Professional Documents
Culture Documents
غازی سید سالار مسعود - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
غازی سید سالار مسعود - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
سید ساالر مسعود غازی کی پیدایش 15فروری 1015ءبمطابق 21رجب 405ھ میں اجمیرمیں ہوئی۔ سید ساالر مسعود
غازی سلطان محمود غزنوی کے بھانجے تھے۔ آپ کے والد کا نام سیدساالر ساہو غازی اور والدہ کا نام سترے معاٰل تھا جو
سلطان محمود غزنوی کی بہن تھیں۔ سیدساالر ساہو غازی محمد بن حنفیہ حضرت علؓی کی نسل سے تھے۔ ساالر مسعود
اسالم کی تبلیغ کے لیے جنوبی ایشیا کے لیے گیارھویں صدی کی ابتدا میں اپنے چچا ساالرسیف الدین اور استاد سید
ابراہیم مشہدی بارہ ہزاری (سلطان محمود غزنوی کے ساالر اعظم) کے ساتھ آئے۔
غازی سید ساالرمسعود
1015ءمطابق 405ھ
پیدائش
اجمیر ہندوستان
اسالم مذہب
خاندان
ساالر مسعود غازی قطب شاہی اعوان قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ کتاب نسب قریش عربی تالیف البی عبد اللہ مصعب بن
عبد اللہ بن المصعب بن زبیرجو156ہجری میں پیداہوئے اور236ہجری میں وفات پائی کے صفحہ77پرلکھتے ہیں وولدعون
بن علی بن محمد بن علی بن ابی طالب محمدًا ؛ رقیہ و علیہ بنی عون۔ منبع االنساب فارسی تالیف سید معین الحق
جھونسوی فارسی مخطوطہ کا اردو ترجمہ عالمہ ڈاکٹرارشاد حسین ساحل شاہسرامی علی گڑھ انڈیا نے 2012ء میں کیا
ہے کے صفحہ363پر لکھتے ہیں:۔ حضرت شاہ ابوالقاسم محمد حنیف بن علی مرتضٰی بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہما
محمدحنفیہ کےنام سے مشہورہیں اآپ کی والدت 16ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی ۔ عمر مبارک پنسٹھ سال تھی
81ہجری میں پیر کے دن وصال ہواکتابیوں کا ایک گرو دعوٰی کرتا ہے کہ آپ قریب قیامت ظہورفرمائیں گے اسی طرح کی
اور بھی بعض بے سروپا حکایات اآپ سے منسوب ہیں۔ اآپ کے تین صاحبزادے -1ابوھاشم 2۔علی عبدالمنان۔3۔جعفر اآپ کی
چودھ صاحبزادے اور دس صاحبزادیاں تھیں لیکن نسل تین صاحبزادوں سے چلی :ابوہاشم جعفر علی قدست اسراہم۔
حضرت کا وصال مدینہ طیبہ یا طائف میں ھوا۔ حضرت جعفر کے ایک صاحبزادے عبد اللہ تھے۔ حضرت علی عبدالمنان کے
ایک صاحبزادے عون عرف قطب شاہ غازی تھے۔حضرت عون عرف قطب شاہ غازی کے ایک صاحبزادے محمداآصف غازی
تھے اور محمداآصف غازی کے ایک صاحبزادے شاہ علی غازی تھے شاہ علی غازی دو صاحبزادشاہ محمدغازی اور شاہ
احمدغازی(بحرالنساب عربی اور تہذیب االنساب عربی کے مطابق سات صاحبزادے محمد،احمد،علی،موسٰی ،عیسٰی ،حسن و
حسین)تھے سید احمد غازی نے سبزاوارکو اپنا وطن بنایا چنانچہ سادات سبزواری آپ ہی کی نسل سے ہیں اسی طرح سید
حامد خان سبزاواری بھی شاہ احمدغازی کی نسل سے ہیں جن کا مزارمبارک قلعہ مانک پور میں ہے۔ حجرت سید احمدغازی
