Professional Documents
Culture Documents
ANS 01
عہد صدیقی میں قرآن مجید ایک مصحف میں بشک ِل کتاب مرتب نہیں ہوا تھا ،بلکہ مختلف چیزوں سے صحیفوں (کتابچوں/
حجر کی تشریح
ؒ اوراق) میں لکھ لیا گیا تھا ۔۔ حدیث نبوی میں ان کو “صحف” (صحیفوں) کا نام دیا گیا ہے اور حافظ ابن
کے مطابق وہ منتشر اوراق (االوراق المجردۃ) تھے۔ مصحف اور صحف کا فرق بتاتے ہوئے حافظ موصوف نے لکھا
ہے کہ مصحف تو سورتوں کی ترتیب کے مطابق اور بشکل کتاب ہوتا ہے ،جب کہ صحف منتشر اوراق ہیں جن میں
سورتیں ترتیب کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ پیوست کر دی گئی تھیں۔ یہی صحف صدیقی ہیں۔ فتح الباری24/9 ،
ان کو صحف صدیقی کہنا اس لیے بھی مناسب و موزوں معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت کے حکم سے قرآن کریم کو
اوراق و قراطیس میں جمع کرکے محفوظ کر دیا گیا تھا۔ بعض روایات میں ان کو صحیفہ بھی کہا گیا ہے ،لیکن واحد
بول کر جمع مراد لی گئی ہے۔ دوسری تاریخی اور واقعاتی سند یہ ہے کہ انہی “صحف صدیقی” کی بنا پر حضرت
تعالی عنہ کے عہ ِد خالفت میں مصحف اور مصاحف تیار کیے گئے تھے ،جن کی تعداد
ٰ عثمان بن عفان اموی رضی ہللا
مختلف روایات میں مختلف آئی ہیں ،لیکن سات مصاحف کی روایت کو سب سے معتبر کہا گیا ہے۔ ان مصاحف کو
نام نامی سے موسوم کر کے “مصاحف عثمانی” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
تعالی عنہ کے ِ
ٰ حضرت عثمان رضی ہللا
میں روشنی کی حدیث منظر پس
حضورپاک صلی ہللا علیہ وسلم کے مرض الوفات کے ساتھ ہی فتنے ابھرنے شروع ہوگئے اور آپ کی وفات کے بعد
ِ
عنہ نے ان فتنوں کی سرکوبی کے لیے پوری طاقت
ان فتنوں نے شدت اختیار کرلی ،حضرت صدیق اکبر رضی ہللا ٗ
وقوت صرف کردی اور بہت سے معرکےاس دوران پیش آئے جن میں سے ایک اہم معرکہ جنگ یمامہ کا ہے ،جس
میں بہت سے قراء شہید ہوئے جن کا انداز /۷۰اور ایک قول کے مطابق / ۷۰۰تک لگایا گیا ہے (تفسیرقرطبی،۳۷/۱:
دربار رسالت کے مشہور قاری سالم مولی ابوحذیفہ رضی ہللا عنہ بھی اسی معرکہ میں شہید
ِ عمدۃ القاری)۵۳۳/۱۳:
العرفان)۱۷۹: (مناہل ہوئے
اس عظیم سانحہ کی وجہ سے بعض اجلۂ صحابہ رضی ہللا عنہم بالخصوص حضرت عمر رضی ہللا عنہ کو تشویش
الحق ہوئی جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں” :
جنگِ یمامہ کے بعد مجھے امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے بالیا میں پہنچا تو وہاں پہلے سے
عنہ نے فرمایا کہ یہ عمررضی ہللا
حضرت عمر رضی ہللا عنہ بھی تشریف فرما تھے ،حضرت صدیق اکبررضی ہللا ٗ
عنہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ یمامہ کے شدید معرکہ میں بہت سے حفاظ کام آگئے ہیں ،مجھے اندیشہ ہے
کہ اگر ایسے ہی دیگر معرکوں میں حفاظ شہید ہوتے رہے تو قرآن مجید کا بہت سا حصہ ان کے سینوں ہی میں چالجائے
عنہ) قرآن مجید کے جمع وتدوین کا اہتمام کروں
عنہ کہتے ہیں کہ میں (ابوبکررضی ہللا ٗ
گا؛ اس لیے عمررضی ہللا ٗ
عنہ فرماتے ہیں کہ) میں ان سے کہہ چکا ہوں کہ جس کام کو حضور صلی ہللا علیہ
(حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا ٗ
عنہ کہتے ہیں خدا کی قسم اس میں سراپا خیر ہی ہے یہ مجھ
وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں (لیکن) عمررضی ہللا ٗ
تعالی نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا اور اب میری بھی وہی
ٰ سے بار بار تقاضا کرتے رہے؛ آخر ہللا
عنہ نے مجھ سے فرمایا :تم
عنہ کی ہے ،زید کہتے ہیں :حضرت ابوبکرصدیق رضی ہللا ٗ
رائے ہے جو عمررضی ہللا ٗ
نوجوان ہو سمجھدار ہو کسی طرح کی تہمت بھی ہم تمہارے (اور تمہارے دین ودیانت کے)بارے میں نہیں پاتے اور تم
ب وحی بھی ہو تم قرآن کریم (کے مختلف اجزاء) کو تالش کرو اور اس کو جمع
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے کات ِ
