You are on page 1of 34

‫‪ANS 01‬‬

‫عالم پر جو خصوصی امتیازات حاصل ہیں ان میں سے ایک امتیاز یہ ہے کہ اس کی تعلیم ات ہ ر قس م کی تحری ف س ے محف وظ ہیں‪ ،‬ق رٓان ِ‬
‫مجید ٓاج بھی بالکل اسی حالت میں موجود ہے جیسا کہ حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا تھ ا‪ ،‬کی ونکہ ق رٓان ِ مجی د کی حف اظت ک ا ذمہ خ ود ہللا‬
‫تعالی نے لیا ہے۔ تاریخ ِ ادیان میں استثنائی طور پر قرٓان وہ واحد مذہبی کتاب ہے جس کی حفاظت نہ صرف حف ظ اور کت ابت کے ذریعہ کی‬
‫ٰ‬
‫گئی بلکہ قرٓان ِ مجید کو ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصہ تک اسالمی ریاست کا قانون ہونے کی وجہ سے ہر طرح کا تحفظ حاص ل رہ ا‬
‫تعالی کے خاص تکوینی نظام کے تحت مسلم حکومتوں کے اقتدار کا سورج اس وقت غروب ہوا جب چھاپہ خانے اور جدید پرنٹنگ‬
‫ٰ‬ ‫ہے ‪ ،‬ہللا‬
‫کی دریافت نے قرٓان مجید میں لفظی تحریف کے امکان کو بالکل ختم کردیا تھا۔قرٓان کے مقابلے میں یہ امتیاز اور کسی بھی مذہبی کتاب ک و‬
‫حاصل نہیں ہے‪،‬اور نہ ہی کسی مذہب کے پیرو کار یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان کی مذہبی کتب غیر محر ّ ف ہیں ۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو‬
‫یہ کتب جن زبانوں میں نازل ہوئی تھیں وہ زبانیں ہی کب کی مرچکی ہیں‪ ،‬اور ٓاج تورات اور انجیل جن کی اصل زب ان ع برانی اور س ریانی‬
‫تھی ‪  ،‬ترجمہ در ترجمہ کے کتنے مراحل طے کر چکی ہیں۔‬
‫‪ ‬بنی اسرائیل پرابتالء اور غالمی کے جو طویل ادوار گزرے ہیں اس دوران یہ کت ابیں ک ئی ب ار لوگ وں کی نظ روں س ے اوجھ ل بھی ہ وئیں‬
‫الی کی‬
‫اورپھر بعد کے لوگوں نے ان کوکن مصادر کی روشنی میں دوبارہ قلمبند کیا؟ یہ ساری معلوم ات پ ردہ اخف اء میں ہیں‪ ،‬چ ونکہ ہللا تع ٰ‬
‫حکمت میں دیگر مذہبی کتابوں کو محفوظ رکھن ا ش امل نہیں تھ ا اس ل ئے ان کت ابوں کی حف اظت کے وہ انتظام ات نہ ہوس کے جس س ے یہ‬
‫کتابیں زمانے کی دست برد سے محفوظ رہ سکتیں۔ اب یہ معل وم کرن ا کہ ان الہ امی ص حائف میں ح ق کس ق در ب اقی بچ ا ہے اور باط ل کی‬
‫ٓامیزش کس قدر ہوئی ہے‪ ،‬ممکن نہیں ہے‪ ،‬اسی وجہ سے ٓاپﷺ نے اہل ِ کتاب کی تصدیق اور تکذیب سے منع فرمایا ہے (‪ )۱‬۔‪  ‬قرٓان مجید‪،‬‬
‫ص ّد ِق اور ُمہی ِم ْن ہے‪ ،‬نے جابجا تورات اور انجیل میں تحریف اور غلطیوں کی نشان دہی کی ہے ۔ قرٓان ِ مجید نے‬
‫جو تمام کتب ِ سماویہ کا ُم َ‬
‫بنیادی عقائدو نظری ات کی درس تی کے عالوہ ت اریخ ِانبی اء کے بے ش مار واقع ات ک و مکم ل اور ص حیح تن اظر میں پیش کی ا ہے ۔عص ری‬
‫تحقیقات اور اثری انکشافات نے قرٓان ِ مجید کی حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔‬
‫مستشرقین کااسالم پر حملہ ٓاور ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ و ہ تورات اور انجیل میں جو کمزوریاں محسوس کرتے ہیں یا قرٓان ان کتابوں‬
‫میں جن غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے وہ انھیں اعتراضات کو قرٓان پر لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں ۔مثالً بائیبل میں تحریف کو خود یہودی‬
‫اور عیسائی علماء نے تس لیم کی ا ہے ۔اب ان لوگ وں کی کوش ش یہ ہے کہ کس ی ط رح یہ تحری ف ق رٓانی متن میں بھی ث ابت کی ج ائے ۔ اس‬
‫مقصد کے لئے مستشرقین بعض روایات کوغلط رنگ میں پیش کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس طرح بائیب ل کے‬
‫مختلف‪Versions‬ہیں اسی طرح قرٓان ِ مجید ک ا متن بھی متفقہ اور ای ک نہیں ہے ۔ اس مہم کآاغ از ک رنے وال وں میں ج ارج س یل‪George( ‬‬
‫‪ )Sale‬کا نام انتہائی نمای اں ہے جبکہ ٓارتھ ر جیف ری‪ )Arthur Jeffery( ‬نے اس مہم ک و نقطہء ع روج ت ک پہنچای ا‪)۲(  ‬۔‪    ‬مستش رقین ک ا‬
‫طریقٔہ تحقیق یہ ہے کہ وہ اپنے مزعومہ مقاصد کے حصول کے لئے اپنا سفر مدح و توصیف سے شروع کرتے ہیں اور غیر محسوس انداز‬
‫سے قاری کے ذہن میںشکوک و شبہات کی تخم ریزی کرتے ہیں اور پھر دور ازکار تاویالت کے ذریعے اپنے طے ک ردہ نت ائج پیش ک رکے‬
‫قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں‪،‬بقول سید ابو الحسن علی ندوی ؒ‪،‬وہ خورد بین س ے دیکھ تے ہیں اور اپ نے ق ارئین ک و دور بین‬
‫سے دکھاتے ہیں ۔وہ تمام روایات جن کو قرٓان مجید میں تحریف کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ان میں سے اکثر روایت اور درایت‬
‫کے محدثانہ اصولوںپر پورا نہ اترنے کی وجہ سے قابل ِ استدالل ہی نہیں اور جو روایات اصول ِ صحت کی کسوٹی پر پورا ارتی ہیں ان کی‬
‫درست تاویل کو اختیار کرنے سے عمداً اجتناب کیا گیا ہے ۔ زیر نظر سطور میں ہم نے چند ایسی روایات کا انتخاب کیا ہے ج و معت بر کتب ِ‬
‫حدیث میں موجود ہونے کی وجہ سے خاص طور پ ر منک رین ِ ح دیث اور مستش رقین کی تنقی د ک ا نش انہ ب نیں ہیں ۔ح االنکہ اس ن وعیت کی‬
‫روایات سے کسی لفظ کا قرٓان ہو نا الزم نہیں ٓاتا کیونکہ قرٓان ہونے کے لئے تواتر اور توارث ضروری ہے۔‬
‫بعض روایات کا ظاہری مفہوم چونکہ حفاظت ِ قرٓان کے عقیدہ سے متصادم معلوم ہوتا ہے‪،‬جن کو بنیاد بنا کر منکرین ِ حدیث ‪،‬احادیث رسول‬
‫ٰ‬
‫دعوی کرتے ہیں ۔لیکن‬ ‫ﷺ کا انکار کردیتے ہیں جبکہ مستشرقین ایسی روایات کی بنیاد پر متن ِ قرٓان کے غیر محفوظ اور نامکمل ہونے کا‬
‫ٰ‬
‫دعوی اپنا وزن کھو دیتا ہے‪ ،‬جیسا کہ ذیل کی سطور میں ہم دالئل کے س اتھ واض ح ک ریں‬ ‫اگر ان روایات کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے تو یہ‬
‫گے۔سب سے پہلے ہم اس روایت کا تنقیدی مطالعہ کریں گے جس میں حد ِ رجم کا ذکر اس اسلوب میں ہے گویا کہ وہ قرٓان ہی کی ای ک ٓایت‬
‫المسیب(م‪۹۴‬ھ)سے مروی ہے کہ حضرت عم ر ف اروق ؓ (م‪۲۳  ‬ھ)نے لوگ وں کے س امنے‬
‫ؒ‬ ‫تھی جو درج ہونے سے رہ گئی۔حضرت سعید بن‬
‫خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫تعالی لکتبتھابیدی‪(  ‬اَل َّش ْی ُخ َوال َّش ْی َخۃُ‪  ‬فَارْ ُج ُموْ ھُ َما اَ ْلبَتَّۃَ) فانا قد قرٔاناھا‪)۳(  ‬‬
‫ٰ‬ ‫الخطاب فی کتاب ہّٰللا‬
‫ؓ‬ ‫والذی نفسی بیدہ لوال ان یقول الناس زاد عمر بن‬
‫‪ ‬قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میںمیری جان ہے ‪ ،‬اگر لوگوںکے یہ کہنے کا اندیشہ نہ ہوت ا کہ عم ؓر نے کت اب ہللا میں اض افہ کردی ا ت و‬
‫میں اپنے ہاتھ سے لکھ دیتا ’’بوڑھے (شادی شدہ مرد) اور بوڑھی (شادی شدہ عورت) اگر زنا کریں تو انہیں ضرور رجم کرو۔‘‘ ہم نے اس‬
‫(ٓایت) کو خود پڑھا ہے۔‬
‫‪ ‬اس روایت پرسب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اگر اس کو درس ت تس لیم ک ر لی ا ت و پھ ر ق رٓان مجی د کی محف وظیت ک ا دع ٰ‬
‫وی باط ل ہوجات ا‬
‫ہے ‪،‬اور چونکہ یہ روایت قرٓان ِ مجید کی واضح نص{ اِنَّا لَ ٗہ لَ َحافِظُوْ نَ } کے خالف ہے اس لئے ناقابل تسلیم ہے۔(‪)۴‬‬
‫عمر (م‪۲۳  ‬ھ) کے ایک مشہور خط بے س ے ہے جس ے ام ام بخ ار ؒی (م‪۲۵۶  ‬ھ)‬
‫‪ ‬اس روایت میںجو الفاظ نقل ہوئے ہیں ان کا تعلق حضرت ؓ‬
‫مسلم (م‪۲۶۱  ‬ھ) نے بھی نقل کیا ہے لیکن شیخین (بخاری ؒ و مسلم ؒ ) میں سے کسی نے بھی ان الفاظ کا ذکر نہیں‪،‬اور نہ ہی بخ اری‬
‫ؒ‬ ‫اور امام‬
‫عمر کی طرف سے قرٓان کریم میں کسی اضافے کے ارادے کا ذکر ہے‪ ،‬ص حیح بخ اری میں حض رت عم ؓر‬
‫و مسلم کی روایت میں حضرت ؓ‬
‫کے اس خطبے کے جو الفاظ منقول ہیں وہ درج ذیل ہیں‪: ‬‬
‫لقد خشیت ٔان یطول بالناس زمان حتی یقول قائل‪ :‬النجد الرجم فی کتاب ہّٰللا ‪ ،‬فیضلّوا بترک فریضۃٔانزلھاہّٰللا ‪ٔ ،‬االوان الرجم ح ق علی من زنی وق د‬
‫ٔاحصن اذا قامت البینۃ ‪ٔ،‬او کان الحمل ‪ٔ ،‬اواالعتراف‪ٔ ،‬االوقد رجم رسول ہّٰللا ﷺ ورجمنا ٗ‬
‫بعدہ(‪)۵‬‬
‫‪ ‬مجھے ڈر ہے کہ لوگوں پر طویل زمانہ گزر جائے تو وہ یہ کہنے لگیں کہ ہم رجم کا حکم ہللا کی کتا ب میں نہیں پ اتے ۔ اس ط رح ہللا کے‬
‫نازل کئے ہوئے ایک فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں ۔ خوب سن لو کہ رجم اس شخص پر ضروری ہے جو محصن ہونے کے باوجود‬
‫زنا کرے۔ جبکہ اس کے زنا پر گواہیاں قائم ہوگئی ہوں ‪ ،‬یاحمل ہو‪ ،‬یا مجرم اعتراف کرلے۔ خوب سن ل و کہ رس ول ہللاﷺ نے بھی رجم کی ا‬
‫ہے اور ٓاپﷺ کے بعد ہم نے بھی۔‬
‫زیر تبصرہ روایت پر حافظ ابن حجر ؒ (م‪۸۵۲  ‬ھ ) کی تنقید مالحظہ فرمائیں‪:‬‬
‫‪ِ             ‬‬
‫ولعل البخاری ھوالذی حذف ذلک عمدا‪ ،‬فقد اخرجہ النسائی ثم قال ال ٔاعلم ٔاحداً ذکر فی ہذا الحدیث الشیخ والشیخۃ غیر س فیان‪ ،‬وینبغی ان یک ون‬
‫وھم فی ذلک‪ ،‬قلت‪ :‬وقد ٔاخرج أالئمۃھذاالحدیث من روایۃ مالک و یونس ومعمر وصالح بن کیسان وعقی ل وغ یرھم من الحف اظ عن الزھ ری فلم‬
‫یذکروھا‪ ،‬وقد وقعت ھذہ الزیادۃ فی ھذا الحدیث من روایۃ الموطّٔا عن ٰ‬
‫یحی بن سعید عن سعید بن المسیب‪...‬الخ (‪)۶‬‬
‫بخاری نے اس حصے کو عمداً حذف کردیا ہے۔ کیونکہ امام نسائی‪ؒ  ‬نے اس روایت ک و نق ل ک رنے کے بع د کہ اہے کہ م یرے علم‬
‫ؒ‬ ‫‪ ‬شاید امام‬
‫میں اس حدیث کے اندر{اَل َّش ْی ُخ َوال َّش ْی َخۃُ ۔۔۔الخ}‪  ‬کا ذکر کرنے واال سفیان کے سوا کوئی نہیں اور ایس ا معل وم ہوت ا ہے کہ اس فق رے ک و نق ل‬
‫ؒ‬
‫کیسان وغیرہم جیس ے‬ ‫معمر ‪،‬صالح بن‬
‫ؒ‬ ‫یونس‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫مالک‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫کرنے میں ان سے وہم ہوا ہے ۔ میں کہتا ہوں کہ اس حدیث کو بڑے بڑے ائمہ نے امام‬
‫حفاظ کی سند سے اور انہوں نے امام زہری ؒ سے روایت کیا ہے لیکن ان میں سے کس ی نے یہ اض افہ ذک ر نہیں کی ا۔ ہ اں اس ح دیث میں یہ‬
‫میںیحی بن سعید از سعید بن مسیب کی سند سے مروی ہے ۔‬
‫ٰ‬ ‫اضا فہ موطّٔا‬
‫ؒؒ‬
‫حجر (م‪۸۵۲‬ھ )کے اس تجزیہ کا حاصل یہ ہے کہ امام بخاری ؒ (م‪۲۵۶  ‬ھ)اور امام نسائی‪( ؒ  ‬م‪۳۰۳ ‬ھ) جیسے مح دثین نے خط بے کے‬ ‫‪ ‬ابن ِ‬
‫بخاری نیب اب رجم الحبلی میں یہ طوی ل خطبہ روایت کی ا ہے ‪،‬لیکن اس ک ا وہ‬
‫ؒ‬ ‫اس حصے کو مستند نہیں سمجھا‪ ،‬اور اس کے باوجود کہ امام‬
‫حصہ جو { اَل َّش ْی ُخ َوال َّش ْی َخۃُ‪  ‬فَارْ ُج ُموْ ھُ َما اَ ْلبَتَّۃَ}والے فقرے پر مشتمل ہے‪،‬نقل نہیں فرمایا ‪،‬گویا جب خطبے کا یہ حصہ مس تند ہی نہیں ت و پھ ر‬
‫عمر‪(  ‬م‪۲۳‬ھ) کی طرف ان الفاظ کی نس بت ک ا ص حیح ہون ا ث ابت‬
‫لمبے چوڑے اعتراضات کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ۔تاہم اگر حضرت ؓ‬
‫ہوجائے جیسا کہ موطّ ٔاکی روایت میں بی ان کی ا گی ا ہے ‪،‬تب بھی اس ک ا یہ مطلب ہ ر گ ز نہیں ہوس کتا کہ حض رت عم ؓر { اَ َّ‬
‫لش ْی ُخ َو َّ‬
‫الش یْخَ ۃُ ‪ ‬‬
‫فَارْ ُج ُموْ ھُ َما اَ ْلبَتَّۃَ }والے فقرے کو قرٓان کریم کے جز کے طور پرلکھنا چاہتے تھے۔ کیونکہ اگر ان کے نزدیک یہ فقرہ قرٓان ِ کریم کا جز ہوتا‬
‫تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں اس کا اعالن کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی تھی‪ ،‬بلکہ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ قرٓان کریم کے حاشیے پ ر‬
‫یہ فقرہ اس بات کے اظہارکے لئے لکھ دیں کہ زانی محصن کو رجم کرنے کا حکم منس وخ نہیں ہ وا بلکہ اب بھی واجب العم ل ہے‪ ،‬چن انچہ‬
‫عمر (م‪۲۳  ‬ھ) کا یہ خطبہ نقل کیا ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں‪:‬‬
‫حنبل (م‪۲۴۱  ‬ھ)نے حضرت ؓ‬ ‫ؒ‬ ‫امام احمد بن‬
‫عمر فی کتاب ہّٰللا ما لیس منہ لکتبتہ‪  ‬فی ناحیۃ من المصحف(‪)۷‬‬
‫لوال ان یقول قائلون‪ :‬زاد ؓ‬
‫عمر نے ہللا کی کتاب میں اس بات کا اض افہ کردی اجو اس کاحص ہ نہ تھی ت و رجم ک ا یہ‬
‫‪ ‬اگر کہنے والوں کے یہ کہنے کا اندیشہ نہ ہوتا کہ ؓ‬
‫حکم میں مصحف کے ایک گوشے میںلکھ دیتا۔‬
‫‪             ‬اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ رجم کے حکم کو نہ قرٓان کریم کا جز سمجھتے تھے ‪،‬نہ قرٓان کریم کے متن میں اس کااضافہ کرنے‬
‫کا کوئی خیال ان کے دل میں ٓایا تھا‪ ،‬بلکہ انہوں نے محض ایک تشریحی اضافے کے طور پر اس کو حاشیے پر لکھنے کا خیال مس ئلہ رجم‬
‫کی اہمیت جتالنے کیلئے ظاہر کیا تھا اور عمل اس پر بھی نہیں کیا ‪،‬کیونکہ اس سے طرح ط رح کی غل ط فہمی اں پی دا ہوس کتی تھیں۔ عالمہ‬
‫زرقانی‪( ؒ  ‬م‪۱۱۲۲‬ھ) اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫والذی یظھر ٔانہ لیس مراد عمر ؓ ھذا الظاہر وانما مرادہ المبالغۃ والحث علی العمل بالرجم ال معنی آالیت ب اق وان نس خھا لفظھ ا اذال یس مع مث ل‬
‫عمر مع مزید فقھہ تجویز کتبھا مع نسخ لفظھا فال اشکال(‪)۸‬‬
‫ؓ‬
‫معنی نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد اس مسئلے کی اہمیت واض ح کرن ا‬
‫ٰ‬ ‫عمر کی مراد ظا ہری‬
‫اور جو بات بالکل واضح ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ؓ‬
‫اور‪  ‬رجم پر ابھارنا تھا ۔حضرت عمر ؓ کا یہ مقصد نہیں تھا کہ الفاظ کی منسوخی کے ب اوجود یہ ٓایت ب اقی رہ نے والی ہے ‪ٓ،‬اپ ؓ جیس ے فقیہ‬
‫سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ انھوں نے الفاظ کی منسوخی کے باوجود اس ٓا یت کو( قرٓان مجید میں) لکھنے کا حکم دی ا ہوگ ا ‪ ،‬ل ٰہ ذا اس‬
‫میں کوئی اشکال نہیں ہے۔‬
‫بہر حال حضرت عمر ؓ کی دور اندیشی مالحظہ فرمائیں کہ حد ِ رجم کے بارے میں ٓاپ ؓ نے جس خدشے کا‪  ‬اظہ ار کی ا تھ ا وہ درس ت ث ابت‬
‫ہوا ‪،‬چنانچہ امام نووی ؒ (م‪۶۷۶‬ھ)‪  ‬فرماتے ہیں‪:‬‬
‫قولہ‪ :‬فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل‪ :‬مانجد الرجم فی کتاب ہّٰللا فیض لوا ب ترک فریض ۃ‪ ،‬ھ ذا ال ذی خش یہ ق د وق ع من الخ وارج ومن‬
‫وافقھم (‪)۹‬‬
‫عمر کا یہ قول ‪ :‬میں ڈرتا ہوں کہ جب زیادہ زمانہ گزر جائے تو کوئی کہ نے واال کہے کہ ہم رجم ک و خ دا کے مق رر ک ئے ہ وئے‬
‫‪ ‬حضرت ؓ‬
‫عمر کا ڈر خ وارج اور ان کی م وافقت ک رنے وال وں کے‬
‫حکم میں نہیں پاتے ‪ ،‬پس لوگ ایک فرض چھوڑنے سے گمراہ ہوں گے‪ ،‬حضرت ؓ‬
‫حق میں پایٔہ ثبوت کو پہنچ گیاہے۔‬
‫العاص (م‪۴۲  ‬ھ) ‪،‬عبد الرحمٰ ن‬
‫ؓ‬ ‫‪            ‬اس روایت کو محدثین نے مختلف اسناد سے نقل کیا ہے ‪،‬یہ حدیث زید بن ؓ‬
‫ثابت (م ‪۴۴  ‬ھ)‪،  ‬عمرو بن‬
‫ؓ‬
‫عوف (م‪۳۲  ‬ھ) وغیرہم سے بھی م روی ہے۔ان روای ات س ے معل وم ہوت ا ہے کہ ٓاپﷺ نے یہ الف اظ ق رٓانی ٓایت کے ط ور پ ر ذک ر نہیں‬ ‫بن‬
‫فرمائے ۔ (‪)۱۰‬‬
‫بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فقرے کا اصل مٔاخذتورات ہے اور چونکہ اس کے مرکزی مفہوم کواسالمی ش ریعت میں بھی ب اقی‬
‫رکھا گیا تھا اوررسول ہللاﷺ نے اس کے مطابق فیصلے بھی فرمائے تھے‪ ،‬اس لئے یہ فقرہ ایک واجب العمل حکم ِ ٰالہی کی طرح زب ان زد‬
‫عام ہوگیا۔ہمارے اس موقف کے دالئل مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪  1-‬حافظ ابن جریر طبری ؒ (م‪۳۱۰  ‬ھ)نے حضرت جابر بن ؓ‬
‫زید سے نقل کیا ہے کہ یہودی وں کے رجم کے واقعہ میں جب ٓانحض رتﷺ نے‬
‫لش ْی ُخ َو َّ‬
‫الش ْی َخۃُ‪ ‬‬ ‫قسمیں دے کر عبدہللا بن ص وریا س ے پوچھ ا‪:‬ت ورات میں ش ادی ش دہ زانی ک ا حکم کی ا ہے؟ ت و اس نے یہ عب ارت پ ڑھی‪ :‬اَ َّ‬
‫فَارْ ُج ُموْ ھُ َما اَ ْلبَتَّۃَ اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا‪:‬فھو ذاک‪  ‬یعنی بس یہی حکم تو چاہئے تھا۔(‪)۱۱‬‬
‫یہاں یہ اشکال باقی رہتا ہے کہ پھر اس ٓایت کو موجودہ تورات میں انہی الفاظ میں موجود ہونا چاہئے تھا جبکہ ایس ا نہیں ہے ت واس ٓایت کے‬
‫موجودہ تورات میں نہ ہونے کی دو وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ عربی لٹریچر میں عہد ن امہ ق دیم کے عالوہ مش ناء تلم ود اور یہودی وں‬
‫کی دوسری مذہبی کتب کو بھی بعض اوقات’’تورات‘‘ ہی کے لفظ سے تعب یر کردی ا جات ا ہے۔ ل ٰہ ذا یہ عین ممکن ہے کہ خ اص ط ور پ ر یہ‬
‫فقرہ عہدنامہ قدیم کے عالوہ کسی اور مذہبی کتاب کا ٹکڑاہو۔دوس ری وجہ یہ بھی ہوس کتی ہے کہ عہ د ِ رس الت‪  ‬ﷺ کے بعد تورات میں‬
‫حسب ِ معمول تحریف کا سلسلہ جاری رہا ہو اور ہم تک پہنچتے پہنچتے مذکورہ ٓایت بھی تورات سے غائب ہوگئی ہو۔‬
‫‪  2-‬بعض روایات سے واضح طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ رسول ہللا ‪  ‬ﷺ نے اس جملے کو بطور ٓایت ِ رجم لکھنے کی اجازت نہیں دی بلکہ‬
‫عمر اٹھ ک ر ٓانحض رت‪  ‬ﷺ‬
‫کرام کی ایک محفل میں مسئلہ رجم اور یہی فقرہ موضوع بحث تھا۔ حضرت ؓ‬
‫اسے ناپسند فرمایا ‪،‬چنانچہ صحابہ ؓ‬
‫کی خدمت میں گئے اور عرض کیا‪:‬‬
‫یارسول ہّٰللا ﷺ اکتبنی ٓایۃ الرجم‪ ،‬قال‪ :‬الاستطیع ذاک(‪)۱۲‬‬
‫یارسول ہللا‪  ‬ﷺ‪ :‬مجھے ٓایت ِ رجم لکھوا دیجئے ٓاپﷺ نے فرمایا‪ :‬میں ایسا نہیں کرسکتا۔‬
‫العاص (م‪۴۲  ‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫‪ ‬حضرت عمرو بن‬
‫لما نزلت ٔاتیت النبیﷺ فقلت‪ :‬اکتبھا فکانہ کرہ ذالک(‪)۱۳‬‬
‫‪ ‬جب یہ ٓایت نازل ہوئی تو میںٓانحضرت‪  ‬ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ٓاپ ‪  ‬ﷺ اس ٓایت کو لکھوادیجئے تو ٓاپ‪  ‬ﷺ نے میرے‬
‫اس مطالبے کو ناپسند فرمایا۔‬
‫اگر یہ قرٓان کریم کی ٓایت ہوتی تو ٓاپ‪  ‬ﷺ اس کو دوسری ٓایات کی طرح ضرور لکھواتے لیکن ان دونوں واقعات میں ٓاپ ‪  ‬ﷺ نے ابتداء ہی‬
‫سے اس کو لکھوانے سے انکار فرمایا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ الفاظ قرٓان ِ ک ریم ک ا ج ز کبھی نہیں رہے اور جن روای ات میں اس‬
‫کو ن ازل ہ ونے س ے تعب یر کی ا گی ا ہے ان ک ا مطلب یہ نہیں ہے کہ ق رٓان ِ ک ریم کے ج زکے ط ورپر ن ازل ہ وئی تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ‬
‫ٓانحضرت‪  ‬ﷺ کوبذریعہ وحی مطلع کیا گیا تھا کہ یہ ٓایت تورات میں موجود ہے اور مسلمانوں کے لئے اب بھی قابل عمل ہے۔(‪)۱۴‬‬
‫زیر تبصرہ روایت میں غلط فہمی کی سب سے بڑی وجہکتاب ٰ‬
‫اللّہکے الفاظ ہیں ‪ ،‬کیونکہ کتاب ہللا سے قرٓان مراد لیا جات ا ہے ‪ ،‬لیکن دیکھن ا‬ ‫ِ‬
‫یہ ہے کہ قرٓان و سنّت میں ان الفاظ ک و کس ی دوس رے مفہ وم کے ل ئے بھی اس تعمال کی ا گی ا ہے ‪ ،‬ت اکہ اس ب ات ک ا ج ائزہ لی ا جاس کے کہ‬
‫عمر کا کتاب ہللا کہنے سے کیا مطلب تھا ؟۔‬
‫حضرت ؓ‬
‫معنی میں استعمال ہوا ہے ۔‬
‫ٰ‬ ‫قرٓان مجید میں کتاب کا لفظ خط(‪  )۱۵‬نوشتٔہ تقدیر (‪  )۱۶‬فریضہ (‪  )۱۷‬صحیفہ‪  )۱۸(  ‬وغیرہ کے‬
‫معنی حکم ُہللا ِکے بھی ہیں ‪ ،‬اگرچہ وہ حکم قرٓان ِ مجید میں واضح ط ور پ ر موج ود نہ بھی ہ و۔ کت اب ہللا ک ا اطالق‬
‫ٰ‬ ‫اسی طرح کتاب ہللا کے‬
‫جس طرح قرٓان پر ہوتا ہے اسی طرح ہللا کے احکام اور فرائض پر بھی کتاب ہللا کا لفظ بوالجاتا ہے‪ ،‬بندوں پر جس ق در ف رائض ‪ ،‬خ واہ وہ‬
‫قرٓان میں مذکور ہیں یا سنّت میں ‪ ،‬ان سب پر کتاب ہللا کا اطالق کیا جاتا ہے ۔ جیسے قرٓان مجید میں ارشاد ہے‪:‬‬
‫َب ہّٰللا ُ لَ ُک ْم} (المائدہ‪)۵:۲۱،‬‬
‫ض ْال ُمقَ َّد َسۃَالَّتِ ْی َکت َ‬
‫{یَاقَوْ ِم ا ْد ُخلُوْ ا ااْل َرْ َ‬
‫اے میری قوم!اس مقدس زمین میں داخل ہوجاو جسے ہللا نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔‬
‫یہ مفہوم خود رسول ہللا‪  ‬ﷺ کی مرفوع حدیث سے ثابت ہے ۔صحاح ستّہ میں یہ واقعہ مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے کہ ایک شخص‬
‫ٓاپﷺ کی خدمت میں ٓایا اور کہنے لگا ‪ :‬یارسول ہللا‪  ‬ﷺ ! میں ٓاپ ﷺ‪  ‬کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ ہمارا فیصلہ کتاب ہللا کے مطابق ک ر‬
‫دیجئے ۔ اب دوسرا فریق جو پہلے سے کچھ زیادہ سمجھدار تھ ا ‪ ،‬کہ نے لگ ا کہ ہ اں یارس ول ہللا‪  ‬ﷺ! ہمارا فیصلہ کتاب ہللا کے مطابق‬
‫فرمائیے اور مجھے بات کرنے کی اجازت دیجئے ‪ٓ ،‬اپ‪  ‬ﷺ نے فرمایا‪ :‬اچھا بیان کر‪ ،‬اس نے کہا‪ :‬میرا بیٹا اس شخص (فریق ِ ثانی) کے‬
