You are on page 1of 11

‫مسئلہ کشمیر‬

‫مسئلہ کشمیر‪ :‬دو ملکوں کے سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل‬


‫آکن لیک کے کیریئر کے وہ چار دن جن میں مسئلہ‬
‫کشمیر پہلے پیچیدہ ہوا‪ ،‬پھر ناقابل حل‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪KEYSTONE/GETTY IMAGES‬‬
‫سابق وزیر اعظم پاکستان چوہدی محمد علی نے اپنی کتاب ’ایمرجنس آف پاکستان‬
‫(ظہور پاکستان)‘ میں لکھا ہے کہ ‪ 15‬اگست ‪ 1947‬کو جب انڈیا نے اپنا پہال یوم‬ ‫ِ‬
‫آزادی منایا‪ ،‬تو ریاست جموں و کشمیر اور اس کے تمام صوبوں میں ’یوم پاکستان‘‬
‫منایا گیا۔‬
‫بس اسی روز سری نگر اور دلی میں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔ مشرقی پنجاب کی‬
‫مسلم اکثریتی ریاستوں کپور تھلہ اور پٹیالہ کے مہاراجے سری نگر پہنچے‪ ،‬ان‬
‫ریاستوں کے غیر مسلم حکمرانوں نے آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے جو طریقہ‬
‫کار اختیار کیا تھا‪ ،‬اس سے متعلق مہاراجہ کشمیر کو آگاہ کیا۔‬
‫نتیجہ یہ نکال کہ پوری ریاست میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا‬
‫جس میں کافی تعداد میں ہالکتیں ہوئیں۔‬
‫چوہدری محمد علی کے مطابق نسل کشی کی اس مہم میں ڈوگرہ فوج کے عالوہ آر‬
‫ایس ایس کے مسلح جتھوں اور سکھوں نے بھی حصہ لیا۔ سرکاری حکم کے تحت‬
‫ریاست کی اکثریتی آبادی سے اسلحہ لے لیا گیا اور یہ نہتے لوگ ریاستی فوج سمیت‬
‫دیگر مسلح گروہوں کا نشانہ بن گئے۔ انھوں نے اس کتاب میں بعض اخبارات کے‬
‫حوالے سے ان جانی نقصانات کے اعداد و شمار بھی درج کیے ہیں۔‬
‫کولکتہ (اس زمانے میں کلکتہ) کے ممتاز روزنامے ’دی سٹیٹس مین‘ کے ایڈیٹر این‬
‫اسٹیفنز نے لکھا کہ ریاست جموں و کشمیر میں ان واقعات کا آغاز اگست میں ہوا اور‬
‫یہ واقعات آئندہ گیارہ ہفتوں تک جاری رہے جن میں ریاست پٹیالہ اور کپور تھلہ کے‬
‫قتل عام کی طرح یہاں بھی خون ریزی ہوئی‪ ،‬جس میں پانچ الکھ افراد ہالک کر دیے‬
‫گئے جبکہ الپتہ ہونے والے دو الکھ سے زائد تھی۔‬
‫اخبار ٹائمز لندن نے ‪ 10‬اکتوبر ‪ 1947‬کی اشاعت میں لکھا کہ اس عرصے کے‬
‫دوران ہالک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد دو الکھ ‪ 37‬ہزار تھی۔‬
‫ان واقعات کا ردعمل دو طرح سے سامنے آیا۔‬
‫ڈوگرہ فوج کی کارروائیوں کے خالف ضلع پونچھ کے عالقوں میں اگست ‪ 1947‬میں‬
‫ت حال اتنی خراب ہو گئی کہ ان لوگوں کے پاس کوئی‬ ‫ہی لوگ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ صور ِ‬
‫چارہ نہ رہا کہ وہ اپنے اہل و عیال کو پنجاب میں بکھرے ہوئے اپنے رشتے داروں‬
‫کی پناہ میں دے کر جوابی کارروائی شروع کر دیں۔‬
‫کسی باقاعدہ فوج سے جنگ ان کے لیے مشکل نہ تھی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ان‬
‫لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو دوسری عالمی جنگ میں شرکت کا موقع مال تھا۔ ان‬
‫لوگوں نے سردار عبد القیوم خان کی قیادت میں متحد ہو کر جوابی کارروائی کی جس‬
‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪1‬‬
‫کے نتیجے میں آئندہ چھ ہفتوں کے دوران وہ میرپور سمیت دیگر بہت سے عالقوں‬
‫سے ڈوگرہ فوج کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔‬
‫وزیرستان کے محسود اور آفریدی قبائل تک مسلمانوں کی خونریزی کی داستانیں اور‬
‫پونچھ کے عوام کی طرف سے مزاحمت کی خبریں پنجاب سے ہوتے ہوئے اِن تک‬
‫پہنچیں تو وہاں کے لوگوں نے ’اپنے مسلمان بھائیوں پر ہونے والے مظالم کے خالف‬
‫کارروائی کا فیصلہ کیا اور لشکر کی صورت میں سری نگر کی طرف روانہ ہو‬
‫گئے۔‘‬
‫یہ قبائلی ‪ 26‬اکتوبر تک سری نگر کے مضافات میں پہنچ چکے تھے ’لیکن ان کی‬
‫روانگی کی اطالع حکومت پاکستان کو نہیں تھی۔‘ بس یہی واقعہ تھا جو اونٹ کی کمر‬
‫پر تنکا ثابت ہوا اور انڈیا نے ریاست اور خاص طور پر سری نگر میں اپنی فوج اُتار‬
‫دی۔ ان کا موقف ہے کہ ’اس موقع پر اگر دونوں ملکوں کے مشترکہ سپریم کمانڈر آکن‬
‫لیک نے اپنی غیر جانب داری ترک نہ کی ہوتی تو تاریخ مختلف ہوتی۔‘‬
‫بانی پاکستان اور گورنر جنرل محمد علی جناح تک سری نگر میں انڈین فوج کے‬
‫اترنے کی خبر اگلے روز یعنی ‪ 27‬اکتوبر کو پہنچی تو انھوں نے پاکستان کی مسلح‬
‫افواج کے برطانوی قائم مقام کمانڈر ان چیف جنرل سر ڈگلس گریسی کو ہدایت کی کہ‬
‫وہ فوج کو فوری طور پر متحرک کر کے پہلے راولپنڈی‪ ،‬سری نگر روڈ کے درے‬
‫اور اس کے بعد درہ بانہال یعنی سری نگر جموں روڈ پر قبضہ کر کے انڈین فوج کے‬
‫مواصالتی رابطے منقطع کر دیں۔‬
‫گورنرجنرل نے انھیں جو احکامات دیے تھے‪ ،‬جنرل گریسی انھیں عملی جامہ پہنانے‬
‫کے بجائے ٹیلی فون پر دونوں ملکوں کی فوج کے سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل سر کالؤڈ‬
‫آکن لیک تک پہنچا دیے۔ ایسا کر کے انھوں نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تھا۔‬
‫جنرل گریسی نے گورنرجنرل سے کہا تھا کہ وہ سپریم کمانڈر فیلڈ مارشل آکن لیک‬
‫کی اجازت کے بغیر کسی کارروائی کے مجاز نہیں۔‬
‫انڈین فوج کی چھاتہ بردار بریگیڈ کو دیا جانے واال حکم ‪ 26‬اکتوبر ہی کو پاکستانی‬
‫فوج نے سن لیا تھا جس سے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) راولپنڈی کو بھی آگاہ کر‬
‫دیا گیا لیکن کیا وجہ تھی کہ فوج کے قائم مقام سربراہ جنرل گریسی نے اس کی خبر‬
‫بانی پاکستان تک نہ پہنچائی‪ ،‬حاالنکہ اُس روز وہ الہور میں ہی تھے۔ اس اہم سوال کا‬
‫جواب بعد میں پیش آنے والے واقعات سے ملتا ہے۔‬
‫فیلڈ مارشل آکن لیک نے جنرل گریسی کو کارروائی سے روک دیا‪ ،‬اگلے روز خود‬
‫الہور پہنچ گئے اور بانی پاکستان سے مالقات کی۔ انھوں نے بانی پاکستان کے سامنے‬
‫تجویز پیش کی کہ پاکستان اور انڈیا کے گورنر جنرلز اور وزرائے اعظم کی کانفرنس‬
‫منعقد کر کے مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کر لیا جائے۔‬
‫بانی پاکستان نے یہ تجویز قبول کر کے فوجی کارروائی کا حکم واپس لے لیا۔ انڈیا‬
‫کے گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن بھی اس تجویز سے متفق ہو گئے لیکن سردار پٹیل نے‬
‫اس کی مخالفت کر دی‪ ،‬اور وزیر اعظم پنڈت جواہر الل نہرو نے بھی اس اجالس میں‬
‫شرکت سے انکار کر دیا۔‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪2‬‬


