You are on page 1of 51

‫نام طالب علم ‪ :‬عاصمہ حبیب‬

‫رجسٹریشن نمبر ‪21PRN01017 :‬‬


‫سطح‪ :‬ایم اے(اردو)‬
‫‪5614‬‬ ‫کوڈ‪:‬‬
‫‪01‬‬ ‫مشق‪:‬‬
‫بہار ‪2022‬‬ ‫سمسٹر‪:‬‬
‫اقبال کا تصور قومیت ‪ ،‬خطبہ آلہ کی روشنی میں بیان کریں ۔‬ ‫سوال نمبر ‪:1‬‬

‫جواب ‪:‬‬

‫اقبال کا تصور قومیت ‪ ،‬خطبہ آلہ کی روشنی میں‬

‫ب عظیم کو بپا‬
‫ملت کے لئے اخوت کی ضرورت اسالم نے عالم ِ انسانیت میں ایک انقال ِ‬
‫کرکے انسان کو رنگ و نسل‪ ،‬نام و نسب اور ملک و قوم کے ظاہری اور مصنوعی‬
‫امتیازات کے محدود دائروں سے نکال کر ایک وسیع تر ہیئت اجتماعیہ میں متشکل کیا۔‬
‫اقبال کے نزدیک یہ ”ہیئت اجتماعیہ“ قائم کرنا اسالم ہی کا نصب العین تھا۔ مگر بدقسمتی‬
‫سے یہ وحدت قائم نہ رہ سکی اور مسلمان مختلف فرقوں‪ ،‬گرہوں اور جماعتوں میں بٹتے‬
‫چلے گئے۔ اقب ال مسلمانوں کو پھر اسی اخوت اسالمی کی طرف لوٹنے کی تلقین کرتے‬
‫ہیں اور ایک ملت میں گم ہو جانے کا سبق سکھاتے ہیں۔ وہ ایک عالمگیر ملت کے قیام‬
‫کے خواہشمند ہیں جس کا خدا‪ ،‬رسول کتاب‪ ،‬کعبہ‪ ،‬دین اور ایمان ایک ہو‬

‫منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک‬

‫ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک‬

‫حرم پاک بھی‪ ،‬ہللا بھی قرآن بھی ایک‬

‫کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک‬

‫ملت اور اخوت کا پیغام اسی جذبہ کے تحت اقبال مسلمانوں کو اخوت کا پیغام دیتے ہیں‬
‫اور انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ رنگ و خون کو توڑ کر ایک ملت کی شکل میں متحد ہو‬
‫جائی ں۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنا‬
‫وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ملک قوم ‪ ،‬نسل اور وطن کی مصنوعی حد بندیوں نے نوع‬
‫انسانی کا شیرازہ منتشر کرکے رکھ دیاہے۔ اور اس کا عالج سوائے اس کے اور کچھ‬
‫نہیں کہ اسالمی معاشرہ کے تصور کو رائج ک یا جائے اور کم از کم مسلمان خود کو اسی‬
‫معاشرہ کا حصہ بنا لیں۔‬

‫وحدت کا یہ احساس اور اخوت کا یہ جذبہ‬

‫مگر وحدت کا یہ احساس اور اخوت کا یہ جذبہ اگر نوع انسانی کے اندر پیدا ہو سکتا ہے‬
‫تو صرف اسالم کے ذریعہ ہی پیدا ہونا ممکن ہے۔ اقبال کی نظر میں اسالم محض انسان‬
‫کی اخالقی اصالح ہی کا داعی نہیں ‪ ،‬بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک‬
‫تدریجی مگر اساسی انقالب بھی چاہتا ہے۔ جو انسان کے قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو‬
‫یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں۔‪....‬‬

‫ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے‬

‫نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر‬

‫نسل گر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی‬

‫اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر‬

‫اتحاد اقوام اسالمی کا تصور‬

‫اتحاد اقوام اسالمی کا تصور اسالم بنیادی طور پر ایک عالمگیر پیغام ہے اور تما م نوع‬
‫انسانی کو اخو ت کی لڑی میں پرو کر ای ک وسیع تر ملت اسالمیہ کے قیام کی دعوت دیتا‬
‫ہے تاکہ انسان کی ہوس کا عالج ہو سکے۔ لیکن اس کے لئے پہال قدم یہ ہے کہ دنیا کے‬
‫تمام مسلمان ممالک ایک لڑی میں پروئے جائیں۔ اقبال کی بھی یہی تمنا ہے ان کے‬
‫نزدیک اسالم ایک ازلی‪ ،‬ابدی‪ ،‬آفاقی اور عالمگیر نوعیت کا پیغام ہے‪ ،‬یہ ہر زمانہ‪ ،‬ہر‬
‫قوم اور ہر ملک کے لئے راہ ہدایت ہے۔ اس لئے اس کے پیروکاروں کو رنگ و نسل اور‬
‫ملک وطن کے امتیازات مٹا کر یکجا ہو جانا اور دنیائے انسانیت کے لئے ایک عالمگیر‬
‫برادری کی مثال پیش کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں ”جمعیت اقوام“کی تنظیم پر طنز کرتے‬
‫ہوئے کہتے ہیں کہ اصل مقصد انسانوں کے درمیان اخوت کا جذبہ پیدا ہو نا چاہیے نہ کہ‬
‫قوموں کا ایک جگہ اکٹھا ہو جانا۔‬

‫اقبال کے نزدیک اسالمی قومیت کی بنیاد اسالم پر ہے‬

‫اقبال کے نزدیک اسالمی قومیت کی بنیاد اسالم پر ہے ملک و نسب نسل وطن پر نہیں۔‬
‫اس تصور کی انہوں نے عمر بھر شدو مد سے تبلیغ کی۔ ہر مسلمان اسی تصور کو تسلیم‬
‫کرتا ہے اور اس کی سچائی سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن مسلم ریاستوں کے اتحاد اور‬
‫دنیا کے تمام مسلمانوں کے ایک قوم بن جانے کا حوصلہ اس وقت تک نہیں آسکتا جب‬
‫تک وطنیت اور قومیت کے مغربی نظریہ کی گرفت کمزور نہیں پڑجاتی۔ قریب قریب‬
‫سارا عالم اسالم کافی عرصہ تک مغربی اقوام کا محکوم رہا ہے اور جدید اسالمی‬
‫ریاستوں میں سے بہت سی ایسی ہیں جن کی تشکیل ہی مغربی نظریہ قومیت کی بنیاد پر‬
‫ہوئی ہے۔ اس طرح انہیں مغربی نظریات کے سحر سے آزاد ہونے میں کچھ وقت عرصہ‬
‫لگے گا۔ لیکن ام ید کی جا سکتی ہے کہ کہ اقبال کے اس خواب کی تعبیر بھی ایک نہ‬
‫ایک دن ضرور پوری ہوگی اور دنیا کے تمام مسلمان ملت واحدہ کی شکل اختیار کرکے‬
‫ایک عالمگیر برادری کی شکل میں ڈھل جائیں گے۔‬

‫اقبال نے کئی جگہ اس مضمون کو مختلف پیرایوں میں دہرایا ہے ۔ کہ ال کے دریا میں‬
‫نہاں موتی ہے اال ہللا کا مختلف اقوام کے تصوف کا لب لباب بھی یہی ہے۔ کہ حقیقی بقا‬
‫فنا کے ذریعے ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ زندگی خواہ نباتی ہو یا خواہ حیوانی اور انسانی‬
‫اور خواہ اس سے بڑھ کر انسان روحانی بننا چاہیے کہیں بھی فی نفسہ فنا مقصود نہیں۔‬
‫زندگی جس صورت میں ہو وہ اپنی بقا چاہتی ہے لیکن بقا اور ارتقا کا راستہ یہی ہے کہ‬
‫پہلی صورت کے افشا سے دوسری صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ انسانی زندگی جب جامد‬
‫صورت ہوجاتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ معتاد طریقوں کو بدلنا نہیں‬
‫چاہتی۔ اسے تغیر سے ڈر لگتا ہے۔ مذہب اور معاشرت کے قدیم رسوم و شعائر اور قدیم‬
‫ادارے جامد ہو کر بے روح ہو جاتے ہیں۔ افکار و جذبات میں کوئی جدت نہیں رہتی‬
‫زمانہ جب فرسودہ طریقوں سے بیزار ہو جاتا ہے تو مشیت ٰالہی ان پر خط تنسیخ کھینچ‬
‫دیتی ہے۔ اقبال روسی اشتراکیت کے اس پہلو کا مداح ہے کہ ا س نے مال اور سلطنت‬
‫او ر کلیسا کے متعلق قدیم عققائد کے خالف احتجاج اور جہاد کیا ہے اوریہ اقدام انسانیت‬
‫کو آزاد کرنے اور اس کی روحانی ترقی کا امکان پیدا کرنے کے لیے الزم ھتا۔ جب تک‬
‫یہ کام نہ ہو چکے آگے روحانیت کی طرف قدم اٹھانا دشوار ہے۔ روس نے سرمایہ داری‬
‫کا خاتمہ کر دیا اور م ال کے متعلق اس کے نظریے پر عمل کیا کہ جائز ضڑورت سے‬
‫زائد مال کسی فرد کی ملکیت نہینرہ سکتا۔ اسے ملت کی عام احتجاج پر صرف ہونا‬
‫چاہیے۔ اقبال کہتا ہے کہ مال کے متعلق یہ تعلیم عین قرآنی تعلیم ہے کہ مال کو چند امرا‬
‫ء کے ہاتھوں مینگردش نہ کرنی چاہیے۔ اس کا فیضان دوران خون کی طرح جسم ملت‬
‫کے ہر رگ و ریشہ میں پہنچنا چاہیے۔ لوگوں نے جب رسول کریم صلعم سے یہ سوال‬
‫کیا کہ کس قدر مال خود صرف کرنا چاہیی اور کس قدر ملت کے احتجاج کے لیے ڈال‬
‫دینا چاہیے تو اس کا جواب قرآن نے ا ن الفاظ میں دیا ہے قل العفو مومنوں سے کہہ دو‬
‫کہ و ہ اپنی جائز ضرورت سے جو کچھ بچ جائے وہ ضرورت مندوں کے حوالے کر دیا‬
‫کریں۔ جس طرح بند پانی میں بدبو آنے لگتی ہے اور ا س میں زہریلے جراثیم پیدا ہو‬
‫جاتے ہیں اوراسی طرح انفرادی خود غرضی سے روکی ہوئی دولت بھی صاحب مال‬
‫کے لیے مسموم ہو جاتی ہے۔ مال کے اس اسالمی نظریے کو عارف رومی نے ایک بلیغ‬
‫تمثیل کے ساتھ نہایت موثر انداز میں پیش کیا ہے کہ ماچھا مال جو خدمت دین میں اور‬
‫خدمت خلق میں صرف ہو وہ خدا کی نعمت ہے۔ مال فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں‘ جس‬
‫طرح کشتی چالنے کے لیے پانی کی ایک خاص مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح‬
‫سفینہ حیات کسی قدر آب زر ہی سے روا ں ہو سکتا ہے لیکن پانی کشتی کے نیچے‬
‫نیچے رہنا چاہیے اگر وہ کشتی کے اندر گھس آئے تو اس کو سنبھالنے کی بجائے غرق‬
‫کردیتا ہے‪:‬‬
‫مال را گر بہر دیں باشی حمول‬
‫نعم مال صالح گفتا رسول‬
‫آب در کشتی ہالک کشتی است‬
‫زیر کشتی بہر کشتی پشتی است‬
‫عالمہ اقبال فرماتے ہیں کہ روس نے قرآن کی قل العفو کی تعلیم کے مطابق ایک‬
‫معاشرت پیدا کی ہے اس لیے اس حد تک یہ عین اسالمی کام ہے۔ ضرب کلیم میں‬
‫اشتراکیت کے عنوان سے جو اشعار لکھے ہیں ان کا موضوع یہی ہے‪:‬‬
‫اشتراکیت‬
‫قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم‬
‫بے سود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار‬
‫اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور‬
‫فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار‬
‫انساں کی ہوس نے جسے رکھا تھا چھپا کر‬
‫کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار‬
‫قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں‬
‫ہللا کرے تجھ کو عطا جدت کردار‬
‫جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک‬
‫اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار‬
‫اسالم ایک فطری مذہب ہے ۔ اور جب کبھی انسان کا فکر صالح ہو جاتا ہے تو قرآن سے‬
‫ناآشنا ہونے پر بھی وہ اسالم کے کسی نہ کسی پہلو کی صحت کا قائل ہو جاتا ہے ۔ اور‬
‫اسالم کے نام سے نہیں تو کسی اور عنوان سے اس پر عامل ہو جاتا ہے۔‬
‫کفر و دیں است در رہت پویاں‬
‫وحدہ ال شریک لہ گویاں‬
‫انسانی زندگی کی اصالح کے لیے مختلف اقوام میں جو جدوجہد ہو رہی ہے۔ اس کا جائزہ‬
‫لیجیے تو آپ کو نظر آئے گا کہ اصالح کر ہر قد م حقیقت میں اسالم کی طرف اٹھتا ہے۔‬
‫خواہ اس کے لیے کوشاں مصلحین غیر مسلم ہی کیوں نہ کہالتے ہوں۔ اقبال نے کارل‬
‫مارکس کی آوا ز کو بھی اپنی ہی آواز بنا کر پیش کیا ہے‪:‬‬
‫کارل مارکس کی آواز‬
‫یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی یہ بحث و تکرار کی نمائش‬
‫نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش‬
‫تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر‬
‫خطوط خمدار کی نمائش! مریزو کجدار کی نمائش‬
‫جہاں مغرب کے بتکدوں میں کلیسائوں میں مدرسوں میں‬
‫ہوس کی خوں ریز چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش‬
‫کارل مارکس بھی جہاں پیر کی موت کا آرزو مند ہے اور اقبال بھی ۔ لیکن جہان نو کی‬
‫تعمیر اور اس کی اساس کے متعلق دونونم یں اختالف ہے۔ کارل مارکس نیا معاشی نظام‬
‫قائم کرنا چاہتا ہے ۔ اور اس سے آگے بڑھ کر اس کا کچھ مقصود نہیں۔ کیونکہ وہ عالم‬
‫مادی سے باہر اور فائق کسی اور عالم کا قائل نہیں۔ اقبال کے لیے عادالنہ معاشی نظام‬
‫مقصود آخری نہیں بلکہ اسنان کے المتناہی روحانی ارتقاء کے راستے میں ایک منزل‬
‫دعوی کیا ہے اور اپنے مقاصد میں ایک‬
‫ٰ‬ ‫ہے۔ ایک شخص نے زمانہ حال میں نبوت کا‬
‫بڑامقصد یہ بتایا کہ میں کلیسائی عیسائیت کا قلع قمع کرنے کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ اس‬
‫کی تمام جدوجہد پادریوں سے مناظرہ کرنے تک محدو د رہی ہے۔ اور صلیب کا کوئی‬
‫کونی نہ ٹوٹا نہ گھسا۔ ایسی نبوت سے تو کلیسائی عیسائیت کا کچھ نہ بگڑا لیکن اقبال کہتا‬
‫ہے کہ دیکھو قضائے ٰالہی کی روش کیسی ہے کہ روس کی دہریت سے کسر چلیپا کا کام‬
‫لیا گیا ہے جو نہ کسی مومن سے ہوا اور نہ کسی متنبی سے وہ کام کافروں نے کر ڈاال ۔‬
‫کلیسا کا استبداد سب سے ز یادہ روس میں تھا جو کرہ اارض کے پانچویں حصے کو‬
‫گھیرے ہوئے ہے۔ وہیں پر مکمل بت شکنی ملحدوں نے کی ہے۔ مذہب مصلحین کبھی یہ‬
‫کام نہ کر سکتے‪:‬‬
‫روش قضائے ٰالہی کی ہے عجیب و غریب‬
‫خبر نہیں کہ ضمیر جہاں میں ہے کیا بات‬
‫ہوئے ہیں قصر چلیپا کے واسطے مامور‬
‫وہی کو حفظ چلیپا کو جانتے تھے نجات‬
‫یہ وحی دہریت روس پر ہوئی نازل‬
‫کہ توڑ ڈالے کلیسائیوں کے الت و منات‬
‫اقبال کے نزدیک اشتراکیت میں حق و باطل کی آمیزش ہے۔ اس میں جو دل کشی اور مفاد‬
‫کا پہلو ہے وہ حق کے عنصر کی وجہ سے ہے۔ دنیا میں رزق کی عادالنہ تقسیم دین دین‬
‫ہے اور اس معامل ے میں روس نے جو کوشش کی ہے وہ سراہنے کے الئق ہے۔ حضرت‬
‫مسیح نے فرمایا کہ انسان کی زندگی فقط روٹی سے نہیں اسے روحانی غذا کی بھی‬
‫ضرورت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان روح کے عالوہ جسم بھی رکھتا ہے اور نفس‬
‫و بدن کا رابطہ بھی کچھ اس قسم کا ہے کہ پیٹ میں روٹی نہ ہو تو انسان نہ حقوق ہللا ادا‬
‫کر سکتا ہے اور نہ حقوق العباد۔ اسی لیے اسالم نے معاش و رزق کی عادالنہ تقسیم و‬
‫تنظیم کو بھی جز و دین قرار دیا ہے۔ عیسائی بھی اپنی دعا میں خدا سے روز روٹی‬
‫مانگتے ہیں۔ سعدی نے سچ فرمایا ہے ک بھوکا حضور قلب سے نماز بھی نہیں پڑ ھ‬
‫سکتا‪:‬‬
‫شب چو عقد نماز بر بندم‬
‫چہ خورد بامداد فرزندم‬
‫خداوند روزی بحق مشتعل‬
‫پراگندہ روزی پراگندہ دل‬
‫رسول کریم نے فرمایاکہ زندگی کی بنیادی چیزوں کی محتاجی انسان کو کفر سے قیرب‬
‫لے آتی ہے۔ یہ فقر اضطراری ہے جس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ فقر اختیاری دوسری چیز‬
‫عاعلی درجے کی روحانی زندگی‬
‫ٰ‬ ‫ہے۔ جس پر نبی کریم صلعم نے فخر کیا ہے ار جو‬
‫کے لیے الزمی ہے۔ حضرت بابا فرید شکر گنج رحمتہ ہللا علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے‬
‫کہ عام طور پر پانچ ارکان مشہور ہیں لیکن درحقیقت چھ ہیں مریدوں نے پوچھا چھٹا رکن‬
‫کون سا ہے۔ جواب دیا کہ روٹی اور یہ بہ ت اہم ہے۔ اس رکن کے گر جانے سے باقی پانچ‬
‫چیزوں کی بھی خیریت نہیں۔ لیکن اس پر یہ بھی اضافہ کر سکتے ہیں کہ اگر طلب رز ق‬
‫میں زیادہ انہماک ہو جائے تو وہ بھی اخالیق اور روحانی زندگی معرض خطر میں پڑ‬
‫جاتی ہے۔ اقبال اشتراکیت کی اس کوشش کو مستحسن خیال کرتا ہیکہ انسانوں کی مادی‬
‫ضروریات کے پورا کرنے کا کوئی عادالنہ نظام ہو لیکن انسانوں میں یہ عقیدہ رائج کر‬
‫دینا غلط ہے کہ مادی ضڑوریات کے پورا کرنے سے زندگی کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ تمام‬
‫جدوجہد کو اسی میں صرف کرنا کہ بہتر روٹی اور کپڑا ملے اور رہائش کے لیے اچھا‬
‫مکان مل جائے انسانی زندگی کی یہ غایت نہیں ہو سکتی۔ اکثر حیوانوں کو یہ چیزیں‬
‫انسانوں سے بہت میسر ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر انسان کی امتیازی‬
‫خصوصیت اور مقصود کیا ہے۔ حیوانوں کے لیے فطرت نے از روئے جبلت جو سامان‬
‫اور ذرائع مہیا کر دیے ہیں۔ اگر انسان بصد مشکل عقلی کوششوں سے وہی کچھ کر لے‬
‫تو اس کو حیوانوں پر کیا تفوق ہے؟ مادی ضروریات کے حصول اور سامان حیات‬
‫جسمانی کی مساویانہ تقسیم سے خاص انانی زندگی کی تو کوئی غایت پوری نہیں ہوتی۔‬
‫یہ سعی مساوات دلوں میں تو کوئی اخوت اور محبت کا جذبہ پیدا نہیں کر سکتی۔ رزق‬
‫کی فراوانی اور اس کی بہتر تقسیم کو مقصود حیات بنا لینا اور نفس انسانی کے المتناہی‬
‫ممکنات کو امکان سے وجود میں النے کی کوشش نہ کرنا بہت بڑا گھاٹا ہے۔ ازروے‬
‫قرآن اییمان اور عمل صالح کے بغیر انسان کی زندگی دولت کی فراوانی کے باوجود‬
‫ماوری ہے‬
‫ٰ‬ ‫خسران ہی خسران ہے۔ روح انسانی کا جوہر اطبیعی و زمان و مکان سے‬
‫انسان کی منزل حیات جسمانی نہیں بلکہ خدا ہے منزل ما کبریاست قرالی ربک المنتہی۔‬
‫جاوید نامے میں اشتراکیت کے اندر جو حق اور باطل ہے دونوں کو وضاھت سے پیش‬
‫کیا گیا ہے۔ کارل مارکس کے قلب میں مومنوں واال جذبہ ہے اور خلق خدا کے ساتھ‬
‫انصاف ہونا چاہیے لیکن حیات و کائنات کی ماہیت اور خلق وجود سے نا آشنا ہونے کی‬
‫وجہ سے اس کا فکر کافرانہ ہے۔‬
‫صاحب سرمایہ از نسل خلیل‬
‫یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل‬
‫زانکہ حق در باطل او مضمر است‬
‫قلب او مومن دماغش کافر است‬
‫غریباں گم کفردہ اند افالک را‬
‫در شکم جویند جان پاک را‬
‫رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک‬
‫جز بہ تن کارے ندارد اشتراک‬
‫دین آں پیغمبر حق نا شناس‬
‫بر مساوات شکم دارد اساس‬
‫تا اخوت را مقام اندر دل است‬
‫بیخ او در دل نہ در آب و گل است‬
‫ملت اروسیہ‬

