Professional Documents
Culture Documents
ش
کوہ
2
اسالممیں 1911ءکے جلسہ انجمن حمایت یہ وہ شہر آفاق نظم ہے جو اپریل
اقبال3نے ریواز ہوسٹل کے صحن میں یہ نظم
پڑھی گئی۔ لندن سے واپسی پر
پڑھی ۔ اقبال نے یہ نظم خالف معمول تحت اللفظ میں پڑھی۔ مگر انداز بڑا دال
ویز تھا ۔ اس نظم کی جو کاپی اقبال اپنے قلم سے لکھ کر الئے تھے اس
کے لئے متعدد اصحاب نے مختلف رقوم پیش کیں اور نواب ذوالفقار علی
4
انجمن پنجاب کو
ِ خان نے ایک سوروپے کی پیشکش کی اور رقم ادا کرکے اصل
دے دی۔ ”شکوہ“ اقبال کے دل کی آواز ہے اس کا موثر ہونا یقینی تھا۔ اس سے
اہل دل مسلمان تڑپ اُٹھے اور انہوں Zنے سوچنا شروع کیا کہ مسلمانوں کے
حوصلہ شکن زوال کے اسباب کیا ہیں۔ آخر اللہ کے وہ بندے جن کی ضرب
شمشیر اور نعرہ تکبیر سے بڑے بڑے قہار و جبار سالطین کے دل لرز
جاتے تھے کیوں اس ذلت و رسوائی کا شکار ہوئے؟ ۔ یہ نظم دراصل مسلمانوں
کے بے عملی ،مذہب سے غفلت اور بیزاری پر طنز ہے۔ بانگ درا 5میں شامل
کرتے وقت اقبال نے اس میں کئی مقامات پر تبدیلی کی۔ جبکہ بانگ درا میں
مخزن تمدن اور ادیب میں شائع ہوئی
، اشاعت سے پہلے نظم مختلف رسالوں مثال ً
تھی۔ اس کے عالوہ کئی زبانوں میں اس کے تراجم بھی ہو چکے ہیں۔
شکوہ اللہ سے خاکم : جرات آموز میری تابِ سخن ہے مجھ کو
بدہن ہے مجھ کو
1
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DA%A9%D9%88%DB%81
2
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D9%86%D8%AC%D9%85%D9%86_%D8%AD%D9%85%D8%A7%DB%8C
%D8%AA_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85
3
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%AD%D9%85%D8%AF_%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7%D9%84
4
_https://ur.wikipedia.org/w/index.php?title=%D9%86%D9%88%D8%A7%D8%A8
%D8%B0%D9%88%D8%A7%D9%84%D9%81%D9%82%D8%A7%D8%B1_%D8%B9%D9%84%DB%8C_%D8%AE
%D8%A7%D9%86&action=edit&redlink=1
5
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D9%86%DA%AF_%D8%AF%D8%B1%D8%A7
1
اس نظم کا نام ”شکوہ“ اس لیے رکھا گیا ہے کہ موضوع کے اعتبار سے
شکوہ بارگاہ ال ٰہی میں عالمہ اقبال یا دور حاضر کے مسلمانوں کی ایک فریاد ہے۔
عالمہ اقبال کہتے ہیں کہ ہم تیرے نام لیوا ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل و خوار
ہیں ۔ حاالنکہ ہم تیرے رسول کے نام لیو ا ہیں اور اس پر طرہ یہ ہے کہ تیرے