عنہ کہتے ہیں :کہ خدا کی قسم اگر وہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کے ایک جگہ سے دوسری
کرو! حضرت زید رضی ہللا ٗ
جگہ منتقل کرنے کا حکم فرما تے تو یہ میرے لیے زیادہ آسان تھا ،بنسبت اس کام کے جس کا انھوں نے مجھے حکم
عنہ کہتے ہیں :کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ حضرات ایسا کام کیسے
دیا ہے ،یعنی جمع قرآن کا حضرت زید رضی ہللا ٗ
عنہ نے فرمایا :بخدا یہ تو
کررہے ہیں جس کو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی ہللا ٗ
عنہ اس بارے میں بار بار مجھ
عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی ہللا ٗ
اچھا ہی کام ہے ،حضرت زید رضی ہللا ٗ
تعالی نے میرا
ٰ عنہ کی طرح ہللا
عنہ وعمر رضی ہللا ٗ
سے اصرار کرتے رہے؛ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی ہللا ٗ
سینہ بھی اس کام کے لی ے کھول دیا (پھر میں صرف حکم کی تعمیل میں نہیں بلکہ واقعی ایک اہم ضرورت سمجھ کر
اس کام کے لیے تیار ہوگیا) پھر میں نے قرآن کریم کے اجزاء کو تالش کرنا شروع کیا او راسے کھجور کی شاخوں،
پتھر کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا؛ یہاں تک کہ سورۃ توبہ کی آخری آیتیں “لَقَ ْد َجا َ
ئ کُ ْم َرسُ ْو ٌل
عنہ علَ ْیکُ ْم بِا ْل ُمؤْ مِ نِیْنَ َر ُء ٌ
وف َرحِ ْی ٌم” (التوبۃ“ )۱۲۸:ابوخزیمہ انصاری رضی ہللا ٗ یص َ علَ ْی ِہ َما َ
عنِت ُّ ْم َح ِر ٌ مِن أَ ْنفُ ِسکُ ْم َ
ع ِزی ٌْز َ ْ
تھیں”۔ نہیں پاس کے اور کسی جو ملی پاس کے
القرآن)۴۹۸۶/۲۰: جمع باب القرآن، فضائل کتاب بخاری، (صحیح
یہ حدیث حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنہ سے مروی ہے۔ وہی ان صحیفوں کے کاتب بھی ہیں جن میں مختلف چیزوں
تھیں۔ گئیں لکھی کے کر جمع سورتیں اور آیات قرآنی سے
ممکن ہے کہ مذکورہ حدیث میں سورت توبہ کی آخری آیت واال حصہ پڑھ کر کسی کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو کہ
حضرت زید کو یہ آیت دیگر صحابہ کے پاس کیوں نہ ملی؟ ہم اسکی یہاں مختصر وضاحت کردیتے ہیں کہ حضرت
زید کا مقصد یہ بتانا نہیں تھا کہ یہ آیت کسی کو یاد بھی نہیں تھی بلکہ یہ کہ یہ آیت حضرت خزیمہ کے عالوہ کسی
،ج،۱ص)۱۰۱ تھی۔(االتقان نہ ہوئ لکھی پاس کے صحابی اور
دوسرے سینکڑوں حفاظ کے عالوہ خود حضرت زید بھی حافظ تھے اور ان کو یہ معلوم تھا کہ یہ آیات کہا ں اور کس
سورت سے متعلق ہیں اسی لیے انہوں نے اسکو صحابہ کے پاس تالش بھی کیا ۔!! اس ضمن میں صحابہ کی تالش تائید
وتقویت کے لئے تھی کہ حفظ وحافظے کے عال وہ لکھے ہوئے سے بھی اسکی تائید ہوجائے اور وہ ابوخزیمہ انصاری
سے مل گئی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت زید نے تنہاء حافظے پر اعتماد نہیں کیا ،سورئہ براءۃ کی آخری آیات
باوجودیکہ حضرت زید کو حفظ تھیں اور ان کے عالوہ متعدد صحابہ کو بھی حفظ تھیں ،لیکن اس وقت تک اُنہیں درج
خزیمہ ) کے پاس بھی لکھی شہادت نہیں مل گئی ۔یہ اس بات کی گواہی ہے
ؓ نہیں کیا جب تک کہ کسی صحابی (حضرت
کہ تدوین کے سلسلے میں کس قدر احتیاط کا اہتمام کیا گیا۔
: نوعیت کی کام
پورا قرآن عہد رسالت میں لکھا جاچکا تھا مگر اس کی آیتیں اور سورتیں یکجا نہ تھی حضرت ابو بکر رضی ہللا عنہ
نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی ترتیب کے مطابق اس کو ایک جگہ جمع کیا ۔ عالمہ سیوطی ابو عبدہللا محاسبی
: ہیں لکھتے سے حوالے السنن”کے ”فہم کتاب کی
”قرآن کی کتابت کوئ نئی چیز نہ تھی نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم بذات خود اس کے لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے
البتہ وہ کاغذ کے ٹکڑوں،شانہ کی ہڈیوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر بکھرا پڑا تھا ۔حضرت ابو بکررضی ہللا ٰ
تعالی عنہ
نے متفرق جگہوں سے اس کو یکجا کرنے کا حکم دیا یہ سب اشیاء یوں تھیں جیسے آنحضور صلی ہللا علیہ وسلم کے
