Professional Documents
Culture Documents
خطبہ الہ آباد کی اہمیت
خطبہ الہ آباد کی اہمیت
اس خطاب میں عالمہ اقبال نے ہندوستان کے مسلمانوں کے اندرونی احساس کی واضح وضاحت کی۔ انہوں نے اسالم کے بنیادی
اصولوں اور مسلمانوں کی ان کے عقیدے سے وفاداری کو بیان کیا۔ انہوں نے اس خطاب میں علیحدہ وطن کا تصور اور تصور
پیش کیا کیونکہ مسلمان ایک قوم ہیں اور ان کا یہ حق ہے کہ انہیں شناخت ملے اور اپنی زندگیاں اسالمی اصولوں کے مطابق
گزاریں۔ ان خیاالت کا اظہار انہوں نے اس خطاب میں کیا۔
بہت سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے مسلمان الگ وطن کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوئے اور مسلمانوں کے حقوق کی
حفاظت پر مجبور ہوئے۔ مسلمانوں کے مفادات پر دو شاخوں کا حملہ تھا۔ ایک طرف ہندو مسلمانوں کے راستے میں پابندیاں لگا
رہے تھے اور نہرو رپورٹ کو ہندوستان کے لیے حتمی آئین کے طور پر تجویز کرنے کے لیے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس
پہنچا رہے تھے۔ دوسری طرف برطانوی حکومت نے مسلمانوں کے حقوق کو یکسر نظر انداز کر دیا اور انہیں دیگر سہولیات
فراہم نہیں کی جا رہی تھیں۔ انہیں زندگی کے ہر شعبے میں نظر انداز کیا گیا ،خصوصا ً تعلیم اور حکومت میں۔
اس نازک حالت میں عالمہ محمد اقبال نے محسوس کیا کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کے ان سنکی مسائل کو حل کرنے
کی ضرورت ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے عالمہ اقبال نے ایک الئحہ عمل کی طرف اشارہ کیا۔
اپنے خطاب میں عالمہ اقبال نے وضاحت کی کہ اسالم ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کا سب سے بڑا اور فیصلہ کن عنصر ہے۔
انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک قوم کے طور پر تعریف کی اور سفارش کی کہ انہیں ایک تسلیم کیے بغیر ہندوستان
میں امن کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جب تک مسلمانوں کو ایک قوم نہیں سمجھا جائے گا اور ان کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جائے
گا ،اس وقت تک ملک میں امن و امان کا قیام ناممکن ہے۔ کیونکہ زمین میں بہت سی قومیں ہیں ،ہر قوم اپنی رسوم ،روایات اور
مذہب میں دوسری قوم سے ممتاز ہے۔ ذہنوں کا فرق ،خیاالت کا فرق اور مذہب کا فرق ،رسم و رواج کا فرق انہیں ایک ساتھ
رہنے کے قابل نہیں بناتا۔ٰ لہذا ان حاالت میں یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کا الگ وطن ہو کیونکہ علیحدہ وطن کے بغیر انہیں
متحدہ ہندوستان میں زندگی بھر بہت سی مشکالت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسالم اور قوم پرستی
اپنے خطاب میں عالمہ اقبال نے وضاحت کی کہ اسالم ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی کی تاریخ کا سب سے بڑا تشکیالتی عنصر
تھا۔ اس نے وہ بنیادی جذبات اور وفاداریاں پیش کیں ،جو بتدریج بکھرے ہوئے افراد اور گروہوں کو یکجا کرتے ہیں اور آخر کار
انہیں ایک اچھی طرح سے متعین لوگوں میں تبدیل کرتے ہیں ،جو ان کا اپنا ایک اخالقی شعور رکھتے ہیں۔
انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک قوم کے طور پر تعریف کی اور تجویز پیش کی کہ جب تک انہیں ایک قوم کے طور
