You are on page 1of 23

‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬

‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬

‫‪ANS 01‬‬
‫اقبل نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونکی ہے۔وہ پیغمبری اور صحت مند قدرو کی ترجمان‬
‫ہیں۔اقبال کی شاعری کا آغاز روایتی انداز سے ہوا ابتدا میں انہیں داغ کی شاگردگی کے زیراثر‬
‫مصنوعی حسن و عشق کی گلیوں کی خاک بھی چھانی پڑی مگر بہت جلد اس آزاد طائر کا دم حسن و‬
‫عشق کی ان تاریک گلیوں میں گھٹنے لگا اور انہوں نے روایتی و رومانی شاعری کو خیر آباد کہہ‬
‫دیا۔اقبال کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔‬
‫پہال دور ابتدا سے ‪٥٠٩١‬ء تک کا ہے‬
‫ہمالہ” اس دور کی پہلی نظم ہے جو ‪٥٩٥‬ء میں مخزن الہور کے پہلے شمارے میں ‘کوہستان ہمالیہ’ "‬
‫کے عنوان سے شائع ہوئی۔اس دور کی فطری‪ ،‬رومانی اور وطنی نظمیں اور غزلیں "بانگ درا” میں‬
‫شامل ہیں۔”بانگ درا” اقبال کا پہال شعری مجموعہ ہے جو ‪٥٠٩١‬ء میں شائع ہوا۔اس دور کی اہم نظموں‬
‫میں گل رنگین‪ ،‬ابر کوہسار‪ ،‬آفتاب صبح‪ ،‬چاند‪ ،‬جگنو‪،‬شمع‪،‬ماہ نو‪،‬انسان‪،‬بزم قد رت‪،‬ایک آرزو‪،‬موج‬
‫دریا‪،‬ابر‪،‬کنارہ‪،‬ترانہ ہندی اور نیاشوالہ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو انسان کو فطرت اور وطنیت کا پیغام‬
‫دیتی ہیں۔اقبال کی ابتدائی دور کی شاعری ایک ایسے مسافر کا سفر ہے جو منزل اور سمت منزل سے‬
‫بے خبر ہے۔‬
‫اقبال کی شاعری کا دوسرا دور قیام یورپ کا ہے‬
‫ء سے ‪٥٠٩١‬ء تک اقبال کا سفر یورپ ان کی شاعرانہ صالحیتوں کو نئی سمت و نئی وسعت ‪٥٠٩١‬‬
‫دینے میں بڑا مفید ثابت ہوا۔ان کے زاویہ نگاہ اور سوچنے کے انداز میں تبدیلی رونما ہوئی۔یورپ کی‬
‫خاک کے ذرے ذرے میں انہیں ایک دھڑکتا ہوا دل نظر آیا جو حرارت‪ ،‬تڑپ اور شدت سے لبریز‬
‫تھا۔دوسری طرف ایشیا میں انہیں ہر چیز محو خواب نظر آئی۔یہاں دل کا دھڑکنا تو کیا سانس تک کی‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫آواز محسوس نہیں ہوتی۔ان حاالت سے متاثر ہوکر اقبال وطن پرستی کے محدود دائرے سے باہر نکلے‬
‫اور آفاقی مسائل کی طرف متوجہ ہوئے۔اس عہد میں لکھی گئ نظمیں”طلباء علی گڑھ کالج کے نام”‬
‫"عبدالقادر کے نام” اور "محبت” ان کے خیاالت و تصورات کی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہیں۔اقبال علی‬
‫گڑھ طلبہ کو عشق وعمل کا پیغام یوں دیتے ہیں۔‬
‫عالمہ اقبال کی شاعری کا تیسرا دور ‪٥٠٩١‬ء کے بعد شروع ہوتا ہے‬
‫اس دور کو انکی شاعری کا عہد زرین کہا جاسکتا ہے۔اس دور کی شاعری میں انہوں نے بتایا ہے کہ‬
‫قوم کے زوال اور تمام خرابیوں کی جڑ ان کی بے عملی اور حقیقت سے بے خبری ہے لہذا انہوں نے‬
‫قوم کو ذہنی غالمی سے نجات دالنے کے لیے فلسفہ خودی کو پیش کیا۔اقبال نے فلسفہ خودی کے ساتھ‬
‫ایک منفرد تصور عشق‪،‬جہد عمل‪،‬فکر‪ ،‬حیات اور مومن کی وضاحت کی ہے۔وہ قوم کو خواب غفلت‬
‫سے یوں بیدار کرتے ہیں۔‬
‫بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق‬
‫عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی‬
‫زندگی سے بھرپور خیاالت و تصورات کا اندازہ "بال جبریل” اور” ضرب کلیم” میں شامل اقبال کی‬
‫شاہکار نظموں ذوق و شوق‪،‬حضر راہ‪،‬شکوہ‪،‬جواب شکوہ‪،‬ساقی نامہ‪،‬مسجد قرطبہ‪،‬ابلیس کی مجلس‬
‫شوری اور لینن کے حضورمیں وغیرہ کے مطالعے سے لگایاجاسکتاہے۔وہ اس عہد میں اتحاد و ملت‬
‫ٰ‬
‫کی دعوت کے عالوہ مسلمانوں کو اسالمی طرز اختیار کرنے‪،‬قرآن پر عامل ہونے اور رسول پاکﷺ‬
‫سے والہانہ عشق و استوار کرنے کا پیغام دیتے ہیں۔‬
‫حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک‬
‫کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک‬
‫کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں‬
‫یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں‬
‫اقبال کی شاعری میں جدید و قدیم تصورات‪،‬تغزل و تصوف کا امتزاج‪،‬فلسفیانہ اور مفکرانہ نظریات‬
‫خوبصورت اسلوب میں ملتے ہیں۔بیشتر اشعار میں دریا کو کوزے میں بند کر دیتے ہیں جس سے ان کی‬
‫فکری بلندی اور تخیل پروازی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‬
‫غرض کہ اقبال کے کالم میں فلسفے کے ساتھ ساتھ فن شاعری کی ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں۔نادر‬
‫تشبیہات و استعارات‪،‬رمزوکنایہ‪،‬موسیقی و ترنم‪،‬منظرکشی و پیکر تراشی اور فصاحت و بالغت میں‬
‫انہوں نے خون جگر لگا کر کمال فن کا ثبوت دیا ہے۔‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫‪References:‬‬
‫‪AIOU BOOK 5613‬‬
‫‪ANS 02‬‬
‫اقبال کے کالم میں عشق بہت اہمیت کا حامل تصور ہے۔اقبال نے عشق کو وسیع معنوں میں استعمال کیا‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫ہے۔ ان کے نزدیک یہ وہ پاکیزہ اور طاقتور جذبہ ہے جو انسان کو عظمت عطا کرتا ہے اور اسے‬
‫مقاصد کے حصول کی طرف مائل کرتا ہے۔ ان کے نزدیک عشق گرمی حیات کا موجب ہے اور اس‬
‫سے کائنات میں رونق ہے۔ یہ ایک عالمگیر اور بیکراں جذبہ ہے۔‬
‫اسلم انصاری لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’خودی کے تصور کے بعد اقبال کی شاعری کا سب سے اہم تصور عشق ہے جس کی بے تابی و‬
‫اضطراب ‪ ،‬سوزوگداز اور خالقی انسان کو اپنی ذات کی وسعتوں اور زندگی کے برتر مقاصد سے آشنا‬
‫کرتی ہے۔‘‘‬
‫اقبال کے نزدیک ہست و بود کی علت غائی عشق ہے۔ اسی سے نوائے زندگی میں زیرو بم ہے اور مٹی‬
‫کی تصویروں میں اسی سے سوز دمبدم نظر آتا ہے۔‬
‫عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم‬
‫عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بدم‬
‫اقبال کے لیے کائنات کی پیہم خالقانہ آشکارائی عشق کی بدولت ہے۔ یہ ایک ایسا داعیہ روح ہے جس‬
‫کی بدولت کائنات ہر لخطہ ارتقا پذیر ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق ایک ایسی قوت محرکہ ( ‪Driving‬‬
‫‪)force‬کی حیثیت رکھتا ہے جو انسان کو منزل کے حصول کے لیے گامزن کرتا ہے اور اسے مقاصد‬
‫آفرینی پر اکساتا ہے۔ یہ قوت محرکہ کاروان وجود کو ہر لخطہ نئی آن و شان سے ترقی کرنے کی لذت‬
‫سے آشنا کرتی ہے۔ عشق انسان میں یہ یقین پیدا کرتا ہے کہ اس عالم زمان و مکاں سے ماورا بھی کئی‬
‫جہاں ہیں۔ اقبال نے عشق کو عین وجود قرار دیا ہے۔اقبال کے خیال میں عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو‬
‫تمام کائنات میں کارفرما ہے۔ ان کے خیال میں محبت ہی کی بدولت کائنات میں زندگی کا ظہور عمل‬
‫میں آیا۔‬
‫تصور‬
‫ِ‬ ‫بانگِ درا کی ایک نظم ’’محبت‘‘ میں اقبال نے اسی خیال کو پیش کیا ہے۔ اس نظم میں موجود‬
‫عشق کے بارے میں ڈاکٹر عبدالمغنی یوں رقمطراز ہیں۔‬
‫’’یہ ُحسن و عشق دونوں کا آفاقی تصور ہے جس میں نہ زوال کا سوال ہے نہ فراق و وصال کی کش‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫مکش کا ‪ ،‬اس کا وصال بھی ایک فراق ہے اور فراق ایک وصال۔ اس تصور پر مبنی نہ تو ُحسن کو‬
‫زوال ہے نہ عشق کو‪ ،‬نہ تو یہ ُحسن محدود ہے نہ عشق‘‘‬
‫اقبال کے خیال میں کائنات کے ذرے ذرے میں عشق کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کا اثر ہر شے‬
‫سے ہویدا ہے۔ اقبال نے عشق کو حیات عالم کا آئین کہہ کر اس کی اہمیت واضح کی ہے‪:‬‬
‫عشق آئین حیات عالم است‬
‫امتزاج سالمات عالم است‬
‫اقبال کے خیال میں جب تک عشق نہ تھا اس گلستاں (دنیا) کا گل اللہ تمنا نہ ررکھتا تھا۔ یہاں کی نرگس‬
‫طناز چشم نظارہ سے محروم تھی۔ یہ جہاں مے کشوں کی ہاوہو سے خالی تھا۔ مینا میں شراب تو تھی‬
‫مگر کوئی پینے واال نہ تھا۔ برق سینا کو شوق کی بے زبانی کا شکوہ تھا کیونکہ وادی ایمن میں کوئی‬
‫ارنیکہنے واال نہ تھا۔ عشق کی بدولت ہی ہست و بود کے تمام ہنگامے ہیں ورنہ کائنات کی اس بزم‬
‫زبور عجم کی ایک غزل میں اقبال نے اسی خیال کو نہایت‬
‫ِ‬ ‫خموشاں میں کوئی شور و غوغا نہ تھا۔‬
‫دلکش پیرایے میں بیان کیا ہے۔‬
‫عشق از فریاد ما ہنگامہ ہا تعمیر کرد‬
‫ورنہ ایں بزم خموشاں ہیچ غوغاے نداشت‬
‫اقبال کے نزدیک عشق سوزومستی اور تڑپ کا نام ہے۔ اسی جذبے کی وجہ سے انسان کا ملیت حاصل‬
‫کرتا ہے۔ بقول ڈاکٹر وزیر آغا ‪’’:‬ان (اقبال )کے نزدیک عشق سوز و تب و تاب جاودانہ کے سوا کچھ‬
‫اور نہیں۔ نیز عشق کا یہ سوز اور تڑپ’’مرد مومن‘‘ ہی میں اپنی انتہا کو پہنچتی ہے گویا مر ِد مومن‬
‫ہی کائنات کی تڑپ کا نمائندہ ہے ‘‘۔‬
‫اقبال کے خیال میں جذبہ عشق مادیت سے بے نیاز ہے۔ یہ فقیری اور شہنشاہی میں امتیاز روا نہیں‬
‫رکھتا۔ یہ میدان کار زار میں کبھی زرہ پوش آتا ہے اور کبھی سازو سامان کے بغیر بھی معرکہ حق و‬
‫باطل جاری رکھتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں عشق مجازی سے زیادہ عشق حقیقی کو موضوع بنایا گیا‬
‫ہے۔ ان کے خیال میں عشق کے بہت سے روپ ہیں ۔ عشق ان کے نزدیک دم جبرئیل بھی ہے اور دل‬
‫مصطفی بھی۔ یہ خدا کا رسول بھی ہے اور خدا کا کالم بھی۔یہ صہبائے خام بھی ہے اور کاس الکرام‬
‫ٰ‬
‫بھی۔ یہ فقیہہ حرم بھی ہے اور امیر جنود بھی۔ یہ کسی ایک مقام پر قناعت نہیں کرتا‪ ،‬اس کے ہزاروں‬
‫مقامات ہیں۔‬
