You are on page 1of 15

‫‪1‬‬

‫ش‬
‫کوہ‬
‫‪ 2‬‬
‫اسالممیں‬ ‫‪1911‬ءکے جلسہ ‪ ‬انجمن حمایت‬ ‫یہ وہ شہر آفاق نظم ہے جو اپریل‬
‫اقبال‪3‬نے ریواز ہوسٹل کے صحن میں یہ نظم‬
‫‪ ‬‬ ‫پڑھی گئی۔ لندن سے واپسی پر ‪ ‬‬
‫پڑھی ۔ اقبال نے یہ نظم خالف معمول تحت اللفظ میں پڑھی۔ مگر انداز بڑا دال‬
‫ویز تھا ۔ اس نظم کی جو کاپی اقبال اپنے قلم سے لکھ کر الئے تھے اس‬
‫کے لئے متعدد اصحاب نے مختلف رقوم پیش کیں اور ‪ ‬نواب ذوالفقار علی‬
‫‪4‬‬
‫انجمن پنجاب کو‬
‫ِ‬ ‫خان‪ ‬نے ایک سوروپے کی پیشکش کی اور رقم ادا کرکے اصل‬
‫دے دی۔ ”شکوہ“ اقبال کے دل کی آواز ہے اس کا موثر ہونا یقینی تھا۔ اس سے‬
‫اہل دل مسلمان تڑپ اُٹھے اور انہوں‪ Z‬نے سوچنا شروع کیا کہ مسلمانوں کے‬
‫حوصلہ شکن زوال کے اسباب کیا ہیں۔ آخر اللہ کے وہ بندے جن کی ضرب‬
‫شمشیر اور نعرہ تکبیر سے بڑے بڑے قہار و جبار سالطین کے دل لرز‬
‫جاتے تھے کیوں اس ذلت و رسوائی کا شکار ہوئے؟ ۔ یہ نظم دراصل مسلمانوں‬
‫کے بے عملی ‪ ،‬مذہب سے غفلت اور بیزاری پر طنز ہے۔ ‪ ‬بانگ درا ‪ 5‬میں شامل‬
‫کرتے وقت اقبال نے اس میں کئی مقامات پر تبدیلی کی۔ جبکہ بانگ درا میں‬
‫مخزن‪ ‬تمدن ‪ ‬اور ادیب میں شائع ہوئی‬
‫‪،‬‬ ‫اشاعت سے پہلے نظم مختلف رسالوں مثال ً‪ ‬‬
‫تھی۔ اس کے عالوہ کئی زبانوں میں اس کے تراجم بھی ہو چکے ہیں۔‬

‫شکوہ اللہ سے خاکم‬ ‫‪:‬‬ ‫جرات آموز میری تابِ سخن ہے مجھ کو‬
‫بدہن ہے مجھ کو‬

‫خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ‬ ‫‪:‬‬ ‫ارباب وفا بھی سن لے‬


‫ِ‬ ‫اے خدا شکوہ‬
‫بھی سن لے‬

‫‪1‬‬
‫‪https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DA%A9%D9%88%DB%81‬‬
‫‪2‬‬
‫‪https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%D8%AC%D9%85%D9%86_%D8%AD%D9%85%D8%A7%DB%8C‬‬
‫‪%D8%AA_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85‬‬
‫‪3‬‬
‫‪https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7%D9%84‬‬
‫‪4‬‬
‫_‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%86%D9%88%D8%A7%D8%A8‬‬
‫‪%D8%B0%D9%88%D8%A7%D9%84%D9%81%D9%82%D8%A7%D8%B1_%D8%B9%D9%84%DB%8C_%D8%AE‬‬
‫‪%D8%A7%D9%86&action=edit&redlink=1‬‬
‫‪5‬‬
‫‪https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D9%86%DA%AF_%D8%AF%D8%B1%D8%A7‬‬

‫‪1‬‬
‫اس نظم کا نام ”شکوہ“ اس لیے رکھا گیا ہے کہ موضوع کے اعتبار سے‬
‫شکوہ بارگاہ ال ٰہی میں عالمہ اقبال یا دور حاضر کے مسلمانوں کی ایک فریاد ہے۔‬
‫عالمہ اقبال کہتے ہیں کہ ہم تیرے نام لیوا ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل و خوار‬
‫ہیں ۔ حاالنکہ ہم تیرے رسول کے نام لیو ا ہیں اور اس پر طرہ یہ ہے کہ تیرے‬
‫انعامات اور نوازشات کے مستحق غیر مسلم ہیں ۔ گویا عالمہ اقبال نے شکوہ‬
‫میں عام مسلمانوں کے الشعوری احساسات کی ترجمانی کی ہے۔‬

‫بقول‪ ‬سلیم احمد‪: ‬‬

‫” ایک طرف ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے محبوب کی سب‬


‫سے چہیتی امت ہیں اور اس لئے خدا کی ساری نعمتوں کے سزاوار اور‬
‫دوسری طرف یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان کا مکمل زوال ہو چکا ہے‬
‫عقیدے اور حقیقت کے اس ٹکرائو سے مسلمانوں کا وہ مخصوص المیہ پیدا ہوتا‬
‫ہے جو ”شکوہ “ کا موضوع ہے۔“‬

‫عالمہ اقبال کےاپنے الفاظ میں‬

‫” وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی ظاہر کر دی گئی“‬

‫سلسلہ فکر و خیال کی ترتیب کے مطابق نظم کو ہم مندرجہ ذیل حصوں میں‬
‫تقسیم کرسکتے ہیں‪:‬‬