گھر میں اوراق منتشر پڑے ہوں اور ان میں قرآن لکھا ہو اہو ،ایک جمع کرنے والے (حضرت ابوبکررضی ہللا ٰ
تعالی
عنہ )نے ان اوراق کو جمع کرکے ایک دھاگے سے باندھ دیا تاکہ ان میں سے کوئی چیز ضائع نہ ہوپائے۔(البرہان
،ج،۱ص،۲۳۸االتقان،ج،۱ص)۱۰۱
)۸۳/۱ (االتقان بخیطٍ۔ َربَ َ
ط َہا و جام ٌع فَ َج َمعَہا ُم ْنتَشِرا ً فیہا القرآ ُن وکان
(ترجمہ ):اور (رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے گھر میں قرآن مجید کی مکمل یاد داشتوں کا جو ذخیرہ تھا) اس میں
(قرآنی سورتیں) الگ الگ لکھی ہوئی تھیں؛ پس اس کو (حضرت ابوبکر کے حکم سے) جمع کرنے والے (زید بن ثابت)
نے ایک جگہ (ساری سورتوں کو) جمع کر دیا ،اور ایک دھاگا سے سب کی شیرازہ بندی کر دی۔
کار ق
طری ِ کا تدوین
جمع قرآن کے سلسلہ میں حضرت زید بن ثابت رضی ہللا ٗ
عنہ کے طریقہ کار کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ زید خود ِ
حافظ قرآن تھے؛ لہٰ ذا وہ اپنی یادداشت سے پورا قرآن لکھ سکتے تھے ان کے عالوہ بھی سینکڑوں حفاظ اس وقت موجود
تھے ان کی ایک جماعت بناکربھی قرآن کریم لکھا جاسکتا تھا؛ نیز قرآن کریم کے جو مکمل نسخہ آنحضرت صلی ہللا
عنہ ان سے بھی قرآن کریم نقل فرماسکتے تھے؛
علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھ لئے گئے تھے حضرت زید رضی ہللا ٗ
پیش نظر ان میں سے صرف کسی ایک طریقہ پر اکتفا نہیں فرمایا؛ بلکہ ان تمام ذرائع سے
لیکن انھوں نے احتیاط کے ِ
بیک وقت کام لیکر اس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفوں میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر ہونے کی تحریری
اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں اس کے عالوہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے قرآن کریم کی جو آیات اپنی نگرانی
عنہ نے انھیں یکجافرمایا
میں لکھوائی تھیں وہ مختلف صحابہ رضی ہللا عنہم کے پاس محفوظ تھیں حضرت زید رضی ہللا ٗ
تاکہ نیا نسخہ ان سے ہی نقل کیا جائے؛ چنانچہ یہ اعالن عام کردیا گیا کہ جس شخص کے پاس قرآن کریم کی کچھ بھی
آیات لکھی ہوئی ہو ں وہ حضرت زید کے پاس لے آئے (فتح الباری ،۱۷/۹:علوم القرآن۱۸۳:۔ االتقان)۱۲۸:
عنہ خود نگرانی فرماتے رہے اور انھیں اپنے مفید مشوروں سے نوازتے
اس کام کی حضرت صدیق اکبر رضی ہللا ٗ
بطور معاون کے حضرت زید
ِ عنہ کو بھی
رہے؛ چنانچہ روایات سے ثابت ہے کہ انھوں نے حضرت عمر رضی ہللا ٗ
عنہ اور زید
کے ساتھ اس کام میں لگادیا تھا (االتقان۱۲۹/۱:۔ فتح الباری )۱۹/۹:اور ساتھ ہی حضرت عمر رضی ہللا ٗ
جاو؛ پھرجوشخص بھی تمہارے پاس عنہ کو یہ حکم بھی فرمادیا تھا“ :کہ مسجد کے دروازے کے پاس بیٹھ ٔ
رضی ہللا ٗ
قرآن کریم کے کسی جزء پر دوگواہ لے ٓائے اس کو صحیفوں میں لکھ لو” (االتقان۱۲۸/۱:۔ فتح الباری)۱۷/۹:
الغرض جو جو شخص بھی حضرت زید کے پاس قرآن مجید کی آیتیں لے کر آتا حضرت زیدرضی ہللا ٗ
عنہ چارطریقوں
تھے: کرتے تصدیق کی اس سے
تھے۔ کرتے تصدیق کی اس سے حافظہ اپنے پہلے سے () ۱سب
عنہ کو بھی اس
عنہ نے حضرت عمر رضی ہللا ٗ
()۲پھر جیسا کہ اوپر تحریر کیا جاچکا ،حضرت صدیق اکبر رضی ہللا ٗ
کام میں ان کا معاون بنادیا تھا اس لیے حضرت عمر رضی ہللا عنہ بھی اپنے حافظہ سے اس کی جانچ کرتے تھے۔
()۳کوئی لکھی ہوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ دوقابل اعتبارگواہوں نے اس بات کی گواہی
نہ دیدی ہو کہ یہ تحریر رسول پاک صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے ،حافظ سیوطی رحمہ ہللا کہتے ہیں
کہ بظاہر اس بات کی بھی گواہی لی جاتی تھی کہ یہ لکھی ہوئی آیتیں حضور پاک صلی ہللا علیہ وسلم کی وفات کے
سال آپ پر پیش کردی گئی تھی اور آپ نے اس بات کی تصدیق فرمادی تھی کہ یہ ان حروفِ سبعہ کے مطاق ہے جن
