے کہ جب‬
‫حدیث اسکے مذھب کے خالف ہوتی ہے تو وہ اس کے راویوں پر کالم کرتا ہے جرح پیش کرتا ہے اور تعدیل سے خاموش رہتا‬
‫ہے اور جب حدیث اسکے مذہب کے موافق ہوتی ہے تو وہ جرح سے سکوت کرتا ہے اگرچہ اس حدیث میں شدید ضعف ہی کیوں‬
‫نہ ہو اور یہ اسکی کی کتاب کے عیبوں میں سے ہے اعالم اھل العصر ص ‪210،211‬‬
‫ع‬
‫شمس الحق عظیم آبادی صاحب نے عالمہ عینی پر جو اعتراض کیا ہے جیسا کہ ماقبل سطور میں گزر چکا ہے وہی بات در اصل‬
‫شمس الحق عظیم آبادی صاحب میں موجود ہے شمس الحق عظیم آبادی نے اپنی کتاب اعالم اھل العصر میں ایک حدیث روایت کی‬
‫ہے لکھتا ہے کہ‬
‫واخرج ابن حزم فی المحلی عن الحسن بن ذکوان عن رجل من االنصار قال رأی رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم رجال یصلی بعد الغداة‬
‫فقال یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم لم اکن صلیت رکعتی الفجر فصلیتھما اآلن فلم یقل لہ شیئا اعالم اھل العصر ص‪223‬‬
‫عطاء بن ابی رباح نے ایک انصاری سے روایت کیا ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ فجر کی‬
‫نماز کے بعد نماز پڑھ رہا ہے تو اس نے کہا کہ یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم میں نے فجر کی سنتیں نہیں پڑھی تھی تو ابھی‬
‫پڑھ رہا ہوں تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اسے کچھ بھی نہیں کہا۔‬
‫اب اعتراض کا جواب سمجھیے کہ شمس الحق عظیم آبادی صاحب نے یہ حدیث ابن حزم کی کتاب المحلی سے نقل کی تو کردی‬
‫لیکن چونکہ یہ حدیث اسکے مذہب کی تائید کررہی تھی اس لئے اس نےاس حدیث کے راویوں پر کالم نہیں کیا حاالنکہ کہ اس‬
‫میں ایک راوی حسن بن ذکوان پر محدثین نے کالم کیا ہے کہ یہ قدری مذہب واال تھا اس سے حدیث میں حطاء ہو جاتی تھی ‪،‬اور‬
‫یہ مدلس بھی تھا اور مدلس جب عن سے روایت کرتا ہے تو وہ روایت علت سے خالی نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجود شمس الحق‬
‫عظیم آبادی صاحب بالکل خاموشی اختیار کر گئے اور راوی کی اس کیفیت سے اعراض کر گئے کیونکہ یہ حدیث ان کے مذہب‬
‫کے موافق تھی لیکن جب بات دوسروں کے دالئل کی آتی ہے اور حدیث دوسروں کے مذہب کے موافق ہوتی ہے تو عالمہ صاحب‬
‫اس حدیث کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔‬
‫مثال کے طور پر حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم عصر کے بعد نماز پڑھتے تھے لیکن دوسروں کو اس سے منع فرماتے تھے‪ ،‬اور وہ خود لگاتار‬
‫روزے رکھتے تھے لیکن دوسروں کو لگاتار روزے رکھنے سے منع فرماتے تھے ابو داؤد کتاب التطوع حدیث ‪1289‬‬
‫اسی طرح مسند احمد میں ام سلمہ کی روایت ہے فرماتی ہیں کہ‬
‫میں نے پوچھا یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کیا ہم سنت فجر کی قضاء پڑھ لیا کرے جبکہ ہم سے قضاء ہوجائیں تو آپ صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔‬
‫مسند امام احمد بن حنبل ج‪،6‬ص‪315‬‬