‫طے پایا تھا کہ یہ کانفرنس ‪ 29‬اکتوبر کو الہور میں ہو گی لیکن یہ کانفرنس آئندہ‬
‫کبھی نہ ہو سکی۔ اس کا سبب کیا تھا‪ ،‬اس سوال کاجواب الرڈ ماؤنٹ بیٹن کی‬
‫سرگرمیوں سے ملتا ہے جو یکم نومبر کو اگرچہ الہور آ تو گئے تھے لیکن اس سے‬
‫حاالت کو بہتر بنانے میں کوئی مدد نہ مل سکی۔‬
‫اس کانفرنس کی تجویز بانی پاکستان نے پیش کی تھی لیکن سردار ولبھ بھائی پٹیل‪،‬‬
‫نہرو اور ماؤنٹ بیٹن کے الہور جانے کے مخالف تھے‪ ،‬ان کا کہنا تھا کہ جارحیت‬
‫پاکستان کی طرف سے ہوئی ہے‪ ،‬اس لیے ’مسٹر جناح کو دلی آنا چاہیے۔‘ یوں یہ‬
‫کانفرنس کبھی منعقد نہ ہو سکی۔‬
‫انڈیا کے وزیر اعظم پنڈت جواہر الل نہرو مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے الہور‬
‫نہیں گئے تھے‬
‫کشمیر کے انڈیا سے الحاق کے لیے کانگریسی قیادت نے ایک طویل المیعاد حکمت‬
‫عملی اختیار کر رکھی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ اس معاملے کو حیدر آباد دکن کے‬
‫انضمام کے فیصلے تک نہ چھیڑا جائے۔ اس کے پس پشت ایک حکمت یہ تھی کہ‬
‫حیدر آباد دکن ہندو اکثریتی ریاست تھی جس کے حکمراں مسلمان تھے جب کہ کشمیر‬
‫مسلم اکثریتی ریاست تھی جس کے حکمراں ہندو تھے۔‬
‫کانگریس نہیں چاہتی تھی کہ حیدر آباد کے تصفیے سے پہلے مہاراجہ کشمیر انڈیا‬
‫سے الحاق کرے‪ ،‬ایسی صورت میں مسلم اکثریتی ریاست کے انڈیا سے انضمام کا‬
‫دعوی کمزور ہو جاتا اور امکان پیدا ہو جاتا کہ حکمران کے مذہب کی بنیاد پر انضمام‬ ‫ٰ‬
‫کی نظیر پر عمل کرتے ہوئے نظام حیدر آباد پاکستان سے الحاق کا اعالن کر دیتے‪،‬‬
‫ٰلہذا اس منصوبے کے پیش نظر کانگریسی قیادت نے کشمیر کے بارے میں خاموشی‬
‫اختیار کیے رکھی‪ ،‬البتہ الحاق کے سلسلے میں مہاراجہ سے خفیہ مفاہمت پر کام‬
‫جاری رکھا۔ چوہدری محمد علی کے مطابق گاندھی جی کا دورہ سری نگر بھی اسی‬
‫سلسلے کی کڑی تھا۔‬
‫گاندھی جی کے دورہ کشمیر کے دو مقاصد تھے‪ ،‬پہلے نمبر پر شیخ عبدہللا کی رہائی‬
‫اور دوسرے انضمام کے سلسلے میں کشمیری عوام کے جذبات سے آگاہی حاصل‬
‫کرنا۔‬
‫شیخ عبدہللا کی رہائی سے متعلق گاندھی درست انداز میں سوچ رہے تھے کیونکہ‬
‫کشمیر میں ایک وہی تھے جو یہاں کے لوگوں میں اتحاد قائم کر سکتے تھے۔ شیخ عبد‬
‫ہللا امید کی سب سے بڑی کرن اس لیے تھے کہ انھوں نے حقیقت پسندی سے کام‬
‫لیتے ہوئے مسٹر جناح کے دو قومی نظریے کو مسترد کر دیا تھا۔‬
‫انڈین حکومت قبائلیوں سے مقابلے کے لیے فوجی کارروائی کے لیے بے چین تھی‬
‫اور فوری طور پر کوئی کارروائی کرنا چاہتی تھی۔‬
‫کشمیر میں صورت حال خراب ہو چکی تھی‪ ،‬مظفر آباد میں ڈوگرہ فوج میں شامل‬
‫مسلمان فوجی اپنے کمانڈر لیفٹننٹ کرنل اور اس کے عملے کو قتل کر کے حملہ آور‬
‫قبائلی جتھے میں شامل ہو چکے تھے۔‬
‫ان جتھوں کی قیادت باقاعدہ فوجی کر رہے تھے اور وہ بھاری اسلحے سے لیس تھے۔‬
‫قبائلی لشکر غیر منظم اور غیر پیشہ ورانہ انداز میں آگے بڑھ رہا تھا‪’ ،‬قبائلی اگر‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪3‬‬


