You are on page 1of 9

‫‪6th Semester‬‬ ‫‪Urdu Literature‬‬

‫عالمہ اقبال ؔخصوصی مطالعہ‬

‫یونٹ ‪۲‬‬

‫عالمہ اقبالؔ کی غزل گوئی‬

‫اقبال بنیادی طور پر نظم گو شاعر ہیں۔ان کے مجموعی ذخیرہ سخن میں ایک صنف کی حیثیت سے‬ ‫ؔ‬ ‫عالمہ‬
‫میں ایک سو سولہ نظموں کے ساتھ کل ستائیس غزلیں غزل کا مقام ثانوی ہے۔ان کے پہلے مجموعہ کالم "بانگِ درا"‬
‫اقبال کا تعاقب کرتا رہا۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ‬
‫ؔ‬ ‫شامل ہیں۔ پھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غزل کا آسیب مسلسل‬
‫انھوں نے کم و بیش اپنا تمام تر تخلیقی سفر غزل کے سائے میں طے کیا۔ان کی ابتدائی دور کی غزلوں اور نظموں پر‬
‫بہ یک وقت نگاہ ڈالی جائےتو اندازہ ہوتا ہے کہ غزلوں میں تقلید کا رنگ عیب کی حد نمایاں ہے۔جب کہ نظموں میں ان‬
‫کی خالقی اور فنکارانہ انفرادیت کا ایک واضح نقش ابھارتی ہے اور ان کی بنیادی شاعرانہ جوہر کا پتا دیتی ہے۔‬

‫اس حقیقت کے باوجود کم و بیش ہر نظم کے آئینے میں غزل کا مخصوص سایہ مرتعش نظر آتاہےیعنی عالمہ اقبال‬
‫کے اکثر نظموں پر غزل کا اثر اور غزلوں پر نظموں کا اثر اور انظم کی خوبیاں خصوصا معنوی ربط اور تسلسل‬
‫جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔عام غزل گویوں کے برعکس اقبال ؔ نہ تو ریزہ خیال تھے نہ محض مستعار تجربوں‬
‫پر قانع۔ وہ اپنے تمام پیش رو اور معاصرین سے زیادہ باخبر ذہن رکھتے تھےان سب سے زیادہ مسسلسل اور مربوط‬
‫طریقے سے سوچ سکتے تھےکہ مرتب نظام اقدار اور اسلوب زیست میں ان کا یقین تھا۔‬

‫مزاج کے اعتبار سے وہ کتنے ہی شگفتہ رہے ہوں ‪ ،‬شاعری میں اپنے‬

‫فلسفہ حیات اور شاید جرمن اثبات پرستوں سے متاثر ہونے کی وجہ سے وہ مبالغہ آمیز حد تک سنجیدہ تھے۔اس لئے‬
‫اکبر الہ آبادی سے متاثر ہونے کے باوجود ان کی ذہانت خوش طبعی کے باب میں ؔ‬
‫اکبر کے ایک خام‬ ‫ابتدائی دور میں ؔ‬
‫ؔ‬
‫تتبع کی حد سے آگے نہیں جاتی۔ اسی طرح داغ دہلوی سے تلمذ بھی عالمہ ا ؔ‬
‫قبال کی ادبی زندگی کے بس ایک واقعے‬
‫اکبر کی تقلید کی طرح بہت جلد ختم ہوگیا۔‬
‫کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سلسلہ بھی ؔ‬

‫اقبال کی بیشتر غزلیں یا تو ان کی نظم ہی کا قدرے نیم روشن روپ ہیں یا پھر نظمیں مسلسل غزلوں اور قطعہ‬
‫ؔ‬ ‫عالمہ‬
‫شکل۔اقبال نے غزل کے رسمی عالئم‪ ،‬استعاروں اور مرکبات کو نظم میں بھی ایک نئی سطح پر‬
‫ؔ‬ ‫بند اشعار کی ایک‬
‫برتنے کی کوشش کی۔غزل کو انھوں نے ''عشق بازی بازناں و سخناں با زناں" یعنی عورتوں سے عشق بازی اور‬
‫عورتوں کے متعلق شاعری'' کے حصار سے نکاال تو یوں کہ اپنی نظم و غزل دونوں میں عشق کو قوت حیات اور اس‬
‫کے معامالت کو خود اپنے آپ سے یا خدابندے کے مابین مکالمے کی جہت دے دی۔‬

‫اقبال کی غزل گوئی کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی فکری عنصر ہے۔ اکثر ناقدین نے کہا ہے کہ‬ ‫ؔ‬ ‫عالمہ‬
‫شاعری کو فلسفہ و پیغام سے دور رہنا چاہئیے۔ غزل کا فن تو اور بھی نازک ہے ۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ غزل تو‬
‫غالب نے اس سمت میں پہال قدم اٹھایا اور اقبال نے تو ایک مکمل فلسفے کو غزل میں‬
‫ؔ‬ ‫فکر کا بار بھی نہیں اٹھا سکتی۔‬
‫سمو کر کما ِل فن کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے قوم سے نکالنے کے لئے خودی کا فلسفہ وضع کیاجسے نظموں میں پیش‬
‫کرنے کے عالوہ اشاروں اور کنایوں میں غزل میں بھی پیش کردیا؂‬

‫گراں بہا ہے تو حفظِ خودی سے ہے ورنہ‬

‫گہر میں آ ِ‬
‫ب گہر کے سوا کے کچھ اور نہیں‬
‫بےخطر کود پڑا آ ِ‬
‫تش نمرود میں عشق‬

