You are on page 1of 7

‫غازی سید ساالر مسعود‬ ‫ہندوستان کا پہال مسلم فرمانروا‬

‫سید ساالر مسعود غازی کی پیدایش ‪ 15‬فروری ‪1015‬ءبمطابق ‪ 21‬رجب ‪405‬ھ میں اجمیرمیں ہوئی۔ سید ساالر مسعود‬
‫غازی سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے۔ آپ کے والد کا نام سیدساالر ساہو غازی اور والدہ کا نام سترے معاٰل تھا جو‬
‫سلطان محمود غزنوی کی بہن تھیں۔ سیدساالر ساہو غازی محمد بن حنفیہ حضرت علؓی کی نسل سے تھے۔ ساالر مسعود‬
‫اسالم کی تبلیغ کے لیے جنوبی ایشیا کے لیے گیارھویں صدی کی ابتدا میں اپنے چچا ساالرسیف الدین اور استاد سید‬
‫ابراہیم مشہدی بارہ ہزاری (سلطان محمود غزنوی کے ساالر اعظم) کے ساتھ آئے۔‬
‫غازی سید ساالرمسعود‬

‫مزار سید ساالر مسعود غازؒئ‬

‫‪1015‬ءمطابق ‪405‬ھ
‬ ‫پیدائش‬
‫اجمیر ہندوستان‬

‫‪15‬جون ‪1033‬ء مطابق ‪ 14‬رجب المرجب ‪424‬ھ‬ ‫وفات‬

‫غازی میاں‪ ،‬بالے میاں ‪،‬باالپیر‬ ‫اسمائے دیگر‬

‫ساالر سلطان سہدا فل ہند‬ ‫وجِہ شہرت‬

‫اسالم‬ ‫مذہب‬

‫خاندان‬

‫ساالر مسعود غازی قطب شاہی اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ کتاب نسب قریش عربی تالیف البی عبد اللہ مصعب بن‬
‫عبد اللہ بن المصعب بن زبیرجو‪156‬ہجری میں پیداہوئے اور‪236‬ہجری میں وفات پائی کے صفحہ‪77‬پرلکھتے ہیں وولدعون‬
‫بن علی بن محمد بن علی بن ابی طالب محمدًا ؛ رقیہ و علیہ بنی عون۔ منبع االنساب فارسی تالیف سید معین الحق‬
‫جھونسوی فارسی مخطوطہ کا اردو ترجمہ عالمہ ڈاکٹرارشاد حسین ساحل شاہسرامی علی گڑھ انڈیا نے ‪2012‬ء میں کیا‬
‫ہے کے صفحہ‪363‬پر لکھتے ہیں‪:‬۔ حضرت شاہ ابوالقاسم محمد حنیف بن علی مرتضٰی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہما‬
‫محمدحنفیہ کےنام سے مشہورہیں اآپ کی والدت ‪16‬ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی ۔ عمر مبارک پنسٹھ سال تھی‬
‫‪81‬ہجری میں پیر کے دن وصال ہواکتابیوں کا ایک گرو دعوٰی کرتا ہے کہ آپ قریب قیامت ظہورفرمائیں گے اسی طرح کی‬
‫اور بھی بعض بے سروپا حکایات اآپ سے منسوب ہیں۔ اآپ کے تین صاحبزادے ‪-1‬ابوھاشم ‪2‬۔علی عبدالمنان۔‪3‬۔جعفر اآپ کی‬
‫چودھ صاحبزادے اور دس صاحبزادیاں تھیں لیکن نسل تین صاحبزادوں سے چلی‪ :‬ابوہاشم جعفر علی قدست اسراہم۔‬
‫حضرت کا وصال مدینہ طیبہ یا طائف میں ھوا۔ حضرت جعفر کے ایک صاحبزادے عبد اللہ تھے۔ حضرت علی عبدالمنان کے‬
‫ایک صاحبزادے عون عرف قطب شاہ غازی تھے۔حضرت عون عرف قطب شاہ غازی کے ایک صاحبزادے محمداآصف غازی‬
‫تھے اور محمداآصف غازی کے ایک صاحبزادے شاہ علی غازی تھے شاہ علی غازی دو صاحبزادشاہ محمدغازی اور شاہ‬