‫منظم ہوتے اور مال غنیمت جمع نہ کرنے لگ جاتے تو ‪ 26‬اکتوبر کو سری نگر ان‬
‫کے قبضے میں ہوتا۔‘‬
‫یہ پس منظر تھا جس میں مہاراجہ ہری سنگھ نے ‪ 24‬اکتوبر کو مدد کی باقاعدہ‬
‫درخواست کی لیکن الرڈ ماؤنٹ بیٹن کا خیال تھا کہ جب تک اصل صورت حال سے‬
‫واقفیت نہ ہو جائے‪ ،‬کوئی قدم اٹھانا مناسب نہ ہو گا‪ ،‬چنانچہ حاالت کا جائزہ لینے کے‬
‫لیے وی پی مینن کو کشمیر بھیجا گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب وہ سری نگر اترے تو‬
‫وہاں قبرستان جیسی خاموشی تھی‪ ،‬فوج اور پولیس منتشر ہو چکی تھی اور شہر کا‬
‫انتظام نیشنل کانفرنس کے ڈنڈا بردار رضا کار چال رہے تھے۔‬
‫یہ صورت حال دیکھ کر وی پی مینن نے مہاراجہ کو خاندان سمیت جموں منتقل ہونے‬
‫کا مشورہ دیا اور خود دلی پہنچ کر دورے کی رپورٹ پیش کی لیکن ماؤنٹ بیٹن اب‬
‫بھی کارروائی کرنے پر تیار نہیں تھے‪ ،‬ان کا کہنا تھا کہ جب تک انضمام نہیں ہو‬
‫جاتا‪ ،‬کارروائی نہیں ہو سکتی‪ ،‬چنانچہ وی پی مینن نے فورا ً جموں جا کر مہاراجہ‬
‫سے انضمام کی دستاویز دستخط لے کر انھیں دلی پہنچایا۔‬
‫وہ لکھتے ہیں کہ اب کارروائی کے راستے میں حائل رکاوٹ دور ہو چکی تھی۔ ‪26‬‬
‫اکتوبر سے ہی فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔‬
‫الرڈ ماؤنٹ بیٹن نے ‪ 27‬اکتوبر کو انضمام کی دستاویز پر دستخط کیے تھے‪ ،‬اس لیے‬
‫کارروائی کا ایک دن پہلے شروع ہونے کا کوئی جواز نہ تھا۔ تاریخوں کے اسی فرق‬
‫سے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انڈین حکومت کشمیر پر قبضے کے لیے پہلے‬
‫سے ہی تیار تھی‪ ،‬صرف اعتراض دور کرنے کے لیے کاغذی کارروائی کی رسم‬
‫پوری کی گئی۔ الحاق کی دستاویز پر دستخط کرتے ہی الرڈ ماؤنٹ بیٹن نے گورنر‬
‫جنرل کی قبا اتار پھینکی اور کمانڈر ان چیف کا چوال پہن لیا۔ اس مرحلے پر گورنمنٹ‬
‫ہاؤس انڈیا جنگ زدہ دفتر کا ماحول پیش کر رہا تھا جبکہ الرڈ ماؤنٹ بیٹن اس جنگ‬
‫کے پرعزم سپہ ساالر دکھائی دیتے تھے۔‬
‫اس صورت حال پر کئی سوال اٹھتے ہیں کہ کیا وجہ تھی کہ کشمیر میں فوج اتارنے‬
‫سے پہلے کسی کو‪ ،‬خاص طور پر مشترکہ فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل آکن لیک کو‬
‫خیال ہی نہ آیا کہ ان کے کاندھوں پر دو ملکوں کی ذمہ داری ہے اور معامالت یک‬
‫طرفہ شکل اختیار کر چکے ہیں۔ نہ کسی نے یہ سوچا کہ حکومت پاکستان سے بات‬
‫کر کے بحران کو حل کر لیا جائے۔‬
‫اگر نہرو ایسا نہیں چاہتے تھے تو خود الرڈ ماؤنٹ بیٹن کو کس نے روکا تھا؟ انڈین‬
‫قیادت کو ماؤنٹ بیٹن نے آخر یہ مشورہ کیوں دیا کہ کشمیر میں فوج اتارنے سے قبل‬
‫الحاق بہت ضروری ہے؟ انھیں اس سلسلے میں پہلے پاکستان سے مشورہ کرنا چاہیے‬
‫تھا‪ ،‬دوسری صورت میں اقوام متحدہ کا ُرخ کرنا چاہیے تھا۔ یعنی انضمام پر زور‬
‫فوجی کارروائی کا جواز پیدا کرنے کے لیے تھا۔‬

