You are on page 1of 8

‫سید احمد بن متقی خان (‪ 17‬اکتوبر ‪1817‬ء – ‪ 27‬مارچ ‪ 1898‬ء) المعروف سر سید انیسویں صدی کا ایک ہندوستانی مسلم

نظریۂ‬
‫عملیت کا حامل ‪ ،‬مصلح اور فلسفی تھے۔ آپ کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق‬
‫تصور کیا جاتا ہے جو کے آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنی۔‬

‫ابتدائی زندگی‬

‫سرسید احمد خان ‪ 17‬اکتوبر ‪ 1817‬ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آباؤ اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔ دستور‬
‫زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل کی۔‬
‫ابتدائی تعلیم میں آپ نے قرآن پاک کا مطالعہ کیا اور عربی اور فارسی ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس کے عالوہ آپ نے حساب‪ ،‬طب‬
‫اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل کی۔ جریدے القرآن اکبر کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ان کے بڑے بھائی نے شہر کے سب سے‬
‫پہلے پرنٹنگ پریس کی بنیاد رکھی۔ ورژن کی ضرورت سر سید نے کئی سال کے لیے ادویات کا مطالعہ کی پیروی کی لیکن اس‬
‫نے کورس مکمل نہیں ہے۔‬

‫ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے خالو مولوی خلیل ہللا سے عدالتی کام سیکھا۔ ‪1837‬ء میں آگرہ میں کمیشنر کے‬
‫دفتر میں بطور نائب منشی کے فرائض سنبھالے۔ ‪1841‬ء اور ‪1842‬ء میں مین پوری اور ‪1842‬ء اور ‪1846‬ء تک فتح پور‬
‫سیکری میں سرکاری خدمات‪ U‬سر انجام دیں۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوئے ‪1846‬ء میں دہلی میں صدر امین مقرر‬
‫ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی مشہور کتاب "آثارالصنادید" ‪1847‬ء میں لکھی۔ ‪1857‬ء میں آپ کا تبادلہ ضلع‬
‫بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی کتاب "سرکشی ضلع بجنور" لکھی۔ جنگ آزادی ہند ‪1857‬ء کے‬
‫دوران میں آپ بجنور میں قیام پزیر تھے۔ اس کٹھن وقت میں آپ نے بہت سے انگریز مردوں‪ ،‬عورتوں اوربچوں کی جانیں بچائیں۔‬
‫آپ نے یہ کام انسانی ہمدردی کے لیے ادا کیا۔جنگ آزادی ہند ‪1857‬ء کے بعد آپ کو آپ کی خدمات کے عوض انعام دینے کے‬
‫لیے ایک جاگیر کی پیشکش ہوئی جسے آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔‬

‫ء میں آپ کو ترقی دے کر صدر الصدور بنا دیا گیا اور آپ کی تعیناتی مراد آباد کر دی گئی۔ ‪1862‬ء میں آپ کا تبادلہ ‪1857‬‬
‫غازی پور ہو گیا اور ‪1867‬ء میں آپ بنارس میں تعینات ہوئے۔‬

‫ء میں آپ کو امپریل کونسل کارکن نامزد کیا گیا۔ ‪1888‬ء میں آپ کو سر کا خطاب دیا گیا اور ‪1889‬ء میں انگلستان کی ‪1877‬‬
‫یونیورسٹی اڈنبرا نے آپ کو ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔‪1864‬ء میں غازی پور میں سائنسی سوسائٹی قائم کی۔ علی گڑھ‬
‫گئے تو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکاال۔ انگلستان سے واپسی پر ‪1870‬ء میں رسالہ تہذیب االخالق جاری کیا۔ اس میں مضامین‬
‫سرسید نے مسلمانان ہند کے خیاالت میں انقالب عظیم پیدا کر دیا اورادب میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی۔ سرسید کا کارنامہ‬
‫علی گڑھ کالج ہے۔ ‪ 1887‬ء میں ستر سال کی عمر میں پینش لے لی اوراپنے کالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے وقف کریا۔‬

