Professional Documents
Culture Documents
5613 Ea
5613 Ea
ANS 01
اقبل نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونکی ہے۔وہ پیغمبری اور صحت مند قدرو کی ترجمان
ہیں۔اقبال کی شاعری کا آغاز روایتی انداز سے ہوا ابتدا میں انہیں داغ کی شاگردگی کے زیراثر
مصنوعی حسن و عشق کی گلیوں کی خاک بھی چھانی پڑی مگر بہت جلد اس آزاد طائر کا دم حسن و
عشق کی ان تاریک گلیوں میں گھٹنے لگا اور انہوں نے روایتی و رومانی شاعری کو خیر آباد کہہ
دیا۔اقبال کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہال دور ابتدا سے ٥٠٩١ء تک کا ہے
ہمالہ” اس دور کی پہلی نظم ہے جو ٥٩٥ء میں مخزن الہور کے پہلے شمارے میں ‘کوہستان ہمالیہ’ "
کے عنوان سے شائع ہوئی۔اس دور کی فطری ،رومانی اور وطنی نظمیں اور غزلیں "بانگ درا” میں
شامل ہیں۔”بانگ درا” اقبال کا پہال شعری مجموعہ ہے جو ٥٠٩١ء میں شائع ہوا۔اس دور کی اہم نظموں
میں گل رنگین ،ابر کوہسار ،آفتاب صبح ،چاند ،جگنو،شمع،ماہ نو،انسان،بزم قد رت،ایک آرزو،موج
دریا،ابر،کنارہ،ترانہ ہندی اور نیاشوالہ وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جو انسان کو فطرت اور وطنیت کا پیغام
دیتی ہیں۔اقبال کی ابتدائی دور کی شاعری ایک ایسے مسافر کا سفر ہے جو منزل اور سمت منزل سے
بے خبر ہے۔
اقبال کی شاعری کا دوسرا دور قیام یورپ کا ہے
ء سے ٥٠٩١ء تک اقبال کا سفر یورپ ان کی شاعرانہ صالحیتوں کو نئی سمت و نئی وسعت ٥٠٩١
دینے میں بڑا مفید ثابت ہوا۔ان کے زاویہ نگاہ اور سوچنے کے انداز میں تبدیلی رونما ہوئی۔یورپ کی
خاک کے ذرے ذرے میں انہیں ایک دھڑکتا ہوا دل نظر آیا جو حرارت ،تڑپ اور شدت سے لبریز
تھا۔دوسری طرف ایشیا میں انہیں ہر چیز محو خواب نظر آئی۔یہاں دل کا دھڑکنا تو کیا سانس تک کی
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
آواز محسوس نہیں ہوتی۔ان حاالت سے متاثر ہوکر اقبال وطن پرستی کے محدود دائرے سے باہر نکلے
اور آفاقی مسائل کی طرف متوجہ ہوئے۔اس عہد میں لکھی گئ نظمیں”طلباء علی گڑھ کالج کے نام”
"عبدالقادر کے نام” اور "محبت” ان کے خیاالت و تصورات کی تبدیلی کو ظاہر کرتی ہیں۔اقبال علی
گڑھ طلبہ کو عشق وعمل کا پیغام یوں دیتے ہیں۔
عالمہ اقبال کی شاعری کا تیسرا دور ٥٠٩١ء کے بعد شروع ہوتا ہے
اس دور کو انکی شاعری کا عہد زرین کہا جاسکتا ہے۔اس دور کی شاعری میں انہوں نے بتایا ہے کہ
قوم کے زوال اور تمام خرابیوں کی جڑ ان کی بے عملی اور حقیقت سے بے خبری ہے لہذا انہوں نے
قوم کو ذہنی غالمی سے نجات دالنے کے لیے فلسفہ خودی کو پیش کیا۔اقبال نے فلسفہ خودی کے ساتھ
ایک منفرد تصور عشق،جہد عمل،فکر ،حیات اور مومن کی وضاحت کی ہے۔وہ قوم کو خواب غفلت
سے یوں بیدار کرتے ہیں۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
زندگی سے بھرپور خیاالت و تصورات کا اندازہ "بال جبریل” اور” ضرب کلیم” میں شامل اقبال کی
شاہکار نظموں ذوق و شوق،حضر راہ،شکوہ،جواب شکوہ،ساقی نامہ،مسجد قرطبہ،ابلیس کی مجلس
شوری اور لینن کے حضورمیں وغیرہ کے مطالعے سے لگایاجاسکتاہے۔وہ اس عہد میں اتحاد و ملت
ٰ
کی دعوت کے عالوہ مسلمانوں کو اسالمی طرز اختیار کرنے،قرآن پر عامل ہونے اور رسول پاکﷺ
سے والہانہ عشق و استوار کرنے کا پیغام دیتے ہیں۔
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اقبال کی شاعری میں جدید و قدیم تصورات،تغزل و تصوف کا امتزاج،فلسفیانہ اور مفکرانہ نظریات
خوبصورت اسلوب میں ملتے ہیں۔بیشتر اشعار میں دریا کو کوزے میں بند کر دیتے ہیں جس سے ان کی
فکری بلندی اور تخیل پروازی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
غرض کہ اقبال کے کالم میں فلسفے کے ساتھ ساتھ فن شاعری کی ساری خوبیاں پائی جاتی ہیں۔نادر
تشبیہات و استعارات،رمزوکنایہ،موسیقی و ترنم،منظرکشی و پیکر تراشی اور فصاحت و بالغت میں
انہوں نے خون جگر لگا کر کمال فن کا ثبوت دیا ہے۔
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
References:
AIOU BOOK 5613
ANS 02
اقبال کے کالم میں عشق بہت اہمیت کا حامل تصور ہے۔اقبال نے عشق کو وسیع معنوں میں استعمال کیا
اعلی
ٰ ہے۔ ان کے نزدیک یہ وہ پاکیزہ اور طاقتور جذبہ ہے جو انسان کو عظمت عطا کرتا ہے اور اسے
مقاصد کے حصول کی طرف مائل کرتا ہے۔ ان کے نزدیک عشق گرمی حیات کا موجب ہے اور اس
سے کائنات میں رونق ہے۔ یہ ایک عالمگیر اور بیکراں جذبہ ہے۔
اسلم انصاری لکھتے ہیں:
’’خودی کے تصور کے بعد اقبال کی شاعری کا سب سے اہم تصور عشق ہے جس کی بے تابی و
اضطراب ،سوزوگداز اور خالقی انسان کو اپنی ذات کی وسعتوں اور زندگی کے برتر مقاصد سے آشنا
کرتی ہے۔‘‘
اقبال کے نزدیک ہست و بود کی علت غائی عشق ہے۔ اسی سے نوائے زندگی میں زیرو بم ہے اور مٹی
کی تصویروں میں اسی سے سوز دمبدم نظر آتا ہے۔
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بدم
اقبال کے لیے کائنات کی پیہم خالقانہ آشکارائی عشق کی بدولت ہے۔ یہ ایک ایسا داعیہ روح ہے جس
کی بدولت کائنات ہر لخطہ ارتقا پذیر ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق ایک ایسی قوت محرکہ ( Driving
)forceکی حیثیت رکھتا ہے جو انسان کو منزل کے حصول کے لیے گامزن کرتا ہے اور اسے مقاصد
آفرینی پر اکساتا ہے۔ یہ قوت محرکہ کاروان وجود کو ہر لخطہ نئی آن و شان سے ترقی کرنے کی لذت
سے آشنا کرتی ہے۔ عشق انسان میں یہ یقین پیدا کرتا ہے کہ اس عالم زمان و مکاں سے ماورا بھی کئی
جہاں ہیں۔ اقبال نے عشق کو عین وجود قرار دیا ہے۔اقبال کے خیال میں عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو
تمام کائنات میں کارفرما ہے۔ ان کے خیال میں محبت ہی کی بدولت کائنات میں زندگی کا ظہور عمل
میں آیا۔
تصور
ِ بانگِ درا کی ایک نظم ’’محبت‘‘ میں اقبال نے اسی خیال کو پیش کیا ہے۔ اس نظم میں موجود
عشق کے بارے میں ڈاکٹر عبدالمغنی یوں رقمطراز ہیں۔
’’یہ ُحسن و عشق دونوں کا آفاقی تصور ہے جس میں نہ زوال کا سوال ہے نہ فراق و وصال کی کش
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
مکش کا ،اس کا وصال بھی ایک فراق ہے اور فراق ایک وصال۔ اس تصور پر مبنی نہ تو ُحسن کو
زوال ہے نہ عشق کو ،نہ تو یہ ُحسن محدود ہے نہ عشق‘‘
اقبال کے خیال میں کائنات کے ذرے ذرے میں عشق کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کا اثر ہر شے
سے ہویدا ہے۔ اقبال نے عشق کو حیات عالم کا آئین کہہ کر اس کی اہمیت واضح کی ہے:
عشق آئین حیات عالم است