‫پاس نوکر تھا اور اس نے اس شخص کی بیوی سے زنا کیا ہے ‪ ،‬میں نے سو بکریاں اور ایک غالم دے ک ر اپ نے بی ٹے ک و چھ ڑا لی ا ‪ ،‬اس‬
‫کے بعد میں نے کئی علماسے پوچھا ت و انہ وں نے کہ ا کہ ت یرے بی ٹے کے ل ئے س زا س وکوڑے اور ای ک س ال کی جالوط نی ہے اور اس‬
‫شخص کی بیوی کے لئے رجم ہے۔ نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا‪:‬‬
‫القضین بینکما بکتاب ہّٰللا ج ّل ذکرہ ‪ ،‬المائۃ شاۃ والخادم‪َ  ‬ر ٌّد ‪ ،‬و علی ابن ک جل د م ائۃ وتغ ریب ع ام ‪ ،‬واغ د ی اانیس علی ام راۃ‬
‫ّ‬ ‫والذی نفسی بیدہ‬
‫ٰھذا ‪ ،‬فان اعترفت‪  ‬فارجمھا فغدا علیھا فاعترفت ‪ ،‬فرجمھا (‪)۱۹‬‬
‫اس پروردگا ر کی قسم!جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کا ذکر بلن د ہے ‪ ،‬میں تم دون وں کے درمی ان کت اب ہللا کے مط ابق فیص لہ‬
‫کروں گا۔ سو بکریاں اور غالم ( جو تو نے دئیے ) تجھے واپس ہوں گے اور تیرے بیٹے کی سزا س و ک وڑے اور ای ک س ال کی جالوط نی‬
‫انیس ص بح اس کے پ اس‬
‫انیس! کل صبح اس عورت کے پاس جأو ‪ ،‬اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اس ے رجم ک ردو۔ چن انچہ ؓ‬
‫ہے ‪ ،‬اور اے ؓ‬
‫گئے تو اس نے اعتراف کرلیا تو ا نھوں نے اسے رجم کردیا۔‬
‫عینی(م‪۸۵۵  ‬ھ)نے مذکورہ باالحدیث کی شرح میںشیخ زین الدین عراقی ؒکا قول نقل کیا ہے ‪ ،‬وہ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫‪ ‬عالمہ بدرالدین‬
‫المراد بہ القرٓان یحتمل کال االمرین (‪)۲۰‬‬
‫کتاب ہللا سے مراد ہللا کے احکام اور فرائض ہیں جیسا کہ اس سے مراد قرٓان لیا جاتا ہے ۔‬
‫اس واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ رسول ہللا‪  ‬ﷺ نے رجم کا فیصلہ حکم ِ ٰالہی کے مطابق دیا تھا‪،‬اگرچہ قرٓان میں رجم کا حکم نہیں ہے ‪،‬‬
‫عمر نے اپنی زندگی کے ٓاخری ایام میں خطبہ‬
‫گویا حدیث ِ رسول‪  ‬ﷺ پر کتاب ہللا کا اطالق کرنا خود نبی‪  ‬ﷺ سے ثابت ہے ‪ ،‬ل ٰہذا حضرت ؓ‬
‫دیتے ہوئے جب یہ فرمایا‪:‬‬
‫‪ ‬الرجم فی کتاب ہّٰللا حق علی من زنی اذا ٔاحصن من الرجال والنساء‪)۲۱(  ‬‬
‫‪  ‬رجم کا حکم کتاب میں حق اور ثابت ہے جبکہ شادی شدہ مرد اور عورت زنا کرے۔‬
‫تو یہاں بھی کتاب ہللا سے ٓاپ کی مراد قرٓان ِ مجید نہ تھی ‪ ،‬جیسا کہ عام طورپر مستشرقین ‪ ،‬منکرین ِ حدیث اور دیگر معترضین نے سمجھا‬
‫ہے ‪ ،‬بلکہ پوری شریعت بشمول حدیث ِ رسول‪  ‬ﷺ تھی ‪،‬کیونکہ صحابہ کرام ؓ کتاب ہللا سے پوری شریعت ہی مراد لیا کرتے تھے اور وہ‬
‫حدیث ِ رسول‪  ‬ﷺ کوقرٓان ِ مجید سے علیحدہ کوئی چیز تسلیم نہیں کرتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ کا عقیدہ اورنقطٔہ نظریہ تھا کہ حضور ‪  ‬ﷺ‬
‫ث رسول‪  ‬ﷺ پرکتاب ہللا کا اطالق کردیا کرتے تھے۔اس کی نظیر ہمیں ابن‬ ‫وحی ٰالہی کے ہی تابع ہیں اس لئے وہ احادی ِ‬
‫ِ‬ ‫کی ہدایات بھی‬
‫الی نے ایس ی عورت وں پ ر لعنت‬ ‫ؓ‬
‫مسعود کی ایک روایت میں بھی ملتی ہے جب ٓاپؓ نے بنو اس د کی خ واتین ک و مخ اطب ک رکے فرمای ا‪ :‬ہللا تع ٰ‬
‫الی کی بن ائی ہ وئی‬
‫فرمائی ہے جو سرمہ بھرتی ہیں ‪ ،‬بال اکھیڑتی ہیں اور حسن ہی کے لئے دانت وںمیں فاص لہ ک رتی ہیں اور ی وں وہ ہللا تع ٰ‬
‫ٓاپ کے پاس ٓائی اور کہنے لگی‪:‬‬ ‫صورت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔تو بنی اسد کی ام یعقوب نامی عورت ؓ‬
‫بلغنی ٔانک قلت‪ :‬کیت وکیت ‪ ،‬قال‪ :‬ومالی ال ٔالعن من لعن رسول ہّٰللا ﷺ فی کتاب ہّٰللا ع ّزوج ّل فقالت‪ :‬انی ٔالق رٔا م ابین ل وحیہ فماوج دتہ‪  ‬ق ال‪ :‬ان‬
‫نھی عنہ (‪)۲۲‬‬ ‫کنت قرٔاتیہ‪ ،‬فقد وجدتیہ ٔاما قرٔات { َما ٰاتَا ُک ُم ال َّرسُوْ ُل فَ ُخ ُذوْ ٗہ َو َمانَھَا ُک ْم َع ْنہُ فَا ْنتَھُوْ ا(‪ })۷ /۵۹‬قالت‪ٰ :‬‬
‫بلی‪ ،‬قال‪ :‬فان النبیﷺ ٰ‬
‫ٓاپ نے فرمای امیں ایس ے ش خص ک و لعن کی وں نہ‬
‫مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم(عورتوں کے متعلق) ایسی اور ایسی باتیں ک رتے ہ و ۔ ت و ؓ‬
‫کروں جس پر ہللا کے رسول‪  ‬ﷺ نے لعنت کی ہے اور کتاب ہللا میں بھی یہ بات ہے‪ ،‬عورت نے کہا‪ :‬میں نے سارا قرٓان پڑھا ہے لیکن یہ‬
‫ٓاپ نے فرمایا ‪ :‬اگر تو اسے (گہری نظر) سے پڑھ تی ت و ض رور اس میں یہ ب ات پ اتی۔ کی ا ت و نے یہ ٓایت تالوت‬
‫مسئلہ کہیں نظر نہیں ٓایا ۔ ؓ‬
‫نہیںکی‪ :‬اور ہللا کے رسول‪  ‬ﷺ جو(حکم )تمھیں دیں اس کو پکڑ لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاو۔‪  ‬اس نے کہا ‪:‬یہ ٓایت تو پڑھی‬
‫ہے‪ٓ،‬اپ نے فرمایا‪:‬تو اس کا م سے بھی ٓاپﷺ نے منع فرمایا ہے۔‬
‫ؓ‬
‫عود (م‪۳۲  ‬ھ) س ے یہی روایت بی ان کی ہے ‪ ،‬یہ الف اظ ہیں کہ اس ع ورت نے ابن ِ مس ؓ‬
‫عود‬ ‫ایک دوسری سند جس میں مسروق‪ ؒ  ‬نے ابن ِ مس ؓ‬
‫سے کہا‪:‬‬
‫‪ٔ ‬اشئی تجدہ فی کتاب ہّٰللا ٔام سمعتہ عن رسول ہّٰللا ﷺ؟ فقال‪ٔ :‬اجد فی کتاب ہّٰللا وعن رسول ہّٰللا ﷺ (‪)۲۳‬‬
‫حاالنکہ عورتوں کے بارے میں ابن ِ مسعود ؓ کی بیان کردہ اس تنبیہ اور ہدایت کا قرٓان میں کوئی ذکر نہیں ہے ‪ ،‬لیکن اس کے باوجود انہوں‬
‫کرام حدیث اور سنت ِ رسول ‪ ‬‬
‫ؓ‬ ‫نے حدیث ِ رسول‪  ‬ﷺ پر بھی کتاب ہللا کا اطالق کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی‪ ،‬کیونکہ صحابہ‬
‫قول‬
‫ﷺ کو حکم ِ ال ٰہی کا قولی اور عملی اظہار ہی سمجھتے تھے۔اس واقعے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ؓبسا اوقات ِ‬
‫فرمان رس ول‪  ‬ﷺ کے‬
‫ِ‬ ‫عمر نے‬
‫رسولﷺ کے لئے کتاب ہللا‪  ‬کا لفظ استعمال کرلیا کرتے تھے۔ الغرض زیر بحث روایت میں بھی حضرت ؓ‬
‫لئے اگرچہ کتاب ہللا کا لفظ استعمال کیا‪ ،‬اصالً وہ اس کو قرٓان کا جز نہیں سمجھتے تھے۔‬
‫‪        2- ‬کیا ٓایت ِ رضاعت قرٓان مجید کا حصّہ تھی ؟‬
‫عائشہ (م‪۵۷  ‬ھ)سے مروی ہے‪:‬‬
‫ؓ‬ ‫‪            ‬حضرت‬
‫ہّٰللا‬
‫بخمس معلومات ‪ ،‬فَتُ ُوفِّ َی‪  ‬رسو ُل ﷺ وھی فیما یقرٔا من القرٓان (‪)۲۴‬‬ ‫کان فیما ٔانزل من القرٓان‪ :‬عش ُر رضعات معلومات یُ َح ِّر ْمنَ ‪ ،‬ثم نُ ِس ْخنَ ‪:‬‬
‫ِ‬
‫قرٓان مجید میں پہلے یہ نازل ہوا تھا کہ دس چسکیوںسے حرمت الزم ٓاتی ہے پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا اس کے بعد پانچ چسکیوںس ے ح رمت‬
‫کا حکم ہوا اور رسول ہللا‪  ‬ﷺ کے وصال تک قرٓان مجید میں اسی طرح پڑھا جاتاتھا۔‬
‫اس روایت پر سب سے بڑا اعتراض یہی ہے کہ حض رت عائش ہ ؓ کے قولفَتُ ُوفِّ َی‪  ‬رس و ُل ہّٰللا ﷺ وھی فیم ا یق رٔا من الق رٓان س ے اس ٓایت کی‬
‫تالوت کے باقی رہنے کا مفہوم پیدا ہوتاہے‪ ،‬حاالنکہ موجودہ قرٓان میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز عقیدٔہ حفاظت ِ ق رٓان‬
‫کے خالف ہے اور تحری ف کے زم رے میں ٓاتی ہے ۔لیکن اگ ر اس روایت پ ر درج ذی ل پہل ؤوں س ے غ ور کی ا ج ائے ت و تم ام اش کال دور‬
‫ہوجاتے ہیں‪:‬‬
‫بر واح د ہے جبکہ ق رٓان کی ہ ر ٓایت‬
‫(‪   )۱‬اس روایت سے قرٓان مجید کی محفوظیت اور حقانیت پر کوئی حرف نہیں ٓاتا کی ونکہ یہ روایت خ ِ‬
‫خبر متواتر‪،‬توارث اور اجماع ِ امت کے ذریعے سے ہم تک پہنچی ہے ۔‬
‫ِ‬
‫نووی (م‪۶۷۶  ‬ھ )صحیح مسلم کی شرح میں اس کو ان ٓایات میں شمار کرتے ہیں جن کی تالوت منسوخ ہ و‬
‫ؒ‬ ‫(‪  )۲‬یہ ایک منسوخ ٓایت ہے۔امام‬
‫نووی فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫چکی ہے تاہم ان کے نزدیک اس کا حکم با قی ہے ‪،‬امام‬
‫والنسخ ثالثۃ انواع ‪ٔ،‬احدھا مانسخ حکمہ وتالوتہ کعشر رضعات والثانی مانسخت تالوتہ دون حکمہ کخمس رضعات ‪  ‬و کالشیخ والشیخہ اذا زنیا‬
‫فارجموا ھما والثالث مانسخ حکمہ و بقیت تالوتہ و ٰھذا ھو أالکثر (‪)۲۵‬‬
‫نسخ کی تین قسمیں ہیں‪ :‬پہلی یہ کہ کسی ٓایت کی تالوت اور حکم دونوں منسوخ ہوجائیں ‪ ،‬مثال ً‪  ‬عشرۃ رضعاتکا مس ئلہ ہے ۔دوس ری قس م یہ‬
‫ہے کہ اس کی صرف تالوت منسوخ ہو لیکن حکم باقی ہ و۔ ا س کی مث ال خمس رض عاتاور ٓایت ِ رجم ہے‪ ،‬اورتیس ری قس م یہ ہے کہ اس ک ا‬
‫حکم منسوخ ہوگیالیکن اس کی تالوت باقی رہ گئی اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔‬
‫اشعری کے ح والے س ے‬
‫ؓ‬ ‫سیوطی (م‪۹۱۱  ‬ھ ) کابھی اس روایت کے بارے یہی مٔوقف ہے چنانچہ وہ‪  ‬حضرت ابو موسی‬
‫ؒ‬ ‫‪  ‬عالمہ جالل الدین‬
‫لکھتے ہیں کہ یہ ٓایت منسوخ ہے ‪ ،‬انھوں نے اس روایت کا ذکر ان ٓای ات میں کی ا ہے جن کی تالوت اورحکم دون وں منس وخ ہ وچکے ہیں ۔(‬
‫‪)۲۶‬‬
‫‪  ‬تا ہم یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ اگر یہ منسوخ ٓایات میں سے ہے توحضرت عائشہ ؓ کے الفاظ فَتُ ُوفِّ َی‪  ‬رس و ُل ہّٰللا ﷺ و ھی فیم ا یق رٔا‬
‫نووی (م‪۶۷۶  ‬ھ ) ان الفاظ کی توجیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں‪: ‬‬ ‫ؒ‬ ‫من القرٓان کا کیا مطلب ہے؟امام‬
‫وقولھا‪ :‬فَتُ ُوفِّ َی‪  ‬رسو ُل ہّٰللا ﷺ َو ِھ َی فِ ْی َما یُ ْق َرُٔا ‪ ،‬من یقرٔا ؟ ومعناہ ٔان النسخ بخمس رضعات تٔاخر انزالہ جداً حتی ٔانہﷺ توفی و بعض الناس یقرٔا‬
‫خمس رضعات ویجعلھا قرٓانامتلواً لکونہ لم یبلغہ النسخ لقرب عہدہﷺ ‪ ،‬فلما بلغھم النسخ بعد ذال ک‪  ‬رجع وا عن ذال ک ؤاجمع وا علی ٔان ٰھ ذا ال‬
‫یتلی(‪)۲۷‬‬
‫حضرت عائشہ ؓ کا قول یہ ہے کہ رسول ہللا ﷺ وفات پاگئے اور یہ ٓایات قرٓان ک ریم میں تالوت کی ج ارہی تھیں ‪،‬ان ٓای ات ک و تالوت ک رنے‬
‫والے کون تھے؟یقرٔا جو مجہول کاصیغہ ہے واضح کرتاہے کہ خمس رضعات کے الفاظ کا نسخ ٓاپﷺ کے بالکل ٓاخ ری دور(یع نی عرض ٔہ‬
‫ٓاخیرہ کے وقت)‪  ‬میں ہوا۔ یہاں تک کہ رسول ہللا ﷺ وفات پاگئے اوربعض لوگ خمس رضعاتکی ٓایات پڑھتے اور انہیں قرٓان متلو سمجھتے‬
‫رہے‪ ،‬کیونکہ رسول ہللا ﷺ کے وفات پا ج انے کی وجہ س ے انہیں ان ٓای ات کی تالوت کے منس وخ ہ ونے ک ا علم نہیں ہوس کاتھا ‪،‬پھ ر جب‬
‫انہیں اس کا نسخ معلوم ہوا تو انہوں نے اس سے رجوع کرلیا اور اس کی تالوت کے منسوخ ہونے پر اجماع ہوگیا ۔‬
‫عالمہ جال ل الدین سیوطی ؒ (م‪۹۱۱  ‬ھ ) بھی حضرت عائشہ ؓ کے الفاظ کی یہی تاویل کرتے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیںکہ اس حدیث کو ش یخین‬
‫نے روایت کیاہے اور انہوں نے حضرت عائشہ ؓ کے قول وھی فیما یقرٔا من الق رٓان میں کالم کی اہے کی ونکہ اس ق ول کے ظ اہر س ے تالوت‬
‫کے باقی رہنے کا مفہوم پیدا ہوتاہے حاالنکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے یعنی اس کی قرٔات ختم ہوگئی تھیں اور حکم بھی باقی نہیں رہا‬
‫تھا ان الفاظ کی تاویل یوں کی گئی ہے کہ فَتُ ُوفِّ َی سے یہ مراد ہے کہ حضورﷺ کی وفات کا وقت قریب ٓاگیاتھا ۔یا یہ کہ تالوت منسوخ ہوگئی‬
‫تھی مگر تمام لوگوں کو یہ بات ٓاپ ﷺکی وفات کے بعد ہی معلوم ہوئی‪،‬اس لئے نادانستگی کی وجہ سے بعض ل وگ ان ٓای ات ک وٓاپ ﷺکی‬
‫وفات تک پڑھتے اور تالوت کرتے رہے۔(‪)۲۸‬‬
‫(‪  )۳‬اگرچہ مذکورہ باال توجیہ کے بعد اس روایت کے مفہوم میں کو ئی اش کال ب اقی نہیں رہت ا ت اہم یہ اں ای ک اور امک ان پ ر بھی غ ور کی‬
‫ضرورت ہے وہ یہ کہ حضرت عائشہ ؓ کا قول کہ‪ :‬رسول ہللا ﷺ کے وصال تک قرٓان مجید میں اسی طرح پڑھا جاتاتھ ا‪ ،‬یہ الف اظ کس ی بع د‬
‫مسلم نے زیر تبصرہ روایت کے بعد یحی بن سعید ؒ کی سند سے جو دوسری روایت ذکر کی ہے اس میںفَتُ ُوفِّ َی‬ ‫ؒ‬ ‫کے راوی کے ہیں کیونکہ امام‬
‫رسو ُل ہّٰللا کے الفاظ نہیں ہیں ‪ ،‬جس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ امام مسلم ؒ کی نظر میں یہ الفاظ راوی عبدہللا بن ابوبکر ؒ کا وہم ہیں۔‬
‫‪ ‬امام طحاوی ؒ (م‪۳۲۱  ‬ھ ) فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ عبدہللا بن‪  ‬ابوبکر ؒ کے عالوہ اور کسی بھی راوی س ے م روی نہیں ہیں اور اگ ر یہ الف اظ‬
‫قرٓان ہوتے تو یقینی طور پر اس کی تالوت نماز میں بھی کی جاتی حاالنکہ ایسا کبھی بھی نہیں ہ وا۔اور نہ ہی ق رٓان میں اس کی ک وئی ناس خ‬
‫ٓایت ہے کہ ہم اس کو منسوخ ٓایات میں شمار کریں ‪ ،‬اس لئے یہ س را س ر راوی ک ا وہم ہے۔ اس کے بع دامام طح اویؒ نے یہ روایت دو مختل ف‬
‫اسناد کے ساتھ نقل کی ہے ۔ پہلی روایت میں قاسم بن محمدؒ ‪،‬عمرہ بنت عبدالرحمن سے اور وہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ک رتی ہیں کہ ؓ‬
‫ٓاپ‬
‫نے فرمایا‪: ‬‬
‫کان مما نزل من القرٓان ثم سقط الیحرم من الرضاع اال عشر رضعات ‪ ،‬ثم نزل بعد ٔاوخمس رضعات (‪)۲۹‬‬
‫‪،‬عمرہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫‪            ‬اور دوسری سند میں یحی بن سعیدؒ‬
‫‪ٔ ‬انزل فی القرٓان عشر رضاعات معلومات ثم ٔانزل خمس رضاعات(‪)۳۰‬‬
‫یعنی ان دونوں روایات میں فَتُ ُوفِّ َی رسو ُل ہّٰللا کے الفاظ موجود نہیں‪ ،‬جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ الفاظ بعد کا اضافہ ہیں۔‬
‫(‪   )۴‬حضرت عائشہ ؓ کا وصال‪۵۷ ‬ھ میں ہواجبکہ قرٓان مجید کی سرکاری سطح پر ت دوین اور نش ر واش اعت ک ا باقاع دہ اہتم ام ان کے وال د‬
‫محترم اور خلیفۃ الرسول حضرت صدیق اکبر ؓ (م‪۱۳  ‬ھ) نے فرمایااور اس کے بعد حضرت عثمان غنی ؓ(م‪۳۵  ‬ھ) کے عہد ِ خالفت میں ایک‬
‫دوسرے پہلو سے قرٓان مجید کی تدوین کا کام ہوا ۔یہ کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ انھوں نے ان دونوں مواقع پر‪  ‬تدوین ِ قرٓان کمی ٹی‪  ‬ک و اس‬
‫ٓایت سے غافل ہی رکھا ہو؟دوسری روایات میں بھی ایسا ہوا ہے کہ راوی الفاظ کو پوری طرح ضبط نہ کر سکے ‪ ،‬تاہم دیگرروایات نے اس‬
‫غلطی کو صاف کر دیا ہے۔‬
‫عائشہ کے الفاظ ک و اگ ر ظ اہری مفہ وم پ ر‬
‫ؓ‬ ‫‪   )۵( ‬اس روایت پر اصول ِ درایت کی روشنی میں بھی غور کی ضرورت ہے کیونکہ حضرت‬
‫محمول کیا جائے تو اس حکم کا علم ان کے عالوہ دوسرے لوگوں کو بھی ہونا چاہیے تھا اور قرٓان مجید کا ایک اہم حکم ہونے کی وجہ سے‬
‫اس کی ش ہرت ع ام ہ ونی چ اہے تھی کی ونکہ ع رب میں بچ وں ک و عموم ا ً دایہ دودھ پالتی تھیں ۔اس اعتب ار س ے اس حکم ک و ع رب میں‬
‫خصوصی اہمیت حاصل ہونی چ اہیے تھی اور یہ ممکن نہ تھ ا کہ یہ ٓایت ص رف حض رت عائش ؓہ ت ک ہی مح دود رہ تی ۔ اگ ر ص حیح مس لم‬
‫میںکتاب الرضاعکی دوسری روایات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ کسی صحابی کو ایسی کسی ٓایت کی خ بر نہ تھی بلکہ اس ب اب‬
‫عائشہ کی روایات بھی موجود ہیں کہ انہوں نے رسول ہللا‪  ‬ﷺ سے سواالت کئے تھے کہ کتنی‬
‫ؓ‬ ‫میں دیگر صحابہ کے عالوہ خود حضرت‬
‫ب ار اور کت نی عم ر کی رض اعت س ے ح رمت ِ قطعی ث ابت ہوج اتی ہے ؟ المختص ر ٓایت ِرض اعت کے ح والے س ے منک رین ِ ح دیث اور‬
‫مستشرقین کا قرٓان کے متن کے غیر محفوظ ہونے کا استدالل درست نہیںہے۔‬
‫‪         3-‬کیا‪  ‬لوکان البن ٓادم وادیان۔۔۔۔۔الخ‪  ‬قرٓان کی ٓایت تھی؟‬
‫‪            ‬ابو حرب بن ابی االسودؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں‪: ‬‬
‫موسی أالشعری ؓ الی ق ّرٓاء ٔاھل البصرۃ ‪ ،‬فدخل الیہ ثالث مائۃ رجل قد قرء وا القرٓان ‪ ،‬فقال‪ٔ :‬انتم خیار ٔاہ ل البص رۃ وقُ رَّأُو ھُ ْم فَ ا ْتلُوْ ہ وال‬
‫ٰ‬ ‫بعث ٔابو‬
‫ُ‬
‫حفظت‬ ‫والش د ِۃ ب براء ۃ فَا ُ ْن ِس ْیتُھَاغیر ٔانی ق د‬
‫ّ‬ ‫یطولن علیکم االم ُد فَتَ ْق ُس َوقلوبکم کما قست قلوب من کان قبلکم وانّاکنّا نق رٔا س ورۃً نش بہھا فی الطّ ول‬
‫ّ‬
‫منہا‪ ’’:‬لوکان البن ٓادم وادیان من مال البتغی وادیا ً ثالثا ً والیمالء جوف ابن ٓادم اال التّراب‘‘ وکنّانقرٔا سورۃکنّا نُ ْشبِہُھَا باح دی المس بّحات فا ُ ْن ِس ْیتُھَا‬
‫حفظت منھا‪{ :‬یا ایّھا الذین ٰامنوا لم تقولون ماال تفعلون} فَتُ ْکتَبُ شھادۃ فی ٔاعناقکم لتسٔالون عنھا یوم القیامۃ (‪)۳۱‬‬ ‫ُ‬ ‫غیر انی قد‬
‫موسی اشعری ؓ نے بصرہ کے قاریوں کو بلوایا تو ان کے پاس تین سو ایسے لوگ ٓائے جو قرٓان مجید پڑھ چکے تھے ‪ ،‬حضرت‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ابو‬
‫موسی اشعری ؓ نے کہا‪:‬تم اہل ِ بصرہ میں سب سے بہتر ہواور اے قرٓان پڑھنے والو ! قرٓان پڑھتے رہو ‪،‬کہیں زیادہ مدت گزرجانے س ے‬
‫ٰ‬ ‫ابو‬
‫تمہارے دل سخت نہ ہو جائیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں کے دل سخت ہو گئے تھے‪،‬ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے ج و ط ول اور ش دت‬
‫میں سورہ توبہ کے برابر تھی مجھے وہ سورت بھال دی گئی البتہ اس کی اتنی بات یاد رہی ہے کہ ابن ِ ٓادم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوںت و‬
‫وہ تیسری کی خواہش کرے گا ۔ ابن ِ ٓادم کا پیٹ مٹی کے سوا کوئی اور چیز نہیں بھرتی ‪،‬اور ہم ایک اور س ورت بھی پڑھ ا ک رتے تھے ج و‬
‫مسبّحات میں سے کسی ایک سورت کے برابر تھی وہ بھی مجھے بھال دی گئی البتہ اس میں سے مجھے اتنا یاد ہے‪  :‬اے ایمان والو وہ ب ات‬
‫کیوں کہتے ہو جس کو خود نہیں کرتے تمہاری گردنوں میں شہادت لکھ لی جائے گی اور قیامت کے دن تم سے اس کے متعلق س وال پوچھ ا‬
‫جائے گا ۔‬
‫‪ ‬مصر کے معروف منکر ِ حدیث محمود ابو ریّہ (‪ )۳۲‬نے م ذکورہ ب اال روایت ک و اس وجہ س ے اپ نی تنقی د ک ا نش انہ بنای ا ہے کہ یہ روایت‬
‫حفاظت ِ قرٓان کے عقیدے سے متصادم ہے ۔اگر اس قسم کی روایات کا باریک بینی س ے ج ائزہ لی ا ج ائے ت و معل وم ہوت ا ہے کہ معترض ین‬
‫غورو فکر کی زحمت گوارا نہیں کرتے ورنہ اس روایت کو درج ذیل تاویالت کی موجودگی میں قرٓان مجید کی حقانیت کے خالف قرار دین ا‬
‫درست نہیں ۔‬
‫خبر واحد چونکہ ظنّی ہ وتی ہے ‪ ،‬اس ل ئے یہ روایت ق رٓان‬
‫(‪   )۱‬قرٓان مجید تواتر سے ثابت ہے اور اس قسم کی روایات اخبار ِ ٓاحاد ہیں اور ِ‬
‫مجید کی قطعیت کے منافی نہیں ہے ۔‬
‫مسلم نے صحیح مسلم کی ت دوین میں جن اص ولوں‬
‫ؒ‬ ‫اعلی درجے پر نہیں ہے۔امام‬
‫ٰ‬ ‫(‪  )۲‬یہ روایت خود امام مسلم ؒ کی نظر میں بھی صحت کے‬
‫کو پیش نظر رکھاہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ خود صحیح مسلم کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں‪: ‬‬
‫ؤانقی من ٔان یک ون ناقلوھ ا ٔاھ ل اس تقامۃ‪  ‬فی الح دیث ‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫فٔا ّما القسم‪  ‬االوّل‪ :‬فانّا نَتَ َو ٰ ّخی‪ٔ  ‬ان نق ّدم‪  ‬أالخب ا َر ال تی ھی ٔاس ل ُم‪  ‬من العی وب من غیرھ ا‬
‫واالتقان لِ َما نقلوا ‪ ،‬لم یوجد‪  ‬فی روایتھم اختالف شدید ‪ ،‬وال تخلیط فاحش ‪ ،‬کما قد ُعثِ َر فیہ علی کثیر من المح ّد ثین ‪ ،‬وبان ذالک فی حدیثھم ‪ ،‬فاذا‬
‫نحن تقصّینا ٔاخبار ٰھذا ال ّ‬
‫صنف من الناس ‪ٔ ،‬اتبعناھا ٔاخبارًا یقع فی ٔاسانید بعضُ من لیس بالموصوف بالحفظ واال تقان ‪،‬کالصنف المقدم قبلھم ‪ ،‬علی‬
‫ٔانّھم ‪ ،‬وان کانوا فیما وصفنا دونھم ‪ّ ،‬‬
‫فان اسم الستر والصدق وتعاطی العلم یشملھم‪)۳۳(  ‬‬
‫قسم ا ّو ل میں پہلے ہم ان احادیث کو بیان کریں گے جن کی اسانید دوسری اسانید کی نسبت عیب اور نقائص سے محف وظ ہیں ‪ ،‬جن کے راوی‬
‫معتبر‪،‬ثقہ اور قوی ح افظہ کے مال ک ہیں اور ان کی روای ات میں ش دید اختالف اور کث یر اختالط نہیں ہوت ا اور یہ ب ات ان کی روایت ک ردہ‬
‫احادیث سے پایٔہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے۔اس قسم کے لوگوں کی روایات بیان کرنے کے بعد ہم ان روایات کا ذکر کریں گے جن کی‪  ‬روایت‬
‫میں بعض راوی ایسے بھی ہوں گے جو قوت اور ثقاہت میں قسم ِ اوّل کے پایہ کے نہیں ہوں گے‪ ،‬اگ رچہ تق ٰ‬
‫وی ‪،‬پرہ یز گ اری‪ ،‬ص داقت اور‬
‫امانت میں ان کا مرتبہ کم نہیں ہوگا۔‬
‫مسلم نے اس باب میں پانچ روایات نقل کی ہیں اور چونکہ یہ روایت ان کی نظر میں سب س ے کم زور تھی اس‬
‫ؒ‬ ‫یہ بات قابل توجہ ہے کہ امام‬
‫لئے انھوں نے اپنے اصول کے مطابق اس روایت کو سب سے ٓاخر میں ذکر کیاہے۔یہ بذات خود بڑا واضح اشارہ ہے کہ امام مسلم ؒ کی نظ ر‬
‫میں یہ حدیث دوسری احادیث سے کمزور ہے ‪ ،‬اور انہوں نے اس روایت کو وہ مقام اور رفعت نہیں دی جو پہلی احادیث کو دی ہے ۔‬