‫ان دو روایتوں کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے عالمہ صاحب نے اپنی کتاب اعالم اھل العصر ص‪ 197،209‬میں خوب زور لگایا‬
‫اور ان احادیث کو کمز ور ثابت کیا ہے حاالنکہ محدثین نے ان احادیث کے اسناد کی تصحیح فرمائی ہے۔مگر پھر بھی چونکہ یہ‬
‫حدیث عالمہ صاحب کے مذہب کے خالف تھی اس لئے وہ ان کو رد کرنے میں مبالغے سے کام لیتے رہے حاالنکہ یہ احادیث ان‬
‫متواتر احادیث کے موافق ہیں کہ جن میں نماز فجر کے اور عصر کے بعد نوافل پڑھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے لیکن پھر بھی‬
‫وہ ان احادیث کو مجروح قرار دیتا ہے اور جب بات اپنے مذہب کی تائید کی آتی ہے تو پھر وہ حدیث کے رواة پر تحقیق کرنے‬
‫کی زحمت نہیں کرتے اور حدیث کی علتوں کو ظاہر کرنے کی زحمت نہیں کرتے ۔‬
‫مگر پھر بھی وہ جا ک ر امام االحناف امام بدر الدین عینی پر اسی بات کی وجہ سے رد کرتا ہے کہ جو شمس الحق عظیم آبادی‬
‫صاحب میں خود موجود ہے۔‬
‫اب اگر کوئی انصاف کی نظر سے دیکھے تو اسے یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ احناف حتی االمکان حدیث رسول پر عمل کرتے‬
‫ہیں جب تک حدیث شدید ضعیف نہ ہو اور صریح متواتر احادیث کے خالف نہ ہو یہاں تک کہ احناف فضائل میں مرسل ‪،‬‬
‫مدلس‪،‬اور منقطع تک کی احادیث پر قیاس کرتے ہیں جیسا کہ احناف کے اصول میں یہ بات مصرح ہے ‪،‬پس جو شخص انصاف‬
‫کی نظر سے دیکھے تو اسے یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ شمس الحق عظیم آبادی صاحب وہی ہے کہ جو بعض احادیث کو بعض‬
‫احادیث کی وجہ سے رد کرتا ہے جیسا کہ انہوں نے اس جگہ پر کیا ہے کہ ایک مرسل روایت کے لئیے اس نے حدیث صحیح کو‬
‫ضعیف کے ساتھ خاص کردیا۔‬
‫اب آپ حضرات کو خود یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ شمس الحق عظیم آبادی صاحب کا خود کا یہ فعل کہ وہ اپنے مذہب کی تائید کے‬
‫لئے ضعیف حدیث کو بھی صحیح بنا کر پیش کرتا ہے دیوار پر مارنے کے قابل ہے کہ نہیں جیسا کہ اس نے عالمہ عینی پر زبان‬
‫تراشی کرتے ہوئے کہی تھی کہ عالمہ عینی کا یہ قول مردود ہے ہم اس کو دیوار پر مارتے ہیں یقینا شمس الحق عظیم آبادی‬
‫صاحب کا یہ عمل اس قابل ہے کہ ہم اس کو دیوار پر دے ماریں ۔‬
‫عالمہ ابم قدامہ حنبلی فرماتے ہیں کہ‬
‫وحدیث قیس مرسل ‪،‬قالہ احمد والترمذی النہ یرویہ محمد بن ابراھیم عن قیس ولم یسمع منہ وروی من طریق یحی بن سعید عن جدہ‬
‫وھو مرسل ایضا المغنی علی مختصر الخرقی ج‪،2‬ص‪69‬‬
‫اور بھی کئی محدثین سے ثابت ہے کہ عن قیس قال خرج رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فأقیمت الصلوة فصلیت معہ الصبح ثم‬
‫انصرف النبی صلی ہللا علیہ وسلم فوجد نی اصلی فقال مھال یاقیس اصالتان معا؟ قلت یارسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم انی لم اکن‬
‫رکعت رکعتی الفجر قال فال اذن۔ یہ حدیث منقطع ہے ۔‬
‫احناف اور حنابلہ کے نزدیک کلمہ اذن اس مقام پر منع لے لئے ہے‬
