Professional Documents
Culture Documents
دور حاضر میں خواتین کے لئے ایک روشن اور رہنما تحریر
اسالم ایک عالمگیر مذہب ہے ،اس کی تہذیب وتمدن ،ثقافت وحضارت ،اس کے نظم ونس ق ،ق وانین وض وابط اور
طریقہ تعلیم وتربیت س رمدی وآف اقی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس الم ہمیش ہ س ے جہ الت وناخوان دگی اور آوارگی ک ا
کھال دش من اور علم ومع رفت ،شائس تگی اور آراس تگی ک ا روزازل س ے ای ک مخلص س اتھی اور دوس ت رہ ا ہے۔
ہللا" ( چنانچہ اس نے انسانیت کو بغیر کسی تفریق م رد وزن لف ظ "اق رء" س ے مخ اطب کی ا اور "ف اعلم انہ ال الہ اال
)1یعنی ایمان النے سے پہلے علم ومعرفت کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کیا اور "قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین
ال یعلمون" )2( جیسے پرکشش وپرشکوہ نصوص سے عالم وجاہل کے مابین ہمسری کی نفی کردی۔ ن یز "یرف ع ہللا
الذین آمن وا منکم وال ذین اوت وا العلم درج ات" )3( اور ہللا کے رس ول ص لی ہللا علیہ وس لم نے "نض ر ہللا ام رءا س مع
مقالتی فوعاہا ثم اداہا الی من لم یسمعہا" )4( جیسے قیمتی اور بیش بہا فرمودات سے حصول علم کی ترغیب دی
ہے سوائے تین علوم علم سحر ،علم نجوم اور علم کہ انت کے تم ام عل وم وفن ون کے س یکھنے س کھانے ،پڑھ نے
پڑھانے کی مکمل آزادی اور رخصت دے رکھی ہے۔
قرآن مجید کے عالوہ نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے بال تفریق مرد وزن اس کے حصول ک ا حکم اور ج ا بج ا اس کی
اہمیت وفضیلت کو بیان کیا ہے ،چنانچہ ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ "طلب العلم فریضۃ علی ک ل مس لم" )5( یع نی
تمام مسلمانوں پرعلم دین حاصل کرنا فرض ہے۔ اس میں مرد وعورت دونوں کے ل ئے حکم ہے اور اس پرعلم اء امت ک ا
اجماع ہے۔
ع ورت انس انی معاش رہ ک ا وہ اہم عنص ر ہے جس کے بغ یر معاش رہ وس ماج ک ا تص ور ہی ممکن نہیں ،ع ورت
انسانی ترقی کا زینہ اور اجتماعی زندگی کی روح ہے ،ع ورت ع الم انس انی کی بق ا اور اس کے تحف ظ کی ض امن
ارفوا"( ہے ،نیز کائنات گل گلزار کی محافظ ہے۔ "یا ایہا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم ش عوبا وقبائ ل لتع
)6۔ عورت افزائش نسل اور اوالد کی تعلیم وت ربیت کی اعلی ذمہ دار ہے ،اس کی گ ود جہ اں ای ک ط رف ش یر خ وار
بچوں کی جائے پرورش ہے ،وہیں دوسری طرف اس کی آغوش حضارت وتمدن اور تعلیم وتربیت کا گہوارہ ہے ،ع ورت
روئے زمین پر ہللا کی نشانی بن کر آئی اور رہ تی دنی ا ت ک اس چمن کی ع زت اور آب رو ب نی رہے گی ،ان ش اء ہللا۔
ارشاد باری تعالی ہے" :ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ")7( ۔ ع ورت
ناقص العقل تو ہے لیکن تعلیم وتعلم سے کوری نہیں ،عورت ناقص الدین تو ہے مگر عب ادت س ے مرف وع القلم نہیں،
عورت پردہ کی پابند ضرور ہے لیکن غزوات جہاد میں شرکت کی مستحق بھی ہے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں اسالمی معاشرہ میں جو تعلیم نسواں یا مدرس ہ نس واں نظ ر آت ا ہےاس ے دیکھ ک ر
بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس کا ثبوت کہان ہے؟ عہد رسالت کی مشہور تعلیم گاہ ویونیورسٹی ج و دنی ا میں اہ ل
صفہ کے نام سے متعارف ہے ،اس میں صحابیات اور بنات اسالم کا ذکر ملتا ہے؟ اس کے ثبوت کے لئے ای ک ح دیث
ہی کافی ہے۔ امام بخاری رحمہ ہللا نے ایک باب اپنی صحیح کے اندر قائم کیا ہے" :ہل یجعل للنساء ی وم علی ح دۃ
فی العلم" اور اس باب کے تحت جو حدیث الئے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ "ن بی ک ریم ص لی ہللا علیہ وس لم کی
حیات طیبہ میں عورتوں کے اندر علم حدیث کے حاصل کرنے کا شوق وجذبہ اس قدر موجزن تھا کہ تمام عورتوں نے
اجتماعی طور پر ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وس لم س ے مط البہ کی ا کہ آپ ہم اری تعلیم کے ل ئے ک وئی انتظ ام
فرمادیجئے۔ چنانچہ ابو سعید خدری رض ی ہللا عنہ ک ا بی ان ہے کہ ہللا کے رس ول ص لی ہللا علیہ وس لم نے ان کے
لئے ایک دن کا وعدہ کی ا جس میں ان ک و وع ظ ونص یحت ک رتےاور دی نی ب اتوں ک ا حکم فرم اتے تھے)8( ۔ اس س ے
بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین اسالم میں ارشادات نبویہ کے حصول کا کس قدر شوق وجذبہ تھا۔
اگر اس قسم کے لوگ کتب رجال کی ورق گردانی کریں تو انہیں ص حابیات ،تابعی ات اور مختل ف ادوار کی روای ات
ومحدثات کی ایک طویل فہرست دستیاب ہوسکتی ہے ،جنہوں نے حفاظت حدیث کے تعلق سے وہ کارہائے نمای اں
انجام دیئے جس کی مثال دنیا کے کسی مذہب وملت میں نہیں م ل س کتی ،فن ح دیث ہی کی ا ش رعی علم وفن
کوئی بھی ہو اس میں عورتوں کی کارکردگی نمایاں نظر آتی ہے ،فن تفسیر ہو یا حدیث ،فقہ ہو یا اص ول ،ادب ہ و ی ا
بالغت سارے کے سارے فنون کی عورتون نے جان توڑ خدمت کی۔ اگر صحابیات وتابعیات تحمل اور روایت حدیث میں
پیچھے رہتیں تو آج اسالمی دنیا مسائل نسواں کی علم ومعرفت سے محروم رہتی ،نکاح وطالق کے مسائل ہوں ی ا
جماع ومباشرت کے ازدواجی زندگی کا کوئی الجھا ہوا پہلو ہو یا خانگی مشکالت ،اگر اس قس م کے الجھے اور پیچ
مسائل کا حل ہمیں ملتا ہے تو صحابیات وتابعیات کی مرویات ہیں۔
ابتدائے اسالم سے لے کر اس وقت تک سینکڑوں ہزاروں پردہ نشیں مسلم خواتین نے حدود شریعت میں رہ تے
ہوئے گوشہ عمل وفن سے لے کر میدان جہاد تک ہر ش عبہ زن دگی میں حص ہ لی ا اور اس المی معاش رہ کی تعم یر
میں اپن ا ک ردار ادا کی ا ،خ واتین اس الم نے علم ح دیث کی ج و خ دمات انج ام دی ہیں ،ان کی س ب س ے پہلی
نمائندگی صحابیات وتابعیات کرتی ہیں ،اس لئے سب سے پہلے انہی کے کارناموں کا اجمالی نقشہ پیش کیا جارہا
ہے۔
-صحابیات:
صحابہ کرام کی طرح ص حابیات بھی اپ نے ذہن ودم اغ کے لح اظ س ے ای ک درجہ اور م رتبہ کی نہین تھیں اور نہ
سب کو یکساں طور سے آنحض رت ص لی ہللا علیہ وس لم کی ص حبت ورف اقت نص یب ہ وئی تھی ،اس ل ئے ان کی
خدمات بھی اسی کے اعتبار سے کم وبیش ہوں گی ،کیونکہ حدیث کی خدمات کے لئے س ب س ے زی ادہ ض رورت
حفظ اور فہم وفراست ہی کی تھی۔ صحابیات میں ازواج مطہرات کو ن بی ص لی ہللا علیہ وس لم کے س اتھ ہ ر لح اظ
