Professional Documents
Culture Documents
Pak Study Before Independence Topics
Pak Study Before Independence Topics
com
پاکستان کا نظریہ
.Q1قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد لکھیں؟
جوابپاکستان 14اگست 1947کو معرض وجود میں آیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے پاکستان کو حقیقت میں ڈھالنے کے ل&&یے وہ&&اں
مال عزت اور جان کا داغ لگایا تھا۔ پاکستان کے حصول کی جدوجہد آزادی 1857کی جنگ کے بعد شروع ہوئی۔
قیام پاکستان کے اغراض و مقاصد
جنگ آزادی کے بعد مس&لمانوں پ&ر ہن&دوؤں کے س&اتھ س&اتھ انگری&زوں نے بھی بہت دب&اؤ ڈاال۔ مس&لمانوں کے س&ماجی ،سیاس&ی اور
معاشی حاالت یکسر بدل چکے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی الگ ریاست کا مطالبہ کی&ا۔ پاکس&تان کے قی&ام کے اغ&راض و مقاص&د
درج ذیل تھے۔
ایک آزاد اسالمی معاشرے کا قیام: .1
قیام پاکستان کا بنیادی مقصد ایک آزاد اسالمی معاشرے کا قیام تھا جس کی اپنی شناخت اور حکومت ہو ،اپنے سماجی اصولوں اور
مذہب پر عمل پیرا ہو اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو بالخصوص اور دوس&&روں ک&&و ب&&العموم اس&&المی ط&&رز زن&&دگی ک&&و اپن&&انے کی
دعوت دی جائے۔
فرقہ وارانہ فسادات سے تحفظ: .2
ہر دوسرے دن ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات نے واضح کر دیا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندو سیاست پر اجارہ داری ق&&ائم
کر سکتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی جانیں کبھی محفوظ نہیں رہ سکتیں۔ ہندو تنظیم&&وں نے ب&&ار ب&&ار کہ&&ا تھ&&ا کہ آزادی
کے بعد ہندوستان پر ہندو راج نافذ ہو گا۔ چنانچہ ان مظالم سے نجات کے لیے مسلمانوں نے اپنی الگ ریاست کا مطالبہ کیا۔
مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی ترقی: .3
1857کی جنگ آزادی کے بعد سماجی ماحول بالکل بدل گیا۔ مسلمان ذات پات کے نظام اور دیگر امتیازات س&&ے خ&&وفزدہ تھے۔ وہ
نہ تو سیاسی اور سماجی آزادیوں سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے ایک علیحدہ وطن کو ت&&رجیح دی جس میں وہ
اسالم کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
مسلمانوں کی زبان کا تحفظ .4
ہندوؤں نے اردو کو ہندی سے بدلنے کی پوری کوشش کی۔ لیکن انگریزوں کے دور میں وہ کامی&اب نہیں ہ&وئے۔ اگ&&ر جن&وبی ایش&&یا
کو تقسیم کے بغیر آزادی مل جاتی تو ہندو اکثریت آسانی سے ہندی کو سرکاری اور قومی زبان قرار دے سکتی تھی۔ ہندو حک&&ومت
مسلم ثقافت کی تمام نشانیوں کو مٹا سکتی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے پاس پاکستان کا مطالبہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
دو قومی نظریہ کا تحفظ: .5
ٰی
مسلمانوں نے اپنے لیے الگ قومیت ک&ا دع&و کی&ا اور وہ آنے والے وقت&وں کے ل&یے ای&ک ال&گ وج&ود برق&رار رکھ&نے کے ل&یے
پرعزم تھے۔ مسلمان الگ مذہب پر یقین رکھتے ہیں ،مختلف روایات پ&&ر عم&&ل ک&&رتے ہیں ،اور ان کی اپ&&نی ت&&اریخ اور ثق&&افتی ورثہ
ہے۔ ان کا دعوٰی بالکل درست تھا۔ اپنی علیحدہ ہستی کو زندہ رکھنا اور تمام انسانی حقوق سے لطف ان&&دوز ہون&&ا ان ک&&ا ح&&ق تھ&&ا۔ یہ
غیر منقسم ہندوستان میں ممکن نہیں تھا۔
اسالمی ریاست کا قیام: .6
اسالم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ مسلمان اس نظام کو عملی طور پر نافذ کرنا چ&&اہتے تھے۔ متح&&دہ ہندوس&&تان میں یہ حاص&&ل نہیں
ہو سکتا تھا اس لیے انہوں نے ایک قرارداد منظور کی اور جنوبی ایشیا کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں اس&المی ریاس&ت ک&ا
مطالبہ کیا۔
حقیقی اسالمی معاشرے کا قیام: .7
اسالم آزادی ،انصاف ،بھائی چارے اور مساوات کے سنہری اصولوں کی پاسداری کرت&&ا ہے لیکن ہن&&دو ب&&رادری کے س&&اتھ ص&&دیوں
سے رہتے ہوئے مسلمان دانستہ یا نادانستہ ان اصولوں کو آہستہ آہستہ نظر انداز کر رہے تھے۔ اسالم انفرادی اور اجتم&&اعی زن&&دگی
کی رہنمائی کرتا ہے۔ اس کے اپنے اصول ہیں جیسے سود پر پابندی ،جوا ،آمدنی اور خرچ کے تم&&ام غ&یر ق&&انونی ذرائ&ع س&&ے ب&از
رہنا۔ ایک بار پھر اسراف کو شیطانی س&&مجھا جات&&ا ہے۔ پڑوس&&یوں کے حق&&وق پ&&ر زور دی&&ا جات&&ا ہے جس کے ن&&تیجے میں س&&ب ک&&و
سماجی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ تقوٰی اور آخرت پر یقین مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کی بنیاد ہے۔
مسلمانوں کا آزادی کا خواب: .8
ہن&دوؤں اور انگری&زوں کے ن&اروا س&&لوک کی وجہ س&&ے مس&&لمانوں نے بھی آزادی حاص&&ل کرن&ا چ&&اہی اور اپ&نی حک&ومت ق&&ائم کی۔
برصغیر میں کیونکہ آزادی ہر قوم اور ملک کا حق ہے۔ اس لیے انہوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا۔
ہندوؤں کی تنگ نظری: .9
ہندو برادری کی تنگ نظری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 20ویں صدی میں بھی مورتی پوجا کرتے ہ&&وئے ش&&رم
محسوس نہیں کرتے۔ عورتوں کو غالم سمجھا جاتا ہے۔ وہ بیوہ کے لیے دوسری شادی کے حق کو تسلیم نہیں ک&&رتے۔ وہ اپ&&نے آپ
کو اپنی نسل کے لوگوں سے بہت برتر سمجھتے ہیں۔ ہندو کسی چیز کو ناپاک قرار دیتے ہیں اگر اسے کسی مسلمان نے چھ&&وا ہ&&و۔
خود ہندوؤں میں ذات پات کے نظام کا تصور تھا۔ اس طرح کے تنگ نظر اور متعصب طبقے سے مسلمانوں کی نجات کا ای&&ک ہی
راستہ تھا ،اور وہ تھا مسلم اکثریت کے صوبوں پر مشتمل ایک الگ ریاست ،اور اسی طرح انہوں نے الگ وطن کا مطالبہ کیا۔
انگریزوں سے نجات کے لیے: .10
جنگ آزادی ( ) 1857کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا۔ مسلمانوں کے سیاسی حقوق کو سلب کیا گیا۔ ن&&ئی
مالزمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے اور مسلمانوں کو مالزمتوں سے بھی محروم ک&ر دی&ا گی&ا اور ان کی جائی&دادوں س&ے بھی
محروم کر دیا گیا۔ مسلمانوں کی کوئی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ چنانچہ انہوں نے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا۔
پرامن ماحول کا حصول: .11
مہاسبھا کی تشکیل اور سیاست میں اس کے داخلے کے بعد شدھی اور سنگٹھن جیسی متعصبانہ تحریک&&وں نے جنم لی&&ا۔ ادھ&&ر ادھ&&ر
فسادات ہوئے۔ انہوں نے انتقام کی آگ کو مساجد کی بے حرمتی یا محرم کے جلوسوں پر حملہ کرکے بجھ&&ا دی&&ا۔ فس&&ادات میں روز
بروز اضافے نے مسلمانوں کو وارننگ دے دی تھی۔ یہ بات بجا ہے کہ پچھلے 25سال ہندو مسلم خانہ جنگی میں گ&&زرے۔ اس ک&&ا
عالج مسلم اکثریتی صوبوں میں قیام پاکستان کے عالوہ اور کوئی نہیں تھا تاکہ آئے روز ہونے والے فسادات کا خاتمہ ہ&&و۔ مس&&لمان
اپنی الگ ریاست میں پرامن حاالت سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
اسالمی تہذیب و تمدن: .12
1937کے انتخابات میں کانگریس کی کامیابی اور قیادت پر قبضہ اس بات کا کافی ثبوت تھا کہ ہندو مسلم تہذیب و ثقافت کو منہ&&دم
کرنا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کی مذہبی اقدار کو تباہ کرنے کے لیے وقتًا فوقتًا نئی سازشیں کی جاتی رہیں۔ گائے کی اف&&زائش اور ان
کی پوجا کرنا ہندوستان کا ایک شمار شدہ کلچر تھا۔ ہندو برادری اپنے رسوم و رواج میں مسلمانوں پر غالب آنے کی منصوبہ بن&&دی