امتزاج سالمات عالم است
اقبال کے خیال میں جب تک عشق نہ تھا اس گلستاں (دنیا) کا گل اللہ تمنا نہ ررکھتا تھا۔ یہاں کی نرگس
طناز چشم نظارہ سے محروم تھی۔ یہ جہاں مے کشوں کی ہاوہو سے خالی تھا۔ مینا میں شراب تو تھی
مگر کوئی پینے واال نہ تھا۔ برق سینا کو شوق کی بے زبانی کا شکوہ تھا کیونکہ وادی ایمن میں کوئی
ارنیکہنے واال نہ تھا۔ عشق کی بدولت ہی ہست و بود کے تمام ہنگامے ہیں ورنہ کائنات کی اس بزم
زبور عجم کی ایک غزل میں اقبال نے اسی خیال کو نہایت
ِ خموشاں میں کوئی شور و غوغا نہ تھا۔
دلکش پیرایے میں بیان کیا ہے۔
عشق از فریاد ما ہنگامہ ہا تعمیر کرد
ورنہ ایں بزم خموشاں ہیچ غوغاے نداشت
اقبال کے نزدیک عشق سوزومستی اور تڑپ کا نام ہے۔ اسی جذبے کی وجہ سے انسان کا ملیت حاصل
کرتا ہے۔ بقول ڈاکٹر وزیر آغا ’’:ان (اقبال )کے نزدیک عشق سوز و تب و تاب جاودانہ کے سوا کچھ
اور نہیں۔ نیز عشق کا یہ سوز اور تڑپ’’مرد مومن‘‘ ہی میں اپنی انتہا کو پہنچتی ہے گویا مر ِد مومن
ہی کائنات کی تڑپ کا نمائندہ ہے ‘‘۔
اقبال کے خیال میں جذبہ عشق مادیت سے بے نیاز ہے۔ یہ فقیری اور شہنشاہی میں امتیاز روا نہیں
رکھتا۔ یہ میدان کار زار میں کبھی زرہ پوش آتا ہے اور کبھی سازو سامان کے بغیر بھی معرکہ حق و
باطل جاری رکھتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں عشق مجازی سے زیادہ عشق حقیقی کو موضوع بنایا گیا
ہے۔ ان کے خیال میں عشق کے بہت سے روپ ہیں ۔ عشق ان کے نزدیک دم جبرئیل بھی ہے اور دل
مصطفی بھی۔ یہ خدا کا رسول بھی ہے اور خدا کا کالم بھی۔یہ صہبائے خام بھی ہے اور کاس الکرام
ٰ
بھی۔ یہ فقیہہ حرم بھی ہے اور امیر جنود بھی۔ یہ کسی ایک مقام پر قناعت نہیں کرتا ،اس کے ہزاروں
مقامات ہیں۔
مصطفی
ٰ عشق دم جبرئیل ،عشق دل
عشق خدا کا رسول ،عشق خدا کا کالم
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام ،عشق ہے کاس الکرام
عشق فقیہہ حرم ،عشق امیر جنود
عشق ہے ابن السبیل ،اس کے ہزاروں مقام
یہاں دراصل اقبال نے جذبہ عشق کی کونیاتی ( ،)Cosmologicalوجودیاتی ( )Ontologicalاور
غایتی ( )Teleologicalمعنویت کو اجاگر کیا ۔ ان کے نزدیک عشق کا مآخذ ع منبع انائے المحدود
( )Infinite Egoہے ۔ ہیگل نے جدلیاتی عمل کو سراسر تعقالتی بتایا ہے جب کہ اقبال کے نزدیک یہ
اعجاز عشق ہے۔ خودی جو کہ اقبال کے فلسفے میں مرکزی تصور کی حیثیت رکھتی ہے دراصل عشق
ہی کی ایک وجودی صور ت ہے ۔ یہ پوری کائنات میں ایک روح کی طرح سرایت کیے ہوئے ہے ۔
اقبال کے نزدیک عشق اگر مصلحت اندیش ہو تو خام ہے۔ عشق انسان کو بے خطر آ ِ
تش نمرود میں کود
جانے کا درس دیتا ہے۔ مصلحت اندیشی عقل محض کی صفت ہے جو حاالت سے سمجھوتہ کرنے اور
ہر حال میں مفاد کو پیش نظر رکھنے کا نام ہے۔ جبکہ عشق حاالت کے مطابق ڈھلنے کی بجائے حاالت
کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عقل محض عشق کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ عشق
کی ایک گراں قدر صفت اس کا جذبہ قربانی ہے۔ یہ اگر ضرورت پڑے تو مفاد پرستی اور وقتی فائدے
کو تیاگ دینے کا نام ہے۔
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
اقبال کے خیال میں عقل انسان کو ظن و تخمین کی فضا سے باہر نکلنے نہیں دیتی۔ یہ اس جست
()Leapسے محروم رکھتی ہے جو عشق کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ جست انسان کو فوراًمنزل مقصود تک
پہنچنے مینمدد دیتی ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق جس آہ جگر گداز اور آئین جہانتابی کا حامل ہے عقل
اس سے محروم ہے۔
عقلے کہ جہاں سوزد ،یک جلوہ بیباکش
از عشق بیاموزد ،آئین جہاں تابی
اقبال عشق کو عقل پر اس لیے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ عقل اسباب و وجوہ کے چکر مینپڑی رہتی ہے
ت بازو پربھروسا کرتا ہے جبکہ عقل مکار
جبکہ عشق میدان عمل میں اپنے جوہر دکھاتا ہے۔عشق قو ِ
ہے۔عقل کا سرمایہ خوف اور شک ہے جبکہ عشق اور یقین الزم و ملزوم ہیں۔ عقل کی تعمیر میں
ویرانی مضمر ہے جبکہ عشق کی ویرانی میں تعمیر چھپی ہوئی ہے۔ عقل دنیا مینہوا کی طرح ارزاں
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
ہے جبکہ عشق گراں مایہ ہے۔ عقل مفاد پرست ہے جبکہ عشق آزمائش پر یقین رکھتا ہے۔ عشق کا
دارومدار اللہ کے فضل و کرم پر ہے۔ عقل کہتی ہے کہ خوش رہو ،آباد رہو ،جبکہ عشق کہتا ہے کہ
اللہ کا بندہ بنو اور غیر اللہ کی غالمی سے آزادہو جاؤ۔
عقل در پیچاک اسباب و علل
عشق چوگان باز میدان عمل
اقبال کے نزدیک خرد کے ذریعے عشق کی راہ طے کرنا ایسا ہی ہے جیسے چراغ لے کر آفتاب
ڈھونڈنا۔ اقبال کہتے ہیں کہ عقل بھی اگرچہ آستاں یعنی حقیقت کی منزل سے دور نہیں مگر اس کی
قسمت میں حضوری کی لذت نہیں ۔اقبال نے عشق کو عقل کامرشد کہا ہے۔ ان کے خیال میں عشق
حقیقی کے بغیر مذہب بھی صرف تصورات کا ایک بتکدہ بن کر رہ جاتا ہے۔
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدہ تصورات
اقبال کے نزدیک عقل ذوق نگاہ تو رکھتی ہے یعنی خوب و ناخوب میں امتیاز کر سکتی ہے مگر یہ اس
جرات رندانہ سے محروم ہے جو عشق کا اثاثہ ہے۔ اقبال عشق کو عقل سے برتر خیال کرتے ہیں۔ اس
کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر یوسف حسین خان کے بقول:
’’اقبال عشق کو عقل کے مقابلے میں فضیلت دیتا ہے۔ اس واسطے کہ اس سے حقائق اشیاء کا مکمل
علم اور بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ انسانی زندگی میں جتنا اس کا اثر ہے ،عقل کا اثر اس کا
عشر عشیر بھی نہیں۔ زندگی کا ہنگامہ اس سے ہے۔ اگر دل بھی عقل کی طرح فرزانہ ہوتا تو جینے کا
لطف باقی نہ رہتا ‘‘۔
اقبال کے نزدیک عشق کا جذبہ ال محدود وسعت کا حامل ہے اور اس کی کوئی انتہا نہیں۔ یہ زمانی اور
مکانی ابعاد ()Dimensionsسے ماورا ہے یعنی یہ الزمانی اور ال مکانی ہے۔ یہ ماہ و سال اور دیرو
زود یعنی زماں اور نزد و دور یعنی مکاں کو خاطر میں نہیں التا۔
می نداند عشق سال و ماہ را
دور راہ را
دیر و زود و نزد و ِ
اقبال کے خیال میں عشق وقت کی رفتار پر غالب آتا ہے۔ زمانے کی تیز رفتاری عشق پر اثر انداز نہیں
ہو سکتی۔ عشق کا تعلق پیمائشی وقت سے نہینبلکہ وقت کے ایسے سلسلے سے ہے جسے ہم کوئی نام
نہیں دے سکتے۔
تندو سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
عشق خود ایک سیل ہے،سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہینجن کا نہیں کوئی نام
