You are on page 1of 13

‫‪Code:(6473)Islamic studies -1‬‬

‫‪Semester spring 2022‬‬


‫‪Assignment: 1‬‬
‫‪Username: 0000118331‬‬
‫‪Password:Xfeq5978‬‬

‫‪ANS 01‬‬
‫عہد صدیقی میں قرآن مجید ایک مصحف میں بشک ِل کتاب مرتب نہیں ہوا تھا‪ ،‬بلکہ مختلف چیزوں سے صحیفوں (کتابچوں‪/‬‬
‫حجر کی تشریح‬
‫ؒ‬ ‫اوراق) میں لکھ لیا گیا تھا ۔۔ حدیث نبوی میں ان کو “صحف” (صحیفوں) کا نام دیا گیا ہے اور حافظ ابن‬
‫کے مطابق وہ منتشر اوراق (االوراق المجردۃ) تھے۔ مصحف اور صحف کا فرق بتاتے ہوئے حافظ موصوف نے لکھا‬
‫ہے کہ مصحف تو سورتوں کی ترتیب کے مطابق اور بشکل کتاب ہوتا ہے‪ ،‬جب کہ صحف منتشر اوراق ہیں جن میں‬
‫سورتیں ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کر دی گئی تھیں۔ یہی صحف صدیقی ہیں۔ فتح الباری‪24/9 ،‬‬
‫ان کو صحف صدیقی کہنا اس لیے بھی مناسب و موزوں معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت کے حکم سے قرآن کریم کو‬
‫اوراق و قراطیس میں جمع کرکے محفوظ کر دیا گیا تھا۔ بعض روایات میں ان کو صحیفہ بھی کہا گیا ہے‪ ،‬لیکن واحد‬
‫بول کر جمع مراد لی گئی ہے۔ دوسری تاریخی اور واقعاتی سند یہ ہے کہ انہی “صحف صدیقی” کی بنا پر حضرت‬
‫تعالی عنہ کے عہ ِد خالفت میں مصحف اور مصاحف تیار کیے گئے تھے‪ ،‬جن کی تعداد‬
‫ٰ‬ ‫عثمان بن عفان اموی رضی ہللا‬
‫مختلف روایات میں مختلف آئی ہیں‪ ،‬لیکن سات مصاحف کی روایت کو سب سے معتبر کہا گیا ہے۔ ان مصاحف کو‬
‫نام نامی سے موسوم کر کے “مصاحف عثمانی” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔‬
‫تعالی عنہ کے ِ‬
‫ٰ‬ ‫حضرت عثمان رضی ہللا‬
‫میں‬ ‫روشنی‬ ‫کی‬ ‫حدیث‬ ‫منظر‬ ‫پس‬
‫حضورپاک صلی ہللا علیہ وسلم کے مرض الوفات کے ساتھ ہی فتنے ابھرنے شروع ہوگئے اور آپ کی وفات کے بعد‬
‫ِ‬
‫عنہ نے ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے پوری طاقت‬
‫ان فتنوں نے شدت اختیار کرلی‪ ،‬حضرت صدیق اکبر رضی ہللا ٗ‬
‫وقوت صرف کردی اور بہت سے معرکےاس دوران پیش آئے جن میں سے ایک اہم معرکہ جنگ یمامہ کا ہے‪ ،‬جس‬
‫میں بہت سے قراء شہید ہوئے جن کا انداز ‪ /۷۰‬اور ایک قول کے مطابق ‪/ ۷۰۰‬تک لگایا گیا ہے (تفسیرقرطبی‪،۳۷/۱:‬‬
‫دربار رسالت کے مشہور قاری سالم مولی ابوحذیفہ رضی ہللا عنہ بھی اسی معرکہ میں شہید‬
‫ِ‬ ‫عمدۃ القاری‪)۵۳۳/۱۳:‬‬
‫العرفان‪)۱۷۹:‬‬ ‫(مناہل‬ ‫ہوئے‬
‫اس عظیم سانحہ کی وجہ سے بعض اجلۂ صحابہ رضی ہللا عنہم بالخصوص حضرت عمر رضی ہللا عنہ کو تشویش‬
‫الحق ہوئی جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں‪” :‬‬
‫جنگِ یمامہ کے بعد مجھے امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے بالیا میں پہنچا تو وہاں پہلے سے‬
‫عنہ نے فرمایا کہ یہ عمررضی ہللا‬
‫حضرت عمر رضی ہللا عنہ بھی تشریف فرما تھے‪ ،‬حضرت صدیق اکبررضی ہللا ٗ‬
‫عنہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ یمامہ کے شدید معرکہ میں بہت سے حفاظ کام آگئے ہیں‪ ،‬مجھے اندیشہ ہے‬
‫کہ اگر ایسے ہی دیگر معرکوں میں حفاظ شہید ہوتے رہے تو قرآن مجید کا بہت سا حصہ ان کے سینوں ہی میں چالجائے‬
‫عنہ) قرآن مجید کے جمع وتدوین کا اہتمام کروں‬
‫عنہ کہتے ہیں کہ میں (ابوبکررضی ہللا ٗ‬
‫گا؛ اس لیے عمررضی ہللا ٗ‬
‫عنہ فرماتے ہیں کہ) میں ان سے کہہ چکا ہوں کہ جس کام کو حضور صلی ہللا علیہ‬
‫(حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا ٗ‬
‫عنہ کہتے ہیں خدا کی قسم اس میں سراپا خیر ہی ہے یہ مجھ‬
‫وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں (لیکن) عمررضی ہللا ٗ‬
‫تعالی نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا اور اب میری بھی وہی‬
‫ٰ‬ ‫سے بار بار تقاضا کرتے رہے؛ آخر ہللا‬
‫عنہ نے مجھ سے فرمایا‪ :‬تم‬
‫عنہ کی ہے‪ ،‬زید کہتے ہیں‪ :‬حضرت ابوبکرصدیق رضی ہللا ٗ‬
‫رائے ہے جو عمررضی ہللا ٗ‬
‫نوجوان ہو سمجھدار ہو کسی طرح کی تہمت بھی ہم تمہارے (اور تمہارے دین ودیانت کے)بارے میں نہیں پاتے اور تم‬
‫ب وحی بھی ہو تم قرآن کریم (کے مختلف اجزاء) کو تالش کرو اور اس کو جمع‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے کات ِ‬
‫عنہ کہتے ہیں‪ :‬کہ خدا کی قسم اگر وہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کے ایک جگہ سے دوسری‬
‫کرو! حضرت زید رضی ہللا ٗ‬
‫جگہ منتقل کرنے کا حکم فرما تے تو یہ میرے لیے زیادہ آسان تھا‪ ،‬بنسبت اس کام کے جس کا انھوں نے مجھے حکم‬
‫عنہ کہتے ہیں‪ :‬کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ حضرات ایسا کام کیسے‬
‫دیا ہے‪ ،‬یعنی جمع قرآن کا حضرت زید رضی ہللا ٗ‬
‫عنہ نے فرمایا‪ :‬بخدا یہ تو‬
‫کررہے ہیں جس کو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی ہللا ٗ‬
‫عنہ اس بارے میں بار بار مجھ‬
‫عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی ہللا ٗ‬
‫اچھا ہی کام ہے‪ ،‬حضرت زید رضی ہللا ٗ‬
