Professional Documents
Culture Documents
ے اور اہل
ورو وان
ہے تھے
شان ہو
والیوں
اسالمی مذاہب قرار پایا جس کے دور والیت میں اہل عراق نے امویوں کی اطاعت کا چوغا اتار پھینکا۔ عبد الملک بن مروان نے
اپنے عہد خالفت میں حجاج بن یوسف ایسے سفاک کو عراق کا سورنر مقرر کیا۔ حجاج نے ظلم و جور کے سابقہ تمام ریکارڈ
مات کر دیئے۔ اس کے تشدد کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیعہ مذہب کو مزید ترقی نصیب ہوئی ۔
مزید برآں ارض عراق قدیم تہذیب کا گہوارہ تھی ۔ عراق میں ایران و فارس اور کلدانیوں کے علوم وفنون کا عام چرچا تھا۔ ان
قوموں کی حضارت و تہذیب بھی عام طور سے رائج تھی ۔ یونانی فلسفہ اور ہندی فکار اس پر مزید تھے ۔ سرزمین عراق میں یہ
افکار و آراء اور تہذیب ہاۓ قدیمہ کے اثرات کھل مل گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عراق کا ملک اکثر اسالمی فرقوں کی جنم
بھومی بن گیا۔ جہاں اکثر فرقے پھلے پھولے۔ خصوصا ً دو فرقے جن کا تعلق فلسفہ سے تھا۔ اسی بنا پر شیعہ مذہب میں کثرت سے
فلسفیانہ نظریات گھس آۓ جوارض عراق کے نظری وفکری ماحول سے سازگار تھے۔
اس سے بڑھ کر یہ کہ سرزمین عراق علمی دراسات کا گہوارہ تھی۔ وہاں کے رہنے والے بڑے ذہین وفطین اور عمق فکر و نظر
میں ممتاز تھے ۔ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں عراقی اقوام اور ان عربوں میں جو نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے مجھےI
یہی فرق نظر آ تا ہے کہ یہ قو میں کوفہ و عراق میں سکونت پذ رتھیں ۔ ارش عراق کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ اس کی مٹی
سے گمراہ فرقے اور عجیب و غریب مذاہب کے لوگ اٹھتے رہے ہیں۔ اس ملک کے رہنے والے بڑے نکتہ سنج دقیقہ رس اور
عقائد و افکار سے بحث کرنے والے ہوتے ہیں ۔ شاہان کسری کے ایام میں یہاں مانی دیسان اور مزدک جیسے مشاہیر ہو گزرے
ہیں ۔ سرزمین حجاز کا خمیر ایسا نہیں اور نہ اہل حجاز الیسا ذہن رکھتے ہیں‘‘۔ یہ بیان اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ عراق
قدیم زمانہ ہی سے افکار و عقائد کا مرکز و محور رہا ہے ۔ لہذا سیاسی و اعتقادی مذاہب کا ظہور وشیوع اس میں ناگزیر تھا۔ یہ
بھی
معلوم ہوا کہ عراق میں شیعہ مذہب کا نشو و ارتقاء چنداں حیرت انگیز نہیں ۔
ت دنوں
تھا لہذا
پ کے
کو بھی
نے عہد
قت کو
يصال
مقام
2022.01.09 20:50
: Shot on Y19 meraمحمد شہزاد علی گجر ][1/12, 7:39 PM
شیعہ مذہب میں قدیم فلسفہ کے اثرات شیعہ مذہب کے معمہ در و مآخذ
بالشبہ شیعہ ایک اسالمی فرقہ سے مگر عبد ہللا میر سرا کے میر پر حضرت کو کر کے الوہیت کے قائل تھے اسالم سے بہت
دور نکل گئے۔ یہ کہ درست ہے کہ یہ اپنے تمام الفكار ومعتقدات میں قرآنی نصوص اور احادیث نبویہ سے اختیار کرتے کر کر
کے اس ان کے نظریات کچھ فلسفیانہ آراء پر بھی مشتمل تھے بیس کا مصدر و مراد علماء شرق و غرب کے نگاہ میں وہ فلسفی و
دینی مذاہب تھے جو نور اسرم سے بھی پائے جاتے تھے۔ مزید بر آکر شیعہ مذہب اس فارسی تہذیب سے بھی متاثر ہو تھے جو
شہور کرم سے تر ہوگئے ۔ بعض یورپین مستشرقین جن میں سے پروفیسر ڈار کی بھی ہیں یوسیوں رکھتے اگر کہ شیعہ مذہب
