Professional Documents
Culture Documents
Untitled Document
Untitled Document
برصغیر پاک و ہند اسالم اس وقت آچکا تھا جب کہ کسی صوفی کا اس دنیا میں وجود تھا اور نہ
تصوف کا۔ گو دوسری صدی ہجری کی اواخر یا تیسری صدی کے اوائل میں چند ایک بزرگوں کو
صوفی کہا جانے لگا تھا -تاہم ان کی ابتداء تیسری صدی ہجری میں شمار ہوتی ہے۔ اور
جوصوفیائے کرام بریصغیر پاک و ہند میں تشریف الئے اور ان کی وساطت سے ہند میں اشاعت
اسالم کا کام ہوا ،ان میں دو ہستیاں ہی زیادہ مشھور ہیں جو پہلے پہل تشریف الئيں -پہلے حضرت
علی ہجویری (1009ء تا 1072ء) ہیں ،یہ ہندستان میں 1069ء میں تشریف الئے اور دوسرے
بزرگ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری (1124ء تا 1235ء) ہیں -جن کی ہندستان میں آمد کی
تاریخ 10محرم 561ھ بمطابق 1161ء بتالئی جاتی ہے جوکہ سخت مشکوک ہے -تذکرہ نگاروں
کے بیان کے مطابق یہ تاریخ 577ھ یا 580ھ ہونی چاہیے۔
ان دو شمھور بزرگوں کے عالوہ دو اور بزرگوں کی آمد کا بھی تذکروں سے پتہ چلتا ہے -ان میں
سے ایک تو شیخ محمد اسماعیل بخاری جو 395ھ بمطابق 1005ء میں الھور تشریف الئے۔
(روح تصوف ص 99 :تا )102
اور دوسرے بزرگ خواجہ ابو محمد بن ابو احمد جو محمود غزنوی کے ساتھ ہندستان تشریف
الئے۔ (تاریخ مشائخ چشت ،خلیق نظامی ص)145 :
اور محمود غزنوی نے 1001ء سے لے کر 1025ء تک ہندستان پر 17حملے کیے تھے اور
آخری حملہ سومنات پر 1025ء میں کیا گیا تھا-
ان تمام تو پصریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی صوفی یا بزرگ ،وہ مشھور و معروف
ہو یا غیر معروف سلطان محمود غزنوی سے پہلے بریصغیر پاک و ہند میں وارد نہیں ہوا تھا-
لیکن مسلمان اس سے بہت پہلے یہاں نظر آتے ہیں ،جن کی تفصیل کچھ اس طرح ہے -اور یہ
تفصیل ہم ( تاریخ پاک و ہند از پروفیسر عبدہللا ملک" صدر شعبہ تاریخ اسالمیہ کالج ،ریلوے روڈ
الھور ساتواں ایڈیشن 1978ء") سے پیش کررہے ہیں -آپ کی یہ کتاب کالجوں میں بطور نصاب
پڑھائی جاتی ہے-
" اسالم مذھب کی حیثیت سے پہلے جنوبی ہند پہنچا -مسلمان تاجرو اور مبلغین ساتویں صدی
ہللا کی وفات 632ء میں ہوئی تھی -یعنی آپ کی وفات کے بعد جلد عیسوی میں (یاد رہے کہ رسول ۖ
ہی مسلمان) مالیبار اور جنوبی سواحل کے دیگر عالقوں میں آنے جانے لگے -مسلمان چونکہ
بہترین اخالق و کردار کے مالک اور کاروباری لین دین میں دیانتدار واقع ہوئے تھے -لہذا مالیبار
کے راجاؤں ،تاجروں اور عام لوگوں نے ان کے ساتھ رواداری کا سلوک روا رکھا -چنانچہ
مسلمانوں نے بریصغیر پاک و ہند کے مغربی ساحلوں پر قطعی اراضی حاصل کرکے مسحدیں
تعمیر کیں( -یاد رہے کہ اس وقت حانقاہوں کی تعمیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا) اور اپنے دین
کی تبلیغ میں مصروف ہوگئے -ہر مسلمان اپنے اخالق اور عمل کے اعتبار سے اپنے دین کا مبلغ
تھا نتیجہ عوام ان کے اخالق و اعمال سے متاثر ہوتے چلے گئے -تجارت اور تبلیغ کا یہ سلسلہ
ایک صدی تک جاری رہا یہاں تک کہ مالیبار میں اسالم کو خاطر خواہ فروغ حاصل ہوا اور وہاں
کا راجہ بھی مسلمان ہوگیا -جنوبی ہند میں فروغ اسالم کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں
جنوبی ہند مذھبی کشمکش کا شکار تھا -ہندو دھرم کے پیروکار بدھ مت اور جین مت کے شدید
محالف اور ان کی بیخ کنی میں مصروف تھے -ان حاالت میں جب مبلغین اسالم نے توحید باری
تعالی اور ذات پات اور چھوت چھات کی ال یعنی اور خالف انسانیت قرار دیا ،تو عوام جو ہزاروں
سال سے تفرقات اور امتیازات کا شکار ہورہے تھے -بے اختیار اسالم کی طرف مائل ہونے لگے-
چونکہ حکومت اور معاشرہ کی طرف سے تبدیلی مذھب پر کوئی پابندی نہیں تھی -لہذا ہزاروں
غیر مسلم مسامان ہوگئے( -تاریخ پاک وہند ،ص)390:
-1پہلی ہی صدی ہجری اسالم جنوبی ہند بالخصوص مالیبار اور مغربی سواحل میں پھیل گيا -ان
عالقوں کے ہزارہا غیر مسلم مسلمان ہوچکے تھے اور راجہ بھی مسلمان ہوگيا-
-2اشاعت اسالم کی اصل وجوہات 3تھیں-
( )1عقیدہ توحید تعالی کی سادگی ( )2ذات پات اور چھوت چھات کو خالف انسانیت قرار دینا ()3
مسلمانوں کے اعمال و اخالق کی پاکیزگی
گویا ہندوستان میں اشاعت اسالم کا اصل سبب اولیاءہللا یا صوفیاء کی کرامات نہیں بلکا درج باال
مجوہات تھیں-
اب اس پہلی صدی ہجری میں بریصغیر پاک وہند میں جن جن مقامات پر اشاعت اسالم ہوئی اس
کی مزید تفصیل درج ذیل اقتباس میں مالحضہ فرمائيے:
" بریصغیر پاک وہند میں عربوں کے تجارتی مراکز میں سراندیپ ،مالدیپ ،ماالبار ،کارومنڈل،
گجرات اور سندہ قابل ذکر ہیں -ان کی عالوہ جنوبی ہند اور ساحلی عالقوں میں بھی جابجا عرب
تاجروں کی نوآبادت موجود تھیں -جہاں عراق اور عرب کے تاجر موجود تھے -ظہور اسالم کے
بعد عربوں کی سیاسی ،مجلسی اور اقتصادی سرگرمیاں تیز تر ہوگئيں -اب وہ تبلیغ اسالم کے شوق
سے سرشار ،اخالق و اطوار کے لحاظ سے بلند معیار کے حامل اور صداقت و دیانت کے پیکر
تھے -ان میں سے اکثر نے بریصغیر میں ہی رہائش اختیار کرلی۔ آہستہ آہستہ جنوبی ہند کی اکثر
مقامات پر مسلمانوں کی نوآبادت قائم ہوگئيں -انہوں نے مقامی لوگوں کو مشرف بہ اسالم کرنا
شروع کردیا -مقامی راجاؤں سے مسلمان تاجروں کے تعلقات نہایت خوشگوار تھے اور انہیں تبلیغ
اسالم اور عبادت کی پوری آزادی حاصل تھی" (تاریخ پاک وہند ص)17،18 :
اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ:
پہلی صدی ہجری میں اسالم صرف مالیبار اور مغربی سوحل پر ہی نہیں پھیال بلیہ جزائر سراندیپ،
مالدیپ ،اور عالئقہ ہائے کارمنڈل ،گجرات اور سندہ میں اسالم کی اشاعت ہوچکی تھی -ان مقامات
پر عربوں کی نوآبادیات بھی قائم تھیں اور بہت سے عرب مسلمان مشتقل یہاں قیام پذیر ہوکر اسالم
کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف ہوگئے تھے-
بریصغیر میں اشاعت اسالم کے سلسلہ میں یہ کچھہ تو نجی سطح پر ہوا -اب جو کجھہ سرکاری
سطح پر ہوا اس کی تفصیل کچھہ اس طرح ہے:
دور فاروقی میں بحرین وعمان کے حاکم عثمان بن ابوالعاص ٹقفی نے 636ء637-ء میں (وفات
رسول ہللا سے صرف 4سال بعد) ایک فوجی مہم تھانہ نزد ممبئی میں بھیجی -پھر اس کی اطالع
حضرت عمر رض کو دی -آپ ناراض ہوئے اور لکھا" تم نے میری اجازت کے بغیر سواحل ہند
پر فوج بھیجی -اگر ہمارے آدمی وہاں مارے جاتے تو میں تمہارے قبیلہ کے اتنے ہی آدمی قتل
کرڈالتا" (تاریخ پاک وہند ص)18 :