‫(‪  )۳‬اس باب میں امام مسلم ؒ نے جو پانچ روایات نقل کی ہیں ان میں سے پہلی چار روایات میں’’لوک ان البن ٓادم وادی ان۔۔۔الخ‘‘ ک و ق رٓان کی‬
‫ک (م‪۹۲  ‬ھ)‬
‫ٓایات کے طور پر روایت نہیں کیا گیا ۔ اس باب کی پہلی تین روایات حضرت انس ؓ سے مروی ہیں ۔ ان میں حضرت انس بن مال ؓ‬
‫سے یہ الفاظ منقول ہیں‪:‬‬
‫سمعت رسول ہّٰللا ﷺ یقول‪:‬۔۔۔ ’’فال ٔادری ٔا شیء ٔانزل ٔام شیء کان یقولہ (‪)۳۴‬‬
‫میں نے رسول ہللا‪  ‬ﷺ سے سنا۔۔۔’’ اور مجھے یہ پتہ نہیں کہ ٓاپ ﷺ پر وہ بات نازل ہوئی تھی یا ٓاپ‪  ‬ﷺ از خود فرمارہے تھے ۔‘‘ (باقی‬
‫روایت حسب ِسابق ہے۔)‬
‫‪             ‬چوتھی روایت حضرت عبدہللا بن عباس ؓ (م‪۶۸  ‬ھ) سے مروی ہے وہ کہتے ہیں‪: ‬‬
‫عباس(‪)۳۵‬‬
‫ؓ‬ ‫زھیر قال ‪ :‬فال ٔادری ٔامن القرٓان‪ ،‬لم یذکر اب ِن‬
‫ؒ‬ ‫فال ٔادری ٔا من القرٓان ھو ٔام ال ‘‘وفی روایۃ‬
‫مجھے معلوم نہیں کہ یہ قرٓان سے ہے یا نہیں ہے۔زہیر ؒ کی روایت میں ہے کہ ابن ِ عب اس ؓ نے یہ الف اط نہیں کہے کہ مجھے معل وم نہیں کہ‬
‫یہ قرٓان سے ہے کہ نہیں ہے۔‬
‫(‪   )۴‬ایک اہم پہلو جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اگر صحابہ کرام ؓ کی دعوتی اور تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لیا ج ائے‬
‫تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے سامنے درس و تدریس کے دوران قرٓانی ٓایات کا مفہوم اور مطلب اپنے الفاظ میں بیان کیا ک رتے‬
‫تھے‪،‬اور ظاہر ہے کہ یہ مفہوم بھی عربی زبان ہی میں ہوا کرتاتھا‪ ،‬جس سے بعض لوگوں نے اس قسم کے تشریحی الفاظ کو بھی ق رٓان کی‬
‫موسی اش عری ؓ‬
‫ٰ‬ ‫طرف منسوب کردیا ۔زیر تبصرہ روایت میں بھی صورت ِ حال کچھ ایسی ہی نظر ٓاتی ہے کہ راویان ِ حدیث نے حضرت ابو‬
‫کے تشریحی الفاظ کو قرٓان سمجھ لیا ۔ایک دوسری روایت سے ہمارے اس مٔوقف کی تائید ہوتی ہے ۔ صحابی ٔ رسول ‪  ‬ﷺ حضرت اب ّی ؓ بن‬
‫ہّٰللا‬
‫کعب ک ا یہ واقعہ ہے کہ ٓا پ ؓ‪  ‬س ورۃ‪  ‬ال بینۃ‪  ‬س نا رہے تھے جب وہ‪َ {   ‬و َم ٓا اُ ِم رُوْ ا اِاَّل لِیَ ْعبُ ُدوْ َ ُم ْخلِ ِ‬
‫ص ْینَ لَہُ ال ِّد ْینَ حُ نَفَ ٓاَئ }ت ک پہنچے‬
‫ص ْینَ لَہُ ال ِّد ْینَ } کی تشریح کرنے لگے کہ ہللا کی مرضی اور خوشنودی حاصل کرنا بھی{ ال ِّد ْینَ }ہے اور م ذہب کی خ الص روح اور‬ ‫تو{ ُم ْخلِ ِ‬
‫منشا ہے‪ٓ ،‬اپ ؓنے اس موقع پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے‪:‬‬
‫ان الدین عندا ہّٰلل الحنیفیۃ غیر المشرکۃ وال الیہودیۃ وال النصرانیۃ‪ ،‬ومن یفعل خی ًرا فلن یکفرہ ‪ ،‬قال شعبۃ‪:‬ثم قرٔا ٓایات بع دھا ثم ق رٔا ‪ ’’    :‬ل و ٔان‬
‫البن ٓادم وادیین من مال ‪ ،‬لسٔال وادیا ً ثالثا ً ‪ ،‬والیمالء جوف ابن ٓادم اال التّراب‘‘ قال‪:‬ثم ختمھا بما بقی منھا۔(‪)۳۶‬‬
‫تعالی کے نزدیک وہی معتبر ہے جس میں راست روی اوریکسوئی ہو(یہ حنفاء‪   ‬کا مطلب ہے) نہ مشرکین کا مذہب نہ یہودیت اور نہ‬
‫ٰ‬ ‫دین ہللا‬
‫عیسائیت۔شعبہ ؒ کہتے ہیں‪ :‬اس کے بعد انھوں نے چند ٓایات پڑھیں اور پھر کہا‪ :‬اگر ابن ِ ٓادم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیس ری ک ا‬
‫ٓاپ نے اس س ورت کی ب اقی ٓای ات مکم ل‬
‫سوال کرے گا ‪ ،‬اور ابن ِ ٓادم کا پیٹ مٹی کے سوا کوئی اور چیز نہیں بھرتی ۔شعبہ ؒ کہتے ہیں‪:‬پھ ر ؓ‬
‫کیں‬

‫‪ANS 02‬‬
‫قرٓان کریم میں کسی بھی طرح کی تحریف و تغییر سے حفاظت کی ذمہ داری خود اس کے ن ازل ک رنے ہللا رب الع المین نے لے رکھی ہے‪،‬‬
‫رور زم انہ اور‬
‫ِ‬ ‫یہی وجہ ہے کہ ٓاج تک اس کتاب میں کسی طرح کا ح ذف و اض افہ نہیں ہ وا اور یہ ای ک ت اریخی حقیقت ہے کہ امت داد و م‬
‫دشمنان اسالم کی ریشہ دوانیوں کے باوجود قرٓان کریم میں معمولی سی کمی و بیشی نہیں کی جا سکی ہے اور تمام الہامی کت ابوں میں ق رٓان‬
‫ِ‬
‫کریم کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے۔ چناں چہ قرٓان کریم کے عالوہ دیگر ٓاسمانی کتابیں دست بر ِد زم انہ کی ش کار ہ وچکی ہیں مگ ر‬
‫قرٓان اپنی اصلی حالت میں باقی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں اور گوشوں میں پھیلے مختلف مطابع و پریس سے چھپے ہوئے ق رٓان ک ریم کے‬
‫چند نسخوں کا موازنہ کرلیا جائے پھر اس دعوے کی صحت و مضبوطی سمجھ میں ٓاجائے گی۔ رنگ و نسل‪ ،‬فک ر و نظ ر‪ ،‬م ذہب و مس لک‬
‫اور زبان و بیان کے باہمی فرق کے باوجود دنیا بھر میں پھیلے قرٓان کریم کے کسی بھی نسخے میں معمولی سی تبدیلی نہیں م ل س کتی ہے‬
‫بلکہ تمام نسخے الفاظ و حروف‪ ،‬حرکات و نقاط اور بیان و ترتیب میں یکساں و مساوی نظر ٓائیں گے۔‬
‫معوذتین بھی قرٓان کریم کا ایک حصہ ہیں‪ ،‬اس میں کچھ بھی شک و شبہ نہیں ہے۔ ان دونوں سورتوں کے قرٓان کریم کا ایک حصہ ہونے پ ر‬
‫تمام مسلمانوں کا اجماع و اتفاق ہے‪ ،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم نے خ ود نم ازوں میں اس کی تالوت فرم ائی ہے اور اپ نے اص حاب ک و‬
‫بھی اس کی تالوت کا حکم دیا ہے۔ جيسا کہ سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی ہللا عنہ کہتے ہیں ‪ :‬ایک سفر ِمیں َمیں رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ‬
‫و سلم کے اونٹ کی نکیل پکڑ کر چل رہا تھا تو آپ نے مجھ سے فرمایا‪ :‬کیا میں تمہیں پڑھی گئی دو بہترین س ورتیں نہ س کھاؤں ؟ پھ ر آپ‬
‫ق﴾ اور ﴿قُلۡ َأعُو ُذ بِ َربِّ ٱلنَّ ِ‬
‫اس﴾ سکھائیں۔ کہ تے ہیں ‪ :‬آپ نے مجھے ان دون وں س ورتوں کے‬ ‫صلی ہللا علیہ وسلم نے مجھے ﴿قُلۡ َأعُو ُذ بِ َربِّ ٱۡلفَلَ ِ‬
‫سیکھنے کی وجہ سے بہت زیادہ خوش نہیں دیکھا‪ ،‬پھر جب صبح کی نماز کے لیے اترے تو آپ نے اِنھیں دونوں سورتوں کے ساتھ لوگ وں‬
‫کو نماز پڑھائی۔ نماز سے جب فارغ ہوئے تو میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا‪ :‬اے عقبہ! تم نے کیسا پایا۔ [ابو داؤد کتاب الصالۃ ب اب فی‬
‫المعوذتين‪ ،‬رقم‪ ،۱۴۶۲ :‬نسأئی کتاب االستعاذۃ‪ ،‬رقم‪ ،۵۴۳۶ :‬مسند احمد رقم‪ ،۱۷۳۵۰ :‬صححہ االلبانی]‬
‫إن اس تطعْتَ أاَّل‬
‫ابن حبان کی روایت میں ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم نے سیدنا عقبہ بن عامر رضی ہللا عنہ سے یہ بھی فرمایا‪’’ :‬ف ِ‬
‫تَفوتَكَ قراءتهما في َ‬
‫صال ٍة فاف َعلْ ‘‘ ترجمہ‪’’ :‬اگر تم اپنی نماز میں ان سورتوں کو پڑھ نے کی ط اقت رکھ تے ہ و ت و ان کی تالوت چھوٹ نے نہ‬
‫پائے اور انھیں پڑھا کرو۔‘‘ [رواہ ابن حبان فی صحیحہ‪ ،‬ذکرہ الحافظ فی الفتح‪ ،۸/۷۴۲  ‬والمبارکفوری فی المرعاۃ ‪]۳/۱۵۹‬‬
‫از فج ر میں ان دون وں س ورتوں ک و پڑھ ا‬
‫نیز سیدنا معاذ بن جبل رضی ہللا عنہما سے بھی ثابت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم نے نم ِ‬
‫ہے۔ [حافظ ابن حجر اور محدث مبارکپوری نے اس حدیث کو سعید بن منصور کے حوالے سے بیان کی ا ہے۔ دیکھ ئے‪ :‬فتح الب اری ‪،۸/۷۴۳‬‬
‫مرعاۃ ‪]۳/۱۵۹‬‬
‫ك ٱۡلَأ ۡ‬
‫علَى﴾‪ ‬‬ ‫ِّح ٱس ۡ َم َربِّ َ‬
‫﴿س ب ِ‬
‫أم المؤمنين سیدتنا عائشہ رضی ہللا عنہا ک ا بی ان ہے کہ رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ و س لم وت ر کی پہلی رکعت میں ‪َ :‬‬
‫دوسری میں ﴿قُلۡ ٰيََٓأيُّهَا ٱۡل ٰ َكفِرُونَ ﴾‪  ‬اور تیسری میں ﴿قُلۡ هُ َو ٱهَّلل ُ َأ َح ٌد﴾ اور معوذتین پڑھتے تھے۔ [ابوداؤد کت اب الص الۃ ب اب تفری ع اب واب ال وتر‪،‬‬
‫رقم‪ ،۱۴۲۴ :‬ترمذی أبواب الوتر باب ما یقرأ فی الوتر‪ ،‬رقم‪ ،۴۶۳ :‬ابن ماجہ کتاب اق امۃ الص الۃ والس نۃ فیھ ا‪ ،‬رقم‪ ،۱۱۷۳ :‬مس ند احم د‪ ،‬رقم‪:‬‬
‫‪ ،۲۵۹۰۶‬صححہ االلبانی و حسنہ الحافظ زبیر علی زئی‪ ،‬أنوار الصحیفۃ ص‪]۴۱۹ ،۲۰۱ ،۵۷ :‬‬
‫اسی طرح ابو العالء رحمہ ہللا ایک صحابی رسول سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک سفر میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ و س لم کے س اتھ تھے‬
‫صلَّيتَ ‪ ‬فَاقرْأبهما‘‘ ترجمہ‪’’ :‬جب تم نماز پڑھو تو ان دونوں سورتوں کو‬
‫تو آپ نے انھیں معوذتین کو پڑھایا اور پھر ان سے فرمایا‪’’ :‬إ َذا‪ ‬أنتَ ‪َ  ‬‬
‫پڑھا کرو۔‘‘ [مسند احمد‪ ،‬رقم‪ ،۲۰۷۴۵ :‬صححہ الحافظ فی الفتح ‪]۸/۷۴۲‬‬
‫ب احادیث میں معوذتین کے فضائل و برکات سے متعلق بہتیری حدیثیں پائی جاتی ہیں جو معوذتین کی قرٓانیت پ ر داللت ک رتی‬
‫عالوہ ازیں کت ِ‬
‫ہیں۔‬
‫معوذتین اور سیدنا عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ‬
‫اوپر کی تفصیالت سے معلوم ہوا کہ معوذتین قرٓان کریم کا ایک حصہ ہیں لیکن کتب احادیث میں معوذتین کے متعلق سیدنا عبد ہللا بن مسعود‬
‫رضی ہللا عنہ سے کچھ ایسی روایتیں منقول ہیں جن کی بنیاد پر دشمنا ِن اسالم کو یہ شبہات ابھارنے ک ا موق ع م ل گی ا کہ مع اذ ہللا اس کت اب‬
‫میں بھی تحریف ہوئی ہے۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں سیدنا عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ سے منق ول روایت ک ا ج ائزہ لے‬
‫حابی رس ول‬
‫ت حال کی وضاحت ہو س کے اور یہ معل وم ہ و س کے کہ ص ٔ‬
‫کر اس سلسلے میں علماء کی توجیہات پیش کردی جائیں تاکہ حقیق ِ‬
‫کی جانب منسوب نظریے کی کیا حقیقت و حیثیت ہے؟‬
‫ِزر بن ُحبَیش کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا اُبی بن کعب رضی ہللا عنہ سے پوچھا ‪:‬‬
‫س‪7‬لَّ َم فَقَ‪77‬ا َل لِي‪’’ :‬قِي َل لِي‪ ،‬فَقَ ْلتُ ‘‘‪ .‬قَ‪77‬ا َل‪ :‬فَنَ ْحنُ‬
‫ص‪7‬لَّى هَّللا ُ َعلَ ْي‪ِ 7‬ه َو َ‬ ‫س ُعو ٍد‪ ،‬يَقُو ُل‪َ :‬ك َذا َو َك َذا‪ ،‬فقال‪ ‬أبي‪ :‬سألت َر ُ‬
‫سو َل هَّللا ِ َ‬ ‫’’يَا َأبَا ال ُم ْن ِذ ِر ِإنَّ َأ َخا َك ابْنَ َم ْ‬
‫سلَّ َم‘‘‬
‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َ‬ ‫نَقُو ُل َك َما قَا َل َر ُ‬
‫سو ُل هَّللا ِ َ‬
‫ترجمہ‪’’ :‬اے ابو منذر! ٓاپ کے بھائی ابن مسعود رضی ہللا عنہ ایس ا اور ایس ا کہ تے ہیں۔ ت و اُبی رض ی ہللا عنہ نے کہ ا‪ :‬میں نے رس ول ہللا‬
‫صلی ہللا علیہ و سلم سے پوچھا تھا تو ٓاپ نے مجھ سے فرمایا‪’’ :‬مجھ سے ایسا کہنے کے لیے کہا گیا اور میں نے کہ ا‘‘ اُبی رض ی ہللا عنہ‬
‫کہتے ہیں ‪  :‬ہم بھی ویسا ہی کہتے ہیں جیسا کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم نے فرمایا تھا۔‘‘ [بخاری کت اب التفس یر س ورۃ ق ل اع وذ ب رب‬
‫الناس‪ ،‬رقم‪]۴۹۷۷ :‬‬
‫یہاں اس روایت میں ابن مسعود رضی ہللا عنہ کے بارے میں مبہم بات کہی گئی ہے اور اس ب ات کی ص راحت نہیں ہے کہ وہ مع وذتین کے‬
‫متعلق کیا کہتے تھے۔ جب کہ دیگر روایتوں میں صراحت موج ود ہے۔ جیس ا کہ مس ند احم د وغ یرہ کی روایت وں میں اس ب ات کی ص راحت‬
‫موجود ہے کہ وہ معوذتین کو اپنے مصحف میں لکھتے نہیں تھے‪ ،‬نہ نماز میں اس کی تالوت کرتے تھے اور اپ نی مص حف س ے انھیں مٹ ا‬
‫دیتے تھے۔ ِزر بن حُبیش رحمہ ہللا کہتے ہیں ‪:‬‬
‫‪7‬رنِي َأنَّ ِج ْب ِري‪َ 7‬ل قَ‪77‬ا َل‬
‫س‪7‬لَّ َم َأ ْخبَ َ‬
‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َ‬
‫سو َل هَّللا ِ َ‬‫ش َه ُد َأنَّ َر ُ‬
‫ص َحفِ ِه‪ ،‬فَقَا َل‪َ :‬أ ْ‬
‫س ُعو ٍد َكانَ اَل يَ ْكت ُُب ا ْل ُم َع ِّو َذتَ ْي ِن فِي ُم ْ‬
‫ب‪ِ :‬إنَّ ابْنَ َم ْ‬ ‫’’قُ ْلتُ ُأِلبَ ِّي ْب ِن َك ْع ٍ‬
‫سلَّ َم‪‘‘.‬‬‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َ‬‫س}‪ ،‬فَقُ ْلتُ َها‘‘ فَنَ ْحنُ نَقُو ُل َما قَا َل النَّبِ ُّي َ‬ ‫ق}‪ 7،‬فَقُ ْلتُ َها‪ .‬فَقَا َل‪{ :‬قُ ْل َأعُو ُذ بِ َر ِّب النَّا ِ‬ ‫لَهُ‪{’’ :‬قُ ْل َأعُو ُذ بِ َر ِّب ا ْلفَلَ ِ‬
‫ترجمہ‪’’ :‬میں نے ابی بن کعب سے کہا کہ ابن مسعود‌رضی‌ہللا‌عنہ تو معوذ تین کو اپنے مصحف میں نہیں لکھ تے ہیں۔ ت و انھ وں نے کہ ا‪:‬‬
‫میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول ہللا صلی‌ہللا‌علیہ‌وآلہ‌وسلم نے مجھے یہ خبر دی کہ جبریل نے ٓاپ سے کہا‪﴿’’ :‬قُ لْ َأ ُع و ُذ بِ َربِّ ْالفَلَ ِ‬
‫ق﴾ت و میں‬
‫اس﴾ ت و میں نے بھی ویس ا ہی‪  ‬کہہ دی ا۔‘‘ س و ہم بھی اس ی ط رح کہ تے ہیں جس‬ ‫نے ویسا ہی کہہ دیا۔ اور جبریل نے کہا‪﴿ :‬قُلْ َأعُو ُذ بِ َربِّ النَّ ِ‬
‫طرح نبی‌صلی‌ہللا‌علیہ‌وآلہ‌وسلم نے فرمایا تھا۔‘‘ [مسند احمد رقم‪ ،۲۱۱۸۶ :‬سندہ صحیح]‬
‫ایک اور روایت میں ہے کہ زر بن حبیش نے سیدنا ابی بن کعب رضی ہللا عنہ سے کہا‪:‬‬
‫س‪7‬لَّ َم‪ ،‬فَقَ‪77‬ا َل‪’’ :‬قِي َل لِي فَقُ ْلتُ ‘‘‪.‬‬
‫ص‪7‬لَّى هَّللا ُ َعلَ ْي‪ِ 7‬ه َو َ‬ ‫سَأ ْلتُ َر ُ‬
‫س‪7‬و َل هَّللا ِ َ‬ ‫س ُعو ٍد؟ فَلَ ْم يُ ْن ِك ْر – قَا َل‪َ :‬‬
‫س ْفيَانَ ‪ :‬ابْنُ َم ْ‬ ‫ف – قِي َل لِ ُ‬ ‫ص َح ِ‬‫’’ِإنَّ َأ َخاكَ يَ ُح ُّك ُه َما ِمنَ ا ْل ُم ْ‬
‫سلَّ َم‪‘‘.‬‬
‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َ‬
‫سو ُل هَّللا ِ َ‬‫فَنَ ْحنُ نَقُو ُل َك َما قَا َل َر ُ‬
‫ترجمہ‪’’ :‬بیشک ٓاپ کے بھائی تو ان دونوں سورتوں کو مصحف سے کھرچ دیتے تھے۔ (سفیان سے پوچھا گیا‪ :‬بھائی س ے م راد ابن مس عود‬
‫ہیں ؟ تو انھوں نے اس کا انکار نہیں کیا۔) ابی رضی ہللا عنہ کہتے ہیں ‪ :‬میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم سے پوچھا تو ٓاپ نے فرمایا‪:‬‬
‫’’مجھ سے کہا گیا اور میں نے کہا۔‘‘ پس ہم بھی ویسا ہی کہتے ہیں جیسا رسول ہللا صلی ہللا علیہ و سلم نے فرمای ا تھ ا۔‘‘ [مس ند احم د رقم‪:‬‬
‫‪ ،۲۱۱۸۹‬سندہ صحیح]‬
‫امام بزار نے اپنی مسند میں علقمہ سے‪  ‬اس طرح نقل کیا ہے‪:‬‬
‫سلَّ َم َأنْ يُتَ َع ِّو ُذ بِ ِه َما‪َ ،‬و َكانَ عب ُد هللاِ لَ ْم يِ ْق َرْأ بِ ِه َما‘‘‬
‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َ‬ ‫ف‪َ ،‬ويَقُو ُل‪َ :‬أ َم َر َر ُ‬
‫سو ُل هَّللا ِ َ‬ ‫’’َأنَّه َكانَ یَ ُح ُّ‬
‫ک ا ْل ُم َع ِّو َذتَ ْی ِن ِمنْ ا ْل ُم ْ‬
‫ص َح ِ‬
‫ترجمہ‪’’ :‬وہ یعنی ابن مسعود رضی ہللا عنہ معوذتین کو ق رآن س ے مٹ ا دی تے تھے اور کہ تے تھے‪ :‬رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ و س لم نے ان‬
‫دونوں سورتوں کے ذریعہ پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے‪ ،‬اور عبد ہللا بن مس عود رض ی ہللا عنہ ان دون وں س ورتوں ک و نم از میں پڑھ تے نہیں‬
‫تھے۔‘‘ [مسند بزار ‪ ،۵/۲۹‬قال الھیثمی‪ :‬رواہ البزار و الطبرانی‪ ،‬و رجالھما ثقات‪ ،‬دیکھئے‪ :‬مجمع الزوائد ‪]۷/۱۴۹‬‬
‫عبد الرحمن بن یزید نخعی رحمہ ہللا کہتے ہیں‪:‬‬
‫ب هّللا ِ تَبَا َر َ‬
‫ک َوتَ َع ٰ‬
‫الی‪‘‘.‬‬ ‫ستَا ِمنْ ِکتَا ِ‬ ‫ک ا ْل ُم َع ِّو َذتَ ْی ِن ِمنْ َم َ‬
‫صا ِحفِ ِه َویَقُو ُل‪ِ :‬إنَّ ُه َما لَ ْی َ‬ ‫’’ َکانَ َع ْب ُد هللاِ یَ ُح ُّ‬
‫الی کی کت اب‬
‫ترجمہ‪’’ :‬سیدنا عبدہللا بن مسعود‌رضی‌ہللا‌عنہ اپنے مصحف سے معوذتین کو مٹا دیتے اور کہتے کہ یہ دونوں ہللا تبارک و تع ٰ‬
‫میں سے نہیں ہیں۔ ‘‘ [مسند احمد رقم‪ ،۲۱۱۸۸ :‬سندہ صحیح]‬
‫عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ کا نظریہ‬
‫سیدنا عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ کی طرف منسوب نظریہ سے متعلق ان روایات کا جواب علماء نے دو طرح سے دی ا ہے‪ ،‬کچھ لوگ وں‬
‫نے تو انھیں موضوع و منگھڑت اور جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے جب کہ دیگر علماء کی ایک جماعت نے اس ک و ص حیح تس لیم کی ا ہے اور‬
‫سیدنا ابن مسعود رضی ہللا عنہ کی طرف منسوب نظریئے کی توجیہ و تاویل کرتے ہوئے اس کا مدافعانہ جواب دی ا ہے۔ اور اس کی تفص یل‬
‫حسب ذیل ہے‪:‬‬
‫پہال موقف‪:‬‬
‫جن محدثین و علمائے امت نے سیدنا ابن مسعود رضی ہللا عنہ کی طرف منسوب نظریئے کی تک ذیب کی ہے ان میں س ے ام ام ن ووی رحمہ‬
‫ہللا کا کہنا ہے ‪:‬‬
‫’’وأجمع المسلمون على أن المعوذتين والفاتحة من القرآن‪ ،‬وأن من جحد منهما شيئا ً كفر‪ ،‬وم ا نق ل عن ابن مس عود في الفاتح ة والمع وذتين باط ل‬
‫ليس بصحيح عنه‘‘ ’’معوذتین اور فاتحہ کے قرآن ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے‪ ،‬ان دونوں میں سے کسی کا انکار کرن ا کف ر ہے اور ابن‬
‫مسعود رضی ہللا عنہ س ے ج و کچھ نق ل کی ا گی ا ہے وہ باط ل ہے ص حیح نہیں ہے۔‘‘ [المجم وع ش رح المھ ذب للن ووی‪ ،‬بح والہ فتح الب اری‬
‫‪]۸/۷۴۳‬‬
‫نیز شرح صحیح مسلم میں معوذتین کی فضیلت سے متعلق سیدنا عقبہ بن عامر رضی ہللا عنہ سے مروی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫إلی ابن مسعود خالف هذا‪ ،‬و فیه ٔان لفظة قل من القرآن ثابت‪77‬ة من ٔاول الس‪77‬ورتین‬
‫علی من نسب ٰ‬
‫علی کونهما من القرآن و رد ٰ‬
‫’’فيه دلیل واضح ٰ‬
‫علی هذا کله‘‘‬
‫بعد البسملة‪ ،‬وقد ٔاجمعت أالمة ٰ‬
‫’’اس میں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ معوذتین داخل قرٓان ہیں اور اس کے برخالف سیدنا ابن مس عود رض ی ہللا عنہ کی ط رف ج و ب ات‬
‫منسوب کی گئی ہے وہ مردود ہے۔ اور اس حدیث میں اس بات کی بھی دلیل پائی جاتی ہے کہ یہ دونوں سورتیں بسملہ کے بعد ابتداء ہی سے‬
‫لفظ ’’قل‘‘ سمیت داخ ِل قرٓان ہیں۔ امت کا ان تمام باتوں پر اجماع ہے۔‘‘ [المنھاج فی شرح صحیح مسلم ص‪]۵۴۱ :‬‬
‫المحلی میں لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫اسی بات کے قائل عالمہ ابن حزم رحمہ ہللا بھی ہیں‪ ،‬وہ‬
‫’’كل ما روي عن ابن مسعود أن المعوذتين وأم القرآن لم تكن في مصحفه فكذب موضوع ال يص ح‪ ،‬وإنم ا ص حت عن ه ق راءة عاص م عن زر بن‬
‫حبيش عن ابن مسعود‪ ،‬وفيها أم القرآن والمعوذتان‘‘ ’’معوذتین اور ام القرٓان سے متعلق جو کچھ سیدنا ابن مس عود رض ی ہللا عنہ س ے م روی‬
‫ہے کہ یہ ان کی مصحف میں نہیں تھا تو یہ جھوٹ پر مبنی موض وع ہے اور ص حیح نہیں ہے۔ ان س ے ص حیح ط ور پ ر زر بن ح بیش کے‬
‫[المحلی ‪]۱/۱۳‬‬
‫ٰ‬ ‫واسطہ سے عاصم کی قرات عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ سے ثابت ہے اور اس میں ام القرٓان اور معوذتین شامل ہیں ‘‘‬
‫عالمہ رازی رحمہ ہللا نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے‪ ،‬وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫’’األغلب على الظن أن هذا النقل عن ابن مسعود كذب باطل‘‘‬
‫’’غالب گمان یہ ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی ہللا عنہ سے یہ نقل جھوٹ اور باطل ہے۔‘‘ [فتح الباری ‪]۸/۷۴۳‬‬
‫صحیح بات ہے کہ معوذتین کے شام ِل قرٓان ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہو چکا ہے‪ ،‬یہ تواتر کے ساتھ ثابت ہے‪  ‬اور اب اس کا انک ار کرن ا‬
‫یا قرٓان کریم کے کسی بھی جزء کا انکار کرنا کفر ہے۔ لیکن ثابت شدہ روای ات پ ر کس ی دلی ل و اس تناد کے بغ یر رد کرن ا درس ت نہیں ہے۔‬
‫حافظ ابن حجر رحمہ ہللا وغیرہ نے اس قسم کی روایات کو صحیح قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ‪:‬‬
‫’’والطعن في الروايات الصحيحة بغير مستند ال يقبل‪ ،‬بل الرواية صحيحة والتأويل محتمل‪ ،‬واإلجماع الذي نقله إن أراد شموله لك‪77‬ل عص‪77‬ر فه‪77‬و‬
‫مخدوش‪ ،‬وإن أراد استقراره فهو مقبول‘‘‬
‫’’اور کسی استناد و دلیل کے بغیر صحیح روایات کے بارے میں طعن و تشنیع مقبول نہیں ہے بلکہ روایت ص حیح ہے اور اس میں تاوی ل و‬
‫توجیہ کی احتمال و گنجائش ہے۔ اور اجماع کی جو بات کہی گئی ہے اگر اس سے مراد یہ ہو کہ یہ اجماع تم ام دور ک و ش امل ہے تب ت و یہ‬
‫مخدوش ہے لیکن اگر اس سے مراد اجماع کا قرار پانا ہے تو یہ بات قابل قبول ہے۔‘‘ [فتح الباری ‪]۸/۷۴۳‬‬
‫دوسرا موقف‬
‫حافظ ابن حجر رحمہ ہللا سمیت دیگر بہتیرے اہ ِل علم نے سیدنا ابن مسعود رضی ہللا عنہ کی جانب منسوب روایت کی تاویل و ت وجیہ کی ہے‬
‫اور یہی راجح موقف بھی ہے کیوں کہ ثابت شدہ روایات پر بیجا طعن درست نہیں ہے اور پھر جب تاویل و توجیہ کی احتم ال و گنج ائش ہ و‬
‫تو‪  ‬اسی کو اپنانا زیادہ بہتر و درست معلوم ہوتا ہے۔ وہللا اعلم بالصواب‬
