Professional Documents
Culture Documents
com
سورة ال َمائدة
بِس ِْم هَّللا ِ الرَّحْ َم ِن الر ِ
َّح ِيم
ت لَ ُك ْم بَ ِهي َمةُ ين آ َمنُوا أَ ْوفُوا بِ ْال ُعقُو ِد ۚ أُ ِحلَّ ْ يَا أَيُّهَا الَّ ِذ َ
ص ْي ِد َوأَ ْنتُ ْم
اأْل َ ْن َع ِام إِاَّل َما يُ ْتلَى َعلَ ْي ُك ْم َغ ْي َر ُم ِحلِّي ال َّ
ُح ُر ٌم ۗ إِ َّن هَّللا َ يَحْ ُك ُم َما ي ُِري ُد
﴿﴾005:001
ين آ َمنُوا اَل تُ ِحلُّوا َش َعائِ َر هَّللا ِ َواَل ال َّش ْه َر يَا أَيُّهَا الَّ ِذ َ
ْتين ْالبَي َ ي َواَل ْالقَاَل ئِ َد َواَل آ ِّم َ ْال َح َرا َم َواَل ْالهَ ْد َ
ون فَضْ اًل ِم ْن َربِّ ِه ْم َو ِرضْ َوانًا ۚ َوإِ َذا ْال َح َرا َم يَ ْبتَ ُغ َ
آن قَ ْو ٍم أَ ْن َحلَ ْلتُ ْم فَاصْ طَا ُدوا ۚ َواَل يَجْ ِر َمنَّ ُك ْم َشنَ ُ
ص ُّدو ُك ْم َع ِن ْال َمس ِْج ِد ْال َح َر ِام أَ ْن تَ ْعتَ ُدواَ ۘ vوتَ َعا َونُوا َ
َعلَى ْالبِرِّ َوالتَّ ْق َوى ۖ َواَل تَ َعا َونُوا َعلَى اإْل ِ ْث ِم
ان ۚ َواتَّقُوا هَّللا َ ۖ إِ َّن هَّللا َ َش ِدي ُد ْال ِعقَا ِ
ب َو ْال ُع ْد َو ِ
﴿﴾005:002
[جالندھری] مومنو! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا
اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ
ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کریئے گئے ہوں اور) جن کے
گلوں میں پٹّے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر
(یعنی بیت ہللا) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے پروردگار کے فضل
اور اسکی خوشنودی کے طلبگار ہوں۔ اور جب احرام اتار دو تو
(پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو۔ اور لوگوں vکی دشمنی اس وجہ
سے ہے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں
اس بات پر آمادہ vنہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو۔ اور
(دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے vکی
مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا
سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے۔
تفسیر ابن كثیر
ير َو َما أُ ِه َّل ت َعلَ ْي ُك ُم ْال َم ْيتَةُ َوال َّد ُم َولَحْ ُم ْال ِخ ْن ِز ِ ُح ِّر َم ْ
لِ َغي ِْر هَّللا ِ بِ ِه َو ْال ُم ْن َخنِقَةُ َو ْال َم ْوقُو َذةُ َو ْال ُمتَ َر ِّديَةُv
َوالنَّ ِطي َحةُ َو َما أَ َك َل ال َّسبُ ُع إِاَّل َما َذ َّك ْيتُ ْم َو َما ُذبِ َح َعلَى
ق ۗ ْاليَ ْو َم ب َوأَ ْن تَ ْستَ ْق ِس ُموا بِاأْل َ ْزاَل ِم ۚ َذلِ ُك ْم فِ ْس ٌ ص ِ النُّ ُ
اخ َش ْو ِن ۚ ين َكفَرُوا ِم ْن ِدينِ ُك ْم فَاَل تَ ْخ َش ْوهُ ْم َو ْ س الَّ ِذ َv يَئِ َ
ت َعلَ ْي ُك ْم نِ ْع َمتِي ت لَ ُك ْم ِدينَ ُك ْم َوأَ ْت َم ْم ُْاليَ ْو َم أَ ْك َم ْل ُ
يت لَ ُك ُم اإْل ِ ْساَل َم ِدينًا ۚ vفَ َم ِن اضْ طُ َّر فِي ض ُ َو َر ِ
ف إِل ِ ْث ٍم ۙ فَإِ َّن هَّللا َ َغفُو ٌر َر ِحي ٌم ص ٍة َغ ْي َر ُمتَ َجانِ ٍv َم ْخ َم َ
﴿﴾005:003
[جالندھری] تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سُؤر کا
گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے
اور جو جانور گالگھٹ کر مرجائے اور چوٹ لگ کر مرجائے اور
جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مرجائے یہ سب حرام
ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کر کھائیں۔ مگر جس
کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔ اور وہ جانور بھی جو تھان پر
ذبح کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ
سب گناہ (کے کام) رہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے نااُمید ہوگئے
ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔ (اور) آج ہم نے
تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری
کردیں اور تمہارے لئے اسالم کو دین پسند کیا۔ ہاں جو شخص
بھوک میں ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ تو
خدا بخشنے واال مہربان ہے۔
تفسیر ابن كثیر
پرندوں کے بارے میں نہیں ،شیخ ابو علی افصاح میں فرماتے ہیں
جب ہم نے یہ طے کر لیا کہ اس شکار کا کھانا حرام ہے جس میں
سے شکاری کتے نے کھا لیا ہو تو جس شکار میں سے شکاری
پرند کھا لے اس میں دو وجوہات ہیں۔ لیکن قاضی ابو الطیب نے
اس فرع کا اور اس ترتیب سے انکار کیا ہے۔ کیونکہ امام شافعی
نے ان دونوں کو صاف لفظوں میں برابر رکھا ہے۔ وہللا سبحانہ و
تعالی اعلم۔ متردیہ وہ ہے جو پہاڑی یا کسی بلند جگہ سے گر کر
ٰ
مر گیا ہو تو وہ جانور بھی حرام ہے ،ابن عباس یہی فرماتے ہیں۔
قتادہ فرماتے ہیں یہ وہ ہے جو کنویں میں گر پڑے ،نطیحہ وہ ہے
جسے دوسرا vجانور سینگ وغیرہ سے ٹکر لگائے اور وہ اس
صدمہ سے مر جائے ،گو اس سے زخم بھی ہوا ہو اور گو اس
سے خون بھی نکال ہو ،بلکہ گو ٹھیک ذبح کرنے کی جگہ ہی لگا
ہو اور خون بھی نکال ،یہ لفظ معنی میں مفعول یعنی منطوحہ کے
ہے ،یہ وزن عموما ً کالم عرب میں بغیر تے کے آتا ہے جیسے
عین کحیل اور کف خضیب ان مواقع میں کحیلتہ اور خضیبتہ نہی
کہتے ،اس جگہ تے اس لئے الیا گیا ہے کہ یہاں اس لفظ کا
استعمال قائم مقام اسم کے ہے ،جیسے عرب کا یہ کالم طریقتہ
طویلتہ۔ بعض نحوی کہتے ہیں تاء تانیث یہاں اس لئے الیا گیا ہے
کہ پہلی مرتبہ ہی ثانیث پر داللت ہو جائے بخالف کحیل اور
خضیب کے کہ وہاں تانیث کالم کے ابتدائی لفظ سے معلوم ہوتی
ہے۔ آیت (ما اکل اسبع) سے مراد وہ جانور ہے جس پر شیر ،
بھیڑیا ،چیتا یا کتا وغیرہ درندہ حملہ کرے اور اس کا کوئی حصہ
کھا جائے اور اس سبب سے مر جائے تو اس جانور کو کھانا بھی
حرام ہے ،اگرچہ اس سے خون بہا ہو بلکہ اگرچہ ذبح کرنے کی
جگہ سے ہی خون نکال ہو تاہم وہ جانور باالجماع حرام ہے۔ اہل
تعالی نے
ٰ جاہلیت میں ایسے جانور کا بقیہ کھا لیا کرتے تھے ،ہللا
مومنوں کو اس سے منع فرمایا۔ پھر فرماتا ہے مگر وہ جسے تم
ذبح کر لو ،یعنی گال گھونٹا ،لٹھ مارا ہوا ،اوپر سے گر پڑا ہو ،
سینگ اور ٹکر لگا ہو ،درندوں vکا کھایا ہو ،اگر اس حالت میں
تمہیں مل جائے کہ اس میں جان باقی ہو اور تم اس پر باقاعدہ ہللا کا
نام لے کر چھری پھیر لو تو پھر یہ جانور تمہارے لئے حالل ہو
جائیں گے۔ حضرت ابن عباس سعید بن جیبر ،حسن اور سدی یہی
فرماتے ہیں ،حضرت علی سے مروی ہے اگر تم ان کو اس حالت
میں پالو کہ چھری پھیرتے ہوئے وہ دم رگڑیں یا پیر ہالئیں یا
آنکھوں کے ڈھیلے پھرائیں تو بیشک ذبح کر کے کھا لو ،ابن
جریر میں آپ سے مروی ہے کہ جس جانور کو ضرب لگی ہو یا
اوپر سے گر پڑا ہو یا ٹکر لگی ہو اور اس میں روح باقی ہو اور
تمہیں وہ ہاتھ پیر رگڑتا مل جائے تو تم اسے ذبح کر کے کھا
سکتے ہو۔ حضرت طاؤس ،حسن ،قتادہ ،عبید بن عمیر ،ضحاک
اور بہت سے حضرات سے مروی ہے کہ بوقت ذبح اگر کوئی
حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہو جائے جس سے یہ معلوم
ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حالل ہے۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب
حرکت بھی اس جانور کی ایسی ظاہر ہو جائے جس سے یہ معلوم
ہو کہ اس میں حیات ہے تو وہ حالل ہے۔ جمہور فقہاء کا یہی مذہب
ہے تینوں اماموں کا بھی یہی قول ہے ،امام مالک اس بکری کے
بارے میں جسے بھیڑیا پھاڑ ڈالے اور اس کی آنتیں نکل آئیں
فرماتے ہیں میرا خیال ہے کہ اسے ذبح نہ کیا جائے اس میں سے
کس چیز کا ذبیحہ ہوگا؟ ایک مرتبہ آپ سے سوال ہوا کہ درندہ اگر
حملہ کر کے بکری کی پیٹھ توڑ دے تو کیا اس بکری کو جان
نکلنے سے پہلے ذبح کر سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اگر بالکل آخر
تک پہنچ گیا ہے تو میری رائے میں نہ کھانی چاہئے اور اگر
اطراف میں یہ ہے تو کوئی حرج نہیں ،سائل نے کہا درندے نے
اس پر حملہ کیا اور کود کر اسے پکڑ لیا ،جس سے اس کی کمر
ٹوٹ گئی ہے تو آپ نے فرمایا مجھے اس کا کھانا پسند نہیں
کیونکہ اتنی زبردست چوٹ کے بعد زندہ نہیں رہ سکتی ،آپ سے
پھر پوچھا گیا کہ اچھا اگر پیٹ پھاڑ ڈاال اور آنتیں نہیں نکلیں تو کیا
حکم ہے ،فرمایا میں تو یہی رائے رکھتا ہوں کہ نہ کھائی جائے۔
یہ ہے امام مالک کا مذہب لیکن چونکہ آیت عام ہے اس لئے امام
صاحب نے جن صورتوں کو مخصوص کیا ہے ان پر کوئی خاص
دلیل چاہئے ،وہللا اعلم۔ بخاری و مسلم میں حضرت رافع بن خدیج
سے مروی ہے کہ میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے
سوال کیا۔ ''حضور صلی ہللا علیہ وسلم ہم کل دشمن سے لڑائی میں
باہم ٹکرانے والے vہیں اور ہمارے ساتھ چھریاں نہیں کیا ہم بانس
سے ذبح کر لیں'' آپ نے فرمایا ''جو چیز خون بہائے اور اس پر
ہللا کا نام لیا جائے ،اسے کھا لو ،سوائے دانت اور ناخن کے ،یہ
اس لئے کہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھریاں ہیں'' مسند
احمد اور سنن میں ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم سے پوچھا
