You are on page 1of 8

‫علم حدیث میں خواتین کا کردار‬

‫دور حاضر میں خواتین کے لئے ایک روشن اور رہنما تحریر‬

‫اسالم ایک عالمگیر مذہب ہے‪ ،‬اس کی تہذیب وتمدن‪ ،‬ثقافت وحضارت‪ ،‬اس کے نظم ونس ق‪ ،‬ق وانین وض وابط اور‬
‫طریقہ تعلیم وتربیت س رمدی وآف اقی ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ اس الم ہمیش ہ س ے جہ الت وناخوان دگی اور آوارگی ک ا‬
‫کھال دش من اور علم ومع رفت‪ ،‬شائس تگی اور آراس تگی ک ا روزازل س ے ای ک مخلص س اتھی اور دوس ت رہ ا ہے۔‬
‫ہللا" ‪( ‬‬ ‫چنانچہ اس نے انسانیت کو بغیر کسی تفریق م رد وزن لف ظ "اق رء" س ے مخ اطب کی ا اور "ف اعلم انہ ال الہ اال‬
‫‪  )1‬یعنی ایمان النے سے پہلے علم ومعرفت کی اہمیت وافادیت کو اجاگر کیا اور "قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین‬
‫ال یعلمون"‪  )2( ‬جیسے پرکشش وپرشکوہ نصوص سے عالم وجاہل کے مابین ہمسری کی نفی کردی۔ ن یز "یرف ع ہللا‬
‫الذین آمن وا منکم وال ذین اوت وا العلم درج ات"‪ )3( ‬اور ہللا کے رس ول ص لی ہللا علیہ وس لم نے "نض ر ہللا ام رءا س مع‬
‫مقالتی فوعاہا ثم اداہا الی من لم یسمعہا"‪ )4( ‬جیسے قیمتی اور بیش بہا فرمودات سے حصول علم کی ترغیب دی‬
‫ہے سوائے تین علوم علم سحر‪ ،‬علم نجوم اور علم کہ انت کے تم ام عل وم وفن ون کے س یکھنے س کھانے‪ ،‬پڑھ نے‬
‫پڑھانے کی مکمل آزادی اور رخصت دے رکھی ہے۔‬

‫قرآن مجید کے عالوہ نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے بال تفریق مرد وزن اس کے حصول ک ا حکم اور ج ا بج ا اس کی‬
‫اہمیت وفضیلت کو بیان کیا ہے‪ ،‬چنانچہ ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ "طلب العلم فریضۃ علی ک ل مس لم"‪ )5( ‬یع نی‬
‫تمام مسلمانوں پرعلم دین حاصل کرنا فرض ہے۔ اس میں مرد وعورت دونوں کے ل ئے حکم ہے اور اس پرعلم اء امت ک ا‬
‫اجماع ہے۔‬

‫ع ورت انس انی معاش رہ ک ا وہ اہم عنص ر ہے جس کے بغ یر معاش رہ وس ماج ک ا تص ور ہی ممکن نہیں‪ ،‬ع ورت‬
‫انسانی ترقی کا زینہ اور اجتماعی زندگی کی روح ہے‪ ،‬ع ورت ع الم انس انی کی بق ا اور اس کے تحف ظ کی ض امن‬
‫ارفوا"‪( ‬‬ ‫ہے‪ ،‬نیز کائنات گل گلزار کی محافظ ہے۔ "یا ایہا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم ش عوبا وقبائ ل لتع‬
‫‪)6‬۔ عورت افزائش نسل اور اوالد کی تعلیم وت ربیت کی اعلی ذمہ دار ہے‪ ،‬اس کی گ ود جہ اں ای ک ط رف ش یر خ وار‬
‫بچوں کی جائے پرورش ہے‪ ،‬وہیں دوسری طرف اس کی آغوش حضارت وتمدن اور تعلیم وتربیت کا گہوارہ ہے‪ ،‬ع ورت‬
‫روئے زمین پر ہللا کی نشانی بن کر آئی اور رہ تی دنی ا ت ک اس چمن کی ع زت اور آب رو ب نی رہے گی‪ ،‬ان ش اء ہللا۔‬
‫ارشاد باری تعالی ہے‪" :‬ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ"‪)7( ‬۔ ع ورت‬
‫ناقص العقل تو ہے لیکن تعلیم وتعلم سے کوری نہیں‪ ،‬عورت ناقص الدین تو ہے مگر عب ادت س ے مرف وع القلم نہیں‪،‬‬
‫عورت پردہ کی پابند ضرور ہے لیکن غزوات جہاد میں شرکت کی مستحق بھی ہے۔‬

