You are on page 1of 38

‫ارشد احمد خان‬

‫الفاظ کی تفہیم‬
‫‪‬‬
‫‪‬شوری ‪ ،‬مشورہ ‪ ،‬مشاورت کے معےن ہیں‬

‫‪‬کس ی قابل غور معاملہ میں لوگوں کی رائیں حاصل کرنا‬


‫‪‬معاملہ چاےہ دینی ہو یا دنیوی‬
‫شور ٰی کے بارے میں آیات قرآنی‬
‫‪‬‬
‫َ َ‬ ‫َ َ َ َ ِّ َ ہ َ َ ُ َ َ ُ َ َ ًّ َ َ َ‬
‫لب النفضوا ِمن‬
‫اّٰلل ِلنت لہم ولو کنت فظا غ ِلیظ الق ِ‬
‫‪ ‬ف ِبما رحم ٍۃ ِمن ِ‬
‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َ َ َ ُ‬
‫غفر لہم وش ِاورہم ِفی اال ِ‬
‫مر ( آل عمران ‪) 159 :‬‬ ‫ح ِولک فاعف عنہم واست ِ‬

‫‪( ” ‬اے پیغمبر) یہ ہللا کی بڑی رحمت ےہ کہ تم ِان لوگوں کے لےی بہت نرم مزاج واقع ہو ئے ہو‬
‫ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہو تے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے‬
‫ِان کے قصور معاف کر دو‪ِ ،‬ان کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو‪ ،‬اور دین کے کام میں ان کو بھی‬
‫شریک مشورہ رکھو‪ ،‬پھر جب تمہارا عزم کس ی رائے پر مستحکم ہو جائے تو ہللا پر بھروسہ‬
‫ُ‬
‫کرو‪ ،‬ہللا کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس ی کے بھروسے پر کام کر تے ہیں (‪“)159‬‬
‫ٰ‬
‫شوری کے بارے میں آیات قرآنی‬
‫‪‬‬
‫ور ٰى بَ ْينَ ُه ْم َو ِم َّما َرزَ ْقنَا ُه ْم‬
‫ش َ‬ ‫‪َ ‬والَّذِينَ ا ْست َ َجابُوا ِل َر ِبِّ ِه ْم َوأَقَا ُموا ال َّ‬
‫ص َلة َ َوأ َ ْم ُر ُه ْم ُ‬
‫يُن ِفقُونَ ﴿‪﴾٣٨‬‬

‫‪ ‬جو اپےن رب کا حکم مانےت ہیں‪ ،‬نماز قائم کر تے ہیں‪ ،‬اپےن معاملت آپس کے‬
‫ُ‬
‫مشورے سے چلتے ہیں‪ ،‬ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ےہ اس میں سے‬
‫خرچ کر تے ہیں (‪)38‬‬
‫شور ٰی کے بارے میں احادیث ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪ (( ‬عن علی قال قلت يارسول ہللا ان نزل بنا امر ليس فيہ بيان امر وال نهی فماتامرنی‬
‫؟ قال شاور فيہ الفقہاءالعابدين وال تمض فيہ رای خاصۃ رواہ الطبرانی فی االوسط‬
‫ورجالہ موثقون ))( مجمع الزوائد‪) 178/1‬‬