‫لفظ اذن کی تحقیق‬
‫کلمہ فال اذن کس چیز سے مرکب ہے‬
‫عالمہ کافیجی حنفی فرماتے ہیں‬
‫قال العالمة الکافیجیبان کلمة اذن فی قولہ تعالی ‪،‬ولئن اطعتم بشرا مثلکم انکم اذا لخاسرون ‪ ،‬لیست اذا ھذا الکلمة المعھودة ‪،‬وانما ھی‬
‫اذا الشرطیة حدفت جملتھا التی تضاف الیھا وعوض عنھا التنوین ‪،‬کما فی یومئذ‬
‫االتقان فی علم القرآن النوع االربعون ج‪،1‬ص‪150‬‬
‫کلمہ اذن ہللا تعالی کے اس ارشاد ولئن اطعتم بشرا مثلکم انکم اذا لخاسرون کی وجہ سے متبادرہ نہیں ہے بلکہ اس میں اذا شرطیہ‬
‫ہے اور اس کے مضاف الیہ جملہ کو حذف کردیا گیا ہے اور اسکے عوض میں اس کو تنوین دی گئی ہے جیسا کہ یومئذ می اکیا‬
‫گیا ہے۔‬
‫کلمہ فال اذن میں کی مراد میں میں احناف اور شوافع کا اختالف‬
‫واختلف الحنفیة والشافعیة فی مرادہ فقال الحنفیة معناہ فال تصل اذن‬
‫اعتراض‬
‫فال اذن میں کلمہ فاء فصیحہ مربوطہ ہے ما قبل کے ساتھ یعنی اسکا ربط ما قبل کے ساتھ نہ کہ انکار کے ساتھ جیسا کہ احناف‬
‫کہتے ہیں ‪،‬کیونکہ معرض انکار میں فاء داخل نہیں ہوتا ‪،‬تو اس لحاظ سےشوافع کی شرح درست ہے کہ فال اذن کا معنی ال باس‬
‫ہے اور فاء کا داخل ہونا اس شرح کے موافق درست ہے؟‬
‫ہم اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ کلمہ فاء معرض انکار میں داخل ہی نہیں ہوتا ۔‬
‫کلمہ فاء کے معرض انکار میں داخل ہونے کا ثبوت قرآن کریم سے‬
‫ارشاد باری تعالی ہےکہ افسحر ھذا ام انتم ال تبصرون‬
‫عالمہ ذمخشری اسکی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ‬
‫یعنی کنتم تقولون للوحی ھذا سحر ‪،‬افسحر ھذا؟ یرید اھذا المصدق ایضا سحر ؟ ودخلت الفاء لھذا المعنی‪ ،،‬ام انتم التبصرون‪ ،،‬کما‬
‫کنتم التبصرون فی الدنیا یعنی ام انتم عمی عن المخبر عنہ کما کنتم عمیا عن الخبر وھذا تقریع وتھکم الکشاف ج‪،3‬ص‪140‬‬
‫یعنی تم اس وحی کو جادو کہتے ہو افسحر ھذا سے مراد یہ ہے کہ کیا مصداق بھی جادو ہے تو یہاں بھی کلمہ فاء اس معنی یعنی‬
‫(یعنی انکار پر داخل ہے) ام انتم التبصرون جیسا کہ تم دنیا میں نہیں دیکھتے تھے یعنی کیا تم اس وحی کی خبر دینے والے سے‬
‫اندھے ہو جیسا کہ تم اس خبر سے اندھے تھے یہ تو محض ہٹ دھرمی ہے‬
‫کلمہ اذن کے انکار کے لئے استعمال کے نظائر‬
‫پہلی نظیر۔‬
‫مسلم بن حجاج مسلم شریف کے اندر حضرت نعمان بن بشیر سے روایت کرتے ہے کہ فرمایا‬
‫انطلق بی ابی یحملنی الی رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فقال یارسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم اشھد انی قد نحلت النعمان کذا وکذا من‬
‫مالی فقال أکل بنیک قد نحلت مثل ما نحلت النعمان قال ال قال فاشھد علی ھذا غیری ثم قال أ یسرک ان یکونوا الیک فی البر سواء قال‬
‫بلی قال فال اذا صحیح مسلم ج‪ 2‬کتاب الہبات‬
‫میرے والد صاحب مجھے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور فرمایا لہ یارسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم آپ گواہ‬