‫ب بام ابھی‬
‫عقل ہےمحو تماشائے ل ِ‬

‫کامیاب شاعر ایک کامیاب مصور بھی ہوتا ہے۔ مصور رنگ اور برش سے تصویر بناتا ہے ۔ شاعر لفظوں سے ایسی‬
‫منہ بولتی تصویر بناتا ہے کہ وہ رنگوں سے بنی ہوئی تصویر سے بازی لے جاتی ہے۔اس فن میں عالمہ اقبال ؔ کو‬
‫مہارت حاصل ہے۔ بقول سنبل نگار "ان کے کلیات کو ایک دلکش آرٹ گیلری کہا جائے تو بجا ہے"۔‬

‫عالمہ اقبال ؔ کی غزلوں میں چند پیکر تراشی کے نمونے مالحظہ ہوں‪:‬‬

‫۔۔۔۔۔۔اودے اودے‪ ،‬نیلے نیلے‪ ،‬پیلے پیلے پیرہن‬ ‫پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطاراندرقطار‬

‫برگِ گل پر رکھ گئی شبنم کا موتی با ِد صبح۔۔۔۔۔اور چمکاتی ہے اس موتی کو سورج کی کرن‬

‫عروج آ ِ‬
‫دم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں۔۔۔۔ کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے‬

‫اقبال کی غزل گوئی بلکہ ان کے کالم کی ایک اہم خوبی موسقیت اور نغمگی ہے۔ موسقیت ایک ایسی خصوصیت‬ ‫ؔ‬ ‫عالمہ‬
‫اقبال کی طبیعت کو موسیقی سے گہری مناسبت تھی ۔انھوں نے‬ ‫ؔ‬ ‫ہے جس سے شعر کے حسن میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‬
‫اپنی شاعری میں دانستہ طور پر بلند آہنگ موسیقی کو اختیار کیا۔اسی لئے ان کی شاعری کا لہجہ نہایت بلند آہنگ ہے۔‬

‫اقبال کی ایک اور اہم خصوصیت تسلسل خیال ہے۔ ان کے یہاں ریزہ خیالی بہت ہی کم ہے۔ ان کا ایک خاص فلسفہ‬‫ؔ‬ ‫غز ِل‬
‫ہے‪ ،‬ایک خاص پیغام ہے جسے وہ اپنے مخاطبین تک پہنچانا چاہتے ہیں۔اسی لئے ان کی غزل ادھر اُدھر نہیں بھٹکتی‬
‫ہے۔بلکہ اپنے مرکز پر مضبوطی سے قدم جمائے رہتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ان کی غزل میں معنوی تسلسل اور وحدت تاثر‬
‫کے جلوے نظر آتے ہیں۔‬

‫غزل کی اصل جوالں گاہ شاعر کی ذاتی واردات ہے۔ لیکن عالمہ اقبال ملّی و قومی مسائل کو غزل میں پیش کررہے‬
‫تھے اور ایک مقصد ِ خاص پیش نظر رکھتے تھے اس لئے ان کی غزل اجتماعی مقاصد کی ترجمان بن گئی اور اس‬
‫میں داخلیت کے ساتھ ساتھ خارجیت کا ہلکا سا رنگ بھی پیدا ہوگیا۔ گویا خارجیت بھی غز ِل اقبال ؔ کی ایک خصوصیت‬
‫ہے۔‬

‫اقبال نے تشبیہات و استعارات سے بھی بہت کام لیا ہے۔ لیکن ان کی نوعیت ترصیعی کم اور‬
‫ؔ‬ ‫اپنی غزل گوئی میں عالمہ‬
‫اقبال نے صراحت و وضاحت کا کام زیادہ لیا۔ صنائع بدائع بھی‬
‫ؔ‬ ‫توضیحی زیادہ ہے۔ مطلب یہ کہ وسائل ِ شعری سے‬
‫اقبال کی غزل میں بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن صنعت تلمیح سے انھوں نے خاص طور پر کام لیا۔ اس حوالےسے‬ ‫ؔ‬
‫آخر میں چند اشعار مالحظہ ہوں‪:‬‬

‫۔۔۔۔۔کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر‬


‫ِ‬ ‫باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں‬

‫تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا۔۔۔تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں‬

‫ََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‪،،،،،،،،،،،،،،،،،،،‬۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫یونٹ ‪۲‬‬

