Professional Documents
Culture Documents
ہم نے صحابہ کراؓم سے بغض رکھنے والوں کی ایک تحریر فسیبک پر دیکھی جس میں اپنی جہالت کے سبب اس نے یہ ثابت
کیا ہوا ہے کہ حضرت امیر معاویؓہ صحابہؓ میں سے نہ تھے بلکہ طلقاء میں سے تھے یعنی اس اجہل نے طلقاء کو صحابہ
کراؓم کی لسٹ سے بھی اڑا دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اجہل نے ایک روایت سے باطل مطلب اخذ کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکاال کہ طلقاء اور ہیں اور صحابہ کراؓم اور ہیں جبکہ یہ
اسکی جہالت کی سب سے بڑی دلیل ہے اور دوسری بات یہ روایت بھی باطل ہے
لکھتا ہے کہ امام ابن عساکر نے سند جید سے نقل کیا امام ابو داود طیالسی سے جبکہ سند شدید ضعیف اور واھی ہے جسکی
:علت درج ذیل ہیں
:جیسا کہ مذکورہ روایت کی سند امام ابو داود طیالیس سے یوں ہے
وقال ابن عساكر بإسناد عن أبى داود الطياسى ثنا أيوب بن جابر عن أبى إسحاق ،عن الشود بن يزيد(نوٹ سند میں االشود تحریف
ہے اصل نام االسود بن یزید ہے )
:اس سند میں مذکورہ ایوب بن جابر خود ضعیف راوی ہے جس پر درج ذیل ائمہ کی جروحات ہیں
!پہال ضعف
.قال َعبد الَّلِه ْبن َأْح َم د ْبن حنبل َعن أبيه يشبه حديثه حديث أهل الصدق
َو َقال َعباس الُّدوِر ُّي :قلت ليحيى :كيف حديثه؟ قال ضعيف وليس بشيٍء
َو َقال معاوية ْبن َص اِلحَ ،ع ْن يحيى :ليس بشيٍء
َ.و َقال أحمد ْبن عصام األصبهاني :كان علي ابن المديني يضع حديث َأُّيوب ْبن َج اِبر
َ.و َقال الَّنَس ائي :ضعيف
َ.و َقال َأُبو ُز ْر َعة :واهي اْلَح ِد يث ضعيف ،وُهَو أشبه من أخيه
َ.و َقال َأُبو حاتم :ضعيف اْلَح ِد يث
]تہذیب الکمال برقم[609 :
!دوسرا ضعف
نیز یہ امام ابو اسحاق سے قبل از اختالط سننے والے رواتہ میں سے بھی نہیں ہے جیسا کہ امام شعبہ ،امام سفیان ثوری وغیرہم
تھے
یعنی اسکا سماع ابو اسحاق سے قبل از اختالط سننا ثابت نہیں
!تیسرا ضعف
ابو اسحاق چوتھے درجہ کے مدلس ہیں جو ضعفاء و مجہولین و متروکین سے تدلیس کرتے تھے اور مذکورہ روایت عن سے
روایت کر رہے ہیں
!!! تو یہ روایت واھی اور ضعیف جدا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
!حضرت امیر معاویؓہ کا فتح مکہ سے پہلے اسالم قبول کرنے کے دلیل
َباُب َجَو اِز َتْقِص يِر اْلُم ْعَتِم ِر ِم ْن َشْع ِرِه َو َأَّنُه اَل َيِج ُب َح ْلُقُه َ ،و َأَّنُه ُيْسَتَح ُّب َك ْو ُن َح ْلِقِه َأْو َتْقِص يِرِه ِع ْنَد اْلَم ْر َوِة .
باب :عمرہ کرنے والے کے لئے اپنے بالوں کے کٹوانے کا جواز ،اور سر کا منڈانا واجب نہیں ہے ،اور سر کے منڈوانے 33.
