Professional Documents
Culture Documents
Urdu Sem 6
Urdu Sem 6
یونٹ ۲
اقبال بنیادی طور پر نظم گو شاعر ہیں۔ان کے مجموعی ذخیرہ سخن میں ایک صنف کی حیثیت سے ؔ عالمہ
میں ایک سو سولہ نظموں کے ساتھ کل ستائیس غزلیں غزل کا مقام ثانوی ہے۔ان کے پہلے مجموعہ کالم "بانگِ درا"
اقبال کا تعاقب کرتا رہا۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ
ؔ شامل ہیں۔ پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غزل کا آسیب مسلسل
انھوں نے کم و بیش اپنا تمام تر تخلیقی سفر غزل کے سائے میں طے کیا۔ان کی ابتدائی دور کی غزلوں اور نظموں پر
بہ یک وقت نگاہ ڈالی جائےتو اندازہ ہوتا ہے کہ غزلوں میں تقلید کا رنگ عیب کی حد نمایاں ہے۔جب کہ نظموں میں ان
کی خالقی اور فنکارانہ انفرادیت کا ایک واضح نقش ابھارتی ہے اور ان کی بنیادی شاعرانہ جوہر کا پتا دیتی ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کم و بیش ہر نظم کے آئینے میں غزل کا مخصوص سایہ مرتعش نظر آتاہےیعنی عالمہ اقبال
کے اکثر نظموں پر غزل کا اثر اور غزلوں پر نظموں کا اثر اور انظم کی خوبیاں خصوصا معنوی ربط اور تسلسل
جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔عام غزل گویوں کے برعکس اقبال ؔ نہ تو ریزہ خیال تھے نہ محض مستعار تجربوں
پر قانع۔ وہ اپنے تمام پیش رو اور معاصرین سے زیادہ باخبر ذہن رکھتے تھےان سب سے زیادہ مسسلسل اور مربوط
طریقے سے سوچ سکتے تھےکہ مرتب نظام اقدار اور اسلوب زیست میں ان کا یقین تھا۔
فلسفہ حیات اور شاید جرمن اثبات پرستوں سے متاثر ہونے کی وجہ سے وہ مبالغہ آمیز حد تک سنجیدہ تھے۔اس لئے
اکبر الہ آبادی سے متاثر ہونے کے باوجود ان کی ذہانت خوش طبعی کے باب میں ؔ
اکبر کے ایک خام ابتدائی دور میں ؔ
ؔ
تتبع کی حد سے آگے نہیں جاتی۔ اسی طرح داغ دہلوی سے تلمذ بھی عالمہ ا ؔ
قبال کی ادبی زندگی کے بس ایک واقعے
اکبر کی تقلید کی طرح بہت جلد ختم ہوگیا۔
کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سلسلہ بھی ؔ
اقبال کی بیشتر غزلیں یا تو ان کی نظم ہی کا قدرے نیم روشن روپ ہیں یا پھر نظمیں مسلسل غزلوں اور قطعہ
ؔ عالمہ
شکل۔اقبال نے غزل کے رسمی عالئم ،استعاروں اور مرکبات کو نظم میں بھی ایک نئی سطح پر
ؔ بند اشعار کی ایک
برتنے کی کوشش کی۔غزل کو انھوں نے ''عشق بازی بازناں و سخناں با زناں" یعنی عورتوں سے عشق بازی اور
عورتوں کے متعلق شاعری'' کے حصار سے نکاال تو یوں کہ اپنی نظم و غزل دونوں میں عشق کو قوت حیات اور اس
کے معامالت کو خود اپنے آپ سے یا خدابندے کے مابین مکالمے کی جہت دے دی۔
اقبال کی غزل گوئی کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی فکری عنصر ہے۔ اکثر ناقدین نے کہا ہے کہ ؔ عالمہ
شاعری کو فلسفہ و پیغام سے دور رہنا چاہئیے۔ غزل کا فن تو اور بھی نازک ہے ۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ غزل تو
غالب نے اس سمت میں پہال قدم اٹھایا اور اقبال نے تو ایک مکمل فلسفے کو غزل میں
ؔ فکر کا بار بھی نہیں اٹھا سکتی۔
سمو کر کما ِل فن کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے قوم سے نکالنے کے لئے خودی کا فلسفہ وضع کیاجسے نظموں میں پیش
کرنے کے عالوہ اشاروں اور کنایوں میں غزل میں بھی پیش کردیا
گہر میں آ ِ
ب گہر کے سوا کے کچھ اور نہیں
بےخطر کود پڑا آ ِ
