You are on page 1of 9

‫سادات‬

‫سادات کے لفظی معنی مہتران اور فقہی تعریف کے مطابق‪ ،‬ان افراد کو کہا جاتا‬
‫ہللا کے جد امجد) سے ملتا ہے‬ ‫‪.‬ہے جن کا نسب ہاشم بن عبد مناف (رسول ؐ‬
‫زہراء کے خاندان سے‬ ‫ؑ‬ ‫علی اور حضرت‪8‬‬‫البتہ عام لوگوں میں‪ ،‬اکثر سادات امام ؑ‬
‫جڑے ہوئے ہیں اور سادات کی مشہور کڑی شیعہ اماموں کے خاندان سے ملتی‬
‫ہے‪ .‬سادات کی مختلف شاخیں ہیں کہ جن میں اہم اور اصلی درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫ہاشمی‪ ،‬محمدی‪ ،‬حسنی‪ ،‬حسینی‪ ،‬موسوی اور رضوی‪ .‬فقہ میں سادات کے لئے‬
‫خاص احکام ذکر ہوئے ہیں‪ .‬جیسے کہ وہ غیر سید سے زکات نہیں لے سکتے‬
‫‪.‬اور خمس کا کچھ حصہ جو سادات فقیر ہیں ان سے متعلق ہے‬
‫بنی امیہ اور عباسیوں کے زمانے سے لے کر متوکل کی خالفت تک‪ ،‬جو ظلم و‬
‫حتی کہ ان میں سے بعض اپنی سیادت کو چھپا کر‬ ‫ستم سادات پر ہوتے رہے‪ٰ ،‬‬
‫رکھتے یا دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے‪ .‬معاویہ‪،‬‬
‫یزیدبن معاویہ‪ ،‬مروان بن حکم‪ ،‬عبیدہللا بن زیاد‪ ،‬حجاج‪ 8‬بن یوسف اور عباسیوں‬
‫نے سادات کے قتل عام کا حکم دیا جس کی وجہ سے سادات ہجرت پر مجبور‬
‫تھے‪ .‬ایران‪ ،‬آسیا صغیر‪ ،‬یمن‪ ،‬شام اور شمال افریکہ ایسے ممالک ہیں جہاں‬
‫‪.‬سادات ہجرت کر کے گئے‬
‫سادات اور علوی کی طول تاریخ میں ایک خاص عالمت ہوتی تھی کہ جس سے‬
‫انکی پہچان ہوتی جیسے‪ :‬نقابت نام کی ڈائری جس میں ان کا نام ثبت کیا جاتا یا‬
‫اپنے چہرے کے دونوں طرف لمبی زلفوں کو رکھنا‪ .‬اور آج کے دور میں بھی‬
‫جو سید علماء ہیں وہ اپنے سر پر کاال عمامہ رکھتے ہیں اور عام لوگ جو سید‬
‫‪.‬ہیں وہ عام کپڑے‪ ،‬یا سبز رنگ کی شال سے پہنچانے جاتے ہیں‬
‫سید لفظ کا استعمال‬
‫پیغمبر کے اجداد ہاشم اور آگے سے ان کی اوالدوں کو کہا‬‫ؐ‬ ‫سید اصطالح میں‬
‫علی کے فرزندوں کے‬ ‫جاتا ہے‪ ]1[ .‬اس تعریف کے مطابق حضرت ؑ‬
‫عالوہ ‪،‬ابوطالب کے فرزند‪ ،‬اور ابولہب‪ ،‬عباس اور حمزہ بھی سید ہوں گے‪ .‬البتہ‬
‫طالب اور‬
‫ؑ‬ ‫پیغمبر اور علی بن ابی‬
‫ؐ‬ ‫آج کل عام لوگ‪ ،‬سید کی اصطالح کو اکثر‬
‫‪.‬فاطمہ کی اوالد کے لئے استعمال کرتے ہیں‬
‫ؑ‬
‫سید کا تاریخچہ‬
‫پیغمبر کی اوالد کے لئے سید کا لفظ کس زمانے سے استعمال ہونا شروع ہوا اس‬ ‫ؐ‬