‫کے )‪ (Spectator‬اور )‪ (Tatler‬ء میں وہ اپنے بیٹے سید محمود کے ساتھ انگلستان گئے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں‪1869‬‬
‫مطالعے کا موقع مال۔ یہ دونوں رسالے اخالق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصالح معاشرہ کے علم بردار تھے۔ آپ نے‬
‫مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ ظرافت اور خوش طبعی فطری طور پر شخصیت کا حصہ تھی۔‬
‫ت ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا‬ ‫سرسید احمد خاں برصغیر میں مسلم نشا ِ‬
‫کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔[‪ ]4[]2‬انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو‬
‫جمود سے نکالنے اور انھیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی آپ ایک زبردست مفکر‪ ،‬بلند خیال مصنف اور جلیل‬
‫القدر مصلح تھے۔ " سرسید نے مسلمانوں کی اصالح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز‬
‫ا ُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے‪ ،‬سولی پر لٹکائے جاتے تھے‪ ،‬کالے پانی بھیجے جاتے‬
‫تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ ا ُنکی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند‬
‫تھے اور معاش‪ U‬کی تمام راہیں مسدود تھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصالح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان "‬
‫سائیس ‪،‬خانساماں‪ ،‬خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔ … سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ‬
‫اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔۔۔۔ اور انگریزی‬
‫زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ‬
‫مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد عالج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل‬
‫"کرنے کی خاطر وہ تمام عمر ِجدوجُہد کرتے رہے۔‬

‫”‬ ‫جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا‪ ،‬جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے‪ ،‬جب کبھی عمدہ پھول دیکھے ۔۔۔ مجھ کو‬
‫“ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں‬

‫رسالہ‬

‫زبان فارسی تصور شیخ کے بیان میں ہے اس کی نسبت‬


‫ِ‬ ‫سر سید کی تصانیف کی فہرست‪ U‬میں جو ایک رسالہ موسوم بہ " نمیقہ" بہ‬
‫‪:‬سر سید کہتے تھے کہ‬

‫اہل"‬
‫میں نے اسے شاہ احمد سعید صاحب کو دکھایا تھا‪ ،‬انہوں نے اس کو دیکھ کر یہ فرمایا کہ جو باتیں اس میں لکھی گئی ہیں وہ ِ‬
‫"حال کے سوا کوئی نہیں لکھ سکتا۔ بس یہ اس توجہ کی برکت ہے جو شاہ صاحب×‪ U‬کو تمہارے ساتھ تھی اور اب تک ہے۔‬

‫تاریخ ضلع بجنور‬


‫ِ‬

‫‪:‬سر سید نے یہ تاریخ بھی اپنی جبلی عادت کے موافق نہایت تحقیق اور کاوش اور محنت کے ساتھ لکھی۔ ان کا بیان ہے کہ‬

‫گو اس تاریخ میں ضلع کے حاالت کے سوا کوئی عام دلچسپی کی بات نہ تھی مگر اثنائے تحقیقات بعض قانون گویوں کے پاس "‬
‫"اکبر اور عالمگیر کے زمانہ کے ایسے کاغذات ملے جن سے نہایت عمدہ نتیجے نکلتے تھے۔‬
‫ان سب کاغذات کی نقلیں اپنے اپنے موقع پر اس تاریخ میں درج تھیں۔ جب یہ تاریخ لکھی جا چکی تو صاحب کلکٹر نے اس کو‬
‫مالحظہ کے لیے صدر بورڈ میں بھیج دیا۔ ابھی وہ بورڈ سے واپس نہ آئی تھی کہ غدر ہو گیا اور آگرہ میں تمام دفتر سرکاری کے‬
‫ساتھ وہ بھی ضائع ہو گئی۔‬

