You are on page 1of 7

ISLAMIA COLLEGE UNIVERSITY PESAWAR

Assignment No: 02
Name: Mehran Anwar Khan Afridi
Roll No: 2012O4
Section: "B" (1 Semester)
st

Subject: Islamiyat
Department: "SOFTWARE"
Submitted To: Mam Adeeba
‫حج کی فضیلت و اهمیت‬

‫حج کی لغوی اور اصطالحی معنی‪:‬‬


‫لغت میں حج کے معنی ہیں قصد‬
‫کرنا۔ اور عرف شروع میں کعبتہ ہّٰللا کی زیارت کے لئے معین وقت اور‬
‫محصوص حالت اور مخصوص آداب سے سفر کرنے کو حج کہتے ہیں ۔‬
‫حج اسالم کے ارکان خمسہ میں سے سب سے جامع رکن ہے ۔ کیونکہ‬
‫نماز اور روزہ صرف بدنی عبادات ہیں اور ٰ‬
‫زکو ٘ہ مالی عبادت ہے ‪،‬‬
‫جبکہ حج و عمرہ مالی اور بدنی ہر قسم کی عبادات کا مجموعہ ہے ۔‬

‫‪:‬حج کی اهمیت و فرضیت‬


‫حج اسالم کا بنیادی رکن ‪ ،‬اس کی صداقت کی‬
‫واضح برحان ‪ ،‬اسالمی مساوات کا عملی نمونہ اور اس کے عالمگیر‬
‫مذہب ہونے کی دلیل ہے ۔ اس جیسا پر شکوہ اجتماع ‪ ،‬اور مقام اجتماع‬
‫کسی اہل مذہب کے پاس نہیں ہے ۔ یہ اسالم کی قدامت و صداقت کی سب‬
‫مقام ابراہیم جیسی تاریخی جگہوں کی وارث‬
‫سے بڑی دلیل ہے کیونکہ ِ‬
‫صرف یہ امت ہے ۔حج تو حیدربانی کا سب سے بڑا مظہر ہے ۔‬
‫هللا تعان کا ارشاد ہے ۔( آل عمران‪) ۹۷‬‬
‫ترجمہ‪ :‬اور لوگوں پر هللا کا یہ حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے‬
‫کی استطاعت رکھتا ہو ‪ ،‬وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس کے حکم‬
‫کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ہّٰللا تمام دنیا‬
‫والوں‪ b‬سے بے نیاز ہے۔‬
‫صحیح مسلم‪ ،‬نسائی اور مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ رضی سے‬
‫مروی ہے کہ رسول ہّٰللا ﷺ نے فرمایا اے “لو گو! تم پر‬
‫حج فرض کیا گیا ہے ٰلہزا تم حج کرو ایک آدمی نے کہا ‪ :‬اے ہللا کے‬
‫رسولﷺ! کیا ہر سال حج کریں ؟ نبی‬
‫کریمﷺ نے ارشادفرمایا” اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال‬
‫حج کرنا واجب ہو جاتا اور تم اس کی طاقت نہ پاتے "۔‬
‫مسند احمد اور داری میں سوال کرنے والے اس شخص کا نام بھی‬
‫مذکور ہے جو کہ حضرت اقرع بن حابس رضی ہیں! اس سے معلوم ہوا‬
‫کہ حج و عمرہ زندگی میں صرف ایک ہی مرتبہ فرض ہے! اصحیح‬
‫بخاری میں ابن عمررضی کی روایت ہے کہ رسول ہّٰللا ﷺ‬
‫نے فرمایا کہ اسالم کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے کلمہ توحید و رسالت ‪،‬‬
‫زکوة ‪ ،‬حج بیت ہّٰللا اور صيام رمضان ۔‬
‫صلوۃ ‪ ،‬ادائے‪ٰ b‬‬
‫ٰ‬ ‫اقامت‬
‫طاقت کے باوجود نہ کرنے واال مسلمان نہیں ہے۔حضرت علی رضی کی‬
‫روایت ہے کہ جس نے طاقت اور وسائل ہونےکے باوجود حج نہیں کیا‪،‬‬
‫اس کے لئے برابر ہے کہ وہ یہودی مرےیا عیسائی۔ امیرالمومنین‬
‫حضرت عمررضی نے ایسے لوگوں سےغیر مسلمانوں کی طرح جزیہ‬
‫وصول کرنے کا اعالن کیا تھا۔‬