سے زیادہ خصوصیت حاصل تھی ،اس لئے اس سلسلہ میں ان کی خدمات سب سے زی ادہ ہیں ،ی وں ت و ص حابیات
کی مجموعی تعداد حاف ظ ابن حج ر عس قالنی رحمہ ہللا کے احص اء کے مط ابق )1545( ہے ،لیکن جنہ وں نے روایت
حدیث کے ذریعہ حفاظت حدیث کا بیڑا اٹھایا ان کی تعداد سات سو سے زائد بتائی گ ئی ہے اور ان س ے ب ڑے ب ڑے
صحابہ کرام اور جلیل القدر ائمہ نے علم حاصل کیا ہے ،)9( عالمہ ابن حزم اپنی کتاب "اسماء الصحابۃ الرواۃ وم ا لک ل
واحد من العدد" کے اندر کم وبیش )125( صحابیات کا تذکرہ کیا ہے جن سے روایات مروی ہیں اور ان کے اعداد وشمار
کے مطابق صحابیات سے مروی احادیث کی ک ل تع داد ( )2560ہے جن میں س ب س ے زی ادہ ام الموم نین عائش ہ
صدیقہ رضی ہللا عنہا سے مروی ہے ،حضرت عائشہ مکثرین رواۃ صحابہ میں س ے ہیں ،ان کی مروی ات کی تع داد (
)2210ہے ،)10( جن میں ( )286حدیثیں بخاری ومس لم میں موج ود ہیں ،مروی ات کی ک ثرت کے لح اظ س ے ص حابہ
کرام میں ان کا چھٹا نمبر ہے ،)11( مرویات کی کثرت کے ساتھ اح ادیث س ے اس تدالل اور اس تنباط مس ائل ،ان کے
علل واسباب کی تالش وتحقیق میں بھی ان کو خاص امتیاز حاصل تھا اور ان کی صفت میں بہت کم ص حابہ ان کے
شریک تھے ،کتب حدیث میں کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔
امام زہری جو کبار تابعین میں سے تھے وہ فرماتے ہیں" :کانت عائشۃ اعلم الناس یسالہا االکابر من اصحاب رسول
ہللا صلی ہللا علیہ وسلم" ،)12( یعنی حضرت عائشہ تم ام لوگ وں میں س ب س ے زی ادہ علم رکھ نے والی تھیں ،ب ڑے
بڑے صحابہ کرام ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ دوسری جگہ اس طرح رقمط راز ہیں" :اگ ر تم ام ازواج مطہ رات ک ا
علم بلکہ تمام مسلمان عورتوں کا علم جمع کیا جائےتو حضرت عائشہ کا علم سب سے اعلی وافضل ہوگا")13( ۔
حض رت عائش ہ فت وی اور درس دی ا ک رتی تھیں ،یہی نہیں بلکہ آپ نے ص حابہ ک رام کی لغزش وں کی بھی نش اندہی
فرم ائی ،عالمہ جالل ال دین س یوطی اور زرکش ی رحمہم ا ہللا نے اس موض وع پ ر "االص ابۃ فیم ا اس تدرکتہ عائش ۃ علی
الصحابۃ" کے نام پر مستقل کتاب لکھ رکھی ہے ،حضرت عائشہ سے روایت کرنے والے صحابہ وتابعین کی تع داد س و س ے
متجاوز ہے )14 ( ۔
ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ کے بعد حضرت ام سلمہ رضی ہللا عنہ ا علم ح دیث میں ممت از نظ ر آتی ہیں،
علم حدیث میں ان کے مقام ومرتبہ کے متعلق محمد بن لبید فرم اتے ہیں" :ک ان ازواج الن بی ص لی ہللا علیہ وس لم
یحفظن من حدیث النبی صلی ہللا علیہ وسلم کثیرا مثال عائش ۃ وام س لمۃ" ،)15( یع نی ع ام ط ور س ے رس ول ہللا
صلی ہللا علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ کی حدیثوں کو بہت زیادہ محفوظ رکھ تی تھیں ،مگ ر حض رت عائش ہ اور
ام سلمہ اس سلسلہ میں سب سے ممتاز تھیں۔ حضرا ام سلمہ سے ( )378حدیثیں م روی ہیں)16( ۔ ان کے فت وے
بکثرت پائے جاتے ہیں ،عالمہ ابن القیم رحمہ ہللا نے "اعالم الموقعین" میں لکھا ہے" :اگ ر ام س لمہ رض ی ہللا عنہ ا