عہد عثمانی میں عراق کے حاکم عبدہللا بن عامر نے حکیم بن حبلہ کو بریصغیر سرحدی حاالت کی
تحقیق پر مامور کیا -واپسی پرانہوں نے حضرت عثمان رض کو اپنی رپورٹ میں بتالیا کہ " وہاں
پانی کیمیاب ہے ،پھل نکمے ہیں ،ڈاکو بہت دلیر ہیں اگر قلیل التعداد فوج بھیجی تو ہالک ہوجائے
گی اور اگر زیادہ لشکر بھیجا گیا ،تو بھوکوں مرجائے گا" اس رپورٹ کی بناء پر حضرت عثمان
غنی رض نے مہم بھیجنے کا ارادہ ترک کردیا۔ (تاریخ پاک وہند ص)19 :
حضرت امیر معاویہ رض کے دور حکومت میں مشہور سپہ ساالر مہلب بن ابی صفرہ نے
برصغیر کی سرحد پر حملہ کیا اور الھور تک بڑھ آیا -انہی ایام میں خلیفہ اسالم نے ایک اور شپہ
ساالر عبدہللا بن سوار عبدی کو سواحل برصغیر کے سرکش لوگوں کی گوشمالی کے لیے 4ھزار
کی عسکری جمیعت کے ساتھ بھیجا -اس نے قیقان کے باشندوں کو سخت شکست دی اور مال
غنیمت لے کر واپس چالگیا -ان نے حضرت امیر معاویہ رض کی خدمت میں قیقانی گھوڑے پیش
کیے -لیکن کچھ مدت بعد عبدہللا بن سوار قیقان واپس آگیا ،جہاں ترکوں نے یورش کرکے اسے قتل
کردیا( -تاریخ پاک وہند ص)19:
4۔ عہد ولید بن مالک
بعد ازاں 712ء یعنی 93ھ میں ولید بن مالک کے زمانہ میں وہ واقعہ پیش آیا جس نے برصغیر
میں اسالم کی اشاعت کے سلسلہ میں بڑا موثر کردار ادا کیا یعنی محمد بن قاسم رح نے اس سال
سندھ کے سارے عالئقہ کو فتح کرلیا -اس حملہ ک ےاسباب و محرکات ہمارے موضوع سے
خارج ہیں -ہم ت ویہ دیکھنا چاہتے ہیں اس مہم میں محمد بن قاسم نے دیبل ،نیرون ،سیوستان،
سیسم ،رادڑ ،برہمن آباد ،اوور ،باتیہ (موجودہ بہاولپور کے قرب و جوار میں موجود تھا) ،اور
ملتان کو فتح کیا اور قنوج کی تسخیر کا ارادہ کررہا تھا کہ اسے واپس باللیا گیا-
محمد بن قاسم رح کے جانے کے بعد فتوحات کا سلسلہ اچانک رک گیا -بہرحال عرب سندھ و ملتان
پر 200سال سے زیادہ عرصہ تک (یعنی 10صدی عیسوی تک) قابض رہے ،چوتھی صدی
ہجری تک خلیفۃ المسلمین والیان سندھ کا تقرر کرتے رہا -اس کے سندھ میں عربوں کی دو نیم
ریاستیں قائم ہوگئیں -ان میں سے ایک ملتان اور دوسری منصورہ تھی۔ (تاریخ پاک وہند ص)35 :
محمد بن قاسم کی ان فتوحات نے اشاعت اسالم کے سلسلہ میں کیا کردارادا کیا؟ وہ پروفیسر
عبدالقادر و شجاع الدین کی زبان سے سنیے:
" فتح سندھ کے بعد بےشمار علماء ،مبلغین ،تاجر اور صناع عرب سے آکے سندھ میں آباد ہوئے۔
مقامی باشندوں میں اسالم رائج ہوا اور یہ سرزمین فرزندان توحید کا گہوارہ بن گئي -آج سندھ اسی
طرح اسالمی خطہ ہے جس طرح عراق اور مصر -ہم عربوں کی فتح سندھ کی عظمت ،اس کی
تاریخی اہمیت اور اس کے نتائج کے منکر نہیں ہوسکتے" (تاریخ پاک وہند ص)40 :
976ء (چوتھی صدی ہجری) میں سبکتگین غزنوی نے پشاور کے قریب جے پال کو شکست دے
کر لمغان (جالل آباد) سے دريائے سندھ تک کے تمام عالئقے اپنی سلطنت میں شامل کرلیے -ان
لڑائیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ برصغیر کی عسکری کمووری مسلمانوں پر عیاں ہوگئي اور سندھ پار
کے عالئقے میں ایک طاقتور اسالمی حکومت قائم ہوگئي جو بعد ازاں پنجاب اور برصغیر کے
دوسرے حصوں پر چھاگئي ،نیز بریصغیر کی فتح کے دروازے کھل گئے-