‫ت ہند‬
‫ب بغاو ِ‬
‫اسبا ِ‬

‫ت ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کو اور خاص کر مسلمانوں کو‪ ،‬جن‬ ‫ب بغاو ِ‬
‫انہوں نے مراد آباد میں آ کر اسبا ِ‬
‫پر سارا نچوڑ انگریزوں کی بدگمانی کا تھا‪ ،‬بغاوت کے الزام سے بری کیا ہے اور اس خطرناک اور نازک وقت میں وہ تمام‬
‫الزامات جو لوگوں کے خیال میں گورنمنٹ پر عائد ہوتے تھے‪ ،‬نہایت دلیری اور آزادی کے ساتھ پوست کندہ بیان کیے ہیں اور جو‬
‫اسباب کہ انگریزوں کے ذہن میں جاگزیں تھے‪ ،‬ان کی تردید کی ہے اور ان کو غلط بتایا ہے۔ اس کی پانچ سو جلدیں َچھپ کر ان‬
‫کے پاس پہنچ گئیں۔ جب سر سید نے ان کو پارلیمنٹ اور گورنمنٹ انڈیا بھیجنے کا ارادہ کیا تو ان کے دوست مانع آئے اور ماسٹر‬
‫رام چند کے چھوٹے بھائی رائے شنکر داس جو اس وقت مراد آباد میں منصف اور سر سید کے نہایت دوست تھے‪ ،‬انہوں نے کہا‬
‫‪:‬کہ ان تمام کتابوں کو جال دو اور ہرگز اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالو۔ سر سید نے کہا‬

‫میں ان باتوں کو گورنمنٹ پر ظاہر کرنا ملک اور قوم اور خود گورنمنٹ کی خیر خواہی سمجھتا‪ U‬ہوں۔ پس اگر ایک ایسے کام پر "‬
‫"جو سلطنت اور رعایا دونوں کے لیے مفید ہو‪ ،‬مجھ کو کچھ گزند بھی پہنچ جائے تو گوارا ہے۔‬

‫رائے شنکر داس نے جب سر سید کی آمادگی بدرجہ غایت دیکھی اور ان کے سمجھانے‪ U‬کا کچھ اثر نہ ہوا تو وہ آبدیدہ ہو کر‬
‫خاموش ہو رہے۔‬

‫الرڈ کیننگ نے فرخ آباد میں دربار کیا اور سر سید بھی اس دربار میں بالئے گئے تو وہاں ایک موقع پر مسٹر سسل بیڈن فارن‬
‫ب بغاوت پر‬‫سیکرٹری گورنمنٹ انڈیا سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ سید احمد خان یہی شخص ہے اور اسی نے اسبا ِ‬
‫وہ مضمون لکھا ہے تو سر سید سے دوسرے روز عالحدہ مل کر اپنی نہایت رنجش ظاہر کی اور بہت دیر تک تلخ گفتگو ہوتی‬
‫رہی۔ انھوں نے کہا کہ اگر تم گورنمنٹ کی خیر خواہی کے لیے یہ مضمون لکھتے تو ہرگز اس کو چھپوا کر ملک میں شایع نہ‬
‫کرتے بلکہ صرف گورنمنٹ پر اپنے یا رعایا کے خیاالت ظاہر کرتے۔‬

‫‪:‬سر سید نے کہا‬

‫میں نے اس کتاب کی پانچ سو جلدیں چھپوائی تھیں جن میں سے چند جلدیں میرے پاس موجود ہیں اور ایک گورنمنٹ میں بھیجی "‬
‫ہے اور کچھ کم پانچ سو جلدیں والیت روانہ کی ہیں جن کی رسید میرے پاس موجود ہے۔ میں جانتا تھا کہ آج کل بسبب غیظ و‬
‫غضب کے حاکموں کی رائے صائب نہیں رہی اور اس لیے وہ سیدھی باتوں کو بھی الٹی سمجھتے‪ U‬ہیں‪ ،‬اس لیے جس طرح میں‬
‫نے اس کو ہندوستان میں شایع نہیں کیا اسی طرح انگریزوں کو بھی نہیں دکھایا صرف ایک کتاب گورنمنٹ کو بھیجی ہے۔ اگر اس‬
‫"کے سوا ایک جلد بھی کہیں ہندوستان میں مل جائے تو میں فی جلد ایک ہزار روپیہ دوں گا۔‬
‫مسٹر بیڈن کو اس بات کا یقین نہ آیا اور انہوں نے کئی بار سر سید سے پُوچھا کہ کیا فی الواقع اس کا کوئی نسخہ ہندوستان میں‬
‫شائع نہیں ہوا؟ جب ان کا اطمینان ہو گیا پھر انہوں نے اس کا کچھ ذکر نہیں کیا اور اس کے بعد ہمیشہ سر سید کے دوست اور‬
‫حامی و مددگار رہے۔‬