انعامات اور نوازشات کے مستحق غیر مسلم ہیں ۔ گویا عالمہ اقبال نے شکوہ
میں عام مسلمانوں کے الشعوری احساسات کی ترجمانی کی ہے۔
بقول سلیم احمد:
سلسلہ فکر و خیال کی ترتیب کے مطابق نظم کو ہم مندرجہ ذیل حصوں میں
تقسیم کرسکتے ہیں:
لیکن اقبال نے دانستہ طور پر یہ طرز تخاطب اختیار کیا تھا۔ دراصل اقبال ایک
سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پڑھنے والوں کو اس طرز تخاطب سے آشنا
کرنا چاہتا ہے۔ گویا شکوہ کے اندازِ کالم کے لئے پڑھنے والوں کو مصنوعی طور
پر تیار کر رہا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اقبال نے شکوہ کے پہلے دو بندوں ہی
میں بات یا موضوع سخن کو اس منزل تک پہنچا دیا ہے کہ بعد کی شکوہ سرائی
اور گلہ مندی بالکل موزوں اور مناسب معلوم ہوتی ہے۔
3
اس کی اشاعت و تبلیغ کے سلسلے میں جو کام امت مسلمہ نے کر کے دکھایا
ہے وہ کام کسی سے بھی ممکن نہ تھا۔ یہاں اقبال مسلمان قوم کا ترجمان بن
کر دعوی کرتا ہے کہ مسلمانوں نے بیمار اور جاہل امتوں اور مریض قوموں کے
سامنے وہ عالج پیش کیا جو نکتہ توحید میں مضمر ہے۔
اہل چیں چین میں ،ایران : بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی تورانی بھی
میں ساسانی بھی
اسی دنیا میں یہودی بھی : اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
تھے ،نصرانی بھی
بات جوبگڑی ہوئی تھی ،وہ : پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے؟
بنائی کس نے؟
اقبال بتاتے ہیں کہ ساری دنیا میں مسلمانو ں کوہی صرف یہ شرف حاصل
ہے کہ انہ وں نے خدا کے پیغام کو دنیا کے دور دراز عالقوں یا کونوں تک پہنچا
یا۔ روم اور ایران جیسے ملکوں کو فتح کرنا کسی حیرت انگیز کارنامے سے کم
نہیں ہے۔ ا ُنہ ی کی بدولت دنیا میں حق کی صدا گونجی نظم کی اس حصے میں
عالمہ اقبال نے تاریخ اسالم کے جن ادوار اور واقعات کو مثال بنایا ہے اس کی
مختصر ا ً وضاحت یوں ہے۔ ”دی اذانیں کبھی یورپ کے کلیسائوں میں “ کا
اشارہ سلطنت عثمانیہکی اس دور کی طرف ہے جب مسلمانوں کی سلطنت
یونان ،بلغاریہ ،البانیہ ،ہنگری اور آسٹریا تک پھیلی ہوئی تھی۔ سپین پر بھی
مسلمانوں کی حکومت تھی۔ یورپ کے ان عالقوں میں جہاں آ ج کلیسائوں میں
ناقوس بجتے ہیں کبھی مسلمانوں کی وہاں پر اذانیں گونجتی تھیں۔اس طرح
افریقہ کے تپتے ہوئے صحرائوں کا عالقہ مصر ،لیبیا ،تیونس ،مراکش اور الجزائر
وغیرہ بھی مسلم سلطنت میں شامل تھے۔
بحر ظلمات میں : دشت تو دشت ہیں دریابھی نہ چھوڑے ہم نے!
دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے!