‫رہیئے کہ میں نے اپنے مال میں سے فالں چیز نعمان کو ہبہ کردی تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا تم نے‬
‫اپنی ساری اوالد کو اتنا مال ہبہ کردیا جتنا کہ نعمان کو؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں ‪،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر‬
‫تم میرے عالوہ کسی اور کو اس پر گواہ بناؤ پھر فرمایا کہ تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ تمہاری اوکاد بھالئی میں تمہارے لئے‬
‫برابر ہو‪،‬انہوں نے کہا کیوں نہیں ! یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ‪،‬پھر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔‬
‫اس حدیث میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نےحضرت بشیر کو کلمہ فال اذا کہ کر منع فرمایا کہ ایسا نہ کرو بعض اوالد کو‬
‫بعض اوالد پر ہبہ میں برتری نہ دو‬
‫دوسری نظیر ۔‬
‫امام بخاری بخاری شریف کے اندر حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت نقل کرتے ہے کہ‬
‫عن عائشة ان صفیة بنت حیی زوج النبی صلی ہللا علیہ وسلم حاضت فذکرت ذلک لرسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فقال احابستناھی‬
‫قالوا انھا قد افأ ضت قال فال اذا صحیح بخاری ابواب الحج ج‪،2‬ص‪625‬‬
‫حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ صفیہ بنت حیی نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی زوجہ حائضہ ہوئی تو میں نے اسکا‬
‫ذکر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ کی کیا اس نے ہمیں طواف سے روک لیا ؟ تو‬
‫انہوں نے فرمایا کہ وہ طواف افاضہ کر چکی ہے تو آپ نے فرمایا کہ پھر ہم پر حبس نہیں ہے۔‬
‫تیسری نظیر ۔‬
‫مشکل اآلثار میں امام طحاوی نے حضرت عائشہ صدیقہ سے ایک طویل حدیث روایت کی کہ جس میں ہے‬
‫فقال ھل قال یوما واحدا اللھم انی اعوذبک من نار جھنم ؟ قلت ال ما کان یدری ما جھنم قال فال اذا مشکل اآلثار ج‪،4‬ص‪4‬‬
‫آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا اس نے ایک دن بھی یہ دعا مانگی ہے کہ اے ہللا میں تم سے جہنم کی آگ سےپناہ‬
‫مانگتی ہوں ؟ میں نے کہا کہ نہیں وہ نپیں جانتا کہ جہنم کیا ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ پھر کبھی نہیں۔‬
‫ان احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے جو لفظ اذن کو معنی فال تصل اذن لیا ہے وہ بلکل درست ہے‬
‫کیونکہ اگر اسکا معنی یہ نہ لیا جائے تو پھر ان احادیث کی مخالفت آئے گی کہ جن میں ال صلوة بعد الصبح کے الفاظ آئے ہیں جو‬
‫کہ آئندہ تفصیل کے ساتھ آئینگی ۔اور بفرض محال لفظ اذن کا معنی فال بأس اذن لیا جائے ( جیسا کہ کبھی کبھی اذن کا معنی‬
‫اجازت کے لئے آتا ہے جیسا کہ ترمذی شریف کی ایک حدیث میں آیا ہےکہ جس حدیث کو امام ابو عیسی ترمذی شریف جلد ثانی‬
‫کتاب االشربہ باب الرخصة ان ینتبذ فی الظروف میں ذکر کیا ہے ) تو یہ حدیث منقطع ہے اور غیر مقلدین کے نزدیک منقطع‬
