Professional Documents
Culture Documents
جواب :
ب عظیم کو بپا
ملت کے لئے اخوت کی ضرورت اسالم نے عالم ِ انسانیت میں ایک انقال ِ
کرکے انسان کو رنگ و نسل ،نام و نسب اور ملک و قوم کے ظاہری اور مصنوعی
امتیازات کے محدود دائروں سے نکال کر ایک وسیع تر ہیئت اجتماعیہ میں متشکل کیا۔
اقبال کے نزدیک یہ ”ہیئت اجتماعیہ“ قائم کرنا اسالم ہی کا نصب العین تھا۔ مگر بدقسمتی
سے یہ وحدت قائم نہ رہ سکی اور مسلمان مختلف فرقوں ،گرہوں اور جماعتوں میں بٹتے
چلے گئے۔ اقب ال مسلمانوں کو پھر اسی اخوت اسالمی کی طرف لوٹنے کی تلقین کرتے
ہیں اور ایک ملت میں گم ہو جانے کا سبق سکھاتے ہیں۔ وہ ایک عالمگیر ملت کے قیام
کے خواہشمند ہیں جس کا خدا ،رسول کتاب ،کعبہ ،دین اور ایمان ایک ہو
ملت اور اخوت کا پیغام اسی جذبہ کے تحت اقبال مسلمانوں کو اخوت کا پیغام دیتے ہیں
اور انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ رنگ و خون کو توڑ کر ایک ملت کی شکل میں متحد ہو
جائی ں۔ کیونکہ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ایک زندہ قوم کی حیثیت سے اپنا
وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ملک قوم ،نسل اور وطن کی مصنوعی حد بندیوں نے نوع
انسانی کا شیرازہ منتشر کرکے رکھ دیاہے۔ اور اس کا عالج سوائے اس کے اور کچھ
نہیں کہ اسالمی معاشرہ کے تصور کو رائج ک یا جائے اور کم از کم مسلمان خود کو اسی
معاشرہ کا حصہ بنا لیں۔
مگر وحدت کا یہ احساس اور اخوت کا یہ جذبہ اگر نوع انسانی کے اندر پیدا ہو سکتا ہے
تو صرف اسالم کے ذریعہ ہی پیدا ہونا ممکن ہے۔ اقبال کی نظر میں اسالم محض انسان
کی اخالقی اصالح ہی کا داعی نہیں ،بلکہ عالم بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک
تدریجی مگر اساسی انقالب بھی چاہتا ہے۔ جو انسان کے قومی اور نسلی نقطہ نگاہ کو
یکسر بدل کر اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں۔....
اتحاد اقوام اسالمی کا تصور اسالم بنیادی طور پر ایک عالمگیر پیغام ہے اور تما م نوع
انسانی کو اخو ت کی لڑی میں پرو کر ای ک وسیع تر ملت اسالمیہ کے قیام کی دعوت دیتا
ہے تاکہ انسان کی ہوس کا عالج ہو سکے۔ لیکن اس کے لئے پہال قدم یہ ہے کہ دنیا کے
تمام مسلمان ممالک ایک لڑی میں پروئے جائیں۔ اقبال کی بھی یہی تمنا ہے ان کے
نزدیک اسالم ایک ازلی ،ابدی ،آفاقی اور عالمگیر نوعیت کا پیغام ہے ،یہ ہر زمانہ ،ہر
قوم اور ہر ملک کے لئے راہ ہدایت ہے۔ اس لئے اس کے پیروکاروں کو رنگ و نسل اور
ملک وطن کے امتیازات مٹا کر یکجا ہو جانا اور دنیائے انسانیت کے لئے ایک عالمگیر
برادری کی مثال پیش کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں ”جمعیت اقوام“کی تنظیم پر طنز کرتے
ہوئے کہتے ہیں کہ اصل مقصد انسانوں کے درمیان اخوت کا جذبہ پیدا ہو نا چاہیے نہ کہ
قوموں کا ایک جگہ اکٹھا ہو جانا۔
اقبال کے نزدیک اسالمی قومیت کی بنیاد اسالم پر ہے ملک و نسب نسل وطن پر نہیں۔
اس تصور کی انہوں نے عمر بھر شدو مد سے تبلیغ کی۔ ہر مسلمان اسی تصور کو تسلیم
کرتا ہے اور اس کی سچائی سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن مسلم ریاستوں کے اتحاد اور
دنیا کے تمام مسلمانوں کے ایک قوم بن جانے کا حوصلہ اس وقت تک نہیں آسکتا جب
تک وطنیت اور قومیت کے مغربی نظریہ کی گرفت کمزور نہیں پڑجاتی۔ قریب قریب
سارا عالم اسالم کافی عرصہ تک مغربی اقوام کا محکوم رہا ہے اور جدید اسالمی
ریاستوں میں سے بہت سی ایسی ہیں جن کی تشکیل ہی مغربی نظریہ قومیت کی بنیاد پر
ہوئی ہے۔ اس طرح انہیں مغربی نظریات کے سحر سے آزاد ہونے میں کچھ وقت عرصہ
لگے گا۔ لیکن ام ید کی جا سکتی ہے کہ کہ اقبال کے اس خواب کی تعبیر بھی ایک نہ
ایک دن ضرور پوری ہوگی اور دنیا کے تمام مسلمان ملت واحدہ کی شکل اختیار کرکے
ایک عالمگیر برادری کی شکل میں ڈھل جائیں گے۔
اقبال نے کئی جگہ اس مضمون کو مختلف پیرایوں میں دہرایا ہے ۔ کہ ال کے دریا میں
نہاں موتی ہے اال ہللا کا مختلف اقوام کے تصوف کا لب لباب بھی یہی ہے۔ کہ حقیقی بقا
فنا کے ذریعے ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ زندگی خواہ نباتی ہو یا خواہ حیوانی اور انسانی
اور خواہ اس سے بڑھ کر انسان روحانی بننا چاہیے کہیں بھی فی نفسہ فنا مقصود نہیں۔
زندگی جس صورت میں ہو وہ اپنی بقا چاہتی ہے لیکن بقا اور ارتقا کا راستہ یہی ہے کہ
پہلی صورت کے افشا سے دوسری صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ انسانی زندگی جب جامد
صورت ہوجاتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ معتاد طریقوں کو بدلنا نہیں
چاہتی۔ اسے تغیر سے ڈر لگتا ہے۔ مذہب اور معاشرت کے قدیم رسوم و شعائر اور قدیم
ادارے جامد ہو کر بے روح ہو جاتے ہیں۔ افکار و جذبات میں کوئی جدت نہیں رہتی
زمانہ جب فرسودہ طریقوں سے بیزار ہو جاتا ہے تو مشیت ٰالہی ان پر خط تنسیخ کھینچ
دیتی ہے۔ اقبال روسی اشتراکیت کے اس پہلو کا مداح ہے کہ ا س نے مال اور سلطنت
او ر کلیسا کے متعلق قدیم عققائد کے خالف احتجاج اور جہاد کیا ہے اوریہ اقدام انسانیت
کو آزاد کرنے اور اس کی روحانی ترقی کا امکان پیدا کرنے کے لیے الزم ھتا۔ جب تک
یہ کام نہ ہو چکے آگے روحانیت کی طرف قدم اٹھانا دشوار ہے۔ روس نے سرمایہ داری
کا خاتمہ کر دیا اور م ال کے متعلق اس کے نظریے پر عمل کیا کہ جائز ضڑورت سے
زائد مال کسی فرد کی ملکیت نہینرہ سکتا۔ اسے ملت کی عام احتجاج پر صرف ہونا
چاہیے۔ اقبال کہتا ہے کہ مال کے متعلق یہ تعلیم عین قرآنی تعلیم ہے کہ مال کو چند امرا
ء کے ہاتھوں مینگردش نہ کرنی چاہیے۔ اس کا فیضان دوران خون کی طرح جسم ملت
کے ہر رگ و ریشہ میں پہنچنا چاہیے۔ لوگوں نے جب رسول کریم صلعم سے یہ سوال
کیا کہ کس قدر مال خود صرف کرنا چاہیی اور کس قدر ملت کے احتجاج کے لیے ڈال
دینا چاہیے تو اس کا جواب قرآن نے ا ن الفاظ میں دیا ہے قل العفو مومنوں سے کہہ دو
کہ و ہ اپنی جائز ضرورت سے جو کچھ بچ جائے وہ ضرورت مندوں کے حوالے کر دیا
کریں۔ جس طرح بند پانی میں بدبو آنے لگتی ہے اور ا س میں زہریلے جراثیم پیدا ہو
جاتے ہیں اوراسی طرح انفرادی خود غرضی سے روکی ہوئی دولت بھی صاحب مال
کے لیے مسموم ہو جاتی ہے۔ مال کے اس اسالمی نظریے کو عارف رومی نے ایک بلیغ
تمثیل کے ساتھ نہایت موثر انداز میں پیش کیا ہے کہ ماچھا مال جو خدمت دین میں اور
خدمت خلق میں صرف ہو وہ خدا کی نعمت ہے۔ مال فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں‘ جس
طرح کشتی چالنے کے لیے پانی کی ایک خاص مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح
سفینہ حیات کسی قدر آب زر ہی سے روا ں ہو سکتا ہے لیکن پانی کشتی کے نیچے
نیچے رہنا چاہیے اگر وہ کشتی کے اندر گھس آئے تو اس کو سنبھالنے کی بجائے غرق
کردیتا ہے:
مال را گر بہر دیں باشی حمول
نعم مال صالح گفتا رسول
آب در کشتی ہالک کشتی است
زیر کشتی بہر کشتی پشتی است
عالمہ اقبال فرماتے ہیں کہ روس نے قرآن کی قل العفو کی تعلیم کے مطابق ایک
معاشرت پیدا کی ہے اس لیے اس حد تک یہ عین اسالمی کام ہے۔ ضرب کلیم میں
اشتراکیت کے عنوان سے جو اشعار لکھے ہیں ان کا موضوع یہی ہے:
اشتراکیت
قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم
بے سود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار
اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور
فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار
انساں کی ہوس نے جسے رکھا تھا چھپا کر
کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
ہللا کرے تجھ کو عطا جدت کردار
جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
اسالم ایک فطری مذہب ہے ۔ اور جب کبھی انسان کا فکر صالح ہو جاتا ہے تو قرآن سے
ناآشنا ہونے پر بھی وہ اسالم کے کسی نہ کسی پہلو کی صحت کا قائل ہو جاتا ہے ۔ اور
اسالم کے نام سے نہیں تو کسی اور عنوان سے اس پر عامل ہو جاتا ہے۔
کفر و دیں است در رہت پویاں
وحدہ ال شریک لہ گویاں
انسانی زندگی کی اصالح کے لیے مختلف اقوام میں جو جدوجہد ہو رہی ہے۔ اس کا جائزہ
لیجیے تو آپ کو نظر آئے گا کہ اصالح کر ہر قد م حقیقت میں اسالم کی طرف اٹھتا ہے۔
خواہ اس کے لیے کوشاں مصلحین غیر مسلم ہی کیوں نہ کہالتے ہوں۔ اقبال نے کارل
مارکس کی آوا ز کو بھی اپنی ہی آواز بنا کر پیش کیا ہے:
کارل مارکس کی آواز
یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی یہ بحث و تکرار کی نمائش
نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش
تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر
خطوط خمدار کی نمائش! مریزو کجدار کی نمائش
جہاں مغرب کے بتکدوں میں کلیسائوں میں مدرسوں میں
ہوس کی خوں ریز چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش
کارل مارکس بھی جہاں پیر کی موت کا آرزو مند ہے اور اقبال بھی ۔ لیکن جہان نو کی
تعمیر اور اس کی اساس کے متعلق دونونم یں اختالف ہے۔ کارل مارکس نیا معاشی نظام
قائم کرنا چاہتا ہے ۔ اور اس سے آگے بڑھ کر اس کا کچھ مقصود نہیں۔ کیونکہ وہ عالم
مادی سے باہر اور فائق کسی اور عالم کا قائل نہیں۔ اقبال کے لیے عادالنہ معاشی نظام
مقصود آخری نہیں بلکہ اسنان کے المتناہی روحانی ارتقاء کے راستے میں ایک منزل
دعوی کیا ہے اور اپنے مقاصد میں ایک
ٰ ہے۔ ایک شخص نے زمانہ حال میں نبوت کا
بڑامقصد یہ بتایا کہ میں کلیسائی عیسائیت کا قلع قمع کرنے کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ اس
کی تمام جدوجہد پادریوں سے مناظرہ کرنے تک محدو د رہی ہے۔ اور صلیب کا کوئی
کونی نہ ٹوٹا نہ گھسا۔ ایسی نبوت سے تو کلیسائی عیسائیت کا کچھ نہ بگڑا لیکن اقبال کہتا
ہے کہ دیکھو قضائے ٰالہی کی روش کیسی ہے کہ روس کی دہریت سے کسر چلیپا کا کام
لیا گیا ہے جو نہ کسی مومن سے ہوا اور نہ کسی متنبی سے وہ کام کافروں نے کر ڈاال ۔
