You are on page 1of 4

‫کیا حضرت امیر معاویؓہ طلقاء صحابؓہ میں سے تھے ؟‬

‫تحقیق‪ :‬اسد الطحاوی الحنفی‬

‫ہم نے صحابہ کراؓم سے بغض رکھنے والوں کی ایک تحریر فسیبک پر دیکھی جس میں اپنی جہالت کے سبب اس نے یہ ثابت‬
‫کیا ہوا ہے کہ حضرت امیر معاویؓہ صحابہؓ میں سے نہ تھے بلکہ طلقاء میں سے تھے یعنی اس اجہل نے طلقاء کو صحابہ‬
‫کراؓم کی لسٹ سے بھی اڑا دیا ۔‬

‫‪ :‬اور اپنی دلیل میں جو روایت الیا وہ درج ذیل ہے‬


‫‪ /‬معاویہ کا شمار صحابہ اکرام میں نہیں ہوتا بلکہ طلقاء میں ہوتا ہے ‪/‬‬
‫امام ابن عساکر رضي الله عنه اپنی اسناِد جید کے ساتھ بحوالہ امام ابوداؤد الطیاسی رضي الله عنه بیان کرتے ہیں‬
‫وقال ابن عساكر بإسناد عن أبى داود الطياسى ثنا أيوب بن جابر عن أبى إسحاق ‪ ،‬عن الشود بن يزيد قال ‪ :‬قلت لعائشة ‪ :‬إال‬
‫تعجبين لرجل من الطلقاء ينازع أصحاب محمد صلى الله عليه و آله وسلم في الخالفة فقالت عائشة ‪ :‬وما تعجب من ذلك هو سلطان‬
‫الله يوتيه البر والفاجر ‪ ،‬وقد ملك فرعون أهل مصر أربعمائة‬
‫‪ :‬سنة‬
‫حضرت اسود بیان کرتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضي الله عنه سے کہا کیا آپ اس شخص (معاويه) پر تعجب نہیں کرتی جو‬
‫طلقاء میں سے ہے اور خالفت کے معاملہ میں رسول اللہ کے اصحاب (امیر المومنین علی) سے جھگڑتا ہے‬
‫تو عائشہ رضي الله عنه نے فرمایا ‪ :‬نہیں تعجب والی بات نہیں‪ ،‬یہ اقتدار الہی ہے وہ نیک و بد کو بھی عطا کرتا ہے اس نے‬
‫‪ :‬فرعون کو اہل مصر پر چار سو سال تک بادشاہ بنایا اور اسی طرح دیگر کفار کو بھی‬
‫البداية والنهاية (ت‪ :‬التركي)(‬
‫الجزء الحادی عشر ‪ ،‬ص‪131-130 /‬‬
‫اس روایت میں امیر المومنین علی بن ابی طالب اور آپکے گروہ کو صحابہ کہہ کر پکارا گیا ہے جبکہ جناب معاویہ کو طلقاء کہہ‬
‫کر مخاطب کیا گیا ہے‬
‫مندرجہ باال روایت کا تعلق اس زمانہ سے ہے جب معاویہ رسول اللہ کی احادیث (ہر صورت خلیفہ کی بیعت کی جائے) کو‬
‫جھٹال کر خلیفہ برحق امیر المومنین علی رضي الله عنہ سے جنگیں کرنے میں مشغول تھے‬
‫ان طلقاء کو صحابہ اکرام کے بعد کے طبقہ میں شمار کیا جاتا ہے‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫الجواب ( اسد الطحاوی‬

‫اس اجہل نے ایک روایت سے باطل مطلب اخذ کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکاال کہ طلقاء اور ہیں اور صحابہ کراؓم اور ہیں جبکہ یہ‬
‫اسکی جہالت کی سب سے بڑی دلیل ہے اور دوسری بات یہ روایت بھی باطل ہے‬
‫لکھتا ہے کہ امام ابن عساکر نے سند جید سے نقل کیا امام ابو داود طیالسی سے جبکہ سند شدید ضعیف اور واھی ہے جسکی‬
‫‪ :‬علت درج ذیل ہیں‬