‫روایت کو حجت بنا جائز نہیں‬
‫لہذا سنت فجر کو صبح کی فرض کے فورا بعد نہیں بلکہ طلوع آفتاب کہ بعد پڑھا جائیگا جسکی وضاحت آگے آئیگی۔ان‬
‫شاءاللہفصل ثانی‬
‫نماز فجر کے بعد فجر کی سنتیں اور دیگر نوافل پڑھنے کی ممانعت احادیث مبارکہ کی روشنی میں‬
‫پہلی حدیث‬
‫عن ابی ھریرة ان رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نھی عن لصلوة بعد العصر حتی تغرب الشمس وعن الصلوة بعد الصبح حتی تطلع‬
‫الشمس بخاری شریف ج‪،1‬ص‪211‬‬
‫حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز (سنتیں )‬
‫پڑھنے سے منع فرمایا ہے اور اسی طرح نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک نماز (سنتیں ) پڑھنے سے منع فرمایا ہے‬
‫دوسری حدیث‬
‫وعن ابن عباس قال سمعت غیر واحد من اصحاب النبی صلی ہللا علیہ وسلم منھم عمر بن الخطاب وکان احبھم الی ان رسول ہللا صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم نھی عن الصلوة بعد الفجر حتی تطلع الشمس وبعد العصر حتی تغرب الشمس بخاری شریف ج‪ ،1‬ص‪212‬‬
‫حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے اصحاب میں کئی صحابہ سے سنا ہے جن‬
‫حضرت عمر بن خطاب بھی شامل ہیں جو کہ ان سب میں سے مجھے ذیادہ محبوب ہیں انہوں نے فرمایا کہ رسول ہللا صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز(سنتیں) پڑھنے سے منع فرمایا‬
‫ہے‬
‫تیسری حدیث‬
‫عن ابی سعید الخدری قال قال رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ال صلوة بعد صلوة العصر حتی تغرب الشمس و ال بعد الفجر حتی تطلع‬
‫الشمس بخاری شریف ج‪ ،1‬ص‪561‬‬
‫حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ عصر کی نماز کے بعد‬
‫غروب آفتاب تک اور فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہیں ۔‬
‫اس حدیث پاک کے متعلق ابن بطال فرماتے ہیں کہ یہ حدیث متواتر ہے اور امام طحاوی فرماتے ہیں کہ ان اوقات میں نماز‬
‫پڑھنارسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے متواتر احادیث پہنچی ہیں ۔‬
‫چوتھی حدیث۔‬
‫وعن ابی ھریرة قال قال رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم من لم یصل رکعتی الفجر فلیصلیھما بعد ما تطلع الشمس ترمذی شریف‬
‫ج‪،1‬ص‪287‬‬
‫حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے سنت فجر نہیں پڑھی‬
‫ہو تو وہ طلوع آفتاب کے بعد پڑھے۔‬

‫پانچویں حدیث‬
‫عن نافع عن ابن عمر انہ صلی رکعتی الفجر بعد ما اضحی مصنف ابن ابی شیبہ ج‪،2‬ص‪59‬‬
‫نافع نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا کہ وہ سنت فجر طلوع آفتاب کے بعد پڑھتے تھے ۔‬
‫چھٹی حدیث‬
‫وعن عمروبن عبسة قال یا نبی ہللا اخبرنی عن الصلوة قال صل صلوة الصبح ثم اقصر عن الصلوة حتی تطلع الشمس وترتفع فانھا‬
‫تطلع بین قرنی الشیطان وحینئذ یسجد لھا الکفار ثم صل فان الصلوة مشھودة مخضورة حتی یستقل الظل بالرمح ثم اقصر عن الصلوة‬