‫تعالی نے میرا‬
‫ٰ‬ ‫عنہ کی طرح ہللا‬
‫عنہ وعمر رضی ہللا ٗ‬
‫سے اصرار کرتے رہے؛ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی ہللا ٗ‬
‫سینہ بھی اس کام کے لی ے کھول دیا (پھر میں صرف حکم کی تعمیل میں نہیں بلکہ واقعی ایک اہم ضرورت سمجھ کر‬
‫اس کام کے لیے تیار ہوگیا) پھر میں نے قرآن کریم کے اجزاء کو تالش کرنا شروع کیا او راسے کھجور کی شاخوں‪،‬‬
‫پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا؛ یہاں تک کہ سورۃ توبہ کی آخری آیتیں “لَقَ ْد َجا َ‬
‫ئ کُ ْم َرسُ ْو ٌل‬
‫عنہ‬ ‫علَ ْیکُ ْم بِا ْل ُمؤْ مِ نِیْنَ َر ُء ٌ‬
‫وف َرحِ ْی ٌم” (التوبۃ‪“ )۱۲۸:‬ابوخزیمہ انصاری رضی ہللا ٗ‬ ‫یص َ‬ ‫علَ ْی ِہ َما َ‬
‫عنِت ُّ ْم َح ِر ٌ‬ ‫مِن أَ ْنفُ ِسکُ ْم َ‬
‫ع ِزی ٌْز َ‬ ‫ْ‬
‫تھیں”۔‬ ‫نہیں‬ ‫پاس‬ ‫کے‬ ‫اور‬ ‫کسی‬ ‫جو‬ ‫ملی‬ ‫پاس‬ ‫کے‬
‫القرآن‪)۴۹۸۶/۲۰:‬‬ ‫جمع‬ ‫باب‬ ‫القرآن‪،‬‬ ‫فضائل‬ ‫کتاب‬ ‫بخاری‪،‬‬ ‫(صحیح‬
‫یہ حدیث حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنہ سے مروی ہے۔ وہی ان صحیفوں کے کاتب بھی ہیں جن میں مختلف چیزوں‬
‫تھیں۔‬ ‫گئیں‬ ‫لکھی‬ ‫کے‬ ‫کر‬ ‫جمع‬ ‫سورتیں‬ ‫اور‬ ‫آیات‬ ‫قرآنی‬ ‫سے‬
‫ممکن ہے کہ مذکورہ حدیث میں سورت توبہ کی آخری آیت واال حصہ پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو کہ‬
‫حضرت زید کو یہ آیت دیگر صحابہ کے پاس کیوں نہ ملی؟ ہم اسکی یہاں مختصر وضاحت کردیتے ہیں کہ حضرت‬
‫زید کا مقصد یہ بتانا نہیں تھا کہ یہ آیت کسی کو یاد بھی نہیں تھی بلکہ یہ کہ یہ آیت حضرت خزیمہ کے عالوہ کسی‬
‫‪،‬ج‪،۱‬ص‪)۱۰۱‬‬ ‫تھی۔(االتقان‬ ‫نہ‬ ‫ہوئ‬ ‫لکھی‬ ‫پاس‬ ‫کے‬ ‫صحابی‬ ‫اور‬
‫دوسرے سینکڑوں حفاظ کے عالوہ خود حضرت زید بھی حافظ تھے اور ان کو یہ معلوم تھا کہ یہ آیات کہا ں اور کس‬
‫سورت سے متعلق ہیں اسی لیے انہوں نے اسکو صحابہ کے پاس تالش بھی کیا ۔!! اس ضمن میں صحابہ کی تالش تائید‬
‫وتقویت کے لئے تھی کہ حفظ وحافظے کے عال وہ لکھے ہوئے سے بھی اسکی تائید ہوجائے اور وہ ابوخزیمہ انصاری‬
‫سے مل گئی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت زید نے تنہاء حافظے پر اعتماد نہیں کیا ‪،‬سورئہ براءۃ کی آخری آیات‬
‫باوجودیکہ حضرت زید کو حفظ تھیں اور ان کے عالوہ متعدد صحابہ کو بھی حفظ تھیں ‪ ،‬لیکن اس وقت تک اُنہیں درج‬
‫خزیمہ ) کے پاس بھی لکھی شہادت نہیں مل گئی ۔یہ اس بات کی گواہی ہے‬
‫ؓ‬ ‫نہیں کیا جب تک کہ کسی صحابی (حضرت‬
‫کہ تدوین کے سلسلے میں کس قدر احتیاط کا اہتمام کیا گیا۔‬
‫‪:‬‬ ‫نوعیت‬ ‫کی‬ ‫کام‬
‫پورا قرآن عہد رسالت میں لکھا جاچکا تھا مگر اس کی آیتیں اور سورتیں یکجا نہ تھی حضرت ابو بکر رضی ہللا عنہ‬
‫نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی ترتیب کے مطابق اس کو ایک جگہ جمع کیا ۔ عالمہ سیوطی ابو عبدہللا محاسبی‬
‫‪:‬‬ ‫ہیں‬ ‫لکھتے‬ ‫سے‬ ‫حوالے‬ ‫السنن”کے‬ ‫”فہم‬ ‫کتاب‬ ‫کی‬
‫”قرآن کی کتابت کوئ نئی چیز نہ تھی نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم بذات خود اس کے لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے‬
‫البتہ وہ کاغذ کے ٹکڑوں‪،‬شانہ کی ہڈیوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر بکھرا پڑا تھا ۔حضرت ابو بکررضی ہللا ٰ‬
‫تعالی عنہ‬
‫نے متفرق جگہوں سے اس کو یکجا کرنے کا حکم دیا یہ سب اشیاء یوں تھیں جیسے آنحضور صلی ہللا علیہ وسلم کے‬
‫گھر میں اوراق منتشر پڑے ہوں اور ان میں قرآن لکھا ہو اہو‪ ،‬ایک جمع کرنے والے (حضرت ابوبکررضی ہللا ٰ‬
‫تعالی‬
‫عنہ )نے ان اوراق کو جمع کرکے ایک دھاگے سے باندھ دیا تاکہ ان میں سے کوئی چیز ضائع نہ ہوپائے۔(البرہان‬
‫‪،‬ج‪،۱‬ص‪،۲۳۸‬االتقان‪،‬ج‪،۱‬ص‪)۱۰۱‬‬
‫‪)۸۳/۱‬‬ ‫(االتقان‬ ‫بخیطٍ۔‬ ‫َربَ َ‬
‫ط َہا‬ ‫و‬ ‫جام ٌع‬ ‫فَ َج َمعَہا‬ ‫ُم ْنتَشِرا ً‬ ‫فیہا‬ ‫القرآ ُن‬ ‫وکان‬
‫(ترجمہ‪ ):‬اور (رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے گھر میں قرآن مجید کی مکمل یاد داشتوں کا جو ذخیرہ تھا) اس میں‬
‫(قرآنی سورتیں) الگ الگ لکھی ہوئی تھیں؛ پس اس کو (حضرت ابوبکر کے حکم سے) جمع کرنے والے (زید بن ثابت)‬
‫نے ایک جگہ (ساری سورتوں کو) جمع کر دیا‪ ،‬اور ایک دھاگا سے سب کی شیرازہ بندی کر دی۔‬
‫کار‬ ‫ق‬
‫طری ِ‬ ‫کا‬ ‫تدوین‬
‫جمع قرآن کے سلسلہ میں حضرت زید بن ثابت رضی ہللا ٗ‬
‫عنہ کے طریقہ کار کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ زید خود‬ ‫ِ‬
‫حافظ قرآن تھے؛ لہٰ ذا وہ اپنی یادداشت سے پورا قرآن لکھ سکتے تھے ان کے عالوہ بھی سینکڑوں حفاظ اس وقت موجود‬
‫تھے ان کی ایک جماعت بناکربھی قرآن کریم لکھا جاسکتا تھا؛ نیز قرآن کریم کے جو مکمل نسخہ آنحضرت صلی ہللا‬
‫عنہ ان سے بھی قرآن کریم نقل فرماسکتے تھے؛‬
‫علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھ لئے گئے تھے حضرت زید رضی ہللا ٗ‬
‫پیش نظر ان میں سے صرف کسی ایک طریقہ پر اکتفا نہیں فرمایا؛ بلکہ ان تمام ذرائع سے‬