‫‪ :‬جیسا کہ مذکورہ روایت کی سند امام ابو داود طیالیس سے یوں ہے‬
‫وقال ابن عساكر بإسناد عن أبى داود الطياسى ثنا أيوب بن جابر عن أبى إسحاق ‪ ،‬عن الشود بن يزيد(نوٹ سند میں االشود تحریف‬
‫ہے اصل نام االسود بن یزید ہے )‬

‫‪ :‬اس سند میں مذکورہ ایوب بن جابر خود ضعیف راوی ہے جس پر درج ذیل ائمہ کی جروحات ہیں‬
‫!پہال ضعف‬
‫‪.‬قال َعبد الَّلِه ْبن َأْح َم د ْبن حنبل َعن أبيه يشبه حديثه حديث أهل الصدق‬
‫َو َقال َعباس الُّدوِر ُّي ‪ :‬قلت ليحيى‪ :‬كيف حديثه؟ قال ضعيف وليس بشيٍء‬
‫َو َقال معاوية ْبن َص اِلح‪َ ،‬ع ْن يحيى‪ :‬ليس بشيٍء‬
‫‪َ.‬و َقال أحمد ْبن عصام األصبهاني ‪ :‬كان علي ابن المديني يضع حديث َأُّيوب ْبن َج اِبر‬
‫‪َ.‬و َقال الَّنَس ائي ‪ :‬ضعيف‬
‫‪َ.‬و َقال َأُبو ُز ْر َعة ‪ :‬واهي اْلَح ِد يث ضعيف‪ ،‬وُهَو أشبه من أخيه‬
‫‪َ.‬و َقال َأُبو حاتم‪ :‬ضعيف اْلَح ِد يث‬
‫]تہذیب الکمال برقم‪[609 :‬‬

‫!دوسرا ضعف‬
‫نیز یہ امام ابو اسحاق سے قبل از اختالط سننے والے رواتہ میں سے بھی نہیں ہے جیسا کہ امام شعبہ ‪ ،‬امام سفیان ثوری وغیرہم‬
‫تھے‬
‫یعنی اسکا سماع ابو اسحاق سے قبل از اختالط سننا ثابت نہیں‬

‫!تیسرا ضعف‬
‫ابو اسحاق چوتھے درجہ کے مدلس ہیں جو ضعفاء و مجہولین و متروکین سے تدلیس کرتے تھے اور مذکورہ روایت عن سے‬
‫روایت کر رہے ہیں‬
‫!!! تو یہ روایت واھی اور ضعیف جدا ہے‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫!حضرت امیر معاویؓہ کا فتح مکہ سے پہلے اسالم قبول کرنے کے دلیل‬

‫َباُب َجَو اِز َتْقِص يِر اْلُم ْعَتِم ِر ِم ْن َشْع ِرِه َو َأَّنُه اَل َيِج ُب َح ْلُقُه ‪َ ،‬و َأَّنُه ُيْسَتَح ُّب َك ْو ُن َح ْلِقِه َأْو َتْقِص يِرِه ِع ْنَد اْلَم ْر َوِة ‪.‬‬
‫باب‪ :‬عمرہ کرنے والے کے لئے اپنے بالوں کے کٹوانے کا جواز‪ ،‬اور سر کا منڈانا واجب نہیں ہے‪ ،‬اور سر کے منڈوانے ‪33.‬‬
‫اور کٹوانے کے استحباب کا بیان‬
‫حدثنا عمرو الناقد ‪ ،‬حدثنا سفيان بن عيينة ‪ ،‬عن هشام بن حجير ‪ ،‬عن طاوس ‪ ،‬قال‪ :‬قال ابن عباس ‪ :‬قال لي معاوية‪ " :‬اعلمت‬
‫‪ ".‬اني قصرت من راس رسول الله صلى الله عليه وسلم عند المروة بمشقص "‪ ،‬فقلت له ‪ " :‬ال اعلم هذا إال حجة عليك‬