‫عالمہ اقبالؔ کی نظم نگاری‬


‫اقبال لیکن اقبال ؔ کی نظموں کی تعداد غزلوں کے مقابلےمیں زیادہ‬
‫ؔ‬ ‫اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا‬‫ؔ‬ ‫عالمہ‬
‫اقبال نے کبھی ہئیت کو اہمیت نہیں دی۔ان کی غزلوں میں تسلسل اور‬ ‫ؔ‬ ‫ہے اور ان کی شہرت بحیثیت نظم گو شاعر ہے۔‬
‫ہے۔اقبال کے پہلے شعری مجموعے "بانگِ درا" میں حسن فطرت سے دلچسپی اور حب‬ ‫ؔ‬ ‫نظموں میں رنگِ تغزل ملتا‬
‫الوطنی کے جذبات نمایاں نظر آتے ہیں۔با ِل جبرئیل کی شاعری میں مفکرانہ پہلو کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں‬
‫ارمغان حجاز کی نظموں میں پر فلسفیانہ انداز ‪ ،‬ڈرامائی انداز اور‬
‫ِ‬ ‫ب کلیم اور‬
‫پختگی اور شاعرانہ انداز ہیں۔ ضر ِ‬
‫"کوہستان ہمالہ " کے‬
‫ِ‬ ‫خطابت حاوی ہے۔"ہمالہ"اقبال کی پہلی مطبوعہ نظم ہے جو مخزن الہور کے پہلے شمارے میں‬
‫عنوان سے شائع ہوئی اور بانگ درا میں "ہمالہ" کے عنوان سے شامل کی گئی۔مناظر ِ فطرت سے دلچسپی سے‬
‫اقبال نے نیچرل نظمیں لکھیں اور مناظر قدرت‬ ‫ؔ‬ ‫دلچسپی بعد کے نظموں میں بھی نظر آتی ہے۔ابتدائی دور میں عالمہ‬
‫کے مختلف مرقعوں کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انسانیت کو فطرت کا پیام دیا۔ ایسی نظموں میں"گل‬
‫ب صبح"‪" ،‬چاند" "جگنو" شمع" ما ِہ نو" "انسان اور بزم قدرت" "ایک آرزو" "موج‪ ،‬دریا" "ابر"‬ ‫رنگیں"‪"،‬ابرکہسار"‪،‬آفتا ِ‬
‫"کنارہ" " راوی" وغیرہ قابل ذکر ہیں۔"ایک آرزو" شاعرانہ مصوری اور پیکر تراشی کی عمدہ مثال ہے۔‬

‫اقبال ن تجریدی تصورات کو جیتی جاگتی شکل میں پیش کیا اور غیر مرئی اشیا کی تجسیم کرکے خوبصورت‬ ‫ؔ‬ ‫عالمہ‬
‫پیکر بنائے۔ ان کے افکار اور تصورات استعاروں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔اس کی خوبصورت مثال " حقیقت ِ حسن"‬
‫ہے۔اس کے عالوہ "بانگ درا "کے حصہ سوم میں ستارہ‪ ،‬نمودِصبح ‪ ،‬بزم انجم‪ ،‬چاند‪ ،‬شبنم اور ستارے‪ ،‬آفتاب‪ ،‬اور‬
‫پھول جیسی نظمیں ہیں جس میں شاعری اور فلسفے کا بہترین امتزاج ملتا ہے۔‬

‫ت عمل‬ ‫وطنی اور قومی شاعری میں انھوں نے حب الوطنی کے جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی ہےیا قوم کو دعو ِ‬
‫جوانان اسالم‪ ،‬ہالل عید‪ ،‬صدائے درد‪ ،‬تصویر‬
‫ِ‬ ‫دی ہے۔ ہندوستانی بچوں کا گیت‪ ،‬ترانہ ملی‪ ،‬نیاشوالہ‪ ،‬وطنیت‪ ،‬خطاب بہ‬
‫اقبال نے قوم کو اتحاد و اتفاق کا پیام دیا ہے۔اس زمانے‬
‫ؔ‬ ‫درد‪ ،‬ترانہ ہندی‪ ،‬آفتاب اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ان نظموں نے‬
‫میں انھوں نے بچوں کے لئے بھی بہت ساری نظمیں لکھیں جن میں ایک مکڑی ایک مکھی‪ ،‬ایک پہاڑ اور گلہری‪،‬‬
‫ایک گائے اور ایک بکری‪ ،‬بچے کی دعا‪ ،‬ماں کا خواب‪ ،‬پرندے کی فریاد‪ ،‬ہندوستانی بچوں کا گیت‪،‬اور ہمدردی اہم‬
‫ہیں۔ان میں بعض نطمیں مشہور شعراء ایمرسن‪ ،‬کوپر‪ ،‬النگ فیلو‪ ،‬اور ٹینی سن کے خیاالت سے متاثر ہو کر لکھیں۔‬

‫گورستان شاہی‪ ،‬اور شبنم اور ستارے شامل ہیں۔ ان‬


‫ِ‬ ‫اخالقی نظموں میں گل پژمردہ‪ ،‬زہد اور رندی‪،‬طف ِل شیر خوار‪،‬‬
‫نطموں میں انھوں نے اخالق حسنہ پیدا کرنے کی تلقین کی ہےیا سبق آموز واقعات کو نطم کیا ہے۔‬

‫تاریخی نظموں میں ہالل‪ ،‬صقیلہ‪ ،‬غالم قادر رہیلہ‪،‬حضور رسالت مآب میں‪ ،‬فاطمہ بنت عبدہللا‪ ،‬محاصرہ اورنہ‪ ،‬صدیق‬
‫اکبر‪ ،‬بالد اسالمیہ قابل ذکر ہیں۔ان نظموں میں تاریخی واقعات نظم کی ہے یا مشاہیر اسالم کو موضوع بنایا ہے۔‬

‫اقبال نے حیات‪ ،‬ماخذ حیات‪،‬‬


‫ؔ‬ ‫اقبال کی ابتدائی نظموں میں تالش‪ ،‬تحقیق‪ ،‬اور تجسس کا رنگ گہرا ہے۔ اس دور میں‬
‫ؔ‬
‫مقصد حیات‪ ،‬حیات بعدالموت‪ ،‬شعور‪ ،‬ذات ‪ ،‬خودی‪ ،‬بے خودی‪ ،‬حسن وعشق کے بارے میں غورو فکر کی۔‬

