Professional Documents
Culture Documents
نظریۂ
عملیت کا حامل ،مصلح اور فلسفی تھے۔ آپ کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق
تصور کیا جاتا ہے جو کے آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنی۔
ابتدائی زندگی
سرسید احمد خان 17اکتوبر 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آباؤ اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔ دستور
زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل کی۔
ابتدائی تعلیم میں آپ نے قرآن پاک کا مطالعہ کیا اور عربی اور فارسی ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس کے عالوہ آپ نے حساب ،طب
اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل کی۔ جریدے القرآن اکبر کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ان کے بڑے بھائی نے شہر کے سب سے
پہلے پرنٹنگ پریس کی بنیاد رکھی۔ ورژن کی ضرورت سر سید نے کئی سال کے لیے ادویات کا مطالعہ کی پیروی کی لیکن اس
نے کورس مکمل نہیں ہے۔
ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے خالو مولوی خلیل ہللا سے عدالتی کام سیکھا۔ 1837ء میں آگرہ میں کمیشنر کے
دفتر میں بطور نائب منشی کے فرائض سنبھالے۔ 1841ء اور 1842ء میں مین پوری اور 1842ء اور 1846ء تک فتح پور
سیکری میں سرکاری خدمات Uسر انجام دیں۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوئے 1846ء میں دہلی میں صدر امین مقرر
ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی مشہور کتاب "آثارالصنادید" 1847ء میں لکھی۔ 1857ء میں آپ کا تبادلہ ضلع
بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی کتاب "سرکشی ضلع بجنور" لکھی۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے
دوران میں آپ بجنور میں قیام پزیر تھے۔ اس کٹھن وقت میں آپ نے بہت سے انگریز مردوں ،عورتوں اوربچوں کی جانیں بچائیں۔
آپ نے یہ کام انسانی ہمدردی کے لیے ادا کیا۔جنگ آزادی ہند 1857ء کے بعد آپ کو آپ کی خدمات کے عوض انعام دینے کے
لیے ایک جاگیر کی پیشکش ہوئی جسے آپ نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
ء میں آپ کو ترقی دے کر صدر الصدور بنا دیا گیا اور آپ کی تعیناتی مراد آباد کر دی گئی۔ 1862ء میں آپ کا تبادلہ 1857
غازی پور ہو گیا اور 1867ء میں آپ بنارس میں تعینات ہوئے۔
ء میں آپ کو امپریل کونسل کارکن نامزد کیا گیا۔ 1888ء میں آپ کو سر کا خطاب دیا گیا اور 1889ء میں انگلستان کی 1877
یونیورسٹی اڈنبرا نے آپ کو ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔1864ء میں غازی پور میں سائنسی سوسائٹی قائم کی۔ علی گڑھ
گئے تو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکاال۔ انگلستان سے واپسی پر 1870ء میں رسالہ تہذیب االخالق جاری کیا۔ اس میں مضامین
سرسید نے مسلمانان ہند کے خیاالت میں انقالب عظیم پیدا کر دیا اورادب میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی۔ سرسید کا کارنامہ
علی گڑھ کالج ہے۔ 1887ء میں ستر سال کی عمر میں پینش لے لی اوراپنے کالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے وقف کریا۔