کی اوالد بہت ہے۔سید شاہ احمدغازی کے بڑے بھائی سید شاہ محمدغازی کے ایک صاحبزادے سید طیب غازی ہیں جن کے
ایک صاحبزادے سئد طاہر غازی ہیں سید طاہرغازی کے ایک صاحبزادے سید عطااللہ غازی اور ان کے صاحبزادے
سیدساھوغازی ہیں(مرات مسعودی فارسی تالیف عبدالرحمن چشتی 1037ھ ،مرات االسرار فارسی 1065ھ اور تاریخ
حیدری و تحقیق االعوان کے مطابق آپ عطااللہ غازی کے تین صاحبزادے ساالرساھوغازی ،ساالرقطب حیدرالمعروف قطب
شاہ و ساالرسیف الدین غازی تھے)سید (،محمود)ساھو غازی کی شادی سلطان محمودغزنوی کی ہمشیرہ کے ساتھ ہوئی
تھی ان سےایک صاحبزادے سید سعید الدین ساالرمسعود غازی ہیں۔۔آپ سادات علوی سے ہیں ۔ اکثرسادات حضرت سید
ساالرمسعود غازی کے ہمراہ ہندوستان تشریف الئے ہیں۔ مندرج دغازی کاخاندان :ہ باال کتب کے عالوہ دیگر بے شمار کتب
میں سید ساالرمسعودغازی قطب شاہی علوی کاتذکرہ موجود ہے۔ قدیم کتاب نسب قریش عربی میں بنی عون تحری رہے
اور عون ،اعوان کی واحدہے اور اس کی مزید تصدیق منبع االنساب فارسی سے عون قطب شاہ غازی بن علی عبدالمنان سے
ہوتی ہے کہ سیدساالرمسعودغازی شہید 424ہجری کا نسبی تعلق قطب شاہی علوی اعوان قبیلہ سے ہے آپ کامزارمبارک
بہرائچ میں ہے سلطان فیروزشاہ تغلق نے آپ کا روضہ مبارک تعمیر کروایاتھا۔
آپ کی آمد
انہوں نے اپنے ماموں سلطان محمود غزنوی کے ساتھ ہندوستان آئے ،تب ساالر مسعود ( 1026عیسوی میں) کی عمر
11سال کی تھی۔ اپنے ماموں کی سومناتھ پر فتح کے بعد غزنی کو واپس ہوئے۔ لیکن ساالر مسعود ان کے عزائم کو آگے
بڑھانے کے لیے ہندوستان ہی میں آباد ہوئے۔ جن کا اہم مقصد تبلیغ اور اشاعِت دین تھا۔ محمد انصاراللہ اپنی تصنیف کے باب
اضالع مشرقی میں لکھتے ہیں ’’:از اہل اسالم اول کسے کہ در یں ملک فرماں رواشد حضرت ساالر مسعودغازؒی بودند کہ
بعد فتح ایں ملک تادباِر بنارس و جونپور خطبہ و سکہ بہ نام سلطان محمود غزنوی خاِل خود رواج داند۔‘‘()۲ترجمہ اردو از
سید ظفر احسن بہرائچی(سجادہ نشین خانقاہ نعیمیہ بہرائچ)’’اہل اسالم میں سے اول جو شخص اس ملک کا فرمارواں ہوا
وہ حضرت ساالر مسعود غازؒی تھے،جنہوں نے اس ملک کو فتح کے بعد بنارس اور جونپور تک کے شہروں میں اپنے ماموں
سلطان محمود غزنوی کے نام کا خطبہ و سکہ رائج کیا
ساالر مسعود مئی 1031ء میں بھارت پر حملہ کر دو جرنیلوں میر حسین عرب اور امیر واجد جعفر کے ہمراہ 50،000
گھوڑوں کے ساتھ 100،000سے زائد سپاہیوں کی ایک فوج کے ساتھ بھارت میں داخل ہوئے۔ انہوں نے شمالی بھارت میں
پر یلغار کیا اور ان کے چچا ساالر سیف الدین ،میر بختیار ،میر سید عزیز الدین اور ملک ب رہان الدین اور ان کی فوجوں کو
ان کے ہمراہ کیا۔
میرٹھ ،قنوج اور ملیح آباد گذر شمالی بھارت کے میدانی عالقوں میں تیز چھاپہ کے بعد اور وہ ستریخ پہنچے۔ وہ جن