‫اقبال نے یورپ کا سفر کیااور انھوں نے وہاں تین سال قیام کیا۔ یورپ کے قیام کے دوران ان کے‬
‫ؔ‬ ‫‪ ۱۹۰۵‬میں عالمہ‬
‫خیاالت میں ایک عظیم انقالب آیا۔وہاں کی سیاست کو انھوں نے قریب سے دیکھا۔ ان کی تہذیب کی حقیقت کا پتہ چال۔‬
‫انھیں احساس ہوا کہ قومیت و وطنیت انسان کا نظریہ انسانوں کے حق میں مفید ثابت نہیں ہوسکتا۔اس سے تعصب اور‬
‫اقبال‬
‫ؔ‬ ‫منکر خد ا ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫ہے۔اقبال نے دیکھا کہ مغربی تہذیب کی بنیاد مادیت پرستی پر ہے۔ وہ‬
‫ؔ‬ ‫تنگ نظری کو فوقیت ملتی‬
‫اس نتیجے پر پہنچے کہ دنیاکی نجات اسالمی اصولوں کی تبلیغ و اشاعت میں مضمر ہے۔‪ ۱۹۰۸‬سے ‪ ۱۹۰۳۸‬تک‬
‫اقبال کی نظموں میں ایک جداگانہ انقالبی رنگ حاوی ہے۔ان کی اس تبدیلی کا مظہر ان کی نظم "طلبہ علی گڑھ کالج‬‫ؔ‬
‫کے نام" ہے جو انھوں نے یورپ میں قیام کے دوران ‪ ۱۹۰۷‬میں لکھی۔‬
‫اقبال نے نظم"صقیلہ"لکھی۔ جزیرہ سسلی کو عربی میں صقیلہ کہتے ہیں۔عربوں نے اس‬ ‫ؔ‬ ‫یورپ سے واپسی کے بعد‬
‫تھا۔اقبال نے صقیلہ کو تہذیب حجازی کا‬
‫ؔ‬ ‫جزیرے کوتہذیب وتمدن اور علم و فضل اور صنعت و حرفت سے ماالمال کیا‬
‫اقبال کی نطموں کا موضوع فلسفہ خودی‪ ،‬فلسفہ بے خودی اور عشق ہوگیا۔انھوں نے اپنی‬ ‫ؔ‬ ‫مزرا کہا۔ اس دور میں‬
‫شاعرانہ قوت کو مسلمانوں کو جگانے اور ان کے دل میں ولولہ پیدا کرنے کے لئے وقف کردیا۔انھوں نے قوم کو عمل‪،‬‬
‫امید اور یقین کا پیغام دیا۔ اطاعت اسالم کے جذبے کوابھارا‪ ،‬مغرب کی مادہ پرست تہذیب کے خطرات سے آگاہ کیا۔‬
‫خطاب بہ جوانان ِ اسالم‪ ،‬مسلم‪ ،‬شعاع امید‪ ،‬آفتاب‪ ،‬نوید صبح‪ ،‬شکوہ‪ ،‬جواب شکوہ‪ ،‬شمع اور شاعر‪ ،‬خضر راہ‪ ،‬اور‬
‫اقبال کی پہلی طویل نظم ہےجو انھوں نے ‪ ۱۹۱۱‬میں لکھی‪ ،‬اس‬ ‫ؔ‬ ‫طلوع اسالم ان خیاالت کی ترجمانی کرتی ہیں۔ شکوہ‬
‫دور عظمت و شوکت کا حال اور موجودہ زبوں حالی کو نہایت فنکارانہ انداز میں‬ ‫نظم میں انھوں نے مسلمانوں کے ِ‬
‫ب شکوہ" لکھی۔ اس نظم میں انھوں نے ہللا تعالی کی‬ ‫پیش کیاجو بے حد مقبول ہوئی۔ "شکوہ "کے ڈیڑہ سال بعد "جوا ِ‬
‫جانب سے مسلمانوں کو مخاطب کیا۔ یہ نظم بیانیہ انداز کی ہے۔ڈرامائی انداز نے اس کی تاثیر میں اضافہ کیا ہے کہیں‬
‫کہیں طنزیہ انداز سیدھا دل میں اتر جاتا ہے ۔ جیسے‬

‫یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی افغان بھی ہو ۔۔۔۔۔تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو‬

‫وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر۔۔۔۔ اور تم خوار ہوئے تارکِ قراں ہو کر‬

‫حرم ِ پاک بھی ہللا‪ ،‬قران بھی ایک ۔۔۔۔کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک۔‬

‫یہ نظم اس خوبصورت نعتیہ شعر پر ختم ہوتی ہے؂‬

‫محمد سے وفا تم نے تو ہم تیرے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں‬
‫ؑ‬ ‫کی‬

‫غالب کے بعد سب سے بڑے شاعر ہیں ۔ وہ بنیادی طور پر نظم گو شاعر ہیں‬ ‫ؔ‬ ‫میر و‬
‫اقبال اردو ادب میں ؔ‬
‫ؔ‬ ‫غرض عالمہ‬
‫اگرچہ غزل کے شاعر کے طور پر بھی ان کی اپنی ایک منفرد شناخت اور انداز ہے جس کوئی بھی انکار نہیں کر‬
‫اقبال کے کالم اور ان کی نظموں میں زبان وبیان کی ساری‬
‫ؔ‬ ‫سکتا۔ اس بحث کو سمیٹنے کے لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ‬
‫بال کے کالم میں رمزیت وعالمت نگاری ملتی ہیں لیکن یہ‬‫خوبیاں موجود ہیں۔ انھوں نے اپنی زبان اختراع کی۔ اق ؔ‬
‫اقبال نے اپنی شاعری میں فلسفیانہ مضامین باندھے۔ معلمانہ انداز میں مقصدی شاعری کی‬
‫ؔ‬ ‫عالمتیں معمہ نہیں بنتیں۔‬
‫خون جگر شامل ہے؂‬‫ِ‬ ‫لیکن اسے خشک اور بے رنگ نہیں ہونے دیا۔ ان کی شاعری میں ان کا‬