سبکتگین کے عہد کا دوسرا اہم واقعہ افغان قوم کے معرص وجود میں آنے کا ہے -افغان پشاور
اور غزنی کے درمیانی عالقہ کے باشندے تھے اور متعدد قبائل میں بٹے ہوئے تھے -سبکتگین نے
ان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے ان سے دوستانہ مراسم استوار کیے اور وہ تمام عالئقے جو ان
کے قبصے میں تھے ان کے سپرد کردیے۔ نتیجہ افغان قوم کی بنیاد پری -نیز یہ قبائل نہ صرف
حلقہ بگوش اسالم ہوئے بلکہ سالطین غزنہ کی افواج میں بھرتی ہوگئے( -تاریخ پاک وہند ص)64:
6۔ عہد محمود غونوی
سبکتگین کے بعد سلطان محمود غونوی ( 997تا 1030ء) کا دور اتا ہے جس نے پہال حملہ
1001ء میں برصغیر پر کرکے درّ ہ خیبر کے نواحی عالئقوں کی تسخیر کی -اس نے کل 17
حملے کیے تھے -آخری حملہ 1025ء میں کیا جس میں سومنات کو فتح کیا اس دوراں محمود
غزنوی رح نے برصغیر کے جن عالقوں کو فتح کیا انکے نام یہ ہیں:
درہ خیبر اور اس کے نواحی عالقے ،ملتان (یہاں کا حاکم شیخ حمید بوی مسلمان تھا لیکن محمود
غونوی کی مخالفت کرکے راجہ بجے رائے کا حلیف تھا) پنجاب ،کانگڑہ ،نگر کوٹ ،تھانیسر،
کشمیر ،قنوج ،کالنجر ،گوالیار اور سومنات( -تاریخ پاک وہند ص)60،61 :
سلطان محمود غونوی رح (م 1030ء) کے بعد اس کے جانشین مزید 150سال 1186ء تک ان
عالقوں پر قابص رہے-
غزنی خاندان کے بعد غور چاندان ہند پر قابض ہوتا ہے -سلطان شھاب الدین محمد غوری نے سب
سے پہلے حملہ 1175ء میں ملتان کو فتح کیا -پھر غوریوں کے بعد ہندوستان میں خاندان غالماں،
خلجی ،تغلق ،سادات اور لودھی بر سر اقتدار آئے پھر 1526ء مین بابر نے ہندوستان میں مغلیہ
خاندان کی بنیاد رکھی اور یہ مغلیہ خاندان 1857ء تک برصغیر پاک وہند میں برسر اقتدار رہا-
یہ وہ تاریخی حقائق ہین جن سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا -ان سے معلوم ہوتا ہے کہ
712ء یا 93ھ سے لےکر 1857ء تک کوئی ایسا وقت نہیں گزرا جب کہ بریصغیر کے کسی نہ
کسی حصے پر مسلمانوں کی حکومت موجود نہ رہی ہو -اب صوفیاء کی طرف سے دعوای یہ کیا
جاتا ہے کہ پہلے صوفیاء ہندوساتان گئے -انہوں نے وہاں اشاعت اسالم کا فریضہ انجام دیا اور
مسلمان خکمرانوں کے حملہ اور فتح کے لیے زمین ہموار کرتے رہے -لیکن تاریخی حقائق کی
روشنی میں صوفیاء کے اس مزعومہ دعوے کو کیوں کر باور کیا جاسکتا ہے جبکہ صوفی تو
پیداوار ہی 3صدی ہجری کی ہیں اور پہلے صوفی جو ہندوستان تشریف الئے وہ اسماعیل بخاری
ہیں جو 1005ہ (395ھ) میں محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان تشریف التے ہیں جبیہ ملسلمان
حکمرانوں کا 712ء (93ھ) سے لے کر 1857ء تا ایسا تسلسل قائم رہا ہے کہ اس میں ایک دن کا
بھی انقطاع واقع نہیں ہوا-
زیادہ سے زیادہ جو چيز باور کی جاسکتی ہے ،وہ یہ ہے کہ محمود غزنوی چونکہ خود بھی
صوفی منش اور صوفیاء کا قدردان تھا -اس لیے اس نے یہ تحریک پیدا کی کہ دوسرے علمائے
دین کے ساتھ صوفیاء بھی اس سرزمین پر تشریف الئيں اور مفتوجہ عالقوں میں اشاعت اسالم کا
فریضہ سر انجام دیں -چنانچہ پہلے صوفی جن کا نام تذکروں میں ملتا ہے وہ اسماعیل بخاری ہیں
جنہیں 1005ء میں اپنے ساتھ الیا تھا -حاالنکہ وہ خود 1001ء سے ہندوستان پر حملے کررہا تھا-