‫جاوید نامے میں جمال الدین افغانی کا ایک پیغام ملت اروسیہ کے نام ہے۔ اس یغام میں‬
‫اقبال نے اسالم اور اشتراکیت کے نقطہ ہائے اتصال و افتراق کو بڑی وضاحت سے پیش‬
‫کیا ہے اشتراکیت کے پرانے معبودوں اور فرسودہ اداروں کے انہدام میں سعی بلیغ کی‬
‫ہے۔ اس کافراخ دلی سے ذکر کیا ہے ۔لیکن اس کے بساتھ ہی اس ملت کوان خطرات سے‬
‫آگاہ کیا ہے کہ جو اس انقالبی تمدن و تہذیب کو پیش آسکتے ہیں۔ انقالبات کی تاریخ میں‬
‫سب سے بڑا انقالب اسالم تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے کرہ ارض کے ایک وسیع‬
‫حصے میں قدیم فکر و عمل کے حیات کش نقوش کو مٹا کر ایک جدید عالم گیر ٰ‬
‫تہذب ک‬
‫بنیا د ڈالی ۔ زندگی کے ہر شعبے کے متعلق اس کا زاویہ نگاہ نادر اور انقالبی تھا۔ اس‬
‫ہمہ گیر انقالب کے لیے انسانی طبائع پوری طرح آمادہ نہ تھیں اس لیے بہت جلد شکست‬
‫خوردہ رسوم اور ادارے اور انسانی خو د غرضیاں بہت کچھ واپس آ گئیں اور اس انقالب‬
‫کے خالف رفتہ رفتہ رد عمل شروع ہوا۔ اسالم کی اصل صورت بہت کچھ مسخ ہوتی گئی‬
‫لیکن اسالم کا جتنا حصہ بھی اس رد عمل کے باوجو د ملت اسالمیہ کی زندگی میں باقی‬
‫رہ گیا اس کی بدولت مسلمان اپنی معاصر دنیا سے کوئی چھ سات صدیونتک پیش پیش‬
‫رہے۔ زندگی کا قانون یہ ہے کہ افراد یا اقوام کی زندگی ایک حالت پر قائم نہیں رہ سکتی۔‬
‫مسلسل تغیر پذیری آئین حیات ہے۔ اس لیے ہر لمحے میں انسان یا آگے بڑھ رہا ہے یا‬
‫پیچھے ہٹ رہاہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس انسان کے دو دن ایک جیسے ہوں‬
‫یعنی اس نے ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا ہو وہ شخص نہایت گھاٹے میں ہے۔ من ستوا یوما‬
‫فہو مغبون اس اصول کے مطابق مسلمان صدیوں سے پیچھے ہی ہٹتے گئے اور مغربی‬
‫اقوام آگے بڑھنا شروع ہوئیں۔ اب اس صدی میں مسلمانوں کو اپنے نقصان سپ ماندگی‬
‫اور بے بسی کا احسا س شروع ہوا تو اس میں ہر جگہ کچھ نہ کچھ حرکت پیدا ہوئی۔‬
‫روسی اشتراکیت‬

‫اسالم کے انقالب کے بعد روسی اشتراکیت تک مشرق میں کوئی ایسی حرکت پیدا نہ ہوئی‬
‫تھی۔ جسے انقالبی کہہ سکیں یعنی جس نے سیاست اور معیشت اور نظریات حیات کو‬
‫یکسر بدل ڈاال ہو۔ مگرب میں از منہ متوسط کے جمود واستبداد کے بعدنشاۃ الثانیہ نے‬
‫فکر و عمل میں ہیجان پیدا کیا اور رفتہ رفتہ خاص افراداور خاص طبقات میں زندگی کے‬
‫انداز بدلنا شرو ع ہوئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد اصالح کلیسا کی لوتھر تحریک سے‬
‫کیسا میں زلزلہ آیا اور بقول اقبال فرنگ میں ااذادی فکر کی نازک کشتی رواں ہوئی۔ ان‬
‫تمام تحریکوں کا مجموعی نتیجہ انقالب فرانس میں نکال اور اس کے کچھ عرصے بعد‬
‫انگلستان میں وہ انقالب آیا جسے صنعتی انقالب کہتے ہیں اور جس نے انگریزوں کی‬
‫زندگی کے ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ اچھا یا براتاثر پیدا کیا۔‬
‫لیکن یہ تمام تحریکیں مجموعی طور پر بھی اتنی انقالب آفریں نہ تھیں جتنی کہ اشتراکیت‬
‫کی زلزلہ انگیز تحریک۔ بقول اقبال‪:‬‬
‫قہر او کوہ گراں را لرزہ سیماب داد‬
‫اس سے قبل کی تحریکوں سے ملوکیت کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ جاگیرداری کی جگہ سرمایہ‬
‫داری نے لے لی عوام کے حقوق طلبی اور جمہوریت کی کوششیں بھی اتنی بارآور نہ‬
‫ہوئیں کہ ان کے لیے بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہو سکتے صحیح معنوں میں انقالب‬
‫اسی کو کہتے ہیں کہ جو اشتراکیت نے پیدا کیا۔ اشتراکیت قدیم معاشرت میں محض‬
‫رخنے بند کرنے اور ٹانکے یا پیوند لگانے کی قائل نہ تھی اس نے قدیم اداروں کی‬
‫بیماری کا عالج کوئی دوا یا غذا تجویز نہ کیا بلکہ ایسی جراحی جو اعضائے فاسد کی‬
‫قطع و برید سے دریغ نہ کرے۔ جہاں اشتراکیت کو کامیابی ہوئی وہاں کوئی ادراہ اور‬
‫کوئی طریقہ بھی اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہ سکا۔ قیصریت کا صفایا ہو گیا جاگیرداری‬
‫کا خاتمہ ہوا سرمایہ داری کا نام و نشان مٹ گیا اور کلیسا عضو معطل بن گیا۔ مذہب کے‬
‫خالف ایسا شدید رد عمل ہوا کہ دین کی بیخ کنی کو روسی سیاست نے اپنے الئحہ عمل‬
‫میں شامل کر لیا۔ پوجا پاٹ کی اجازت رہی مگر دین کی تبلیغ ممنوع ہو گئی۔ اشتراکی‬
‫ارباب حل و عقدکے لیے یہ شرط الزمی ہو گئی کہ اعتقادا ً اور عمال ً متحد ہوں اور‬
‫مادیت کے قائل ہوں۔ اس طرح سے حق و باطل کی ایک عجیب قسم کی آمیزش ظہور‬
‫میں آئی۔ سب سے بڑا ظلم جو اقدار حیات کو فنا کر دیتا ہے ۔ اشتراکیت کا جبری نطام‬
‫ہے۔ انسانوں کی نقل و حرکت پر قدغنیں لگ گئیں آزادی فکر آزادی ضمیر اور آزادی‬
‫بیان جرم بن گئی۔ جمال الدین افغانی کی روح اس تمام انقالب کا جائزہ لیتی ہے اور اس‬
‫سلسلے میں وہ اس انقالبی ملت کے سامنے اسالم کی انقالب آفریں تعلیم کو پیش کرتی‬
‫ہے جس کا لب لباب ہے کہ تم نے تخریبی اور سلبی کام تو خوب یا لیکن اس کا ایجابی‬
‫پہلو فقط اسالم پورا کر سکتا ہے۔ بقول غالب‪:‬‬
‫رفتم کہ کہنگی ز تماشا بر افگنم‬
‫در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم‬
‫در رقص اہل صومعہ ذوق نظارہ نیست‬
‫ناہید را بہ زمزمہ از منظر افگنم‬
‫افغانی بتاتا ہے کہ یہ نمطے دیگر کیا ہونا چاہیے افغانی کے پیغام کا حاصل مفصلہ ذیل‬
‫ہے‪:‬‬
‫اے ملت روسیہ تو اسالم اور مسلمانوں کی تاریخ کی طرف نظر ڈال اور اس سے کچھ‬
‫کسری کا طلسم توڑا لیکن بہت جلد ان‬
‫ٰ‬ ‫سبق اور عبرت حاصل کر۔ مسلمانوں نے قیصر و‬
‫کے تخت ملوکیت پر خود متمکن ہو گئے اور قیصریت کے جاہ و جالل کو اپنی شاہانہ‬
‫شوکت سے مات کر دیا۔ فرعون کے آبنوس کے تخت کی جگہ نوکروڑ روپے کا تخت‬
‫طائو س شان اسالم کا مظہر بن گیا۔ ملوکیت کے عروج میں افراد کی حریت سوخت ہو‬
‫گئی۔ تحقیق و اجتہاد کے دروازے بند ہو گئے۔ اس سے عجمی افکار اور غیر اسالمی‬
‫طرز زندگی نے اسالم کے افکار کی طرف سے غفلت پیداکر دی۔ ملوکیت وہ چیز ہے کہ‬
‫جو سیاست اور انقالبی معیشت پر ہی اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ عقل و ہوش اور رسم و رہ‬
‫سب دگرگوں ہو جاتے ہیں۔ غرضیکہ اسالم کے انقالب کو ملوکیت کھا گئی۔ ظالم اور‬
‫فتوی فروش بن کر ان کے آلہ کار‬
‫ٰ‬ ‫مستبد سالطین ظل ہللا بن گئے اور علمائے سو فقیہ اور‬
‫الکبری کے شہنشاہ دیوتا بنن گئے تھے۔ جن کی پوجا رعیت‬
‫ٰ‬ ‫بن گئے جس طرح رومتہ‬
‫کے ہر فرد پر الزم تھی اسی طرح مسلمان سالطین علماء سے بھی سجدے کرانے لگے‬
‫توی حاصل کر لیا کہ یہ سجدہ تعظیمی ہے۔ سجدہ عبادت نہیں۔ یہ‬
‫اور علماء سے یہ ف ٰ‬
‫دعوی کرتے تھے۔ جو راستہ چلتے ہوئے‬
‫ٰ‬ ‫سالطین خلفا بن کر اس رسول کی جانشینی کا‬
‫بھی اصحاب سے دو قدم آگے نہ چلتے تھے۔ اور محفل میں اپنی آمد کے وقت تعظیما ً‬
‫اصحاب کو کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے۔‬
‫کسری شکست‬
‫ٰ‬ ‫خود طلسم قیصرو‬
‫خود سر تخت ملوکیت نشست‬
‫تانہال سلطنت قوت گرفت‬
‫دین او نقش از ملوکیت گرفت‬
‫از ملوکیت نگہ گردد دگر‬
‫عقل و ہوش و رسم و رہ گردد دگر‬
‫اے ملت روشیہ کچھ کام تو تو نے وہی کیا ہے جو اسالم کرنا چاہتا تھا اور جس کا نمون‬
‫کچھ عرصیکے لیے دنیا کے سامنے پیش بھی کیا گیا تھا۔ تو نے محمد صلعم اور ان کے‬
‫خلفائے راشدین کی طرح قیصریت کی ہڈی پسلی توڑ ڈالی ہے مگر تجھ کو تاریخ اسالم‬
‫دعوی کرتے‬
‫ٰ‬ ‫سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ کہن یہ نہ ہو کہ تو بھی عالمگیر اخوت کا‬
‫کرتے ایک نئی قسم کی ملوکیت کا شکار ہو جائے تو بھی کہیں جبر و ظلم کے ساتھ‬
‫جہانگیری نہ شروع کر دے۔ خوفناک آالت ہالکت پیدا کرکے تو نوع انسان کو خوف زدہ‬
‫نہ کر۔ قوت ضروری چیز ہے لیکن دنیا ایسی ملت کی طالب ہے جو صرف نذیر ہی نہ ہو‬
‫اعلی درجہ تر زندگی‬
‫ٰ‬ ‫بلکہ بشیر بھی ہو۔ تمہارے طریق عمل میں انسانوں کے لیے ایک‬
‫کی بشارت ہونی چاہے۔ تمہاری تقدیر اقوام مشرق کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لیے تمہارا‬
‫رخ زیادہ تر ایشیا کی طرف ہونا چاہیے۔ جس کی روایات میں روحانیت کا بنیادی عنصر‬
‫بھی موجود ہے۔ تمہارے سینے میں ایک سوز ہے۔ جونئے شب و روز پیدا کرتاہے‬
‫افرنگ کا آئین و دین کہنہ اور فرسودہ ہو گیا ہے۔ اگر تم نے بھی اس کی نقالی شروع کر‬
‫دی اور ایک طرف بے دینی کو ترقی دی اور دوسری طرف محض سامان حیات اور‬
‫سامان حرب پیدا کرنے ہی کو مقصود بنا لیاتو تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو فرنگ کا ہوا‬
‫ہے۔ تم اگر در حقیقت نئی تہذیب پیدا کرنا چاہتے ہو تو مغرب کی طرف مت دیکھو۔ اس‬
‫تقلید اور مطابقت میں تم اسی رنگ میں رنگے جائو گے یہ مغرب اال سے اال کی طرف‬
‫نہیں بڑھ سکا اور مادیت کے آب و گل میں ُھنس کر رہ گیا ہے ارتقائی زندگی کا ایک قدم‬
‫نفی کی طرف تو دوسرا اثبات کی طرف اٹھتا ہے۔ اگر تم جدید نظام عالم پیدا کرنا چاہتے‬
‫ہو تو اب وقت ہے کہ تم اثبات کی طرف آجائو۔‬
‫کہنہ شد افرنگ را آئین و دیں‬
‫سوئے آں دیر کہن دیگر مبیں‬
‫کردہ کار خداونداں تمام‬
‫بگذر از ال جانب اال خرام‬
‫در گذر از ال اگر جویندہ‬
‫تا رہ اثبات گیری زندہ‬
‫جس انقالب آفرینی پر تم فخر کرتے ہو ا س کا سبق دنیا کو سب سے پہلے قرآن نے‬
‫پڑھایا تھا۔ اسی قرآن پڑھانے والے نبی صلعم نے یہ اعالن کیا تھا کہ ال قیصر و ال‬
‫کسری۔ اس نے حبشیوں وک روشن ضمیر بنا کر ان کی ظاہری سیاہی کو نور قلب سے‬
‫ٰ‬
‫بدل دیا تھا۔ اسی نے رنگ نسل کی تمیز کو حرام کیاتھا۔ فرنگی اقوام ابھی تک مساوات‬
‫اور اخوت کے دعاوی کے باوجو د کالوں کو گوروں کے مطابق حقوق دینے کی روادار‬
‫نہیں۔ مغربیوں کی تمام سیاست ماکیاویلی جیسے ابلیس نے سکھائی ہوئی روباہی ہے۔ اس‬
‫روباہی کا تمام فن دوسروں کو محتاج کورکھ کر اپنے لیے سامان حیات کی فراوانی پیدا‬
‫کرنا ہے‪:‬‬
‫گر ز مکر غریباں باشی خیبر‬
‫روبہی بگذار و شیری پیشہ گہر‬
‫چیست روباہی تالش ساز و برگ‬
‫شیر موال جوید آزادی و مرگ‬
‫قرآن نے جس فقر کو سراہا ہے وہ اصل شاہنشاہی ہے۔ جس کی بدولت خود مومن کو‬
‫کائنات پر حکومت حاصل ہوتی ہے۔ ضعیف اقوام کو مغلوب کر کے ان پر حکومت شاہی‬
‫نہیں بلکہ نفس دوں کی غالمی ہے مغرب نے محسوسات میں بہت تفکر کیا ہے اور‬
‫محدود مادی خرد کے احاطے میں جو کچھ آ سکتا ہے اس کو فکر و عمل سے مسخر کر‬
‫لیا ہے۔ لیکن فکر کے عالوہ ایک دوسری بیش قیمت چیز ہے جسے ذکر کہتے ہیں۔ یہ‬
‫ذکر زبان سے کچھ کلمات دہراتے رہنے کا نام نیں ہے۔ یہ ایک وجدان حیات ہے جس کا‬
‫عرفان انسان کو مازکذ حیات و کائنات سے ہم آغوش کر دیتا ہے۔ یہ ذکر حیات المحدود‬
‫کے لیے ایک المتناہی ذوق و شوق ہے۔ یہ انسانی روح کی غذا ور اس کا پر پرواز ہے۔‬
‫فکر انسانی زیاہ تر بدن کی زندگی میں الجھا رہتا ہے۔ لیکن ذکر دل کی زندگی ہے۔ اس‬
‫سے وہ آگ پیدا ہوتی ہے جو آتش ح یات ہے۔ تم بھی مادی عقلیت میں مغرب کی طرح‬
‫ابھی تک ایسے الجھیہوئے ہو کہ یہ بات ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ بامزاج تو نمی‬
‫سازد ہنوز۔‬
‫قرآ ن کی خوبی‬