پر قرآن کریم نازل ہوا ہے (االتقان ) ۱۲۸،۱۲۹/۱:عالمہ سیوطی رحمہ ہللا کی اس بات کی تائید متعدد روایات سے بھی
ہے ہوتی
(االتقان)۱۱۰/۱:
()۴اس کے بعد ان لکھی ہوئی آیتوں کا ان مجموعوں کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا تھا ،جو مختلف صحابہ رضی ہللا عنہم نے
ق کار کا مقصد یہ تھا کہ قرآن کریم کی کتابت میں زیادہ سے
تیار کررکھے تھے ،امام ابوشامہ فرماتے ہیں“ :کہ اس طری ِ
زیادہ احتیاط سے کام لیا جائے اور صرف حافظہ پر اکتفا کرنے کے بجائے بعینہ ان تحریرات سے نقل کیا جائے جو
تھی گئی لکھی سامنے کے وسلم علیہ ہللا صلی آنحضرت
(االتقان)۱۲۸/۱:
صحابہ کرام نے آپس میں مشورہ
ٔ جب اجتماعی تصدیق کے ساتھ ”قرآن مجید“ کی جمع و تدوین کا کام مکمل ہو گیا ،تو
حابہ کرام نے اس کا نام ” ِس ْفر“ رکھا؛لیکن یہ نام یہودیوں کی مشابہت
کیا کہ :اس کو کیا نام دیا جائے؟ چناں چہ بعض ص ٔ
صحابہ کرام کا اتفاق ہو گیا۔ (االتقان )۷۷/۱
ٔ کی وجہ سے پاس نہیں ہوا ،اخیر میں ” مصحف“ نام پر سارے
خصوصیات کی نسخہ کردہ تیار میں عہدِصدیقی
صحابہ کرام کے پاس بھی قرآن مجید لکھا ہوا تھا؛ لیکن جن خصوصیات کا حامل حضرت ابوبکر صدیق واال
ٔ دوسرے
صحابہ کرام کے درمیان اُسے ”اُم“ کہا
ٔ اجماعی نسخہ تھا ،ان سے دوسرے سارے نسخے خالی تھے ،اسی وجہ سے
ہیں: ذیل درج خصوصیات کی تھا،اس جاتا
ت قرآنی حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق مرتب تھیں؛ لیکن سورتیں
()۱اس نسخہ میں آیا ِ
مرتب نہ تھیں ہرسورت الگ الگ پاروں کی شکل میں لکھی ہوئی تھی۔(فتح الباری )۲۲/۹
()۲اس نسخہ میں ایسی کوئی آیت آنے نہیں دی گئی جس کی تالوت منسوخ ہوچکی ہو۔
() ۳اس نسخہ کے تیار کرنے میں پوری باریک بینی سے تالش وتفحص کیا گیا اور پوری احتیاط کے ساتھ اسے قلمبند
گیا۔ کیا
)۲۴۷ ،۲۴۶/۱ العرفان تھا۔(مناہل مشتمل پر رعایت کی حروف ساتوں نسخہ () ۴یہ
( ) ۵اس کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی ”اجماعی تصدیق“ سے تیار ہو جائے؛ تاکہ
ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جا سکے (علوم القرآن از مفتی محمد تقی عثمانی ص)۱۸۶
( ) ۶اس نسخہ میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر ،ایک ہی جلد میں مجلد کرایا
گیا تھا ،اور یہ کام حکومت کی طر ف سے انجام دیا گیا ،یہ کام رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو پایا
تھا( ،تدوین قرآن ص)۴۰
خصوصیات: اور نام کا نسخہ کردہ جمع
اس کمیٹی نے انتہائی احتیاط اورسخت محنت کے بعد قرآن کو ایک سال کی مدت میں جمع کردیا،جسے تمام صحابہ
کرام نے اتفاقا ً قبول کیا اور یوں امت بھی اس پرجمع ہوگئی ۔ اس نسخہ کی خصوصیات حسب ذیل تھیں:
۱۔ نسخہ میں قرآنی آیات کی ترتیب آپ ﷺکی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق تھی لیکن سورتیں مرتب نہ تھیں بلکہ ہر
سورت الگ اور علیحدہ صحیفہ میں تھی جن کی ترتیب عہد عثمان ؓ میں ہوئی۔ اس نسخہ کا نام مصحف اُم رکھا گیا۔
تھے۔ جمع حروف ساتوں میں نسخہ اس ۲۔
تھا۔ گیا لکھا میں حیری خط نسخہ یہ ۳۔
۴۔ اس میں صرف وہ آیات لکھی گئیں جن کی تالوت منسوخ نہیں ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ اس میں آیۃ الرجم نہیں
تھا۔ باقی حکم مگر تھی منسوخ تالوت کی اس کیونکہ گئی لکھی
۵۔ یہ امت کے لئے ایک ایسا متفقہ مرتب نسخہ تھا جواسے انتشار سے بچا گیا۔اسی لئے سیدنا ز یدؓ نے تمام گواہوں کی
موجودگی میں اس کا اعالن کیا۔ جس کے صحیح ہونے کی سب نے بال اعتراض گواہی دی۔
سیدنا زید ؓ نے تکمیل مصحف کے بعد اسے خلیفہ رسول ابو بکر صدیق ؓکے سپرد کردیا جو ان کے پاس وفات تک
رہا۔پھر سیدنا عمر رضی ہللا عنہ کے پاس آگیا ان کی وفات کے بعد یہ مصحف ام المؤمنین سیدہ حفصہ ؓ کے پاس اس
وقت تک رہا جب عثمان ؓ نے ان سے طلب کر کے منتخب کمیٹی کے ذریعے نئے نسخے تیار کروا ئے اور اسے واپس