کے فتوے جمع کئے جائیں تو ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہوسکتا ہے ،)17( ان کا شمار محدثین کے تیس رے طبقہ میں
ہے۔ ان کے تالمذہ حدیث میں بے شمار تابعین اور بعض صحابہ بھی شامل ہیں۔
ان دونوں کی طرح دوسری ازواج مطہرات نے بھی حدیث کی روایت اور اش اعت میں حص ہ لی ا اور ان س ے بھی
بڑے جلیل القدر صحابہ اور تابعین نے احادیث حاصل کیں ،جیسے حضرت میمونہ ہیں۔ ان سے ( ،)76ام حبیبہ سے (
،)65حفصہ سے ( ،)60زینب بنت جحش سے ( )11جویریہ سے ( )7سودہ س ے ( ،)5خ دیجہ س ے ( ،)1مزی د ب راں
آپ کی دونوں لونڈیوں میمونہ اور ماریہ قبطیہ رضی ہللا عنہن سے دو دو حدیثیں مروی ہیں۔
امہات المومنین کے عالوہ صحابیات میں مشکل ہی سے کوئی صحابیہ ایسی ہ وں گی جن س ے ک وئی نہ ک وئی
روایت موجود نہ ہو ،چنانچہ آپ کی پیاری بیٹی لخت جگ ر حض رت ف اطمہ رض ی ہللا عنہ ا س ے ( ،)18آپ کی پھ وپھی
حضرت صفیہ سے ( )11حدیثیں مروی ہیں)18( ۔ عام صحابیات میں سے حضرت ام خطل سے ( )30حدیثیں م روی ہیں،
حضرت ام سلیم اور ام رومان سے چند حدیثیں مروی ہیں ،ام سلیم سے بڑے بڑے صحابہ مسائل دری افت ک رتے تھے،
ایک بار کسی مسئلہ میں حضرت عبد ہللا بن عب اس اور حض رت زی د بن ث ابت میں اختالف ہ وا ت و دون وں نے ان ہی ک و
حکم مانا)19( ۔ حضرت ام عطیہ سے متعدد صحابہ وتابعین نے روایت کیا اور صحابہ وتابعین ان س ے م ردہ ک و نہالنے ک ا
تھے )20( ۔ طریقہ سیکھتے
-مسانید صحابیات:
صحابیات کی کثرت روایت اور ان کی خدمت حدیث کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ امام احم د بن حنب ل نے (
)140سے زائد صحابیات کا تذکرہ لکھا ہے ،اسی طرح "اسد الغ ابۃ" اور "االص ابۃ فی تمی یز الص حابۃ" میں ( )500س ے
زائد صحابیات کے تراجم موجود ہیں" ،تہذیب التہذیب" میں ( )233خواتین اسالم کا تذکرہ ہے جن میں بیش تر ص حابیات
ہیں)21( ۔
-تابعیات وتبع تابعیات:
صحابیات کی صحبت اور ایمان کی حالت میں جن خواتین نے پرورش پائی یا ان سے استفادہ کیا ان کو تابعیات کہا
جاتا ہے ،صحابیات کی طرح تابعیات نے بھی فن حدیث کی حفاظت واشاعت اور اس کی روایت اور درس وت دریس میں
کافی حصہ لیا اور بعض نے تو اس فن میں اتنی مہارت حاصل کی کہ بہت سے کبار تابعین نے ان س ے اکتس اب فیض
کیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ ہللا کی کتاب "تقریب التہذیب" کی ورق گ ردانی ک رنے س ے یہ ب ات مترش ح ہوج اتی ہے کہ
صحابیات کی طرح تابعیات کی ایک بڑی تعداد نے روایت وتحمل حدیث میں انتھ ک کوش ش کی ،چن انچہ ان کے اع داد
وشمار کے مطابق ( )121تابعیات اور ( )26تبع تابعیات ہیں۔ البتہ "تقریب التہذیب" کے مط العہ س ے یہ ب ات ظ اہر ہ وتی
ہے کہ ان تابعیات میں کچھ پائے ثقاہت کو پہنچی ہیں ،زیادہ تعداد میں مجہوالت پائی جاتی ہیں۔ چن د مش ہور تابعی ات
کی خدمت کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
انہوں نے متعدد ص حابہ وت ابعین س ے روایت کی ہے ،جس میں انس بن مال ک اور ام عطیہ وغ یرہ ہیں اور ان س ے