ایران و قاری کی پیدا وار ہے ۔ ان کے مرد ایک اس کے ایک ہی ہے کہ عربوں کا ایمان انسانی حریت و آزادی پر ہے۔ اس کے
برعکس اہل کارگر خانوار با دشاہت دحکومت کے معتقد تھے ۔ ان کی نگاہ میں انتخاب خلیفہ کا کور منصب کر لیں ۔ جب نبی کریم
سیہ کا انتقال ہوا تو آپ کی کوئی نرینہ اوال دمو بور نہ کر ( اگر کا رکھ کے نزد یک نبی کریم سی کے بعد آپ کی نیابت کا حق
سب سے زیازہ آپ کے ہوا اور بھائی حضرت علی میت کو پہنچتا تھا۔ لہذا جو لوگ بھی آپ کے بعد خلیفہ قرار پائے ۔ مثال
حضرت ابو بکر وعمر وعثمان من غصب خالفت Iکے مرتکب ہوۓ گئے۔
اہل فارس سالتین کو نقدی و طہارت کی نگاہ سے دیکھنے کے بری عادی تھے۔ چنانچہ وہ حضرت علی ہے اور ان کی اوالد کو
بھی مقدس مانتے تھے اور کہتے تھے کہ امام کے اطاعت فرض اولین ہے اور اس کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے ۔ بعض یورپین
مستشرقین کا خیال ہے کہ شیعہ نے فارسی تہذیب کی بجاۓ
محمد شہزاد علی گجر :مذاہب یہودیت سے زیادہ استفادہ کیا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ عبدہللا بن سبا جو حضرت ][1/12, 7:39 PM
علی م کی تقدیس کے عقیدہ کا بانی تھا یہودی تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہودی آ ثار کے عالوہ شیعہ مذہب میں بعض ایشیائی
مذاہب مثال بدھ مت کے عقائد بھی شامل ہیں ۔
کی
پنے تمام
کیا ہمہ
رب کی
برال -
ہے کہ
اندانی
شیعہ مذہب اور یہودیت غالبا شیعہ مذہب کے یہودیت سے ماخوذ ہونے کا مستشرقین نے امام شعمی اور محدث ابن حزم کے اقوال
سے اخذ کیا۔ امام شعمی شیعہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ شیعہ اس امت کے یہود ہیں ۔ امام ابن حزم اپنی کتاب الفصل میں
لکھتے ہیں ۔۔
شیعہ بھی یہود کی راہ پر چلے جن کا خیال ہے کہ حضرت الیاس اور فنحاس بن عازو این بارون میم اب تک بقید حیات ہیں ۔ اسی
طرح بعض صوفیہ حضرت
خضر اور الیاس میم کو تا حال زندہ تصور کرتے ہیں۔ حق بات یہ ہے اور ہمارا اس پر ایمان ہے کہ شیعہ حکومت وسلطنت کے
موروثی ہونے کے بارے میں فارسی افکار سے متاثر ہوۓ تھے۔ جیسا کہ شیعہ مذہب اور فاری نظم مملکت کی باہمی مماثلت سے
واضح ہوتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اکثر اہل فارس اب تک شیعہ چلے آتے ہیں ۔ اولین شیعہ بھی فارس کے رہنے والے تھے۔
یہودیت شیعہ مذہب سے اس لیے قریبی مماثلت رکھتی ہے کہ شیعی فلسفہ مختلف مذاہب سے ماخوذ ہے ۔تشیع پر فارسی تخیالت
کی چھاپ صاف نمایاں ہے۔ اگر چہ وہ
اسے اسالمی افکار کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ آج کل اعتدال پسند شیعہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ عبد ہللا بن سبا شیعہ
تھا۔ وہ اسے شیعہ تو کجا مسلمان بھی نہیں مانتے۔ ہم اس بات میں شیعہ کے ہم نوا ہیں اور ان کے اس دعوی کی تائید کرتے ہیں ۔
فرقه اسماعیلیہ
فرقہ اسماعیلیہ امامیہ کی ایک شاخ ہے ۔ یہ مختلف اسالمی ممالک میں پاۓ جاتے ہیں۔ اسماعیلیہ کسی حد تک جنوبی و وسطی
افریقہ بالد شام پاکستان اور زیاد و تر انڈیا میں آباد ہیں۔ کسی زمانہ میں یہ بر سر اقتدار بھی تھے۔ فاطمیہ مصر و شام اسماعیلی