‫‪:‬نفلی حج کی فضیلت‬
‫اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ مرتبہ حج کرے تو وہ‬
‫نفلی ہو گا ۔ جس کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے! صحیح بخاری ومسلم‬
‫میں حضرت ابوہریرہ رضی سے ارشاد نبوی ہے ایک عمرہ دوسرے‪b‬‬
‫عمرہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا تو جنت ہے!‬
‫اس حدیث کو نقل کر تے ہوئے الشیخ عبد العزيز بن بازر نے لکھا ہے‬
‫کہ نفلی حج وعمرہ میں کثرت مسنون ہے ۔‬

‫‪:‬فریضہ حج کی ادائیگی میں جلدی کرنی چاهیے‬


‫جب کوئی اتنی رقم ‪ ،‬حاالت اور وسائل کا مالک ہو جائے‬
‫کہ وہ حج کر سکتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ فوراً اس فریضہ کی‬
‫ادائیگی سے سبکدوش ہو جائے ۔ کیونکہ مسند احد میں ارشاد‬
‫نبویﷺ ہے فریضہ حج کی ادائیگی میں جلدی کرو اس‬
‫لیے کہ تم میں سے کوئی یہ شخص نہیں جانتا کہ اسے کب کوئی بیماری‬
‫یا شدید ضرورت اس سے روک دے ۔ اگر کوئی صاحب استطاعت حج‬
‫کئے بغیر فوت ہو جائے تو اس کے ورثاء اس کی طرف سے حج بدل‬
‫کروائیں ۔‬

‫‪:‬تاخیر یا ترک حج پر وعید‬


‫جو شخص استطاعت کے باوجود‪ b‬اپنے دنیاوی مشاغل‬
‫میں مصروف رہے اور جان بوجھ کرفریضہ حج کی ادائیگی کو موخر‬
‫حتی کہ اس حالت میں اسے حج کئے بغیر ہی موت آ جائے‬ ‫کر تا جا ئے ٰ‬
‫اس کے بارے میں بڑی سخت وعید آئی ہے ۔ ایک حدیث قدسی ہے کہ‬
‫نبی کریمﷺ نے فرمایا " هللا فرماتے ہیں ! میں نے اپنے‬
‫بندے کو جسمانی صحت اور مالی وسعت عطا کی مگر پھر بھی پانچ‬
‫سال گزرنے کے باوجود وہ حج کے لیے نہیں آتا ۔ ایسا آدمی فضائل و‬
‫برکات سے محروم ہوتا ہے ۔‬

‫سنن سعید بن منصور میں حضرت فاروق اعظم رضہ کا ارشاد ہے “میں‬
‫نے ارادہ‪ b‬کیا کہ ان شہروں کی طرف اپنے آدمی بھیجوں ۔ وہ ہر اس‬
‫آدمی کا پتہ چالئیں جس نے طاقت کے باوجود حج نہ کیا ہو کہ میرے‬
‫آدمی ایسے لوگوں پر غیر مسلموں سے لیا جانے واال ٹیکس ( جز یہ)‬
‫نافذکریں ۔ اور آخر میں فرمایا‪”:‬وہ مسلمان نہیں ہیں! وہ مسلمان نہیں ہیں‬