‫اظہار شکوہ کی توجیہ‬


‫یہ حصہ نہایت‪ Z‬مختصر اور صرف دو بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ دو بند جن میں‬
‫شکوہ کرنے کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ اور یہ مسلمانوں کی موجودہ بدحالی اور‬
‫پستی پر اقبال کے ردعمل کا اظہار‪ Z‬ہے۔ اقبال کے خیال میں مسلمان اب زوال‬
‫و انحطاط کی اس منزل کو پہنچ چکے ہیں کہ جہاںپر خاموش رہنا نہ صرف اپنی‬
‫ذات بلکہ ملت اسالمیہ کے اجتماعی مفاد سے بھی غداری کے مترادف ہے۔ اس‬
‫موقع پر قصہ درد سنانا اگرچہ خالف ادب ہے اور نالہ و فریاد کا یہ انداز‬
‫‪2‬‬
‫گستاخانہ ہے مگر ہم ایسا کہنے پر مجبور ہیں ۔ اقبال کہتے ہیں کہ‬
‫ارباب وفا“ کا شکوہ بھی سن لے ۔‬
‫ِ‬ ‫ای خدائے بزرگ و برتر ”‬
‫کسی لمبے چوڑے پس منظر یا غیر ضروری طویل تمہید کے‬
‫بغیر اللہ تعالٰی سے ہم کالم ہونا اسالمی تصورات کے عین مطابق ہے۔ اسالم کو‬
‫تمام مذاہب کے مقابلے میں یہ انفرادیت حاصل ہے کہ اس میں بندہ خداسے بال‬
‫واسطہ ہم کالم ہو سکتا ہے۔ جبکہ دوسرے مذاہب میں میں ایسا نہیں۔ ان کے‬
‫انداز تخاطب میں شوخی اور بے ادبی نہ تھی ہاں ایک طرح کی بے تکلفی‬
‫ضرور تھی جو بعض لوگوں کو کھٹکتی ہے۔‬

‫لیکن اقبال نے دانستہ طور پر یہ طرز تخاطب اختیار کیا تھا۔ دراصل اقبال ایک‬
‫سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پڑھنے والوں کو اس طرز تخاطب سے آشنا‬
‫کرنا چاہتا ہے۔ گویا شکوہ کے اندازِ کالم کے لئے پڑھنے والوں کو مصنوعی طور‬
‫پر تیار کر رہا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اقبال نے شکوہ کے پہلے دو بندوں ہی‬
‫میں بات یا موضوع سخن کو اس منزل تک پہنچا دیا ہے کہ بعد کی شکوہ سرائی‬
‫اور گلہ مندی بالکل موزوں اور مناسب معلوم ہوتی ہے۔‬

‫امت مسلمہ کا کارنامہ‬


‫شکوے کا دوسرا حصہ گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ تیسرے بند سے نظم‬
‫کے اصل موضوع پر اظہار‪ Z‬خیال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس حصے کا آغاز اس مصرعے‬
‫سے ہوتا ہے۔ ”‬
‫تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات‬
‫کریم‬

‫‪ 13‬ویں بند تک عالمہ اقبال نے امت مسلمہ کے عظیم کارناموں کا تذکرہ‬


‫کیا ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کی حیثیت اور اہمیت کو اجاگر کر دیاہے۔ سب سے‬
‫پہلے دنیا کی حالت اور تاریخ کا منظر پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یوں تو خدا‬
‫کی ذات ازل سے اپنی سچائیوں سمیت موجود تھی۔ اور بڑی بڑی قومیں مثال ً‬
‫سلجوق‪ ،‬تورانی‪ ،‬ساسانی ‪ ،‬یونانی ‪ ،‬یہودی ‪ ،‬نصرانی آباد تھیں لیکن توحید کا وہ‬
‫تصور جو تمام اقوام کے لئے نیا تھا اور جو اسالمی تعلیمات کا سرچشمہ تھا‬

‫‪3‬‬
‫اس کی اشاعت و تبلیغ کے سلسلے میں جو کام امت مسلمہ نے کر کے دکھایا‬
‫ہے وہ کام کسی سے بھی ممکن نہ تھا۔ یہاں اقبال مسلمان قوم کا ترجمان بن‬
‫کر دعوی کرتا ہے کہ مسلمانوں نے بیمار اور جاہل امتوں اور مریض قوموں کے‬
‫سامنے وہ عالج پیش کیا جو نکتہ توحید میں مضمر ہے۔‬

‫اہل چیں چین میں ‪ ،‬ایران‬ ‫‪:‬‬ ‫بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی تورانی بھی‬
‫میں ساسانی بھی‬
‫اسی دنیا میں یہودی بھی‬ ‫‪:‬‬ ‫اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی‬
‫تھے ‪ ،‬نصرانی بھی‬
‫بات جوبگڑی ہوئی تھی‪ ،‬وہ‬ ‫‪:‬‬ ‫پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے؟‬
‫بنائی کس نے؟‬

‫اقبال بتاتے ہیں کہ ساری دنیا میں مسلمانو ں کوہی صرف یہ شرف حاصل‬
‫ہے کہ انہ وں نے خدا کے پیغام کو دنیا کے دور دراز عالقوں یا کونوں تک پہنچا‬
‫یا۔‪ ‬روم‪ ‬اور‪ ‬ایران‪ ‬جیسے ملکوں کو فتح کرنا کسی حیرت انگیز کارنامے سے کم‬
‫نہیں ہے۔ ا ُنہ ی کی بدولت دنیا میں حق کی صدا گونجی نظم کی اس حصے میں‬
‫عالمہ اقبال نے تاریخ اسالم کے جن ادوار اور واقعات کو مثال بنایا ہے اس کی‬
‫مختصر ا ً وضاحت یوں ہے۔ ”دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں “ کا‬
‫اشارہ‪ ‬سلطنت عثمانیہکی اس دور کی طرف ہے جب مسلمانوں کی سلطنت‬
‫یونان ‪ ،‬بلغاریہ‪ ،‬البانیہ ‪ ،‬ہنگری اور آسٹریا تک پھیلی ہوئی تھی۔ سپین پر بھی‬
‫مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یورپ کے ان عالقوں میں جہاں آ ج کلیسائوں میں‬
‫ناقوس بجتے ہیں کبھی مسلمانوں کی وہاں پر اذانیں گونجتی تھیں۔اس طرح‬
‫افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں کا عالقہ مصر‪ ،‬لیبیا ‪ ،‬تیونس ‪ ،‬مراکش اور الجزائر‬
‫وغیرہ بھی مسلم سلطنت میں شامل تھے۔‬

