قانون کی باال دس تی اور تم ام ش ہریوں کے ل یے اس کی یکس انیت
ای ک زن دہ ق وم کی نش انی ہے۔ انس ان نے جب س ے پہ اڑوں اور جنگلوں سے نکل کر شہری بس تیاں آب ادی ک رکے ای ک معاش رے کی بنیاد رکھی ہے تب ہی سے ق وانین بھی م رتب ہون ا ش روع ہ و گئے۔ زبانی قول و قرار کے بعد پھ ر باقاع دہ ط ور پ ر لکھے بھی جانے لگے۔ اس سفر میں سخت سے سخت اور بعض اوق ات بہت معتدل قوانین بھی بنائے گئے۔ کمزور کے لیے الگ قوی کے ل یے الگ۔ مگر پچھلی دو صدیوں میں بہت کچھ بدل گی ا ہے۔ اب دوہ را معیار اور ایک ہی معاشرے مختلف طبق ات کے ل یے ال گ ق وانین کی ترتیب مفقود ہ و چکی ہے۔ اگ ر ایس ی ت ر تیب کس ی معاش رے میں موجود ہ و ت و اس ک و کم زور اور بے ہنگم معاش رہ ق رار دی ا جاتاہے۔ بات کی جائے اگر اپنے وطن عزی ز کی ت و یہ اں بظ اہر س ب کے لیے ای ک ہی ق انون ہے مگ ر ق انون ناف ذ ک رنے والے اداروں کی کمزوری کے باعث روز مرہ واقع ات س ے یہ ت اثر ملت ا ہے کہ ب ا مستثنی ہیں۔ اس کے عالؤہ انف رادی س طح ٰ اختیار لوگ قانون سے پر بھی ہمارے ہاں اکثریت ایسے شہریوں کی ہے ج و جہ اں موق ع ملے قانون کو توڑنے ی ا اپ نے ہ اتھ میں لی نے س ے ب از نہیں آتے۔ متعدد واقعات ایس ے ہیں جب ق انون ناف ذ ک رنے والے اداروں کے نمائن دے خ ود ہی ق انون کی خالف ورزی ک رتے دکھ ائی دیے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قانون کی بال تفریق باال دستی ہم ارے ہ اں ناپید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نا معاشی طور پر مستحکم ہیں اور ن ا معاشرتی اعتبار سے قابل تقلید۔ قانون توڑنے اور اسکو اپ نے ہ اتھ میں لینے کی روش سے مجرمانہ اور تخری بی عناص ر ک و تق ویت ملتی ہے اور وہ موقع بموقع دانس تہ ط ور پ ر ملی اتح اد میں رخنہ اندازی کرتے نہیں چوکتے۔ ہمارے معاشرے میں قانون کی ب اال دس تی میں س ب ب ڑی رک اوٹ نظام احتساب ہے۔ اگر قانون ت وڑنے وال وں ِ جو مانع ہے وہ ناقص کو بروقت اپنے کیے کی کڑی سزا دی جائے ایسے مذموم عناصر کے نا صرف حوصلے پست ہوںگے بلکہ جرائم کی شرح میں بھی غیر معمولی کمی آئیگی۔ شہریوں ک و بھی ق انون کی پاس داری کی اہمیت کی بابت آگہی ف راہم ک رنے کی بھی اش د ض رورت ہے۔ اہم ق وانین اور ان س ے متعل ق حکوم تی ہ دایات طلب ا کے نص اب میں شامل کر نا بھی ایک بہتر پیش رفت ہوگی۔