کر رہی تھی۔ مسلمانوں کی تقریبات میں مداخلت کی گئی جبکہ ہندو تہوار دیوالی ،لوڑھیاں ،دسہرہ بڑی شان و ش&&وکت س&&ے من&&ائے
گئے۔ مختصر یہ کہ اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو یہ ملک ایک خالص ہندو ریاست بن جاتا اور مسلمانوں کی اگلی نسل ص&&رف ن&&ام
کی مسلمان ہوتی لیکن مسلمانوں کے لیے عملی طور پر اسالم کی پیروی کرنا ناممکن تھا۔
نظریہ پاکستان
نظریہ پاکستان جنوبی ایشیائی برصغیر کے تاریخی تناظر میں مسلمانوں کا یہ شعور تھ&&ا کہ وہ اس&&المی نظ&&ریے کی بنی&&اد پ&&ر ای&&ک
الگ قوم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسالمی نظریہ پاکستان کے نظریہ کی بنی&اد ہے ت&و اس&&الم کے بنی&ادی اص&&ول بھی نظ&&ریہ
پاکستان کی بنیاد ہیں۔
عالمہ اقبال نے واضح طور پر کہا کہ ہندو اور مسلمان ایک ریاست میں اکٹھے نہیں رہ سکتے اور مسلمان جلد ی&&ا ب&&دیر اپ&&نی ال&&گ
ریاست بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ انہوں نے مسلمانوں کی علیحدہ قومیت کی وکالت کی۔ عالمہ اقب&&ال نے 1930میں الہ آب&&اد
میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ساالنہ اجالس میں اسالم کو مکمل ضابطہ حیات قرار دیتے ہوئے برصغیر کے ش&&مال مغ&&رب میں ای&&ک
مسلم ریاست کا مطالبہ کیا۔
آئیڈیالوجی کا مطلب ایک ایسا مقصد ہے جس کے مطابق انسان اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔
نظریہ پاکستان
نظریہ پاکستان جنوبی ایشیائی برصغیر کے تاریخی تناظر میں مسلمانوں کا یہ شعور تھ&&ا کہ وہ اس&&المی نظ&&ریے کی بنی&&اد پ&&ر ای&&ک
الگ قوم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسالمی نظریہ پاکستان کے نظریہ کی بنی&اد ہے ت&و اس&&الم کے بنی&ادی اص&&ول بھی نظ&&ریہ
پاکستان کی بنیاد ہیں۔
نظریہ پاکستان کی اہمیت
حق خود ارادیت نظریہ پاکستان کی اہمیت درج ذیل ہے1 -:۔
دنیا کی مہذب تہذیبوں میں حق خود ارادیت کو بنیادی انسانی ح&ق ک&ا مق&ام حاص&ل ہے۔ برص&غیر کے مس&لمان ح&ق خ&ودارادیت کے
حصول کے لیے سخت محنت کرتے ہیں ،اسی حق کی بنیاد پر مسلمانوں نے 1906میں علیحدہ انتخابی حلقہ کا مط&&البہ کی&&ا اور یہ
حق ان کو دیا گیا۔
1909کے منٹو مورلے کی اصالحات میں مسلمان۔
برصغیر کے مسلمانوں کا تحفظ .2
نظریہ پاکستان نے برصغیر کے مسلمانوں کو بچایا۔ نظریہ پاکستان کی وجہ سے ہندوس&&تان کے مس&&لمان ج&&و مغ&&ربی جمہ&&وریت کی
وجہ سے اقلیت میں آگئے تھے ایک عظیم قوم بن گئے۔
مسلمانوں کی آزادی کا سبب .3
نظریہ پاکستان مس&&لمانوں کی آزادی ک&&ا س&&بب ہے۔ نظ&&ریہ پاکس&&تان کی وجہ س&&ے ہندوس&&تان کے مس&&لمانوں ک&&و آزادی ملی اور انہیں
معاشرتی بہتری ملی۔ اس کے عالوہ دوسری قوموں جیسے سکھوں ،ہندوؤں اور عیسائیوں کو اس سے اور بھی فوائد حاصل تھے۔
ہندو مسلم کشیدگی کا خاتمہ .4
قیام پاکستان کے بعد ہندو مسلم کشیدگی جو روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھی ختم ہوگ&&ئی۔ اس کش&&یدگی کے س&&اتھ دہش&&ت گ&&ردی کے
واقعات بھی ختم ہو گئے۔ دونوں کو پرامن ماحول مال جو کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
مسلمانوں کی سالمتی کی عالمت .5
نظریہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے لیے بہت اہم ہے اس نظریہ کے آغاز کے بعد مس&&لمان برص&&غیر میں خ&&ود ک&&و بہ&&تر اور
محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والے اگرچہ مختلف نسلوں اور مختلف عالق&&وں س&&ے تعل&&ق رکھ&&تے ہیں
لیکن متحد ہیں۔ اسی فطری اتحاد کی بدولت وہ بیرونی سازشوں اور پاکستان کے دشمنوں کو شکست دے سکتے ہیں۔
کریکٹر بلڈنگ .6
نظریہ پاکستان مسلمانوں کے کردار کی تعمیر کا ذریعہ ہے۔ نظریہ پاکستان اسالمی نظریہ اور اسالم کے مث&&الی اص&&ولوں پ&&ر مب&&نی
ہے۔ لٰہ ذا نظریہ پاکستان کی بدولت ہم پاکستان میں اس&المی معاش&رہ ق&ائم ک&رنے میں کامی&اب ہ&وئے ہیں اور ہم پاکس&تان میں ج&رات،
دیانت ،رواداری ،بہادری ،مساوات ،بھائی چارے اور کردار کی تعمیر کر رہے ہیں۔
عالم اسالم کا اتحاد .7
نظریہ پاکستان کی بنیاد اسالم پر ہے۔ اسالم میں رنگ و نسل ،ریاست یا کسی ملک کی بنیاد پ&&ر ک&&وئی امتی&&از نہیں ہے اور پاکس&&تان
نظریہ پاکستان کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے۔ چن&انچہ ع&الم اس&الم ک&ا اتح&اد پاکس&تان کی خ&ارجہ پالیس&ی ک&ا کلی&دی عنص&ر ہے اور
پاکستان نے عالم اسالم میں ہم آہنگی اور اتحاد پیدا کرنے کی پوری کوشش کی۔
طاقت کا منبع .8
اسالم نے برصغیر میں دو قومی نظریہ کا تصور دیا اور برصغیر میں مسلمانوں کی ال&&گ پہچ&&ان حاص&&ل کی۔ دو ق&&ومی نظ&&ریہ نے
مسلمانوں کو ضرورت کے وقت خصوصًا برطانوی دور حکومت میں تحف&&ظ ف&&راہم کی&&ا ،یہی وجہ ہے کہ نظ&&ریہ پاکس&&تان برص&&غیر
میں طاقت کا سرچشمہ ہے جس کی بنیاد پر مسلمان حصول پاکستان کے لیے سخت جدوجہد کرتے ہیں۔ آخر کار وہ پاکستان حاصل
کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
مثالی معاشرے کی تشکیل .9
مسلمان برصغیر میں مثالی معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے لیکن متحدہ ہندوستان میں یہ خواب پ&&ورا نہ ہوس&&کا۔ قی&&ام پاکس&&تان کے بع&&د
ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان میں مثالی معاشرہ بنانے کا ایک شاندار موق&ع مال۔ پاکس&تان کے آئین کے مط&ابق بنی&ادی انس&انی
حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ یہ چیز ایک مثالی معاشرے کے لیے ضروری ہے۔
ہندو برٹش سوسائٹی سے آزادی .10
اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کا زوال شروع ہو گیا۔ 1857میں انگریزوں نے پورے برص&&غیر پ&&ر
قبضہ کر لیا اور مسلمان ان کے حکم&ران بن گ&ئے۔ 18ویں اور 19ویں ص&دی میں انگری&زوں نے عیس&ائیت ک&و پھیالنے کے ل&یے
اپنی کوششیں بڑھا دیں اور ہندوؤں نے ہندومت کو پھیالنا شروع کر دیا۔ ان حاالت میں نظریہ پاکستان نے انہیں ایسے پھیل&نے س&ے
بچایا۔
مسلم تہذیب و ثقافت کا تحفظ .11
جالل الدین محمد اکبر کے دور سے ہی ہندو اپنی ’’بھگتی تحریک‘‘ کے ذریعے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک الگ قوم کے طور
پ&&ر ان کی ش&&ناخت س&&ے مح&&روم ک&&رنے کی کوش&&ش ک&&ر رہے تھے۔ 1857کی جن&&گ آزادی کے بع&&د ہن&&دوؤں اور انگری&&زوں نے
مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو منہدم کرنے کی پوری کوشش کی اور مسلمان اپنی ثقافت کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔ مسلم ثقافت
و تہذیب کا تحفظ نظریہ پاکستان سے ہی ممکن ہے۔
معاشرے کے فائدے کی عالمت .12
برصغیر کے مسلمانوں کی ترقی پاکستان کے حصول میں پوش&&یدہ تھی ج&&و پاکس&&تان کے قی&&ام س&&ے روش&&ن ہ&&و گ&&ئی۔ اس کے عالوہ
نظریہ پاکستان نظریہ اسالم ہے اس لیے یہ ایک طرح سے روِز قیامت خیر کا ذریعہ ہے۔
دو قومی نظریہ کے ارتقاء نے آہستہ آہستہ رفتار پکڑی۔ عالمہ اقبال نے 1930میں الہ آباد میں اپنے خطاب میں صوبہ س&&رحد ک&&و
شامل کرکے ایک علیحدہ ریاست کی ضرورت پر واضح طور پر زور دیا تھا۔ لیکن انگریزوں اور ہندوؤں نے اس س&&ے اتف&&اق نہیں
کیا۔
قائداعظم اور دو قومی نظریہ: 5
قائداعظم دو قومی نظریہ کے بڑے حامی تھے۔ اس نے کہا
دو قومی نظریہ کی بنیاد اسی دن رکھی گئی جب برصغیر کا پہال غیر مسلم بنا۔
مسلمان".