‫خون جگر کے بغیر‬


‫ِ‬ ‫خون جگر کے بغیر۔۔۔۔۔۔نغمہ ہے سودائے خام‬
‫ِ‬ ‫نقش ہیں سب ناتمام‬
‫‪6th SEMESTER‬‬

‫اقبال کا خصوصی مطالعہعالمہ‬


‫ؔ‬

‫یونٹ سوم‬

‫اقبال کا تصور خودی‬


‫ؔ‬ ‫عالمہ‬

‫اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے تو اس کے جواب‬


‫ؔ‬ ‫اگر کوئی پوچھے کہ عالمہ‬
‫میں ایک لفظ کہہ سکتے ہیں اور وہ ہے "خودی"۔کیونکہ یہی ان کی فکر ونظرکے جملہ مباحث کا محور ہے۔اور انھوں نے‬
‫اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض‬‫ؔ‬ ‫اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سےموسوم کیاہے۔اس محور تک‬
‫سوالوں کے جوابات کی تالش میں ہوئی ہے۔انسان کیاہے؟کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے‬
‫ب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیا ہے؟اس طرح کے جانے اور کتنے سواالت ہیں جن کی‬ ‫ب نظر ہے؟ اگر فری ِ‬‫یا محض فری ِ‬
‫جوابات کے جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے۔اس طرح کے سواالت سے جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا‬
‫پہلےغالب نے بھی اُٹھائے تھے۔‬
‫ؔ‬ ‫اقبال سے‬
‫ؔ‬ ‫ہے۔اردو شاعری میں‬

‫جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود۔۔۔۔۔۔پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے‬

‫سبزہ وگل کہا ں سے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے‬

‫ہے۔اقبال نے ان سوالوں کے جواب میں دالئل و برہان‬


‫ؔ‬ ‫غالب سے مختلف‬‫ؔ‬ ‫اقبال کے سواالت و جوابات کی نوعیت‬
‫ؔ‬ ‫لیکن‬
‫سے کام لیا۔اور اسے ایک مکمل فلسفہ حیات میں ڈھال لیا۔‬

‫اقبال کے فلسفہ حیات و کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اگر خودی کے تصور کو سمجھ لیا‬ ‫ؔ‬ ‫تصور ِ خودی کو‬
‫اقبال کی شاعری کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔اقبالیات کے ہر نقاد نے کسی نہ کسی شکل میں خودی پر اظہار‬
‫ؔ‬ ‫جائے تو‬
‫خیال کیا ہے۔ڈاکٹر سید عبدہللا اس سلسلے میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے۔خودی عشق کے مترادف ہے۔خودی ذوق تسخیرکا نام ہے۔‬
‫خودی سے مراد خود آگاہی ہے۔خودی ذوق طلب ہے۔ خودی ایمان کے مترادف ہے۔خودی‬
‫سرچشمہ جدت و ندرت ہے۔خودی یقین کی گہرائی ہے۔ خودی سوزحیات کا سرچشمہ ہے اور‬
‫ذوق تخلیق کا ماخذہے"۔‬

‫اقبالؔ کے ہاں خودی سے مراد‪:‬خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے درج ذیل‬
‫معانی رکھتا ہے‪:‬‬