‫طاؤس رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ذکر کیا‪ ،‬مجھ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے‬
‫کہا کہ میں تمہیں خبر دے چکا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بال کترے ہیں مروہ کے‬
‫نزدیک تیر کی پیکان سے سو میں نے ان کو جواب دیا کہ یہ تو تمہارے اوپر حجت ہے۔‬
‫]صحیح مسلم برقم‪ ،3021 :‬صحیح بخاری ‪ ،‬برقم‪ ،1730 :‬مسند احمد برقم‪ 16863 :‬وسندہ حسن[‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪ :‬اور حضرت محمد ﷺ نے اپنی زندگی میں صرف چار عمرے کیے تھے جنکی تفصیل درج ذیل ہے‬

‫حدثنا حسان بن حسان‪ ،‬حدثنا همام‪ ،‬عن قتادة‪ ،‬سالت انسا رضي الله عنه‪ "،‬كم اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال‪ :‬اربع عمرة‬
‫الحديبية في ذي القعدة حيث صده المشركون‪ ،‬وعمرة من العام المقبل في ذي القعدة حيث صالحهم‪ ،‬وعمرة الجعرانة إذ قسم غنيمة اراه‬
‫‪".‬حنين‪ ،‬قلت‪ :‬كم حج؟ قال‪ :‬واحدة‬

‫ہم سے حسان بن حسان نے بیان کیا کہ ہم سے ہمام بن یحیٰی نے بیان کیا‪ ،‬ان سے قتادہ نے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ‬
‫سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے تھے؟ تو آپ نے فرمایا کہ چار‪ ،‬عمرہ حدیبیہ ذی قعدہ میں‬
‫جہاں پر مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا تھا‪ ،‬پھر آئندہ سال ذی قعدہ ہی میں ایک عمرہ قضاء جس کے متعلق‬
‫آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے صلح کی تھی اور تیسرا عمرہ جعرانہ جس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غالبًا‬
‫حنین کی غنیمت تقسیم کی تھی‪ ،‬چوتھا حج کے ساتھ میں نے پوچھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کتنے کئے؟ فرمایا‬
‫کہ ایک۔‬
‫]صحیح بخاری ‪ ،‬برقم‪ ،1778 :‬صحیح مسلم ‪[1253 :‬‬

‫‪ :‬امام ترمذی نے بھی حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے‬


‫حدثنا قتيبة‪ ،‬حدثنا داود بن عبد الرحمن العطار‪ ،‬عن عمرو بن دينار‪ ،‬عن عكرمة‪ ،‬عن ابن عباس‪ ،‬ان النبي صلى الله عليه وسلم "‬
‫اعتمر اربع عمر‪ :‬عمرة الحديبية‪ ،‬وعمرة الثانية من قابل‪ ،‬وعمرة القضاء في ذي القعدة‪ ،‬وعمرة الثالثة من الجعرانة‪ ،‬والرابعة التي مع‬
‫‪.‬حجته "‪ .‬قال‪ :‬وفي الباب عن انس‪ ،‬وعبد الله بن عمرو‪ ،‬وابن عمر‬

‫حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے‪ :‬حدیبیہ کا عمرہ‪،‬‬
‫دوسرا عمرہ اگلے سال یعنی ذی قعدہ میں قضاء کا عمرہ‪ ،‬تیسرا عمرہ جعرانہ ‪ ؎۱‬کا‪ ،‬چوتھا عمرہ جو اپنے حج کے ساتھ کیا۔‬
‫]سنن ترمذی‪ ،‬برقم‪،816 :‬وسندہ صحیح[‬
‫یعنی نبی اکرمﷺ نے ایک عمرہ ‪۶‬ھ میں کرنے کے لیے گئے جس سال صلح حدیبیہ ہوا تو مشرکین نے اجازت نہ دی ۔ مکہ‬
‫میں ہی جانور ضبح کریے۔‬

‫دوسرا عمرہ‬
‫کے سال عمرہ القضاء میں جو ‪ ۷‬ھجری میں ادا فرمایا‬ ‫صلح حدیبیہ‬

‫تیسرا عمرہ‬
‫جعرانہ غزوہ حنین کے موقع پر‬

‫چوتھا عمرہ‬
‫حج کے ساتھ‬

‫‪ :‬جیسا کہ امام نووی شرح مسلم میں حضور اکرمﷺ کے عمروں کی تعداد اور عرصہ کا باب قائم کرتےہیں‬
‫)باب بيان عدد عمر النبي صلى الله عليه وسلم وزمانهن(‬

