You are on page 1of 11

‫محمد شہزاد علی گجر‪ :‬وت کی ]‪[1/12, 7:39 PM‬‬

‫ے اور اہل‬

‫ورو وان‬

‫ہے تھے‬

‫شان ہو‬

‫والیوں‬

‫اسالمی مذاہب قرار پایا جس کے دور والیت میں اہل عراق نے امویوں کی اطاعت کا چوغا اتار پھینکا۔ عبد الملک بن مروان نے‬
‫اپنے عہد خالفت میں حجاج بن یوسف ایسے سفاک کو عراق کا سورنر مقرر کیا۔ حجاج نے ظلم و جور کے سابقہ تمام ریکارڈ‬
‫مات کر دیئے۔ اس کے تشدد کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ مذہب کو مزید ترقی نصیب ہوئی ۔‬

‫مزید برآں ارض عراق قدیم تہذیب کا گہوارہ تھی ۔ عراق میں ایران و فارس اور کلدانیوں کے علوم وفنون کا عام چرچا تھا۔ ان‬
‫قوموں کی حضارت و تہذیب بھی عام طور سے رائج تھی ۔ یونانی فلسفہ اور ہندی فکار اس پر مزید تھے ۔ سرزمین عراق میں یہ‬
‫افکار و آراء اور تہذیب ہاۓ قدیمہ کے اثرات کھل مل گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عراق کا ملک اکثر اسالمی فرقوں کی جنم‬
‫بھومی بن گیا۔ جہاں اکثر فرقے پھلے پھولے۔ خصوصا ً دو فرقے جن کا تعلق فلسفہ سے تھا۔ اسی بنا پر شیعہ مذہب میں کثرت سے‬
‫فلسفیانہ نظریات گھس آۓ جوارض عراق کے نظری وفکری ماحول سے سازگار تھے۔‬

‫اس سے بڑھ کر یہ کہ سرزمین عراق علمی دراسات کا گہوارہ تھی۔ وہاں کے رہنے والے بڑے ذہین وفطین اور عمق فکر و نظر‬
‫میں ممتاز تھے ۔ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں عراقی اقوام اور ان عربوں میں جو نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے مجھے‪I‬‬
‫یہی فرق نظر آ تا ہے کہ یہ قو میں کوفہ و عراق میں سکونت پذ رتھیں ۔ ارش عراق کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ اس کی مٹی‬
‫سے گمراہ فرقے اور عجیب و غریب مذاہب کے لوگ اٹھتے رہے ہیں۔ اس ملک کے رہنے والے بڑے نکتہ سنج دقیقہ رس اور‬
‫عقائد و افکار سے بحث کرنے والے ہوتے ہیں ۔ شاہان کسری کے ایام میں یہاں مانی دیسان اور مزدک جیسے مشاہیر ہو گزرے‬
‫ہیں ۔ سرزمین حجاز کا خمیر ایسا نہیں اور نہ اہل حجاز الیسا ذہن رکھتے ہیں‘‘۔ یہ بیان اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ عراق‬
‫قدیم زمانہ ہی سے افکار و عقائد کا مرکز و محور رہا ہے ۔ لہذا سیاسی و اعتقادی مذاہب کا ظہور وشیوع اس میں ناگزیر تھا۔ یہ‬
‫بھی‬
‫معلوم ہوا کہ عراق میں شیعہ مذہب کا نشو و ارتقاء چنداں حیرت انگیز نہیں ۔‬

‫ت دنوں‬

‫تھا لہذا‬

‫پ کے‬

‫کو بھی‬

‫نے عہد‬

‫قت کو‬

‫يصال‬

‫مقام‬

‫‪Shot on Y19 Vivo Al camera‬‬

‫‪2022.01.09 20:50‬‬

‫‪: Shot on Y19 mera‬محمد شہزاد علی گجر ]‪[1/12, 7:39 PM‬‬

‫اسالمی مناسب را‬

‫شیعہ مذہب میں قدیم فلسفہ کے اثرات شیعہ مذہب کے معمہ در و مآخذ‬
‫بالشبہ شیعہ ایک اسالمی فرقہ سے مگر عبد ہللا میر سرا کے میر پر حضرت کو کر کے الوہیت کے قائل تھے اسالم سے بہت‬
‫دور نکل گئے۔ یہ کہ درست ہے کہ یہ اپنے تمام الفكار ومعتقدات میں قرآنی نصوص اور احادیث نبویہ سے اختیار کرتے کر کر‬
‫کے اس ان کے نظریات کچھ فلسفیانہ آراء پر بھی مشتمل تھے بیس کا مصدر و مراد علماء شرق و غرب کے نگاہ میں وہ فلسفی و‬
‫دینی مذاہب تھے جو نور اسرم سے بھی پائے جاتے تھے۔ مزید بر آکر شیعہ مذہب اس فارسی تہذیب سے بھی متاثر ہو تھے جو‬
‫شہور کرم سے تر ہوگئے ۔ بعض یورپین مستشرقین جن میں سے پروفیسر ڈار کی بھی ہیں یوسیوں رکھتے اگر کہ شیعہ مذہب‬
‫ایران و قاری کی پیدا وار ہے ۔ ان کے مرد ایک اس کے ایک ہی ہے کہ عربوں کا ایمان انسانی حریت و آزادی پر ہے۔ اس کے‬
‫برعکس اہل کارگر خانوار با دشاہت دحکومت کے معتقد تھے ۔ ان کی نگاہ میں انتخاب خلیفہ کا کور منصب کر لیں ۔ جب نبی کریم‬
‫سیہ کا انتقال ہوا تو آپ کی کوئی نرینہ اوال دمو بور نہ کر ( اگر کا رکھ کے نزد یک نبی کریم سی کے بعد آپ کی نیابت کا حق‬
‫سب سے زیازہ آپ کے ہوا اور بھائی حضرت علی میت کو پہنچتا تھا۔ لہذا جو لوگ بھی آپ کے بعد خلیفہ قرار پائے ۔ مثال‬
‫حضرت ابو بکر وعمر وعثمان من غصب خالفت‪ I‬کے مرتکب ہوۓ گئے۔‬