تش نمرود میں عشق
ب بام ابھی
عقل ہےمحو تماشائے ل ِ
کامیاب شاعر ایک کامیاب مصور بھی ہوتا ہے۔ مصور رنگ اور برش سے تصویر بناتا ہے ۔ شاعر لفظوں سے ایسی
منہ بولتی تصویر بناتا ہے کہ وہ رنگوں سے بنی ہوئی تصویر سے بازی لے جاتی ہے۔اس فن میں عالمہ اقبال ؔ کو
مہارت حاصل ہے۔ بقول سنبل نگار "ان کے کلیات کو ایک دلکش آرٹ گیلری کہا جائے تو بجا ہے"۔
عالمہ اقبال ؔ کی غزلوں میں چند پیکر تراشی کے نمونے مالحظہ ہوں:
۔۔۔۔۔۔اودے اودے ،نیلے نیلے ،پیلے پیلے پیرہن پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطاراندرقطار
برگِ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی با ِد صبح۔۔۔۔۔اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن
عروج آ ِ
دم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں۔۔۔۔ کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
اقبال کی غزل گوئی بلکہ ان کے کالم کی ایک اہم خوبی موسقیت اور نغمگی ہے۔ موسقیت ایک ایسی خصوصیت ؔ عالمہ
اقبال کی طبیعت کو موسیقی سے گہری مناسبت تھی ۔انھوں نے ؔ ہے جس سے شعر کے حسن میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
اپنی شاعری میں دانستہ طور پر بلند آہنگ موسیقی کو اختیار کیا۔اسی لئے ان کی شاعری کا لہجہ نہایت بلند آہنگ ہے۔
اقبال کی ایک اور اہم خصوصیت تسلسل خیال ہے۔ ان کے یہاں ریزہ خیالی بہت ہی کم ہے۔ ان کا ایک خاص فلسفہؔ غز ِل
ہے ،ایک خاص پیغام ہے جسے وہ اپنے مخاطبین تک پہنچانا چاہتے ہیں۔اسی لئے ان کی غزل ادھر اُدھر نہیں بھٹکتی
ہے۔بلکہ اپنے مرکز پر مضبوطی سے قدم جمائے رہتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ان کی غزل میں معنوی تسلسل اور وحدت تاثر
کے جلوے نظر آتے ہیں۔
غزل کی اصل جوالں گاہ شاعر کی ذاتی واردات ہے۔ لیکن عالمہ اقبال ملّی و قومی مسائل کو غزل میں پیش کررہے
تھے اور ایک مقصد ِ خاص پیش نظر رکھتے تھے اس لئے ان کی غزل اجتماعی مقاصد کی ترجمان بن گئی اور اس
میں داخلیت کے ساتھ ساتھ خارجیت کا ہلکا سا رنگ بھی پیدا ہوگیا۔ گویا خارجیت بھی غز ِل اقبال ؔ کی ایک خصوصیت
ہے۔
اقبال نے تشبیہات و استعارات سے بھی بہت کام لیا ہے۔ لیکن ان کی نوعیت ترصیعی کم اور
ؔ اپنی غزل گوئی میں عالمہ
اقبال نے صراحت و وضاحت کا کام زیادہ لیا۔ صنائع بدائع بھی
ؔ توضیحی زیادہ ہے۔ مطلب یہ کہ وسائل ِ شعری سے
اقبال کی غزل میں بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن صنعت تلمیح سے انھوں نے خاص طور پر کام لیا۔ اس حوالےسے ؔ
آخر میں چند اشعار مالحظہ ہوں:
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا۔۔۔تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
ََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونٹ ۲
اقبال ن تجریدی تصورات کو جیتی جاگتی شکل میں پیش کیا اور غیر مرئی اشیا کی تجسیم کرکے خوبصورت ؔ عالمہ
پیکر بنائے۔ ان کے افکار اور تصورات استعاروں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔اس کی خوبصورت مثال " حقیقت ِ حسن"
ہے۔اس کے عالوہ "بانگ درا "کے حصہ سوم میں ستارہ ،نمودِصبح ،بزم انجم ،چاند ،شبنم اور ستارے ،آفتاب ،اور
پھول جیسی نظمیں ہیں جس میں شاعری اور فلسفے کا بہترین امتزاج ملتا ہے۔