‫انہوں نے زبانی مجھ سے اس طرح بیان کیا کہ‬

‫والیت میں سر جان۔ کے۔ فارن سیکرٹری وزیر ہند سے پرائیویٹ مالقات‪ U‬ہوئی تو ان کی میز پر ایک دفتر کاغذات کا موجود تھا۔ "‬
‫ب بغاوت اصل اور اس کا انگریزی ترجمہ ہے۔‬ ‫انہوں نے ہنس کر کہا کہ‪ " ،‬کیا تم جانتے ہو‪ ،‬یہ کیا چیز ہے؟" یہ تمہارا رسالہ اسبا ِ‬
‫اور اس کے ساتھ وہ تمام مباحثات ہیں جو اس پر پارلیمنٹ میں ہوئے۔ مگر چونکہ وہ تمام مباحثے کانفیڈنشل تھے اس لیے وہ نہ‬
‫"چھپے اور نہ ان کا والیت کے کسی اخبار میں تذکرہ ہوا۔‬

‫ت احمدیہ‬
‫خطبا ِ‬
‫سر سید کہتے تھے کہ‬

‫ت احمدیہ چھپ کر لندن میں شائع ہوئی تو اس پر لندن کے ایک اخبار میں کسی انگریز نے لکھا تھا کہ ‪"1870‬‬
‫ء میں جبکہ خطبا ِ‬
‫مسیحیوں کو ہوشیار ہو جانا چاہیے کہ ہندوستان کے ایک مسلمان نے ان ہی کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں‬
‫"اس نے دکھایا ہے کہ اسالم ان داغوں اور دھبوں سے پاک ہے جو مسیحی اس کے خوش نما چہرے پر لگاتے ہیں۔‬

‫تفسیر القرآن‬

‫قرآن مجید کی تفسیر لکھنے سے سر سید کا مقصد‪ ،‬جیسا کہ عموما ً خیال کیا جاتا ہے‪ ،‬یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کے مضامین عام‬
‫اہل اسالم کی نظر سے گزریں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مولوی نہایت معقول اور ذی استعداد ان کے پاس آئے اور کہا‬‫طور پر تمام ِ‬
‫کہ‪" ،‬میں آپ کی تفسیر دیکھنے کا خواہش مند ہوں اگر آپ مستعار دیں تو میں دیکھنا چاہتا ہوں۔" سر سید نے ان سے کہا کہ‬

‫رسول خدا صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم کی رسالت پر تو ضرور یقین ہو گا؟" انہوں نے کہا‪" ،‬الحمد "‬
‫ِ‬ ‫آپ کو خدا کی وحدانیت اور‬
‫"!ہلل‬

‫‪،‬پھر کہا‬

‫آپ حشرونشر اور عذاب و ثواب اور بہشت و دوزخ پر اور جو کچھ قرآن میں قیامت کی نسبت بیان ہوا ہے‪ ،‬سب پر یقین رکھتے "‬
‫"ہوں گے؟‬
‫"!انہوں نے کہا‪" ،‬الحمد ہلل‬

‫‪،‬سر سید نے کہا‬

‫بس تو میری تفسیر آپ کے لیے نہیں ہے۔ وہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو مذکورہ باال عقائد پر پختہ یقین نہیں رکھتے یا ان "‬
‫"پر معترض یا ان میں متردد ہیں۔‬

‫سر سید نے ایک موقع پر تفسیر کی نسبت کہا کہ "اگر زمانہ کی ضرورت مجھ کو مجبور نہ کرتی تو میں کبھی اپنے ان خیاالت‬
‫کو ظاہر نہ کرتا بلکہ لکھ کر اور ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے چھوڑ جاتا اور یہ لکھ جاتا کہ جب تک ایسا اور ایسا‬
‫زمانہ نہ آئے‪ ،‬اس کو کوئی کھول کر نہ دیکھے۔ اور اب بھی میں اس کو بہت کم چھپواتا اور گراں بیچتا ہوں تاکہ صرف خاص‬
‫"!خاص لوگ اس کو دیکھ سکیں۔ سر دست عام لوگوں میں اس کا شائع ہونا اچھا نہیں‬

‫رسالہ تہذیب وغیرہ ان کے عالوہ سیرت فرید‪،‬جام جم بسلسلۃ الملکوت‪ ،‬تاریخ ضلع بجنور اور مختلف موضو عات پر علمی و ادبی‬
‫مضامین ہیں جو ’’ مضامین سرسید ‘‘ اور’’ مقاالت سرسید ‘‘ کے نام سے مختلف جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔‬

‫تعلیمی خدمات‪ == U‬سرسید کا نقطۂ نظر تھا کہ مسلم قوم کی ترقی کی راہ تعلیم کی مدد سے ہی ہموار کی جا سکتی ہے۔ انہوں =='‬
‫نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اوار دوسری اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوں نے محض مشورہ‬
‫ہی نہیں دیا بلکہ مسلمانوں کے لیے جدید علوم کے حصول کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے سائنس‪٬‬‬
‫جدید ادب اور معاشرتی علوم کی طرف مسلمانوں کو راغب کیا۔ انہوں نے انگریزی کی تعلیم کو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے‬
‫زینہ قرار دیا تاکہ وہ ہندوئوں کے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل کر سکیں۔‬

‫ء میں سرسید نے مراد آباد اور ‪ 1862‬ء میں غازی پور میں مدرسے قائم کیے۔ ان مدرسو ں میں فارسی کے عالوہ انگریزی‪1859‬‬
‫زبان اور جدید علوم پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔‬

‫ء میں انہوں نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ایم۔ اے۔ او کالج اور آپ کی وفات کے بعد‪1875‬‬
‫‪ 1920‬ء میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا۔ ان اداروں میں انہوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ کی‬
‫خدمات حاصل کیں۔‬

‫ء میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد مغربی ‪1863‬‬
‫زبانوں میں لکھی گئیں کتب کے اردو تراجم کرانا تھا۔ بعد ازاں ‪1876‬ء میں سوسائٹی کے دفاتر علی گڑھ میں منتقل کر دیے گئے۔‬
‫سر سید نے نئی نسل کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تاکہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سکے۔ یوں دیکھتے ہی‬
‫دیکھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم کا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سوسائٹی کی خدمات کی بدولت اردو‬
‫زبان کو بہت ترقی نصیب ہوئی ۔‬
‫ء میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ مسلم قوم کی تعلیمی ‪1886‬‬
‫ضرورتوں کے لیے افراد کی فراہمی میں اس ادارے نے بڑی مدد دی اور کانفرنس کی کارکردگی سے متاثر ہو کر مختلف‬
‫شخصیات نے اپنے اپنے عالقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ الہور میں اسالمیہ کالج کراچی میں سندھ مدرسۃ االسالم‪،‬‬
‫پشاور میں اسالمیہ کالج اور کانپور میں حلیم کالج کی بنیاد رکھی۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس مسلمانوں کے سیاسی ثقافتی معاشی‪U‬‬
‫اور معاشرت حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کوشاں رہی۔‬

‫مسلمانوں کی بھالئی کی فکر‬

‫بمقام بنارس "کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان" منعقد ہو گئی جس کے سیکرٹری سر سید قرار پائے۔ اس کمیٹی کا‬
‫کام یہ تھا کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس بات کے دریافت کرنے میں کوشش کرے کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں مسلمان‬
‫علوم جدیدہ ان میں کیوں نہیں رواج پاتے اور جب یہ‬
‫ِ‬ ‫علوم قدیمہ ان میں کیوں گھٹ گئے اور‬
‫ِ‬ ‫ب علم کس لیے کم پڑھتے ہیں‪،‬‬‫طال ِ‬
‫موانع ٹھیک ٹھیک دریافت ہو جائیں تو ان کے رفع کرنے کی تدبیریں دریافت کرے اور ان تدبیروں پر عمل درآمد کرنے میں‬
‫کوشش کرے۔‬