‫اہل فارس سالتین کو نقدی و طہارت کی نگاہ سے دیکھنے کے بری عادی تھے۔ چنانچہ وہ حضرت علی ہے اور ان کی اوالد کو‬
‫بھی مقدس مانتے تھے اور کہتے تھے کہ امام کے اطاعت فرض اولین ہے اور اس کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے ۔ بعض یورپین‬
‫مستشرقین کا خیال ہے کہ شیعہ نے فارسی تہذیب کی بجاۓ‬

‫محمد شہزاد علی گجر‪ :‬مذاہب یہودیت سے زیادہ استفادہ کیا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ عبدہللا بن سبا جو حضرت ]‪[1/12, 7:39 PM‬‬
‫علی م کی تقدیس کے عقیدہ کا بانی تھا یہودی تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہودی آ ثار کے عالوہ شیعہ مذہب میں بعض ایشیائی‬
‫مذاہب مثال بدھ مت کے عقائد بھی شامل ہیں ۔‬

‫کی‬

‫پنے تمام‬

‫کیا ہمہ‬

‫رب کی‬

‫برال ‪-‬‬

‫ہے کہ‬
‫اندانی‬

‫شیعہ مذہب اور یہودیت غالبا شیعہ مذہب کے یہودیت سے ماخوذ ہونے کا مستشرقین نے امام شعمی اور محدث ابن حزم کے اقوال‬
‫سے اخذ کیا۔ امام شعمی شیعہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ شیعہ اس امت کے یہود ہیں ۔ امام ابن حزم اپنی کتاب الفصل میں‬
‫لکھتے ہیں ۔۔‬

‫شیعہ بھی یہود کی راہ پر چلے جن کا خیال ہے کہ حضرت الیاس اور فنحاس بن عازو این بارون میم اب تک بقید حیات ہیں ۔ اسی‬
‫طرح بعض صوفیہ حضرت‬

‫خضر اور الیاس میم کو تا حال زندہ تصور کرتے ہیں۔ حق بات یہ ہے اور ہمارا اس پر ایمان ہے کہ شیعہ حکومت وسلطنت کے‬
‫موروثی ہونے کے بارے میں فارسی افکار سے متاثر ہوۓ تھے۔ جیسا کہ شیعہ مذہب اور فاری نظم مملکت کی باہمی مماثلت سے‬
‫واضح ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اکثر اہل فارس اب تک شیعہ چلے آتے ہیں ۔ اولین شیعہ بھی فارس کے رہنے والے تھے۔‬
‫یہودیت شیعہ مذہب سے اس لیے قریبی مماثلت رکھتی ہے کہ شیعی فلسفہ مختلف مذاہب سے ماخوذ ہے ۔تشیع پر فارسی تخیالت‬
‫کی چھاپ صاف نمایاں ہے۔ اگر چہ وہ‬

‫اسے اسالمی افکار کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ آج کل اعتدال پسند شیعہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ عبد ہللا بن سبا شیعہ‬
‫تھا۔ وہ اسے شیعہ تو کجا مسلمان بھی نہیں مانتے۔ ہم اس بات میں شیعہ کے ہم نوا ہیں اور ان کے اس دعوی کی تائید کرتے ہیں ۔‬

‫ے دیکھئے السیادۃ العربیہ۔ فصل ج ‪ ۴‬صفحہ‪۱۸۰‬‬

‫محمد شہزاد علی گجر‪ :‬اسالمی مذاہب ]‪[1/12, 7:39 PM‬‬

‫امامیہ اسما عیلیہ‬

‫فرقه اسماعیلیہ‬

‫فرقہ اسماعیلیہ امامیہ کی ایک شاخ ہے ۔ یہ مختلف اسالمی ممالک میں پاۓ جاتے ہیں۔ اسماعیلیہ کسی حد تک جنوبی و وسطی‬
‫افریقہ بالد شام پاکستان اور زیاد و تر انڈیا میں آباد ہیں۔ کسی زمانہ میں یہ بر سر اقتدار بھی تھے۔ فاطمیہ مصر و شام اسماعیلی‬
‫تھے۔ قرامطہ جو تاریخ اسالمی کے ایک دور میں متعدد ممالک پر قابض ہو گئے تھے۔ اس فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔‬

‫اسماعیلیہ کا تعارف‬
‫ی فرقہ اسماعیل بن جعفر کی طرف منسوب ہے۔ یہ آئمہ کے بارے میں امام جعفر صادق تک اثنا عشریہ کے ساتھ متفق ہیں۔ امام‬
‫جعفر صادق کے بعد ان دونوں میں اختالف پایا جا تا ہے ۔ اثنا عشریہ کے نزدیک امام جعفر صادق کے بعد ان کے بیٹے موسی‬
‫کاظم امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس کے برعکس اسماعیلیہ امام جعفر صادق کے بیٹے اسماعیل کو امام قرار دیتے ہیں ۔ ان‬
‫کے نزد یک جعفر صادق کے بعد ان کے فرزند اسماعیل اپنے والد کی نص کی بنا پر امام ہوۓ ۔ اسماعیل کو اپنے والد سے قبل‬
‫فوت ہو گئے نگرنس کا فائدہ یہ ہوا کہ امامت ان کے اخالف میں موجود رہی ۔ کیونکہ امام کی نص کو قابل عمل قرار دینا اس کو‬
‫مہمل کر کے رکھ دینے سے بہتر ہے۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ اقوال امام امامیہ کے یہاں شرعی نصوص کی‬
‫طرح واجب التعمیل ہیں ۔ اسماعیل سے منتقل ہو کر خالفت محمد المکتوم کوملی۔ بی مستور آئمہ میں سے اولین امام تھے۔ امامیہ‬
‫کے نزدیک امام مستور بھی ہوسکتا ہے اور اس کی اطاعت بھی ضروری ہوتی ہے ۔ محمد مکتوم کے بعد ان کے بیٹے جعفر‬
‫مصدق پھر ان کے بیٹے محمد حبیب کو امام قرار دیا‬

‫‪Shot on Y19 Vivo Al camera‬‬

‫‪2022.01.09 20:51‬‬

‫محمد شہزاد علی گجر‪ :‬اسماعیلیہ کی مختصر تاریخ اسالمی مذاہب ‪ -‬بھی کہا جا تا ہے اس کے بعد ان کی اوال ]‪[1/12, 7:39 PM‬‬
‫دمصر کی بادشاہ ہوئی اور یہی فاطمی کہالئے ۔ گیا۔ یہ آخری مستور امام تھے۔ ان کے بعد عبد ہللا مہدی ہوۓ جس کو ملك المغرب‬

‫جاتے‬

‫آباد‬

‫بے خبر‬

‫مون‬

‫دیگر فرقوں کی طرح وہاں تختہ مشق ظلم و ستم بنا انہیں فارس و خراسان اور دیگر اسالمی ممالک دوسرے فرقوں کی طرح شیعہ‬
‫کا یہ فرقہ بھی سرزمین عراق میں پروان چڑھا اور مثال ہندو ترکستان کی طرف بھا گنا پڑا۔ وہاں جا کر ان کے عقائد میں قدیم‬
‫فارسی افکار اور ہندی خیاالت گڈمڈ ہو گئے اور ان میں عجیب وغریب خیاالت کے لوگ پیدا ہونے لگے جو دین کے نام سے اپنی‬
‫مقصد برآری کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعددفرقے‪ I‬اسماعیلیہ کے نام سے موسوم ہو گئے ۔ بعض دینی امور کے اندر محدود ر‬
‫ہے اور بعض اسالم کے اساسی اصولوں کو ترک کر کے اسالم سے باہر نکل گئے ۔ اسماعیلی فرقے کے افراد ہندو برہمنوں‬
‫اشراقی فالسفہ اور بدھ مت والوں سے‬
‫ملے جلے ۔ کلدانیوں اور ایرانیوں میں روحانیت اور کواکب و نجوم سے متعلق جو افکار پاۓ جاتے ہیں وہ بھی اخذ کیے پھر ان‬
‫مختلف النوع افکار ونظریات کا ایک معجون مرکب تیار کیا۔ ایسے لوگ دائرہ اسالم سے بہت دور نکل گئے ۔ بعض اسماعیلیہ نے‬
‫صرف واجبی حد تک ان افکار سے استفادہ کیا اور اسالمی حقائق سے وابستہ رہنے کی کوشش کی ان کے سب سے بڑے داعی‬
‫باطنیہ تھے جو جمہور امت سے کٹ گئے تھے اور اہل سنت کے نظریات سے انہیں کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ جس قدر حقائق کو‬
‫چھپاتے تھے اس قدر عام مسلمانوں سے دور نکلتے جاتے تھے۔ ان کے جذ بہ اختفاء کا یہ عالم تھا کہ خطوط لکھتے وقت اپنا نام‬
‫نہیں لکھتے تھے۔ مثال کے طور پر رسائل اخوان الصفاء باطنیہ کی کاوش قلم کا نتیجہ ہیں ۔ یہ رسائل بڑے مفید علمی معلومات پر‬
‫مشتمل ہیں اور ان میں بڑے عمیق فلسفہ پر خیال آرائی کی گئی ہے مگر یہ نہیں پتہ چلتا کہ کن علماء نے ان کی تسوید وتحریر‬
‫میں حصہ لیا۔‬