‫لیکن انھوں نے احتیاط کے ِ‬
‫بیک وقت کام لیکر اس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفوں میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری‬
‫اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں اس کے عالوہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے قرآن کریم کی جو آیات اپنی نگرانی‬
‫عنہ نے انھیں یکجافرمایا‬
‫میں لکھوائی تھیں وہ مختلف صحابہ رضی ہللا عنہم کے پاس محفوظ تھیں حضرت زید رضی ہللا ٗ‬
‫تاکہ نیا نسخہ ان سے ہی نقل کیا جائے؛ چنانچہ یہ اعالن عام کردیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی کچھ بھی‬
‫آیات لکھی ہوئی ہو ں وہ حضرت زید کے پاس لے آئے (فتح الباری‪ ،۱۷/۹:‬علوم القرآن‪۱۸۳:‬۔ االتقان‪)۱۲۸:‬‬
‫عنہ خود نگرانی فرماتے رہے اور انھیں اپنے مفید مشوروں سے نوازتے‬
‫اس کام کی حضرت صدیق اکبر رضی ہللا ٗ‬
‫بطور معاون کے حضرت زید‬
‫ِ‬ ‫عنہ کو بھی‬
‫رہے؛ چنانچہ روایات سے ثابت ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی ہللا ٗ‬
‫عنہ اور زید‬
‫کے ساتھ اس کام میں لگادیا تھا (االتقان‪۱۲۹/۱:‬۔ فتح الباری‪ )۱۹/۹:‬اور ساتھ ہی حضرت عمر رضی ہللا ٗ‬
‫جاو؛ پھرجوشخص بھی تمہارے پاس‬ ‫عنہ کو یہ حکم بھی فرمادیا تھا‪“ :‬کہ مسجد کے دروازے کے پاس بیٹھ ٔ‬
‫رضی ہللا ٗ‬
‫قرآن کریم کے کسی جزء پر دوگواہ لے ٓائے اس کو صحیفوں میں لکھ لو” (االتقان‪۱۲۸/۱:‬۔ فتح الباری‪)۱۷/۹:‬‬
‫الغرض جو جو شخص بھی حضرت زید کے پاس قرآن مجید کی آیتیں لے کر آتا حضرت زیدرضی ہللا ٗ‬
‫عنہ چارطریقوں‬
‫تھے‪:‬‬ ‫کرتے‬ ‫تصدیق‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫سے‬
‫تھے۔‬ ‫کرتے‬ ‫تصدیق‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫سے‬ ‫حافظہ‬ ‫اپنے‬ ‫پہلے‬ ‫سے‬ ‫(‪) ۱‬سب‬
‫عنہ کو بھی اس‬
‫عنہ نے حضرت عمر رضی ہللا ٗ‬
‫(‪)۲‬پھر جیسا کہ اوپر تحریر کیا جاچکا‪ ،‬حضرت صدیق اکبر رضی ہللا ٗ‬
‫کام میں ان کا معاون بنادیا تھا اس لیے حضرت عمر رضی ہللا عنہ بھی اپنے حافظہ سے اس کی جانچ کرتے تھے۔‬
‫(‪)۳‬کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ دوقابل اعتبارگواہوں نے اس بات کی گواہی‬
‫نہ دیدی ہو کہ یہ تحریر رسول پاک صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے‪ ،‬حافظ سیوطی رحمہ ہللا کہتے ہیں‬
‫کہ بظاہر اس بات کی بھی گواہی لی جاتی تھی کہ یہ لکھی ہوئی آیتیں حضور پاک صلی ہللا علیہ وسلم کی وفات کے‬
‫سال آپ پر پیش کردی گئی تھی اور آپ نے اس بات کی تصدیق فرمادی تھی کہ یہ ان حروفِ سبعہ کے مطاق ہے جن‬
‫پر قرآن کریم نازل ہوا ہے (االتقان‪ ) ۱۲۸،۱۲۹/۱:‬عالمہ سیوطی رحمہ ہللا کی اس بات کی تائید متعدد روایات سے بھی‬
‫ہے‬ ‫ہوتی‬
‫(االتقان‪)۱۱۰/۱:‬‬
‫(‪)۴‬اس کے بعد ان لکھی ہوئی آیتوں کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا‪ ،‬جو مختلف صحابہ رضی ہللا عنہم نے‬
‫ق کار کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کریم کی کتابت میں زیادہ سے‬
‫تیار کررکھے تھے‪ ،‬امام ابوشامہ فرماتے ہیں‪“ :‬کہ اس طری ِ‬
‫زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے اور صرف حافظہ پر اکتفا کرنے کے بجائے بعینہ ان تحریرات سے نقل کیا جائے جو‬
‫تھی‬ ‫گئی‬ ‫لکھی‬ ‫سامنے‬ ‫کے‬ ‫وسلم‬ ‫علیہ‬ ‫ہللا‬ ‫صلی‬ ‫آنحضرت‬
‫(االتقان‪)۱۲۸/۱:‬‬
‫صحابہ کرام نے آپس میں مشورہ‬
‫ٔ‬ ‫جب اجتماعی تصدیق کے ساتھ ”قرآن مجید“ کی جمع و تدوین کا کام مکمل ہو گیا‪ ،‬تو‬
‫حابہ کرام نے اس کا نام ” ِس ْفر“ رکھا؛لیکن یہ نام یہودیوں کی مشابہت‬
‫کیا کہ‪ :‬اس کو کیا نام دیا جائے؟ چناں چہ بعض ص ٔ‬
‫صحابہ کرام کا اتفاق ہو گیا۔ (االتقان ‪)۷۷/۱‬‬
‫ٔ‬ ‫کی وجہ سے پاس نہیں ہوا‪ ،‬اخیر میں ” مصحف“ نام پر سارے‬
‫خصوصیات‬ ‫کی‬ ‫نسخہ‬ ‫کردہ‬ ‫تیار‬ ‫میں‬ ‫عہدِصدیقی‬
‫صحابہ کرام کے پاس بھی قرآن مجید لکھا ہوا تھا؛ لیکن جن خصوصیات کا حامل حضرت ابوبکر صدیق واال‬
‫ٔ‬ ‫دوسرے‬
‫صحابہ کرام کے درمیان اُسے ”اُم“ کہا‬
‫ٔ‬ ‫اجماعی نسخہ تھا‪ ،‬ان سے دوسرے سارے نسخے خالی تھے‪ ،‬اسی وجہ سے‬
‫ہیں‪:‬‬ ‫ذیل‬ ‫درج‬ ‫خصوصیات‬ ‫کی‬ ‫تھا‪،‬اس‬ ‫جاتا‬
‫ت قرآنی حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مرتب تھیں؛ لیکن سورتیں‬
‫(‪)۱‬اس نسخہ میں آیا ِ‬
‫مرتب نہ تھیں ہرسورت الگ الگ پاروں کی شکل میں لکھی ہوئی تھی۔(فتح الباری ‪)۲۲/۹‬‬
‫(‪)۲‬اس نسخہ میں ایسی کوئی آیت آنے نہیں دی گئی جس کی تالوت منسوخ ہوچکی ہو۔‬
‫(‪) ۳‬اس نسخہ کے تیار کرنے میں پوری باریک بینی سے تالش وتفحص کیا گیا اور پوری احتیاط کے ساتھ اسے قلمبند‬
‫گیا۔‬ ‫کیا‬
‫‪)۲۴۷‬‬ ‫‪،۲۴۶/۱‬‬ ‫العرفان‬ ‫تھا۔(مناہل‬ ‫مشتمل‬ ‫پر‬ ‫رعایت‬ ‫کی‬ ‫حروف‬ ‫ساتوں‬ ‫نسخہ‬ ‫(‪) ۴‬یہ‬
‫( ‪) ۵‬اس کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی ”اجماعی تصدیق“ سے تیار ہو جائے؛ تاکہ‬