‫‪ :‬اور پھر فرماتےہیں‬


‫قوله ( اعتمر النبي ص لى الله عليه وسلم أر بع عمر كله ن في ذي القعدة إال التي مع حج ته عمرة من الح ديبية و ز من الح ديبية في ذي‬
‫القعدة وعمرة من العام المقبل في ذي القعدة وعمرة من الجعرانة حيث قسم غنائم حنين في ذي القعدة وعمرة مع حجته؂‬
‫قول کہ حضرت نبی اکرمﷺ نے چار عمرے فرمائے ہیں اور یہ سب عمرے زی عقدہ میں فرمائے بشمول جو عمرہ انہوں نے حج‬
‫کے ساتھ ادا کیا ۔ جن میں حدیبیہ کے سال میں ہی ایک ادا کیا عقدہ میں ‪ ،‬اور ایک عمرہ جعرنہ کا جو کہ حنین کے دنوں‬
‫میں کیا ‪ ،‬اور ایک عمرہ حج کے ساتھ ادا کیا‬

‫‪ :‬پھر فرماتےہیں‬
‫ء وإنما اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم هذه العمرة في ذي القعدة لفضيلة هذا الشهر ولمخالفة الجاهلية في ذلك فإنهم كانوا يرونه من‬
‫أفجر الفجور كما سبق ففعله صلى الله عليه وسلم مرات في هذه األشهر ليكون أبلغ في بيان جوازه فيها وأبلغ في إبطال ما كانت‬
‫الجاهلية عليه‬
‫علماء کرام کا یہ فرمان کہ نبی ﷺ نے یہ عمرے ذی القعدہ کی فضیلت اوردورجاھلیت کی مخالفت کے سبب اسی مہینہ میں ادا‬
‫کیے اس لیے کہ اہل جاہلیت کا یہ خیال تھا کہ ذی القعدہ ميں عمرہ کرنا کوئی بہت بڑے فجور کا عمل ہے جیسا کہ سابقہ بیان‬
‫ہو چکا ہے ‪ ،‬تونبی ﷺ نے اسے متعدد بار اس لیے ادا کیا تا کہ لوگوں کے لیے واضح دلیل عیاں ہو جائے کہ اس مہینہ‬
‫میں عمرہ کرنا جائزہے اور اسکے برعکس اہل جاہلیت کا موقف باطل ہے واللہ تعالی اعلم ۔‬
‫]المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج‪،‬ج‪ ،۳‬ص ‪[۲۳۶‬‬

‫تو ثابت ہوا کہ غزوہ حنین کے موقع پر تو حضرت امیر معاویؓہ کا شامل ہونا بالکل ثابت نہیں تو باقی ‪ ۷‬ھ کا عمرہ یعنی صلح‬
‫حدیبیہ کے سال عمرہ القضاء میں جو عمر ہ نبی اکرمﷺ نے ادا کیا اسی عمرے میں کے سال میں حضرت امیر معاویؓہ نبی‬
‫اکرمﷺ کے مروہ کے مقام پر بال کاٹے تھے اور تب وہ مسلمان تھے البتہ انہوں نے اپنے قبولیت اسالم کا اعالن فتح مکہ کے‬
‫دن کیا تھا‬

‫‪ :‬یہی وجہ ہے کہ امام ذھبی تاریخ االسالم میں فرماتے ہیں‬

‫‪.‬معاوية بن أبي سفيان أسلم قبل أبيه في عمرة القضاء‪ ،‬وبقي يخاف من الخروج إلى النبي صلى الله عليه وسلم‪ ،‬من أبيه‬
‫حضرت معاویہ بن ابی سفیان یہ اپنے والد حضرت ابو سفیان سے پہلے اسالم قبول کر چک تھے عمرہ قضاء کے موقع پر ۔ لیکن‬
‫یہ حضور اکرمﷺ کی طرف شامل ہونے سے اپنے والد سے ڈرتے تھے‬
‫]تاریخ االسالم ‪ ،‬برقم‪[۹۵:‬‬