روایت کرنے والوں میں ابن عون ،خالد الحذاء ،قتادہ وغیرہ شامل ہیں)22( ۔ جرح وتعدیل کے ام ام یح یی بن معین نے ان
کو "ثقۃ حجۃ" فرمایا)23( ۔ ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں" :ما ادرکت احدا افض لتہ علی حفص ۃ" )24( میں نے حفص ہ س ے
ہے)25( ۔ زیادہ فضل واال کسی کو نہیں پایا۔ امام ذہبی سے انہیں حفاظ حدیث کے دوسرے طبقہ میں شامل کیا
یہ حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا کی خاص تربیت یافتہ اور ان کی احادیث کی امین تھیں ،ابن المدینی فرماتے ہیں"
حضرت عائشہ کی حدیثوں میں سب سے زیادہ زیادہ قابل اعتماد احادیث عمرہ بنت عبد الرحمن ،قاسم اور ع روہ کی
ہیں"۔ محم د بن عب د ال رحمن فرم اتے ہیں کہ مجھ س ے عم ر بن عب د العزی ز نے فرمای ا" :م ا بقی اح د اعلم بح دیث
عائشۃ" )26( اس وقت حضرت عائشہ کی احادیث کا ان سے بڑا کوئی جاننے واال موجود نہیں ہے۔ ابن س عد نے ان ک و
"عالمہ" لکھا ہے)27( ۔ اور ام ام ذہ بی نے ان ک و ت ابعین کے تیس رے طبقہ میں ش مار کی ا ہے)28( ۔ اور ابن الم دینی نے
"احد ثقات العلماء" )29( کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ حضرت عائشہ کے عالوہ دوس رے ص حابہ ک رام س ے بھی انہ وں
پائی30( نے روایتیں کی ہیں۔ ان سے روایت کرنے والوں میں تیرہ سے زیادہ کبار تابعین ہیں۔ 103ھ یا 116ھ میں وفات
)۔
خیر القرون کے تذکرے کے بعد متاخرین کے مختلف ادوار کا ت ذکرہ بھی مناس ب معل وم ہوت ا ہے ،ان ادوار میں بھی
محدثین اور رواۃ کے ہمراہ راویات ومحدثات کی ایک لمبی فہرس ت دس تیاب ہ وتی ہے جنہ وں نے حف اظت ح دیث کی
ذمہ داری اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائی۔ خدمت حدیث کی نوعیت علیح دہ علیح دہ اور مختل ف ہے۔ ک وئی اپ نے زم انہ
کی شیخۃ الحدیث تھی ،کسی کا مسکن علم حدیث کا مرکز تھا ،کس ی نے ح دیث کی تالش وجس تجو میں مح رم
کے ساتھ اپنے گھر کو خیرباد کہا ،تو کسی نے محدثین کے ایک جم غفیر کو روایت حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔
کسی نے حدیث کی مخصوص کتاب صحیح بخاری کا درس دیا ،کتب سنہ اور دیگر کتب حدیث میں س ینکڑوں ح دیثیں
ایسی ہیں جو کسی محدثہ یا راویہ کے توسط سے مروی ہیں۔ امام بخ اری ،ام ام ش افعی ،ام ام ابن حب ان ،ام ام ابن
حجر ،امام سیوطی ،امام س خاوی ،ع راقی ،س معانی اور ام ام ابن خلک ان رحمہم ہللا جیس ے اس اطین علم وفن اے
اساتذہ کی فہرست میں متعدد خواتین اسالم کے نام ملتے ہیں ،)31( جن س ے یہ حقیقت واض ح ہوج اتی ہے خ واتین
نے اپنے ذاتی ذوق وشوق کی بنیاد پر نہ صرف علم حدیث ک و حاص ل کی ا بلکہ اس کی نشرواش اعت ک ا فریض ہ بھی
انجام دیاہے۔ جس طرح محدثین اور علم حدیث س ے ش غف رکھ نے وال وں اور خ دمت ح دیث میں دل چس پی رکھ نے
وال وں کی تع داد واف ر مق دار میں پ ائی ج اتی ہے ،اس ی خ واتین اس الم کی بھی ای ک طوی ل فہرس ت کتب اس ماء
ورجال کی ورق گردانی کے بعد دستیاب ہوتی ہے ،چنانچہ چوتھی صدی ہجری سے لے کر دس ویں ص دی ہج ری کی