‫”شان آنکھوں میں نہ ججتی تھی جہانداروں کی“‬


‫کی عملی تفسیر اس واقعے سے ملتی ہے جب حضرت عمر فاروق کے دور‬
‫میں مسلم وفد کے قائد ربعی ایرانی سپہ ساالر رستم سے گفت و شنید کے‬
‫لئے اس کے دربار میں گئے تو اپنے نیزے سے قیمتی قالین کو چھیدتے ہوئے بے‬
‫پروائی سے تخت کے قریب پہنچے ۔‬
‫‪4‬‬
‫خشکیوں میں کبھی‬ ‫‪:‬‬ ‫تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں‪! ‬‬
‫لڑتے ‪ ،‬کبھی دریاؤں میں‬
‫کبھی افریقہ کے تپتے‬ ‫‪:‬‬ ‫دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں‬
‫ہوئے صحراؤں میں‬
‫کلمہ پڑھتے تھے‬ ‫‪:‬‬ ‫شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہانداروں کی‬
‫ہم چھاؤں میں تلواروں کی‬

‫ساتویں بند میں بت فروشی اور بت شکنی کی تلمیح اس حوالے سے ہے‬


‫جب‪ ‬محمود غزنوی‪ ‬نے ہندو پجاریوں کی رشوت کو ٹھکراتے ہوئے سومنات کے‬
‫بتوں کو پاش پاش کردیا تھا۔ بحر ظلمات سے مراد بحر اوقیانوس ہے۔ ”بحر‬
‫ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے“ میں اشارہ ہے اس واقعے کی طرف جب‬
‫ایک مسلمان مجاہد عقبہ بن نافع نے افریقہ کے آخری سرے تک پہنچ کر‬
‫گھوڑا بحر اوقیانوس میں ڈال دیاتھا۔‬

‫بحر ظلمات میں‬ ‫‪:‬‬ ‫دشت تو دشت ہیں دریابھی نہ چھوڑے ہم نے!‬
‫دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے!‬

‫حالت زبوں‪:‬‬
‫ِ‬ ‫مسلمانوں کی‬
‫نظم کے اس حصے میں اقبال نے امت مسلمہ کے درخشاں ماضی کی‬
‫جھلکیاں دکھاتے ہوئے نظم کا رخ مسلمانوں کی موجودہ حالت کی طرف موڑ‬
‫دیا ہے۔ اقبال نے دوسری اقوام سے مسلمانوں کا موازنہ کرکے ان کی موجودہ‬
‫زبوں حالی کو نمایاں کر دیا ہے۔ اقبال شکوہ کرتے ہیں کہ دنیا میں مسلمان جگہ‬
‫جگہ غیر مسلموں کے مقابلے میں حقیر‪ ،‬ذلیل اور رسوا ہیں۔ جس کی وجہ سے‬
‫دنیا کی دوسری اقوام ان پر خندہ زن ہیں۔ نظم کے اس حصے میں صحیح‬
‫معنوں میں گلے شکوے کا رنگ پایا جاتا ہے اقبال نے مسلمانوں کی بے بسی و‬
‫بے چارگی کا واسطہ دے کر خدا سے پوچھا ہے کہ توحید کے نام لیوائوں سے‬
‫پہلے جیسا لطف و کرم کیوں نہیں ؟ اس کے ساتھ ہی شاعر نے ایک طرح کی‬
‫تنبیہ بھی کی ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو دنیا توحید کے نام لیوائوں سے‬

‫‪5‬‬
‫ُشاقان توحید کا سراغ نہیں‬
‫ِ‬ ‫خالی ہو جائے گی۔ اور ڈھونڈنے سے بھی ایسے ع‬
‫ملے گا۔‬

‫عجز والے بھی‬ ‫‪:‬‬ ‫امتیں اور بھی ہیں ‪ ،‬اُن میں گنہگار بھی ہیں‬
‫مست مۓ پندار بھی ہیں‬
‫ِ‬ ‫ہیں ‪،‬‬
‫سینکڑوں ہیں کہ‬ ‫‪:‬‬ ‫ان میں کاہل بھی ہیں‪ ،‬غافل بھی ہیں‪ ،‬ہشیار بھی ہیں‬
‫ترے نام سے بیزار بھی ہیں‬
‫برق گرتی ہے تو‬ ‫‪:‬‬ ‫رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر‬
‫بےچارے مسلمانوں پر‬

‫حالت زبوں کی وجہ کیاہے؟‬


‫بند‪ 20‬کے آغاز میں اقبال اس حالت زبوں کا سبب دریافت کرتے ہیں ۔‬
‫مسلمان آج بھی خدا کے نام لیو ا ہیں اور اُس کے رسول کے پیروکار ہیں ۔ آج‬
‫بھی اُن کے دلوں میں اسالم کے بارے میں ایک زبردست جوش و جذبہ اور‬
‫عنایات خدواندی‪Z‬‬
‫ِ‬ ‫کیفیت عشق موجود ہے۔ اقبال متاسف ہیں کہ اس کے باوجود‬
‫سے محروم ہیں۔‬

‫آگے چل کر اقبال کا لہجہ ذرا تلخ ہو جاتا ہے اور محبوب حقیقی کے سامنے‬
‫فریاد کی زبان کھولی ہے کیونکہ اس نے اپنے سچے عاشقوں کو فراموش کر‬
‫دیا ہے اور غیروں سے راہ رسم آشنائی پیدا کر لی ہے۔‬

‫بات کہنے‬ ‫‪:‬‬ ‫کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے‬


‫کی نہیں‪ 7‬تو بھی تو ہر جائی ہے‬

‫لیلی ‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫نظم کے اس حصے میں اقبال نے بہت سی تلمیحات استعمال کی ہیں ۔‬
‫قیس ‪ ،‬دشت وجبل‪ ،‬شور سالسل اور دیوانہ نظار ہ محمل کی تراکیب و‬
‫تلمیحات وغیرہ۔‬