کلیسا کا استبداد سب سے ز یادہ روس میں تھا جو کرہ اارض کے پانچویں حصے کو
گھیرے ہوئے ہے۔ وہیں پر مکمل بت شکنی ملحدوں نے کی ہے۔ مذہب مصلحین کبھی یہ
کام نہ کر سکتے:
روش قضائے ٰالہی کی ہے عجیب و غریب
خبر نہیں کہ ضمیر جہاں میں ہے کیا بات
ہوئے ہیں قصر چلیپا کے واسطے مامور
وہی کو حفظ چلیپا کو جانتے تھے نجات
یہ وحی دہریت روس پر ہوئی نازل
کہ توڑ ڈالے کلیسائیوں کے الت و منات
اقبال کے نزدیک اشتراکیت میں حق و باطل کی آمیزش ہے۔ اس میں جو دل کشی اور مفاد
کا پہلو ہے وہ حق کے عنصر کی وجہ سے ہے۔ دنیا میں رزق کی عادالنہ تقسیم دین دین
ہے اور اس معامل ے میں روس نے جو کوشش کی ہے وہ سراہنے کے الئق ہے۔ حضرت
مسیح نے فرمایا کہ انسان کی زندگی فقط روٹی سے نہیں اسے روحانی غذا کی بھی
ضرورت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان روح کے عالوہ جسم بھی رکھتا ہے اور نفس
و بدن کا رابطہ بھی کچھ اس قسم کا ہے کہ پیٹ میں روٹی نہ ہو تو انسان نہ حقوق ہللا ادا
کر سکتا ہے اور نہ حقوق العباد۔ اسی لیے اسالم نے معاش و رزق کی عادالنہ تقسیم و
تنظیم کو بھی جز و دین قرار دیا ہے۔ عیسائی بھی اپنی دعا میں خدا سے روز روٹی
مانگتے ہیں۔ سعدی نے سچ فرمایا ہے ک بھوکا حضور قلب سے نماز بھی نہیں پڑ ھ
سکتا:
شب چو عقد نماز بر بندم
چہ خورد بامداد فرزندم
خداوند روزی بحق مشتعل
پراگندہ روزی پراگندہ دل
رسول کریم نے فرمایاکہ زندگی کی بنیادی چیزوں کی محتاجی انسان کو کفر سے قیرب
لے آتی ہے۔ یہ فقر اضطراری ہے جس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ فقر اختیاری دوسری چیز
عاعلی درجے کی روحانی زندگی
ٰ ہے۔ جس پر نبی کریم صلعم نے فخر کیا ہے ار جو
کے لیے الزمی ہے۔ حضرت بابا فرید شکر گنج رحمتہ ہللا علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے
کہ عام طور پر پانچ ارکان مشہور ہیں لیکن درحقیقت چھ ہیں مریدوں نے پوچھا چھٹا رکن
کون سا ہے۔ جواب دیا کہ روٹی اور یہ بہ ت اہم ہے۔ اس رکن کے گر جانے سے باقی پانچ
چیزوں کی بھی خیریت نہیں۔ لیکن اس پر یہ بھی اضافہ کر سکتے ہیں کہ اگر طلب رز ق
میں زیادہ انہماک ہو جائے تو وہ بھی اخالیق اور روحانی زندگی معرض خطر میں پڑ
جاتی ہے۔ اقبال اشتراکیت کی اس کوشش کو مستحسن خیال کرتا ہیکہ انسانوں کی مادی
ضروریات کے پورا کرنے کا کوئی عادالنہ نظام ہو لیکن انسانوں میں یہ عقیدہ رائج کر
دینا غلط ہے کہ مادی ضڑوریات کے پورا کرنے سے زندگی کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ تمام
جدوجہد کو اسی میں صرف کرنا کہ بہتر روٹی اور کپڑا ملے اور رہائش کے لیے اچھا
مکان مل جائے انسانی زندگی کی یہ غایت نہیں ہو سکتی۔ اکثر حیوانوں کو یہ چیزیں
انسانوں سے بہت میسر ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر انسان کی امتیازی
خصوصیت اور مقصود کیا ہے۔ حیوانوں کے لیے فطرت نے از روئے جبلت جو سامان
اور ذرائع مہیا کر دیے ہیں۔ اگر انسان بصد مشکل عقلی کوششوں سے وہی کچھ کر لے
تو اس کو حیوانوں پر کیا تفوق ہے؟ مادی ضروریات کے حصول اور سامان حیات
جسمانی کی مساویانہ تقسیم سے خاص انانی زندگی کی تو کوئی غایت پوری نہیں ہوتی۔
یہ سعی مساوات دلوں میں تو کوئی اخوت اور محبت کا جذبہ پیدا نہیں کر سکتی۔ رزق
کی فراوانی اور اس کی بہتر تقسیم کو مقصود حیات بنا لینا اور نفس انسانی کے المتناہی
ممکنات کو امکان سے وجود میں النے کی کوشش نہ کرنا بہت بڑا گھاٹا ہے۔ ازروے
قرآن اییمان اور عمل صالح کے بغیر انسان کی زندگی دولت کی فراوانی کے باوجود
ماوری ہے
ٰ خسران ہی خسران ہے۔ روح انسانی کا جوہر اطبیعی و زمان و مکان سے
انسان کی منزل حیات جسمانی نہیں بلکہ خدا ہے منزل ما کبریاست قرالی ربک المنتہی۔
جاوید نامے میں اشتراکیت کے اندر جو حق اور باطل ہے دونوں کو وضاھت سے پیش
کیا گیا ہے۔ کارل مارکس کے قلب میں مومنوں واال جذبہ ہے اور خلق خدا کے ساتھ
انصاف ہونا چاہیے لیکن حیات و کائنات کی ماہیت اور خلق وجود سے نا آشنا ہونے کی
وجہ سے اس کا فکر کافرانہ ہے۔
صاحب سرمایہ از نسل خلیل
یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل
زانکہ حق در باطل او مضمر است
قلب او مومن دماغش کافر است
غریباں گم کفردہ اند افالک را
در شکم جویند جان پاک را
رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک
جز بہ تن کارے ندارد اشتراک
دین آں پیغمبر حق نا شناس
بر مساوات شکم دارد اساس
تا اخوت را مقام اندر دل است
بیخ او در دل نہ در آب و گل است
ملت اروسیہ
جاوید نامے میں جمال الدین افغانی کا ایک پیغام ملت اروسیہ کے نام ہے۔ اس یغام میں
اقبال نے اسالم اور اشتراکیت کے نقطہ ہائے اتصال و افتراق کو بڑی وضاحت سے پیش
کیا ہے اشتراکیت کے پرانے معبودوں اور فرسودہ اداروں کے انہدام میں سعی بلیغ کی
ہے۔ اس کافراخ دلی سے ذکر کیا ہے ۔لیکن اس کے بساتھ ہی اس ملت کوان خطرات سے
آگاہ کیا ہے کہ جو اس انقالبی تمدن و تہذیب کو پیش آسکتے ہیں۔ انقالبات کی تاریخ میں
سب سے بڑا انقالب اسالم تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے کرہ ارض کے ایک وسیع
حصے میں قدیم فکر و عمل کے حیات کش نقوش کو مٹا کر ایک جدید عالم گیر ٰ
تہذب ک
بنیا د ڈالی ۔ زندگی کے ہر شعبے کے متعلق اس کا زاویہ نگاہ نادر اور انقالبی تھا۔ اس
ہمہ گیر انقالب کے لیے انسانی طبائع پوری طرح آمادہ نہ تھیں اس لیے بہت جلد شکست
خوردہ رسوم اور ادارے اور انسانی خو د غرضیاں بہت کچھ واپس آ گئیں اور اس انقالب
کے خالف رفتہ رفتہ رد عمل شروع ہوا۔ اسالم کی اصل صورت بہت کچھ مسخ ہوتی گئی
لیکن اسالم کا جتنا حصہ بھی اس رد عمل کے باوجو د ملت اسالمیہ کی زندگی میں باقی
رہ گیا اس کی بدولت مسلمان اپنی معاصر دنیا سے کوئی چھ سات صدیونتک پیش پیش
رہے۔ زندگی کا قانون یہ ہے کہ افراد یا اقوام کی زندگی ایک حالت پر قائم نہیں رہ سکتی۔
مسلسل تغیر پذیری آئین حیات ہے۔ اس لیے ہر لمحے میں انسان یا آگے بڑھ رہا ہے یا
پیچھے ہٹ رہاہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس انسان کے دو دن ایک جیسے ہوں
یعنی اس نے ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا ہو وہ شخص نہایت گھاٹے میں ہے۔ من ستوا یوما
فہو مغبون اس اصول کے مطابق مسلمان صدیوں سے پیچھے ہی ہٹتے گئے اور مغربی
اقوام آگے بڑھنا شروع ہوئیں۔ اب اس صدی میں مسلمانوں کو اپنے نقصان سپ ماندگی
اور بے بسی کا احسا س شروع ہوا تو اس میں ہر جگہ کچھ نہ کچھ حرکت پیدا ہوئی۔
روسی اشتراکیت
اسالم کے انقالب کے بعد روسی اشتراکیت تک مشرق میں کوئی ایسی حرکت پیدا نہ ہوئی
تھی۔ جسے انقالبی کہہ سکیں یعنی جس نے سیاست اور معیشت اور نظریات حیات کو
یکسر بدل ڈاال ہو۔ مگرب میں از منہ متوسط کے جمود واستبداد کے بعدنشاۃ الثانیہ نے
فکر و عمل میں ہیجان پیدا کیا اور رفتہ رفتہ خاص افراداور خاص طبقات میں زندگی کے
انداز بدلنا شرو ع ہوئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد اصالح کلیسا کی لوتھر تحریک سے
کیسا میں زلزلہ آیا اور بقول اقبال فرنگ میں ااذادی فکر کی نازک کشتی رواں ہوئی۔ ان
تمام تحریکوں کا مجموعی نتیجہ انقالب فرانس میں نکال اور اس کے کچھ عرصے بعد
انگلستان میں وہ انقالب آیا جسے صنعتی انقالب کہتے ہیں اور جس نے انگریزوں کی
زندگی کے ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ اچھا یا براتاثر پیدا کیا۔
لیکن یہ تمام تحریکیں مجموعی طور پر بھی اتنی انقالب آفریں نہ تھیں جتنی کہ اشتراکیت
کی زلزلہ انگیز تحریک۔ بقول اقبال:
قہر او کوہ گراں را لرزہ سیماب داد
اس سے قبل کی تحریکوں سے ملوکیت کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ جاگیرداری کی جگہ سرمایہ
داری نے لے لی عوام کے حقوق طلبی اور جمہوریت کی کوششیں بھی اتنی بارآور نہ
ہوئیں کہ ان کے لیے بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہو سکتے صحیح معنوں میں انقالب
اسی کو کہتے ہیں کہ جو اشتراکیت نے پیدا کیا۔ اشتراکیت قدیم معاشرت میں محض
رخنے بند کرنے اور ٹانکے یا پیوند لگانے کی قائل نہ تھی اس نے قدیم اداروں کی
بیماری کا عالج کوئی دوا یا غذا تجویز نہ کیا بلکہ ایسی جراحی جو اعضائے فاسد کی
قطع و برید سے دریغ نہ کرے۔ جہاں اشتراکیت کو کامیابی ہوئی وہاں کوئی ادراہ اور
کوئی طریقہ بھی اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہ سکا۔ قیصریت کا صفایا ہو گیا جاگیرداری
کا خاتمہ ہوا سرمایہ داری کا نام و نشان مٹ گیا اور کلیسا عضو معطل بن گیا۔ مذہب کے
خالف ایسا شدید رد عمل ہوا کہ دین کی بیخ کنی کو روسی سیاست نے اپنے الئحہ عمل
میں شامل کر لیا۔ پوجا پاٹ کی اجازت رہی مگر دین کی تبلیغ ممنوع ہو گئی۔ اشتراکی
ارباب حل و عقدکے لیے یہ شرط الزمی ہو گئی کہ اعتقادا ً اور عمال ً متحد ہوں اور
مادیت کے قائل ہوں۔ اس طرح سے حق و باطل کی ایک عجیب قسم کی آمیزش ظہور
میں آئی۔ سب سے بڑا ظلم جو اقدار حیات کو فنا کر دیتا ہے ۔ اشتراکیت کا جبری نطام
ہے۔ انسانوں کی نقل و حرکت پر قدغنیں لگ گئیں آزادی فکر آزادی ضمیر اور آزادی
بیان جرم بن گئی۔ جمال الدین افغانی کی روح اس تمام انقالب کا جائزہ لیتی ہے اور اس
سلسلے میں وہ اس انقالبی ملت کے سامنے اسالم کی انقالب آفریں تعلیم کو پیش کرتی
ہے جس کا لب لباب ہے کہ تم نے تخریبی اور سلبی کام تو خوب یا لیکن اس کا ایجابی
پہلو فقط اسالم پورا کر سکتا ہے۔ بقول غالب:
رفتم کہ کہنگی ز تماشا بر افگنم
در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم
در رقص اہل صومعہ ذوق نظارہ نیست
ناہید را بہ زمزمہ از منظر افگنم
افغانی بتاتا ہے کہ یہ نمطے دیگر کیا ہونا چاہیے افغانی کے پیغام کا حاصل مفصلہ ذیل
ہے:
اے ملت روسیہ تو اسالم اور مسلمانوں کی تاریخ کی طرف نظر ڈال اور اس سے کچھ
کسری کا طلسم توڑا لیکن بہت جلد ان
ٰ سبق اور عبرت حاصل کر۔ مسلمانوں نے قیصر و
کے تخت ملوکیت پر خود متمکن ہو گئے اور قیصریت کے جاہ و جالل کو اپنی شاہانہ