‫ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جا سکے (علوم القرآن از مفتی محمد تقی عثمانی ص‪)۱۸۶‬‬
‫( ‪) ۶‬اس نسخہ میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر‪ ،‬ایک ہی جلد میں مجلد کرایا‬
‫گیا تھا‪ ،‬اور یہ کام حکومت کی طر ف سے انجام دیا گیا‪ ،‬یہ کام رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو پایا‬
‫تھا‪( ،‬تدوین قرآن ص‪)۴۰‬‬
‫خصوصیات‪:‬‬ ‫اور‬ ‫نام‬ ‫کا‬ ‫نسخہ‬ ‫کردہ‬ ‫جمع‬
‫اس کمیٹی نے انتہائی احتیاط اورسخت محنت کے بعد قرآن کو ایک سال کی مدت میں جمع کردیا‪،‬جسے تمام صحابہ‬
‫کرام نے اتفاقا ً قبول کیا اور یوں امت بھی اس پرجمع ہوگئی ۔ اس نسخہ کی خصوصیات حسب ذیل تھیں‪:‬‬

‫‪۱‬۔ نسخہ میں قرآنی آیات کی ترتیب آپ ﷺکی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق تھی لیکن سورتیں مرتب نہ تھیں بلکہ ہر‬
‫سورت الگ اور علیحدہ صحیفہ میں تھی جن کی ترتیب عہد عثمان ؓ میں ہوئی۔ اس نسخہ کا نام مصحف اُم رکھا گیا۔‬
‫تھے۔‬ ‫جمع‬ ‫حروف‬ ‫ساتوں‬ ‫میں‬ ‫نسخہ‬ ‫اس‬ ‫‪۲‬۔‬
‫تھا۔‬ ‫گیا‬ ‫لکھا‬ ‫میں‬ ‫حیری‬ ‫خط‬ ‫نسخہ‬ ‫یہ‬ ‫‪۳‬۔‬
‫‪۴‬۔ اس میں صرف وہ آیات لکھی گئیں جن کی تالوت منسوخ نہیں ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ اس میں آیۃ الرجم نہیں‬
‫تھا۔‬ ‫باقی‬ ‫حکم‬ ‫مگر‬ ‫تھی‬ ‫منسوخ‬ ‫تالوت‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫کیونکہ‬ ‫گئی‬ ‫لکھی‬
‫‪ ۵‬۔ یہ امت کے لئے ایک ایسا متفقہ مرتب نسخہ تھا جواسے انتشار سے بچا گیا۔اسی لئے سیدنا ز یدؓ نے تمام گواہوں کی‬
‫موجودگی میں اس کا اعالن کیا۔ جس کے صحیح ہونے کی سب نے بال اعتراض گواہی دی۔‬
‫سیدنا زید ؓ نے تکمیل مصحف کے بعد اسے خلیفہ رسول ابو بکر صدیق ؓکے سپرد کردیا جو ان کے پاس وفات تک‬
‫رہا۔پھر سیدنا عمر رضی ہللا عنہ کے پاس آگیا ان کی وفات کے بعد یہ مصحف ام المؤمنین سیدہ حفصہ ؓ کے پاس اس‬
‫وقت تک رہا جب عثمان ؓ نے ان سے طلب کر کے منتخب کمیٹی کے ذریعے نئے نسخے تیار کروا ئے اور اسے واپس‬
‫لوٹا دیا جو ان کی وفات کے بعد سیدناابن عمر ؓکے ذریعے مروان بن الحکم کے پاس آیا تو مروان نے یہ سوچ کر کہ‬
‫مبادا اس میں کوئی ایسی بات ہوجونسخہ عثمان ؓسے مختلف ہو اسے ضائع کر دیا۔‬
‫عمر کے دور میں تدوین قرآن کی بجائے اشاعت قرآن پرزیادہ کام ہوا۔ آ ؓپ نے ہر جگہ تعلیم قرآن کو الزمی‬
‫سیدنا ؓ‬
‫قراردے دیا یہاں تک کہ فوجیوں او ردیہاتیوں کو بھی نہ چھوڑا ۔ قرآن کی ترویج کے لئے آ ؓپ نے باجماعت تراویح کا‬
‫اہتمام کیا اور ابی بن کعب وتمیم الداری ؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو باجماعت گیارہ رکعت تراویح پڑھائیں۔(موطأ امام‬
‫مالک ‪ :‬صحیح)۔ آ ؓپ نے ہر جگہ یہ احکام بھیجے کہ قرآن کی تعلیم کے ساتھ صحت الفاظ اوراعراب کی تعلیم پر بھی‬
‫توجہ دی جائے۔سیدنا عمر فاروق ؓ کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکال کہ قرآن کریم ہر طرف پھیل گیا اور حفاظ کی تعداد میں‬
‫وقاص کے لشکر میں ‪۳۰۰‬حفاظ‬
‫ؓ‬ ‫تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف سعد بن ابی‬
‫ہللا محدث دہلوی فرماتے ہیں‪:‬آج مسلمانوں میں جو بھی قرآن پڑھتا ہے فاروق اعظم ؓ کا احسان اس‬
‫موجود تھے۔ شاہ ولی ؒ‬
‫کی گردن پر ہے۔‬
‫‪ANS 02‬‬
‫تعالی کی وہ آخری اورمستند ترین کتاب ہے جسے دین کے معاملے میں انسانیت کی ہدایت کے لیے محمد‬
‫ٰ‬ ‫قرآن مجید ہللا‬
‫ہللا پر نازل کیا گیا ہے ۔اِس کتاب ہدایت سے استفادہ انسان تب ہی کرسکتا ہے جب وہ اِسے پڑھے گا ‪ ،‬اِس کی‬
‫رسول ؐ‬
‫تالوت اور اِس کا مطالعہ کرے گا ۔ تالوت قرآن کی فضیلت احادیث کی روشنی میں واضح ہیحضر ت عثمان بن عفان ؓ‬
‫سے روایت ہے کہ رسول ہللا ؐ نے فرمایا‪ :‬تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے‬
‫تعالی اس کتاب (قرآن مجید)‬
‫ٰ‬ ‫الخطاب سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا‪ :‬ہللا‬
‫ؓ‬ ‫سکھالئے۔(بخاری )۔حضرت عمربن‬
‫کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سرفراز فرمائے گا اور اسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل کردے گا۔ (مسلم) سرفراز‬
‫ہللا کے حکم سے وہی ہوں گے جو قرآن کے احکام کی پیروی کریں گے۔ ابتدائی چند صدیونمیں مسلمان جب ہرجگہ‬
‫قرآن کے حامل اورعامل تھے ‘ اس پر عمل کی برکت سے وہ دین ودنیا کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوئے۔ لیکن مسلمانوں‬
‫نے جب سے قرآن کے احکام وقوانین پر عمل کرنے کو اپنی زندگی سے خارج کردیا تب سے ہی ان پر ذلت ورسوائی‬
‫کا عذاب مسلط ہے ۔ کاش مسلمان دوبارہ قرآن کریم سے اپنا رشتہ جوڑیں تاکہ ان کی عظمت رفتہ بحال ہوسکے۔‬
‫عباس سے روایت ہے کہ رسول ہللا ؐ نے فرمایا‪:‬بیشک وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ(یاد)‬
‫ؓ‬ ‫حضرت ابن‬
‫نہ ہو ‪ ،‬وہ ویران گھر کی طرح ہے ۔یعنی جیسے ویران گھر خیروبرکت اوررہنے والوں سے خالی ہوتا ہے‪ ،‬ایسے ہی‬