‫‪     ‬وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‬

‫‪     ‬اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں‬

‫ایک شبہ کا ازالہ‬

‫آج کے ترقی یافتہ دور میں اسالمی معاشرہ میں جو تعلیم نسواں یا مدرس ہ نس واں نظ ر آت ا ہےاس ے دیکھ ک ر‬
‫بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس کا ثبوت کہان ہے؟ عہد رسالت کی مشہور تعلیم گاہ ویونیورسٹی ج و دنی ا میں اہ ل‬
‫صفہ کے نام سے متعارف ہے‪ ،‬اس میں صحابیات اور بنات اسالم کا ذکر ملتا ہے؟ اس کے ثبوت کے لئے ای ک ح دیث‬
‫ہی کافی ہے۔ امام بخاری رحمہ ہللا نے ایک باب اپنی صحیح کے اندر قائم کیا ہے‪" :‬ہل یجعل للنساء ی وم علی ح دۃ‬
‫فی العلم" اور اس باب کے تحت جو حدیث الئے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ "ن بی ک ریم ص لی ہللا علیہ وس لم کی‬
‫حیات طیبہ میں عورتوں کے اندر علم حدیث کے حاصل کرنے کا شوق وجذبہ اس قدر موجزن تھا کہ تمام عورتوں نے‬
‫اجتماعی طور پر ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وس لم س ے مط البہ کی ا کہ آپ ہم اری تعلیم کے ل ئے ک وئی انتظ ام‬
‫فرمادیجئے۔ چنانچہ ابو سعید خدری رض ی ہللا عنہ ک ا بی ان ہے کہ ہللا کے رس ول ص لی ہللا علیہ وس لم نے ان کے‬
‫لئے ایک دن کا وعدہ کی ا جس میں ان ک و وع ظ ونص یحت ک رتےاور دی نی ب اتوں ک ا حکم فرم اتے تھے‪)8( ‬۔ اس س ے‬
‫بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین اسالم میں ارشادات نبویہ کے حصول کا کس قدر شوق وجذبہ تھا۔‬

‫اگر اس قسم کے لوگ کتب رجال کی ورق گردانی کریں تو انہیں ص حابیات‪ ،‬تابعی ات اور مختل ف ادوار کی روای ات‬
‫ومحدثات کی ایک طویل فہرست دستیاب ہوسکتی ہے‪ ،‬جنہوں نے حفاظت حدیث کے تعلق سے وہ کارہائے نمای اں‬
‫انجام دیئے جس کی مثال دنیا کے کسی مذہب وملت میں نہیں م ل س کتی‪ ،‬فن ح دیث ہی کی ا ش رعی علم وفن‬
‫کوئی بھی ہو اس میں عورتوں کی کارکردگی نمایاں نظر آتی ہے‪ ،‬فن تفسیر ہو یا حدیث‪ ،‬فقہ ہو یا اص ول‪ ،‬ادب ہ و ی ا‬
‫بالغت سارے کے سارے فنون کی عورتون نے جان توڑ خدمت کی۔ اگر صحابیات وتابعیات تحمل اور روایت حدیث میں‬
‫پیچھے رہتیں تو آج اسالمی دنیا مسائل نسواں کی علم ومعرفت سے محروم رہتی‪ ،‬نکاح وطالق کے مسائل ہوں ی ا‬
‫جماع ومباشرت کے ازدواجی زندگی کا کوئی الجھا ہوا پہلو ہو یا خانگی مشکالت‪ ،‬اگر اس قس م کے الجھے اور پیچ‬
‫مسائل کا حل ہمیں ملتا ہے تو صحابیات وتابعیات کی مرویات ہیں۔‬

‫‪ -‬خواتین‪ ‬اسالم اور علم حدیث‪:‬‬

‫ابتدائے اسالم سے لے کر اس وقت تک سینکڑوں ہزاروں پردہ نشیں مسلم خواتین نے حدود شریعت میں رہ تے‬
‫ہوئے گوشہ عمل وفن سے لے کر میدان جہاد تک ہر ش عبہ زن دگی میں حص ہ لی ا اور اس المی معاش رہ کی تعم یر‬
‫میں اپن ا ک ردار ادا کی ا‪ ،‬خ واتین اس الم نے علم ح دیث کی ج و خ دمات انج ام دی ہیں‪ ،‬ان کی س ب س ے پہلی‬
‫نمائندگی صحابیات وتابعیات کرتی ہیں‪ ،‬اس لئے سب سے پہلے انہی کے کارناموں کا اجمالی نقشہ پیش کیا جارہا‬
‫ہے۔‬