گیا کہ ''ذبیحہ صرف حلق اور نرخرے میں ہی ہوتا ہے؟'' آپ نے
فرمایا ''اگر تو نے اس کی ران میں بھی زخم لگا دیا تو کافی ہے''
یہ حدیث ہے تو سہی لیکن یہ حکم اس وقت ہے جبکہ صحیح طور
پر ذبح کرنے پر قادر نہ ہوں۔ مجاہد فرماتے ہیں یہ پرستش گاہیں
کعبہ کے اردگرد تھیں ،ابن جریج فرماتے ہیں ''یہ تین سو ساٹھ بت
تھے ،جاہلیت کے عرب ان کے سامنے اپنے جانور قربان کرتے
تھے اور ان میں سے جو بیت ہللا کے بالکل متصل تھا ،اس پر ان
جانوروں کا خون چھڑکتے تھے اور گوشت ان بتوں پر بطور
تعالی نے یہ کام مومنوں پر حرام
ٰ چڑھاوا چڑھاتے تھے'' پس ہللا
کیا اور ان جانوروں کا کانا بھی حرام کر دیا۔ اگرچہ ان جانوروں
کے ذبح کرنے کے وقت بسم ہللا بھی کہی گئی ہو کیونکہ یہ شرک
تعالی وحدہ ال شریک نے اور اس کے رسول صلی ٰ ہے جسے ہللا
ہللا علیہ وسلم نے حرام کیا ہے ،اور اسی الئق ہے ،اس جملہ کا
مطلب بھی یہی ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کی حرمت بیان ہو
چکی ہے جو ہللا کے سوا دوسروں کے نام پر چڑھائے جائیں۔
(ازالم) سے تقسیم کرنا حرام ہے ،یہ جاہلیت کے عرب میں دستور
تھا کہ انہوں نے تین تیر رکھ چھوڑے تھے ،ایک پر لکھا ہوا تھا
افعل یعنی کر ،دوسرے vپر لکھا ہوا تھا التعفل یعنی نہ کر ،تیسرا
خالی تھا۔ بعض کہتے ہیں ایک پر لکھا تھا مجھے میرے رب کا
حکم ہے ،دوسرے پر لکھا تھا مجھے میرے رب کی ممانعت ہے ،
تیسرا خالی تھا اس پر کچھ بھی لکھا ہوا نہ تھا۔ بطور قرعہ اندازی
کے کسی کام کے کرنے نہ کرنے میں جب انہیں تردد ہوتا تو ان
تیروں کو نکالتے ،اگر حکم ''کر'' نکال تو اس کام کو کرتے اگر
ممانعت کا تیر نکال تو باز آ جاتے اگر خالی تیر نکال تو پھر نئے
سرے سے قرعہ اندازی کرتے ،ازالم جمع ہے زلم کی اور بعض
زلم بھی کہتے ہیں۔ استسقام کے معنی ان تیروں سے تقسیم کی طلب
ہے ،قریشیوں کا سب سے بڑا بت ہبل خانہ کعبہ کے اندر کے
کنوئیں پر نصب تھا ،جس کنویں میں کعبہ کے ہدیے اور مال جمع
رہا کرتے تھے ،اس بت کے پاس سات تیر تھے ،جن پر کچھ لکھا
ہوا تھا جس کام میں اختالف پڑتا یہ قریشی یہاں آکر ان تیروں میں
سے کسی تیر کو نکالتے اور اس پر جو لکھا پاتے اسی کے مطابق
عمل کرتے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ
وسلم جب کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں حضرت ابراہیم اور
حضرت اسماعیل کے مجسمے گڑے ہوئے پائے ،جن کے ہاتھوں
میں تیر تھے تو آپ نے فرمایا ہللا انہیں غارت کرے ،انہیں خوب
معلوم ہے کہ ان بزرگوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی۔ صحیح
حدیث میں ہے کہ سراقہ بن مالک بن جعثم جب نبی صلی ہللا علیہ
وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق کو ڈھونڈنے کیلئے نکال کہ انہیں
پکڑ کر کفار مکہ کے سپرد کرے اور آپ اس وقت ہجرت کر کے
مکہ سے مدینے کو جا رہے تھے تو اس نے اسی طرح قرعہ
اندازی کی اس کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ وہ تیر نکال جو میری
مرضی کے خالف تھا میں نے پھر تیروں کو مال جال کر نکاال تو
اب کی مرتبہ بھی یہی نکال تو انہیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے
گا ،میں نے پھر نہ مانا تیسری مرتبہ فال لینے کیلئے تیر نکاال تو
اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکال لیکن میں ہمت کر کے ان کا کوئی
لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے کیلئے تیر
نکاال تو اب کی مرتبہ بھی یہی تیر نکال لیکن میں ہمت کر کے ان
کا کوئی لحاظ نہ کر کے انعام حاصل کرنے اور سرخرو ہونے
کیلئے آپ کی طلب میں نکل کھڑا ہوا۔ اس وقت تک سراقہ مسلمان
نہیں ہوا تھا ،یہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا کچھ نہ بگاڑ سکا
اور پھر بعد میں اسے ہللا نے اسالم سے مشرف فرمایا۔ ابن مردویہ
میں ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں ''وہ شخص
جنت کے بلند درجوں کو نہیں پا سکتا جو کہانت کرے ،یا تیر
اندازی کرے یا کسی بدفالی کی وجہ سے سفر سے لوٹ آئے''
حضرت مجاہد نے یہ بھی کہا ہے کہ عرب ان تیروں کے ذریعہ
اور فارسی اور رومی پانسوں کے ذریعہ جوا کھیال کرتے تھے جو
مسلمانوں پر حرام ہے۔ ممکن ہے کہ اس قول کے مطابق ہم یوں
کہیں کہ تھے تو یہ تیر استخارے کیلئے مگر ان سے جو ابھی
گاہے بگاہے کھیل لیا کرتے۔ وہللا اعلم۔ اسی سورت کے آخر میں
تعالی نے جوئے کو بھی حرام کیا ہے اور فرمایا ''ایمان والو!
ٰ ہللا
شراب ،جواء ،بت اور تیر نجس اور شیطانی کام ہیں ،تم ان سے
الگ رہو تاکہ تمہیں نجات ملے ،شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ ان کے
ذریعہ تمہارے درمیان عداوت و بغض ڈال دے'' اسی طرح یہاں
بھی فرمان ہوتا ہے کہ تیروں سے تقسیم طلب کرنا حرام ہے ،اس
کام کا کرنا فسق ،گمراہی ،جہالت اور شرک ہے۔ اس کے بجائے
مومنوں کو حکم ہوا کہ جب تمہیں اپنے کسی کام میں تردد ہو تو تم
تعالی سے استخارہ کر لو ،اس کی عبادت کر کے اس سے ٰ ہللا
بھالئی طلب کرو۔ مسند احمد ،بخاری اور سنن میں مروی ہے
حضرت جابر بن عبدہللا فرماتے ہیں ہمیں رسول ہللا صلی ہللا علیہ
وسلم جس طرح قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے ،اسی طرح
ہمارے کاموں میں استخارہ کرنا بھی تعلیم فرماتے تھے ،آپ ارشاد
فرمایا کرتے تھے کہ جب تم سے کسی کو کوئی اہم کام آ پڑے تو
اسے چاہئے کہ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر یہ دعا پڑھے اللھم انی
استخیرک بعلمک واستقدرک بقدرتک واسئلک من فضلک العظیم
فانک تقدر وال اقدر وتعلم اوال اعلم وانت عالم الغیوب اللھم ان کنت
تعلم ان ھذا االمر خیر لی فی دینی ودنیای ومعاشی وعاقبتہ امری
فقدرہ لی ویسرہ لی ثم بارک لی فیہ وان کنت تعلم انہ شر لی فی
دینی ونیای ومعاشی وعاقبتہ امری فاصرفہ عنی واقدرلی الخیر
حیث کان ثم رضنی بہ ۔ یعنی اے ہللا میں تجھ سے تیرے علم کے
ذریعہ بھالئی طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے وسیلے سے تجھ
سے قدرت طلب کرتا ہوں اور تجھ سے تیرے بڑے فضل کا طالب
ہوں ،یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے اور میں محض مجبور ہوں ،تو
تمام علم واال ہے اور میں مطلق بےعلم ہوں ،تو ہی تمام غیب کو
بخوبی جاننے واال ہے ،اے میرے ہللا اگر تیرے علم میں یہ کام
میرے لئے دین دنیا میں آغاز و انجام کے اعتبار سے بہتر ہی بہتر
ہے تو اسے میرے لئے مقدر کر دے اور اسے میرے لئے آسان
بھی کر دے اور اس میں مجھے ہر طرح کی برکتیں عطا فرما اور
اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لئے دین کی دنیا زندگی اور انجام
کار کے لحاظ سے برا ہے تو اسے مجھ سے دور کر دے اور
مجھے اس سے دور کر دے اور میرے لئے خیرو برکت جہاں
کہیں ہو مقرر کر دے پھر مجھے اسی سے راضی و ضا مند کر
دے۔ دعا کے یہ الفاظ مسند احمد میں ہیں ھذا االمر جہاں ہے وہاں
اپنے کام کا نام لے مثالً نکاح ہو تو ھذا النکاح سفر میں ہو تو ھذا
السفر بیوپار میں ہو تو ھذا التجارۃ وغیرہ۔ بعض روایتوں میں خیر
لی فی دینی سے امری تک کے بجائے یہ الفاظ ہیں۔ دعا(خیر لی فی
عاجل امری و اجلہ)۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن غریب بتالتے
ہیں ،پھر فرماتا ہے آج کافر تمہارے دین سے مایوس ہو گئے ،
یعنی ان کی یہ امیدیں خاک میں مل گئیں کہ وہ تمہارے دین میں
کچھ خلط ملط کر سکیں یعنی اپنے دین کو تمہارے دین میں شامل
کر لیں۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ
وسلم نے ''فرمایا شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ نمازی
مسلمان جزیرہ عرب میں اس کی پرستش کریں ،ہاں وہ اس کوشش
میں رہے گا کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے خالف
بھڑکائے۔ '' یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مشرکین مکہ اس سے مایوس ہو
گئے کہ مسلمانوں سے مل جل کر رہیں ،کیونکہ احکام اسالم نے
ان دونوں vجماعتوں میں بہت کچھ تفاوت ڈال دیا ،اسی لئے حکم
ربانی ہو رہا ہے کہ مومن صبر کریں ،ثابت قدم رہیں اور سوائے
ہللا کے کسی سے نہ ڈریں ،کفار کی مخالفت کی کچھ پرواہ نہ
کریں ،ہللا ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے
گا اور ان کے ضرر سے ان کی محافظت کی کچھ پرواہ نہ کریں ،
ہللا ان کی مدد کرے گا اور انہیں اپنے مخالفین پر غلبہ دے گا اور
ان کے ضرر سے ان کی محافظت کریگا اور دنیا و آخرت میں
اعلی اور
ٰ انہیں بلند و باال رکھے گا۔ پھر اپنی زبردست بہترین
افضل تر نعمت کا ذکر فرماتا ہے کہ ''میں نے تمہارا دین ہر طرح
اور ہر حیثیت سے کامل و مکمل کر دیا ،تمہیں اس دین کے سوا
کسی دین کی احتیاج نہیں ،نہ اس نبی صلی ہللا علیہ وسلم کے سوا
اور کسی بنی کی تمہیں حاجت ہے ،ہللا نے تمہارے نبی صلی ہللا
علیہ وسلم کو خاتم االنبیاء کیا ہے ،انہیں تمام جنوں اور انسانوں