ت عمل وطنی اور قومی شاعری میں انھوں نے حب الوطنی کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی ہےیا قوم کو دعو ِ
جوانان اسالم ،ہالل عید ،صدائے درد ،تصویر
ِ دی ہے۔ ہندوستانی بچوں کا گیت ،ترانہ ملی ،نیاشوالہ ،وطنیت ،خطاب بہ
اقبال نے قوم کو اتحاد و اتفاق کا پیام دیا ہے۔اس زمانے
ؔ درد ،ترانہ ہندی ،آفتاب اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ان نظموں نے
میں انھوں نے بچوں کے لئے بھی بہت ساری نظمیں لکھیں جن میں ایک مکڑی ایک مکھی ،ایک پہاڑ اور گلہری،
ایک گائے اور ایک بکری ،بچے کی دعا ،ماں کا خواب ،پرندے کی فریاد ،ہندوستانی بچوں کا گیت،اور ہمدردی اہم
ہیں۔ان میں بعض نطمیں مشہور شعراء ایمرسن ،کوپر ،النگ فیلو ،اور ٹینی سن کے خیاالت سے متاثر ہو کر لکھیں۔
تاریخی نظموں میں ہالل ،صقیلہ ،غالم قادر رہیلہ،حضور رسالت مآب میں ،فاطمہ بنت عبدہللا ،محاصرہ اورنہ ،صدیق
اکبر ،بالد اسالمیہ قابل ذکر ہیں۔ان نظموں میں تاریخی واقعات نظم کی ہے یا مشاہیر اسالم کو موضوع بنایا ہے۔
اقبال نے یورپ کا سفر کیااور انھوں نے وہاں تین سال قیام کیا۔ یورپ کے قیام کے دوران ان کے
ؔ ۱۹۰۵میں عالمہ
خیاالت میں ایک عظیم انقالب آیا۔وہاں کی سیاست کو انھوں نے قریب سے دیکھا۔ ان کی تہذیب کی حقیقت کا پتہ چال۔
انھیں احساس ہوا کہ قومیت و وطنیت انسان کا نظریہ انسانوں کے حق میں مفید ثابت نہیں ہوسکتا۔اس سے تعصب اور
اقبال
ؔ منکر خد ا ہیں۔
ِ ہے۔اقبال نے دیکھا کہ مغربی تہذیب کی بنیاد مادیت پرستی پر ہے۔ وہ
ؔ تنگ نظری کو فوقیت ملتی
اس نتیجے پر پہنچے کہ دنیاکی نجات اسالمی اصولوں کی تبلیغ و اشاعت میں مضمر ہے۔ ۱۹۰۸سے ۱۹۰۳۸تک
اقبال کی نظموں میں ایک جداگانہ انقالبی رنگ حاوی ہے۔ان کی اس تبدیلی کا مظہر ان کی نظم "طلبہ علی گڑھ کالجؔ
کے نام" ہے جو انھوں نے یورپ میں قیام کے دوران ۱۹۰۷میں لکھی۔
اقبال نے نظم"صقیلہ"لکھی۔ جزیرہ سسلی کو عربی میں صقیلہ کہتے ہیں۔عربوں نے اس ؔ یورپ سے واپسی کے بعد
تھا۔اقبال نے صقیلہ کو تہذیب حجازی کا
ؔ جزیرے کوتہذیب وتمدن اور علم و فضل اور صنعت و حرفت سے ماالمال کیا
اقبال کی نطموں کا موضوع فلسفہ خودی ،فلسفہ بے خودی اور عشق ہوگیا۔انھوں نے اپنی ؔ مزرا کہا۔ اس دور میں
شاعرانہ قوت کو مسلمانوں کو جگانے اور ان کے دل میں ولولہ پیدا کرنے کے لئے وقف کردیا۔انھوں نے قوم کو عمل،
امید اور یقین کا پیغام دیا۔ اطاعت اسالم کے جذبے کوابھارا ،مغرب کی مادہ پرست تہذیب کے خطرات سے آگاہ کیا۔
خطاب بہ جوانان ِ اسالم ،مسلم ،شعاع امید ،آفتاب ،نوید صبح ،شکوہ ،جواب شکوہ ،شمع اور شاعر ،خضر راہ ،اور
اقبال کی پہلی طویل نظم ہےجو انھوں نے ۱۹۱۱میں لکھی ،اس ؔ طلوع اسالم ان خیاالت کی ترجمانی کرتی ہیں۔ شکوہ
دور عظمت و شوکت کا حال اور موجودہ زبوں حالی کو نہایت فنکارانہ انداز میں نظم میں انھوں نے مسلمانوں کے ِ
ب شکوہ" لکھی۔ اس نظم میں انھوں نے ہللا تعالی کی پیش کیاجو بے حد مقبول ہوئی۔ "شکوہ "کے ڈیڑہ سال بعد "جوا ِ
جانب سے مسلمانوں کو مخاطب کیا۔ یہ نظم بیانیہ انداز کی ہے۔ڈرامائی انداز نے اس کی تاثیر میں اضافہ کیا ہے کہیں
کہیں طنزیہ انداز سیدھا دل میں اتر جاتا ہے ۔ جیسے
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی افغان بھی ہو ۔۔۔۔۔تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر۔۔۔۔ اور تم خوار ہوئے تارکِ قراں ہو کر