‫قیس دیوانہ نظارہ محمل نہ رہا‬ ‫وادی نجد میں وہ شورِ سالسل نہ رہا‪:‬‬

‫” سرفاراں‪ Z‬پر کیا دین کو کامل تو نے“ سے مراد یہ ہے اے خدا تو نے دین اسالم‬
‫کو فاران کی چوٹی پر مکمل کر دیا ۔ جو قرآنی آیت کی طرف ایک اشارہ ہے۔‬

‫‪6‬‬
‫اک اشارے میں ہزاروں کے‬ ‫‪:‬‬ ‫سر فاراں‪ Z‬پر کیا دین کو کامل کیا تو نے‬
‫لئے دل تو نے‬

‫کیفیت یا س و بیم‪:‬‬
‫اس حصے میں اقبال کا روئے سخن خاص طور پر ہندی مسلمانوں کی‬
‫طرف ہے اور یہی بات اِسے دوسرے حصوں سے ممتاز کرتی ہے۔ یوں تو‬
‫مسلمان دنیا کے ہرگوشے میں بدحالی مایوسی اور بے چارگی کا شکار ہیں‬
‫مگر برصغیر پاک و ہند میں تو اس کا انتشار گویا نقطہ عروج کو پہنچ گیا ہے‬
‫چونکہ اقبال ہندوستان میں رہتے ہیں اس لئے یہیں کے مسائل سے انہیں پہلے‬
‫واسطہ پڑتا ہے۔‬

‫ہند کے دیر نشینوں کو‬ ‫‪:‬‬ ‫جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے‬
‫مسلماں کردے‬

‫یہ بہت‪ Z‬بلیغ شعر ہے کہ ہندوستان میں ہزاروں سال رہنے کے بعد ہند کے‬
‫مسلمان بھی اسی طرح ہندی ثقافت‪ Z‬اور فلسفے میں رنگے گئے ہیں۔ ان میں‬
‫بت پرستوں ( ہندوئوں) کے ساتھ میل مالپ کی وجہ سے ان ہی کی سی‬
‫خصلتیں پیدا ہو گئی ہیں ۔ اس لئے ان کو ”دیر نشین “ کہنا کوئی غلط بات نہیں۔‬
‫عالمہ اقبال نے ہمیشہ اپنی گفتگو میں یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر ہندوستان‬
‫کے سارے مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان بن جائیں تو وہ ساری دنیا کو‬
‫فتح کرسکتے ہیں۔‬

‫طور مضطر ہے اسی‬ ‫‪:‬‬ ‫نغمے بےتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے‬
‫آگ میں جلنے کے لئے‬

‫دعائیہ اختتام‪:‬‬
‫عالمہ اقبال کی خواہش تھی کہ ہندوستان کے سارے مسلمان حقیقی‬
‫معنوں میں مسلمان ہو جائیں تووہ ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں۔ نظم کے‬
‫آخری حصے میں شاعر کی یہ آرزو ایک دعا کی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ اور‬
‫دعا کا یہ سلسلہ نظم کے آخری شعر تک چلتا ہے۔ اُمت مسلمہ کو درپیش‬

‫‪7‬‬
‫مسائل و مشکالت کے حل کے لئے اقبال دعا گو ہیں۔ ”امت مرحوم“ کی ترکیب‬
‫بہت معنی خیز ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان بحیثیت ایک زندہ قوم کے ختم ہو کر‬
‫مردہ ہو چکے ہیں اب ان کی حیثیت سلیمان کے مقابلے میں ”مور بے مایہ“ کی‬
‫سی ہے۔ لیکن اقبال کی خواہش ہے کہ دور حاضر کے مسلمان پھر سے جوش و‬
‫جذبہ سے لبریز ہو جائیں اور کوہ طور پر پہلے کی طرح تجلیات نازل ہوں۔‬

‫مورِ بے مایہ کو ھمدوش‬ ‫‪:‬‬ ‫مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کر دے‬


‫ِ سلیماں کردے‬

‫اقبال نے نظم کے آخری حصے میں یہ دعا ضرور کی ہے کہ مسلمانوں کا‬


‫مستقبل روشن اور خوش آئند ہو اور ہونا چاہیے مگر یہ نہیں کہا کہ ”ہوگا“ ۔‬
‫کیونکہ وہ ایک ایسا پر آشوب دور تھا کہ مستقبل کے بارے میں حتمی طور پر‬
‫کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ ایک طرف تقسیم بنگال اور پھر اٹلی کا طرابلس‬
‫پر حملہ جس نے اقبال پر بڑا اثر کیا اور اسی مایوسی کے پیش نظر اقبال کو‬
‫خدا سے شکوہ کرنا پڑا۔ شکوہ دراصل اسے حصے میں ختم ہو جاتا ہے۔ اور باقی‬
‫تین بند قوم کی پستی پر شاعر کی اپنی طبیعت کا الجھائو‪ ،‬جذبات ‪ ،‬قوم‬
‫سے‪ ‬ناراضگی‪ ،  ‬نفرت اور بے اعتنائی کا آئینہ ہے۔ شاعر مایوس ہے اور مضطرب‬
‫ہو کر پکار اُٹھا۔ لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزاجینے میں‬
‫مایوسی کا ایک‬ ‫‪:‬‬ ‫کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں‬
‫اور انداز کچھ یوں ہے کہ‬

‫داغ جو‬ ‫اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں‬


‫سینے میں رکھتے ہوں وہ اللے ہی نہیں‬

‫آگے چل کر اقبال مایوسی کے عالم میں کہتے ہیں کہ مجھ سے دین کی جو‬
‫خدمت ہو سکتی ہے اس کے بجاالنے کے لئے کوشاں ہوں اگرچہ میں تنہا ہوں‬
‫اور کوئی شخص میری آواز پر کان نہیں دھرتا۔‬