‫‪ ” ‬حضرت علی رض ی ہللا عنہ نے پوچھا کہ اے ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم اگر ہمارے درمیان‬
‫کوئی واقعہ رونما ہو جائے جس کے بارے میں نہ کوئی امر ہو اور نہ نہی ہو تو ایسے واقعہ کے متعلق‬
‫آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا کیا ارشاد ےہ ؟ فرمایا اس بارے میں عبادت گزار اور دیانت دار ماہرین‬
‫شریعت سے مشورہ کر لیا کرو اور انفرادی رائے اختیار نہ کرو ۔ “‬
‫شور ٰی کے بارے میں احادیث ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬ح ض رت س ہ ل ب ن س ع د ا ل س ا ع د ی رس و ل ہللا ص ل ی ہللا ع ل ی ہ‬
‫وس ل م س ے ر و ا ی ت ک ر ت ے ہ ی ں ۔ آ پ ص ل ی ہللا ع ل ی ہ وس ل م ن ے‬
‫ف رم ا ی ا م ش و ر ہ ک ر ن ے وا ال ک ب ھ ی ح ق س ے م ح رو م ن ہ ی ں ہ وت ا‬
‫ا و ر ا پ ن ی ذ ا ت ی را ئ ے ک و کا ف ی س م ج ھ ےن وا ال خ وش پ س ن د‬
‫ا ن س ا ن ک ب ھ ی س ع ی د ن ہ ی ں ہ و س ک ت ا ۔ ( ت ف س ی ر ق رط ب ی ‪2 5 1 / 4‬‬
‫س و ر ۃ آ ل ع م را ن )‬
‫شور ٰی کے بارے میں احادیث ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬ح ح ض رت ا ب وہ ری رہ رض ی ہللا ع ن ہ کی ر و ا ی ت ےہ ک ہ رس و ل ہللا‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ‪ :‬جب تمہارے حکمران تم میں سے بہترین لوگ ہوں‬
‫اور تمہارے دولت مند لوگ سخی ہوں اور تمہارے معاملت باہمی مشورے سے‬
‫طے کئے جاتے ہوں تو زمین کی پشت تمہارے لئے اس کے پیٹ سے بہتر ہو گی لیکن‬
‫جب تمہارے حکمران تم میں سے بدترین لوگ ہوں گے اور تمہارے دولت مند‬
‫بخیل ہوں گے اور تمہارے معاملت عورتوں کے سپرد ہوں تو پھر زمین کا پیٹ‬
‫ٰ‬
‫مشکوۃ شریف ‪ ،‬کتاب الرقاق ‪ ،‬باب‬ ‫تمہارے لئے اس کی پیٹھ سے بہتر ہو گا ۔ (‬
‫شور ٰی کے بارے میں احادیث ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪ (( ‬عن عائشۃ قالت ما رايت رجل اکثر استشارة للرجال من‬
‫رسول ہللا صلی ہللا عليہ وسلم )) (( ترمذی شريف کتاب الجهاد‬
‫‪) 241/1‬‬
‫” حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا شخص نہیں دیکھا جو رسول‬
‫ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے زیادہ لوگوں سے مشورہ کر نے واال ہو ۔ “‬
‫نبی اور شیخین‬
‫‪‬‬
‫شوری امت کے لئے رحمت‬
‫‪‬‬
‫امام جصاص متوفی ‪370‬ھ فرماتے ہیں ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو مشاورت کا حکم ان دینی امور کے بارے‬
‫میں دیا گیا تھا جن کے متعلق ہللا کی طرف سے واضح ہدایت موجود نہ ہوتی‬
‫تھی اور ان دنیوی اور انتظامی امور میں بھی مشاورت کا ہ ی حکم دیا گیا‬