‫اسماعیلیہ کو باطنیہ کے نام سے موسوم کرنے کی وجوہات اسماعیلیہ کو باطنسہ یا باطنیین بھی کہتے ہیں۔ اسماعیلیہ کو یہ لقب اس‬
‫لیے مال کہ میں‬

‫سرزند‬

‫دیا‬

‫‪Shot on Y19 Vivo Al camera‬‬

‫‪2022.01.09 20:51‬‬

‫محمد شہزاد علی گجر‪ :‬اسالمی مذاہب اپنے معتقدات کو لوگوں سے چھپانے کی کوشش کرتے تھے ۔ اسماعیلیہ ]‪[1/12, 7:39 PM‬‬
‫میں اختفاء کا رجحان پہلے پہل جو روستم کے ڈر سے پیدا ہوا اور پھر ان کی عادت ثانیہ بن گئی۔ اسماعیلیہ کے ایک فرقہ‬
‫کوحشاشین ( بھنگ نوش ) بھی کہتے ہیں ۔ جن کی کرتوتوں کا انکشاف صلیبی جنگوں اور حملہ تا تار کے آغاز میں ہوا۔ اس فرقہ‬
‫کے اعمال قبیحہ کی بدولت اس دور میں اسالم اور مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچا۔ ان کو باطنیہ کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ یا‬
‫کثر حاالت میں امام کو مستور مانتے ہیں ۔‬

‫ان کی راۓ میں مغرب میں ان کی سلطنت کے قیام کے زمانہ تک امام مستور رہا۔ یہ حکومت پھر مصر منتقل ہوگئی ۔ ان کو‬
‫باطنیہ ان کے اس قول کی وجہ سے بھی کہا جا تا ہے کہ شریعت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ۔ لوگوں کو صرف ظواہر‬
‫شریعت کا علم ہے۔ باطن کا علم صرف امام کو معلوم ہوتا ہے بلکہ امام باطن الباطن سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔ اسی عقیدہ کے تحت‬
‫باطنیہ الفاظ قرآن کی بڑی دور از کار تاویلیں کرتے ہیں ۔ بعض نے تو عربی الفاظ کو بھی عجیب و غریب تاویالت کا جامہ پہنا‬
‫دیا۔ ان تاویالت بعیدہ اور اسرار امام کو وہ علم باطن کا نام دیتے ہیں۔ ظاہر و باطن کے اس چکر میں اثناعشریہ بھی باطنیہ کے ہم‬
‫نوا ہیں ۔ بہت سے صوفیاء نے بھی باطنی علم کا عقیدہ اسماعیلیہ سے اخذ کیا۔ بہر کیف اسماعیلیہ اپنے عقائد کو پس پردہ رکھنے‬
‫کی کوشش کرتے اور مصلحت‬
‫وقت کے تحت بعض افکار کو منکشف کرتے ۔ باطنیہ کے اخفاء عقائد کا یہ عالم تھا کہ مشرق ومغرب میں برسراقتدار ہونے کے‬
‫دوران بھی وہ اپنے افکار و آراء کو ظاہر نہیں‬

‫کرتے تھے۔‬

‫باطنیہ کے اصول اساسی اعتدال پسند باطنیہ کے افکار و آراء دراصل تین امور پر بنی تھے۔ ان سب میں اثناعشر میدان کے ساتھ‬
‫برابر کے شریک ہیں۔‬

‫‪Shot on Y19 Vivo Al camera‬‬

‫‪2022.01.09 20:51‬‬

‫محمد شہزاد علی گجر‪ :‬اسالمی مذاہب وہ عام انسانوں کے لیے باالۓ اوراک ہوتا ہے ۔ علم و معرفت کا وہ ]‪[1/12, 7:39 PM‬‬
‫فیضان الہی جس کی بنا پر آ کر فضیات و عظمت اورعلم والطفل میں دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں علم و معرفت کا یہ علیہ ان‬
‫کی کی خصوصیات ہے جس میں کوئی دوسرا فرد بشر ان کا کنیم و شریک نہیں ۔ جولم نہیں دیا جاتا ہے‬

‫اس کی اطاعت ضروری ہوتی ۔ امام کا ظاہر ہونا ضروری نہیں بلکہ وہ مستور بھی ہوتا ہے اور اس حالت میں بھی تی ہے ۔ امام‬
‫ہی لوگوں کا ہاری اور پیشوا ہوتا ہے ۔ کی زمانہ میں اگر وہ ظاہر نہ بھی ہو تو کسی نہ کسی وقت وہ ظاہر ہو گا ۔ قیام قیامت سے‬
‫قبل امام کا منظر عام پر آنا ان کے نقطہ نگاہ کے مطابق ضروری ہے۔ امام جب ظاہر ہو گا تو کائنات عالم پر عدل و انصاف کا‬
‫دور دورہ ہو جاۓ گا ۔ جس طرح اس کی عدم موجودگی میں جورواستبداد کا سکہ جاری رہتا تھا اب اسی طرح ہر ۔ طرف عدل و‬
‫انصاف کی کارفرمائی ہوگی ۔ امام کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا اور اس کے افعال کیسے بھی ہوں کسی کو ان پر خردہ گیری‬
‫اور انگشت نمائی کا حق حاصل نہیں ۔ بلکہ سب کے لیے امام کے افعال پر مہر تصدیق ثبت کرنا اور ان کو نیکی پر محمول کرنا‬
‫واجب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام جس علم سے بہرہ ور ہے سب لوگ اس سے محروم ہیں ۔ اس سے انہوں نے عصمت آئمہ‬
‫کا عقیدہ گھڑا۔ ان کے نزدیک اماموں کے معصوم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ جو گناہ ہمیں معلوم ہیں آئمہ ان کا ارتکاب نہیں کرتے‬
‫بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جن باتوں کو ہم گناہ تصور کرتے ہیں وہ ان کے مخصوص علم کی روشنی میں ان کے لیے جائز‬
‫اور مہات‪ I‬ہوتے ہیں ۔‬