تھے۔ قرامطہ جو تاریخ اسالمی کے ایک دور میں متعدد ممالک پر قابض ہو گئے تھے۔ اس فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔
اسماعیلیہ کا تعارف
ی فرقہ اسماعیل بن جعفر کی طرف منسوب ہے۔ یہ آئمہ کے بارے میں امام جعفر صادق تک اثنا عشریہ کے ساتھ متفق ہیں۔ امام
جعفر صادق کے بعد ان دونوں میں اختالف پایا جا تا ہے ۔ اثنا عشریہ کے نزدیک امام جعفر صادق کے بعد ان کے بیٹے موسی
کاظم امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس کے برعکس اسماعیلیہ امام جعفر صادق کے بیٹے اسماعیل کو امام قرار دیتے ہیں ۔ ان
کے نزد یک جعفر صادق کے بعد ان کے فرزند اسماعیل اپنے والد کی نص کی بنا پر امام ہوۓ ۔ اسماعیل کو اپنے والد سے قبل
فوت ہو گئے نگرنس کا فائدہ یہ ہوا کہ امامت ان کے اخالف میں موجود رہی ۔ کیونکہ امام کی نص کو قابل عمل قرار دینا اس کو
مہمل کر کے رکھ دینے سے بہتر ہے۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ اقوال امام امامیہ کے یہاں شرعی نصوص کی
طرح واجب التعمیل ہیں ۔ اسماعیل سے منتقل ہو کر خالفت محمد المکتوم کوملی۔ بی مستور آئمہ میں سے اولین امام تھے۔ امامیہ
کے نزدیک امام مستور بھی ہوسکتا ہے اور اس کی اطاعت بھی ضروری ہوتی ہے ۔ محمد مکتوم کے بعد ان کے بیٹے جعفر
مصدق پھر ان کے بیٹے محمد حبیب کو امام قرار دیا
2022.01.09 20:51
محمد شہزاد علی گجر :اسماعیلیہ کی مختصر تاریخ اسالمی مذاہب -بھی کہا جا تا ہے اس کے بعد ان کی اوال ][1/12, 7:39 PM
دمصر کی بادشاہ ہوئی اور یہی فاطمی کہالئے ۔ گیا۔ یہ آخری مستور امام تھے۔ ان کے بعد عبد ہللا مہدی ہوۓ جس کو ملك المغرب
جاتے
آباد
بے خبر
مون
دیگر فرقوں کی طرح وہاں تختہ مشق ظلم و ستم بنا انہیں فارس و خراسان اور دیگر اسالمی ممالک دوسرے فرقوں کی طرح شیعہ
کا یہ فرقہ بھی سرزمین عراق میں پروان چڑھا اور مثال ہندو ترکستان کی طرف بھا گنا پڑا۔ وہاں جا کر ان کے عقائد میں قدیم
فارسی افکار اور ہندی خیاالت گڈمڈ ہو گئے اور ان میں عجیب وغریب خیاالت کے لوگ پیدا ہونے لگے جو دین کے نام سے اپنی
مقصد برآری کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعددفرقے Iاسماعیلیہ کے نام سے موسوم ہو گئے ۔ بعض دینی امور کے اندر محدود ر
ہے اور بعض اسالم کے اساسی اصولوں کو ترک کر کے اسالم سے باہر نکل گئے ۔ اسماعیلی فرقے کے افراد ہندو برہمنوں
اشراقی فالسفہ اور بدھ مت والوں سے
ملے جلے ۔ کلدانیوں اور ایرانیوں میں روحانیت اور کواکب و نجوم سے متعلق جو افکار پاۓ جاتے ہیں وہ بھی اخذ کیے پھر ان
مختلف النوع افکار ونظریات کا ایک معجون مرکب تیار کیا۔ ایسے لوگ دائرہ اسالم سے بہت دور نکل گئے ۔ بعض اسماعیلیہ نے
صرف واجبی حد تک ان افکار سے استفادہ کیا اور اسالمی حقائق سے وابستہ رہنے کی کوشش کی ان کے سب سے بڑے داعی
باطنیہ تھے جو جمہور امت سے کٹ گئے تھے اور اہل سنت کے نظریات سے انہیں کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ جس قدر حقائق کو
چھپاتے تھے اس قدر عام مسلمانوں سے دور نکلتے جاتے تھے۔ ان کے جذ بہ اختفاء کا یہ عالم تھا کہ خطوط لکھتے وقت اپنا نام