‫ےہ جن کی بنیاد رائے اور ِ‬


‫ظن غالب پر ہوتی ےہ ۔ ( احکام القرآن‬
‫للجصائص‪) 40/2‬‬
‫ابن عطیہ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫اہل شوری کیسے ہوں؟‬
‫‪‬‬
‫مشورہ امانت ےہ‬
‫‪‬‬
‫شوری کی برکت‬
‫‪‬‬
‫اختلف رائے میں امیر کی حیثیت‬
‫‪‬‬
‫دس تاریخی مثالیں‬
‫‪ 1‬۔ شورائے اذان ‪1‬ھ ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬حضرت انس بن مالک رض ی ہللا عنہ اور ابن عمر رض ی ہللا عنہ سے مروی ےہ کہ مدنی‬
‫دور کے آغاز میں لوگ نماز کے اوقات اپےن اندازے سے متعین کر تے تھے ۔‬
‫‪ ‬ایک دن اس کے لئے مشورہ کیا گیا‬
‫‪ ‬کس ی نے یہود کے بوق ( سینگھ میں پھونک مارنا ) کی تجویز دی‬
‫‪ ‬اور کس ی نے نصار ٰی کے ناقوس( بڑی گھنٹی ) کی رائے پیش کی ۔‬
‫‪ ‬مگر حضرت عمر رض ی ہللا عنہ نے یہ تجویز دی کہ ایک شخص کو مقرر کیا جائے جو‬
‫نماز کے اوقات میں بلند آواز سے لوگوں کو بلئے ۔ چنانچہ اس ی پر فیصلہ ہوا اور رسول‬
‫ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اس کام پر حضرت بلل رض ی ہللا عنہ کو مقرر فرمایا ۔ (‬
‫صحیح بخاری باب بدءاالذان ‪) 85/1‬‬
‫ٰ‬
‫الصلوۃ جامعۃ “ کہا کر تے تھے لیکن بعد‬ ‫‪ ‬حضرت بلل نماز کے اوقات میں بلند آواز سے ”‬
‫عبد ربہ رض ی ہللا عنہ نے خواب میں آذان کے مروجہ‬ ‫میں حضرت عبدہللا بن زید بن ِ‬
‫ی‬‫ٰ‬
‫‪ 2‬۔ شورائے بدر کبر ‪2‬ھ ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬حضرت انس بن مالک رض ی ہللا عنہ سے روایت ےہ کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫غزوہ بدر کے موقع پر ( راسےت میں ) اپےن اصحاب رض ی ہللا عنہ سے مشورہ کیا ۔‬

‫‪ ‬ابوبکر رض ی ہللا عنہ اور عمر رض ی ہللا عنہ نے اپنی رائے دی‬

‫‪ ‬مگر آپ صلی ہللا علیہ وسلم انصار کی رائے سنےن کیلئے خاموش رےہ‬

‫‪ ‬تو سعد بن عبادہ رض ی ہللا عنہ نے اٹھ کر کہا ‪ :‬اگر آپ حکم دیں تو ہم دریا میں‬
‫چھلنگ یا برک الغماد ( یمن ) تک اپےن گھوڑے دوڑانے کیلئے بھی تیار ہیں اس پر روانگی‬
‫کا حکم ہوا ۔ اور فوج مقام بدر پر پہنچ کر مورچہ زن ہوگئی ۔ ( مسلم شریف ‪ ،‬کتاب‬
‫الجھاد باب غزوۃ بدر )‬
‫‪ 3‬۔ شورائے اسارائے بدر‪ 2‬ھ ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬بدر کے قیدیوں کے بارے میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا اور‬
‫فرمایا ان قیدیوں کے متعلق تمہاری کیا رائے ےہ‬

‫‪ ‬حضرت ابوبکر رض ی ہللا عنہ نے فرمایا فدیہ لے کر چھوڑ دیں‬

‫‪ ‬حضرت عمر رض ی ہللا عنہ نے فرمایا میری رائے تو یہ ےہ کہ ان کی گردنیں اڑا دی جائیں‬
‫اس لئے کہ یہ کفر کے امام اور اسلم دشمن سردار ہیں‬

‫‪ ‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ابوبکر رض ی ہللا عنہ کی رائے کے مطابق فدیہ لے کر‬
‫قیدیوں کو آزاد کر دیا ۔ ( ترمذی شریف کتاب الجھاد‪) 241/1‬‬
‫‪ 4‬۔ شورائے احد ‪3‬ھ ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬پہلے آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے دفاعی حکمت عملی کے متعلق اپنی رائے پیش کی کہ مدینہ‬
‫سے باہر نہ نکلیں بلکہ شہر کے اندر ہ ی قلعہ بند ہو جائیں‬