‫‪ -‬صحابیات‪:‬‬

‫صحابہ کرام کی طرح ص حابیات بھی اپ نے ذہن ودم اغ کے لح اظ س ے ای ک درجہ اور م رتبہ کی نہین تھیں اور نہ‬
‫سب کو یکساں طور سے آنحض رت ص لی ہللا علیہ وس لم کی ص حبت ورف اقت نص یب ہ وئی تھی‪ ،‬اس ل ئے ان کی‬
‫خدمات بھی اسی کے اعتبار سے کم وبیش ہوں گی‪ ،‬کیونکہ حدیث کی خدمات کے لئے س ب س ے زی ادہ ض رورت‬
‫حفظ اور فہم وفراست ہی کی تھی۔ صحابیات میں ازواج مطہرات کو ن بی ص لی ہللا علیہ وس لم کے س اتھ ہ ر لح اظ‬
‫سے زیادہ خصوصیت حاصل تھی‪ ،‬اس لئے اس سلسلہ میں ان کی خدمات سب سے زی ادہ ہیں‪ ،‬ی وں ت و ص حابیات‬
‫کی مجموعی تعداد حاف ظ ابن حج ر عس قالنی رحمہ ہللا کے احص اء کے مط ابق‪ )1545( ‬ہے‪ ،‬لیکن جنہ وں نے روایت‬
‫حدیث کے ذریعہ حفاظت حدیث کا بیڑا اٹھایا ان کی تعداد سات سو سے زائد بتائی گ ئی ہے اور ان س ے ب ڑے ب ڑے‬
‫صحابہ کرام اور جلیل القدر ائمہ نے علم حاصل کیا ہے‪ ،)9( ‬عالمہ ابن حزم اپنی کتاب "اسماء الصحابۃ الرواۃ وم ا لک ل‬
‫واحد من العدد" کے اندر کم وبیش‪  )125( ‬صحابیات کا تذکرہ کیا ہے جن سے روایات مروی ہیں اور ان کے اعداد وشمار‬
‫کے مطابق صحابیات سے مروی احادیث کی ک ل تع داد (‪ )2560‬ہے جن میں س ب س ے زی ادہ ام الموم نین عائش ہ‬
‫صدیقہ رضی ہللا عنہا سے مروی ہے‪ ،‬حضرت عائشہ مکثرین رواۃ صحابہ میں س ے ہیں‪ ،‬ان کی مروی ات کی تع داد (‬
‫‪ )2210‬ہے‪ ،)10( ‬جن میں (‪ )286‬حدیثیں بخاری ومس لم میں موج ود ہیں‪ ،‬مروی ات کی ک ثرت کے لح اظ س ے ص حابہ‬
‫کرام میں ان کا چھٹا نمبر ہے‪ ،)11( ‬مرویات کی کثرت کے ساتھ اح ادیث س ے اس تدالل اور اس تنباط مس ائل‪ ،‬ان کے‬
‫علل واسباب کی تالش وتحقیق میں بھی ان کو خاص امتیاز حاصل تھا اور ان کی صفت میں بہت کم ص حابہ ان کے‬
‫شریک تھے‪ ،‬کتب حدیث میں کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔‬

‫امام زہری جو کبار تابعین میں سے تھے وہ فرماتے ہیں‪" :‬کانت عائشۃ اعلم الناس یسالہا االکابر من اصحاب رسول‬
‫ہللا صلی ہللا علیہ وسلم"‪ ،)12( ‬یعنی حضرت عائشہ تم ام لوگ وں میں س ب س ے زی ادہ علم رکھ نے والی تھیں‪ ،‬ب ڑے‬
‫بڑے صحابہ کرام ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ دوسری جگہ اس طرح رقمط راز ہیں‪" :‬اگ ر تم ام ازواج مطہ رات ک ا‬
‫علم بلکہ تمام مسلمان عورتوں کا علم جمع کیا جائےتو حضرت عائشہ کا علم سب سے اعلی وافضل ہوگا"‪)13( ‬۔‬

‫حض رت عائش ہ فت وی اور درس دی ا ک رتی تھیں‪ ،‬یہی نہیں بلکہ آپ نے ص حابہ ک رام کی لغزش وں کی بھی نش اندہی‬
‫فرم ائی‪ ،‬عالمہ جالل ال دین س یوطی اور زرکش ی رحمہم ا ہللا نے اس موض وع پ ر "االص ابۃ فیم ا اس تدرکتہ عائش ۃ علی‬
‫الصحابۃ" کے نام پر مستقل کتاب لکھ رکھی ہے‪ ،‬حضرت عائشہ سے روایت کرنے والے صحابہ وتابعین کی تع داد س و س ے‬
‫متجاوز ہے‪ )14 ( ‬۔‬

‫ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ کے بعد حضرت ام سلمہ رضی ہللا عنہ ا علم ح دیث میں ممت از نظ ر آتی ہیں‪،‬‬
‫علم حدیث میں ان کے مقام ومرتبہ کے متعلق محمد بن لبید فرم اتے ہیں‪" :‬ک ان ازواج الن بی ص لی ہللا علیہ وس لم‬
‫یحفظن من حدیث النبی صلی ہللا علیہ وسلم کثیرا مثال عائش ۃ وام س لمۃ"‪ ،)15( ‬یع نی ع ام ط ور س ے رس ول ہللا‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ کی حدیثوں کو بہت زیادہ محفوظ رکھ تی تھیں‪ ،‬مگ ر حض رت عائش ہ اور‬
‫ام سلمہ اس سلسلہ میں سب سے ممتاز تھیں۔ حضرا ام سلمہ سے (‪ )378‬حدیثیں م روی ہیں‪)16( ‬۔‪ ‬ان کے فت وے‬
‫بکثرت پائے جاتے ہیں‪ ،‬عالمہ ابن القیم رحمہ ہللا نے "اعالم الموقعین" میں لکھا ہے‪" :‬اگ ر ام س لمہ رض ی ہللا عنہ ا‬
‫کے فتوے جمع کئے جائیں تو ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہوسکتا ہے‪ ،)17( ‬ان کا شمار محدثین کے تیس رے طبقہ میں‬
‫ہے۔ ان کے تالمذہ حدیث میں بے شمار تابعین اور بعض صحابہ بھی شامل ہیں۔‬

‫ان دونوں کی طرح دوسری ازواج مطہرات نے بھی حدیث کی روایت اور اش اعت میں حص ہ لی ا اور ان س ے بھی‬
‫بڑے جلیل القدر صحابہ اور تابعین نے احادیث حاصل کیں‪ ،‬جیسے حضرت میمونہ ہیں۔ ان سے ( ‪ ،)76‬ام حبیبہ سے (‬
‫‪ ،)65‬حفصہ سے (‪ ،)60‬زینب بنت جحش سے (‪ )11‬جویریہ سے (‪ )7‬سودہ س ے (‪ ،)5‬خ دیجہ س ے (‪ ،)1‬مزی د ب راں‬
‫آپ کی دونوں لونڈیوں میمونہ اور ماریہ قبطیہ رضی ہللا عنہن سے دو دو حدیثیں مروی ہیں۔‬