حالت زبوں:
ِ مسلمانوں کی
نظم کے اس حصے میں اقبال نے امت مسلمہ کے درخشاں ماضی کی
جھلکیاں دکھاتے ہوئے نظم کا رخ مسلمانوں کی موجودہ حالت کی طرف موڑ
دیا ہے۔ اقبال نے دوسری اقوام سے مسلمانوں کا موازنہ کرکے ان کی موجودہ
زبوں حالی کو نمایاں کر دیا ہے۔ اقبال شکوہ کرتے ہیں کہ دنیا میں مسلمان جگہ
جگہ غیر مسلموں کے مقابلے میں حقیر ،ذلیل اور رسوا ہیں۔ جس کی وجہ سے
دنیا کی دوسری اقوام ان پر خندہ زن ہیں۔ نظم کے اس حصے میں صحیح
معنوں میں گلے شکوے کا رنگ پایا جاتا ہے اقبال نے مسلمانوں کی بے بسی و
بے چارگی کا واسطہ دے کر خدا سے پوچھا ہے کہ توحید کے نام لیوائوں سے
پہلے جیسا لطف و کرم کیوں نہیں ؟ اس کے ساتھ ہی شاعر نے ایک طرح کی
تنبیہ بھی کی ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو دنیا توحید کے نام لیوائوں سے
5
ُشاقان توحید کا سراغ نہیں
ِ خالی ہو جائے گی۔ اور ڈھونڈنے سے بھی ایسے ع
ملے گا۔
عجز والے بھی : امتیں اور بھی ہیں ،اُن میں گنہگار بھی ہیں
مست مۓ پندار بھی ہیں
ِ ہیں ،
سینکڑوں ہیں کہ : ان میں کاہل بھی ہیں ،غافل بھی ہیں ،ہشیار بھی ہیں
ترے نام سے بیزار بھی ہیں
برق گرتی ہے تو : رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
بےچارے مسلمانوں پر
آگے چل کر اقبال کا لہجہ ذرا تلخ ہو جاتا ہے اور محبوب حقیقی کے سامنے
فریاد کی زبان کھولی ہے کیونکہ اس نے اپنے سچے عاشقوں کو فراموش کر
دیا ہے اور غیروں سے راہ رسم آشنائی پیدا کر لی ہے۔
لیلی ،
ٰ نظم کے اس حصے میں اقبال نے بہت سی تلمیحات استعمال کی ہیں ۔
قیس ،دشت وجبل ،شور سالسل اور دیوانہ نظار ہ محمل کی تراکیب و
تلمیحات وغیرہ۔
قیس دیوانہ نظارہ محمل نہ رہا وادی نجد میں وہ شورِ سالسل نہ رہا:
” سرفاراں Zپر کیا دین کو کامل تو نے“ سے مراد یہ ہے اے خدا تو نے دین اسالم
کو فاران کی چوٹی پر مکمل کر دیا ۔ جو قرآنی آیت کی طرف ایک اشارہ ہے۔
6
اک اشارے میں ہزاروں کے : سر فاراں Zپر کیا دین کو کامل کیا تو نے
لئے دل تو نے
کیفیت یا س و بیم:
اس حصے میں اقبال کا روئے سخن خاص طور پر ہندی مسلمانوں کی
طرف ہے اور یہی بات اِسے دوسرے حصوں سے ممتاز کرتی ہے۔ یوں تو
مسلمان دنیا کے ہرگوشے میں بدحالی مایوسی اور بے چارگی کا شکار ہیں
مگر برصغیر پاک و ہند میں تو اس کا انتشار گویا نقطہ عروج کو پہنچ گیا ہے
چونکہ اقبال ہندوستان میں رہتے ہیں اس لئے یہیں کے مسائل سے انہیں پہلے
واسطہ پڑتا ہے۔
ہند کے دیر نشینوں کو : جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے
مسلماں کردے
یہ بہت Zبلیغ شعر ہے کہ ہندوستان میں ہزاروں سال رہنے کے بعد ہند کے
مسلمان بھی اسی طرح ہندی ثقافت Zاور فلسفے میں رنگے گئے ہیں۔ ان میں
بت پرستوں ( ہندوئوں) کے ساتھ میل مالپ کی وجہ سے ان ہی کی سی
خصلتیں پیدا ہو گئی ہیں ۔ اس لئے ان کو ”دیر نشین “ کہنا کوئی غلط بات نہیں۔