‫نواب محسن الملک کا بیان ہے کہ‪" ،‬جس تاریخ کو کمیٹی مذ کور کے انعقاد کے لیے جلسہ قرار پایا تھا اس سے ایک روز پہلے‬
‫میں بنارس میں پہنچ گیا تھا۔ رات کو سر سید نے میرا پلنگ بھی اپنے ہی کمرے میں بچھوایا تھا۔ گیارہ بجے تک مسلمانوں کی‬
‫تعلیم کے متعلق باتیں ہوتی رہیں‪ ،‬اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔ دو بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میں نے سر سید کو ان‬
‫کے پلنگ پر نہ پایا۔ میں ا ُن کے دیکھنے کو کمرے سے باہر نکال‪ ،‬دیکھتا کیا ہوں کہ برآمدے میں ٹہل رہے ہیں اور زار و قطار‬
‫روتے جاتے ہیں‪ ،‬میں نے گھبرا کر پُوچھا کہ کیا خدانخواستہ کہیں سے کوئی افسوسناک خبر آئی ہے؟ یہ سن کر اور زیادہ رونے‬
‫لگے اور کہا کہ‪" :‬اس سے زیادہ اور کیا مُصیبت ہو سکتی ہے کہ مسلمان بگڑ گئے اور بگڑتے جاتے ہیں اور کوئی صورت ان‬
‫"کی بھالئی کی نظر نہیں آتی۔‬

‫پھر آپ ہی کہنے لگے کہ‪" :‬جو جلسہ کل ہونے واال ہے‪ ،‬مجھے امید نہیں کہ اس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا ہو۔ ساری رات اُدھیڑ‬
‫"بن میں گزر گئی ہے کہ دیکھیے‪ ،‬کل کے جلسے کا انجام کیا ہوتا ہے اور کسی کے کان پر جُوں چلتی ہے یا نہیں۔‬

‫نواب محسن الملک کہتے ہیں کہ سر سید کی یہ حالت دیکھ کر جو کیفیت میرے دل پر گزری اس کو بیان نہیں کر سکتا اور جو‬
‫“ عظمت اس شخص کی اس دن سے میرے دل میں بیٹھی ہوئی ہے اس کو میں ہی خوب جانتا ہوں۔‬

‫مدرسہ کے لیے دوروں کے اخراجات‬

‫مدرسہ کے لیے انہوں نے بڑے بڑے لمبے سفر کیے۔۔۔ ہزا رہا روپیہ ان سفروں میں ان کا صرف ہوا۔ اگرچہ ان کے دوست اور‬
‫رفیق بھی‪ ،‬جو ان کے ہمراہ جاتے تھے‪ ،‬اپنا اپنا خرچ اپنی گرہ سے ا ُٹھاتے تھے لیکن وہ اکثر بدلتے رہتے تھے اور سر سید کا ہر‬
‫سفر میں ہونا ضروری تھا۔ اس کے سوا ہمیشہ ریزروڈ گاڑیوں میں سفر ہوتا تھا اور جس قدر سواریاں کم ہوتی تھیں اُن کی کمی‬
‫زیادہ تر سر سید کو پوری کرنی پڑتی تھی۔ ایک بار اُن کے ایک دوست نے اُن سے کہا کہ آپ راجپُوتانہ کا بھی ایک بار دورہ‬
‫کیجئے۔“ سر سید نے کہا‪" ،‬روپیہ نہیں ہے۔" ا ُن کے منہ سے نکال کہ جب آپ کالج کے واسطے سفر کرتے ہیں تو آپ کا ِ‬
‫سفر‬
‫‪:‬خرچ کمیٹی کو دینا چاہیے۔“ سر سید نے کہا‬

‫میں اس بات کو ہرگز گوارا نہیں کر سکتا۔ مدرسہ چلے یا نہ چلے مگر میں اسی حالت میں مدرسہ کے لیے سفر کر سکتا ہوں "‬
‫"جب سفر کے کل اخراجات اپنے پاس سے اُٹھا سکوں۔‬

‫کالج کا قیام‪ ،‬قومی احساسات‪ U‬کی ترجمانی‬ ‫ترميم‬

‫ء میں جبکہ سر سید پہلی بار چندہ کے لیے الہور گئے ہیں اس وقت انہوں نے راقم کے سامنے بابو نوین چندر سے ایک سوال ‪74‬‬
‫‪:‬کے جواب میں یہ کہا تھا کہ‬

‫صرف اس خیال سے کہ یہ کالج خاص مسلمانوں کے لیے ان ہی کے رُوپے سے قائم کیا جاتا ہے‪ ،‬ایک تو مسلمانوں میں اور "‬
‫"دوسری طرف ان کی ریس سے ہندوؤں میں توقع سے زیادہ جوش پیدا ہو گیا ہے۔‬