‫احمدغازی(بحرالنساب عربی اور تہذیب االنساب عربی کے مطابق سات صاحبزادے محمد‪،‬احمد‪،‬علی‪،‬موسٰی ‪،‬عیسٰی ‪ ،‬حسن و‬
‫حسین)تھے سید احمد غازی نے سبزاوارکو اپنا وطن بنایا چنانچہ سادات سبزواری آپ ہی کی نسل سے ہیں اسی طرح سید‬
‫حامد خان سبزاواری بھی شاہ احمدغازی کی نسل سے ہیں جن کا مزارمبارک قلعہ مانک پور میں ہے۔ حجرت سید احمدغازی‬
‫کی اوالد بہت ہے۔سید شاہ احمدغازی کے بڑے بھائی سید شاہ محمدغازی کے ایک صاحبزادے سید طیب غازی ہیں جن کے‬
‫ایک صاحبزادے سئد طاہر غازی ہیں سید طاہرغازی کے ایک صاحبزادے سید عطااللہ غازی اور ان کے صاحبزادے‬
‫سیدساھوغازی ہیں(مرات مسعودی فارسی تالیف عبدالرحمن چشتی ‪1037‬ھ ‪،‬مرات االسرار فارسی ‪1065‬ھ اور تاریخ‬
‫حیدری و تحقیق االعوان کے مطابق آپ عطااللہ غازی کے تین صاحبزادے ساالرساھوغازی‪ ،‬ساالرقطب حیدرالمعروف قطب‬
‫شاہ و ساالرسیف الدین غازی تھے)سید ‪(،‬محمود)ساھو غازی کی شادی سلطان محمودغزنوی کی ہمشیرہ کے ساتھ ہوئی‬
‫تھی ان سےایک صاحبزادے سید سعید الدین ساالرمسعود غازی ہیں۔۔آپ سادات علوی سے ہیں ۔ اکثرسادات حضرت سید‬
‫ساالرمسعود غازی کے ہمراہ ہندوستان تشریف الئے ہیں۔ مندرج دغازی کاخاندان‪ :‬ہ باال کتب کے عالوہ دیگر بے شمار کتب‬
‫میں سید ساالرمسعودغازی قطب شاہی علوی کاتذکرہ موجود ہے۔ قدیم کتاب نسب قریش عربی میں بنی عون تحری رہے‬
‫اور عون ‪ ،‬اعوان کی واحدہے اور اس کی مزید تصدیق منبع االنساب فارسی سے عون قطب شاہ غازی بن علی عبدالمنان سے‬
‫ہوتی ہے کہ سیدساالرمسعودغازی شہید ‪424‬ہجری کا نسبی تعلق قطب شاہی علوی اعوان قبیلہ سے ہے آپ کامزارمبارک‬
‫بہرائچ میں ہے سلطان فیروزشاہ تغلق نے آپ کا روضہ مبارک تعمیر کروایاتھا۔‬

‫آپ کی آمد‬

‫انہوں نے اپنے ماموں سلطان محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان آئے‪ ،‬تب ساالر مسعود (‪ 1026‬عیسوی میں) کی عمر‬
‫‪11‬سال کی تھی۔ اپنے ماموں کی سومناتھ پر فتح کے بعد غزنی کو واپس ہوئے۔ لیکن ساالر مسعود ان کے عزائم کو آگے‬
‫بڑھانے کے لیے ہندوستان ہی میں آباد ہوئے۔ جن کا اہم مقصد تبلیغ اور اشاعِت دین تھا۔ محمد انصاراللہ اپنی تصنیف کے باب‬
‫اضالع مشرقی میں لکھتے ہیں‪ ’’:‬از اہل اسالم اول کسے کہ در یں ملک فرماں رواشد حضرت ساالر مسعودغازؒی بودند کہ‬
‫بعد فتح ایں ملک تادباِر بنارس و جونپور خطبہ و سکہ بہ نام سلطان محمود غزنوی خاِل خود رواج داند۔‘‘(‪)۲‬ترجمہ اردو از‬
‫سید ظفر احسن بہرائچی(سجادہ نشین خانقاہ نعیمیہ بہرائچ)’’اہل اسالم میں سے اول جو شخص اس ملک کا فرمارواں ہوا‬
‫وہ حضرت ساالر مسعود غازؒی تھے‪،‬جنہوں نے اس ملک کو فتح کے بعد بنارس اور جونپور تک کے شہروں میں اپنے ماموں‬
‫سلطان محمود غزنوی کے نام کا خطبہ و سکہ رائج کیا‬