کی طرف بھیجا ہے ،حالل وہی ہے جسے وہ حالل کہیں ،حرام
وہی ہے جسے وہ حرام کہیں ،دین وہی ہے جسے یہ مقرر کریں ،
ان کی تمام باتیں حق و صداقت والی ،جن میں کسی طرح کا
جھوٹ اور تضاد نہیں''۔ جیسے فرمان باری ہے آیت (و تمت کلمتہ
ربک صدقا ً وعدالً) یعنی تیرے رب کا کلمہ پورا ہوا ،جو خبریں
دینے میں سچا ہے اور حکم و منع میں عدل واال ہے۔ دین کو کامل
کرنا تم پر اپنی نعمت کو بھرپور کرنا ہے چونکہ میں خود تمہارے
اس دین اسالم پر خوش ہوں ،اس لئے تم بھی اسی پر راضی رہو ،
یہی دین ہللا کا پسندیدہ ،اسی کو دے کر اس نے اپنی افضل رسول
صلی ہللا علیہ وسلم کو بھیجا ہے اور اپنی اشرف کتاب نازل فرمائی
تعالی
ٰ ہے۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس دین اسالم کو ہللا
نے تمہارے لئے کامل کر دیا ہے اور اپنے نبی اور مومنوں کو اس
کا کامل ہونا خود اپنے کالم میں فرما چکا ہے اب یہ رہتی دنیا تک
کسی زیادتی کا محتاج نہیں ،اسے ہللا نے پورا کیا ہے جو قیامت
تک ناقص نہیں ہوگا۔ اس سے ہللا خوش ہے اور کبھی بھی ناخوش
نہیں ہونے واال ۔ حضرت سدی فرماتے ہیں یہ آیت عرفہ کے دن
نازل ہوئی ،اس کے بعد حالل و حرام کا کوئی حکم نہیں اترا ،اس
حج سے لوٹ کر ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم کا انتقال ہو
گیا ،حضرت اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں ''اس آخری حج میں
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ میں بھی تھی ،ہم جا رہے
تھے اتنے میں حضرت جبرائیل کی تجلی ہوئی حضور صلی ہللا
علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر جھک پڑے وحی اترنی شروع ہوئی ،
اونٹنی وحی کے بوجھ کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ میں نے اسی
وقت اپنی چادر ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم پر اڑھا دی''۔ ابن
جریر وغیرہ فرماتے ہیں اس کے بعد اکیاسی دن تک رسول ہللا
صلی ہللا علیہ وسلم حیات رہے ،حج اکبر والے vدن جبکہ یہ آیت
اتری تو حضرت عمر رونے لگے حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے
سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ
ہی تھے ،اب وہ کامل ہو گیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد
نقصان شروع ہو جاتا ہے ،آپ نے فرمایا سچ ہے ،اسی معنی کی
شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور صلی
ہللا علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ اسالم غربت اور انجان پن سے
شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائیگا ،پس غرباء
کیلئے خوشخبری ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے
حضرت فاروق اعظم سے کہا تم جو اس آیت (الیوم اکملت) الخ ،کو
پڑھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا
لیتے ''حضرت عمر نے فرمایا وہللا مجھے علم ہے کہ آیت کس
وقت اور کس دن نازل ہوئی ،عرفے کے دن جمعہ کی شام کو
نازل ہوئی ہے ،ہم سب اس وقت میدان vعرفہ میں تھے ،تمام
سیرت والے vاس بات پر متفق ہیں کہ حجتہ الوادع والے vسال عرفے
کا دن جمعہ کو تھا ،ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت کعب نے
حضرت عمر سے یہ کہا تھا کہ حضرت عمر نے فرمایا یہ آیت
ہمارے ہاں دوہری عید کے دن نازل ہوئی ہے۔ حضرت ابن عباس
کی زبانی اس آیت کی تالوت سن کر بھی یہودیوں نے یہی کہا تھا
کہ جس پر آپ نے فرمایا ہمارے ہاں تو یہ آیت دوہری عید کے دن
اتری ہے ،عید کا دن بھی تھا اور جمعہ کا دن تھی۔ حضرت علی
سے مروی ہے کہ یہ آیت عرفے کے دن شام کو اتری ہے ،
حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے منبر پر اس پوری آیت کی تالوت
کی اور فرمایا جمعہ کے دن عرفے کو یہ اتری یہ ہے۔ حضرت
سمرہ فرماتے ہیں اس وقت حضور صلی ہللا علیہ وسلم موقف میں
کھڑے ہوئے تھے ،ابن عباس سے مروی ہے کہ تمہارے نبی
صلی ہللا علیہ وسلم پیر والے دن پیدا ہوئے ،پیر والے vدن ہی مکہ
سے نکلے اور پیر والے vدن ہی مدینے میں تشریف الئے ،یہ اثر
غریب ہے اور اس کی سند ضعیف ہے۔ مسند احمد میں ہے حضور
صلی ہللا علیہ وسلم پیر والے دن پیدا ہوئے ،پیر والے vدن نبی
بنائے گئے ،پیر والے vدن ہجرت کے ارادے سے نکلے ،پیر کے
روز ہی مدینے پہنچے اور پیر کے دن ہی فوت کئے گئے ،حجر
اسود بھی پیر کے دن واقع ہوا ،اس میں سورہ مائدہ کا پیر کے دن
اترنا مذکور نہیں ،میرا خیال یہ ہے کہ ابن عباس نے کہا ہو گا دو
عیدوں کے دن یہ آیت اتری تو دو کیلئے بھی لفظ اثنین ہے ،اور
پیر کے دن کو بھی اثنین کہتے ہیں اس لئے راوی کو شبہ سا ہو گیا
وہللا اعلم۔ دو قول اس میں اور بھی مروی ہیں ایک تو یہ کہ یہ دن
لوگوں کو نامعلوم ہے دوسرا vیہ کہ یہ آیت غدیر خم کے دن نازل
ہوئی ہے جس دن کو حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت علی
مولی علی
ٰ مولی میں ہوں ،اس کا
ٰ کی نسبت فرمایا تھا کہ جس کا
ہے گویا ذی الحجہ کی اٹھارویں تاریخ ہوئی ،جبکہ آپ حجتہ
الوداع vسے واپس لوٹ رہے تھے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوںv
قول صحیح نہیں۔ بالکل صحیح اور بیشک و شبہ قول یہی ہے کہ یہ
آیت عرفے کے دن جمعہ کو اتری ہے ،امیر المومنین عمر بن
خطاب اور امیر المومنین علی بن ابو طالب اور امیر المومنین
حضرت امیر معاویہ بن سفیان اور ترجمان القرآن حضرت عبدہللا
بن عباس اور حضرت سمرہ بن جندب سے یہی مروی ہے اور اسی
کو حضرت شعبی ،حضرت قتادہ ،حضرت شہیر وغیرہ ائمہ اور
علماء نے کہا ہے ،یہی مختار قول ابن جریر اور طبری کا ہے ،
پھر فرماتا ہے ''جو شخص ان حرام کردہ چیزوں میں سے کسی
چیز کے استعمال کی طرف مجبور و بےبس ہو جائے تو وہ ایسے
اضطرار کی حالت میں انہیں کام ال سکتا ہے۔ ہللا غفور و رحیم
ہے ،وہ جانتا ہے کہ اس بندے نے اس کی حد نہیں توڑی لیکن
بےبسی اور اضطرار کے موقعہ پر اس نے یہ کیا ہے تو ہللا سے
معاف فرما دے گا۔ صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عمر سے
تعالی کو اپنی دی ہوئی رخصتوں پرٰ مرفوعا ً مروی ہے کہ ہللا
بندوں vکا عمل کرنا ایسا بھاتا ہے جیسے اپنی نافرمانی سے رک
جانا۔ مسند احمد میں ہے جو شخص ہللا کی دی ہوئی رخصت نہ
قبول کرے ،اس پر عرفات کے پہاڑ برابر گناہ ہے ،اسی لئے
فقہاء کہتے ہیں کہ بعض صورتوں میں مردار کا کھانا واجب ہو
جاتا ہے جیسے کہ ایک شخص کی بھوک کی حالت یہاں تک پہنچ
گئی ہے کہ اب مرا چاہتا ہے کہ کبھی جائز ہو جاتا ہے اور کبھی
مباح ،ہاں اس میں اختالف ہے کہ بھوک کے وقت جبکہ حالل چیز
میسر نہ ہو تو حرام صرف اتنا ہی کھا سکتا ہے کہ جان بچ جائے یا
پیٹ بھر سکتا ہے بلکہ ساتھ بھی رکھ سکتا ہے ،اس کے تفصیلی
بیان کی جگہ احکام کی کتابیں ہیں۔ اس مسئلہ میں جب بھوکا
شخص جس کے اوپر اضطرار کی حالت ہے ،مردار اور دوسرے
کا کھانا اور حالت احرام میں شکار تینوں چیزیں موجود پائے تو کیا
وہ مردار کھا لے؟ vیہ حالت احرام میں ہونے کے باوجود شکار کر
لے اور اپنی آسانی کی حالت میں اس کی جزا یعنی فدیہ ادا کر دے
یا دوسرے کی چیز بال اجازت کھا لے اور اپنی آسانی کے وقت
اسے وہ واپس کر دے ،اس میں دو قول ہیں امام شافعی سے دونوں
مروی ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ مردار کھانے کی یہ شرط جو عوام
میں مشہور ہے کہ جب تین دن کا فاقہ ہو جائے تو حالل ہوتا ہے یہ
بالکل غلط ہے بلکہ جب اضطرار ،بےقراری اور مجبوری حالت
میں ہو ،اس کیلئے مردار کھانا حالل ہو جاتا ہے۔ مسند احمد کی
حدیث میں ہے کہ لوگوں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے
دریافت کیا کہ ''حضور صلی ہللا علیہ وسلم ہم ایسی جگہ رہتے ہیں
کہ آئے دن ہمیں فقر و فاقہ کی نوبت آ جاتی ہے ،تو ہمارے لئے
مردار کا کھا لینا کیا جائز ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا ''جب صبح شام
نہ ملے اور نہ کوئی سبزی ملے تو تمہیں اختیار ہے۔ '' اس حدیث
کی ایک سند میں ارسال بھی ہے ،لیکن مسند والی مرفع حدیث کی
اسناد شرط شیخین پر صحیح ہے۔ ابن عون فرماتے ہیں حضرت
حسن کے پاس حضرت سمرہ کی کتاب تھی ،جسے میں ان کے
سامنے پڑھتا تھا ،اس میں یہ بھی تھا کہ صبح شام نہ ملنا اضطرار
ہے ،ایک شخص نے حضور صلی ہللا علیہ وسلم سے دریافت کیا
کہ ''حرام کھانا کب حالل ہو جاتا ہے؟'' آپ نے فرمایا ''جب تک کہ
تو اپنے بچوں کو دودھ vسے شکم سیر نہ کر سکے اور جب تک ان
کا سامان نہ آ جائے۔ '' ایک اعرابی نے حضور صلی ہللا علیہ وسلم
سے حالل حرام کا سوال کیا ،آپ نے جواب دیا کہ ''کل پاکیزہ
چیزیں حالل اور کل خبیث چیزیں حرام ہاں جب کہ ان کی طرف
محتاج ہو جائے تو انہیں کھا سکتا ہے جب تک کہ ان سے غنی نہ
ہو جائے'' اس نے پھر دریافت کیا کہ ''وہ محتاجی کونسی جس میں
میرے لئے وہ حرام چیز حالل ہوئے اور وہ غنی ہونا کونسا جس
میں مجھے اس سے رک جانا چاہئے'' فرمایا۔ ''جبکہ تو صرف