لوٹا دیا جو ان کی وفات کے بعد سیدناابن عمر ؓکے ذریعے مروان بن الحکم کے پاس آیا تو مروان نے یہ سوچ کر کہ
مبادا اس میں کوئی ایسی بات ہوجونسخہ عثمان ؓسے مختلف ہو اسے ضائع کر دیا۔
عمر کے دور میں تدوین قرآن کی بجائے اشاعت قرآن پرزیادہ کام ہوا۔ آ ؓپ نے ہر جگہ تعلیم قرآن کو الزمی
سیدنا ؓ
قراردے دیا یہاں تک کہ فوجیوں او ردیہاتیوں کو بھی نہ چھوڑا ۔ قرآن کی ترویج کے لئے آ ؓپ نے باجماعت تراویح کا
اہتمام کیا اور ابی بن کعب وتمیم الداری ؓ کو حکم دیا کہ لوگوں کو باجماعت گیارہ رکعت تراویح پڑھائیں۔(موطأ امام
مالک :صحیح)۔ آ ؓپ نے ہر جگہ یہ احکام بھیجے کہ قرآن کی تعلیم کے ساتھ صحت الفاظ اوراعراب کی تعلیم پر بھی
توجہ دی جائے۔سیدنا عمر فاروق ؓ کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکال کہ قرآن کریم ہر طرف پھیل گیا اور حفاظ کی تعداد میں
وقاص کے لشکر میں ۳۰۰حفاظ
ؓ تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف سعد بن ابی
ہللا محدث دہلوی فرماتے ہیں:آج مسلمانوں میں جو بھی قرآن پڑھتا ہے فاروق اعظم ؓ کا احسان اس
موجود تھے۔ شاہ ولی ؒ
کی گردن پر ہے۔
ANS 02
تعالی کی وہ آخری اورمستند ترین کتاب ہے جسے دین کے معاملے میں انسانیت کی ہدایت کے لیے محمد
ٰ قرآن مجید ہللا
ہللا پر نازل کیا گیا ہے ۔اِس کتاب ہدایت سے استفادہ انسان تب ہی کرسکتا ہے جب وہ اِسے پڑھے گا ،اِس کی
رسول ؐ
تالوت اور اِس کا مطالعہ کرے گا ۔ تالوت قرآن کی فضیلت احادیث کی روشنی میں واضح ہیحضر ت عثمان بن عفان ؓ
سے روایت ہے کہ رسول ہللا ؐ نے فرمایا :تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور اسے
تعالی اس کتاب (قرآن مجید)
ٰ الخطاب سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا :ہللا
ؓ سکھالئے۔(بخاری )۔حضرت عمربن
کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سرفراز فرمائے گا اور اسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل کردے گا۔ (مسلم) سرفراز
ہللا کے حکم سے وہی ہوں گے جو قرآن کے احکام کی پیروی کریں گے۔ ابتدائی چند صدیونمیں مسلمان جب ہرجگہ
قرآن کے حامل اورعامل تھے ‘ اس پر عمل کی برکت سے وہ دین ودنیا کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوئے۔ لیکن مسلمانوں
نے جب سے قرآن کے احکام وقوانین پر عمل کرنے کو اپنی زندگی سے خارج کردیا تب سے ہی ان پر ذلت ورسوائی
کا عذاب مسلط ہے ۔ کاش مسلمان دوبارہ قرآن کریم سے اپنا رشتہ جوڑیں تاکہ ان کی عظمت رفتہ بحال ہوسکے۔
عباس سے روایت ہے کہ رسول ہللا ؐ نے فرمایا:بیشک وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ(یاد)
ؓ حضرت ابن
نہ ہو ،وہ ویران گھر کی طرح ہے ۔یعنی جیسے ویران گھر خیروبرکت اوررہنے والوں سے خالی ہوتا ہے ،ایسے ہی
اس شخص کا دل خیر وبرکت اور روحانیت سے خالی ہوتا ہے جسے قرآن مجید کا کوئی بھی حصہ یاد نہیں ۔ اس سے
معلوم ہوتا ہے کہ ہرمسلمان کو قرآن مجید کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور زبانی یا دکرنا اور رکھنا چاہیے تاکہ وہ اس
وعید سے محفوظ رہے۔
حضور فرماتے ہیں کہ جو شخص قرآن پاک کا ایک حرف پڑھے اس کو دس نیکیوں کے برابر نیکی ملتی ہے۔ خیال
ؐ
رہے کہ الم ایک حرف نہیں بلکہ الف ،الم ،میم تین حروف ہیں۔ لہٰ ذا فقط اتنا پڑھنے سے تیس نیکیاں ملیں گے ۔ خیا ل
رہے کہ الم متشابہات میں سے ہے جس کے معنی ہم تو کیا جبریل بھی نہیں جانتے۔ مگر اس کے پڑھنے پر ثواب ہے
۔ معلوم ہوا کہ تالوت قرآن کا ثواب اس کے سمجھنے پر موقوف نہیں بغیر سمجھے بھی ثواب ہے ۔رسول ہللا ؐ نے فرمایا:
تم قرآن پڑھو اس لئے کہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا۔( مسلم )ایک دوسری
حدیث میں ہے کہ قرآن کی سفارش کو قبول کیا جائے گا۔ قرآن کو پڑھنے کے بعد اس کو اپنی عملی زندگی میں النے
