You are on page 1of 3

‫مدینہ منورہ میں اسالمی ریاست کا ارتقاء ‪0‬‬

‫مدینہ منورہ کی ریاست دس برس کے قلیل عرصے میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کرکے ایک عظیم اسالمی ریاست بن گئی‬

‫جب بھی کوئی نیا نظام نافذ کرنا ہوتا ہے تو اس کےلیے پہلے ایک ایسی ٹیم تیار کی جاتی ہے جو نہ صرف اس نئے نظام کی‬
‫جزئیات سے ٓاگاہ ہو بلکہ اس پر غیر متزلزل یقین بھی رکھتی ہو۔ اسی بنیادی اصول کے پیِش نظر حضور اکرمﷺ نے ایک‬
‫طویل عرصہ مکہ میں اسالم کی تبلیغ کرتے ہوئے گزارا۔ ٓاپﷺ کی انتھک کوششوں کی وجہ سے اچھا خاصا طبقہ مسلمان‬
‫ہوگیا تھا مگر اب ضرورت اس بات کی تھی کہ ایک ایسا خطٔہ زمین ہو جہاں کی ٓابادی مکمل طور پر یا اکثریت اس نظام کو قبول‬
‫کرنے پر تیار ہو۔ چونکہ مکہ میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی‪ ،‬ایسی حالت میں اسالمی نظام قانون کا نفاذ بے اثر ہو کر رہ جاتا۔‬
‫لٰہ ذا اس سلسلے کےلیے مناسب خطہ مدینہ منورہ کی سرزمین ہی تھی۔‬

‫نبی اکرمﷺ کی مدینہ منورہ میں تشریف ٓاوری کے بعد فوری طور پر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی۔ دوسرے لفظوں میں کہا‬
‫جاسکتا ہے کہ ریاست کےلیے سیکریٹریٹ قائم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ معاشرے کے معاشی مسائل کے حل کو اّولیت دی گئی۔ ایک‬
‫طرف ریاست میں ہنگامی حالت تھی تو دوسری طرف انصاِر مدینہ تھے جن میں متوسط بھی تھے اور خاصا مالدارطبقہ بھی موجود‬
‫تھا۔‬

‫یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ منورہ کی معیشت کا سارا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا‪ ،‬مگر‬
‫حضوِر اکرمﷺ نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کردو؛ کیوں‬
‫کہ اس طرح معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ناممکن تھی۔ اس کے برعکس‪ٓ ،‬اپﷺ نے انصاِر مدینہ سے فرمایا کہ‬
‫اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر قرِض حسنہ کا نظام رائج فرمایا اور جب معاشرے کے افراد عمًال باہمی تعاون کے ذریعے بال‬
‫سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں لگ گئے تو ٓاپﷺ نے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم‬
‫کردیا۔‬

‫مدینہ منورہ کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصے میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کرکے ایک عظیم اسالمی ریاست بن‬
‫گئی‪ ،‬جس کی حدوِد حکمرانی شمال میں عراق و شام کی سرحدوں سے لے کر جنوب میں یمن و حضرموت تک‪ ،‬اور مغرب میں‬
‫بحیِر ہ قلزم سے لے کر مشرق میں خلیج فارس و سلطنِت ایران تک وسیع ہوگئیں؛ اور عمًال پورے جزیرہ نمائے عرب پر اسالم کی‬
‫حکمرانی قائم ہوگئی اگرچہ شروع میں اسالمی ریاست کا نظم و نسق عرب قبائلی روایات پر قائم و استوار تھا‪ ،‬تاہم جلد ہی وہ ایک‬
‫ملک گیر ریاست اور مرکزی حکومت میں تبدیل ہوگیا۔ یہ عربوں کےلیے ایک بالکل نیا سیاسی تجربہ تھا کیونکہ قبائلی روایات اور‬
‫بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی‪ ،‬سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے۔ یہ سیاسی اکائیاں ٓازاد و خودمختار ہوتی‬
‫تھیں‪ ،‬جو ایک طرف قبائلی ٓازادی کے تصور کی علمبردار تھیں تو دوسری طرف سیاسی افراتفری اور اس کے نتیجے میں تسلسل‬
‫کے ساتھ سیاسی چپقلش‪ ،‬فوجی تصادم اور عالقائی منافرت کی بھی ذمہ دار تھیں۔ عربوں میں نہ صرف مرکزیت کا فقدان تھا بلکہ‬
‫وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصور سے بھی نابلد تھے۔ یہ نظریات ان کی من مانی قبائلی ٓازادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے‬
‫تھے‪ ،‬اس لیے وہ کسی ’’غیر‘‘ کی حکمرانی تسلیم ہی نہیں کرسکتے تھے۔‬
‫مگریہ بھی رسول اکرمﷺ کا سیاسی معجزہ ہے کہ ٓاپﷺ نے دشمن قبائل عرب کو ایک سیسہ پالئی ہوئی قوم میں تبدیل‬
‫کردیا اور ان کی انگنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرمادی جس کی اطاعت بدوی اور شہری‪ ،‬تمام عرب‬
‫باشندے کرتے تھے۔ اس کا سب سے بڑا بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب ’’قبیلہ یا خون‘‘ کے بجائے ’’اسالم یا دین‘‘ معاشرہ و‬
‫حکومت کی اساس تھا۔ اسالمی حکومت کی سیاسی ٓائیڈیالوجی اب اسالم اور صرف اسالم تھا۔ جن کو اس سیاسی نصب العین سے‬
‫مکمل اتفاق نہیں تھا ان کےلیے بھی بعض اسباب کی وجہ سے اس ریاست کی سیاسی باالدستی تسلیم کرنا ضروری تھا۔‬