‫شمالی بھارت کا رخ‬

‫ساالر مسعود مئی ‪ 1031‬ء میں بھارت پر حملہ کر دو جرنیلوں میر حسین عرب اور امیر واجد جعفر کے ہمراہ ‪50،000‬‬
‫گھوڑوں کے ساتھ ‪ 100،000‬سے زائد سپاہیوں کی ایک فوج کے ساتھ بھارت میں داخل ہوئے۔ انہوں نے شمالی بھارت میں‬
‫پر یلغار کیا اور ان کے چچا ساالر سیف الدین‪ ،‬میر بختیار‪ ،‬میر سید عزیز الدین اور ملک ب رہان الدین اور ان کی فوجوں کو‬
‫ان کے ہمراہ کیا۔‬
‫میرٹھ‪ ،‬قنوج اور ملیح آباد گذر شمالی بھارت کے میدانی عالقوں میں تیز چھاپہ کے بعد اور وہ ستریخ پہنچے۔ وہ جن‬
‫مقامی بادشاہوں کے ساتھ دوستی کر معاہدے کرکے میرٹھ اور اجین کو کوچ کیا۔ بعد میں ساکیت لے جایا گیا۔ ساالر رجب‬
‫اور ساالر سیف الدین بہرائچ گئے۔ امیر حسن عرب ماہونا کو گئے‪ ،‬ملک فضل وارانسی لیا۔ سلطان سالطین اور میر‪ ،‬میر‬
‫بختیار ‪ Kannor‬جنوب گئے اور وہاں میر بختیار مقامی فوج کے ساتھ ایک لڑائی کے دوران ہالک ہو گیا تھا۔ سید ساہو قرہ‬
‫اور مانک پور کو گئے۔ مانک پور میں قرہ اور قطب حیدر کے انچارج ملک عبد اللہ چھوڑنا۔ سیدعزیز الدین ہردوئ خالف‬
‫بھیجا‪ ،‬لیکن گومتی کے کنارے پر ‪G‬گوپامو میں جنگ میں گر گئی تھی۔ [‪ ]3‬ان کے قریبی ساتھیوں اور اس طرح کے جالل‬
‫الدین بخاری اور سید ابراہیم باڑہ ہزاری کے طور پر رشتہ داروں کی قبروں بھی ریواڑی میں واقع ہیں۔‬

‫بہرائچ کی جنگ‬

‫ساالر مسعود غازؒی کے والد سترکھ (بارہ بنکی) میں مقیم تھے۔ وہیں انھوں نے وفات پائی گو یا ان مفتوحہ عالقہ کا صدر‬
‫مقام وہی تھا۔ان بزرگ کی وفات کے بعد بہرائچ تک کے مقامی باشندوں نے بغاوت کی۔اسی جنگ کی وجہ سے اس مقام کا‬
‫نام بھڑائچ(یعنی خاص لڑائی ) پڑ گیا تھا۔’‬

‫سید ساالر مسعود غازی زیدپور‪ ،‬بابا بازار‪ ،‬رودولی کے ذریعے ایودھیا پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے ‪ ،‬لیکن روناہی پہنچنے‬
‫پر؛ (اور یہاں ایک چھوٹا سا شہر ساالر مسعود کی ساالرپورکے نام کی طرف سے قائم کیا گیا ہے۔ ایودھیا کے مضافات میں)‬
‫اچانک ان کا ذہن تبدیل ہوا اور اترپردیش میں موجودہ دور کے بہرائچ کی طرف اپنی فوج لیکر بڑھے‪ ،‬یہاں راجہ سہر دیو‬
‫حکمران تھا‪ ،‬بہڑائچ میں کئی جنگیں لڑیں گئیں‪ ،‬جن میں سے ایک میں سید ساالر مسعود غازی اور ان کے کئی رفقاء مقام‬
‫شہادت سے سرفراز ہوئے‪ ،‬سید ابراہیم مشہدی جو سلطان محمود غزنوی کی فوج میں بارہ ہزاری کے منصب پر فائز تھے اور‬
‫حضرت سید ساالر مسعود غازؒی کے استاد محترم بھی تھے۔آپ نے ہی تمام شہدا بشمول حضرت سید ساالر مسعود غازی ؒ‬
‫کو دفن کیا اور بعد میں مقامی راجہ سہر دیو کو قتل کرنے کے بعد خود بھی جام ِ شہادت کو نوش فرما لیا تھا۔ [‪]1‬‬