والوں کے لئے بھی طرفداری کرے گا اور نجات دالئے گا۔رسول ہللا نے فرمایا ”:قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے
جو اس پر عمل کرتے تھے ،ان کو الیا جائے گا۔توسورۃ بقرہ اور آل عمران پیش پیش ہوں گی اور اپنے پڑھنے والوں
تعالی ان کو بلند کر
ٰ کی طرف سے جھگڑا کریں گی۔ (مسلم) چنانچہ جو لوگ قرآن کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں ہللا
دیتا ہے ۔ وہ دنیا میں بھی عزت حاصل کرتا ہے اور آخرت میں جنت میں داخل ہو گا۔ انشاء ہللا۔ جو قرآن کی تالوت اور
تعلیمات سے دور ہوتے ہیں اور اپنی زن دگی اپنی مرضی اور چاہت سے بسر کرتے ہیں تو پھر ایسوں کو ہللا ذلیل و
خوار کر دیتے ہیں۔
تالوت قرآن کرنے والے کے تین درجات:
میرے نزدیک بالخصوص غیر عرب مسلمانوں میں قرآن مجید کو پڑھنے والے بالعموم تین طرح کے ہوتے ہیں ۔ایک
وہ جو قرآن کی زبان سے آشنا ہیں اور اُس کے اصل متن کی سمجھ کرتالوت کرتے ہیں۔یہ ظاہر ہے کہ تالوت قرآن
کی سب سے بہتر صورت ہے ۔دوسرے وہ جو قرآن کی لغت سے تو واقف نہیں ہیں،تاہم اِس کتاب ہدایت کو سمجھنے
تراجم قرآن کی مراجعت کرتے ہیں۔اور
ِ اور اِس سے استفادہ کی خواہش رکھتے ہیں ،چنانچہ وہ اپنی زبان میں موجود
یہ پہلی صورت سے ایک درجہ کم ہے ۔تیسرے وہ جو قرآن کی زبان کو جانتے ہیں ،نہ ان کے پیش نظر اُسے سمجھنا
ہی ہوتا ہے ۔بلکہ وہ بغیر طلب فہم کے محض الفاظ قرآن کو عربی ہی میں اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں۔یہ تالوت قرآن
کا تیسرا درجہ ہے۔جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے تو قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو ایسا تاج پہنایا
جائے گا جس کی چمک آفتاب سے بڑھ کر ہوگی۔قرآن پاک کی تالوت اور موت کی یاد دل کو اس طرح صاف کردیتی
ت قرآن دین میں ایک نہایت
ہے جیسے کہ زنگ آلود لوہے کو صیقل۔چنانچہ یہ بات تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تالو ِ
ہی پسندیدہ اور مطلوب عمل ہے ۔جب دین میں اِس عمل کی حیثیت یہ ہے تو المحالہ ایک مسلمان کے لیے یہ اجر وثواب
تعالی کی خوشنودی کا
ٰ کا باعث بھی ہے ۔چنانچہ تالوت قرآن میں نیت واردہ اگر خالصتا ً فہم قرآن ،طلب ہدایت اور ہللا
حصول ہے تو پھر یہ عمل یقینا ً بہت باعث اجر ہوگا ۔
ANS 03
ک ال ۡ ِکبَ َر اَ َح ُدہ ُ َم ۤا اَو ۡ ک ِٰلہُ َما فَ َال ک اَ اال تَع ۡبُدُو ۡ ۤۤا ا ا ِۤال اِیااہُ َو بِال ۡ َوا ِل َدی ۡ ِن اِح ۡ َ
سانًا ۡ اِ اما یَب ۡلُغ اَن عِن ۡ َد َ َو قَضٰ ی َربُّ َ
تَقُل ۡ لاہُ َم ۤا ا ُ ٍ
ف او َال تَن ۡہَر ۡہ ُ َما َو قُل ۡ لاہُ َما قَو ۡ ًال ک َِری ۡ ًما﴿﴾۲۳
۲۳۔ اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی
کرو ،اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں
نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا۔
ب ار ۡ َحم ۡہ ُ َما َک َما َربا ٰینِی ۡ َ
صغِی ۡ ًرا ﴿﴾ۡ ۲۴ َو اخ ۡفِض ۡ لَہُ َما َجنَا َح الذُّ ِل مِنَ ا
الرح ۡ َم ِۃ َو قُل ۡ ار ِ
۲۴۔ اور مہر و محبت کے ساتھ ان کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور دعا کرو :میرے رب! ان پر رحم
فرما جس طرح انہوں نے مجھے پچپن میں (شفقت سے) پاال تھا۔
ک اَ اال تَع ۡبُدُو ۡ ۤۤا :آیت میں قَضٰ ى اس امر کے لیے استعمال ہوا ہے جو زیادہ الزم اور واجب ہے۔ ابن
۱۔ َو قَضٰ ی َربُّ َ
عباس ،ابن مسعود اور ابی بن کعب کی قرائت کے مطابق قَضٰ ى کی جگہ َو ّٰ
صی ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں :اصل
قضی سمجھا ہے۔ اس
ٰ صی کے صاد کے ساتھ مل گئی تو لوگوں نے
صی تھا۔ پھر دو واو میں ایک واو َو ّٰ
میں َو َو ّٰ
زمانے میں حروف پر نقطے نہیں ہوتے تھے۔ ابن عباس کہتے ہیں :
اذ لو کان علی القضاء ما عصی احد ۔
اگر لفظ قضاء ہوتا تو ہللا کی کوئی نافرمانی نہ کرتا۔
قضی حکم تکوینی کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ہللا کے حکم تکوینی کی نافرمانی