‫‪:‬اسی طرح سیر اعالم میں انکے ظہور اسالم کو فتح مکہ کا موقع بیان کیا جیسا کہ فرماتےہیں‬
‫قيل‪ :‬إنه أسلم قبل أبيه وقت عمرة القضاء‪ ،‬وبقي يخاف من اللحاق بالنبي ‪-‬صلى الله عليه وسلم ‪ -‬من أبيه‪ ،‬ولكن ما ظهر إسالمه إال‬
‫يوم الفتح‬

‫اور کہا گیا ہے کہ انہوں نے اسالم اپنے والد سے پہلے عمرہ قضاء کے موقع پر کر لیاتھا اور اپنے والد سے ڈرنے کے سبب‬
‫لیکن انکا ظہور اسالم(کہ تمام لوگ انکے اسالم پر مطلع ہونا) سوائے یوم فتح کے دن نہیں ہوا‬ ‫نبی اکرمﷺ کی طرف نہ ٓائے‬
‫]سیر اعالم النبالء‪ ،‬برقم‪[۲۵:‬‬

‫‪ :‬اسی طرح امام ابن عبدالبر نے انکے بارے مکمل کالم یوں کیا ہے‬
‫كان هو وأبوه وأخوه من مسلمة الفتح‪ .‬وقد روى عن معاوية أنه قال‪ :‬أسلمت يوم القضية [‪ ، ]1‬ولقيت النبي صلى الله عليه وسلم ‪،‬‬
‫‪.‬مسلما‬

‫حضرت امیر معاویؓہ ‪ ،‬انکے والد ‪ ،‬انکے بھائی فتح کے دن کے مسلمین میں سے ہیں اور حضرت امیر معاویؓہ سے روایت ہے‬
‫کہ وہ یوم قضیہ (عمرہ) کے دن اسالم قبول کر گئے تھے اور جب یہ نبی اکرمﷺ سے (عمرہ قضاء کے موقع) پر ملے تو‬
‫مسلمان تھے‬
‫]االستيعاب في معرفة األصحاب‪ ،‬برقم‪[2435 :‬‬

‫! یہی موقف امام ابن اثیر نے اسد الغابہ میں بیان کیا ہے اور دیگر مورخین و محدثین کی ایک جماعت نے بھی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪:‬امام ابن حجر عسقالنی کی تحقیق‬

‫‪ :‬امام ابن حجرعسقالنی تقریب میں فرماتےہیں‬


‫معاوية ابن أبي سفيان صخر ابن حرب ابن أمية األموي أبو عبد الرحمن الخليفة صحابي أسلم قبل الفتح وكتب الوحي ومات‬

‫یہ ابن حرب بن امیہ اموی ھے انکی کنیت ابو عبد الرحٰم ن تھی یہ خلیفہ اور صحابی رسولﷺ تھے‬ ‫حضرت معاویہ بن ابی سفیاؓن‬
‫یہ فتح مکہ سے قبل اسالم قبول کر چکے تھے اور حضور اکرمﷺ کی وحی کے کاتب تھے‬
‫]تقریب التہذیب ‪ ،‬برقم‪[6758 :‬‬

‫‪ :‬نیز صابہ میں تفصیل سے بیان کرتےہیں‬


‫وأنه كان في عمرة القضاء مسلما‪ ،‬وهذا يعارضه ما ثبت في الصحيح‪ ،‬عن سعد بن أبي وقاص‪ ،‬أنه قال في العمرة في أشهر الحج‪:‬‬
‫فعلناها‪ ،‬وهذا يومئذ كافر‪ .‬ويحتمل إن ثبت األول أن يكون سعد أطلق ذلك بحسب ما استصحب من حاله‪ ،‬ولم يطلع على أنه كان أسلم‬
‫‪.‬إلخفائه إلسالمه‬
‫وقد أخرج أحمد‪ ،‬من طريق محمد بن علي بن الحسين‪ ،‬عن ابن عباس‪ -‬أن معاوية قال‪ :‬قصرت عن رسول الله صلى الله عليه وآله‬
‫وسلم عند المروة‪ ،‬وأصل الحديث في البخاري م۔ن طريق طاوس‪ ،‬عن ابن عباس‪ ،‬بلفظ قصرت بمشقص ‪ ،‬ولم يذكر المروة‪ ،‬وذكر‬
‫‪.‬المروة يعين أنه كان معتمرا‪ ،‬ألنه كان في حجة الوداع حلق بمنى‪ ،‬كما ثبت في الصحيحين‪ ،‬عن أنس‬