کے ) (Spectatorاور ) (Tatlerء میں وہ اپنے بیٹے سید محمود کے ساتھ انگلستان گئے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں1869
مطالعے کا موقع مال۔ یہ دونوں رسالے اخالق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصالح معاشرہ کے علم بردار تھے۔ آپ نے
مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ ظرافت اور خوش طبعی فطری طور پر شخصیت کا حصہ تھی۔
ت ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا سرسید احمد خاں برصغیر میں مسلم نشا ِ
کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔[ ]4[]2انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو
جمود سے نکالنے اور انھیں با عزت قوم بنانے کے لیے سخت جدوجہد کی آپ ایک زبردست مفکر ،بلند خیال مصنف اور جلیل
القدر مصلح تھے۔ " سرسید نے مسلمانوں کی اصالح و ترقی کا بیڑا اس وقت اٹھایا جب زمین مسلمانوں پر تنگ تھی اور انگریز
ا ُن کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے ،سولی پر لٹکائے جاتے تھے ،کالے پانی بھیجے جاتے
تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ ا ُنکی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند
تھے اور معاش Uکی تمام راہیں مسدود تھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ اصالح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان "
سائیس ،خانساماں ،خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے۔ … سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ
اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔۔۔۔ اور انگریزی
زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ
مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد عالج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل
"کرنے کی خاطر وہ تمام عمر ِجدوجُہد کرتے رہے۔
” جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا ،جہاں کہیں عمدہ مکانات دیکھے ،جب کبھی عمدہ پھول دیکھے ۔۔۔ مجھ کو
“ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہائے ہماری قوم ایسی کیوں نہیں
رسالہ
اہل"
میں نے اسے شاہ احمد سعید صاحب کو دکھایا تھا ،انہوں نے اس کو دیکھ کر یہ فرمایا کہ جو باتیں اس میں لکھی گئی ہیں وہ ِ
"حال کے سوا کوئی نہیں لکھ سکتا۔ بس یہ اس توجہ کی برکت ہے جو شاہ صاحب× Uکو تمہارے ساتھ تھی اور اب تک ہے۔
:سر سید نے یہ تاریخ بھی اپنی جبلی عادت کے موافق نہایت تحقیق اور کاوش اور محنت کے ساتھ لکھی۔ ان کا بیان ہے کہ
گو اس تاریخ میں ضلع کے حاالت کے سوا کوئی عام دلچسپی کی بات نہ تھی مگر اثنائے تحقیقات بعض قانون گویوں کے پاس "
"اکبر اور عالمگیر کے زمانہ کے ایسے کاغذات ملے جن سے نہایت عمدہ نتیجے نکلتے تھے۔
ان سب کاغذات کی نقلیں اپنے اپنے موقع پر اس تاریخ میں درج تھیں۔ جب یہ تاریخ لکھی جا چکی تو صاحب کلکٹر نے اس کو
مالحظہ کے لیے صدر بورڈ میں بھیج دیا۔ ابھی وہ بورڈ سے واپس نہ آئی تھی کہ غدر ہو گیا اور آگرہ میں تمام دفتر سرکاری کے
ساتھ وہ بھی ضائع ہو گئی۔
ت ہند
ب بغاو ِ
اسبا ِ