‫الرڈ ماؤنٹ بیٹن کشمیر سے پہلے الحاق پر زور کیوں دے رہے تھے؟‬
‫اس کا راز اس وقت کھال جب فیلڈ مارشل آکن لیک نے ‪ 28‬اکتوبر کو الہور میں بانی‬
‫پاکستان سے مالقات کی اور پاکستان کی طرف سے انڈین فوج کی مداخلت کے‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪4‬‬


‫اعتراض پر انھوں نے کہا کہ اس کارروائی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ‬
‫مہاراجہ نے انڈیا کے ساتھ الحاق کر لیا ہے اور وہ بالکل قانونی اور جائز اقدام ہے۔‬
‫انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان فوجی کارروائی نہیں کر سکتے۔ ان کے اس استدالل پر‬
‫اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان اور انڈیا‪ ،‬دونوں ملکوں کا سپریم کمانڈر ہونے کے‬
‫باوجود انھوں نے الرڈ ماؤنٹ بیٹن کے اقدامات کی تائید تو بالتردد کر دی لیکن‬
‫پاکستان کے مؤقف کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔‬
‫اس مالقات میں فیلڈ مارشل آکن لیک کا ایک اور تضاد بھی سامنے آیا۔‬
‫‪ 27‬اکتوبر کو الحاق کی دستاویز پر دستخط ہونے سے پہلے ‪ 26‬اکتوبر اور اس رات‬
‫انڈین فوج کے آپریشن کے لیے برطانوی فوجی ساری رات سرگرم عمل رہے تھے۔‬
‫انڈین فوجیوں کی نقل و حرکت کی نگرانی ایک انگریز جنرل ڈڈلے رسل کر رہے‬
‫تھے۔ یہ سب کچھ ظاہر ہے کہ ان کے علم میں رہا ہو گا لیکن فیلڈ مارشل نے الحاق‬
‫سے پہلے ہونے والی ان سرگرمیوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔‬
‫برصغیر کی تقسیم کے بعد کشمیر کے انضمام کے لیے ہر فریق نے اپنے اپنے انداز‬
‫میں کام کیا اور اس سلسلے میں مختلف وقتوں میں مختلف کردار متحرک ہوئے‪ ،‬ایک‬
‫پیشہ ور فوجی کمانڈر کی حیثیت سے فیلڈ مارشل آکن لیک ان تمام سرگرمیوں میں‬
‫کہیں دکھائی نہیں دیتے تو یہ ان کے ان کے منصب کے عین مطابق ہے۔‬
‫لیکن تاریخ ان سوالوں کے جواب فراہم نہیں کرتی کہ کشمیر کے الحاق سے پہلے‬
‫فوجی کارروائی کی اجازت انھوں نے کیسے دے دی؟ اور یہ کہ دو ملکوں کا کمانڈر‬
‫ان چیف ہونے کے باوجود انھوں نے ایک ملک کے مفادات کا خیال رکھا‪ ،‬اسی ملک‬
‫کے گورنر جنرل کے احکامات پر عمل کیا اور دوسرے ملک کے گورنر جنرل کے‬
‫احکامات کو نظر انداز کر دیا۔‬
‫تاریخی اور ایک اعتبار سے بدقسمت واقعے کے ٹھیک ایک ماہ اور چار دن کے بعد‬
‫وہ دونوں ملکوں کے سپریم کمانڈر کے منصب سے سبکدوش ہو کر برطانیہ روانہ ہو‬
‫گئے۔‬
‫اس طرح ‪ 26‬اکتوبر کو ان کی قیادت میں ہونے والی فوجی کارروائی کی وجہ سے‬
‫کشمیر کے مسئلے میں جو پیچیدگی پیدا ہوئی تھی‪ 30 ،‬نومبر کو ان کی رخصتی کے‬
‫وقت تک مزید پیچیدہ ہو کر ناقابل حل بن چکی تھی۔‬
‫گذشتہ ‪ 72‬سالوں میں کشمیر میں کیا ہوا؟‬
‫‪ 15-14‬اگست ‪ :1947‬برطانیہ سے آزادی کے بعد دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت‬
‫وجود میں آئیں‪ ،‬ریاستوں اور راجواڑوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق‬
‫کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں ۔کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر‬
‫اس کے ہندو راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔‬

‫اکتوبر ‪ :1947‬کشمیر میں جاری داخلی خانہ جنگی میں پاکستان سے قبائلی لشکر بھی شامل ہو‬
‫گئے۔‬

‫‪ 26‬اکتوبر ‪ :1947‬مہاراجہ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق‬
‫کی دستاویز پر دستخط کر دیئے تاہم یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حاالت معمول پر آئیں گے‬
‫کشمیر میں رائے شماری ہو گی ۔‬
‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪5‬‬
‫‪ 27‬اکتوبر ‪ :1947‬بھارت نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں تاکہ‬
‫کشمیر میں ہونے والی بغاوت کو کچال جا سکے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے‬
‫درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی ۔‬

‫یکم جنوری ‪ :1948‬بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام ِ متحدہ سے مدد مانگ لی ۔‬

‫‪ 5‬فروری ‪ :1948‬اقوام متحدہ نے ایک قرار داد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ‬
‫وہاں رائے شماری کرائی جا سکے ۔‬

‫اقوام متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ‬ ‫ِ‬ ‫یکم جنوری ‪:1949‬‬
‫بندی الئن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعالن کیا ۔‬

‫‪ 26‬جنوری ‪ :1950‬بھارتی آئین میں آرٹیکل ‪ 370‬کا اضافہ جس میں ریاست جموں و کشمیر کو‬
‫دفاع ‪ ،‬خارجہ اور مواصالت کے عالوہ خود مختار حیثیت دی گئی ۔‬

‫اکتوبر ‪ :1950‬شیخ عبدہللا کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ‬
‫کیا تاکہ ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرے‬

‫‪ 30‬مارچ ‪ :1951‬اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے کشمیر میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے‬
‫ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر‬
‫سکتی ہے ساتھ ہی ایک نمائندہ مقرر کرنے اور کشمیر کو غیر فوجی عالقہ قرار دینے کا اعالن‬
‫کیا مگر اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا ۔‬

‫ستمبر ‪ :1951‬کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے تمام ‪ 75‬نشستیں بال مقابلہ‬
‫حاصل کر لیں۔‬

‫‪ 31‬اکتوبر ‪ :1951‬شیخ عبدہللا نے ریاستی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں ریاست کے بھارت کے‬
‫ساتھ الحاق کے حق میں دالئل دیئے۔‬

‫جوالئی ‪ :1952‬شیخ عبدہللا نے دہلی معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت انڈیا کے‬
‫زیرانتظام ریاست کو داخلی خودمختاری دی جائے گی۔‬

‫جوالئی ‪ :1953‬سائما پرشاد مکر جی نے ‪ 1952‬سے کشمیر کے بھارت سے مکمل الحاق کے‬
‫بارے میں جو تحریک شروع کر رکھی تھی اس کا نتیجہ یہ نکال کہ شیخ عبدہللا نے کشمیر کی‬
‫خود مختاری کی تجویز دے دی۔‬

‫‪ 8‬اگست ‪ :1953‬شیخ عبداالہلل کو بطور وزیراعظم فارغ کرتے ہوئے گرفتار کر کے بھارت میں‬
‫قید کر دیا گیا اور ان کی جگہ بخشی غالم محمد کو وزیر اعظم بنا کر مظاہرین کے ساتھ آہنی‬
‫ہاتھوں سے نمٹنے کا ٹاسک سونپا گیا۔‬

‫‪ 20-17‬اگست ‪ :1953‬بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان دہلی میں مالقات ہوئی‬
‫جس میں اپریل ‪ 1954‬کے آخر تک وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے ایڈمنسٹریٹر تعینات‬
‫کرنے پر متفق ہو گئے ۔تاہم جیسے ہی پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹجک تعلقات گہرے‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪6‬‬


‫ہوئے تو بھارت نے اس مسئلے کو بھی سرد جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے رائے شماری سے‬
‫انکار کر دیا۔‬

‫فروری ‪ :1954‬کشمیر کی اسمبلی نے بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا۔‬

‫‪ 14‬مئی ‪ :1954‬آئینی حکم نامہ ‪ 1954‬جس کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے تھا اسے الگو‬
‫کر دیا گیا جو دہلی معاہدے کومنسوخ کرتے ہوئے ریاست کو بھارتی عمل داری میں دیتے ہوئے‬
‫تمام شہری آزادیوں کو ختم کرتا تھا۔‬

‫اقوام متحدہ کی سالمتی کونسل نے ایک بار پھر ‪ 1951‬کی قرارداد کا اعادہ‬
‫ِ‬ ‫‪ 14‬جنوری ‪:1957‬‬
‫کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اسمبلی کسی طور بھی کشمیر کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کا‬
‫اختیار نہیں رکھتی اور نہ ہی یہ رائے شماری کا متبادل ہے۔‬

‫‪ 26‬جنوری ‪ :1957‬ریاستی اسمبلی نے جموں و کشمیر کا آئین نافذ کیا جس کے تحت ریاست‬
‫جموں و کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔‬

‫‪ 9‬اگست ‪ :1955‬رائے شماری محاذ قائم کیا گیا جس نے شیخ عبدہللا کی رہائی اور اقوام ِ متحدہ‬
‫کی زیر نگرانی کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ کیا۔‬

‫‪ 20‬اکتوبر تا ‪ 20‬نومبر ‪ :1962‬لداخ میں بھارت اور چین کے مابین ایک سرحدی تنازعے نے‬
‫جنگ کی شکل اختیار کر لی جس کے نتیجے میں لداخ کے ایک بڑے عالقے پر چین قابض ہو گیا۔‬