‫ہللا کے رسول حضرت محمدﷺ نے جب راِہ ہجرت میں قدم رکھا تو ٓاپﷺ کی زبان مبارک پرسورہ بنی اسرائیل کی ایک‬
‫ٓایت کثرت سے رہتی تھی‪’’ :‬اے ہللا! نئی منزل میں صدق و صفا سے داخل کر اور جہاں سے نکاال ہے وہاں کا نکلنا بھی صدق و‬
‫صفا پر مبنی ہو‪ ،‬نئی جگہ دین پھیالنے کےلیے غلبہ عطا فرما۔ (سورہ بنی اسرائیل۔ ٓایت ‪)80‬‬

‫چنانچہ ہللا تعالٰی نے ٓاپﷺ کی دعا قبول فرمائی اور اسالمی مملکت کے قیام کےلیے رسول ہللا ﷺ کو غلبہ عطا فرمایا۔‬
‫گویا ٓاپﷺ کی مدنی زندگی بھرپور مصروفیت کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ انتہائی مشکل اوقات میں بھی ٓاپﷺ نے اپنی خداداد‬
‫بصیرت سے سالمتی کی راہیں نکالیں۔‬

‫مدینہ میں تشریف النے کے بعد ٓاپ ﷺ کی حیثیت مکے سے مختلف ہوگئی تھی‪ ،‬کیونکہ مکہ میں مسلمان ایک مختصر اقلیت‬
‫کے طور پر رہ رہے تھے جب کہ یہاں انہیں اکثریت حاصل تھی۔ پھر ٓاپﷺ نے شہریت کی اسالمی تنظیم کا ٓاغاز کیا جس میں‬
‫ٓاپﷺ کو منتظِم ریاست کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اس میں شک نہیں کہ مکی زندگی کے مقابلے میں یہ بڑی کامیابی تھی لیکن پر‬
‫سکون معاشرے کےلیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا۔ یعنی مدینہ میں موجود مختلف قبائل سے تعلقات استوار کرنا‪ ،‬جسے رسول‬
‫ہللاﷺ نے معاہدات کے ذریعے طے کیا جن میں مواخات مدینہ اور میثاِق مدینہ شامل ہیں میں ایک نہایت اہم قدم اٹھاتے ہوئے‬
‫انصار و مہاجرین کو اسالم کے رشتٔہ اخوت میں منسلک کردیا۔ ایک مہاجر کو دوسرے انصار کا بھائی بنا دیا گیا۔ انصار نے اپنے‬
‫مہاجر بھائیوں سے فیاضی اور ایثار کا جو ثبوت دیا‪ ،‬وہ اسالمی و عالمی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔‬
‫ٓاپﷺ کے ساتھ ٓانے والے مہاجر مسلمانوں میں اور انصار میں ہم ٓاہنگی‪ ،‬یکجہتی اور استحکام کا یہ اہم مسئلہ ٓاپ نے اپنی جس‬
‫سیاسی حکمت عملی سے طے کیا اور مسلم معاشرے کی بنیاد اس مواخات کے اصول پر مضبوط کردی جو انصار و مہاجرین کے‬
‫مابین طے کی گئی تھی۔‬

‫یہ ٓاپﷺ کی حکمت کی سب سے اہم مثال ہے جس سے مسلم معاشرے میں استحکام ہوا اور اسے جارحیت کے خالف مجتمع‬
‫ہوکر لڑنے میں مدد دی۔ بحیثیت حکمران ٓاپﷺ کی فکر بے مثال تھی جسے ٓاپ نے ایک نئی فکر کی طرح اس دقِت نظری‬
‫اور دور اندیشی کے بعد قائم کیا کہ ارباب دانش کو ٓاپﷺ کی اس اصابت فکر کے سامنے سرجھکائے بنا چارہ نہ رہا۔ مدینہ‬
‫میں قائم ہونے والے اس جدید مستقر کو ٓاپ نے ایسی وحدت میں منسلک کردیا جو ٓاج تک عرب کے وہم و خیال میں بھی نہ ٓاسکتی‬
‫تھی کئے بغیر چارہ نہیں رہتا کیونکہ مسلمانوں کے درمیان منافق عبدہللا بن ابی کی وجہ سے اختالف پھیالیا جارہا تھا کہ وہ‬
‫ٓاپﷺ کی ٓامد کے وقت بادشاہ بننے واال تھا۔ گو کہ یہ ٓاپﷺ کی فراست و سیاست ہی تھی جس نے منافقین و یہود کی تمام‬
‫ریشہ دوانیوں کے خالف مسلمانوں کو سیسہ پالئی دیوار بنادیامیثاق مدینہ‬