‫‪ :‬حج کی فرضیت کے لیے شرائط‬


‫چونکہ بیت هللا کا سفر ہر مسلمان نہیں کر سکتا ‪ ،‬اس‬
‫لیے اسالم نے بموجب عام اصول‪ b‬اَل يُ َكلّ ُ‬
‫ف هللاُ نَ ࣿف سا ً اَاَّل ُو ࣿس َعھَا فرضیت‬
‫حج کے باب میں بھی مستطیح اور غیر مستطیح میں تمیز بھی رکھی ہے‬
‫۔ چنانچہ فرمایا ( آل عمران ‪) ۹۷‬‬
‫ترجمہ‪ :‬لوگوں‪ b‬پر فرض ہے کہ وہ ہللا کی رضامندی کے لیے بیت هللا کا‬
‫قصد کر یں ( یہ حکم اس کے لیے ہے) جو وہاں تک پہنچنے کی طاقت‬
‫رکھتا ہو ۔‬
‫۔ استطاعت میں یہ چیزیں ضروری ہیں‬
‫زاد سفر یعنی اتنا خر چ جو اہل و عیال کی حاجات سے زائد ہو اور )‪1‬‬
‫ب‬ ‫ہّٰللا‬
‫بیت شریف تک پہنچے اور وہاں سے واپس آنے کے لیے حس ِ‬
‫ضرورت زمانہ ۔۔۔۔۔۔‪ b‬کافی ہو۔‬
‫راحله ( سواری ) اگر سفر لمبا ہے اور بغیر سواری کے بیت ہّٰللا تک )‪2‬‬
‫پہنچنا دشوار ہو تو اس سواری کا میسر آ سکنا جو وہاں تک پہنچا سکے۔‬
‫)راستے کا پُرامن ہونا۔ ‪3‬‬
‫بدن کی صحت و تندرستی۔ )‪4‬‬
‫عورت کے لیے پانچویں چیز زائد ہے کہ اس کے ساتھ کوئی محرم )‪5‬‬
‫شریک سفر ہو۔‬
‫عورت کے لیے حالت سفر میں کسی محرم کے ساتھ ہونے کی ضرورت‬
‫اور مصلحت میں کوئی کالم نہیں ۔ لیکن خاص سفر حج یا سفر جہاد‬
‫وغیرہ ضروری اور دینی سفروں میں بنا بر حاالت اکابر علماء نے کالم‬
‫کیا ہے ۔ بعض تو عام سفر اور سفرحج وغیرہ کے ضروری دینی سفروں‬
‫میں فرق نہیں کرتے ۔ لیکن ان کے مقابلہ میں دوسراگروہ ان میں فرق‬
‫کر کے کہتا ہے کہ وجوب حج کے لیے جوشرائط مردوں کے لیے ہیں‬
‫وہی عورتوں کے لیے ہیں ۔ یعنی زاد سفر ‪ ،‬سواری ‪ ،‬راستے کا پُرامن‬
‫ہونا اور جسمانی صحت ۔ ان شرائط کی موجودگی میں جس عورت پر‬
‫حج فرض ہو جائے لیکن رفاقت کے لیے اس کو کوئی محرم میسر نہ‬
‫آئے تو وہ عورت حج کا فرض ادا‪ b‬کر نے کے لیے معتبر عورتوں کی‬
‫رفاقت میں بغیر محرم کے بھی سفر کر سکتی ہے۔‬
‫حضرت عمررضہ کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت خاوند کی‬
‫وفات کی وجہ سے عدت گزار رہی ہو تو اسے بھی سفرحج پر روانہ‬
‫ہونا چاہیے ۔ چنانچہ آپ رضہ ایسی عورتوں کو واپس لوٹا دیا کرتے‬
‫تھے۔‬
‫ہمارا خیال ہے کہ حاالت کو دیکھ کر ہی حکم لگایا جا سکتا ہے ۔ اگر‬
‫مستقبل قریب میں سفر کا امکان نہ ہو اور عمر زیادہ ہے ‪ ،‬فتنے کا ڈر نہ‬
‫ہو ‪ ،‬رفقاء سفر میں خواتین جانی پہچانی ہوں تو فریضہ حج کی ادائیگی‬
‫میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔‬

‫‪:‬حج بدل کی اجازت‬


‫دائمی مریض یا سفر کے نا قابل بوڑھا صاحب استطاعت‬
‫شخص اگر خود حج نہ کر سکے تو وہ اپنے خرچ پر کسی دوسرے‬
‫شخص کو جو اپنا فریضہ حج ادا کر چکا ہو ‪ ،‬اپنی بجا ئے بھیج کرحج‬
‫کراسکتا ہے۔‬

You might also like