‫نیز یہ عمرہ قضا کے موقع پر مسلمان تھے‬


‫اور بخاری میں جو حدیث (بظاہر ) اس موقف کے مخالف ہے کہ جو حضرت سعد بن ابی وقاص نے حج کے مہینوں میں عمرہ‬
‫کے بارے ارشاد فرمایا ہاں ہم نے عمرہ کیا تھا اور حضرت معاویہؓ اس وقت حالت کفر میں تھے‬

‫اگر پہلی حدیث صحیح مانی جائے تو یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت سعد نے انکی گزشتہ حالت پر حکم لگایا دیا اس لیے کہ ابھی‬
‫تک ان کو یہ معلوم نہیں ہوا تھا یہ اسالم ال چکے ہیں ‪ ،‬کیونکہ انہوں نے خود اسالم النے کو چھپائے رکھا تھا‬

‫امام ا٘ح د نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے حضرت معاویؓہ نے کہا میں نے مروہ پہاڑی کے پاس نبی اکرمﷺ کے بال‬
‫مبارک کاٹے‬
‫اصل حدیث بخاری میں طاوس کے طریق سے ابن عباس سے مروی ہے ''فصرت بمشقص'' کے الفاظ یعنی استرے سے بال‬
‫مبارک کاٹے ۔ یہاں مروہ پہاڑی کا ذکر نہیں ہے ۔ لیکن مروہ پہاڑی کے ذکر سے (جو کہ مسند احمد کی روایت میں تصریح‬
‫ہے ) یہ بات معلوم ہو گئی ہے کہ یہ واقعہ عمرے کا ہے اس لیے حجتہ الوداع ک موقع پر تو ٓاپﷺ نے حلق کروایاتھا ‪ ،‬اور‬
‫وہ بھی منٰی میں جیسا کہ بخاری و مسلم میں حضرت انس بن مالؓک سے روایت مروی ہے‬
‫))یعنی حضرت امیر معاویؓہ نے جب حضور اکرمﷺ کے بال کاٹے تو یہ عمرہ قضا کا موقف تھا(‬
‫]اإلصابة في تمييز الصحابة‪ ،‬ج‪ ،۶‬ص‪[ ۱۲۰‬‬

‫پس تحقیقا ثابت ہوا کہ حضرت سیدنا امیر معاویؓہ خلیفہ المسلمین ‪۷‬ھجری میں اسالم قبول کر چکے تھے اور انکا صحیح اسناد سے‬
‫عمرہ قضا کے موقع پر نبی اکرمﷺ کے ساتھ ہونا اور انکے بال مبارک کو کاٹنے کا شرف حاصل کر چکے تھے‬

‫اور باقائدہ اپنے والد کے ساتھ فتح مکہ کے موقع پر اپنے اسالم کے اعالن کیا اور اس دن اسالم کے ظہور پر تمام لوگ مطلع‬
‫ہوئے سوائے نبی اکرمﷺ اور چند صحابہؓ کو پہلے معلوم تھا‬

‫اور نبی اکرمﷺ کا یہ اعالن مبارک فرمانا کہ جو فتح مکہ کے دن حضرت ابو سفیاؓن کے گھر پناہ لیگا وہ بھی امان میں ہے‬
‫یہ بھی اس تحقیق کو فائدہ دیتا ہے کہ حضرت امیر معاویؓہ چونکہ پہلے مسلمان تھے اورنبی اکرمﷺ کو حضرت ابو سفیانؓ کو‬
‫مقام و عزت سے بھی نواز دیا‬

‫تحقیق‪ :‬اسد الطحاوی الحنفی البریلوی‬

You might also like