‫قرآ ن کی خوبی یہ ہے کہ وہ فکر و ذکر دونوں کی بیک وقت تلقین کرتا ہے۔ فکر بھی‬
‫معرفت اور قوت تسخیر پیدا کرتا ہے اور نفس انسانی کا ایک امتیازی جوہر ہے۔ لیکن‬
‫ذکر کے بغیر اس میں تنویر کامل پیدا نہیں ہوتی۔ رہبانی مذاہب نے فکر کو باالئے طاق‬
‫رکھ کر خالی ذکر کو شغل بنا لیا ہے ور حکماء طبیعی فکر کے حدود سے باہر قدم نہ‬
‫رکھا۔ قرآن نے جس شاہنشاہی فقر کی تعلیم دی ہے وہ فکر و عمل کی ہم آغوشی ہے جو‬
‫انفس و آفاق دونوں کو محیط ہو جاتی ہے۔‬
‫خطبہ آلہ آباد ‪ 1930‬کے بنیادی نکات کیا تھے؟ تفصیل سے جواب‬ ‫سوال نمبر ‪:2‬‬
‫دیں ۔‬

‫جواب ‪:‬‬

‫خطبہ آلہ آباد ‪ 1930‬کے بنیادی نکات‬

‫‪ ۸‬نومبر ‪ ۱۹۲۷‬ء کو برطانوی حکومت نے آئندہ آئین کیلئے تجاویز پیش کرنے والے‬
‫کمیشن کا اعالن کیا۔ سر جان ایلز بروک سائمن کی سربراہی میں اعالن کئے جانے والے‬
‫کمیشن میں چھ اور ارکان شامل تھے۔چونکہ کوئی ہندوستانی کمیشن میں شامل نہیں کیا گیا‬
‫تھا اس لئے بڑے پیمانے پر کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ سمیت تمام جماعتوں کی‬
‫طرف سے اس کی مذمت کی گئی اور کمیشن کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے اعالنات‬
‫سامنے آئے۔ عالمہ اقبال نے پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت‬
‫سے بیان جاری کیا اور کمیشن میں کسی ہندوستانی کا نہ ہونے کو ہندوستان کے وقار پر‬
‫حملہ قرار دیا۔ کمیشن کے بائیکاٹ کے بارے میں عالمہ صاحب نے کہا کہ مسلمانوں کی‬
‫مختلف جماعتوں کو غور و فکر کے بعد کوئی متفقہ فیصلہ کرنا چاہیئے۔ پنجاب پراونشل‬
‫مسلم لیگ نے سر شفیع کی قیادت میں فیصلہ کیا کہ کمیشن کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ یہ‬
‫مرکزی مسلم لیگ کے فیصلے کے برخالف تھا۔ ابھی یہ اختالف سامنے آیا ہی تھا کہ‬
‫مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ‬
‫کے درمیان لیگ کی صدارت کے معاملے پر بھی اختالفات سامنے آگئے اور دسمبر‬
‫‪۱۹۲۷‬ء کے آخر میں مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک گروپ کو کلکتہ گروپ‬
‫یا جناح گروپ کے نام سے بالیا گیا اور دوسرے گروپ کو الہور گروپ یا شفیع گروپ‬
‫کا نام دیا جانے لگا۔‬

‫آل انڈیا مسلم لیگ‬


‫آل انڈیا مسلم لیگ ‪1930‬ء تک کمزور قسم کی سیاسی جماعت تھی۔ عالمہ ڈاکٹر سرمحمد‬
‫اقبال ؒنے اپنی ذہانت اور شاعری کی سوچ کو‪1911‬ء میں ’’شکوہ‘‘ کی صورت میں‬
‫خداوندکریم سے مسلمانوں کی حالت زار کا شکوہ کیا اور پھر خدا کی طرف سے ’’جواب‬
‫’’اسرار خودی‘‘ کی شکل میں‬
‫ِ‬ ‫شکوہ‘‘ بھی لکھ ڈاال۔ اس کے بعد آپ نے فارسی زبان میں‬
‫اپنے اندر کے بھید بیان کیے‪ ،‬نئی نسل میں عالمہ کی ہر دلعزیزی میں اضافہ شروع‬
‫ہوگیا۔‬
‫اقبال کو بھی ایک لگن تھی۔اپنے تشخص اور مذہب کے بارے میں اظہار خیال سے‬
‫ؒ‬ ‫عالمہ‬
‫اُن کی شناخت ہونی شروع ہوئی۔اُن کے فلسفی افکار جب کھلنے لگے تو انہوں نے اپنے‬
‫آپ کو عوام میں خطابات کیلئے تیار کیا۔چنانچہ آپ نے پورے ہندوستان کیلئے ‪ 6‬لیکچرز‬
‫’’اسالم م یں تجدید مذہبی روایات‘‘ کے موضوع پرتیار کیے۔ آپ کی مذہب کے بارے میں‬
‫گہری سوچ‪ ،‬انداز بیان اور فلسفہ نے بڑے بڑے جی ّد علماء کیلئے لمحہ فکرپیدا کردیا اور‬
‫اقبال اپنی فکری مہم کے ذریعے پائے کے ترجمان بن گئے علم و حکمت‪ ،‬مذہب سے‬
‫ؒ‬
‫لگائو اور صاف گوئی اُن کی فضیلت کا باعث بن گئی۔ انہوں نے لیکچرز کا ایسا راستہ‬
‫اختیار کیا کہ ہر شخص اُن کی دلیل سے قائل ہونے لگا۔ یہ طریقہ اُن کی مصلح ِ‬
‫ت خوبی‬
‫اقبال نے انسانوں کو خاص کر مسلمانوں کو اپنے مذہب‬
‫ؒ‬ ‫اور حکمت عملی کا حصہ بن گیا۔‬
‫کو جاننے اورعملی زندگی کی راہ دکھائی۔‬
‫ؒ‬
‫اقباالپنے فلسفہ اور فکر کے ساتھ سیاست اور مسلمانوں کے مفاد میں بھی سرگرم تھے۔‬
‫مسلمانوں نے اُن کی علمی وسعت کا احترام کرتے ہوئے انہیں آل انڈیا مسلم لیگ سیشن‬
‫الہ آباد‪ 1930‬ء کی صدارت کی دعوت دی۔ آپ نے نہایت فاضالنہ انداز میں ہند کے‬
‫ٰ‬
‫مسلمانوں کی سماجی‪ ،‬سیاسی ‪ ،‬مذہبی اور اقتصادی حاالت کا جائزہ لیا اور مسلمانوں کے‬
‫مسائل کا حل تالش کرنے اور اُن کو معاشرے میں اونچا مقام دالنے کی طرف ایک خاکہ‬
‫پیش کیا جس میں مسلم اکثریت والے صوبوں کو مال کر ایک مسلم ہندوستان کی تشکیل کا‬
‫گیا۔اقبال کا فلسفہ آفاقی تھا اور اُن کا یہ فلسفہ سیاست میں گہری سوچ پر مبنی‬
‫ؒ‬ ‫مطالبہ کیا‬
‫تھا۔ وہ کئی برسوں سے مسلمانوں کی حالت بدلنے کے مراحل طے کرچکے تھے۔‬
‫ؒ‬
‫اقبالنے مسلمانوں کو خودی ‪ ،‬اتحا ِد اُمت اور خدمت انسانیت کا درس دیا۔ آپ اِس میدان میں‬
‫اتنے آگے بڑھے کہ خودداری کے علمبردار کہالنے لگے اور آہستہ آہستہ اتحا ِد اُمت اور‬
‫اُس کی رہنمائی کیلئے نصب العین تیار کیا اور ’’مسلم انڈیا‘‘ مسلم ریاست کا قیام ہندوستان‬
‫میں ناگزیر قرار دیا۔ یہ مطالبہ انہوں نے عالم اسالم کی حالت کا جائزہ لینے کے بعدکیا۔‬
‫اقبال کو بین االقوامی مسلم کانفرنس میں شرکت کیلئے مفتی فلسطین عالمہ‬
‫ؒ‬ ‫‪ 1921‬ء میں‬
‫امین االحسینی نے مدعو کیا۔ آپ نے اس میں شرکت اس لیے کی کہ آپ کو عالم اسالم‬
‫اقبال نے اپنے فلسفانہ اور ایمان افروز خطبہ‬
‫ؒ‬ ‫کے مسائل پر گفتگو کرنا مقصود تھی۔‬
‫مینکہا’’مجھے غیر مسلمانوں سے مسلمانوں کے مسائل سے ڈر نہیں ۔ اگر مجھے خوف‬
‫ہے تو صرف مسلمانوں سے ہے۔ کیونکہ ہم اندر سے مسلمان نہیں ہیں بلکہ اُوپر سے‬
‫مسلمان ہیں۔‘‘ آپ نے مزید دانش کے ساتھ کہا‪’’ :‬ہم مسلمانوں کو اس بات پر فخر ہے کہ‬
‫ہم حضرت محمد ﷺ کی اُمت میں سے ہیں۔ ہمارا تعلق اُمت محمدیہ سے ہے۔ ہماری نجات‬
‫اقبال نے ایک سوال اُٹھایاکہ’’ کیا ہم نے کبھی‬
‫ؒ‬ ‫حضور اکرم کے ذریعے ہونی ہے۔‘‘ عالمہ‬
‫سوچاکہ محمدرسول ہللاﷺ کو بھی فخر ہوگا کہ ہمارے جیسے مسلمان اُن کی اُمت میں‬
‫شامل ہیں؟‘‘‬
‫اقبال کی تعلیمات ‪ ،‬تصورات کا منبع صحیح مسلمان ہونے پر مبنی ہے اور یہ فقرہ‬
‫ؒ‬ ‫گویا‬
‫مشع ِل راہ بن گیا او رہم غیر ملکی اطوار‪،‬اسلوب کو تو اپناتے ہیں مگر اپنے اسالف کے‬
‫کردار اور قرآن کی تعلیم سے کتراتے ہیں۔ ؒ‬
‫اقباالنسانی قدروں کو بحیثیت ایک مسلمان‬
‫ہونے کے ناطے سے روشناس کرانا چاہتے تھے۔ اُن کا کتنا بڑا پیغام حقیقت کا ہے کہ ہم‬
‫اندر سے مسلمان نہیں ہیں۔ اوپر سے مسلمان ہیں۔ آپ کا زور سنت رسول کی پیروی میں‬
‫ہے۔‬

‫‪ 1930‬ء کو مسلم لیگ کا ساالنہ اجالس الہ آباد میں منعقد ہوا۔ اس کی صدارت ڈاکٹر سر‬
‫محمد اقبال نے کی۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطبے میں بڑی وضاحت سے ہندوستان کے‬
‫حاالت‪ ،‬مسلمانوں کی مشکالت‪ ،‬ان کے مستقبل اور مسلمانان ہند کی منزل کی نشان دہی‬
‫کی۔‬

‫کانگرس جس طرح ماضی میں مسلمانوں کے وجود سے انکاری ہوئی تھی اس سے انکار‬
‫ممکن نہیں تھا۔ ان دنوں لندن میں گول میز کانفرنس ہو رہی تھی لیکن عالمہ اقبال گاندھی‬
‫کی ہٹ دھرمی کے پیش نظر جانتے تھے کہ کوئی بھی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا‬
‫اور مسلمانوں کی منزل ایک علیحدہ مملکت ہی ہے۔‬

‫عالمہ اقبال کا خطبہ الہٰ باد‬

‫الہ باد کے حوالے سے جتنا کچھ لکھا جاتا ہےیا باتیں کی جاتی‬
‫عالمہ اقبال کے خطبہ ٰ‬
‫تحریک پاکستان کے کسی اور واقعہ سے متعلق اتنی سرگرمی ہوتی ہو۔ یہ‬
‫ِ‬ ‫ہیں‪ ،‬شاید ہی‬
‫جلسہ بڑی تگ و دو کے بعد ہو پایا تھا اور مسلمانوں میں اس جلسے کے حوالے سے جو‬
‫جوش و خروش پایا جاتا تھا‪ ،‬اس کے برعکس جلسہ کا مقام اور انتظامات انتہائی ناموزوں‬
‫تھے۔ عالمہ صاحب کی تقریر انگریزی میں تھی اور عالمانہ تھی۔ تقریر کا کتابچہ تقسیم‬
‫شریک جلسہ کیلئے مشکل کام‬
‫ِ‬ ‫کردیا گیا تھا۔ تقریر کے متن کو سمجھنا عمومی طور پر‬
‫تھا۔‬