اقبال کہتے ہیں کہ مجھے عشق پر ناز ہے کیونکہ اس کے وجود کو مٹ جانے کا غم نہیں کیونکہ یہ
زمان و مکان کی زناری سے بچا ہوا ہے۔
عشق را نازم کہ بودش را غم نابودنے
کفر او زنار دار حاضر و موجودنے
اقبال عشق کی وسعت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
ایں گنبد مینائی ،ایں پستی و باالئی
در شد بدل عشق ،با ایں ہمہ پہنائی
اقبال کے نزدیک محبت کا مقصد جسمانی اور حسیاتی حظ حاصل کرنا نہیں بلکہ روح کا ترفع ہے۔ان کا
جذبہ عشق ماورائی ارفعیت ()Transcendental Sublimityسے مملو ہے جو بہت کم شعرا کے
حصے میں آئی ہے ۔لہذا ان کی شاعری میں ایسے عناصر نہ ہونے کے برابر ہیں جو جسمانی یا جنسی
ہوس ()Lustکی نشاندہی کرتے ہوں۔ حتی کہ ان کے ہاں روایتی محبوب کا تصو ربھی ناپید ہے۔ ان کے
ہاں محبوب کے اعضاء اور جسمانی خدوخال کاذکرنہیں ملتا ۔ وہ جسمانی خوبصورتی کی بجائے
روحانی خوبصورتی ( )Spiritual Beautyپر یقین رکھتے ہیں ۔ ان کا نظریہ عشق پاکیزہ تصورات و
احساسات کا حامل ہے۔ ان کے نزدیک جسمانی خوبصورتی ()Physical beautyفنا ہو جانے والی ہے۔
ان کی شاعری جنسیت اور ہوس پرستی سے پاک ہے۔ وہ عشق اور ہوسنا کی میں یوں فرق کرتے ہیں۔
؎در عشق و ہوسناکی دانی کہ تفاوت چیست
آں تیشہ فرہادے ،ایں حیلہ پرویزے
عشق طینت میں فرومایہ نہیں مثل ہوس
پر شہباز سے ممکن نہیں پرواز مگس
عیش منزل کو حرام قرار دیا ہے۔اقبال کہتے ہیں کہ عشق کی رمز ارباب
اقبال نے عشق کے سفر میں ِ
ہوس سے نہینکہنی چاہیے کیونکہ یہ شعلے کی تب و تاب خس سے کہنے کے مترادف ہے۔
رمز عشق تو بہ ارباب ہوس نتوان گفت
ِ
سخن ازتاب و تب شعلہ بہ خس نتواں گفت
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
اقبال کا عشق آبرومندانہ جذبات و احساسات کا حامل ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہوس انسان کو بے
توقیر کر دیتی ہے ۔وہ کوچہ جاناں سے بھی ٓعزت وآبروکے ساتھ ا وراپنا دامن صاف بچا کر لے جانے
کو مقدم سمجھتے ہینڈاکٹر عبدالمغنی کے بقول ’’:بالشبہ اقبال کا عشق ہوس نہیں ،ان کی محبت لذت کے
لیے نہیں اور وہ نہ تو کوئے بتاں میں آوارگی پسند کرتے ہیں اور نہ کسی کے کوچے سے بے آبرو ہو
کر نکلنے پر فخر کرتے ہیں ‘‘۔اقبال عشق کی آبرو مندی چاہتے ہیں اسی لیے وہ اس کے لیے عقل
خداداد کی پیروی کو ضروری گردانتے ہیں :
عشق اب پیروی عقل خداداد کرے
آبرو کوچہ جاناں میں نہ برباد کرے
ق مجازی کی کیفیات کا بیان بہت کم ہے۔ بانگ درا کی شاعری میں کہیں کہیں
اقبال کی شاعری میں عش ِ
یہ کیفیات نظر آتی ہیں۔وہ عشق کو زیادہ تر تجریدی رنگ میں پیش کرتے ہیں اور مجازی عشق اور اس
کے جنسی پہلوؤں سے گریز کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں۔’’اکثر
صوفیا اور حکما کی طرح اقبال کی زندگی میں بھی عشق مجازی کی کمی محسوس ہوتی ہے ان کی
عالم شباب کی شاعری میں کہیں کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ مگر یہ آتی جاتی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ ان
کا یہ شبابی عشق مصری کی مکھی کی طرح ہے ،شہد کی مکھی نہیں جس کے پائوں اس میں دھنس
جائیں ‘‘۔ؔاقبال کا عشق اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں اسے معشوق کی طلب نہیں رہتی بلکہ عشق
بذات خود مقصود بن کر رہ جاتا ہے۔ اقبال نے اردو کی عشقیہ شاعری کونئی ماورائیت سے آشنا کیا
ہے۔ ان سے پہلے کی اردو عشقیہ شاعری میں وہ ترفع اور علویت نظر نہیں آتی جو اقبال کی پر عظمت
اور ماورائیت کی حامل شاعری میں پائی جاتی ہے۔ عشقیہ شاعری کے لیے ضروری نہیں کہ وہ
روایتی وصل و ہجر پر مشتمل کیفیات کی شاعری ہو۔ اس حوالے سے فراق گور کھپوری لکھتے ہیں
’’:عشقیہ شاعری کی داستان محض عارض و کاکل ،قرب و دوری ،جوروکرم ،وصل و ہجر ،ذکر غم یا
ذکر محبوب تک محدود رہے یہ ضروری نہیں بلکہ پر عظمت عشقیہ شاعری نسبتوں کے ساتھ پیش
کرتی ہے۔ بلند پایہ عشقیہ شاعری محض عشقیہ شاعری نہیں ہوتی‘‘۔
References:
AIOU BOOK 5613
ANS 03
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
اقبال کے بارے میں یہ چند الفاظ ’’اقبال :مسائل ومباحث‘‘ (عالمہ اقبال کے فکر و فن پر ڈاکٹر سید عبد
اﷲ کے مقاالت ،مرتبہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی) سے ماخوذ ہیں ،کہ مجھ جیسے طلباء کسی کی نقالی
بھی ڈھنگ سے کرلیں تو بڑی بات ہے۔ یہاں یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شاعر مشرق کس
اسلوب سے مغربی مفکرین اور تہذیب مغرب کا احاطہ کرتے ہیں؟ اس بارے میں مشرقی نوجوانوں کے
لیے ان کا کیا پیام ہے؟
کالم اقبال میں تیس فیصد اشعار فرنگی تمدن اور تہذیب کے خالف ہیں ۔ جو کہ اقبال کے مزاحمتی ادب
ِ
کا ثبوت ہیں ۔ اقبال کا مزاحمتی ادب بھی تعمیری ہے اور ایک مخصوص اسالمی روایت کا امین ہوتے
ہوئے معاشرے کی تعمیر نو کا جواز فراہم کرتا ہے ۔ متعدد اشعار اسالم کی برکات و فضائل کے متعلق
ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال تعمیر چاہتے تھے اور ایک مخصوص قسم کی تعمیر۔ (اس تعمیر
کی وضاحت خاصی طوالت طلب ہے)۔ دراصل عالمہ اقبال اسالم اور موجودہ تہذیب و تمدن کی تطبیق
کرتے ہوئے موجودہ تمدن کو اسالم کے قریب تر النا چاہتے تھے۔ یہ بیان اقبال ہی سے ثابت کیا جاتا
عالی کی
ہے۔ یہ اسالمیوں کا مخصوص مزاج ہے کہ وہ تعمیری ہوتے ہیں یا ہوجاتے ہیں۔ اسالم نے اﷲ ت ٰ
احساس ذمہ داری ،تعمیر اور خلوص جیسے
ِ دی ہوئی ہدایت کو عام کیا جسکی بناء پر مسلمانوں میں
مبادیات فروغ پاگئے۔ لیکن یہ تمام مسلم گروہوں کاخاصہ نہیں ہے۔ ایسے گروہ بھی پرورش پاجاتے ہیں
جن میں قبضہ گیری ،گروہی عصبیت اور تخریب رچ بس جاتی ہے۔ پھر ان کے لیے اپنی ایسی عادتوں
سے جان چھڑانا یا خود ہی کسی کی جان چھوڑ دینا مشکل ہوجاتا ہے۔ یوں قوموں کی تقدیر ہی پھوٹ
جاتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقبال تنہا اس قسم کی تطبیق کے حامی ہیں؟ دراصل اس تطبیق کی کوششیں
بے تحاشا لوگوں نے کیں ۔ اقبال ان کے سرخیل ہیں ۔ مگر اقبال اس کے باوجود مغرب پر شدید نکتی
چینی کرتے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ اقبال کو ان فالسفہ اور مغربی مفکرین کا براہ راست تجربہ ہے۔
وہ اس تہذیب کو خود دیکھ کر اور اس کے اثرات محسوس کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ بہت سے علماء
میں سے ایک اہم عالم دین شریعہ اکیڈمی سے موالنا زاہد الراشدی ،جن کی رائے نہ صرف مؤقر بلکہ
:شریعت کے مطابق بھی ہے ،وہ اس بارے میں فرماتے ہیں