شوکت سے مات کر دیا۔ فرعون کے آبنوس کے تخت کی جگہ نوکروڑ روپے کا تخت
طائو س شان اسالم کا مظہر بن گیا۔ ملوکیت کے عروج میں افراد کی حریت سوخت ہو
گئی۔ تحقیق و اجتہاد کے دروازے بند ہو گئے۔ اس سے عجمی افکار اور غیر اسالمی
طرز زندگی نے اسالم کے افکار کی طرف سے غفلت پیداکر دی۔ ملوکیت وہ چیز ہے کہ
جو سیاست اور انقالبی معیشت پر ہی اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ عقل و ہوش اور رسم و رہ
سب دگرگوں ہو جاتے ہیں۔ غرضیکہ اسالم کے انقالب کو ملوکیت کھا گئی۔ ظالم اور
فتوی فروش بن کر ان کے آلہ کار
ٰ مستبد سالطین ظل ہللا بن گئے اور علمائے سو فقیہ اور
الکبری کے شہنشاہ دیوتا بنن گئے تھے۔ جن کی پوجا رعیت
ٰ بن گئے جس طرح رومتہ
کے ہر فرد پر الزم تھی اسی طرح مسلمان سالطین علماء سے بھی سجدے کرانے لگے
توی حاصل کر لیا کہ یہ سجدہ تعظیمی ہے۔ سجدہ عبادت نہیں۔ یہ
اور علماء سے یہ ف ٰ
دعوی کرتے تھے۔ جو راستہ چلتے ہوئے
ٰ سالطین خلفا بن کر اس رسول کی جانشینی کا
بھی اصحاب سے دو قدم آگے نہ چلتے تھے۔ اور محفل میں اپنی آمد کے وقت تعظیما ً
اصحاب کو کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے۔
کسری شکست
ٰ خود طلسم قیصرو
خود سر تخت ملوکیت نشست
تانہال سلطنت قوت گرفت
دین او نقش از ملوکیت گرفت
از ملوکیت نگہ گردد دگر
عقل و ہوش و رسم و رہ گردد دگر
اے ملت روشیہ کچھ کام تو تو نے وہی کیا ہے جو اسالم کرنا چاہتا تھا اور جس کا نمون
کچھ عرصیکے لیے دنیا کے سامنے پیش بھی کیا گیا تھا۔ تو نے محمد صلعم اور ان کے
خلفائے راشدین کی طرح قیصریت کی ہڈی پسلی توڑ ڈالی ہے مگر تجھ کو تاریخ اسالم
دعوی کرتے
ٰ سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ کہن یہ نہ ہو کہ تو بھی عالمگیر اخوت کا
کرتے ایک نئی قسم کی ملوکیت کا شکار ہو جائے تو بھی کہیں جبر و ظلم کے ساتھ
جہانگیری نہ شروع کر دے۔ خوفناک آالت ہالکت پیدا کرکے تو نوع انسان کو خوف زدہ
نہ کر۔ قوت ضروری چیز ہے لیکن دنیا ایسی ملت کی طالب ہے جو صرف نذیر ہی نہ ہو
اعلی درجہ تر زندگی
ٰ بلکہ بشیر بھی ہو۔ تمہارے طریق عمل میں انسانوں کے لیے ایک
کی بشارت ہونی چاہے۔ تمہاری تقدیر اقوام مشرق کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لیے تمہارا
رخ زیادہ تر ایشیا کی طرف ہونا چاہیے۔ جس کی روایات میں روحانیت کا بنیادی عنصر
بھی موجود ہے۔ تمہارے سینے میں ایک سوز ہے۔ جونئے شب و روز پیدا کرتاہے
افرنگ کا آئین و دین کہنہ اور فرسودہ ہو گیا ہے۔ اگر تم نے بھی اس کی نقالی شروع کر
دی اور ایک طرف بے دینی کو ترقی دی اور دوسری طرف محض سامان حیات اور
سامان حرب پیدا کرنے ہی کو مقصود بنا لیاتو تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو فرنگ کا ہوا
ہے۔ تم اگر در حقیقت نئی تہذیب پیدا کرنا چاہتے ہو تو مغرب کی طرف مت دیکھو۔ اس
تقلید اور مطابقت میں تم اسی رنگ میں رنگے جائو گے یہ مغرب اال سے اال کی طرف
نہیں بڑھ سکا اور مادیت کے آب و گل میں ُھنس کر رہ گیا ہے ارتقائی زندگی کا ایک قدم
نفی کی طرف تو دوسرا اثبات کی طرف اٹھتا ہے۔ اگر تم جدید نظام عالم پیدا کرنا چاہتے
ہو تو اب وقت ہے کہ تم اثبات کی طرف آجائو۔
کہنہ شد افرنگ را آئین و دیں
سوئے آں دیر کہن دیگر مبیں
کردہ کار خداونداں تمام
بگذر از ال جانب اال خرام
در گذر از ال اگر جویندہ
تا رہ اثبات گیری زندہ
جس انقالب آفرینی پر تم فخر کرتے ہو ا س کا سبق دنیا کو سب سے پہلے قرآن نے
پڑھایا تھا۔ اسی قرآن پڑھانے والے نبی صلعم نے یہ اعالن کیا تھا کہ ال قیصر و ال
کسری۔ اس نے حبشیوں وک روشن ضمیر بنا کر ان کی ظاہری سیاہی کو نور قلب سے
ٰ
بدل دیا تھا۔ اسی نے رنگ نسل کی تمیز کو حرام کیاتھا۔ فرنگی اقوام ابھی تک مساوات
اور اخوت کے دعاوی کے باوجو د کالوں کو گوروں کے مطابق حقوق دینے کی روادار
نہیں۔ مغربیوں کی تمام سیاست ماکیاویلی جیسے ابلیس نے سکھائی ہوئی روباہی ہے۔ اس
روباہی کا تمام فن دوسروں کو محتاج کورکھ کر اپنے لیے سامان حیات کی فراوانی پیدا
کرنا ہے:
گر ز مکر غریباں باشی خیبر
روبہی بگذار و شیری پیشہ گہر
چیست روباہی تالش ساز و برگ
شیر موال جوید آزادی و مرگ
قرآن نے جس فقر کو سراہا ہے وہ اصل شاہنشاہی ہے۔ جس کی بدولت خود مومن کو
کائنات پر حکومت حاصل ہوتی ہے۔ ضعیف اقوام کو مغلوب کر کے ان پر حکومت شاہی
نہیں بلکہ نفس دوں کی غالمی ہے مغرب نے محسوسات میں بہت تفکر کیا ہے اور
محدود مادی خرد کے احاطے میں جو کچھ آ سکتا ہے اس کو فکر و عمل سے مسخر کر
لیا ہے۔ لیکن فکر کے عالوہ ایک دوسری بیش قیمت چیز ہے جسے ذکر کہتے ہیں۔ یہ
ذکر زبان سے کچھ کلمات دہراتے رہنے کا نام نیں ہے۔ یہ ایک وجدان حیات ہے جس کا
عرفان انسان کو مازکذ حیات و کائنات سے ہم آغوش کر دیتا ہے۔ یہ ذکر حیات المحدود
کے لیے ایک المتناہی ذوق و شوق ہے۔ یہ انسانی روح کی غذا ور اس کا پر پرواز ہے۔
فکر انسانی زیاہ تر بدن کی زندگی میں الجھا رہتا ہے۔ لیکن ذکر دل کی زندگی ہے۔ اس
سے وہ آگ پیدا ہوتی ہے جو آتش ح یات ہے۔ تم بھی مادی عقلیت میں مغرب کی طرح
ابھی تک ایسے الجھیہوئے ہو کہ یہ بات ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ بامزاج تو نمی
سازد ہنوز۔
قرآ ن کی خوبی
قرآ ن کی خوبی یہ ہے کہ وہ فکر و ذکر دونوں کی بیک وقت تلقین کرتا ہے۔ فکر بھی
معرفت اور قوت تسخیر پیدا کرتا ہے اور نفس انسانی کا ایک امتیازی جوہر ہے۔ لیکن
ذکر کے بغیر اس میں تنویر کامل پیدا نہیں ہوتی۔ رہبانی مذاہب نے فکر کو باالئے طاق
رکھ کر خالی ذکر کو شغل بنا لیا ہے ور حکماء طبیعی فکر کے حدود سے باہر قدم نہ
رکھا۔ قرآن نے جس شاہنشاہی فقر کی تعلیم دی ہے وہ فکر و عمل کی ہم آغوشی ہے جو
انفس و آفاق دونوں کو محیط ہو جاتی ہے۔
خطبہ آلہ آباد 1930کے بنیادی نکات کیا تھے؟ تفصیل سے جواب سوال نمبر :2
دیں ۔
جواب :
۸نومبر ۱۹۲۷ء کو برطانوی حکومت نے آئندہ آئین کیلئے تجاویز پیش کرنے والے
کمیشن کا اعالن کیا۔ سر جان ایلز بروک سائمن کی سربراہی میں اعالن کئے جانے والے
کمیشن میں چھ اور ارکان شامل تھے۔چونکہ کوئی ہندوستانی کمیشن میں شامل نہیں کیا گیا
تھا اس لئے بڑے پیمانے پر کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ سمیت تمام جماعتوں کی
طرف سے اس کی مذمت کی گئی اور کمیشن کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے اعالنات
سامنے آئے۔ عالمہ اقبال نے پنجاب پراونشل مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت
سے بیان جاری کیا اور کمیشن میں کسی ہندوستانی کا نہ ہونے کو ہندوستان کے وقار پر
حملہ قرار دیا۔ کمیشن کے بائیکاٹ کے بارے میں عالمہ صاحب نے کہا کہ مسلمانوں کی
مختلف جماعتوں کو غور و فکر کے بعد کوئی متفقہ فیصلہ کرنا چاہیئے۔ پنجاب پراونشل
مسلم لیگ نے سر شفیع کی قیادت میں فیصلہ کیا کہ کمیشن کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ یہ
مرکزی مسلم لیگ کے فیصلے کے برخالف تھا۔ ابھی یہ اختالف سامنے آیا ہی تھا کہ
مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور پنجاب کی صوبائی مسلم لیگ
کے درمیان لیگ کی صدارت کے معاملے پر بھی اختالفات سامنے آگئے اور دسمبر
۱۹۲۷ء کے آخر میں مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک گروپ کو کلکتہ گروپ
یا جناح گروپ کے نام سے بالیا گیا اور دوسرے گروپ کو الہور گروپ یا شفیع گروپ
کا نام دیا جانے لگا۔
1930ء کو مسلم لیگ کا ساالنہ اجالس الہ آباد میں منعقد ہوا۔ اس کی صدارت ڈاکٹر سر
محمد اقبال نے کی۔ انہوں نے اپنے صدارتی خطبے میں بڑی وضاحت سے ہندوستان کے
حاالت ،مسلمانوں کی مشکالت ،ان کے مستقبل اور مسلمانان ہند کی منزل کی نشان دہی
کی۔
کانگرس جس طرح ماضی میں مسلمانوں کے وجود سے انکاری ہوئی تھی اس سے انکار
ممکن نہیں تھا۔ ان دنوں لندن میں گول میز کانفرنس ہو رہی تھی لیکن عالمہ اقبال گاندھی
کی ہٹ دھرمی کے پیش نظر جانتے تھے کہ کوئی بھی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا
اور مسلمانوں کی منزل ایک علیحدہ مملکت ہی ہے۔
الہ باد کے حوالے سے جتنا کچھ لکھا جاتا ہےیا باتیں کی جاتی
عالمہ اقبال کے خطبہ ٰ
تحریک پاکستان کے کسی اور واقعہ سے متعلق اتنی سرگرمی ہوتی ہو۔ یہ
ِ ہیں ،شاید ہی
جلسہ بڑی تگ و دو کے بعد ہو پایا تھا اور مسلمانوں میں اس جلسے کے حوالے سے جو
جوش و خروش پایا جاتا تھا ،اس کے برعکس جلسہ کا مقام اور انتظامات انتہائی ناموزوں
تھے۔ عالمہ صاحب کی تقریر انگریزی میں تھی اور عالمانہ تھی۔ تقریر کا کتابچہ تقسیم
شریک جلسہ کیلئے مشکل کام
ِ کردیا گیا تھا۔ تقریر کے متن کو سمجھنا عمومی طور پر
تھا۔
یہ کیفیت آج بھ ی برقرار ہے ،اس خطبے کے حوالے سے لکھنے والے اور تبصرہ کرنے
والے اکثر افراد آج بھی نہ اس پوری تقریر کو پڑھتے ہیں اور نہ ہی اس میں پوشیدہ کچھ
حتی کے نہایت واضح الفاظ میں کئے گئے
اشارات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیںٰ ،
مطالبے کی بھی من مانی تشریحات کرتے ہیں۔ بہرحال میرا یہ مقام و مرتبہ نہیں کہ میں
اس پر کچھ زیادہ بات کروں۔
الہ باد ہندوؤں کیلئے ایک مقدس شہر کا
دریائے گنگا اور جمنا کے سنگم پہ واقع شہر ٰ
مقام رکھتا ہے۔ عالمہ اقبال ۲۸دسمبر ۱۹۳۰ء کی سہ پہر کو سر عبدہللا ہارون کے ہمراہ
الہ باد پہنچے تو وہاں انکا تاریخی اسقبال ہؤا۔ خیر مقدم کرنے والوں میں مسلمانوں کے
ٰ
الہ باد کے شہریوں کے بقول ایسا مجمع پہلے کبھی
عالوہ غیر مسلم بھی شامل تھے۔ ٰ
دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ جدھر نظر اٹھتی تھی انسانوں کا سمندر امڈا نظر آتا تھا۔ وقفے
وقفے سے مجمع عالمہ صاحب کی تعریف و تحسین کے نعرے بلند کررہا تھا۔
عالمہ اقبا ل کا خطبہ صدارت جو آل انڈیا مسلم لیگ کے ساالنہ اجالس میں ۲۹دسمبر
الہ آباد میں پڑھا گیا۔ اصل خطبہ انگریزی میں تھا۔ اس کا ترجمہ حسب
۱۹۳۰ء کو بہ مقام ٰ
ذیل ہے:
حضرات!
ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی فکرو عمل کی تاریخ کے انتہائی نازک لمحات میں آپ
نے مجھے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کا اعزاز بخشا ،جس کیلئے میں آپ کا بیحد
ممنون ہوں۔ اس عظیم اجتماع میں ایسے اصحاب کی موجودگی میں جن کا وسیع تر
سیاسی تجربہ ہے اور جن کی معاملہ فہمی کا میں بے حد احترام کرتا ہوں ،کسی شک
دعوی کروں ،ایسے سیاسی
ٰ میں پڑے بغیر یہ بڑی جسارت ہوگی اگر میں کسی رہنمائی کا
معامالت میں جن کے فیصلوں کیلئے ہم یہاں موجود ہیں۔ میں کسی جماعت کا رہنما نہیں
ہوں۔ اورنہ ہی کسی رہنما کا پیرو ہوں۔ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسالم اس کے
قوانین و سیاست ‘ اس کی ثقافت و تاریخ اور ادب کے مطالعے میں صرف کیا ہے ۔میرا
خیال ہے کہ روح اسالمی سے مسلسل تعلق کے باعث جس کا اظہار وقت کے ساتھ ہو رہا
ہے ،میرے اندر اسالم کو ایک اہم عالمگیر حقیقت کی حیثیت سے دیکھنے کی بصیرت
پیدا ہو گئی ہے۔
لہٰ ذا یہ فرض کرتے ہوئے کہ ہندوستانی مسلمان اسالمی روح کے شیدائی رہیں گے میں
اس بصیرت کی روشنی میں خواہ اس کی قدر وقیمت کچھ بھی ہو آپ کے فیصلوں میں
آپ کی رہنمائی کرنے کے بجائے آپ کے دل میں اس بنیادی اصول کا احساس پیدا کرنے
کا معمولی سا کام انجام دوں گا جس پر میری رائے میں آپ کے فیصلوں کاعموما ً انحصار
ہونا چاہیے ۔
اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسالم کو ایک اخالقی ،مثالی نیز خاص قسم کی
شائستگی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے … اوراس اصطالح سے میرا مطلب ایک ایسا
معاشرہ ہے جس کا نظم و ضبط ایک خاص نظام قانون اور مخصوص اخالقی نصب العین
کے ماتحت عمل میں آیا ہو… اسالم ہی مسلمانان ہند کی تاریخ کا اہم ترین جزو ترکیبی
رہا ہے ۔ اس نے ان بنیادی جذبات اور وفاداریوں کو پیش کیا ہے جو آہستہ آہستہ بکھرے
ہوئے افراد اور گروہوں کو متحد کرتی ہیں ،اور آخر کار ان کو خود ہی ایک اخالقی
شعور رکھنے والے نمایاں افراد میں بدل دیتی ہیں۔ واقعی یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی
کہ ہندوستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ایک عوامی تعمیراتی قوت کی حیثیت سے
اسالم نے بہترین کام کیا ہے۔۔ درحقیقت یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں کہ دنیا بھر میں صرف
ہندوستان ہی ایسا ملک ہے جہاں اسالم ایک مردم ساز قوت کی حیثیت سے بہترین
صورت میں جلوہ گر ہوا ہے۔ دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی اسالمی معاشرہ
تقریبا ً پوری طرح ایک مخصوص اخالقی نصب العین کی ثقافت سے بنا ہے۔ میرے کہنے
کا مقصد یہ ہے کہ مسلم سوسائٹی کاخمیر جس میں ایک مخصوص ہم آہنگی او ر اندرونی
اتحاد پایا جاتا ہ ے ان قوانین اور اداروں کا رہین منت ہے جو اسالمی ثقافت سے وابستہ
ہیں۔
اسی لیے لوتھر اور روسو جیسے لوگوں کی تحریکوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وحدت کی جگہ
غیر مربوط و منتشر کثرت نے لے لی جس کی وجہ سے انسانیت کی اکائی اقوام میں
تقسیم ہو گئی۔ مثالً ہر عالقے کو ایک الگ سیاسی اکائی تصور کیا جانے لگا۔ اگر آپ یہ
سمجھتے ہیں کہ مذہب کا تعلق صرف آخرت سے ہے تو مسیحیت کا جو حشر یورپ میں
عیسی کے عالمگیر اخالقی نظام کی جگہ قومی اور سیاسی
ٰ ہوا وہ قدرتی امر تھا۔ حضرت
نظام کی اخالقیات نے لے لی نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے
مجبور ہو گیا کہ مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق
نہیں… لیکن اسالم انسان کی وحدت کو مادے اور روح کے تضادات میں تقسیم نہیں کرتا۔
اسالم میں خدا اورکائنات ،روح اور مادہ ،کلیسا اور ریاست ایک کل کے مختلف اجزا ہیں
۔ انسان کسی نجس دنیا کا باشندہ نہیں ہے جسے کسی ایسی روحانی دنیا کی خاطر ترک
کرے جو کہیں اور واق ع ہو۔ اسالم کے نزدیک مادہ روح کی وہ شکل ہے جو زمان و
مکاں میں ظہور پذیر ہوتا ہے ۔ غالبا ً مانیچین Manichaeanفکر کے زیر اثر یورپ نے
روح اورمادے کی دوئی کو بال غور و فکر کے تسلیم کر لیا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں
عیسائیت کو یوروپی ریاستوں کی زندگی سے مکمل طور پر خارج کردیا گیا ہے۔ روحانی
اور دنیاوی طور پر یہ علیحدگی غلطی کا نتیجہ ہے جس نے یورپی مذہبی اور سیاسی
فکر کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے ۔اس کے بہترین مفکرین آج اس ابتدائی غلطی کا
احساس کر رہے ہیں ،لیکن ان کے سیاست دان بالواسطہ طور پر دنیا کو یہ نظام بال تردد
قبول کرنے پر مجبور کررہے ہیں۔ اس کا نتیجہ باہمی طور پر بیمار توازنی ریاستوں کا
ایک مالپ ہے جس کے انسانی نہیں بلکہ قومی مفادات ہیں۔ اور یہ باہمی طور پر بیمار
توازنی ریاستیں ،عیسائیت کے اخالقی اور مذہبی اعتقادات کو پامال کرنے کے بعد ،آج
ایک وفاقیت والے یوروپ کی ضرورت محسوس کر رہی ہیں ،یعنی ایک اتحاد کی
ضرورت جو مسیحی چرچ کی تنظیم نے اصل میں انھیں دی تھی۔ یعنی اس اتحاد کی
ضرورت ہے جو اصل میں عیسائی چرچ کی تنظیم نے انہیں دی تھی ،لیکن جس نے،
اسے مسیح کے انسانی بھائی چارہ کےپیغام کی روشنی میں تشکیل نو کے بجائے لوتھر
زیر اثر رہ کر تباہی پر آمادہ رکھا۔
کے ِ
دنیائے اسالم میں کسی لوتھر کا ظہور ممکن نہیں ہے اس لے کہ اسالم میں ایسا کوئی
وسطی کی مسیحی دنیا میں موجود تھا۔ اور
ٰ کلیسائی نظام موجود نہیں ہے جیسا کہ ا ز منہ
جس کے توڑنے کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔دنیائے اسالم میں ایک عالمگیر نظام
سیاست موجود ہے جس کے بنیادی نکات وحی کا نتیجہ ہیں۔ لیکن چونکہ عرصہ دراز
سے ہمارے فقہا جدید دنیا سے بے خبر رہے ہیں اس لیے اس نظام کو نئے سرے سے
مرتب کر کے مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔میں نہیں جانتا کہ قومیت کے تصور کا
اسالمی دنیا میں ا ٓ خر کار کیا حشر ہو گا۔ کیا اسالم اسے اپنے اندر جذب کر کے اس کی
اس طرح قلب ماہیت کر دے گا جیسا کہ پہلے بہت سے ایسے تصورات کی کر چکا ہے
جو اسالم سے مختلف تھے یا خود اسالم کے اندر کوئی زبردست تغیر رونما ہو جائے
گا… اس بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ لیڈن) (Leidonہالینڈ کے پروفیسر
وینسنک) (Wensinckنے حال ہی میں مجھے لکھا تھا کہ ” :مجھے ایسا محسوس ہوا
ہے کہ اسالم ایک ایسے بحرانی دور میں داخل ہو رہا ہے کہ جس میں مسیحیت کو داخل
ہوئے ایک صدی سے زیادہ گزر چکا ہے ۔ سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ پرانے تصورات
کو ترک کر دینے کے ساتھ ساتھ مذہب کی بنیاد کو بھی کسی طرح محفوظ رکھا جائے۔
میرے لیے تو یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ اس کا نتیجہ مسیحیت کے حق میں کیا ہو گا چہ
جائیکہ اسالم کے بارے میں کوئی پیش گوئی کروں‘‘۔اس وقت قومیت کے تصور نے
مسلمانوں کی نگاہوں کو نسل پرستی سے آلودہ کر رکھا ہے اور یہ خیال اسالم کے انسان
دوستی کے تصور میں بری طرح حائل ہو رہا ہے ممکن ہے کہ نسل پرستی کا یہ جذبہ
ایسے معیارکو بڑھاوا دے جو اسالم کے معیار سے مختلف بلکہ متضاد ہوں۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے اس جلسے کی صدارت کے لیے آپ نے ایک ایسے شخص کو
منتخب کیا ہے جو اس امر سے مایوس نہیں ہے کہ اسالم اب بھی ایک ایسی قوت ہے
جس میں انسان کی سوچ کو جغرافیائی حدود سے آزاد کرانے کی سکت موجود ہے… جو
یہ مانتا ہے کہ مذہب افراد کے ساتھ ساتھ ریاستوں کی زندگی میں بھی انتہائی اہمیت کی
حامل طاقت ہے ،اور آخر کار جو یہ مانتا ہے کہ اسالم خود ہی منزل ہے اور اس کو
کسی گمراہی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ایسا شخص مجبور ہے کہ حاالت کو خود اپنے
ہی نقطہ نگاہ سے دیکھے۔ یہ نہ سمجھے کہ جس مسئلے کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں
وہ محض ایک نظری مسئلہ ہے یہ ایک زندہ اور عملی مسئلہ ہے جس سے اسالم کے
دستور ح یات اور نظام عمل کے تار و پود متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس مسئلے کے صحیح حل
سے ہندوستان میں ایک ممتاز ثقافتی گروہ کی حیثیت سے ہمارے مستقبل پر اثر پڑ سکتا
ہے۔
ہماری تاریخ میں اسالم پر ایسا سخت دور کبھی نہ آیا تھا کہ جیسا کہ آج ہے لوگوں کو یہ
حق حاصل ہے کہ وہ اپن ے سماج کے بنیادی اصولونمیں ترمیم کریں یا انہیں بالکل مسترد
کر دیں۔ لیکن دوسرے تجربات کرنے سے پہلے واضح طور پر یہ دیکھ لینا ضروری ہے
کہ ان کا نتیجہ کیا ہو گا۔میں نہیں چاہتا کہ جس انداز میں اس مسئلے کی طرف دیکھ رہا
ہوں اس سے یہ خیال پیدا ہو کہ جن حضرات کی سوچ میری سوچ سے مختلف ہے میں
ان سے جھگڑا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا یہ اجتماع مسلمانوں کا اجتماع ہے۔ میرا خیال ہے کہ
آپ سب اسالم کے مقاصد اور ا س کی روح سے وفادار رہنے کے خواہشمند ہیں اس لیے
میرا واحد مقصد یہی ہے کہ میں آپ کے سامنے صاف صاف اور دیانتداری کے ساتھ
موجودہ صورت حال کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر دوں۔میرے خیال میں صرف
یہی طریقہ ہے کہ میں آپ کے سیاسی عمل کی راہوں کو اپنے عقائد کی روشنی سے
منور کر سکوں گا۔