یہ دو قومی نظریہ برصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے شروع ہوا تھا۔ فرمایا:
"ہندوستان نہ تو ای&ک مل&ک ہے اور نہ ہی اس کے باش&ندے ای&ک ق&وم ہیں۔ یہ ای&ک برص&غیر ہے جہ&اں بہت س&ی
قومیں رہتی ہیں۔ ان میں ہندو اور مسلمان دو اہم قومیں ہیں۔
. Q1برصغیر میں احیائے اسالم کے لیے حضرت مجدد الف ثانی (شیخ احمد سرہندی) کی خدمات کو بیان کریں۔
جواب حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ ہللا علیہ نقشبندیہ کے ایک عظیم مسلمان ولی اور صوفی تھے۔ اس نے اک&بر ،عظیم مغ&ل شہنش&اہ
کی طاقت کو چیلنج کیا کہ وہ اسالم کی عظمت کو دوبارہ قائم کریں جسے اکبر کے اسالم مخالف رجحانات سے شدید خط&&رہ الح&&ق
تھا۔
حضرت مجدد الف ثانی کا مختصر تعارف
حضرت مجدد الف ثانی جن کا اصل نام شیخ احمد لقب نام بدرالدین تھا جو خلیفہ ثانی حض&رت عم&ر بن الخط&اب کی اوالد
تھے جس کی وجہ سے آپ کو فاروقی بھی کہا جاتا ہے۔ آپ نقشبندیہ روحانی ترتیب کے ایک ن&امور ب&زرگ خ&واجہ ب&اقی ب&اہلل کے
ممتاز شاگرد تھے۔ شیخ احمد کو ان کے والد نے تصوف کی طرف راغب کیا۔ شیخ عبد االحد ،ایک ممتاز صوفی اور ع&&الم۔ آپ نے
چشتیہ اور سہروردیہ روحانی احکامات میں اپنے والد سے خالفت حاصل کی۔ وہ مجدِد افلی ثانی (دوسرے ہزاریہ کے دوران اسالم
قبول کرنے والے) کے نام سے مشہور ہیں۔ شیخ احمد مغل دور حکومت میں مشرقی پنجاب کے دارالحکومت س&&رہند میں 26ج&&ون
1564کو پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم
آپ نے سیالکوٹ اور سرہند میں ممت&از اور م&اہر اس&اتذہ س&ے تعلیم حاص&ل کی۔ انہ&وں نے ق&رآن پ&اک حف&ظ کی&ا اور پھ&ر
حدیث ،تفسیر (تفسیر) اور ماقول (فلسفہ) کے مطالعہ کی ط&رف مت&وجہ ہوگ&ئے۔ آپ نے جگہ جگہ س&فر ک&رکے ن&امور علم&اء س&ے
استفادہ کیا۔ صوفیانہ علم کی پیاس بجھانے کے لیے گھومنے پھرنے کے دوران اس کا واسطہ اکبر کے درب&&ار کے س&&رکردہ چ&&راغ
ابو الفضل اور فیضی سے ہوا۔ جب ابو الفضل اور فیضی کو اس کی ذہانت اور غیر معمولی صوفیانہ بصیرت کا علم ہ&&وا ت&&و انہ&&وں
نے اسے اکبر کے دربار میں لے جانے کی کوشش کی۔ تاہم شیخ احمد ک&&ا مع&&روف بھ&&ائیوں اب&&و الفض&&ل اور فیض&&ی س&&ے تعل&&ق اب&&و
الفضل کے غیر اسالمی رجحانات کی وجہ سے طویل نہیں ہوا۔ شیخ احمد نے اپنی مشہور کتاب اسباط النب&&وت (اثب&&ات نب&&وت) لکھی
جس میں انہوں نے رسالت کی بہترین وضاحت کی ہے۔
جواباورنگ زیب کی وفات ( ) 1707کے بعد مسلم معاشرے کو کچھ سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ مغل سلطنت اورنگ زیب کے
سب سے زیادہ نااہل جانشینوں کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی ج&&و مس&&لمانوں کی باالدس&&تی ک&&و نہیں روک س&&کے کی&ونکہ وہ عیش و
عشرت کی زندگی گزار رہے تھے۔ مسلم سلطنت کی کمزوری کے ساتھ ہی مسلمانوں کے مذہب اسالم ک&و س&نگین مس&ائل ک&ا س&امنا
کرنا پڑا۔
پیدائش اور ابتدائی زندگی:
حضرت شاہ ولی ہللا اورنگ زیب کی وفات سے چار سال قبل 21فروری 1703ء کو دہلی کے ایک متقی گھرانے میں پیدا ہ&&وئے۔
ان کا اصل نام قطب الدین تھا اور بعد میں اپنی نی&&ک ع&&ادتوں کی وجہ س&&ے ولی ہللا کے ن&&ام س&&ے مش&&ہور ہ&&وئے۔ ان کے وال&&د ش&&اہ
عبدالرحیم اپنے تقوٰی اور اسالم کے بارے میں گہرے علم کے لیے مشہور تھے۔ شاہ عبدالرحیم ایک صوفی اور ع&&الم دین تھے۔ وہ
شہنشاہ اورنگزیب کے فتاوٰی عالمگیری کی تالیف میں مصروف تھے۔
ان کے والد شاہ عبدالرحیم کا انتقال 77سال کی عمر میں ہوا جب شاہ ولی ہللا صرف 17سال کے تھے۔ اس نے بستر مرگ پر بیع
(تصوف میں اتھارٹی) اور ارشاد (روحانی تعلیم) کو شاہ ولی ہللا کے پاس منتقل کیا اور کہا کہ ان کا ہاتھ م&&یرا ہ&&اتھ ہے۔ اپ&&نے وال&&د
کی وفات کے بعد شاہ ولی ہللا نے مدرسہ رحیمیہ دہلی میں تدریس شروع کی جہاں آپ نے 12سال تک درس دیا۔
تعلیم:
شاہ ولی ہللا نے روحانیت اور تصوف کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ انہوں نے سات سال کی عمر میں قرآن پ&&اک حف&&ظ
کر لیا۔ آپ نے تفسیر ،حدیث کی تعلیم حاصل کی اور اپنے عظیم والد س&&ے روح&&انی تعلیم حاص&&ل کی۔ انہ&&وں نے مابع&&د الطبیعی&&ات،
منطق اور علم الکالم کی تعلیم بھی اپنے والد سے حاصل کی۔
شاہ ولی ہللا نے اسالمی تعلیم کے ہر شعبے میں مہارت حاصل کی۔ اس نے اپنی عمر کے پندرہویں س&&ال میں اپ&&نے مل&&ک کے تم&&ام
مروجہ رسوم و رواج کے مطابق اپنی تعلیم مکمل کی۔ وہ صحیح بخاری کا مطالعہ کرتے ہیں اور قرآن پ&&اک کی تالوت کے دوران
اکثر اپنے والد کے پاس جاتے تھے۔ شاہ ولی ہللا نے فقہ کی مختلف شاخوں کا علم بھی حاصل کیا۔ انہوں نے شرح وق&&ائع اور ہ&&دایہ
اور اصول فقہ کا کچھ حصہ پڑھا۔
شاہ ولی ہللا نے علم کی بھوک کو علم اٰل ہیات کے مطالعہ تک محدود نہیں رکھا بلکہ علم کی ہیومینٹ&&یز ش&&اخ میں بھی اتن&&ا ہی عب&&ور
حاصل تھا۔ اس نے علم طب اور طب کے شعبے میں حکمت اور شرح ہدایہ حکمت کا مطالعہ کیا۔
مکہ کی زیارت اور عرب علماء سے مالقاتیں:
وہ 1730میں اعلٰی تعلیم اور حج کے لیے عرب گئے ،مکہ اور م&&دینہ کے قاب&&ل ت&&رین اس&&اتذہ س&&ے تعلیم حاص&&ل کی۔ آپ نے اپ&&نی
تعلیم شیخ ابو طاہر بن ابراہیم مدین سے حاصل کی۔ اس نے شیخ ابو طاہر س&&ے ح&&دیث میں س&&ند بھی حاص&&ل کی ج&&و غ&&یر معم&&ولی
علمی صالحیتوں کے مالک تھے۔ وہ 1734میں سعودی عرب سے واپس آیا۔
.2مذہبی شرائط:
ٰی
مذہبی گروہ بھی اپنی برتری کا دعو کر رہے تھے اور شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان جھگ&&ڑے س&&ے مس&&لمانوں کی
شرافت کو شدید خطرات الحق ہو رہے تھے۔
.3سیاسی حاالت:
اورنگ زیب وقت کے استحکام اور طاقت کا معاشرے کے سیاسی ،سماجی اور مذہبی طبقوں میں فقدان تھ&&ا۔ مرہٹ&&وں اور
سکھوں نے ایک مضبوط قدم جما لیا تھا جو عام طور پر حکومت ،دہلی کی نشست پر چھاپہ مارتے تھے ،کبھی کبھی مختصر مدت