عالمہ اقبال نے ہمیشہ اپنی گفتگو میں یہی خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر ہندوستان
کے سارے مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان بن جائیں تو وہ ساری دنیا کو
فتح کرسکتے ہیں۔
طور مضطر ہے اسی : نغمے بےتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
آگ میں جلنے کے لئے
دعائیہ اختتام:
عالمہ اقبال کی خواہش تھی کہ ہندوستان کے سارے مسلمان حقیقی
معنوں میں مسلمان ہو جائیں تووہ ساری دنیا کو فتح کر سکتے ہیں۔ نظم کے
آخری حصے میں شاعر کی یہ آرزو ایک دعا کی شکل میں ڈھل جاتی ہے۔ اور
دعا کا یہ سلسلہ نظم کے آخری شعر تک چلتا ہے۔ اُمت مسلمہ کو درپیش
7
مسائل و مشکالت کے حل کے لئے اقبال دعا گو ہیں۔ ”امت مرحوم“ کی ترکیب
بہت معنی خیز ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان بحیثیت ایک زندہ قوم کے ختم ہو کر
مردہ ہو چکے ہیں اب ان کی حیثیت سلیمان کے مقابلے میں ”مور بے مایہ“ کی
سی ہے۔ لیکن اقبال کی خواہش ہے کہ دور حاضر کے مسلمان پھر سے جوش و
جذبہ سے لبریز ہو جائیں اور کوہ طور پر پہلے کی طرح تجلیات نازل ہوں۔
آگے چل کر اقبال مایوسی کے عالم میں کہتے ہیں کہ مجھ سے دین کی جو
خدمت ہو سکتی ہے اس کے بجاالنے کے لئے کوشاں ہوں اگرچہ میں تنہا ہوں
اور کوئی شخص میری آواز پر کان نہیں دھرتا۔
8
االصل ہوں لیکن ساتھ ساتھ اسالمی تعلیمات کی روح سے واقف ہوں اور اگر
مسلمان مرے کالم کابغور مطالعہ کریں تو انہیں عجمی روایات کے پردے سے
اسالم کے مطالب دقیق جھانکتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ حصہ اور ”شکوہ “ اس
بلیغ اور معنی افروز شعر پر ختم ہو جاتا ہے۔
فنی جائزہ:
شکوہ 31بندوں پر مشتمل ہے یہ نظم مسدس کی ہیت میں لکھی
گئی ہے۔ بحر کا نام ”بحر رمل مثمن مخبون محذوف ‘‘ ہے۔ بحر کے ارکان یہ
ہیں۔
شکوہ اللہ کا اللہ سے : اک نئی طر نئے باب کا آغاز کیا
بصد ناز کیا
نظم کا آغاز بہت systimaticہے اصل موضوع پر آنے سے پہلے اقبال نے شکوہ
کرنے کی توجیہ دو بندوں میں بیان کردی ہے تاکہ نیا اور اچھوتا موضوع اچانک
سامنے آنے پر قار ی کو کوئی جھٹکا محسوس نہ ہو۔
لہجے کا تنوع:
9
کسی برگزیدہ اور برتر ہستی کے سامنے شکو ہ کرنے واال اپنی مفروضات
حسب ضرورت مختلف انداز اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے
ِ پیش کرتے ہوئے
شکو ے کا لہجہ بھی متنوع ہے اور اقبال کا شکوہ اللہ جیسی بڑی ہستی سے ہے
جو تمام دنیا کا مالک ہے۔ اسی لئے اقبال کے لہجے میں کہیں عجز و نیاز مندی
ہے کہیں غیرت و انا کا احساس ہے کہیں تندی و تلخی ہے اور جوش ہے کہیں
تاسف و مایوسی کا لہجہ ہے اور کہیں گریہ و زاری و دعا کا انداز اختیار کیا ہے۔
نفسیاتی حربے:
اقبال کے فن کا کمال یہ ہے کہ انہوں Zنے نظم میں بعض مقامات پر نفسیاتی
حربوں سے کام لیتے ہوئے ایک ہی بیان سے دہرا کام لیا ہے۔ 10ویں بند کے