‫امہات المومنین کے عالوہ صحابیات میں مشکل ہی سے کوئی صحابیہ ایسی ہ وں گی جن س ے ک وئی نہ ک وئی‬
‫روایت موجود نہ ہو‪ ،‬چنانچہ آپ کی پیاری بیٹی لخت جگ ر حض رت ف اطمہ رض ی ہللا عنہ ا س ے ( ‪ ،)18‬آپ کی پھ وپھی‬
‫حضرت صفیہ سے ( ‪ )11‬حدیثیں مروی ہیں‪)18( ‬۔ عام صحابیات میں سے حضرت ام خطل سے (‪ )30‬حدیثیں م روی ہیں‪،‬‬
‫حضرت ام سلیم اور ام رومان سے چند حدیثیں مروی ہیں‪ ،‬ام سلیم سے بڑے بڑے صحابہ مسائل دری افت ک رتے تھے‪،‬‬
‫ایک بار کسی مسئلہ میں حضرت عبد ہللا بن عب اس اور حض رت زی د بن ث ابت میں اختالف ہ وا ت و دون وں نے ان ہی ک و‬
‫حکم مانا‪)19( ‬۔ حضرت ام عطیہ سے متعدد صحابہ وتابعین نے روایت کیا اور صحابہ وتابعین ان س ے م ردہ ک و نہالنے ک ا‬
‫تھے‪ )20( ‬۔‬ ‫طریقہ سیکھتے‬

‫‪ -‬مسانید صحابیات‪:‬‬

‫صحابیات کی کثرت روایت اور ان کی خدمت حدیث کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ امام احم د بن حنب ل نے (‬
‫‪ )140‬سے زائد صحابیات کا تذکرہ لکھا ہے‪ ،‬اسی طرح "اسد الغ ابۃ" اور "االص ابۃ فی تمی یز الص حابۃ" میں ( ‪ )500‬س ے‬
‫زائد صحابیات کے تراجم موجود ہیں‪" ،‬تہذیب التہذیب" میں (‪ )233‬خواتین اسالم کا تذکرہ ہے جن میں بیش تر ص حابیات‬
‫ہیں‪)21( ‬۔‬

‫‪ -‬تابعیات‪ ‬وتبع تابعیات‪:‬‬

‫صحابیات کی صحبت اور ایمان کی حالت میں جن خواتین نے پرورش پائی یا ان سے استفادہ کیا ان کو تابعیات کہا‬
‫جاتا ہے‪ ،‬صحابیات کی طرح تابعیات نے بھی فن حدیث کی حفاظت واشاعت اور اس کی روایت اور درس وت دریس میں‬
‫کافی حصہ لیا اور بعض نے تو اس فن میں اتنی مہارت حاصل کی کہ بہت سے کبار تابعین نے ان س ے اکتس اب فیض‬
‫کیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ ہللا کی کتاب "تقریب التہذیب" کی ورق گ ردانی ک رنے س ے یہ ب ات مترش ح ہوج اتی ہے کہ‬
‫صحابیات کی طرح تابعیات کی ایک بڑی تعداد نے روایت وتحمل حدیث میں انتھ ک کوش ش کی‪ ،‬چن انچہ ان کے اع داد‬
‫وشمار کے مطابق ( ‪ )121‬تابعیات اور (‪ )26‬تبع تابعیات ہیں۔ البتہ "تقریب التہذیب" کے مط العہ س ے یہ ب ات ظ اہر ہ وتی‬
‫ہے کہ ان تابعیات میں کچھ پائے ثقاہت کو پہنچی ہیں‪ ،‬زیادہ تعداد میں مجہوالت پائی جاتی ہیں۔ چن د مش ہور تابعی ات‬
‫کی خدمت کا تذکرہ کیا جاتا ہے‪:‬‬

‫‪ -‬حضرت حفصہ بنت سیرین‪:‬‬

‫انہوں نے متعدد ص حابہ وت ابعین س ے روایت کی ہے‪ ،‬جس میں انس بن مال ک اور ام عطیہ وغ یرہ ہیں اور ان س ے‬
‫روایت کرنے والوں میں ابن عون‪ ،‬خالد الحذاء‪ ،‬قتادہ وغیرہ شامل ہیں‪)22( ‬۔ جرح وتعدیل کے ام ام یح یی بن معین نے ان‬
‫کو "ثقۃ حجۃ" فرمایا‪)23( ‬۔ ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں‪" :‬ما ادرکت احدا افض لتہ علی حفص ۃ"‪ )24( ‬میں نے حفص ہ س ے‬
‫ہے‪)25( ‬۔‬ ‫زیادہ فضل واال کسی کو نہیں پایا۔ امام ذہبی سے انہیں حفاظ حدیث کے دوسرے طبقہ میں شامل کیا‬