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
مغرب بحیثیت مغرب اسالم دشمن نہیں ہے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد مغرب میں آباد ہے جس میں ”
حتی کہ فرانس اور جرمنی سمیت بعض ممالک میں اسالم وہاں کا دوسرا بڑا
مسلسل اضافہ ہو رہا ہےٰ ،
مذہب تسلیم کیا گیا ہے۔ مغرب کی غیر مسلم آبادی میں سے ایک بڑی تعداد اسالم قبول کر رہی ہے اور
مغربی اقوام میں نو مسلموں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد اسالم کا
مطالعہ کر رہی ہے ،وہ اسالم کی دعوت سننے میں دل چسپی رکھتے ہیں اور اسے سمجھنا چاہتے ہیں۔
جبکہ مغرب کی یونیورسٹیوں میں اسالم اور مسلمانوں کے حوالہ سے بہت سے پہلوؤں پر تحقیقی کام
ہو رہا ہے۔ اس سب کو استشراق اور اسالم دشمنی کے ساتھ جوڑنا درست نہیں ہے ،کیونکہ تحقیق اور
تالش حق کے دائرے میں آتا ہے جسے
ِ ریسرچ کی دنیا میں ہونے والے کام کا ایک بڑا حصہ فی الواقع
نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس میں تعاون کے راستے تالش کرنے کی ضرورت ہے”۔
موالنا زاہد الراشدی جیسے مؤقر اسالمی عالم کی یہ رائے اہم ہے کہ ” اس سب کو استشراق اور اسالم
تالش
ِ دشمنی کے ساتھ جوڑنا درست نہیں ہے ،۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ تحقیقی “کام کا ایک بڑا حصہ فی الواقع
حق کے دائرے میں آتا ہے” ۔ مگر یہ اقبال جیسے مفکرین کی درست جہت ،مناسب انداز تنقید اور پھر
بروقت مغربی غلبے سے نجات کی کوشش ،ہے جس کے نتیجے میں مغرب و مشرق میں دونوں جانب
ہونے والی مسلسل تبدیلی سے چندمسائل کا مناسب حل سامنے آسکے۔ دونوں جوانب ایک دوجے کو
سمجھ لیں ،لیکن یہ ضروری بھی نہیں کہ ایسا ہی ہوجائے۔ اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔کیونکی
اقوام عالم اور ان کے بہت سے پلیٹ فارم اپنی ترجیحات قائم کرنے میں آزاد ہیں اور اس آزادی کا اظہار
کرنے میں تمام قوت صرف بھی کی جاتی ہے ،جس کے نتیجے میں تمام تار و پود بکھر جاتے ہیں ۔ یہ
قصور مفکرین کا نہیں ہے۔ جن لوگوں نے آگ لگانی ہو ،وہ کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ ہی نکالتے ہیں۔
اقبال اور زاہد الراشدی جیسے لوگ مناسب تنقید بھی کرتے ہیں اور ساتھ میں اقوام عالم کے مسائل کا
باہمی حل تالش کرنے میں بھی سرگرم رہتے ہیں۔ لیکن کسی مسئلے کا قرار واقعی حل نکل آنا ،اور
پھر اس پر عمل ہوجانا ایک مشکل کام ہے۔ اگر آپ کو مغرب کے خالف صف آراء ہونا ہے یا ہونا پڑ
جاتا ہے ،کیونکہ بعض اوقات بددماغ قائدین اور شرارت پسند اندھے امریکہ یا یورپ کے کسی ملک پر
سوار ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے جان چھڑانے کا کوئی راستہ ہی باقی نہ رہے تو کیا کیجیے۔ لیکن
ب مغرب سے مقابلے کے لیے اقبال کی سی ادبی تحریر اور جناح کی سی جاندار
اس کے باوجود تہذی ِ
تحریک کی ضرورت پڑتی ہے۔ بے عقل اور بے روح مزاحمت سے لوگ جلد جان چھڑا لیتے ہیں۔اس
لیے اقبال نابغہ ہیں۔قریب رہنا ،سیکھنا سمجھنا ،تنقید کرنا ،اپنی منزل کا تعین کرلینا اور پھر اس کے
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
لیے باہمت و جاندار جدوجہد کی داغ بیل ڈالنا۔ یہی جوانمردوں کا کام ہے۔وگرنہ کتنے ہی نواب و شہنشاہ
مغربیوں کے آگے بھس بھرے شیر ثابت ہوئے یا کوئی میدان ہی میں نہ اترا۔
ایسے مسائل سے خود ہی واقف ہوگئے تھے اور انھوں نے مغرب کے عملی و روحانی عالمہ اقبال
بازو پرکھ لیے تھے۔ انھوں نے اپنے آئیڈیل چنے۔ بڑے مسائل کے حل کے لیے چھوٹے آئیڈیل نہیں
رکھے کیونکہ مسائل بھی بڑے تھے۔ چھوٹے آئیڈیل تو کچے گھڑے ہوتے ہیں کہ بیچ دریا گھل جاتے
ہیں۔ آج کی سوہنیاں ایسے کئی آئیڈیل قربان کرواچکی ہیں۔ اقبال سمجھدار تھے۔ انھوں نے بڑے ہی ادبی
اسرار خودی میں مر ِد کامل کو پکارا تھا کیونکہ مرد کامل ان کا مقصود ہے :۔
ِ پیرائے میں
ہنگامہ ایجاد شو
ٔ ب دوراں بیا ۔ رونق
سوار اشہ ِ
ِ اے
قانون اخوت ساز دہ
ِ شورش اقوام را خاموش کن ۔ خیز و
ِ
ایام صلح
باز در عالم بیار ِ
کیا یہ ممکن ہے کہ اقبال ایسا انسان مکمل مزاحمت کی جانب نہ بالئے ؟ کیا تعمیر سے قبل مکمل
تخریب کی ضرورت نہیں؟ یقینا ً ایسا ہی ہے ،مگر ساتھ میں ہمیں یہ بھی سوال اٹھانا ہوگا کہ کیا
ضروری ہے کہ مفکر شدید مزاحمت کی جانب لے جاکر معاشروں کو ٹکرا کر بکھیردے اور مکمل
تباہی کا جواز بھی فراہم کرے؟ کیا وہ لینن کی طرح عالمی جنگوں کی طرف لے جائے اور ماضی کی
تمام روایات کو بیک جنبش قلم ختم کرڈالے؟ کیا حکمائے امت اسی کام کے لیے ہوتے ہیں؟ ایک حکیم
االمت اشرف علی تھانوی بھی تھے۔ جنھوں نے قوم کی علمی تربیت کی اور جان جوکھوں میں ڈال کر
تمام عمر ہی بتا دی۔ طبیبوں کو علم ہو نہ ہو لیکن حکماء اور وہ بھی حکمائے قوم سمجھتے ہیں کہ ہاتھ
کے تیار کردہ گھوڑے ہی میدان میں کام دیتے ہیں۔ اور یہ گھوڑے دنوں یا مہینوں میں نہیں بلکہ نسلوں
کی جدوجہد سے تیار کیے جاتے ہیں۔ حکمائے امت تو کہیں بڑا خطاب ہے۔ اس لیے تھانوی صاحب نے
بھی جلدی نہیں مچائی۔ لڑا کر قربان نہیں کیا بلکہ اپنے کارکن کی تربیت کرکے اسے تیار کیا۔ اگرچہ
جنگیں ہوتی ہیں مگر ٹکرا دینے والے مفکر کے مقلد ین کے لیے واپسی کا شاید کوئی راستہ باقی نہیں
رہتا۔ اسی لیے اقبال اپنے معاشرے کی روایات کو مکمل طور پر سمجھ کر ماضی سے تعلق قائم کرنے
پر زور دیتے ہیں ۔ حال کا پابند اور افرنگ کا غالم نہیں بناتے۔ لیکن مقابالتی میدان بھی تجویز کرتے
ہیں ،اس میں خود سے اترتے ہیں اور اس میدان میں سے باوقار جدوجہد کرکے حاصل حصول بھی
دکھاتے ہیں۔ اسی لیے وہ نوجوان نسل کو پیغام دیتے ہیں کہ مغربی آئین سے جان چھڑا ئیں۔ فرماتے ہیں
:کہ
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
دستور قدیم
ِ باز اے آزا ِد
زنجیر سیم
ِ ت پا کن ہماں
زین ِ
سختی آئیں مشو
ِ شکوہ سنجِ
از حدو ِد مصطفی بیروں مرو
آئین قدیم سے آزاد سمجھتا ہے یا اس سے نکل بھاگنا چاہتا ہے پھر اسی
یعنی اے وہ کہ اپنے آپ کو اس ِ
صلی اللہ علیہ وسلم
ٰ زنجیر کا اسیر ہوجا۔ اس کی سختیوں کی شکایت نہ کراور حضرت محمد مصطفی
کی حدود سے باہر نہ نکل۔
دراصل اس حدود سے باہر نکلنے واال خود کو بے سبب مشکل میں ڈال لیتا ہے اور دشمن کا آسان شکار
بن جاتا ہے۔ وگرنہ اقبال اپنے نوجوان کو کھل کر کھیلنے اور برٹرینڈ رسل یا مارکس کی مانند مکمل
انکاری بن جانے کی تربیت دیتے۔ یہ عقل کی بات ہے کہ اپنی حقیقی اہلیت اور مقابلے کے میدان کی