‫فان حینئذ تسجر جھنم فاذا اقبل الفیء فصل فان الصلوة مشھودة مخضورة حتی تصل العصر ثم اقصر عن الصلوة حتی تغرب فانھا‬
‫تغرب بین قرنی الشیطان و حینئذ یسجد لھا الکفار مسلم شریف ج‪،1‬ص‬
‫حضرت عمرو بن عبسہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے فرمایا کہ اے ہللا کے‬
‫نبی مجھے نماز کے اوقات کے متعلق بتائیے تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ صبح کی نماز پڑھ کر رک جا‬
‫یہاں تک کہ سورج طلوع ہو کر صحیح روشن ہوجائے ‪،‬کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے اور‬
‫اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں ‪،‬پھر (سورج کے خوب روشن ہونے کے بعد ) نماز پڑھ کیونکہ اس وقتطلی نماز میں‬
‫مالئکہ حاضر ہوتےہیں یہاں تک کہ سایہ نیزے کے برابر گھٹ جائے (یعنی مشرق و مغرب کی طرف مائل نہ ہو) پھر نماز‬
‫پڑھنے سے رک جا کیونکہ اس وقت جہنم خوب دھکائی جاتی ہے پس جب سایہ مشرق کی طرف مائل ہو جائے تو پھر نماز پڑھ‬
‫کیونکہ اس وقت مالئکہ حاضر ہوتےہیں یہاں تک کہ عصر کی نماز پڑھ لو پھر نماز پڑھنے سے رک جا یہاں تک کہ سورج‬
‫غروب ہو جائے کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار اسکو سجدہ کرتے ہیں۔‬
‫اس حدیث شریف میں اوقات مکروہ میں نماز نہ پڑھنے کی وجہ بتائی گئی ہے کہ ان اوقات میں شیطان کی عبادت کی جاتی ہے تو‬
‫اسکی مشابہت کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ اس حدیث میں ہے کہ سورج شیطان کے سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اس کا‬
‫مطلب بیان کرنے کےلئے امام نووی نے کئی توجیہات پیش کی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔‬
‫شیطان کے سینگوں سے مراد شیطان کا لشکر اور اس کے اتباع کرنے والے ہیں ۔اس سے مراد شیطان کی قوت‪،‬غلبہ اور اسکا‬
‫فساد و انتشار ہے۔سینگوں سے مراد شیطان کے سر کے دونوں کونے ہیں اور یہ اپنے ظاہر پر اور قوی ہے۔اور یہ بھی کہا جاتا‬
‫ہے کہ شیطان ان اوقات میں اپنا سر سورج کے قریب کردیتا ہے تاکہ سورج کو سجدہ کرنے والے کفار گویا کہ اس کو سجدہ کر‬
‫رہے ہیں اور اس وقت شیطان اور اسکی اوالد کا تسلط ظاہر ہوتا ہے تاکہ یہ نمازیوں کے نماز میں التباس ڈالدے تو اسی وجہ سے‬
‫ان اوقات میں نماز پڑھنے کو اس التباس سے بچنے کے لئے منع کیا گیا ہے جیسا کہ ان جگہوں پر نماز پڑھنے کو ممنوع کر دیا‬
‫گیا ہے جو جگہ شیاطین کے ٹھکانے ہوتے ہیں۔ شرح مسلم للنووی ج‪،1‬ص‪ 1‬مکتبہ رحمانیہ‬
‫خالصہ باب۔‬
‫عالمہ عینی فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے ان احادیث سے یہ استنباط کیا ہے کہ نماز فجر کے بعد نوافل( جس میں سنت فجر‬
‫بھی داخل ہیں ) پڑھنا مکروہ ہے ۔یہاں تک کہ سورج غروب ہوجائے ‪،‬اور یہی قول حسن بصری‪،‬سعید بن مسیب‪،‬عالءبن ذیاد‬
‫‪،‬حمید بن عبد الرحمن سے منقول ہے اور امام نخعی نے فرمایا کہ وہ ( ان اوقات میں نوافل پڑھنے کو) مکروہ سمجھتے تھے اورا‬