نہیں لکھتے تھے۔ مثال کے طور پر رسائل اخوان الصفاء باطنیہ کی کاوش قلم کا نتیجہ ہیں ۔ یہ رسائل بڑے مفید علمی معلومات پر
مشتمل ہیں اور ان میں بڑے عمیق فلسفہ پر خیال آرائی کی گئی ہے مگر یہ نہیں پتہ چلتا کہ کن علماء نے ان کی تسوید وتحریر
میں حصہ لیا۔
اسماعیلیہ کو باطنیہ کے نام سے موسوم کرنے کی وجوہات اسماعیلیہ کو باطنسہ یا باطنیین بھی کہتے ہیں۔ اسماعیلیہ کو یہ لقب اس
لیے مال کہ میں
سرزند
دیا
2022.01.09 20:51
محمد شہزاد علی گجر :اسالمی مذاہب اپنے معتقدات کو لوگوں سے چھپانے کی کوشش کرتے تھے ۔ اسماعیلیہ ][1/12, 7:39 PM
میں اختفاء کا رجحان پہلے پہل جو روستم کے ڈر سے پیدا ہوا اور پھر ان کی عادت ثانیہ بن گئی۔ اسماعیلیہ کے ایک فرقہ
کوحشاشین ( بھنگ نوش ) بھی کہتے ہیں ۔ جن کی کرتوتوں کا انکشاف صلیبی جنگوں اور حملہ تا تار کے آغاز میں ہوا۔ اس فرقہ
کے اعمال قبیحہ کی بدولت اس دور میں اسالم اور مسلمانوں کو بڑا نقصان پہنچا۔ ان کو باطنیہ کہنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ یا
کثر حاالت میں امام کو مستور مانتے ہیں ۔
ان کی راۓ میں مغرب میں ان کی سلطنت کے قیام کے زمانہ تک امام مستور رہا۔ یہ حکومت پھر مصر منتقل ہوگئی ۔ ان کو
باطنیہ ان کے اس قول کی وجہ سے بھی کہا جا تا ہے کہ شریعت کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ۔ لوگوں کو صرف ظواہر
شریعت کا علم ہے۔ باطن کا علم صرف امام کو معلوم ہوتا ہے بلکہ امام باطن الباطن سے بھی آگاہ ہوتا ہے۔ اسی عقیدہ کے تحت
باطنیہ الفاظ قرآن کی بڑی دور از کار تاویلیں کرتے ہیں ۔ بعض نے تو عربی الفاظ کو بھی عجیب و غریب تاویالت کا جامہ پہنا
دیا۔ ان تاویالت بعیدہ اور اسرار امام کو وہ علم باطن کا نام دیتے ہیں۔ ظاہر و باطن کے اس چکر میں اثناعشریہ بھی باطنیہ کے ہم
نوا ہیں ۔ بہت سے صوفیاء نے بھی باطنی علم کا عقیدہ اسماعیلیہ سے اخذ کیا۔ بہر کیف اسماعیلیہ اپنے عقائد کو پس پردہ رکھنے
کی کوشش کرتے اور مصلحت
وقت کے تحت بعض افکار کو منکشف کرتے ۔ باطنیہ کے اخفاء عقائد کا یہ عالم تھا کہ مشرق ومغرب میں برسراقتدار ہونے کے
دوران بھی وہ اپنے افکار و آراء کو ظاہر نہیں
کرتے تھے۔
باطنیہ کے اصول اساسی اعتدال پسند باطنیہ کے افکار و آراء دراصل تین امور پر بنی تھے۔ ان سب میں اثناعشر میدان کے ساتھ
برابر کے شریک ہیں۔
2022.01.09 20:51
محمد شہزاد علی گجر :اسالمی مذاہب وہ عام انسانوں کے لیے باالۓ اوراک ہوتا ہے ۔ علم و معرفت کا وہ ][1/12, 7:39 PM
فیضان الہی جس کی بنا پر آ کر فضیات و عظمت اورعلم والطفل میں دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں علم و معرفت کا یہ علیہ ان
کی کی خصوصیات ہے جس میں کوئی دوسرا فرد بشر ان کا کنیم و شریک نہیں ۔ جولم نہیں دیا جاتا ہے
اس کی اطاعت ضروری ہوتی ۔ امام کا ظاہر ہونا ضروری نہیں بلکہ وہ مستور بھی ہوتا ہے اور اس حالت میں بھی تی ہے ۔ امام
ہی لوگوں کا ہاری اور پیشوا ہوتا ہے ۔ کی زمانہ میں اگر وہ ظاہر نہ بھی ہو تو کسی نہ کسی وقت وہ ظاہر ہو گا ۔ قیام قیامت سے
قبل امام کا منظر عام پر آنا ان کے نقطہ نگاہ کے مطابق ضروری ہے۔ امام جب ظاہر ہو گا تو کائنات عالم پر عدل و انصاف کا