رات کو اپنے بال بچوں کو دودھ سے آسودہ vکر سکتا ہو تو تو حرام
چیز سے پرہیز کر۔ '' ابو داؤد میں ہے حضرت نجیع عامری نے
رسول کریم صلی ہللا علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ''ہمارے لئے
مردار کا کھانا کب حالل ہو جاتا ہے؟'' آپ نے فرمایا ''تمہیں کھانے
کو کیا ملتا ہے؟'' اس نے کہا ''صبح کو صرف ایک پیالہ دودھ vاور
شام کو بھی صرف ایک پیالہ دودھ'' آپ نے کہا ''یہی ہے اور
کونسی بھوک ہو گی؟'' پس اس حالت میں آپ نے انہیں مردار
کھانے کی اجازت عطا فرمائی۔ مطلب حدیث کا یہ ہے کہ صبح شام
ایک ایک پیالہ دودھ کا انہیں ناکافی تھا ،بھوک باقی رہتی تھی ،
اس لئے ان پر مردہ حالل کر دیا گیا ،تا کہ وہ پیٹ بھر لیا کریں ،
اسی کو دلیل بنا کر بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اضطرار کے
وقت مردار کو پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے ،صرف جان بچ جائے
اتنا ہی کھانا جائز ہو ،یہ حد ٹھیک نہیں وہللا اعلم۔ ابو داؤد کی اور
حدیث میں ہے کہ ایک شخص مع اہل و عیال کے آیا اور حرہ میں
ٹھہرا ،کسی صاحب کی اونٹنی گم ہو گئی تھی ،اس نے ان سے
کہا اگر میری اونٹنی تمہیں مل جائے تو اسے پکڑ لینا۔ اتفاق سے یہ
اونٹنی اسے مل گئی ،اب یہ اس کے مالک کو تالش کرنے لگے
لیکن وہ نہ مال اور اونٹنی بیمار پڑ گئی تو اس شخص کی بیوی
صاحبہ نے کہا کہ ہم بھوکے رہا کرتے ہیں ،تم اسے ذبح کر ڈالوv
لیکن اس نے انکار کر دیا ،آخر اونٹنی مر گئی تو پھر بیوی
صاحبہ نے کہا ،اب اس کی کھال کھینچ لو اور اس کے گوشت اور
چربی کو ٹکڑے کر کے سلکھا لو ،ہم بھوکوں کو کام آ جائیگا ،
اس بزرگ نے جواب دیا ،میں تو یہ بھی نہیں کرونگا ،ہاں اگر ہللا
کے نبی صلی ہللا علیہ وسلم اجازت دے دیں تو اور بات ہے۔
چنانچہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس
نے تمام قصہ بیان کیا آپ نے فرمایا کیا تمہارے پاس اور کچھ
کھانے کو ہے جو تمہیں کافی ہو؟ جواب دیا کہ نہیں آپ نے فرمایا
پھر تم کھا سکتے ہو۔ اس کے بعد اونٹنی والے vسے مالقات ہوئی
اور جب اسے یہ علم ہوا تو اس نے کہا پھر تم نے اسے ذبح کر
کے کھا کیوں نہ لیا؟ اس بزرگ صحابی نے جواب دیا کہ شرم
معلوم ہوئی۔ یہ حدیث دلیل ہے ان لوگوں کی جو کہتے ہیں کہ یہ
بوقت اضطرار مردار کا پیٹ بھر کر کھانا بلکہ اپنی حاجت کے
مطابق اپنے پاس رکھ لینا بھی جائز ہے وہللا اعلم ۔ پھر ارشاد ہوا
ہے کہ یہ حرام بوقت اضطرار اس کیلئے مباح ہے جو کسی گناہ
کی طرف میالن نہ رکھتا ہو ،اس کیلئے اسے مباح کر کے
دوسرے سے خاموشی ہے،جیسے سورہ بقرہ میں ہے آیت (فمن
اضطر غیر باغ وال عاد فال اثم علیہ ان ہللا غفور رحیم) یعنی وہ
شخص بےقرار کیا جائے سوائے باغی اور حد سے گزرنے والےv
تعالی بخشنے واال مہربانیٰ کے پس اس پر کوئی گناہ نہیں ،ہللا
کرنے واال ہے۔ اس آیت سے یہ استدعا کیا گیا ہے کہ جو شخص
ہللا کی کسی نافرمانی کا سفر کر رہا ہے ،اسے شریعت کی
رخصتوں میں سے کوئی رخصت حاصل نہیں ،اس لئے کہ
تعالی اعلم۔
ٰ رخصتیں گناہوں سے حاصل نہیں ہوتیں و ہللا
ات ۙ َو َما ك َما َذا أُ ِح َّل لَهُ ْم ۖ قُلْ أُ ِح َّل لَ ُك ُم الطَّيِّبَ ُ يَسْأَلُونَ َ
ين تُ َعلِّ ُمونَه َُّن ِم َّما َعلَّ َم ُك ُمح ُم َكلِّبِ َ ار
ِ و
َ جَ ْ
ال نَ م
ِ م
ْ ُ تمْ َّ َعل
ِ
هَّللا ُ ۖ فَ ُكلُوا ِم َّما أَ ْم َس ْك َن َعلَ ْي ُك ْم َو ْاذ ُكرُوا ا ْس َم هَّللا ِ َعلَ ْي ِه ۖ
َواتَّقُوا هَّللا َ ۚ إِ َّن هَّللا َ َس ِري ُع ْال ِح َسا ِ
ب
﴿﴾005:004
صاَل ِة فَا ْغ ِسلُوا ين آ َمنُوا إِ َذا قُ ْمتُ ْم إِلَى ال َّ يَا أَيُّهَا الَّ ِذ َ
وس ُك ْمق َوا ْم َسحُوا بِ ُر ُء ِ ُوجُوهَ ُك ْم َوأَ ْي ِديَ ُك ْم إِلَى ْال َم َرافِ ِ
َوأَرْ ُجلَ ُك ْم إِلَى ْال َك ْعبَي ِْن ۚ َوإِ ْن ُك ْنتُ ْم ُجنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ
ضى أَ ْو َعلَى َسفَ ٍر أَ ْو َجا َء أَ َح ٌد ِم ْن ُك ْم َوإِ ْن ُك ْنتُ ْم َمرْ َ
ِم َن ْال َغائِ ِط أَ ْو اَل َم ْستُ ُم النِّ َسا َء فَلَ ْم تَ ِج ُدواَ vما ًء فَتَيَ َّم ُموا
ص ِعي ًدا طَيِّبًا فَا ْم َسحُوا بِ ُوجُو ِه ُك ْم َوأَ ْي ِدي ُك ْم ِم ْنهُ ۚ َما َ
ج َولَ ِك ْن ي ُِري ُد ي ُِري ُد هَّللا ُ لِيَجْ َع َل َعلَ ْي ُك ْم ِم ْن َح َر ٍ
لِيُطَهِّ َر ُك ْم َولِيُتِ َّم نِ ْع َمتَهَُ vعلَ ْي ُك ْم لَ َعلَّ ُك ْم تَ ْش ُكر َ
ُون
﴿﴾005:006
َو ْاذ ُكرُوا نِ ْع َمةَ هَّللا ِ َعلَ ْي ُك ْم َو ِميثَاقَهُ الَّ ِذي َواثَقَ ُك ْم بِ ِه إِ ْذ
تقُ ْلتُ ْم َس ِم ْعنَا َوأَطَ ْعنَا ۖ َواتَّقُوا هَّللا َ ۚ إِ َّن هَّللا َ َعلِي ٌم بِ َذا ِ
الصُّ ُد ِ
ور
﴿﴾005:007
[جالندھری] جو لوگ ایمان الئے اور نیک کام کرتے رہے ان سے
خدا نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے۔
تفسیر ابن كثیر
[جالندھری] اور جنہوں نے کفر کیا اور ہماری آیتوں کو جھٹالیا وہ
جہنمی ہیں ۔
تفسیر ابن كثیر
ت هَّللا ِ َعلَ ْي ُك ْم إِ ْذ هَ َّم ين آ َمنُوا ْاذ ُكرُوا نِ ْع َم َ يَا أَيُّهَا الَّ ِذ َ
ف أَ ْي ِديَهُ ْم َع ْن ُك ْم ۖ
قَ ْو ٌم أَ ْن يَ ْب ُسطُوا إِلَ ْي ُك ْم أَ ْي ِديَهُ ْم فَ َك َّ
َواتَّقُوا هَّللا َ ۚ َو َعلَى هَّللا ِ فَ ْليَتَ َو َّك ِل ْال ُم ْؤ ِمنُ َv
ون
﴿﴾005:011
ق بَنِي إِ ْس َرائِي َل َوبَ َع ْثنَاِ vم ْنهُ ُم ْاثنَ ْي َولَقَ ْد أَ َخ َذ هَّللا ُ ِميثَا َ
صاَل ةَ َع َش َر نَقِيبًا ۖ َوقَا َل هَّللا ُ إِنِّي َم َع ُك ْم ۖ لَئِ ْن أَقَ ْمتُ ُم ال َّ
َوآتَ ْيتُ ُم ال َّز َكاةَ َوآ َم ْنتُ ْم بِ ُر ُسلِي َو َع َّزرْ تُ ُموهُ ْم َوأَ ْق َرضْ تُ ُم
هَّللا َ قَرْ ضًا َح َسنًا أَل ُ َكفِّ َر َّن َع ْن ُك ْم َسيِّئَاتِ ُك ْم َوأَل ُ ْد ِخلَنَّ ُك ْم
كت تَجْ ِري ِم ْن تَحْ تِهَا vاأْل َ ْنهَا ُر ۚ فَ َم ْن َكفَ َر بَ ْع َد َذلِ َ َجنَّا ٍ
ض َّل َس َوا َء ال َّسبِ ِ
يل ِم ْن ُك ْم فَقَ ْد َ
﴿﴾005:012
[جالندھری] اور خدا نے نبی اسرائیل سے اقرار لیا۔ اور ان میں ہم
نے بارہ سردار مقرر کئے۔ پھر خدا نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ
ہوں۔ اگر تم نماز پڑھتے اور زکوۃ دیتے رہو گے اور میرے
پیغمبروں پر ایمان الؤ گے اور ان کی مدد کرو گے اور خدا کو
قرض حسنہ دو گے تو میں تم سے تمہارے گناہ دور کردوں vگا اور
تم کو بہشتوں میں داخل کرونگا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں
پھر جس نے اس کے بعد تم میں سے کفر کیا وہ سیدھے راستے
سے بھٹک گیا۔
تفسیر ابن كثیر
صا َرى أَ َخ ْذنَاِ vميثَاقَهُ ْم فَنَسُوا ين قَالُوا إِنَّا نَ َ َو ِم َن الَّ ِذ َ
َحظًّا ِم َّما ُذ ِّكرُوا بِ ِه فَأ َ ْغ َر ْينَا بَ ْينَهُ ُم ْال َع َدا َوةَ َو ْالبَ ْغ َ
ضا َء
ف يُنَبِّئُهُ ُم هَّللا ُ بِ َما َكانُوا إِلَى يَ ْو ِم ْالقِيَا َم ِة ۚ َو َس ْو َ
يَصْ نَع َ
ُون
﴿﴾005:014
ٰ
نصاری ہیں۔ [جالندھری] اور جو لوگ (اپنے تئیں) کہتے ہیں کہ ہم
ہم نے ان سے بھی عہد لیا تھا مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا
جو ان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا تو ہم نے ان کے
باہم قیامت تک کے لئے دشمنی اور کینہ ڈال دیا۔ اور جو کچھ وہ
کرتے رہے خدا عنقریب ان کو اس سے آگاہ کرے گا۔
تفسیر ابن كثیر
علمی بددیانت
فرماتا ہے کہ رب العلی نے اپنے عالی قدر رسول حضرت محمد
صلی ہللا علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ تمام مخلوق کی
طرف بھیج دیا ہے ،معجزے اور روشن دلیلیں vانہیں عطا فرمائی
ٰ
نصاری نے بدل ڈالی تھیں ،تاویلیں کر کے ہیں جو باتیں یہود و
دوسرے مطلب بنا لئے تھے اور ہللا کی ذات پر بہتان باندھتے تھے
،کتاب ہللا کے جو حصے اپنے نفس کے خالف پاتے تھے ،انہیں
چھپا لیتے تھے ،ان سب علمی بد دیانتیوں کو یہ رسول صلی ہللا
علیہ وسلم بےنقاب کرتے ہیں۔ ہاں جس کے بیان کی ضرورت ہی
نہ ہو ،بیان نہیں فرماتے۔ مستدرک حاکم میں ہے "جس نے رجم
کے مسئلہ کا انکار کیا ،اس نے بےعملی سے قرآن سے انکار کیا
" چنانچہ اس آیت میں اسی رجم کے چھپانے کا ذکر ہے ،پھر
قرآن عظیم کی بابت فرماتا ہے کہ "اسی نے اس نبی کریم پر اپنی
یہ کتاب اتاری ہے ،جو جویائے حق کو سالمتی کی راہ بتاتی ہے ،
لوگوں کو ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتی ہے اور
راہ مستقیم کی رہبر ہے۔ اس کتاب کی وجہ سے ہللا کے انعاموں کو
حاصل کر لینا اور اس کی سزاؤں سے بچ جانا بالکل آسان ہو گیا
ہے یہ ضاللت کو مٹا دینے والی اور ہدایت کو واضح کر دینے
والی ہے۔ "
ين قَالُوا إِ َّن هَّللا َ هُ َو ْال َم ِسي ُح اب ُْن َمرْ يَ َم ۚ قُلْ لَقَ ْد َكفَ َر الَّ ِذ َ
ك ْال َم ِسي َح اب َْن ك ِم َن هَّللا ِ َش ْيئًا إِ ْن أَ َرا َد أَ ْن يُ ْهلِ َ فَ َم ْن يَ ْملِ ُ
ك ض َج ِمي ًعاَ ۗ vوهَّلِل ِ ُم ْل ُ رَْ أْلا يِ ف ن ْ م