‫بارے میں معلوم نہیں‪ ،‬لیکن جو اسناد موجود ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ‬
‫پیغمبر کی اوالد میں‬
‫ؐ‬ ‫‪٦‬ہجری ق میں یہ لفظ عام تھا‪ .‬اس زمانے میں وہ علماء جو‬
‫سے تھے انکے نام کے ساتھ سید ہوتا تھا‪ .‬لیکن شیخ طوسی (م‪٤٦٠‬ق) اور‬
‫نجاشی (م‪٤٥٠‬ق)‪ ،‬نے ہر جگہ پر شریف کا کلمہ استعمال کیا ہے اور اگر کسی‬
‫جگہ پر انہوں نے سید کا لفظ استعمال کیا ہے‪ ،‬تو وہ بھی اکیال نہیں ہوا بلکہ السید‬
‫اکرم کی اوالد‬
‫الشریف کی صورت میں ہے‪ ]2[ .‬حجاز کے اہل سنت جو پیغمبر ؐ‬
‫‪.‬سے ہیں انکو‪ ،‬شریف کہتے تھے‬
‫‪ ٦‬ہجری کی کتاب تاریخ بیھق میں ایک باب سادات بیھق کے عنوان سے تدوین‬
‫پیغمبر کے خاندان سے جنہوں نے وہاں سفر کیا انکے‬ ‫ؐ‬ ‫ہوا ہے‪ ،‬اور اس میں‬
‫بارے میں ذکر ہوا ہے‪]3[ .‬‬
‫پیغمبر کی اوالد کے لئے سید یا سادات کا لفظ‬
‫ؐ‬ ‫اس سے پہلے قم کی تاریخ میں‬
‫استعمال ہوا ہے‪ ]5[]4[ .‬ابن حوقل جو کہ تاریخ قم نامی کتاب کا مولف تھا اس‬
‫نے آل ابی طالب کے لئے سادات کا لفظ استعمال کیا ہے‪]6[.‬‬
‫پیغمبر‬
‫ؐ‬ ‫ان سند کے ہوتے کہا جا سکتا ہے کہ سادات کا لفظ چوتھی صدی سے ہی‬
‫‪.‬کی اوالد کے لئے استعمال کیا جاتا تھا‬
‫شریف کی اصطالح‬
‫اس وقت ایران میں سید کا لفظ تمام بنی ہاشم کے لئے استعمال ہوتا ہے‪ .‬لیکن‬
‫حسن کے فرزندوں کو ممتاز سمجھنے کے لئے شریف اور امام‬ ‫ؑ‬ ‫حجاز میں امام‬
‫حسین کے فرزندوں کو سید کہتے ہیں‪]7[ .‬‬ ‫ؑ‬
‫سادات کی اصلی شاخ‬
‫ہاشمی‬
‫ابوطالب کے فرزند جعفر اور عقیل کے خاندان والے ہاشمی سادات‪،‬‬ ‫ؑ‬ ‫حضرت‬
‫‪.‬جعفری اور زینبی خاندان اسی گروہ سے ہیں‬
‫محمدی‬
‫محمدی سادات‪ ،‬محمد اکبر کے خاندان سے جو کہ محمد بن حنفیہ(‪١٥‬یا‪-١٨‬‬
‫‪٨١‬ق) کے نام سے مشہور تھا اور خود اس کا شمار علوی سادات میں تھا‪ .‬عقیلی‬
‫اصفہانی خاندان بھی اسی گروہ سے تھا‪ .‬البتہ اس کے معنی یہ نہیں کہ جتنے‬
‫‪.‬بھی محمدی سادات ہیں سب محمد بن حنفیہ کے خاندان سے ہیں‬
‫حسنی‬
‫مجتبی کے فرزندوں (‪٩٥-٣‬ھ) کو کہتے ہیں‪ .‬علمی‬ ‫ٰؑ‬ ‫حسنی سادات‪ ،‬امام حسن‬
‫‪.‬خاندان بحرالعلوم‪ ،‬بروجردی‪ ،‬قاضی‪ ،‬گلستانہ اور مدرس اسی گروہ سے ہیں‬
‫حسینی‬
‫حسین کا‬