ٰ
دعوی کیا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے اپنی پر تسلیم نہیں کیا جاتا تب تک ملک میں امن کا کوئی امکان نہیں ہے۔ انہوں نے
اپنی ثقافتی اقدار کے مطابق ترقی کا واحد راستہ وفاقی نظام کے تحت ہے جہاں مسلم اکثریتی اکائیوں کو وہی مراعات دی جائیں
جو ہندو اکثریتی اکائیوں کو دی جانی تھیں۔ اس حصے میں اقبال نے اسالم اور قوم پرستی کے تصور کو مخاطب کیا۔ اسالم ایک
طرز زندگی ہے جس میں مسلمان اپنی زندگی امن اور ہم آہنگی کے ساتھ گزارتے ہیں ،یہ زندگی کو منظم اور منظم کرنے کے
اصول دیتا ہے اور مسلمانوں کی نفسیات میں ایک الگ قوم کی شناخت بھی کرتا ہے۔ اسالم مسلمانوں کو ایک الگ شناخت فراہم
کرتا ہے اور انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے کیونکہ اس کے رسوم و روایات دوسرے مذاہب سے مختلف ہیں اور یہ عقیدہ
توحید اور رسول ہللا کے اصولوں کی قبولیت پر زور دیتا ہے۔
جہاں تک قوم پرستی کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں میں قوم پرستی اسالم کے ذریعے آتی ہے ،اسالم ایک مختلف
طرز زندگی فراہم کرتا ہے۔ اسالم اگرچہ ایک مذہب ہے لیکن یہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اصول و ضوابط بیان
کرتا ہے۔ دوسری طرف یورپ والے اسالم کو ذاتی معاملہ سمجھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اسالم کو سیاسی حاالت کی
رہنمائی نہیں کرنی چاہیے۔ اقبال نے جہاں واضح کیا کہ اسالم کوئی نجی معاملہ نہیں ہے ،الگ وطن کا مطالبہ اسالم پر مبنی ہے
کیونکہ اس میں عام زندگی کو نظرانداز نہیں کیا گیا۔" انسان "،رینن کہتا ہے" ،نہ تو اس کی نسل ،نہ اس کے مذہب ،نہ دریاؤں
کے دھارے ،اور نہ ہی پہاڑی سلسلوں کی طرف سے غالم بنایا جاتا ہے۔ انسانوں کا ایک عظیم اجتماع ،عقلمند اور دل کی
گرمجوشی سے ایک اخالقی شعور پیدا ہوتا ہے جسے قوم کہا جاتا ہے۔
اتحاد کا سوال
اقبال نے اپنی تقریر کے اس حصے میں اتحاد کا اصول بیان کیا اور کہا کہ مختلف قوموں میں اتحاد ممکن ہے یا نہیں۔ اقبال کے
نقطہ نظر کے مطابق اس برصغیر میں بہت سی قومیں ہیں اور ہر قوم کا اپنا سماجی ،سیاسی اور مذہبی ڈھانچہ ہے۔ تقسیم کے
بغیر اس سرزمین میں امن و امان کا قیام ناممکن ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی زندگی سکون سے گزار سکتے ہیں۔ ایک وجہ یہ
ہے کہ ایک قوم دوسری قوموں کے رسم و رواج کو قبول نہیں کرتی اور انہیں کمتر سمجھتی ہے۔ اس چیز نے اس بات کا اظہار
کیا کہ امن اور ہم آہنگی قائم ہو سکتی ہے لیکن برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد ہی مسلمانوں کو اپنے مذہب کے نفاذ کی
سہولت فراہم کی جا سکتی ہے۔
ہندوستان کے اندر مسلمان ہندوستانی۔
اقوام کا اتحاد صرف عالقائی نہیں ہے جیسا کہ یورپی ممالک کا خیال ہے۔ ہندوستان مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے،
مختلف زبانیں بولنے والے ،اور مختلف مذاہب کے ماننے والے انسانی گروہوں کا ایک براعظم ہے۔ ان کے رویے کا تعین کسی
عام نسلی شعور سے نہیں ہوتا۔
نتیجہ
مسائل کا مستقل حل یہ تھا کہ اقبال کی نظر میں براعظم کی تقسیم ضروری تھی اسی لیے عالمہ اقبال نے اس تقریر میں اپنے
نظریات پیش کیے تھے۔