ت ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کو اور خاص کر مسلمانوں کو ،جن ب بغاو ِ
انہوں نے مراد آباد میں آ کر اسبا ِ
پر سارا نچوڑ انگریزوں کی بدگمانی کا تھا ،بغاوت کے الزام سے بری کیا ہے اور اس خطرناک اور نازک وقت میں وہ تمام
الزامات جو لوگوں کے خیال میں گورنمنٹ پر عائد ہوتے تھے ،نہایت دلیری اور آزادی کے ساتھ پوست کندہ بیان کیے ہیں اور جو
اسباب کہ انگریزوں کے ذہن میں جاگزیں تھے ،ان کی تردید کی ہے اور ان کو غلط بتایا ہے۔ اس کی پانچ سو جلدیں َچھپ کر ان
کے پاس پہنچ گئیں۔ جب سر سید نے ان کو پارلیمنٹ اور گورنمنٹ انڈیا بھیجنے کا ارادہ کیا تو ان کے دوست مانع آئے اور ماسٹر
رام چند کے چھوٹے بھائی رائے شنکر داس جو اس وقت مراد آباد میں منصف اور سر سید کے نہایت دوست تھے ،انہوں نے کہا
:کہ ان تمام کتابوں کو جال دو اور ہرگز اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالو۔ سر سید نے کہا
میں ان باتوں کو گورنمنٹ پر ظاہر کرنا ملک اور قوم اور خود گورنمنٹ کی خیر خواہی سمجھتا Uہوں۔ پس اگر ایک ایسے کام پر "
"جو سلطنت اور رعایا دونوں کے لیے مفید ہو ،مجھ کو کچھ گزند بھی پہنچ جائے تو گوارا ہے۔
رائے شنکر داس نے جب سر سید کی آمادگی بدرجہ غایت دیکھی اور ان کے سمجھانے Uکا کچھ اثر نہ ہوا تو وہ آبدیدہ ہو کر
خاموش ہو رہے۔
الرڈ کیننگ نے فرخ آباد میں دربار کیا اور سر سید بھی اس دربار میں بالئے گئے تو وہاں ایک موقع پر مسٹر سسل بیڈن فارن
ب بغاوت پرسیکرٹری گورنمنٹ انڈیا سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ سید احمد خان یہی شخص ہے اور اسی نے اسبا ِ
وہ مضمون لکھا ہے تو سر سید سے دوسرے روز عالحدہ مل کر اپنی نہایت رنجش ظاہر کی اور بہت دیر تک تلخ گفتگو ہوتی
رہی۔ انھوں نے کہا کہ اگر تم گورنمنٹ کی خیر خواہی کے لیے یہ مضمون لکھتے تو ہرگز اس کو چھپوا کر ملک میں شایع نہ
کرتے بلکہ صرف گورنمنٹ پر اپنے یا رعایا کے خیاالت ظاہر کرتے۔
میں نے اس کتاب کی پانچ سو جلدیں چھپوائی تھیں جن میں سے چند جلدیں میرے پاس موجود ہیں اور ایک گورنمنٹ میں بھیجی "
ہے اور کچھ کم پانچ سو جلدیں والیت روانہ کی ہیں جن کی رسید میرے پاس موجود ہے۔ میں جانتا تھا کہ آج کل بسبب غیظ و
غضب کے حاکموں کی رائے صائب نہیں رہی اور اس لیے وہ سیدھی باتوں کو بھی الٹی سمجھتے Uہیں ،اس لیے جس طرح میں
نے اس کو ہندوستان میں شایع نہیں کیا اسی طرح انگریزوں کو بھی نہیں دکھایا صرف ایک کتاب گورنمنٹ کو بھیجی ہے۔ اگر اس
"کے سوا ایک جلد بھی کہیں ہندوستان میں مل جائے تو میں فی جلد ایک ہزار روپیہ دوں گا۔
مسٹر بیڈن کو اس بات کا یقین نہ آیا اور انہوں نے کئی بار سر سید سے پُوچھا کہ کیا فی الواقع اس کا کوئی نسخہ ہندوستان میں
شائع نہیں ہوا؟ جب ان کا اطمینان ہو گیا پھر انہوں نے اس کا کچھ ذکر نہیں کیا اور اس کے بعد ہمیشہ سر سید کے دوست اور
حامی و مددگار رہے۔
والیت میں سر جان۔ کے۔ فارن سیکرٹری وزیر ہند سے پرائیویٹ مالقات Uہوئی تو ان کی میز پر ایک دفتر کاغذات کا موجود تھا۔ "
ب بغاوت اصل اور اس کا انگریزی ترجمہ ہے۔ انہوں نے ہنس کر کہا کہ " ،کیا تم جانتے ہو ،یہ کیا چیز ہے؟" یہ تمہارا رسالہ اسبا ِ