وسعت میں خود کو محدود کرکے اپنے ہی دائرے میں جدوجہد کی جائے تاکہ محفوظ انداز میں آگے
پہلووں کو جانچ کر ضرب لگائی جائے تاکہ طاغوت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے
بڑھ کر حریف کے کمزور ٔ
اور مسلم معاشرہ بکھرنے سے بچ جائے۔
ق تحقیق ،اختراعات اور
ب یورپ کے محاسن بھی معلوم ہیں ۔ جن میں شوق وشغف ،ذو ِ
اقبال کو تہذی ِ
ق تسخیر شامل ہیں۔ یہ بھی حقیقیت ہے کہ مسلمانوں نے علم و حکمت کو جس منزل پہ چھوڑا ،یورپ
ذو ِ
:نے اسے آگے بڑھایا۔ مگر حقیقیت یہ ہے کہ
اعجاز مسیحا داری
ِ عجب آں نیست کہ
بیمار تو بیمار تر است
ِ عجب این است کہ
کہ مغربی حکماء کے عالج سے مریض پہلے سے کہیں زیادہ بیمار ہوگیا ہے ۔ دراصل مغرب کا انسان
کھل کر کھیلتا رہا اور آج ایسی بیماریوں میں اسیر ہے کہ مریض کی جان تو چلی جاتی ہے لیکن
ت فرنگ کے
ب فرنگ اور حکم ِ
تندرستی نصیب نہیں ہوتی۔ ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ عالمہ اقبال تہذی ِ
کن خصائص سے غیر مطمئین ہیں اور کن معنوں میں اسے ناکام تہذیب کہتے ہیں۔اور اس کے م ِد مقابل
:اسالم کے کون سے محاسن بیان کرتے ہیں
رموز بے خودی میں اقبال نے فرنگی تہذیب کو رد کیا اور اپنی مثالی ملت کے تین اوصاف واضح کیے
ِ
:ہیں
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
۔ تاَدّب بآئین ٰالہیہ (خدا ئی قانون کی تعلیم کے مطابق تربیت)1
۔ اُسوہ محمدیہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا۔2
۔ ملت کی روایات کی حفاظت کرنا۔3
نظم فکر تیار کی ہے جس میں خودی کو مرکزی مقام حاصل ہے۔ خودی کی
اقبال نے اس کے لیے ایک ِ
دو حیثیتیں ہیں۔ ایک انفرادی اور دوسری اجتماعی۔ یہ ہے بازیافت ،یعنی ملت کے وجود کا اثبات و
استحکام ۔وجو ِد اجتماعی کے ان تین اُصولوں پر عمل کر کے یہ ملت خداکا منشا پورا کرے گی ،دنیاکی
ِ
تسخیر کرکے زمین پر خداکی بادشاہت قائم کرے گی ،عدل و انصاف کو نافذ کرے گی اور ظلم و تعدّی
کا ازالہ کرے گی اور ایک ایسی سلطنت قائم کرے گی جس میں خداکا دین رائج ہوگا۔ خدا کے دین پر
مبنی ریاست کا قیام ہی ایک منزل ہے۔ تمام جدید علوم کسی ایک منظم معاشرے کے وجود اور اس کی
تعمیر و ترقی کے لیے وسائل صرف کرتے ہیں۔ اقبال بھی اپنی آئیڈیل سرزمین کی تعمیر و ترقی کے
لیے کوشاں رہے۔ وہ کیسے ریاست کے خواب سے دور رہ سکتے تھے۔ انھوں نے اس کے لیے خاصی
طویل شاعری کے عالوہ فکری بنیادیں قائم کیں اور تب جاکر جدوجہد کے میدان میں اترے ۔ آخرکار
ایک ریاست تشکیل پانے کی صورت واضح ہوئی۔ کیا وہ تمام عمر دین سکھانے کے بعد اور غازی علم
الدین کا مقدمہ لڑ لینے سے فرصت پاکر کسی طور الدین بنیادیں مہیا کرسکتے تھے؟ عقل و خرد کا
راگ االپنے والے بے شعور سیاست باز کہیں نہیں پائے جاتے ۔ اگر پائے جاتے ہیں تو پاکستانی
ت حال کے مطابق مکمل دالئل
معاشرے میں کہ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہاں کسی کو حقیق ِ
کے ساتھ گفتگو کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔ ایسے میں پاکستان اپنی منزل کیسے پاسکتا ہے؟
اقبال نے مغرب کو جانچا پرکھا۔ کوئی بھی انھی اصولوں کو آج آزمائے اور حکم ِ
ت افرنگ کے ارتقا
ق تحقیق میں
اور اس کے نتائج کا جائزہ لے تو معلوم ہوگا کہ وہاں کا انسان گذشتہ پانچ صدیوں میں ذو ِ
کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود اپنی انفرادی و اجتماعی شخصیت کو یکجا نہیں کرسکا۔ “وہ جزویت
کا شکار اور انتشار کا مریض ہے”۔ شخصیات کسی ایک مقصد کے گردا گرد تعمیر پاتی ہیں۔ جمہوریت
کا اپنا کوئی ایک مقصد ہی متعین نہیں۔ اس حقیقت کا ادراک خود مغرب کے مفکرین کو شدت کے ساتھ
ہے۔ آج تک وہ اس کے لیے سرگرداں ہیں کہ جمہوریت کا کوئی ایک مقصد متعین کرپائیں ۔بہت سے
تحقیقی مقالہ نگار اس کا اظہار کرتے ہیں کہ جمہوریت خود ہی اپنا مقصد و مقصود ہے۔ خود جمہوریت
ہی وہ کافی و شافی نتیجہ یا آ ٔوٹ کم بھی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے کوشش کی جائے۔ بھال ایسے
کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی نظریہ خود ہی مقصد بھی ہو نتیجہ بھی ہو۔ اس بڑے سقم کو اقبال جسیے
تجربہ کار پرکھ سکتے تھے۔ اس لیے ایک مقصد کے گرد اور ایک محور سے منسلک کرکے اقبال
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
جیسے مفکرین نے مشرقی اقوام کے نوجوانوں کو حکمت سے سنبھاال دیا۔ اقبال نے فکر وعمل دونوں
جہات میں کام کیا۔ مگر ا پنے دور کے دوسرے انقالبی لینن کے برعکس عملی سیاست میں زیادہ
:سرگرمی نہیں دکھائی ۔ چنانچہ کہتے ہیں
یہ عقد ہاے سیاست تجھے مبارک ہوں
کہ فیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش
شاید سیاست بازی سے بیزار تھے۔ یا ان کے پاس کرنے کو بہت سے کام تھے۔ جن سے نتائج اور اقبال
دور رس نتائج حاصل ہوسکتے تھے۔ وہ جلد باز سیاست بازی اور روزمرہ کی بیکار سرگرمی میں
الجھنے سے پرہیز کرتے رہے اور بامقصد تعلیم ،فکری آگہی ،شعری ذوق کی آبیاری کے ساتھ ساتھ
افرا ِد کار کی تیاری میں مصروف رہے۔ ایسے لوگ سیاست کو برا ِہ راست متاثر نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ
عجب حادثہ ہوا کہ اس کے باوجود روسو اور والٹیر کی طرح اقبال نے سیاسی تحریکوں کو متاثر کیا ۔
کیا اس دور میں فکری رہنما موجود نہیں تھے؟ یقینا ً تھے۔ ابوالکالم جیسے لکھاری ،پورا ندوۃ العلماء
اور دیوبند کے کثیر التعداد علماء و مدرسین۔ ان کے عالوہ ہر طرح اور ہر رخ کے لکھاری اور
محرکین۔ جوہر جیسے کامیاب لکھاری ،سیاستدان اور تحریکات بپا کرنے والے بھی تھے۔ لیکن اقبال ہی
پاوں بچا کر رکھے۔ انھوں نے نوجوانوں
نے کیوں متاثر کیا۔ اس لیے کہ وہ میدان میں اترے لیکن ہاتھ ٔ
کو درست سمت کی جانب بڑھایا لیکن ساتھ میں محفوظ انداز بھی سکھا دیے۔ باقی لوگ نوجوانوں کو
ایک مخصوص پیرائے میں ڈھالنے کی لمبی کوشش میں مصروف رہے۔ انھوں نے عمومی پیغامات
بھی دیے۔ آسان تر زبان میں یہ پیغامات کافی ٔ
موثر تھے۔ قوم انھی پیغامات سے متاثر ہوئی۔ انھیں ساتھ
میں اقبال کے تیار کردہ قائدین بھی میسر آئے۔ نتیجہ واضح تھا۔ تحریک برپا ہوئی تو روکنے کی
صالحیت کمزور پڑگئی۔ انگریز اندر اور باہر دونوں جوانب سے مار کھاگئے۔ کانگریس راستے
ڈھونڈتی رہ گئی۔یہ نتائج سادہ نہ تھے۔دیوار پر لکھی تحریر کی مانند ایک روشن مستقبل موجود تھا۔
شاید اقبال ایشیا میں ایک اور عظیم الشان فکری انقالب کے راھنما ثابت ہوں ۔ اگرچہ پاکستان کی تخلیق