‫ؑ‬ ‫حسین کے خاندان سے ہیں‪ .‬جہاں تک کہ امام‬ ‫ؑ‬ ‫حسینی سادات‪ ،‬امام‬
‫سجاد کے فرزندوں کو بھی حسینی کہا‬ ‫ؑ‬ ‫سجاد سے ہے اسی لئے امام‬ ‫ؑ‬ ‫خاندان امام‬
‫‪.‬جاتا ہے‬
‫موسوی‬
‫کاظم کے خاندان والے ہیں‪ ،‬علمی خاندان آیت ہللا‬ ‫ؑ‬ ‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫موسوی سادات‪ ،‬امام‬
‫شیرازی‪ ،‬آیت ہللا یزدی‪ ،‬اصفہانی‪ ،‬بجنوردی‪ ،‬بھبھانی‪ ،‬جزائری‪ ،‬خمینی‪،‬‬
‫خوانساری‪ ،‬زنجانی‪ ،‬شہرستانی‪ ،‬شیرازی‪ ،‬صدر‪ ،‬کشفی‪ ،‬گلپائگانی‪ ،‬مشعشعی اور‬
‫‪.‬میرلوحی یہ سب موسوی سادات سے ہیں‬
‫رضوی‬
‫تقی کے فرزند (‪٢٢٠-١٩٥‬ق) محمد‬ ‫رضوی یا رضویان سادات‪ ،‬امام محمد ؑ‬
‫موسی مبرقع (‪٢٩٦-٢١٨‬ق) کے خاندان والے ہیں‪ ،‬یہ سید‬ ‫ٰ‬ ‫االعرج بن احمد بن‬
‫اکثر مشہد‪ ،‬قم اور ہمدان میں ہیں‪ ،‬اگرچہ دوسرے شہروں میں بھی رضوی‬
‫‪.‬سادات کچھ تعداد میں موجود ہیں‬
‫آخری امام سے منسوب قاعدہ‬
‫ہر موسوی سید‪ ،‬حسینی بھی ہے‪ ،‬لیکن اسے موسوی کہتے ہیں نہ حسینی‪ .‬اس‬
‫بات کی دلیل وہ قاعدہ جو علم نسب میں ہے کہ جس کے مطابق‪ ،‬سادات کو جو‬
‫انکے شجرے نامے میں آخری امام ہو‪ ،‬اس کے ساتھ منسوب کرتے ہیں‪ ،‬مثال‬
‫کاظم کے خاندان سے ہے اسے موسوی‬ ‫ؑ‬ ‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫کے طور پر جو شخص امام‬
‫علی سے منسوب نہیں‬ ‫حسین یا امام ؑ‬
‫ؑ‬ ‫کہتے ہیں حسینی نہیں کہتے یعنی اسے امام‬
‫‪:‬کرتے‪ .‬اسی لئے‬
‫‪،‬ہر تقوی سید رضوی بھی ہے اور ہر رضوی تقوی نہیں ہے‬
‫‪،‬ہر رضوی‪ ،‬موسوی ہے‪ ،‬لیکن ہر موسوی رضوی نہیں‬
‫‪،‬ہر موسوی حسینی ہے لیکن ہر حسینی موسوی نہیں‬
‫‪،‬ہر حسینی فاطمی ہے لیکن ہر فاطمی حسینی نہیں‬
‫‪،‬ہر فاطمی علوی ہے لیکن ہر علوی فاطمی نہیں‬
‫ہر علوی طالبی ہے لیکن ہر طالبی علوی نہیں‪]8[ .‬‬
‫‪.‬ہر طالبی ہاشمی ہے لیکن ہر ہاشمی طالبی نہیں‬
‫متوکل کی خالفت تک‪ ،‬بنی امیہ اور عباسیوں کے زمانے میں سادات پر بہت ظلم‬
‫و ستم ہوئے‪ ،‬بعض تو اپنی سیادت کو چھپا کر رکھتے تھے‪ .‬یا دور کے عالقوں‬
‫‪.‬کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے‬
‫سادات کی ہجرت‬
‫سادات اپنے زمانے کے حاالت کے مطابق مختلف ممالک جیسے ایران‪ ،‬آسیا‬
‫صغیر‪ ،‬یمن‪ ،‬شام اور شمال افریکہ کی طرف ہجرت کرتے تھے‪ .‬ایران میں اسالم‬