مقامی بادشاہوں کے ساتھ دوستی کر معاہدے کرکے میرٹھ اور اجین کو کوچ کیا۔ بعد میں ساکیت لے جایا گیا۔ ساالر رجب
اور ساالر سیف الدین بہرائچ گئے۔ امیر حسن عرب ماہونا کو گئے ،ملک فضل وارانسی لیا۔ سلطان سالطین اور میر ،میر
بختیار Kannorجنوب گئے اور وہاں میر بختیار مقامی فوج کے ساتھ ایک لڑائی کے دوران ہالک ہو گیا تھا۔ سید ساہو قرہ
اور مانک پور کو گئے۔ مانک پور میں قرہ اور قطب حیدر کے انچارج ملک عبد اللہ چھوڑنا۔ سیدعزیز الدین ہردوئ خالف
بھیجا ،لیکن گومتی کے کنارے پر Gگوپامو میں جنگ میں گر گئی تھی۔ [ ]3ان کے قریبی ساتھیوں اور اس طرح کے جالل
الدین بخاری اور سید ابراہیم باڑہ ہزاری کے طور پر رشتہ داروں کی قبروں بھی ریواڑی میں واقع ہیں۔
بہرائچ کی جنگ
ساالر مسعود غازؒی کے والد سترکھ (بارہ بنکی) میں مقیم تھے۔ وہیں انھوں نے وفات پائی گو یا ان مفتوحہ عالقہ کا صدر
مقام وہی تھا۔ان بزرگ کی وفات کے بعد بہرائچ تک کے مقامی باشندوں نے بغاوت کی۔اسی جنگ کی وجہ سے اس مقام کا
نام بھڑائچ(یعنی خاص لڑائی ) پڑ گیا تھا۔’
سید ساالر مسعود غازی زیدپور ،بابا بازار ،رودولی کے ذریعے ایودھیا پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے ،لیکن روناہی پہنچنے
پر؛ (اور یہاں ایک چھوٹا سا شہر ساالر مسعود کی ساالرپورکے نام کی طرف سے قائم کیا گیا ہے۔ ایودھیا کے مضافات میں)
اچانک ان کا ذہن تبدیل ہوا اور اترپردیش میں موجودہ دور کے بہرائچ کی طرف اپنی فوج لیکر بڑھے ،یہاں راجہ سہر دیو
حکمران تھا ،بہڑائچ میں کئی جنگیں لڑیں گئیں ،جن میں سے ایک میں سید ساالر مسعود غازی اور ان کے کئی رفقاء مقام
شہادت سے سرفراز ہوئے ،سید ابراہیم مشہدی جو سلطان محمود غزنوی کی فوج میں بارہ ہزاری کے منصب پر فائز تھے اور
حضرت سید ساالر مسعود غازؒی کے استاد محترم بھی تھے۔آپ نے ہی تمام شہدا بشمول حضرت سید ساالر مسعود غازی ؒ
کو دفن کیا اور بعد میں مقامی راجہ سہر دیو کو قتل کرنے کے بعد خود بھی جام ِ شہادت کو نوش فرما لیا تھا۔ []1
ساالر مسعود کے ساتھ بہت کم سپاہی تھے غزنی سے انکو مدد نہیں مل رہی تھی ،اسکی وجہ یہ تھی کہ ساالر مسعود کے
بھائی ملک قطب حیدر جو 1030ء میں سلطان محمودغزنوی کے انتقال تک شہربلخ کے حکمران تھے۔سلطان
محمودغزنوی کے بعدکچھ دن جالل الدولہ محمدبن محمودغزنی کا بادشاہ ہوا۔اسی سال سلطان کا دوسرابیٹاشہاب الدولہ
مسعودبن محمود تخت نشین ہوا۔کہتے ہیں کہ خاندان علوی کے مخالفین نے سلطان مسعود کے دورمیں ایک بارپھرطاقت
پائی۔ اس نے خواجہ حسن میمندی کوقید سے آزاد کرکے دوبارہ وزیربنا لیا۔اسے سلطان محمودغزنوی نے قیدکردیا تھا۔
اوراسی کی سازش پر سلطان مسعود نیملک قطب حیدر کو بلخ سے معزول کرکے اپنے پاس حاضرہونے کا حکم دیاتھا۔تاریخ
بیہقی کی ایک تحریر سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سلطان مسعودغزنوی نے اپنے اقتدارکومضبوط کرنے کے لئے ان سے مدد