کے لیے جسمانی طور پر پرانے شہر پر قبضہ کرتے تھے۔ مرہٹا کا عروج ہندو قوم پرستی کو فروغ دے س&&کتا ہے جس نے مس&&لم
معاشرے میں سماجی تنزل کو تیز کر دیا۔
.1مذہبی اصالحات:
شاہ ولی ہللا نے فورًا اپنے آپ کو مسلم معاشرے کے روحانی استحکام کے مقدس کام پر لگا دیا۔ اس نے چند طلباء کو تیار کی&&ا اور
انہیں اسالمی تعلیم کی مختلف شاخوں میں علم دیا۔ انہیں دوسروں تک علم پہنچانے کا کام سونپا گیا۔
)aاسالمی طرز عمل:شاہ ولی ہللا نے مسلمانوں کو سختی س&&ے رس&&ول ہللا ص&&لی ہللا علیہ وس&&لم کے نقش ق&&دم پ&&ر چل&&نے کی تلقین کی۔
انہوں نے اسالم کے بنیادی اصولوں کو لوگوں تک پہنچایا۔ انہوں نے مس&لمانوں کی فالح و بہب&ود کے ل&یے ق&رآنی تعلیم کی وک&الت
کی اور ان سے کہا کہ وہ غیر اس&المی رجحان&ات اور طریق&وں ک&و چھ&وڑ دیں۔ انہ&وں نے لوگ&وں پ&ر زور دی&ا کہ وہ س&ادہ زن&دگی
گزاریں اور دنیا کی آسائشوں میں ملوث ہونے سے گریز ک&&ریں۔ اس نے مس&&لم معاش&&رہ ج&&و تب&&اہی کے دہ&&انے پ&&ر تھ&&ا اس کی ت&&بیق
(انضمام) کا آغاز کیا۔ طبق کا طریقہ اپنا کر اس نے لبرل عنصر کو متعارف کرایا اور اس طرح اسالم کی تفہیم میں لچک پیدا کی۔
)bاجتہاد:۔ انہوں نے مذہبی معامالت میں متوازن رویہ اور فہم و فراست اپنایا۔ اس نے تمام مکاتب فکر کا بغ&ور مط&العہ کی&ا اور کس&ی
کو تکلیف دیے بغیر ہلکے اور نفیس انداز میں جو ص&حیح اور منص&فانہ تھ&ا اس ک&ا اظہ&ار کی&ا۔ انہ&وں نے ش&یعوں اور س&نیوں کے
درمیان بڑی حد تک غلط فہمیوں کو دور کیا اور اس طرح قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کی روح&&انی بنی&&اد ف&&راہم کی۔ اس نے اس&&الم
کو زیادہ عقلی انداز میں پیش کیا تاکہ اسے زیادہ سے زی&&ادہ لوگ&&وں کے ل&&یے قاب&&ل قب&&ول بنای&&ا ج&&ا س&&کے۔ وہ خ&&ود فرم&&اتے ہیں کہ
مجھے الہام کے ذریعہ اطالع ملی کہ مجھے یہ ذمہ داری اٹھ&&انی ہ&&وگی۔ اب وقت آگی&&ا ہے کہ ش&&ریعت کے ہ&&ر حکم اور اس&&الم کی
عمومی ہدایات کو راشن کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
)cجہاد :شاہ ولی ہللا نے حکمرانوں سے رابطہ کیا اور انہیں اسالمی قوانین کے نفاذ کے لیے متاثر کیا۔ انہوں نے ان پ&&ر بھی زور دی&&ا
کہ وہ اپنی زندگیوں کو اسالمی طریقے کے مطابق ڈھالیں۔ انہوں نے مسلمان سپاہیوں کو جہاد کی اہمیت سے آگاہ کی&&ا اور ان س&&ے
کہا کہ وہ اسالم کی سربلندی کے لیے جہاد کریں۔
)dمعیشت :انہوں نے تاجروں سے کہا کہ وہ تجارت کے منصفانہ اصولوں کو اپنائیں جیسا کہ نبی ک&ریم ص&لی ہللا علیہ وس&لم کی تبلی&غ
اور عمل ہے۔ انہوں نے دولت جمع کرنے کے گناہوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا اور جدید مسلم ہندوستان کے بانی اور جدید
مسلم ہندوستان کے باپ کے پاس زیادہ سے زیادہ دولت رکھنے کے ل&&ئے وقت دی&&ا۔ انہ&&وں نے س&&ر س&&ید احم&&د خ&&ان جیس&&ے روش&&ن
خیالوں کو پیدا کیا جنہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ان کی تقدیر کا مسودہ تیار کرنے کے لئے شاندار خدمات انجام دیں۔
)eفرقہ واریت کا خ&&اتمہ:ان کے دور میں ش&&یعہ اور س&&نی ای&ک دوس&&رے کے خالف جارح&&انہ تھے اور ان کی دش&&منی مس&&لمانوں کے
اتحاد کو نقصان پہنچا رہی تھی۔ شیعوں اور سنیوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ش&&اہ ولی ہللا نے اخالص الخیفہ
اور خالفت الخلفہ لکھی۔ اس نے شیعوں کو بدعتی قرار دینے سے انکار کیا۔
)fچار مسلم مکاتب فکر کے درمیان توازن:شاہ ولی ہللا نے تصوف کے چار مکاتب فکر کے حوالے سے ایک تجزی&&اتی اور مت&&وازن
انداز اپنایا۔ چاروں مکاتب فکر یعنی حنفی ،حنبلی ،شافعی اور مالکی کے درمیان توازن پی&&دا ک&&رنے کے ل&&یے انھ&&وں نے االنص&&اف
فی بیان شب االختالف لکھا جس میں انھوں نے ان کے تاریخی پس منظر کو تالش کیا۔
.2سیاسی اصالحات:
شاہ ولی ہللا نے مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کے عالوہ سیاسی میدان میں بھی مسلمانوں کو قیادت فراہم کی۔ وہ اپ&&نی عظیم حکمت اور
دور اندیشی کے ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کے لیے نکلے۔
)aانارکی کے خالف جدوجہد:مرہٹوں اور سکھوں کے عروج نے مسلم حکمران&وں کے ل&یے س&&نگین مس&&ائل پی&دا ک&&ر دیے تھے۔ مغ&&ل
حکمران مسلم حکمرانی کی باالدستی کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں تھے جسے سکھوں ،مرہٹوں اور دیگر غیر مسلم قوتوں کے
ظہور سے شدید خطرہ الحق تھا۔ شاہ ولی ہللا اپنی نازک صورت حال سے نمٹنے کے لیے آئے۔ اس نے بجا طور پر محس&&وس کی&&ا
تھا کہ اگر مرہٹوں کو مؤثر طریقے سے جانچا نہیں گیا تو مسلمانوں کی سیاسی طاقت ہمیش&&ہ کے ل&&یے ختم ہ&&و ج&&ائے گی۔ اس نے
سرکردہ مسلم امرا کو خطوط لکھے اور مغل حکومت کے سر پر لٹکتی نازک صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس نے سرداروں ک&&و ادھ&&ر
آنے کو کہا۔ آخرکار اس نے نجیب الدولہ ،رحمت خان اور شجاع الدولہ کو مرہٹوں کے خالف جیت لیا۔
)bمرہٹوں کو چیک کرنے کے اقدامات:تاہم ،مسلمان سردار مرہٹوں کا مؤثر ط&ریقے س&ے مق&ابلہ ک&رنے میں ناک&ام رہے۔ مرہٹ&وں کی
طاقت کو کچلنے کے لیے ان کے وسائل ناکافی تھے۔ اس ل&یے ش&&اہ ولی ہللا احم&&د ش&&اہ اب&دالی کے منتظ&&ر تھے۔ وہ ش&&اہ ولی ہللا کی
دعوت پر ہندوستان آیا اور 1761میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو عبرتناک شکست دی۔ بھارت میں
)cمسلم اتحاد کی کوششیں :انہوں نے مسلمانوں کو مسلم معاشرے کی خاطر متحد ہونے کا مشورہ دیا۔ اور اخوت کی اس&&المی تعلیم&&ات
کو ذہن میں رکھیں۔ انہوں نے انہیں انسانیت کی بہتری کے لیے کام کرنے اور غیر مسلموں کے حوالے سے اسالم کی تعلیمات پ&&ر
عمل کرنے کا درس دیا۔ وہ انسانی حقوق بالخصوص غیر مسلموں کے بہت بڑے علمبردار تھے۔
)dدو قومی نظریہ :شاہ ولی ہللا دو قومی نظریہ کے سخت حامی تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کو ان کی ثقافت ،تاریخ اور ورثے کی بنیاد