‫مارچ ‪ :1965‬بھارتی پارلیمنٹ نے ایک بل پاس کیا جس کے تحت کشمیر کو بھارت کو صوبہ‬
‫قرار دیتے ہوئے بھارت کو وہاں گورنر تعینات کرنے‪ ،‬کشمیر میں حکومت کو برطرف کرنے اور‬
‫اسے آئین سازی سے روکنے کے اختیار حاصل ہو گئے ۔‬

‫‪ 23‬اگست تا سمبر ‪ :1965‬پاکستان اور بھارت کے درمیان دوسری جنگ چھڑ گئی جس نے‬
‫‪ 1949‬کے فائر بندی معاہدے کو ختم کر دیا۔‬

‫‪ 10‬جنوری ‪ :1966‬بھارت اور پاکستان کے مابین تاشقند معاہدے پر دستخط ہو گئے جس کے‬
‫تحت دونوں ممالک اپنی اپنی افواج کو جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں پر النے میں متفق ہو گئے ۔‬

‫‪ 16-3‬دسمبر ‪ :1971‬پاکستان اوربھارت میں جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر‬
‫بنگلہ دیش بن گیا ۔‬

‫‪ 2‬جوالئی ‪ :1972‬پاکستان اور بھارت کے درمیان شملہ معاہدہ ہو ا جس میں اقوام ِ متحدہ کی فائر‬
‫بندی الئن کو الئن آف کنٹرول قرار دیا گیا مزید یہ کہ اس معاہدے کی رو سے فریقین اس مسئلے‬
‫کو دو طرفہ مذاکرات سے حل کریں گے ۔‬

‫‪ 13‬نومبر ‪ :1974‬شیخ عبدہللا کو رہا کر کے اسے بطور وزیر اعلی ٰ بحال کر دیا گیا ۔جبکہ اس‬
‫اعلی نے بھارت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت ریاست‬ ‫ٰ‬ ‫کے نائب وزیر‬
‫جموں و کشمیر بھارت کاآئینی حصہ ہو گا اس طرح وہ ‪ 1953‬میں اپنے خود مختاری کے دعوے‬
‫سے پھر گئے ۔‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪7‬‬


‫‪ 23‬مئی ‪ :1977‬شیخ عبدہللا نے دھمکی دی کہ بھارت کے ساتھ الحاق اس وقت تک نہیں ہو سکتا‬
‫جب تک بھارت آرٹیکل ‪ 370‬کے تحت کشمیر کو داخلی خود مختاری نہیں دیتا ۔‬

‫‪ 8‬ستمبر ‪ :1982‬شیخ عبدہللا انتقال کر گئے جس کے بعد ان کے بیٹے فاروق عبدہللا نے قیادت‬
‫سنبھال لی ۔‬

‫اپریل ‪ :1984‬بھارت نے سیاچین گلیشئر پر قبضہ کر لیا ۔‬

‫جون ‪ :1984‬بھارت کے تعینات کردہ گورنر اور ہندو قوم پرست رہنما جگموہن نے فاروق عبدہللا‬
‫وزیراعلی نامزد کر دیا جس سے کشمیر‬
‫ٰ‬ ‫کو معطل کر کے نیشنل کانفرنس کے غالم محمد شاہ کو‬
‫میں مظاہرے پھوٹ پڑے جس پر غالم محمد شاہ نے کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا ۔‬

‫اعلی سے برخاست کرتے ہوئے خود‬ ‫ٰ‬ ‫‪ 7‬مارچ ‪ :1986‬جگموہن نے غالم محمد شاہ کو وزارت ِ‬
‫اختیارات سنبھال لیے اور مسلمانوں کی سرکاری نوکریوں پر پابندی لگا دی ۔‬

‫‪ 23‬مارچ ‪ :1987‬مسلم یونائیٹڈ فرنٹ جو کہ ایک مقبول جماعت تھی اس نے انتخابات میں حصہ‬
‫لیا مگر کانگریس اور مسلم کانفرنس کا اتحاد جیت گیا جس پر دھاندلی کے الزامات لگے ۔‬

‫‪ :1989‬بھارتی حکمرانی کے خالف مسلح تحریک شروع ہو گئی جس کی قیادت مسلم یو نائیٹڈ‬
‫فرنٹ کے ممبران کر رہے تھے سال کے ایک تہائی دنوں میں ہڑتالیں رہیں ریاستی اسمبلی کے‬
‫انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا گیا اور ٹرن آؤٹ صرف پانچ فیصد رہا ۔‬

‫‪ :1990‬بغاوت جاری رہی ۔پاکستان سے بڑی تعداد میں مجاہدین وادی میں داخل ہو گئے ۔‬

‫‪ 20‬جنوری ‪ :1990‬جگموہن سنگھ کو گورنر تعینات کرنے کے اگلے روز بھارتی پیرا ملٹری‬
‫ریزرو پولیس فورس نے گوکدل میں نہتے مظاہرین جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے ان‬
‫پر گولی چال دی ا س قتل عام کے خالف پورے کشمیر میں پر تشدد مظاہرے پھوٹ پڑے ۔‬

‫یکم مارچ ‪ :1990‬سری نگر میں اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ کے دفتر کے سامنے پانچ‬
‫الکھ سے زائد کشمیریوں نے مارچ کیا جنہوں نے کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے‬
‫مطابق رائے شماری کا مطالبہ کیا۔جس پر بھارتی فوج نے مظاہرین پر دو مقامات پر فائرنگ کر‬
‫دی ۔ذکورا کراسنگ میں ‪ 26‬اور تنگ پورہ بائی پاس پر ‪ 21‬شہری مارے گئے ۔جس پر کشمیر‬
‫میں ‪ 162،500‬ہندو کمیونٹی کو نکال کر جموں میں پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔‬

‫‪ 30‬مارچ ‪ :1990‬جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے رہنما اشفاق وانی کے جنازے میں بہت بڑا‬
‫اجتماع ہوا ۔‬

‫‪ 6‬جنوری ‪ :1993‬بھارتی بارڈر سیکورٹی پولیس نے عسکریت پسندوں کے ایک حملے کا بدلہ‬
‫لینے کے لیے سوپور میں ‪ 55‬شہریوں کو ہالک کر دیا۔‬

‫مارچ ‪ :1993‬سیاسی‪ ،‬سماجی اور مذہبی گروپوں پر مشتمل آل پارٹیز حریت کانفرنس نے حق خود‬
‫اختیاری کا مطالبہ کیا ۔‬

‫‪ :1998‬پاکستان اور بھارت دونوں کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے تجربات‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪8‬‬


‫‪ 21‬فروری ‪ :1999‬بھارتی وزیر ا عظم اٹل بہاری واجپائی اور پاکستانی وزیر اعظم نوازشریف‬
‫نے اعالن الہور پر دستخط کئے جس کے تحت کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو باہمی‬
‫مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا اعادہ کیا گیا۔‬

‫مئی – جوالئی ‪ :1999‬پاکستان وبھارت کے درمیان کارگل جنگ چھڑ گئی ۔‬

‫‪ :2000‬ایک دہائی سے جاری کشمیر میں عسکری تحریک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی جس‬
‫میں پر امن اور غیر متشدد طریقے اختیار کرنے پر زور دیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان‬
‫سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔ کشمیر کے مسئلے پر بھی اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات کئے‬
‫گئے اگرچہ ان میں تعطل آتا رہا اور دونون ممالک کشمیر میں کسی تصفیہ پر متفق نہیں ہو سکے‬
‫۔‬

‫اعالن الہور‬
‫ِ‬ ‫‪ 11‬مارچ ‪ :2001‬اقوام ِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے دونونممالک کو‬
‫کے تحت آگے بڑھنے کا مشورہ دیا جس پر جوالئی ‪ 2001‬میں مشرف اور واجپائی کے درمیان‬
‫آگرہ میں مالقات ہوئی مگر کوئی اعالن جاری نہ ہو سکا ۔‬

‫اکتوبر ‪ :2001‬کشمیر اسمبلی سری نگر پر حملے کے نتیجے میں ‪ 38‬افراد ہالک۔‬

‫دسمبر ‪ :2001‬بھارتی پارلیمنٹ پر نئی دہلی میں حملہ ‪ ،‬لشکر طیبہ اور جیش محمد نے ذمہ داری‬
‫قبول کی۔‬

‫‪ :2007-2004‬مسئلہ کشمیر پر بیک چینل روابط کے ذریعے دونوں ممالک نے کشمیری قیادت‬
‫کے ساتھ مزاکرات کئے‬

‫اپریل ‪ :2005‬مظفر آباد سری نگر بس سروس شروع ہوئی ۔‬

‫مئی ‪ :2008‬بھارتی حکومت اور جموں و کشمیر کی حکومت کی جانب سے ہندو شری امرناتھ‬
‫شرائن بورڈ کو زمین منتقل کرنے کے فیصلے کے خالف کشمیر بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے‬
‫جو جو کہ ‪ 1990‬کے بعد سب سے بڑے مظاہرے تھے مسلح پولیس نے مظاہرین پر فائر نگ کی‬
‫اور کشمیر اور بھارت کو مالنے والی سڑک بالک ہو کر رہ گئی۔‬

‫‪ 21‬فروری ‪ :2009‬بومائی میں بھارتی فوج نے دو عبادت گزاروں کو جان بوجھ کر گولی مار دی‬
‫جس پر بومائی اور ملحقہ عالقونمیں مظاہرے شروع ہو گئے جس پر کرفیو لگانا پڑا۔‬

‫‪ 30-29‬مئی ‪ :2009‬دو خواتین ‪22‬سالہ نیلوفرجان اور ‪ 17‬سالہ عائشہ جان کو شوپیاں میں‬
‫اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔‬

‫جون ‪ :2009‬کشمیر بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے جنہوں نے سینٹرل پولیس ریزرو فورس کو‬
‫زیادتی اور قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا جس پر شوپیاں میں کرفیو لگا دیا گیا۔‬

‫‪ 30‬اپریل ‪ :2010‬بھارتی فوج نے تین عسکریت پسندوں کو الئن آف کنٹرول کرا س کرنے کے‬
‫الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا بعد ازاں معلوم ہوا کہ یہ مقابلہ فرضی تھا اور مرنے والے تینوں‬
‫عام کشمیری تھے اور انہیں صرف اس لیے مارا گیا کہ ان کے قتل کے عوض وہ کیش انعام‬
‫حاصل کر سکیں ۔‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪9‬‬


‫‪ 11‬جون ‪ 17 :2010‬سالہ ظفیل احمدمٹو جو سکول سے گھر آ رہا تھا اس وقت ہالک ہو گیا جب‬
‫آنسو گیس کا ایک شیل اس کے قریب آ کر سر پر مارا گیا ۔اس کے نتیجے میں بھی مظاہرے پھوٹ‬
‫پڑے جس سے نمٹنے کے کئے کرفیو لگا کر سینکڑوں کشمیریوں کو ہالک کر دیا گیا۔‬