دور دورہ ہو جاۓ گا ۔ جس طرح اس کی عدم موجودگی میں جورواستبداد کا سکہ جاری رہتا تھا اب اسی طرح ہر ۔ طرف عدل و
انصاف کی کارفرمائی ہوگی ۔ امام کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا اور اس کے افعال کیسے بھی ہوں کسی کو ان پر خردہ گیری
اور انگشت نمائی کا حق حاصل نہیں ۔ بلکہ سب کے لیے امام کے افعال پر مہر تصدیق ثبت کرنا اور ان کو نیکی پر محمول کرنا
واجب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام جس علم سے بہرہ ور ہے سب لوگ اس سے محروم ہیں ۔ اس سے انہوں نے عصمت آئمہ
کا عقیدہ گھڑا۔ ان کے نزدیک اماموں کے معصوم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ جو گناہ ہمیں معلوم ہیں آئمہ ان کا ارتکاب نہیں کرتے
بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جن باتوں کو ہم گناہ تصور کرتے ہیں وہ ان کے مخصوص علم کی روشنی میں ان کے لیے جائز
اور مہات Iہوتے ہیں ۔
باطنیہ کے ذکر کرد و افکار کے بعض گوشے ایسے ہیں جنہیں کفر صریح سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ
سکتے ہیں کہ کتاب وسنت میں ان کا ذکر نہیں پایا
محمد شہزاد علی گجر ۱۰۸ :اسالمی مذاہب جاتا اگر چہ اکثر باطنیہ یہی عقائد رکھتے تھے تاہم کچھ ایسے ][1/12, 7:39 PM
لوگ بھی تھے جنہوں نے اسالمی احکام کے جوا کو ہی اتار پھینکا اور اس کی حدود کو پھاند گئے ۔ باطنیہ کے عقائد باطلہ کے
زیر سایہ حا کمیہ کا فرقہ پروان چڑھا۔ حاکمیہ ایک عالی فرقہ تھا جو اسالمی حدود سے بہت آگے نکل گیا۔ بعض حاکمیہ نے
اشراق الہی کے معنی ومفہوم میں اس حد تک اغراق و مبالغہ سے کام لیا کہ وہ آئمہ کی ذات میں حلول باری تعالی کے قائل ہو
گئے۔ ان غالی شیعہ کا سرغنہ حاکم بامر ہللا فاطمی تھا جو کہا کرتا تھا کہ ذات خداوندی اس میں حلول کر آئی ہے اور وہ لوگوں
کو اپنی عبادت کی دعوت دیا کرتا تھا وہ روپوش ہو گیا تھا اور اس حالت میں اس کی موت واقع ہوئی۔ بعض کہتے ہیں و قتل کر
دیا گیا تھا۔ میچ ترسی ہے کہ اس کے کسی رشتہ دار نے اسے قتل کر دیا تھا۔ اس کے پیرو اس کی موت کو تسلیم نہیں کرتے تھے
اور کہتے تھے کہ وہ اٹھایا گیا ہے اور لوٹ کر آۓ گا۔ اس فرقہ کو حا کمیہ کہا
جاتا ہے۔ فرقہ دروز کے لوگ زیادہ تر شام میں پاۓ جاتے تھے۔ حاکمیہ کے ساتھ ان کے گہرے مراسم تھے۔ بعض مؤرخین کا
خیال ہے کہ ایک فارسی شخص’’حمزہ الدروزی‘‘ نے حاکم بامر ہللا کو یہ عقائد باطلہ سکھاۓ اور یہ فرقہ اس کی طرف منسوب
ہے۔ اس فرقہ کے باقی ماندہ افراد کا کچھ پہ نہیں کیونکہ دو کسی کو اپنے اعمال و عقائد سے آگاہ نہیں کرتے ۔ وهللا اعلم بحقيقة
الحال۔
فرقہ نصیریہ ملک شام میں حاکمیہ کے گرد ونواح میں ایک غالی فرقہ اور بھی تھا جسے نصیر یہ کہتے ہیں ۔ اگر چہ یہ
اسماعیلیہ کی جانب منسوب تھے تاہم اسالمی حدود سے تجاوز کرنے اور اسالمی احکام کی اطاعت کا چوغا اتار پھینکنے میں ان
کے ہم نوا تھے۔ اس فرقہ کے افراد نے بھی ان نالی اسماعیلیہ کے زیر اثر تربیت پائی تھی جو اسالمی احکام کی اطاعت سے آزاد
تھے۔
2022.01.09 20:52
شیعہ
شیعہ کی اجمالی تعریف شیعہ مسلمانوں کے سیاسی فرقوں میں سے قدیم ترین فرقہ ہے۔ ہم قبل از میں بیان کر چکے ہیں کہ فرقہ