اسالم ریاست اور فرد دونوں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے‘
دستور حیات ہے اور ایک نظام ہے جس شخص کو آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت
کے اعزاز سے نوازا وہ اب بھی اسالم کو ایک طاقت سمجھتا ہے اور یہی طاقت انسان
کے ذہن کو وطن اور نسل کے تصور کی قید سے نجات دال سکتی ہے۔
یورپ میں مذہب ایک فرد کا ذاتی معاملہ ہے۔ وہاں فرد روح اور مادہ میں تقسیم ہے،
ریاست اور کلیسا جدا ہیں ،خدا اور کائنات میں کوئی تعلق نہیں لیکن اسالم ایک وحدت
ہے جس میں ایسی کوئی تفریق نہیں ہے۔ اسالم چند عقائد کا مجموعہ نہیں بلکہ مکمل
ضابطہ حیات ہے۔ مذہب کو فرد اور ریاست کی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔
ہندوستان کے مسلمان اپنے تہذیب و تمدن ،ثقافت اور اسالم کی وجہ سے یہاں کی دوسری
قوموں سے مختلف ہیں۔ ان کی تعداد برعظیم میں سات کروڑ ہے اور ہندوستان کے
دوسرے باشندوں کی نسبت ان میں زیادہ ہم آہنگی اور یکسانی پائی جاتی ہے۔ حقیقت یہ
ہے کہ مسلمانوں کو ہی جدید ترین معنی میں قوم کہا جا سکتا ہے۔
ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں ،ان میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ وہ گزشتہ ایک ہزار سال میں اپن ی الگ حیثیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ہی ملک میں
رہنے کے باوجود ہم میں یک جہتی کی فضا اس لیے قائم نہیں ہو سکی کہ یہاں ایک
دوسرے کی نیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ
کس طرح فریق مقابل پر غلبہ اور تسلط حاصل کیا جائے۔
ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسالمی ملک ہے۔ تنہا ایک ملک میں سات کروڑ فرزندان
توحید کی جماعت کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسالم
بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس مقصد کے لیے ایک مرکز قائم کرنا ہو گا۔
میں یہ چاہتا ہوں کہ صوبہ پنجاب ،صوبہ شمال مغربی سرحد ،سندھ اور بلوچستان کو
ایک ریاست کی شکل دی جائے یہ ریاست برطانوی ہند کے اندر اپنی حکومت خود
اختیاری حاصل کرے‘ خواہ اس کے باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شمال مغربی
ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسالمی ریاست قائم کرنا ہی پڑے گی۔
عالمہ محمد اقبال نے اپنے خطبے میں واضح کر دیا کہ اگر مسلمانوں کے جائز مطالبات
پورے نہ کیے گئے تو وہ متحد ہو کر کوئی آزادانہ سیاسی قدم نہیں اٹھائیں گے۔ مسلم
مملکت کا میرا یہ مطالبہ ہندو اور مسلمان دونوں کے لیے منفعت بخش ہے۔ ہندوستان کو
اس سے حقیقی امن و سالمتی کی ضمانت مل جائے گی۔
خطبہ الہ آباد کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسالم خورشید نے بالکل بجا لکھا ہے کہ
خطب ے کا گہری نظر سے مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہ ہندوستان کے مسلم اور ہندو
خطوں میں تقسیم کرکے پرامن بقائے باہمی کی صورت پیدا کرکے دونوں میں تعاون کی
راہ بھی کھولنا چاہتے تھے ۔وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ مسلح انڈیا کے قدرتی ثقافتی
روابط اور وسطی ایشیائی اور مغربی ایشیا کے مسلمان خطوں کے ساتھ ہوں گے اور
ہندو انڈیا کے مشرقی ایشیا کے ساتھ اور اس طرح بر اعظم ہندوستان ایشیا کے دو حصوں
کے درمیان ایک پل کا کام دے گا اور یوں ایشیا کے بھی بہت سے مسائل حل ہو جائیں
گے۔ پس وہ صرف شمال مغربی ہند میں دلچسپی نہیں لیتے تھے بلکہ ان کی دلچسپی
پورے ہندوستان پر مرتکز تھی وہ مسلمانوں کے لیے ایک ایسا کردار تجویز کرتے تھے
جو صرف مسلمانوں کے لئے نہیں پورے برعظیم کے لیے مفید ہو اور اس کے ذریعہ
سے پورے ایشیا کے لیے بھی ،اس سلسلے میں خطبہ الہ آباد کا یہ اقتباس ایک خاص
اہمیت کا حامل ہے:
ہندوستان کی تاریخ کا موجودہ بحران تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان قوم کا مکمل طور پر
منظم ہو اور وہ مقصد اور ارادے کے اتحاد سے بہرور ہہو۔ اس سے قوم کے اپنے
مفادات بھی وابستہ ہیں اور مجموعی طور پر ہندوستان کے مفادات بھی
ہندوستان کی سیاسی غالمی پوری ایشیا کے لئے ال انتہا مصیبت کا باعث رہی ہے اور اب
بھی ہے ۔اس غالمی نے مشرق کی روح کو کچل کر رکھ دیا اور اسے مکمل طور پر
اپنے اظہار کی مسرت سے محروم کردیا یہ وہی روح تھی جس نے کسی زمانے میں
مشرق کو ایک عظیم اور شاندار ثقافت کا خالق بنایا ۔
ہندوستان کی طرف سے ہم پر فرض عائد ہوتا ہے کیونکہ ہمیں یہی جینا اور مرنا ہے اور
چونکہ ایک واحد ملک میں سات کروڑ مسلمانوں کی آبادی مسلم ایشیا کے سارے ممالک
کی مجموعی آبادی سے متجاوز ہونے کی وجہ سے اسالم کے لئے ایک بیش قیمت اثاثہ
ہے ۔اس لئے جب ہم ہندوستانی مسئلے پر غور کرتے ہیں تو ہمیں صرف مسلم نقطہ نگاہ
ہی نہیں بلکہ ہندوستانی مسلم نقطہ نگاہ کو بھی سامنے رکھنا ہے ۔ہم ایشیا اور ہندوستان
کے سلسلے میں ایک معینہ مقصد پر ایک منظم قوت ارادی مرتکز کئے بغیر اپنا فرض
پوری وفاداری سے سر انجام نہیں دے سکتے ۔
اقبال کی کتاب "بانگ درا" کے مختلف تخلیقی ادوار پر تفصیل سے سوال نمبر :3
روشنی ڈالیں ۔
جواب :
دوست احباب اور عوام کے پیہم اصرار پر عالمہ اقبال نے اپنا پہال اردو مجموعہ کالم
مرتب کر کے 1924ء میں شائع کیا۔ اس مجموعے میں ان کے اس وقت تک کے اردو
کالم کا انتخاب شامل تھا ۔ بانگ درا کے کالم کو انتخاب کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس
میں اپنا بہت سا ابتدائی کالم انہوں نے سرے سے شامل نہیں کیا ۔ سیالکوٹ اور ال ہور
کے مشاعروں کے لیے لکھی ہوئی سینکڑوں غزلیں انہوں نے بالکل خارج کر دیں ۔
رسائل میں چھپی ہوی نظموں اور غزلوں میں بھی بہت زیادہ تبدیلیاں کیں ۔ بعض نظمیں
بالکل رد کر دیں اور بعض طویل نظموں کا ایک آدھ بند ہی باقی رکھا۔ بہت سی نظموں
اور غزلوں میں سے متعد داشعار خارج کر دیئے ۔ بعض اشعار میں لفظی تبد یلیاں کیں
جن سے بعض اوقات ان کا معنویت بدل گئی ۔ یہ رد و بدل اتنے وسیع پیمانے پر کیا گیا
کہ بہت سے ایسے اشعار بھی با نگ درا میں شامل نہ ہو سکے جو بے حد مشہور ہو
چکے تھے ۔مثال طویل نظم ” فریا د امت‘ کا صرف ایک بند’ دل‘ کے عنوان سے بانگ
درا میں شامل کیا اور وہ بند حذف کر دیا گیا جس میں مشہور شعر شامل تھا ۔ واعظ تنگ
نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر سمجھتا مسلماں ہوں میں غرض عالمہ اقبال نے اس
وسیع پیمانے پر ردو بدل کیا جسے کوئی غیر معمولی صاحب بصیرت ہی روا رکھ سکتا۔
ہے ۔ ورنہ عموما شعرا ء کواپنا ہر شعر پسند ہوتا ہے ۔
با نگ درا کی ترتیب یوں ہے کہ اسے تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے پہال دور 1905ء
تک کے کالم پر محیط ہے ۔ دوسرا دور 1905ء سے 1908ءتک ہے اور تیسرا دور
1908سے کتاب کی اشاعت تک پھیال ہوا ہے ۔
ہر دور میں پہلے نظمیں دی گئی ہیں اور آخر میں غزلیں ۔ بعض نظموں پر سال تخلیق
بھی درج ہے مگر اکثر نظموں کے لیے یہ اہتمام نہیں کیا گیا ۔ پوری کتاب میں زمانی
ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے یعنی پہلے لکھی جانے والی نظم پہلے اور بعد میں لکھی
جانے والی نظم بعد میں ۔ کتاب کے آخر میں ظریفانہ کے عنوان سے کچھ اشعار قطعات
وغیرہ درج کیے ہیں جو اکبر الہ آبادی کی پیروی میں عالمہ اقبال نے لکھے تھے ۔ان
اشعار پر سال تحریر درج نہیں مگر قیاس یہ ہے کہ یہ تمام اشعار 1910ء سے 1914ء
تک لکھے گئے ہیں۔ بانگ درا کے شروع میں سرعبدالقادر نے ایک مبسوط دیباچہ لکھا
ہے ۔ عبدالقادر عالمہ اقبال کے عزیز دوستوں میں شامل تھے ۔ اور خود بھی دنیاۓ ادب
میں اہم مقام رکھتے ہیں ۔ ان کا یہ دیباچہ کسی بھی اردو کے شعری مجموعے پر لکھے
ہوۓ دیباچے سے زیادہ مشہور ہوا اور بعد میں اقبالیات کے اکثر نقادوں نے اس میں سے
اپنی تنقیدی کتابوں میں حوالے نقل کیے ہیں ۔ بانگ درا کے تینوں ادواری شاعری
موضوعات کی رنگارنگی اور اسالیب یہاں کے تنوع کی وجہ سے پوری اردوشاعری
میں منفر وحیثیت رکھتی ہے ۔ اگر چہ تینوں ادوار متعد دخصوصیات کی وجہ سے ایک
دوسرے سے الگ الگ ہیں مگر تینوں میں نقطہ نظر کی ایک یکسانیت بھی موجود ہے
جس کی تفصیل یہ ہے ۔ 114
پہال دور
عالمہ اقبال نے 1905ء تک اردو میں جو کچھ لکھا اس کا انتخاب اس دور میں شامل
کیا گیا ہے ۔ اقبال نے اردو زبان کے تقریبا سبھی شعراء کی طرح شاعری کا آغاز غزل
گو کے طور پر کیا ۔ شروع میں وہ سیالکوٹ اور ال ہور کے مشاعروں میں غزلیں
پڑھتے تھے۔ یہ دور پورے ملک میں داغ دہلوی امیر مینائی اور ان کے شاگردوں کی
مقبولیت کا تھا ۔ جونو جوان شاعر غزل گوئی شروع کرتا تھا اسی رنگ میں رنگا جا تا
تھا ۔اس قسم کی شاعری میں عشق مجازی کے مضامین کی کثرت ہوتی تھی ۔ شاعری کا
وہ انداز جسے معاملہ بندی کہا جا تا ہے اور جو اس سے پہلے اردو میں جرات اور
مومن وغیرہ کی وجہ سے مقبول ہو چکا تھا داغ اور ان کے شاگردوں میں بھی پایا جا تا
ہے ۔ داغ کی مقبولیت دیکھ کر امیر مینائی اور ان کے شاگردوں نے بھی یہی رنگ
اختیار کر لیا ۔عشقیہ مضامین کے عالوہ اس رنگ میں لکھنے والے شعراء زبان اور
محاورے کی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے ۔ الہور میں بھی ان دنوں داغ اور امیر کے