‫سی طرح صحابہ کی جماعت سے بھی منقول ہے ‪،‬ابن بطال نے کہا کہ ان اوقات ( نماز فجر اور عصر) نوافل پڑھنے کی ممانعت‬
‫میں رسول ہللا سے متواتر احادیث منقول ہیں ‪،‬اور حضرت عمر تو اس شخص کو صحابہ کرام کی موجودگی میں مارتے تھے جو‬
‫شخص نماز عصر کے بعد نوافل پڑھتا اور کسی نے بھی آپ پر نکیر نہیں کی پس اس سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ رسول ہللا کا‬
‫نماز عصر کے بعد نوافل پڑھنا آپ کی خصوصیت تھی امت کو اسکی اجازت نہیں ہے‪،‬اور اسکو مندرجہ ذیل صحابہ کرام بھی‬
‫مکروہ جانتے تھے ۔ علی بن ابی طالب‪،‬عبدہللا بن مسعود‪ ،‬ابوہریرہ‪،‬سمرہ بن جندب‪،‬زید بن ثابت ‪،‬سلمہ بن عمرو‪،‬کعب بن‬
‫مرہ‪،‬ابوامامہ‪،‬عمربن عبسہ‪،‬عائشہ صدیقہ‪ ،‬صنابحی جن کا نام عبد الرحمن بن عسیلہ ہے‪،‬عبد ہللا بن عمر‪،‬عبد ہللا بن عمرہ و غیر‬
‫ذلک۔ فوائد ابی شیخ میں ہےکہ حضرت حذیفہ نے ایک شخص کو عصر کے بعد نوافل پڑھتے ہوئے دیکھا تو اسے منع کیا اس‬
‫شخص نے کہا کہ ہللا تعالی مجھے نفل پڑھنے پر عذاب دیگا؟ تو حضرت حذیفہ نے کہا کہ ہللا تعالی تجھے خالف سنت کرنے پر‬
‫عذاب دیگا۔‬
‫عالمہ عینی فرماتے ہیں کہ جب دو حدیثیں آپس میں ایک چیز کی حرمت و اباحت میں متعارض ہوں تو ترجیح حرمت والے پہلو‬
‫کوہوگی عالمہ عینی کی عبارت مندرجہ ذیل ہے ۔‬
‫استقرت القاعدة ان المبیح و الحاظر اذا تعارضا جعل الحاظر متأخرا عمدة القاری ج‪،5‬ص‪78‬‬
‫اور یہی بات امام حلبی نے بھی کبیری کے اندر لکھی فرماتے ہیں کہ ان المحرم مقدم علی المبیح عند التعارض غنیة المتملی شرح‬
‫منیة المصلی ص ‪209‬‬
‫پس اسی قاعدہ کی بنیاد پر علماء احناف حرمت کے پہلو کو از روئے احتیاط ترجیح دیتے ہیں ۔اور سنت فجر پڑھنے سے ان اوقات‬
‫میں منع کرتے ہیں ۔‬
‫فصل ثالث‬
‫نماز فجر کے بعد سنت فجر و دیگر نوافل پڑھنے کا حکم فقہائے احناف کی نظر میں‬
‫شیخ حسن بن عمار بن علی شرنباللی مراقی الفالح میں لکھتے ہیں کہ‬
‫( و)یکرہ التنفل( بعد صلوتہ) ای فرض الصبح (و )یکرہ التنفل (بعد صلوة )فرض( العصر )وان لم تتغیر الشمس الخ وقال الطحطاوی‬
‫علی حاشیتہا ۔۔ قولہ (بعد صلوتہ) ای فرض الصبح ولو سنة سواء ترکہا بعذر او بدونہ۔‬
‫اور مکروہ ہے نفل پڑھنا اسکے نماز کے بعد یعنی صبح کے فرض کے بعد اور اسی طرح مکروہ ہے نفل پڑھنا نماز عصر کے‬
‫فرض کے بعد اگر چہ آفتاب میں تغیر نہ ہوا ہو ۔۔الخ اور عالمہ طحطاوی نے اسکے حاشیہ پر لکھا ہےکہ مصنف کا یہ قول کہ‬
‫صبح کے فرض کے بعد( یعنی صبح کے فرض کے بعد نوافل پڑھنا مکروہ ہیں )اگرچہ سنت فجر ہی کیوں نہ ہو برابر ہے کہ‬
‫عذر کی وجہ سے چھوٹ گئی ہوں یا بغیر عذر کے۔ حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفالح ص ‪188‬‬
‫عالمہ شیخ ابراہیم حلبی غنیة المتملی شرح منیة المصلی میں لکھتے ہیں کہ‬
‫(وھما) ای الوقتان المذکوران (مابعد طلوع الفجر الی ان ترتفع الشمس) فانہ یکرہ فی ھذہ الوقت النوفل کلھا (اال سنة الفجر )لما روی‬