‫آنے کے بعد پہلی صدی‪ ،‬بنی ہاشم کا پہال دستہ ایران میں داخل ہوا‪ .‬یہ مہاجرت‬
‫دوسری صدی کے وسط میں کچھ زیادہ‪ ،‬اور پھر دوسری صدی کے آخر میں‬
‫بہت زیادہ ہو گئی‪ .‬اس زمانے میں‪ ،‬سادات کے بہت زیادہ گروہ ایران کے مختلف‬
‫شہروں جیسے‪ :‬ارجان‪ ،‬قم‪ ،‬شیراز‪ ،‬جبل‪ ،‬ہمدان‪ ،‬طبرستان اور دوسرے مختلف‬
‫‪.‬شہروں کی طرف ہجرت کر کے آئے‬
‫‪:‬درج ذیل عوامل کی وجہ سے سادات نے ایران کی طرف ہجرت کی‬
‫اموی اور عباسی خلفاء کا ظلم و ستم‬
‫حاکموں کا حد سے زیادہ ظلم‪ ،‬عراق اور حجاز میں شکنجوں کے عالوہ قتل و‬
‫غارت اتنی زیادہ تھی‪ .‬معاویہ‪ ،‬یزید بن معاویہ‪ ،‬مروان بن حکم‪ ،‬عبیدہللا بن زیاد‪،‬‬
‫حجاج بن یوسف اور عباسیوں نے سادات کے قتل عام کا حکم دے رکھا تھا‪]9[.‬‬
‫‪:‬حمید بن قحطبہ طائی طوسی کہتا ہے‬
‫ایک رات ہارون نے مجھے بالیا اور حکم دیا کہ اپنی تلوار کو اٹھاؤ اور جو کچھ‬
‫میرا نوکر تمہیں حکم دے وہی انجام دو‪ .‬اس کا نوکر مجھے ایک گھر لے گیا‬
‫جس کے تین کمرے تھے اور صحن میں ایک کنواں تھا‪ .‬نوکر نے پہلے کمرے‬
‫کا دروازہ کھوال‪ .‬اس کمرے میں ‪ ٢٠‬افراد موجود تھے‪ ،‬نوکر نے مجھے کہا‪ :‬یہ‬
‫سب علی اور فاطمہ کی اوالد سے ہیں اور امیرالمومنین! کا حکم ہے کہ ان سب‬
‫کو قتل کر دو میں نے ایک کے بعد دوسرے کو قتل کیا اور نوکر نے ان کے بدن‬
‫اور سروں کو کنویں میں ڈال دیا‪ .‬اس کے بعد دوسرے کمرے کا دروازہ کھوال‪.‬‬
‫اس کمرے میں بھی علی اور فاطمہ کی اوالد میں سے ‪ ٢٠‬افراد موجود تھے‪ .‬ان‬
‫کے ساتھ بھی وہی کیا جو پہلے والوں کے ساتھ کیا تھا‪ .‬پھر نوکر نے تیسرے‬
‫کمرے کا دروازہ کھوال اس میں بھی ‪ ٢٠‬سید افراد موجود تھے ان کے ساتھ بھی‬
‫وہی کیا‪ .‬ان میں سے ایک بوڑھا مرد بچ گیا اس نے مجھے کہا اے بد بخت‬
‫خدا کے سامنے‬ ‫انسان! خدا تمہیں ہالک کرے‪ ،‬قیامت کے دن ہمارے جد رسول ؐ‬
‫کیا بہانہ کرو گے؟! میرے ہاتھ کانپنے لگ گئے اور میرا گوشت بدن سے جدا‬
‫ہونے لگا‪ .‬نوکر نے مجھے غضب آلود نگاہ سے دیکھا میں ڈر گیا اور اسے بھی‬
‫قتل کر دیا‪]10[ .‬‬
‫‪:‬مقاتل الطالبیین میں ابراہیم بن ریاح لکھتا ہے‬
‫جب ہارون الرشید یحیحی بن عبدہللا بن حسن بن حسن کے پاس گیا اور وہ زندہ‬