آخری شعر سے نظم کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے۔ جہاں پر شاعر خدا سے بے
اعتنائی اور بے نیازی کا گلہ شکوہ کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
اس طعن آمیز انداز سے مخاطب کی انا اور غیرت کو جھنجوڑ کر یہ
احساس دالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہ یہ میرا مسئلہ نہیں تمہارا مسئلہ ہے۔
ایک اور جگہ نفسیاتی حربے کو استعمال کرتے ہوئے اپنی کوتاہیوں اور اسالم
سے روگردانی کا اعتراف کیا ہے ۔ مگر وہ اعتراف کا اعالنیہ اظہار نہیں کرتے۔
کیونکہ اعالنیہ اعتراف کرنے سے ان کا اپنا موقف کمزور ہوگا۔ ل ٰہذا وہ اپنی
کمزوری سے توجہ دوسری طرف لے جانے کے لئے فورا ً نفسیاتی Zحربے سے
کام لیتے ہے۔ اور طعنہ دیتے ہیں کہ تم غیروں سے شناسائی رکھنے والے ہرجائی
ہو۔
تغزل:
10
یوں تو اقبال کی پوری شاعری میں رنگ تغزل چھایا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ حکیمانہ نکتے بیان کرنے کے باوجود ان کی شاعری میں ساحری کا عنصر
ملتا ہے۔ لیکن اس رنگ تغزل کا واضح استعمال سب سے پہلے اقبال نے
”شکوہ" میں کیاہے۔ اگرچہ اقبال ہمارے دور کے سب سے بڑے انقالب پسند
شاعر ہیں۔ لیکن انہوں Zنے اپنی بات کہنے کے لئے نہ صرف نئے پیمانے اور نئے
سانچے استعمال کئے بلکہ روایت کا پورا احترام ملحوظ رکھا ہے اور یہ ثابت کر
دیا ہے کہ پرانے اسلوب اورپرانے سانچے فرسودہ نہیں ہو گئے ۔ بلکہ انہیں نئے
رنگ اور آہنگ اور نئے مفاہیم کے ساتھ برتا جاسکتا ہے۔
شب کی آہیں بھی : تیری محفل بھی گئی چاہنے والے بھی گئے ؎
گئیں صبح کے نالے بھی گئے
آکے بیٹھے : دل تجھے دے بھی گئے اپنا صلہ لے بھی گئے
بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
اب انہیں ڈھونڈ : آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
خ زیبا لے کر
چراغ ُر ِ
ِ
ایجاز و بالغت:
”شکوہ“ کے بعض حصے ،اشعار اور مصرعے ایجاز و بالغت کے شہکار ہیں۔
تاریخ کے طویل ادوار ،اہم واقعات اور روایات اور مختلف کرداروں کی تفصیلی
خصوصیات کو بڑے بلیغ انداز میں نہایت Zاختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
بھی افریقہ کے : دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں ؎
تپتے ہوئے صحرائوں میں
11
صنعت مراعاة النظیر.:
ہم نوا میں بھی کوئی نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں : ؎
گل ہوں کہ خاموش رہوں
زیر خنجر بھی یہ : نقش تو حید کا ہر دل میں بٹھایا ہم نے ؎
پیغام سنایا ہم نے
صنعت تلمیح:
نہ کوئی بندہ : ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و آیاز ؎
رہانہ کوئی بندہ نواز
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ : آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر ؎
زیبا لے کر
قبلہ رو ہو کے زمیں : آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز ؎