‫مصطفی‬
‫ٰ‬ ‫عشق دم جبرئیل‪ ،‬عشق دل‬
‫عشق خدا کا رسول‪ ،‬عشق خدا کا کالم‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک‬
‫عشق ہے صہبائے خام‪ ،‬عشق ہے کاس الکرام‬
‫عشق فقیہہ حرم‪ ،‬عشق امیر جنود‬
‫عشق ہے ابن السبیل‪ ،‬اس کے ہزاروں مقام‬
‫یہاں دراصل اقبال نے جذبہ عشق کی کونیاتی (‪ ،)Cosmological‬وجودیاتی (‪ )Ontological‬اور‬
‫غایتی (‪ )Teleological‬معنویت کو اجاگر کیا ۔ ان کے نزدیک عشق کا مآخذ ع منبع انائے المحدود‬
‫(‪ )Infinite Ego‬ہے ۔ ہیگل نے جدلیاتی عمل کو سراسر تعقالتی بتایا ہے جب کہ اقبال کے نزدیک یہ‬
‫اعجاز عشق ہے۔ خودی جو کہ اقبال کے فلسفے میں مرکزی تصور کی حیثیت رکھتی ہے دراصل عشق‬
‫ہی کی ایک وجودی صور ت ہے ۔ یہ پوری کائنات میں ایک روح کی طرح سرایت کیے ہوئے ہے ۔‬
‫اقبال کے نزدیک عشق اگر مصلحت اندیش ہو تو خام ہے۔ عشق انسان کو بے خطر آ ِ‬
‫تش نمرود میں کود‬
‫جانے کا درس دیتا ہے۔ مصلحت اندیشی عقل محض کی صفت ہے جو حاالت سے سمجھوتہ کرنے اور‬
‫ہر حال میں مفاد کو پیش نظر رکھنے کا نام ہے۔ جبکہ عشق حاالت کے مطابق ڈھلنے کی بجائے حاالت‬
‫کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عقل محض عشق کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ عشق‬
‫کی ایک گراں قدر صفت اس کا جذبہ قربانی ہے۔ یہ اگر ضرورت پڑے تو مفاد پرستی اور وقتی فائدے‬
‫کو تیاگ دینے کا نام ہے۔‬
‫پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل‬
‫عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی‬
‫اقبال کے خیال میں عقل انسان کو ظن و تخمین کی فضا سے باہر نکلنے نہیں دیتی۔ یہ اس جست‬
‫(‪)Leap‬سے محروم رکھتی ہے جو عشق کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ جست انسان کو فوراًمنزل مقصود تک‬
‫پہنچنے مینمدد دیتی ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق جس آہ جگر گداز اور آئین جہانتابی کا حامل ہے عقل‬
‫اس سے محروم ہے۔‬
‫عقلے کہ جہاں سوزد‪ ،‬یک جلوہ بیباکش‬
‫از عشق بیاموزد‪ ،‬آئین جہاں تابی‬
‫اقبال عشق کو عقل پر اس لیے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ عقل اسباب و وجوہ کے چکر مینپڑی رہتی ہے‬
‫ت بازو پربھروسا کرتا ہے جبکہ عقل مکار‬
‫جبکہ عشق میدان عمل میں اپنے جوہر دکھاتا ہے۔عشق قو ِ‬
‫ہے۔عقل کا سرمایہ خوف اور شک ہے جبکہ عشق اور یقین الزم و ملزوم ہیں۔ عقل کی تعمیر میں‬
‫ویرانی مضمر ہے جبکہ عشق کی ویرانی میں تعمیر چھپی ہوئی ہے۔ عقل دنیا مینہوا کی طرح ارزاں‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫ہے جبکہ عشق گراں مایہ ہے۔ عقل مفاد پرست ہے جبکہ عشق آزمائش پر یقین رکھتا ہے۔ عشق کا‬
‫دارومدار اللہ کے فضل و کرم پر ہے۔ عقل کہتی ہے کہ خوش رہو ‪ ،‬آباد رہو‪ ،‬جبکہ عشق کہتا ہے کہ‬
‫اللہ کا بندہ بنو اور غیر اللہ کی غالمی سے آزادہو جاؤ۔‬
‫عقل در پیچاک اسباب و علل‬
‫عشق چوگان باز میدان عمل‬
‫اقبال کے نزدیک خرد کے ذریعے عشق کی راہ طے کرنا ایسا ہی ہے جیسے چراغ لے کر آفتاب‬
‫ڈھونڈنا۔ اقبال کہتے ہیں کہ عقل بھی اگرچہ آستاں یعنی حقیقت کی منزل سے دور نہیں مگر اس کی‬
‫قسمت میں حضوری کی لذت نہیں ۔اقبال نے عشق کو عقل کامرشد کہا ہے۔ ان کے خیال میں عشق‬
‫حقیقی کے بغیر مذہب بھی صرف تصورات کا ایک بتکدہ بن کر رہ جاتا ہے۔‬
‫عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق‬
‫عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدہ تصورات‬
‫اقبال کے نزدیک عقل ذوق نگاہ تو رکھتی ہے یعنی خوب و ناخوب میں امتیاز کر سکتی ہے مگر یہ اس‬
‫جرات رندانہ سے محروم ہے جو عشق کا اثاثہ ہے۔ اقبال عشق کو عقل سے برتر خیال کرتے ہیں۔ اس‬
‫کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر یوسف حسین خان کے بقول‪:‬‬
‫’’اقبال عشق کو عقل کے مقابلے میں فضیلت دیتا ہے۔ اس واسطے کہ اس سے حقائق اشیاء کا مکمل‬
‫علم اور بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ انسانی زندگی میں جتنا اس کا اثر ہے‪ ،‬عقل کا اثر اس کا‬
‫عشر عشیر بھی نہیں۔ زندگی کا ہنگامہ اس سے ہے۔ اگر دل بھی عقل کی طرح فرزانہ ہوتا تو جینے کا‬
‫لطف باقی نہ رہتا ‘‘۔‬
‫اقبال کے نزدیک عشق کا جذبہ ال محدود وسعت کا حامل ہے اور اس کی کوئی انتہا نہیں۔ یہ زمانی اور‬
‫مکانی ابعاد (‪)Dimensions‬سے ماورا ہے یعنی یہ الزمانی اور ال مکانی ہے۔ یہ ماہ و سال اور دیرو‬
‫زود یعنی زماں اور نزد و دور یعنی مکاں کو خاطر میں نہیں التا۔‬
‫می نداند عشق سال و ماہ را‬
‫دور راہ را‬
‫دیر و زود و نزد و ِ‬
‫اقبال کے خیال میں عشق وقت کی رفتار پر غالب آتا ہے۔ زمانے کی تیز رفتاری عشق پر اثر انداز نہیں‬
‫ہو سکتی۔ عشق کا تعلق پیمائشی وقت سے نہینبلکہ وقت کے ایسے سلسلے سے ہے جسے ہم کوئی نام‬
‫نہیں دے سکتے۔‬
‫تندو سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫عشق خود ایک سیل ہے‪،‬سیل کو لیتا ہے تھام‬
‫عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا‬
‫اور زمانے بھی ہینجن کا نہیں کوئی نام‬
‫اقبال کہتے ہیں کہ مجھے عشق پر ناز ہے کیونکہ اس کے وجود کو مٹ جانے کا غم نہیں کیونکہ یہ‬
‫زمان و مکان کی زناری سے بچا ہوا ہے۔‬
‫عشق را نازم کہ بودش را غم نابودنے‬
‫کفر او زنار دار حاضر و موجودنے‬
‫اقبال عشق کی وسعت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔‬
‫ایں گنبد مینائی‪ ،‬ایں پستی و باالئی‬
‫در شد بدل عشق‪ ،‬با ایں ہمہ پہنائی‬
‫اقبال کے نزدیک محبت کا مقصد جسمانی اور حسیاتی حظ حاصل کرنا نہیں بلکہ روح کا ترفع ہے۔ان کا‬
‫جذبہ عشق ماورائی ارفعیت (‪)Transcendental Sublimity‬سے مملو ہے جو بہت کم شعرا کے‬
‫حصے میں آئی ہے ۔لہذا ان کی شاعری میں ایسے عناصر نہ ہونے کے برابر ہیں جو جسمانی یا جنسی‬
‫ہوس (‪)Lust‬کی نشاندہی کرتے ہوں۔ حتی کہ ان کے ہاں روایتی محبوب کا تصو ربھی ناپید ہے۔ ان کے‬
‫ہاں محبوب کے اعضاء اور جسمانی خدوخال کاذکرنہیں ملتا ۔ وہ جسمانی خوبصورتی کی بجائے‬
‫روحانی خوبصورتی (‪ )Spiritual Beauty‬پر یقین رکھتے ہیں ۔ ان کا نظریہ عشق پاکیزہ تصورات و‬
‫احساسات کا حامل ہے۔ ان کے نزدیک جسمانی خوبصورتی (‪)Physical beauty‬فنا ہو جانے والی ہے۔‬
‫ان کی شاعری جنسیت اور ہوس پرستی سے پاک ہے۔ وہ عشق اور ہوسنا کی میں یوں فرق کرتے ہیں۔‬
‫؎در عشق و ہوسناکی دانی کہ تفاوت چیست‬
‫آں تیشہ فرہادے‪ ،‬ایں حیلہ پرویزے‬
‫عشق طینت میں فرومایہ نہیں مثل ہوس‬
‫پر شہباز سے ممکن نہیں پرواز مگس‬
‫عیش منزل کو حرام قرار دیا ہے۔اقبال کہتے ہیں کہ عشق کی رمز ارباب‬
‫اقبال نے عشق کے سفر میں ِ‬
‫ہوس سے نہینکہنی چاہیے کیونکہ یہ شعلے کی تب و تاب خس سے کہنے کے مترادف ہے۔‬
‫رمز عشق تو بہ ارباب ہوس نتوان گفت‬
‫ِ‬
‫سخن ازتاب و تب شعلہ بہ خس نتواں گفت‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫اقبال کا عشق آبرومندانہ جذبات و احساسات کا حامل ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہوس انسان کو بے‬
‫توقیر کر دیتی ہے ۔وہ کوچہ جاناں سے بھی ٓعزت وآبروکے ساتھ ا وراپنا دامن صاف بچا کر لے جانے‬
‫کو مقدم سمجھتے ہینڈاکٹر عبدالمغنی کے بقول ‪’’:‬بالشبہ اقبال کا عشق ہوس نہیں‪ ،‬ان کی محبت لذت کے‬
‫لیے نہیں اور وہ نہ تو کوئے بتاں میں آوارگی پسند کرتے ہیں اور نہ کسی کے کوچے سے بے آبرو ہو‬
‫کر نکلنے پر فخر کرتے ہیں ‘‘۔اقبال عشق کی آبرو مندی چاہتے ہیں اسی لیے وہ اس کے لیے عقل‬
‫خداداد کی پیروی کو ضروری گردانتے ہیں ‪:‬‬
‫عشق اب پیروی عقل خداداد کرے‬
‫آبرو کوچہ جاناں میں نہ برباد کرے‬
‫ق مجازی کی کیفیات کا بیان بہت کم ہے۔ بانگ درا کی شاعری میں کہیں کہیں‬
‫اقبال کی شاعری میں عش ِ‬
‫یہ کیفیات نظر آتی ہیں۔وہ عشق کو زیادہ تر تجریدی رنگ میں پیش کرتے ہیں اور مجازی عشق اور اس‬
‫کے جنسی پہلوؤں سے گریز کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں۔’’اکثر‬
‫صوفیا اور حکما کی طرح اقبال کی زندگی میں بھی عشق مجازی کی کمی محسوس ہوتی ہے ان کی‬
‫عالم شباب کی شاعری میں کہیں کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ مگر یہ آتی جاتی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ ان‬
‫کا یہ شبابی عشق مصری کی مکھی کی طرح ہے‪ ،‬شہد کی مکھی نہیں جس کے پائوں اس میں دھنس‬
‫جائیں ‘‘۔ؔاقبال کا عشق اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں اسے معشوق کی طلب نہیں رہتی بلکہ عشق‬
‫بذات خود مقصود بن کر رہ جاتا ہے۔ اقبال نے اردو کی عشقیہ شاعری کونئی ماورائیت سے آشنا کیا‬
‫ہے۔ ان سے پہلے کی اردو عشقیہ شاعری میں وہ ترفع اور علویت نظر نہیں آتی جو اقبال کی پر عظمت‬
‫اور ماورائیت کی حامل شاعری میں پائی جاتی ہے۔ عشقیہ شاعری کے لیے ضروری نہیں کہ وہ‬
‫روایتی وصل و ہجر پر مشتمل کیفیات کی شاعری ہو۔ اس حوالے سے فراق گور کھپوری لکھتے ہیں‬
‫‪’’:‬عشقیہ شاعری کی داستان محض عارض و کاکل ‪،‬قرب و دوری‪ ،‬جوروکرم‪ ،‬وصل و ہجر‪ ،‬ذکر غم یا‬
‫ذکر محبوب تک محدود رہے یہ ضروری نہیں بلکہ پر عظمت عشقیہ شاعری نسبتوں کے ساتھ پیش‬
‫کرتی ہے۔ بلند پایہ عشقیہ شاعری محض عشقیہ شاعری نہیں ہوتی‘‘۔‬