‫تھا اسی حالت میں اس کے اوپر ایک بہت بڑا ستون بنا دیا‪ .‬ہارون الرشید نے یہ‬
‫کام اپنے جد منصور سے ارث میں لیا‪]11[ .‬‬
‫علویوں کا قیام‬
‫‪:‬اپنے زمانے کے حاکم کے خالف قیام کی مختلف وجوہات اور عناوین‪ ،‬جیسے‬
‫یحی کے‬‫زید بن علی کا قیام ہاشم بن عبدالملک کے خالف‪ .‬زید اور اس کے بیٹے ٰ‬
‫قیام کی وجہ سے امویوں کا کینہ اور بھی بڑھ گیا‪ .‬اور جب تک وہ خالفت کی‬
‫‪.‬کرسی پر تھے اس وقت تک بنی ہاشم کو آزار و اذیت دیتے رہے‬
‫محمد بن عبدہللا بن حسن اور اس کے بھائی ابراہیم کا حجاز اور عراق میں‬
‫منصور دوانیقی کے خالف قیام اور ان کے بھائی یحیی نے ایران کی طرف فرار‬
‫کیا جہاں پر ہارون الرشید کی حکومت کے خالف قیام کیا اس کا قیام ایران کے‬
‫شہر گیالن‪ ،‬مازندران اور قزوین کے عالقوں میں تھا‪( .‬م‪١٩٣‬ق‬
‫سجاد کا عباسی حکومت کے خالف قیام‬ ‫ؑ‬ ‫‪،‬عیسی بن زید بن‬
‫‪.‬ابن طباطبا کا کوفہ میں قیام‬
‫امام رض ؑا کی والیت عہدی کا دور‬
‫امام رض ؑا نے جب والیت عہدی کو سھنباال‪ ،‬تو مدینہ کے سادات کو خط لکھا اور‬
‫معصومہ ان کے بھائیوں‬
‫ؑ‬ ‫انکو ایران آنے کی دعوت دی‪ ]12[ .‬اس کے حضرت‬
‫اور بہنوں اور بہت سے دوسرے سادات کا ایران آنا شروع ہوا‪]13[ .‬‬
‫شیعی حکومت‬
‫ایران کے شہر طبرستان میں شیعی علوی حکومت کی تشکیل کی ایک وجہ‬
‫سادات کو ایران کے شمال کی طرف جلب کرنا ہے‪]14[ .‬‬
‫نقابت کا دائرہ‬
‫سادات کی نقابت سنہ ‪٢٥١‬ق‪ ،‬عباسی حکومت کے زمانے جب مستعین عباسی‬
‫خلیفہ تھا اور اس کے حکم سے شروع ہوئی اور اور اسے عباسی حکومت کے‬
‫آئین اور تشکیالت کا جزء قرار دیا گیا‪ .‬اس تشکیل میں سادات کا نام ثبت کیا گیا‪،‬‬
‫اور بعض شرعی امور کا اختیار انہیں دیا گیا‪ ]15[ .‬پہال نقیب سادات‪ 8،‬شریف‬
‫ابوعبدہللا حسین بن ابی الغنائم احمد جو کہ نہرشابوسی کے نام سے مشہور تھا‪،‬‬
‫یحیی بن عمر کی اوالد سے تھا جس نے سنہ‬ ‫ٰ‬ ‫وہ زید شہید اور آپکے بھتیجے‬
‫‪ ٢٥٠‬ق میں قیام کیا‪ .‬ابوعبدہللا بن حسین نے جب مستعین عباسی کی کمزوری کو‬
‫دیکھا تو اس کے پاس گیا اوراسے علوی سادات کے نقابت کی تشکیل کا مشورہ‬
‫دیا‪ .‬اور پہلے نقیب سادات نے علوی کتاب جس کا نام الغصون فی شجرۃ بنی‬
‫یاسین ہے اس کی تالیف کی‪]17[]16[ .‬‬
‫جعلی سیادت‬
‫نقابت کی تشکیل کے بعد کچھ افراد نے جھوٹ بول کر خود کو سادات کہنا شروع‬