‫‪ ‬لیکن بعض صحابہ رض ی ہللا عنہ نے سخت اصرار کیا کہ جنگ شہر سے باہر جا کر‬
‫موزوں ہو گی‬

‫‪ٰ ‬لہذا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اکثریت کے اصرار کے سامےن اپنی رائے ترک کر دی‬

‫‪ ‬اور آخری فیصلہ یہی ہوا کہ مدینہ سے باہر کھلے میدان میں معرکہ آرائی کی جائے ۔ (‬
‫الرحیق املختوم ‪ ،‬صفی الرحمن مبارکپوری ص ‪) 342‬‬
‫‪ 5‬۔ شورائے خندق ‪5‬ھ ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬غزوہ احزاب ( خندق ) کے موقع پر بھی شور ٰی طلب کی گئی‬

‫‪ ‬کہ باہر جا کر محاذ قائم کیا جائے‬

‫‪ ‬یا شہر کے اندر مورچے بنائے جائیں ۔‬

‫‪ ‬حضرت سلمان فارس ی رض ی ہللا عنہ نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا تو مسلمانوں کو یہ‬
‫رائے پسند آئی چنانچہ اس ی پر عمل کر نے کا حکم صادر فرمایا گیا ۔ ( طبقات ابن سعد‬
‫‪ 66/2‬سیرت ابن ہشام ‪) 224/3‬‬
‫‪6‬۔ شورائے مصالحت خندق میں‪ 5‬ھ ‪:‬‬
‫ل‬
‫‪‬‬ ‫و‬
‫‪ ‬غز ہ خندق کے موقع پر جب محاصرہ سخت ہو گیا تو رسو ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے بنو عظفان کے‬
‫لیڈروں عیینہ بن حصن اور حارث بن عوف کے ساتھ مدینہ کے باغات کے پھلوں کا ( ثلث ) دے کر مصالحت‬
‫کی بات کی‬
‫‪ ‬آ خ ری ف ی ص ل ہ س ے ق ب ل م ش و ر ہ ک رن ا ض ر و ر ی س م ج ھ ا گ ی ا‬
‫‪ ‬ا ن ص ا ر ک ے رہ ن م ا ؤ ں م ی ں س ے ح ض رت س ع د ب ن م ع ا ذ رض ی ہللا ع ن ہ ا و ر س ع د ب ن‬
‫ع ب ا د ہ رض ی ہللا ع ن ہ ن ے ک ہ ا ا گ ر ی ہ خ د ا کا ح ک م ےہ ت و ہ م ت س ل ی م ک ر ت ے ہ ی ں‬
‫‪ ‬ل ی ک ن ا گ ر ح ک م ن ہ ی ں ےہ ت و پ ھ ر ہ م م ص ا ل ح ت پ ر ت ی ا ر ن ہ ی ں ہ ی ں‬
‫‪ ‬رس و ل ہللا ص ل ی ہللا ع ل ی ہ وس ل م ن ے ف رم ا ی ا ا گ ر ی ہ ہللا کا ح ک م ہ وت ا ت و م ی ں آ پ‬
‫س ے م ش و ر ہ ن ہ ک رت ا چ ن ا ن چ ہ آ پ ص ل ی ہللا ع ل ی ہ وس ل م ن ے ا پ ن ی را ئ ے پ ر ش و ر ٰی کی‬
‫‪ 7‬۔ واقعہ افک کے متعلق شور ٰی ‪6‬ھ ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬غزوہ بنو املصطلق کے سفر میں منافقین کے لیڈر عبدہللا بن ابی نے حضرت عائشہ صدیقہ رض ی‬
‫ہللا عنہ پر بہتان تراش ی کی تھی اور مدینہ منورہ میں پروپیگنڈے کا ایک طوفان برپا کر دیا تھا ۔‬
‫‪ ‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اسامہ بن زید اور حضرت علی رض ی ہللا عنہ سے ام املومنین سے‬
‫علیحدگی اختیار کر نے کے متعلق مشورہ کیا اور پھر مسجد میں جا کر اجلس عام میں کہا ۔‬
‫” اے مسلمانو ! کون مجھے معذور جانے گا ۔ اگر میں اس شخص کے خلف کوئی قدم اٹھاؤں جس‬
‫سے مجھے تکلیف پہنچی ےہ میری بیوی کے بارے میں حاالنکہ خدا کی قسم مجھے اپنی بیوی کے متعلق‬
‫خیر کے علوہ کچھ معلوم نہیں ہوا ۔ “‬
‫‪ ‬لیکن بعد میں سورۃ النور نازل ہوئی اور حضرت عائشہ رض ی ہللا عنہ کی پاکدامنی واضح ہو گئی‬
‫اور سازشیوں کو ناکامی ہوئی ۔ ( صحیح بخاری ‪ ،‬کتاب املغازی باب غزوۃ بنو املصطلق )‬
‫‪ 8‬۔ شورائے حدیبیہ ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬غزوہ حدیبیہ کے سفر میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم جب ” غدیر االشطاط “ کے مقام پر پہنچے تو‬
‫مسلمانوں کے مخبر نے آ کر اطلع دی کہ قریش مکہ نے اپےن حلیف قبائل کو جمع کر لیا ےہ جو آپ‬
‫کو بیت ہللا سے روکنا چاہےت ہیں‬