‫کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی‬

‫اس حصے میں اقبال نے صراحت سے یہ بات بیان کر دی ہے کہ میں اگرچہ‬


‫عجمی طریقے پر شعر کہتا ہوں ایرانی شاعری کی روایات کا پابند ہوں ہندی‬

‫‪8‬‬
‫االصل ہوں لیکن ساتھ ساتھ اسالمی تعلیمات کی روح سے واقف ہوں اور اگر‬
‫مسلمان مرے کالم کابغور مطالعہ کریں تو انہیں عجمی روایات کے پردے سے‬
‫اسالم کے مطالب دقیق جھانکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ حصہ اور ”شکوہ “ اس‬
‫بلیغ اور معنی افروز شعر پر ختم ہو جاتا ہے۔‬

‫عجمی خم ہے تو کیا‪ ،‬مے تو حجازی ہے مری‬


‫نغمہ ہندی ہے تو کیا‪ ،‬لے تو حجازی ہے مری‬

‫فنی جائزہ‪:‬‬
‫شکوہ ‪ 31‬بندوں پر مشتمل ہے یہ نظم مسدس کی ہیت میں لکھی‬
‫گئی ہے۔ بحر کا نام ”بحر رمل مثمن مخبون محذوف ‘‘ ہے۔ بحر کے ارکان یہ‬
‫ہیں۔‬

‫عاَل تُن فَعِال تُن فَعِال تُن فَعِلُن‬


‫فَا ِ‬
‫اقبال کی طویل نظم میں ”شکوہ “ فنی لحاظ سے ایک منفردمقام کی حامل‬
‫ہے۔ یہی پہلی طویل نظم ہے جس میں اقبال نے اسالم کی زندہ اور فعالی‬
‫قوتوں ‪ ،‬ماضی کے مسلمانوں کی عظمت اوج کے بعد ان کی موجودہ زبوں‬
‫حالی کی داستان کو ایک ساتھ نہایت فنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔ اردو‬
‫شاعری میں ایسا‪ Z‬اندازِ بیاں کہیں نہیں ملتا۔‬

‫بقول ماہر القادری‪7:‬‬

‫شکوہ اللہ کا اللہ سے‬ ‫‪:‬‬ ‫اک نئی طر نئے باب کا آغاز کیا‬
‫بصد ناز کیا‬

‫نظم کا آغاز بہت ‪ systimatic‬ہے اصل موضوع پر آنے سے پہلے اقبال نے شکوہ‬
‫کرنے کی توجیہ دو بندوں میں بیان کردی ہے تاکہ نیا اور اچھوتا موضوع اچانک‬
‫سامنے آنے پر قار ی کو کوئی جھٹکا محسوس نہ ہو۔‬

‫لہجے کا تنوع‪:‬‬

‫‪9‬‬
‫کسی برگزیدہ اور برتر ہستی کے سامنے شکو ہ کرنے واال اپنی مفروضات‬
‫حسب ضرورت مختلف انداز اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے‬
‫ِ‬ ‫پیش کرتے ہوئے‬
‫شکو ے کا لہجہ بھی متنوع ہے اور اقبال کا شکوہ اللہ جیسی بڑی ہستی سے ہے‬
‫جو تمام دنیا کا مالک ہے۔ اسی لئے اقبال کے لہجے میں کہیں عجز و نیاز مندی‬
‫ہے کہیں غیرت و انا کا احساس ہے کہیں تندی و تلخی ہے اور جوش ہے کہیں‬
‫تاسف و مایوسی کا لہجہ ہے اور کہیں گریہ و زاری و دعا کا انداز اختیار کیا ہے۔‬

‫نفسیاتی حربے‪:‬‬
‫اقبال کے فن کا کمال یہ ہے کہ انہوں‪ Z‬نے نظم میں بعض مقامات پر نفسیاتی‬
‫حربوں سے کام لیتے ہوئے ایک ہی بیان سے دہرا کام لیا ہے۔ ‪10‬ویں بند کے‬
‫آخری شعر سے نظم کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے۔ جہاں پر شاعر خدا سے بے‬
‫اعتنائی اور بے نیازی کا گلہ شکوہ کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں‪:‬‬

‫اپنی توحید‬ ‫‪:‬‬ ‫خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں‬ ‫؎‬


‫کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں‬
‫ہم تو جیتے‬ ‫‪:‬‬ ‫پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا‬
‫ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے‬

‫اس طعن آمیز انداز سے مخاطب کی انا اور غیرت کو جھنجوڑ کر یہ‬
‫احساس دالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہ یہ میرا مسئلہ نہیں تمہارا مسئلہ ہے۔‬
‫ایک اور جگہ نفسیاتی حربے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی کوتاہیوں اور اسالم‬
‫سے روگردانی کا اعتراف کیا ہے ۔ مگر وہ اعتراف کا‪ ‬اعالنیہ‪ ‬اظہار نہیں کرتے۔‬
‫کیونکہ‪ ‬اعالنیہ‪ ‬اعتراف کرنے سے ان کا اپنا موقف کمزور ہوگا۔ ل ٰہذا وہ اپنی‬
‫کمزوری سے توجہ دوسری طرف لے جانے کے لئے فورا ً نفسیاتی‪ Z‬حربے سے‬
‫کام لیتے ہے۔ اور طعنہ دیتے ہیں کہ تم غیروں سے شناسائی رکھنے والے ہرجائی‬
‫ہو۔‬

‫تغزل‪:‬‬

‫‪10‬‬
‫یوں تو اقبال کی پوری شاعری میں رنگ‪ ‬تغزل‪ ‬چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے‬
‫کہ حکیمانہ نکتے بیان کرنے کے باوجود ان کی شاعری میں ساحری کا عنصر‬
‫ملتا ہے۔ لیکن اس رنگ تغزل کا واضح استعمال سب سے پہلے اقبال نے‬
‫”شکوہ" میں کیاہے۔ اگرچہ اقبال ہمارے دور کے سب سے بڑے انقالب پسند‬
‫شاعر ہیں۔ لیکن انہوں‪ Z‬نے اپنی بات کہنے کے لئے نہ صرف نئے پیمانے اور نئے‬
‫سانچے استعمال کئے بلکہ روایت کا پورا احترام ملحوظ رکھا ہے اور یہ ثابت کر‬
‫دیا ہے کہ پرانے اسلوب اورپرانے سانچے فرسودہ نہیں ہو گئے ۔ بلکہ انہیں نئے‬
‫رنگ اور آہنگ اور نئے مفاہیم کے ساتھ برتا جاسکتا ہے۔‬