‫نبی کریم ﷺ کی سیاسی پالیسی کی دوسری اہم مثال میثاق مدینہ ہے۔ مواخات میں ٓاپﷺ نے اہالیان مدینہ کو مستحکم کیا؛‬
‫اور اب اہل مدینہ کو بیرونی خطرات سے بچانے کےلیے مسلم اور غیر مسلم کوایک خاص نکتے پر جمع کرنا تھا کیونکہ یہ اس‬
‫وقت کی شدید ضرورت تھی کہ اہل مدینہ‪ ،‬خواہ مسلم ہوں یا یہود‪ ،‬متفق ہوں اور ان کے باہمی اختالفات کو ہوانہ ملے؛ اور بیرون‬
‫مدینہ کے لوگ بھی مدینہ پر حملہ کرنے کی جرٔات نہ کریں۔ ان ہی اغراض و مقاصد کو مِد نظر رکھتے ہوئے حضوِر اکرمﷺ‬
‫نے ہجرت کے چند ہی ماہ بعد ایک دستاویز مرتب فرمائی‪ ،‬جس کے مطابق یہودیوں سے سمجھوتا کرلیا۔ یہ حکمراِن وقت کا ایک‬
‫فرمان تھا‪ ،‬ساتھ ہی تمام لوگوں کا اقرار نامہ بھی تھا‪ ،‬جس پر ان لوگوں کے دستخط تھے۔ اس میں مسلمان اور مشرکین دونوں‬
‫شریک تھے۔ ڈاکٹر حمید ہللا نے اسے پہال تحریری دستور قرار دیا ہے۔‬

‫یہ ٓاپ ﷺ کا سیاسی تدبر ہی تھا جس سے مدینہ کو حفاظت و سکون کے حاالت میسر ٓائے جس سے ایک طرف‬
‫ٓانحضرتﷺ کچھ عرصے تک ان کی مخالفت کے خطرے سے نجات حاصل کرکے اسالم کی ترقی و اشاعت میں مصروف‬
‫ہوئے تو دوسری طرف اندرونی معامالت اور مذہبی ٓازادی برقرار رہنے سے یہودی متاثر ہوئے اور ان کی ساری غلط فہمیاں اور‬
‫خدشات دور ہوگئے اور ایک مرکزی نظام قائم ہوگیا۔ یہودیوں نے ٓانحضرتﷺ کو حکمران تسلیم کرلیا۔ یہ اس معاہدے کی سب‬
‫سے اہم دفعہ اور ٓانحضرتﷺ کی عظیم فتح تھی لفظ میں بیک وقت مذہب اور حکومت‪ ،‬دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے اور یہ‬
‫ایک ایسا اہم امر ہے کہ اسے پیش نظر رکھے بغیر مذہِب اسالم اور سیاسیاِت اسالم کو اچھی طرح نہیں سمجھا جاسکتا۔‬

‫یہی وہ تحریری معاہدہ ہے جس کی رو سے حضرت محمد مصطفیﷺ نے ٓاج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا معاشرتی‬
‫ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے کی ٓازادی کا حق حاصل ہوا۔ اس سے‬
‫انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی‪ ،‬اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی۔ ارتکاِب جرم پر گرفت اور مواخذے نے دباؤ ڈاال اور یہ‬
‫بستی‪ ،‬اس میں رہنے والوں کےلیے امن کا گہوارہ بن گئی۔‬

‫یہ معاہدہ اسالمی ریاست کی بنیاد تھا‪ ،‬یہاں سے حضوِر اکرمﷺ کی زندگی نے نیا رخ اختیار کیا۔ اب تک ٓاپﷺ کے تدبر‬
‫و فراست کے تمام پہلو ایک ایسے مرکز کے قیام کےلیے تھے جہاں سے دعوِت اسالم کی اشاعت و تبلیغ مٔوثر طریقے سے کی‬
‫جاسکے۔ گویآاپﷺ کی سابقہ کوششیں ایک مدبر کی تھیں؛ لیکن اب ٓاپﷺ منتظِم ریاست کے طور پر سامنے ٓائے – اور‬
‫مدینہ میں باقاعدہ اسالمی ریاست کا قیام عمل میں ٓایا۔‬

You might also like