‫جوش محبت‬
‫ِ‬ ‫اور پھر خان بہادر برکت علی خاں سے پُوچھا کہ‪" :‬کیوں حضرت اگر یہ قومی کالج نہ ہوتا تو آپ ہماری مدارات اسی‬
‫“کے ساتھ کرتے؟“ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ‪" ،‬ہرگز نہیں۔‬

‫اس سے صاف ظاہر ہے کہ سر سید اپنے کام کے شروع ہی میں اس قومی فیلنگ سے بخوبی واقف تھے۔‬

‫کالج فاؤنڈرز ڈے کی بجائے فاؤنڈیشن ڈے‬ ‫ترميم‬


‫ایک دفعہ کالج کے بعض یورپین پروفیسروں نے یہ تحریک کی کہ یہاں بھی والیت کے کالجوں کی طرح فاؤنڈرز ڈے (یعنی بانی‬
‫مدرسہ کی سالگرہ کا دن) بطور ایک خوشی کے دن کے قرار دیا جائے جس میں ہر سال کالج کے ہوا خواہ اور دوست اور‬
‫طالبعلم جمع ہو کر ایک جگہ کھانا کھایا کریں اور کچھ تماشے تفریح کے طور پر کیے جایا کریں۔ سر سید نے اس کو بھی منظور‬
‫نہیں کیا اور یہ کہا کہ‪" :‬ہمارے ملک کی حالت انگلستان کی حالت سے بالکل جداگانہ ہے۔ وہاں ایک ایک شخص الکھوں کروڑوں‬
‫روپیہ اپنے پاس سے دے کر کالج قائم کر دیتا ہے اور یہاں سِ وا اس کے کہ ہزاروں الکھوں آدمیوں سے کہ چندہ جمع کر کے کالج‬
‫قائم کیا جائے اور کوئی صُورت ممکن نہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ جو کالج قوم کے روپیہ سے قائم ہو اُس کے کسی خاص بانی‬
‫کے نام پر ایسی رسم ادا کی جائے‪ ،‬اس لیے میرے نزدیک بجائے فاؤنڈرز ڈے کے فاؤنڈیشن ڈے (کالج کی سالگرہ کا دن) مقرر‬
‫ہونا چاہیے۔“ چنانچہ اسی تجویز کے موافق کئی سال تک یہ رسم ادا کی گئی۔‬

‫مدرسہ کے عالوہ دیگر رفاہی کاموں میں کوشش کرنے سے انکار‬

‫سر سید نے مدرسہ کی خاطر اس بات کو بھی اپنے اُوپر الزم کر لیا تھا کہ کوئی سعی اور کوشش کسی ایسے کام میں صرف نہ‬
‫کی جائے جو مدرسۃ العلوم سے کچھ عالقہ نہ رکھتا ہو۔۔۔ سر سید کے ایک معزز ہم وطن نے ایک رفا ِہ عام کے کام میں ان کو‬
‫شریک کرنا اور اپنی کمیٹی کا رکن بنانا چاہا۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ‪" :‬میں صالح و مشورے سے مدد دینے کو آمادہ ہوں‬
‫لیکن چندہ نہ خود دوں گا اور نہ اوروں سے دلوانے میں کوشش کروں گا‪ ،‬اگر اس شرط پر ممبر بنانا ہو تو مجھ کو ممبری سے‬
‫“کچھ انکار نہیں۔‬

‫قومی بھالئی کے لیے الٹری کا جواز‬

‫صیغہ تعمیرات کے سوا کالج کے اور اخراجات کے لیے سر سید نے نئے نئے طریقوں سے رُوپیہ وصُول کیا جس کو سن کر‬
‫لوگ تعجب کریں گے۔ ایک دفع تیس ہزار کی الٹری ڈالی۔ ہر چند مسلمانوں کی طرف سے سخت مخالفت ہوئی‪ ،‬مگر سر سید نے‬
‫کچھ پروا نہ کی اور بعد تقسیم انعامات‪ U‬کے بیس ہزار کے قریب بچ رہا۔‬

‫وفات‬

‫سر سید احمد خان کا مقبرہ‬


‫سرسید احمد خان ‪ 81‬سال کی عمر میں ‪ 27‬مارچ ‪1898‬ء میں فوت ہوئے اور اپنے کالج کی مسجد میں دفن ہوئے۔‬

You might also like