‫یہ کیفیت آج بھ ی برقرار ہے‪ ،‬اس خطبے کے حوالے سے لکھنے والے اور تبصرہ کرنے‬
‫والے اکثر افراد آج بھی نہ اس پوری تقریر کو پڑھتے ہیں اور نہ ہی اس میں پوشیدہ کچھ‬
‫حتی کے نہایت واضح الفاظ میں کئے گئے‬
‫اشارات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں‪ٰ ،‬‬
‫مطالبے کی بھی من مانی تشریحات کرتے ہیں۔ بہرحال میرا یہ مقام و مرتبہ نہیں کہ میں‬
‫اس پر کچھ زیادہ بات کروں۔‬
‫الہ باد ہندوؤں کیلئے ایک مقدس شہر کا‬
‫دریائے گنگا اور جمنا کے سنگم پہ واقع شہر ٰ‬
‫مقام رکھتا ہے۔ عالمہ اقبال ‪ ۲۸‬دسمبر ‪۱۹۳۰‬ء کی سہ پہر کو سر عبدہللا ہارون کے ہمراہ‬
‫الہ باد پہنچے تو وہاں انکا تاریخی اسقبال ہؤا۔ خیر مقدم کرنے والوں میں مسلمانوں کے‬
‫ٰ‬
‫الہ باد کے شہریوں کے بقول ایسا مجمع پہلے کبھی‬
‫عالوہ غیر مسلم بھی شامل تھے۔ ٰ‬
‫دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ جدھر نظر اٹھتی تھی انسانوں کا سمندر امڈا نظر آتا تھا۔ وقفے‬
‫وقفے سے مجمع عالمہ صاحب کی تعریف و تحسین کے نعرے بلند کررہا تھا۔‬
‫عالمہ اقبا ل کا خطبہ صدارت جو آل انڈیا مسلم لیگ کے ساالنہ اجالس میں ‪ ۲۹‬دسمبر‬
‫الہ آباد میں پڑھا گیا۔ اصل خطبہ انگریزی میں تھا۔ اس کا ترجمہ حسب‬
‫‪۱۹۳۰‬ء کو بہ مقام ٰ‬
‫ذیل ہے‪:‬‬

‫حضرات!‬
‫ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی فکرو عمل کی تاریخ کے انتہائی نازک لمحات میں آپ‬
‫نے مجھے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کا اعزاز بخشا‪ ،‬جس کیلئے میں آپ کا بیحد‬
‫ممنون ہوں۔ اس عظیم اجتماع میں ایسے اصحاب کی موجودگی میں جن کا وسیع تر‬
‫سیاسی تجربہ ہے اور جن کی معاملہ فہمی کا میں بے حد احترام کرتا ہوں‪ ،‬کسی شک‬
‫دعوی کروں‪ ،‬ایسے سیاسی‬
‫ٰ‬ ‫میں پڑے بغیر یہ بڑی جسارت ہوگی اگر میں کسی رہنمائی کا‬
‫معامالت میں جن کے فیصلوں کیلئے ہم یہاں موجود ہیں۔ میں کسی جماعت کا رہنما نہیں‬
‫ہوں۔ اورنہ ہی کسی رہنما کا پیرو ہوں۔ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسالم اس کے‬
‫قوانین و سیاست ‘ اس کی ثقافت و تاریخ اور ادب کے مطالعے میں صرف کیا ہے ۔میرا‬
‫خیال ہے کہ روح اسالمی سے مسلسل تعلق کے باعث جس کا اظہار وقت کے ساتھ ہو رہا‬
‫ہے‪ ،‬میرے اندر اسالم کو ایک اہم عالمگیر حقیقت کی حیثیت سے دیکھنے کی بصیرت‬
‫پیدا ہو گئی ہے۔‬

‫لہٰ ذا یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہندوستانی مسلمان اسالمی روح کے شیدائی رہیں گے میں‬
‫اس بصیرت کی روشنی میں خواہ اس کی قدر وقیمت کچھ بھی ہو آپ کے فیصلوں میں‬
‫آپ کی رہنمائی کرنے کے بجائے آپ کے دل میں اس بنیادی اصول کا احساس پیدا کرنے‬
‫کا معمولی سا کام انجام دوں گا جس پر میری رائے میں آپ کے فیصلوں کاعموما ً انحصار‬
‫ہونا چاہیے ۔‬
‫اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسالم کو ایک اخالقی‪ ،‬مثالی نیز خاص قسم کی‬
‫شائستگی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے … اوراس اصطالح سے میرا مطلب ایک ایسا‬
‫معاشرہ ہے جس کا نظم و ضبط ایک خاص نظام قانون اور مخصوص اخالقی نصب العین‬
‫کے ماتحت عمل میں آیا ہو… اسالم ہی مسلمانان ہند کی تاریخ کا اہم ترین جزو ترکیبی‬
‫رہا ہے ۔ اس نے ان بنیادی جذبات اور وفاداریوں کو پیش کیا ہے جو آہستہ آہستہ بکھرے‬
‫ہوئے افراد اور گروہوں کو متحد کرتی ہیں ‪ ،‬اور آخر کار ان کو خود ہی ایک اخالقی‬
‫شعور رکھنے والے نمایاں افراد میں بدل دیتی ہیں۔ واقعی یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی‬
‫کہ ہندوستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایک عوامی تعمیراتی قوت کی حیثیت سے‬
‫اسالم نے بہترین کام کیا ہے۔۔ درحقیقت یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں کہ دنیا بھر میں صرف‬
‫ہندوستان ہی ایسا ملک ہے جہاں اسالم ایک مردم ساز قوت کی حیثیت سے بہترین‬
‫صورت میں جلوہ گر ہوا ہے۔ دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی اسالمی معاشرہ‬
‫تقریبا ً پوری طرح ایک مخصوص اخالقی نصب العین کی ثقافت سے بنا ہے۔ میرے کہنے‬
‫کا مقصد یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی کاخمیر جس میں ایک مخصوص ہم آہنگی او ر اندرونی‬
‫اتحاد پایا جاتا ہ ے ان قوانین اور اداروں کا رہین منت ہے جو اسالمی ثقافت سے وابستہ‬
‫ہیں۔‬

‫لیکن مغرب کے سیاسی افکار نے جن خیاالت کا پرچار کیا ہے ان کے باعث ہندوستان‬


‫اور ہندوستان کے باہر مسلمانوں کی موجودہ نسل کا نقطہ نظر بدلتا نظر آ تاہے۔ہمارے‬
‫نوجوان ان خیاالت سے متاثر ہو کر یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ملک میں بھی ایسے ہی‬
‫خیاالت زندہ و متحرک قوت بن جائیں‪ ،‬لیکن وہ ان حقائق کی طرف بنظر غائر توجہ نہیں‬
‫دیتے جن کی بنا پر یورپ میں یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ یورپ میں مسیحیت محض ایک‬
‫رہبانی نظام تھا جو رفتہ رفتہ ایک وسیع کلیسائی ادارے(حکومت) میں تبدیل ہو گیا۔ لوتھر‬
‫کا احتجاج دراصل اسی کلیسائی نظام حکومت کی طرف تھا۔ وہ کسی دنیاوی (الدینی) نظام‬
‫کے خالف نہ تھا۔ اس لیے اس قسم کی سیاست کا تعلق مسیحیت سے نہیں تھا اور اس‬
‫نظام کے خالف لوتھر کی بغاوت حق بجانب تھی۔ گو میرے خیال میں لوتھر کو اس امر‬
‫کا احساس نہیں تھا کہ یورپ میں جو صورت حال پیدا ہو گئی تھی ا س کے پیش نظر اس‬
‫عیسی کے عالمگیرا خالقی نظام کی جگہ متعدد‬
‫ٰ‬ ‫کی بغاوت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ حضرت‬
‫اور مختلف النوع قومی نظام پیدا ہو جائیں گے جن کا حلقہ بہت محدود ہو گا۔‬

‫اسی لیے لوتھر اور روسو جیسے لوگوں کی تحریکوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وحدت کی جگہ‬
‫غیر مربوط و منتشر کثرت نے لے لی جس کی وجہ سے انسانیت کی اکائی اقوام میں‬
‫تقسیم ہو گئی۔ مثالً ہر عالقے کو ایک الگ سیاسی اکائی تصور کیا جانے لگا۔ اگر آپ یہ‬
‫سمجھتے ہیں کہ مذہب کا تعلق صرف آخرت سے ہے تو مسیحیت کا جو حشر یورپ میں‬
‫عیسی کے عالمگیر اخالقی نظام کی جگہ قومی اور سیاسی‬
‫ٰ‬ ‫ہوا وہ قدرتی امر تھا۔ حضرت‬
‫نظام کی اخالقیات نے لے لی نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے‬
‫مجبور ہو گیا کہ مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق‬
‫نہیں… لیکن اسالم انسان کی وحدت کو مادے اور روح کے تضادات میں تقسیم نہیں کرتا۔‬

‫اسالم میں خدا اورکائنات‬

‫اسالم میں خدا اورکائنات‪ ،‬روح اور مادہ ‪ ،‬کلیسا اور ریاست ایک کل کے مختلف اجزا ہیں‬
‫۔ انسان کسی نجس دنیا کا باشندہ نہیں ہے جسے کسی ایسی روحانی دنیا کی خاطر ترک‬
‫کرے جو کہیں اور واق ع ہو۔ اسالم کے نزدیک مادہ روح کی وہ شکل ہے جو زمان و‬
‫مکاں میں ظہور پذیر ہوتا ہے ۔ غالبا ً مانیچین‪ Manichaean‬فکر کے زیر اثر یورپ نے‬
‫روح اورمادے کی دوئی کو بال غور و فکر کے تسلیم کر لیا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں‬
‫عیسائیت کو یوروپی ریاستوں کی زندگی سے مکمل طور پر خارج کردیا گیا ہے۔ روحانی‬
‫اور دنیاوی طور پر یہ علیحدگی غلطی کا نتیجہ ہے جس نے یورپی مذہبی اور سیاسی‬
‫فکر کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے ۔اس کے بہترین مفکرین آج اس ابتدائی غلطی کا‬
‫احساس کر رہے ہیں ‪ ،‬لیکن ان کے سیاست دان بالواسطہ طور پر دنیا کو یہ نظام بال تردد‬
‫قبول کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ باہمی طور پر بیمار توازنی ریاستوں کا‬
‫ایک مالپ ہے جس کے انسانی نہیں بلکہ قومی مفادات ہیں۔ اور یہ باہمی طور پر بیمار‬
‫توازنی ریاستیں ‪ ،‬عیسائیت کے اخالقی اور مذہبی اعتقادات کو پامال کرنے کے بعد ‪ ،‬آج‬
‫ایک وفاقیت والے یوروپ کی ضرورت محسوس کر رہی ہیں ‪ ،‬یعنی ایک اتحاد کی‬
‫ضرورت جو مسیحی چرچ کی تنظیم نے اصل میں انھیں دی تھی۔ یعنی اس اتحاد کی‬
‫ضرورت ہے جو اصل میں عیسائی چرچ کی تنظیم نے انہیں دی تھی ‪ ،‬لیکن جس نے‪،‬‬
‫اسے مسیح کے انسانی بھائی چارہ کےپیغام کی روشنی میں تشکیل نو کے بجائے لوتھر‬
‫زیر اثر رہ کر تباہی پر آمادہ رکھا۔‬
‫کے ِ‬

‫دنیائے اسالم میں کسی لوتھر کا ظہور ممکن نہیں ہے اس لے کہ اسالم میں ایسا کوئی‬
‫وسطی کی مسیحی دنیا میں موجود تھا۔ اور‬
‫ٰ‬ ‫کلیسائی نظام موجود نہیں ہے جیسا کہ ا ز منہ‬
‫جس کے توڑنے کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔دنیائے اسالم میں ایک عالمگیر نظام‬
‫سیاست موجود ہے جس کے بنیادی نکات وحی کا نتیجہ ہیں۔ لیکن چونکہ عرصہ دراز‬
‫سے ہمارے فقہا جدید دنیا سے بے خبر رہے ہیں اس لیے اس نظام کو نئے سرے سے‬
‫مرتب کر کے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔میں نہیں جانتا کہ قومیت کے تصور کا‬
‫اسالمی دنیا میں ا ٓ خر کار کیا حشر ہو گا۔ کیا اسالم اسے اپنے اندر جذب کر کے اس کی‬
‫اس طرح قلب ماہیت کر دے گا جیسا کہ پہلے بہت سے ایسے تصورات کی کر چکا ہے‬
‫جو اسالم سے مختلف تھے یا خود اسالم کے اندر کوئی زبردست تغیر رونما ہو جائے‬
‫گا… اس بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ لیڈن)‪ (Leidon‬ہالینڈ کے پروفیسر‬
‫وینسنک)‪ (Wensinck‬نے حال ہی میں مجھے لکھا تھا کہ‪ ” :‬مجھے ایسا محسوس ہوا‬
‫ہے کہ اسالم ایک ایسے بحرانی دور میں داخل ہو رہا ہے کہ جس میں مسیحیت کو داخل‬
‫ہوئے ایک صدی سے زیادہ گزر چکا ہے ۔ سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ پرانے تصورات‬
‫کو ترک کر دینے کے ساتھ ساتھ مذہب کی بنیاد کو بھی کسی طرح محفوظ رکھا جائے۔‬
‫میرے لیے تو یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ اس کا نتیجہ مسیحیت کے حق میں کیا ہو گا چہ‬
‫جائیکہ اسالم کے بارے میں کوئی پیش گوئی کروں‘‘۔اس وقت قومیت کے تصور نے‬
‫مسلمانوں کی نگاہوں کو نسل پرستی سے آلودہ کر رکھا ہے اور یہ خیال اسالم کے انسان‬
‫دوستی کے تصور میں بری طرح حائل ہو رہا ہے ممکن ہے کہ نسل پرستی کا یہ جذبہ‬
‫ایسے معیارکو بڑھاوا دے جو اسالم کے معیار سے مختلف بلکہ متضاد ہوں۔‬

‫آل انڈیا مسلم لیگ کے اس جلسے کی صدارت کے لیے آپ نے ایک ایسے شخص کو‬
‫منتخب کیا ہے جو اس امر سے مایوس نہیں ہے کہ اسالم اب بھی ایک ایسی قوت ہے‬
‫جس میں انسان کی سوچ کو جغرافیائی حدود سے آزاد کرانے کی سکت موجود ہے… جو‬
‫یہ مانتا ہے کہ مذہب افراد کے ساتھ ساتھ ریاستوں کی زندگی میں بھی انتہائی اہمیت کی‬
‫حامل طاقت ہے ‪ ،‬اور آخر کار جو یہ مانتا ہے کہ اسالم خود ہی منزل ہے اور اس کو‬
‫کسی گمراہی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ایسا شخص مجبور ہے کہ حاالت کو خود اپنے‬
‫ہی نقطہ نگاہ سے دیکھے۔ یہ نہ سمجھے کہ جس مسئلے کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں‬
‫وہ محض ایک نظری مسئلہ ہے یہ ایک زندہ اور عملی مسئلہ ہے جس سے اسالم کے‬
‫دستور ح یات اور نظام عمل کے تار و پود متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس مسئلے کے صحیح حل‬
‫سے ہندوستان میں ایک ممتاز ثقافتی گروہ کی حیثیت سے ہمارے مستقبل پر اثر پڑ سکتا‬
‫ہے۔‬

‫ہماری تاریخ میں اسالم پر ایسا سخت دور کبھی نہ آیا تھا کہ جیسا کہ آج ہے لوگوں کو یہ‬
‫حق حاصل ہے کہ وہ اپن ے سماج کے بنیادی اصولونمیں ترمیم کریں یا انہیں بالکل مسترد‬
‫کر دیں۔ لیکن دوسرے تجربات کرنے سے پہلے واضح طور پر یہ دیکھ لینا ضروری ہے‬
‫کہ ان کا نتیجہ کیا ہو گا۔میں نہیں چاہتا کہ جس انداز میں اس مسئلے کی طرف دیکھ رہا‬
‫ہوں اس سے یہ خیال پیدا ہو کہ جن حضرات کی سوچ میری سوچ سے مختلف ہے میں‬
‫ان سے جھگڑا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا یہ اجتماع مسلمانوں کا اجتماع ہے۔ میرا خیال ہے کہ‬
‫آپ سب اسالم کے مقاصد اور ا س کی روح سے وفادار رہنے کے خواہشمند ہیں اس لیے‬
‫میرا واحد مقصد یہی ہے کہ میں آپ کے سامنے صاف صاف اور دیانتداری کے ساتھ‬
‫موجودہ صورت حال کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر دوں۔میرے خیال میں صرف‬
‫یہی طریقہ ہے کہ میں آپ کے سیاسی عمل کی راہوں کو اپنے عقائد کی روشنی سے‬
‫منور کر سکوں گا۔‬