‫شب کی آہیں بھی‬ ‫‪:‬‬ ‫تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے‬ ‫؎‬
‫گئیں صبح کے نالے بھی گئے‬
‫آکے بیٹھے‬ ‫‪:‬‬ ‫دل تجھے دے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے‬
‫بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے‬
‫اب انہیں ڈھونڈ‬ ‫‪:‬‬ ‫آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر‬
‫خ زیبا لے کر‬
‫چراغ ُر ِ‬
‫ِ‬
‫ایجاز و بالغت‪:‬‬
‫”شکوہ“ کے بعض حصے ‪ ،‬اشعار اور مصرعے ایجاز و بالغت کے شہکار ہیں۔‬
‫تاریخ کے طویل ادوار ‪ ،‬اہم واقعات اور روایات اور مختلف کرداروں کی تفصیلی‬
‫خصوصیات کو بڑے بلیغ انداز میں نہایت‪ Z‬اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔‬

‫بھی افریقہ کے‬ ‫‪:‬‬ ‫دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں‬ ‫؎‬
‫تپتے ہوئے صحرائوں میں‬

‫چند محسنات شعر‪:‬‬


‫” شکوہ“ حسن زبان و بیاں کا شا ہکارہے۔ انتخاب الفاظ‪ ،‬صنعت گری ‪ ،‬بندش‬
‫تراکیب ‪ ،‬حسن تشبیہ و استعارہ ‪ ،‬مناسب بحر ‪ ،‬موزوں قوافی‪ ،‬وسعت معانی‬
‫اور زبان و بیان کی خوبیوں کے سبب نظم بہت ہی دلکش اور موثر ہے۔ اقبال‬
‫نے نظم شکوہ میں صنعتوں کا استعمال بہت بہترین انداز میں کیا ہے۔‬

‫‪11‬‬
‫صنعت مراعاة النظیر‪.:‬‬

‫ہم نوا میں بھی کوئی‬ ‫نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں ‪:‬‬ ‫؎‬
‫گل ہوں کہ خاموش رہوں‬

‫صنعت ترافق ‪.:‬‬

‫زیر خنجر بھی یہ‬ ‫‪:‬‬ ‫نقش تو حید کا ہر دل میں بٹھایا ہم نے‬ ‫؎‬
‫پیغام سنایا ہم نے‬

‫صنعت تلمیح‪:‬‬

‫نہ کوئی بندہ‬ ‫‪:‬‬ ‫ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و آیاز‬ ‫؎‬
‫رہانہ کوئی بندہ نواز‬

‫صنعت طباق ایجابی‪.:‬‬

‫اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ‬ ‫‪:‬‬ ‫آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر‬ ‫؎‬
‫زیبا لے کر‬

‫تصویر کاری ‪،‬تشبیہ ‪ ،‬استعارہ‪:‬‬


‫”شکوہ “کی ایک اور بڑی فنی خوبی اس کی تصویر کاری ہے شاعر نے‬
‫خوبصورت الفاظ کی مدد سے اس نظم کو بہت خوبصورت تصویریں عطا کیں‬
‫ہیں۔‬

‫قبلہ رو ہو کے زمیں‬ ‫‪:‬‬ ‫آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز‬ ‫؎‬
‫بوس ہوئی قوم حجاز‬

‫کالم اقبال کی سب سے نمایاں‪ Z‬خوبی تشبیہ ہے۔ شکوہ میں عالمہ اقبال‬
‫نے کئی خوبصورت تشبیہات استعمال کی ہیں ان خوبصورت اور بلیغ تشبیہات‬
‫نے اشعار کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ مثال ً اقبال نے ایک شعر میں‬
‫امت مسلمہ کو ”مور بے مایہ“ سے تشبیہ دی ہے۔ جو بہت ہی بلیغ ہے۔‬

‫‪12‬‬
‫مورِ‬ ‫‪:‬‬ ‫مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کر دے‬ ‫؎‬
‫بے مایہ کو ھمدوش سلیماں کر دے‬

‫اقبال کی شاعری میں استعاروں کی بھی کمی نہیں ہے۔ ”شکوہ“ کے یہ اشعار‬
‫شعری اسلوب کا نادر نمونہ ہونے کے ساتھ استعاروں پر شاعر کی زبردست‬
‫جمالیاتی گرفت کا بھی ثبوت ہے۔‬

‫تو ذرا چھیڑ‬ ‫‪:‬‬ ‫مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز‬ ‫؎‬
‫تو دے تشنہ مضراب ہے ساز‬

‫اقبال نے ”شکوہ “ میں تشبیہ اور استعاروں کے عالوہ عالمتوں کا بھی بہت‬
‫خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ جو کہ اقبال کی گہری فلسفیانہ اور حکیمانہ‬
‫فکر کی غماز ہیں‪،‬‬

‫داغ جو‬ ‫‪:‬‬ ‫اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں‬ ‫؎‬
‫سینے میں رکھتے ہوں وہ اللے ہی نہیں‬

‫جبکہ اقبال نے کالم میں استفہامیہ لہجے کوبھی اپنایا ہے۔ جس سے جوش میں‬
‫اضافہ ہوا ہے۔‬

‫کس نے پھر زندہ کیا‬ ‫‪:‬‬ ‫کس نے ٹھنڈا کےا آتش کدہ ایراں کو‬ ‫؎‬
‫تذکرہ یزداں کو‬

‫ترنم اور نغمہ‪:‬‬


‫اقبال نے مشرق و مغرب کے خزانہ علمی سے فائدہ اٹھایا اور صنائع لفظی کی‬
‫غایت سے غرض رکھی ہے۔ یعنی ترنم اور نغمہ کی تخلیق اس سلسلے میں اس‬
‫نے مغرب کے انتقادی اصول کی زیادہ پیروی کی ہے۔ ترنم اور نغمہ پیدا کرنے‬
‫کے لئے اقبال نے تجنیس‪ ،‬ترصیح وغیرہ کی بجائے حروف کی تکرار اور سلسلہ‬
‫ہائے حروف کی تکرار سے بہت کام لیا ہے۔ شکوے کے پہلے بند میں ترنم بھی‬
‫حروف علت کی تکرار اور ان کے تبادلے کو‬
‫ِ‬ ‫ہے اور نغمہ بھی اس میں مختلف‬
‫بڑا دخل حاصل ہے۔‬