‫)أ‬ ‫انانیت‪ ،‬خود پرستی‪ ،‬خود مختاری‪،‬خود سری‪ ،‬خود رائی‬


‫خود غرضی‬
‫غرور‪ ،‬نخوت‪ ،‬تکبر‬
‫لیکن خودی کا لفظ اقبال کے فلسفہ حیات میں تکبر و غرور یا اردو فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال‬
‫احساس غیرت مندی کا‪ ،‬جذبہ خوددراری کا‪،‬اپنی ذات و صفات کے‬ ‫ِ‬ ‫اقبال کے نزدیک نام ہے‬
‫ؔ‬ ‫نہیں ہوا۔ خودی‬
‫ت فطرت سے برسرپیکار رہنے‬ ‫پاس و احساس کا‪ ،‬حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا‪ ،‬مظاہرا ِ‬
‫اقبال کے‬
‫ؔ‬ ‫کا‪ ،‬اور دوسروں کا سہارا تالش کرنےکے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا‪،‬یوں سمجھ لجئیے کہ‬
‫نقطہ نظر سے "خودی" زندگی کا آغاز‪ ،‬وسط اور انجام سب کچھ ہے۔فردوملت کی ترقی و تنزل ‪،‬خودی کی‬
‫ترقی و زوال پر منحصر ہے۔خودی کا تحفظ‪ ،‬زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام زندگی کا استحکام‬
‫ہے۔ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے۔اقبال نے ان کا ذکر اپنے کالم میں جگہ جگہ نئے نئے‬
‫انداز میں کیا ہے۔‬
‫راز درون حیات۔۔۔۔خودی کیا بیداری کائنات‬
‫خودی کیا ہے ِ‬
‫ازل اس کے پیچھے ابد سامنے۔۔۔۔۔نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے‬
‫زمانے کے دھارے میں بہتی ہوئی۔۔۔۔۔ستم اس کی موجوں کےسہتی ہوئی‬
‫ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر۔۔۔۔ہوئی خاک ِ آدم میں صورت پذیر‬
‫خودی کا نشمین ترے دل میں ہے۔۔۔ فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے‬
‫انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش اور تربیت پر ہے۔طاقت ور اور تربیت یافتہ خودی‬
‫ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی۔خودی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں بھی شہنشاہی‬
‫کی شان پیدا ہوتی ہے۔اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تصرف میں آجاتا ہے۔‬
‫اقبال کے نزدیک خودی اپنی تکمیل اور استحکام کے لئے غیر خودی سے ٹکراتی ہے‬ ‫خودی اور فطرت‪ؔ :‬‬
‫جس نسبت سے کوئی شے خودی میں مستحکم اور غیر خود پر غالب ہے اسی نسبت سے اس کا درجہ مدراج‬
‫حیات میں نفیس ہوتا ہے۔ مخلوقات میں انسان اس لئے برتر ہے کہ اس کی ذات میں خودی ہے۔اوراس خودی‬
‫سے فطرت انسانی مشاہدہ کی پابند ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ خودی کی منزل زمان و مکان کی تسخیر پر ختم‬
‫چشم تخیل انسان کی جدوجہد و عمل کے لئےنئے نئے میدان دکھاتا ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫نہیں ہوتی شاعرکا‬

‫اقبال نے کبھی اسے‬


‫ؔ‬ ‫خودی اور عشق‪:‬خودی کو آگے بڑھانے میں ایک چیز بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔‬
‫آرزواور کبھی عشق کانام دیا ہے۔ارتقائے خودی میں عشق سب سے بڑا محرک ثابت ہوتا ہے۔‬
‫سوز دم بدم‬
‫ِ‬ ‫عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیروبم۔۔۔۔۔۔عشق سے مٹی کی تصویروں میں‬
‫اقبال نے عشق کے کئی مدراج بیان کئے ہیں۔‬
‫ؔ‬
‫ابن سبیل‪ ،‬اس کے ہزاروں مقام‬
‫عشق فقیہہ حرم‪ ،‬عشق امیر جنود ۔۔۔عشق ہے ِ‬
‫چناچہ کہیں عشق جمالی صورت اختیار کرلیتا ہے اور کہیں جاللی رنگ میں جھلک دکھاتا ہے۔‬
‫تار حیات۔۔۔۔۔عشق سے نورحیات عشق سے نار ِحیات‬ ‫عشق کے مضراب سے نغمہ ِ‬
‫تصور خودی" میں‬
‫ِ‬ ‫اقبال کا‬
‫ؔ‬ ‫ڈاکٹر عابد حسین " خودی اور عشق کا راستہ واضح کرتے ہوئے اپنے مضمون "‬
‫رقم طراز ہیں‪:‬‬

‫"اس راہ میں ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہےاور وہ رہنما عشق ہے عشق اُس مرد کامل کی محبت‬
‫کو کہتے ہیں جو معرفت نفس کے مدراج سے گزر خود ی کی معراج پر پہنچ چکا ہے۔"‬

‫سر نیاز جھکانا تو خودی کو مستحکم کرتا‬ ‫خودی اور فقر‪:‬طلب و ہدایت کے لیے کسی مر ِد کامل کے آگے ِ‬
‫ہے لیکن مال ودولت و منصب کے لئے دست نگر ہونا اس کو ضعیف بناتا ہے۔فقر گدائی نہیں۔ فقر اور گدائی‬
‫میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ گدائی مال کی حاجت میں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیالتا ہے جبکہ فقرمادی‬
‫لذتوں‬
‫سے بےنیاز ‪ ،‬کائنات کی تسخیر کرنا‪ ،‬فطرت پر حکمرانی کرنا‪ ،‬اور مظلموں کو ظالموں کے پنجے سے‬
‫نجات دالنا ہے۔‬
‫ت خودی کے تین مدارج‪:‬خو دی سے تعمیری کام لینے کے لئےاس کی تربیت ضروری ہے بے قید و‬ ‫تربی ِ‬
‫اقبال بھی گوئٹے کی طرح اسے تخلیق کی عظیم الشان قوت سمجھتے‬ ‫ؔ‬ ‫بے ترتیب خودی کی مثال شیطان ہے۔‬
‫ہیں جو صراط مستقیم سے بھٹک گئی ہے۔خودی کی منازل کے عالوہ تربیت خودی کے مراحل انتہائی اہم‬
‫ہیں یہ مراحل تین ہیں‪:‬‬
‫ٰ‬
‫اقبال کے نزدیک خودی کا پہال درجہ اطاعت الہی ہے۔یعنی ہللا پاک کے قانون حیات اور‬ ‫ؔ‬ ‫‪۱‬۔ اطاعت ٰالہی‪:‬۔‬
‫احکام کو بجا النا اور جن چیزوں سے باز رہنے کا حکم ہے اُن سے باز رہنا۔‬
‫‪۲‬۔ ضبط نفس‪:‬دوسرا درجہ ضبط نفس ہے۔انسان نفس کا جس کی سرکشی کی کوئی حد نہیں قابو میں الئے۔‬
‫‪۳‬۔ نیابت ٰالہی‪:‬ان دونوں مدراج سے گزر نے کے بعد انسان اس درجے پر فائز ہو جائے گا۔ جسے انسانیت کا‬
‫اوج کمال سمجھنا چاہئیے ۔ یہ نیابت ٰالہی کا درجہ ارتقائے خودی کا بلند ترین نصب العین ہے۔‬‫ِ‬
‫خودی اور خدا کا تعلق‬
‫طالب خودی "مردخدا"کی محبت اس قدر برتر اور سرشار ہوتی ہے کہ اور کیف و سرور کی وجہ سے خدا‬
‫کی اتنی محبت اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہےکہ وہ خودی کے کل مراحل طے کرنے کے باوجود اپنے آپ‬
‫کوناتمام محسوس کرتا ہےاسی کشش کا نام عشق ِ حقیقی ہے۔‬
‫عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں۔۔۔۔یا خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر‬
‫تو ہے محیط بیکراں میں ہوں ذرا سی آبجو۔۔۔یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر‬
‫بندگی میں انسان کو سکون ملتا ہے بہرحال یہ جدائی انسان کے لئے مبارک ہے کیونکہ یہی خودی وجہ حیات‬
‫ہے۔‬
‫……………………………‪…………………………………………..,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,‬‬
‫‪……………………………………..‬‬