‫‪References:‬‬
‫‪AIOU BOOK 5613‬‬
‫‪ANS 03‬‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫اقبال کے بارے میں یہ چند الفاظ ’’اقبال‪ :‬مسائل ومباحث‘‘ (عالمہ اقبال کے فکر و فن پر ڈاکٹر سید عبد‬
‫اﷲ کے مقاالت‪ ،‬مرتبہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی) سے ماخوذ ہیں‪ ،‬کہ مجھ جیسے طلباء کسی کی نقالی‬
‫بھی ڈھنگ سے کرلیں تو بڑی بات ہے۔ یہاں یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شاعر مشرق کس‬
‫اسلوب سے مغربی مفکرین اور تہذیب مغرب کا احاطہ کرتے ہیں؟ اس بارے میں مشرقی نوجوانوں کے‬
‫لیے ان کا کیا پیام ہے؟‬
‫کالم اقبال میں تیس فیصد اشعار فرنگی تمدن اور تہذیب کے خالف ہیں ۔ جو کہ اقبال کے مزاحمتی ادب‬
‫ِ‬
‫کا ثبوت ہیں ۔ اقبال کا مزاحمتی ادب بھی تعمیری ہے اور ایک مخصوص اسالمی روایت کا امین ہوتے‬
‫ہوئے معاشرے کی تعمیر نو کا جواز فراہم کرتا ہے ۔ متعدد اشعار اسالم کی برکات و فضائل کے متعلق‬
‫ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال تعمیر چاہتے تھے اور ایک مخصوص قسم کی تعمیر۔ (اس تعمیر‬
‫کی وضاحت خاصی طوالت طلب ہے)۔ دراصل عالمہ اقبال اسالم اور موجودہ تہذیب و تمدن کی تطبیق‬
‫کرتے ہوئے موجودہ تمدن کو اسالم کے قریب تر النا چاہتے تھے۔ یہ بیان اقبال ہی سے ثابت کیا جاتا‬
‫عالی کی‬
‫ہے۔ یہ اسالمیوں کا مخصوص مزاج ہے کہ وہ تعمیری ہوتے ہیں یا ہوجاتے ہیں۔ اسالم نے اﷲ ت ٰ‬
‫احساس ذمہ داری‪ ،‬تعمیر اور خلوص جیسے‬
‫ِ‬ ‫دی ہوئی ہدایت کو عام کیا جسکی بناء پر مسلمانوں میں‬
‫مبادیات فروغ پاگئے۔ لیکن یہ تمام مسلم گروہوں کاخاصہ نہیں ہے۔ ایسے گروہ بھی پرورش پاجاتے ہیں‬
‫جن میں قبضہ گیری‪ ،‬گروہی عصبیت اور تخریب رچ بس جاتی ہے۔ پھر ان کے لیے اپنی ایسی عادتوں‬
‫سے جان چھڑانا یا خود ہی کسی کی جان چھوڑ دینا مشکل ہوجاتا ہے۔ یوں قوموں کی تقدیر ہی پھوٹ‬
‫جاتی ہے۔‬