‫اس شخص کا دل خیر وبرکت اور روحانیت سے خالی ہوتا ہے جسے قرآن مجید کا کوئی بھی حصہ یاد نہیں ۔ اس سے‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ ہرمسلمان کو قرآن مجید کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور زبانی یا دکرنا اور رکھنا چاہیے تاکہ وہ اس‬
‫وعید سے محفوظ رہے۔‬
‫حضور فرماتے ہیں کہ جو شخص قرآن پاک کا ایک حرف پڑھے اس کو دس نیکیوں کے برابر نیکی ملتی ہے۔ خیال‬
‫ؐ‬
‫رہے کہ الم ایک حرف نہیں بلکہ الف‪ ،‬الم‪ ،‬میم تین حروف ہیں۔ لہٰ ذا فقط اتنا پڑھنے سے تیس نیکیاں ملیں گے ۔ خیا ل‬
‫رہے کہ الم متشابہات میں سے ہے جس کے معنی ہم تو کیا جبریل بھی نہیں جانتے۔ مگر اس کے پڑھنے پر ثواب ہے‬
‫۔ معلوم ہوا کہ تالوت قرآن کا ثواب اس کے سمجھنے پر موقوف نہیں بغیر سمجھے بھی ثواب ہے ۔رسول ہللا ؐ نے فرمایا‪:‬‬
‫تم قرآن پڑھو اس لئے کہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا۔( مسلم )ایک دوسری‬
‫حدیث میں ہے کہ قرآن کی سفارش کو قبول کیا جائے گا۔ قرآن کو پڑھنے کے بعد اس کو اپنی عملی زندگی میں النے‬
‫والوں کے لئے بھی طرفداری کرے گا اور نجات دالئے گا۔رسول ہللا نے فرمایا‪ ”:‬قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے‬
‫جو اس پر عمل کرتے تھے ‪ ،‬ان کو الیا جائے گا۔توسورۃ بقرہ اور آل عمران پیش پیش ہوں گی اور اپنے پڑھنے والوں‬
‫تعالی ان کو بلند کر‬
‫ٰ‬ ‫کی طرف سے جھگڑا کریں گی۔ (مسلم) چنانچہ جو لوگ قرآن کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں ہللا‬
‫دیتا ہے ۔ وہ دنیا میں بھی عزت حاصل کرتا ہے اور آخرت میں جنت میں داخل ہو گا۔ انشاء ہللا۔ جو قرآن کی تالوت اور‬
‫تعلیمات سے دور ہوتے ہیں اور اپنی زن دگی اپنی مرضی اور چاہت سے بسر کرتے ہیں تو پھر ایسوں کو ہللا ذلیل و‬
‫خوار کر دیتے ہیں۔‬
‫تالوت قرآن کرنے والے کے تین درجات‪:‬‬
‫میرے نزدیک بالخصوص غیر عرب مسلمانوں میں قرآن مجید کو پڑھنے والے بالعموم تین طرح کے ہوتے ہیں ۔ایک‬
‫وہ جو قرآن کی زبان سے آشنا ہیں اور اُس کے اصل متن کی سمجھ کرتالوت کرتے ہیں۔یہ ظاہر ہے کہ تالوت قرآن‬
‫کی سب سے بہتر صورت ہے ۔دوسرے وہ جو قرآن کی لغت سے تو واقف نہیں ہیں‪،‬تاہم اِس کتاب ہدایت کو سمجھنے‬
‫تراجم قرآن کی مراجعت کرتے ہیں۔اور‬
‫ِ‬ ‫اور اِس سے استفادہ کی خواہش رکھتے ہیں ‪ ،‬چنانچہ وہ اپنی زبان میں موجود‬
‫یہ پہلی صورت سے ایک درجہ کم ہے ۔تیسرے وہ جو قرآن کی زبان کو جانتے ہیں ‪ ،‬نہ ان کے پیش نظر اُسے سمجھنا‬
‫ہی ہوتا ہے ۔بلکہ وہ بغیر طلب فہم کے محض الفاظ قرآن کو عربی ہی میں اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں۔یہ تالوت قرآن‬
‫کا تیسرا درجہ ہے۔جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے تو قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو ایسا تاج پہنایا‬
‫جائے گا جس کی چمک آفتاب سے بڑھ کر ہوگی۔قرآن پاک کی تالوت اور موت کی یاد دل کو اس طرح صاف کردیتی‬
‫ت قرآن دین میں ایک نہایت‬
‫ہے جیسے کہ زنگ آلود لوہے کو صیقل۔چنانچہ یہ بات تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تالو ِ‬
‫ہی پسندیدہ اور مطلوب عمل ہے ۔جب دین میں اِس عمل کی حیثیت یہ ہے تو المحالہ ایک مسلمان کے لیے یہ اجر وثواب‬
‫تعالی کی خوشنودی کا‬
‫ٰ‬ ‫کا باعث بھی ہے ۔چنانچہ تالوت قرآن میں نیت واردہ اگر خالصتا ً فہم قرآن ‪،‬طلب ہدایت اور ہللا‬
‫حصول ہے تو پھر یہ عمل یقینا ً بہت باعث اجر ہوگا ۔‬
‫‪ANS 03‬‬
‫ک ال ۡ ِکبَ َر اَ َح ُدہ ُ َم ۤا اَو ۡ ک ِٰلہُ َما فَ َال‬ ‫ک اَ اال تَع ۡبُدُو ۡ ۤۤا ا ا ِۤال اِیااہُ َو بِال ۡ َوا ِل َدی ۡ ِن اِح ۡ َ‬
‫سانًا ۡ اِ اما یَب ۡلُغ اَن عِن ۡ َد َ‬ ‫َو قَضٰ ی َربُّ َ‬
‫تَقُل ۡ لاہُ َم ۤا ا ُ ٍ‬
‫ف او َال تَن ۡہَر ۡہ ُ َما َو قُل ۡ لاہُ َما قَو ۡ ًال ک َِری ۡ ًما﴿‪﴾۲۳‬‬
‫‪ ۲۳‬۔ اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی‬
‫کرو‪ ،‬اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں‬
‫نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا۔‬
‫ب ار ۡ َحم ۡہ ُ َما َک َما َربا ٰینِی ۡ َ‬
‫صغِی ۡ ًرا ﴿﴾‪ۡ ۲۴‬‬ ‫َو اخ ۡفِض ۡ لَہُ َما َجنَا َح الذُّ ِل مِنَ ا‬
‫الرح ۡ َم ِۃ َو قُل ۡ ار ِ‬
‫‪ ۲۴‬۔ اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو‪ :‬میرے رب! ان پر رحم‬
‫فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پاال تھا۔‬
‫ک اَ اال تَع ۡبُدُو ۡ ۤۤا‪ :‬آیت میں قَضٰ ى اس امر کے لیے استعمال ہوا ہے جو زیادہ الزم اور واجب ہے۔ ابن‬
‫‪۱‬۔ َو قَضٰ ی َربُّ َ‬
‫عباس‪ ،‬ابن مسعود اور ابی بن کعب کی قرائت کے مطابق قَضٰ ى کی جگہ َو ّٰ‬
‫صی ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں ‪ :‬اصل‬
‫قضی سمجھا ہے۔ اس‬
‫ٰ‬ ‫صی کے صاد کے ساتھ مل گئی تو لوگوں نے‬
‫صی تھا۔ پھر دو واو میں ایک واو َو ّٰ‬
‫میں َو َو ّٰ‬