‫ساالر مسعود کے ساتھ بہت کم سپاہی تھے غزنی سے انکو مدد نہیں مل رہی تھی‪ ،‬اسکی وجہ یہ تھی کہ ساالر مسعود کے‬
‫بھائی ملک قطب حیدر جو ‪1030‬ء ؁ میں سلطان محمودغزنوی کے انتقال تک شہربلخ کے حکمران تھے۔سلطان‬
‫محمودغزنوی کے بعدکچھ دن جالل الدولہ محمدبن محمودغزنی کا بادشاہ ہوا۔اسی سال سلطان کا دوسرابیٹاشہاب الدولہ‬
‫مسعودبن محمود تخت نشین ہوا۔کہتے ہیں کہ خاندان علوی کے مخالفین نے سلطان مسعود کے دورمیں ایک بارپھرطاقت‬
‫پائی۔ اس نے خواجہ حسن میمندی کوقید سے آزاد کرکے دوبارہ وزیربنا لیا۔اسے سلطان محمودغزنوی نے قیدکردیا تھا۔‬
‫اوراسی کی سازش پر سلطان مسعود نیملک قطب حیدر کو بلخ سے معزول کرکے اپنے پاس حاضرہونے کا حکم دیاتھا۔تاریخ‬
‫بیہقی کی ایک تحریر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سلطان مسعودغزنوی نے اپنے اقتدارکومضبوط کرنے کے لئے ان سے مدد‬
‫کاخواہاں تھا جب کہ اسے یقین تھا کہ وہ اس میں غیرجانبداررہنا پسند کریں گے۔بہرحال سلطان مسعودغزنوی نے انہیں‬
‫[‪]2‬‬ ‫دارالسلطنت حاضرہونے کافرمان بھیجا توانہوں نے اسے رد کیا اورہندوستان کی جانب چل پڑے‪،‬‬

‫غزنی کا سلطان اس سبب سے ساالر مسعود اور ان کے بھائی ملک قطب حیدر کے خالف ہو گیا‪ ،‬یہ ناچاقی غزنویوں کو‬
‫ہندوستان اور افغانستان دونوں جگہ مہنگی پڑی‪ ،‬ہندوستان میں توابع آں حضرت(ساالر غازؒی )کہ تا بنارس متفرق بودند یک‬
‫یک بجاہائے خود شہید شدند دباز حکومت ایں دیاربہ راجہ ہائے منتقل شد۔ ‘(‪)۳‬‬
‫ترجمہ اردو از سید ظفر احسن بہرائچی’’حضرت ساالرغازؒی (اور انکے) رفقاء جوکہ بنارس تک پھیلے ہوئے تھے اپنی اپنی‬
‫جگہ ایک ایک کر کے شہید ہو گئے اور پھر اس شہر کی حکومت راجگان کو منتقل ہو گئی‬

‫شہادت‬
‫کیا[‪]3‬‬ ‫‪ 24‬رجب المرجب ‪424‬ھ کو ‪ 18‬سال کی عمر میں بہرائچ میں جام شہادت نوش‬