ت ثابتہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اقبال ہی کا پاکستان کل کالں ایک نئی نہج پر تیاری کرے تو نوجوان
تو حقیق ِ
نسل ملک و ملت کے پیغام کو آگے بڑھائے اور نئی بلندیوں تک جاپہنچے۔
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
اقبال کی بہت سی خصوصیات ہیں جنھیں نگاہ میں رکھنا ہوگا۔ اقبال یونی ورسلسٹ ہیں ۔۔۔۔ انسانی اُخوت
علم بردار ۔۔۔۔۔ مگر ان معنوں میں جن میں اسالم نے اس تصور کو پیش کیا ہے۔ وہ کسی مغربی
کے َ
چھاپ کے آفاقی نہیں۔اقبال نے مغربی مفکرین سے اثرات قبول کیے ۔ مثالً اقبال پر برگساں کے نظریات
جوش حیات جسمانی کے ساتھ وجدانی بھی ہے”۔
ِ کا اثر ہے مگر “برگساں جسمانیاتی ہے تو اقبال کا
اقبال اس کو ایمان کہتے ہیں ۔ اس سے قبل رومی بھی ایسے ہی خیاالت کا اظہار کرچکے تھے ۔
برگساں کی نسبت اقبال رومی سے کہیں زیادہ متاثر تھے ۔ انھوں نے تہذیب مغرب پر نطشے کی فکری
تنقید کا دم بھرا مگر نطشے نے جہاں کہا کہ خدا مرگیا ہے۔ وہاں اقبال کا خدازندہ و جاوید ہے ۔ نطشے
ب مغرب کا سختی سے محاکمہ
قوت کا داعی ہے اور نرم راہ اپنانے والے فلسفوں کا دشمن۔ اس نے تہذی ِ
کیا :بزبان اقبال “ :دیوانہ بہ کارگہ شیشہ گر رسید”۔ اسی لیے وہاں ہٹلر بروئے کار آیا اور تمام عالم کو
ہال کر گیا۔ لیکن ہمارا مفکراسالمیوں کی سی اصالح پسندی ،ڈائیالگ اور تعمیر کا داعی و مدعی تھا۔یہ
فلسفی تعمیر و ترقی کا بھی اسی قدر التزام بھی کرتا تھا ،جس قدر تنقید و محاکمہ کا اظہار کرتا رہا۔
وان مغرب ” کا
پیام مشرق گوئٹے کے “دی ِ
مفکر پاکستان نے گوئٹے کی مشرق پسندی کو تسلیم کیا ۔ ِ
:جواب ہے۔ اقبال پر فختے کا اثر بھی ہے ۔مگر انھوں نے افرنگ پر تنقید کی
اسالم کا مقصود فقط ملّ ِ
ت آدم ت افرنگ کا مقصود
ق ملل حکم ِ
تفری ِ
ت آدم؟
ت اقوام کہ جمعی ِ
جمعی ِ خاک جنیوا کو یہ پیغام
ِ م ّکے نے دیا
ب کلیم(
)ضر ِ
مفکر پاکستان کو مغرب میں صرف ابلیس نظر نہیں آتا۔ وہ نہ مغرب کو مکمل رد کرتے ہیں
ِ تاہم ہمارے
اور نہ اندھی تقلید کے قائل ہیں ۔ مغربیوں کی سامراجیت پر قلم چالتے ہیں مگر ساتھ میں علوم و فنون
کو مسلمانوں کا گم گشتہ مال سمجھتے ہیں۔ یہی طریق انھوں نے اشتراکیت سے بھی اختیار کیا ۔ اس
طریق کو تہذیبی مکالمے کے قائل لوگ ہی اختیار کرتے ہیں ۔ پھر اقبال ان تہذیبوں میں (باہم وجود اور)
کشمکش کے طالب بھی ہیں ۔ وہ تہذیبوں کو سمجھنے ،تسلیم کرنے اور قبول کرنے کے قائل محسوس
ہوتے ہیں ۔ وہ اس کےلیے آدمیت کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔
:فرمایا
برتر از گردوں مقام آدم است اصل تہذیب احترام آدم است
ان کی طرح گوئٹے نے قومیت کے خطرناک نتائج کی سخت تنقیص کی تھی ۔ اس نے کہا “ہماری
مجالس اتنی فراخ ہوں کہ ان میں سعدی اور حافظ بھی بیٹھ سکیں”۔ اقبال نے کہا:نیشنلزم کا جو تجربہ
یورپ میں ہوا اس کا نتیجہ بے دینی اور المذہبی کے سوا کچھ نہیں نکال۔۔۔ اُنیسویں اور بیسویں صدی کو
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
مغربی فتوحات کا زمانہ اوراستعمار کا بھی بدترین دور کہاجاتا ہے ۔ عالمہ اقبال نے جاوید نامہ میں
اسے خواجہ اہ ِل فراق کا تاریک عہد قرار دیا ہے۔ جس تہذیب کو کسی دائرے میں محدود نہ کیا
جاسکے ،اسے فطرت کی ٹھوکریں بارہا لگتی ہیں۔ بے طرح سے اس پر عذابات اترتے ہیں اور وہ
اپنوں اور غیروں کو حسابات و جوابات دیتے دیتے تباہ ہوجاتی ہے۔ نتائج واضح تھے۔ لیکن دوراندیش
ہی نتائج سے آگاہ ہوتے ہیں۔ کم کوش و پر غرور ،انکاری اور خود سے خود سب کچھ کرنے ،کر
گزرنے اور نسل در نسل کرتے چلے جانے کے خواہشمند کسی طور وجدان سے متصف نہیں ہوتے۔
اس لیے دنیا انھیں سمجھ کر انہیں انکی حدود میں رکھتی ہے اور ایسے لوگ سمجھدار نہیں عیار کہے
جاتے ہیں۔ لوگ ان سے پناہ مانگتے ہیں لیکن ساتھ نہیں دیتے۔
عیار و بے مدار و کالں کار و توبہ توست۔
ان حقائق سے آگاہی کے بعد وہ کسی درمیانی راہ اور بے فیض سرزمین یا نہ ختم ہونے والی سیاست
بازی کے قائل نہ تھے۔ جسے ساتھ نہیں چلنا تھا یا ساتھ نہیں چل سکتا تھا ،جیسے کانگریس ،تو انھوں
نے اس سے صاف دامن چھڑایا۔ ایک جانب ہوئے۔ انگریز کو سمجھ لینے کے بعد اپنے مرکز و محور
:کو سمجھ لیا اور اس کے گرد تنظیم نو کی۔ یوں وہ انقالب کے قائل ہوئے
پرویزی افرنگ
ِ فریاد ز شیرینی و ویزی افرنگ
ِ فریاد ز افرنگ و د ٓ
ال
تعمیر جہاں خیز
ِ معمار حرم! باز بہ
ِ چنگیزی افرنگ
ِ عالم ہمہ ویرانہ ز
ب گراں خیز
ب گراں خیز از خوا ِ
ب گراں ،خوا ِ
ب گراں ،خوا ِ
از خوا ِ
:اقبال اس کے عالوہ مغرب کے تعلیمی فتنے سے بھی خبردار کرتے ہیں
اہرمن اندر جہاں ارزاں و یزداں دیریاب اے مسلماناں فغاں از فتنہ ہاے علم و فن
انقالب ۔ انقالب! اے انقالب
ت مغرب کو فتنہ قرار دیتے ہیں ۔ اقبال اور مستقبل کی فکری بساط
یہ واضح ہے کہ عالمہ اقبال ،حکم ِ
کو سمجھنا ضروری ہے۔ اقبال نے مغرب کے سیاسی افکار بشمول جمہوریت ،نیشنلزم اور مارکسیت ،
نظام فکر موجود نہیں ۔ اس لیے آج بھی اقبال
ِ تمام مباحث پر تنقید کی ۔ ان نظریات کے سوا آج کوئی نیا
کی فکر ی سحر انگیزی قائم ہے ۔ مغرب کسی تیسری جانب جا بھی نہیں سکتا۔ حاالنکہ کسی نے رسیاں
نہیں باندھیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج نوے برس کے بعد بھی دنیا میں کوئی تیسرا نظام النے میں
یورپ و امریکہ بھی ناکام ہے۔ وہ ہزاروں جامعات اور ان کے ماتحت یا ماعلو تحقیقاتی و تجرباتی
ادارے کسی نئی قسم کا سیاسی و معاشرتی نظام برپا کرنے میں ناکام رہے۔ بظاہر بے حدود ،ماضی سے
مکمل طور پر انکاری اور مستقبل کی تالش میں واضح طور پر آزاد ہوجانے واال ایک بڑا معاشرہ کس
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
تقلید کا اسیر ہے؟ یقینا ً مغرب کسی ان دیکھی غالمی میں گرفتار ہے ۔ لیکن کوئی حکیم اسے اس بیماری
سے نجات دینے واال نہیں۔ دراصل علم ایک روشنی ہے جو کسی اندھے کو مل بھی جائے تو وہ اس
سے فائدہ اٹھانے سے عاری ہی رہتا ہے۔ عمل ایک مقدس جذبہ ہے۔ یہ ہر ایک اپنا بھی لے توبھی منزل
پر پہنچنے سے قبل جس صبر و ثبات اور بامقصدیت کی ضرورت ہوتی ہے ،اس سے ایک گمراہ،
جذباتی اور بے طور معاشرہ کبھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ یہ عظیم ذمہ داری کسی حکیمانہ استاد کے
سکھانے سے معلوم پڑتی ہے جس کے قائل مغربی نہ ہوئے اور جس سے بیگانہ مشرقی بھی ہوئے
جاتے ہیں۔ کیا اقبال جیسے علم و عمل کے حسین مجموعے کو آج کے بے طور و گمراہ معاشرے کسی
طور مسترد کرسکتے ہیں؟۔ کیا ایسے سیکولر اور پھر پاکستان کے وہ سیکولر جنھوں نے فقط تراجم