پر ایک مضبوط قوم بنانے میں اہم کردار ادا کی&ا۔ ان کی تعلیم&ات م&ددگار ث&ابت ہ&وئیں اور مس&لم ثق&افت ک&و ہن&دو رس&م و رواج کے
امتزاج سے بچایا۔ .3شاہ ولی ہللا کی ادبی خدمات
شاہ ولی ہللا نے تصوف اور اسالمی تعلیم کی دیگر شاخوں پر 51کتابیں لکھیں جو مذہبی ،معاش&&ی اور سیاس&&ی مس&&ائل س&&ے متعل&&ق
ہیں۔ 23کتابیں اردو اور 28فارسی میں تھیں۔
)aقرآن پاک کا ترجمہ :ان کا نمایاں کام قرآن پاک کا آسان فارسی زبان میں ترجمہ تھا ج&و ان کے زم&انے کی ادبی زب&ان تھی۔ اس نے
ادب کا یہ شاہکار 38-1737میں تیار کیا جس میں راسخ العقیدہ علمائے کرام کی طرف سے زبردس&&ت تنقی&&د کی گ&&ئی جنہ&&وں نے
اسے موت کی دھمکیاں بھی دیں۔ شاہ ولی ہللا کا ترجمہ ایک غیر معمولی عمل تھا کیونکہ اس سے پہلے کسی غیر ملکی زبان میں
قرآن پاک کا ترجمہ نہیں ہوا تھا۔ اس کے ترجمے نے قرآن پاک کا علم ایک اوس&&ط درجے کے پ&&ڑھے لکھے ش&&خص کی پہنچ میں
پہنچا دیا جسے عربی کے عالوہ کسی دوسری زبان میں قرآن پاک کو پڑھنا اور سمجھنا آسان معلوم ہوتا ہے۔ ش&&اہ ولی ہللا کے بع&&د
ان کے دو بیٹوں شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر نے قرآن پاک کا اردو نسخہ تیار کیا۔
)bحجۃ ہللا البالغہ:۔حجۃ ہللا البالغہ ش&&اہ ولی ہللا کی ای&&ک اور مش&&ہور تص&&نیف ہے۔ اس تص&&نیف میں ش&&اہ ص&&احب نے مس&&لمانوں کے
سماجی اور مذہبی زوال کے اسباب پر تفص&&یل س&&ے بحث کی ہے۔ انہ&&وں نے اپ&&نی کت&&اب میں اجتہ&&اد کے اطالق کی اہمیت پ&&ر بھی
بحث کی ہے اور ایک مجتہد پادری کے علمی اور علمی تقاضوں کا ذکر کیا ہے۔
)cاخالص الخفا اور خالفت الخلفاء:شیعوں اور سنیوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے ش&&اہ ولی ہللا نے اخالص الخف&&ا
اور خالفت الخلفہ لکھے۔ اس نے شیعوں کو بدعتی قرار دینے سے انکار کیا۔
)dاالنصاف فی بیان سباب االختالف:شاہ ولی ہللا نے تصوف کے چار مکاتب فکر کے حوالے س&&ے ای&&ک تجزی&&اتی اور مت&&وازن ان&&داز
اپنایا۔ چاروں مکاتب فکر یعنی حنفی ،حنبلی ،شافعی اور مالکی کے درمیان توازن پیدا کرنے کے لیے انھوں نے االنصاف فی بی&&ان
شب االختالف لکھا جس میں انھوں نے ان کے تاریخی پس منظر کو تالش کیا۔
)eفیوز الحرمین :فیوز الحرمین میں شاہ ولی ہللا نے عرب میں قیام کے دوران اپنے ایک خواب کی تصویر کشی کی ہے۔ وہ بیان کرت&&ا
ہے کہ خداتعالٰی نے اسے اپنے زمانے میں ایک نیا نظام قائم کرنے کے لیے ثالث کے طور پر منتخب کیا۔
مذکورہ تصانیف کے عالوہ شاہ ولی ہللا نے مختلف موضوعات پر اور بھی بہت سی کتابیں لکھیں۔ ان میں النوادر من الحدیث ،عق&&اد
الجیاد فی احکام تصانیف عربی اور فارسی زبانوں میں تیار کی گئی ہیں۔
.4سماجی اصالحات:
شاہ ولی ہللا کے زمانے میں ہندوؤں کے ساتھ مل جل ک&&ر رہ&&نے کی وجہ س&&ے مس&&لمان بہت س&&ی غ&&یر اس&&المی رس&&ومات میں مبتال
تھے۔ اس نے مسلمانوں کو ان مسائل سے ہوشیار کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے:
انہوں نے بیواؤں کی شادی کے بارے میں ہندو تصور سے جان چھڑانے کے لیے جدوجہد کی اور مسلمانوں کو بتای&&ا کہ .1
یہ سنت رسول صلی ہللا علیہ وسلم ہے۔
انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ توہمات ،دلکش لباس اور اس طرح کے دیگر طریقوں سے پرہیز کریں۔ .2
اس نے شادی کے وقت جہیز اور اس طرح کے دیگر غیر ضروری اخراجات کے خالف بھی جدوجہد کی۔ .3
اس نے موت پر تین دن سے زیادہ سوگ ختم کرنے کی کوشش کی کیونکہ یہ اسالمی تعلیمات کے خالف تھا۔ .4
انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ حالل کمائی کے لیے کام کریں اور قرض پر سود سے اجتناب کریں۔ .5
انہوں نے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے خالف بھی کام کیا۔ .6
انہوں نے سادگی کی تلقین کی۔ .7
فرقہ واریت اور گروہ بندی کے خالف کام کیا۔ .8
مدرسہ رحیمیہ:
مدرسہ رحیمیہ اور ان کے ق&ائم ک&ردہ دیگ&ر اداروں نے ان کے کارن&اموں کی روش&نی میں تعلیم دی۔ ان مک&اتب فک&ر نے
مذہبی قوم پرستوں کا ایک گروپ تیار کیا جو اسالم کی تشریح اس کے عقائ&&د کے مط&&ابق ک&&رتے تھے۔ ش&&اہ ولی ہللا کے س&&ب س&&ے
بڑے بیٹے شاہ عبدالعزیز نے ان مذہبی قوم پرستوں کی قیادت مسلم ہندوس&&تان کی آزادی کے ل&&یے جہ&&اد کی اور ب&&اآلخر ای&&ک خلیفہ
ریاست کے لیے اسالم کے اصولوں پر تعمیر کرنے کے لیے کی ،جیسا کہ شاہ ولی ہللا کے عقائد میں بیان کیا گیا ہے۔ نتیجہ:
مختصرًا امام الہند حضرت شاہ ولی ؒہللا ایک عظیم ولی ،عالم اور مصلح اسالم کی ان عظیم ہستیوں میں س&&ے ای&&ک ہیں جنہ&&وں
نے اپنی الزوال خدمات سے مسلم معاشرے کو مستحکم بنیادوں پر اکٹھا کیا۔ آپ نے حض&&رت مج&&دد ال&&ف ث&&انی کے ک&&ام ک&&و ج&&اری
رکھا اور مسلمانوں کے مذہبی ،ثقافتی سیاسی اور سماجی احیاء کے لیے جدوجہد کی۔
علی گڑھ تحریک (سرسید احمد خان) کی تعلیمی ،سیاسی ،مذہبی ،سماجی اور ادبی خدمات پر بحث کریں۔
جواب سر سید احمد خان 1817میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اس نے 1835میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں بطور سب
کلرک کورٹ آف الء میں شمولیت اختی&ار کی۔ 1846میں وہ چی&ف جج کے عہ&دے پ&ر ت&رقی پ&ا گ&ئے۔ جن&گ آزادی ( )1857کے
دوران وہ بجنور میں تھے جہاں انہوں نے برطانوی خواتین اور بچوں کو اپ&&نے آپ ک&&و خط&&رے میں ڈال ک&&ر بچای&&ا۔ اس خ&&دمت کی
وجہ سے سر سید سے گورنر کے طور پر کام کرنے کو کہا گیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا کیونکہ وہ مسلمانوں کی خ&&دمت کرن&&ا
چاہتے تھے۔
بیک گراؤنڈ:
جنگ آزادی کے بعد برطانوی حکومت کی انتقامی کارروائیوں کا نش&&انہ مس&&لمان تھے۔ اور ہن&دوؤں ک&&و انگری&زوں ک&&و یہ
باور کرانے کا موقع مال کہ مسلمان انگریزوں کی حکومت کے ل&&یے خط&&رہ ہیں۔ اس کے ن&&تیجے میں مس&&لمانوں کی ق&&ومی ش&&ناخت
شدید خطرے میں پڑ گئی۔ اس نازک وقت میں سرسید احمد خان پہلے رہنما تھے جنہوں نے آگے آک&&ر مس&&لمانوں کے ق&&ومی غ&&رور