‫‪ -‬عمرہ بنت عبد الرحمن‪:‬‬

‫یہ حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا کی خاص تربیت یافتہ اور ان کی احادیث کی امین تھیں‪ ،‬ابن المدینی فرماتے ہیں"‬
‫حضرت عائشہ کی حدیثوں میں سب سے زیادہ زیادہ قابل اعتماد احادیث عمرہ بنت عبد الرحمن‪ ،‬قاسم اور ع روہ کی‬
‫ہیں"۔ محم د بن عب د ال رحمن فرم اتے ہیں کہ مجھ س ے عم ر بن عب د العزی ز نے فرمای ا‪" :‬م ا بقی اح د اعلم بح دیث‬
‫عائشۃ"‪ )26( ‬اس وقت حضرت عائشہ کی احادیث کا ان سے بڑا کوئی جاننے واال موجود نہیں ہے۔ ابن س عد نے ان ک و‬
‫"عالمہ" لکھا ہے‪)27( ‬۔‪ ‬اور ام ام ذہ بی نے ان ک و ت ابعین کے تیس رے طبقہ میں ش مار کی ا ہے‪)28( ‬۔‪ ‬اور ابن الم دینی نے‬
‫"احد ثقات العلماء"‪ )29( ‬کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ حضرت عائشہ کے عالوہ دوس رے ص حابہ ک رام س ے بھی انہ وں‬
‫پائی‪30( ‬‬ ‫نے روایتیں کی ہیں۔ ان سے روایت کرنے والوں میں تیرہ سے زیادہ کبار تابعین ہیں۔ ‪103‬ھ یا ‪ 116‬ھ میں وفات‬

‫)۔‬

‫‪ -‬روایت حدیث کے مختلف ادوار‪:‬‬

‫خیر القرون کے تذکرے کے بعد متاخرین کے مختلف ادوار کا ت ذکرہ بھی مناس ب معل وم ہوت ا ہے‪ ،‬ان ادوار میں بھی‬
‫محدثین اور رواۃ کے ہمراہ راویات ومحدثات کی ایک لمبی فہرس ت دس تیاب ہ وتی ہے جنہ وں نے حف اظت ح دیث کی‬
‫ذمہ داری اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائی۔ خدمت حدیث کی نوعیت علیح دہ علیح دہ اور مختل ف ہے۔ ک وئی اپ نے زم انہ‬
‫کی شیخۃ الحدیث تھی‪ ،‬کسی کا مسکن علم حدیث کا مرکز تھا‪ ،‬کس ی نے ح دیث کی تالش وجس تجو میں مح رم‬
‫کے ساتھ اپنے گھر کو خیرباد کہا‪ ،‬تو کسی نے محدثین کے ایک جم غفیر کو روایت حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔‬
‫کسی نے حدیث کی مخصوص کتاب صحیح بخاری کا درس دیا‪ ،‬کتب سنہ اور دیگر کتب حدیث میں س ینکڑوں ح دیثیں‬
‫ایسی ہیں جو کسی محدثہ یا راویہ کے توسط سے مروی ہیں۔ امام بخ اری‪ ،‬ام ام ش افعی‪ ،‬ام ام ابن حب ان‪ ،‬ام ام ابن‬
‫حجر‪ ،‬امام سیوطی‪ ،‬امام س خاوی‪ ،‬ع راقی‪ ،‬س معانی اور ام ام ابن خلک ان رحمہم ہللا جیس ے اس اطین علم وفن اے‬
‫اساتذہ کی فہرست میں متعدد خواتین اسالم کے نام ملتے ہیں‪ ،)31( ‬جن س ے یہ حقیقت واض ح ہوج اتی ہے خ واتین‬
‫نے اپنے ذاتی ذوق وشوق کی بنیاد پر نہ صرف علم حدیث ک و حاص ل کی ا بلکہ اس کی نشرواش اعت ک ا فریض ہ بھی‬
‫انجام دیاہے۔ جس طرح محدثین اور علم حدیث س ے ش غف رکھ نے وال وں اور خ دمت ح دیث میں دل چس پی رکھ نے‬
‫وال وں کی تع داد واف ر مق دار میں پ ائی ج اتی ہے‪ ،‬اس ی خ واتین اس الم کی بھی ای ک طوی ل فہرس ت کتب اس ماء‬
‫ورجال‪ ‬کی ورق گردانی کے بعد دستیاب ہوتی ہے‪ ،‬چنانچہ چوتھی صدی ہجری سے لے کر دس ویں ص دی ہج ری کی‬
‫محدثات اور راویات اور خدمت حدیث میں اپنے نام کو روشن کرنے والیوں کا ایک تذکرہ پیش کیا جارہا ہے‪:‬‬

‫چوتھی صدی ہجری میں پانچ خواتین‪ ،‬پانچویں صدی ہج ری میں پن درہ‪ ،‬چھ ٹی ص دی ہج ری میں پچھ تر‪ ،‬س اتویں‬
‫صدی ہجری میں پینسٹھ‪ ،‬آٹھویں صدی ہجری میں ایک سو بانوے‪ ،‬نویں صدی ہجری میں ای ک س و اکس ٹھ اور دس ویں‬
‫صدی ہجری میں تین خواتین اسالم نے مختلف حوال وں س ے خ دمت ح دیث ک ا ک ا انج ام دی ا ‪ )32( ‬۔ ان کے عالوہ بہت‬
‫ساری محدثات اور راویات ہیں‪ ،‬لیکن ان کی تاریخ وفات نیز ان کے اساتذہ اور تالم ذہ ک ا س راغ نہ لگ نے کی وجہ س ے‬
‫صدی متعین نہ ہوسکی‪ ،‬جس کی وجہ سے ان کا تذکرہ نہیں کیا گی ا۔ بہرح ال خادم ات ح دیث کے ج و اع داد وش مار‬
‫بھی آپ کی نگاہوں سے گزرے ان سے آپ مسلم خواتین کی سرگرمیوں کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں‪ ،‬نیز حف اظت‬
‫حدیث اور اس کی نشر واشاعت میں ان کی تگ ودو کا ہلکا سا پس منظر بھی آپ کے سامنے آگیا ہوگ ا۔ (ان تم ام ت ر‬
‫خدمات دینیہ کے ساتھ ساتھ وہ اسالمی اقدار کی پاسداری میں بھی اپنی مثال آپ تھیں) ۔‬