‫سیدنا عبد ہللا بن مس عود رض ی ہللا عنہ کی ج انب منس وب نظری ئے کی ای ک ت وجیہ یہ کی گ ئی ہے کہ س یدنا ابن مس عود رض ی ہللا عنہ ک و‬
‫معوذتین کے داخ ِل قرآن ہونے کا قطعی و صریح علم نہیں تھا اور وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ معوذتین کے قرآن کا ایک حصہ ہونے پر‬
‫صحابہ کرام کا اجماع و اتفاق ہو چکا ہے اور یہ کہ ان کے نزدیک معوذتین کی قرآنیت تواتر سے ث ابت ہ و چکی ہے‪ ،‬ل ٰہ ذا انھ وں نے وق تی‬
‫طور پر اس کی قرآنیت کا انکار کیا اور عارضی طور پر انھیں اپ نے مص حف میں نہیں رکھ ا‪ ،‬لیکن جب انھیں مع وذتین کے ق رآن ک ا ای ک‬
‫حصہ ہونے کا تواتر اور اس پر صحابہ کرام کے اتفاق کا علم ہوا تو انھوں نے اپنی بات سے رجوع کر لیا اور انھیں کالم ہللا ہونے کے ساتھ‬
‫داخل قرآن ہونا بھی تسلیم کر لیا‪ ،‬جیسا کہ زر کے واسطہ سے ابن مسعود رضی ہللا عنہ سے مروی عاصم کی وہ صحیح قرأت بھی اس‬
‫ِ‬ ‫ساتھ‬
‫بات پر داللت کرتی ہے جس میں معوذتین شام ِل قرآن ہیں۔ گویا یہ ان کا کمال احتیاط تھا کہ جب تک ان کے نزدیک مع وذتین ک ا داخ ِل ق رآن‬
‫کالم ٰالہی ہونے کے ُمقِ ر تھے‪ ،‬اور وہیں‬
‫ہونا ثابت نہیں تھا وہ انھیں مصحف میں لکھتے نہیں تھے جب کہ وہ معوذتین کے منزل ِمن ہللا اور ِ‬
‫داخل قرآن ہونے پر متفق تھے۔ لیکن اس توجیہ کو ماننے سے ایک اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن‬
‫ِ‬ ‫دیگر صحابہ کرام ان دونوں سورتوں کے‬
‫کا کچھ حصہ کسی دور میں متواتر نہیں تھا۔ اس کا جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ یہ صرف سیدنا ابن مس عود رض ی ہللا عنہ ت ک مح دود وق تی‬
‫عدم اتفاق سے تواتر ٹوٹتا نہیں ہے۔‬
‫بات ہے وگرنہ صحابہ کرام اس دور میں بھی اس کے تواتر پر متفق تھے اور محض کسی ایک فرد کے ِ‬
‫عالمہ ابن حجر رحمہ ہللا ابن الصباغ رحمہ ہللا کے حوالے سے اس پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’ابن الصباغ مانعی ِن زکاۃ پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ‪ :‬بے شک ابو بکر رضی ہللا عنہ نے مانعین ٰ‬
‫زکوۃ سے قتال کی ا لیکن یہ نہیں کہ ا‬
‫کہ ان لوگوں نے اس کی وجہ سے کفر کیا ہے بلکہ ان کی تکفیر نہیں کی کیونکہ ابھی اس بات پر اجماع قرار نہیں پائی تھی۔ وہ کہ تے ہیں ‪:‬‬
‫اور اب اس وقت ہم ٰ‬
‫زکوۃ کا انکار کرنے والے کو کافر کہیں گے۔ وہ کہتے ہیں ‪ :‬اسی طرح کی بات معوذتین کے متعلق ابن مسعود رضی ہللا‬
‫عنہ سے منقول رائے کے بارے میں بھی ہے کہ ان کے نزدیک اجماع کی بات ثابت نہیں ہوئی تھی اور پھ ر اس کے بع د لوگ وں ک ا اس پ ر‬
‫اتفاق ہو گیا۔‬
‫اور فخر الدين رازی نے یہاں ایک اشکال پیش کیا ہے‪ ،‬انھوں نے اس اشکال کو پیش کرتے ہوئے اس کا جواب بھی دیا ہے‪ ،‬کہتے ہیں ‪ :‬اگر‬
‫ہم یہ کہیں کہ ابن مسعود رضی ہللا عنہ کے دور میں ان دونوں سورتوں کا قرآن میں سے ہونا متواتر تھ ا ت و اس ک ا انک ار ک رنے وال وں کی‬
‫تکفیر الزم آئے گی۔ اور اگر یہ بات کہیں کہ ابن مسعود رضی ہللا عنہ کے دور میں ان دونوں سورتوں کا قرآن میں سے ہونا متواتر نہیں تھ ا‬
‫تو یہ بات الزم آئے گی کہ قرآن کا کچھ حصہ متواتر نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ‪ :‬اور یہ دشوار گتھی ہے۔ اور اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے‬
‫کہ ابن مسعود رضی ہللا عنہ کے دور میں بھی قرآن متواتر تھا لیکن ابن مسعود رضی ہللا عنہ کے نزدیک یہ بات درجہ تواتر کو نہیں پہنچی‬
‫تعالی کی مدد سے یہ عُقدہ حل ہو جاتا ہے۔‘‘ [فتح الباری ‪]۸/۷۴۳‬‬
‫ٰ‬ ‫تھی۔ اس طرح ہللا‬
‫چناں چہ صحابہ کرام رضی ہللا عنہم اجمعین میں سے کسی نے بھی اس بات میں سیدنا عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ کی پ یروی نہیں کی۔‬
‫جیسا کہ امام بزار رحمہ ہللا سیدنا عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ کے نظریہ سے متعلق اوپر م ذکور علقمہ کی روایت ذک ر ک رنے کے بع د‬
‫لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫’’و هذا الكالم لم يتابع عبد هللا عليه ذلك أحد من أصحاب النبي صلى هللا عليه وسلم‪ .‬وقد صح عن النبي صلى هللا عليه وس‪77‬لم أن‪77‬ه ق‪77‬رأ بهم‪77‬ا في‬
‫الصالة وأثبتتا في المصحف‘‘‬
‫ب نبی میں سے کسی نے نہیں کی۔ جب کہ نبی ص لی ہللا علیہ و‬
‫’’یہ ایسی بات ہے جس پر عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ کی پیروی اصحا ِ‬
‫سلم سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپ نے ان دونوں سورتوں کو نم از میں پڑھ ا ہے اور اس ے مص حف میں ث ابت و برق رار رکھ ا ہے۔‘‘‬
‫[مسند بزار ‪]٥/٢٩‬‬
‫محدث سفیان بن عیینہ رحمہ ہللا کہتے ہیں‪:‬‬
‫س َم ْعهُ يَ ْق َرُؤ ُه َما‬ ‫سنَ َوا ْل ُح َ‬
‫سيْنَ ‪َ ،‬ولَ ْم يَ ْ‬ ‫سلَّ َم يُ َع ِّو ُذ بِ ِه َما ا ْل َح َ‬
‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َ‬
‫سو َل هَّللا ِ َ‬‫س ُعو ٍد‪َ ،‬كانَ يَ َرى َر ُ‬ ‫ف ا ْب ِن َم ْ‬
‫ص َح ِ‬‫سا فِي ُم ْ‬ ‫’’يَ ُح ُّك ُه َما ا ْل ُم َع ِّو َذتَ ْي ِن‪َ ،‬ولَ ْي َ‬
‫ق ا ْلبَاقُونَ َك ْونَ ُه َما ِمنَ ا ْلقُ ْرآ ِن‪ ،‬فََأ ْو َدعُو ُه َما ِإيَّاهُ‘‘‬ ‫ص َّر َعلَى َ‬
‫ظنِّ ِه‪َ ،‬وت ََحقَّ َ‬ ‫صاَل تِ ِه‪ ،‬فَظَنَّ َأنَّ ُه َما عُو َذتَا ِن‪َ ،‬وَأ َ‬ ‫فِي ش َْي ٍء ِمنْ َ‬
‫’’ابن مسعود رضی ہللا عنہ معوذتین کو مٹا دیتے تھے اور یہ دونوں سورتیں ان کے مص حف میں نہیں تھیں‪  ،‬ان ک ا خی ال تھ ا کہ رس ول ہللا‬
‫صلی ہللا علیہ و سلم ان کے ذریعہ حسن اور حسین رضی ہللا عنہما پر دم کی ا ک رتے تھے‪ ،‬اور انھ وں نے ان دون وں س ورتوں ک و نم از میں‬
‫تالوت کرتے ہوئے نبی صلی ہللا علیہ و سلم سے نہیں سنا تھا‪ ،‬اس لیے ان کے خیال میں یہ دو تع ُّوذ تھیں‪ ،‬اور پھ ر وہ اپ نے اس ی خی ال پ ر‬
‫مصر رہے۔ اور باقی صحابہ کرام کی تحقیق کے مطابق یہ دونوں سورتیں قرٓان کا حصہ ہیں اس لیے انھوں نے ان دونوں سورتوں کو ق رٓان‬
‫میں رکھا۔‘‘ [مسند احمد‪ ،‬رقم‪]۲۱۱۸۹ :‬‬
‫اسی طرح رجوع کی بات اس لیے بھی درست معلوم ہوتی ہے کہ اگر انھوں نے اپنی اس ب ات پ ر اص رار کی ا ہوت ا اور اس ی پ ر جمے رہے‬
‫ہوتے تو ضرور صحابہ کرام ان سے بحث و مباحثہ کرتے‪ ،‬اور ان کے نظریئے کی غلطی ان پر واضح کرتے‪ ،‬ایسا ناممکن ہے کہ ص حابہ‬
‫کرام رضی ہللا عنہم قرٓان کریم سے متعلق ایک بڑے مسئلے میں خاموش بیٹھ رہتے۔ اور یہ معلوم بات ہے کہ اس سلسلے میں ص حابہ ک رام‬
‫سے اور کچھ بھی مروی نہیں ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سیدنا عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ نے اپنے موقف سے رج وع ک ر‬
‫لیا تھا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ ہللا کہتے ہیں ‪:‬‬
‫’’فلعله لم يسمعهما من النبي صلى هللا عليه وسلم ولم يت واتر عن ده‪ ،‬ثم لعل ه ق د رج ع عن قول ه ذل ك إلى الجماع ة‪ ،‬ف إن الص حابة رض ي هللا عنهم‬
‫أثبتوهما في المصاحف األئمة ونفذها إلى سائر اآلفاق كذلك‪ .‬و هلل الحمد و المنة‘‘‬
‫‪’’  ‬شاید انھوں نے نبی صلی ہللا علیہ و سلم سے ان دونوں سورتوں کو نہ سنا ہو اور ان کے نزدیک متواتر نہ ہوں‪ ،‬پھ ر ش اید اپ نے اس ق ول‬
‫احف ائمہ میں‬
‫ِ‬ ‫سے رجوع کر کے جماعت کے قول کی طرف پلٹ آئے ہوں‪ ،‬کیوں کہ صحابہ رضی ہللا عنہم نے ان دونوں سورتوں ک و مص‬
‫ثابت فرمایا جس کے نسخے چہار دانگ عالم میں پھیلے۔ اور ہر طرح کا حمد و شکر ہللا ہی کے لیے ہے۔‘‘ [تفسیر القرآن العظيم ‪]٤/٧٤٤‬‬
‫عالمہ ابوبکر باقالنی اور قاضی عیاض مالکی رحمہما ہللا وغیرہ نے سیدنا عبدہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ کے نظریہ کی توجیہ و تاوی ل اس‬
‫طرح کی ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی ہللا عنہ معوذتین کی قرآنیت کے انکاری نہیں تھے بلکہ انھ وں نے ان دون وں س ورتوں ک و مص حف‬
‫میں لکھنے سے انکار کیا ہے‪ ،‬گویا ان کا خیال یہ تھا کہ قرآن میں وہی چیزیں لکھی جائیں جن کے لکھنے کی اج ازت ن بی ص لی ہللا علیہ و‬
‫سلم نے دی ہے‪ ،‬اور شاید کہ ان دونوں سورتوں کو قرآن میں لکھنے والی بات ان ت ک نہیں پہنچی۔ یہ تاوی ل اس وقت درس ت ہ و س کتی ہے‬
‫ب هّٰللا ِ‘‘ کے لفظ ’’ ِکتَابُ هّٰللا ِ‘‘ سے مراد مصحف لی ا ج ائے۔ حاف ظ ابن حج ر رحمہ ہللا‬
‫جب روایات میں موجود اس جملے ’’ِإنَّهُ َما لَ ْی َستَا ِم ْن ِکتَا ِ‬
‫عالمہ باقالنی رحمہ ہللا وغیرہ کے اس تاویل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫"یہ اچھی توجیہ ہے مگر میری ذکر کردہ صحیح صریح روایت اس تاویل کو دفع کردی تی ہے جس میں ہے کہ وہ کہ تے تھے‪ِ’’ :‬إنَّهُ َم ا لَی َْس تَا‬
‫ب هّٰللا ِ‘‘ ’’یہ دونوں سورتیں کتاب ہللا میں سے نہیں ہیں۔ ‘‘ ہاں یہ ممکن ہے کہ لف ِظ ’’ ِکتَابُ هّٰللا ‘‘ کو مصحف پر محمول کی ا ج ائے ت و‬
‫ِم ْن ِکتَا ِ‬
‫یہ تاویل درست ہو سکتی ہے۔‘‘‬
‫ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ سیدنا عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ کے وہم گمان میں یہ بات نہیں تھی کہ مع وذتین ق رآن ک ا حص ہ نہیں‬
‫ہیں بلکہ وہ انھیں قرآن کا حصہ مانتے تھے اور لوگ وں میں ان س ورتوں کی ش ہرت کی وجہ س ے انھیں مص حف میں لکھن ا ض روری نہیں‬
‫سمجھتے تھے۔ عالمہ مازری رحمہ ہللا کہتے ہیں‪:‬‬
‫’’يحتمل ما روي من إسقاط المعوذتين من مصحف إبن مسعود انه اعتقد انه ال يلزمه كتب كل القرآن و كتب ما سواها و تركهما لشهرتهما عن ده و‬
‫عند الناس‪ .‬و هّٰللا ُ أعلم‘‘ ’’مصحف ابن مسعود میں معوذتین کے إسقاط کے بارے میں جو کچھ مروی ہے اس میں اس بات کا احتمال پای ا جات ا‬
‫ہے کہ ان کا یہ اعتقاد رہا ہو کہ تمام قرآن کا لکھنا ضروری نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے ان دون وں کے عالوہ دیگ ر س ورتوں ک و لکھ ا اور‬
‫خود اپنے نزدیک اور دوسروں کے نزدیک ان دونوں سورتوں کی شہرت کی وجہ س ے انھیں ت رک ک ر دی ا۔ و ہللا اعلم‘‘ [المنہ اج فی ش رح‬
‫صحیح مسلم للنووی ص‪]۵۴۶ :‬‬
‫اسی طرح عالمہ داؤد راز رحمہ ہللا صحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’جمہور صحابہ رضی ہللا عنہم اور تابعین سب کا یہ قول ہے کہ مع وذتین ق رآن میں داخ ل ہیں اور اس پ ر اجم اع ہ و گی ا اور ممکن ہے کہ‬
‫حض رت ابن مس عود رض ی ہللا عنہ ک ا یہ مطلب ہ و کہ گوی ا دون وں س ورتیں کالم ٰالہی ہیں مگ ر آنحض رت ص لی ہللا علیہ و س لم نے ان ک و‬
‫مصحف میں نہیں لکھوایا اس لیے مصحف میں لکھنا ضروری نہیں۔ ‘‘ [صحیح بخاری مع ترجمہ و شرح ‪]٦/٤٤٥‬‬
‫بفرض محال اگر ہم سیدنا عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ کے انکار کو تس لیم بھی ک ر لیں ت و اس س ے مع وذتین کی ق رآنیت پ ر‬
‫ِ‬ ‫عالوہ ازیں‬
‫کوئی فرق نہیں پڑتا ہے اور یہ بات قرآن کریم کے تواتر کے لیے ذرا بھی نقص ان دہ نہیں ہے۔ جب کہ خ ود رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ و س لم‬
‫ت اسالمیہ کا معوذتین کی قرآنیت پر اجماع و اتفاق ہو چکا‬
‫سے معوذتین کا قرآن ہونا صحیح روایات سے ثابت ہے اور تمام صحابہ کرام و ام ِ‬
‫ت قدر کے باوجود ان کا یہ نظریہ معوذتین کی قرآنیت اور‬
‫ہے۔ اس لیے سیدنا ابن مسعود رضی ہللا عنہ کی عظمت و فضیلت اور ان کی جالل ِ‬
‫ب مناہل العرفان لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫تواتر قرآن کے خالف حجت نہیں بن سکتا ہے۔ صاح ِ‬
‫ِ‬
‫’’اگر ہم یہ بات تسلیم کر لیں کہ ابن مسعود رضی ہللا عنہ نے معوذتین کا انکار کیا ہے‪ ،‬اور سورہ فاتحہ کا انکار کیا ہے بلکہ پورے قرآن کا‬
‫انکار کر دیا ہے تب بھی ان کا یہ انکار ہمارے لیے ضرر رساں نہیں ہے اس لیے کہ ان کا یہ انکار ق رآن کے ت واتر ک و ختم نہیں ک ر س کتا‬
‫ہے اور نہ تواتر سے حاصل ہونے والے علم قطعی کو مٹا سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ‪:‬‬
‫علم یقینی کے لیے یہ شرط ہو کہ ک وئی مخ الف اس کی مخ الفت نہ ک رے‪ ،‬وگ رنہ محض ہ ر کس ی ای رے غ یرے کی‬
‫تواتر اور اس پر مبنی ِ‬
‫علم یقینی کو باطل ق رار دین ا ممکن ہوگ ا۔ ابن ق تیبہ رحمہ ہللا ’’مش کل الق رآن‘‘‬
‫مخالفت سے تواتر کو گرانا اور اس سے حاصل ہونے والے ِ‬
‫میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ابن مسعود رضی ہللا عنہ کا خیال تھا کہ معوذتین قرآن کا حص ہ نہیں ہیں کی وں کہ انھ وں نے ن بی ص لی ہللا علیہ و س لم ک و دیکھ ا کہ آپ ان‬
‫دونوں سورتوں کے ذریعہ سیدنا حسن اور حسین رضی ہللا عنہما پر دم کرتے تھے اور انھوں نے اپنے اسی خیال پر یہ نظریہ قائم کی ا۔ ہم یہ‬
‫نہیں کہتے ہیں کہ وہ اپنے اس خیال میں درست تھے اور مہاجرین و انصار سے خطا ہوئی تھی۔‘‘ [مناہل العرفان ‪]۲۷۷ ،۱/۲۷۶‬‬
‫خالصٔہ بحث‪ ‬‬
‫مذکورہ تفصیالت سے سیدنا عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ کی طرف منسوب نظریہ کا بخوبی تصفیہ ہو جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر ق رآن‬
‫کریم یا معوذتین کے خالف کسی طرح کے اعترض اور غلط فہمی کی گنجائش بھی یکسر ختم ہو جاتی ہے‪ ،‬خواہ کسی بھی موقف ک و تس لیم‬
‫کیا جائے۔ اور ان تفصیالت کے مطابق یہ بات بھی واضح ہوکر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ قرآن کریم اور بالخصوص مع وذتین کے متعل ق‬
‫دشمنان اسالم کے شبہات و اعتراضات کی کوئی حقیقت و حیثیت نہیں ہے۔‬
‫ِ‬
‫آج قرآن کریم کا جو نسخہ ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ بعینہ ہللا رب العالمین کی نازل کردہ ہے‪ ،‬اس میں ذرہ براب ر بھی ہ یر پھ یر اور تحری ف‬
‫نہیں ہوئی ہے اور نہ اس کے اندر بعد کے ادوار میں کچھ کمی بیشی کی گئی ہے۔ اگر کس ی ک و اس ب ات پ ر اص رار ہے کہ ق رآن ک ریم کی‬
‫ٰ‬
‫دعوی ہے کہ قیامت کی صبح تک کوئی بھی ش خص اس جیس ا کالم پیش‬ ‫بعض ُس َور و آیات الحاقی ہیں تو وہ اس جیسا کالم پیش کرے؟ میرا‬
‫نہیں کر سکتا ہے کیوں کہ موجودہ قرآن کی تمام آیات اور سورتیں ہللا رب العزت کی نازل ک ردہ ہیں اور اس کت اب م بین میں داخ ل و ش امل‬
‫تعالی کا یہ چیلنج آج تک تشنہ جواب ہے اور تا قیامت تشنٔہ جواب رہے گا‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ہیں‪ ،‬اور ہللا‬
‫ض ظَ ِهي ًرا﴾ [بنی اسرائیل‪]۸۸ :‬‬ ‫س َوا ْل ِجنُّ َعلَ ٰى َأنْ يَْأتُوا ِب ِم ْث ِل ٰ َه َذا ا ْلقُ ْرآ ِن اَل يَْأتُونَ ِب ِم ْثلِ ِه َولَ ْو َكانَ بَ ْع ُ‬
‫ض ُه ْم لِبَ ْع ٍ‬ ‫ت اِإْل ْن ُ‬ ‫﴿قُ ْل لَِئ ِن ْ‬
‫اجتَ َم َع ِ‬
‫ترجمہ‪’’ :‬کہہ دو اگر تمام انسان اور جنات اکٹھا ہو جائیں اور اس قرآن کے جیسا بنا النا چاہیں تو وہ سب مل کر بھی اس جیسا نہیں ال سکتے‬
‫اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ بن جائیں۔ ‘‘‬
‫تعالی نے اپنے وعدے‪ِ﴿ :‬إنَّا نَحْ نُ نَ َّز ْلنَا ال ِّذ ْك َر َوِإنَّا لَهُ لَ َحافِظُونَ ﴾ [الحجر‪’’ ]٩ :‬بے شک ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو ات ارا ہے اور‬
‫ٰ‬ ‫چناں چہ ہللا‬
‫ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ ‘‘ کے مطابق قرآن کریم کی بھر پور حفاظت و نگہبانی فرمائی اور اسے ہر ط رح کی کمی و بیش ی س ے محف وظ‬
‫رز ج اں بن ائے ہ وئے ہے‬
‫ت واقعہ ہے کہ مسلمانوں کے آپسی مسلکی اختالفات کے باوجود ہر کوئی قرآن ک ریم ک و ح ِ‬
‫رکھا ہے۔ اور یہ حقیق ِ‬
‫تعالی کی مدد و توفیق سے ہو رہا ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫اور کسی نے بھی اس کے اندر ہیر پھیر کرنے کی جرأت نہیں کی ہے اور یہ سب کچھ ہللا‬
‫‪ANS 03‬‬
‫مستشرقین کا قرآن حکیم پر یہ ایک بڑا مشہور اعتراض ہے کہ قرآن حکیم میں ایسی آیات موجود ہیں جو باہم ایک دوس رے کے متض اد ہیں۔‬
‫لیکن مسلمان یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ یہ ب اہم متض اد نہیں بلکہ ان ک ا آپس میں تعل ق ناس خ منس وخ ک ا ہے۔مستش رقین کہ تے ہیں کہ‬
‫مسلمان اس طرح قرآن حکیم پر ہونے والے ایک بڑے اعتراض سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔بلکہ وہ یہاں تک بھی اپنے اس مفروضے‬
‫کو طول دینے سے باز نہیں آتے کہ تضادات سے بچنے کا یہ طریقہ خود حضور اکرم ﷺ نے وضع کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں آی ات‬
‫ٰ‬
‫دعوی کے ثبوت کے طور پر وہ قرآن حکیم کی اس آیہ ک ریمہ ک و پیش‬ ‫کو منسوخ کرنے یا ایک کو دوسری سے بدلنے کا ذکر ہے۔اپنے اس‬
‫کرتے ہیں ‪:‬۔‬
‫"جو آیت ہم منسوخ کر دیتے ہیں یا فراموش کرا دیتے ہیں تو التے ہیں (دوسری) بہتر اس سے یا(کم ازکم) اس جیسی"۔ سورۃ البقرہ آیہ ‪106‬‬
‫جارج سیل اپنے ترجمہ قرآن کے مقدمے میں لکھتا ہے کہ‪" :‬قرآن میں کچھ آیات ایسی ہیں جو باہم متضاد ہیں۔مسلمان علماء نس خ کے اص ول‬
‫کے ذریعے ان پر وارد ہ ونے والے اعتراض ات ک ا ت دارک ک رتے ہیں۔وہ کہ تے ہیں کہ ہللا عزوج ل نے ق رآن حکیم میں کچھ احک ام ص ادر‬
‫فرمائے جن کو بعد میں معقول وجوہات کی بناء پر منسوخ کر دیا گیا"‬
‫" صفحہ ‪"52The Koran‬‬
‫مستشرقین یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ نسخ کا لفظ نظر ثانی کے مترادف ہے۔اور حض رت محم د ﷺ ق ران میں نظرث انی و ت رمیم‬
‫کیا کرتے تھے۔اور قرآن کی ترتیب کو نئی شکل دیتے تھے۔مستشرقین کے ان تمام دعوؤں کی دلیل یہ ہے کہ قرآن اس بات کو بیان کرت ا ہے‬
‫کہ اس کی کچھ آیات دوسری آیات کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہیں۔اگر یہی حقیقت ہو تو پھر ق رآن ک وکالم ال ٰہی م اننے کی ک وئی گنج ائش ہی‬
‫نہیں رہتی۔ اگر اس نظریے کو قبول کر لیا جائے کہ حضور اکرم ﷺ قرآن میں ازخود ترمیم کر لیا ک رتے تھے ت و پھ ر ق رآن کے م نزل من‬
‫ہللا ہونے کے عقیدے کی ضرورت ہی کیا ہے؟جو قرآن میں ترمیم کر سکتا ہے وہ قرآن کو تص نیف بھی ک ر س کتا ہے۔مستش رقین الف اظ کے‬
‫ہیر پھیر سے اسی نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔‬
‫مستشرقین کا یہ دعوی بلکل غلط اور باطل ہے۔ قرآن حکیم نہ تو حضور اکرم ﷺ کو قرآن کا مصنف کہت ا ہے اور نہ ہی اس کی ت رتیب اور‬
‫نسخ کو حضور اکرم ﷺ کی طرف منسوب کرتا ہے۔قرآن حکیم ہللا عزوجل ہی کو اس کتاب کا نازل فرم انے واالق رار دیت ا ہے اور اس میں‬
‫نسخ کو بھی اسی ذات سے منسوب کرتا ہے۔نسخ کو حضور اکرم ﷺ کی طرف سے نظر ثانی قرار دینا نہ قرآن کا بی ان ہے اور نہ ہی کبھی‬
‫مسلمانوں نے اسے تسلیم کیا ہے۔مستشرقین اپنے مزعومات کو قرآن حکیم اور مسلمانوں کے سر تھ وپ ک ر اپ نی روای تی علمی ب ددیانتی ک ا‬
‫ثبوت دے رہے ہیں۔مسلمان ساڑھے چودہ سو سال سے ق رآن حکیم اور اح ادیث کی تش ریح اور ان س ے اس تنباط احک ام کے لی ئے نس خ کے‬
‫اصول کو استعمال کرتے آئے ہیں۔‬
‫یہ اسالمیات کی ایک مستقل اصطالح ہےجس کی اپنی مخصوص تعریف ہے اور اس کی کچھ ش رائط ہیں۔نس خ ک وئی ق انون چھ ری نہیں کہ‬
‫جس عقیدے کو چاہے باطل کر دےجس تاریخی بیان کو چاہے بدل دےجس ق انون ک و چ اہے کالع دم ق رار دے دےجس اخالقی ض ابطے ک و‬
‫چاہے ملیامیٹ کر دے۔ نہ اس کے لیئے زمانے کی پابندی ہو اور نہ مسئلے کی نوعیت اس قانون پر اثر انداز ہوتی ہو۔ بلکہ جس بات کو جب‬
‫خالف مصلحت سمجھا کالعدم قرار دے دیا۔ نسخ کے متعلق اس قسم کا کوئی بھی تصور درست نہیں۔یہ ایک ش رعی اص طالح ہے ج و اپ نے‬
‫دائرے اور پابندیوں کے اندر نافذ العمل ہوتی ہے۔جدیدیت پسندوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ق رآن میں جہ اں نس خ ک ا ذک ر ہے اس س ے‬
‫مراد یہ ہے کہ قرآن حکیم سابقہ شریعتوں کو منسوخ کرتا ہے‪،‬قرآن کی آیات کے ذریعے دوس ری آی ات منس وخ ک رنے ک ا ک وئی ذک ر نہیں ۔‬
‫لیکن ان کے موقف کی تائید نہ تو متعلقہ قرآنی آیات کے الفاظ کرتے ہیں اور نہ ہی ملت اس المیہ کی علمی ت اریخ ان کی تص دیق ک رتی ہے۔‬