حرم ِ پاک بھی ہللا ،قران بھی ایک ۔۔۔۔کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک۔
محمد سے وفا تم نے تو ہم تیرے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
ؑ کی
غالب کے بعد سب سے بڑے شاعر ہیں ۔ وہ بنیادی طور پر نظم گو شاعر ہیں ؔ میر و
اقبال اردو ادب میں ؔ
ؔ غرض عالمہ
اگرچہ غزل کے شاعر کے طور پر بھی ان کی اپنی ایک منفرد شناخت اور انداز ہے جس کوئی بھی انکار نہیں کر
اقبال کے کالم اور ان کی نظموں میں زبان وبیان کی ساری
ؔ سکتا۔ اس بحث کو سمیٹنے کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ
بال کے کالم میں رمزیت وعالمت نگاری ملتی ہیں لیکن یہخوبیاں موجود ہیں۔ انھوں نے اپنی زبان اختراع کی۔ اق ؔ
اقبال نے اپنی شاعری میں فلسفیانہ مضامین باندھے۔ معلمانہ انداز میں مقصدی شاعری کی
ؔ عالمتیں معمہ نہیں بنتیں۔
خون جگر شامل ہےِ لیکن اسے خشک اور بے رنگ نہیں ہونے دیا۔ ان کی شاعری میں ان کا
یونٹ سوم
سبزہ وگل کہا ں سے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
اقبال کے فلسفہ حیات و کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اگر خودی کے تصور کو سمجھ لیا ؔ تصور ِ خودی کو
اقبال کی شاعری کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔اقبالیات کے ہر نقاد نے کسی نہ کسی شکل میں خودی پر اظہار
ؔ جائے تو
خیال کیا ہے۔ڈاکٹر سید عبدہللا اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
"خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے۔خودی عشق کے مترادف ہے۔خودی ذوق تسخیرکا نام ہے۔
خودی سے مراد خود آگاہی ہے۔خودی ذوق طلب ہے۔ خودی ایمان کے مترادف ہے۔خودی
سرچشمہ جدت و ندرت ہے۔خودی یقین کی گہرائی ہے۔ خودی سوزحیات کا سرچشمہ ہے اور
ذوق تخلیق کا ماخذہے"۔
اقبالؔ کے ہاں خودی سے مراد:خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے درج ذیل
معانی رکھتا ہے:
"اس راہ میں ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہےاور وہ رہنما عشق ہے عشق اُس مرد کامل کی محبت
کو کہتے ہیں جو معرفت نفس کے مدراج سے گزر خود ی کی معراج پر پہنچ چکا ہے۔"
سر نیاز جھکانا تو خودی کو مستحکم کرتا خودی اور فقر:طلب و ہدایت کے لیے کسی مر ِد کامل کے آگے ِ
ہے لیکن مال ودولت و منصب کے لئے دست نگر ہونا اس کو ضعیف بناتا ہے۔فقر گدائی نہیں۔ فقر اور گدائی
میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ گدائی مال کی حاجت میں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیالتا ہے جبکہ فقرمادی
لذتوں
سے بےنیاز ،کائنات کی تسخیر کرنا ،فطرت پر حکمرانی کرنا ،اور مظلموں کو ظالموں کے پنجے سے
نجات دالنا ہے۔
ت خودی کے تین مدارج:خو دی سے تعمیری کام لینے کے لئےاس کی تربیت ضروری ہے بے قید و تربی ِ
اقبال بھی گوئٹے کی طرح اسے تخلیق کی عظیم الشان قوت سمجھتے ؔ بے ترتیب خودی کی مثال شیطان ہے۔
ہیں جو صراط مستقیم سے بھٹک گئی ہے۔خودی کی منازل کے عالوہ تربیت خودی کے مراحل انتہائی اہم
ہیں یہ مراحل تین ہیں:
ٰ
اقبال کے نزدیک خودی کا پہال درجہ اطاعت الہی ہے۔یعنی ہللا پاک کے قانون حیات اور ؔ ۱۔ اطاعت ٰالہی:۔
احکام کو بجا النا اور جن چیزوں سے باز رہنے کا حکم ہے اُن سے باز رہنا۔
۲۔ ضبط نفس:دوسرا درجہ ضبط نفس ہے۔انسان نفس کا جس کی سرکشی کی کوئی حد نہیں قابو میں الئے۔