کو بچانے کی کوشش کی ،انہوں نے علی گڑھ تحریک شروع کی۔علی گڑھ تحریک کے مقاصد:
علی گڑھ تحریک مندرجہ ذیل اہداف کی تکمیل کے لیے قائم کی گئی تھی۔
حکومت اور مسلمانوں کے درمیان اعتماد پیدا کرنا۔ .1
مسلمانوں کو جدید علم اور انگریزی زبان کے حصول پر آمادہ کرنا۔ .2
مسلمانوں کو سیاست سے باز رکھنا۔ تعلیمی خدمات: .3
علی گڑھ تحریک کی تعلیمی خدمات:
سرسید احمد خان چاہتے تھے کہ مسلمان قوم تعلیم یافتہ ہو تاکہ جدید ترقی کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکے۔ ان کا خیال تھ&&ا کہ
قوم کی عزت صرف تعلیم سے ہی حاصل کی جا س&&کتی ہے۔ انہ&&وں نے مس&&لمانوں ک&&و جدی&&د ت&&رین مغ&&ربی تعلیم حاص&&ل ک&&رنے ک&&ا
مشورہ دیا۔ انہوں نے مسلم نوجوانوں کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے اور نظریاتی اور عملی طور پر ان کی رہنمائی کی۔
مرادآباد میں اسکول .1
سر سید احمد خان نے 1859میں مراد آباد میں تعلیمی ادارہ قائم کیا جو ایک فارسی اسکول تھا۔
غازی پور میں اسکول .2
سر سید احمد خان نے 1862میں غازی پور میں ایک اسکول قائم کیا۔
سائنسی سوسائٹی: .3
سرسید نے 1863میں غازی پور میں ایک منفرد ادارہ سائنٹفک سوسائٹی قائم کی ،اس سوس&&ائٹی ک&&ا ہی&&ڈ ک&&وارٹر 1876
میں علی گڑھ منتقل کر دیا گیا۔ اس کے قیام کا مقصد دوسری زبانوں کی کتابوں کو حاصل کرن&ا ،اور ان ک&&ا اردو میں ت&رجمہ کرن&ا
تھا۔ سر سید نے انگریزی زبان میں تعلیم کی ضرورت پر زور دیا تاکہ مسلمان نسل جلد از جلد مغربی جدید علوم سیکھ سکے۔
ایم اے او سکول علی گڑھ کا قیام .4
سر سید احمد خان نے 1875میں علی گڑھ میں ایم اے او اسکول قائم کیا۔ بعد میں ( 1877میں) اسے کالج میں اپ گریڈ
کر دیا گیا۔ یہ ادارہ 1920میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بن گیا۔
محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس: .5
سرسید نے علی گڑھ تحریک کی ضروریات کو پورا کرنے کے ل&یے فن&ڈز ف&راہم ک&رنے کے ل&یے 1886میں ای&ک اور
تنظیم ق&&ائم کی۔ اس تنظیم نے تم&&ام ش&&عبوں (س&&ماجی ،سیاس&&ی اور م&&ذہبی) میں مس&&لم کمیون&&ٹی کی خ&&دمت کی۔ اس ک&&ا بنی&&ادی مقص&&د
مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں کام کرنے کی ترغیب دینا تھا۔ اسی تحریک نے 1906میں ڈھاکہ میں اپنے ساالنہ اجالس میں آل
انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ نصاب:
’’فلسفہ ہمارے دائیں ہاتھ میں ،فطری سائنس ہمارے بائیں ہ&&اتھ میں اور اس&&المی نظری&&ات ک&&ا ت&&اج ہم&&ارے س&&ر پ&&ر ہوگ&&ا‘‘ اداروں ک&&ا
نصاب طے کرتے وقت سرسید احمد خان کے خی&&االت تھے۔ اس نے نص&&اب ک&&و مغ&&ربی ،مش&&رقی اور اس&&المی تعلیم ک&&ا ای&&ک اچھ&&ا
امتزاج بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
نتیجہ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ احم&د خ&ان نے مس&لمانوں کی تعلیمی ت&رقی کے ل&یے آرنل&ڈ ،موریس&ن اور آرکی بول&ڈ جیس&ے
انگریزی اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔ برصغیر کی کچھ ہمہ گیر شخصیات کو بطور استاد مقرر کی&ا گی&ا۔ سنس&کرت س&کھانے واال
ٹیچر ہندو تھا۔ ملک کے مختلف شہروں میں علی گڑھ تحریک کے بعد ک&&ئی دوس&&رے ادارے بھی پ&&ائے گ&&ئے۔ اس ط&&رح علی گ&&ڑھ
تحریک تعلیم کے میدان میں انقالب النے کی علمبردار تھی۔
سرسید احمد خان کی ادبی خدمات:
نامور مصنف: .1
سرسید بذات خود ایک قابل ادیب تھے۔ خوش قسمتی سے وہ دانشوروں ،مضمون نگاروں ،نقادوں ،ہیلو اور ش&&اعروں کے
ایک گروپ کی طرف سے تھے۔ ہو نے قومی ترقی کے لیے ایترا کا استعمال کیا۔
مسلمانوں نے اے تحریک کی پیروی کی ،اور انہوں نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے۔
خطبہ احمدیہ: .2
1869میں سر صیاد خان نے ایک کتاب لکھی خطباِت احمدہ دفاع مقدس
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے "ایک مور کی کتاب" کے جواب میں۔
تابعین الکالم: .3
اس نے بائبل پر تبیان الکالم کے نام سے ایک تفسیر لکھی۔
رسالہ تہذیب الخلق: .4
1970میں سرسید احنید خان نے رسالہ تہذیب الحق کا ایک پمفلٹ ش&&ائع کی&&ا جس میں انہ&&وں نے مس&&لمانوں کے س&&ماجی
مسائل کو بیان کیا اور مسلمانوں میں غیر مسلموں کے تئیں تعصب کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
عصر السنید: .5
مسلمانوں کی سماجی بہبود کے لیے اس نے عصر السناد لکھی۔
ترجمہ کے کام: .6
درج ذیل کتابوں کا ترجمہ کیا گیا:
عین اکبری ،تزوک جہانگری ،اور تاریخ سرکشی بجنور
ان سب کے عالوہ سرسید نے تفسیر القرآن ،ہندوستان کے وفادار محمڈن اور اصبغۃ بغضوت ہند بھی لکھیں۔
دوسرے مصنفین کے کام: .7
موالنا شبلی نعمانی نے سیرت النبی ،الفاروق ،الغزالی ،المامون لکھی۔ ڈپٹی نذیر احمد نے مارات العروس ،توبہ النص&&وح،
لبنٰی الوقت لکھا۔ موالنا الطاف حسینی ہالی نے مصدق حالی ،دیوان ہائے ،موازانہ دبیر انیس اور حیات جاوید لکھے۔
علی گڑھ تحریک کی سماجی اور اقتصادی خدمات:
سرسید نے مسلمانوں کی کھوئی ہوئی سماجی اور معاشی حیثیت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے
تھے۔ دبی ہوئی اور برباد کمیونٹی متحرک ہو گئی۔
کھوئی ہوئی شان .1
سر سید احمد نے مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ہر سطح پر رہنمائی کی۔
رسالہ اصبغۃ بغویۃ ہند .2
1857کی جنگ آزادی کے بعد انہوں نے رسالہ اصبغۃ بغض&&وت ہن&د لکھی جس میں اس جن&گ کی اص&&ل وجوہ&ات بی&ان
کیں۔
ہندوستان کے وفادار مسلمان .3
سرسید نے یہ کتاب انگریزوں کو مسلمانوں کی خدمات سے روشناس کرانے کے لیے لکھی۔ اس کتاب کے ذریعے انھوں
نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے انگریزوں کے حسن سلوک کا اندازہ لگایا۔
مسلمانوں کے لیے سرکاری نوکریاںسرسید کی مہم کے نتیجے میں ہندوس&&تان کے مس&&لمانوں ک&&و گ&&ورنمنٹ میں .4
نمایاں مالزمتیں ملیں۔ بڑے پیمانے پر سیکٹر.