محدثات اور راویات اور خدمت حدیث میں اپنے نام کو روشن کرنے والیوں کا ایک تذکرہ پیش کیا جارہا ہے:
چوتھی صدی ہجری میں پانچ خواتین ،پانچویں صدی ہج ری میں پن درہ ،چھ ٹی ص دی ہج ری میں پچھ تر ،س اتویں
صدی ہجری میں پینسٹھ ،آٹھویں صدی ہجری میں ایک سو بانوے ،نویں صدی ہجری میں ای ک س و اکس ٹھ اور دس ویں
صدی ہجری میں تین خواتین اسالم نے مختلف حوال وں س ے خ دمت ح دیث ک ا ک ا انج ام دی ا )32( ۔ ان کے عالوہ بہت
ساری محدثات اور راویات ہیں ،لیکن ان کی تاریخ وفات نیز ان کے اساتذہ اور تالم ذہ ک ا س راغ نہ لگ نے کی وجہ س ے
صدی متعین نہ ہوسکی ،جس کی وجہ سے ان کا تذکرہ نہیں کیا گی ا۔ بہرح ال خادم ات ح دیث کے ج و اع داد وش مار
بھی آپ کی نگاہوں سے گزرے ان سے آپ مسلم خواتین کی سرگرمیوں کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں ،نیز حف اظت
حدیث اور اس کی نشر واشاعت میں ان کی تگ ودو کا ہلکا سا پس منظر بھی آپ کے سامنے آگیا ہوگ ا۔ (ان تم ام ت ر
خدمات دینیہ کے ساتھ ساتھ وہ اسالمی اقدار کی پاسداری میں بھی اپنی مثال آپ تھیں) ۔
جس طرح احادیث رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی تالش وجستجو میں محدثین نے عالم اسالم کی خاک چھ انی
ہے اور جملہ نوائب ومصائب کو برداشت کی ا ،ابت دائی دور میں اح ادیث وآث ار کی روایت اور ان کی ت دوین کے ل ئے بہت
لمبے لمبے اسفار کئے تھے ،لیکن بع د میں س ند ع الی کی طلب بھی ان اس فار ک ا س بب بن گ ئی ،اس ی خ واتین
اسالم نے بھی اپنی صنفی حی ثیت وص الحیت کے مط ابق ش رعی پ ردہ میں رہ ک ر تحص یل ح دیث کے ل ئے دور دراز
ملکوں اور شہروں کا سفر کیا اور محدثین کی فہرست میں اپنا نام درج کروایا )33( ۔
ام علی تقیہ بنت ابو الفرج بغدادیہ نے بغداد سے مصر جاکر قیام کیا اور اسکندریہ میں امام ابو طاہر احمد بن محمد
السلفی سے اکتساب علم کیا)34( ۔ اسی طرح زینب بنت برہان الدین اردبیلیہ کی والدت مکہ مکرمہ میں ہ وئی ،ہ وش
آئیں( سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے چچا کے ساتھ بالد عجم کا سفر کیا اور بیس سال کے بع د مکہ مک رمہ واپس
)35۔ ام محمد زینب بنت احمد بن عمر کا وطن بیت المقدس تھا ،امام ذہبی نے ان کو "المعمرۃ الرحالۃ" کے القاب سے
یاد کیا ہے ،کیونکہ دور دراز کا سفر کرکےتحصیل علم اور حدیث کی روایت میں مشہور تھیں ،اسی وجہ سے بع د میں
دور دراز ملکوں کے طلبہ حدیث ان سے روایت کرتے تھے )36( ۔ (ی اد رہے کہ ان مح دثات کے یہ اس فار مح رم کے بغ یر
ہرگز نہ ہوتےتھےاور ان کی درسگاہیں بھی اسالمی اقدار اور حجاب کی پابندی میں ہوتی تھی) ۔
ان خواتین اسالم پاک طینت محدثات اور راویات سے شرف تلمذ حاصل ک رنے کے ل ئے مختل ف عالق وں اور دور دراز
ملکوں سے طلبہ حدیث جوق در جوق حاضر ہوتے تھےاور ان سے روایت ک رنے ک و اپ نے ل ئے ب اعث ص د افتخ ار تص ور
کرتے تھے ،ان کی درس گاہوں میں طلبہ ہی نہیں بلکہ ائمہ وحفاظ حدیث بھی آکر اکتساب فیض کرتے تھے۔ ام محمد
زینب بنت مکی حرانیہ نے چورانوے سال کی عمر تک حدیث کا درس دیا اور ان کی درس گاہ میں طلبہ کا کافی ہج وم