اور اس کے ساتھ وہ تمام مباحثات ہیں جو اس پر پارلیمنٹ میں ہوئے۔ مگر چونکہ وہ تمام مباحثے کانفیڈنشل تھے اس لیے وہ نہ
"چھپے اور نہ ان کا والیت کے کسی اخبار میں تذکرہ ہوا۔
ت احمدیہ
خطبا ِ
سر سید کہتے تھے کہ
ت احمدیہ چھپ کر لندن میں شائع ہوئی تو اس پر لندن کے ایک اخبار میں کسی انگریز نے لکھا تھا کہ "1870
ء میں جبکہ خطبا ِ
مسیحیوں کو ہوشیار ہو جانا چاہیے کہ ہندوستان کے ایک مسلمان نے ان ہی کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں
"اس نے دکھایا ہے کہ اسالم ان داغوں اور دھبوں سے پاک ہے جو مسیحی اس کے خوش نما چہرے پر لگاتے ہیں۔
تفسیر القرآن
قرآن مجید کی تفسیر لکھنے سے سر سید کا مقصد ،جیسا کہ عموما ً خیال کیا جاتا ہے ،یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کے مضامین عام
اہل اسالم کی نظر سے گزریں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مولوی نہایت معقول اور ذی استعداد ان کے پاس آئے اور کہاطور پر تمام ِ
کہ" ،میں آپ کی تفسیر دیکھنے کا خواہش مند ہوں اگر آپ مستعار دیں تو میں دیکھنا چاہتا ہوں۔" سر سید نے ان سے کہا کہ
رسول خدا صلی ہللا علیہ و آلہ و سلم کی رسالت پر تو ضرور یقین ہو گا؟" انہوں نے کہا" ،الحمد "
ِ آپ کو خدا کی وحدانیت اور
"!ہلل
،پھر کہا
آپ حشرونشر اور عذاب و ثواب اور بہشت و دوزخ پر اور جو کچھ قرآن میں قیامت کی نسبت بیان ہوا ہے ،سب پر یقین رکھتے "
"ہوں گے؟
"!انہوں نے کہا" ،الحمد ہلل
بس تو میری تفسیر آپ کے لیے نہیں ہے۔ وہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو مذکورہ باال عقائد پر پختہ یقین نہیں رکھتے یا ان "
"پر معترض یا ان میں متردد ہیں۔
سر سید نے ایک موقع پر تفسیر کی نسبت کہا کہ "اگر زمانہ کی ضرورت مجھ کو مجبور نہ کرتی تو میں کبھی اپنے ان خیاالت
کو ظاہر نہ کرتا بلکہ لکھ کر اور ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے چھوڑ جاتا اور یہ لکھ جاتا کہ جب تک ایسا اور ایسا
زمانہ نہ آئے ،اس کو کوئی کھول کر نہ دیکھے۔ اور اب بھی میں اس کو بہت کم چھپواتا اور گراں بیچتا ہوں تاکہ صرف خاص
"!خاص لوگ اس کو دیکھ سکیں۔ سر دست عام لوگوں میں اس کا شائع ہونا اچھا نہیں
رسالہ تہذیب وغیرہ ان کے عالوہ سیرت فرید،جام جم بسلسلۃ الملکوت ،تاریخ ضلع بجنور اور مختلف موضو عات پر علمی و ادبی
مضامین ہیں جو ’’ مضامین سرسید ‘‘ اور’’ مقاالت سرسید ‘‘ کے نام سے مختلف جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں ۔
تعلیمی خدمات == Uسرسید کا نقطۂ نظر تھا کہ مسلم قوم کی ترقی کی راہ تعلیم کی مدد سے ہی ہموار کی جا سکتی ہے۔ انہوں =='
نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ جدید تعلیم حاصل کریں اوار دوسری اقوام کے شانہ بشانہ آگے بڑھیں۔ انہوں نے محض مشورہ
ہی نہیں دیا بلکہ مسلمانوں کے لیے جدید علوم کے حصول کی سہولتیں بھی فراہم کرنے کی پوری کوشش کی۔ انہوں نے سائنس٬
جدید ادب اور معاشرتی علوم کی طرف مسلمانوں کو راغب کیا۔ انہوں نے انگریزی کی تعلیم کو مسلمانوں کی کامیابی کے لیے
زینہ قرار دیا تاکہ وہ ہندوئوں کے مساوی و معاشرتی درجہ حاصل کر سکیں۔