‫فرقه حاکمیه و دروز‬

‫باطنیہ کے ذکر کرد و افکار کے بعض گوشے ایسے ہیں جنہیں کفر صریح سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ‬
‫سکتے ہیں کہ کتاب وسنت میں ان کا ذکر نہیں پایا‬

‫‪Shot on Y19 Vivo Al camera‬‬


‫‪2022.01.09 20:51‬‬

‫محمد شہزاد علی گجر‪ ۱۰۸ :‬اسالمی مذاہب جاتا اگر چہ اکثر باطنیہ یہی عقائد رکھتے تھے تاہم کچھ ایسے ]‪[1/12, 7:39 PM‬‬
‫لوگ بھی تھے جنہوں نے اسالمی احکام کے جوا کو ہی اتار پھینکا اور اس کی حدود کو پھاند گئے ۔ باطنیہ کے عقائد باطلہ کے‬
‫زیر سایہ حا کمیہ کا فرقہ پروان چڑھا۔ حاکمیہ ایک عالی فرقہ تھا جو اسالمی حدود سے بہت آگے نکل گیا۔ بعض حاکمیہ نے‬
‫اشراق الہی کے معنی ومفہوم میں اس حد تک اغراق و مبالغہ سے کام لیا کہ وہ آئمہ کی ذات میں حلول باری تعالی کے قائل ہو‬
‫گئے۔ ان غالی شیعہ کا سرغنہ حاکم بامر ہللا فاطمی تھا جو کہا کرتا تھا کہ ذات خداوندی اس میں حلول کر آئی ہے اور وہ لوگوں‬
‫کو اپنی عبادت کی دعوت دیا کرتا تھا وہ روپوش ہو گیا تھا اور اس حالت میں اس کی موت واقع ہوئی۔ بعض کہتے ہیں و قتل کر‬
‫دیا گیا تھا۔ میچ ترسی ہے کہ اس کے کسی رشتہ دار نے اسے قتل کر دیا تھا۔ اس کے پیرو اس کی موت کو تسلیم نہیں کرتے تھے‬
‫اور کہتے تھے کہ وہ اٹھایا گیا ہے اور لوٹ کر آۓ گا۔ اس فرقہ کو حا کمیہ کہا‬

‫جاتا ہے۔ فرقہ دروز کے لوگ زیادہ تر شام میں پاۓ جاتے تھے۔ حاکمیہ کے ساتھ ان کے گہرے مراسم تھے۔ بعض مؤرخین کا‬
‫خیال ہے کہ ایک فارسی شخص’’حمزہ الدروزی‘‘ نے حاکم بامر ہللا کو یہ عقائد باطلہ سکھاۓ اور یہ فرقہ اس کی طرف منسوب‬
‫ہے۔ اس فرقہ کے باقی ماندہ افراد کا کچھ پہ نہیں کیونکہ دو کسی کو اپنے اعمال و عقائد سے آگاہ نہیں کرتے ۔ وهللا اعلم بحقيقة‬
‫الحال۔‬

‫فرقہ نصیریہ ملک شام میں حاکمیہ کے گرد ونواح میں ایک غالی فرقہ اور بھی تھا جسے نصیر یہ کہتے ہیں ۔ اگر چہ یہ‬
‫اسماعیلیہ کی جانب منسوب تھے تاہم اسالمی حدود سے تجاوز کرنے اور اسالمی احکام کی اطاعت کا چوغا اتار پھینکنے میں ان‬
‫کے ہم نوا تھے۔ اس فرقہ کے افراد نے بھی ان نالی اسماعیلیہ کے زیر اثر تربیت پائی تھی جو اسالمی احکام کی اطاعت سے آزاد‬
‫تھے۔‬