‫شیخ وجیہ الدین اشرف لکھنوؒی لکھتے ہیں کہ حضرت سکندر دیوانہ شہید ؒ حضرت سید ساالر مسعود غازؒی کے رفقاء میں‬
‫اہم مقام رکھتے تھے۔ حضرت سکندر دیوانؒہ صاحب کمال درویش ‪،‬خواجہ ابراہیم اددھم ؒ کے سلسلہ سے تھے‪،‬ساالر‬
‫شہدا(ساالر مسعودغازؒی )کے عشق میں ہمشیہ اپنے ہاتھ میں ڈنڈا لیے رہتے اور لشکر کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر‬
‫رہتے ۔یہ شعار سلسلہ ادھمیہ کے مریدوں کا ہے کہ سردار پاؤں برہنہ رکھتے ہیں اور محبوب کی سواری کے آگے آگے پیدل‬
‫چلتے ہیں۔ساالر شہدا کے مصاحبین میں سب سے زیادہ افضل تھے۔۔۔۔۔حضرت ساالر شہدا کو اپنے ہاتھوں سے سہارا دے کر‬
‫درخت گلچکاں کے نیچے لٹا دیا اور ان کا سر اپنی گودمیں لے لیا اور زار و قطار روئے‪،‬ساالر شہدا نے ایک بار آنکھ کھولی‬
‫اور کلمہ’ہو‘ پڑھا۔جان مشاہدہ جاناں میں قربان کر دی‪،‬حاضرین نے دل بریاں اور چشم گریاں کے ساتھ تلواریں کھینچی اور‬
‫کافروں کے لشکر پر ٹوٹ پڑے اور شہید ہوگئے‪،‬سکندر دیوانہ پر بھی چند تیر لگے ‪،‬آپ بھی شہید ہو گئے۔۔۔۔۔۔سید ابراہیم نے‬
‫ساالر شہدا کو درخت گل چکاں کے سائے میں دگن کیا اور سکندر دیوانہ کو حضرت(ساالر شہدا) کی قبر سے کچھ فاصلہ‬
‫پر دفن کیا ‪،‬سکندر دیوانہ سے کچھ ہٹ کر اپنے لئے قبرتیار کی اور وہیں اسپ مادیہ خنگ(سفید گھوڑی) کو دفن کیا‪،‬باقی‬
‫شہدا جن کی الشیں سورج کنڈمیں تھیں ‪،‬ان پر مٹی ڈال کر تودہ بنا دیا اور اس جگہ پر تا قیامت تک ک کفارکی پرستش‬
‫دیا۔[‪]4‬‬ ‫کو موقوف کر دیا اور مسلمانوںکی زیارت گاہ بنا‬

‫مزار‬

‫ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں بہرائچ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے‪’’: ‬بہرائچ ایک خوب صورت شہر ہے جو دریائے سرجو‬
‫کے کنارے واقع ہے سرجو ایک بڑا دریا ہے جو اکڑ اپنے کنارے گراتا رہتا ہے۔ بادشاہ شیخ ساالر(سید ساالر مسعود غازؒی ) کی‬
‫قبر کی زیارت کے لئے دریا پار گیا۔شیخ ساالؒر نے اس نواح کے اکڑ ملک فتح کیے تھے۔اور ان کی بابت عجیب عجیب باتیں‬
‫ہیں۔[‪]5‬‬ ‫مشہور‬

‫بعد ازاں آپ کا معتقد سلطان فیروز شاہ تغلق نے آپ کا مقبرہ بنوایا۔ آج بھی اس درگاہ میں ساالر مسعود کے دور کے‬
‫ہتھیاروں کو نمائش کو طور پر رکھا دیکھا جاسکتا ہے۔‬
‫نعل دروازہ درگاہ سید ساالر مسعود غازؒی بہرائچ‬

‫حوالہ جات‬

‫‪" .1‬مشاہیر بہڑائچ" (‪. )/https://adbimiras.com/mushahir-e-bahraich-ka-jimali-taruf-junaid-ahmad-noor‬‬

‫‪" .2‬غزنویوں کی ناچاقی" (‪https://pnb.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%84%DA%A9_%D8%A8%D9%B9%DB%8‬‬


‫‪. )C%D9%86‬‬

‫‪ .3‬سوانح مسعود غازی موالنا ثابت علی برہانی‪،‬صفحہ‪77‬‬

‫‪ .4‬بحر زخار‪ ،‬شیخ وجیہ الدین اشرف لکھنوؒی (‪۲۰۱۹‬ء)‪ .‬ترجمہ موالنا ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی‪ .‬صفحات‪ ، ۵۴۵ –۵۴۳ ‬جلد‪.۲‬‬

‫‪" .5‬غازی ساالر کا مقبرہ" (‪http://a.cloudns.nz/%D8%BA%D8%A7%D8%B2%DB%8C%20%D8%B3%DB%8C%D8%A‬‬


‫‪. )F%20%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B1%20%D9%85%D8%B3%D8%B9%D9%88%D8%AF.php‬‬

‫بیرونی روابط‬

‫اخذ کردہ از «?‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php‬‬


‫‪&oldid=4873300‬غازی_سید_ساالر_مسعود=‪»title‬‬
‫آخری ترمیم ‪ 7‬مہینے قبل بدست ‪
Obaid Raza‬‬ ‫

You might also like