‫خطبہ آلہ آباد کے اہم نکات‬

‫اسالم ایک زندہ قوت‬

‫اسالم ریاست اور فرد دونوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے‘‬
‫دستور حیات ہے اور ایک نظام ہے جس شخص کو آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت‬
‫کے اعزاز سے نوازا وہ اب بھی اسالم کو ایک طاقت سمجھتا ہے اور یہی طاقت انسان‬
‫کے ذہن کو وطن اور نسل کے تصور کی قید سے نجات دال سکتی ہے۔‬

‫اسالم مکمل ضابطہ حیات ہے‬

‫یورپ میں مذہب ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہاں فرد روح اور مادہ میں تقسیم ہے‪،‬‬
‫ریاست اور کلیسا جدا ہیں‪ ،‬خدا اور کائنات میں کوئی تعلق نہیں لیکن اسالم ایک وحدت‬
‫ہے جس میں ایسی کوئی تفریق نہیں ہے۔ اسالم چند عقائد کا مجموعہ نہیں بلکہ مکمل‬
‫ضابطہ حیات ہے۔ مذہب کو فرد اور ریاست کی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔‬

‫مسلمان ایک قوم ہیں‬

‫ہندوستان کے مسلمان اپنے تہذیب و تمدن‪ ،‬ثقافت اور اسالم کی وجہ سے یہاں کی دوسری‬
‫قوموں سے مختلف ہیں۔ ان کی تعداد برعظیم میں سات کروڑ ہے اور ہندوستان کے‬
‫دوسرے باشندوں کی نسبت ان میں زیادہ ہم آہنگی اور یکسانی پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ‬
‫ہے کہ مسلمانوں کو ہی جدید ترین معنی میں قوم کہا جا سکتا ہے۔‬

‫متحدہ قومیت کی تردید‬


‫مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں ہے کہ اس میں ایک ہی قوم آباد ہو۔‬
‫ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے جن کی نسل‪ ،‬زبان‪ ،‬مذہب سب ایک دوسرے سے الگ‬
‫ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں وہ احساس پیدا نہیں ہو سکا ہے جو ایک ہی نسل کے مختلف‬
‫افراد میں ہوتا ہے۔‬

‫ہندو مسلم دو الگ قومیں‬

‫ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں‪ ،‬ان میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے‬
‫کہ وہ گزشتہ ایک ہزار سال میں اپن ی الگ حیثیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ہی ملک میں‬
‫رہنے کے باوجود ہم میں یک جہتی کی فضا اس لیے قائم نہیں ہو سکی کہ یہاں ایک‬
‫دوسرے کی نیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ‬
‫کس طرح فریق مقابل پر غلبہ اور تسلط حاصل کیا جائے۔‬

‫مسلم ریاست کی ضرورت‬

‫ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسالمی ملک ہے۔ تنہا ایک ملک میں سات کروڑ فرزندان‬
‫توحید کی جماعت کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسالم‬
‫بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس مقصد کے لیے ایک مرکز قائم کرنا ہو گا۔‬

‫علیحدہ وطن کا مطالبہ‬

‫میں یہ چاہتا ہوں کہ صوبہ پنجاب‪ ،‬صوبہ شمال مغربی سرحد‪ ،‬سندھ اور بلوچستان کو‬
‫ایک ریاست کی شکل دی جائے یہ ریاست برطانوی ہند کے اندر اپنی حکومت خود‬
‫اختیاری حاصل کرے‘ خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شمال مغربی‬
‫ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسالمی ریاست قائم کرنا ہی پڑے گی۔‬

‫سائمن کمیشن کی سفارشات پر تنقید‬


‫عالمہ اقبال جداگانہ انتخاب‘ بنگال‘ پنجاب اور سرحد میں مسلم اکثریت کو قائم رکھنے‬
‫کے زبردست حامی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تجاویز کی مخالفت کرتے ہوئے سر شفیع کی‬
‫حمایت کی تھی۔ کیونکہ سائمن کمیشن نے بھی بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کی آئینی‬
‫اکثریت کی حمایت نہیں کی تھی اس لیے آپ نے اس پر بھی سخت تنقید کی۔‬

‫ہندوستان کی آزادی کے لیے ضرورت اتحاد‬

‫عالمہ محمد اقبال نے اپنے خطبے میں واضح کر دیا کہ اگر مسلمانوں کے جائز مطالبات‬
‫پورے نہ کیے گئے تو وہ متحد ہو کر کوئی آزادانہ سیاسی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ مسلم‬
‫مملکت کا میرا یہ مطالبہ ہندو اور مسلمان دونوں کے لیے منفعت بخش ہے۔ ہندوستان کو‬
‫اس سے حقیقی امن و سالمتی کی ضمانت مل جائے گی۔‬

‫خطبہ الہ آباد کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسالم خورشید نے بالکل بجا لکھا ہے کہ‬
‫خطب ے کا گہری نظر سے مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہندوستان کے مسلم اور ہندو‬
‫خطوں میں تقسیم کرکے پرامن بقائے باہمی کی صورت پیدا کرکے دونوں میں تعاون کی‬
‫راہ بھی کھولنا چاہتے تھے ۔وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ مسلح انڈیا کے قدرتی ثقافتی‬
‫روابط اور وسطی ایشیائی اور مغربی ایشیا کے مسلمان خطوں کے ساتھ ہوں گے اور‬
‫ہندو انڈیا کے مشرقی ایشیا کے ساتھ اور اس طرح بر اعظم ہندوستان ایشیا کے دو حصوں‬
‫کے درمیان ایک پل کا کام دے گا اور یوں ایشیا کے بھی بہت سے مسائل حل ہو جائیں‬
‫گے۔ پس وہ صرف شمال مغربی ہند میں دلچسپی نہیں لیتے تھے بلکہ ان کی دلچسپی‬
‫پورے ہندوستان پر مرتکز تھی وہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسا کردار تجویز کرتے تھے‬
‫جو صرف مسلمانوں کے لئے نہیں پورے برعظیم کے لیے مفید ہو اور اس کے ذریعہ‬
‫سے پورے ایشیا کے لیے بھی ‪،‬اس سلسلے میں خطبہ الہ آباد کا یہ اقتباس ایک خاص‬
‫اہمیت کا حامل ہے‪:‬‬
‫ہندوستان کی تاریخ کا موجودہ بحران تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان قوم کا مکمل طور پر‬
‫منظم ہو اور وہ مقصد اور ارادے کے اتحاد سے بہرور ہہو۔ اس سے قوم کے اپنے‬
‫مفادات بھی وابستہ ہیں اور مجموعی طور پر ہندوستان کے مفادات بھی‬

‫ہندوستان کی سیاسی غالمی پوری ایشیا کے لئے ال انتہا مصیبت کا باعث رہی ہے اور اب‬
‫بھی ہے ۔اس غالمی نے مشرق کی روح کو کچل کر رکھ دیا اور اسے مکمل طور پر‬
‫اپنے اظہار کی مسرت سے محروم کردیا یہ وہی روح تھی جس نے کسی زمانے میں‬
‫مشرق کو ایک عظیم اور شاندار ثقافت کا خالق بنایا ۔‬

‫ہندوستان کی طرف سے ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کیونکہ ہمیں یہی جینا اور مرنا ہے اور‬
‫چونکہ ایک واحد ملک میں سات کروڑ مسلمانوں کی آبادی مسلم ایشیا کے سارے ممالک‬
‫کی مجموعی آبادی سے متجاوز ہونے کی وجہ سے اسالم کے لئے ایک بیش قیمت اثاثہ‬
‫ہے ۔اس لئے جب ہم ہندوستانی مسئلے پر غور کرتے ہیں تو ہمیں صرف مسلم نقطہ نگاہ‬
‫ہی نہیں بلکہ ہندوستانی مسلم نقطہ نگاہ کو بھی سامنے رکھنا ہے ۔ہم ایشیا اور ہندوستان‬
‫کے سلسلے میں ایک معینہ مقصد پر ایک منظم قوت ارادی مرتکز کئے بغیر اپنا فرض‬
‫پوری وفاداری سے سر انجام نہیں دے سکتے ۔‬
‫اقبال کی کتاب "بانگ درا" کے مختلف تخلیقی ادوار پر تفصیل سے‬ ‫سوال نمبر ‪:3‬‬
‫روشنی ڈالیں ۔‬

‫جواب ‪:‬‬

‫اقبال کی کتاب "بانگ درا" کے مختلف تخلیقی ادوار‬

‫دوست احباب اور عوام کے پیہم اصرار پر عالمہ اقبال نے اپنا پہال اردو مجموعہ کالم‬
‫مرتب کر کے ‪1924‬ء میں شائع کیا۔ اس مجموعے میں ان کے اس وقت تک کے اردو‬
‫کالم کا انتخاب شامل تھا ۔ بانگ درا کے کالم کو انتخاب کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس‬
‫میں اپنا بہت سا ابتدائی کالم انہوں نے سرے سے شامل نہیں کیا ۔ سیالکوٹ اور ال ہور‬
‫کے مشاعروں کے لیے لکھی ہوئی سینکڑوں غزلیں انہوں نے بالکل خارج کر دیں ۔‬
‫رسائل میں چھپی ہوی نظموں اور غزلوں میں بھی بہت زیادہ تبدیلیاں کیں ۔ بعض نظمیں‬
‫بالکل رد کر دیں اور بعض طویل نظموں کا ایک آدھ بند ہی باقی رکھا۔ بہت سی نظموں‬
‫اور غزلوں میں سے متعد داشعار خارج کر دیئے ۔ بعض اشعار میں لفظی تبد یلیاں کیں‬
‫جن سے بعض اوقات ان کا معنویت بدل گئی ۔ یہ رد و بدل اتنے وسیع پیمانے پر کیا گیا‬
‫کہ بہت سے ایسے اشعار بھی با نگ درا میں شامل نہ ہو سکے جو بے حد مشہور ہو‬
‫چکے تھے ۔مثال طویل نظم ” فریا د امت‘ کا صرف ایک بند’ دل‘ کے عنوان سے بانگ‬
‫درا میں شامل کیا اور وہ بند حذف کر دیا گیا جس میں مشہور شعر شامل تھا ۔ واعظ تنگ‬
‫نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر سمجھتا مسلماں ہوں میں غرض عالمہ اقبال نے اس‬
‫وسیع پیمانے پر ردو بدل کیا جسے کوئی غیر معمولی صاحب بصیرت ہی روا رکھ سکتا۔‬
‫ہے ۔ ورنہ عموما شعرا ء کواپنا ہر شعر پسند ہوتا ہے ۔‬

‫با نگ درا کی ترتیب یوں ہے کہ اسے تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے پہال دور ‪ 1905‬ء‬
‫تک کے کالم پر محیط ہے ۔ دوسرا دور ‪1905‬ء سے ‪ 1908‬ءتک ہے اور تیسرا دور‬
‫‪ 1908‬سے کتاب کی اشاعت تک پھیال ہوا ہے ۔‬
‫ہر دور میں پہلے نظمیں دی گئی ہیں اور آخر میں غزلیں ۔ بعض نظموں پر سال تخلیق‬
‫بھی درج ہے مگر اکثر نظموں کے لیے یہ اہتمام نہیں کیا گیا ۔ پوری کتاب میں زمانی‬
‫ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے یعنی پہلے لکھی جانے والی نظم پہلے اور بعد میں لکھی‬
‫جانے والی نظم بعد میں ۔ کتاب کے آخر میں ظریفانہ کے عنوان سے کچھ اشعار قطعات‬
‫وغیرہ درج کیے ہیں جو اکبر الہ آبادی کی پیروی میں عالمہ اقبال نے لکھے تھے ۔ان‬
‫اشعار پر سال تحریر درج نہیں مگر قیاس یہ ہے کہ یہ تمام اشعار ‪1910‬ء سے ‪ 1914‬ء‬
‫تک لکھے گئے ہیں۔ بانگ درا کے شروع میں سرعبدالقادر نے ایک مبسوط دیباچہ لکھا‬
‫ہے ۔ عبدالقادر عالمہ اقبال کے عزیز دوستوں میں شامل تھے ۔ اور خود بھی دنیاۓ ادب‬
‫میں اہم مقام رکھتے ہیں ۔ ان کا یہ دیباچہ کسی بھی اردو کے شعری مجموعے پر لکھے‬
‫ہوۓ دیباچے سے زیادہ مشہور ہوا اور بعد میں اقبالیات کے اکثر نقادوں نے اس میں سے‬
‫اپنی تنقیدی کتابوں میں حوالے نقل کیے ہیں ۔ بانگ درا کے تینوں ادواری شاعری‬
‫موضوعات کی رنگارنگی اور اسالیب یہاں کے تنوع کی وجہ سے پوری اردوشاعری‬
‫میں منفر وحیثیت رکھتی ہے ۔ اگر چہ تینوں ادوار متعد دخصوصیات کی وجہ سے ایک‬
‫دوسرے سے الگ الگ ہیں مگر تینوں میں نقطہ نظر کی ایک یکسانیت بھی موجود ہے‬
‫جس کی تفصیل یہ ہے ۔ ‪114‬‬

‫پہال دور‬

‫عالمہ اقبال نے ‪ 1905‬ء تک اردو میں جو کچھ لکھا اس کا انتخاب اس دور میں شامل‬
‫کیا گیا ہے ۔ اقبال نے اردو زبان کے تقریبا سبھی شعراء کی طرح شاعری کا آغاز غزل‬
‫گو کے طور پر کیا ۔ شروع میں وہ سیالکوٹ اور ال ہور کے مشاعروں میں غزلیں‬
‫پڑھتے تھے۔ یہ دور پورے ملک میں داغ دہلوی امیر مینائی اور ان کے شاگردوں کی‬
‫مقبولیت کا تھا ۔ جونو جوان شاعر غزل گوئی شروع کرتا تھا اسی رنگ میں رنگا جا تا‬
‫تھا ۔اس قسم کی شاعری میں عشق مجازی کے مضامین کی کثرت ہوتی تھی ۔ شاعری کا‬
‫وہ انداز جسے معاملہ بندی کہا جا تا ہے اور جو اس سے پہلے اردو میں جرات اور‬
‫مومن وغیرہ کی وجہ سے مقبول ہو چکا تھا داغ اور ان کے شاگردوں میں بھی پایا جا تا‬
‫ہے ۔ داغ کی مقبولیت دیکھ کر امیر مینائی اور ان کے شاگردوں نے بھی یہی رنگ‬
‫اختیار کر لیا ۔عشقیہ مضامین کے عالوہ اس رنگ میں لکھنے والے شعراء زبان اور‬
‫محاورے کی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے ۔ الہور میں بھی ان دنوں داغ اور امیر کے‬
‫تالمذہ ( شاگرد ) موجود تھے ۔ان میں سے ارشد گورگانی اور ناظم لکھنوی کے نام زیادہ‬
‫معروف ہوۓ ۔ارشد داغ کے اور امیر کے شاگردوں میں شامل تھے ۔ عالمہ اقبال نے خط‬
‫و کتابت کے ذریعے سے سیالکوٹ ہی میں داغ کی شاگردی اختیار کر لی اور غزلیں‬
‫اصالح کے لیے بھیجنے لگے تھے ۔لیکن انہوں نے جلد کہہ دیا کہ کالم میں اصالح کی‬
‫گنجائش بہت کم ہے ۔‬

‫اقبال کی غزل گوئی کے آغاز‬

‫اقبال کی غزل گوئی کے آغاز اورابتدائی چند برسوں کی تو یہ کیفیت تھی جواو پر بیان‬
‫ہوئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے نظم گوئی کیوں اور کب شروع کی ؟ اس‬
‫کے لیے کوئی قطعی شہادت تو موجودنہیں لیکن قیاس یہ کہتا ہے کہ اقبال کی نظم نگاری‬
‫کا آ غاز ال ہور میں ہوا ہوگا ۔ الہور میں ‪ 1874‬ء کا سال اردو نظم گوئی کی تاریخ میں‬
‫بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ اس سال موال نا محمد حسین آزاد نے ایک نئے مشاعرے کی داغ‬
‫بیل ڈالی ۔ یہ مشاعرہ روایتی مشاعروں سے مختلف تھا ۔ ہمارے روایتی مشاعروں میں یا‬
‫تو طرح مصرع و یا جا تا تھا ۔ اس پر تمام شعرا ءغزلیں کہ کر التے تھے اور بعض غیر‬
‫طرحی مشاعروں میں پہلے سے کہی ہوئی غزلیں پڑھی جاتی تھیں مگر محمد حسین آزاد‬
‫نے یہ انداز اپنایا کہ تمام شعراء کونظم لکھنے کے لیے ایک عنوان دے دیا تھا اس عنوان‬
‫پر تمام شعرا نظمیں لکھ کر التے تھے ۔ نظم کے لیے کسی ہیت یا بحر کی پابندی نہیں‬
‫تھی ۔ ان میں سے چند مشاعروں میں موال نا حالی بھی شریک ہوۓ جوان دنوں ایک‬
‫مالزمت کے سلسلہ میں ال ہور میں مقیم تھے ۔ یہ مشاعرے ایک سال سے زیادہ جاری نہ‬
‫رہ سکے مگر انہوں نے نظم نگاری کی ایک تحریک بیدار کر دی اور ان سے متاثر ہو‬
‫کر بعض شعراء کا میالن نظم نگاری کی طرف ہو گیا ۔ یہی زمانہ ہے جب سید احمد خان‬
‫کی ہمہ جہتی تحریک بڑے زور سے چل رہی تھی ۔ سرسید تحریک کے جملہ مقاصد میں‬
‫ادب کی اصالح کا مقصد بھی شامل تھا اور وہ بھی اس کے حامی تھے کہ شعراء کو‬
‫غزل گوئی چھوڑ کر نظم گوئی شروع کرنی چاہیے ۔ اس کی طرف انہوں نے اپنے‬
‫رسالے تہذب االخالق کے ذریعے سے بھی توجہ دالئی ۔ سرسید تحریک کا پنجاب میں‬
‫بڑا گہرا اثر ہوا ۔اس لیے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ اس تحریک کے اراکین کی نظمیں‬
‫الہور کے شعراء تک بھی پہنچتی ہوں گی ۔‬