کی دنیا سے قبر تک کا سفر کیا ہو ،کوئی ایک درست نظریہ کسی کو سمجھا سکتے ہیں۔ جنھیں اپنے
معاشرے کی کسی ایک خوبی کا مکمل ادراک نہیں ،دنیا بھر سے تمام اال بال کو پڑھ کر پاکستانیوں پر
تھوپ دینے کے سوا جن کا کوئی مطمحِ نظر ہی نہیں۔ جن کے روز و شب مغرب کی تقلید و تائید اور
انھی افکار کی آبیاری اور انھی کی دی ہوئی رقم پر صرف ہوتے ہیں ،انھیں کسی درسگاہ سے ایسی
توفیق مل ہی نہ پائی۔ ہمارے سیکولر کو کیا ملتی ،مغرب کے کسی استا ِد فن کو نہ ملی۔ کسی سیکولر
مفکر کو نہ ملی۔ کسی نوبل پرائز یافتہ عظیم فلسفی کو عطا نہ ہوئی۔ دراصل ڈیٹا سے تھیوری اور
تھیوری سے ڈیٹا تک کا سفر کرنے والے خدا کی زمین میں فساد پھیالنے کے قابل ہی نہیں رہے۔بند
ڈبوں میں بند ذہنوں کیساتھ اپنی اصطالحات کی قبروں میں جاسوئیں گے۔ روز حشر وہی اصطالحات
لیے اٹھیں گے۔بے مقصد و بے طور نظام کے موجد و مدرس و عاملین و ناظرین اپنی بے ربط گفتگو
سے وہی راگ االپتے رہیں گے جنھیں سن سن کر ان کے اپنے شاگرد بیزار ہوجاتے ہیں۔ وہ بھی اپنی
ویسی ہی درسگاہیں بنا بناکر وقت گزاری کرتے ہیں۔ نئے نظام اور نئی فکر ،نئے ممالک ،نئی دھرتیاں
لیےاقوام متحدہ کے تنگ جامے سے نکلنے کی کوشش کرنے والے پیدا
ِ اور عظیم جدوجہد کرنے کے
ہی نہیں ہوئے۔بوسیدہ کتابوں کی گرہیں کھول کر انھی میں غرق رہنے والے اور پھر نئے الفاظ میں نئے
لگاو نہ ہو،
پیرایوں میں انھی کو بیان کرنے والے ،جنھیں خدائی احکامات اور فطری احساسات سے ٔ
کسی صورت اپنی منزل کی جانب گامزن نہیں ہوسکتے۔
اقبال کو شکوہ مغرب سے ہے لیکن مسلمانوں کو بھی وہ الزام دیتے ہیں۔
اشک او صہبائے او
ِ سرد تر از ب عجم اعضائے او
شل ز برفا ِ
باز ایں بیت الحرم بتخانہ شد سر نبی بیگانہ شد
مسلم از ِ
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
عجم کی برف سے مسلمان کے اعضاء برف بن گئے ہیں۔ (غیرضروری اشک بازی کی بناء پر) اس کی
شراب زیادہ سرد ہوگئی ہے۔ مسلمان نبی ﷺ کے رازوں سے بیگانہ ہوگیا ہے۔ اس نے حرم کو بھی بت
خانے کی طرح کا بنا کر رکھ دیا ہے۔ عجم واقعتا ً برف بن چکا ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہی نہیں رہا جہاں سے
آزادی کے پروانے نمودار ہوئے تھے۔ یہاں تو تقلی ِد محض کے برف زاروں نے مستقل بسیرا کرلیا ہے۔
ان دیکھے برف زار اب مسلمانوں کے لیے آئیڈیل بنتے چلے جارہے ہیں۔
اقبال کے لیے تو مسلمان کم از کم جرأ ِ
ت عمل رکھنے والے لوگ ہیں۔ پیغامبرانہ ہدایت سے سرفراز
ہیں۔ اہ ِل حکمت و دانش ہیں۔ جب کچھ غیر ضروری پاتے ہیں تو بے الگ تبصرہ کرتے اور درست
راستہ اپناتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کو اپنی منزل تالشنے وقت ضرور صرف ہوتا ہے۔ لیکن منزل تک
پہنچ جانے میں کامیاب رہتے ہیں اور یوں معاشرے مطمئن و قانع ہوتے ہیں۔ سیاست میں تدبر اور صبر
و برداشت بھی اسی بناء پر نظر آتی ہے۔
یہی وجہ تھی کہ اقبال کی نظر میں دین اور سیاست ایک ہی وحدت کے اجزائے الینفک ہیں۔ چنانچہ
راز جدید میں ہے
:گلشن ِ
گلشن مغرب گرفت
ِ ایں شجر در تا سیاست مسن ِد مذہب گرفت
شعلہ شمعِ کلیسائی فسرد دین مسیحائی فسرد
!قصہ ِ
:جمہوریت کی حقیقت پر بھی اقبال کی رائے موجود ہے
جال ِل پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
غالم پختہ کارے شو
ِ گریز از طرز جمہوری
فکر انسانے نمی آید
مغز دو صد خر ِ
کہ از ِ
اقبال ہی پر کیا موقوف ،روسو کو بھی جمہوریت کے اصل نقائص کا پورا پورا احساس تھا کہتا ہے کہ
” ایسی طرز حکومت تو فرشتوں کی دُنیا کے لیے مناسب معلوم ہوتی ہے ،ہم انسان تو اس کے قابل نظر
راز جدید میں اقبال نے انھی نکات کی جانب اشارہ کیا ہے
گلشن ِ
ِ :نہیں آتے” ۔
گردن دیوے کشادست
ِ رسن از فرنگ آئین جمہوری نہادست
۔ کہ جمہور است تیغِ بے نیامے ز من دہ اہ ِل مغرب را پیامے
یہی تیغِ بے نیام اب اپنے جامے سے باہر آکر تمام دنیا کےلے ایک خطرہ بن چکی ہے۔ اسے اس کے
جامے میں واپس دھکیلنے سے قبل نہ معلوم کیا کچھ پاپڑ بیلنا ہوں۔ وہ جمہوریت جس کے بانی مبانی
امن پسندی کے لیے خود کو ہی ایوارڈ دیتے ہوئے نہیں تھکتے ،انھیں مارشل جی کے الفاظ میں دنیا
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
بھر میں جمہوریت کی ترویج کے لیےجنگ کو اپنا لینا چاہیے۔ حیرت ہے کہ جنگ جمہوریت کا متضاد
ہے۔ جنگ اور وہ بھی کسی کی سرزمین پر جنگ کرنا ایک بے فائدہ اور غیر ضروری کھیل ہے۔ جنگ
بربریت کی نشانی ہے۔ بربریت کو جمہوریت کا حقیقی متضاد بتایا جاتا ہے لیکن پھر بھی جمہوری
مفکرین دوسرے ممالک کے لیے جنگ ہی کو عالج بتالتے ہوئے اپنی ہی بنیاد سے اک انکار کرڈالتے
ہیں۔ اپنی ہی بنیاد پر کلہاڑی چال دیتے ہیں۔ یہ سانحہ کسی کے ضمیر کو مشکل میں نہیں ڈالتا۔ معلوم
نہیں کیوں؟؟ انسان خود سے بیگانہ ہوکر الفاظ کے گورکھ دھندے میں پھنس چکے ہیں۔ اجتماعی
فیصلوں کو ہی سب کچھ قرار دینے کے بعد کسی کو قدم ہٹانے کی سوجھ بھی نہیں سکتی۔ جمہوریت کا
یہ منطقی اور سیدھا سادہ سا نتیجہ ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس سے انکار کرنے کے لیے کسی کو جرأ ِ
ت
رندانہ نصیب بھی نہیں ہوسکتی۔ بے پناہ طاقت ،لوگوں کے ہجوم کی باگیں تھام کر ،خود ستائشی کے
عظیم ترین آسمان پر ،بڑی مضبوط بظاہر غیر مرئی بنیادیں کھود لینے کے بعد اور دنیاوی قوانین کو
حتمی شکل دے کر ،اپنے حق میں تحریر کروالینے کے بعد ،عظیم ترین جواز کی کاٹھی پر خود کو
ایستادہ کرلینے کے بعد کوئی مڑ کر نہیں دیکھ سکتا۔ جب اقبال نے نوائے قیصری کا مقدمہ درج کیا تھا،
تو کیا کچھ غلط کیا تھا۔یہ آج بھی درست ہے لیکن کوئی ایسی عدالت موجود ہی نہیں جہاں اس کی
کارروائی کاآغاز کیا جاسکے۔اگر عدل و انصاف کی تہ میں کوئی حقیقی اصول کارفرما ہیں تو آج کے
عادالن عالم کشمیر کے مسئلے پر ویٹو ممالک کے کھلے احتساب کے لیے چند الفاظ ہی کہ کردکھادیں۔
ِ
References:
AIOU BOOK 5613
ANS 04
یعنی فن مصوری دراصل خاموش شاعری ،اور شاعری ایک بولتی ہوئی مصوری ہے۔ شاعری دراصل
ایک خداداد صالحیت ہے۔ جس کی مدد سے شاعر اپنے تصورات کو ایک دلکش انداز میں پیش کرتا
ہے۔ شاعری ایک رویے کا نام ہے۔ ہر شعر کہنے واال شائد شاعر نہ ہو اور بہت سے ایسے حساس اور
دکھی انسانیت کا دل میں غم رکھنے والے لوگ شعر کہے بغیر بھی دراصل شاعر ہوتے ہیں۔ شاعر کی
خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ مختصر الفاظ میں بہت بڑی بات کہہ دیتا ہے۔ مثالً