یتیم خانے .5
اس نے مسلمان بچوں کے لیے یتیم خانے بنائے تاکہ وہ ہن&&دو ی&&ا عیس&&ائی نہ بن ج&&ائیں۔ یہ واقعی ان کی بہت ب&&ڑی خ&&دمت
تھی۔ اس طرح اس نے انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک پل بنانے کی کوشش کی۔ وہ آخر کار رویہ ب&دلنے میں کامی&اب ہ&و
گیا اور مسلمان ایک بار پھر مرکزی دھارے میں شامل ہو گئے۔علی گڑھ تحریک کی سیاسی خدمات
سرسید نے مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا اور خ&&ود مس&&لمانوں ک&&و ان کی س&&ماجی و اقتص&&ادی بح&&الی
کے لیے تعلیم دینے کے لیے اہم اقدامات کیے تاکہ وہ ہندوؤں کے برابر کا درجہ حاص&&ل ک&&ر س&&کیں۔ ان ک&&ا خی&&ال تھ&&ا کہ م&&اڈل کی
ترقی کے لیے تعلیم ہی واحد ہتھیار ہے۔
دو قومی نظریہ .1
وہ شروع میں ہندو مسلم اتحاد کے حق میں تھے لیکن اردو ہندی تنازعہ کے بعد انہیں ہندو ق&&وم کی ن&&وعیت معل&&وم ہ&&وئی۔
پھر تاریخ میں پہلی بار اس نے 1867میں مسلمانوں کے لیے لفظ "قوم" استعمال کی&&ا۔ اس ل&&یے ہم کہہ س&&کتے ہیں کہ وہ برص&&غیر
میں دو قومی نظریہ کے ب&انی تھے۔ دو ق&ومی نظ&ریہ کی بنی&اد پ&ر سرس&ید نے مختل&ف ش&عبوں میں مس&لمانوں کے ل&یے خصوص&ی
تحفظات کا مطالبہ کیا۔
مقامی کونسلوں میں مسلمانوں کے لیے خصوصی نشستیں
خدمات میں کوٹہ .2
اعلٰی خدمات کے لیے کھلے مقابلے کے امتحانات کے خالف تحریک شروع کی۔
اکثریت کی حکومت کو مسترد کر دیا کیونکہ اس سے ہندوؤں کی اجارہ داری ہو سکتی ہے۔
سیاست سے بچنے کا مشورہ .3
1857کی جنگ کے بعد انہوں نے مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیا جب تک کہ وہ تعلیم میں مض&&بوط
نہ ہو جائیں۔
اردو ہندی تنازعہ .4
بن دور میں اردو ہندی تنازعہ کے بعد سرسید ہندوؤں کی ذہنیت کو سمجھ گئے اور انہ&وں نے انگری&زوں پ&ر دب&اؤ ڈاال کہ اردو ک&و
ہندی سے بدلنے سے گریز کریں۔
انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ برتاؤ .5
سر سید نے مسلمانوں کو 1885میں اے او ہیوم کی ق&&ائم ک&&ردہ ان&ڈین نیش&&نل ک&&انگریس میں ش&&امل ہ&ونے س&&ے من&ع کی&ا،
کیونکہ وہ اس پارٹی کے مقاصد کو سمجھ سکتے تھے۔
سیاسی اصالحات 5۔
انہوں نے مسلمانوں کو کانگریس میں شامل ہونے اور لوک کونسل میں مسلمانوں کی خصوصی نشست کے لیے جدوجہ&&د
کرنے سے روک دیا۔ اس نے ہندوؤں کی اج&&ارہ داری س&&ے بچ&&نے کے ل&&یے کھلے مق&&ابلے کے امتحان&&ات کے خالف بھی تحری&&ک
شروع کی۔
نتیجہ
سرسید کی خدمات بہت قابل تعریف تھیں ،اسی لیے انہیں پاکستان کے بانیوں میں سے ای&ک کے ط&ور پ&ر جان&ا جات&ا ہے۔
مولوی عبدالحق نے سرسید کے کردار کو سراہا اور کہا۔
پاکستان کی بنیاد کا پہال پتھر اس بوڑھے نے رکھا تھا۔
فوجی اثاثوں کی تقسیم کے فارمولے پ&ر بھ&ارتی حک&ومت کے ہٹ دھ&رمی کے ب&اعث عمًال عملدرآم&د نہیں ہ&و س&کا۔ فیل&ڈ
مارشل آچن لک نے بھارتی حکومت کے منفی اور عدم تعاون کے رویے کی وجہ سے اپنے عہدے س&&ے اس&&تعفٰی دے دی&&ا۔ اس&&تعفٰی
نے معاملہ مزید پیچیدہ کر دیا۔ اس طرح پاکستان کو اس کے قانونی اور صرف فوجی سامان میں حصہ لی&&نے س&&ے مح&&روم ک&&ر دی&&ا
گیا۔ بہرحال تمام فوجیوں کو دونوں میں سے کس&ی ای&ک میں ش&امل ہ&ونے ک&ا اختی&ار دی&ا گی&ا کی&ونکہ مس&لمانوں نے پ&اک ف&وج میں
شمولیت کی خواہش ظاہر کی۔
نہری پانی کے مسائل: .6
صوبے کی تقسیم سے صوبہ پنجاب میں دریاؤں کا قدرتی بہاؤ مت&اثر ہ&وا۔ ک&وئی بھی ریاس&ت دری&ا ک&ا رخ ب&دل ک&ر کس&ی
دوسری ریاست کو اس کے پانی سے محروم نہیں کر سکتی۔ نہریں اور بیراج بنائے جا سکتے ہیں لیکن متعلقہ ریاست ی&&ا ریاس&&توں
کی رضامندی سے۔ بھارت نے ڈیموں اور بیراجوں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا اور اپریل 1948میں پاکستان میں پانی کے بہ&&اؤ ک&&و
چیک کیا۔ اس اقدام سے مغربی پنجاب کی زراعت اور معیشت متاثر ہوئی۔ دریائے راوی ،س&&تلج اور بی&&اس بھ&&ارت کی ط&&رف س&&ے
پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہیں اور یہ عالقے میں آبپاش&ی کے ب&ڑے ذرائ&ع رہے ہیں۔ س&ر ری&ڈکلف نے اپ&نے غ&یر منص&فانہ
ایوارڈ میں فیروز پور اور مادھو پور ہیڈ ورکس ہندوستان کے حوالے کر دیے حاالنکہ یہ منصوبہ مسلم اکثریتی عالقے میں کام کر
رہا تھا۔
معاملہ حل ہو گیا اور دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر الیا گیا۔ عالمی بینک نے تمام صورتحال کا بصیرت سے جائزہ لی&&ا اور
بحران کی گھڑی میں پاکستان کی مدد کا وعدہ کیا۔ اس مسئلے کے ح&&ل کے ل&یے خط&&یر رقم مختص کی گ&&ئی۔ اس کے ن&تیجے میں
دونوں ممالک کے درمیان 1960میں سندھ طاس معاہدہ ہوا تھا۔ پاکستان نے بھارت کو تین دریا (راوی ،ستلج بیاس) تسلیم کر ل&&یے
اور باہمی طور پر بھارت نے دریائے جہلم ،چناب اور سندھ کے پانیوں پر اپنا دعوٰی چھوڑ دیا۔
ریاستوں کا مسئلہ: .7
قیام پاکستان کے وقت 635چھوٹی بڑی ریاستیں تھیں۔ ان ریاستوں نے پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہونے یا آزاد رہنے
کا کھال آپشن دیا تھا۔ چار ریاستیں ایس&ی تھیں جن پ&ر بھ&ارت نے ط&اقت کے زور پ&ر قبض&ہ ک&ر لی&ا اور مس&ئلہ پی&دا ہ&وا کی&ونکہ یہ
ریاستیں کشمیر ،حیدر آباد ،جوناگڑھ اور مونارادر پر ان ریاستوں کو پاکستان میں شامل کرنا چاہتی تھیں۔
سرکاری مالزمین کے تبادلوں کا مسئلہ .8
تقسیم کے وقت سرکاری مالزمین کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ دون&وں ممال&ک میں س&ے کس&ی ای&ک ک&ا انتخ&اب ک&ریں۔ لیکن عملی
طور پر ،یہ اختیار ایک رسمی حیثیت بن گیا کیونکہ تمام سرکاری مالزمین نے اپنے مستقبل کا فیصلہ م&&ذاہب کی بنی&اد پ&ر کی&ا۔ اس
کا نتیجہ یہ نکال کہ پاکستان کو انتظامی مشینری تیار کرنے میں بہت زیادہ مشکالت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بھارتی عالق&&وں س&&ے