‫زمانے میں حروف پر نقطے نہیں ہوتے تھے۔ ابن عباس کہتے ہیں ‪:‬‬
‫اذ لو کان علی القضاء ما عصی احد ۔‬
‫اگر لفظ قضاء ہوتا تو ہللا کی کوئی نافرمانی نہ کرتا۔‬
‫قضی حکم تکوینی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ہللا کے حکم تکوینی کی نافرمانی‬
‫ٰ‬ ‫ابن عباس کا مطلب یہ ہے کہ لفظ‬
‫نہیں ہو سکتی۔ نافرمانی حکم تشریعی میں ہوتی ہے۔ ( تفسیر قرطبی ۔ ذیل آیہ)‬
‫سانًا‪ :‬جس طرح والدین بڑھاپے میں اوالد کے احسان کے محتاج ہوتے ہیں ‪ ،‬اوالد کو بھی‬
‫‪۲‬۔ َو ِبال ۡ َوا ِل َدی ۡ ِن اِح ۡ َ‬
‫تعالی نے اس ضرورت کو تکوین و فطرت‬
‫ٰ‬ ‫بچپنے میں والدین کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ہللا‬
‫کے ذریعے پورا کیا کہ والدین کے دل میں اوالد کی محبت اس طرح ودیعت فرمائی کہ وہ اپنی جان سے بھی زیادہ‬
‫اوالد کو عزیز سمجھتے ہیں۔ حفظ و بقائے نوع انسانی کے لیے ضروری تھا کہ انسان کے دل میں اوالد کی محبت‬
‫اس قدر جاگزین ہو کہ وہ اوالد سے دست بردار نہ ہو سکے۔ اگر یہ عمل فطرت کے حوالے نہ ہوتا اور تشریع و‬
‫قانون کے ذریعے والدین کو حکم ملتا کہ ا پنی اوالد پرشفقت کریں تو اس پر باقی احکام کی طرح عمل کم ہوتا اور‬
‫بقائے نوع انسانی خطرے میں پڑ جاتی۔‬
‫جب کہ والدین پر احسان کو توحید کے بعد اہم ترین قانون اور دستور ٰالہی قرار دیاکیونکہ انسان فطرتا ً آنے والی نسل‬
‫کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اوالد والدین کے احسا نات کو فراموش کرتی ہے۔ اس لیے اوالد والدین کو وہ مہر و‬
‫تعالی نے اس قانون کو اپنی عبادت کے‬
‫ٰ‬ ‫محبت نہیں دے سکتی جو انہوں نے انہیں بچپنے میں دی تھی۔ اس لیے ہللا‬
‫بعد اہم ترین قرار دے کر فرمایا‪:‬‬
‫‪i‬۔ ِا اما یَب ۡلُغ اَن‪ :‬ان پر احسان کرو۔ وہ عالم ضعف و پیری میں احسان کے محتاج ہوتے ہیں۔‬
‫‪ii‬۔ فَ َال تَقُل ۡ لاہُ َم ۤا ا ُ ٍ‬
‫ف‪ :‬ان کو اف تک نہ کہو۔ ان کی خدمت خندہ پیشانی کے ساتھ انجام دیا کرو۔ آداب کے دائرے سے‬
‫اُف کی حد تک بھی تجاوز نہ کرو۔‬
‫‪۳‬۔ او َال تَن ۡہَر ۡہ ُ َما‪ :‬ان کو جھڑ کو نہیں۔ ان کے مطالبات کو فراخدلی سے پورا کرو۔‬
‫‪۴‬۔ َو قُل ۡ لاہُ َما قَو ۡ ًال ک َِری ۡ ًما‪ :‬ان سے گفتگو کرو تو عزت و تکریم کے ساتھ۔ یہ ساری باتیں انسان کے امکان میں‬
‫ہیں۔‬
‫‪۵‬۔ َو اخ ۡفِض ۡ لَہُ َما َجنَا َح الذُّ ِل‪ :‬والدین کے سامنے تواضع کے ساتھ پیش آؤ۔ ایسی تواضح جس کا سرچشمہ مِنَ‬
‫الرح ۡ َم ِۃ مہر و وفا ہو۔‬
‫ا‬
‫‪۶‬۔ َو قُل ۡ ار ِ‬
‫ب ار ۡ َحم ۡہ ُ َما‪ :‬ہللا سے دعا کرو‪ :‬پروردگار! ان پر رحم کر جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھے پاال‬
‫ہے۔ جو مہر و شفقت والدین نے بچپن میں اوالد کو دی ہے وہ اوالد والدین کو نہیں دے سکتی۔ لہٰ ذا یہ نہیں فرمایا کہ‬
‫تم اپنے والدین پر اسی طرح احسان کرو جس طرح وہ بچپن میں تمہاری پرورش کرتے تھے بلکہ ہللا سے درخواست‬
‫کرو‪َ :‬و قُل ۡ ار ِ‬
‫ب ار ۡ َحم ۡہ ُ َما ۔۔۔۔‬
‫سانًا کے‬
‫تعالی کے فرمان‪َ :‬و ِبال ۡ َوا ِل َدی ۡ ِن اِح ۡ َ‬
‫ٰ‬ ‫روایت ہے کہ جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السالم سے ہللا‬
‫بارے میں سوال کیا گیا تو ٓا ؑپ نے فرمایا‪:‬‬
‫ّٰللا َیقُولُ‪ :‬لَ ْن تَنَالُوا‬
‫ان اِلَ ْی ِہ َو ا ِْن کَانَا ُم ْستَ ْغنِ َیی ِْن أ لَی ِْس ّٰ ُ‬
‫شیْئا ً ہ ُ َما َیحْ تَا َج ِ‬ ‫ال ت ُ َک ِلفَ ُہ َما اَ ْن َی ْسئ ََال َ‬
‫ک َ‬ ‫سا ُن اَ ْن تُحْ سِنَ ُ‬
‫صحْ َبتَ ُھ َما َو َ‬ ‫االِحْ َ‬
‫ک فَ َال‬ ‫ا ْل ِب ار َحتّٰى ت ُ ْن ِفقُ ْوا مِ اما تُحِ ب ُّْونَ ۔۔۔ َو اَ اما قَ ْولُ ُہ اِ اما َی ْبلُغ اَن ِع ْندَكَ ا ْل ِك َب َر اَ َح ُدہ ُ َما ٓ اَ ْو ك ِٰلـہ ُ َما فَ َال تَ ـقُلْ لا ُہ َما ٓ اُفٍ قَالَ‪ :‬ا ِْن اَ ْ‬
‫ض َج َرا َ‬
‫الخر ( مستدرک ‪ ۱۷۳ :۱۵‬باب وجوب بر والدین )‬ ‫ک ۔۔۔۔ ا ٓ‬ ‫ض َر َبا َ‬‫تَ ُقلْ َل ُھ َما اُفٍ او َال تَ ْن َہ ْرہ ُ َما ا ِْن َ‬
‫والدین پر احسان سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں کے ساتھ احسن طریقہ سے رہنا کہ ان کو تجھ سے اپنی ضرورت‬
‫کی کسی چیز کا سوال کرنے کی نوبت نہ آئے خواہ وہ دونوں بے نیاز ہی کیوں نہ ہوں۔ کیا ہللا نے نہیں فرمایا‪ :‬تم‬
‫نیکی کی منزل پر فائز نہیں ہو سکتے جب ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن کو تم پسند کرتے ہو اور اگر والدین‬
‫تمہیں تنگ کریں تو اف تک نہ کہو اور اگر وہ تمہیں ماریں تو انہیں مت جھڑکو۔۔۔۔‬
‫امام جعفر صادق علیہ السالم سے منقول ہے‪:‬‬
‫شیْئا ً اَ ْھ َونَ مِ ْنہُ لَنَ َھی َ‬
‫ع ْنہُ ۔ ( الکافی ‪ ۳۴۸ :۲‬باب العقوق )‬ ‫ع از َو َج ال َ‬
‫ّٰللا َ‬
‫عل َِم ّٰ ُ‬ ‫اَ ْدنَی ا ْلعُقُو ِ‬
‫ق اُفٍ ۔ َو لَو َ‬
‫تعالی اس سے بھی منع فرماتا۔‬
‫ٰ‬ ‫کم ترین عاق اف کرنا ہے۔ اگر اس سے کمتر کوئی چیز ہوتی تو ہللا‬
‫اہم نکات‬
‫‪۱‬۔ ٰالہی انسان‪ ،‬فطرت کے تحت اوالد سے محبت اور شریعت کے تحت والدین پر احسان کرتا ہے۔‬