‫اقبال کی ان ابتدائی نظموں کے موضوعات زیادہ تر وہی ہیں جو اس دور کے دوسرے‬


‫نظم نگاروں کے یہاں مل جاتے ہیں ۔ انیسویں صدی کے اختتام کے قریب ملک میں‬
‫سیاسی جماعتوں کا قیام عمل میں آ نے لگا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی‬
‫سیاسی تحریکات شروع ہونے لگی تھیں ۔ آزادی کی خواہش ملک کے ہرشخص کے دل‬
‫میں مچل رہی تھی لیکن اس زمانے میں انگریزی حکومت اتنی طاقتور تھی کہ لوگ کھلم‬
‫کھال آ زادی کا مطالبہ نہیں کر سکتے تھے ۔ اس دور میں انگریزوں کی مخالفت کا‬
‫بالواسطہ طریقہ اختیار کیا جا تا تھا ۔ اس کے کئی طریقے تھے مثال اپنے ملک کے‬
‫مناظر وغیرہ کو موضوع بنایا جاۓ تا کہ ان کے ذریعے سے ملک سے محبت پیدا ہو یا‬
‫ماضی کی تاریخ سے ایسے واقعات چن کر منظوم کیے جائیں جن سے یہ ظاہر ہو کہ‬
‫ماضی میں ہماری بڑی شاندار روایات رہی ہیں یا مشرقی تہذیب وتمدن کی برتری ثابت ہو‬
‫جاۓ ۔ اس کا ایک بہت بڑا موضوع یہ تھا کہ ہند وستان میں رہنے والی مختلف قوموں کو‬
‫میتلقین کی جاۓ کہ انہیں آ پس میں لڑنا جھگڑنا نہیں چاہیے بلکہ محبت کی فضا میں‬
‫وقت گزارنا چا ہیے ۔ اس طرح کی شاعری بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی بڑی‬
‫مقبول ہونے لگی تھی ۔ اسے تنقیدی کتابوں میں وطنی شاعری کے رجحان کا نام دیا گیا‬
‫ہے ۔ اس دور میں عالمہ اقبال کا سب سے بڑا موضوع یہی وطنیت تھا ۔ ان کی بہت سی‬
‫نظمیں مثال ترانہ ہندی تصویر درد نیا شوالہ صدائے درد ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‬
‫اسی موضوع پر لکھی گئی ہیں ۔ اس زمانہ میں عالمہ اقبال کا خیال تھا کہ آزادی حاصل‬
‫کر نے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کومل جل کر جد و جہد کر نی چا ہیے مگر انہیں‬
‫بعد کے تجربات نے بی ادیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں اشتراک وتعاون ممکن نہیں ۔‬

‫دوسرا دور ‪ 1905‬سے ‪ 1908‬تک‪:‬‬

‫یہ عالمہ اقبال کے قیام یورپ کا زمانہ ہے اور اس دور میں تعلیمی مصروفیات کی وجہ‬
‫سے ان کی توجہ شاعری کی طرف کم رہی ہے ۔ تا ہم بانگ درا کے دور دوم میں جو‬
‫نظمیں موجود ہیں ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اقبال نے اپنی زندگی میں جو چند رومانی‬
‫نظمیں لکھی ہیں ان کا تعلق اسی دور سے ہے ۔ اس عہد میں اقبال کو اس بات کا قوی‬
‫احساس پیدا ہو گیا تھا کہ میری مخاطب اصل میں ملت اسالمیہ ہے نہ کہ ہندوستان کی‬
‫تمام قو میں ۔ اس دور میں بہت سی ایسی نظمیں نظر آتی ہیں جن میں خاص طور پر‬
‫خطاب مسلمانوں سے کیا گیا ہے مثال طلباۓ علی گڑھ کے نام عبد القادر کے نام صقلیہ‬
‫وغیرہ یعلم صقلیہ (سلی ) مسلمانوں کے زوال کا ایک مرثیہ ہے ۔ انگلستان سے واپس‬
‫آتے ہوۓ جب ان کا جہاز سلی کے جزیرے سے گزرا تو انہیں مسلمانوں کے عروج کا‬
‫زمانہ یاد آ گیا۔ تو کبھی اس قوم کی تہذیب کا گہوارہ تھا حسن عالم سوز جس کا آتش‬
‫نظارہ تھا‬

‫سرعبد القادر نے بانگ درا کے دیباچے میں لکھا ہے کہ قیام یورپ کے دوان میں انہوں‬
‫نے ایک مرتبہ شعر گوئی ترک کرنے کا ارادہ کر لیا تھا اور سوچا کہ جو وقت شاعری‬
‫میں صرف ہوتا ہے اسے کسی اور مفید کام میں صرف کریں گے لیکن عبد القادر اور‬
‫اپنے استاد آرنلڈ کے سمجھانے پر فیصلہ بدل لیا کیونکہ دونوں حضرات نے یہ کہا کہ ”‬
‫جو‬

‫وقت وہ اس شغل کی نذر کر تے ہیں وہ ان کے لیے بھی مفید ہے اور ان کے ملک وقوم‬
‫کے لیے بھی مفید ہے ۔ غالبا اس وقت سے اقبال نے شاعری کو پورے طور پر ملت‬
‫اسالمیہ کے لیے وقف کر نے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ جو نظم ” عبدالقادر کے نام لکھی‬
‫گئی ہے اس میں اسی معم ارادے کا اظہار کیا گیا ہے ۔ نظم کا پہال شعر یہ ہے‬

‫اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر‬

‫بزم میں شعلہ نوائی سے اجاال کردیں‬

‫یہی وہ خیاالت ہیں جنہیں عالمہ اقبال نے یورپ سے واپس آ کر بار بار اور بڑے یقین‬
‫سے اپنے کالم میں تمام عمر پیش کیا ہے ۔ اس دور کی بعض نظموں میں وہ فلسفیانہ‬
‫رجحانات بھی نظر آتے ہیں جو بعد میں اقبال کے مستقل موضوعات بن گئے ۔ محبت چاند‬
‫اور تارے کوشش نا تمام پیام عشق انسان وغیرہ اسی قسم کی نظمیں ہیں ۔‬

‫تیسرادور‬
‫با نگ درا کا طویل ترین دور یہی ہے ۔ یہ ‪ 1908‬سے ‪ 1924‬ء تک پھیال ہوا ہے اور‬
‫نظمیں بھی تعداد میں بہت زیادہ ہیں ۔ان میں کچھ نظمیں وہ ہیں جو اقبال کے تین فارسی‬
‫مجموعوں یعنی اسرار خودی رموز بے خودی اور پیام مشرق کی اشاعت سے پہلے کی‬
‫ہیں اور باقی نظمیں فارسی شاعری کے متوازی کہی گئی ہیں ۔ چونکہ فارسی نظموں میں‬
‫عالمہ اقبال کا تمام نظام فکر مکمل ہو کر سامنے آ چکا تھا اس لیے اس کے ساتھ‬
‫اردوشاعری میں بھی انہی خیاالت کو پیش کیا گیا ہے ۔ اردو شاعری میں اقبال کے‬
‫نظریات کی وہ تفصیل اور وضاحت تو موجود نہیں ہے جو فارسی کالم میں ہے تا ہم اردو‬
‫شاعری میں بھی انہی خیاالت کے مختلف پہلوؤں پر نظمیں لکھی گئی ہیں جو فارسی میں‬
‫مر بوط طریقے سے پیش کیے گئے ہیں ۔ مثال نظر بی خودی کی بعض تفصیالت پر‬
‫روشنی ڈالی گئی ہے ۔ عالمہ نے مثنوی اسرار خودی میں خودی کے ارتقاء کے لیے‬
‫عشق یا مقصد سے بے پناہ لگاؤ کو انتہائی اہم قرار دیا ہے ۔ سوال کرنے یا غیروں سے‬
‫بھیک مانگنے کو خودی کے لیے زہر قاتل بتا یا ہے ۔ رموز بیخودی میں افرادکو تلقین‬
‫کی ہے کہ زوال اور ادبار کے زمانے میں ملت سے وابستہ رہیں اور ملت کی بہبود کے‬
‫لیے اپنی تمام صالحیتوں کو وقف کر دیں ۔ ملت کے لیے مرکز سے وابستگی آئین ( قرآن‬
‫پاک ) کی پابندی ذاتیات سے باال تری وغیرہ کو نا گز بر قرار دیا ہے ۔ یہی خیاالت اس‬
‫دور کی مختلف نظموں میں بڑے متنوع اسالیب میں پیش کیے گئے ہیں ۔‬

‫یا رب ! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے‬

‫جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے‬

‫پھر وادی فاراں کے ہر ذرے کو چپکا دے‬

‫پھر شوق تماشا دے پھر ذوق تقاضا دے‬

‫اسرار خودی اور رموز بیخودی کے ذیلی موضوعات کے عالوہ بعض ایسے موضوعات‬
‫پر عالمہ نے تفصیل سے اظہار راۓ کیا ہے جن کی زیادہ تفصیل ان فارسی مثنویوں میں‬
‫بھی موجود نہیں ۔ ایسے موضوعات میں سب سے بڑا موضوع وطنیت ہے ۔ پہلے بتا یا‬
‫جا چکا ہے کہ کسی زمانے میں عالمہ اقبال ملک کی آزادی کی خاطر ہند ومسلم اتحاد‬
‫کے حامی تھے مگر رفتہ رفتہ انہیں اندازہ ہوا کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کا نباہ زیادہ‬
‫عرصے تک نہیں ہوسکتا ۔ اس کی بنیاداس نکتے پرتھی کہ مغرب نے ہمیں وطنیت کا‬
‫ایک خاص تصور دیا ہے جومختصر الفاظ میں یہ ہے کہ کسی خاص عالقے میں رہنے‬
‫والے تمام افرادخواہ ان کا تعلق کسی مذ ہب یا نسل وغیرہ سے ہو اس ملک کے شہری‬
‫ہونے کے سبب ایک قوم کے فرد ہو تے ہیں ۔ تاریخ اسالم کے سب سے پہلے دور ہی‬
‫میں رسول اکرمﷺ نے جب اسالم کا پیغام اہل مکہ کو پہنچایا تو کچھ لوگ ایمان الۓ اور‬
‫کچھ لوگوں نے مخالفت پر کمر باندھ لی ۔مسلمان اور کفار ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے‬
‫تھے ایک ہی زبان بولتے تھے اور ایک ہی عالقے میں رہتے تھے مگر اس کے باوجو د‬
‫کفر اور اسالم اکٹھے نہ ہو سکے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملت ایک عالقے زبان یا‬
‫نسل سے نہیں بنتی ۔اس سے آگے بڑھیے تو حضرت سلمان فارسی اور حضرت بالل‬
‫حبشی مختلف نسلوں عالقوں اور زبانوں سے تعلق رکھتے تھے مگر اسالم کی عالمگیر‬
‫برادری کے اتنے ہی معزز رکن تھے جتنے دوسرے صحابہ کرام تھے ۔ ان باتوں سے‬
‫اقبال اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسالم نے عالقائی وطنیت کا تصور ہمیں نہیں دیا بلکہ‬
‫عقیدے کی بنیاد پر ملت کا تصور دیا ہے ۔ گویا دنیا بھر میں مسلمان جہاں کہیں بھی‬
‫موجود ہیں وہ ایک عالمگیر برادری کے ارکان ہیں ۔ انہوں نے اس تصور کو کئی نظموں‬
‫میں بیان کیا ہے ۔ بال داسالمیہ وطنیت (یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے ترانہ‬
‫ملی اور مذہب کے زیر عنوان لکھی ہوئی نظمیں اس نظریے کو بڑی وضاحت سے پیش‬
‫کرتی ہیں ۔ اس تصور کی بدولت اقبال ہندی میں ہم وطن ہے ہندوستان ہما را سے چل کر‬
‫مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا' تک پہنچے ۔‬

‫ملت اسالمیہ کے زوال کا عبرت ناک نقشہ‬

‫بانگ درا کے تیسرے دور میں ملت اسالمیہ کے زوال کا عبرت ناک نقشہ بھی متعد د‬
‫نظموں میں پیش کیا گیا ہے ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب تقریبا تمام مسلمان مما لک سامراجی‬
‫طاقتوں کے محکوم ہو چکے تھے ۔ آپس کے اختالفات بے عملی ترک اسالم مغرب کے‬
‫بعض باطل نظریات کو قبول کرنے کے سبب ان کی ملی وحدت پارہ پارہ ہو چکی تھی ۔‬
‫غر و شوال یا ہالل عید شمع اور شاعر‪ ،‬شکوہ اور جواب شکوہ خطاب بہ نو جوانان اسالم‬
‫اور اس قبیل کی دوسری نظموں میں ‪ .‬اس زوال کے اسباب بڑی تفصیل سے گنواۓ گئے‬
‫ہیں ۔ ان حاالت کے باوجود مجموعی طور پر عالمہ اقبال کی نظموں میں قنوطیت کی‬
‫بجاۓ رجائیت ملتی ہے وہ اس وقت کے حاالت سے نا مطمئن تھے لیکن مایوس نہیں‬
‫تھے ۔ انہیں یقین تھا کہ ملت اسالمیہ دنیا میں خدا کا آخری پیغام ہے ۔اس لیے یہ مٹنے‬
‫کے لیے نہیں ہے ۔ انہیں یقین کامل تھا کہ یہ ملت جلد دوبارہ بیدار ہوگی اور دنیا کو پر‬
‫تعلیم و تہذیب سکھاۓ گی ۔‬
‫اقبال فرکی کی طرف مائل کیوں ہوئے ؟ اقبال کی فارسی گوئی پر‬ ‫سوال نمبر ‪:4‬‬
‫نوٹ لکھیں ۔‬