َ و
َ ُ ه م
َّ َمرْ يَ َم َوأُ
ِ
ق َما يَ َشا ُء ۚ ض َو َما بَ ْينَهُ َما ۚ vيَ ْخلُ ُ ِ رْ َ ت َواأْل ال َّس َما َوا ِ
َوهَّللا ُ َعلَى ُك ِّل َش ْي ٍء قَ ِدي ٌر
﴿﴾005:017
صا َرى نَحْ ُن أَ ْبنَا ُء هَّللا ِ َوأَ ِحبَّا ُؤهُ ۚ ت ْاليَهُو ُد َوالنَّ َ َوقَالَ ِ
قۚ قُلْ فَلِ َم يُ َع ِّذبُ ُك ْم بِ ُذنُوبِ ُك ْم ۖ بَلْ أَ ْنتُ ْم بَ َش ٌر ِم َّم ْن َخلَ َ
يَ ْغفِ ُر لِ َم ْن يَ َشا ُء َويُ َع ِّذبُ َم ْن يَ َشا ُء ۚ َوهَّلِل ِ ُم ْل ُ
ك
صي ُر ض َو َما بَ ْينَهُ َماَ ۖ vوإِلَ ْي ِه ْال َم ِِ رْ َ ت َواأْل ال َّس َما َوا ِ
﴿﴾005:018
ٰ
نصاری کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے [جالندھری] اور یہود اور
ہیں اور اس کے پیارے ہیں۔ کہو کہ پھر وہ تمہاری بداعمالیوں vکے
سبب تمہیں عذاب کیوں دیتا ہے؟ (نہیں) بلکہ تم اس کی مخلوقات
میں (دوسروں کی طرح کے) انسان ہو۔ وہ جیسے چاہے بخشے
اور جسے چاہے عذاب دے اور آسمان اور زمین اور جو کچھ ان
دونوں میں ہے سب پر خدا ہی کی حکومت ہے اور (سب کو) اسی
کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
تفسیر ابن كثیر
َوإِ ْذ قَا َل ُمو َسى لِقَ ْو ِم ِه يَا قَ ْو ِم ْاذ ُكرُوا نِ ْع َمةَ هَّللا ِ َعلَ ْي ُك ْم
إِ ْذ َج َع َل فِي ُك ْم أَ ْنبِيَا َء َو َج َعلَ ُك ْم ُملُو ًكا َوآتَا ُك ْم َما لَ ْم ي ُْؤ ِ
ت
أَ َح ًدا ِم َن ْال َعالَ ِم َv
ين
﴿﴾005:020
ب هَّللا ُ لَ ُك ْمض ْال ُمقَ َّد َسةَ الَّتِي َكتَ َيَا قَ ْو ِم ا ْد ُخلُوا اأْل َرْ َ
ين
اس ِر َ َواَل تَرْ تَ ُّدوا َعلَى أَ ْدبَ ِ
ار ُك ْم فَتَ ْنقَلِبُوا َخ ِ ﴿﴾005:021
ين َوإِنَّا لَ ْن نَ ْد ُخلَهَاv قَالُوا يَا ُمو َسى إِ َّن فِيهَا قَ ْو ًما َجب ِ
َّار َ
اخلُ َ
ون َحتَّى يَ ْخ ُرجُوا ِم ْنهَا فَإِ ْن يَ ْخ ُرجُوا ِم ْنهَا فَإِنَّا َد ِ
﴿﴾005:022
قَالُوا يَا ُمو َسى إِنَّا لَ ْن نَ ْد ُخلَهَا vأَبَ ًدا َما َدا ُموا فِيهَا ۖ
ك فَقَاتِاَل إِنَّا هَاهُنَا قَا ِع ُد َ
ون ت َو َربُّ َفَ ْاذهَبْ أَ ْن َ
﴿﴾005:024
ق إِ ْذ قَ َّربَا قُرْ بَانًا فَتُقُبِّ َل َوا ْت ُل َعلَ ْي ِه ْم نَبَأ َ ا ْبنَ ْي آ َد َم بِ ْال َح ِّ
ك ۖ قَا َل ِم ْن أَ َح ِد ِه َماَ vولَ ْم يُتَقَبَّلْ ِم َن اآْل َخ ِر قَا َل أَل َ ْقتُلَنَّ َ
إِنَّ َما يَتَقَبَّ ُل هَّللا ُ ِم َن ْال ُمتَّقِ َ
ين
﴿﴾005:027
ي إِلَ ْي َ
ك ك لِتَ ْقتُلَنِي َما أَنَا بِبَ ِ
اس ٍط يَ ِد َ ت إِلَ َّ
ي يَ َد َ لَئِ ْن بَ َس ْ
ط َ
اف هَّللا َ َربَّ ْال َعالَ ِم َ
ين ك ۖ إِنِّي أَ َخ ُأِل َ ْقتُلَ َ
﴿﴾005:028
[جالندھری] اور اگر تو مجھے قتل کرنے کیلئے مجھ پر ہاتھ
چالئے گا تو میں تجھ کو قتل کرنے کیلئے تجھ پر ہاتھ نہیں چالؤں
گا۔ مجھے تو خدائے رب العالمین سے ڈرلگتا ہے ۔
تفسیر ابن كثیر
[جالندھری] میں چاہتا ہوں کہ تو میرے گناہ میں بھی ماخوذ ہو اور
اپنے گناہ میں بھی پھر (زمرئہ) اہل دوزخ میں ہو۔ اور ظالموں کو
یہی سزا ہے۔
تفسیر ابن كثیر
ك َكتَ ْبنَاَ vعلَى بَنِي إِ ْس َرائِي َل أَنَّهُ َم ْن قَتَ َل ِم ْن أَجْ ِل َذلِ َ
ض فَ َكأَنَّ َما قَتَ َل
ِ رَْ أْلا ي ف
ِ د
ٍ اس َ َ ف و
ْ َ أ س
ٍ ْ
ف َ ن ْر
ِ يغَ ِ ب ًاس ْ
ف نَ
اس َج ِميعًا ۚ اس َج ِمي ًعاَ vو َم ْن أَحْ يَاهَا فَ َكأَنَّ َما أَحْ يَا النَّ َ النَّ َ
ت ثُ َّم إِ َّن َكثِيرًا ِم ْنهُ ْم بَ ْع َvد َولَقَ ْد َجا َء ْتهُ ْم ُر ُسلُنَا بِ ْالبَيِّنَا ِ
ْرفُ َ
ون ض لَ ُمس ِ ِ رْ َ ك فِي اأْل َذلِ َ
﴿﴾005:032
ُون هَّللا َ َو َرسُولَهُ َويَ ْس َع ْو َن فِي ارب َvين يُ َح ِ إِنَّ َما َج َزا ُء الَّ ِذ َ
صلَّبُوا أَ ْو تُقَطَّ َع أَ ْي ِدي ِه ْم
ض فَ َسا ًدا أَ ْن يُقَتَّلُوا أَ ْو يُ َاأْل َرْ ِ
ك لَهُ ْم ض ۚ َذلِ َ ف أَ ْو يُ ْنفَ ْوا ِم َن اأْل َرْ ِ َوأَرْ ُجلُهُ ْم ِم ْن ِخاَل ٍ
ي فِي ال ُّد ْنيَاَ ۖ vولَهُ ْم فِي اآْل ِخ َر ِة َع َذابٌ َع ِظي ٌم ِخ ْز ٌ
﴿﴾005:033
[جالندھری] جو لوگ خدا اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور
ملک میں فساد کو دوڑتے پھریں انکی یہی سزا ہے کہ قتل کردیے
جائیں یا سُولی چڑھا دیے جائیں یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ
اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں یا ملک سے نکال
دیے جائیں یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان
کے لئے بڑا (بھاری) عذاب (تیّار) ہے۔
تفسیر ابن كثیر
ين تَابُوا ِم ْن قَب ِْل أَ ْن تَ ْق ِدرُوا َعلَ ْي ِه ْم ۖ فَا ْعلَ ُموا إِاَّل الَّ ِذ َ
أَ َّن هَّللا َ َغفُو ٌر َر ِحي ٌم
﴿﴾005:034
ين آ َمنُوا اتَّقُوا هَّللا َ َوا ْبتَ ُغوا إِلَ ْي ِه ْال َو ِسيلَةَ
يَا أَيُّهَا الَّ ِذ َ
َو َجا ِه ُدوا فِي َسبِيلِ ِه لَ َعلَّ ُك ْم تُ ْفلِح َ
ُون
﴿﴾005:035
ض َج ِمي ًعاvين َكفَرُوا لَ ْو أَ َّن لَهُ ْم َما فِي اأْل َرْ ِ إِ َّن الَّ ِذ َ
ب يَ ْو ِم ْالقِيَا َم ِة َما تُقُبِّ َل
َو ِم ْثلَهُ َم َعهُ لِيَ ْفتَ ُدوا بِ ِه ِم ْن َع َذا ِ
ِم ْنهُ ْم ۖ َولَهُ ْم َع َذابٌ أَلِي ٌم
﴿﴾005:036
[جالندھری] جو لوگ کافر ہیں اگر انکے پاس روئے زمین (کے
تمام خزانے اور اس) کا سب مال ومتاع ہو اور اس کے ساتھ اسی
قدر اور بھی ہوتا کہ قیامت کے روز عذاب سے (رستگاری حاصل
کرنے) کا بدلہ دیں تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا اور انکو درد
دینے واال عذاب ہوگا۔
تفسیر ابن كثیر
ين
ار ِج َ ون أَ ْن يَ ْخ ُرجُوا ِم َن النَّ ِ
ار َو َما هُ ْم بِ َخ ِ ي ُِري ُد َ
ِم ْنهَا ۖ َولَهُ ْم َع َذابٌ ُمقِي ٌم
﴿﴾005:037
ت َواأْل َرْ ِ
ض يُ َع ِّذبُ ك ال َّس َما َوا ِ أَلَ ْم تَ ْعلَ ْم أَ َّن هَّللا َ لَهُ ُم ْل ُ
َم ْن يَ َشا ُء َويَ ْغفِ ُر لِ َم ْن يَ َشا ُء ۗ َوهَّللا ُ َعلَى ُكلِّ َش ْي ٍء
قَ ِدي ٌر
﴿﴾005:040
ون ِفي ار ُع َ ين يُ َس ِ ك الَّ ِذ َ يَا أَ ُّيهَا ال َّرسُو ُل اَل يَحْ ُز ْن َ
ين قَالُوا آ َمنَّا بِأ َ ْف َوا ِه ِه ْم َولَ ْم تُ ْؤ ِم ْن
ْال ُك ْف ِر ِم َن الَّ ِذ َ
ون لِ ْل َك ِذ ِ
ب ين هَا ُدوا ۛ َس َّما ُع َ قُلُوبُهُ ْم ۛ َو ِم َن الَّ ِذ َ
ون ْال َكلِ َم ِم ْنك ۖ يُ َحرِّ فُ َ ين لَ ْم يَأْتُو َ ون لِقَ ْو ٍم آ َخ ِر َ َس َّما ُع َ
ون إِ ْن أُوتِيتُ ْم هَ َذا فَ ُخ ُذوهُ َوإِ ْن لَ ْم اض ِع ِه ۖ يَقُولُ َ بَ ْع ِد َم َو ِ
ك لَهُ ِم َن تُ ْؤتَ ْوهُ فَاحْ َذرُوا ۚ َو َم ْن ي ُِر ِد هَّللا ُ ِف ْتنَتَهُ فَلَ ْن تَ ْملِ َ
ين لَ ْم ي ُِر ِد هَّللا ُ أَ ْن يُطَهِّ َر قُلُوبَهُ ْم ۚ ك الَّ ِذ َهَّللا ِ َش ْيئًا ۚ أُولَئِ َ
ي ۖ َولَهُ ْم ِفي اآْل ِخ َر ِة َع َذابٌ َع ِظي ٌم لَهُ ْم فِي ال ُّد ْنيَاِ vخ ْز ٌ
﴿﴾005:041
إِنَّا أَ ْن َز ْلنَا التَّ ْو َراةَ فِيهَا هُ ًدى َونُو ٌر ۚ يَحْ ُك ُم بِهَا النَّبِي َ
ُّون
ُّون َواأْل َحْ بَا ُر بِ َما ين هَا ُدوا َوال َّربَّانِي َ ين أَ ْسلَ ُموا لِلَّ ِذ َالَّ ِذ َ
ب هَّللا ِ َو َكانُوا َعلَ ْي ِه ُشهَ َدا َء ۚ فَاَل ا ْستُحْ فِظُوا ِم ْن ِكتَا ِ
اخ َش ْو ِن َواَل تَ ْشتَرُوا بِآيَاتِي ثَ َمنًا vقَلِياًل اس َو ْ تَ ْخ َش ُوا النَّ َ
ك هُ ُم ْال َكافِر َ
ُون ۚ َو َم ْن لَ ْم يَحْ ُك ْم بِ َما أَ ْن َز َل هَّللا ُ فَأُولَئِ َ
﴿﴾005:044
س َو ْال َعي َْن بِ ْال َعي ِْvن َو َكتَ ْبنَا َعلَ ْي ِه ْم فِيهَا أَ َّن النَّ ْف َ
س بِالنَّ ْف ِ
ف َواأْل ُ ُذ َن بِاأْل ُ ُذ ِن َوالس َِّّن بِالس ِِّّن ف بِاأْل َ ْن َِواأْل َ ْن َ
ق بِ ِه فَهُ َو َكفَّا َرةٌ لَهُ ۚ صاصٌ ۚ فَ َم ْن تَ َ
ص َّد َ َو ْال ُجرُو َح قِ َ
ك هُ ُم الظَّالِ ُم َ
ون َو َم ْن لَ ْم يَحْ ُك ْم بِ َما أَ ْن َز َل هَّللا ُ فَأُولَئِ َ
﴿﴾005:045
ص ِّدقًا لِ َما بَي َْن يَ َد ْي ِه ِم َن ق ُم َ اب بِ ْال َح ِّك ْال ِكتَ َ َوأَ ْن َز ْلنَا إِلَ ْي َ
ب َو ُمهَ ْي ِمنًا َعلَ ْي ِه ۖ فَاحْ ُك ْم بَ ْينَهُ ْم بِ َما أَ ْن َز َل هَّللا ُ ۖ ْال ِكتَا ِ
ق ۚ لِ ُكلٍّ َج َع ْلنَا ك ِم َن ْال َح ِّ َواَل تَتَّبِ ْع أَ ْه َوا َءهُ ْم َع َّما َجا َء َ
ِم ْن ُك ْم ِشرْ َعةً َو ِم ْنهَا ًجاَ ۚ vولَ ْو َشا َء هَّللا ُ لَ َج َعلَ ُك ْم أُ َّمةً
اح َدةً َولَ ِك ْن لِيَ ْبلُ َو ُك ْم فِي َما آتَا ُك ْم ۖ فَا ْستَبِقُوا ْال َخ ْي َرا ِ
ت َو ِ
ۚ إِلَى هَّللا ِ َمرْ ِج ُع ُك ْم َج ِمي ًعا vفَيُنَبِّئُ ُك ْم بِ َما ُك ْنتُ ْم ِفي ِه
تَ ْختَلِفُ َ
ون
﴿﴾005:048
[جالندھری] اور (اے پیغمبر !) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی
ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔ اور ان (سب)
پر شامل ہے تو جو حکم خدا نے نازل فرمایا ہے اس کے مطابق ان
کا فیصلہ کرنا اور حق جو تمہارے پاس آچکا ہے اس کو چھوڑ کر
ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا ۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک
(فرقے) کے لیے ایک دستور اور طریقہ مقرر کردیا ہے اور اگر
خدا چاہتا تو سب کو ایک ہی شریعت پر کردیتا مگر جو حکم اس
نے تم کو دیئے ہیں ان میں وہ تمہاری آزمائش کرنی چاہتا ہے سو
نیک کاموں میں جلدی کرو۔ تم سب کو خدا کیطرف لوٹ کر جانا
ہے۔ پھر جن باتوں میں تم کو اختالف تھا وہ تم کو بتادے گا ۔
تفسیر ابن كثیر
َوأَ ِن احْ ُك ْم بَ ْينَهُ ْم بِ َما أَ ْن َز َل هَّللا ُ َواَل تَتَّبِ ْع أَ ْه َوا َءهُ ْم
ْض َما أَ ْن َز َل هَّللا ُ إِلَ ْي َ
كۖ ك َع ْن بَع ِ َواحْ َذرْ هُ ْم أَ ْن يَ ْفتِنُو َ
ْض
ُصيبَهُ ْم بِبَع ِ فَإِ ْن تَ َولَّ ْوا فَا ْعلَ ْم أَنَّ َما ي ُِري ُد هَّللا ُ أَ ْن ي ِ
اسقُ َ
ون ُذنُوبِ ِه ْم ۗ َوإِ َّن َكثِيرًا ِم َن النَّ ِ
اس لَفَ ِ ﴿﴾005:049
[جالندھری] اور (ہم پھر تاکید کرتے ہیں کہ) جو (حکم) خدا نے
نازل فرمایا ہے اسی کے مطابق تم فیصلہ کرنا اور ان کی خواہشوںv
کی پیروی نہ کرنا اور ان سے بچتے رہنا کہ کسی حکم سے جو
خدا نے تم پر نازل فرمایا ہے یہ کہیں تم کو بہکانہ دیں۔ اگر یہ نہ
مانیں تو جان لو کہ خدا چاہتا ہے کہ ان کے بعض گناہوں کے سبب
ان پر مصیبت نازل کرے اور اکثر لوگ تو نافرمان ہیں ۔
تفسیر ابن كثیر
صا َرى ين آ َمنُوا اَل تَتَّ ِخ ُذواْ vاليَهُو َد َوالنَّ َ يَا أَ ُّيهَا الَّ ِذ َ
ضهُ ْم أَ ْولِيَا ُء بَع ٍv
ْض ۚ َو َم ْن يَتَ َولَّهُ ْم ِم ْن ُك ْم فَإِنَّهُ أَ ْولِيَا َء ۘ بَ ْع ُ
ِم ْنهُ ْم ۗ إِ َّن هَّللا َ اَل يَ ْه ِدي ْالقَ ْو َم الظَّالِ ِم َ
ين
﴿﴾005:051
ٰ
نصاری کو دوست نہ بناؤ۔ یہ [جالندھری] اے ایمان والو! یہود اور
ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے انکو
دوست بنائیگا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا۔ بیشک خدا ظالم لوگوںv
کو ہدایت نہیں دیتا ۔
تفسیر ابن كثیر
ين اتَّ َخ ُذوا ِدينَ ُك ْم ين آ َمنُوا اَل تَتَّ ِخ ُذوا vالَّ ِذ َ يَا أَيُّهَا الَّ ِذ َ
ين أُوتُوا ْال ِكتَ َ
اب ِم ْن قَ ْبلِ ُك ْم هُ ُز ًوا َولَ ِعبًا ِم َن الَّ ِذ َ
ينَو ْال ُكفَّا َر أَ ْولِيَا َء ۚ َواتَّقُوا هَّللا َ إِ ْن ُك ْنتُ ْم ُم ْؤ ِمنِ َ
﴿﴾005:057
ون ِمنَّا إِاَّل أَ ْن آ َمنَّا بِاهَّلل ِ ب هَلْ تَ ْنقِ ُم َ قُلْ يَا أَ ْه َل ْال ِكتَا ِ
َو َما أُ ْن ِز َل إِلَ ْينَا َو َما أُ ْن ِز َل ِم ْن قَ ْب ُل َوأَ َّن أَ ْكثَ َر ُك ْم
وناسقُ َ فَ ِ
﴿﴾005:059
[جالندھری] کہو کہ اے اہل کتاب ! تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے
ہو سوا اس کے کہ تم خدا پر اور جو (کتاب) ہم پر نازل ہوئی اس
پر اور جو (کتابیں) پہلے نازل ہوئیں ان پر ایمان الئے ہیں اور تم
میں اکثر بدکردار ہیں ۔
تفسیر ابن كثیر
َوإِ َذا َجا ُءو ُك ْم قَالُوا آ َمنَّا َوقَ ْد َد َخلُوا بِ ْال ُك ْف ِر َوهُ ْم قَ ْد
َخ َرجُوا بِ ِه ۚ َوهَّللا ُ أَ ْعلَ ُم بِ َما َكانُوا يَ ْكتُ ُم َv
ون
﴿﴾005:061
[جالندھری] اور یہود کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ (گردن سے) بندھا
ہوا ہے۔ (یعنی ہللا بخیل ہے) انہیں کے ہاتھ باندھے جائیں اور ایسا
کہنے کے سبب ان پر لعنت ہو۔ (بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے
ہیں) وہ جتنا چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اے محمد یہ کتاب جو تمہارے
پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ہے اس سے ان میں سے
اکثر کی شرارت اور انکار اور بڑھے گا اور ہم نے اُنکے باہم
عداوت اور بغض قیامت تک کیلئے ڈال دیا ہے۔ یہ جب لڑائی کے
لئے آگ جالتے ہیں تو خدا اس کو بجھا دیتا ہے اور یہ ملک میں
فساد کے لیے دوڑتے پھرتے ہیں اور خدا فساد کرنے والوں کو
دوست نہیں رکھتا ۔
تفسیر ابن كثیر
ب آ َمنُوا َواتَّقَ ْوا لَ َكفَّرْ نَا َع ْنهُ ْم َولَ ْو أَ َّن أَ ْه َل ْال ِكتَا ِ
ت النَّ ِع ِيمَسيِّئَاتِ ِه ْvم َوأَل َ ْد َخ ْلنَاهُ ْم َجنَّا ِ
﴿﴾005:065
[جالندھری] اور اگر اہل کتاب ایمان التے اور پرہیزگاری کرتے
تو ہم ان سے انکے گناہ محو کریتے اور اُنکو نعمت کے باغوں
میں داخل کرتے ۔
تفسیر ابن كثیر
َولَ ْو أَنَّهُ ْم أَقَا ُموا التَّ ْو َراةَ َواإْل ِ ْن ِجي َل َو َما أُ ْن ِز َل إِلَ ْي ِه ْم
ت أَرْ ُجلِ ِه ْم ۚ ِم ْنهُ ْم ِم ْن َربِّ ِه ْم أَل َ َكلُوا ِم ْن فَ ْوقِ ِه ْم َو ِم ْن تَحْ ِ
ونص َدةٌ ۖ َو َكثِي ٌر ِم ْنهُ ْم َسا َء َما يَ ْع َملُ َ أُ َّمةٌ ُم ْقتَ ِ
﴿﴾005:066
ك ۖ َوإِ ْن لَ ْم
ك ِم ْن َربِّ َيَا أَيُّهَا ال َّرسُو ُل بَلِّ ْغ َما أُ ْن ِز َل إِلَ ْي َ
ك ِم َن النَّ ِ
اس ۗ ت ِر َسالَتَهُ ۚ َوهَّللا ُ يَع ِ
ْص ُم َ تَ ْف َعلْ فَ َما بَلَّ ْغ َ
ينإِ َّن هَّللا َ اَل يَ ْه ِدي ْالقَ ْو َم ْال َكافِ ِر َ
﴿﴾005:067
اب هَّللا ُ
ص ُّموا ثُ َّم تَ َ َو َح ِسبُوا أَاَّل تَ ُك َ
ون فِ ْتنَةٌ فَ َع ُموا َو َ
صي ٌر بِ َما ص ُّموا َكثِي ٌر ِم ْنهُ ْم ۚ َوهَّللا ُ بَ ِ
َعلَ ْي ِه ْم ثُ َّم َع ُموا َو َ
يَ ْع َملُ َ
ون
﴿﴾005:071
[جالندھری] اور یہ خیال کرتے تھے کہ (اس سے ان پر) کوئی
آفت نہیں آنے کی تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے۔ پھر خدا نے ان
پر مہربانی فرمائی (لیکن) پھر ان میں سے بہت سے اندھے اور
بہرے ہوگئے۔ اور خدا ان کے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔
تفسیر ابن كثیر
ين قَالُوا إِ َّن هَّللا َ هُ َو ْال َم ِسي ُح اب ُْن َمرْ يَ َم ۖ لَقَ ْد َكفَ َر الَّ ِذ َ
َوقَا َل ْال َم ِسي ُح يَا بَنِي إِ ْس َرائِي َل ا ْعبُ ُدوا هَّللا َ َربِّي
َو َربَّ ُك ْم ۖ إِنَّهُ َم ْن يُ ْش ِر ْك بِاهَّلل ِ فَقَ ْد َح َّر َم هَّللا ُ َعلَ ْي ِه ْال َجنَّةَ
ار
ص ٍ ين ِم ْن أَ ْن َ َو َمأْ َواهُ النَّا ُر ۖ َو َما لِلظَّالِ ِم َ
﴿﴾005:072
أَفَاَل يَتُوب َ
ُون إِلَى هَّللا ِ َويَ ْستَ ْغفِرُونَهُ ۚ َوهَّللا ُ َغفُو ٌر َر ِحي ٌم
﴿﴾005:074
[جالندھری] مسیح ابن مریم تو صرف (خدا کے) پیغمبر تھے۔ ان
سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے تھے۔ اور ان کی والدہ
(مریم خدا کی ولی اور) س ّچی فرماں بردار تھیں۔ دونوں (انسان
تھے اور) کھانا کھاتے تھے۔ دیکھو ہم ان لوگوں کے لئے اپنی آیتیں
کس طرح کھول کھول کر بیان کرتے ہیں پھر (یہ) دیکھو کہ کدھر
اُلٹے جا رہے ہیں ۔
تفسیر ابن كثیر
[جالندھری] کہو کہ اے اہل کتاب ! اپنے دین (کی بات) میں ناحق
مبالغہ نہ کرو' اور ایسے لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو
جو (خود بھی) پہلے گمراہ ہوئے اور اَور بھی اکثروں کو گمراہ کر
گئے اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے ۔
تفسیر ابن كثیر
ت تَجْ ِري ِم ْن تَحْ تِهَا vاأْل َ ْنهَا ُر فَأَثَابَهُ ُم هَّللا ُ بِ َما قَالُوا َجنَّا ٍ
ك َج َزا ُء ْال ُمحْ ِسنِ َ
ين ين فِيهَا ۚ َو َذلِ َ َخالِ ِد َ
﴿﴾005:085
ت َما أَ َح َّل هَّللا ُ ين آ َمنُوا اَل تُ َح ِّر ُموا طَيِّبَا ِ يَا أَيُّهَا الَّ ِذ َ
لَ ُك ْم َواَل تَ ْعتَ ُدوا ۚ vإِ َّن هَّللا َ اَل ي ُِحبُّ ْال ُم ْعتَ ِد َv
ين
﴿﴾005:087
صابُ ين آ َمنُوا إِنَّ َما ْال َخ ْم ُر َو ْال َمي ِْس ُر َواأْل َ ْن َ
يَا أَيُّهَا الَّ ِذ َ
َواأْل َ ْزاَل ُم ِرجْ سٌ ِم ْن َع َم ِل ال َّش ْيطَ ِ
ان فَاجْ تَنِبُوهُ vلَ َعلَّ ُك ْم
تُ ْفلِح َ
ُون
﴿﴾005:090
[جالندھری] اے ایمان والو! شراب اور جُوا اور بت اور پاسے (یہ
سب) ناپاک کام اعمال شیطان سیہیں۔ سو ان سے بچتے رہنا تاکہ
نجات پاؤ۔
تفسیر ابن كثیر
َوأَ ِطيعُوا هَّللا َ َوأَ ِطيعُوا ال َّرسُو َل َواحْ َذرُوا ۚ فَإِ ْن تَ َولَّ ْيتُ ْم
غ ْال ُمبِ ُv
ين فَا ْعلَ ُموا أَنَّ َما َعلَى َرسُولِنَا ْالبَاَل ُ
﴿﴾005:092
[جالندھری] جو لوگ ایمان الئے اور نیک کام کرتے رہے ان پر
ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھا چکے۔ جبکہ انہوں نے پرہیز
کیا اور ایمان الئے اور نیک کام کئے پھر پرہیز کیا اور ایمان الئے
پھر پرہیز کیا اور نیکوکاری کی۔ اور خدا نیکوکاروں کو دوست
رکھتا ہے۔
تفسیر ابن كثیر
أُ ِح َّل لَ ُك ْم َ
ص ْي ُد ْالبَحْ ِر َوطَ َعا ُمهُ َمتَا ًعا لَ ُك ْم َولِل َّسيَّا َر ِة ۖ
ص ْي ُد ْالبَ ِّر َما ُد ْمتُ ْم ُح ُر ًما ۗ َواتَّقُوا هَّللا َ
َوحُرِّ َم َعلَ ْي ُك ْم َ
الَّ ِذي إِلَ ْي ِه تُحْ َشر َ
ُون
﴿﴾005:096
اس َوال َّش ْه َر ْت ْال َح َرا َم قِيَا ًما لِلنَّ ِ َج َع َل هَّللا ُ ْال َك ْعبَةَ ْالبَي َ
ك لِتَ ْعلَ ُموا أَ َّن هَّللا َ يَ ْعلَ ُم َما
ي َو ْالقَاَل ئِ َد ۚ َذلِ َ
ْال َح َرا َم َو ْالهَ ْد َ
ض َوأَ َّن هَّللا َ بِ ُكلِّ َش ْي ٍء
ت َو َما فِي اأْل َرْ ِ
فِي ال َّس َما َوا ِ
َعلِي ٌم