ٰ ابن عباس کا مطلب یہ ہے کہ لفظ
نہیں ہو سکتی۔ نافرمانی حکم تشریعی میں ہوتی ہے۔ ( تفسیر قرطبی ۔ ذیل آیہ)
سانًا :جس طرح والدین بڑھاپے میں اوالد کے احسان کے محتاج ہوتے ہیں ،اوالد کو بھی
۲۔ َو ِبال ۡ َوا ِل َدی ۡ ِن اِح ۡ َ
تعالی نے اس ضرورت کو تکوین و فطرت
ٰ بچپنے میں والدین کی توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے ہللا
کے ذریعے پورا کیا کہ والدین کے دل میں اوالد کی محبت اس طرح ودیعت فرمائی کہ وہ اپنی جان سے بھی زیادہ
اوالد کو عزیز سمجھتے ہیں۔ حفظ و بقائے نوع انسانی کے لیے ضروری تھا کہ انسان کے دل میں اوالد کی محبت
اس قدر جاگزین ہو کہ وہ اوالد سے دست بردار نہ ہو سکے۔ اگر یہ عمل فطرت کے حوالے نہ ہوتا اور تشریع و
قانون کے ذریعے والدین کو حکم ملتا کہ ا پنی اوالد پرشفقت کریں تو اس پر باقی احکام کی طرح عمل کم ہوتا اور
بقائے نوع انسانی خطرے میں پڑ جاتی۔
جب کہ والدین پر احسان کو توحید کے بعد اہم ترین قانون اور دستور ٰالہی قرار دیاکیونکہ انسان فطرتا ً آنے والی نسل
کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اوالد والدین کے احسا نات کو فراموش کرتی ہے۔ اس لیے اوالد والدین کو وہ مہر و
تعالی نے اس قانون کو اپنی عبادت کے
ٰ محبت نہیں دے سکتی جو انہوں نے انہیں بچپنے میں دی تھی۔ اس لیے ہللا
بعد اہم ترین قرار دے کر فرمایا:
i۔ ِا اما یَب ۡلُغ اَن :ان پر احسان کرو۔ وہ عالم ضعف و پیری میں احسان کے محتاج ہوتے ہیں۔
ii۔ فَ َال تَقُل ۡ لاہُ َم ۤا ا ُ ٍ
ف :ان کو اف تک نہ کہو۔ ان کی خدمت خندہ پیشانی کے ساتھ انجام دیا کرو۔ آداب کے دائرے سے
اُف کی حد تک بھی تجاوز نہ کرو۔
۳۔ او َال تَن ۡہَر ۡہ ُ َما :ان کو جھڑ کو نہیں۔ ان کے مطالبات کو فراخدلی سے پورا کرو۔
۴۔ َو قُل ۡ لاہُ َما قَو ۡ ًال ک َِری ۡ ًما :ان سے گفتگو کرو تو عزت و تکریم کے ساتھ۔ یہ ساری باتیں انسان کے امکان میں
ہیں۔
۵۔ َو اخ ۡفِض ۡ لَہُ َما َجنَا َح الذُّ ِل :والدین کے سامنے تواضع کے ساتھ پیش آؤ۔ ایسی تواضح جس کا سرچشمہ مِنَ
الرح ۡ َم ِۃ مہر و وفا ہو۔
ا
۶۔ َو قُل ۡ ار ِ
ب ار ۡ َحم ۡہ ُ َما :ہللا سے دعا کرو :پروردگار! ان پر رحم کر جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھے پاال
ہے۔ جو مہر و شفقت والدین نے بچپن میں اوالد کو دی ہے وہ اوالد والدین کو نہیں دے سکتی۔ لہٰ ذا یہ نہیں فرمایا کہ
تم اپنے والدین پر اسی طرح احسان کرو جس طرح وہ بچپن میں تمہاری پرورش کرتے تھے بلکہ ہللا سے درخواست
کروَ :و قُل ۡ ار ِ
ب ار ۡ َحم ۡہ ُ َما ۔۔۔۔
سانًا کے
تعالی کے فرمانَ :و ِبال ۡ َوا ِل َدی ۡ ِن اِح ۡ َ
ٰ روایت ہے کہ جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السالم سے ہللا
بارے میں سوال کیا گیا تو ٓا ؑپ نے فرمایا:
ّٰللا َیقُولُ :لَ ْن تَنَالُوا
ان اِلَ ْی ِہ َو ا ِْن کَانَا ُم ْستَ ْغنِ َیی ِْن أ لَی ِْس ّٰ ُ
شیْئا ً ہ ُ َما َیحْ تَا َج ِ ال ت ُ َک ِلفَ ُہ َما اَ ْن َی ْسئ ََال َ
ک َ سا ُن اَ ْن تُحْ سِنَ ُ
صحْ َبتَ ُھ َما َو َ االِحْ َ
ک فَ َال ا ْل ِب ار َحتّٰى ت ُ ْن ِفقُ ْوا مِ اما تُحِ ب ُّْونَ ۔۔۔ َو اَ اما قَ ْولُ ُہ اِ اما َی ْبلُغ اَن ِع ْندَكَ ا ْل ِك َب َر اَ َح ُدہ ُ َما ٓ اَ ْو ك ِٰلـہ ُ َما فَ َال تَ ـقُلْ لا ُہ َما ٓ اُفٍ قَالَ :ا ِْن اَ ْ
ض َج َرا َ
الخر ( مستدرک ۱۷۳ :۱۵باب وجوب بر والدین ) ک ۔۔۔۔ ا ٓ ض َر َبا َتَ ُقلْ َل ُھ َما اُفٍ او َال تَ ْن َہ ْرہ ُ َما ا ِْن َ
والدین پر احسان سے مراد یہ ہے کہ ان دونوں کے ساتھ احسن طریقہ سے رہنا کہ ان کو تجھ سے اپنی ضرورت
کی کسی چیز کا سوال کرنے کی نوبت نہ آئے خواہ وہ دونوں بے نیاز ہی کیوں نہ ہوں۔ کیا ہللا نے نہیں فرمایا :تم
نیکی کی منزل پر فائز نہیں ہو سکتے جب ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جن کو تم پسند کرتے ہو اور اگر والدین