‫جواب ‪:‬‬

‫اقبال کی فارسی گوئی‬

‫یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ اردو کہ اہم ترین شاعر‪ ،‬غالب اور اقبال‪ ،‬دونوں ہی اپنے اردو‬
‫کالم سے مطمئن نہیں تھے۔ غالب نے اگر اپنے اردو کالم کو بے رنگ کہا تھا تو اقبال‬
‫بانگ درا‪ ،‬کہ جو آج بھی انکی مقبول ترین کتاب ہے‪ ،‬کو نا پختہ‬
‫ِ‬ ‫اردو کالم اور خصوصا ً‬
‫کہتے تھے اور فارسی کالم کو پختہ کالم۔ فارسی میں بھی جاوید نامہ پر عالمہ کو بہت‬
‫فخر تھا اور اسے "حاص ِل حیات" سمجھتے تھے۔‬
‫شکوہ اور جواب شکوہ‬
‫اپنے ایک دوست ڈاکٹر غالم محی الدین صوفی کو ‪ 30‬مارچ ‪ 1933‬کے ایک خط میں‬
‫صوفی صاحب کے ایک دوست کے شکوہ اور جواب شکوہ کا منظوم انگریزی ترجمہ پر‬
‫"بانگ درا کی بیشتر نظمیں میری طالب‬
‫ِ‬ ‫اظہار خیال کرتے ہوئے عالمہ فرماتے ہیں۔‬
‫ِ‬
‫علمی کے زمانے کی ہیں‪ ،‬زیادہ پختہ کالم افسوس کہ فارسی میں ہوا"۔ اسطرح ‪ 25‬جون‬
‫ب شکوہ مصور کر رہے تھے‪ ،‬اپنی‬
‫‪ 1935‬کو ضرار احمد کاظمی کو‪ ،‬جو شکوہ اور جوا ِ‬
‫رائے دیتے ہیں۔ "میری رائے میں میری کتابوں میں سے صرف جاوید نامہ ایک ایسی‬
‫کتاب ہے جس پر مصور طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کرسکتا ہے"۔‬
‫رموز بے خودی‬
‫ِ‬ ‫اسرار خودی‪،‬‬
‫ِ‬ ‫عالمہ کے فارسی کالم میں‬
‫زبور عجم‪،‬‬
‫ِ‬ ‫پیام مشرق‪،‬‬
‫رموز بے خودی‪ِ ،‬‬
‫ِ‬ ‫اسرار خودی‪،‬‬
‫ِ‬ ‫عالمہ کے فارسی کالم میں‬
‫ارمغان حجاز میں کچھ حصہ‬
‫ِ‬ ‫ارمغان حجاز شامل ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫جاوید نامہ‪ ،‬پس چہ باید کرد‪ ،‬اور‬
‫اردو کا بھی شامل ہے۔‬
‫یہاں پر میں ایک جسارت کر رہا ہوں کہ عالمہ کے کالم میں سے انتخاب مع اردو ترجمہ‬
‫پیش کر رہا ہوں۔ دیگر احباب سے بھی استدعا ہے کہ عالمہ کے فارسی کالم میں سے‬
‫اپنی پسند کے کالم سے ہمیں نوازیں۔‬
‫پیام مشرق کی ایک غزل سے۔‬
‫ابتدا ِ‬
‫کشمکش عقل دیدنی دارد‬
‫ِ‬ ‫ب‬
‫فری ِ‬
‫ق رہزنی دارد‬
‫میر قافلہ و ذو ِ‬
‫کہ ِ‬
‫عقل کی کشمکش کا فریب دیکھنے کی چیز ہے کہ یہ قافلہ کی امیر ہے لیکن رہزنی کا‬
‫دعوی کرتی ہے اور غلط راستہ پر ڈالتی ہے۔‬
‫ذوق رکھتی ہے‪ ،‬یعنی راہنمائی کا ٰ‬
‫نشان راہ ز عق ِل ہزار حیلہ مپرس‬
‫ِ‬
‫بیا کہ عشق کمالے ز یک فنی دارد‬
‫راستے کا نشان ہزار حیلے بنان ے والی عقل سے مت پوچھ۔ آ اور عشق سے پوچھ کہ یہ‬
‫ایک فن کا کمال رکھتا ہے‪ ،‬یعنی منزل کا نشان اور راستہ عشق ہی بتا سکتا ہے۔‬
‫فرنگ گرچہ سخن با ستارہ میگوید‬
‫رنگ جوزنی دارد‬
‫ِ‬ ‫حذر کہ شیوہء او‬
‫فرنگ اگرچہ ستاروں سے گفتگو رکھتا ہے لیکن اس سے بچو کہ اسکا طریقہ جاودگری‬
‫کا رنگ رکھتا ہے۔‬
‫رباط کہن‬
‫ِ‬ ‫ز مرگ و زیست چہ پرسی دریں‬
‫کاہش جاں‪ ،‬مرگ جانکنی دارد‬
‫ِ‬ ‫کہ زیست‬
‫موت اور حیات کے بارے میں کیا پوچھتے ہو کہ اس پرانی سرائے یعنی دنیا میں زندگی‪،‬‬
‫جان کے آہستہ آہستہ گھلنے کا اور موت جسم سے جان کو نکالنے کا نام ہے۔‬
‫مزار شہیداں یکے عناں درکش‬
‫ِ‬ ‫سر‬
‫ِ‬
‫حرف گفتنی دارد‬
‫ِ‬ ‫کہ بے زبانیء ما‬
‫ہم شہیدوں کے مزار کے پاس ذرا باگ روک کہ ہماری بے زبانی بھی گفتگو کا حرف‬
‫رکھتی ہے۔‬
‫بزم عجم‬
‫ت عرب خیمہ زن کہ ِ‬
‫دگر بدش ِ‬
‫مے گذشتہ و جام شکستنی دارد‬
‫ایک دفعہ پھر عرب کے صحرا میں خیمہ لگا کہ عجم کی بزم وہ شراب ہے جو فرسودہ‬
‫ہوچکی اور اسکے جام توڑنے کے قابل ہیں۔‬
‫شیخ شہر‪ ،‬نہ شاعر‪ ،‬نہ خرقہ پوش اقبال‬
‫ِ‬ ‫نہ‬
‫فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد‬

‫عالمہ محمد اقبالؒ نے فارسی میں شعر‬

‫اقبال نے فارسی میں شعر کہنا اس وقت شروع کیا جب ایک‬


‫ؒ‬ ‫کہا جاتا ہے کہ عالمہ محمد‬
‫واضح مقصد ان کے سامنے آیا۔ یعنی ‪1911‬ء میں‪ ،‬یا اس سے کچھ پہلے جب حضرت‬
‫قلندر کے تتبع میں وہ اپنے والد ماجد کی فرمائش پر ایک مثنوی لکھ رہے تھے۔ الہور‬
‫زمانہ‬
‫ٔ‬ ‫کے ابتدائی زمانہ میں تو یقینا وہ فارسی میں شعر کہتے تھے لیکن سیالکوٹ کے‬
‫طالب علمی ہی میں اس کا آغاز ہو چکا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ ایک ایسی زبان میں‪،‬‬
‫جس سے انھیں فطری مناسبت تھی‪ ،‬وہ ابتدا میں محض شوقیہ شعر کہتے ہوں‪ ،‬یا یہ‬
‫اقبال ابتدا میں کوئی‬
‫ؒ‬ ‫فطری مناسبت آپ ہی آپ فارسی میں شعر کہلوانے لگی جسے محمد‬
‫اہمیت نہ دیتے۔‬

‫بہت کم احباب سے ذکر کرتے۔ یوں بھی مشاعروں کی زبان اردو تھی۔ مشاعروں میں‬
‫اردو کالم ہی سناتے۔ یہ خیال ہی نہیں تھا کہ فارسی زبان کا شاعر بنیں۔ لیکن ‪1905‬ء‬
‫سے پہلے وہ فارسی میں نہایت اچھی غزلیں کہہ چکے تھے۔ مثالً منشی صاحب سراج‬
‫الدین کی بھیجی ہوئی انگشتریوں کے شکریے میں فارسی کا ایک طویل قطعہ اور وہ نظم‬
‫اقبال نے ‪1903‬ء‬
‫ؒ‬ ‫جس کا عنوان ہے ’’اسالمی ہ کالج کا خطاب پنجاب سے‘‘ جسے محمد‬
‫میں انجمن حمایت اسالم کے ساالنہ جلسے میں پڑھا اور جو اس امر کی دلیل ہے کہ‬
‫‪ 1903‬ء تک انھوں نے فارسی زبان میں شعر گوئی پر اتنی قدرت حاصل کر لی تھی کہ‬
‫بال تکلف اتنی بڑی نظم کہہ ڈالی۔ لیکن یہاں تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس غلط فہمی کی‬
‫اقبال کی فارسی شاعری سے ہے‪ ،‬کس پر رکھی جائے۔ کیا‬
‫ؒ‬ ‫ذمہ داری جس کا تعلق محمد‬
‫شیخ عبدالقادر پر؟ ہرگز نہیں۔‬

‫اقبال‬
‫ؒ‬ ‫بانگ درا کے دیباچے میں وہ لکھ چکے تھے کہ فارسی میں شعر کہنے کی رغبت‬
‫کی طبیعت میں کئی اسباب سے پیدا ہوئی ہو گی‪ .‬جس چھوٹے سے واقعے سے ان کی‬
‫فارسی گوئی کی ابتدا ہوئی وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ ایک دوست کے ہاں مدعو تھے‬
‫جہاں ان سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی اور پوچھا گیا وہ فارسی اشعار بھی‬
‫کہتے ہیں یا نہیں۔ انھیں اعتراف کرنا پڑا کہ سوائے ایک آدھ شعر کہنے کے فارسی‬
‫لکھنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر کچھ ایسا وقت تھا اور اس فرمائش نے ایسی تحریک ان‬
‫کے دل میں پیدا کی کہ دعوت سے واپس آ کر بستر پر لیٹے ہوئے باقی وقت وہ شاید‬
‫فارسی اشعار کہتے رہے اور صبح اٹھتے ہی مجھ سے ملے تو دو تازہ غزلیں فارسی میں‬
‫تیار تھیں۔‬

‫اقبال کی فارسی شاعری کا معاملہ‬


‫ؒ‬ ‫میرا خیال ہے شیخ صاحب بسبب قلیل الفرصتی محمد‬
‫کھول کر بیان نہیں کر سکے۔ انھوں نے یہ نہیں لکھا دعوت کس دوست کے یہاں تھی اور‬
‫اقبال کی‬
‫ؒ‬ ‫کب؟ ‪1905‬ء سے بہر حال پہلے۔ مخزن‪ ،‬جنوری ‪1905‬ء میں انھوں نے محمد‬
‫ایک نظم بعنوان ’’سپاس امیر‘‘ شائع کی۔ تمہیدا ً لکھتے ہیں ’’ذیل کی نظم درج کر کے ہم‬
‫ان احباب کے تقاضوں سے سبکدوش ہوتے ہیں جو پروفیسر اقبال صاحب کے فارسی‬
‫کالم کے لیے بے حد اشتیاق ظاہر کرتے ہیں۔ فارسی نظمیں عموما ً مخزن میں درج نہیں‬
‫اظہار‬
‫ِ‬ ‫ہدیہ ناظرین کرتے ہیں۔ یہی نظم بہ‬
‫ہوتیں‪ ،‬تاہم احباب کے اصرار سے ہم اسے ٔ‬
‫عقیدت شیخ صاحب صبح کے وقت پڑھا کرتے ہیں‘‘۔‬

‫اظہار عقیدت‬
‫ِ‬
‫المرتضی کرم ہللا‬
‫ٰ‬ ‫اظہار عقیدت کا تعلق جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہوتا ہے حضرت علی‬
‫ِ‬
‫وجہہ سے ہے۔ پیام مشرق میں اس نظم کا صرف دوسرا بند شامل کیا گیا۔ مخزن کا یہ‬
‫اقبال ‪1905‬ء تک فارسی میں بہت کچھ کہہ چکے‬
‫ؒ‬ ‫شذرہ اس امر کا ثبوت ہے کہ محمد‬
‫اقبال نے آگے چل کر کہا‬
‫ؒ‬ ‫تھے۔ دراصل شیخ صاحب وہی کچھ کہنا چاہتے تھے جو محمد‬
‫کہ فارسی زبان کو انھوں نے اپنی شاعری کے لیے اختیار کیا تو اس لیے کہ ان کی‬
‫شاعری عالم اسالم کے لیے ایک پیغام کا کام دے اور یہ پیغام فارسی زبان ہی میں دیا جا‬
‫اقبال کی فارسی شاعری کا آغاز ایک‬
‫ؒ‬ ‫سکتا تھا۔ شیخ صاحب نادانستہ یہ کہہ گئے کہ محمد‬
‫حتی کہ‬
‫اقبال بہت پہلے ٰ‬
‫ؒ‬ ‫اتفاقی امر تھا۔ شیخ صاحب کے لیے تو اتفاقی لیکن محمد‬
‫سیالکوٹ ہی سے فارسی میں شعر کہہ رہے تھے۔ گویا فارسی آپ ہی آپ ان کی زبان بن‬
‫رہی تھی۔‬
‫اقبال کے انگریزی خطبات " تشکیل جدید الہیات اسالمیہ " کی اہمیت‬ ‫سوال نمبر ‪:5‬‬
‫پر تفصیل سے روشنی ڈالیں ۔‬

‫جواب ‪:‬‬

‫اقبال کے انگریزی خطبات " تشکیل جدید الہیات اسالمیہ " کی اہمیت‬

‫’’علم اور مذہبی مشاہدات‘‘‬

‫پہلے خطبے ’’علم اور مذہبی مشاہدات‘‘ میں کائنات کی حقیقت‪ ،‬اور کائنات کی تغیرپذیری‬
‫میں انسان کا منصب‪ ،‬کائنات اور خدا‪ ،‬کائنات اور انسان‪ ،‬انسان اور خدا کے باہمی رشتوں‬
‫اقبال کائنات کے بارے میں فلسفہ اور مذہب کے رویہ کا جائزہ لیتے‬
‫ؔ‬ ‫کا ذکر کرتے ہوئے‬
‫ہیں۔ فلسفہ اور مذہب کے مشترک اور غیرمشترک امور سے بحث کرتے ہیں۔ پھر ظاہر‬
‫عالم اَقدار و اَرواح کے‬
‫عالم محسوسات اور ِ‬
‫اور باطن یعنی مرئی اور غیرمرئی حقائق یا ِ‬
‫طرزعمل بیان کرکے بتاتے ہیں کہ قرآن مطالعۂ انفس و آفاق‬
‫ِ‬ ‫بارے میں مختلف مذاہب کا‬
‫پر کیوں زور دیتا ہے۔ پھر حقیقت تک رسائی کے ذرائع کی حیثیت سے عقل و وجدان پر‬
‫بحث کرتے ہیں۔ اِن َمباحث کے ذیل میں وہ بتاتے ہیں کہ ایمان محض جذبے یا تأثر ہی کا‬
‫نام نہیں بلکہ اِس میں عقل کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مذہبی اصولوں کا‬
‫انحصار معقولیت پسندی پر ہے۔ لیکن دین و ایمان کو عقل کی روشنی میں دیکھنے کا‬
‫ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اُن پر فلسفے اور عقل کے تفوق کو تسلیم کرلیا جائے۔ فکر‬
‫اور وجدان ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک ہی سرچشمے سے فیض یاب ہیں۔‬
‫برگساں )‪ (Bergson‬کا یہ کہنا درست ہے کہ وجدان عقل ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ وہ‬
‫بتاتے ہیں کہ سقراط اور افالطون محسوسات کے علم کو غیرحقیقی خیال کرتے ہیں‪ ،‬اِس‬
‫اعیان نامشہود )‪ (Invisible ideas‬پرستار ہیں‪ ،‬جب کہ اسالم باطن کے ساتھ ساتھ‬
‫ِ‬ ‫لیے‬
‫ظاہر کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ اشاعرہ ؂‪ (Asharite Thinkers) ۱‬کا نصب العین اسالم‬
‫کے معتقدات اور اصولوں کی یونانی جدلیات )‪ (Dialectics‬کی مدد سے حمایت کرنا‬
‫تھا۔ کانٹ )‪ (Kant‬نے انسانی عقل کی حدود واضح کیں‪ ،‬جب کہ غزالی عقلیت کی بھول‬
‫بھلیوں سے نکل کر صوفیانہ واردات تک پہنچتے ہیں‪ ،‬جن سے عقل و فکر کی محدودیت‬
‫اُن پر واضح ہوئی۔ البتہ وہ اِس حقیقت کو نہ پاسکے کہ عقل و وجدان آپس میں مربوط‬
‫ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسالم کے اساسی تصورات کو فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے‬
‫کی کوشش کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر انسان ترقی پذیر زندگی کی حرکت کو محسوس‬
‫انجام کار انسان بے جان‬
‫ِ‬ ‫نہ کرے تو اُس کی روح پتھر کی مانند سخت ہوجاتی ہے‪ ،‬اور‬
‫ت مطلَقہ کے کلّی اِدراک کے لیے ہمیں حسّی‬
‫مادے کی سطح پر آجاتا ہے۔ اِس لیے حقیق ِ‬
‫علم باطن بھی سیکھنا چاہیے۔ اگرچہ ہمارے پاس کوئی ایسا مؤثر سائنسی‬
‫علم کے عالوہ ِ‬
‫عناصرترکیبی کا تجزیہ‬
‫ِ‬ ‫ق کار نہیں ہے جس کی وساطت سے ہم صوفیانہ شعور کے‬
‫طری ِ‬
‫کرسکیں۔ جب کہ صوفیانہ مشاہدہ ہی حقیقت کے کلّی علم کے حصول کا باعث بنتا ہے۔‬