‫‪ ‬اس موقع پر آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانو ! مجھے مشورہ دو کہ اب کیا اقدام کیا‬
‫جائے یہ مناسب ےہ کہ قریش کے ان دوستوں ( احابیش ) کے گھروں پر حملہ کیا جائے‬

‫‪ ‬حضرت ابوبکر رض ی ہللا عنہ نے رائے دی کہ آپ کعبہ کی زیارت کی غرض سے آئے ہیں پس اس ی کیلئے آگے‬
‫بڑھئے جو بھی ہمیں رو کے گا ہم اس سے لڑیں گے لیکن بعد میں صلح ہو گئی ۔ ( صحیح بخاری ‪،‬‬
‫کتاب املغازی باب غزوۃ حدیبیہ )‬
‫‪ 9‬۔ ہوازن کے قیدیوں کے متعلق شور ٰی‬
‫‪8‬ھ ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬غزوہ حنین میں بنوہوازن کے ‪ 6000‬ہزار قیدی گرفتار ہو ئے تھے ۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے طائف کے‬
‫محاصرے سے واپس آ کر جعرانہ کے مقام پر کچھ دیر انتظار کیا تا کہ یہ لوگ ایمان قبول کر لیں تو ان کا‬
‫مال اور قیدی دونوں واپس کر دئےی جائیں گے لیکن انہوں نے آنے میں دیر کی تو مال غنیمت تقسیم کر دیا گیا‬
‫۔ ( ابوداؤد شریف ‪ ،‬کتاب الجھاد ‪) 42/3-141‬‬
‫بعد میں جب طائف و الے پشیمان ہو کر آئے تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ” شورائے عام “ بلئی اور کہا کہ‬
‫میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدی رہا کر دئےی جائیں ۔‬
‫‪ ‬تم میں سے جو بطیب نفس اپنا قیدی آزاد کرنا چاےہ تو مناسب ہو گا ورنہ ہم اسے معاوضہ دے کر آزاد‬
‫کر دیں گے ۔ لوگوں نے کہا ہم بخوش ی آزاد کر تے ہیں‬
‫‪ ‬لیکن آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا تم واپس جا کر اپےن نمائندوں کو اپنی رائے دو ۔ نمائندوں نے بعد میں آ‬
‫کر کہا سب راض ی ہیں تب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے تمام قیدی رہا کر دئےی ۔ ( بخاری شریف کتاب‬
‫‪10‬۔ معاذ بن جبل کے بارے میں شور ٰی ‪10‬‬ ‫رض‬