‫‪Shot on Y19 Vivo Al camera‬‬

‫‪2022.01.09 20:52‬‬

‫محمد شہزاد علی گجر‪ :‬اسالمی مذاہب ]‪[1/12, 7:41 PM‬‬

‫شیعہ‬

‫شیعہ کی اجمالی تعریف شیعہ مسلمانوں کے سیاسی فرقوں میں سے قدیم ترین فرقہ ہے۔ ہم قبل از میں بیان کر چکے ہیں کہ فرقہ‬
‫شیعہ کا ظہور حضرت عثمان ﷺ کے عہد خالفت‪ I‬کے آخری دور میں ہوا اور حضرت علی کے عہد خالفت میں بھال پھوال ۔‬
‫حضرت علی ﷺ جب لوگوں سے ملتے تو وہ آپ کی خدا داد صالحیتوں اور قوت دین وعلم سے متاثر ہوتے ۔ شیعہ مذہب کے‬
‫داعیوں نے اس سے فائدہ اٹھانا چاہا اور لوگوں میں آپ کے فضائل و مناقب بیان کرنے شروع کیے۔ ان کی بعض باتیں مبالغہ آمیز‬
‫ہوتیں اور بعض مبنی بر اعتدال ۔ جب اموی دور میں اوال دعلی ﷺﷺ کو ظلم وستم کی آماجگاہ بنایا گیا اور لوگوں نے یہ مظالم‬
‫اپنی آنکھوں سے دیکھے تو لوگ اوالد رسول ﷺ کی سی مظلومی دیکھنے کی تاب نہ ال سکے۔ اس سے شیعہ مذہب کا دائرہ‬
‫وسیع ہوا اور اس کے اعوان و انصار میں اضافہ ہونے لگا۔‬

‫فرقہ شیعہ اور ابن خلدون فلسفہ تاریخ کے بانی ابن خلدون نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں شیعہ مذہب کے متعلق ان خیاالت کا‬
‫‪ :‬اظہار کیا ہے وہ لکھتے ہیں‬

‫شیعہ کی نگاہ میں امامت کا مسئلہ اس نوع کو نہیں کہ اس کا تعلق امت کی فالح و بہبود سے ہو اور وہ جسے چاہیں خلیفہ بنالیں‬
‫بلکہ یہ مسئلہ دین اسالم کا رکن رکین اور اصل االصول ہے جس سے بے اعتنائی برتنا اور اسے امت کی جانب تفویش کرنا کسی‬
‫نبی کے لیے بھی جائز نہیں۔ نہیں پر امام کا مقرر کرنا واجب ہے۔ امام کبائر وصغائر سے معصوم ہوتا ہے۔ تمام شیعہ اس بات پر‬
‫“ متفق ہیں کہ حضرت علی نبی کریم ﷺﷺ کے خلیفہ مختار اور افضل الصحابہ تھے‬

‫‪Shot on Y19 Vivo Al camera‬‬

‫‪2022.01.09 20:49‬‬

‫محمد شہزاد علی گجر‪ :‬اسالمی مذاہب ا و روایات میں آتا ہے کہ بعض صحابہ حضرت علی بت کو فضل ]‪[1/12, 7:41 PM‬‬
‫الصحابہ قرار دینے میں شیعہ کے ہم نوا تھے ابن ابی الحدید جو ایک اعتدال پسند شیعہ عالم تھا لکھتا ہے کہ صحابہ میں مندرجہ‬
‫ذیل حضرات حضرت علی ﷺﷺ کو افضل الصحا بہ تسلیم کرتے تھے۔ عمار بن یاسر مقداد بن االسود ( ابو ذرغفاری ) سلمان‬
‫ابوالہیثم بن تیہان ‪ H‬سہل بن حنیف ) عثمان بن حنیف ‪ M‬فارسی ) جابر بن عبد ہللا ) ابي بن کعب حذیفہ ) بریده ) ابو ایوب انصاری‬
‫ابو الطفیل عامر بن واثلہ ( عباس بن عبدالمطلب اور ان کے بیٹے ۔ نیز تمام بنی ہاشم حضرت علی ﷺﷺ کو افضل سمجھتے تھے‬
‫۔ ابن ابی الحدید سے بھی لکھتے ہیں کہ حضرت زبیر سے پہلے تفضیل علی کے قائل تھے پھر اس سے رجوع کر لیا۔ یہ بھی بیان‬
‫کیا جا تا ہے کہ بعض بنو امیہ بھی حضرت علی ﷺﷺ کو افضل تسلیم کرتے تھے۔ سعید ابن العاص بھی انہی میں سے تھے۔‬

‫شیعہ میں اختالف مدارج سب شیعہ ایک ہی قسم کے نہ تھے۔ بعض غالی تھے جو حضرت علی ﷺﷺ اور ان کی اوالد کی‬
‫تعریف میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتے۔ بعض اعتدال پسند تھے جو تفضیل علی میشن کے باوصف کسی صحابی کو کافر نہ‬
‫کہتے ۔ نہ حضرت علی ﷺ کو تقدس کا وہ درجہ دیتے جس سے آپ کا فوق البشر ہونا الزم آۓ ۔‬