‫‪6th Semester Urdu Literature‬‬


‫یونٹ سوم‬
‫اقبالؔ کا تصور مرد مومن‬
‫اقبال کے کالم میں مر ِد مومن یا مرد کامل کا ذکر جابجا ملتا ہے۔اس کے لئے وہ مرد حق ‪ ،‬بندہ آفاقی‪ ،‬بندہ‬ ‫ؔ‬
‫مومن‪ ،‬مرد خدااور اس قسم کی بہت سے اصطالحات استعمال کرتے ہیں حقیقتا یہ ایک ہی ہستی کے مختلف‬
‫اقبال کے تصور ِ خودی کا مثالی پیکر ہے۔‬ ‫ؔ‬ ‫نام ہیں جو‬
‫نقطہ پرکار حق مرد خدا کا یقیں۔۔۔۔۔اور عالم تمام وہم و طلسم ومجاز‬
‫عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث ۔۔۔مومن نہیں جو صاحب لوالک نہیں ہے‬
‫ہاتھ ہے ہللا کا بندہ مومن کا ہاتھ۔۔۔۔۔۔غالب وہ کار آفریں‪ ،‬کارکشا‪ ،‬کار ساز‬
‫کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس کے زور بازو کا۔۔۔نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‬

‫اقبال کے کالم میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہےان صفات کے‬ ‫ؔ‬
‫بار بار تذکرہ اس صورت سے کیا گیا ہےکہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے‬
‫سامنےآجاتے ہیں۔یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے۔اور‬
‫ت ٰالہی اور نیابت ٰالہی طے کرنے کے بعد‬‫تربیت ا و ر استحکام خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس‪،‬اطاع ِ‬
‫اشرف المخلوقات اور خلیفتہ ہللا فی االرض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ اس کے کردار اور شخصیت‬
‫اقبال کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫ؔ‬ ‫کی اہم خصوصیات کالم‬
‫‪)۱‬تجدید حیات‬
‫اقبال کا مرد مومن حیات و کائنات کےقوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے واال ہے۔قرآن‬
‫ؔ‬
‫مجید نے انسانوں کو تسخیر کائنات کی تعلیم دی ہے۔اور مرد مومن عناصر فطرت کو قبضے میں لے کر ان‬
‫کی باگ اپنی مرضی کے مطابق موڑتا ہے۔وہ وقت کا شکار نہیں بلکہ وقت اس کے قبضے میں ہوتا ہے۔‬
‫جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی ۔۔۔۔مرے کالم پہ حجت ہے نکتہ لوالک‬
‫مہر ومہ و انجم کا محاسب ہے قلندر۔۔۔ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر‬

‫گویا کافر کا کمال صرف مادہ کی تسخیر ہےلیکن مرد مومن مادی تسخیر کو اپنا مقصود قرار نہیں دیتابلکہ‬
‫اپنے باطن سے نئے جہانوں کی تخلیق کرتا ہے۔ وہ زمان ومکان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔وہ اپنے عمل‬
‫سے تجدید حیات کرتا ہے۔اس کی تخلیق دوسروں کے لئے شمع ہدایت بنتی ہے۔‬

‫‪)۲‬عشق‬
‫بندہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں کی عشق کے تابع رکھے۔ نہ صرف خودی کا‬
‫مرہون منت بلکہ تسخیر ذات اور تسخیر کائنات کے لئے بھی عشق ضروری ہے۔ اور‬ ‫ِ‬ ‫استحکام عشق کا‬
‫اعلی ترین نصب العین کے لئے سچی لگن ‪ ،‬مقصد آفرینی کا سرچشمہ‪ ،‬یہ جذبہ انسان کو‬ ‫ٰ‬ ‫عشق کیا ہے؟‬
‫ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنی آرزؤں کو پورا کرنے کے لئے سرگرم عمل رکھتا ہے۔یہ جذبہ مرد مومن کو خدا‬
‫رسول کے ساتھ گہری محبت کے بدولت عطا ہوتا ہے۔ اس کے زریعے سے اس کے اعمال‬ ‫ؑ‬ ‫اور ا س کے‬
‫صالح اور پاکیزہ ہوجاتے ہیں۔ اسے دل ونگاہ کی مسلمانی حاصل ہوتی ہے۔ اور کردار میں پختگی آجاتی ہے۔‬
‫وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو ۔۔۔۔ ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار‬
‫یہی جذبہ عشق ہے جو مسلمان کو کافر سے جدا کرتا ہے۔‬
‫اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی ۔۔۔۔۔نہ ہو تو مر ِد مسلماں بھی کافر و زندیق‬