‫‪ -‬تحصیل حدیث کے لئے سفر‪:‬‬

‫جس طرح احادیث رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی تالش وجستجو میں محدثین نے عالم اسالم کی خاک چھ انی‬
‫ہے اور جملہ نوائب ومصائب کو برداشت کی ا‪ ،‬ابت دائی دور میں اح ادیث وآث ار کی روایت اور ان کی ت دوین کے ل ئے بہت‬
‫لمبے لمبے اسفار کئے تھے‪ ،‬لیکن بع د میں س ند ع الی کی طلب بھی ان اس فار ک ا س بب بن گ ئی‪ ،‬اس ی خ واتین‬
‫اسالم نے بھی اپنی صنفی حی ثیت وص الحیت کے مط ابق ش رعی پ ردہ میں رہ ک ر تحص یل ح دیث کے ل ئے دور دراز‬
‫ملکوں اور شہروں کا سفر کیا اور محدثین کی فہرست میں اپنا نام درج کروایا‪ )33( ‬۔‬
‫ام علی تقیہ بنت ابو الفرج بغدادیہ نے بغداد سے مصر جاکر قیام کیا اور اسکندریہ میں امام ابو طاہر احمد بن محمد‬
‫السلفی سے اکتساب علم کیا‪)34( ‬۔ اسی طرح زینب بنت برہان الدین اردبیلیہ کی والدت مکہ مکرمہ میں ہ وئی‪ ،‬ہ وش‬
‫آئیں‪( ‬‬ ‫سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے چچا کے ساتھ بالد عجم کا سفر کیا اور بیس سال کے بع د مکہ مک رمہ واپس‬
‫‪ )35‬۔ ام محمد زینب بنت احمد بن عمر کا وطن بیت المقدس تھا‪ ،‬امام ذہبی نے ان کو "المعمرۃ الرحالۃ" کے القاب سے‬
‫یاد کیا ہے‪ ،‬کیونکہ دور دراز کا سفر کرکےتحصیل علم اور حدیث کی روایت میں مشہور تھیں‪ ،‬اسی وجہ سے بع د میں‬
‫دور دراز ملکوں کے طلبہ حدیث ان سے روایت کرتے تھے‪ )36( ‬۔ (ی اد رہے کہ ان مح دثات کے یہ اس فار مح رم کے بغ یر‬
‫ہرگز نہ ہوتےتھےاور ان کی درسگاہیں بھی اسالمی اقدار اور حجاب کی پابندی میں ہوتی تھی) ۔‬

‫‪ -‬محدثات کی درس گاہیں‪:‬‬

‫ان خواتین اسالم پاک طینت محدثات اور راویات سے شرف تلمذ حاصل ک رنے کے ل ئے مختل ف عالق وں اور دور دراز‬
‫ملکوں سے طلبہ حدیث جوق در جوق حاضر ہوتے تھےاور ان سے روایت ک رنے ک و اپ نے ل ئے ب اعث ص د افتخ ار تص ور‬
‫کرتے تھے‪ ،‬ان کی درس گاہوں میں طلبہ ہی نہیں بلکہ ائمہ وحفاظ حدیث بھی آکر اکتساب فیض کرتے تھے۔ ام محمد‬
‫زینب بنت مکی حرانیہ نے چورانوے سال کی عمر تک حدیث کا درس دیا اور ان کی درس گاہ میں طلبہ کا کافی ہج وم‬
‫رہا کرتا تھا‪ ،‬امام ذہبی نے لکھ ا ہے‪" :‬وازدحم علیہ ا الطلبۃ"‪ )37( ‬۔ ام عب د ہللا زینب بنت کم ال ال دین مقدس یہ مس ندۃ‬
‫الشام کی پوری زندگی احادیث کی روایت اور کتب حدیث کی تعلیم میں گزری‪ ،‬ان کی درس گاہ میں طلبہ کی ک ثرت‬
‫ہوا کرتی تھی‪ ،‬امام ذہبی نے لکھا ہے‪" :‬تکاثر علیہا وتفردت وروت کتبا کثیرا"‪ )38( ‬۔‬