‫ابن ابی ہللا میں اعتدال پسند شیعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے‪ :‬مسئلہ امامت و خالفت میں ہمارے اصحاب (شیعہ ) ہی فالح و‬
‫نجات کی راہ پر گامزن تھے کیونکہ وہ اعتدال پسند تھے اور مبالغہ آمیزی سے کام نہیں لیتے تھے۔ وہ کہتے تھے حضرت علی‬
‫ﷺﷺ آخرت میں افضل الخلق ہوں گے اور آپ کا مقام جنت میں سب سے بلند ہو گا۔ آپ دنیا میں بھی افضل الخلق ہیں اور کوئی‬
‫شخص فضائل و مناقب‪ I‬میں آپ کا ہم پلہ نہیں ہے۔ آپ سے لڑنے واال اور بغض و عداوت رکھنے واال خدا کا دشمن ہے۔ اگر ایسا‬
‫شخص تو بہ کیے بغیر مر جاۓ تو کفار و منافقین کے ساتھ ابدی جہنمی ہوگا۔ جہاں تک ان‬

‫‪Shot on Y19 Vivo Al camera‬‬


‫‪2022.01.09 20:49‬‬

‫محمد شہزاد علی گجر‪ :‬اسالمی مذاہب و فضل ترین مہاجرین صحابہ کا تعلق ہے جو حضرت علی نے سے ]‪[1/12, 7:41 PM‬‬
‫قبل مسند خالفت پر فائز ہوۓ اگر حضرت علی ان کی خالفت سے انکار کرتے ان پر اظہار غیض د غضب کرتے عالوہ اس کے‬
‫کہ آپ ان کے خالف تلوار اٹھاتے یا ان کو اپنی خالفت‪ I‬کی طرف دعوت دیتے تو ہم کہتے کہ یہ صحابہ تباہی و بربادی سے‬
‫ہمکنار ہوۓ اور یوں سمجھیں کہ گویا یہ نبی کریم ملﷺ کے غریظ وغضب کا مورد بنے ۔ کیونکہ آپ ہی نے فرمایا تھا کہ اے‬
‫علی! تجھ سے لڑنا مجھ سے لڑنے کے مترادف ہے اور تجھ سے صلح کرنا میرے ساتھ مصالحت کرنا ہے۔ آنحضرت ﷺﷺ نے‬
‫یہ بھی فرمایا تھا کہ اے ہللا ! جو علی سے دوستی رکھتے تو اسے دوست رکھ اور جو علی کا دشمن ہوا سے دشمن تصور کر ۔‬
‫ایک دوسرے موقع پر ارشاد فر مایا‪’’ :‬اے علی ! تجھے مومن ہی چاہتا ہے اور تجھ سے بغض وہی رکھتا ہے جس کے مگر ان‬
‫میں سے کوئی بات بھی نہیں ہوئی بلکہ حضرت علی ﷺﷺ نے ( بزرگان دل میں نفاق ہوتا ہے۔ ثالثہ ) کی امامت کو پسند فرمایا‬
‫ان کی بیعت کی ان کی اقتداء میں نماز پڑھی نکاح کے لیے ان کور شتے دیئے اور ان کا حاصل کردہ مال غنیمت استعمال کیا۔ آپ‬
‫کے فعل سے تجاوز کرنا ہمارا شیوہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ اس بات سے آگے بڑھنا مناسب ہے جو آپ کے متعلق مشہور ہے۔ کیا‬
‫آپ کو معلوم نہیں کہ جب آپ ( حضرت علی ) نے حضرت معاویہ سین سے اظہار بیزاری کیا تو ہم بھی ان سے بیزار ہو گئے‬
‫اور جب آپ نے حضرت معاویہ پرلعنت بھیجی تو ہم نے بھی انہیں ملعون ( العیاذ باہلل ) قرار دیا۔ جب آپ نے شام میں رہنے والے‬
‫باقی ماندہ صحابہ مثال عمرو بن العاص اور ان کے بیٹے عبدہللا اور دیگر صحابہ کو گمراہ قرار دیا تو ہم بھی ان کو گمراہ تصور‬
‫کرنے لگے۔ ہمارے مسلک کا حاصل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺﷺ اور حضرت علی اینڈ کے مابین صرف رسالت و نبوت کا فرق‬
‫تھا۔ اس کے عالوہ دیگر فضائل و فواضل ان‬

‫‪Shot on Y19 Vivo Al camera‬‬

‫‪2022.01.09 20:50‬‬

‫محمد شہزاد علی گجر‪ :‬اسالمی مذاہب کے دونوں میں مشترک طور پر پائے جاتے تھے ۔ لہذا ہم ان اکابر ]‪[1/12, 7:41 PM‬‬
‫صحابہ کے بارے میں طعن نہیں کرتے جن پر حضرت علی چین نے طعن نہیں کیا‘‘ ۔ (شرح‬