‫‪13‬‬
‫فکر فردا نہ‬ ‫‪:‬‬ ‫کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں ؟‬ ‫؎‬
‫کروں محوِ غم دوش رہوں ؟‬

‫مجموعی جائزہ‪:‬‬
‫عالمہ اقبال نے ”شکوہ میں ایسا انداز اختیار کیا ہے جس میں مسلمانوں‬
‫کے عظیم الشان‪ ، Z‬حوصلہ افزا اور زندہ جاوید کارنامے پیش کئے گئے۔ ل ٰہذا اس‬
‫نظم کے پڑھنے سے حوصلہ بلند ہوتا ہے قوت عمل میں تازگی آتی ہے۔ جو ش و‬
‫ہمت کو تقویت پہنچتی ہے۔ عظیم الشان کارنامے اس حسن ترتیب سے جمع کر‬
‫دئیے گئے ہیں کہ موجودہ پست حالی کے بجائے صرف عظمت و برتری ہی‬
‫سامنے رہتی ہے۔ گویا یہ شکوہ بھی ہے اور ساتھ ہی بہترین‪ Z‬دعوت عمل بھی۔‬
‫اس لحاظ سے اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کی بالکل یگانہ نظم ہے۔بقول‬
‫تاثیر”شکوہ لکھا گیا تو اس انداز پر سینکڑوں نظمیں‪ 7‬لکھی گئیں‬
‫مالؤں نے تکفیر کے فتوے لگائے اور شاعروں نے شکوہ کے جواب‬
‫لکھے لیکن شکوہ کا درست جواب خود اقبال ہی نے دیا۔“‬
‫ق‬ ‫ت ن ن‬
‫ے‪ ‬اسالم‪  ‬ب ول نکر ل ی ا‬ ‫ہوں‬ ‫ےج‬‫ھ‬ ‫‪ ‬‬‫ڈت‬ ‫ڈاکٹر عالمہ دمحم اق ال ‪ 1877-1938‬تاق ال کے اسالف‪ ‬کش م ری‪ ‬پ ن‬
‫ی‬ ‫ئ ب‬ ‫بئ‬
‫ن‬ ‫خ ہ ئ‬ ‫س‬
‫ش‬
‫ل‬ ‫ع‬ ‫گ‬ ‫ت‬
‫ے۔‪ ‬گور م ٹ کالج‬ ‫و‬
‫ن گ‬ ‫ل‬ ‫دا‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫ت ی‬‫کول‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫کوٹ‬ ‫ا‬ ‫عد‬
‫ب ف س تی‬ ‫کے‬ ‫م‬ ‫لی‬ ‫ی‬ ‫دا‬ ‫ت‬ ‫ا‬
‫پ ب‬ ‫ر‬ ‫ھر‬ ‫ے۔‬ ‫ھا۔‪ ‬س ی ال فکوٹ‪ ‬می ں پ ی دا ہ و‬
‫ین ٹ‬ ‫ے۔ ھ د ت‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ف‬
‫وں ک ناور ل ف ف‬ ‫ن‬ ‫الہ ور‪ ‬سے‪  ‬لس ہ‪ ‬اور‪ ‬عربی‪ ‬می ں ای م۔ اے پ اس ک ی ات ج ہاں پرو یسر ھامس آرن لڈ کے اگرد ھ چک‬
‫ئ‬ ‫ع‬
‫ے۔‪ ‬ا گلست ان‪ ‬سے ب نیرسٹ ری اور می و خ‪ ‬ج رم ی‪ ‬سے ال فس ی می ں‬ ‫ے ب اہ ر گ‬ ‫کے یل‬
‫ئ‬ ‫ے۔ پ ھر اعلی لی م‬ ‫کالج ‪ ،‬الہ ور‪ ‬می ں عربی کے است اد رہ‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫ں لس ہ‬ ‫کالج مین‬ ‫کی۔ گور م ٹ کالج اور اسالمی ہ‬ ‫ن‬ ‫وکالت روع‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫پی۔ یا فچ۔ ڈی کی۔ س ن د حاصل کی۔ ‪ 1908‬می ں واپس آے اور‬
‫ن‬ ‫ف‬
‫گول می ز کا ر سوں می ں مسلما وں کی مائ ن دگی کی۔‪ ‬حکومت‪ ‬ہ ن د ے سر کا‬ ‫ق‬ ‫ے۔‪ ‬س ی است‪ ‬می ں ب ھی حصہ ل ی ا۔‬ ‫ہ‬ ‫کے پرو یسر بق ھی ر‬
‫نق‬‫ت‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫خ‬
‫ے۔ ‪ 1938‬می ں ا ال ک ی ا۔ب ادش اہ ی مسج دالہ ور کے‬ ‫طرف سے ش اعر م رق اور رج مان ح ی ت کے ال اب مل‬ ‫ئ‬ ‫کی‬ ‫وم‬‫ی ف‬ ‫ا۔‬ ‫د‬ ‫طاب‬
‫ن‬ ‫قت‬ ‫احاطے می ں مد ون ہ وے۔‬
‫ج‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ق‬
‫ے۔ ا من حمای ت االسالم‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫روع‬ ‫سے‬ ‫اعروں‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ور‬ ‫ہ‬ ‫ال‬ ‫دور‬ ‫ال‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا اب ل کی‪ ‬ش اعری‪ ‬کو ک ی ادوار می ں سی م ک ی ا ج ا‬
‫غ‬ ‫غ‬ ‫ش‬ ‫غ‬ ‫ش‬ ‫ق‬ ‫ف‬
‫ے مروج ہ‪  ‬زل‪ ‬کو‬ ‫کے پ لی ٹ ارم سے ا ب ال کی ہرت کا آ آز ہ وا۔ روع می ں زلی ں ب ھی کہی ں اور داغ سے اصالح لی۔ پہل‬
‫ق ن‬
‫ئ ن‬ ‫اشپ ن ای ا پ ھر اس رن گ می ں بڑی ت ب دی لی کی۔‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫ی خ ع ب دال ادر‪ ‬کے رسالہ"مخ زن"کی وساطت سے تا ب ال کا ام دور ت ک پ ہ چ ا۔ اب ت دا ی ظق موں می ں ا تب ال ے ب راہ راست اور‬
‫خ‬ ‫ث‬ ‫فئ ٹ‬ ‫ن‬
‫کہی ں ب الواس طہ‪ ‬ا گریزی‪ ‬ش اعری سے ا دہغا ھای ا۔ حری ک آزادی کے زیر ا ر وطن ی ت‪ ،‬ومی ت اور ا حاد کے مض امی ن ا ت ی ار‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ت‬
‫ے جمموعہ"کالم ب ان گ درا" می ں ش امل ہ ی ں۔‬ ‫ے پ ہل‬ ‫ک ی ۓ۔ ران ہ ہ ن تدی‪ ،‬ن ی ا والہ‪ ،‬می را وطن و ی رہ اس دور کی ی ادگار ہ ی ں اور ا ک‬
‫ف‬ ‫ش‬ ‫ف ق‬ ‫ق‬
‫ے۔ یورپ کا س ر ا ب ال‬ ‫ورپ‪ ‬کے ی ام اور اسک‬ ‫ع‬
‫ے عری اور کری لحاظ سے‬ ‫کے یل‬ ‫ش‬ ‫ق‬ ‫ہ‬ ‫کے دور سے‬ ‫ف‬ ‫ے ب عد‬ ‫ن‬ ‫دوسرے خدور تکا لق‪ ‬ی‬ ‫نت‬
‫ے فم ںب‬ ‫غ‬ ‫ن‬ ‫جم ن‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫غ‬
‫ورپ کے زمان ہ‬ ‫ی ق ی ف‬ ‫ھی‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫الم‬ ‫س‬‫ا‬ ‫ال۔‬
‫خ‬ ‫م‬ ‫ع‬ ‫مو‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫ئھ‬ ‫کو‬ ‫کر‬ ‫اور‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫ہذ‬ ‫کی‬ ‫‪ ‬‬‫رب‬ ‫‪ ‬‬
‫ی نم‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫اں‬ ‫ہ‬‫و‬ ‫ھا۔‬ ‫ز‬ ‫بق ہت ی ی‬
‫ہ‬ ‫ج‬
‫ظ‬ ‫ن‬ ‫غ‬ ‫ش‬ ‫ف‬
‫ن ی ام می ں اض ا ہ ہ وا۔ ب ہت ج لد ا کی اعری ای ک پ ی ام ب ن گ ی۔ اس می ں طی ب اننہ ا داز ب ھی پ ی دا ہش و گ ی ا۔ ا ب ال کی کر کا ا ہار‬
‫ش‬ ‫ش‬ ‫خض‬ ‫ش‬ ‫خ‬ ‫خ‬ ‫من‬ ‫ف‬
‫ودی می ں مرب وط طور پر ہ وا۔م ہور‪ ‬اردو‪  ‬ظ می ں ر راہ‪ ،‬مع و ش اعر‪ ،‬کوہ‪ ،‬ج واب کوہ‪،‬‬ ‫لک ئ‬ ‫ے‬ ‫ب‬ ‫رموز‬ ‫اور‬ ‫‪ ‬‬‫ودی‬ ‫‪ ‬‬‫اسرار‬‫ق‬ ‫وں‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ث‬ ‫‪ ‬‬‫ارسی‬ ‫ا کی‪ ‬‬
‫ف‬ ‫ش‬ ‫نمی ں ھیف گ ی ں۔‬ ‫طلوع اسالم اور مسج د‪  ‬رطب ہ‪ ‬اسی دور‬
‫ق‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫خ‬
‫ے۔ اس دور می ں ا ب ال‬ ‫آ ری دور کی اعری می ں ا ب ال ے اسالمی کر کی رو ی می ں ہذی ب ر گ کے زوال کا ج ا زہ ل ی ا ہ‬