‫نسخ کا قانون مسلمانوں کے ہاں مسلم ہے اس کا انکار کر کے ہم قرآن حکیم کی ک وئی خ دمت نہیں ک ر س کتے۔اور نہ ہی ہمیں اس ک ا انک ار‬
‫کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ضروری نہیں کہ جس بات میں مستشرقین کو نقص نظر آتا ہو وہ الزما َ ناقص ہی ہو۔ان کو تو اسالم کی کسی‬
‫بات میں کوئی بھی خوبی نظر نہیں آتی۔ان کی قلبی کیفیت کے بارے میں ہللا عزوجل ہمیں یوں آگاہ فرماتا ہے ‪:‬۔‬
‫"اور ہرگز خوش نہ ہوں گے آپ سے یہودی نہ عیسائی‪،‬یہاں تک کہ آپ پیروی کرنے لگیں ان کے دین کی" سورۃ البقرہ آیہ ‪120‬۔‬
‫ذیل میں ہم نسخ کا وہ مفہوم پیش کرتے ہیں جو حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی امت ک و س مجھایا اور ج و س اڑھے چ ودہ س و س ال س ے امت‬
‫مسلمہ میں مروج ہے۔‬
‫ت ال َری ُخ آثَ ا َر القَ د َِم اَی اَزَ لَتہُ۔ہ وا نے ق دموں کے‬
‫معنی زائل کرنا یا نقل کرنا ہے۔ جیسے کہ کہتے ہیں کہ " ن ََس خ ِ‬
‫ٰ‬ ‫نسخ کا مفہوم‪:‬۔ نسخ کا لغوی‬
‫آثار مٹا دیئے یعنی ان کا ازالہ کر دیا"‬
‫اسی طرح جب ایک کتاب کے مندرجات ک و دوس ری کت اب میں نق ل کی ا ج ائے ت و کہ تے ہیں" ن ََس ُ‬
‫خت ال ِکتَ َ‬
‫اب" اور اص طالح میں نس خ کی‬
‫مختصر تعریف یہ ہے کہ‪:‬‬
‫• " شارع کا ایک حکم شرعی کو کسی دوسری دلیل شرعی سے ساقط کر دینا"‬
‫نسخ کا تعلق ایک طرف شارع سے ہے اور دوسری طرف امت کت مکلفین سے۔مکلفین کی نسبت سے تو نس خ ک ا یہ یہی مفہ وم ب نے گ ا کہ‬
‫پہلے جو حکم موجود تھا اب وہ ساقط ہو گیا ہے اور اب اس کی جگہ ایک نیا حکم نافذ کر دیا گیا ہے ۔لیکن شارع کی نسبت اس میں رف ع ک ا‬
‫معنی موجود ہی نہیں بلکہ اس نسبت سے اس کا مفہوم یہ ہے کہ شارع نے سابق حکم کے نفاذ کی مدت کے ختم ہونے کا اعالن کر دیا ہے۔‬
‫تعالی کی نگاہ قدرت سے نہ حال پوشیدہ ہے نہ مستقبل۔ یہ بات اس کے المحدود علم میں ہے کہ کون سے حکم کی اف ادیت کس وقت ت ک‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫رہے گیاور کب اس کی جگہ دوسرا حکم مفید رہے گا۔ نسخ کے ذریعے ایک حکم کے خاتنے اور دوسرے حکم کے نف اذ ک ا ج و اعالن ہوت ا‬
‫ہے اس کا فیصلہ تو پہلے سے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔لیکن چونکہ بندوں کو اس کا علم نہیں ہوتا اس لیئے جب ناسخ آیت کا نزول ہوتا ہے ت و وہ‬
‫سمجھتے ہیں کہ پہلے حکم کو ساقط کر کے اس کی جگہ نیا حکم نافذ کر دیا گیا ہے۔ حاالنکہ شارع کے علم کے مطابق یہ تبدیلی پہلے حکم‬
‫کی مدت کے خاتمے اور دوسرے حکم کی مدت کے آغاز کا اعالن ہوتی ہے۔‬
‫یہاں بعض لوگ یہ وسوسہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر مان لیا جائے کہ قرآن کی بعض آیات دوسری آی ات کی ناس خ ہیں ت و اس‬
‫سے الزم آئے گا کہ پہال حکم نازل کرتے وقت معاذہللا ‪ ،‬ہللا عزوج ل ک و معل وم نہ تھ ا کہ یہ حکم مفی د ہےاور جب تج ربے کے ذریعے اس‬
‫کے غیر مفید ہونے کا علم ہوا تب دوسرا حکم نافذ کر دیا گیا۔‬
‫یہ محض وسوسہ ہے اس کا حقیقت سے کچھ تعلق نہیں ۔کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر مفید حکم ہر زمانے کے لیئے مفید ہ و۔بلکہ ح االت کے‬
‫بدلنے سے حکم کی افادیت بدلتی رہتی ہے۔طبیب مرض کا عالج مرحلہ وار کرتا ہےپہلے م رحلے پ ر وہ ج و دوا دیت ا ہے وہ اس ی م رحلے‬
‫کے لیئے مفید ہوتی ہےلیکن اسی عالج کو مستقل کر دینا نہ طبابت ہے اور نہ عقلمندی۔طبیب ہر م رحلے کے بع د عالج ک و تب دیل ک رے گ ا‬
‫اور یہی عقلمندی ہے۔اب اگر کوئی فلسفی مزاج مریض طبیب کی طرف سے نس خے کی تب دیلی پ ر یہ اع تراض ک ر دے کہ ڈاک ٹر ص احب!‬
‫پہلے آپ نے یہ عالج کیوں تجویز نہ کیا تھا کیا اس وقت آپ کو اس بات ک ا علم نہ تھ ا ج و اب آپ کے ن وٹس میں آئی ہے؟ ت و ایس ا م ریض‬
‫کسی طبیب کے عالج سے صحتیاب کیسے ہو گا؟یہ مثال محض وضاحت کے لیئے ہے اس مثال سے یہ حقیقت منکشف ہو چکی کہ نسخ ک ا‬
‫مطلب یہ نہیں کہ شارع نے پہلے غلط حکم دے دیااور جب اس کی غلطی کا پتا چال تو اس کو دوسرے حکم سے ب دل دی ا۔بلکہ اس ک ا مطلب‬
‫یہ ہے کہ ایک حکم جب تک مفید تھا نافذالعمل رہا جب اس کی افادیت ختم ہو گئی تو اس کو دوسرے حکم سے بدل دیا‬
‫نسخ کا اصول نہ نظری معامالت اور عقائد میں الگو ہوتا ہے اور نہ خبر میں ۔نسخ کا یہ مطلب نہیں کہ اس الم پہلے ای ک عقی دے ک ا پرچ ار‬
‫کرے اور پھر اس کی جگہ دوسر اعقیدہ پیش کر کے کہے کہ پہال عقی دہ منس وخ ہ و گی ا ہے۔اور نہ ہی نس خ ک ا یہ مطلب ہے کہ پہلے ق رآن‬
‫ایک حقیقت یا خبر کو بیان کرے اور اور پھر اس کو منسوخ قرار دے دے۔بلکہ نسخ کا قاعدہ صرف عملی احکام میں الگو ہوتا ہے مگر چند‬
‫شرائط کے ساتھ۔۔۔!‬
‫نسخ کی اس وضاحت سے مندرجہ ذیل احکام نسخ کے دائرہ کار سے خارج ہو جائیں گے‪:‬۔‬
‫شریعت کے احکام کلیہ اور اصول عامہ جیسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ‬
‫ایسے احکام جن کے مشروع نہ ہونے کا احتمال ہی نہیں۔ جیسے وہ اصلی احک ام جن ک ا تعل ق عقائ د س ے ہے مثالَ ہللا پ ر ایم ان‪ ،‬فرش توں ‪،‬‬
‫کتابوں‪ ،‬رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان‪ ،‬ایسے احکام جو نیکی اور فض یلت کی بنی اد ہیں جیس ے ع دل‪ ،‬ص داقت‪،‬ام انت‪،‬وال دین س ے حس ن‬
‫سلوک‪ ،‬ایفائے عہد اور اسی قسم کے دیگر فضائل۔‬
‫ایسے احکام جن کی مشروعیت ک ا س رے س ے احتم ال ہی نہیں جیس ے کف ر اور دیگ ر اص لی رزائ ل مثالَ ظلم‪ ،‬جھ وٹ‪ ،‬خی انت‪ ،‬وال دین کی‬
‫نافرمانی‪ ،‬دھوکہ دہی وغیرہ کیونکہ یہ ایسی چیزیں جن کی قباحت بدل نہیں سکتی‬
‫ایسے احکام جن کے ساتھ کوئی ایسی چیز ملحق ہو جو نسخ کے منافی ہ ومثالَ اس حکم کے س اتھ یہ وض احت بھی ہ و کہ یہ حکم تااب د ہے ۔‬
‫اس کی مثال حضور اکرم ﷺ کی ازدواج مطہرات سے نکاح کی حرمت کا مسئلہ ہے۔‬
‫اجہُ ِمن بَع ِد ِہ اَبَ دا‪------‬‬ ‫جیسے کہ ق رآن حکیم نے واض ح الف اظ میں فرم ا دی ا ہے کہ ‪:‬۔ َو َم ا َک انَ لَ ُکم اَن تُ و ُذوا َر ُس و َل ہَّللا ِ َوال اَن تَن ِک ُح وا اَ َ‬
‫زو َ‬
‫االحزاب‪53:‬‬
‫اور تمہیں زیب نہیں دیت ا کہ تم رس ول ہللا ﷺ ک و اذیت پہنچ اؤ۔ اور تمہیں اس ب ات کی بھی اج ازت نہیں کہ ان کی ازدواج س ے ان کے بع د‬
‫کبھی بھی نکاح کرو۔‬
‫اس آیہ کریمہ میں لفظ ابدا کے ساتھ اس بات کی صراحت کر دی گئی ہے کہ ازدواج رسول ہللا ﷺ سے نکاح ابدی ط ور پ ر ح رام ہے ۔ اس‬
‫حکم کو ابدی قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حکم ابدی طور پر مفید ہے۔ کیونکہ اگر اس حکم میں نسخ کا امکان ہو ت و یہ اس ب ات کے‬
‫منافی ہو گا کہ یہ حکم ابدی طور پر مفید ہو ۔دوسرے قس م کے احک ام وہ ہیں کہ جن کے اب دی ہ ونے کی ص ریح نص ت و موج ود نہیں مگ ر‬
‫قرائن اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ جیسے کہ ایسے احکام جن کا نسخ حض ور اک رم ﷺ کی حی ات ظ اہری میں ث ابت نہیں ۔ ایس ے احک ام بھی‬
‫ابدی ہیں اور نسخ کو قبول نہیں کرتے کیونکہ نسخ کے لیئے قول رسول ہللا ﷺ ضروری ہےاور حضور اک رم ﷺ کے بع د ک وئی ن بی نہیں‬
‫کیونکہ آپ ﷺ خاتم االنبیاء و المرسلین ہیں ۔ اس طرح وہ احکام بھی نسخ کو قبول نہیں کرتے جن کا وقت متعین کر دی ا گی ا ہ و۔کی ونکہ ایس ا‬
‫حکم وقت گزرنے کے ساتھ خودبخود ساقط ہو جاتا ہے اور اس کو ختم کرنے کے لیئے کسی دوسرے حکم کی ضرورت نہیں پڑتی۔‬
‫نسخ کی شرائط‪:‬۔‬
‫نسخ کے مؤثر ہونے کی چند شرائط ہیں جو درج ذیل ہیں‪:‬۔‬
‫منسوخ ہونے واال حکم شریعت کا ایسا جزئی اور عملی حکم ہو جو قرآن و سنت سے ثابت ہو اور اس حکم کے س اتھ نہ ت و اب دیت کی ش رط‬
‫ہواور نہ ہی اس کی مدت متعین ہواور ساتھ ہی منسوخ کے لیئے ضروری ہے کہ وہ ناسخ سے مقدم ہو۔‬
‫ناسخ قرآن کی آیت یا حضور اکرم ﷺ کی قولی یا فعلی سنت ہو جو منسوخ سے متاخر ہو‬
‫نسخ کی صورتیں ‪:‬۔‬
‫نسخ کی کئی صورتیں ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے‪:‬۔‬
‫کبھی ایک حکم منسوخ ہوتا ہے اور اس کی جگہ دوسرا حکم نازل نہیں ہوتا جیسے کہ پہلے حضور اک رم ﷺ کے س اتھ گفتگ و ک رنے س ے‬
‫پہلے صدقہ کرنا الزم تھابعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا حکم نازل نہیں ہوا۔‬
‫کبھی ایک حکم کو منسوخ کر کے اس کی جگہ دوسرا ایسا حکم نازل کیا جاتا ہے جو جو تاکید اور شدت کے حس اب س ے منس وخ حکم کے‬
‫برابر ہوتا ہے جیسے بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو قبلہ بنانے کا حکم‬
‫کبھی ایک سخت حکم کو منسوخ کر کے اس کی جگہ ایک آسان حکم نافذ کر دیا جات ا ہے جیس ے کہ پہلے یہ حکم تھ ا کہ ای ک مس لمان دس‬
‫مشرکوں کے مقابل صبر کا مظاہرہ کرے بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیااور اس کے بدلے ایک آسان حکم نازل ہو گیا کہ ایک مسلمان صرف‬
‫دو مشرکوں کے مقابل صبر کا مظاہرہ کرے۔‬
‫کبھی آسان حکم کو منسوخ کر کے اس کی جگہ سخت حکم نافذ کر دیا جات ا ہے جیس ے کہ پہلے حکم تھ ا کہ کف ار کی اذیت وں پ ر ص بر کی ا‬
‫جائےبعد میں اس حکم کو منسوخ کر کے ان سے جہاد و قتال کا حکم نازل کیا گیا۔ اسی طرح پہلے صرف ی وم عاش ورہ ک ا روزہ ف رض تھ ا‬
‫بعد میں اس فرضیت کو منسوخ کر کے پورے رمضان المبارک کے روزے فرض قرار دے دیئے گئے۔‬
‫کبھی قاعدہ نسخ کے ذریعے ممانعت کے حکم کو اباحت میں تبدیل کر دیا جاتا ہے جیسے کہ پہلے رمضان المب ارک کے مہی نے میں بع د از‬
‫عشاء اور سونے سے قبل مباشرت کی ممانعت تھی پھر اس حکم کو اس آیہ کریمہ کے ذریعے منسوخ کر دیا گیا‪:‬۔ "حالل کر دیا گیا تمہارے‬
‫لیئے رمضان کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا" سورۃ البقرہ آیہ ‪187‬‬
‫کبھی نسخ صراحتا َ ہوتا ہے اور کبھی ضمنا َ۔ پہلی صورت میں ناسخ حکم کی صراحت کر دی جاتی ہےکہ یہ حکم پہلے حکم کو منس وخ ک ر‬
‫رہا ہےجیسے کہ پہلے قرآن حکیم نے حکم دیا‪:‬۔‬
‫" اے نبی ﷺ برانگیختہ کیجیئے مومنوں کو جہاد پر۔ اگر ہوں تم میں سے بیس آدمی صبر کرنے والے تو وہ غ الب آئیں گے دو س و پ راور‬
‫اگر ہوئے تم میں سے سو آدمی تو وہ غالب آئیں گے ہزار پر۔ کیونکہ یہ کافر وہ لوگ ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے" سورۃ االنفال‪65:‬‬
‫بعد میں اس آیہ کریمہ کے حکم کو دوسری آیہ کریمہ کے حکم سے منسوخ کر دیا گیا۔ ارشاد خداوندی ہوا کہ ‪:‬۔‬
‫" اب تخفیف کر دی ہے ہللا نے تم پر اور وہ جانتا ہے کہ تم میں کمزوری ہے۔ تو اگر ہوئے تم میں س ے س و آدمی ص بر ک رنے والےت و وہ‬
‫غالب آئیں گے دو سو پراور اگر ہوئے تم میں ہزار آدمی تو وہ غالب آئیں گے دو ہزار پرہللا کےحکم س ے ۔ اور ہللا ص بر ک رنے وال وں کے‬
‫ساتھ ہے " سورۃ االنفال ‪66 :‬‬
‫دووسری آیہ میں جو کہ ناسخ ہے الئنَ خفف ہللا عنکم کے الفاظ صراحت کر رہے ہیں کہ پہال حکم منسوخ ہو گیا ہے‬
‫دوسری صورت میں شارع نسخ کی صراحت تو نہیں کرتا مگر ضمنا َ نسخ کا پتا چل جاتا ہے۔ اس کی س ورت یہ ہے کہ مت اخر نص ک ا حکم‬
‫مقدم نص کے حکم کے متضاد ہو۔ دونوں میں نہ تو تطبیق ممکن ہو اور نہ ہی ایک کو دوسری پر ترجیح دی ج ا س کتی ہ و۔اس ص ورت میں‬
‫پتا چل جائے گاکہ دوسری نص پہلی نص کی ناسخ ہے۔‬
‫نسخ کا اصول شریعت محمدیہ ﷺ سے خاص نہیں ‪:‬۔ مستشرقین نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ نسخ کا اصول مسلمانوں کی اخ تراع‬
‫ہے اور پیغمبر اسالم ﷺ نے تضادات قرآن کو جواز ف راہم ک رنے کے لی ئے یہ ط ریقہ اختی ار کی ا تھ الیکن یہ مستش رقین کی روای تی علمی‬
‫بددیانتی ہے وہ ایک ایسی چیز کے ذریعے اسالم کو موردالزام ٹھہرانے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں جو ان کے ہاں بھی مروج العمل ہے۔‬
‫جس کی چند ایک مثالیں درج ذیل ہیں ‪:‬۔‬
‫‪1‬۔ بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت نوح علیہ السالم کی شریعت میں تمام سبزیوں اور تمام جانوروں کا کھانا حالل تھ ا۔کت اب پی دائش ب اب‬
‫نمبر ‪ 9‬آیہ نمبر ‪ 3‬میں حضرت نوح علیہ السالم سے کہا جا رہا ہے کہ "سبزیوں کی طرح تم ام ح رکت ک رنے والے ج انور ج و زن دہ ہیں وہ‬
‫تمہاری خوراک بن سکتے ہیں میں تمہیں وہ سب عطا فرماتا ہوں "‬
‫لیکن شریعت موسویہ میں اکثر جانوروں کو حرام قرار دے دیا گیا۔کتاب االحبار کے باب نمبر ‪ 11‬میں ان جانوروں کی تفصیل بی ان کی گ ئی‬
‫ہے جو حضرت موسی علیہ السالم کے پیروکاروں کے لیئے حرام ہیں ۔ حضرت نوح علیہ اسالم کی شریعت میں تمام ج انور حالل تھے اور‬
‫حضرت موسی علیہ اسالم کی شریعت میں اکثر کی حرمت کا اعالن کر دیا گیا یہ نسخ نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟‬
‫‪ 2‬۔ شریعت موسویہ میں مرد کو کسی بھی سبب سے اپنی بیوی کو طالق دینے کا اختیار تھا ۔ اور مطلقہ عورت کے ساتھ کوئی بھی نکاح ک ر‬
‫سکتا تھا جیسا کی کتاب استثناء کے باب چوبیس کی پہلی اور دوسری آیت میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ مگ ر ش ریعت عیس وی‬
‫میں بدکاری کی علت کے عالوہ کسی وجہ سے بھی مرد کو طالق دینے کی اجازت نہیں اور نہ ہی مطلقہ کے ساتھ کس ی دوس رے م رد ک و‬
‫شادی کی اجازت ہے۔متی کی انجیل کے پانچویں باب کی آیت نمبر ‪ 31‬اور ‪ 32‬کے الفاظ وض احت ک ر رہے ہیں کہ اب پہال حکم منس وخ ہ و‬
‫گیا ہے۔‬
‫‪3‬۔ کتاب پیدائش کے باب نمبر ‪ 17‬کی آیت نمبر ‪14‬میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السالم کی شریعت میں خت نے ک ا اب دی حکم تھ ا ۔ یہ حکم‬
‫حضرت اسماعیل و اسحاق علیہ السالم کی نسلوں میں مروج رہا۔شریعت موسوی میں بھی ختنے کا حکم تھا۔لوقا کی انجیل کے دوس رے ب اب‬
‫کی آیت نمبر ‪ 21‬کے مطابق حضرت عیسی علیہ السالم کا بھی ختنہ ہوا۔ یہ حکم حضرت عیسی علیہ السالم کے رفع آسمانی تک جاری رہ ا۔‬
‫گو حضرت عیسی علیہ السالم کی شریعت میں اس حکم کو منسوخ نہیں کیا گیا۔لیکن حضرت عیس ی علیہ الس الم کے بع د جن "مقدس ین" نے‬
‫آپ کی شریعت کو بازیچہ اطفال بنائے رکھا انہوں نے اس ابدی حکم کو منسوخ کر دیا۔مسلمانوں کے نزدی ک گ و کہ کس ی ن بی کے بع د اس‬
‫کے حکم کو منسوخ قرار دے دینا ناممکن ہے مگر ج و عیس ائی ان "مقدس ین" کی وض ع ک ردہ ش ریعت پ ر کاربن د ہیں و ہ اس ک و نس خ کے‬
‫عالوہ کیا نام دیں گے ؟‬
‫‪4‬۔ ذبیحہ کے احکام شریعت موسویہ میں بے شمار تھے جو شریعت عیسوی میں منسوخ ہو گئے۔‬
‫‪5‬۔ شریعت موسویہ کے بے شمار احکام شریعت عیسویہ میں منسوخ ہو گ ئے ۔ چن انچہ حض رت عیس ی علیہ الس الم کے بع د س ینٹ پ ال اور‬
‫دوسرے "مقدسین" نے تورات کے اکثر احکامات کو کالعدم قرار دے دیا۔عبرانیوں کے نام پولس کے خط کے س اتویں ب اب کی آیت نم بر ‪18‬‬
‫میں درج ذیل الفاظ موجود ہیں ‪":‬یقینا َ سابقہ احکام کو ان کی کمزوری اور ان کے بے اثر ہونے کے سبب سے منسوخ کیا جاتا ہے "‬
‫عبرانیوں کے نام خط کے آٹھویں باب میں بنو اسرائیل کے ساتھ خدا کے قدیم عہد کے بدلے ایک جدید عہد کا ذکر ہےاس باب کی ٰآ ت نمبر ‪7‬‬
‫میں ہے کہ ‪ " :‬اگر پہال عہد بےعیب ہوتا تو نئے عہد کی گنجائش نہ ہوتی"‬
‫اسی باب کی آیت نمبر ‪ 13‬کے الفاظ یہ ہیں کہ ‪" :‬نئے عہد کا لفظ استعمال ک ر کے اس نے پ رانے عہ د ک و منس وخ ک ر دی ا ہے۔ اب جس ک و‬
‫منسوخ قرار دے دیا گیا ہے اور جو پرانا ہو رہا ہے وہ مٹ جانے کے قریب ہے "‬
‫عبرانیوں کے نام خط کے ساتویں باب کی آیت نمبر ‪ 12‬میں سینٹ پال نے ای ک ایس ا اص ول وض ع ک ر دی ا ہے جس کے بع د عیس ائیوں کے‬
‫لیئے نسخ کو قبول نہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بچتی۔سینٹ پال کہتا ہے کہ ‪:‬۔‬
‫"جب امامت تبدیل ہو رہی ہو تو ضروری ہو جاتا ہے کہ شریعت بھی تبدیل ہو"۔‬
‫مندرجہ باال مثالوں سے یہ حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتے ہیں کہ"۔‬
‫دوسری شریعتوں کے بعض احکام کو منسوخ کرنا شریعت اسالمیہ ہی کا خاصہ نہیں بلکہ سابقہ شریعتوں میں بھی یہ اصول مروج رہا ہے۔‬
‫تورات کے عملی احکام خواہ وہ ابدی تھے یا غیر ابدی شریعت عیسوی میں منسوخ ہو گئے۔‬
‫تورات کے احکام کے متعلق نسخ کا لفظ عیسائی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔‬
‫سینٹ پال نے وضاحت کی ہے کہ امامت تبدیل ہونے سے قانون تبدیل ہونا ضروری ہے۔‬
‫سینٹ پال کا دعوی ہے کہ قدیم شئے فنا کے قریب ہوتی ہے ۔‬
‫مندرجہ باال حقائق کے ہوتے ہوئے یہودی اور عیسائی اسالم پر یہ الزام کیسے لگا سکتے ہیں کہ مسلمانوں نے قرآن حکیم کے تض ادات ک و‬
‫رفع کرنے کے لیئے نسخ کا اصول وضع کیا ہے ۔۔۔۔؟‬
‫گزشتہ سطور میں ایک شریعت کے احکام کو دوسری شریعت کے احکام سے منسوخ کرنے کے دالئل دیئے گئے ۔ اب ہم ایک ش ریعت کے‬
‫احکام کو اسی شریعت کے دوسرے احکام سے منسوخ کرنے کی مثالیں پیش کرتے ہیں ‪:‬۔‬
‫الی نے پہلے اب راہیم علیہ اس الم ک و حکم دی ا کہ اپ نے بی ٹے‬
‫‪1‬۔ کتاب پیدائش کے بائیسویں باب میں اس بات کی تفصیل موج ود ہے کہ ہللا تع ٰ‬
‫اسحاق علیہ السالم کو قربان کریں لیکن جب انہوں نے حکم کی تعمیل کا ارادہ کر لیا تو انہیں ہللا کی طرف سے یہ حکم مال کہ وہ اپنے بیٹے‬
‫کو قربان نہ کریں ۔‬
‫یہاں اگر پہال حکم دوسرے حکم سے منسوخ نہیں تو اور کیا ہے ۔۔۔۔۔؟‬
‫تعالی نے وع دہ کی ا تھ ا کہ ام امت ک ا منص ب ب ڑے پ ادری کے خان دان میں ہمیش ہ رہے‬
‫ٰ‬ ‫‪2‬۔ صموئل اول کے دوسرے باب میں ہے کہ " ہللا‬
‫گا"لیکن بعد میں ہللا نے اس فیصلہ کو بدل دیا۔ مذکورہ باب کی آیت نمبر ‪ 30‬کے الفاظ یہ ہیں کہ ‪" :‬خدائے اسرائیل کا فرم ان یہ ہے کہ ‪ :‬میں‬
‫نے تمہارے اور تمہارے اسالف کے گھرانے سے یہ کہا تھا کہ تم ہمیش ہ م یرے آگے آگے چال ک رو گے لیکن اب خ دا ک ا فرم ان یہ ہے کہ‬
‫جہاں تک میرا تعلق ہے یہ بات ناقابل تصور ہے کیونکہ جو میری تسبیح کرتے ہیں میں ان کا احترام کرتا ہ وں اور ج و م یری ت وہین ک رتے‬
‫ہیں ان کی میرے نزدیک کوئی حثیت نہیں"‬
‫اسی باب کی آیت نمبر ‪ 35‬میں ہے ک ہ‪:‬‬
‫"میں یقینا َ اپنے لیئے ایک وفادار پادری پیدا کروں گا جو وہی کرے گا جو میرے دل اور روح کے مطابق ہو گا"‬
‫کتاب صموئیل اول کی ان آیات سے واضح ہے کہ ہللا نے پہلے بڑے پادری کے خاندان ک و منص ب ام امت تااب د عط ا فرم انے ک ا وع دہ کی ا‬
‫الی‬
‫تھالیکن بعد میں اس فیصلے کو بدل دیا اور منصب امامت دوسروں کو تفویض کر دیا۔بائیبل کے مفسرین کہ تے ہیں کہ" یہ منص ب ہللا تع ٰ‬
‫نے حضرت ہارون علیہ السالم کے بڑے بیٹے "عازار" کو ہمیشہ کے لیئے عطا فرمایا تھالیکن بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گی ا" اظہ ار الح ق‬
‫جلد‪ 1‬صفحہ ‪532‬‬
‫یہاں عیسائی تو خدا کے ابدی وعدے پر بھی نسخ کا اصول الگو کر رہے ہیں جو کہ مسلمانوں کے نزدیک ن اممکن العم ل ہے۔وع دہ ک ر کے‬
‫پورا نہ کیا جائے تو یہ نسخ نہیں وعدہ خالفی کہالتا ہے اور مسلمان ہللا عزوجل کی ذات کو ان تمام عیوب سے مبرا مانتے ہیں ۔‬
‫‪3‬۔ کتاب االحبار کے سترھویں باب میں ہے کہ بنو اسرائیل کا جو شخص ک وئی ج انور ذبح ک رے وہ اپ نی قرب انی ک و خ دا کے حض ور پیش‬
‫کرنے کے لیئے خیمہ عبادت کے دروازے تک الئےجو ایسا نہ کرے وہ قابل گردن زدنی ہے ۔لیکن کتاب اس تثناء کے ب ارہویں ب اب میں ہے‬
‫کہ جب جی چاہے اور جہاں جی چاہے جو جانور چاہو ذبح کرو اور کھاؤ۔‬
‫ان آیات کی تفسیر میں بائیبل کا ایک بہت بڑا مفسر ھورن لکھتا ہے کہ ‪:‬۔ ان دونوں مقامات میں بظاہر تناقض نظر آتا ہے لیکن اگر غور سے‬
‫دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ شریعت موسویہ میں بنی اسرائیل کے حاالت کے مطابق کمی بیشی ہوتی رہ تی تھی۔اور ش ریعت موس ی ایس ی‬
‫نہ تھی کہ اس میں بوقت ضرورت تبدیلی نہ کی جا سکے۔‬
‫اس کے بعد مفسر مذکور لکھتا ہے کہ ‪ :‬حضرت موسی علیہ السالم نے اپنی ہجرت کے چالیسویں س ال فلس طین میں داخ ل ہ ونے س ے پہلے‬
‫اس حکم کو منسوخ کر دیا۔‬
‫مفسر مذکور نے یہاں نسخ کو بھی تسلیم کیا ہے اور حاالت کے مطابق شریعت میں کمی بیشی کو بھی ۔ لیکن مقام حیرت یہ ہے کہ اسی نسخ‬