‫کر دیا‪ .‬اسی لئے علم انساب میں سید اور غیر سید کی شناخت کے لئے ایک کتاب‬
‫تدوین ہوئی‪ .‬ابن طباطبا علوی اصفہانی نے‪ ،‬منتقلہ الطالبیہ کے نام سے ایک‬
‫کتاب تالیف کی اور یہ کتاب تالیف کرنے کی وجہ یہی تھی کہ جعلی سادات کو‬
‫کنٹرول کیا جائے‪]18[ .‬‬
‫سادات کو پہچاننے کی نشانی‬
‫تاریخ میں سادات اور علویوں کے لئے کچھ نماد اور اشعار تھے جس کی وجہ‬
‫سے انکو پہچاںا جاتا تھا‪ .‬علوی سادات ہونے کی نشانی یہ تھی کہ یا تو انکے نام‬
‫مخصوص ڈائری جس کا نام نقابت تھا اس میں موجود تھے‪ ،‬یا پھر وہ اپنے لمبے‬
‫بال جو چہرے کے دونوں طرف گرے ہوئے تھے ان سے پہچانے جاتے تھے‪[ .‬‬
‫‪]19‬‬
‫آجکل کے زمانے میں سید عالم کالے رنگ کے عمامے اور دوسرے عام سید‬
‫کپڑے‪ ،‬ٹوپی یا سبز شال سے پہچانے جاتے ہیں‪ .‬اگرچہ یہ قراردادی نشانیاں ہیں‬
‫‪.‬لیکن روائی اور تاریخی دلیل بھی موجود ہے کہ جو درج ذیل ہے‬
‫سبز لباس‬
‫بیت سے منسوب تھا اور اس کی دلیل شاید وہ‬ ‫بہت پہلے سے سبز لباس اہل ؑ‬
‫بیت نے سبز لباس پہننے کی طرف اشارہ کیا ہے‬ ‫‪.‬روایت ہوں جن میں اہل ؑ‬
‫پیغمبر کا نطفہ منعقد ہونے کے‬
‫ؐ‬ ‫اس روایت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے‪ ،‬جب‬
‫وقت جبرئیل نے کعبہ پر سبز رنگ کا پرچم لگایا‪ ]20[ .‬اور ایک اور گزارش‬
‫خدیجہ کے ساتھ شادی کے وقت سبز‬ ‫ؑ‬ ‫محمد نے حضرت‪8‬‬ ‫ؐ‬ ‫کے مطابق حضرت‬
‫رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا‪]21[.‬‬
‫پیغمبر طواف کے وقت سبز لباس پہنتے تھے‪]22[ .‬‬ ‫ؐ‬ ‫اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ‬
‫پیغمبر نے سبز‬
‫ؐ‬ ‫پیغمبر کے لئے جنت سے دو لباس بھیجے گئے اور‬ ‫ؐ‬ ‫اسی طرح‬
‫پیغمبر‬
‫ؐ‬ ‫حسین کو دیا اور‬
‫ؑ‬ ‫حسن کو اور سرخ رنگ کا لباس امام‬ ‫ؑ‬ ‫رنگ کا لباس امام‬
‫اور حضرت جبرئیل دونوں نے گریہ کیا‪]23[ .‬‬
‫تاریخی گزارشات سے ملتا ہے کہ مامون نے امام رض ؑا کی والیت عہدی کے بعد‬
‫تمام دولت مدار افراد کو حکم دیا کہ وہ کاال رنگ جو عباسیوں سے منسوب تھا‬
‫اسے ختم کر کے علویوں کو سبز رنگ کا لباس دیا جائے‪]24[ .‬اس سے معلوم‬
‫ہوتا ہے کہ مامون کے زمانے سے پہلے بھی سبز رنگ سادات کے لئے منسوب‬
‫‪.‬تھا‬