‫‪ ۲‬۔ اسالم انسانی قدروں (والدین پر احسان) کو توحید کے بعد سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔‬
‫‪ ۳‬۔ اسالمی تعلیمات کی فضا میں ایک خوشگوار خاندان تشکیل پاتا ہے۔‬
‫‪ANS 04‬‬
‫الرحِ ی ِْم‬ ‫بِس ِْم ہللاِ ا‬
‫الرحْ مٰ ِن ا‬
‫ب ال ۡفَلَ ِ‬
‫ق ﴾‪ۡ ﴿۱‬‬ ‫قُل ۡ اَعُو ۡذُ بِ َر ِ‬
‫‪ ۱‬۔ کہدیجئے‪ :‬میں صبح کے رب کی پناہ مانگتا ہوں‪،‬‬
‫تفسیر آیات‬
‫‪۱‬۔ اَعُو ۡذُ‪ :‬پناہ مانگتا ہوں۔ پناہ وہ مانگتا ہے جو خوف محسوس کرتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ جس سے خوف‬
‫ہے اس سے وہ خود نہیں بچ سکتا۔ اس لیے کسی ایسی ذات کی پناہ میں جاتا ہے جو اسے بچا سکتی ہے۔‬
‫اس آیت میں یہ فرمایا‪ :‬کہدیجیے! میں پناہ مانگتا ہوں ال ۡفَلَ ِ‬
‫ق کے رب کی۔ فلق کے لغوی معنی شگافتہ کرنے‪ ،‬پھاڑنے‬
‫تعالی نے بھی‬
‫ٰ‬ ‫کے ہیں۔ اکثر مفسرین نے اسے صرف صبح پر تطبیق کیا ہے۔ یہ بھی پرد ٔہ شب کو پھاڑنا ہے۔ ہللا‬
‫اح (‪ ۶‬انعام‪ ) ۹۶ :‬فرمایا۔ وہ صبح کا شگافتہ کرنے واال ہے لیکن‬ ‫صبح کے لیے خصوصی پر فَا ِلقُ ال ۡاِص ۡبَ ِ‬
‫تعالی نے َفا ِلقُ ال ۡ َح ِ‬
‫ب َو‬ ‫ٰ‬ ‫ق کو صرف صبح کے ساتھ مخصوص کرنے کے لیے قرینہ نہیں بنتا چونکہ ہللا‬ ‫یہ ال ۡفَ َل ِ‬
‫ق سے‬ ‫النا ٰوی (‪ ۶‬انعام‪ )۹۵ :‬بھی کہا ہے۔ وہ دانے اور گٹھلی کو شگافتہ کرنے واال ہے۔ لہٰ ذا بہتر یہ ہے کہ ہم ال ۡفَ َل ِ‬
‫مطلق شگافتہ کرنا مرادلیں کہ وہ تاریکی کو‪ ،‬دانے کو ‪ ،‬گھٹلی کو شگافتہ کرنے واال ہے۔ وہ جانور جو تخم سے‪،‬‬
‫رحم سے نکل آتے ہیں‪ ،‬چشمے زمین کو شگافتہ کر کے نکلتے ہیں اور الکھوں چیزیں جو عناصر کی ترکیب سے‬
‫عرصہ وجود میں قدم رکھتی ہیں بلکہ کائنات میں جو رونق خلق و ایجاد ہے وہ فلق سے‬
‫ٔ‬ ‫گوناگون پردوں کو چیر کر‬
‫ہے۔‬
‫اب پناہ مانگ ایسی ذات کی جو اس بات پر قدرت رکھتی ہے کہ سینہ ظلمت چیر کر خلق و ایجاد سے اس کائنات کو‬
‫منور کرتی ہے۔‬
‫مِن ۡ ش َِر َما َخلَقَ ﴾‪ۡ ﴿۲‬‬
‫‪ ۲‬۔ ہر اس چیز کے شر سے جسے اس نے پیدا کیا‪،‬‬
‫تفسیر آیات‬
‫ق کی طرح َخلَقَ بھی مطلق ہے۔ اس میں اگرچہ تمام مخلوقات شامل ہیں علی االطالق‪ ،‬نہ علی العموم لہٰ ذا‬
‫بالکل ال ۡفَلَ ِ‬
‫بعض َما َخلَقَ میں شر آ جاتا ہے‪ ،‬سب میں نہیں‪ ،‬چونکہ مخلوقات میں شرکا پہلو موجود ہوا کرتا ہے۔ یہاں شر ہللا نے‬
‫خلق نہیں کیا بلکہ ہللا نے جو خلق کیا ہے ان میں موجود شر سے پناہ مانگتا ہوں۔‬
‫انسان کو ہللا نے احسن تقویم میں پیدا کیا ہے مگر کبھی یہ ابلیس سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ اس طرح تمام موجودات‬
‫میں خیر و شر دونوں پہلو موجود ہیں۔‬
‫ق اِذَا َوقَ َ‬
‫ب ﴾‪ۡ ﴿۳‬‬ ‫َو مِن ۡ ش َِر غَا ِس ٍ‬
‫‪ ۳‬۔ اور اندھیری رات کے شر سے جب اس کا اندھیرا چھا جائے‪،‬‬
‫تشریح کلمات‬
‫َوقَ َ‬
‫ب‪:‬‬
‫( و ق ب ) کے اصل معنی چٹان‪ ،‬پتھر وغیرہ میں گڑھا کے ہیں اور وقب کے معنی گڑھے میں داخل ہو کر غائب‬
‫ہونے کے ہیں۔ اسی سے وقب الظالم تاریکی چھا گئی ہے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔‬
‫تفسیر آیات‬
‫رات کی تاریکی ہللا نے انسان کے سکون ک ے لیے بنائی لیکن کبھی اس تاریکی سے غلط فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ‬
‫ڈاکے مارتے‪ ،‬حملہ کرتے اور دیگر قسم کے ضرر پہنچاتے ہیں اور ہو سکتا ہے مراد یہ ہو کہ جو پوشیدہ رہ کر‬
‫ق سے مراد مطلق تاریکی اور پوشیدہ‬
‫انسان پر حملہ کرتے ہیں جیسے جراثیم‪ ،‬سرطان وغیرہ۔ اس صورت میں غَا ِس ٍ‬
‫لی جا سکتی ہے۔‬

‫َو مِن ۡ ش َِر النافّٰ ٰث ِ‬


‫ت فِی ال ۡعُقَ ِد ﴾‪ۡ ﴿۴‬‬
‫‪ ۴‬۔ اور گرہوں میں پھونکنے والی (جادوگرنی) کے شر سے‪،‬‬
‫تشریح کلمات‬
‫النافّٰ ٰثتِ‪:‬‬
‫( ن ف ث ) پھونکنے والیاں۔‬
‫ال ۡعُقَدِ‪:‬‬
‫( ع ق د ) گرہ کو کہتے ہیں۔‬
‫تفسیر آیات‬
‫اور پناہ مانگتا ہوں گرہوں میں پھونکنے والی جادگرنیوں کے شر سے۔ النافّٰ ٰثتِ‪ ،‬نفاثۃ کی جمع ہے۔ نفاثۃ میں تاء عالمۃ‬
‫ت سے مراد جماعۃ یا نفوس بھی‬ ‫کی طرح مبالغہ کے لیے ہے تو پھونکنے والے مرد بھی مراد ہو سکتے ہیں یا النافّٰ ٰث ِ‬
‫ہو سکتے ہیں اس طرح مونث کا صیغہ استعمال ہوا ہو۔‬
‫یہ تعبیر جادو کے لیے استعمال کی گئی ہے چونکہ جادوگر کسی تاگے میں گرہ دیتے اور اس میں پھونک مارتے‬
‫ہیں۔‬
‫جادو کا اثر ہوتا ہے۔ اس کے شر سے پناہ مانگی جاتی ہے۔ اگرچہ جادو کی حقیقت نہیں ہوتی مگر اس سے انسان‬
‫متاثر ہو جاتا ہے۔ متاثر ہونے کے لیے مبنی برحقیقت ہونا ضروری نہیں ہے۔ انسان کو تاریکی اور مردہ آدمی سے‬
‫خوف آتا ہے‪ ،‬صرف واہمے کی وجہ سے۔ ورنہ تاریکی کوئی مضر نہیں ہے اور مرہ آدمی زندہ سے زیادہ بے‬
‫ضرر ہے لیکن واہمے کی وجہ سے ڈر لگتا ہے۔ اسی طرح جادو سے نظروں کو دھوکہ دیا جاتا ہے تو اس کا اثر‬
‫موسی علیہ السالم کو خوف ہوا کہ‬
‫ٰ‬ ‫انسان پر ہوتا ہے۔ چنانچہ فرعونیوں کا بڑے پیمانے پر جادو دیکھ کر حضرت‬