:عالمہ اقبال کا یہ شعر مالحظہ فرمائیں
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہے آفاق
عالمہ اقبال پچھلی صدی کے نہیں بلکہ انسانی تاریخ کے ایک بہت بڑے مفکر اور شاعر تھے۔ اُن کی
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
عظمت کا اصل راز اس بات میں تھا کہ وہ عاشق رسول ص تھے۔ اُن کے کالم کی اصلی بنیاد قرآن
کریم کی ہدایات اور نبی کریم ص کے فرمودات تھے۔
قول اور فعل کے تضادات کو اسالمی تعلیمات کی روشنی میں ختم کرنے کے لیے عالمہ اقبال فرماتے
:ہیں
خرد نے کہہ بھی دیا ال الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
عالمہ اقبال 9نومبر 7711ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج الہور
کے عالوہ ،انگلینڈ اور جرمنی کے مختلف اداروں میں بھی تعلیم حاصل کی۔ اُن کو اُردو ،فارسی ،عربی
اور انگلش زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اُن کی فارسی شاعری ،اُردو شاعری سے بھی زیادہ گہری
اور پُر اثر ہے۔ کئی لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جس نے عالمہ اقبال کی فارسی شاعری کو نہیں
پڑھا یا سمجھا وہ عالمہ اقبال کی عظمت سے مکمل آشنا نہیں۔
عالمہ اقبال صحیح معنوں میں اسالمی نظام کے حامی تھے ،اور اُن کے خیال میں مذہب کے بغیر
سلطنت کا تصور مکمل نہیں۔7991ء میں انہوں نے کہا تھا کہ انگریز قوم چرچ کو ریاست سے الگ کر
کے غلطی کر رہی ہے۔ پھر 7997ء میں انہوں نے فرمایا کہ اگر مغرب بیسویں صدی کی ابتداء میں
ایسا نہ کرتا تو شائد پہل جنگ عظیم جس میں الکھوں انسانی جانیں تلف ہوئیں ،شائد نہ لڑی جاتی،
چونکہ مذہب کو ریاست سے الگ کر کے مغرب نے اخالقیات کو خدا حافظ کہہ دیا ،اس لیے اپنے
معاشی مفادات اور توسیع پسندانہ پالیسی کو اپناتے ہوئے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں کئی ملین
یہودیوں سمیت الکھوں بے گناہ لوگوں کو تہ تیغ کر دیا۔
عالمہ اقبال فرماتے تھے کہ انسان کی عظمت کا راز امارت یا توانگری میں پنہاں نہیں اور نہ ہی انسان
کی افضلیت کے معیار کا اصلی پیمانہ اُس کے بڑے عہدے ،عالی شان محل ،بے پناہ جائیدادیں یا قیمتی
پرائیویٹ جہاز اور کاریں ہیں۔ اصل بات تو فقیری اور قلندری ہے ،جو روحانیت کا درس دیتی ہے اور
تقوی اور کردار کی بلندی سے حاصل ہوتا ہے۔ عالمہ فرماتے ہیں
ٰ :یہ رتبہ
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
تعالی کے حقوق ادا کرنا تو ہر ایک انسان کا فرض ہے۔ لیکن غفوروالرحیم کا یہ فرمان بھی ہے کہ
ٰ اللہ
’’بندوں کے حقوق اللہ کے حقوق سے بھی زیادہ اہم ہیں‘‘ اور اسی چیز کو عالمہ اقبال نے بڑی
:خوبصورتی سے ان الفاظ میں ادا کیا ہے
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ،بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو ،خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
آج کے دور میں پاکستان جس بدترین لعنت کا شکار ہے وہ رشوت خوری کی قابل نفرت اور مہلک
مرض ہے۔ کہیں بھی کوئی کام رشوت کے بغیر کروانا تقریبا ً ناممکن نظر آتا ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ
یہ لعنت ایک پٹواری ،پولیس کے سپاہی اور کسٹم کے سٹاف ممبر سے لے کر پاکستان کے سب سے
بڑے عہدوں تک کینسر کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ رزق حالل ہی انسان کی
دائمی زندگی میں اُس کی نجات کا باعث بنے گا۔ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے عالمہ
اقبال نے اپنے اس شعر میں کوزے کے اندر سمندر بند کر دیا ہے۔
:عالمہ اقبال فرماتے ہیں
اے طائر الہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
بدقسمتی یہ ہے کہ اس دنیا کے اندر مال حرام کھانے والے ،دوسرے کو دھوکہ دینے والے اور
سرکاری خزانے کو لوٹنے والے ،یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہر لحاظ سے کامیاب حکمرانی کر رہے ہیں۔ یہ
نہ جانتے ہوئے کہ جس کو وہ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ،اللہ کی نگاہ میں وہ اُن کا نہایت ناپسندیدہ فعل
:بھی ہو سکتا ہے۔ ایک فرانسیسی دانشور نے کہا تھا
""You will have to wait until the evening to see how splendid the day has been
:اور اسی چیز کو عالمہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں یوں ادا کیا ہے
ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہے بہاراں
اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا
عالمہ اقبال یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’’ہماری عارضی زندگی اور موجودہ دنیا دکھ اور غم سے عبارت
ہے اور اس زندگی میں اللہ کے پاکیزہ ،بااُصول اور باکردار بندے اپنی صاف گوئی ،نیک نیتی اور حق
پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اُٹھاتے ہیں ،اُن کو اللہ ٰ
تعالی دائمی زندگی میں بہت زیادہ اپنے کرم اور
:رحم سے نوازتے ہیں۔ اسی لیے عالمہ اقبال نے انسان کے دل کو آئینے سے تشبیح دیتے ہوئے فرمایا
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ،تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگا ِہ آئینہ ساز میں
:یا پھر ٰ
اعلی کردار اور ایمان کی متاع کے حوالے سے وہ فرماتے ہیں
)ALLAMA IQBAL (5613
END TERM ASSESSMENT 2019
بس یہی ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
ہم کئی دفعہ سوچتے ہیں کہ جن ممالک کے پاس تیل اور گیس کے کنویں نہیں یا جن افراد کے پاس زر
اور دولت نہیں۔ وہ زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔ عالمہ اقبال فرماتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے۔ اُنہوں نے
:فرمایا
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
گر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں
عالمہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا ،یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح ،عالمہ اقبال کو
اپنے لیے مشعل راہ مانتے تھے۔ اُنہوں نے عالمہ کے خواب کو تعبیر میں بدل دیا۔ ابھی ہمیں اپنے
پاکستان کی حفاظت کرنی ہے ،جو ہم انشاء اللہ ضرور کریں گے ،لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ ہمیں
عالمہ اقبال کے کالم کو نہ صرف سمجھنا ہو گا بلکہ اُن کے افکار کو عملی جامہ پہنانا ہو گا۔ عالمہ
اقبال بغیر کسی شک کے ایک بہت بڑے مدبر ،عظیم شاعر ،بہترین سیاستدان ،دور رس سوچ والےاور
سب سے بڑھ کے ایک ٰ
اعلی ترین انسان تھے۔
References:
AIOU BOOK 5613