‫ھ‪:‬‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر بناتے وقت شور ٰی بلئی گئی تھی ۔‬

‫‪ ‬ارکان شور ٰی نے اپنی اپنی رائے پیش کی‬

‫‪ ‬کافی غور و خوض کے بعد معاذ رض ی ہللا عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا گیا ۔ ( مجمع‬

‫الزوائد ‪ ،‬کتاب املناقب ‪46/9‬‬


‫خلفاء راشدین‬
‫‪‬‬
‫ٰ‬
‫‪ ‬حضرت عمر رض ی ہللا تعالی عنہ نے فرمایا تھا کہ مشورے کے بغیر خلفت سرے سے‬
‫جائز ہ ی نہیں‬

‫‪ ‬ال خلفۃ اال عن مشورۃ " (کنز العمال بحوالہ مصنف بن ابی شیبہ جلد ‪ 3‬صفحہ ‪)139‬‬

‫‪ ‬مجلس شور ٰی کا انعقاد اور اہل الرائے کی مشورت استحسان و تبرع کے طور پر نہ تھی‬
‫عراق و شام کے فتح ہو نے پر‬
‫‪‬‬
‫ٰ‬
‫‪ ‬بعض صحابہ رض ی ہللا تعالی عنہ نے اصرار کیا کہ تمام مفتوحہ مقامات فوج کی جاگیر‬
‫میں دے دیئے جائیں بہت بڑی مجلس منعقد ہوئی۔ جس میں تمام قدمائے مہاجرین اور‬
‫انصار میں سے عام لوگوں کے علوہ دس بڑے سردار جو تمام قوم میں ممتاز تھے اور جن‬
‫میں پانچ شخص قبیلہ اوس اور پانچ قبیلہ خزرج کے تھے‪ ،‬شریک ہو ئے۔‬

‫‪ ‬کئی دن تک مجلس کے جلسے رےہ اور نہایت آزادی و بیباکی سے لوگوں نے تقریریں کیں۔‬
‫ٰ‬
‫‪ ‬اس موقع پر حضرت عمر رض ی ہللا تعالی عنہ نے تقریر (تمام تفصیل کتاب الخراج‬
‫قاض ی ابو یوسف صفحہ ‪ 14‬تا ‪ 15‬میں ےہ۔)‬
‫‪ 21‬ہجری ‪ -‬نہاوند کامعرکہ‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬عجمیوں نے اس سر و سامان سے تیاری کی کہ لوگوں کے نزدیک خود خلیفہ وقت کا اس‬
‫مہم پر جانا ضروری ٹھہرا تو بہت بڑی مجلس شور ٰی منعقد ہوئی۔‬
‫ٰ‬
‫الرحمن بن عوف رض ی ہللا‬ ‫‪ ‬حضرت عثمان‪ ،‬طلحہ بن عبید ہللا‪ ،‬زبیر بن العوام‪ ،‬عبد‬
‫ٰ‬
‫ی‬ ‫ی‬
‫تعالی عنہم وغیرہ نے بار بار کھڑے ہو کر تقریریں کیں۔ اور کہا کہ آپ کا خود موقع‬
‫جنگ پر جانا مناسب نہیں‬
‫ٰ‬
‫ں‬
‫‪ ‬۔ پھر حضرت علی رض ی ہللا تعالی عنہ کھڑے ہو ئے اور ان لوگو کی تائید میں تقریر‬
‫کی۔‬
‫ٰ‬
‫‪ ‬غرض کثرت رائے سے یہی فیصلہ ہوا کہ خود حضرت عمر رض ی ہللا تعالی عنہ موقع‬
‫ٰ‬
‫حضرت عمر کی مجلس شوری کے فیصلے‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬فوج کی تنخواہ‪ ،‬دفتر کی ترتیب‪،‬‬