تالمذہ ( شاگرد ) موجود تھے ۔ان میں سے ارشد گورگانی اور ناظم لکھنوی کے نام زیادہ
معروف ہوۓ ۔ارشد داغ کے اور امیر کے شاگردوں میں شامل تھے ۔ عالمہ اقبال نے خط
و کتابت کے ذریعے سے سیالکوٹ ہی میں داغ کی شاگردی اختیار کر لی اور غزلیں
اصالح کے لیے بھیجنے لگے تھے ۔لیکن انہوں نے جلد کہہ دیا کہ کالم میں اصالح کی
گنجائش بہت کم ہے ۔
اقبال کی غزل گوئی کے آغاز اورابتدائی چند برسوں کی تو یہ کیفیت تھی جواو پر بیان
ہوئی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال نے نظم گوئی کیوں اور کب شروع کی ؟ اس
کے لیے کوئی قطعی شہادت تو موجودنہیں لیکن قیاس یہ کہتا ہے کہ اقبال کی نظم نگاری
کا آ غاز ال ہور میں ہوا ہوگا ۔ الہور میں 1874ء کا سال اردو نظم گوئی کی تاریخ میں
بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ اس سال موال نا محمد حسین آزاد نے ایک نئے مشاعرے کی داغ
بیل ڈالی ۔ یہ مشاعرہ روایتی مشاعروں سے مختلف تھا ۔ ہمارے روایتی مشاعروں میں یا
تو طرح مصرع و یا جا تا تھا ۔ اس پر تمام شعرا ءغزلیں کہ کر التے تھے اور بعض غیر
طرحی مشاعروں میں پہلے سے کہی ہوئی غزلیں پڑھی جاتی تھیں مگر محمد حسین آزاد
نے یہ انداز اپنایا کہ تمام شعراء کونظم لکھنے کے لیے ایک عنوان دے دیا تھا اس عنوان
پر تمام شعرا نظمیں لکھ کر التے تھے ۔ نظم کے لیے کسی ہیت یا بحر کی پابندی نہیں
تھی ۔ ان میں سے چند مشاعروں میں موال نا حالی بھی شریک ہوۓ جوان دنوں ایک
مالزمت کے سلسلہ میں ال ہور میں مقیم تھے ۔ یہ مشاعرے ایک سال سے زیادہ جاری نہ
رہ سکے مگر انہوں نے نظم نگاری کی ایک تحریک بیدار کر دی اور ان سے متاثر ہو
کر بعض شعراء کا میالن نظم نگاری کی طرف ہو گیا ۔ یہی زمانہ ہے جب سید احمد خان
کی ہمہ جہتی تحریک بڑے زور سے چل رہی تھی ۔ سرسید تحریک کے جملہ مقاصد میں
ادب کی اصالح کا مقصد بھی شامل تھا اور وہ بھی اس کے حامی تھے کہ شعراء کو
غزل گوئی چھوڑ کر نظم گوئی شروع کرنی چاہیے ۔ اس کی طرف انہوں نے اپنے
رسالے تہذب االخالق کے ذریعے سے بھی توجہ دالئی ۔ سرسید تحریک کا پنجاب میں
بڑا گہرا اثر ہوا ۔اس لیے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ اس تحریک کے اراکین کی نظمیں
الہور کے شعراء تک بھی پہنچتی ہوں گی ۔
یہ عالمہ اقبال کے قیام یورپ کا زمانہ ہے اور اس دور میں تعلیمی مصروفیات کی وجہ
سے ان کی توجہ شاعری کی طرف کم رہی ہے ۔ تا ہم بانگ درا کے دور دوم میں جو
نظمیں موجود ہیں ان سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اقبال نے اپنی زندگی میں جو چند رومانی
نظمیں لکھی ہیں ان کا تعلق اسی دور سے ہے ۔ اس عہد میں اقبال کو اس بات کا قوی
احساس پیدا ہو گیا تھا کہ میری مخاطب اصل میں ملت اسالمیہ ہے نہ کہ ہندوستان کی
تمام قو میں ۔ اس دور میں بہت سی ایسی نظمیں نظر آتی ہیں جن میں خاص طور پر
خطاب مسلمانوں سے کیا گیا ہے مثال طلباۓ علی گڑھ کے نام عبد القادر کے نام صقلیہ
وغیرہ یعلم صقلیہ (سلی ) مسلمانوں کے زوال کا ایک مرثیہ ہے ۔ انگلستان سے واپس
آتے ہوۓ جب ان کا جہاز سلی کے جزیرے سے گزرا تو انہیں مسلمانوں کے عروج کا
زمانہ یاد آ گیا۔ تو کبھی اس قوم کی تہذیب کا گہوارہ تھا حسن عالم سوز جس کا آتش
نظارہ تھا
سرعبد القادر نے بانگ درا کے دیباچے میں لکھا ہے کہ قیام یورپ کے دوان میں انہوں
نے ایک مرتبہ شعر گوئی ترک کرنے کا ارادہ کر لیا تھا اور سوچا کہ جو وقت شاعری
میں صرف ہوتا ہے اسے کسی اور مفید کام میں صرف کریں گے لیکن عبد القادر اور
اپنے استاد آرنلڈ کے سمجھانے پر فیصلہ بدل لیا کیونکہ دونوں حضرات نے یہ کہا کہ ”
جو
وقت وہ اس شغل کی نذر کر تے ہیں وہ ان کے لیے بھی مفید ہے اور ان کے ملک وقوم
کے لیے بھی مفید ہے ۔ غالبا اس وقت سے اقبال نے شاعری کو پورے طور پر ملت
اسالمیہ کے لیے وقف کر نے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ جو نظم ” عبدالقادر کے نام لکھی
گئی ہے اس میں اسی معم ارادے کا اظہار کیا گیا ہے ۔ نظم کا پہال شعر یہ ہے
یہی وہ خیاالت ہیں جنہیں عالمہ اقبال نے یورپ سے واپس آ کر بار بار اور بڑے یقین
سے اپنے کالم میں تمام عمر پیش کیا ہے ۔ اس دور کی بعض نظموں میں وہ فلسفیانہ
رجحانات بھی نظر آتے ہیں جو بعد میں اقبال کے مستقل موضوعات بن گئے ۔ محبت چاند
اور تارے کوشش نا تمام پیام عشق انسان وغیرہ اسی قسم کی نظمیں ہیں ۔
تیسرادور
با نگ درا کا طویل ترین دور یہی ہے ۔ یہ 1908سے 1924ء تک پھیال ہوا ہے اور
نظمیں بھی تعداد میں بہت زیادہ ہیں ۔ان میں کچھ نظمیں وہ ہیں جو اقبال کے تین فارسی
مجموعوں یعنی اسرار خودی رموز بے خودی اور پیام مشرق کی اشاعت سے پہلے کی
ہیں اور باقی نظمیں فارسی شاعری کے متوازی کہی گئی ہیں ۔ چونکہ فارسی نظموں میں
عالمہ اقبال کا تمام نظام فکر مکمل ہو کر سامنے آ چکا تھا اس لیے اس کے ساتھ
اردوشاعری میں بھی انہی خیاالت کو پیش کیا گیا ہے ۔ اردو شاعری میں اقبال کے
نظریات کی وہ تفصیل اور وضاحت تو موجود نہیں ہے جو فارسی کالم میں ہے تا ہم اردو
شاعری میں بھی انہی خیاالت کے مختلف پہلوؤں پر نظمیں لکھی گئی ہیں جو فارسی میں
مر بوط طریقے سے پیش کیے گئے ہیں ۔ مثال نظر بی خودی کی بعض تفصیالت پر
روشنی ڈالی گئی ہے ۔ عالمہ نے مثنوی اسرار خودی میں خودی کے ارتقاء کے لیے
عشق یا مقصد سے بے پناہ لگاؤ کو انتہائی اہم قرار دیا ہے ۔ سوال کرنے یا غیروں سے
بھیک مانگنے کو خودی کے لیے زہر قاتل بتا یا ہے ۔ رموز بیخودی میں افرادکو تلقین
کی ہے کہ زوال اور ادبار کے زمانے میں ملت سے وابستہ رہیں اور ملت کی بہبود کے
لیے اپنی تمام صالحیتوں کو وقف کر دیں ۔ ملت کے لیے مرکز سے وابستگی آئین ( قرآن
پاک ) کی پابندی ذاتیات سے باال تری وغیرہ کو نا گز بر قرار دیا ہے ۔ یہی خیاالت اس
دور کی مختلف نظموں میں بڑے متنوع اسالیب میں پیش کیے گئے ہیں ۔
اسرار خودی اور رموز بیخودی کے ذیلی موضوعات کے عالوہ بعض ایسے موضوعات
پر عالمہ نے تفصیل سے اظہار راۓ کیا ہے جن کی زیادہ تفصیل ان فارسی مثنویوں میں
بھی موجود نہیں ۔ ایسے موضوعات میں سب سے بڑا موضوع وطنیت ہے ۔ پہلے بتا یا
جا چکا ہے کہ کسی زمانے میں عالمہ اقبال ملک کی آزادی کی خاطر ہند ومسلم اتحاد
کے حامی تھے مگر رفتہ رفتہ انہیں اندازہ ہوا کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کا نباہ زیادہ
عرصے تک نہیں ہوسکتا ۔ اس کی بنیاداس نکتے پرتھی کہ مغرب نے ہمیں وطنیت کا
ایک خاص تصور دیا ہے جومختصر الفاظ میں یہ ہے کہ کسی خاص عالقے میں رہنے
والے تمام افرادخواہ ان کا تعلق کسی مذ ہب یا نسل وغیرہ سے ہو اس ملک کے شہری
ہونے کے سبب ایک قوم کے فرد ہو تے ہیں ۔ تاریخ اسالم کے سب سے پہلے دور ہی
میں رسول اکرمﷺ نے جب اسالم کا پیغام اہل مکہ کو پہنچایا تو کچھ لوگ ایمان الۓ اور
کچھ لوگوں نے مخالفت پر کمر باندھ لی ۔مسلمان اور کفار ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے
تھے ایک ہی زبان بولتے تھے اور ایک ہی عالقے میں رہتے تھے مگر اس کے باوجو د
کفر اور اسالم اکٹھے نہ ہو سکے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملت ایک عالقے زبان یا
نسل سے نہیں بنتی ۔اس سے آگے بڑھیے تو حضرت سلمان فارسی اور حضرت بالل
حبشی مختلف نسلوں عالقوں اور زبانوں سے تعلق رکھتے تھے مگر اسالم کی عالمگیر
برادری کے اتنے ہی معزز رکن تھے جتنے دوسرے صحابہ کرام تھے ۔ ان باتوں سے
اقبال اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اسالم نے عالقائی وطنیت کا تصور ہمیں نہیں دیا بلکہ
عقیدے کی بنیاد پر ملت کا تصور دیا ہے ۔ گویا دنیا بھر میں مسلمان جہاں کہیں بھی
موجود ہیں وہ ایک عالمگیر برادری کے ارکان ہیں ۔ انہوں نے اس تصور کو کئی نظموں
میں بیان کیا ہے ۔ بال داسالمیہ وطنیت (یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے ترانہ
ملی اور مذہب کے زیر عنوان لکھی ہوئی نظمیں اس نظریے کو بڑی وضاحت سے پیش
کرتی ہیں ۔ اس تصور کی بدولت اقبال ہندی میں ہم وطن ہے ہندوستان ہما را سے چل کر
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا' تک پہنچے ۔
بانگ درا کے تیسرے دور میں ملت اسالمیہ کے زوال کا عبرت ناک نقشہ بھی متعد د
نظموں میں پیش کیا گیا ہے ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب تقریبا تمام مسلمان مما لک سامراجی
طاقتوں کے محکوم ہو چکے تھے ۔ آپس کے اختالفات بے عملی ترک اسالم مغرب کے
بعض باطل نظریات کو قبول کرنے کے سبب ان کی ملی وحدت پارہ پارہ ہو چکی تھی ۔
غر و شوال یا ہالل عید شمع اور شاعر ،شکوہ اور جواب شکوہ خطاب بہ نو جوانان اسالم
اور اس قبیل کی دوسری نظموں میں .اس زوال کے اسباب بڑی تفصیل سے گنواۓ گئے
ہیں ۔ ان حاالت کے باوجود مجموعی طور پر عالمہ اقبال کی نظموں میں قنوطیت کی
بجاۓ رجائیت ملتی ہے وہ اس وقت کے حاالت سے نا مطمئن تھے لیکن مایوس نہیں
تھے ۔ انہیں یقین تھا کہ ملت اسالمیہ دنیا میں خدا کا آخری پیغام ہے ۔اس لیے یہ مٹنے
کے لیے نہیں ہے ۔ انہیں یقین کامل تھا کہ یہ ملت جلد دوبارہ بیدار ہوگی اور دنیا کو پر
تعلیم و تہذیب سکھاۓ گی ۔
اقبال فرکی کی طرف مائل کیوں ہوئے ؟ اقبال کی فارسی گوئی پر سوال نمبر :4
نوٹ لکھیں ۔
جواب :
یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ اردو کہ اہم ترین شاعر ،غالب اور اقبال ،دونوں ہی اپنے اردو
کالم سے مطمئن نہیں تھے۔ غالب نے اگر اپنے اردو کالم کو بے رنگ کہا تھا تو اقبال
بانگ درا ،کہ جو آج بھی انکی مقبول ترین کتاب ہے ،کو نا پختہ
ِ اردو کالم اور خصوصا ً
کہتے تھے اور فارسی کالم کو پختہ کالم۔ فارسی میں بھی جاوید نامہ پر عالمہ کو بہت
فخر تھا اور اسے "حاص ِل حیات" سمجھتے تھے۔
شکوہ اور جواب شکوہ
اپنے ایک دوست ڈاکٹر غالم محی الدین صوفی کو 30مارچ 1933کے ایک خط میں
صوفی صاحب کے ایک دوست کے شکوہ اور جواب شکوہ کا منظوم انگریزی ترجمہ پر
"بانگ درا کی بیشتر نظمیں میری طالب
ِ اظہار خیال کرتے ہوئے عالمہ فرماتے ہیں۔
ِ
علمی کے زمانے کی ہیں ،زیادہ پختہ کالم افسوس کہ فارسی میں ہوا"۔ اسطرح 25جون
ب شکوہ مصور کر رہے تھے ،اپنی
1935کو ضرار احمد کاظمی کو ،جو شکوہ اور جوا ِ
رائے دیتے ہیں۔ "میری رائے میں میری کتابوں میں سے صرف جاوید نامہ ایک ایسی
کتاب ہے جس پر مصور طبع آزمائی کرے تو دنیا میں نام پیدا کرسکتا ہے"۔
رموز بے خودی
ِ اسرار خودی،
ِ عالمہ کے فارسی کالم میں
زبور عجم،
ِ پیام مشرق،
رموز بے خودیِ ،
ِ اسرار خودی،
ِ عالمہ کے فارسی کالم میں
ارمغان حجاز میں کچھ حصہ
ِ ارمغان حجاز شامل ہیں۔
ِ جاوید نامہ ،پس چہ باید کرد ،اور
اردو کا بھی شامل ہے۔
یہاں پر میں ایک جسارت کر رہا ہوں کہ عالمہ کے کالم میں سے انتخاب مع اردو ترجمہ
پیش کر رہا ہوں۔ دیگر احباب سے بھی استدعا ہے کہ عالمہ کے فارسی کالم میں سے
اپنی پسند کے کالم سے ہمیں نوازیں۔
پیام مشرق کی ایک غزل سے۔
ابتدا ِ
کشمکش عقل دیدنی دارد
ِ ب
فری ِ
ق رہزنی دارد
میر قافلہ و ذو ِ
کہ ِ
عقل کی کشمکش کا فریب دیکھنے کی چیز ہے کہ یہ قافلہ کی امیر ہے لیکن رہزنی کا
دعوی کرتی ہے اور غلط راستہ پر ڈالتی ہے۔
ذوق رکھتی ہے ،یعنی راہنمائی کا ٰ
نشان راہ ز عق ِل ہزار حیلہ مپرس
ِ
بیا کہ عشق کمالے ز یک فنی دارد
راستے کا نشان ہزار حیلے بنان ے والی عقل سے مت پوچھ۔ آ اور عشق سے پوچھ کہ یہ
ایک فن کا کمال رکھتا ہے ،یعنی منزل کا نشان اور راستہ عشق ہی بتا سکتا ہے۔
فرنگ گرچہ سخن با ستارہ میگوید
رنگ جوزنی دارد
ِ حذر کہ شیوہء او
فرنگ اگرچہ ستاروں سے گفتگو رکھتا ہے لیکن اس سے بچو کہ اسکا طریقہ جاودگری
کا رنگ رکھتا ہے۔
رباط کہن
ِ ز مرگ و زیست چہ پرسی دریں
کاہش جاں ،مرگ جانکنی دارد
ِ کہ زیست
موت اور حیات کے بارے میں کیا پوچھتے ہو کہ اس پرانی سرائے یعنی دنیا میں زندگی،
جان کے آہستہ آہستہ گھلنے کا اور موت جسم سے جان کو نکالنے کا نام ہے۔
مزار شہیداں یکے عناں درکش
ِ سر
ِ
حرف گفتنی دارد
ِ کہ بے زبانیء ما
ہم شہیدوں کے مزار کے پاس ذرا باگ روک کہ ہماری بے زبانی بھی گفتگو کا حرف
رکھتی ہے۔
بزم عجم
ت عرب خیمہ زن کہ ِ
دگر بدش ِ
مے گذشتہ و جام شکستنی دارد
ایک دفعہ پھر عرب کے صحرا میں خیمہ لگا کہ عجم کی بزم وہ شراب ہے جو فرسودہ
ہوچکی اور اسکے جام توڑنے کے قابل ہیں۔
شیخ شہر ،نہ شاعر ،نہ خرقہ پوش اقبال
ِ نہ
فقیر راہ نشین است و دل غنی دارد
بہت کم احباب سے ذکر کرتے۔ یوں بھی مشاعروں کی زبان اردو تھی۔ مشاعروں میں
اردو کالم ہی سناتے۔ یہ خیال ہی نہیں تھا کہ فارسی زبان کا شاعر بنیں۔ لیکن 1905ء
سے پہلے وہ فارسی میں نہایت اچھی غزلیں کہہ چکے تھے۔ مثالً منشی صاحب سراج
الدین کی بھیجی ہوئی انگشتریوں کے شکریے میں فارسی کا ایک طویل قطعہ اور وہ نظم
اقبال نے 1903ء
ؒ جس کا عنوان ہے ’’اسالمی ہ کالج کا خطاب پنجاب سے‘‘ جسے محمد
میں انجمن حمایت اسالم کے ساالنہ جلسے میں پڑھا اور جو اس امر کی دلیل ہے کہ
1903ء تک انھوں نے فارسی زبان میں شعر گوئی پر اتنی قدرت حاصل کر لی تھی کہ
بال تکلف اتنی بڑی نظم کہہ ڈالی۔ لیکن یہاں تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس غلط فہمی کی
اقبال کی فارسی شاعری سے ہے ،کس پر رکھی جائے۔ کیا
ؒ ذمہ داری جس کا تعلق محمد
شیخ عبدالقادر پر؟ ہرگز نہیں۔
اقبال
ؒ بانگ درا کے دیباچے میں وہ لکھ چکے تھے کہ فارسی میں شعر کہنے کی رغبت
کی طبیعت میں کئی اسباب سے پیدا ہوئی ہو گی .جس چھوٹے سے واقعے سے ان کی
فارسی گوئی کی ابتدا ہوئی وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ ایک دوست کے ہاں مدعو تھے
جہاں ان سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی اور پوچھا گیا وہ فارسی اشعار بھی
کہتے ہیں یا نہیں۔ انھیں اعتراف کرنا پڑا کہ سوائے ایک آدھ شعر کہنے کے فارسی
لکھنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر کچھ ایسا وقت تھا اور اس فرمائش نے ایسی تحریک ان
کے دل میں پیدا کی کہ دعوت سے واپس آ کر بستر پر لیٹے ہوئے باقی وقت وہ شاید
فارسی اشعار کہتے رہے اور صبح اٹھتے ہی مجھ سے ملے تو دو تازہ غزلیں فارسی میں
تیار تھیں۔
اظہار عقیدت
ِ
المرتضی کرم ہللا
ٰ اظہار عقیدت کا تعلق جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہوتا ہے حضرت علی
ِ
وجہہ سے ہے۔ پیام مشرق میں اس نظم کا صرف دوسرا بند شامل کیا گیا۔ مخزن کا یہ
اقبال 1905ء تک فارسی میں بہت کچھ کہہ چکے
ؒ شذرہ اس امر کا ثبوت ہے کہ محمد
اقبال نے آگے چل کر کہا
ؒ تھے۔ دراصل شیخ صاحب وہی کچھ کہنا چاہتے تھے جو محمد
کہ فارسی زبان کو انھوں نے اپنی شاعری کے لیے اختیار کیا تو اس لیے کہ ان کی
شاعری عالم اسالم کے لیے ایک پیغام کا کام دے اور یہ پیغام فارسی زبان ہی میں دیا جا
اقبال کی فارسی شاعری کا آغاز ایک
ؒ سکتا تھا۔ شیخ صاحب نادانستہ یہ کہہ گئے کہ محمد
حتی کہ
اقبال بہت پہلے ٰ
ؒ اتفاقی امر تھا۔ شیخ صاحب کے لیے تو اتفاقی لیکن محمد
سیالکوٹ ہی سے فارسی میں شعر کہہ رہے تھے۔ گویا فارسی آپ ہی آپ ان کی زبان بن
رہی تھی۔
اقبال کے انگریزی خطبات " تشکیل جدید الہیات اسالمیہ " کی اہمیت سوال نمبر :5
پر تفصیل سے روشنی ڈالیں ۔
جواب :
اقبال کے انگریزی خطبات " تشکیل جدید الہیات اسالمیہ " کی اہمیت
پہلے خطبے ’’علم اور مذہبی مشاہدات‘‘ میں کائنات کی حقیقت ،اور کائنات کی تغیرپذیری
میں انسان کا منصب ،کائنات اور خدا ،کائنات اور انسان ،انسان اور خدا کے باہمی رشتوں
اقبال کائنات کے بارے میں فلسفہ اور مذہب کے رویہ کا جائزہ لیتے
ؔ کا ذکر کرتے ہوئے
ہیں۔ فلسفہ اور مذہب کے مشترک اور غیرمشترک امور سے بحث کرتے ہیں۔ پھر ظاہر
عالم اَقدار و اَرواح کے
عالم محسوسات اور ِ
اور باطن یعنی مرئی اور غیرمرئی حقائق یا ِ
طرزعمل بیان کرکے بتاتے ہیں کہ قرآن مطالعۂ انفس و آفاق
ِ بارے میں مختلف مذاہب کا
پر کیوں زور دیتا ہے۔ پھر حقیقت تک رسائی کے ذرائع کی حیثیت سے عقل و وجدان پر
بحث کرتے ہیں۔ اِن َمباحث کے ذیل میں وہ بتاتے ہیں کہ ایمان محض جذبے یا تأثر ہی کا
نام نہیں بلکہ اِس میں عقل کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مذہبی اصولوں کا
انحصار معقولیت پسندی پر ہے۔ لیکن دین و ایمان کو عقل کی روشنی میں دیکھنے کا
ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اُن پر فلسفے اور عقل کے تفوق کو تسلیم کرلیا جائے۔ فکر
اور وجدان ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک ہی سرچشمے سے فیض یاب ہیں۔
برگساں ) (Bergsonکا یہ کہنا درست ہے کہ وجدان عقل ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ وہ
بتاتے ہیں کہ سقراط اور افالطون محسوسات کے علم کو غیرحقیقی خیال کرتے ہیں ،اِس
اعیان نامشہود ) (Invisible ideasپرستار ہیں ،جب کہ اسالم باطن کے ساتھ ساتھ
ِ لیے
ظاہر کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ اشاعرہ (Asharite Thinkers) ۱کا نصب العین اسالم
کے معتقدات اور اصولوں کی یونانی جدلیات ) (Dialecticsکی مدد سے حمایت کرنا
تھا۔ کانٹ ) (Kantنے انسانی عقل کی حدود واضح کیں ،جب کہ غزالی عقلیت کی بھول
بھلیوں سے نکل کر صوفیانہ واردات تک پہنچتے ہیں ،جن سے عقل و فکر کی محدودیت
اُن پر واضح ہوئی۔ البتہ وہ اِس حقیقت کو نہ پاسکے کہ عقل و وجدان آپس میں مربوط
ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسالم کے اساسی تصورات کو فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے
کی کوشش کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر انسان ترقی پذیر زندگی کی حرکت کو محسوس
انجام کار انسان بے جان
ِ نہ کرے تو اُس کی روح پتھر کی مانند سخت ہوجاتی ہے ،اور
ت مطلَقہ کے کلّی اِدراک کے لیے ہمیں حسّی
مادے کی سطح پر آجاتا ہے۔ اِس لیے حقیق ِ
علم باطن بھی سیکھنا چاہیے۔ اگرچہ ہمارے پاس کوئی ایسا مؤثر سائنسی
علم کے عالوہ ِ
عناصرترکیبی کا تجزیہ
ِ ق کار نہیں ہے جس کی وساطت سے ہم صوفیانہ شعور کے
طری ِ
کرسکیں۔ جب کہ صوفیانہ مشاہدہ ہی حقیقت کے کلّی علم کے حصول کا باعث بنتا ہے۔
دوسرے خطبے کا عنوان ’’مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘‘ ہے۔ اِس میں اُنھوں نے ہستی
کے تین مدارج یعنی مادہ ،حیات اور شعور پر مفصل بحث کی ہے۔ مادیت کی بحث میں
اُنھوں نے نیوٹن) ، (Newtonزینو) ، (Zenoاشاعرہِ ،
ابن حزم ،برٹرینڈ رسل
) ،(Bertrand Russellبرگساں) ، (Bergsonآئن سٹائن) ، (Einsteinاور اوس
ت زمان و مکان کا ذکر کیا ہے ،اور پھر قرآنی
پنسکی ) (Ouspenskyکے تصورا ِ