‫ٰ‬
‫نصاری اسالم پر ایک بہت بڑے اعتراض کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔‬ ‫کو یہود و‬
‫‪4‬۔ کتاب گنتی کے چوتھے باب کی مختلف آیات میں خیمہ عبادت کے خادمین کی عمریں تیس اور پچاس سال کے درمیان مقرر کی گ ئی ہیں۔‬
‫جبکہ اسی کتاب کے آٹھویں باب کی آیات چوبیس اور پچیس میں خدام کی عمروں کی حد پچیس سے پچاس سال متعین کی گئی ہے۔ اب ظاہر‬
‫ہے کہ ان میں سے ایک حکم منسوخ ہے اور دوسرا ناسخ۔‬
‫‪5‬۔ کتاب االحبار کے چوتھے باب میں جماعت کی غلطی کا فدیہ صرف ایک بیل کی قربانی قرار دیا گی ا ہے لیکن کت اب گن تی کے پن درہویں‬
‫باب میں جماعت کی غلطی کا کفارہ ایک بی ل کے عالوہ غلے‪ ،‬مش روبات اور بک ری کے ای ک بچے کی قرب انی ک و ق رار دی ا گی ا ہے۔گوی ا‬
‫دوسرے حکم نے پہلے حکم کومنسوخ کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔!‬
‫ان دونوں اقسام کی مثالوں سے یہ بات بلکل واضح ہے کہ نسخ کا ق انون ہ ر ش ریعت میں رائج رہ ا ہے۔اور عہ د ن امہ ق دیم و جدی د میں کچھ‬
‫مثالیں ایسی بھی موجود ہیں جو نسخ سے بھی کچھ زائد ہیں۔‬
‫تعالی حکیم ہے اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔زمانہ کے ب دلنے کے س اتھ س اتھ انس انی ض رورتیں اور تقاض ے بھی ب دلتے‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫رہتے ہیں۔کسی حالت میں کوئی ایک حکم مفید ہوتا ہے تو دوسری حالت میں وہی حکم مضر بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔ای ک حکم ای ک زم انے‬
‫میں قابل عمل ہوتا ہے اور دوسرے زمانے میں نہیں ۔کسی زمانے کے لوگ کسی حکم کے تقاض وں ک و س مجھنے اور اس ے بج ا النے کے‬
‫قابل ہوتے ہیں جبکہ دوسرے زمانے کے لوگ نہ تو اس کے تقاضوں کو سمجھ پاتے ہیں اور نہ ہی اس حکم کو پ ورا ک رنے کے اہ ل ہ وتے‬
‫ہیں۔لہذا دانائی کا تقاضا یہی تھا کہ ہر زمانے کے حاالت کے مطابق احکامات نازل کیئے جاتے۔‬
‫الغرض ابو جہل سے لیکر کر سلمان رشدی لعین تک‪ ،‬مکہ کے کفار ومشرکین سے لے ک ر ی ورپ کے مستش رقین ت ک س ب دش من اس ک و‬
‫نقصان پہنچانے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ لیکن اس دین متین کا جھنڈا نت نئی بلندیوں پر لہراتا نظر آتا ہے۔‬
‫یہ ہللا عزوجل کی قدرت اور دین اسالم کی صداقت کی منہ بولتی نشانی ہے۔کاش کہ دشمنان اسالم اس سے عبرت حاصل کریں ۔‬
‫‪ANS 04‬‬
‫قرآن کریم معجزہ ہے جو آخری نبی محمد عربی … پر جستہ جستہ‪ ۲۳ ‬سالوں میں نازل ہوا‪ ،‬معجزہ کی شان ہی یہ ہوتی ہے کہ انس انی بس‬
‫‪ِ  ‬‬
‫اور قدرت سے باہر ہو‪ ،‬لہٰذا قرآن کی مثیل ونظیر بھی انسانی قدرت وطاقت سے ماوراء ہے۔‬
‫‪                 ‬نیز یہ ایسا معجزہ ہے جو رہتی دنیا تک کی خلقت کو اپنے النے والے کی صداقت کا یقین کراتا رہے گا‪،‬نتیجتا ً ل وگ ٴ‬
‫حلقہ اس الم‬
‫سے روز افزوں وابستہ ہوتے رہیں گے‪ ،‬رسول ہللا … نے ایک حدیث میں اسی حقیقت کا انکشاف کیاہے۔‬
‫‪                ‬ما من االنبیاء نبي اال أعطي ما مثلہ آمن علیہ البشر‪ ،‬وانما کان الذي أوتیت وحیً ا أوح اہ ہّٰللا الي‪ ،‬وأرج و أن أک ون أک ثرہم تاب ًع ا ی وم‬
‫القیامة(‪)۱‬‬
‫‪(                 ‬ہر نبی کو ایسا معجزہ دیاگیا جس کا مشاہدہ کرکے انسانیت ایمان التی رہی‪ ،‬مجھے ہللا پاک نے ایسا معجزہ وحی کی ش کل میں‬
‫روز قیامت میرے متبعین زیادہ ہوں گے)‬
‫ِ‬ ‫دیا ہے (اس میں غور وفکر کرکے قیامت تک لوگ ایمان التے رہیں گے) مجھے امید ہے کہ‬
‫ت انسانی سے منہ موڑنے والوں نے تکذیب کو اپنا وط یرہ بنای ااور اس معج زئہ ق رآن س ے متعل ق‬
‫‪                ‬لیکن دین کے باغی اور فطر ِ‬
‫کالم ٰالہی کی حق انیت‬
‫مختلف قیاس آرائیاں کرنے لگے‪ ،‬تو قرآن نے مرحلہ وار تین قسطوں میں ان سے چیلنج کیااور مط البہ کی ا کہ اگ راس ِ‬
‫میں تمہیں شک ہے تو اس جیساقرآن‪ ،‬نہیں تو دس سورتیں‪ ،‬یا پھر ایک چھوٹی یا بڑی سورت ہی بناالؤ‪ ،‬ہم تمہاری بکواسوں کو تسلیم ک رلیں‬
‫گے‪ ،‬لیکن بلند وبانگ ڈینگیں ہانکنے والے ششدر رہ گئے‪ ،‬انھوں نے اپنی غیرت نیالم کردی‪ ،‬بہو بیٹیاں دشمنوں کے حوالے کردیں‪ ،‬گردنیں‬
‫کٹوائیں‪ ،‬حملے بھی کیے اور حملے کا ج واب بھی دی ا‪ ،‬س ب کچھ گ وارہ لیکن یہ نہ ہوس کا کہ ص رف ای ک آیت ہی بن اڈالتے‪ ،‬روز روز ک ا‬
‫جھگڑا منٹوں اور سکنڈوں میں مٹ جاتا‪ ،‬قرآن اپنے نزول سے لے کر ہنوز چیلنج کررہاہے لیکن کوئی اس ک ا معارض ہ ومق ابلہ ک رنے واال‬
‫آج تک پیدا نہ ہوسکا جو اپنے مقابلے سے اس کی اعتباریت میں فرق پیدا کرسکے۔‬
‫‪                ‬بہرحال قرآن معجزہ ہے جس کا مقابلہ محال ہے‪ ،‬لیکن وجہ اعجاز کیاہے‪ ،‬صاحب مناہل العرفان کل چوبیس وج وہ‪ :‬بعض وج و ِہ‬
‫صحیحہ اور بعض وجو ِہ معلومہ ذکر کرتے ہیں(‪)۲‬‬
‫‪                ‬لیکن اکثر اہل علم حضرات کی رائے ہے کہ قرآن پاک اپنی فصاحت وبالغت یا بزبان دیگر ”حسن بیان“ میں معجزہ ہے‪ ،‬عالمہ‬
‫خطابی فرماتے ہیں‪:‬‬
‫‪                ‬ذہب األکثرون من علماء النظر الی أن وجہ االعجاز فیہ من جہة البالغة(‪)۳‬‬
‫‪(                ‬اکثر اہل فکر ودانش علماء کی رائے ہے کہ وجہ اعجاز بالغت کی جہت سے ہے)‬
‫‪                ‬قریب قریب یہی بات اکثر علماء کے کالم میں پائی جاتی ہے‪ ،‬نیز منطقی لح اظ س ے ق ری ِن قی اس بھی ہے‪ ،‬کی وں کہ یہ کالم جن‬
‫عربوں میں نازل ہوا وہ ہر علم و فن سے بے بہرہ تھے لیکن فصاحت وبالغت میں اوج کمال پر پہنچے ہوئے تھے۔ گویا کہ شعر و شاعری‪،‬‬
‫زبان وادب‪ ،‬اور تعبیر وبیان ان کے گھر کی لون ڈی ہیں۔ اس ل یے ان س ے کچھ ع ذر نہ ہوس کا کہ ہم ت و اس فن ک و ج انتے ہی نہیں‪ ،‬ج اننے‬
‫والوں کو چیلنج کرو‪ ،‬احمد حسن الزیات رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫‪                ‬من قائل أنہ الفصاحة الرائعة المذہب الواضح واألسلوب الموثق ونحن الی ہذا الرأی أمیل؛ فان القوم الذین تحدوا بہ لم یکونوا فالس فة‬
‫وال فقہاء حتی یکون عجزہم عن االتیان بمثلہ معج زة‪ ،‬انم ا ک انوا بلغ اء مص ادع وخطب اء مص اقع وش عراء فح والً‪ ،‬وفي الق رآن من دق ة التش بیہ‬
‫صر․(‪)۴‬‬
‫والح َ‬
‫َ‬ ‫والتمثیل وبالغة االجمال والتفصیل وروعة األسلوب وقوة الحجاج ما یعجز طوق البشر ویرمي المعارضین بالسُّکات‬
‫‪(                ‬بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ اس قرآن میں شاندار فصاحت‪ ،‬واضح فکر و نظ ریہ اور مس تحکم اس لوب پ ائے ج اتے‬
‫ہیں میری یہی رائے ہے کیوں کہ جس قوم کو للکارا گیا وہ نہ تو منطقیانہ موشگافیوں سے واقف تھے نہ ہی فہم وفراست کے حامل کہ ان ک ا‬
‫اس جیساکالم پیش کرنے سے عاجز رہنا معجزہ ہوتا‪ ،‬ہاں وہ میدان بالغت کے ہیرو‪ ،‬بلند پ ایہ مق رر‪ ،‬اور ق ادرالکالم ش اعر تھے‪ ،‬ن یز ق رآن‬
‫میں دقیق تشبیہ وتمثیل‪ ،‬ایجاز واطناب‪ ،‬حسین اسلوب اور قوت استدالل نے انسانی قوت کو درماندہ کردیا اور مخالفین پر سکتہ وس ناٹا ط اری‬
‫کردیا)۔‬
‫اعجا ِز بیانی کا امتیاز‬
‫‪                ‬بہرحال ایک طبقہ اس پر مصر ہے کہ قرآن کا اعجاز فصاحت و بالغت کی وجہ سے ہے لیکن علماء کے مختلف اقوال س ے یہ‬
‫بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ قرآن کی ہر جہت معجزہ ہے‪ ،‬اس لیے کہ اس کے مخ اطبین جہ اں ع رب کے فص حاء و بلغ اء ہیں اس ی ط رح‬
‫فالسفہ یونان سے لے کرہندوس تان کے‬
‫ٴ‬ ‫ٰ‬
‫نصاری جیسے دینی پیشوائی کے دعوے دار بھی ہیں اور‬ ‫رہتی دنیا تک کی اقوام ہیں‪ ،‬ان میں یہود و‬
‫ہندو جوگ بھی‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ آج اتنی صدیاں گز رگئیں‪ ،‬زمانے نے نہ جانے کتنے پلٹن کھائے‪ ،‬انقالبات کے کیسے کیس ے دور آئے اور‬
‫ت اعجاز ک و بے اعتب ار‬
‫گزرگئے‪ ،‬سائنس وٹکنالوجی نے کتنی ترقیاں کیں لیکن آج تک کوئی ایساشخص پیدا نہ ہوسکا جو قرآن کی کسی جہ ِ‬
‫کرسکا ہو۔‬
‫‪                ‬ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ قرآ ِن کریم کا بلیغانہ وفصیحانہ اسلوب ایسا اعج از س دا بہ ار ہے جس میں ک وئی آس مانی کت اب ت ک‬
‫شریک و سہیم نہیں‪ ،‬بیانی اعجاز کی یہ جہت اتنی نمایاں ہے کہ جو بھی سنا خواہ وہ عربی زبان و بیان میں پہچان رکھتا ہو یا عربی کی الف‬
‫با سے بھی واقف نہ ہو لیکن اس کا جذب اندرون پکار اٹھتا ہے۔‬
‫‪                ‬وہّٰللا انہ یقولہ الذي یقول حالوة وان علیہ لطالوة․․․‪ ‬وانہ لیعلو وما یعلی(‪)۵‬‬
‫‪(                 ‬خدا کی قسم جو یہ کالم بولتے ہیں اس میں بال کی شیرینی اور رونق ہے‪ ،‬اوریہ کالم غالب ہی رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا ہے)‬
‫اعجا ِز بیانی کا معجزانہ امتیاز‬
‫‪                ‬اعجاز کی معرفت کے لیے کوئی معیار قائم کرنا تقریبا ً محال ہے‪ ،‬ہر چند کہ بعض علم اء نے کوش ش کی ہے کہ ک وئی منض بط‬
‫اعجاز بیانی کو داخل کردیا جائے‪ ،‬ان میں غالبا ً سب سے پہال نام عالمہ خطابی کا ہے جن کی پیروی ک رتے ہ وئے‬
‫ِ‬ ‫قاعدہ وضابطہ کے تحت‬
‫مختلف مفسرین نے بھی اختیار کیاہے‪ ،‬عالمہ خطابی کے قول کاخالصہ یہ ہے کہ‪:‬‬
‫اعلی درجے کا فصیح و بلی غ (‪ )۲‬معم ولی فص یح وبلی غ (‪ )۳‬بالک ل س ادہ و‬
‫‪                ‬بلغاء وفصحاء کے کالم تین قسم کے ہوتے ہیں‪ٰ  )۱( :‬‬
‫سلیس۔ قرآن پاک کا امتیاز ہے کہ ہر ایک سے اپنے مخاطب کی رعایت کرتے ہوئے وافر حصہ لیتاہے جو قرآن ہی کا حق ہے۔(‪)۶‬‬
‫‪                ‬لیکن عالمہ خطابی اپنی کوشش میں کس حد تک کامیاب ہیں یہ کہنا مش کل ہے‪ ،‬کی وں کہ کس ی ق در قاع دہ و ض ابطہ ک و متعین‬
‫کرلیں لیکن آخری فیصلہ تو ذوق ووجدان ہی کو کرنا پڑتا ہے یہ تو اس خوشبو کی مانن د ہے ج و پھ ول کی پنکھڑی وں میں پنہ اں ہ وتی ہے‪،‬‬
‫جس کو محسوس کیاجاسکتا ہے لیکن لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا ہے۔‬
‫‪                ‬اس لیے اس کے اعجاز کی شہادت کیلئے یہی کافی ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بع د بھی ک وئی چیلنج قب ول نہ کرس کا‪ ،‬بلکہ‬
‫اپنی درماندگی کااعتراف ہر صاحب ذوق کو خواہ دبے لفظوں میں ہی سہی کرنا پڑا۔‬
‫‪                 ‬تاہم ایسے اصول وضوابط کا جائزہ لینا ضروری ہے جن کی رعایت کرنے سے کالم کی شان نرالی ہ وتی ہے اور ”ت اثیر“ میں‬
‫موثر ہون ا چن د وج وہ کی بن ا پ ر ہوت ا ہے‪ ،‬اس‬
‫موثر ہونا ہی بیان کی غرض و غایت ہے‪ ،‬نیز کالم کا ٴ‬
‫چار چاند لگ جاتا ہے۔ دراصل کالم کا ٴ‬
‫اعجاز بیانی کو چار خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫لحاظ سے قرآن کے‬
‫‪ )۱(                ‬مفردات کا اعجاز (‪ )۲‬جملوں اور ترکیبوں کا اعجاز (‪ )۳‬اسلوب کا اعجاز (‪ )۴‬نظم و ربط بین اآلیات کا اعجاز۔‬
‫مفردات کا اعجاز‬
‫‪                ‬مفردات کے لحاظ سے اگر قرآن پر غور کیاجائے تو اس کا ہر لفظ اپنی جگہ اتنا فصیح معلوم ہوتا ہے کہ اس کی جگہ دوس رے‬
‫کلمے کو خواہ اسی مع نی ومفہ وم ک اہو نہیں رکھ س کتے ہیں‪ ،‬اس کے ب رخالف زب ان دانی کے دع وے ک رنے وال وں کے کالم میں مختل ف‬
‫خامیاں پائی جاتی ہیں۔ مثالً متنبی عربی زبان کا مشہور شاعر ہے‪ ،‬اس کو اپنی زبان دانی پر ناز بھی تھا اسی لیے دعوئہ نب وت بھی کربیٹھ ا‬
‫حاالنکہ اس کا سارا کمال قرآن سے ہی مستفاد تھا جیساکہ اس کی تاریخ حیات سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کے کالم کا اگر موازنہ کیا ج ائے ت و‬
‫بہت سارا نقص نظر آئے گا اور ایسا محسوس ہوگا کہ اگر اس لفظ کے بجائے یہ لفظ ہوتا تو زیادہ اچھاہوتا مثالً اس کا ایک شعر ہے‪:‬‬
‫ان القتیل مضرجا ً بدموعہ‪        ‬مثل القتیل مضرجا ً بدمائہ(‪)۷‬‬
‫‪                ‬شہید محبت شہید جنگ کی طرح ہوتا ہے۔‬
‫‪                ‬لیکن ذرا ”مثل“ کو ہٹاکر ’فوق“ رکھدیں تو دیکھئے حسن کتنا دوباال ہوتا ہے۔‬
‫ان القتیل مضرجا ً بدموعہ‪        ‬فوق القتیل مضرجا ً بدمائہ‬
‫‪                ‬شہید محبت کا مقام جنگی شہید سے بڑھا ہوتا ہے۔‬
‫‪                ‬لیکن قرآن نے لفظ ”مثل“ کو تقریبا ً چالیس جگہ استعمال کیا ہے۔ کسی ایک جگہ بھی ادھر ادھر نہیں کرسکتے ہیں۔‬
‫‪                ‬یہ صرف ”مثل“ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ قرآن کے جس لفظ کو بھی لے لیں اس کی جگہ دوسرا لفظ حتی کہ اسی معنی کا‬
‫متبادل و مترادف لفظ بھی نہیں رکھ سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے کالم کا مقصود باقی نہیں رہ سکتا ہے مثال کے طور پر قرآن میں ہے‪:‬‬
‫‪          ‬أتدعون بعال وتذرون أحسن الخالقین‬
‫‪                ‬تم لوگ بت کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑتے ہو۔‬
‫‪                ‬خیال ہوسکتا ہے کہ اگر ”تذرون“ کی جگہ ”تدعُون“ ہوتو معنی میں کچھ فرق نہیں ہوگا؛ بلکہ صنعت جناس کا اضافہ بھی ہوگا۔‬
‫‪                ‬لیکن معاملہ ایس ا نہیں ہے‪ ،‬وذر‪ ،‬اور ودع بیش ک ہم مع نی ہیں لیکن دون وں میں بنی ادی ف رق بھی ہے۔ وذر میں بالقص د چھوڑن ا‬
‫ملحوظ ہے؛ جبکہ ودع میں بالقصد کی کوئی قید نہیں‪ ،‬قرآن تو کہنا چاہتا ہے کہ تم لوگ بالقصد اپنے خالق کو ت رک ک ررہے ہ و‪ ،‬ظ اہر ب ات‬
‫ہے کہ یہ معنی ”ودع“ سے پیدا نہیں ہوسکتا۔‬
‫ت قرآن میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ایس ے الف اظ ک ا اض افہ ہے ج و پہلے س ے اس مع نی میں معہ ود‬
‫‪                ‬مفردا ِ‬
‫ومعروف نہیں ہیں‪ ،‬مثالً موت کے لیے عرب میں‪ ۲۴ ‬الفاظ استعمال ہوتے تھے‪ ،‬سب میں عرب کے ق دیم نظ ٴ‬
‫ریہ کف ر کی غم ازی تھی‪ ،‬لیکن‬
‫قرآن نے موت کے معنی کے لیے لفظ ”توفی“ استعمال کیا جس کے معنی پورا پورا لینے کے ہیں۔ قرینہ کے اضافے سے موت کا معنی پیدا‬
‫ہوگا‪ ،‬جو صرف قرآن کا عطاکردہ ہے۔(‪)۸‬‬
‫‪                ‬بعض معانی کے لیے الفاظ ثقیل ہی استعمال ہوتے ہیں جوکہ فصاحت کے لیے عیب ہے۔ قرآن نے ایسے تمام الفاظ کو چھوڑ دی ا‬
‫اور ضرورت کے وقت ایسا لفظ استعمال کی اجو س نتا ہے عش عش ک یے بغ یر نہیں رہ س کتا‪ ،‬مثالً پکی اینٹ کے ل یے تین لف ظ عرب وں میں‬
‫مستعمل تھے آج ّر‪ ،‬قرمد‪ ،‬طوب‪ ،‬اور تینوں ثقیل سمجھے جاتے تھے۔ قرآن نے اس معنی میں استعمال کیا‪:‬‬
‫‪                ‬فاوقد لي یا ہامان علی الطین فاجعل لی صرحا ً․‪ ‬اے ہامان گیلی مٹی پر آگ روشن کرکے میرے لیے ایک محل تعمیرکرو۔‬
‫‪                ‬اسی طرح ”ارض“ کی جمع اراضی و ارضون دونوں ثقیل سمجھے جاتے ہیں‪ ،‬ق رآن نے ہ ردو ک و چھ وڑ دی ا‪ ،‬اور ان کی جگہ‬
‫استعمال کیا۔‬
‫‪                ‬ہّٰللا الذی خلق سبع سماوات ومن االرض مثلہن‬
‫‪                ‬ہللا وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اورزمین بھی اتنی ہی۔‬
‫ترکیب کا اعجاز‬
‫‪                ‬مفردات کے بعدجملوں کی بندش اور ترکیب کی شوکت و سالس ت ک ا نم بر آت ا ہے اس ح والے س ے اتن ا ہی کہن ا ک افی ہوگ ا کہ‬
‫پڑھنے واال محسوس کرتا ہے کہ زبان از خود ایک جملے سے دوسرے جملے کی طرف پھسلتی جارہی ہے‪ ،‬کہیں اٹکاؤ نہیں ی وں لگت ا ہے‬
‫کہ ہموار زمین ہے یا پھر ٹھہرے سمندر کی سطح آب۔‬
‫‪                ‬عالوہ ازیں مختلف ترکیبیں قرآن نے ایسی استعمال کی ہے کہ جن سے مختلف گتھیاں سلجھ گئیں‪ ،‬مثالً قاتل سے انتقام لین ا ای ک‬
‫کمال سمجھا جاتا تھا۔ اس پر برانگیختہ کرنے کے لیے مختلف جملے زبان زد تھے‪ ‬القتل أنفی للقتل‪( ‬قت ل س ے قت ل کی روک تھ ام ہ وتی ہے)‬
‫القتل احیاء للجمیع (قتل اجتماعی زندگی ہے)‪ ‬أکثروا القتل لیقل القتل‪( ‬قتل زیادہ کرو‪ ،‬قتل کی وارداتیں کم ہوجائیں گی)‬
‫‪                ‬لیکن قرآن نے اس کے لیے استعمال کیا ولکم فی القصاص حی وة اور تمہ ارے ل یے قص اص میں زن دگی ‪ ،‬ت رکیب مختص ر س ی‬
‫لیکن معانی کا ایک سمندر پنہاں ہے۔‬
‫‪                ‬کسی چیز کی وسعت کو بیان کرنے کے لیے مختلف جملے تھے‪ ،‬لیکن ساری وس عتوں کی ای ک انتہ اء تھی۔ ق رآن نے جہنم کی‬
‫وسعت بیان کرتے ہوئے کہا۔‬
‫‪                ‬یوم یقول لجہنم ہل امتلئت وتقول ”ہل من مزید“‬
‫‪                ‬جس روز ہم جہنم سے پوچھیں گے‪:‬کیا تو سیر ہوگئی تو وہ پک ار اٹھے گی ”کی ا کچھ اور ہے“ اس وس عت کی نہ ک وئی ح د ہے‬
‫اور نہ انتہا۔‬
‫‪                ‬بتوں کی عظمت وہیبت دلوں میں اتنی جاں گزیں تھی کہ اپنی قسمت کا فیصلہ کروانے بھی ان ہی کے پاس جاتے‪ ،‬ان کے ناموں‬
‫کے احترام اور عقیدت مندانہ جذبات سے ان کے دل لبریز تھے۔ لیکن قرآن نے صرف ایک جملے میں س ب ک و پ اش پ اش کردی ا‪ :‬ان ہی اال‬
‫اسماء سمیتموہا أنتم وآبائکم‪ ‬یہ محض تمہارے اور تمہارے پرکھوں کے رکھے ہوئے ن ام ہیں۔ ان س ے حقیقت ک ا کچھ واس طہ نہیں اور نہ ہی‬
‫کوئی نفع و نقصان ان سے متعلق ہے۔‬
‫اسلوب کا اعجاز‬
‫‪                 ‬اسلوب میں سب سے اچھا اسلوب‪ ،‬عربوں کے نزدیک ہی نہیں ہر صاحب ذوق کے یہاں ”شعری اس لوب“ ہے؛ کی وں کہ اش عار‬
‫کے سنتے وقت غیرمحسوس طور پر انسان حالوت محسوس کرتا ہے؛ لیکن علماء کا اتفاق ہے کہ ق رآن ک ا اس لوب ش عر نہیں ہے۔ حض رت‬
‫شاہ ولی ہللا علیہ الرحمہ نے ”الفوز الکبیر“ میں بڑی تفصیل سے اس پر بحث کی ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ‪:‬‬
‫‪                ‬اس کا اسلوب ہے تو نثر‪ ،‬لیکن شعر کی لذت سے بڑھ کر اس میں لذت موجود ہے۔ کیوں کہ ش عر کی ل ذت اور حالوت ک ا س ارا‬
‫مدار ”متوازن صوتی آہنگ“ کا کان سے ٹکرانا ہے‪ ،‬لیکن یہ آہنگ پیدا کیسے ہوتی ہے اس کے ل یے مختل ف ذوق و م زاج ہیں‪ ،‬اور مختل ف‬
‫اصول و ضوابط ہیں‪ ،‬عربی اشعار کا سارا دارومدار خلیل بن احمد کی تخلیق کردہ اوزان پھر ردیف کی یکس انیت اور ق وافی کی رع ایت پ ر‬
‫ہے‪ ،‬لیکن فارسی ذوق اس س ے ال گ ہے‪ ،‬اس میں اوزان کی ن ئی بح ریں بھی ہیں‪ ،‬پھ ر حرک ات و س کنات کی خ اص ہم آہنگی بھی‪ ،‬ع ربی‬
‫میں”کبیر“ و” قبور“ ہم وزن ہیں جبکہ فارسی میں مخل فصاحت‪ ،‬عربی میں زحافات اتنی زیادہ ہیں کہ وزن کا ب اقی رکھن ا مش کل ہوت ا ہے۔‬
‫فارسی میں ایسا نہیں۔‬
‫‪                ‬اس کے برخالف ہندی مزاج کا ذوق دوسرا ہے‪ ،‬اس میں تعدا ِد حروف پر دارومدار ہے‪ ،‬پھر بسا اوق ات تع دا ِد ح روف میں ک افی‬
‫تفاوت ہوتا ہے۔‬
‫‪                ‬قرآ ِن کریم نے ان اصولوں کو نظر انداز کردیا اور صرف ”متوازن صوتی ہم آہنگی“ کو باقی رکھا جو ہ رذوق و م ذاق میں ق در‬
‫مشترک ہے‪ ،‬لہٰذا قرآن کو اگ ر ش عر نہیں کہہ س کتے ت و ن ثر محض بھی نہیں‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ عرب وں نے جب اول وہلہ میں س نا ت و ش عر‬
‫کہنے لگے‪ ،‬لیکن چوں کہ شعر کے نوک وپلک اوراصول و ضوابط سے خوب واقف تھے‪ ،‬اس لیے اس نظریہ سے منحرف ہوئے س و کہ ا۔‬
‫پھر نہ جانے کون کون سے لیبل چسپاں کرنے لگے۔(‪)۹‬‬
‫‪                 ‬پھر علمائے بالغت کے مطابق اسلوب کی تین قسمیں ہیں‪ :‬خطابی‪ ،‬ادبی‪ ،‬علمی۔ تینوں کی خصوصیات الگ ال گ ہیں اور دائ رئہ‬
‫عمل بھی جداگانہ‪ ،‬لیکن قرآن ایک ہی عبارت میں تینوں اسلوب کو جمع کرتا ہے‪ ،‬کہ علم کی س نجیدگی بھی ہ وتی ہے‪ ،‬خط ابت ک ا زور بھی‬
‫تو ادب کی شگفتگی بھی۔‬
‫‪                ‬ہر شاعر و ادیب کا میدان الگ الگ ہے۔ ایک میدان کا مرد دوسرے می دان میں بالک ل ناک ام ث ابت ہوت ا ہے مثالً ام رء القیس رزم‬
‫وبزم‪ ،‬اور غزل کا امام ہے۔ اس سے خوف و ہیبت کا مضمون ادا نہیں ہوسکتا‪ ،‬یہ تو نابغہ ذبیانی کا کام ہے۔ لیکن نابغہ سے حس ن طلب نہیں‬
‫ہوسکتا یہ تو اعشی کا کام ہے۔‬
‫‪                ‬اسی طرح فارسی شعراء میں نظامی و فردوسی رزم و بزم میں‪ ،‬سعدی وعظ و پند میں تف وق رکھت ا ہے۔ ای ک فن ک ا ام ام و ش ہ‬