اور کٹوانے کے استحباب کا بیان
حدثنا عمرو الناقد ،حدثنا سفيان بن عيينة ،عن هشام بن حجير ،عن طاوس ،قال :قال ابن عباس :قال لي معاوية " :اعلمت
".اني قصرت من راس رسول الله صلى الله عليه وسلم عند المروة بمشقص " ،فقلت له " :ال اعلم هذا إال حجة عليك
طاؤس رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ذکر کیا ،مجھ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے
کہا کہ میں تمہیں خبر دے چکا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بال کترے ہیں مروہ کے
نزدیک تیر کی پیکان سے سو میں نے ان کو جواب دیا کہ یہ تو تمہارے اوپر حجت ہے۔
]صحیح مسلم برقم ،3021 :صحیح بخاری ،برقم ،1730 :مسند احمد برقم 16863 :وسندہ حسن[
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:اور حضرت محمد ﷺ نے اپنی زندگی میں صرف چار عمرے کیے تھے جنکی تفصیل درج ذیل ہے
حدثنا حسان بن حسان ،حدثنا همام ،عن قتادة ،سالت انسا رضي الله عنه "،كم اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال :اربع عمرة
الحديبية في ذي القعدة حيث صده المشركون ،وعمرة من العام المقبل في ذي القعدة حيث صالحهم ،وعمرة الجعرانة إذ قسم غنيمة اراه
".حنين ،قلت :كم حج؟ قال :واحدة
ہم سے حسان بن حسان نے بیان کیا کہ ہم سے ہمام بن یحیٰی نے بیان کیا ،ان سے قتادہ نے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ
سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے تھے؟ تو آپ نے فرمایا کہ چار ،عمرہ حدیبیہ ذی قعدہ میں
جہاں پر مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا تھا ،پھر آئندہ سال ذی قعدہ ہی میں ایک عمرہ قضاء جس کے متعلق
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے صلح کی تھی اور تیسرا عمرہ جعرانہ جس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غالبًا
حنین کی غنیمت تقسیم کی تھی ،چوتھا حج کے ساتھ میں نے پوچھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کتنے کئے؟ فرمایا
کہ ایک۔
]صحیح بخاری ،برقم ،1778 :صحیح مسلم [1253 :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے :حدیبیہ کا عمرہ،
دوسرا عمرہ اگلے سال یعنی ذی قعدہ میں قضاء کا عمرہ ،تیسرا عمرہ جعرانہ ؎۱کا ،چوتھا عمرہ جو اپنے حج کے ساتھ کیا۔
]سنن ترمذی ،برقم،816 :وسندہ صحیح[
یعنی نبی اکرمﷺ نے ایک عمرہ ۶ھ میں کرنے کے لیے گئے جس سال صلح حدیبیہ ہوا تو مشرکین نے اجازت نہ دی ۔ مکہ
میں ہی جانور ضبح کریے۔
دوسرا عمرہ
کے سال عمرہ القضاء میں جو ۷ھجری میں ادا فرمایا صلح حدیبیہ
تیسرا عمرہ
جعرانہ غزوہ حنین کے موقع پر
چوتھا عمرہ
حج کے ساتھ
:جیسا کہ امام نووی شرح مسلم میں حضور اکرمﷺ کے عمروں کی تعداد اور عرصہ کا باب قائم کرتےہیں
)باب بيان عدد عمر النبي صلى الله عليه وسلم وزمانهن(
:پھر فرماتےہیں
ء وإنما اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم هذه العمرة في ذي القعدة لفضيلة هذا الشهر ولمخالفة الجاهلية في ذلك فإنهم كانوا يرونه من
أفجر الفجور كما سبق ففعله صلى الله عليه وسلم مرات في هذه األشهر ليكون أبلغ في بيان جوازه فيها وأبلغ في إبطال ما كانت
الجاهلية عليه
علماء کرام کا یہ فرمان کہ نبی ﷺ نے یہ عمرے ذی القعدہ کی فضیلت اوردورجاھلیت کی مخالفت کے سبب اسی مہینہ میں ادا
کیے اس لیے کہ اہل جاہلیت کا یہ خیال تھا کہ ذی القعدہ ميں عمرہ کرنا کوئی بہت بڑے فجور کا عمل ہے جیسا کہ سابقہ بیان
ہو چکا ہے ،تونبی ﷺ نے اسے متعدد بار اس لیے ادا کیا تا کہ لوگوں کے لیے واضح دلیل عیاں ہو جائے کہ اس مہینہ
میں عمرہ کرنا جائزہے اور اسکے برعکس اہل جاہلیت کا موقف باطل ہے واللہ تعالی اعلم ۔
]المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج،ج ،۳ص [۲۳۶
تو ثابت ہوا کہ غزوہ حنین کے موقع پر تو حضرت امیر معاویؓہ کا شامل ہونا بالکل ثابت نہیں تو باقی ۷ھ کا عمرہ یعنی صلح