ء میں سرسید نے مراد آباد اور 1862ء میں غازی پور میں مدرسے قائم کیے۔ ان مدرسو ں میں فارسی کے عالوہ انگریزی1859
زبان اور جدید علوم پڑھانے کا بندوبست بھی کیا گیا۔
ء میں انہوں نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں ایم۔ اے۔ او کالج اور آپ کی وفات کے بعد1875
1920ء میں یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر گیا۔ ان اداروں میں انہوں نے آرچ بولڈ آرنلڈ اور موریسن جیسے انگریز اساتذہ کی
خدمات حاصل کیں۔
ء میں غازی پور میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد مغربی 1863
زبانوں میں لکھی گئیں کتب کے اردو تراجم کرانا تھا۔ بعد ازاں 1876ء میں سوسائٹی کے دفاتر علی گڑھ میں منتقل کر دیے گئے۔
سر سید نے نئی نسل کو انگریزی زبان سیکھنے کی ترغیب دی تاکہ وہ جدید مغربی علوم سے بہرہ ور ہو سکے۔ یوں دیکھتے ہی
دیکھتے مغربی ادب سائنس اور دیگر علوم کا بہت سا سرمایہ اردو زبان میں منتقل ہو گیا۔ سوسائٹی کی خدمات کی بدولت اردو
زبان کو بہت ترقی نصیب ہوئی ۔
ء میں سر سید احمد خاں نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ مسلم قوم کی تعلیمی 1886
ضرورتوں کے لیے افراد کی فراہمی میں اس ادارے نے بڑی مدد دی اور کانفرنس کی کارکردگی سے متاثر ہو کر مختلف
شخصیات نے اپنے اپنے عالقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ الہور میں اسالمیہ کالج کراچی میں سندھ مدرسۃ االسالم،
پشاور میں اسالمیہ کالج اور کانپور میں حلیم کالج کی بنیاد رکھی۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس مسلمانوں کے سیاسی ثقافتی معاشیU
اور معاشرت حقوق کے تحفظ کے لیے بھی کوشاں رہی۔
بمقام بنارس "کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان" منعقد ہو گئی جس کے سیکرٹری سر سید قرار پائے۔ اس کمیٹی کا
کام یہ تھا کہ وہ جہاں تک ہو سکے اس بات کے دریافت کرنے میں کوشش کرے کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں مسلمان
علوم جدیدہ ان میں کیوں نہیں رواج پاتے اور جب یہ
ِ علوم قدیمہ ان میں کیوں گھٹ گئے اور
ِ ب علم کس لیے کم پڑھتے ہیں،طال ِ
موانع ٹھیک ٹھیک دریافت ہو جائیں تو ان کے رفع کرنے کی تدبیریں دریافت کرے اور ان تدبیروں پر عمل درآمد کرنے میں
کوشش کرے۔
نواب محسن الملک کا بیان ہے کہ" ،جس تاریخ کو کمیٹی مذ کور کے انعقاد کے لیے جلسہ قرار پایا تھا اس سے ایک روز پہلے
میں بنارس میں پہنچ گیا تھا۔ رات کو سر سید نے میرا پلنگ بھی اپنے ہی کمرے میں بچھوایا تھا۔ گیارہ بجے تک مسلمانوں کی
تعلیم کے متعلق باتیں ہوتی رہیں ،اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔ دو بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میں نے سر سید کو ان
کے پلنگ پر نہ پایا۔ میں ا ُن کے دیکھنے کو کمرے سے باہر نکال ،دیکھتا کیا ہوں کہ برآمدے میں ٹہل رہے ہیں اور زار و قطار
روتے جاتے ہیں ،میں نے گھبرا کر پُوچھا کہ کیا خدانخواستہ کہیں سے کوئی افسوسناک خبر آئی ہے؟ یہ سن کر اور زیادہ رونے
لگے اور کہا کہ" :اس سے زیادہ اور کیا مُصیبت ہو سکتی ہے کہ مسلمان بگڑ گئے اور بگڑتے جاتے ہیں اور کوئی صورت ان