﴿﴾005:097
[جالندھری] جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے واال ہے۔ اور یہ
کہ (خدا بخشنے واال مہربان بھی ہے ۔
تفسیر ابن كثیر
ك َك ْث َرةُ
يث َوالطَّيِّبُ َولَ ْو أَ ْع َجبَ َv قُلْ اَل يَ ْستَ ِوي ْال َخبِ ُ
ث ۚ فَاتَّقُوا هَّللا َ يَا أُولِي اأْل َ ْلبَا ِ
ب لَ َعلَّ ُك ْم تُ ْفلِح َ
ُون ْال َخبِي ِ
﴿﴾005:100
[جالندھری] کہہ دو کہ ناپاک چیزیں اور پاک چیزیں برابر نہیں
ہوتیں گو ناپاک چیزوں کی کثرت تمہیں خوش ہی لگے۔ تو عقل
والو خدا سے ڈرتے رہو تاکہ رستگاری حاصل کرو
تفسیر ابن كثیر
[جالندھری] خدا نے نہ تو بحیرہ کچھ چیز بنایا اور نہ سائبہ اور نہ
وصیلہ اور نہ حام بلکہ کافر خدا پر جھوٹ افتراء کرتے ہیں۔ اور یہ
اکثر عقل نہیں رکھتے ۔
تفسیر ابن كثیر
ين آ َمنُوا َعلَ ْي ُك ْم أَ ْنفُ َس ُك ْم ۖ اَل يَضُرُّ ُك ْم َم ْن يَا أَيُّهَا الَّ ِذ َ
ض َّل إِ َذا ا ْهتَ َد ْيتُ ْم ۚ إِلَى هَّللا ِ َمرْ ِج ُع ُك ْم َج ِميعًا فَيُنَبِّئُ ُك ْم بِ َما َ
ُك ْنتُ ْم تَ ْع َملُ َv
ون
﴿﴾005:105
ض َر أَ َح َد ُك ُم ين آ َمنُوا َشهَا َدةُ بَ ْينِ ُك ْم إِ َذا َح َ يَا أَيُّهَا الَّ ِذ َ
ان َذ َوا َع ْد ٍل ِم ْن ُك ْم أَ ْو آ َخ َر ِ
ان صيَّ ِة ْاثنَ ِ
ين ْال َو ِ ت ِح َ ْال َم ْو ُ
صابَ ْت ُك ْم ض فَأ َ َ ض َر ْبتُ ْم فِي اأْل َرْ ِ ِم ْن َغي ِْر ُك ْم إِ ْن أَ ْنتُ ْم َ
صاَل ِة
ت ۚ تَحْ بِسُونَهُ َماِ vم ْن بَ ْع ِد ال َّ صيبَةُ ْال َم ْو ِ ُم ِ
ان بِاهَّلل ِ إِ ِن ارْ تَ ْبتُ ْم اَل نَ ْشتَ ِري بِ ِه ثَ َمنًا َولَ ْو َك َ
ان فَيُ ْق ِس َم ِ
َذا قُرْ بَى ۙ َواَل نَ ْكتُ ُم َشهَا َدةَ هَّللا ِ إِنَّا إِ ًذا لَ ِم َن اآْل ثِ ِم َv
ين
﴿﴾005:106
ان يَقُو َم ِ
ان فَإِ ْن ُعثِ َر َعلَى أَنَّهُ َما ا ْستَ َحقَّا إِ ْث ًما فَآ َخ َر ِ
ان فَيُ ْق ِس َم ِ
ان ق َعلَ ْي ِه ُم اأْل َ ْولَيَ ِv
ين ا ْستَ َح ََّمقَا َمهُ َما ِم َن الَّ ِذ َ
ق ِم ْن َشهَا َدتِ ِه َما َو َما ا ْعتَ َد ْينَا vإِنَّا إِ ًذا بِاهَّلل ِ لَ َشهَا َدتُنَا أَ َح ُّ
لَ ِم َن الظَّالِ ِم َ
ين
﴿﴾005:107
يَ ْو َم يَجْ َم ُع هَّللا ُ الرُّ ُس َل فَيَقُو ُل َما َذا أُ ِج ْبتُ ْم ۖ قَالُوا اَل ِع ْل َم
ت َعاَّل ُم ْال ُغيُو ِ
ب ك أَ ْن َ لَنَا ۖ إِنَّ َ
﴿﴾005:109
إِ ْذ قَا َل هَّللا ُ يَا ِعي َسى اب َْن َمرْ يَ َم ْاذ ُكرْ نِ ْع َمتِي َعلَ ْي َ
ك
اس فِي س تُ َكلِّ ُم النَّ َ ُوح ْالقُ ُد ِ ك بِر ِ ك إِ ْذ أَيَّ ْدتُ َv
َو َعلَى َوالِ َدتِ َ
اب َو ْال ِح ْك َمةَ َوالتَّ ْو َراةَ ك ْال ِكتَ َ ْال َم ْه ِد َو َك ْهاًل ۖ َوإِ ْذ َعلَّ ْمتُ َv
ين َكهَ ْيئَ ِة الطَّي ِْر بِإِ ْذنِي ط ِ ق ِم َن ال ِّ َواإْل ِ ْن ِجي َل ۖ َوإِ ْذ تَ ْخلُ ُ
ئ اأْل َ ْك َمهَ
ون طَ ْيرًا بِإِ ْذنِي ۖ َوتُب ِْر ُ فَتَ ْنفُ ُخ فِيهَا فَتَ ُك ُ
ص بِإِ ْذنِي ۖ َوإِ ْذ تُ ْخ ِر ُج ْال َم ْوتَى بِإِ ْذنِي ۖ َوإِ ْذ َواأْل َ ْب َر َ
ت فَقَا َل ك إِ ْذ ِج ْئتَهُ ْم بِ ْالبَيِّنَا ِ ت بَنِي إِ ْس َرائِي َل َع ْن َ َكفَ ْف ُ
ينين َكفَرُوا ِم ْنهُ ْم إِ ْن هَ َذا إِاَّل ِسحْ ٌر ُمبِ ٌ الَّ ِذ َ
﴿﴾005:110
عیسی بن مریم !
ٰ عیسی سے فرمائے گا اے
ٰ [جالندھری] جب خدا
میرے ان احسانوں کو یاد کروں جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہv
پر کئے۔ جب میں روح القدس (جبرائیل) سے تمہاری مدد کی۔ تم
جھولے میں اور جوان ہو کر (ایک ہی طریق پر) لوگوں سے
گفتگو کرتے تھے اور جب میں نے تم کو کتاب اور دانائی اور
تورات اور انجیل سکھائی۔ اور جب تم میرے حکم سے مٹی کا
جانور بنا کر اس میں پھونک مار دیتے تھے تو وہ میرے حکم سے
اُڑنے لگتا تھا۔ اور مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے vکو میرے
حکم سے چنگا کر دیتے تھے اور مردے کو (زندہ کرکے قبر
سے) نکال کھڑا کرتے تھے۔ اور جب میں نے بنی اسرائیل (کے
ہاتھوں) کو تم سے روک دیا۔ جب انکے پاس کھلے ہوئے نشان
لیکر آئے تو جو ان میں سے کافر تھے کہنے لگے کہ یہ تو صریح
جادو ہے۔
تفسیر ابن كثیر
ُّون يَا ِعي َسى اب َْن َمرْ يَ َم هَلْ يَ ْستَ ِطي ُع اري َ ِ و
َ ح
َ ْ
ال لَ اَ ق ْ
ذ إِ
ك أَ ْن يُنَ ِّز َل َعلَ ْينَا َمائِ َدةً ِم َن ال َّس َما ِء ۖ قَا َل اتَّقُوا هَّللا َ َربُّ َ
إِ ْن ُك ْنتُ ْم ُم ْؤ ِمنِ َ
ين
﴿﴾005:112
ط َمئِ َّن قُلُوبُنَا َونَ ْعلَ َم أَ ْن قَ ْدقَالُوا نُ ِري ُد أَ ْن نَأْ ُك َل ِم ْنهَا َوتَ ْ
ينون َعلَ ْيهَا ِم َن ال َّشا ِه ِد َv ص َد ْقتَنَا َونَ ُك َ
َ
﴿﴾005:113
قَا َل ِعي َسى اب ُْن َمرْ يَ َم اللَّهُ َّم َربَّنَا أَ ْن ِزلْ َعلَ ْينَا َمائِ َدةً
آخ ِرنَا َوآيَةً ِم ْن َ
كۖ ون لَنَا ِعي ًدا أِل َ َّولِنَا َو ِ ِم َن ال َّس َما ِء تَ ُك ُ
ين ت َخ ْي ُر الر ِ
َّازقِ َ َوارْ ُز ْقنَا َوأَ ْن َ
﴿﴾005:114
ت لِلنَّ ِ
اس ت قُ ْل َ
َوإِ ْذ قَا َل هَّللا ُ يَا ِعي َسى اب َْن َمرْ يَ َم أَأَ ْن َ
ك َما اتَّ ِخ ُذونِي َوأُ ِّم َي إِلَهَي ِْن ِم ْن ُد ِ
ون هَّللا ِ ۖ قَا َل ُس ْب َحانَ َ
ت قُ ْلتُهُ
ق ۚ إِ ْن ُك ْن ُْس لِي بِ َح ٍّ ون لِي أَ ْن أَقُو َل َما لَي َ يَ ُك ُ
كۚفَقَ ْد َعلِ ْمتَهُ ۚ تَ ْعلَ ُم َما ِفي نَ ْف ِسي َواَل أَ ْعلَ ُم َما فِي نَ ْف ِس َ
ت َعاَّل ُم ْال ُغيُو ِ
ب ك أَ ْن َ
إِنَّ َ
﴿﴾005:116
[جالندھری] اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب خدا فرمائے گا
عیسی بن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے
ٰ کہ اے
سوا مجھے اور میری والدہ vکو معبود مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ
تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا
مجھے کچھ حق نہیں۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوگا تو تجھ کو معلوم
ہوگا۔ (کیونکہ) جو بات میرے دل میں ہے تو اُسے جانتا ہے اور
جو تیرے ضمیر میں ہے اُسے میں نہیں جانتا بیشک تو عال ّم
الغیوب ہے۔
تفسیر ابن كثیر
ٰ
نصاری کی شرمندگی روز قیامت
جن لوگوں نے مسیح پرستی یا مریم پرستی کی تھی ،ان کی
عیسی
ٰ تعالی حضرتموجودگی میں قیامت کے دن ہللا تبارک و ٰ
علیہ السالم سے سوال کرے گا کہ کیا تم ان لوگوں سے اپنی اور
اپنی والدہ vکی پوجا پاٹ کرنے کو کہہ آئے تھے؟ اس سوال سے
مردود vنصرانیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا اور ان پر غصے ہونا ہے تاکہ
وہ تمام لوگوں کے سامنے شرمندہ اور ذلیل و خوار ہوں ۔ حضرت
قتادہ وغیرہ کا یہی قول ہے اور اس پر وہ آیت (ھذا یوم ینفع
الصادقین) الخ ،سے استدالل کر تے ہیں ۔ سدی فرماتے ہیں یہ
خطاب اور جواب دینا ہی کافی ہے ،امام ابن جریر رحمتہ ہللا علیہ
اس قول کو ٹھیک بتا کر فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ اس وقت کا ہے
عیسی کو آسمان دنیا پر چڑھا لیا تھا،
ٰ تعالی نے حضرتجبکہ ہللا ٰ
اس کی دلیل ایک تو یہ ہے کہ کالم لفظ ماضی کے ساتھ ہے ،
دوسری دلیل آیت (ان تعذبھم) ہے لیکن یہ دونوں vدلیلیں ٹھیک
نہیں ،پہلی دلیل کا جواب تو یہ ہے کہ بہت سے امور جو قیامت
کے دن ہونے والے vہیں ان کا ذکر قرآن کریم میں لفط ماضی کے
ساتھ موجود ہے ،اس سے مقصود صرف اسی قدر ہے کہ وقوع
اور ثبوت بخوبی ثابت ہو جائے ،دوسری دلیل کا جواب یہ ہے کہ
اس سے مقصود جناب مسیح علیہ السالم کا یہ ہے کہ ان سے اپنی
برات ظاہر کر دیں اور ان کا معاملہ ہللا کے سپرد کر دیں ،اسے
شرط کے ساتھ معلق رکھنے سے اس کا وقوع الزم نہیں جیسے کہ
اسی جگہ اور آیتوں میں ہے ،زیادہ ظاہر وہی تفسیر ہے جو
حضرت قتادہ وغیرہ سے مروی ہے اور جو اوپر گزر چکی ہے
یعنی یہ کہ یہ گفتگو اور یہ سوال vجواب قیامت کے دن ہوں گے
تاکہ سب کے سامنے نصرانیوں کی ذلت اور ان پر ڈانٹ ڈپٹ ہو
چنانچہ ایک مرفوع غریب و عزیز حدیث میں بھی مروی ہے ،
جسے حافظ ابن عساکر رحمتہ ہللا علیہ ابو عبدہللا مولی عمر بن
عبدالعزیز کے حاالت میں الئے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ
وسلم نے فرمایا قیامت کے دن انبیاء اپنی اپنی امتوں سمیت ہللا کے
عیسی بلوائے جائیں گےٰ سامنے بلوائے جائیں گے پھر حضرت
اور ہللا ٰ
تعالی اپنے احسان انہیں جتالئے گا جن کا وہ اقرار کریں
عیسی جو احسان میں نے تجھ پر اور تیری ٰ گے فرمائے گا کہ اے
والدہ vپر کئے ،انہیں یاد کر ،پھر فرمائے گا تو نے لوگوں سے کہا
تھا کہ ہللا کو چھوڑ کر مجھے اور میری والدہ vکو الہ سمجھنا ،آپ
اس کا بالکل انکار کریں گے ،پھر نصرانیوں کو بال کر ان سے
دریافت فرمائے گا تو وہ کہیں گے ،ہاں انہوں نے ہی ہمیں اس راہ
عیسی کے ٰ پر ڈاال تھا اور ہمیں یہی حکم دیا تھا ،اسی لیے حضرت
سارے بدن کے بال کھڑے ہو جائیں گے ،جنہیں لے کر فرشتے ہللا
کے سامنے جھکا دیں گے بہ مقدار ایک ہزار سال کے یہاں تک کہ
عیسائیوں پر حجت قائم ہو جائے گی ،اب ان کے سامنے صلیب