تمہیں تنگ کریں تو اف تک نہ کہو اور اگر وہ تمہیں ماریں تو انہیں مت جھڑکو۔۔۔۔
امام جعفر صادق علیہ السالم سے منقول ہے:
شیْئا ً اَ ْھ َونَ مِ ْنہُ لَنَ َھی َ
ع ْنہُ ۔ ( الکافی ۳۴۸ :۲باب العقوق ) ع از َو َج ال َ
ّٰللا َ
عل َِم ّٰ ُ اَ ْدنَی ا ْلعُقُو ِ
ق اُفٍ ۔ َو لَو َ
تعالی اس سے بھی منع فرماتا۔
ٰ کم ترین عاق اف کرنا ہے۔ اگر اس سے کمتر کوئی چیز ہوتی تو ہللا
اہم نکات
۱۔ ٰالہی انسان ،فطرت کے تحت اوالد سے محبت اور شریعت کے تحت والدین پر احسان کرتا ہے۔
۲۔ اسالم انسانی قدروں (والدین پر احسان) کو توحید کے بعد سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
۳۔ اسالمی تعلیمات کی فضا میں ایک خوشگوار خاندان تشکیل پاتا ہے۔
ANS 04
الرحِ ی ِْم بِس ِْم ہللاِ ا
الرحْ مٰ ِن ا
ب ال ۡفَلَ ِ
ق ﴾ۡ ﴿۱ قُل ۡ اَعُو ۡذُ بِ َر ِ
۱۔ کہدیجئے :میں صبح کے رب کی پناہ مانگتا ہوں،
تفسیر آیات
۱۔ اَعُو ۡذُ :پناہ مانگتا ہوں۔ پناہ وہ مانگتا ہے جو خوف محسوس کرتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ جس سے خوف
ہے اس سے وہ خود نہیں بچ سکتا۔ اس لیے کسی ایسی ذات کی پناہ میں جاتا ہے جو اسے بچا سکتی ہے۔
اس آیت میں یہ فرمایا :کہدیجیے! میں پناہ مانگتا ہوں ال ۡفَلَ ِ
ق کے رب کی۔ فلق کے لغوی معنی شگافتہ کرنے ،پھاڑنے
تعالی نے بھی
ٰ کے ہیں۔ اکثر مفسرین نے اسے صرف صبح پر تطبیق کیا ہے۔ یہ بھی پرد ٔہ شب کو پھاڑنا ہے۔ ہللا
اح ( ۶انعام ) ۹۶ :فرمایا۔ وہ صبح کا شگافتہ کرنے واال ہے لیکن صبح کے لیے خصوصی پر فَا ِلقُ ال ۡاِص ۡبَ ِ
تعالی نے َفا ِلقُ ال ۡ َح ِ
ب َو ٰ ق کو صرف صبح کے ساتھ مخصوص کرنے کے لیے قرینہ نہیں بنتا چونکہ ہللا یہ ال ۡفَ َل ِ
ق سے النا ٰوی ( ۶انعام )۹۵ :بھی کہا ہے۔ وہ دانے اور گٹھلی کو شگافتہ کرنے واال ہے۔ لہٰ ذا بہتر یہ ہے کہ ہم ال ۡفَ َل ِ
مطلق شگافتہ کرنا مرادلیں کہ وہ تاریکی کو ،دانے کو ،گھٹلی کو شگافتہ کرنے واال ہے۔ وہ جانور جو تخم سے،
رحم سے نکل آتے ہیں ،چشمے زمین کو شگافتہ کر کے نکلتے ہیں اور الکھوں چیزیں جو عناصر کی ترکیب سے
عرصہ وجود میں قدم رکھتی ہیں بلکہ کائنات میں جو رونق خلق و ایجاد ہے وہ فلق سے
ٔ گوناگون پردوں کو چیر کر
ہے۔
اب پناہ مانگ ایسی ذات کی جو اس بات پر قدرت رکھتی ہے کہ سینہ ظلمت چیر کر خلق و ایجاد سے اس کائنات کو
منور کرتی ہے۔
مِن ۡ ش َِر َما َخلَقَ ﴾ۡ ﴿۲
۲۔ ہر اس چیز کے شر سے جسے اس نے پیدا کیا،
تفسیر آیات
ق کی طرح َخلَقَ بھی مطلق ہے۔ اس میں اگرچہ تمام مخلوقات شامل ہیں علی االطالق ،نہ علی العموم لہٰ ذا
بالکل ال ۡفَلَ ِ
بعض َما َخلَقَ میں شر آ جاتا ہے ،سب میں نہیں ،چونکہ مخلوقات میں شرکا پہلو موجود ہوا کرتا ہے۔ یہاں شر ہللا نے
خلق نہیں کیا بلکہ ہللا نے جو خلق کیا ہے ان میں موجود شر سے پناہ مانگتا ہوں۔
انسان کو ہللا نے احسن تقویم میں پیدا کیا ہے مگر کبھی یہ ابلیس سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ اس طرح تمام موجودات
میں خیر و شر دونوں پہلو موجود ہیں۔
ق اِذَا َوقَ َ
ب ﴾ۡ ﴿۳ َو مِن ۡ ش َِر غَا ِس ٍ
۳۔ اور اندھیری رات کے شر سے جب اس کا اندھیرا چھا جائے،
تشریح کلمات
َوقَ َ
ب:
( و ق ب ) کے اصل معنی چٹان ،پتھر وغیرہ میں گڑھا کے ہیں اور وقب کے معنی گڑھے میں داخل ہو کر غائب
ہونے کے ہیں۔ اسی سے وقب الظالم تاریکی چھا گئی ہے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
تفسیر آیات
رات کی تاریکی ہللا نے انسان کے سکون ک ے لیے بنائی لیکن کبھی اس تاریکی سے غلط فائدہ اٹھا کر کچھ لوگ
ڈاکے مارتے ،حملہ کرتے اور دیگر قسم کے ضرر پہنچاتے ہیں اور ہو سکتا ہے مراد یہ ہو کہ جو پوشیدہ رہ کر
ق سے مراد مطلق تاریکی اور پوشیدہ
انسان پر حملہ کرتے ہیں جیسے جراثیم ،سرطان وغیرہ۔ اس صورت میں غَا ِس ٍ
لی جا سکتی ہے۔