۳۔ نیابت ٰالہی:ان دونوں مدراج سے گزر نے کے بعد انسان اس درجے پر فائز ہو جائے گا۔ جسے انسانیت کا
اوج کمال سمجھنا چاہئیے ۔ یہ نیابت ٰالہی کا درجہ ارتقائے خودی کا بلند ترین نصب العین ہے۔ِ
خودی اور خدا کا تعلق
طالب خودی "مردخدا"کی محبت اس قدر برتر اور سرشار ہوتی ہے کہ اور کیف و سرور کی وجہ سے خدا
کی اتنی محبت اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہےکہ وہ خودی کے کل مراحل طے کرنے کے باوجود اپنے آپ
کوناتمام محسوس کرتا ہےاسی کشش کا نام عشق ِ حقیقی ہے۔
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں۔۔۔۔یا خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آبجو۔۔۔یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر
بندگی میں انسان کو سکون ملتا ہے بہرحال یہ جدائی انسان کے لئے مبارک ہے کیونکہ یہی خودی وجہ حیات
ہے۔
………………………………………………………………………..,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
……………………………………..
اقبال کے کالم میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہےان صفات کے ؔ
بار بار تذکرہ اس صورت سے کیا گیا ہےکہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے
سامنےآجاتے ہیں۔یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے۔اور
ت ٰالہی اور نیابت ٰالہی طے کرنے کے بعدتربیت ا و ر استحکام خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس،اطاع ِ
اشرف المخلوقات اور خلیفتہ ہللا فی االرض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ اس کے کردار اور شخصیت
اقبال کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں:
ؔ کی اہم خصوصیات کالم
)۱تجدید حیات
اقبال کا مرد مومن حیات و کائنات کےقوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے واال ہے۔قرآن
ؔ
مجید نے انسانوں کو تسخیر کائنات کی تعلیم دی ہے۔اور مرد مومن عناصر فطرت کو قبضے میں لے کر ان
کی باگ اپنی مرضی کے مطابق موڑتا ہے۔وہ وقت کا شکار نہیں بلکہ وقت اس کے قبضے میں ہوتا ہے۔
جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی ۔۔۔۔مرے کالم پہ حجت ہے نکتہ لوالک
مہر ومہ و انجم کا محاسب ہے قلندر۔۔۔ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
گویا کافر کا کمال صرف مادہ کی تسخیر ہےلیکن مرد مومن مادی تسخیر کو اپنا مقصود قرار نہیں دیتابلکہ
اپنے باطن سے نئے جہانوں کی تخلیق کرتا ہے۔ وہ زمان ومکان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔وہ اپنے عمل
سے تجدید حیات کرتا ہے۔اس کی تخلیق دوسروں کے لئے شمع ہدایت بنتی ہے۔
)۲عشق
بندہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں کی عشق کے تابع رکھے۔ نہ صرف خودی کا
مرہون منت بلکہ تسخیر ذات اور تسخیر کائنات کے لئے بھی عشق ضروری ہے۔ اور ِ استحکام عشق کا
اعلی ترین نصب العین کے لئے سچی لگن ،مقصد آفرینی کا سرچشمہ ،یہ جذبہ انسان کو ٰ عشق کیا ہے؟
ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنی آرزؤں کو پورا کرنے کے لئے سرگرم عمل رکھتا ہے۔یہ جذبہ مرد مومن کو خدا
رسول کے ساتھ گہری محبت کے بدولت عطا ہوتا ہے۔ اس کے زریعے سے اس کے اعمال ؑ اور ا س کے
صالح اور پاکیزہ ہوجاتے ہیں۔ اسے دل ونگاہ کی مسلمانی حاصل ہوتی ہے۔ اور کردار میں پختگی آجاتی ہے۔