‫‪ -‬علم حدیث میں خواتین کی تدریسی خدمات‪:‬‬

‫عام طور س ے مح دثات کی مجلس درس ان کی رہ ائش گ اہوں میں منعق د ہ وتی تھی اور طلبہ ح دیث وہیں ج اکر‬
‫استفادہ کرتے تھے‪ ،‬جیسا کا امام ذہ بی اور ابن الج وزی نے ان س ے روایت کے سلس لہ میں ان کی قی ام گ اہوں کی‬
‫نشاندہی کی ہے‪ ،‬مگر بعض محدثات نے مختل ف ش ہروں میں بھی درس دی ا ہےاور دی نی علم ک و ع ام کی ا ہے‪)39( ‬۔‬
‫خلدیہ بنت جعفر بن محمد بغداد کی باشندہ تھیں‪ ،‬ایک مرتبہ وہ بالد عجم کے سفر میں نکلیں ت و مق ام دین ور میں ان‬
‫سے خطیب ابو الفتح منصور بن ربیعہ زہری نے حدیث کی روایت کی‪ )40( ‬۔ مسندۃ الوقت ست الوزراء بنت عمر تن وخیہ‬
‫دیا‪ )41( ‬۔‬ ‫نے متعدد بار مصر اور دمشق میں صحیح بخاری اور مسند امام شافعی کا درس‬

‫‪ -‬علم حدیث میں خواتین کی تفصیلی خدمات‪:‬‬

‫مسلم خواتین نے صرف درس وتدریس اور روایت ہی سے اشاعت حدیث ک ا ک ام نہیں لی ا‪ ،‬بلکہ مح دثین کی ط رح‬
‫تصنیف وتالیف ‪ ،‬کتب احادیث کے نقل اور اپنی مرویات کی کتابی شکل میں م دون ک رکے محف وظ کی ا‪ ،‬ن یز فن اس ماء‬
‫ورجال وفن حدیث میں بھی کتابیں تصنیف کیں اور اپنی نفع بخش تالیفات سے مکتبات اسالمیہ کو ماالمال کیا اور دنی ا‬
‫کے کتب خانوں کو س نوارنے اور انہیں زیب وزینت بخش نے میں ان اہ ل قلم مح دثات ک ا ب ڑا دخ ل رہ ا ہے‪ ،‬اس مختص ر‬
‫مقالہ میں تمام صاحب قلم خواتین اور ان کی تصنیفات کا احصاء تو ممکن نہیں‪ ،‬البتہ بطور مثال چند مسلم خ واتین ک ا‬
‫نام اور ان کی مولفات کا نام پیش کیا جارہا ہے‪:‬‬
‫‪  -1‬ام محمد فاطمہ بنت محمد اصفہانی کو تصنیف وتالیف میں بڑا اچھا سلیقہ حاصل تھا‪ ،‬انہوں نے بہت ہی عمدہ عمدہ کتابیں تصنیف کی تھیں‪،‬‬
‫جن میں "الرموز من الکنوز" پانچ جلدوں میں آج بھی موجود ہے‪ )42( ‬۔‬

‫‪  -2‬طالبہ علم‪ :‬انہوں نے ابن حبان کی مشہور کتاب "المجروحین" میں مذکور احادیث کی فہرست تیار کی ہے۔‬

‫‪  -3‬عجیبہ بنت حافظ بغدادیہ‪ :‬انہوں نے اپنے اساتذہ وشیوخ کے حاالت اور ان کے مسموعات پر دس جلدوں میں "المشیخۃ" نامی کتاب لکھی ‪( ‬‬
‫‪ )43‬۔‬

‫‪  -4‬ام محمد محمد شہدہ بنت کمال‪ :‬ان کو بہت سی حدیثیں زبانی یاد تھیں۔ لہذا انہوں نے بہت سی احادیث کو کتابی شکل میں یکجا کیا‪ )44( ‬۔‬

‫‪  -5‬امۃ ہللا تسنیم‪ :‬یہ عالمہ ابو الحسن علی ندوی کی بہن ہیں‪ ،‬انہوں نے امام نووی کی کتاب "ریاض الص الحین"‬
‫کا اردو ترجمہ "زاد سفر" کے نام سے کیا ہے۔‬

‫‪ -‬دور حاضر اور خدمات حدیث میں خواتین کا کردار‪:‬‬

‫عصر حاضر میں ہمارے ملک ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایس ا جم اعتی ادارہ ہ و جس کے س اتھ "ش عبہ بن ات"‬
‫منسلک ومربوط نہ ہو۔ فی الحال تقریبا جماعت اہ ل ح دیث کے س ینکڑوں ادارے خ واتین اس الم کی تعلیم وت ربیت کی‬
‫ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں اور جہاں دیگر علوم وفنون کے ساتھ ساتھ علم حدیث ‪ ،‬اصول حدیث اور فقہ واصول فقہ کی‬
‫بھی خاطر خواہ تعلیم دی جاتی ہے‪ ،‬آئندہ نسلوں کے ل ئے یہ بہ ترین خ وش آئن د ش ئ ہےاور ہ و بھی کی وں نہ جبکہ‬
‫نسواں مدارس اسالمیہ میں فی الحال کتنی معلمات ایسی ہیں جو درس حدیث کے منصب پر فائز ہیں۔‬

‫‪ -‬خالصئہ کالم‪:‬‬

‫حاصل کالم یہ ہے کہ خیر القرون سے لے کر عصر حاض ر ت ک ہ ر دور میں کم وبیش خ واتین اس الم نے علم ح دیث‬
‫کی اشاعت میں جو خدمات جلیلہ انجام دی ہیں خواہ تعلیم وتدریس کے میدان میں ہ و‪ ،‬ی ا تص نیف وت الیف کے می دان‬
‫میں وہ قابل تعریف وستائش اور ناقابل فراموش ہے اور پورے وثوق واعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ خواتین اس الم‬
‫کی علمی خدمات سے چشم پوشی کرنا تاریخ کے ایک روشن باب کو صفحئہ ہستی سے ناپید کرنا ہے۔‬