شیعہ کا ظہور حضرت عثمان ﷺ کے عہد خالفت Iکے آخری دور میں ہوا اور حضرت علی کے عہد خالفت میں بھال پھوال ۔
حضرت علی ﷺ جب لوگوں سے ملتے تو وہ آپ کی خدا داد صالحیتوں اور قوت دین وعلم سے متاثر ہوتے ۔ شیعہ مذہب کے
داعیوں نے اس سے فائدہ اٹھانا چاہا اور لوگوں میں آپ کے فضائل و مناقب بیان کرنے شروع کیے۔ ان کی بعض باتیں مبالغہ آمیز
ہوتیں اور بعض مبنی بر اعتدال ۔ جب اموی دور میں اوال دعلی ﷺﷺ کو ظلم وستم کی آماجگاہ بنایا گیا اور لوگوں نے یہ مظالم
اپنی آنکھوں سے دیکھے تو لوگ اوالد رسول ﷺ کی سی مظلومی دیکھنے کی تاب نہ ال سکے۔ اس سے شیعہ مذہب کا دائرہ
وسیع ہوا اور اس کے اعوان و انصار میں اضافہ ہونے لگا۔
فرقہ شیعہ اور ابن خلدون فلسفہ تاریخ کے بانی ابن خلدون نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں شیعہ مذہب کے متعلق ان خیاالت کا
:اظہار کیا ہے وہ لکھتے ہیں
شیعہ کی نگاہ میں امامت کا مسئلہ اس نوع کو نہیں کہ اس کا تعلق امت کی فالح و بہبود سے ہو اور وہ جسے چاہیں خلیفہ بنالیں
بلکہ یہ مسئلہ دین اسالم کا رکن رکین اور اصل االصول ہے جس سے بے اعتنائی برتنا اور اسے امت کی جانب تفویش کرنا کسی
نبی کے لیے بھی جائز نہیں۔ نہیں پر امام کا مقرر کرنا واجب ہے۔ امام کبائر وصغائر سے معصوم ہوتا ہے۔ تمام شیعہ اس بات پر
“ متفق ہیں کہ حضرت علی نبی کریم ﷺﷺ کے خلیفہ مختار اور افضل الصحابہ تھے
2022.01.09 20:49
محمد شہزاد علی گجر :اسالمی مذاہب ا و روایات میں آتا ہے کہ بعض صحابہ حضرت علی بت کو فضل ][1/12, 7:41 PM
الصحابہ قرار دینے میں شیعہ کے ہم نوا تھے ابن ابی الحدید جو ایک اعتدال پسند شیعہ عالم تھا لکھتا ہے کہ صحابہ میں مندرجہ
ذیل حضرات حضرت علی ﷺﷺ کو افضل الصحا بہ تسلیم کرتے تھے۔ عمار بن یاسر مقداد بن االسود ( ابو ذرغفاری ) سلمان
ابوالہیثم بن تیہان Hسہل بن حنیف ) عثمان بن حنیف Mفارسی ) جابر بن عبد ہللا ) ابي بن کعب حذیفہ ) بریده ) ابو ایوب انصاری
ابو الطفیل عامر بن واثلہ ( عباس بن عبدالمطلب اور ان کے بیٹے ۔ نیز تمام بنی ہاشم حضرت علی ﷺﷺ کو افضل سمجھتے تھے
۔ ابن ابی الحدید سے بھی لکھتے ہیں کہ حضرت زبیر سے پہلے تفضیل علی کے قائل تھے پھر اس سے رجوع کر لیا۔ یہ بھی بیان
کیا جا تا ہے کہ بعض بنو امیہ بھی حضرت علی ﷺﷺ کو افضل تسلیم کرتے تھے۔ سعید ابن العاص بھی انہی میں سے تھے۔
شیعہ میں اختالف مدارج سب شیعہ ایک ہی قسم کے نہ تھے۔ بعض غالی تھے جو حضرت علی ﷺﷺ اور ان کی اوالد کی
تعریف میں مبالغہ آمیزی سے کام لیتے۔ بعض اعتدال پسند تھے جو تفضیل علی میشن کے باوصف کسی صحابی کو کافر نہ
کہتے ۔ نہ حضرت علی ﷺ کو تقدس کا وہ درجہ دیتے جس سے آپ کا فوق البشر ہونا الزم آۓ ۔
ابن ابی ہللا میں اعتدال پسند شیعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے :مسئلہ امامت و خالفت میں ہمارے اصحاب (شیعہ ) ہی فالح و
نجات کی راہ پر گامزن تھے کیونکہ وہ اعتدال پسند تھے اور مبالغہ آمیزی سے کام نہیں لیتے تھے۔ وہ کہتے تھے حضرت علی
ﷺﷺ آخرت میں افضل الخلق ہوں گے اور آپ کا مقام جنت میں سب سے بلند ہو گا۔ آپ دنیا میں بھی افضل الخلق ہیں اور کوئی