"کی بھالئی کی نظر نہیں آتی۔
پھر آپ ہی کہنے لگے کہ" :جو جلسہ کل ہونے واال ہے ،مجھے امید نہیں کہ اس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا ہو۔ ساری رات اُدھیڑ
"بن میں گزر گئی ہے کہ دیکھیے ،کل کے جلسے کا انجام کیا ہوتا ہے اور کسی کے کان پر جُوں چلتی ہے یا نہیں۔
نواب محسن الملک کہتے ہیں کہ سر سید کی یہ حالت دیکھ کر جو کیفیت میرے دل پر گزری اس کو بیان نہیں کر سکتا اور جو
“ عظمت اس شخص کی اس دن سے میرے دل میں بیٹھی ہوئی ہے اس کو میں ہی خوب جانتا ہوں۔
مدرسہ کے لیے انہوں نے بڑے بڑے لمبے سفر کیے۔۔۔ ہزا رہا روپیہ ان سفروں میں ان کا صرف ہوا۔ اگرچہ ان کے دوست اور
رفیق بھی ،جو ان کے ہمراہ جاتے تھے ،اپنا اپنا خرچ اپنی گرہ سے ا ُٹھاتے تھے لیکن وہ اکثر بدلتے رہتے تھے اور سر سید کا ہر
سفر میں ہونا ضروری تھا۔ اس کے سوا ہمیشہ ریزروڈ گاڑیوں میں سفر ہوتا تھا اور جس قدر سواریاں کم ہوتی تھیں اُن کی کمی
زیادہ تر سر سید کو پوری کرنی پڑتی تھی۔ ایک بار اُن کے ایک دوست نے اُن سے کہا کہ آپ راجپُوتانہ کا بھی ایک بار دورہ
کیجئے۔“ سر سید نے کہا" ،روپیہ نہیں ہے۔" ا ُن کے منہ سے نکال کہ جب آپ کالج کے واسطے سفر کرتے ہیں تو آپ کا ِ
سفر
:خرچ کمیٹی کو دینا چاہیے۔“ سر سید نے کہا
میں اس بات کو ہرگز گوارا نہیں کر سکتا۔ مدرسہ چلے یا نہ چلے مگر میں اسی حالت میں مدرسہ کے لیے سفر کر سکتا ہوں "
"جب سفر کے کل اخراجات اپنے پاس سے اُٹھا سکوں۔
ء میں جبکہ سر سید پہلی بار چندہ کے لیے الہور گئے ہیں اس وقت انہوں نے راقم کے سامنے بابو نوین چندر سے ایک سوال 74
:کے جواب میں یہ کہا تھا کہ
صرف اس خیال سے کہ یہ کالج خاص مسلمانوں کے لیے ان ہی کے رُوپے سے قائم کیا جاتا ہے ،ایک تو مسلمانوں میں اور "
"دوسری طرف ان کی ریس سے ہندوؤں میں توقع سے زیادہ جوش پیدا ہو گیا ہے۔
جوش محبت
ِ اور پھر خان بہادر برکت علی خاں سے پُوچھا کہ" :کیوں حضرت اگر یہ قومی کالج نہ ہوتا تو آپ ہماری مدارات اسی
“کے ساتھ کرتے؟“ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ" ،ہرگز نہیں۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ سر سید اپنے کام کے شروع ہی میں اس قومی فیلنگ سے بخوبی واقف تھے۔
سر سید نے مدرسہ کی خاطر اس بات کو بھی اپنے اُوپر الزم کر لیا تھا کہ کوئی سعی اور کوشش کسی ایسے کام میں صرف نہ
کی جائے جو مدرسۃ العلوم سے کچھ عالقہ نہ رکھتا ہو۔۔۔ سر سید کے ایک معزز ہم وطن نے ایک رفا ِہ عام کے کام میں ان کو
شریک کرنا اور اپنی کمیٹی کا رکن بنانا چاہا۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ" :میں صالح و مشورے سے مدد دینے کو آمادہ ہوں
لیکن چندہ نہ خود دوں گا اور نہ اوروں سے دلوانے میں کوشش کروں گا ،اگر اس شرط پر ممبر بنانا ہو تو مجھ کو ممبری سے
“کچھ انکار نہیں۔
صیغہ تعمیرات کے سوا کالج کے اور اخراجات کے لیے سر سید نے نئے نئے طریقوں سے رُوپیہ وصُول کیا جس کو سن کر
لوگ تعجب کریں گے۔ ایک دفع تیس ہزار کی الٹری ڈالی۔ ہر چند مسلمانوں کی طرف سے سخت مخالفت ہوئی ،مگر سر سید نے
کچھ پروا نہ کی اور بعد تقسیم انعامات Uکے بیس ہزار کے قریب بچ رہا۔
وفات