حدیبیہ کے سال عمرہ القضاء میں جو عمر ہ نبی اکرمﷺ نے ادا کیا اسی عمرے میں کے سال میں حضرت امیر معاویؓہ نبی
اکرمﷺ کے مروہ کے مقام پر بال کاٹے تھے اور تب وہ مسلمان تھے البتہ انہوں نے اپنے قبولیت اسالم کا اعالن فتح مکہ کے
دن کیا تھا
.معاوية بن أبي سفيان أسلم قبل أبيه في عمرة القضاء ،وبقي يخاف من الخروج إلى النبي صلى الله عليه وسلم ،من أبيه
حضرت معاویہ بن ابی سفیان یہ اپنے والد حضرت ابو سفیان سے پہلے اسالم قبول کر چک تھے عمرہ قضاء کے موقع پر ۔ لیکن
یہ حضور اکرمﷺ کی طرف شامل ہونے سے اپنے والد سے ڈرتے تھے
]تاریخ االسالم ،برقم[۹۵:
:اسی طرح سیر اعالم میں انکے ظہور اسالم کو فتح مکہ کا موقع بیان کیا جیسا کہ فرماتےہیں
قيل :إنه أسلم قبل أبيه وقت عمرة القضاء ،وبقي يخاف من اللحاق بالنبي -صلى الله عليه وسلم -من أبيه ،ولكن ما ظهر إسالمه إال
يوم الفتح
اور کہا گیا ہے کہ انہوں نے اسالم اپنے والد سے پہلے عمرہ قضاء کے موقع پر کر لیاتھا اور اپنے والد سے ڈرنے کے سبب
لیکن انکا ظہور اسالم(کہ تمام لوگ انکے اسالم پر مطلع ہونا) سوائے یوم فتح کے دن نہیں ہوا نبی اکرمﷺ کی طرف نہ ٓائے
]سیر اعالم النبالء ،برقم[۲۵:
:اسی طرح امام ابن عبدالبر نے انکے بارے مکمل کالم یوں کیا ہے
كان هو وأبوه وأخوه من مسلمة الفتح .وقد روى عن معاوية أنه قال :أسلمت يوم القضية [ ، ]1ولقيت النبي صلى الله عليه وسلم ،
.مسلما
حضرت امیر معاویؓہ ،انکے والد ،انکے بھائی فتح کے دن کے مسلمین میں سے ہیں اور حضرت امیر معاویؓہ سے روایت ہے
کہ وہ یوم قضیہ (عمرہ) کے دن اسالم قبول کر گئے تھے اور جب یہ نبی اکرمﷺ سے (عمرہ قضاء کے موقع) پر ملے تو
مسلمان تھے
]االستيعاب في معرفة األصحاب ،برقم[2435 :
! یہی موقف امام ابن اثیر نے اسد الغابہ میں بیان کیا ہے اور دیگر مورخین و محدثین کی ایک جماعت نے بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ابن حرب بن امیہ اموی ھے انکی کنیت ابو عبد الرحٰم ن تھی یہ خلیفہ اور صحابی رسولﷺ تھے حضرت معاویہ بن ابی سفیاؓن
یہ فتح مکہ سے قبل اسالم قبول کر چکے تھے اور حضور اکرمﷺ کی وحی کے کاتب تھے
]تقریب التہذیب ،برقم[6758 :
اگر پہلی حدیث صحیح مانی جائے تو یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت سعد نے انکی گزشتہ حالت پر حکم لگایا دیا اس لیے کہ ابھی
تک ان کو یہ معلوم نہیں ہوا تھا یہ اسالم ال چکے ہیں ،کیونکہ انہوں نے خود اسالم النے کو چھپائے رکھا تھا
امام ا٘ح د نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے حضرت معاویؓہ نے کہا میں نے مروہ پہاڑی کے پاس نبی اکرمﷺ کے بال
مبارک کاٹے
اصل حدیث بخاری میں طاوس کے طریق سے ابن عباس سے مروی ہے ''فصرت بمشقص'' کے الفاظ یعنی استرے سے بال
مبارک کاٹے ۔ یہاں مروہ پہاڑی کا ذکر نہیں ہے ۔ لیکن مروہ پہاڑی کے ذکر سے (جو کہ مسند احمد کی روایت میں تصریح
ہے ) یہ بات معلوم ہو گئی ہے کہ یہ واقعہ عمرے کا ہے اس لیے حجتہ الوداع ک موقع پر تو ٓاپﷺ نے حلق کروایاتھا ،اور
وہ بھی منٰی میں جیسا کہ بخاری و مسلم میں حضرت انس بن مالؓک سے روایت مروی ہے
))یعنی حضرت امیر معاویؓہ نے جب حضور اکرمﷺ کے بال کاٹے تو یہ عمرہ قضا کا موقف تھا(
]اإلصابة في تمييز الصحابة ،ج ،۶ص[ ۱۲۰
پس تحقیقا ثابت ہوا کہ حضرت سیدنا امیر معاویؓہ خلیفہ المسلمین ۷ھجری میں اسالم قبول کر چکے تھے اور انکا صحیح اسناد سے
عمرہ قضا کے موقع پر نبی اکرمﷺ کے ساتھ ہونا اور انکے بال مبارک کو کاٹنے کا شرف حاصل کر چکے تھے
اور باقائدہ اپنے والد کے ساتھ فتح مکہ کے موقع پر اپنے اسالم کے اعالن کیا اور اس دن اسالم کے ظہور پر تمام لوگ مطلع
ہوئے سوائے نبی اکرمﷺ اور چند صحابہؓ کو پہلے معلوم تھا
اور نبی اکرمﷺ کا یہ اعالن مبارک فرمانا کہ جو فتح مکہ کے دن حضرت ابو سفیاؓن کے گھر پناہ لیگا وہ بھی امان میں ہے
یہ بھی اس تحقیق کو فائدہ دیتا ہے کہ حضرت امیر معاویؓہ چونکہ پہلے مسلمان تھے اورنبی اکرمﷺ کو حضرت ابو سفیانؓ کو
مقام و عزت سے بھی نواز دیا