‫‪ ‬عمال کا تقرر‪،‬‬

‫‪ ‬غیر قوموں کی تجارت کی آزادی‬

‫‪ ‬اور ان پر محصول کی تشخیص۔‬

‫‪ ‬اس ی قسم کے بہت سے معاملت ہیں جن کی نسبت تاریخوں میں بہ تصریح مذکور ےہ کہ‬
‫مجلس شور ٰی میں پیش ہو کر طے پائے‬
‫حضرت عمر کی مجلس شور ٰی کے ارکان‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬حضرت عثمان‪،‬‬
‫‪ ‬حضرت علی‪،‬‬
‫ٰ‬
‫الرحمن بن عوف‪،‬‬ ‫‪ ‬حضرت عبد‬
‫‪ ‬حضرت معاذ بن جبل‪،‬‬
‫‪ ‬ابی بن کعب اور‬
‫‪ ‬حضرت زید بن ثابت رض ی ہللا عنہم شامل تھے۔‬
‫‪( ‬کنز العمال حوالہ طبقات ابن سعد جلد ‪ 3‬صفحہ ‪ 134‬مطبوعہ حیدر آباد)‬
‫شورائیت جماعت کی نچلی سطحوں تک نہ‬
‫کر نے کا نقصان‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬بجائے اس کے کہ جماعت کے تمام قابل اشخاص کی قابلیتیں کام میں آئیں۔ صرف چند‬
‫ارکان کی عقل و تدبیر پر کام چلتا ےہ۔‬
‫‪ ‬چونکہ بجز چند افرادکے اور لوگوں کو انتظامات سے کچھ سروکار نہیں ہوتا۔ اس لےی‬
‫جماعت کے اکثر افراد سے انتظامی قوت اور قابلیت رفتہ رفتہ معدوم ہو نے لگتی ےہ۔‬
‫‪ ‬مختلف علقوں کے خاص خاص حقوق کی اچھی طرح حفاظت نہیں ہوتی۔ کیونکہ جن‬
‫لوگوں کو ان حقوق سے غرض ےہ ان کو انتظام جماعت میں دخل نہیں ہوتا اور جن‬
‫لوگوں کو دخل ہوتا ےہ ان کو غیروں کے حقوق سے اس قدر ہمدردی نہیں ہو سکتی‬
‫جتنی کہ خود ارباب حقوق کو ہو سکتی ےہ۔‬
‫شوری سے پہلے‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬ایجنڈہ حاصل کرنا‬

‫‪‬موضوع کی تحقیق اور تیاری کرنا‬

‫‪ ‬مسلہ کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنا‬

‫‪ ‬پرانے فیصلے اور اسکے نفاذ کا جائزہ لینا‬

‫‪ ‬دوسری تحریکات یا علقوں کے مماثل حاالت پر غور کرنا‬

‫‪ ‬اپنی بات کو مرتب کرنا اور دالئل فراہم کرنا‬


‫دوران شوری‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬دوسروں کے دالئل غور سے سننا‬
‫‪Hearing vs listening ‬کا فرق‬

‫‪ ‬اپنی بات کو مختصر اور مدلل پیش کرنا‬

‫‪ ‬حق بات دوسروں کی طرف سے آئے تو قبول کرنا‬

‫‪ ‬اختلف کرنا ہو تو سلیقہ سے کرنا‬


‫شوری کے بعد‬
‫‪‬‬
‫‪ ‬اجتمائی فیصلے کو قبول کرنا‬
‫‪ ‬فیصلے کی تنفیذ میں شامل ہونا‬
‫‪ ‬مجلس کی گفتگو باہر نہ کرنا‬
‫‪ ‬جماعت کے کاز کو نقصان نہیں پہنچانا‬
‫‪ ‬فیصلے کے خلف گفتگو مناسب فورم میں ہ ی کرنا‬
‫‪ ‬گروپ بازی سے پرہیز کرنا‬

You might also like