‫’’مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‬

‫دوسرے خطبے کا عنوان ’’مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘‘ ہے۔ اِس میں اُنھوں نے ہستی‬
‫کے تین مدارج یعنی مادہ‪ ،‬حیات اور شعور پر مفصل بحث کی ہے۔ مادیت کی بحث میں‬
‫اُنھوں نے نیوٹن)‪ ، (Newton‬زینو)‪ ، (Zeno‬اشاعرہ‪ِ ،‬‬
‫ابن حزم‪ ،‬برٹرینڈ رسل‬
‫)‪ ،(Bertrand Russell‬برگساں)‪ ، (Bergson‬آئن سٹائن)‪ ، (Einstein‬اور اوس‬
‫ت زمان و مکان کا ذکر کیا ہے‪ ،‬اور پھر قرآنی‬
‫پنسکی )‪ (Ouspensky‬کے تصورا ِ‬
‫تصورزمان و مکان کا موازنہ ارسطو‪ ،‬آئن سٹائن اور میک ٹیگرٹ )‪ (McTaggart‬کے‬
‫ِ‬
‫نظریات سے کیا ہے۔ خدا کے وجود کے بارے میں کائناتی استدالل‪ ،‬غائتی استدالل اور‬
‫ہستی مطلق کے یہ تینوں ثبوت الئق تنقید‬
‫ِ‬ ‫وجودی استدالل کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ‬
‫قرآن حکیم ظاہر و باطن کی خلیج کو پاٹ کر اور وجود کی ثَنَویت‬
‫ِ‬ ‫ہیں۔ صرف‬
‫)‪(Dualism‬کو ختم کرکے اُس حقیق ِ‬
‫ت کاملہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بیک وقت‬
‫ظاہر بھی ہے باطن بھی‪ّ ،‬اول بھی ہے آخر بھی۔‬
‫مادے کے قدیم نظریے یعنی زمان و مکان میں اُس کے مستقل بالذات ہونے کو آئن سٹائن‬
‫اقبال وہائٹ ہیڈ )‪ (Whitehead‬کے اِس نظریے سے اتفاق کرتے ہیں‬
‫ؔ‬ ‫نے باطل ٹھہرادیا۔‬
‫کہ فطرت کوئی جامد حقیقت نہیں بلکہ واقعات و حوادث کا ایسا مجموعہ ہے جو مسلسل‬
‫تخلیقی رو کا مالک ہے۔ جب کہ نیوٹن کا نقطۂ نظر خالص مادی تھا۔ وہ مکان کو ایک‬
‫آزاد خال قرار دیتا ہے جس میں چیزیں معلق ہیں۔ زینو مکان کو التعداد ناقاب ِل تقسیم نقاط‬
‫ت مکانی کو ناممکن قرار دیتے ہوئے تیر کی مثال دیتا ہے‬
‫پر مشتمل سمجھتا تھا۔ وہ حرک ِ‬
‫کہ تیر حرکت کے دوران میں بھی جگہ کے کسی نہ کسی نقطے پر ٹھہرا ہوا ہوتا ہے۔‬
‫ابن حزم‪ ،‬برٹرینڈرسل اور کینٹر )‪ (Cantor‬وغیرہ نے زینو کے دالئل کو رد‬
‫برگساں‪ِ ،‬‬
‫اقبال اُن کی کوششوں کو کامیاب تصور نہیں کرتے بلکہ‬
‫ؔ‬ ‫کرنے کی کوشش کی ہے لیکن‬
‫آئن سٹائن کے نظریۂ زمان کی وضاحت کرتے ہوئے اُس کے مکان کو حقیقی تصور‬
‫کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن وہ اُسے دیکھنے والے کے مطابق اضافی خیال کرتا تھا۔‬
‫اِن پیچیدہ بحثوں کے بعد وہ شعور کی تعریف کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ شعور کا کام‬
‫ایک ایسا نقطۂ نوری مہیّ ا کرنا ہے جو زندگی کی آگے بڑھنے والی حرکت کو منور‬
‫کرسکے۔ شعور زندگی کے روحانی تنوع کا نام ہے۔ یہ مادہ نہیں بلکہ ایک تنظیمی اصول‬
‫ت مطلَقہ کے جزئی اِدراک میں‬
‫ق عمل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سائنس حقیق ِ‬
‫اور طری ِ‬
‫سرکھپاتی ہے جب کہ مذہب کلّی حقیقت کا مطالبہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ زمان و‬
‫مکان کی اِن نہایت مشکل بحثوں میں وہ بتاتے ہیں کہ شعوری زندگی حیات فی الزمان‬
‫ہے۔ اور مکانی زمان میں بسر ہونے والی زندگی غیر حقیقی زندگی ہے۔ وہ اِن بحثوں‬
‫تصورزمان و مکان کی‬
‫ِ‬ ‫میں کُ َّل َی ْو ٍم ھ َُو ِفی شأن اور اَنَا الدَّھر کے حوالوں سے اسالمی‬
‫سنَّتُ ٰ‬
‫ّللا قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اِس کی‬ ‫وضاحت کرتے ہیں‪ ،‬اور فطرت کو ُ‬
‫ق عمل کا‬
‫نشوونما کی کوئی حد نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ فطرت کا علم دراصل خدا کے طری ِ‬
‫علم ہے۔ وہ مسئلۂ زمان و مکان پر مفصل بحث کرتے ہوئے آخر میں کہتے ہیں کہ وقت‬
‫رازسربستہ کو حل کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ خطبے کے اختتام پر وہ فلسفے کو‬
‫کے ِ‬
‫ب ٰالہی کی ضرورت بیان کرتے ہیں‪ ،‬جسے مذہب‬
‫پستی سے نکالنے کے لیے ذکر اور قر ِ‬
‫کی اصطالح میں دعا کہا جاتا ہے۔ وہ فکر و ذکر کے امتزاج پر زور دیتے ہیں۔‬

‫ت ٰالہیہ کا تصور اور حقیق ِ‬


‫ت دعا‘‘‬ ‫’’ذا ِ‬

‫ت ٰالہیہ کا تصور اور حقیق ِ‬


‫ت دعا‘‘ میں وہ فرد کی تعریف اور انائے‬ ‫تیسرے خطبے ’’ذا ِ‬
‫مطلق کی صفات پر بحث کرتے ہوئے سورۂ اخالص اور سورۂ نور کا حوالہ دیتے ہوئے‬
‫نورایزدی کی مطلقیت کا ذکر کرتے ہیں‪ ،‬اور کہتے ہیں کہ ارادۂ تکوین اور فع ِل آفرینش‬
‫ِ‬
‫ایک ہی ہیں۔ اس طرح وہ ثابت کرتے ہیں کہ کائنات کی اصل روحانی ہے۔ پھر زمان و‬
‫مکان کے بارے میں وہ مال جالل الدین َد ّوانی‪ ،‬عین القضاۃ الھمدانی عراقی‪ ،‬برگساں اور‬
‫زمان‬
‫ِ‬ ‫پروفیسررائس )‪ (Royce‬وغیرہ کے تصورات کا جائزہ لیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ‬
‫زمان متسلسل سے بہتر ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مذہبی واردات عقلی معیار پر پوری‬
‫ِ‬ ‫ایزدی‬
‫اترتی ہے۔ اِس واردات کی اساس ایک تخلیقی مشیئیت ہے‪ ،‬جسے انائے مطلق کہا جاسکتا‬
‫ہے۔ اور قرآن اِس انائے مطلق کی ان ِفرادیت ظاہر کرنے کے لیے اِسے ’ہللا‘ کا خاص نام‬
‫دیتا ہے۔ توالد کا رجحان ان ِفرادیت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ چوں کہ انسانوں کے لیے توالد‬
‫و تناسل ضروری ہے اِس لیے وہ افرادِکامل نہیں بن سکتے۔ فردِکامل صرف خدا ہی ہے۔‬
‫پھر وہ بتاتے ہیں کہ زمان و مکان‪ ،‬انائے مطلق کی تخلیقی سرگرمی کی فکری تعبیرات‬
‫ہیں اور ہم انائے مطلق کے امکانات کو اپنے ریاضیاتی زمان و مکان کی شکل میں‬
‫جزوی طور پر محسوس کرسکتے ہیں۔ خدا کے لیے کائنات کوئی ایسا واقعہ نہیں جو‬
‫ماقبل اور مابعد پر مشتمل ہو۔ یعنی ارادۂ تخلیق اور فع ِل تخلیق دو مختلف چیزیں نہیں۔ وہ‬
‫اشاعرہ کے اِس خیال کا جائزہ لیتے ہیں کہ التعداد جواہر مل کر مکان کی وسعت اور‬
‫تخلیق کا باعث بنتے ہیں‪ ،‬اور جوہری اعمال کے مجموعے کا نام شے ہے۔ مکان میں‬
‫سے جوہر کے گزر کو حرکت کہا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اشاعرہ ابتدا اور انتہا کے‬
‫درمیان واقع ہونے والے نقاط میں سے کسی چیز کے مرور کو اچھی طرح واضح نہیں‬
‫ت حیات کے حصول کے بعد مکانی نظر آتا ہے۔ اِس‬
‫کرسکے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جوہر صف ِ‬
‫کی ماہیت روحانی ہے۔ نفس عم ِل خالص ہے لیکن جسم ایک دیدنی اور پیمایش پذیر عمل‬
‫زمان ٰالہی مرور‪ ،‬تغیر‪ ،‬تواتر اور تقسیم پذیری سے عاری ہے۔ اِس ساری بحث کے‬
‫ِ‬ ‫ہے۔‬
‫آخر میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جہاں تک وقت کی ماہیت اور اصلیت کا تعلق ہے‪ ،‬میں‬
‫کوئی قطعی اور درست بات دریافت نہیں کرسکا۔‬

‫پھر وہ خیر و شر کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ ہستی جس کی حرکات و سکنات‬
‫مکمل طور پر مشین کی طرح ہوں‪ ،‬نیکی کے کام نہیں کرسکتی۔ نیکی کے لیے آزادی‬
‫آزادی عمل کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ اِس کے‬
‫ِ‬ ‫شرط ہے۔ خدا نے انسانی خودی کو‬
‫بعد وہ دعا کی وضاحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خارجی دنیا سے بے زار ہوکر باطن‬
‫ہستی مطلق کا قرب حاصل کرنا دعا ہے۔ دعا کی بدولت ہماری‬
‫ِ‬ ‫میں پناہ لیتے ہوئے‬
‫تالش حقیقت میں فلسفہ‬
‫ِ‬ ‫بحربے کراں بن جاتا ہے۔‬
‫شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ ایک دم ِ‬
‫بہت سست رفتار ہے جب کہ دعا برق خرام ہے۔‬

‫’’خودی‪ ،‬جبروقدر‪ ،‬حیات بعد الموت‘‘‬

‫چوتھے خطبے ’’خودی‪ ،‬جبروقدر‪ ،‬حیات بعد الموت‘‘ میں حضرت عالمہ خودی کی بحث‬
‫کرتے ہیں اور انسان کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن کے مطالعے سے‬
‫تین باتیں بالکل واضح دکھائی دیتی ہیں۔ پہلی یہ کہ انسان خدائی برگُزیدہ مخلوق ہے۔‬
‫دوسری یہ کہ انسان اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود زمین پر خدا کا نائب ہے۔ تیسری اور‬
‫اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان آزاد شخصیت کا امین ہے جسے اُس نے خطرہ مول لے کر‬
‫قبول کیا تھا۔ اِس خطبے میں وہ ماضی سے رشتہ منقطع ِکیے بغیر اسالمی تعلیمات کو‬
‫جدید علوم کی روشنی میں بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں‪ ،‬اور پھر خودی کی‬
‫وضاحت کی طرف آجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خودی وابَستۂ مکان نہیں ہے۔ مثالً یہ کہنا‬
‫ممکن نہیں ہے کہ تاج محل کے حسن و جمال کے بارے میں میرا جذبۂ تحسین آگرہ سے‬
‫َمسافت کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ اِسی طرح زمان بھی خارجی دنیا میں ماضی‪ ،‬حال اور‬
‫مستقبل کی صورت اختیار کرنے کے باوجود اندرونی دنیا میں ناقاب ِل تقسیم ہوتا ہے۔ وہ‬
‫بتاتے ہیں کہ خلوت پسندی خودی کی یکتائی کا اظہار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شعوری تجربہ‬
‫خودی کے روحانی جوہر کا صحیح سراغ نہیں دے سکتا لیکن اِس کے باوجود شعوری‬
‫تجربے کی تعبیر ہی وہ شاہراہ ہے جس پر چل کر ہم خودی کی منزل تک پہنچ سکتے‬
‫ہیں۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ نماز یا دعا دراصل خودی کا میکانیت یا جبر سے آزادی کی‬
‫تکرارعمل مشین کا خاصہ ہے نہ کہ انسان کا۔ اگر ہر‬
‫ِ‬ ‫طرف گریز ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ‬
‫واقعہ نیا نہیں تو ہمارے ل یے زندگی میں کوئی جاذبیّت باقی نہیں رہتی۔ بقائے ذات ہمارا‬
‫پیدایشی حق نہیں بلکہ ہمیں اپنی ذاتی کوششوں سے اِسے حاصل کرنا پڑے گا۔ انسان‬
‫صرف اِس کے لیے امیدوار ہے۔‬

‫’’اسالمی ثقافت کی روح‘‘‬

‫پانچویں خطبے ’’اسالمی ثقافت کی روح‘‘ میں حضرت عالمہ اسالمی کلچر کی روح کا‬
‫ذکر کرتے ہیں ‪ ،‬اور نبوت اور والیت کا فرق واضح کرتے ہیں۔ ولی کا منتہائے مقصود‬
‫ت عامہ کے لیے نزول‬
‫ت ربّانی سے وصال ہے لیکن نبی اِس صعود کے بعد ہدای ِ‬
‫صرف ذا ِ‬
‫پیغمبراسالم دنیائے قدیم اور دنیائے جدید کے درمیان کھڑے‬
‫ِ‬ ‫کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ‬
‫عالم قدیم سے متعلق ہیں‪،‬‬
‫ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے اِلہام کے سرچشمے کی بدولت ِ‬
‫عصرحاضر سے مربوط ہیں۔ اُن کی بدولت زندگی‬
‫ِ‬ ‫لیکن اپنی اِلہامی سپرٹ کی وجہ سے‬
‫نے اپنی نئی سمتوں کے مناسب علوم اور نئے سرچشمے دریافت ِکیے۔ دراصل اسالم کا‬
‫ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ وہ فقہ کو اسالم کا اصو ِل حرکت قرار دیتے ہیں جو‬
‫اُسے سب زمانوں کے لیے کافی بنادیتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ قرآن کی رو سے حصو ِل علم‬
‫کے تین ذرائع ہیں‪ :‬باطنی مشاہدہ‪ ،‬مطالعۂ فطرت اور تاریخ۔ وہ بتاتے ہیں کہ جس ثقافت کا‬
‫نقطۂ نظر یہ ہو‪ ،‬زمان و مکان اُس کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ‬
‫ابن خلدون نے سب سے پہلے اسالم کی ثقافتی تحریک کی روح کو شدت‬
‫کہتے ہیں کہ ِ‬
‫کے ساتھ محسوس کرکے اُسے منظم طور پر بیان کیا ہے۔‬
‫’’االجتہاد فی االسالم‘‘‬

‫خطبۂ ششم ’’االجتہاد فی االسالم‘‘ میں حضرت عالمہ اسالم کے اصو ِل حرکت یعنی فقہ کا‬
‫ت عالم سزاوار ہے۔‬
‫ت اسالمیہ ہی کو قیاد ِ‬
‫تفصیلی ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ مل ِ‬
‫تصورتوحید کی وجہ سے تمام زمانوں کو محیط اور‬
‫ِ‬ ‫اسالم اپنے حرکی نظریۂ حیات اور‬
‫ت‬
‫نوع انسان کی وحدت کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے‪ ،‬اِس لیے اسالم ہی کسی قوم کو قیاد ِ‬
‫بنی ِ‬
‫اقوام کا اہل بناتا ہے۔ وہ فقہی جمود کا جائزہ لیتے ہیں اور اِس کے اسباب میں عقل پرستی‬
‫کی تحریکوں‪ ،‬راہبانہ تصوف اور سیاسی انتشار کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دین‬
‫ش ُءون ہیں۔ وہ عقیدۂ‬
‫اور سیاست دو مختلف حقیقتیں نہیں بلکہ اسالم کی واحد حقیقت کے ُ‬
‫ت‬
‫نوع انسانی کی وحدت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں‪ ،‬جو مصنوعی امتیازا ِ‬
‫ِ‬ ‫توحید کو بنی‬
‫ت واحدہ بناسکتا ہے۔ پھر وہ قرآن‪،‬‬
‫رنگ و نسل وغیرہ کو مٹاکر ساری انسانیت کو مل ِ‬
‫حدیث‪ ،‬اجماع اور قیاس‪ --‬یعنی اَدِلّہ شرعیہ پر بحث کرتے ہیں‪ ،‬جن کی وجہ سے اسالم کا‬
‫منبع ہدایت ہونا ممکن ہے۔‬
‫ِ‬ ‫ہر زمانے اور کل انسانیت کے لیے‬

‫خطبے ’’کیا مذہب کا امکان ہے؟‘‘‬

‫آخری خطبے ’’کیا مذہب کا امکان ہے؟‘‘ میں حضرت عالمہ مشرق و مغرب کی اقوام کی‬
‫زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے مذہب کو اِس تمام تشتت و افتراق سے نکلنے کا واحد‬
‫ذریعہ قرار دیتے ہیں اور خودی کا نصب العین واضح کرتے ہوئے خودی کی حامل‬
‫ب حق ہونا ظاہر کرتے ہیں‪ ،‬اور فرسودہ تصوف اور الدین اشتراکیت و‬
‫جماعت کا نائ ِ‬
‫ت ذات قرار‬
‫قومیت کی بے سوادی اور ناکامی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ خودی کا مقصد اثبا ِ‬
‫ب حق جماعت کا فریضہ اور زمانی نصب العین یہ بتاتے ہیں کہ وہ خدا‬
‫دیتے ہیں اور نائ ِ‬
‫کی وحدانیت و حاکمیت کی تر ُجمانی کرتی رہے۔‬

You might also like