بوس ہوئی قوم حجاز
کالم اقبال کی سب سے نمایاں Zخوبی تشبیہ ہے۔ شکوہ میں عالمہ اقبال
نے کئی خوبصورت تشبیہات استعمال کی ہیں ان خوبصورت اور بلیغ تشبیہات
نے اشعار کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ مثال ً اقبال نے ایک شعر میں
امت مسلمہ کو ”مور بے مایہ“ سے تشبیہ دی ہے۔ جو بہت ہی بلیغ ہے۔
12
مورِ : مشکلیں امتِ مرحوم کی آساں کر دے ؎
بے مایہ کو ھمدوش سلیماں کر دے
اقبال کی شاعری میں استعاروں کی بھی کمی نہیں ہے۔ ”شکوہ“ کے یہ اشعار
شعری اسلوب کا نادر نمونہ ہونے کے ساتھ استعاروں پر شاعر کی زبردست
جمالیاتی گرفت کا بھی ثبوت ہے۔
تو ذرا چھیڑ : مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز ؎
تو دے تشنہ مضراب ہے ساز
اقبال نے ”شکوہ “ میں تشبیہ اور استعاروں کے عالوہ عالمتوں کا بھی بہت
خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ جو کہ اقبال کی گہری فلسفیانہ اور حکیمانہ
فکر کی غماز ہیں،
داغ جو : اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں ؎
سینے میں رکھتے ہوں وہ اللے ہی نہیں
جبکہ اقبال نے کالم میں استفہامیہ لہجے کوبھی اپنایا ہے۔ جس سے جوش میں
اضافہ ہوا ہے۔
کس نے پھر زندہ کیا : کس نے ٹھنڈا کےا آتش کدہ ایراں کو ؎
تذکرہ یزداں کو
13
فکر فردا نہ : کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں ؟ ؎
کروں محوِ غم دوش رہوں ؟
مجموعی جائزہ:
عالمہ اقبال نے ”شکوہ میں ایسا انداز اختیار کیا ہے جس میں مسلمانوں
کے عظیم الشان ، Zحوصلہ افزا اور زندہ جاوید کارنامے پیش کئے گئے۔ ل ٰہذا اس
نظم کے پڑھنے سے حوصلہ بلند ہوتا ہے قوت عمل میں تازگی آتی ہے۔ جو ش و
ہمت کو تقویت پہنچتی ہے۔ عظیم الشان کارنامے اس حسن ترتیب سے جمع کر
دئیے گئے ہیں کہ موجودہ پست حالی کے بجائے صرف عظمت و برتری ہی
سامنے رہتی ہے۔ گویا یہ شکوہ بھی ہے اور ساتھ ہی بہترین Zدعوت عمل بھی۔
اس لحاظ سے اردو زبان میں یہ اپنی نوعیت کی بالکل یگانہ نظم ہے۔بقول
تاثیر”شکوہ لکھا گیا تو اس انداز پر سینکڑوں نظمیں 7لکھی گئیں
مالؤں نے تکفیر کے فتوے لگائے اور شاعروں نے شکوہ کے جواب
لکھے لیکن شکوہ کا درست جواب خود اقبال ہی نے دیا۔“
ق ت ن ن
ے اسالم ب ول نکر ل ی ا ہوں ےجھ ڈت ڈاکٹر عالمہ دمحم اق ال 1877-1938تاق ال کے اسالف کش م ری پ ن
ی ئ ب بئ
ن خ ہ ئ س
ش
ل ع گ ت
ے۔ گور م ٹ کالج و
ن گ ل دا ں م
ت یکول ا ن م کے کوٹ ا عد
ب ف س تی کے م لی ی دا ت ا
پ ب ر ھر ے۔ ھا۔ س ی ال فکوٹ می ں پ ی دا ہ و
ین ٹ ے۔ ھ د ت ش ن ف
وں ک ناور ل ف ف ن الہ ور سے لس ہ اور عربی می ں ای م۔ اے پ اس ک ی ات ج ہاں پرو یسر ھامس آرن لڈ کے اگرد ھ چک
ئ ع
ے۔ ا گلست ان سے ب نیرسٹ ری اور می و خ ج رم ی سے ال فس ی می ں ے ب اہ ر گ کے یل
ئ ے۔ پ ھر اعلی لی م کالج ،الہ ور می ں عربی کے است اد رہ
ف ن ش