‫سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقبال تنہا اس قسم کی تطبیق کے حامی ہیں؟ دراصل اس تطبیق کی کوششیں‬
‫بے تحاشا لوگوں نے کیں ۔ اقبال ان کے سرخیل ہیں ۔ مگر اقبال اس کے باوجود مغرب پر شدید نکتی‬
‫چینی کرتے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ اقبال کو ان فالسفہ اور مغربی مفکرین کا براہ راست تجربہ ہے۔‬
‫وہ اس تہذیب کو خود دیکھ کر اور اس کے اثرات محسوس کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ بہت سے علماء‬
‫میں سے ایک اہم عالم دین شریعہ اکیڈمی سے موالنا زاہد الراشدی ‪ ،‬جن کی رائے نہ صرف مؤقر بلکہ‬
‫‪ :‬شریعت کے مطابق بھی ہے ‪ ،‬وہ اس بارے میں فرماتے ہیں‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫مغرب بحیثیت مغرب اسالم دشمن نہیں ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد مغرب میں آباد ہے جس میں ”‬
‫حتی کہ فرانس اور جرمنی سمیت بعض ممالک میں اسالم وہاں کا دوسرا بڑا‬
‫مسلسل اضافہ ہو رہا ہے‪ٰ ،‬‬
‫مذہب تسلیم کیا گیا ہے۔ مغرب کی غیر مسلم آبادی میں سے ایک بڑی تعداد اسالم قبول کر رہی ہے اور‬
‫مغربی اقوام میں نو مسلموں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد اسالم کا‬
‫مطالعہ کر رہی ہے‪ ،‬وہ اسالم کی دعوت سننے میں دل چسپی رکھتے ہیں اور اسے سمجھنا چاہتے ہیں۔‬
‫جبکہ مغرب کی یونیورسٹیوں میں اسالم اور مسلمانوں کے حوالہ سے بہت سے پہلوؤں پر تحقیقی کام‬
‫ہو رہا ہے۔ اس سب کو استشراق اور اسالم دشمنی کے ساتھ جوڑنا درست نہیں ہے‪ ،‬کیونکہ تحقیق اور‬
‫تالش حق کے دائرے میں آتا ہے جسے‬
‫ِ‬ ‫ریسرچ کی دنیا میں ہونے والے کام کا ایک بڑا حصہ فی الواقع‬
‫نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس میں تعاون کے راستے تالش کرنے کی ضرورت ہے”۔‬
‫موالنا زاہد الراشدی جیسے مؤقر اسالمی عالم کی یہ رائے اہم ہے کہ ” اس سب کو استشراق اور اسالم‬
‫تالش‬
‫ِ‬ ‫دشمنی کے ساتھ جوڑنا درست نہیں ہے‪ ،‬۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ تحقیقی “کام کا ایک بڑا حصہ فی الواقع‬
‫حق کے دائرے میں آتا ہے” ۔ مگر یہ اقبال جیسے مفکرین کی درست جہت ‪ ،‬مناسب انداز تنقید اور پھر‬
‫بروقت مغربی غلبے سے نجات کی کوشش‪ ،‬ہے جس کے نتیجے میں مغرب و مشرق میں دونوں جانب‬
‫ہونے والی مسلسل تبدیلی سے چندمسائل کا مناسب حل سامنے آسکے۔ دونوں جوانب ایک دوجے کو‬
‫سمجھ لیں‪ ،‬لیکن یہ ضروری بھی نہیں کہ ایسا ہی ہوجائے۔ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔کیونکی‬
‫اقوام عالم اور ان کے بہت سے پلیٹ فارم اپنی ترجیحات قائم کرنے میں آزاد ہیں اور اس آزادی کا اظہار‬
‫کرنے میں تمام قوت صرف بھی کی جاتی ہے ‪ ،‬جس کے نتیجے میں تمام تار و پود بکھر جاتے ہیں ۔ یہ‬
‫قصور مفکرین کا نہیں ہے۔ جن لوگوں نے آگ لگانی ہو‪ ،‬وہ کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ ہی نکالتے ہیں۔‬
‫اقبال اور زاہد الراشدی جیسے لوگ مناسب تنقید بھی کرتے ہیں اور ساتھ میں اقوام عالم کے مسائل کا‬
‫باہمی حل تالش کرنے میں بھی سرگرم رہتے ہیں۔ لیکن کسی مسئلے کا قرار واقعی حل نکل آنا‪ ،‬اور‬
‫پھر اس پر عمل ہوجانا ایک مشکل کام ہے۔ اگر آپ کو مغرب کے خالف صف آراء ہونا ہے یا ہونا پڑ‬
‫جاتا ہے‪ ،‬کیونکہ بعض اوقات بددماغ قائدین اور شرارت پسند اندھے امریکہ یا یورپ کے کسی ملک پر‬
‫سوار ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے جان چھڑانے کا کوئی راستہ ہی باقی نہ رہے تو کیا کیجیے۔ لیکن‬
‫ب مغرب سے مقابلے کے لیے اقبال کی سی ادبی تحریر اور جناح کی سی جاندار‬
‫اس کے باوجود تہذی ِ‬
‫تحریک کی ضرورت پڑتی ہے۔ بے عقل اور بے روح مزاحمت سے لوگ جلد جان چھڑا لیتے ہیں۔اس‬
‫لیے اقبال نابغہ ہیں۔قریب رہنا‪ ،‬سیکھنا سمجھنا‪ ،‬تنقید کرنا‪ ،‬اپنی منزل کا تعین کرلینا اور پھر اس کے‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫لیے باہمت و جاندار جدوجہد کی داغ بیل ڈالنا۔ یہی جوانمردوں کا کام ہے۔وگرنہ کتنے ہی نواب و شہنشاہ‬
‫مغربیوں کے آگے بھس بھرے شیر ثابت ہوئے یا کوئی میدان ہی میں نہ اترا۔‬
‫ایسے مسائل سے خود ہی واقف ہوگئے تھے اور انھوں نے مغرب کے عملی و روحانی عالمہ اقبال‬
‫بازو پرکھ لیے تھے۔ انھوں نے اپنے آئیڈیل چنے۔ بڑے مسائل کے حل کے لیے چھوٹے آئیڈیل نہیں‬
‫رکھے کیونکہ مسائل بھی بڑے تھے۔ چھوٹے آئیڈیل تو کچے گھڑے ہوتے ہیں کہ بیچ دریا گھل جاتے‬
‫ہیں۔ آج کی سوہنیاں ایسے کئی آئیڈیل قربان کرواچکی ہیں۔ اقبال سمجھدار تھے۔ انھوں نے بڑے ہی ادبی‬
‫اسرار خودی میں مر ِد کامل کو پکارا تھا کیونکہ مرد کامل ان کا مقصود ہے ‪:‬۔‬
‫ِ‬ ‫پیرائے میں‬
‫ہنگامہ ایجاد شو‬
‫ٔ‬ ‫ب دوراں بیا ۔ رونق‬
‫سوار اشہ ِ‬
‫ِ‬ ‫اے‬
‫قانون اخوت ساز دہ‬
‫ِ‬ ‫شورش اقوام را خاموش کن ۔ خیز و‬
‫ِ‬
‫ایام صلح‬
‫باز در عالم بیار ِ‬
‫کیا یہ ممکن ہے کہ اقبال ایسا انسان مکمل مزاحمت کی جانب نہ بالئے ؟ کیا تعمیر سے قبل مکمل‬
‫تخریب کی ضرورت نہیں؟ یقینا ً ایسا ہی ہے ‪ ،‬مگر ساتھ میں ہمیں یہ بھی سوال اٹھانا ہوگا کہ کیا‬
‫ضروری ہے کہ مفکر شدید مزاحمت کی جانب لے جاکر معاشروں کو ٹکرا کر بکھیردے اور مکمل‬
‫تباہی کا جواز بھی فراہم کرے؟ کیا وہ لینن کی طرح عالمی جنگوں کی طرف لے جائے اور ماضی کی‬
‫تمام روایات کو بیک جنبش قلم ختم کرڈالے؟ کیا حکمائے امت اسی کام کے لیے ہوتے ہیں؟ ایک حکیم‬
‫االمت اشرف علی تھانوی بھی تھے۔ جنھوں نے قوم کی علمی تربیت کی اور جان جوکھوں میں ڈال کر‬
‫تمام عمر ہی بتا دی۔ طبیبوں کو علم ہو نہ ہو لیکن حکماء اور وہ بھی حکمائے قوم سمجھتے ہیں کہ ہاتھ‬
‫کے تیار کردہ گھوڑے ہی میدان میں کام دیتے ہیں۔ اور یہ گھوڑے دنوں یا مہینوں میں نہیں بلکہ نسلوں‬
‫کی جدوجہد سے تیار کیے جاتے ہیں۔ حکمائے امت تو کہیں بڑا خطاب ہے۔ اس لیے تھانوی صاحب نے‬
‫بھی جلدی نہیں مچائی۔ لڑا کر قربان نہیں کیا بلکہ اپنے کارکن کی تربیت کرکے اسے تیار کیا۔ اگرچہ‬
‫جنگیں ہوتی ہیں مگر ٹکرا دینے والے مفکر کے مقلد ین کے لیے واپسی کا شاید کوئی راستہ باقی نہیں‬
‫رہتا۔ اسی لیے اقبال اپنے معاشرے کی روایات کو مکمل طور پر سمجھ کر ماضی سے تعلق قائم کرنے‬
‫پر زور دیتے ہیں ۔ حال کا پابند اور افرنگ کا غالم نہیں بناتے۔ لیکن مقابالتی میدان بھی تجویز کرتے‬
‫ہیں‪ ،‬اس میں خود سے اترتے ہیں اور اس میدان میں سے باوقار جدوجہد کرکے حاصل حصول بھی‬
‫دکھاتے ہیں۔ اسی لیے وہ نوجوان نسل کو پیغام دیتے ہیں کہ مغربی آئین سے جان چھڑا ئیں۔ فرماتے ہیں‬
‫‪ :‬کہ‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫دستور قدیم‬
‫ِ‬ ‫باز اے آزا ِد‬
‫زنجیر سیم‬
‫ِ‬ ‫ت پا کن ہماں‬
‫زین ِ‬
‫سختی آئیں مشو‬
‫ِ‬ ‫شکوہ سنجِ‬
‫از حدو ِد مصطفی بیروں مرو‬
‫آئین قدیم سے آزاد سمجھتا ہے یا اس سے نکل بھاگنا چاہتا ہے پھر اسی‬
‫یعنی اے وہ کہ اپنے آپ کو اس ِ‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫ٰ‬ ‫زنجیر کا اسیر ہوجا۔ اس کی سختیوں کی شکایت نہ کراور حضرت محمد مصطفی‬
‫کی حدود سے باہر نہ نکل۔‬
‫دراصل اس حدود سے باہر نکلنے واال خود کو بے سبب مشکل میں ڈال لیتا ہے اور دشمن کا آسان شکار‬
‫بن جاتا ہے۔ وگرنہ اقبال اپنے نوجوان کو کھل کر کھیلنے اور برٹرینڈ رسل یا مارکس کی مانند مکمل‬
‫انکاری بن جانے کی تربیت دیتے۔ یہ عقل کی بات ہے کہ اپنی حقیقی اہلیت اور مقابلے کے میدان کی‬
‫وسعت میں خود کو محدود کرکے اپنے ہی دائرے میں جدوجہد کی جائے تاکہ محفوظ انداز میں آگے‬
‫پہلووں کو جانچ کر ضرب لگائی جائے تاکہ طاغوت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے‬
‫بڑھ کر حریف کے کمزور ٔ‬
‫اور مسلم معاشرہ بکھرنے سے بچ جائے۔‬
‫ق تحقیق ‪ ،‬اختراعات اور‬
‫ب یورپ کے محاسن بھی معلوم ہیں ۔ جن میں شوق وشغف ‪ ،‬ذو ِ‬
‫اقبال کو تہذی ِ‬
‫ق تسخیر شامل ہیں۔ یہ بھی حقیقیت ہے کہ مسلمانوں نے علم و حکمت کو جس منزل پہ چھوڑا‪ ،‬یورپ‬
‫ذو ِ‬
‫‪:‬نے اسے آگے بڑھایا۔ مگر حقیقیت یہ ہے کہ‬
‫اعجاز مسیحا داری‬
‫ِ‬ ‫عجب آں نیست کہ‬
‫بیمار تو بیمار تر است‬
‫ِ‬ ‫عجب این است کہ‬
‫کہ مغربی حکماء کے عالج سے مریض پہلے سے کہیں زیادہ بیمار ہوگیا ہے ۔ دراصل مغرب کا انسان‬
‫کھل کر کھیلتا رہا اور آج ایسی بیماریوں میں اسیر ہے کہ مریض کی جان تو چلی جاتی ہے لیکن‬
‫ت فرنگ کے‬
‫ب فرنگ اور حکم ِ‬
‫تندرستی نصیب نہیں ہوتی۔ ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ عالمہ اقبال تہذی ِ‬
‫کن خصائص سے غیر مطمئین ہیں اور کن معنوں میں اسے ناکام تہذیب کہتے ہیں۔اور اس کے م ِد مقابل‬
‫‪:‬اسالم کے کون سے محاسن بیان کرتے ہیں‬
‫رموز بے خودی میں اقبال نے فرنگی تہذیب کو رد کیا اور اپنی مثالی ملت کے تین اوصاف واضح کیے‬
‫ِ‬
‫‪:‬ہیں‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫۔ تاَدّب بآئین ٰالہیہ (خدا ئی قانون کی تعلیم کے مطابق تربیت)‪1‬‬
‫۔ اُسوہ محمدیہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا۔‪2‬‬
‫۔ ملت کی روایات کی حفاظت کرنا۔‪3‬‬
‫نظم فکر تیار کی ہے جس میں خودی کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ خودی کی‬
‫اقبال نے اس کے لیے ایک ِ‬
‫دو حیثیتیں ہیں۔ ایک انفرادی اور دوسری اجتماعی۔ یہ ہے بازیافت‪ ،‬یعنی ملت کے وجود کا اثبات و‬
‫استحکام ۔وجو ِد اجتماعی کے ان تین اُصولوں پر عمل کر کے یہ ملت خداکا منشا پورا کرے گی‪ ،‬دنیاکی‬
‫ِ‬
‫تسخیر کرکے زمین پر خداکی بادشاہت قائم کرے گی‪ ،‬عدل و انصاف کو نافذ کرے گی اور ظلم و تعدّی‬
‫کا ازالہ کرے گی اور ایک ایسی سلطنت قائم کرے گی جس میں خداکا دین رائج ہوگا۔ خدا کے دین پر‬
‫مبنی ریاست کا قیام ہی ایک منزل ہے۔ تمام جدید علوم کسی ایک منظم معاشرے کے وجود اور اس کی‬
‫تعمیر و ترقی کے لیے وسائل صرف کرتے ہیں۔ اقبال بھی اپنی آئیڈیل سرزمین کی تعمیر و ترقی کے‬
‫لیے کوشاں رہے۔ وہ کیسے ریاست کے خواب سے دور رہ سکتے تھے۔ انھوں نے اس کے لیے خاصی‬
‫طویل شاعری کے عالوہ فکری بنیادیں قائم کیں اور تب جاکر جدوجہد کے میدان میں اترے ۔ آخرکار‬
‫ایک ریاست تشکیل پانے کی صورت واضح ہوئی۔ کیا وہ تمام عمر دین سکھانے کے بعد اور غازی علم‬
‫الدین کا مقدمہ لڑ لینے سے فرصت پاکر کسی طور الدین بنیادیں مہیا کرسکتے تھے؟ عقل و خرد کا‬
‫راگ االپنے والے بے شعور سیاست باز کہیں نہیں پائے جاتے ۔ اگر پائے جاتے ہیں تو پاکستانی‬
‫ت حال کے مطابق مکمل دالئل‬
‫معاشرے میں کہ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہاں کسی کو حقیق ِ‬
‫کے ساتھ گفتگو کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔ ایسے میں پاکستان اپنی منزل کیسے پاسکتا ہے؟‬
‫اقبال نے مغرب کو جانچا پرکھا۔ کوئی بھی انھی اصولوں کو آج آزمائے اور حکم ِ‬
‫ت افرنگ کے ارتقا‬
‫ق تحقیق میں‬
‫اور اس کے نتائج کا جائزہ لے تو معلوم ہوگا کہ وہاں کا انسان گذشتہ پانچ صدیوں میں ذو ِ‬
‫کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود اپنی انفرادی و اجتماعی شخصیت کو یکجا نہیں کرسکا۔ “وہ جزویت‬
‫کا شکار اور انتشار کا مریض ہے”۔ شخصیات کسی ایک مقصد کے گردا گرد تعمیر پاتی ہیں۔ جمہوریت‬
‫کا اپنا کوئی ایک مقصد ہی متعین نہیں۔ اس حقیقت کا ادراک خود مغرب کے مفکرین کو شدت کے ساتھ‬
‫ہے۔ آج تک وہ اس کے لیے سرگرداں ہیں کہ جمہوریت کا کوئی ایک مقصد متعین کرپائیں ۔بہت سے‬
‫تحقیقی مقالہ نگار اس کا اظہار کرتے ہیں کہ جمہوریت خود ہی اپنا مقصد و مقصود ہے۔ خود جمہوریت‬
‫ہی وہ کافی و شافی نتیجہ یا آ ٔوٹ کم بھی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے کوشش کی جائے۔ بھال ایسے‬
‫کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی نظریہ خود ہی مقصد بھی ہو نتیجہ بھی ہو۔ اس بڑے سقم کو اقبال جسیے‬
‫تجربہ کار پرکھ سکتے تھے۔ اس لیے ایک مقصد کے گرد اور ایک محور سے منسلک کرکے اقبال‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫جیسے مفکرین نے مشرقی اقوام کے نوجوانوں کو حکمت سے سنبھاال دیا۔ اقبال نے فکر وعمل دونوں‬
‫جہات میں کام کیا۔ مگر ا پنے دور کے دوسرے انقالبی لینن کے برعکس عملی سیاست میں زیادہ‬
‫‪:‬سرگرمی نہیں دکھائی ۔ چنانچہ کہتے ہیں‬
‫یہ عقد ہاے سیاست تجھے مبارک ہوں‬
‫کہ فیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش‬
‫شاید سیاست بازی سے بیزار تھے۔ یا ان کے پاس کرنے کو بہت سے کام تھے۔ جن سے نتائج اور اقبال‬
‫دور رس نتائج حاصل ہوسکتے تھے۔ وہ جلد باز سیاست بازی اور روزمرہ کی بیکار سرگرمی میں‬
‫الجھنے سے پرہیز کرتے رہے اور بامقصد تعلیم‪ ،‬فکری آگہی‪ ،‬شعری ذوق کی آبیاری کے ساتھ ساتھ‬
‫افرا ِد کار کی تیاری میں مصروف رہے۔ ایسے لوگ سیاست کو برا ِہ راست متاثر نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ‬
‫عجب حادثہ ہوا کہ اس کے باوجود روسو اور والٹیر کی طرح اقبال نے سیاسی تحریکوں کو متاثر کیا ۔‬
‫کیا اس دور میں فکری رہنما موجود نہیں تھے؟ یقینا ً تھے۔ ابوالکالم جیسے لکھاری‪ ،‬پورا ندوۃ العلماء‬
‫اور دیوبند کے کثیر التعداد علماء و مدرسین۔ ان کے عالوہ ہر طرح اور ہر رخ کے لکھاری اور‬
‫محرکین۔ جوہر جیسے کامیاب لکھاری‪ ،‬سیاستدان اور تحریکات بپا کرنے والے بھی تھے۔ لیکن اقبال ہی‬
‫پاوں بچا کر رکھے۔ انھوں نے نوجوانوں‬
‫نے کیوں متاثر کیا۔ اس لیے کہ وہ میدان میں اترے لیکن ہاتھ ٔ‬
‫کو درست سمت کی جانب بڑھایا لیکن ساتھ میں محفوظ انداز بھی سکھا دیے۔ باقی لوگ نوجوانوں کو‬
‫ایک مخصوص پیرائے میں ڈھالنے کی لمبی کوشش میں مصروف رہے۔ انھوں نے عمومی پیغامات‬
‫بھی دیے۔ آسان تر زبان میں یہ پیغامات کافی ٔ‬
‫موثر تھے۔ قوم انھی پیغامات سے متاثر ہوئی۔ انھیں ساتھ‬
‫میں اقبال کے تیار کردہ قائدین بھی میسر آئے۔ نتیجہ واضح تھا۔ تحریک برپا ہوئی تو روکنے کی‬
‫صالحیت کمزور پڑگئی۔ انگریز اندر اور باہر دونوں جوانب سے مار کھاگئے۔ کانگریس راستے‬
‫ڈھونڈتی رہ گئی۔یہ نتائج سادہ نہ تھے۔دیوار پر لکھی تحریر کی مانند ایک روشن مستقبل موجود تھا۔‬