رہا کرتا تھا ،امام ذہبی نے لکھ ا ہے" :وازدحم علیہ ا الطلبۃ" )37( ۔ ام عب د ہللا زینب بنت کم ال ال دین مقدس یہ مس ندۃ
الشام کی پوری زندگی احادیث کی روایت اور کتب حدیث کی تعلیم میں گزری ،ان کی درس گاہ میں طلبہ کی ک ثرت
ہوا کرتی تھی ،امام ذہبی نے لکھا ہے" :تکاثر علیہا وتفردت وروت کتبا کثیرا" )38( ۔
عام طور س ے مح دثات کی مجلس درس ان کی رہ ائش گ اہوں میں منعق د ہ وتی تھی اور طلبہ ح دیث وہیں ج اکر
استفادہ کرتے تھے ،جیسا کا امام ذہ بی اور ابن الج وزی نے ان س ے روایت کے سلس لہ میں ان کی قی ام گ اہوں کی
نشاندہی کی ہے ،مگر بعض محدثات نے مختل ف ش ہروں میں بھی درس دی ا ہےاور دی نی علم ک و ع ام کی ا ہے)39( ۔
خلدیہ بنت جعفر بن محمد بغداد کی باشندہ تھیں ،ایک مرتبہ وہ بالد عجم کے سفر میں نکلیں ت و مق ام دین ور میں ان
سے خطیب ابو الفتح منصور بن ربیعہ زہری نے حدیث کی روایت کی )40( ۔ مسندۃ الوقت ست الوزراء بنت عمر تن وخیہ
دیا )41( ۔ نے متعدد بار مصر اور دمشق میں صحیح بخاری اور مسند امام شافعی کا درس
مسلم خواتین نے صرف درس وتدریس اور روایت ہی سے اشاعت حدیث ک ا ک ام نہیں لی ا ،بلکہ مح دثین کی ط رح
تصنیف وتالیف ،کتب احادیث کے نقل اور اپنی مرویات کی کتابی شکل میں م دون ک رکے محف وظ کی ا ،ن یز فن اس ماء
ورجال وفن حدیث میں بھی کتابیں تصنیف کیں اور اپنی نفع بخش تالیفات سے مکتبات اسالمیہ کو ماالمال کیا اور دنی ا
کے کتب خانوں کو س نوارنے اور انہیں زیب وزینت بخش نے میں ان اہ ل قلم مح دثات ک ا ب ڑا دخ ل رہ ا ہے ،اس مختص ر
مقالہ میں تمام صاحب قلم خواتین اور ان کی تصنیفات کا احصاء تو ممکن نہیں ،البتہ بطور مثال چند مسلم خ واتین ک ا
نام اور ان کی مولفات کا نام پیش کیا جارہا ہے:
-1ام محمد فاطمہ بنت محمد اصفہانی کو تصنیف وتالیف میں بڑا اچھا سلیقہ حاصل تھا ،انہوں نے بہت ہی عمدہ عمدہ کتابیں تصنیف کی تھیں،
جن میں "الرموز من الکنوز" پانچ جلدوں میں آج بھی موجود ہے )42( ۔
-2طالبہ علم :انہوں نے ابن حبان کی مشہور کتاب "المجروحین" میں مذکور احادیث کی فہرست تیار کی ہے۔
-3عجیبہ بنت حافظ بغدادیہ :انہوں نے اپنے اساتذہ وشیوخ کے حاالت اور ان کے مسموعات پر دس جلدوں میں "المشیخۃ" نامی کتاب لکھی (
)43۔
-4ام محمد محمد شہدہ بنت کمال :ان کو بہت سی حدیثیں زبانی یاد تھیں۔ لہذا انہوں نے بہت سی احادیث کو کتابی شکل میں یکجا کیا )44( ۔
-5امۃ ہللا تسنیم :یہ عالمہ ابو الحسن علی ندوی کی بہن ہیں ،انہوں نے امام نووی کی کتاب "ریاض الص الحین"
کا اردو ترجمہ "زاد سفر" کے نام سے کیا ہے۔
عصر حاضر میں ہمارے ملک ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایس ا جم اعتی ادارہ ہ و جس کے س اتھ "ش عبہ بن ات"
منسلک ومربوط نہ ہو۔ فی الحال تقریبا جماعت اہ ل ح دیث کے س ینکڑوں ادارے خ واتین اس الم کی تعلیم وت ربیت کی
ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں اور جہاں دیگر علوم وفنون کے ساتھ ساتھ علم حدیث ،اصول حدیث اور فقہ واصول فقہ کی