‫‪14‬‬
‫ن‬ ‫ت‬
‫خ‬ ‫ظ‬ ‫خ یق خ‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ے۔‬‫ں وب ہ نواہ‬ ‫ی‬ ‫می و ملکی س ی است پر ب ھی ب نہت چک ھ لکھا۔ ا ب ال کی ل ی زر ی زی کا ا ہار تاس دور کی ظ موں م‬ ‫ف‬
‫ے فوال‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫ئ‬ ‫ش‬
‫ای ک‪  ‬لس ی‪ ‬ش اعر کی ح ی ث ی ت سے ا کی ئہرت یورپ تن ک پ ھ ی ل گ ی۔ اس دور کی صن ی ات می ں"ج اوی د امہ"‪ ،‬مث وی"پس چ ہ‬
‫ق‬ ‫غ‬ ‫خ‬ ‫ئ‬ ‫ک‬ ‫ض‬
‫ے ا ب ال کو‪ ‬ب یسنوی ں صدی‪ ‬کا سب سے‬ ‫ہ‬ ‫ں۔ ا کی آ ری کت اب"ارم ان حج از"‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ب ای د کرد"‪"،‬بنال ج بری ل"اور" رب لی نم" ش ا ع ہ و‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ے۔‬‫ے کالم کا رج مہ ک ی زب ا وں می ں ہ و چ کا ہ‬ ‫ے۔ ا ک‬ ‫ے۔ ا کی ہرت و و ی ر بڑھ ی ہ ی رہ ی ہ‬ ‫بڑآ‪ ‬ہ دو فست ا ی‪  ‬اعر کہا ج ا سکت ا ہ‬
‫مرت ب ہ‪:‬حا ظ اسدہللا اسلم‬

‫‪15‬‬

You might also like