سرکاری اہلکاروں کو پاکستان منتقل کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ بن گی&ا۔ ابت&دا میں انہیں دہلی س&ے پاکس&تان النے کے ل&یے خصوص&ی
ٹرینیں چالئی گئیں لیکن 8اگست کو ایسی خصوصی ٹرین کو بارود سے اڑا دیا گیا۔ تین کمپ&ارٹمنٹ ٹک&ڑے ٹک&ڑے ہ&و گ&&ئے جبکہ
تین پٹڑی سے اتر گئے۔ اس طرح ریلوں کے ذریعے مالزمین کی منتقلی مشکل ہو گئی۔
اس لیے حکومت نے مالزمین کو منتقل کرنا شروع کر دیا۔
کراچی بذریعہ ہوائی جہاز۔ جب ٹاٹا اورینٹ ایئرویز نے صرف 18پروازیں چالئی تھیں۔
حکومت ہند نے اس کمپنی کو نیشنالئز کر کے یہ کام شروع کیا۔
4ستمبر کو 26طیاروں کے ساتھ اور اس مشق کو ’’آپریشن پاکستان‘‘ کا ن&ام دی&ا۔ ان مالزمین کے ل&یے بھ&&ارت میں ای&ک ٹرانس&&فر
آفس اور کراچی میں ایک استقبالیہ دفتر قائم کیا گیا۔ اس طرح انتظامی ڈھانچہ بڑی مشکل سے مکمل ہوا۔
آئینی مسائل .9
قیام پاکستان کے وقت کوئی آئین نہیں تھا۔ ہندوستان کے 1935کے آئین میں ضروری ترامیم کی گئیں اور اس&&ے ناف&&ذ کی&ا گی&ا ت&اکہ
حکومت چالئی جا سکے۔ آئین نہ ہونے کی وجہ سے اقتدار کے مسائل مزید پیچیدہ ہو گئے۔ جس کی وجہ س&&ے دس&&مبر 1971میں
مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ باقی پاکستان نے تعص&&ب اور ف&&رقہ واریت کی آگ بھڑکان&&ا ش&&روع کی اور ابھی ت&&ک
جل رہی ہے۔
معاشی مسائل .10
برصغیر کی حد بندی کے وقت 400مختلف صنعتیں یا کارخانے تھے لیکن اتفاق&ًا ص&رف 14فیکٹری&اں پاکس&تان ک&و دی گ&ئیں اور
پنجاب اور بنگال کا زرعی میدانی عالقہ بھی بھارت کو بالجواز ریڈ کلف ای&&وارڈ دی&&ا گی&&ا۔ مع&&دنیات پی&&دا ک&&رنے والے بہت س&&ے اہم
عالقے بھی بھارت کو دے دیے گئے ،اسی لیے الرڈ ماؤنٹ بیٹن اور ان کی ٹیم بشمول کانگریس نے پاکستان ک&&و معاش&&ی ط&&ور پ&&ر
کمزور کرنے کے لیے کثیر معاشی مسائل پیدا کیے۔
جغرافیائی مسائل .11
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو پاکستان دو بڑے حصوں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان پر مش&&تمل تھ&&ا۔ مش&&رقی پاکس&&تان
ایک صوبے پر مشتمل تھا جبکہ مغربی پاکستان چار صوبوں یعنی پنجاب ،سندھ ،سرحد اور بلوچستان پ&ر مش&تمل تھ&ا۔ مش&رقی اور
مغربی پاکستان کے درمیان کوئی روڈ لنک نہیں تھا۔ ملک کے دونوں حصوں کے درمیان 1750کلومیٹر ک&&ا ہندوس&&تانی عالقہ تھ&&ا۔
یہی وجہ ہے کہ ملک کے دونوں حصوں میں بہت بڑا ثقافتی فرق ہے ،جو مستقبل میں پاکستان کے لیے بہت سے مسائل پی&&دا کرت&&ا
ہے۔
کشمیر کا مسئلہ .12
ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے شمال میں واق&&ع ہے اور برص&&غیر کی س&&ب س&&ے ب&&ڑی ریاس&&ت تھی۔ ریاس&&ت کی ک&&ل
آبادی 1941کی مردم شماری کے مطابق 40الکھ تھی۔ برطانوی حکومت نے ریاست کا پورا عالقہ ڈوگ&&رہ راجہ گالب س&&نگھ ک&&و
20الکھ روپے میں بیچ دیا۔ 1846میں ص&&رف 75الکھ۔ مس&&لمانوں نے 1930میں تحری&&ک چالئی اور ڈوگ&&رہ کے قبض&&ے س&&ے
آزادی کی تحریک شروع ہوئی۔ ریاست جموں و کشمیر ثقافتی ،جغرافیائی اور مذہبی لحاظ سے پاکستان کے بہت قریب ہے۔ کش&&میر
پاکستان کے ساتھ جذباتی ط&ور پ&ر ج&ڑا ہ&وا ہے۔ اس ل&یے انہ&وں نے راجہ پ&ر پاکس&تان میں ش&امل ہ&ونے کے ل&یے دب&اؤ ڈاال۔ ہن&دو
حکمران نے اس خیال کی تعریف نہیں کی۔
کشمیری لوگوں نے ہتھیار ہاتھوں میں ل&&یے اور بھ&&ارتی اف&&واج کے خالف ل&&ڑنے لگے۔ آزادی کی تحری&&ک کامی&&اب ہ&&وتی
دکھائی دے رہی تھی۔ ہندو افواج کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ حاالت گھمب&یر ہ&ونے پ&ر بھ&ارتی حک&ومت نے اق&وام متح&دہ کی س&المتی
کونسل سے مدد طلب کی۔ سالمتی کونسل نے دو قراردادیں منظور کیں۔ دونوں فریقین کو جنگ بندی قبول کرنے کا مشورہ دیا گی&&ا۔
یہ بھی طے پایا کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ عوام کی امنگوں کے مطابق کیا جائے گا۔ عوام کی مرضی معل&&وم
کرنے کے لیے رائے شماری کرانی تھی۔ مسلح جدوجہد رک گئی اور کش&&میری س&&المتی کونس&&ل کے اگلے اق&&دام ک&&ا انتظ&&ار ک&&رنے
لگے۔ بدقسمتی سے بڑی طاقتوں کے مفادات نے رائے شماری کی اجازت نہیں دی۔ کشمیریوں کو ان کے بنیادی ح&&ق س&&ے مح&&روم
رکھا گیا۔
بھارت دشمنی۔ .13
سب سے پہلے کانگریس&ی رہنم&ا برص&غیر کی تقس&یم س&ے پہلے پاکس&تان کے قی&ام کے خالف تھے۔ لیکن الرڈ م&اؤنٹ بیٹن کی یقین
دہانی پر کانگریس نے اس منصوبے پر اتفاق کیا کہ پاکستان 10سال سے زیادہ زن&&دہ نہیں رہ س&&کتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکس&&تان کے
قیام کے بعد شنکر اچاریہ اور پنڈت نہرو جیسے کانگریسی رہنما پاکستان کی تخلیق پر تبصرہ کرتے ہیں۔ ’’نہ ت&&و ک&&انگریس اور نہ
ہی قوم نے متحدہ ہندوستان کا دعوٰی ترک کی&&ا ہے‘‘۔ چن&&انچہ انہ&&وں نے 100مس&&ائل پی&&دا ک&&یے اور انہ&&وں نے پاکس&&تان کے خالف
دشمنی شروع کر دی جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھ&ارت کے درمی&ان پہلی جن&گ 1948میں ل&ڑی گ&ئی۔ دیگ&ر دو اہم جنگیں
1965اور 1971میں بھی بعد میں دونوں ممالک کے درمیان لڑی گئیں۔
پختونستان کا مسئلہ .14
پاکستان کے قیام کے بعد ،افغانستان حکومت کا دعوٰی ہے کہ پاکستان کے پشتو بولنے والے عالقے پہلے افغانستان کا حص&&ہ تھے۔
سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان جیسے کئی لیڈروں نے بھی پاکستان دشمنی شروع کر دی اور پاکستان کے ل&&یے پختونس&&تان ک&&ا
مسئلہ کھڑا کر دیا۔
قائداعظم کی وفات: .15
خدا کے فضل سے اور قائداعظم کی انتھک کوششوں سے 14اگست 1947کو پاکستان بن&ا۔ عظیم قائ&داعظم پاکس&&تان کے گ&&ورنر
جنرل بنے۔ بدقسمتی سے قائد صرف 13ماہ بعد 11ستمبر 1948کو انتقال ک&&ر گ&&ئے۔ قائ&&داعظم کی وف&&ات نے پاکس&&تان کے ل&&یے
بہت سے مسائل پیدا کر دیے۔