تصورزمان و مکان کا موازنہ ارسطو ،آئن سٹائن اور میک ٹیگرٹ ) (McTaggartکے
ِ
نظریات سے کیا ہے۔ خدا کے وجود کے بارے میں کائناتی استدالل ،غائتی استدالل اور
ہستی مطلق کے یہ تینوں ثبوت الئق تنقید
ِ وجودی استدالل کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ
قرآن حکیم ظاہر و باطن کی خلیج کو پاٹ کر اور وجود کی ثَنَویت
ِ ہیں۔ صرف
)(Dualismکو ختم کرکے اُس حقیق ِ
ت کاملہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بیک وقت
ظاہر بھی ہے باطن بھیّ ،اول بھی ہے آخر بھی۔
مادے کے قدیم نظریے یعنی زمان و مکان میں اُس کے مستقل بالذات ہونے کو آئن سٹائن
اقبال وہائٹ ہیڈ ) (Whiteheadکے اِس نظریے سے اتفاق کرتے ہیں
ؔ نے باطل ٹھہرادیا۔
کہ فطرت کوئی جامد حقیقت نہیں بلکہ واقعات و حوادث کا ایسا مجموعہ ہے جو مسلسل
تخلیقی رو کا مالک ہے۔ جب کہ نیوٹن کا نقطۂ نظر خالص مادی تھا۔ وہ مکان کو ایک
آزاد خال قرار دیتا ہے جس میں چیزیں معلق ہیں۔ زینو مکان کو التعداد ناقاب ِل تقسیم نقاط
ت مکانی کو ناممکن قرار دیتے ہوئے تیر کی مثال دیتا ہے
پر مشتمل سمجھتا تھا۔ وہ حرک ِ
کہ تیر حرکت کے دوران میں بھی جگہ کے کسی نہ کسی نقطے پر ٹھہرا ہوا ہوتا ہے۔
ابن حزم ،برٹرینڈرسل اور کینٹر ) (Cantorوغیرہ نے زینو کے دالئل کو رد
برگساںِ ،
اقبال اُن کی کوششوں کو کامیاب تصور نہیں کرتے بلکہ
ؔ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن
آئن سٹائن کے نظریۂ زمان کی وضاحت کرتے ہوئے اُس کے مکان کو حقیقی تصور
کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن وہ اُسے دیکھنے والے کے مطابق اضافی خیال کرتا تھا۔
اِن پیچیدہ بحثوں کے بعد وہ شعور کی تعریف کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ شعور کا کام
ایک ایسا نقطۂ نوری مہیّ ا کرنا ہے جو زندگی کی آگے بڑھنے والی حرکت کو منور
کرسکے۔ شعور زندگی کے روحانی تنوع کا نام ہے۔ یہ مادہ نہیں بلکہ ایک تنظیمی اصول
ت مطلَقہ کے جزئی اِدراک میں
ق عمل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سائنس حقیق ِ
اور طری ِ
سرکھپاتی ہے جب کہ مذہب کلّی حقیقت کا مطالبہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ زمان و
مکان کی اِن نہایت مشکل بحثوں میں وہ بتاتے ہیں کہ شعوری زندگی حیات فی الزمان
ہے۔ اور مکانی زمان میں بسر ہونے والی زندگی غیر حقیقی زندگی ہے۔ وہ اِن بحثوں
تصورزمان و مکان کی
ِ میں کُ َّل َی ْو ٍم ھ َُو ِفی شأن اور اَنَا الدَّھر کے حوالوں سے اسالمی
سنَّتُ ٰ
ّللا قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اِس کی وضاحت کرتے ہیں ،اور فطرت کو ُ
ق عمل کا
نشوونما کی کوئی حد نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ فطرت کا علم دراصل خدا کے طری ِ
علم ہے۔ وہ مسئلۂ زمان و مکان پر مفصل بحث کرتے ہوئے آخر میں کہتے ہیں کہ وقت
رازسربستہ کو حل کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ خطبے کے اختتام پر وہ فلسفے کو
کے ِ
ب ٰالہی کی ضرورت بیان کرتے ہیں ،جسے مذہب
پستی سے نکالنے کے لیے ذکر اور قر ِ
کی اصطالح میں دعا کہا جاتا ہے۔ وہ فکر و ذکر کے امتزاج پر زور دیتے ہیں۔
پھر وہ خیر و شر کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ ہستی جس کی حرکات و سکنات
مکمل طور پر مشین کی طرح ہوں ،نیکی کے کام نہیں کرسکتی۔ نیکی کے لیے آزادی
آزادی عمل کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ اِس کے
ِ شرط ہے۔ خدا نے انسانی خودی کو
بعد وہ دعا کی وضاحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خارجی دنیا سے بے زار ہوکر باطن
ہستی مطلق کا قرب حاصل کرنا دعا ہے۔ دعا کی بدولت ہماری
ِ میں پناہ لیتے ہوئے
تالش حقیقت میں فلسفہ
ِ بحربے کراں بن جاتا ہے۔
شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ ایک دم ِ
بہت سست رفتار ہے جب کہ دعا برق خرام ہے۔
چوتھے خطبے ’’خودی ،جبروقدر ،حیات بعد الموت‘‘ میں حضرت عالمہ خودی کی بحث
کرتے ہیں اور انسان کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن کے مطالعے سے
تین باتیں بالکل واضح دکھائی دیتی ہیں۔ پہلی یہ کہ انسان خدائی برگُزیدہ مخلوق ہے۔
دوسری یہ کہ انسان اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود زمین پر خدا کا نائب ہے۔ تیسری اور
اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان آزاد شخصیت کا امین ہے جسے اُس نے خطرہ مول لے کر
قبول کیا تھا۔ اِس خطبے میں وہ ماضی سے رشتہ منقطع ِکیے بغیر اسالمی تعلیمات کو
جدید علوم کی روشنی میں بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں ،اور پھر خودی کی
وضاحت کی طرف آجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خودی وابَستۂ مکان نہیں ہے۔ مثالً یہ کہنا
ممکن نہیں ہے کہ تاج محل کے حسن و جمال کے بارے میں میرا جذبۂ تحسین آگرہ سے
َمسافت کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ اِسی طرح زمان بھی خارجی دنیا میں ماضی ،حال اور
مستقبل کی صورت اختیار کرنے کے باوجود اندرونی دنیا میں ناقاب ِل تقسیم ہوتا ہے۔ وہ
بتاتے ہیں کہ خلوت پسندی خودی کی یکتائی کا اظہار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شعوری تجربہ
خودی کے روحانی جوہر کا صحیح سراغ نہیں دے سکتا لیکن اِس کے باوجود شعوری
تجربے کی تعبیر ہی وہ شاہراہ ہے جس پر چل کر ہم خودی کی منزل تک پہنچ سکتے
ہیں۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ نماز یا دعا دراصل خودی کا میکانیت یا جبر سے آزادی کی
تکرارعمل مشین کا خاصہ ہے نہ کہ انسان کا۔ اگر ہر
ِ طرف گریز ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ
واقعہ نیا نہیں تو ہمارے ل یے زندگی میں کوئی جاذبیّت باقی نہیں رہتی۔ بقائے ذات ہمارا
پیدایشی حق نہیں بلکہ ہمیں اپنی ذاتی کوششوں سے اِسے حاصل کرنا پڑے گا۔ انسان
صرف اِس کے لیے امیدوار ہے۔
پانچویں خطبے ’’اسالمی ثقافت کی روح‘‘ میں حضرت عالمہ اسالمی کلچر کی روح کا
ذکر کرتے ہیں ،اور نبوت اور والیت کا فرق واضح کرتے ہیں۔ ولی کا منتہائے مقصود
ت عامہ کے لیے نزول
ت ربّانی سے وصال ہے لیکن نبی اِس صعود کے بعد ہدای ِ
صرف ذا ِ
پیغمبراسالم دنیائے قدیم اور دنیائے جدید کے درمیان کھڑے
ِ کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
عالم قدیم سے متعلق ہیں،
ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے اِلہام کے سرچشمے کی بدولت ِ
عصرحاضر سے مربوط ہیں۔ اُن کی بدولت زندگی
ِ لیکن اپنی اِلہامی سپرٹ کی وجہ سے
نے اپنی نئی سمتوں کے مناسب علوم اور نئے سرچشمے دریافت ِکیے۔ دراصل اسالم کا
ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ وہ فقہ کو اسالم کا اصو ِل حرکت قرار دیتے ہیں جو
اُسے سب زمانوں کے لیے کافی بنادیتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ قرآن کی رو سے حصو ِل علم
کے تین ذرائع ہیں :باطنی مشاہدہ ،مطالعۂ فطرت اور تاریخ۔ وہ بتاتے ہیں کہ جس ثقافت کا
نقطۂ نظر یہ ہو ،زمان و مکان اُس کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ
ابن خلدون نے سب سے پہلے اسالم کی ثقافتی تحریک کی روح کو شدت
کہتے ہیں کہ ِ
کے ساتھ محسوس کرکے اُسے منظم طور پر بیان کیا ہے۔
’’االجتہاد فی االسالم‘‘
خطبۂ ششم ’’االجتہاد فی االسالم‘‘ میں حضرت عالمہ اسالم کے اصو ِل حرکت یعنی فقہ کا
ت عالم سزاوار ہے۔
ت اسالمیہ ہی کو قیاد ِ
تفصیلی ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ مل ِ
تصورتوحید کی وجہ سے تمام زمانوں کو محیط اور
ِ اسالم اپنے حرکی نظریۂ حیات اور
ت
نوع انسان کی وحدت کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے ،اِس لیے اسالم ہی کسی قوم کو قیاد ِ
بنی ِ
اقوام کا اہل بناتا ہے۔ وہ فقہی جمود کا جائزہ لیتے ہیں اور اِس کے اسباب میں عقل پرستی
کی تحریکوں ،راہبانہ تصوف اور سیاسی انتشار کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دین
ش ُءون ہیں۔ وہ عقیدۂ
اور سیاست دو مختلف حقیقتیں نہیں بلکہ اسالم کی واحد حقیقت کے ُ
ت
نوع انسانی کی وحدت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں ،جو مصنوعی امتیازا ِ
ِ توحید کو بنی
ت واحدہ بناسکتا ہے۔ پھر وہ قرآن،
رنگ و نسل وغیرہ کو مٹاکر ساری انسانیت کو مل ِ
حدیث ،اجماع اور قیاس --یعنی اَدِلّہ شرعیہ پر بحث کرتے ہیں ،جن کی وجہ سے اسالم کا
منبع ہدایت ہونا ممکن ہے۔
ِ ہر زمانے اور کل انسانیت کے لیے
آخری خطبے ’’کیا مذہب کا امکان ہے؟‘‘ میں حضرت عالمہ مشرق و مغرب کی اقوام کی
زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے مذہب کو اِس تمام تشتت و افتراق سے نکلنے کا واحد
ذریعہ قرار دیتے ہیں اور خودی کا نصب العین واضح کرتے ہوئے خودی کی حامل
ب حق ہونا ظاہر کرتے ہیں ،اور فرسودہ تصوف اور الدین اشتراکیت و
جماعت کا نائ ِ
ت ذات قرار
قومیت کی بے سوادی اور ناکامی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ خودی کا مقصد اثبا ِ
ب حق جماعت کا فریضہ اور زمانی نصب العین یہ بتاتے ہیں کہ وہ خدا
دیتے ہیں اور نائ ِ
کی وحدانیت و حاکمیت کی تر ُجمانی کرتی رہے۔