کھڑی کی جائے گی اور انہیں دھکے دے کر جہنم میں پہنچا دیا
عیسی کے جواب کو دیکھئے کہ کس قدر باادب ٰ جائے گا ،جناب
اور کامل ہے ؟ دراصل یہ بھی ہللا کی ایک نعمت ہے ،آپ کو اسی
وقت یہ جواب سکھایا جائے گا جیسے کہ ایک مرفوع حدیث میں
تعالی نے مجھے ایسی بات بھی ہے کہ آپ فرمائیں گے کہ باری ٰ
کہنے کا حق تھا نہ میں نے کہا ،تجھ سے نہ میری کوئی بات
پوشیدہ ہے نہ میرا کوئی ارادہ vچھپا ہوا ہے ،دلی راز تجھ پر ظاہر
ہیں ،ہاں تیرے بھید کسی نے نہیں پائے تمام ڈھکی چھپی باتیں تجھ
پر کھلی ہوئی ہیں غیبوں کا جاننے واال تو ہی ہے ،جس تبلیغ پر
میں مامور اور مقرر تھا میں نے تو وہی تبیلغ کی تھی جو کچھ مجھ
سے اے جناب باری تو نے ارشاد فرمایا تھا وہی بال کم و کاست
میں نے ان سے کہدیا تھا ۔ جا کا ما حصل یہ ہے کہ صرف ایک ہللا
ہی کی عبادت کرو ،وہی میرا رب ہے اور وہی تم سب کا پالنہار
ہے ،جب میں ان میں موجود تھا ان کے اعمال دیھکتا بھالتا تھا
لیکن جب تو نے مجھے بال لیا پھر تو تو ہی دیکھتا بھالتا رہا اور تو
تو ہر چیز پر شاہد ہے ،ابوداؤد vطیالسی میں ہے کہ رسول ہللا صلی
ہللا علیہ وسلم نے اپنے ایک واعظ vمیں فرمایا اے لوگو تم سب ہللا
عز و جل کے سامنے ننگے پیر ،ننگے بدن ،بےختنہ جمع ہونے
والے ہو ،جیسے کہ ہم نے شروع پیدائش کی تھی ویسے ہی دوبارہ
لوٹائیں گے ،سب سے پہلے خلیل ہللا حضرت ابراہیم علیہ السالم کو
کپڑے پہنائے جائیں گے سنو کچھ لوگ vمیری امت کے ایسے الۓ
جائیں گے جنہیں بائیں جانب گھسیٹ لیا جائے گا تو میں کہوں گا یہ
تو میرے ہیں ،کہا جائے گا ،آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد
انہوں نے کیا کیا گل کھالئے تھے ،تو میں وہی کہوں گا جو ہللا کے
صالح بندے کا قول ہے کہ جب تک میں ان میں رہا ،ان کے اعمال
پر شاہد تھا ،پس فرمایا جائیگا کہ آپ کے بعد یہ تو دین سے مرتد
تعالی کی چاہت ہی ہوتے رہے ۔ اس کے بعد کی آیت کا مضمون ہللا ٰ
اور اسکی مرضی کی طرف کاموں کو لوٹانا ہے ،وہ جو کچھ
چاہے کرتا ہے اس سے کوئی کسی قسم کا سوال نہیں کر سکتا اور
وہ ہر ایک سے باز پرس کرتا ہے ،ساتھ ہی اس مقولے میں جناب
مسیح کی بیزاری ہے ،ان نصرانیوں سے جو ہللا پر اور اس کے
رسول پر بہتان باندھتے تھے اور ہللا کا شریک ٹھہراے تھے اور
تعالی ان کی ان تہمتوں سے اس کی اوالد اور بیوی بتاتے تھے ،ہللا ٰ
پاک ہے اور وہ بلند و برتر ہے ۔ اس عظیم الشان آیت کی عظمت کا
اظہار اس حدیث سے ہوتا ہے ،جس میں ہے کہ پوری ایک رات
ہللا کے نبی صلی ہللا علیہ وسلم اسی ایک آیت کی تالوت فرماتے
رہے ،چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم
نے ایک رات نماز پڑھی اور صبح تک ایک ہی آیت کی تالوت
فرماتے رہے ،اسی کو رکوع میں اور اسی کو سجدے میں پڑھتے
تعالی عنہرہے ،وہ آیت یہی ہے صبح کو حضرت ابو ذر رضی ہللا ٰ
نے کہا یا رسول ہللا آج کی رات تو آپ نے اسی ایک آیت میں
گزاری رکوع میں بھی اس کی تالوت رہی اور سجدے میں بھی ،
تعالی سے اپنی امت کی شفات کیلئے دعا آپ نے فرمایا میں نے ہللا ٰ
تعالی نے اس دعا کو قبول فرما لیا ،پس میری یہ شفاعت کی تو ہللا ٰ
تعالی ،مسند احمد کی اورہر موحد شخص کیلئے ہو گی ،انشاء ہللا ٰ
حدیث میں ہے حضرت جرہ بنت دجاجہ عمرے کے ارادے سے
جاتی ہیں جب ربذہ میں پہنچتنی ہیں تو حضرت ابوذر رضی ہللا
تعالی عنہ سے حدیث سنتی ہیں کہ ایک رات رسول ہللا صلی ہللا ٰ
علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھائی ،فرضوں کے بعد دیکھا کہ
صحابہ نماز میں مشغول ہیں تو آپ اپنے خیمے کی طرف تشریف
لے گئے ،جب جگہ خالی ہو گئی اور صحابہ چلے گئے تو آپ
واپس تشریف الئے اور نماز میں کھڑے ہو گئے میں بھی آ گیا اور
آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپ نے اپنی دائیں طرف کھڑا ہونے
کا مجھے اشارہ کیا ،میں دائیں جانب آ گیا ،پھر حضرت ابن مسعود
تعالی عنہ آئے اور وہ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تو رضی ہللا ٰ
آپ نے اپنی بائیں طرف کھڑے ہونے کا اشارہ کیا چنانچہ وہ آ کر
بائیں جانب کھڑے ہو گئے ،اب ہم تینوں نے اپنی اپنی نماز شروع
کی الگ الگ تالوت قرآن اپنی نماز میں کر رہے تھے اور حضور
علیہ السالم کی زبان مبارک پر ایک ہی آیت تھی ،بار بار اسی کو
پڑھ رہے تھے ،جب صبح ہوئی تو میں نے حضرت ابن مسعود
سے کہا کہ ذرا حضور سے دریافت تو کرو کہ رات کو ایک ہی
آیت کے پڑھنے کی کیا وجہ تھی؟ انہوں نے کہا اگر حضور خود
کچھ فرمائیں تو اور بات ہے ورنہ میں تو کچھ بھی نہ پوچھو گا ،
اب میں نے خود ہی جرات کر کے آپ سے دریافت کیا کہ حضور
پر میرے ماں باپ فدا ہوں ،سارا قرآن تو آپ پر اترا ہے اور آپ
کے سینے میں ہے پھر آپ نے ایک ہی آیت میں ساری رات کیسے
گزار دی ؟ اگر کوئی اور ایسا کرتا تو ہمیں تو بہت برا معلوم ہوتا ،
آپ نے فرمایا اپنی امت کے لئے دعا کر رہا تھا ،میں نے پوچھا
پھر کیا جواب مال؟ آپ نے فرمایا اتنا اچھا ،ایسا پیارا ،اس قدر
آسانی واال کہ اگر عام لوگ vسن لیں تو ڈر ہے کہ کہیں نماز بھی نہ
چھوڑ بیٹھیں ،میں نے کہا مجھے اجازت ہے کہ میں لوگوں میں یہ
خوش خبری پہنچا دوں؟ آپ نے اجازت دی ،میں ابھی کچھ ہی دور
گیا ہوں گا کہ حضرت عمر نے کہا یا رسول ہللا اگر یہ خبر آپ نے
عام طور پر کرا دی تو ڈر ہے کہ کہیں لوگ عبادت سے بےپرواہv
نہ ہو جائیں تو آپ نے آواز دی کہ لوٹ آئے اور وہ آیت (ان تعذبھم)
عیسی کے اس ٰ الخ ،تھی ابن ابی حاتم میں ہے حضور نے حضرت
قول کی تالوت کی پھر ہاتھ اٹھا کر فرمایا اے میرے رب میری
امت اور آپ رونے لگے ،ہللا ٰ
تعالی نے جبرائیل کو حکم دیا کہ جا
کر پوچھو کہ کیوں رو رہے ہیں؟ حاالنکہ ہللا کو سب کچھ معلوم
ہے ،حضرت جبرائیل علیہ السالم آئے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا
اپنی امت کے لئے ! ہللا ٰ
تعالی نے فرمایا جاؤ کہدو کہ ہم آپ کو آپ
کی امت کے بارے میں خوش کر دیں گے اور آپ بالکل رنجیدہ نہ
ہوں گے ،مسند احمد میں ہے حضرت حذیفہ فرماتے ہیں ایک روز
رسول صلی ہللا علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ہی نہیں یہاں تک کہ ہم
نے خیال کیا کہ آج آپ آئیں گے ہی نہیں ،پھر آپ تسریف الئے اور
آتے ہی سجدے میں گر پڑے اتنی دیر لگ گئی کہ ہمیں خوف ہوا
کہ کہیں آپ کی روح پرواز نہ کر گئی ہو؟ تھوڑی دیر میں آپ نے
سر اٹھایا اور فرمانے لگے مجھ سے میرے رب عزوجل نے میری
امت کے بارے میں دریافت فرمایا کہ میں ان کے ساتھ کیا کروں؟
تعالی وہ تیری مخلوق ہے وہ سبمیں نے عرض کیا کہ باری ٰ
تیرے بندے اور تیرے غالم ہیں تجھے اختیار ہے ،پھر مجھ سے
دوبارہ میرے ہللا نے دریافت فرمایا میں نے پھر بھی یہی جواب دیا
تو مجھ سے ہللا عزوجل نے فرمایا اے نبی میں آپ کو آپ کی امت
کے بارے میں کبھی شرمندہ نہ کروں گا ،سنو مجھے میرے رب
نے خوشخبری دی ہے کہ سب سے پہلے میری امت میں سے
میرے ساتھ ستر ہزار شخص جنت میں جائیں گے ،ہر ہزار کے
ساتھ ستر ہزار اور ہوں گے ،ان سب پر حساب کتاب مطلقا ً نہیں ،
پھر میری طرف پیغام بھیجا کہ میرے حبیب مجھ سے دعا کرو میں
قبول فرماؤں گا مجھ سے مانگو میں دوں گا میں نے اس قاصد سے
کہا کہ جو میں مانگوں مجھے ملے گا؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں
اسی لئے تو مجھے ہللا نے بھیجا ہے ،چنانچہ میرے رب نے بہت
کچھ عطا فرمایا ،میں یہ سب کچھ فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا،
مجھے میرے رب نے بالکل بخش دیا ،اگلے پچھلے سب گناہ
معاف فرما دیئے حاالنکہ زندہ سالمت چل پھر رہا ہوں ،مجھے
میرے رب نے یہ بھی عطا فرمایا کہ میری تمام امت قحط سالی کی
وجہ سے بھوک کے مارے ہالک نہ ہو گی اور نہ سب کے سب
مغلوب ہو جائیں گے ،مجھے میرے رب نے حوص کوثر دیا ہے،
وہ جنت کی ایک نہر ہے جو میرے حوض میں بہ رہی ہے ،
مجھے اس نے عزت ،مدد اور رعب دیا ہے جو امتیوں کے آگے
آگے مہینہ بھر کی راہ پر چلتا ہے ،تمام نبیوں میں سب سے پہلے
میں جنت ہی میں جاؤں گا ،میرے اور میری امت کے لئے غنیمت
کا مال حالل طیب کر دیا گیا وہ سختیاں جو پہلوں پر تھیں ہم پر
سے ہٹا دی گئیں اور ہمارے دین میں کسی طرح کی کوئی تنگی
نہیں رکھی گئی ۔
ت لَهُ ْم إِاَّل َما أَ َمرْ تَنِي بِ ِه أَ ِن ا ْعبُ ُدوا هَّللا َ َربِّي َما قُ ْل ُ
ت فِي ِه ْم ۖ فَلَ َّما ت َعلَ ْي ِه ْم َش ِهي ًداَ vما ُد ْم ُ َو َربَّ ُك ْم ۚ َو ُك ْن ُ
ت َعلَى ُك ِّل يب َعلَ ْي ِه ْم ۚ َوأَ ْن َ
ت ال َّرقِ َ ت أَ ْن َتَ َوفَّ ْيتَنِي ُك ْن َ
َش ْي ٍء َش ِهي ٌد
﴿﴾005:117
ك أَ ْن َ
ت إِ ْن تُ َع ِّذ ْبهُ ْم فَإِنَّهُ ْم ِعبَا ُد َv
ك ۖ َوإِ ْن تَ ْغفِرْ لَهُ ْم فَإِنَّ َ
ْال َع ِزي ُز ْال َح ِكي ُم
﴿﴾005:118
[جالندھری] اگر تو انکو عذاب دے تو یہ تیرے بندیہیں۔ اور اگر
بخش دے تو (تیری مہربانی ہے) بیشک تو غالب (اور) حکمت واال
ہے ۔
تفسیر ابن كثیر