‫) نہج البالغه ابن ابی الحدید میلد سوم‬

‫وہ زمان و مکان جہاں شیعہ مذہب پروان چڑھا خالفت عثمانی کے اواخر میں شیعہ مذہب معرض ظہور میں آیا اور حضرت علی‬
‫دایی کے عہد خالفت‪ I‬میں پروان چڑھا۔ بغیر اس کے کہ آپ نے اس کی نشو و ارتقاء میں کوئی حصہ لیا ہو۔ البتہ آپ کی خداداد‬
‫صالحیتیں از خود شیعہ مذہب کی جانب دعوت دیتی تھیں ۔ جب آپ اپنے رب سے جا ملے تو شیعہ مذہب کئی فرقوں میں بٹ گیا۔‬
‫بعض غالی تھے اور بعض اعتدال پسند ۔ مگر دونوں قسم کے شیعہ اہل بیت سے شدید محبت رکھنے اور ان کی طر فراری میں‬
‫ایک دوسرے کے ہم نوا تھے۔ اموی دور خالفت حضرت علی ﷺﷺ کے اعزاز و احترام میں مزید اضافہ کا موجب ہوا۔ اس کی‬
‫وجہ یہ ہوئی کہ حضرت معاویہ نے اپنے عہد خالفت میں ایک بدترین سنت کو ایجاد کیا جو ان کے بیٹے یزید اور ان کے بعد آنے‬
‫والے خلفاء میں حضرت عمر بن عبد العزیز ﷺ کے زمانہ تک باقی رہی ۔ وہ سنت قبیحہ سیتھی کہ خطبہ پڑھنے کے بعد حضرت‬
‫علی ﷺ پر لعنت بھیجی جاتی تھی جو سحا بہ اس وقت بقید حیات تھے انہوں نے اسے نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور‬
‫حضرت معاویہ اور اموی خلفاء کو اس سے منع کیا ۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ پانا نے حضرت معاویہ کو اس مضمون پر‬
‫مشتمل ایک خط لکھا۔‬
‫جب تم منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی ﷺ اور ان کے احباب پر لعنت بھیجتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ہللا و رسول ”‬
‫کو ملعون قرار دیتے ہو۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ نبی کریم مالم حضرت علی نے کو چاہتے تھے ۔ اس سے بڑھ کر یزید کے عہد‬
‫خالفت میں حضرت حسین بن علی نے شہید کر دیئے گئے جن کے بارے میں آنحضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ حسن اور حسین‬
‫( ن ) نوجوانان جنت کے سردار ہیں ۔ آپ کا خون ضائع کیا اور قصاص بھی نہ لیا گیا۔ نہ دین متین کی‬

‫‪Shot on Y19 Vivo Al camera‬‬

‫‪2022.01.09 20:50‬‬

‫محمد شہزاد علی گجر‪ :‬جاتا ہے۔ لوگوں نے یہ مظالم اپنی آنکھوں سے مالحظہ کیے مگر مجبوراً خاموش ہور ]‪[1/12, 7:41 PM‬‬
‫ہے اور اہل بیت کی امداد کے لیے کچھ نہ کر سکے۔ تاہم ان کے غم و رنج کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وان لوگوں کو مزید اکرام و‬
‫احترام کی نگاہ سے دیکھنے لگے جن پر اموی یہ مظالم ڈھا رہے تھے جور و استبداد کا نتیجہ ہمیشہ یہی ہوا کرتا ہے۔ جب مظلوم‬
‫کی حمایت کے لیے لطف و کرم کے جذبات حرکت میں آتے ہیں تو طبعا اس سے مظلوم کی عزت و عظمت میں اضافہ ہو‬

‫رای اسالمی مذاہب حرمت کا کچھ خیال رکھا گیا۔ حضرت حسین وعلی کی بیٹیاں قیدی ہو کر دربار یزید میں پہنچائی گئیں حاالنکہ‬
‫میں آپ مریم کی نواسیاں ہونے کے اعتبار سے خانوادہ نبوت میں داخل تھیں ۔‬

‫سرزمین عراق شیعیت کا گہوارہ شیعہ مذہب نے شروع میں سرزمین مصر میں پر پرزے نکالے۔ شیعہ داعیوں نے اس عالقہ کو‬
‫شروع میں اپنے لیے بڑا سازگار پایا۔ پھر عراق میں جا ڈیرہ لگایا۔ شیعہ مذہب کے لیے عراق کی سرزمین بڑی راس آئی ۔ مکہ‬
‫مدینہ اور دیگر بالد حجاز ان دنوں حدیث نبوی کا مورد وسکن تھے۔ ملک شام بنو امیہ کے احباب و انصار کا مستقر تھا لہذا عراق‬
‫سے بہتر شیعہ کے لیے اور کوئی جگہ بیٹھی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عراق شیعہ فرقہ کا گہوارہ کیونکر قرار پایا ؟‬

‫اس کے متعدد وجوہات تھے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ حضرت علی اپنی مدت خالفت میں کوفہ میں مقیم رہے وہاں لوگوں سے‬
‫ملے جلے لوگوں نے بچشم خود آپ کے اوصاف جلیلہ مشاہدہ کیے جو موجب اعزاز و احترام تھے۔ اہل عراق نے بنوامیہ کو کبھی‬
‫الفت و محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ اس کے زیر اثر حضرت معاویہ نے اپنے عہد خالفت میں زیاد جیسے جابر شخص کو‬
‫عراق کا والی مقرر کیا۔ زیاد نے اہل عراق کی مخالفت کو ظاہر نہ ہونے دیا تاہم وہ لوگوں کے دلوں سے نفرت و حقارت کے‬
‫جذبات کا استیصال نہ کر سکا۔ یزید بن معاویہ کے عہد خالفت میں زیاد کا بیٹا عبید ہللا اپنے والد کا قائم مقام‬

‫‪Shot on Y19 Vivo Al camera‬‬

‫‪2022.01.09 20:50‬‬

You might also like