شخص فضائل و مناقب Iمیں آپ کا ہم پلہ نہیں ہے۔ آپ سے لڑنے واال اور بغض و عداوت رکھنے واال خدا کا دشمن ہے۔ اگر ایسا
شخص تو بہ کیے بغیر مر جاۓ تو کفار و منافقین کے ساتھ ابدی جہنمی ہوگا۔ جہاں تک ان
محمد شہزاد علی گجر :اسالمی مذاہب و فضل ترین مہاجرین صحابہ کا تعلق ہے جو حضرت علی نے سے ][1/12, 7:41 PM
قبل مسند خالفت پر فائز ہوۓ اگر حضرت علی ان کی خالفت سے انکار کرتے ان پر اظہار غیض د غضب کرتے عالوہ اس کے
کہ آپ ان کے خالف تلوار اٹھاتے یا ان کو اپنی خالفت Iکی طرف دعوت دیتے تو ہم کہتے کہ یہ صحابہ تباہی و بربادی سے
ہمکنار ہوۓ اور یوں سمجھیں کہ گویا یہ نبی کریم ملﷺ کے غریظ وغضب کا مورد بنے ۔ کیونکہ آپ ہی نے فرمایا تھا کہ اے
علی! تجھ سے لڑنا مجھ سے لڑنے کے مترادف ہے اور تجھ سے صلح کرنا میرے ساتھ مصالحت کرنا ہے۔ آنحضرت ﷺﷺ نے
یہ بھی فرمایا تھا کہ اے ہللا ! جو علی سے دوستی رکھتے تو اسے دوست رکھ اور جو علی کا دشمن ہوا سے دشمن تصور کر ۔
ایک دوسرے موقع پر ارشاد فر مایا’’ :اے علی ! تجھے مومن ہی چاہتا ہے اور تجھ سے بغض وہی رکھتا ہے جس کے مگر ان
میں سے کوئی بات بھی نہیں ہوئی بلکہ حضرت علی ﷺﷺ نے ( بزرگان دل میں نفاق ہوتا ہے۔ ثالثہ ) کی امامت کو پسند فرمایا
ان کی بیعت کی ان کی اقتداء میں نماز پڑھی نکاح کے لیے ان کور شتے دیئے اور ان کا حاصل کردہ مال غنیمت استعمال کیا۔ آپ
کے فعل سے تجاوز کرنا ہمارا شیوہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ اس بات سے آگے بڑھنا مناسب ہے جو آپ کے متعلق مشہور ہے۔ کیا
آپ کو معلوم نہیں کہ جب آپ ( حضرت علی ) نے حضرت معاویہ سین سے اظہار بیزاری کیا تو ہم بھی ان سے بیزار ہو گئے
اور جب آپ نے حضرت معاویہ پرلعنت بھیجی تو ہم نے بھی انہیں ملعون ( العیاذ باہلل ) قرار دیا۔ جب آپ نے شام میں رہنے والے
باقی ماندہ صحابہ مثال عمرو بن العاص اور ان کے بیٹے عبدہللا اور دیگر صحابہ کو گمراہ قرار دیا تو ہم بھی ان کو گمراہ تصور
کرنے لگے۔ ہمارے مسلک کا حاصل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺﷺ اور حضرت علی اینڈ کے مابین صرف رسالت و نبوت کا فرق
تھا۔ اس کے عالوہ دیگر فضائل و فواضل ان
2022.01.09 20:50
محمد شہزاد علی گجر :اسالمی مذاہب کے دونوں میں مشترک طور پر پائے جاتے تھے ۔ لہذا ہم ان اکابر ][1/12, 7:41 PM
صحابہ کے بارے میں طعن نہیں کرتے جن پر حضرت علی چین نے طعن نہیں کیا‘‘ ۔ (شرح
وہ زمان و مکان جہاں شیعہ مذہب پروان چڑھا خالفت عثمانی کے اواخر میں شیعہ مذہب معرض ظہور میں آیا اور حضرت علی
دایی کے عہد خالفت Iمیں پروان چڑھا۔ بغیر اس کے کہ آپ نے اس کی نشو و ارتقاء میں کوئی حصہ لیا ہو۔ البتہ آپ کی خداداد
صالحیتیں از خود شیعہ مذہب کی جانب دعوت دیتی تھیں ۔ جب آپ اپنے رب سے جا ملے تو شیعہ مذہب کئی فرقوں میں بٹ گیا۔
بعض غالی تھے اور بعض اعتدال پسند ۔ مگر دونوں قسم کے شیعہ اہل بیت سے شدید محبت رکھنے اور ان کی طر فراری میں
ایک دوسرے کے ہم نوا تھے۔ اموی دور خالفت حضرت علی ﷺﷺ کے اعزاز و احترام میں مزید اضافہ کا موجب ہوا۔ اس کی
وجہ یہ ہوئی کہ حضرت معاویہ نے اپنے عہد خالفت میں ایک بدترین سنت کو ایجاد کیا جو ان کے بیٹے یزید اور ان کے بعد آنے