‫اعلی عمر عبدہللا نے ان ‪ 1200‬نوجوانوں کے لیے عام معافی کا اعالن کیا‬


‫ٰ‬ ‫اگست ‪ :2011‬وزیر‬
‫جو کہ گزشتہ سال حکومت کے خالف مظاہروں میں سیکورٹی فورسز پر پتھر پھینکنے میں ملوث‬
‫تھے ۔بھارت کے ریاستی ہیومن رائٹس کمیشن نے الئن آف کنٹرول کے قریب ایسی اجتماعی قبروں‬
‫کی نشاندہی کی جہاں ‪ 2000‬کے قریب نامعلوم لوگ دفنائے گئے تھے خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں‬
‫وہ کارکن بھی شامل تھے جنہیں بھارتی فوجوں نے گرفتار کر رکھا تھا یا جنہیں غائب کر دیا گیا‬
‫تھا۔‪ 1989‬سے اب تک ایک الکھ سے زیادہ لوگ مارے جا چکے تھے ۔‬

‫فروری ‪ :2013‬کشمیری جیش محمد کے کارکن محمد افضل گرو جن پر ‪ 2001‬میں بھارتی‬
‫پارلیمنٹ پر حملے کا الزام تھا انہیں پھانسی دیئے جانے کے خالف وادی میں مظاہرے ہوئے جن‬
‫کے نتیجے میں دو افراد ہالک کر دیئے گئے ۔‬

‫ستمبر ‪ :2013‬پاکستان و بھارتی وزرائے اعظم کی مالقات میں الئن آف کنٹرول کے آر پار تشدد‬
‫کو کم کرنے پر اتفاق‬

‫اگست ‪ :2014‬بھارت نے یہ کہہ کر پاکستان سے مذاکرات ختم کر دیئے کہ نئی دہلی میں پاکستانی‬
‫ہائی کمشنر نے کشمیری علیحدگی پسندوں کے ساتھ مذاکرت کئے تھے ۔‬

‫اکتوبر ‪ :2014‬پاکستان اور بھارت میں سرحدوں پر کشیدگی ‪ ،‬دونوں طرف ‪ 18‬ہالکتوں کی‬
‫تصدیق۔‬

‫مارچ ‪ :2015‬تاریخ میں پہلی بار بی جے پی نے کشمیر میں مقامی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک‬
‫وزیراعلی چنا گیا۔‬
‫ٰ‬ ‫پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور مفتی محمد سعید کو‬

‫ستمبر ‪ :2015‬کشمیر میں مسلمانوں نے بڑے گوشت پر پابندی کے خالف اپنی دوکانیں اور‬
‫تجارتی مراکز بند کئے۔‬

‫اعلی بنیں۔‬
‫ٰ‬ ‫اپریل ‪ :2016‬محبوبہ مفتی اپنے باپ مفتی سعید کے بعد کشمیر کی پہلی خاتون وزیر‬

‫جوالئی ‪ :2016‬حزب المجاہدین کے سرکردہ کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد ہونے والے‬
‫مظاہروں کے نتیجے میں کشمیر میں کرفیو لگا دیا گیا۔‬

‫اگست ‪ :2016‬وادی میں جاری ‪ 50‬روزہ کرفیو میں نرمی کی گئی ۔ برہان وانی کی ہالکت کے‬
‫بعد وادی میں مظاہروں اور تشدد کی لہر کے نتیجے میں ‪ 68‬شہری ہالک اور ‪ 9000‬لوگ زخمی‬
‫ہوئے۔‬

‫ستمبر ‪ :2016‬کشمیر میں ایک فوجی بیس پر حملے کے نتیجے میں ‪ 18‬بھارتی فوجیوں کی‬
‫ہالکت کے بعد پاکستان اور بھارت میں دھمکیوں کا تبادلہ۔‬

‫نومبر ‪ :2016‬الئن آف کنٹرول پر جھڑپ میں سات پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد آزاد‬
‫کشمیر میں ایل او سی پر بڑی تعداد میں لوگوں کو محفوظ مامات پر منتقل کیا گیا۔‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪10‬‬


‫مئی ‪ :2017‬حریت کمانڈر سبزار احمد بھٹ کی نماز جنازہ میں شمولیت کے لیے ہزاروں لوگوں‬
‫نے کرفیو کو توڑ ڈاال۔‬

‫جوالئی ‪ :2017‬ہندو یاتریوں پر حملے کے نتیجے میں سات افراد ہالک ہو گئے۔‬

‫‪ 14‬فروری ‪ :2019‬پلواما میں ایک خود کش حملے کے نتیجے میں ‪ 40‬بھارتی فوجی ہالک ہو‬
‫گئے۔‬

‫‪ 21‬فروری ‪ :2019‬بھارت نے پاکستان کا پانی بند کرنے کی دھمکی دی۔‬

‫‪ 26‬فروری ‪ :2019‬بھارت نے باال کوٹ میں مجاہدین کے ایک کیمپ پر فضائی حملہ کیا اور کئی‬
‫دعوی کیا۔‬
‫ٰ‬ ‫مجاہدین کو مارنے کا‬

‫‪ 27‬فروری ‪ :2019‬پاکستان نے بھارت کے دو طیاروں کو مار گرایا اور ایک بھارتی پائلٹ کو‬
‫گرفتار کر لیا۔‬

‫‪ 5‬اگست ‪ :2019‬بھارتی حکومت نے آئین میں سے آرٹیکل ‪ 370‬کو ختم کر دیا جو کہ کشمیر کو‬
‫خصوصی حیثیت دیتا تھا ۔اس طرح کشمیر کو بھارتی یونین میں ضم کر دیا گیا۔‬

‫اقوام متحدہ کی سالمتی کونسل‬


‫ِ‬ ‫‪ 16‬اگست ‪ 1965 :2019‬کے بعد پہلی بار کشمیر کے مسئلے پر‬
‫کا اجالس ہوا۔‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪11‬‬

You might also like