‫ممالیک کی حکومت کے دوران (حکومت‪٩٢٣-٦٤٨ :‬ق) ملک اشرف مملوکی‬
‫نے سادات کی پہچان اور انکی حرمت کا خیال رکھنے کے لئے حکم دیا کہ ان‬
‫کے سروں پر سبز رنگ کی نشانی رکھی جائے‪]25[.‬‬
‫کاال عمامہ‬
‫سید علماء اپنے سر پر کاال عمامہ رکھتے ہیں‪ ،‬اس کالے عمامے کے بارے میں‬
‫‪:‬درج ذیل گزارش موجود ہیں‬
‫پیغمبر نے مکہ کو فتح کیا اور مسجد الحرام میں‬
‫ؐ‬ ‫صادق نے فرمایا‪ :‬جس دن‬
‫ؑ‬ ‫امام‬
‫آپ کے سر پر کاال عمامہ تھا‪]26[.‬‬‫داخل ہوئے تو ؐ‬
‫العابدین اس حالت‬
‫ؑ‬ ‫عبدہللا بن سلیمان اپنے والد گرامی سے نقل کرتا ہے‪ :‬امام زین‬
‫آپ کے سر پر کالے رنگ کا عمامہ تھا‪[]27[.‬‬ ‫میں مسجد میں داخل ہوئے جب ؑ‬
‫‪]29[]28‬‬
‫بعض کا عقیدہ ہے کہ صفوی شاہ‪ ،‬نے سادات کے لئے کالے عمامے کی نشانی‬
‫حسین کی مظلومیت پر ہمیشہ عزادار رہیں‪]30[ ،‬‬ ‫ؑ‬ ‫رکھی‪ ،‬تا کہ وہ اپنے جد امام‬
‫لیکن بعض گزارش کے مطابق سید رضی طالبیین کے درمیان وہ پہال فرد تھا‬
‫جس نے کالے رنگ کی عالمت استعمال کی‪ :‬وھو اول طالبی جعل علیہ السواد‪[ .‬‬
‫‪]33[]32[]31‬‬
‫خاص فقہی احکام‬
‫سادات کے لئے فقہ میں بعض خاص احکام موجود ہیں‪ .‬خمس کا کچھ حصہ فقیر‬
‫سادات سے متعلق ہے جسے سہم سادات کہتے ہیں‪ .‬اور غیر سید افراد سید افراد‬
‫کو زکات نہیں دے سکتے‪ ]34[.‬اور مسلمانوں کے درمیان مشہور روایات‪ ،‬میں‬
‫اعلی مقام کی وجہ سے ہے‪ ]35[.‬فقہی نظر میں‪ ،‬سادات‬ ‫ٰ‬ ‫اس منع کی دلیل‪ ،‬انکے‬
‫کے احکام ان کے لئے ہیں جن کے والد کا نسب ہاشم بن عبدمناف سے ملتا ہو‬
‫‪.‬اور اگر کسی کی والدہ سیدہ ہو تو‪ ،‬یہ احکام اس کے لئے نہیں ہیں‬
‫سادات کا شجرہ نامہ‬
‫کسی بھی خاندان کا شجرہ نامہ یا نسب نامہ اس کے والدین اور نیاکان کے نام‬
‫سے ہوتا ہے جیسے ایک درخت کو دیکھا جائے کہ اس کی اصل جڑ ہے‪ ،‬اور‬
‫آگے سے اس کی اوالد اور اوالد وہ سب اس کی شاخیں ہیں‪ ]36[.‬جہاں تک کہ‬
‫ہمیشہ کوشش کی گئی ہے کہ سادات کی اصلیت مشخص ہو‪ ،‬اسی لئے سادات کی‬
‫جہت معین کرنے کے لئے شجرہ نامہ تدوین کیا جاتا ہے‪ .‬اور یہ شجرہ نامہ ہر‬
‫ایک سید کے پاس ہوتا ہے‪ .‬مثال کے طور پر رضوی سادات کے متعلق جو‬
‫شجرہ نامہ ہے وہ آستان قدس رضوی کے عجائب گھر میں رکھا گیا ہے‪]37[ .‬‬
‫سادات کا احترام‬