‫نشیں دوسرے فن میں حیران و خاک نشیں معلوم ہوتا ہے۔‬
‫‪                ‬لیکن قربان جائیے قرآن کے اسلوب پر ہر مضمون کو بلیغانہ و فصیحانہ اسلوب میں بیان کرتا ہے خواہ وہ ترغیب وترہیب ہو‪ ،‬یا‬
‫رزم و بزم‪ ،‬جنت و جہنم کا بیان ہو یا پھر دنیا کی مذمت کا ذکر‪ ،‬انبیاء وصالحین کے کردار کا تذکرہ ہو ی ا پھ ر گ زرے ہ وئے سرکش وں اور‬
‫باغیوں کی عبرت آموز داستا ِن حیات‪ ،‬ہر ایک کو اسی مضمون کے مناسب جوش و خ روش اور پرش وکت و پ رعظمت لف ظ و نظم میں بی ان‬
‫کرتا ہے۔‬
‫اعلی درجے کے ماہرین فنون بھی‪ ،‬تو متوسط طبقہ کے فصیح و بلیغ نیز الھڑ قس م کے انس ان‬
‫ٰ‬ ‫‪                ‬پھر مخاطب بھی ہر قسم کے ہیں۔‬
‫بھی‪ ،‬قرآن کریم باوجود کہ بیان کی جملہ اقسام پر مشتمل ہے لیکن اس کے تینوں قسموں کے مخاطب بیک وقت متاثر ہوتے ہیں اورہر کوئی‬
‫سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ قرآن کا اصل خطاب اسی سے ہے۔‬
‫ربط بین اآلیات کا اعجاز‬
‫‪                ‬قرآ ِن کریم ہدایت کا اتنا جامع مجموعہ اور مختلف االنواع مض امین پ ر مش تمل ہ ونے کے ب اوجود ایس ا محس وس ہوت اہے کہ ہ ر‬
‫مضمون دوسرے مضمون سے مربوط ہے‪ ،‬بلکہ بسا اوق ات دو متض اد مض مون ک و اکٹھ ا کرت ا ہے اور انس انی دم اغ ح یران رہ جات اہے کہ‬
‫خروج کہاں سے ہے اور دخول کہاں پر ہے‪ ،‬بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں کبھی متضاد رہے ہی نہیں ہیں۔‬
‫‪                ‬لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اگر ماقبل کا مضمون سامنے نہ ہو تو مابعد کی آیات غیرمربوط معلوم ہ وں گی‪ ،‬بلکہ ہ ر‬
‫آیت ماقبل سے مربوط ہونے کے باوجود مستقل مضمون کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ یہی محمل ہے ان علماء کے کالم کا جنھوں نے ربط بین‬
‫اآلیات کا انکار کیا ہے۔‬
‫‪                ‬خالصہ یہ کہ قرآن کریم کا اعجاز ذوقی ووجدانی ہے‪ ،‬لیکن اصول وضوابط کا اگر پابند بھی تسلیم کرلیا جائے تو ہر اعتبار سے‬
‫اس کا اعجاز ٹکسالی ہے‪ ،‬بلکہ جو ادیب و شاعر ایک فن میں کامل دسترس رکھتا ہے۔ اگر اس کے کالم ک ا م وازنہ کیاج ائے ت و بے اختی ار‬
‫زبان پر آجائے گا ”چہ نسبت خاک را باعالم پاک“ اور این الثری من الثریا۔ اس دعوے کی تصدیق کے لیے ایک مثال بطور م وازنہ پیش کی‬
‫جاتی ہے۔‬
‫ایک تقابلی جائزہ‬
‫‪                ‬امرء القیس عرب کا مشہور شاعر‪ ،‬رزم و بزم کی تصویر کشی کا ماہر پوری عرب ب رادری میں م افوق الع ادت ق وت ک ا حام ل‬
‫تصور کیاجاتا ہے۔ اپنے رزمیہ اشعار میں گھوڑے کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے‪:‬‬
‫ص ْخر حطّہ السیل من َع ٍل‬
‫(الف)‪ِ  ‬م َک ّر ِمفَ ّر مغقبل ُم ْدبِر معًا‪          ‬کجُلمود َ‬
‫‪                ‬وہ گھوڑا حملہ کرنے واال‪ ،‬بھاگنے واال‪،‬آگے آنے واال‪ ،‬پیچھے کو مڑنے واال سب ایک وقت میں‪ ،‬ایس ا معل وم ہوت ا ہے کہ ای ک‬
‫پتھر ہے جس کو سیالب نے اوپر سے لڑھکادیا ہے۔‬
‫(ب) ُکمیت یُز ّل اللِبْد عن حال متنہ‪      ‬کما َذلّت الصفوا ُء بالمتن ّزل‬
‫‪                 ‬وہ گھوڑا سیاہی وسفیدی مائل چتکبرا ہے‪ ،‬اس کی پیٹھ ایسی صاف ہے کہ نمدہ اپنی پشت کے وس ط س ے اس ط رح پھس التا ہے‬
‫جیساکہ صاف چکنا پتھر اپنے اترنے کی جگہ سے پھسل کر گرتا ہے۔‬
‫مرجل‬
‫ٍ‬ ‫(ج)‪ ‬علی ال َذبْل َجیّاش کأن اہتزامہ‪        ‬اذا جاش فیہ حمیُہ غل ُي‬
‫گرمی نشاط کے جوش میں دیگ کے ابلنے کی آواز معلوم ہوتی ہے۔‬
‫ٴ‬ ‫‪                ‬وہ دبال پتال ہے لیکن جوش ایسا کہ اس کے چلنے کی آواز‬
‫(د)‪ ‬اذا ما السابحات علی الونی‪   ‬أثرن الغبار بال َک ِدیْد ال ُم َو َّکل‬
‫‪                 ‬جس وقت تیز رفتار گھوڑے تھک ہار کر پامال شدہ زمین پر غبار اڑاتے ہیں وہ گھوڑا بدستور بارش کی مانند تیز چلتا ہے۔‬
‫صہواتہ‪        ‬ویُلوي بأثواب العنیف المثقل‬ ‫(ھ)‪ ‬یُز ّل الغال َم ال ِخ ّ‬
‫ف عن َ‬
‫‪                ‬ہلکے پھلکے اناڑی نوجوان کو اپنی پیٹھ سے پھسالدیتاہے‪ ،‬اور بھاری بھرکم تجربہ کار ش ہ س واروں کے ک پڑے گرادیت ا ہے۔(‬
‫‪)۱۰‬‬
‫‪                ‬یہ پانچ اشعار ہیں جن میں اکیاون الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جو گھوڑے کی تعریف میں مقصود بناکر کہے گ ئے ہیں۔ یقین ا س ننے‬
‫واال فصاحت و بالغت کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا‪ ،‬لیکن قرآن نے ضمنا ً گھوڑے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے۔‬
‫والع ٰدیت ضبحاً‪ ،‬فالمور ٰیت قد ًحا‪ ،‬فالمغیرات صبحًا‪ ،‬فأثرن بہ نقعًا‪ ،‬فوسطن بہ جمعًا․‬
‫‪ٰ                 ‬‬
‫‪                ‬قسم ہے دوڑتے ہانپتے گھوڑوں کی جوٹاپ مارکر آگ جھاڑتے ہیں‪ ،‬پھر صبح کے وقت تاخت وتاراج کرتے ہیں‪ ،‬پھ ر اس وقت‬
‫غبار اڑاتے ہیں‪ ،‬پھر اس وقت دشمنوں کی جماعت میں جاگھستے ہیں۔‬
‫‪                ‬ان آیات میں صرف بارہ (‪ )۱۲‬الفاظ ہیں اور گھ وڑے کی ان میں واقع اتی وحقیقی ص فات بی ان کی گ ئی ہیں‪ ،‬جب کہ اش عار میں‬
‫محض تخیالت ہیں۔ شاعر نے گھوڑے کی تعریف کرتے ہوئے اس کے فرار کی بھی تعریف کی ہے حاالنکہ ”فرار“ خواہ کسی وجہ سے ہو‬
‫عیب ہے‪ ،‬کمال نہیں۔ گھوڑے کی پیش قدمی کو دیگ کی آواز سے تشبیہ دی گئی جو کہ واضح نہیں جب کہ آیات میں نہ تو فرار کا ذک ر ہے‬
‫اور نہ گھوڑے کے دوڑنے کا‪ ،‬بلکہ ہانپنے کا بیان ہے جو بالکل واضح ہے۔‬
‫‪                ‬اشعار میں کبھی موٹاپے کا بیان ہورہا ہے تو کبھی الغری کا جو کہ تعارض ہے اورجھوٹ بھی۔ آی ات میں ک وئی تع ارض نہیں۔‬
‫نیز گھوڑے کا پامال شدہ زمین سے مٹی کا اڑانا کوئی کمال نہیں بلکہ اصل کمال ت و جب ہے کہ زمین ترب تر ہ و پھ ر ت یز چل نے س ے غب ار‬
‫اڑے۔‬
‫‪                ‬اشعار میں تجربہ کار وناتجربہ کار دونوں کو یاتو گرادیتے ہیں یا پھ ر اس کے س امان ک و ض ائع کردی تے ہیں‪ ،‬اس ک ا مطلب یہ‬
‫ہے کہ وہ اپنے مالک کا وفادار نہیں ہے‪ ،‬جبکہ آیات میں گھوڑے اپنے آپ کو جوکھم میں ڈال کر منزل کی طرف رواں دواں رہ تے ہیں ج و‬
‫وفا داری کی دلیل ہے۔‬
‫رآن ک ریم کے اعج از بی انی ک و س مجھنے کے ل یے ک افی ہے۔ قاض ی اب وبکر ب اقالنی نے اپ نی کت اب‬
‫‪                ‬م ذکورہ ب اال تفص یل ق ِ‬
‫اعجازالقرآن میں بالغت کے دس وجوہ ذکر کرکے ہر نوع کے اعجاز کو ثابت کیا ہے وہ دس وجوہ حسب ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪ )۱(                ‬االیج از (‪ )۲‬التش بیہ (‪ )۳‬االس تعارہ (‪ )۴‬التالؤم (‪ )۵‬الفواص ل (‪ )۶‬التج انس (‪ )۷‬التص ریف (‪ )۸‬التض مین (‪ )۹‬المب الغہ (‬
‫‪ )۱۰‬حسن البیان۔(‪)۱۱‬‬
‫‪                ‬خالصہ یہی ہے کہ قرآن معجزہ ہے جو اپنے مقصد میں پورے طور پر کامی اب رہ ا۔ اس نے پ وری دنی ا میں انقالب عظیم برپ ا‬
‫کیا۔ سوئی انسانیت کو جھنجھوڑکر رکھ دیا۔ منتشر اقوام کو متحد کیا اور را ِہ راست س ے منح رف جم اعت ک و ص حیح راہ پ ر لگادی ا‪ ،‬اور یہ‬
‫سب طفیل ہے اس کے اعجاز گراں مایہ قدر کا۔‬
‫‪ANS 05‬‬
‫تعالی کی آخری کتاب ہے‪ ،‬جو آخری نبی جناب محمد رسول ہللا ﷺ پر نازل ہوئی ہے‪ ،‬قی امت ت ک ک وئی اور کت اب ن ازل نہ‬
‫ٰ‬ ‫قرآن مجید“ ہللا‬
‫دستور کہن ہے جو ہمارے آبائے اولین کو مال تھا‪ ،‬اس میں اصوالً اس ی ک ا اع ادہ اور عہ د کی تجدی د ہے‪ ،‬یہ خ دائی‬
‫ِ‬ ‫ہوگی‪ ،‬یہ زندگی کا وہی‬
‫عطیہ‪ ،‬ہمارا مشترکہ روحانی ترکہ ہے‪ ،‬جو منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے‪ ،‬اسے دوسری آسمانی کتابوں کا آخری اور دائمی ایڈیشن بھی کہ ا‬
‫سر مو کوئی ف رق نہیں آی ا‪ ،‬ای ک لمحہ کے ل یے نہ‬
‫ادنی تغیر و تبدل کے باقی ہے‪ ،‬اس میں ِ‬
‫جا سکتا ہے۔ ابتدائے نزول سے آج تک بال کسی ٰ‬
‫تو قرآن مسلمانوں سے جدا ہوا اور نہ مسلمان قرآن سے جدا ہوئے‪ ،‬اس میں باطل کے در آنے کی ک وئی گنج ائش نہیں‪ ‬ہے‪” :‬الَ یَ أتِ ْی ِہ ْالبَ ِ‬
‫اط ُل‬
‫ِمن بَ ْینَ یَ َد ْی ِہ َواَل ِم ْن خ َْلفِہ “(حم سجدہ)‬
‫‪(          ‬ترجمہ‪ ):‬قرآن مجید میں باطل نہ تو سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔‬
‫الی نے‬
‫‪          ‬آسمانی کتابوں میں قرآن مجید ہی کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ یہ قیامت تک اپنی اصل حالت پر رہے گا‪ ،‬خ ود ہللا تع ٰ‬
‫اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے‪ ،‬ایک جگہ بڑے ذور دار انداز میں ارشاد فرمایا‪ :‬اِنَّا نَحْ نُ نَ َّز ْلنَا ال ِّذ ْک َر َواِنَّا لَہُ لَ َحافِظُوْ نَ (حجر‪)۹ ‬‬
‫‪(          ‬ترجمہ‪ ):‬ہم نے ہی ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔‬
‫تعالی نے لی ہے‪ ،‬ای ک جگہ ارش اد ہے‪” :‬ثُ َّم‬
‫ٰ‬ ‫‪          ‬صرف الفاظ نہیں؛ بلکہ معانی و مطالب کی تشریح و توضیح کی ذمہ داری بھی خود ہللا‬
‫اِ َّن َعلَ ْینَا بَیَانَہ“‪( ‬ترجمہ) پھر ہم پر ہی اس کا بیان (بھی) ہے۔‬
‫‪          ‬قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا‪ ،‬کبھی ایک آیت کبھی چن د آی تیں ن ازل ہ وتی رہیں‪ ،‬ن زول کی‬
‫ت مبارکہ کے آخ ری لمح ات‬
‫ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ تھی‪ ،‬یہ سلسلہ پورے عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول ہللا ﷺ کی حیا ِ‬
‫تک جاری رہا؛ اس لیے آپ ﷺ کے سامنے آج کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مش کل؛ بلکہ ن اممکن تھ ا‪ ،‬ہ اں! یہ ب ات ض رور‬
‫ہے کہ ہر آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی ہللا علیہ وسلم لکھوا لیتے تھے اور زمانہ کے لحاظ سے نہایت ہی پائدار چیز پ ر لکھ واتے تھے؛‬
‫حجرہ مبارکہ میں موجود تھا‪ ،‬اس میں نہ تو کوئی آیت‬
‫ٴ‬ ‫چنانچہ پورا قرآن مجید بال کسی کم و کاست کے لکھا ہوا‪ ،‬آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے‬
‫لکھنے سے رہ گئی تھی اور نہ ہی کسی کی ترتیب میں کوئی کمی تھی؛ البتہ سب سورتیں الگ الگ تھیں‪ ،‬اور متعدد چیزوں پ ر لکھی ہ وئی‬
‫تھیں‪ ،‬کتابی شکل میں جلد سازی اور شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی‪:‬‬
‫وض ٍع واح ٍد۔‪( ‬الکت ابي ج‪۲ ‬ص‪ ۳۸۴ ‬بح والہ ت دوی ِن ق رآن‬
‫مجموع في َم ِ‬
‫ٍ‬ ‫‪          ‬قد کان القرآنُ ُکلُّہ مکتوبا ً فی َع ْھ ِدہ صلی ہللا علیہ وسلم لکن غی َر‬
‫ص‪)۴۳ ‬‬
‫‪(          ‬ترجمہ‪ ):‬پورا قرآن مجید رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھا ہوا تھا؛ لیکن ایک جگہ جمع نہیں تھا۔‬
‫‪           ‬حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے کتابی شکل میں جمع کرایا اور حضرت عثمان غنی رض ی ہللا عنہ نے اس کی محق ق نقلیں‬
‫تیار کرکے ہر طرف پھیالیا؛ بلکہ پوری امت کو اس پر جمع کیا۔ آج تک قرآن مجید اسی کے مطابق موجود ہے۔‬
‫ت قرآن مجید کے طریقے‬
‫حفاظ ِ‬
‫‪          ‬ابتدائے نزول سے قرآن مجید کی حفاظت جس طر ”لکھ کر“ ہ وئی ہے‪ ،‬اس س ے کہیں زی ادہ ”حف ظ“ کے ذریعہ ہ وئی ہے‪ ،‬س ینہ بہ‬
‫ب ٰالہی ک و نص یب ہ وئی‪ ،‬ت و رات‪ ،‬انجی ل اور دوس ری آس مانی کت ابوں اور ص حیفوں کی‬
‫سینہ حفظ کی خصوصیت صرف اس ی آخ ری کت ا ِ‬
‫الی نے‬
‫حفاظت صرف سفینہ میں ہوئی‪ ،‬اس لیے وہ تغیر و تبدل اور دوسرے حوادث ک ا ش کار ہ و گ ئیں‪ ،‬ق رآن مجی د کے سلس لے میں ہللا تع ٰ‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے‪ ،‬ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫علیک کتابا ً ال یغ ِس ْلہ الماء۔‪( ‬صحیح مسلم)‬
‫َ‬ ‫‪          ‬و ُمن َِّز ٌل‬
‫‪(          ‬ترجمہ‪ ):‬میں آپ پر ایسی کتاب نازل کرنے واال ہوں جس کو پانی نہیں دھو سکے گا۔‬
‫‪          ‬غرض یہ کہ قرآن کی حفاظت شروع شروع میں سب سے زیادہ حافظہ کے ذریعہ ہوئی اور حفاظت کا س ب س ے اہم ذریعہ یہی ہے‪،‬‬
‫اسی وجہ سے آج تک یہ کتاب مقدس اپنی اصل حالت پر باقی ہے‪ ،‬صحابہٴ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین نے اپ نے خ داداد بے نظیرح افظے‬
‫ت ٰالہی کے حفظ پر لگادی ا‪ ،‬ع رب کے‬
‫ب عرب حتی کے اونٹوں اور گھوڑوں کی نسلوں کے حفظ سے ہٹا کر‪ ،‬آیا ِ‬ ‫کو جاہلیت کے اشعار‪ ،‬انسا ِ‬
‫معرض شہود میں ال کھڑا کر دیا‪ ،‬حفّاظ کی ک ثرت ک ا ان دازہ اس س ے‬
‫ِ‬ ‫ت ٰالہی کو‬
‫ضرب المثل حافظے نے چند ہی دنوں میں ہزاروں حفّا ِظ آیا ِ‬
‫لگایا جا سکتا ہے کہ‪ :‬صرف ”جنگ ِیمامہ“ میں شہید ہونے والے حافظوں کی تعداد سات سو تھی‪ ،‬بخاری شریف کے حاشیہ‪ ‬میں ہے‪ :‬وک ان‬
‫ِع َّدةٌ ِمن القُرّاء َس ْب َع مائة‪)۲/۷۴۵( ‬۔‬
‫سرکار دوعالم صلی ہللا علیہ وسلم کو حضرت جبریل علیہ السالم جب قرآن مجی د پ ڑھ ک ر س ناتے ت و آپ ص لی ہللا علیہ وس لم جل دی‬
‫ِ‬ ‫‪          ‬‬
‫ان علین ا َج ْم َعہ‬ ‫الی نے ارش اد ‪ ‬فرمای ا‪ :‬ال تُ َح رِّک بہ لِس انَک لِتَع َ‬
‫ْج َل بہ‪ّ ،‬‬ ‫جل دی دہ رانے لگے تھے؛ ت اکہ خ وب پختہ ہ و ج ائے‪ ،‬اس پ ر ہللا تع ٰ‬
‫وقُرآنَہ۔‪( ‬قیامہ‪(  )۱۷‬ترجمہ‪ ):‬آپ قرآن مجید کو جلدی جلدی یاد کرلینے کی غرض سے‪ ،‬اپنی زبان کو حرکت نہ دیجیے‪( ،‬اس لیے کہ) ق رآن‬
‫مجید کو جمع کرنے اور اس کو پڑھوانے کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے۔‬
‫کتابت کا اہتمام‬
‫‪           ‬زبانی یاد کرنے اور کرانے کے ساتھ ہی سرکار دوعالم صلی ہللا علیہ وسلم نے آیات کی حف اظت کے ل یے کت ابت (لکھ انے) ک ا بھی‬
‫خوب اہتمام فرمایا‪ ،‬نزول کے ساتھ ہی بال تاخیر آیات قلم بند کرا دیتے تھے‪:‬‬
‫ْض َم ْن کان یَ ْکتُبُ فیقولُ‪ :‬ضعوا ٰھذا في السُّورة التي یذکر فیھا کذا و ک ذا۔‪( ‬مختص ر ک نزص‪ ۴۸ ‬بح والہ‬
‫‪          ‬فکان اذا نَزَ َل علیہ الشئ ُی َدعَا بَع َ‬
‫تدوین قرآن ص‪)۲۷‬۔‬
‫‪(          ‬ترجمہ‪ ):‬چنانچہ رسول ہللا ﷺ پر جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی‪ ،‬تو (بالتاخیر) جو لکھنا جانتے تھے‪ ،‬ان میں س ے کس ی ک و بالتے‬
‫اور ارشاد فرماتے کہ‪ :‬اس آیت کو اس سورت میں لکھو جس میں فالں فالں آیتیں ہیں۔‬
‫‪          ‬اور مجمع الزوائد میں یہاں تک ہے‪ :‬کان جبری ُل علیہ السالم یُملي علی النب ّي صلی ہّٰللا علیہ وس لم۔ (‪ )۷/۱۵۷‬یع نی رس ول ہللا ص لی ہللا‬
‫علیہ وسلم کو حضرت جبریل‪ ‬قرآن مجید لکھواتے تھے۔‬
‫‪          ‬مسند احمد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اشاد‪ ‬فرمایا‪ :‬آتاني جبری ُل فأ َم َرني۔(ک نز العم ال‪ )۲/۴۰ ‬یع نی‬
‫حضرت جبریل علیہ السالم نے آکر مجھے (فالں آیت کو فالں جگہ رکھنے کا) حکم دیا۔‬
‫‪          ‬غرض یہ کہ سرکار دوعالم صلی ہللا علیہ وسلم آیات لکھانے کا بھی خوب اہتمام فرم اتے تھے‪ ،‬اور لکھ انے کے بع د س ن بھی لی تے‬
‫تھے‪ ،‬اگر کوئی فرو گذاشت ہوتی تو اس کی اصالح فرما دیتے تھے‪ :‬فإن کان فیہ َسقَطٌ أقَامہ۔(مجمع الزوائد‪ )۱/۶۰ ‬پھر یہ لکھی ہوئی آیت آپ‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم اپنے پاس محفوظ فرما لیتے تھے۔‬
‫‪          ‬صحابہٴ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین بھی آپ ص لی ہللا علیہ وس لم کے پ اس ج اکر لکھ تے اور آپ ص لی ہللا علیہ وس لم ک و س ناتے‬
‫صحابہ کرام‪ ‬کے پاس سرکار دوعالم صلی ہللا علیہ وسلم کی لکھائی ہوئی آیات موجود تھیں‪ ،‬بعض کے پاس پ ورا‬
‫ٴ‬ ‫تھے‪ ،‬اس طرح بہت سے‬
‫پورا قرآن مجید لکھا ہوا تھا۔‬
‫ساما ِن کتابت‬
‫‪          ‬نزو ِل قرآن مجید کے زمانہ میں ایجادات و مصنوعات کی کمی ضرور تھی‪ ،‬جس طرح آج کاغ ذ‪ ،‬قلم اور دوات کی بے ش مار قس میں‬
‫دریافت ہیں‪ ،‬اس زمانہ میں اتنی ہرگ ز نہ تھیں؛ لیکن ایس ا بھی نہیں کہ اس وقت کاغ ذ اور کت ابیں دری افت نہ تھیں‪ ،‬یمن‪ ،‬روم اور ف ارس میں‬
‫ٰ‬
‫نصاری کے پاس کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا‪ ،‬اس زمانے میں ”کاغذ“ وغیرہ کی صنعتیں بھی تھیں؛ لیکن بڑے‬ ‫کتب خانے بھی تھے‪ ،‬یہود و‬
‫پیمانے پر نہ ہونے کی وجہ سے کاغذ وغیرہ ہر جگہ دریافت نہ تھے؛ اس لیے لکھنے کے لیے جو چیز بھی قابل اور پائ دار س مجھ میں آتی‬
‫اس پر لکھ لیا جاتا تھا۔ (التبیان فی علوم القرآن ص‪)۴۹‬‬
‫‪          ‬ق رآن مجی د کی کت ابت کے ل یے بھی اس وقت کی ایس ی پائ دار چ یزیں اس تعمال کی گ ئیں‪ ،‬جن میں ح وادث وآف ات کے مق ابلے کی‬
‫ت‬ ‫صالحیت نسبتا ً زیادہ تھی؛ تاکہ مد ِ‬
‫ت دراز تک محفوظ رکھا جا سکے۔ (ت دوین ق رآن ص‪)۳۱ ‬حاف ظ ابن حجر‪ ‬کی تحقی ق کے مط ابق کت اب ِ‬
‫قرآن میں درج ذیل چیزیں استعمال کی گئیں‪:‬‬
‫‪(          ‬الف) زیادہ تر پتھروں کی چوڑی اور پتلی سلوں (لِخاف) کو استعمال کیا گیا‪ ،‬اِسے ہم سلیٹ کہہ سکتے ہیں۔‬
‫‪(          ‬ب) اونٹوں کے مونڈھوں کی چوڑی گول ہڈیوں ( َکتِف) پر بھی لکھا گیا‪ ،‬مونڈھوں کی ہڈیوں ک و نہ ایت اچھی ط رح گ ول ت راش ک ر‬
‫تیار کیا جاتا تھا۔‬
‫(رقاع) پر بھی قرآن مجید لکھا جاتا تھا‪ ،‬یہ ٹکڑے نہایت باری ک ہ وتے تھے‪ ،‬اور لکھ نے کے‬
‫‪(          ‬ج) چمڑوں کے کافی باریک پارچوں ِ‬
‫لیے ہی تیار کیے جاتے تھے‪ ،‬گوشت خور ملک میں اس کی بڑی افراط تھی۔‬
‫‪(          ‬د) بانس کے ٹکڑوں پر بھی آیات لکھی جاتی تھیں۔‬
‫‪(          ‬ھ) درخت کے چوڑے اور صاف پتے بھی کتابت کے لیے استعمال ہوتے تھے۔‬
‫‪(           ‬و) کھجور کی شاخوں کی چوڑی جڑوں (عسیب) اور کھجور کے جڑے ہوے پتوں کو کھول کر ان کی اندرون ج انب بھی آی ات کی‬
‫کتابت ہوتی تھی۔‬
‫ت قرآن کا ذکر کیا ہے۔ (فتح الباری‪)۹/۱۷ ‬‬
‫‪(          ‬ز) محدثین نے کاغذ پر بھی کتاب ِ‬
‫سورتوں اور آیتوں کی ترتیب‬
‫‪          ‬پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن مجید میں سورتوں اور آیتوں کی ترتیب توقیفی ہے یعنی رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم‬
‫تعالی کے حکم سے پورا قرآن مجیدمرتب طور پر لکھوایا‪ ،‬آج بھی اسی ت رتیب س ے ق رآن‬
‫ٰ‬ ‫نے حضرت جبریل علیہ السالم اور انہوں نے ہللا‬
‫مجید لکھا اور پڑھا جارہا ہے‪ ،‬اور قیامت تک اسی طرح رہے گا۔‬
‫ب ضرورت کبھی ایک آیت‪ ،‬کبھی چند آی تیں‬
‫‪          ‬پورا قرآن مجید بائیس سال‪ ،‬پانچ ماہ‪ ،‬چودہ دن میں نازل ہوا (مناہل العرفان ص‪ ،)۴۳‬حس ِ‬
‫اور کبھی پ وری س ورہ کی ش کل میں آی ات ن ازل ہ وتی رہیں‪ ،‬اور س اتھ ہی یہ بھی حکم ہوت ا کہ اس ک و فالں س ور ہ کے فالں مق ام پ ر رکھ‬
‫ض عواھا في َموض ع ک ذا‪( ‬التبی ان في عل وم الق رآن ص ‪ ،۴۹‬فتح‬
‫دیج یے؛ چن انچہ ک اتبی ِن وحی ک و بال ک ر آپ ص لی ہللا علیہ وس لم فرم اتے‪َ  :‬‬
‫الباری‪( )۹/۲۷ ‬ترجمہ‪ ):‬اس کو فالں مقام پر لکھو!‬
‫عہ ِد نبوی میں قرآن مجید کے نسخے‬
‫‪          ‬جیسا کہ اوپر گذرا کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نزو ِل وحی کے ساتھ ہی آیات لکھوا لیا ک رتے تھے‪ ،‬اور لکھ انے کے س اتھ س ن‬
‫بھی لیتے تھے‪ ،‬پھر اسے اپنے پاس محفوظ فرما لیتے تھے‪ ،‬اسی وجہ سے آپ ص لی ہللا علیہ وس لم کے پ اس پ ورا ق رآن مجی د لکھی ہ وئی‬
‫شکل میں بھی موجود تھا؛ لیکن ایک جلد میں مجلد نہ تھا‪ ،‬مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا۔‬
‫‪          ‬صحابہٴ کرام‪ ‬میں جو لکھنا پڑھن ا ج انتے تھے ‪،‬وہ خ دمت ِنب وی میں پہنچ ک ر آی ات لکھ لی تے تھے‪ ،‬جب کس ی س ورت میں آیت ک ا‬
‫سرکار دوعالم صلی ہللا علیہ وسلم ک ا مص دقہ‬
‫ِ‬ ‫اضافہ ہوتا تو معلوم کرکے مرتب فرما لیتے تھے‪ ،‬اس طرح بہت سے صحابہٴ کرام‪ ‬کے پاس‬
‫نسخہ قرآن موجود تھا‪ ،‬بعض کے پاس پورا قرآن بھی تھا اور بعض کے پ اس چن د س ورتیں اور چن د آی تیں تھیں‪ ،‬لکھ نے لکھ انے ک ا سلس لہ‬
‫ٴ‬
‫بالکل ابتداء سے کثرت سے جاری تھی‪ ،‬اس کی شہادت درج ذیل روایتوں سے ملتی ہے‪:‬‬