والے خلفاء میں حضرت عمر بن عبد العزیز ﷺ کے زمانہ تک باقی رہی ۔ وہ سنت قبیحہ سیتھی کہ خطبہ پڑھنے کے بعد حضرت
علی ﷺ پر لعنت بھیجی جاتی تھی جو سحا بہ اس وقت بقید حیات تھے انہوں نے اسے نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور
حضرت معاویہ اور اموی خلفاء کو اس سے منع کیا ۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ پانا نے حضرت معاویہ کو اس مضمون پر
مشتمل ایک خط لکھا۔
جب تم منبر پر کھڑے ہو کر حضرت علی ﷺ اور ان کے احباب پر لعنت بھیجتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم ہللا و رسول ”
کو ملعون قرار دیتے ہو۔ میں گواہی دیتی ہوں کہ نبی کریم مالم حضرت علی نے کو چاہتے تھے ۔ اس سے بڑھ کر یزید کے عہد
خالفت میں حضرت حسین بن علی نے شہید کر دیئے گئے جن کے بارے میں آنحضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ حسن اور حسین
( ن ) نوجوانان جنت کے سردار ہیں ۔ آپ کا خون ضائع کیا اور قصاص بھی نہ لیا گیا۔ نہ دین متین کی
2022.01.09 20:50
محمد شہزاد علی گجر :جاتا ہے۔ لوگوں نے یہ مظالم اپنی آنکھوں سے مالحظہ کیے مگر مجبوراً خاموش ہور ][1/12, 7:41 PM
ہے اور اہل بیت کی امداد کے لیے کچھ نہ کر سکے۔ تاہم ان کے غم و رنج کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور وان لوگوں کو مزید اکرام و
احترام کی نگاہ سے دیکھنے لگے جن پر اموی یہ مظالم ڈھا رہے تھے جور و استبداد کا نتیجہ ہمیشہ یہی ہوا کرتا ہے۔ جب مظلوم
کی حمایت کے لیے لطف و کرم کے جذبات حرکت میں آتے ہیں تو طبعا اس سے مظلوم کی عزت و عظمت میں اضافہ ہو
رای اسالمی مذاہب حرمت کا کچھ خیال رکھا گیا۔ حضرت حسین وعلی کی بیٹیاں قیدی ہو کر دربار یزید میں پہنچائی گئیں حاالنکہ
میں آپ مریم کی نواسیاں ہونے کے اعتبار سے خانوادہ نبوت میں داخل تھیں ۔
سرزمین عراق شیعیت کا گہوارہ شیعہ مذہب نے شروع میں سرزمین مصر میں پر پرزے نکالے۔ شیعہ داعیوں نے اس عالقہ کو
شروع میں اپنے لیے بڑا سازگار پایا۔ پھر عراق میں جا ڈیرہ لگایا۔ شیعہ مذہب کے لیے عراق کی سرزمین بڑی راس آئی ۔ مکہ
مدینہ اور دیگر بالد حجاز ان دنوں حدیث نبوی کا مورد وسکن تھے۔ ملک شام بنو امیہ کے احباب و انصار کا مستقر تھا لہذا عراق
سے بہتر شیعہ کے لیے اور کوئی جگہ بیٹھی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عراق شیعہ فرقہ کا گہوارہ کیونکر قرار پایا ؟
اس کے متعدد وجوہات تھے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ حضرت علی اپنی مدت خالفت میں کوفہ میں مقیم رہے وہاں لوگوں سے
ملے جلے لوگوں نے بچشم خود آپ کے اوصاف جلیلہ مشاہدہ کیے جو موجب اعزاز و احترام تھے۔ اہل عراق نے بنوامیہ کو کبھی
الفت و محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ اس کے زیر اثر حضرت معاویہ نے اپنے عہد خالفت میں زیاد جیسے جابر شخص کو
عراق کا والی مقرر کیا۔ زیاد نے اہل عراق کی مخالفت کو ظاہر نہ ہونے دیا تاہم وہ لوگوں کے دلوں سے نفرت و حقارت کے
جذبات کا استیصال نہ کر سکا۔ یزید بن معاویہ کے عہد خالفت میں زیاد کا بیٹا عبید ہللا اپنے والد کا قائم مقام
2022.01.09 20:50