‫شاید اقبال ایشیا میں ایک اور عظیم الشان فکری انقالب کے راھنما ثابت ہوں ۔ اگرچہ پاکستان کی تخلیق‬
‫ت ثابتہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اقبال ہی کا پاکستان کل کالں ایک نئی نہج پر تیاری کرے تو نوجوان‬
‫تو حقیق ِ‬
‫نسل ملک و ملت کے پیغام کو آگے بڑھائے اور نئی بلندیوں تک جاپہنچے۔‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫اقبال کی بہت سی خصوصیات ہیں جنھیں نگاہ میں رکھنا ہوگا۔ اقبال یونی ورسلسٹ ہیں ۔۔۔۔ انسانی اُخوت‬
‫علم بردار ۔۔۔۔۔ مگر ان معنوں میں جن میں اسالم نے اس تصور کو پیش کیا ہے۔ وہ کسی مغربی‬
‫کے َ‬
‫چھاپ کے آفاقی نہیں۔اقبال نے مغربی مفکرین سے اثرات قبول کیے ۔ مثالً اقبال پر برگساں کے نظریات‬
‫جوش حیات جسمانی کے ساتھ وجدانی بھی ہے”۔‬
‫ِ‬ ‫کا اثر ہے مگر “برگساں جسمانیاتی ہے تو اقبال کا‬
‫اقبال اس کو ایمان کہتے ہیں ۔ اس سے قبل رومی بھی ایسے ہی خیاالت کا اظہار کرچکے تھے ۔‬
‫برگساں کی نسبت اقبال رومی سے کہیں زیادہ متاثر تھے ۔ انھوں نے تہذیب مغرب پر نطشے کی فکری‬
‫تنقید کا دم بھرا مگر نطشے نے جہاں کہا کہ خدا مرگیا ہے۔ وہاں اقبال کا خدازندہ و جاوید ہے ۔ نطشے‬
‫ب مغرب کا سختی سے محاکمہ‬
‫قوت کا داعی ہے اور نرم راہ اپنانے والے فلسفوں کا دشمن۔ اس نے تہذی ِ‬
‫کیا‪ :‬بزبان اقبال ‪“ :‬دیوانہ بہ کارگہ شیشہ گر رسید”۔ اسی لیے وہاں ہٹلر بروئے کار آیا اور تمام عالم کو‬
‫ہال کر گیا۔ لیکن ہمارا مفکراسالمیوں کی سی اصالح پسندی‪ ،‬ڈائیالگ اور تعمیر کا داعی و مدعی تھا۔یہ‬
‫فلسفی تعمیر و ترقی کا بھی اسی قدر التزام بھی کرتا تھا‪ ،‬جس قدر تنقید و محاکمہ کا اظہار کرتا رہا۔‬
‫وان مغرب ” کا‬
‫پیام مشرق گوئٹے کے “دی ِ‬
‫مفکر پاکستان نے گوئٹے کی مشرق پسندی کو تسلیم کیا ۔ ِ‬
‫‪:‬جواب ہے۔ اقبال پر فختے کا اثر بھی ہے ۔مگر انھوں نے افرنگ پر تنقید کی‬
‫اسالم کا مقصود فقط ملّ ِ‬
‫ت آدم‬ ‫ت افرنگ کا مقصود‬
‫ق ملل حکم ِ‬
‫تفری ِ‬
‫ت آدم؟‬
‫ت اقوام کہ جمعی ِ‬
‫جمعی ِ‬ ‫خاک جنیوا کو یہ پیغام‬
‫ِ‬ ‫م ّکے نے دیا‬
‫ب کلیم(‬
‫)ضر ِ‬
‫مفکر پاکستان کو مغرب میں صرف ابلیس نظر نہیں آتا۔ وہ نہ مغرب کو مکمل رد کرتے ہیں‬
‫ِ‬ ‫تاہم ہمارے‬
‫اور نہ اندھی تقلید کے قائل ہیں ۔ مغربیوں کی سامراجیت پر قلم چالتے ہیں مگر ساتھ میں علوم و فنون‬
‫کو مسلمانوں کا گم گشتہ مال سمجھتے ہیں۔ یہی طریق انھوں نے اشتراکیت سے بھی اختیار کیا ۔ اس‬
‫طریق کو تہذیبی مکالمے کے قائل لوگ ہی اختیار کرتے ہیں ۔ پھر اقبال ان تہذیبوں میں (باہم وجود اور)‬
‫کشمکش کے طالب بھی ہیں ۔ وہ تہذیبوں کو سمجھنے‪ ،‬تسلیم کرنے اور قبول کرنے کے قائل محسوس‬
‫ہوتے ہیں ۔ وہ اس کےلیے آدمیت کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔‬
‫‪:‬فرمایا‬
‫برتر از گردوں مقام آدم است اصل تہذیب احترام آدم است‬
‫ان کی طرح گوئٹے نے قومیت کے خطرناک نتائج کی سخت تنقیص کی تھی ۔ اس نے کہا “ہماری‬
‫مجالس اتنی فراخ ہوں کہ ان میں سعدی اور حافظ بھی بیٹھ سکیں”۔ اقبال نے کہا‪:‬نیشنلزم کا جو تجربہ‬
‫یورپ میں ہوا اس کا نتیجہ بے دینی اور المذہبی کے سوا کچھ نہیں نکال۔۔۔ اُنیسویں اور بیسویں صدی کو‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫مغربی فتوحات کا زمانہ اوراستعمار کا بھی بدترین دور کہاجاتا ہے ۔ عالمہ اقبال نے جاوید نامہ میں‬
‫اسے خواجہ اہ ِل فراق کا تاریک عہد قرار دیا ہے۔ جس تہذیب کو کسی دائرے میں محدود نہ کیا‬
‫جاسکے‪ ،‬اسے فطرت کی ٹھوکریں بارہا لگتی ہیں۔ بے طرح سے اس پر عذابات اترتے ہیں اور وہ‬
‫اپنوں اور غیروں کو حسابات و جوابات دیتے دیتے تباہ ہوجاتی ہے۔ نتائج واضح تھے۔ لیکن دوراندیش‬
‫ہی نتائج سے آگاہ ہوتے ہیں۔ کم کوش و پر غرور‪ ،‬انکاری اور خود سے خود سب کچھ کرنے‪ ،‬کر‬
‫گزرنے اور نسل در نسل کرتے چلے جانے کے خواہشمند کسی طور وجدان سے متصف نہیں ہوتے۔‬
‫اس لیے دنیا انھیں سمجھ کر انہیں انکی حدود میں رکھتی ہے اور ایسے لوگ سمجھدار نہیں عیار کہے‬
‫جاتے ہیں۔ لوگ ان سے پناہ مانگتے ہیں لیکن ساتھ نہیں دیتے۔‬
‫عیار و بے مدار و کالں کار و توبہ توست۔‬
‫ان حقائق سے آگاہی کے بعد وہ کسی درمیانی راہ اور بے فیض سرزمین یا نہ ختم ہونے والی سیاست‬
‫بازی کے قائل نہ تھے۔ جسے ساتھ نہیں چلنا تھا یا ساتھ نہیں چل سکتا تھا‪ ،‬جیسے کانگریس‪ ،‬تو انھوں‬
‫نے اس سے صاف دامن چھڑایا۔ ایک جانب ہوئے۔ انگریز کو سمجھ لینے کے بعد اپنے مرکز و محور‬
‫‪ :‬کو سمجھ لیا اور اس کے گرد تنظیم نو کی۔ یوں وہ انقالب کے قائل ہوئے‬
‫پرویزی افرنگ‬
‫ِ‬ ‫فریاد ز شیرینی و‬ ‫ویزی افرنگ‬
‫ِ‬ ‫فریاد ز افرنگ و د ٓ‬
‫ال‬
‫تعمیر جہاں خیز‬
‫ِ‬ ‫معمار حرم! باز بہ‬
‫ِ‬ ‫چنگیزی افرنگ‬
‫ِ‬ ‫عالم ہمہ ویرانہ ز‬
‫ب گراں خیز‬
‫ب گراں خیز از خوا ِ‬
‫ب گراں ‪ ،‬خوا ِ‬
‫ب گراں ‪ ،‬خوا ِ‬
‫از خوا ِ‬
‫‪:‬اقبال اس کے عالوہ مغرب کے تعلیمی فتنے سے بھی خبردار کرتے ہیں‬
‫اہرمن اندر جہاں ارزاں و یزداں دیریاب‬ ‫اے مسلماناں فغاں از فتنہ ہاے علم و فن‬
‫انقالب ۔ انقالب! اے انقالب‬
‫ت مغرب کو فتنہ قرار دیتے ہیں ۔ اقبال اور مستقبل کی فکری بساط‬
‫یہ واضح ہے کہ عالمہ اقبال‪ ،‬حکم ِ‬
‫کو سمجھنا ضروری ہے۔ اقبال نے مغرب کے سیاسی افکار بشمول جمہوریت‪ ،‬نیشنلزم اور مارکسیت ‪،‬‬
‫نظام فکر موجود نہیں ۔ اس لیے آج بھی اقبال‬
‫ِ‬ ‫تمام مباحث پر تنقید کی ۔ ان نظریات کے سوا آج کوئی نیا‬
‫کی فکر ی سحر انگیزی قائم ہے ۔ مغرب کسی تیسری جانب جا بھی نہیں سکتا۔ حاالنکہ کسی نے رسیاں‬
‫نہیں باندھیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج نوے برس کے بعد بھی دنیا میں کوئی تیسرا نظام النے میں‬
‫یورپ و امریکہ بھی ناکام ہے۔ وہ ہزاروں جامعات اور ان کے ماتحت یا ماعلو تحقیقاتی و تجرباتی‬
‫ادارے کسی نئی قسم کا سیاسی و معاشرتی نظام برپا کرنے میں ناکام رہے۔ بظاہر بے حدود‪ ،‬ماضی سے‬
‫مکمل طور پر انکاری اور مستقبل کی تالش میں واضح طور پر آزاد ہوجانے واال ایک بڑا معاشرہ کس‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫تقلید کا اسیر ہے؟ یقینا ً مغرب کسی ان دیکھی غالمی میں گرفتار ہے ۔ لیکن کوئی حکیم اسے اس بیماری‬
‫سے نجات دینے واال نہیں۔ دراصل علم ایک روشنی ہے جو کسی اندھے کو مل بھی جائے تو وہ اس‬
‫سے فائدہ اٹھانے سے عاری ہی رہتا ہے۔ عمل ایک مقدس جذبہ ہے۔ یہ ہر ایک اپنا بھی لے توبھی منزل‬
‫پر پہنچنے سے قبل جس صبر و ثبات اور بامقصدیت کی ضرورت ہوتی ہے‪ ،‬اس سے ایک گمراہ‪،‬‬
‫جذباتی اور بے طور معاشرہ کبھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ یہ عظیم ذمہ داری کسی حکیمانہ استاد کے‬
‫سکھانے سے معلوم پڑتی ہے جس کے قائل مغربی نہ ہوئے اور جس سے بیگانہ مشرقی بھی ہوئے‬
‫جاتے ہیں۔ کیا اقبال جیسے علم و عمل کے حسین مجموعے کو آج کے بے طور و گمراہ معاشرے کسی‬
‫طور مسترد کرسکتے ہیں؟۔ کیا ایسے سیکولر اور پھر پاکستان کے وہ سیکولر جنھوں نے فقط تراجم‬
‫کی دنیا سے قبر تک کا سفر کیا ہو‪ ،‬کوئی ایک درست نظریہ کسی کو سمجھا سکتے ہیں۔ جنھیں اپنے‬
‫معاشرے کی کسی ایک خوبی کا مکمل ادراک نہیں‪ ،‬دنیا بھر سے تمام اال بال کو پڑھ کر پاکستانیوں پر‬
‫تھوپ دینے کے سوا جن کا کوئی مطمحِ نظر ہی نہیں۔ جن کے روز و شب مغرب کی تقلید و تائید اور‬