‫کہیں جاہل لوگ دھوکے میں نہ آ جائیں۔ لوگ ھاروت و ماروت سے ایسا جادو سیکھ لیتے جس سے وہ مرد اور اس‬
‫کی زوجہ کے درمیان جدائی ڈالتے تھے۔‬
‫َو مِن ۡ ش َِر َحا ِس ٍد اِذَا َح َ‬
‫س َد ‪﴾۵﴿٪‬‬
‫‪ ۵‬۔ اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگ جائے۔‬
‫تفسیر آیات‬
‫حسد انسان میں موجود ایک پست صفت ہے جو نفسیاتی طور پر شکست خوردہ ذہنیت کی عالمت ہے۔ شکست بایں‬
‫معنی کہ وہ کسی شخص کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھ سکتا چونکہ خود کامیابی کی اس منزل پر نہیں ہے۔ اس احساس‬
‫عاجزی و ناتوانی کی وجہ سے اس کی کوشش ہوتی ہے کسی طرح وہ شخص کامیاب نہ ہو۔ اس سے فتنے سر‬
‫اُٹھاتے ہیں اور نقصانات کے اسباب فراہم ہوتے ہیں۔‬
‫اِذَا َح َ‬
‫س َد‪ :‬حاسد جب اپنے حسد کے مطابق محسود کے خالف قدم اٹھاتا ہے تو اس وقت پناہ مانگی جاتی ہے لیکن اگر‬
‫حاسد دل ہی دل میں جل تا رہے‪ ،‬کوئی ضرر کا قدم نہ اٹھائے تو اس صورت میں شر صرف حاسد کے لیے ہے کہ‬
‫وہ بالوجہ جل رہاہوتا ہے‪ ،‬محسود کے لیے نہیں ہے۔‬
‫حضر امام جعفر صادق علیہ السالم سے منقول ہے‪:‬‬
‫س ُد َو ا ْلعُجْ بُ َو ا ْلف َْخ ُر۔ (الکافی ‪۳۰۷ :۲‬۔ تفسیر البرھان)‬
‫آفَ ُۃ ال ِدی ِْن ا ْل َح َ‬
‫دین کی آفت حسد خود بینی اور فخر کرنا ہے۔‬
‫آپ علیہ السالم سے دوسر روایت منقول ہے‪:‬‬
‫س ُد َو ا ْل ُمنَافِقُ َیحْ سُ ُد َو َال َی ْغ ِبطُ۔ (الکافی ‪ ۳۰۷ :۲‬۔ البرھان)‬
‫ا اِن ا ْل ُم ْٔومِنَ َی ْغ ِبطُ َو َال َیحْ َ‬
‫مومن رشک کرتا ہے‪ ،‬حسد نہیں کرتا۔ منافق حسد کرتا ہے‪ ،‬رشک نہیں کرتا۔‬
‫ٔ‬
‫‪ANS 05‬‬
‫سا فَکُلُو ۡ ُہ ہَنِی ٓ ۡــ ًٔۤۤ ا ام ِری ٓ ۡــ ًٔۤۤ ا﴿‪﴾۴‬‬ ‫صد ُٰقت ِِہ ان نِح ۡلَ ًۃ ۡ فَاِن ۡ طِ ب ۡنَ لَکُم ۡ َ‬
‫عن ۡ شَی ۡءٍ مِن ۡ ُہ نَف ۡ ً‬ ‫سا ٓ َء َ‬ ‫َو ٰاتُوا ِ‬
‫الن َ‬
‫‪ ۴‬۔ اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دیا کرو‪ ،‬ہاں! اگر وہ کچھ حصہ اپنی خوشی سے معاف کر دیں تو اسے‬
‫خوشگواری سے بال کراہت کھا سکتے ہو۔‬
‫رشتہ ازدواج میں منسلک‬
‫ٔ‬ ‫مہر کو قرآن نے صدقۃ کہا ہے۔ یعنی صدق و سچائی ۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ یہ مال‬
‫ہونے کو صادق اور سچا بنانے کے لیے ایک عالمت ہے۔‬
‫ایام جاہلیت میں حق مہر خود عورتوں کو نہیں دیتے تھے‪ ،‬بلکہ دوسرے لوگ اسے وصول کرتے تھے۔ قرآن نے‬
‫فرمایا ‪ :‬یہ عورتوں کا حق ہے‪ ،‬انہی کو دیا کرو۔ یعنی اسالم نے عورتوں کو اقتصادی امور میں استقالل دیا کہ‬
‫عورت اپنے مال کی خود مالک ہے۔ مردوں کو اس میں دخل دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ مغرب نے بیسویں صدی‬
‫میں داخل ہونے تک عورت کو اقتصادی امور میں استقالل نہیں دیا۔‬
‫نِح ۡلَۃً‪ :‬یعنی اس حق مہر کو مہر و محبت کا عنوان بنا کر از روئے ہدیہ و عطیہ نہایت خوشدلی سے دیا کرو۔‬
‫اعتراض‪ :‬مہر کا تعین عورت کو خریدنے اوراس کی قیمت لگانے کے مترادف ہے اور یہ مقام زن کی توہین ہے۔‬
‫جواب‪:‬او ً‬
‫ال اوپر بیان کیا گیا کہ یہ عورت کی قیمت نہیں ہے۔ حق مہر کے ذریعے عورت خریدی نہیں جاتی بلکہ یہ‬
‫خواستگاری کی صداقت اور باہمی رشتہ ازدواج مینعورت کی عفت کا اعتراف ہے۔ مہر سے عورت کی شخصیت‬
‫کو اہمیت مل جاتی ہے۔ جس میں مادی سے زیادہ انسانی اور نسوانی اقدار کا پہلو زیادہ اہم ہے۔ مہراداکرنے کی وجہ‬
‫سے مرد‪ ،‬عورت یا اس کے کسی عمل کا مالک نہیں بنتا۔ اگر عورت کمائی کرے تو اس کی مالک خود عورت ہے۔‬
‫مہر ادا کرنے کی وجہ سے مرد عورت سے کام نہیں لے سکتا۔ عورت ازدواجی حقوق کے عالوہ مرد کے کسی کام‬
‫کاج کی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ وہ ایک مستقل انسان ہے اور مرد کے مقاب لے میں زوج‪ ،‬جفت کا مقام رکھتی ہے۔ نہ‬
‫محکوم ہے نہ خادمہ۔‬
‫درحقیقت مرد و زن میں ایک توازن برقرار رکھنے کے لیے قدرت نے مختلف خصوصیات ان دونوں میں ودیعت‬
‫فرمائی ہیں۔ اگر مرد‪ ،‬اعصاب و بدن کے اعتبار سے عورت سے زیادہ طاقتور ہے تو بے نیازی‪ ،‬جمال اور غرور‬
‫میں عورت زیادہ طاقتور ہے۔ اسی لیے خواستگاری ہمیشہ مرد کی طرف سے ہوتی ہے اور یہ تقریبا ً ایک کائناتی‬
‫اور آفاقی دستور ہے کہ مادہ نر کو اپنی طرف جذب کرتی ہے اور نر مادہ کے پیچھے جاتا ہے۔ مادہ کے لیے عار‬
‫و ننگ ہے کہ وہ نر کے پیچھے جائے۔ مہر بھی اسی سے ہے کہ نر بعنوان ہدیہ و خواستگاری مہر دیتا ہے۔ عورت‬
‫کے لیے ننگ ہے کہ وہ اس سلسلے میں مرد کو کچھ دے۔ عورت کا وقار‪ ،‬اس کی شخصیت اور اس کے ناموس کی‬
‫عزت و احترام اسی میں ہے کہ وہ مفت اپنے آپ کو مرد کے حوالے نہ کرے۔ اس سلسلے میں مرد کو اپنی خواہش‬
‫اور خواستگاری کا ثبوت فراہم کرنا ہو گا اور وہ ہے مہرکی ادائیگی۔‬
‫اہم نکات‬
‫‪ ۱‬۔حق مہر ازدواجی زندگی میں مہر و محبت‪ ،‬عورت کی شخصیت و وقار اور احترام کا ثبوت ہے۔‬
‫‪ ۲‬۔اسالم نہ مرد کو ظلم کا حق دیتا ہے‪ ،‬نہ عورت کو‪ ،‬بلکہ حق کو باالدستی حاصل ہوتی ہے۔‬

You might also like