‫‪)۳‬جہد وعمل‬
‫اقبال جسے مستی کردار کہتے ہیں وہ دراصل عمل اور جدوجہد کا دوسرا نام ہے۔ ان کے ہاں پیہم عمل اور‬ ‫ؔ‬
‫مسلسل جدوجہد کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ مرد مومن کے لئے عمل سے ایک لمحہ کے لئے بھی مفر‬
‫نہیں۔‬
‫عمل سے ز ندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی۔۔۔ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے‬
‫یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم ۔۔۔۔جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں‬

‫‪)۴‬جمال و جالل‬
‫مرد مومن کی ذات میں جمالی اور جاللی دونوں کیفیات بیک وقت موجود ہوتی ہیں۔ بظاہر یہ کیفیات متضاد‬
‫نظر آتی ہیں لیکن بباطن یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں اور مرد مومن کی زندگی ان دونوں صفات کی حامل‬
‫ہوتی ہے۔ وہ درویشی و سلطانی اور قاہری اور دلبری کی صفات کا بیک وقت حامل ہوتا ہے۔ اس کی سیرت‬
‫میں نرمی اور سختی کا امتزاج ہوتا ہے اور اس کے مضبوط و قوی جسم کے پہلو میں ایک د ِل درد آشنا ہوتا‬
‫ہے جو بے غرض ‪،‬بے لوث ‪،‬پاک اور نفسانیت سے خالی ہوتا ہے۔‬
‫اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جیل۔۔۔۔اس کی ادا دل فریب اس کی نگہ دل نواز‬
‫دم جستجو۔۔۔رزم ہو کہ بزم ہوپاک دل و پاک باز‬ ‫نرم دم ِ گفتگو‪ ،‬گرم ِ‬
‫‪)۵‬حق گوئی و بے باکی‬
‫مرد مومن جرات مند ‪ ،‬بے خوف اور حق گو ہوتا ہے۔ اس سے نہ جابر و قاہر انسان خوف زدہ‬
‫کرسکتے ہیں اور نہ موت اسے ڈرا سکتی ہے۔ وہ ایمان کی قوت سے حق وہ صداقت کا پرچم بلند کرتا‬
‫ہے اور شر کی قوتوں کے مقابلے میں پوری قوت کے ساتھ اس طرح ڈٹ جاتا ہے کہ انھیں پسپا ہونا‬
‫پڑتا ہے اس پھر معاشرہ اسی نصب العین کی جانب رجوع کرتاہے جو مرد مومن کا مقصود زندگی ہے۔‬
‫ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن۔۔۔ گفتار میں کردار میں ہللا کی برہان‬

‫‪)۶‬فقر و استغنا‬
‫مرد مومن کا ایک امیتازی وصف فقرو استغنا ہے۔ وہ نظشے کے مرد بر تر کی طرح تکبر و غرور کا‬
‫اقبال کے ہاں تو فقر کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ وہ اسالم کو فقر غیور کی‬ ‫ؔ‬ ‫مجسمہ نہیں ۔ بلکہ‬
‫اقبال نے بار بار زور دیا ہے۔ اور اس سے‬ ‫ؔ‬ ‫اصطالح سے تعبیر کرتے ہیں۔ درویشی ‪ ،‬فقر اور قلندری پر‬
‫تکمیل ِ خودی کے لئے الزمی اور انتہائی اہم عنصر کی حیثیت دی گئی ہے۔ فقر ارتقائے خودی سے‬
‫انسان کامل کے فقر اور فقر کافر (رہبانیت) میں بڑا بنیاد ی فرق ہے۔ رہبانیت جنگل میں‬‫ِ‬ ‫حاصل ہوتا ہے‬
‫پناہ ڈھونڈتی ہے۔ فقر کائنات کی تسخیر کرتا ہے اور اس کے لئے اپنی خودی کو فروغ دیتا ہے۔ فقر کا‬
‫کام رہبانیت کے گوشہ عافیت میں پناہ لینا نہیں بلکہ فطرت کے اسراف اور معاشرت کے شر اور‬
‫ناانصافی کا مقابلہ کرنا ہے۔خواہ اس میں سخت سے سخت اندیشہ ہی کیوں نہ ہو۔‬
‫شبیری۔۔۔۔۔ کہ فقر خانقاہی فقط اندوہ و دل گیری‬
‫ؑ‬ ‫نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم‬
‫ب سلیم‪،‬‬‫اقبال کے مرد مومن میں عدل‪ ،‬حیا‪ ،‬خوفِ خدا‪ ،‬قل ِ‬‫ؔ‬ ‫ان بڑی بڑی اور اہم صفات کے عالوہ عالمہ‬
‫قوت‪ ،‬صدق‪ ،‬قدوسی‪ ،‬جبروتی‪ ،‬بلند پروازی‪ ،‬پاک ضمیری‪ ،‬نیکی‪ ،‬پاکیزگی وغیرہ شامل ہیں۔‬

You might also like