‫مسلم عن حفصة قالت کان رسول ہللا اذا طلع الفجر ال یصلی اال رکعتین خفیفتین۔۔۔الخ(وما بعد صالة العصر الی غروب الشمس)۔۔۔۔الخ‬
‫اور وہ دو مکروہ اوقات جن کا ذکر ہوچکا ہے کہ ان میں صرف نوافل پڑھنا منع ہے وہ طلوع فجر سے لیکر طلوع شمس تک کا‬
‫وقت ہے کہ اس وقت تمام نوافل کا پڑھنا مکروہ ہے سوائے سنت فجر کے کیونکہ امام مسلم حضرت حفصہ کی روایت بیان کرتے‬
‫ہےکہ انہوں نے کہا کہ جب صبح صادق نکل آتی تو رسول ہللا صرف دو ہلکی سی رکعتی پڑھ لیتے تھے اور نماز عصر کے بعد‬
‫غروب شمس تک۔۔۔۔۔۔الخ غنیة المتملی ص ‪209‬‬
‫عالمہ ابن نجیم بحر الرائق میں لکھتے ہیں کہ‬
‫قولہ (وعن التنفل بعد صلوة الفجر والعصر ال عن قضاء فائتة و سجدة تالوة و صلوة جنازة )ای منع عن التنفل فی ھذین الوقتین قصدا‬
‫ال عن غیرہ۔۔۔۔الخ‬
‫اور ماتن کا کہنا کہ اور منع کیا گیا نماز فجر اور عصر کے بعد نوافل پڑھنے سے نہ کہ فوت شدہ نمازوں کی قضاء سے اور‬
‫سجدہ تالوت سے اور نماز جنازہ سے یعنی ان دو وقتوں میں صرف نوافل وغیرہ سے قصدا منع کیا گیا ہے نہ کہ دیگر نمازوں‬
‫سے ( یعنی فرئض ‪ ،‬سجدہ تالوت اور نماز جنازہ وغیرہ سے ) بحر الرائق البن نجیم ج‪،1‬ص‪ 437‬مکتبہ رشیدیہ‬
‫عالمہ سرخسی المبسوط کے اندر اوقات مکروہا پر کالم کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ‬
‫(ووقتان آخران ما بعد العصر قبل تغیر الشمس وما بعد صلوة الفجر قبل طلوع الشمس )فانہ ال یصلی فیھما شیء من النوافل ۔۔۔۔۔۔۔۔ولکن‬
‫یجوز اداء الفریضة فی ھذین الوقتین و کذلک الصلوة علی الجنازة و سجدة التالوة وانما النھی عن التطوعات خاصة ۔۔۔۔الخ المبسوط‬
‫لسرخسی ج‪،1‬ص‪ 141‬دار الکتب العلمیة‬
‫اور دو اور مکروہ اوقات میں سے نماز عصر کے بعد تغیر شمس سے پہلے کا وقت اور نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب سے پہلے‬
‫کا وقت ہے پس ان اوقات میں نوافل میں سے کوئی بھی نماز نہیں پڑھی جائے گی۔۔۔۔۔۔لیکن ان فو وقتوں میں فرائض کا اداء کرنا‬
‫جائز ہے اور اسی طرح نماز جنازہ اور سجدہ تالوت بھی خائز ہے اور ممانعت نوافل (و سنتوں وغیرہ) کے ساتھ ہے۔‬
‫عالمہ میدانی اللباب فی شرح الکتاب میں لکھتے ہیں کہ‬
‫(ویکرہ ان یتنفل) قصدا ولو لھا سبب( بعد صلوة الفجر حتی تطلع الشمس ) وترتفع (وبعد صلوة العصر) ولو لم تتغیر الشمس (حتی‬
‫تغرب۔۔۔۔۔۔۔الخ) اللباب فی شرح الکتاب ج‪،1‬ص‪ 44‬دار الکتاب العربی‬
‫اور مکروہ ہے قصدا نوافل پڑھنا اگرچہ اسکا کوئی سبب بھی ہو نماز فجر کے بعد یہاں تک سورج طلوع ہو کر خوب روشن ہو‬
‫جائے اور اسی طرح نوافل پڑھنا مکروہ ہے نماز عصر کے بعد اگرچہ سورج میں زردی نہ آئی ہو یہاں تک کہ سورج غروب‬
‫ہوجائے ۔‬
‫یہ تمام تر فقہائے احناف کی عبارات تھی کہ جن میں نماز فجر کے بعد نوافل وغیرہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور ان کا ماخذ‬
‫اصلی وہ احادیث ہیں کہ جن کو میں نے باب سابقہ میں ذکر کر دیا۔ وہللا ورسولہ اعلم ۔‬

‫تحقیقی رائے کا تعین‬

You might also like