‫‪ )۱(          ‬حض رت عم ر بن خط اب رض ی ہللا عنہ کے اس الم النے والی روایت میں ہے کہ‪ :‬ان کی بہن ف اطمہ اور بہن وئی س عید بن زی د‬
‫رضی ہللا عنہما ان سے پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے‪ ،‬وہ حضرت خباب‪ ‬بن االرث سے قرآن پڑھ رہے تھے‪ ،‬جب حضرت عمر‪ ‬نہ ایت‬
‫غضب ناک حالت میں ان کے پاس پہنچے تو ان کے سامنے ایک صحیفہ تھ ا جس ک و انہ وں نے چھپ ا دی ا تھ ا‪ ،‬اس میں س ورہ طہ کی آی ات‬
‫لکھی ہوئی تھیں۔ (سنن دار قطنی‪ ۱۲۳ /۱ ‬باب نہی المحدث عن مس القرآن‪ ،‬دار نشر الہور)‬
‫‪ )۲(          ‬امام بخاری علیہ الرحمہ نے ”کتاب الجہاد“ میں ا ی ک روایت نق ل کی ہے‪ ،‬جس میں ہے کہ‪ :‬رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم نے‬
‫مصاحف (لکھا ہوا قرآن مجید) لے کر دشمنوں کی زمین میں جانے سے منع فرما دیا تھا۔ (صحیح بخاری‪)۱/۴۱۹ ‬‬
‫‪)۳(          ‬حضرت ابوبکر و عمر رضی ہللا عنہما کے مشورہ سے جب ق رآن مجی د کے اجم اعی نس خہ کی کت ابت ک ا وقت آی ا ت و اس وقت‬
‫حضرت زید بن ثابت‪ ‬کو پابند کیا گیا تھا کہ‪ :‬جو کوئی بھی لکھی ہوئی آیت لے کر آئے ‪،‬اس سے دو گواہوں کی گ واہی اس ب ات پ ر لیج یے‬
‫کہ یہ آیت رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے ؛چناں چہ اس پر عمل ہوا (االتقان‪)۱/۷۷ ‬‬
‫حابہ ک رام‪ ‬کے‬
‫‪          ‬مذکورہ باال تینوں روایتوں اور ان کے عالوہ بہت سی روایتوں سے معلوم ہوت ا ہے کہ عہ ِد نب وی میں بہت س ے ص ٴ‬
‫پاس آیات لکھی ہوئی تھیں؛ بلکہ بعض کے پاس پورا قرآن مجید بھی لکھی ہوئی شکل میں موجود تھا۔‬
‫عہد صدیقی میں تدوی ِن قرآن مجید‬
‫أبوبکر‪ ،‬رحمہُ ہللا علی أبي بک ر‪ ،‬ھ و أ ّو ُل‬
‫ٍ‬ ‫اس في المصاحب أجراً‬
‫‪          ‬ایک موقع پر حضرت علی رضی ہللا عنہ نے ارشاد فرمایا‪ :‬أعظ ُم النّ ِ‬
‫کتاب ہللا۔‪( ‬االتقان في علوم القرآن‪)۱/۷۶ ‬‬
‫َ‬ ‫َم ْن َج َم َع‬
‫الی اب وبکر پ ر‬
‫‪(          ‬ترجمہ‪ ):‬قرآن مجید کی خدمت کے سلسلے میں سب سے زیادہ اج ر و ث واب کے مس تحق ابوبکرص دیق‪ ‬ہیں‪ ،‬ہللا تع ٰ‬
‫جمع قرآن کا (مایہ ناز) کارنامہ انجام دیا۔‬
‫ِ‬ ‫رحم فرمائیں کہ وہ اولین شخصیت ہیں‪ ،‬جنہوں نے‪،‬‬
‫سرکار دوعالم صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پ ر لکھ ا ہ وا تھ ا‪ ،‬س ارے اج زا ال گ ال گ تھے‪،‬‬
‫ِ‬ ‫‪          ‬‬
‫حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے قرآن مجید کی تم ام س ورتوں ک وا ی ک ہی تقطی ع اور س ائز پ ر لکھ وا ک ر ای ک ہی جل د میں مجل د‬
‫حابہ ک رام‪ ‬کی اجم اعی تص دیق‬
‫کروانے کا کام حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا؛ چنانچہ ایسا نسخہ مرتب ہو گیا جس ک و س ارے ص ٴ‬
‫حاصل ہوئی۔‬
‫‪           ‬حضرت عمر رضی ہللا عنہ اسی خدمت کو حکومت کی طرف سے انجام دینے کا مطالبہ کر رہے تھے‪ ،‬وہ چاہتے تھے کہ خالفت و‬
‫حکومت اس مہم کو اپنے ہاتھ میں لے اور اپنی نگرانی میں اس کو مکمل کرائے؛ تاکہ قرآن مجی د ض ائع ہ ونے س ے بچ ج ائے اور بع د میں‬
‫کتاب ہللا میں اختالف پیدا نہ ہو۔‬
‫‪          ‬حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنہ کی روایت امام بخاری علیہ الرحمہ نے نقل فرمائی ہے‪ ،‬فرماتے ہیں کہ‪:‬‬
‫‪”          ‬جنگ یمامہ“ کے فوراً بعد صدیق اکبر‪ ‬نے میرے پاس بالوا بھیج ا‪ ،‬میں ان کے پ اس پہنچ ا ت و وہ اں حض رت عم ر ف اروق‪ ‬بھی‬
‫اظ ک رام‪ ‬کی ای ک‬
‫موجود تھے‪ ،‬حضرت ابوبکر‪ ‬مجھ سے مخاطب ہوئے کہ‪ :‬عمر‪ ‬نے ابھی آکر مجھ س ے کہ ا کہ‪ :‬جن گ ِیم امہ میں حف ِ‬
‫بڑی تعداد شہید ہو گئی ہے‪ ،‬اگر آئندہ لڑائیوں میں بھی اسی طرح حف اظ ش ہید ہ وتے رہے ت و مجھے اندیش ہ ہے کہ کہیں ق رآن ک ریم ک ا ب ڑا‬
‫حصہ ناپید نہ ہو جائے!‬
‫‪          ‬لہٰ ذا میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید جمع کرنے کا حکم دے دیں‪ ،‬میں نے کہا کہ‪ :‬جو کام رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے نہیں‬
‫کیا ہے‪ ،‬وہ ہم کیسے کریں؟ عمر‪ ‬نے جواب دیا کہ‪ :‬بہ خدا! یہ کام بہتر ہے‪ ،‬اس کے بعد عمر‪ ‬بار بار مجھ سے یہ کہ تے رہے ؛یہ اں ت ک‬
‫شرح صدر ہو گیا‪ ،‬اور اب میری رائے بھی وہی ہے جو عمر‪ ‬کی ہے!‬
‫ِ‬ ‫کہ مجھے بھی اس پر‬
‫ک‪ ،‬وقد ُک ْنتَ کتبتَ الوح َي لرسو ِل ہللا صلی ہللا علیہ وسلم‪ ،‬فَتَتَب َِّع القرآنَ ‪ ‬فاجم ْعہُ۔(ت رجمہ‪ ):‬واقعہ‪ ‬یہ ہے کہ‬
‫ک رج ٌل شابٌّ عاقلٌ‪ ،‬ال نَتَّ ِھ ُم َ‬
‫‪          ‬اِنَّ َ‬
‫ت وحی‬
‫تم نوجوان‪ ،‬سمجھ دار آدمی ہو‪ ،‬ہمیں تمہارے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں ہے‪ ،‬اور تم رسول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم کے ل یے کت اب ِ‬
‫کی خدمت بھی کر چکے ہو؛ اس لیے تم قرآن کریم کو تالش کرکے جمع کرو!‬
‫‪           ‬حضرت زید رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ‪ :‬خدا کی قسم! اگر یہ حضرات مجھے پہاڑ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو مجھے اتنا مشکل‬
‫جمع قرآن کا بار ہوا‪ ،‬میں نے کہا بھی کہ‪ :‬آپ حضرات ایسا کام کیوں کر رہے ہیں ‪،‬جو رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم نے نہیں‬
‫ِ‬ ‫نہ ہوتا‪ ،‬جتنا‬
‫کیا تھا؟ اس پر حضرت ابوبکر‪ ‬نے فرمایا کہ‪ :‬خدا کی قسم یہ کام بہتر ہے‪ ،‬اور حضرت ابوبکر‪ ‬ب ار ب ار یہی دہ راتے رہے؛ یہ اں ت ک کہ‬
‫شرح صدر عطا فرمای ا تھ ا؛‬
‫ِ‬ ‫تعالی نے میرا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا‪ ،‬جس کام کے لیے حضرت ابوبکر و عمر رضی ہللا عنہما کو‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫چنانچہ میں نے کھجور کی شاخوں‪ ،‬پتھر کی باریک تختیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن مجید تالش ک رکے جم ع کرن ا ش روع ک ر دی ا؛‬
‫یہاں تک کہ توبہ کی آیت ؛لقد جاء کم رسو ٌل ِم ْن انف ِسکم اخیر سورہ تک“ میں نے صرف حضرت ابوخزیمہ انصاری رضی ہللا عنہ کے پ اس‬
‫پائی‪ ،‬ان کے عالوہ کسی اور کے پاس نہیں پایا‪ ،‬ان کی تنہا شہادت کو رسول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم نے دو آدمی کی ش ہادت کے ق ائم مق ام‬
‫قرار دیاتھا (صحیح بخاری‪)۷۴۶ ،۷۴۵ /۲ ‬‬
‫جمع قرآن میں حضرت زید بن ثابت‪ ‬کا طریقہٴ کار‬
‫ِ‬
‫حابہ ک رام‪ ‬میں حف اظ کی کمی‬
‫‪          ‬حضرت ابوبکر و عمر اور زید بن ثابت رضی ہللا عنہم سب حاف ِظ ق رآن تھے ‪،‬ان کے عالوہ بھی ص ٴ‬
‫حابہ ک رام‪ ‬ک و اکٹھ ا ک رکے محض ان کے‬
‫نہیں تھی‪ ،‬اگر حضرت زید‪ ‬چاہتے تو اپنے حافظہ سے پورا قرآن مجید لکھ دیتے‪ ،‬یا حافظ ص ٴ‬
‫حافظے کی مدد سے بھی قرآن مجید لکھا جا سکتا تھا‪ ،‬اسی طرح محض رسول ہللا ﷺ کے زمانہ کی لکھی ہوئی آیتوں سے بھی ق رآن مجی د‬
‫لکھا جا سکتا تھا؛ لیکن حضرت ابوبکر‪ ‬نے بیک وقت سارے وس ائل ک و ب رروئے ک ار النے ک ا حکم فرمای ا‪ ،‬خ ود بھی ش ریک رہے‪ ،‬اور‬
‫حضرت عمر رضی ہللا عنہ کو بھی حضرت زید‪ ‬کے ساتھ لگایا۔ حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے اعالن فرمایا کہ‪:‬‬
‫‪          ‬جن لوگوں نے جو کچھ بھی آیت رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم س ے لکھی ہ و‪ ،‬وہ س ب لے ک ر آئیں! (فتح الب اری‪ )۹/۱۷‬چن انچہ جب‬
‫کوئی لکھی ہوئی آیت آتی تو بال چوں و چرا قبول نہ کی جاتی تھی؛ بلکہ اس پر دو گواہی طلب کی جاتی تھی‪:‬‬
‫‪          ‬وکان ال یَ ْقبَ ُل ِم ْن أح ٍد شیئا ً حتی یَ ْشھَ َد َشا ِھدَان۔ (االتقان‪)۱/۷۷ ‬‬
‫‪(          ‬ترجمہ‪ ):‬اور کسی سے بھی کوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب ت ک کہ اس پ ر دو گ واہ گ واہی نہ دے دی تے (کہ یہ‬
‫آیت رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی‪ ،‬یعنی اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی طرف سے اس کی تصدیق ہو چکی ہے کہ یہ‬
‫ت ٰالہی ہے)۔‬
‫واقعتا آی ِ‬
‫پیش نظر رکھی گئیں‪:‬‬
‫ِ‬ ‫‪          ‬جمع قرآن میں درج ذیل باتیں بھی‬
‫‪۱          ‬۔‪  ‬سب سے پہلے حضرت زید‪ ‬اپنی یاد داشت سے اس کی تصدیق فرماتے تھے۔‬
‫‪۲          ‬۔‪  ‬حضرت ابوبکر‪ ‬نے حضرت زید‪ ‬اور حضرت عمر‪ ‬دونوں حضرات کو حکم دیا تھ ا کہ‪” :‬آپ دون وں حض رات مس ج ِد نب وی‬
‫کے دروازے پر بیٹھ جاےئے‪ ،‬پھر جو کوئی آپ دونوں کے پاس کتاب ہللا کی کوئی آیت دو گواہوں کے ساتھ لے کر آئے ‪،‬اس کو آپ دون وں‬
‫لکھ لیجیے! (فتح الباری‪ ،۹/۱۷ ‬االتقان‪)۱/۷۷ ‬‬
‫‪           ‬رسول ہللا ﷺ کے سامنے کتابت ہونے پر گواہیاں لی جانے کی کیا وجہ تھی؟ اس سلسلے میں حافظ ابن حجر عس قالنی‪ ‬فتح الب اری‬
‫َب االّ ْ‬
‫من َع ْی ِن ما ُکتِ َ‬
‫ب بین یَ دَي الن بي ص لی ہللا علیہ وس لم ال ِم ْن ْم َج َّر ِد ال ِحف ظ ۔‪ ( ‬فتح الب اری‪،۹/۱۷ ‬‬ ‫میں لکھتے ہیں‪ ):‬کانَ غزضُھم أن ال یُ ْکت َ‬
‫االتقان‪)۱/۷۷ ‬‬
‫‪(           ‬ترجمہ‪ ):‬ان کا مقصد یہ تھا کہ‪ :‬صرف نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے عین سامنے لکھی گ ئی آیت وں ک و ہی لکھ ا ج ائے‪ ،‬محض‬
‫حافظہ سے نہ لکھا جائے۔‬
‫‪          ‬حافظ ابن حجر‪ ‬نے ہی ایک دوسری وجہ بھی لکھی ہے کہ‪ :‬گواہیاں اس بات پر بھی لی جاتی تھیں کہ‪ :‬دو گ واہ اس ب ات کی گ واہی‬
‫دیں کہ لکھی ہوئی آیت ان وجوہ (سبعہ) کے مطابق ہے جن پر قرآن مجید نازل ہوا ہے (فتح الباری‪ ،۱۷ /۹ ‬االتقان‪)۱/۷۷‬‬
‫قابل اعتماد‬
‫صحابہ کرام‪ ‬کے پاس موجود لکھے ہوئے مجموعوں سے مالیا جاتا؛ تاکہ یہ مجموعہ متفقہ طور پر ِ‬
‫ٴ‬ ‫‪۳          ‬۔‪  ‬لکھنے کے بعد‬
‫ہو جائے‪( ،‬البرہان في علوم القرآن للزرکشی‪)۱/۲۳۸ ‬‬
‫صحابہ کرام‪ ‬نے آپس میں مشورہ کی ا کہ‪ :‬اس‬
‫ٴ‬ ‫‪          ‬جب اجتماعی تصدیق کے ساتھ ”قرآن مجید“ کی جمع و تدوین کا کام مکمل ہو گیا‪ ،‬تو‬
‫صحابہ کرام‪ ‬نے اس کا نام‪ِ ” ‬س ْفر“‪ ‬رکھا؛لیکن یہ ن ام یہودی وں کی مش ابہت کی وجہ س ے پ اس نہیں ہ وا‪،‬‬
‫ٴ‬ ‫کو کیا نام دیا جائے؟ چنانچہ بعض‬
‫اخیر میں‪” ‬مصحف“‪ ‬نام پر سارے صحابہٴ کرام‪ ‬کا اتفاق ہو گیا۔ (االتقان‪)۱/۷۷ ‬‬
‫‪          ‬قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر‪ ‬کے پاس ان کی وفات تک رہا‪ ،‬پھر حضرت عمر‪ ‬کے پاس رہ ا‪ ،‬جب ان کی بھی‬
‫وفات ہو گئی تو ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر‪ ‬کے پاس محفوظ رکھاگیا‪ ،‬جیس ا کہ بخ اری ش ریف کے ح والے س ے گ ذر چک ا ہے‪،‬‬
‫حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے ان کے پاس سے ہی منگوا کر نقول تیار کرائے تھے۔‬
‫نسخہ صدیق کی خصوصیت‬
‫ٴ‬
‫‪          ‬دوسرے صحابہٴ کرام‪ ‬کے پاس بھی قرآن مجید لکھا ہوا تھا؛ لیکن جن خصوصیات کا حامل حض رت اب وبکر ص دیق‪ ‬واال اجم اعی‬
‫نسخہ تھا‪ ،‬ان سے دوسرے سارے نسخے خالی تھے‪ ،‬اسی وجہ سے صحابہٴ کرام‪ ‬کے درمیان اُسے ”اُم“ کہا جات ا تھ ا‪،‬اس کی خصوص یات‬
‫درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫رکار دوع الم ص لی ہللا علیہ وس لم نے بت ائی تھی (فتح‬
‫ِ‬ ‫‪ ۱          ‬ہر سورت ک و ال گ ال گ لکھ ا گی ا تھ ا؛ لیکن ت رتیب بعینہ وہی تھی‪ ،‬ج و س‬
‫الباری‪)۹/۲۲ ‬‬
‫‪ ۲          ‬اس نسخہ میں ساتوں حروف جمع تھے‪ ،‬جن پر قرآن مجید کا نزول ہوا۔ (مناہل العرفان‪)۲۴۷ ،۱/۲۴۶ ‬‬
‫”حیَ ِری“ میں لکھا گیا تھا۔ (تاریخ القرآن از موالنا عبد الصمد صارم‪ #‬ص‪)۴۳ ‬‬
‫‪ ۳          ‬یہ نسخہ خط ِ‬
‫‪ ۴          ‬اس میں صرف وہ آیات لکھی گئی تھیں‪ ،‬جن کی تالوت منسوخ نہیں ہوئی تھی۔‬
‫‪  ۵          ‬اس کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی ”اجماعی تصدیق“ سے تیار ہو جائے؛ تاکہ ضرورت پ ڑنے پ ر‬
‫اس کی طرف رجوع کیا جا سکے (علوم القرآن از مفتی محمد تقی عثمانی ص‪)۱۸۶‬‬
‫‪ ۶          ‬اس نسخہ میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر‪ ،‬ایک ہی جل د میں مجل د کرای ا گی ا تھ ا‪ ،‬اور یہ‬
‫کام حکومت کی طر ف سے انجام دیا گیا‪ ،‬جو کام رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو پایا تھا‪( ،‬تدوین قرآن ص‪)۴۰‬‬
‫‪          ‬وکان القرآنُ فیھا ُم ْنت َِشراً فَ َج َم َعھا جام ٌع و َربَطَھَا بخی ٍط ۔‪( ‬االتقان‪)۱/۸۳ ‬‬
‫‪(          ‬ترجمہ‪ ):‬اور (رسول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم کے گھ ر میں ق رآن مجی د کی مکم ل ی اد داش توں ک ا ج و ذخ یرہ تھ ا) اس میں (ق رآنی‬
‫سورتیں) الگ الگ لکھی ہوئی تھیں؛ پس اس کو (حضرت ابوبکر‪ ‬کے حکم سے) جمع کرنے والے (زید بن ثابت‪ )‬نے ای ک جگہ (س اری‬
‫سورتوں کو) جمع کر دیا‪ ،‬اور ایک دھاگا سے سب کی شیرازہ بندی کر دی۔‬
‫‪          ‬قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کے پاس رہا‪ ،‬جب ان وفات ہو گئی تو حضرت عمر رضی ہللا‬
‫المومنین حضرت حفصہ رض ی ہللا عنہ ا کے‬
‫عنہ کے پاس محفوظ رہا‪ ،‬جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو (وصیت کے مطابق) آپ کی بیٹی ام ٴ‬
‫پاس محفوظ رکھا رہا (صحیح بخاری‪)۲/۷۴۶ ‬‬
‫عہ ِد عثمانی میں امت کی شیرازہ بندی‬
‫جمع قرآن ہے‪ ،‬اسی طرح حض رت عثم ان غ نی رض ی ہللا‬
‫ِ‬ ‫‪           ‬جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ‬
‫عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ پوری امت کو قرآن مجید کے اس متفق علیہ نسخہ پر جمع کرنا ہے جو ”عہ ِد صدیقی“ میں تیار کیا گی ا تھ ا‪ ،‬اس‬
‫ت مسلمہ کا شیرازہ بکھرنے سے انہوں نے بچا لیا‪ ،‬اس کی تفصیل یہ ہے کہ‪:‬‬
‫طرح ام ِ‬
‫‪          ‬بالکل ابتداء میں مضمون و مع نی کی حف اظت ک رتے ہ وئے الف اظ میں ادنی تب دیلی کے س اتھ پڑھ نے کی اج ازت بھی دی گ ئی تھی‪،‬‬
‫(مناہل العرفان) جب حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ ک ا زم انہ آی ا اور اس الم ک ا دائ رہ بہت وس یع ہ و گی ا‪ ،‬ت و جن لوگ وں نے م ذکوہ ب اال‬
‫رعایتوں کی بنیاد پر اپنے اپنے قبائلی اور انفرادی لہجوں یا مختلف متواتر تلفظ کے لحاظ س ے ق رآن مجی د کے مختل ف نس خے لکھے تھے‪،‬‬
‫حابہ ک رام ‪ ‬کے مش ورے س ے حض رت‬
‫انکے درمیان شدید اختالف رونما ہو گیا؛ حتی کہ ای ک دوس رے کی تکف یر کی ج انے لگی‪ ،‬ت و ص ٴ‬
‫عثمان غنی رضی ہللا نے حضرت ابوبکر ص دیق رض ی ہللا عنہ کے تی ار ک ردہ متف ق علیہ نس خہ پ ر امت ک و جم ع کی ا‪ ،‬اور اس کے عالوہ‬
‫نذر آتش کر دیا؛ تاکہ ”نہ رہے بانس نہ بجے بانسری“؛ چنانچہ اختالف جڑ سے ختم ہ و گی ا (تفص یل کے لے‬
‫سارے نسخوں کو طلب کرکے ِ‬
‫تدوین قرآن‪ ،۵۴ ،۴۴ ‬تحفة االلمعی‪ ،۷/۹۴،۹۵ ‬مناہل العرفان وغیرہ)‬
‫ِ‬ ‫دیکھئے‪:‬‬
‫کام کی نوعیت‬
‫‪          ‬حضرت عثمان غنی‪ ‬رضی ہللا عنہ نے حضرت حفصہ رضی ہللا عنہا کے پاس سے‪ ،‬حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ ک ا تی ار‬
‫کردہ نسخہ یہ کہہ کر منگوایا کہ ہم اس سے نقل تیار کرکے اصل آپ ک و واپس ک ر دیں گے‪ ،‬چن اں چہ حض رت حفصہ‪ ‬نے وہ نس خہ بھیج‬
‫دیا‪ ،‬حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے تین قریشی اور چوتھے انصاری صحابی‪ ‬کو پانچ یا سات نسخے لکھنے کا حکم فرمای ا‪ ،‬قریش ی‬
‫صحابی میں‪ ،‬حضرت عبدہللا بن زبیر‪ ،‬سعید بن العاص اور عبدالرحمن بن الحارث بن ہش ام رض ی ہللا عنہم تھے اور انص اری ص حابی س ے‬
‫مراد حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنہ ہیں۔‬
‫‪          ‬ان سب کو حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے یہ بھی ہدایت دی تھی کہ آپ حضرات کا اگ ر کس ی جگہ رس م الخ ط میں حض رت‬
‫زید‪  ‬سے اختالف ہو تو اس لفظ کو قریش کے رسم الخط کے مطابق لکھیں؛ اس لیے کہ ق رآن مجی د ق ریش کی لغت میں ن ازل ہ وا ہے (فتح‬
‫الباری‪)۹/۲۲ ‬۔‬
‫ورہ بق رہ میں‬
‫‪          ‬معتبر روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ‪ :‬پورے قرآن مجید کے کسی لفظ میں بھی ان لوگوں ک ااختالف نہیں ہ وا‪ ،‬ہ اں! س ٴ‬
‫ایک لفظ ”التابوت“ ہے‪ ،‬اس کے بارے میں حضرت زید‪ ‬کی رائے گول ”ة“ س ے لکھ نے کی تھی‪ ،‬اور حض رت س عید بن الع اص‪ ،‬لم بی‬
‫”ت“ سے لکھنا چاہتے تھے‪ ،‬جب یہ بات حضرت عثمان غنی‪ ‬کے پاس پہنچی تو آپ‪ ‬نے لمبی ”ت“ سے لکھنے کا حکم فرمای ا۔ (تفص یل‬
‫کے لیے دیکھیے‪ :‬سیر أعالم النبالء مع حاشیہ‪)۲/۴۴۱،۴۴۲ ‬۔‬
‫‪          ‬واضح رہے کہ مذکورہ باال چار حض رات ”مجلس کت ابت“ کے اساس ی رکن تھے‪ ،‬ان کے عالوہ دوس رے حض رات ک و بھی ان کے‬
‫ساتھ کیا گیا تھا‪ ،‬فتح الب اری میں ہے کہ حض رت عثم ان‪ ‬نے ق ریش اور انص ار کے ب ارہ اف راد ک و اس کے ل یے جم ع فرمای ا تھ ا‪ ،‬ان میں‬
‫م ذکورہ چ اروں حض رات کے عالوہ اُبی بن کعب‪ ،‬مال ک بن ابی ع امر‪ ،‬کث یر بن افلح‪ ،‬انس بن مال ک اور عب دہللا بن عب اس رض ی ہللا عنہم‬
‫اجمعین خاص طور پر قاب ِل ذکر ہیں۔ (فتح الباری‪)۹/۲۳ ‬۔‬
‫عہد عثمانی میں تیار کردہ نسخوں کی خصوصیات‬
‫‪۱          ‬۔حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کے عہد خالفت میں جو نس خہ تی ار ہ وا تھ ا‪ ،‬اس میں س اری س ورتیں ال گ ال گ لکھی گ ئی‬
‫تھیں‪ ،‬حض رت عثم ان رض ی ہللا عنہ نے تم ام س ورتوں ک و اس ی ت رتیب س ے یکے بع د دیگ رے ای ک ہی مص حف میں لکھوای ا۔ (فتح‬
‫الباری‪)۹/۲۲ ‬۔‬
‫‪۲          ‬۔قرآن مجید ایسے رسم الخط میں لکھا گیا کہ ممکن حد تک متواتر قرأتیں سما جائیں۔ (مناہل العرفان‪)۱/۲۵۳ ‬‬
‫‪۳          ‬۔حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے جن حضرات کو نسخہٴ قرآن تیار کرنے کے لیے م امور فرمای ا تھ ا‪ ،‬ان حض رات نے اس ی‬
‫نسخہ کو بنیاد بنایا تھا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کے زمانہ میں تیار کی ا گی ا تھ ا‪ ،‬اس ی کے س اتھ مزی د احتی اط کے ل یے وہی‬
‫طریقہ اختیار فرمایا جو حضرت ابوبکر رضی ہللا عنہ کے زمانہ میں اختیار کیا گیا تھا؛ چنانچہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے زم انہ کی‬
‫حابہ ک رام‪ ‬کے پ اس محف وظ تھیں‪ ،‬انھیں دوب ارہ طلب کی ا گی ا اور ان کے س اتھ از س رنو مق ابلہ ک ر کے یہ‬
‫متفرق تحریریں جو مختلف ص ٴ‬
‫نسخے تیار کیے گئے۔ (علوم القرآن ص‪)۱۹۱‬‬
‫عہ ِد عثمانی میں تیار کردہ نسخوں کی تعداد‬
‫‪          ‬اس سلسلے میں دو اقوال ہیں‪ ،‬ایک قول یہ ہے کہ حضرت عثم ان غ نی رض ی ہللا عنہ نے پ انچ نس خے تی ار ک رائے تھے‪ ،‬یہی ق ول‬
‫زیادہ مشہور ہے۔ (فتح الباری‪)۹/۲۴ ‬اور دوسرا اقوال یہ ہے کہ حضرت عثمان‪ ‬نے سات نسخے تیار کرائے تھے‪ ،‬ایک نسخہ مدینہ من ورہ‬
‫میں رکھ ا گی ا‪ ،‬اور بقیہ مکہ‪ ،‬ش ام‪ ،‬یمن‪ ،‬بح رین‪ ،‬بص رہ ور ک وفہ میں ای ک ای ک ک رکے بھیج دی ا گی ا‪ ،‬یہ ق ول ابن ابی داؤد س ے اب و ح اتم‬
‫سجستانی‪ ‬نے نقل کیا ہے۔ (فتح الباری‪)۹/۲۵‬۔‬
‫امت میں پائے جانے والے دیگر مصاحف‬
‫نذر آتش ک رنے ک ا حکم‬
‫صحابہ کرام‪ ‬اور تابعین عظام‪ ‬کے پاس موجود سارے نسخوں کو ِ‬
‫ٴ‬ ‫‪          ‬حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے‬
‫ت مسلمہ ایک رسم الخط پر متفق ہوجائے اور امت کی شیرازہ بندی باقی رہے۔‬
‫نافذ فرما دیا (فتح الباری‪ )۹/۱۳ ‬تاکہ ام ِ‬
‫‪          ‬اس وقت موجود بال استثناء س ارے ص حابہٴ ک رام‪ ‬نے حض رت عثم ان‪ ‬کے اس کارن امے کی تائی د و حم ایت کی اور خ وب خ وب‬
‫سراہا۔‬
‫عہد صدیقی واال نسخہ‬
‫المومنین حضرت حفصہ‪ ‬سے حض رت اب وبکر ص دیق رض ی ہللا عنہ واال نس خہ واپس ی‬
‫‪           ‬حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے ام ٴ‬
‫ب وعدہ واپس فرما دیا۔ (فتح الباری‪)۱۳۹‬۔‬
‫کے وعدے سے منگوایا تھا (فتح الباری‪ )۹/۱۹ ‬؛اس لیے اس سے نقلیں تیار کرکے حس ِ‬

You might also like