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو ۔۔۔۔ ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
یہی جذبہ عشق ہے جو مسلمان کو کافر سے جدا کرتا ہے۔
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی ۔۔۔۔۔نہ ہو تو مر ِد مسلماں بھی کافر و زندیق
)۳جہد وعمل
اقبال جسے مستی کردار کہتے ہیں وہ دراصل عمل اور جدوجہد کا دوسرا نام ہے۔ ان کے ہاں پیہم عمل اور ؔ
مسلسل جدوجہد کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ مرد مومن کے لئے عمل سے ایک لمحہ کے لئے بھی مفر
نہیں۔
عمل سے ز ندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔۔۔ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم ۔۔۔۔جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
)۴جمال و جالل
مرد مومن کی ذات میں جمالی اور جاللی دونوں کیفیات بیک وقت موجود ہوتی ہیں۔ بظاہر یہ کیفیات متضاد
نظر آتی ہیں لیکن بباطن یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں اور مرد مومن کی زندگی ان دونوں صفات کی حامل
ہوتی ہے۔ وہ درویشی و سلطانی اور قاہری اور دلبری کی صفات کا بیک وقت حامل ہوتا ہے۔ اس کی سیرت
میں نرمی اور سختی کا امتزاج ہوتا ہے اور اس کے مضبوط و قوی جسم کے پہلو میں ایک د ِل درد آشنا ہوتا
ہے جو بے غرض ،بے لوث ،پاک اور نفسانیت سے خالی ہوتا ہے۔
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جیل۔۔۔۔اس کی ادا دل فریب اس کی نگہ دل نواز
دم جستجو۔۔۔رزم ہو کہ بزم ہوپاک دل و پاک باز نرم دم ِ گفتگو ،گرم ِ
)۵حق گوئی و بے باکی
مرد مومن جرات مند ،بے خوف اور حق گو ہوتا ہے۔ اس سے نہ جابر و قاہر انسان خوف زدہ
کرسکتے ہیں اور نہ موت اسے ڈرا سکتی ہے۔ وہ ایمان کی قوت سے حق وہ صداقت کا پرچم بلند کرتا
ہے اور شر کی قوتوں کے مقابلے میں پوری قوت کے ساتھ اس طرح ڈٹ جاتا ہے کہ انھیں پسپا ہونا
پڑتا ہے اس پھر معاشرہ اسی نصب العین کی جانب رجوع کرتاہے جو مرد مومن کا مقصود زندگی ہے۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن۔۔۔ گفتار میں کردار میں ہللا کی برہان
)۶فقر و استغنا
مرد مومن کا ایک امیتازی وصف فقرو استغنا ہے۔ وہ نظشے کے مرد بر تر کی طرح تکبر و غرور کا
اقبال کے ہاں تو فقر کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ وہ اسالم کو فقر غیور کی ؔ مجسمہ نہیں ۔ بلکہ
اقبال نے بار بار زور دیا ہے۔ اور اس سے ؔ اصطالح سے تعبیر کرتے ہیں۔ درویشی ،فقر اور قلندری پر
تکمیل ِ خودی کے لئے الزمی اور انتہائی اہم عنصر کی حیثیت دی گئی ہے۔ فقر ارتقائے خودی سے
انسان کامل کے فقر اور فقر کافر (رہبانیت) میں بڑا بنیاد ی فرق ہے۔ رہبانیت جنگل میںِ حاصل ہوتا ہے
پناہ ڈھونڈتی ہے۔ فقر کائنات کی تسخیر کرتا ہے اور اس کے لئے اپنی خودی کو فروغ دیتا ہے۔ فقر کا
کام رہبانیت کے گوشہ عافیت میں پناہ لینا نہیں بلکہ فطرت کے اسراف اور معاشرت کے شر اور
ناانصافی کا مقابلہ کرنا ہے۔خواہ اس میں سخت سے سخت اندیشہ ہی کیوں نہ ہو۔
شبیری۔۔۔۔۔ کہ فقر خانقاہی فقط اندوہ و دل گیری
ؑ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم
ب سلیم،اقبال کے مرد مومن میں عدل ،حیا ،خوفِ خدا ،قل ِؔ ان بڑی بڑی اور اہم صفات کے عالوہ عالمہ
قوت ،صدق ،قدوسی ،جبروتی ،بلند پروازی ،پاک ضمیری ،نیکی ،پاکیزگی وغیرہ شامل ہیں۔