‫آخر میں ہللا رب العالمین سے دعا گ و ہ وں کہ الہی ان خ واتین اس الم کی علمی خ دمات اور مس اعی جمیلہ ک و‬
‫شرف قبولیت عطا فرما‪ ،‬نیز ہم طالبان علوم نبوت کو علم کے ساتھ ساتھ اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرما‪،‬‬
‫آمین۔‬

‫‪ -‬حواشی‪:‬‬
‫(‪ )1‬سورہ محمد‪  19 :‬۔(‪)2‬سورہ الزمر‪ )3(  9 :‬سورہ مجادلہ‪ 11 :‬۔‪ )4(   ‬صحیح سنن ابن ماجہ‪ 4511/231 :‬۔ (‪)5‬‬
‫صحیح س نن ابن م اجہ‪ ،1/44/183 :‬ب اب فض ل العلم اء والحث علی طلب العلم۔ ‪ )6( ‬س ورہ الحج رات‪ 13 :‬۔‪ )7( ‬س ورہ‬
‫الروم‪ 21 :‬۔ ( ‪ )8‬صحیح البخاری مع الفتح‪ ، 1/195/101 :‬کتاب العلم باب ہل یجعل للنساء یوم علی ح دۃ فی العلم۔ ( ‪)9‬‬
‫خاتون اسالم ص ‪ ، 69‬تالیف‪ :‬ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری۔ ( ‪ )10‬بقی بن مخلد القرطبی ص ‪ ،79‬تدریب الراوی‪ 20/677 :‬۔‬
‫(‪ )11‬خ دمت ح دیث میں خ واتین ک ا حص ہ ص ‪ ، 17‬ت الیف‪ :‬مجیب ہللا ن دوی ۔ (‪ )12‬تہ ذیب التہ ذیب‪ ،12/463 :‬س یر‬
‫الصحابیات ص ‪ 28‬۔ (‪ )13‬تہذیب التہذیب‪ ،12/463 :‬االستیعاب‪ 4/1883 :‬۔ (‪ )14‬تہذیب التہذیب‪ 463 ،12/461 :‬۔ (‪)15‬‬
‫طبقات ابن سعد‪ 2/375 :‬۔ ‪ )16( ‬بقی بن مخلد القرطبی ص ‪ ، 81‬سیر الصحابیات ص ‪ 9‬۔ (‪ )17‬اعالم الموقعین البن قیم‬
‫الجوزیۃ‪ 1/15 :‬۔ ( ‪ )18‬بقی بن مخلد القرطبی ص ‪ 160 /84‬۔ (‪ )19‬مسند احمد‪ ، 6/430 :‬منقول از خدمت حدیث میں‬
‫خواتین کا حصہ ص ‪ 12‬۔ (‪ )20‬تہذیب التہذیب‪ 12/455 :‬۔ (‪ )21‬تہذیب التہذیب‪ 516 -12/426 :‬۔ (‪ )22‬تہذیب التہذیب‪:‬‬
‫‪ 12/438‬۔ ( ‪ )23‬تہذیب التہذیب‪ 12/438 :‬۔ (‪ )24‬تہذیب التہذیب‪ 12/438 :‬۔ ( ‪ )25‬ت ذکرۃ الحف اظ‪ 1/9 :‬۔ (‪ )26‬تہ ذیب‬
‫التہذیب‪ 12/466 :‬۔ (‪ )27‬تہذیب التہذیب‪ 12/466 :‬۔ (‪ )28‬تذکرۃ الحفاظ‪ 1/94 :‬۔ (‪ )29‬تہذیب التہذیب‪ 12/466 :‬۔ (‪)30‬‬
‫تہذیب التہذیب‪ 12/466 :‬۔ (‪ )31‬تلخیص از ماہنامہ السراج مارچ ‪ 2001‬ء ص ‪ 24‬۔ (‪ )32‬تلخیص از مجلہ الفرقان جوالئی تا‬
‫ستمبر ‪2002‬ء ص ‪ 37 -26‬۔ (‪ )33‬خواتین اسالم کی دینی وعلمی خدمات ص ‪ 30-29‬۔ (‪ )34‬ابن خلکان ‪ 1/103‬۔ (‪)35‬‬
‫العقد الثمین‪ 8/224 :‬۔ (‪ )36‬ذیل العبر للذہبی‪ :‬ص ‪ 126‬۔ (‪ )37‬العبر‪ 5/358 :‬۔ ( ‪ )38‬العبر‪ 5/213 :‬۔ (‪ )39‬خواتین اسالم‬
‫کی دینی وعلمی خدمات ص ‪ 54‬۔ (‪ )40‬تاریخ بغداد‪ 14/444 :‬۔ (‪ )41‬خواتین اسالم کی دینی وعلمی خدمات ص ‪ 54‬۔ (‬
‫‪ )42‬العقد الثمین‪ 8/202 :‬۔ ‪ )43( ‬العبر للذہبی‪ 5/194 :‬۔ (‪ )44‬ذیل العبر للذہبی‪ :‬ص ‪ 49‬۔‬

‫‪‬‬

You might also like