ں لس ہ کالج مین کی۔ گور م ٹ کالج اور اسالمی ہ ن وکالت روع ن ن پی۔ یا فچ۔ ڈی کی۔ س ن د حاصل کی۔ 1908می ں واپس آے اور
ن ف
گول می ز کا ر سوں می ں مسلما وں کی مائ ن دگی کی۔ حکومت ہ ن د ے سر کا ق ے۔ س ی است می ں ب ھی حصہ ل ی ا۔ ہ کے پرو یسر بق ھی ر
نقت ق ق ت ش خ
ے۔ 1938می ں ا ال ک ی ا۔ب ادش اہ ی مسج دالہ ور کے طرف سے ش اعر م رق اور رج مان ح ی ت کے ال اب مل ئ کی ومی ف ا۔ د طاب
ن قت احاطے می ں مد ون ہ وے۔
ج ت ش ش ت ئ ق
ے۔ ا من حمای ت االسالم ہ ا و ہ روع سے اعروں م کے ور ہ ال دور ال ہ پ ے۔ ہ ا ا اب ل کی ش اعری کو ک ی ادوار می ں سی م ک ی ا ج ا
غ غ ش غ ش ق ف
ے مروج ہ زل کو کے پ لی ٹ ارم سے ا ب ال کی ہرت کا آ آز ہ وا۔ روع می ں زلی ں ب ھی کہی ں اور داغ سے اصالح لی۔ پہل
ق ن
ئ ن اشپ ن ای ا پ ھر اس رن گ می ں بڑی ت ب دی لی کی۔
ن ن ق ق
ی خ ع ب دال ادر کے رسالہ"مخ زن"کی وساطت سے تا ب ال کا ام دور ت ک پ ہ چ ا۔ اب ت دا ی ظق موں می ں ا تب ال ے ب راہ راست اور
خ ث فئ ٹ ن
کہی ں ب الواس طہ ا گریزی ش اعری سے ا دہغا ھای ا۔ حری ک آزادی کے زیر ا ر وطن ی ت ،ومی ت اور ا حاد کے مض امی ن ا ت ی ار
ن ش ت
ے جمموعہ"کالم ب ان گ درا" می ں ش امل ہ ی ں۔ ے پ ہل ک ی ۓ۔ ران ہ ہ ن تدی ،ن ی ا والہ ،می را وطن و ی رہ اس دور کی ی ادگار ہ ی ں اور ا ک
ف ش ف ق ق
ے۔ یورپ کا س ر ا ب ال ورپ کے ی ام اور اسک ع
ے عری اور کری لحاظ سے کے یل ش ق ہ کے دور سے ف ے ب عد ن دوسرے خدور تکا لق ی نت
ے فم ںب غ ن جم ن س ت غ
ورپ کے زمان ہ ی ق ی ف ھی ک ا سے الم سا ال۔
خ م ع مو کا ے ئھ کو کر اور ب یہذ کی رب
ی نم ں ہ ا اں ہو ھا۔ ز بق ہت ی ی
ہ ج
ظ ن غ ش ف
ن ی ام می ں اض ا ہ ہ وا۔ ب ہت ج لد ا کی اعری ای ک پ ی ام ب ن گ ی۔ اس می ں طی ب اننہ ا داز ب ھی پ ی دا ہش و گ ی ا۔ ا ب ال کی کر کا ا ہار
ش ش خض ش خ خ من ف
ودی می ں مرب وط طور پر ہ وا۔م ہور اردو ظ می ں ر راہ ،مع و ش اعر ،کوہ ،ج واب کوہ، لک ئ ے ب رموز اور ودی اسرارق وں ی و ث ارسی ا کی
ف ش نمی ں ھیف گ ی ں۔ طلوع اسالم اور مسج د رطب ہ اسی دور
ق ئ ن ت ن ق ش خ
ے۔ اس دور می ں ا ب ال آ ری دور کی اعری می ں ا ب ال ے اسالمی کر کی رو ی می ں ہذی ب ر گ کے زوال کا ج ا زہ ل ی ا ہ
14
ن ت
خ ظ خ یق خ ق ن
ے۔ں وب ہ نواہ ی می و ملکی س ی است پر ب ھی ب نہت چک ھ لکھا۔ ا ب ال کی ل ی زر ی زی کا ا ہار تاس دور کی ظ موں م ف
ے فوال
ن ف ئ ش
ای ک لس ی ش اعر کی ح ی ث ی ت سے ا کی ئہرت یورپ تن ک پ ھ ی ل گ ی۔ اس دور کی صن ی ات می ں"ج اوی د امہ" ،مث وی"پس چ ہ
ق غ خ ئ ک ض
ے ا ب ال کو ب یسنوی ں صدی کا سب سے ہ ں۔ ا کی آ ری کت اب"ارم ان حج از" ق ت ی ب ای د کرد""،بنال ج بری ل"اور" رب لی نم" ش ا ع ہ و
ئ ت ن ت ش ش ن
ے۔ے کالم کا رج مہ ک ی زب ا وں می ں ہ و چ کا ہ ے۔ ا ک ے۔ ا کی ہرت و و ی ر بڑھ ی ہ ی رہ ی ہ بڑآ ہ دو فست ا ی اعر کہا ج ا سکت ا ہ
مرت ب ہ:حا ظ اسدہللا اسلم
15