‫انھی افکار کی آبیاری اور انھی کی دی ہوئی رقم پر صرف ہوتے ہیں‪ ،‬انھیں کسی درسگاہ سے ایسی‬
‫توفیق مل ہی نہ پائی۔ ہمارے سیکولر کو کیا ملتی ‪ ،‬مغرب کے کسی استا ِد فن کو نہ ملی۔ کسی سیکولر‬
‫مفکر کو نہ ملی۔ کسی نوبل پرائز یافتہ عظیم فلسفی کو عطا نہ ہوئی۔ دراصل ڈیٹا سے تھیوری اور‬
‫تھیوری سے ڈیٹا تک کا سفر کرنے والے خدا کی زمین میں فساد پھیالنے کے قابل ہی نہیں رہے۔بند‬
‫ڈبوں میں بند ذہنوں کیساتھ اپنی اصطالحات کی قبروں میں جاسوئیں گے۔ روز حشر وہی اصطالحات‬
‫لیے اٹھیں گے۔بے مقصد و بے طور نظام کے موجد و مدرس و عاملین و ناظرین اپنی بے ربط گفتگو‬
‫سے وہی راگ االپتے رہیں گے جنھیں سن سن کر ان کے اپنے شاگرد بیزار ہوجاتے ہیں۔ وہ بھی اپنی‬
‫ویسی ہی درسگاہیں بنا بناکر وقت گزاری کرتے ہیں۔ نئے نظام اور نئی فکر‪ ،‬نئے ممالک‪ ،‬نئی دھرتیاں‬
‫لیےاقوام متحدہ کے تنگ جامے سے نکلنے کی کوشش کرنے والے پیدا‬
‫ِ‬ ‫اور عظیم جدوجہد کرنے کے‬
‫ہی نہیں ہوئے۔بوسیدہ کتابوں کی گرہیں کھول کر انھی میں غرق رہنے والے اور پھر نئے الفاظ میں نئے‬
‫لگاو نہ ہو‪،‬‬
‫پیرایوں میں انھی کو بیان کرنے والے‪ ،‬جنھیں خدائی احکامات اور فطری احساسات سے ٔ‬
‫کسی صورت اپنی منزل کی جانب گامزن نہیں ہوسکتے۔‬
‫اقبال کو شکوہ مغرب سے ہے لیکن مسلمانوں کو بھی وہ الزام دیتے ہیں۔‬
‫اشک او صہبائے او‬
‫ِ‬ ‫سرد تر از‬ ‫ب عجم اعضائے او‬
‫شل ز برفا ِ‬
‫باز ایں بیت الحرم بتخانہ شد‬ ‫سر نبی بیگانہ شد‬
‫مسلم از ِ‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫عجم کی برف سے مسلمان کے اعضاء برف بن گئے ہیں۔ (غیرضروری اشک بازی کی بناء پر) اس کی‬
‫شراب زیادہ سرد ہوگئی ہے۔ مسلمان نبی ﷺ کے رازوں سے بیگانہ ہوگیا ہے۔ اس نے حرم کو بھی بت‬
‫خانے کی طرح کا بنا کر رکھ دیا ہے۔ عجم واقعتا ً برف بن چکا ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہی نہیں رہا جہاں سے‬
‫آزادی کے پروانے نمودار ہوئے تھے۔ یہاں تو تقلی ِد محض کے برف زاروں نے مستقل بسیرا کرلیا ہے۔‬
‫ان دیکھے برف زار اب مسلمانوں کے لیے آئیڈیل بنتے چلے جارہے ہیں۔‬
‫اقبال کے لیے تو مسلمان کم از کم جرأ ِ‬
‫ت عمل رکھنے والے لوگ ہیں۔ پیغامبرانہ ہدایت سے سرفراز‬
‫ہیں۔ اہ ِل حکمت و دانش ہیں۔ جب کچھ غیر ضروری پاتے ہیں تو بے الگ تبصرہ کرتے اور درست‬
‫راستہ اپناتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کو اپنی منزل تالشنے وقت ضرور صرف ہوتا ہے۔ لیکن منزل تک‬
‫پہنچ جانے میں کامیاب رہتے ہیں اور یوں معاشرے مطمئن و قانع ہوتے ہیں۔ سیاست میں تدبر اور صبر‬
‫و برداشت بھی اسی بناء پر نظر آتی ہے۔‬
‫یہی وجہ تھی کہ اقبال کی نظر میں دین اور سیاست ایک ہی وحدت کے اجزائے الینفک ہیں۔ چنانچہ‬
‫راز جدید میں ہے‬
‫‪:‬گلشن ِ‬
‫گلشن مغرب گرفت‬
‫ِ‬ ‫ایں شجر در‬ ‫تا سیاست مسن ِد مذہب گرفت‬
‫شعلہ شمعِ کلیسائی فسرد‬ ‫دین مسیحائی فسرد‬
‫!قصہ ِ‬
‫‪:‬جمہوریت کی حقیقت پر بھی اقبال کی رائے موجود ہے‬
‫جال ِل پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو‬
‫جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‬
‫غالم پختہ کارے شو‬
‫ِ‬ ‫گریز از طرز جمہوری‬
‫فکر انسانے نمی آید‬
‫مغز دو صد خر ِ‬
‫کہ از ِ‬
‫اقبال ہی پر کیا موقوف‪ ،‬روسو کو بھی جمہوریت کے اصل نقائص کا پورا پورا احساس تھا کہتا ہے کہ‬
‫” ایسی طرز حکومت تو فرشتوں کی دُنیا کے لیے مناسب معلوم ہوتی ہے ‪،‬ہم انسان تو اس کے قابل نظر‬
‫راز جدید میں اقبال نے انھی نکات کی جانب اشارہ کیا ہے‬
‫گلشن ِ‬
‫ِ‬ ‫‪ :‬نہیں آتے” ۔‬
‫گردن دیوے کشادست‬
‫ِ‬ ‫رسن از‬ ‫فرنگ آئین جمہوری نہادست‬
‫۔ کہ جمہور است تیغِ بے نیامے‬ ‫ز من دہ اہ ِل مغرب را پیامے‬
‫یہی تیغِ بے نیام اب اپنے جامے سے باہر آکر تمام دنیا کےلے ایک خطرہ بن چکی ہے۔ اسے اس کے‬
‫جامے میں واپس دھکیلنے سے قبل نہ معلوم کیا کچھ پاپڑ بیلنا ہوں۔ وہ جمہوریت جس کے بانی مبانی‬
‫امن پسندی کے لیے خود کو ہی ایوارڈ دیتے ہوئے نہیں تھکتے ‪ ،‬انھیں مارشل جی کے الفاظ میں دنیا‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫بھر میں جمہوریت کی ترویج کے لیےجنگ کو اپنا لینا چاہیے۔ حیرت ہے کہ جنگ جمہوریت کا متضاد‬
‫ہے۔ جنگ اور وہ بھی کسی کی سرزمین پر جنگ کرنا ایک بے فائدہ اور غیر ضروری کھیل ہے۔ جنگ‬
‫بربریت کی نشانی ہے۔ بربریت کو جمہوریت کا حقیقی متضاد بتایا جاتا ہے لیکن پھر بھی جمہوری‬
‫مفکرین دوسرے ممالک کے لیے جنگ ہی کو عالج بتالتے ہوئے اپنی ہی بنیاد سے اک انکار کرڈالتے‬
‫ہیں۔ اپنی ہی بنیاد پر کلہاڑی چال دیتے ہیں۔ یہ سانحہ کسی کے ضمیر کو مشکل میں نہیں ڈالتا۔ معلوم‬
‫نہیں کیوں؟؟ انسان خود سے بیگانہ ہوکر الفاظ کے گورکھ دھندے میں پھنس چکے ہیں۔ اجتماعی‬
‫فیصلوں کو ہی سب کچھ قرار دینے کے بعد کسی کو قدم ہٹانے کی سوجھ بھی نہیں سکتی۔ جمہوریت کا‬
‫یہ منطقی اور سیدھا سادہ سا نتیجہ ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس سے انکار کرنے کے لیے کسی کو جرأ ِ‬
‫ت‬
‫رندانہ نصیب بھی نہیں ہوسکتی۔ بے پناہ طاقت ‪ ،‬لوگوں کے ہجوم کی باگیں تھام کر‪ ،‬خود ستائشی کے‬
‫عظیم ترین آسمان پر ‪ ،‬بڑی مضبوط بظاہر غیر مرئی بنیادیں کھود لینے کے بعد اور دنیاوی قوانین کو‬
‫حتمی شکل دے کر‪ ،‬اپنے حق میں تحریر کروالینے کے بعد ‪ ،‬عظیم ترین جواز کی کاٹھی پر خود کو‬
‫ایستادہ کرلینے کے بعد کوئی مڑ کر نہیں دیکھ سکتا۔ جب اقبال نے نوائے قیصری کا مقدمہ درج کیا تھا‪،‬‬
‫تو کیا کچھ غلط کیا تھا۔یہ آج بھی درست ہے لیکن کوئی ایسی عدالت موجود ہی نہیں جہاں اس کی‬
‫کارروائی کاآغاز کیا جاسکے۔اگر عدل و انصاف کی تہ میں کوئی حقیقی اصول کارفرما ہیں تو آج کے‬
‫عادالن عالم کشمیر کے مسئلے پر ویٹو ممالک کے کھلے احتساب کے لیے چند الفاظ ہی کہ کردکھادیں۔‬
‫ِ‬
‫‪References:‬‬
‫‪AIOU BOOK 5613‬‬
‫‪ANS 04‬‬
‫یعنی فن مصوری دراصل خاموش شاعری‪ ،‬اور شاعری ایک بولتی ہوئی مصوری ہے۔ شاعری دراصل‬
‫ایک خداداد صالحیت ہے۔ جس کی مدد سے شاعر اپنے تصورات کو ایک دلکش انداز میں پیش کرتا‬
‫ہے۔ شاعری ایک رویے کا نام ہے۔ ہر شعر کہنے واال شائد شاعر نہ ہو اور بہت سے ایسے حساس اور‬
‫دکھی انسانیت کا دل میں غم رکھنے والے لوگ شعر کہے بغیر بھی دراصل شاعر ہوتے ہیں۔ شاعر کی‬
‫خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ مختصر الفاظ میں بہت بڑی بات کہہ دیتا ہے۔ مثالً‬
‫‪:‬عالمہ اقبال کا یہ شعر مالحظہ فرمائیں‬
‫کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے‬
‫مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہے آفاق‬
‫عالمہ اقبال پچھلی صدی کے نہیں بلکہ انسانی تاریخ کے ایک بہت بڑے مفکر اور شاعر تھے۔ اُن کی‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫عظمت کا اصل راز اس بات میں تھا کہ وہ عاشق رسول ص تھے۔ اُن کے کالم کی اصلی بنیاد قرآن‬
‫کریم کی ہدایات اور نبی کریم ص کے فرمودات تھے۔‬
‫قول اور فعل کے تضادات کو اسالمی تعلیمات کی روشنی میں ختم کرنے کے لیے عالمہ اقبال فرماتے‬
‫‪:‬ہیں‬
‫خرد نے کہہ بھی دیا ال الہ تو کیا حاصل‬
‫دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں‬