‫پیغمبر سے منسوب ہونے کی وجہ سے ہمیشہ مسلمانوں کی نگاہ میں سادات کا‬‫ؐ‬
‫خاص احترام رہا ہے‪ .‬جیسے کہ ابودلف نے اپنی عمر کے آخری حصے میں‬
‫کچھ سادات کو بال کر انکو کچھ رقم ہدیہ کی تھی اور ان سے درخواست کی کہ‬
‫پیغمبر تک اپنا شجرہ نامہ لکھ کر اسے دیں تا کہ وہ اسے اپنے کفن میں رکھ‬
‫ؐ‬
‫لے‪ ]38[.‬جب تاج الدین آوجی کے دشمن اسے قتل کرنے کے لئے آئے تو‬
‫کیونکہ ان کا حاکم سادات کو قتل نہیں کرتا تھا اس لئے اس کے دشمنوں نے اس‬
‫کے شجرہ نامہ کو جعلی قرار دیا اور اس طریقے سے حاکم سے اس کے قتل کا‬
‫حکم لیا‪]39[ .‬‬
‫حوالہ جات‬
‫‪.‬عروة الوثقی‪ ،‬ج‪ ،۲‬کتاب الخمس فصل ‪ ،۲‬مسئلہ ‪۳‬‬
‫جامع االنساب‪ ،‬ص‪۳۴-۵‬‬
‫تاریخ بیہق‪ ،‬متن‪ ،‬ص‪۵۴‬‬
‫تاریخ قم‪ ،‬ص‪۲۰۸ :‬‬
‫تاریخ قم‪ ،‬ص‪۲۰۹‬‬
‫صورة االرض‪ ،‬ج‪ ،۱‬ص‪۲۴۰‬‬
‫امع االنساب‪۳۴-۵ ،‬‬
‫المعقبون‪ ،‬ج‪ ،۱‬ص ‪۲۱‬‬
‫تاریخ الخلفاء‪ 8،‬ص‪۲۵ ،۲۴‬؛ وفیات االعیان‪ ،‬ج‪ ،۴‬ص‪۱۳۷‬‬
‫تاریخ الخلفاء‪ 8،‬ص‪۲۵ ،۲۴‬؛ وفیات االعیان‪ ،‬ج‪ ،۴‬ص‪۱۳۷‬‬
‫‪.‬مقاتل الطالبیین‪ ،‬ص‪۳۲۰‬‬
‫‪.‬تاریخ طبرستان و رویان و مازندران‪ ،‬ص‪۱۹۸‬‬
‫‪.‬تاریخ طبرستان و رویان و مازندران‪ ،‬ص‪۱۹۸‬‬
‫‪.‬تاریخ طبرستان و رویان و مازندران‪۱۹۸ /‬‬
‫‪.‬لذریعہ ج‪ ،۱۶‬ص‪۵۸‬‬
‫المجدی‪ ،‬ص‪۱۷۱‬‬
‫الفخری‪ ،‬ص‪۴۱‬‬
‫منتقلہ الطالبیہ‪ ،‬ص‪۳‬‬
‫‪.‬عبدالجلیل قزوینی‪ ،‬کتاب نقض‪ ،‬بی‌تا‪ ،‬بی‌جا‪ ،‬ص‪۶۲۹‬‬
‫تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس‪ ،‬ج‪ ،۱‬ص‪۱۸۵:‬‬
‫األنوار فی مولد النبی‪ ،‬ص‪۳۴۱‬‬
‫الطبقات الکبری‪ ،‬ج‪ ،۱‬ص‪۳۵۰:‬‬
‫بحار‪ ،‬ج‪ ،۴۴‬ص‪۲۴۶:‬‬
‫ترجمہ تاریخ طبری‪ ،‬ج‪ ،۱۳‬ص‪۵۶۶۰:‬‬
‫اشراف مکہ‪ ،‬ص‪۲۶‬‬
‫وسائل الشیعہ ج‪ ۳‬ص‪ ۳۷۹‬ح ‪ ۱۰‬باب ‪۳۰‬‬
‫وسائل الشیعہ ج‪ ،۳‬ص‪ ۳۷۸‬ح ‪۹‬‬
‫سیر اعالم النبالء ج‪ ،۱‬ص‪۳۷۲‬‬
‫سیرہ ابن کثیر‪ ،‬ج‪ ،۴‬ص‪۷۸‬‬
‫تاریخ مذہبی قم علی اصغر فقیہی ‪۱۱۵‬‬
‫ابن عنبہ‪ ،‬عمدالطالب‪ ،‬ج‪189-188 ،1‬‬
‫الغدیر‪ ،‬ج‪ ،۳‬ص‪۲۹۳‬‬
‫‪٣٣.‬معجم رجال الحدیث‪ ،‬ج‪ ،۱۷‬ص‪[۲۴‬‬
‫نجفی‪ ،‬ج‪ ،۱۵‬ص‪۴۰۶‬ـ‪ ،۴۱۵‬ج‪ ،۱۶‬ص‪۱۰۴‬‬
‫طوسی‪ ،‬تہذیب االحکام‪ ،‬ج‪ ،۴‬ص‪ ۵۷‬بہ بعد‬
‫لغت نامہ دہخدا‪ ،‬ما ّدہ شجرہ نامہ‬
‫وفیات االعیان‪ ،‬ج‪ ،3‬ص‪241-240‬‬
‫‪،‬القاشانی‪ ،‬تاریخ اولجایتو‬
‫دعاگو‬

You might also like