بھی خاطر خواہ تعلیم دی جاتی ہے ،آئندہ نسلوں کے ل ئے یہ بہ ترین خ وش آئن د ش ئ ہےاور ہ و بھی کی وں نہ جبکہ
نسواں مدارس اسالمیہ میں فی الحال کتنی معلمات ایسی ہیں جو درس حدیث کے منصب پر فائز ہیں۔
-خالصئہ کالم:
حاصل کالم یہ ہے کہ خیر القرون سے لے کر عصر حاض ر ت ک ہ ر دور میں کم وبیش خ واتین اس الم نے علم ح دیث
کی اشاعت میں جو خدمات جلیلہ انجام دی ہیں خواہ تعلیم وتدریس کے میدان میں ہ و ،ی ا تص نیف وت الیف کے می دان
میں وہ قابل تعریف وستائش اور ناقابل فراموش ہے اور پورے وثوق واعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ خواتین اس الم
کی علمی خدمات سے چشم پوشی کرنا تاریخ کے ایک روشن باب کو صفحئہ ہستی سے ناپید کرنا ہے۔
آخر میں ہللا رب العالمین سے دعا گ و ہ وں کہ الہی ان خ واتین اس الم کی علمی خ دمات اور مس اعی جمیلہ ک و
شرف قبولیت عطا فرما ،نیز ہم طالبان علوم نبوت کو علم کے ساتھ ساتھ اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرما،
آمین۔
-حواشی:
( )1سورہ محمد 19 :۔()2سورہ الزمر )3( 9 :سورہ مجادلہ 11 :۔ )4( صحیح سنن ابن ماجہ 4511/231 :۔ ()5
صحیح س نن ابن م اجہ ،1/44/183 :ب اب فض ل العلم اء والحث علی طلب العلم۔ )6( س ورہ الحج رات 13 :۔ )7( س ورہ
الروم 21 :۔ ( )8صحیح البخاری مع الفتح ، 1/195/101 :کتاب العلم باب ہل یجعل للنساء یوم علی ح دۃ فی العلم۔ ( )9
خاتون اسالم ص ، 69تالیف :ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری۔ ( )10بقی بن مخلد القرطبی ص ،79تدریب الراوی 20/677 :۔
( )11خ دمت ح دیث میں خ واتین ک ا حص ہ ص ، 17ت الیف :مجیب ہللا ن دوی ۔ ( )12تہ ذیب التہ ذیب ،12/463 :س یر
الصحابیات ص 28۔ ( )13تہذیب التہذیب ،12/463 :االستیعاب 4/1883 :۔ ( )14تہذیب التہذیب 463 ،12/461 :۔ ()15
طبقات ابن سعد 2/375 :۔ )16( بقی بن مخلد القرطبی ص ، 81سیر الصحابیات ص 9۔ ( )17اعالم الموقعین البن قیم
الجوزیۃ 1/15 :۔ ( )18بقی بن مخلد القرطبی ص 160 /84۔ ( )19مسند احمد ، 6/430 :منقول از خدمت حدیث میں
خواتین کا حصہ ص 12۔ ( )20تہذیب التہذیب 12/455 :۔ ( )21تہذیب التہذیب 516 -12/426 :۔ ( )22تہذیب التہذیب:
12/438۔ ( )23تہذیب التہذیب 12/438 :۔ ( )24تہذیب التہذیب 12/438 :۔ ( )25ت ذکرۃ الحف اظ 1/9 :۔ ( )26تہ ذیب
التہذیب 12/466 :۔ ( )27تہذیب التہذیب 12/466 :۔ ( )28تذکرۃ الحفاظ 1/94 :۔ ( )29تہذیب التہذیب 12/466 :۔ ()30
تہذیب التہذیب 12/466 :۔ ( )31تلخیص از ماہنامہ السراج مارچ 2001ء ص 24۔ ( )32تلخیص از مجلہ الفرقان جوالئی تا
ستمبر 2002ء ص 37 -26۔ ( )33خواتین اسالم کی دینی وعلمی خدمات ص 30-29۔ ( )34ابن خلکان 1/103۔ ()35
العقد الثمین 8/224 :۔ ( )36ذیل العبر للذہبی :ص 126۔ ( )37العبر 5/358 :۔ ( )38العبر 5/213 :۔ ( )39خواتین اسالم
کی دینی وعلمی خدمات ص 54۔ ( )40تاریخ بغداد 14/444 :۔ ( )41خواتین اسالم کی دینی وعلمی خدمات ص 54۔ (
)42العقد الثمین 8/202 :۔ )43( العبر للذہبی 5/194 :۔ ( )44ذیل العبر للذہبی :ص 49۔