‫عالمہ اقبال ‪ 9‬نومبر ‪7711‬ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج الہور‬
‫کے عالوہ‪ ،‬انگلینڈ اور جرمنی کے مختلف اداروں میں بھی تعلیم حاصل کی۔ اُن کو اُردو‪ ،‬فارسی‪ ،‬عربی‬
‫اور انگلش زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اُن کی فارسی شاعری‪ ،‬اُردو شاعری سے بھی زیادہ گہری‬
‫اور پُر اثر ہے۔ کئی لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جس نے عالمہ اقبال کی فارسی شاعری کو نہیں‬
‫پڑھا یا سمجھا وہ عالمہ اقبال کی عظمت سے مکمل آشنا نہیں۔‬

‫عالمہ اقبال صحیح معنوں میں اسالمی نظام کے حامی تھے‪ ،‬اور اُن کے خیال میں مذہب کے بغیر‬
‫سلطنت کا تصور مکمل نہیں۔‪7991‬ء میں انہوں نے کہا تھا کہ انگریز قوم چرچ کو ریاست سے الگ کر‬
‫کے غلطی کر رہی ہے۔ پھر ‪7997‬ء میں انہوں نے فرمایا کہ اگر مغرب بیسویں صدی کی ابتداء میں‬
‫ایسا نہ کرتا تو شائد پہل جنگ عظیم جس میں الکھوں انسانی جانیں تلف ہوئیں‪ ،‬شائد نہ لڑی جاتی‪،‬‬
‫چونکہ مذہب کو ریاست سے الگ کر کے مغرب نے اخالقیات کو خدا حافظ کہہ دیا‪ ،‬اس لیے اپنے‬
‫معاشی مفادات اور توسیع پسندانہ پالیسی کو اپناتے ہوئے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں کئی ملین‬
‫یہودیوں سمیت الکھوں بے گناہ لوگوں کو تہ تیغ کر دیا۔‬

‫‪:‬عالمہ اقبال نے جوان نسل کے حوصلے بلند کرنے کے لیے فرمایا‬


‫تو راہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول‬
‫ٰ‬
‫لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول‬
‫پھر انہوں نے مسلمانوں کو اپنی محنت سے اپنا جہاں پیدا کرنے کی تلقین فرمائی اور کہا کہ محنت اور‬
‫دل لگی سے دنیا کی ہر چیز کو حاصل کی جا سکتا ہے۔ جس کے لیے ہم اپنی دنیا کو اپنے ایمان‪،‬‬
‫اعتقاد‪ ،‬تصورات اور اعمال سے خود پیدا کرتے ہیں۔‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫‪:‬عالمہ اقبال فرماتے ہیں‬
‫وہی جہاں ہے ترا جسے تو کرے پیدا‬
‫یہ سنگ دخشت نہیں جو تیری نگاہ میں ہیں‬
‫پھر عالمہ اقبال نے انکساری کا درس بھی دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ زندگی میں شاہین یا عقاب تو‬
‫‪:‬ضرور بنیں‪ ،‬لیکن ہاتھوں سے افالک کا دامن بالکل جدا نہ ہونے دیں۔ عالمہ اقبال کہتے ہیں‬
‫صحن گلستان میں قدم رکھ‬
‫ِ‬ ‫مانند سحر‬
‫آئے تہ پا گوہر شبنم تو نہ ٹوٹے‬
‫ہو کوہ دبیایاں سے ہم آغوش و لیکن‬
‫ہاتھوں سے ترے دامن افالک نہ چھوٹے‬
‫عالمہ اقبال نے بار بار یہ کہا کہ یہ زندگی اور موجودہ جہاں دائمی نہیں۔ اس لیے مومن کو اپنی دائمی‬
‫زندگی کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ چونکہ یہ زندگی تو ایک پل میں پانی کے بلبلے کی طرح فورا ً ختم‬
‫‪:‬ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمہ اقبال فرماتے ہیں کہ‬
‫خرد مندوں سے کیا پوچھوں کی میری ابتداء کیا ہے‬
‫کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہاء کیا ہے‬

‫عالمہ اقبال فرماتے تھے کہ انسان کی عظمت کا راز امارت یا توانگری میں پنہاں نہیں اور نہ ہی انسان‬
‫کی افضلیت کے معیار کا اصلی پیمانہ اُس کے بڑے عہدے‪ ،‬عالی شان محل‪ ،‬بے پناہ جائیدادیں یا قیمتی‬
‫پرائیویٹ جہاز اور کاریں ہیں۔ اصل بات تو فقیری اور قلندری ہے‪ ،‬جو روحانیت کا درس دیتی ہے اور‬
‫تقوی اور کردار کی بلندی سے حاصل ہوتا ہے۔ عالمہ فرماتے ہیں‬
‫ٰ‬ ‫‪:‬یہ رتبہ‬
‫میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے‬
‫خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر‬
‫تعالی کے حقوق ادا کرنا تو ہر ایک انسان کا فرض ہے۔ لیکن غفوروالرحیم کا یہ فرمان بھی ہے کہ‬
‫ٰ‬ ‫اللہ‬
‫’’بندوں کے حقوق اللہ کے حقوق سے بھی زیادہ اہم ہیں‘‘ اور اسی چیز کو عالمہ اقبال نے بڑی‬
‫‪:‬خوبصورتی سے ان الفاظ میں ادا کیا ہے‬
‫خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں‪ ،‬بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے‬
‫میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو‪ ،‬خدا کے بندوں سے پیار ہو گا‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫آج کے دور میں پاکستان جس بدترین لعنت کا شکار ہے وہ رشوت خوری کی قابل نفرت اور مہلک‬
‫مرض ہے۔ کہیں بھی کوئی کام رشوت کے بغیر کروانا تقریبا ً ناممکن نظر آتا ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ‬
‫یہ لعنت ایک پٹواری‪ ،‬پولیس کے سپاہی اور کسٹم کے سٹاف ممبر سے لے کر پاکستان کے سب سے‬
‫بڑے عہدوں تک کینسر کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ رزق حالل ہی انسان کی‬
‫دائمی زندگی میں اُس کی نجات کا باعث بنے گا۔ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے عالمہ‬
‫اقبال نے اپنے اس شعر میں کوزے کے اندر سمندر بند کر دیا ہے۔‬
‫‪:‬عالمہ اقبال فرماتے ہیں‬
‫اے طائر الہوتی اُس رزق سے موت اچھی‬
‫جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‬

‫بدقسمتی یہ ہے کہ اس دنیا کے اندر مال حرام کھانے والے‪ ،‬دوسرے کو دھوکہ دینے والے اور‬
‫سرکاری خزانے کو لوٹنے والے‪ ،‬یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہر لحاظ سے کامیاب حکمرانی کر رہے ہیں۔ یہ‬
‫نہ جانتے ہوئے کہ جس کو وہ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں‪ ،‬اللہ کی نگاہ میں وہ اُن کا نہایت ناپسندیدہ فعل‬
‫‪:‬بھی ہو سکتا ہے۔ ایک فرانسیسی دانشور نے کہا تھا‬
‫"‪"You will have to wait until the evening to see how splendid the day has been‬‬
‫‪:‬اور اسی چیز کو عالمہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں یوں ادا کیا ہے‬
‫ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہے بہاراں‬
‫اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا‬

‫عالمہ اقبال یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’’ہماری عارضی زندگی اور موجودہ دنیا دکھ اور غم سے عبارت‬
‫ہے اور اس زندگی میں اللہ کے پاکیزہ‪ ،‬بااُصول اور باکردار بندے اپنی صاف گوئی‪ ،‬نیک نیتی اور حق‬
‫پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اُٹھاتے ہیں‪ ،‬اُن کو اللہ ٰ‬
‫تعالی دائمی زندگی میں بہت زیادہ اپنے کرم اور‬
‫‪:‬رحم سے نوازتے ہیں۔ اسی لیے عالمہ اقبال نے انسان کے دل کو آئینے سے تشبیح دیتے ہوئے فرمایا‬
‫تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے‪ ،‬تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ‬
‫کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگا ِہ آئینہ ساز میں‬

‫‪:‬یا پھر ٰ‬
‫اعلی کردار اور ایمان کی متاع کے حوالے سے وہ فرماتے ہیں‬
‫)‪ALLAMA IQBAL (5613‬‬
‫‪END TERM ASSESSMENT 2019‬‬
‫بس یہی ہے ساقی متاع فقیر‬
‫اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر‬
‫ہم کئی دفعہ سوچتے ہیں کہ جن ممالک کے پاس تیل اور گیس کے کنویں نہیں یا جن افراد کے پاس زر‬
‫اور دولت نہیں۔ وہ زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔ عالمہ اقبال فرماتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے۔ اُنہوں نے‬
‫‪:‬فرمایا‬
‫سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے‬
‫زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں‬
‫گر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا‬
‫قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں‬

‫عالمہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح‪ ،‬عالمہ اقبال کو‬
‫اپنے لیے مشعل راہ مانتے تھے۔ اُنہوں نے عالمہ کے خواب کو تعبیر میں بدل دیا۔ ابھی ہمیں اپنے‬
‫پاکستان کی حفاظت کرنی ہے‪ ،‬جو ہم انشاء اللہ ضرور کریں گے‪ ،‬لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ ہمیں‬
‫عالمہ اقبال کے کالم کو نہ صرف سمجھنا ہو گا بلکہ اُن کے افکار کو عملی جامہ پہنانا ہو گا۔ عالمہ‬
‫اقبال بغیر کسی شک کے ایک بہت بڑے مدبر‪ ،‬عظیم شاعر‪ ،‬بہترین سیاستدان‪ ،‬دور رس سوچ والےاور‬
‫سب سے بڑھ کے ایک ٰ‬
‫اعلی ترین انسان تھے۔‬

‫‪References:‬‬
‫‪AIOU BOOK 5613‬‬

You might also like