کاخواہاں تھا جب کہ اسے یقین تھا کہ وہ اس میں غیرجانبداررہنا پسند کریں گے۔بہرحال سلطان مسعودغزنوی نے انہیں
[]2 دارالسلطنت حاضرہونے کافرمان بھیجا توانہوں نے اسے رد کیا اورہندوستان کی جانب چل پڑے،
غزنی کا سلطان اس سبب سے ساالر مسعود اور ان کے بھائی ملک قطب حیدر کے خالف ہو گیا ،یہ ناچاقی غزنویوں کو
ہندوستان اور افغانستان دونوں جگہ مہنگی پڑی ،ہندوستان میں توابع آں حضرت(ساالر غازؒی )کہ تا بنارس متفرق بودند یک
یک بجاہائے خود شہید شدند دباز حکومت ایں دیاربہ راجہ ہائے منتقل شد۔ ‘()۳
ترجمہ اردو از سید ظفر احسن بہرائچی’’حضرت ساالرغازؒی (اور انکے) رفقاء جوکہ بنارس تک پھیلے ہوئے تھے اپنی اپنی
جگہ ایک ایک کر کے شہید ہو گئے اور پھر اس شہر کی حکومت راجگان کو منتقل ہو گئی
شہادت
کیا[]3 24رجب المرجب 424ھ کو 18سال کی عمر میں بہرائچ میں جام شہادت نوش
شیخ وجیہ الدین اشرف لکھنوؒی لکھتے ہیں کہ حضرت سکندر دیوانہ شہید ؒ حضرت سید ساالر مسعود غازؒی کے رفقاء میں
اہم مقام رکھتے تھے۔ حضرت سکندر دیوانؒہ صاحب کمال درویش ،خواجہ ابراہیم اددھم ؒ کے سلسلہ سے تھے،ساالر
شہدا(ساالر مسعودغازؒی )کے عشق میں ہمشیہ اپنے ہاتھ میں ڈنڈا لیے رہتے اور لشکر کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر
رہتے ۔یہ شعار سلسلہ ادھمیہ کے مریدوں کا ہے کہ سردار پاؤں برہنہ رکھتے ہیں اور محبوب کی سواری کے آگے آگے پیدل
چلتے ہیں۔ساالر شہدا کے مصاحبین میں سب سے زیادہ افضل تھے۔۔۔۔۔حضرت ساالر شہدا کو اپنے ہاتھوں سے سہارا دے کر
درخت گلچکاں کے نیچے لٹا دیا اور ان کا سر اپنی گودمیں لے لیا اور زار و قطار روئے،ساالر شہدا نے ایک بار آنکھ کھولی
اور کلمہ’ہو‘ پڑھا۔جان مشاہدہ جاناں میں قربان کر دی،حاضرین نے دل بریاں اور چشم گریاں کے ساتھ تلواریں کھینچی اور
کافروں کے لشکر پر ٹوٹ پڑے اور شہید ہوگئے،سکندر دیوانہ پر بھی چند تیر لگے ،آپ بھی شہید ہو گئے۔۔۔۔۔۔سید ابراہیم نے
ساالر شہدا کو درخت گل چکاں کے سائے میں دگن کیا اور سکندر دیوانہ کو حضرت(ساالر شہدا) کی قبر سے کچھ فاصلہ
پر دفن کیا ،سکندر دیوانہ سے کچھ ہٹ کر اپنے لئے قبرتیار کی اور وہیں اسپ مادیہ خنگ(سفید گھوڑی) کو دفن کیا،باقی
شہدا جن کی الشیں سورج کنڈمیں تھیں ،ان پر مٹی ڈال کر تودہ بنا دیا اور اس جگہ پر تا قیامت تک ک کفارکی پرستش
دیا۔[]4 کو موقوف کر دیا اور مسلمانوںکی زیارت گاہ بنا
مزار
ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں بہرائچ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے’’: بہرائچ ایک خوب صورت شہر ہے جو دریائے سرجو
کے کنارے واقع ہے سرجو ایک بڑا دریا ہے جو اکڑ اپنے کنارے گراتا رہتا ہے۔ بادشاہ شیخ ساالر(سید ساالر مسعود غازؒی ) کی
قبر کی زیارت کے لئے دریا پار گیا۔شیخ ساالؒر نے اس نواح کے اکڑ ملک فتح کیے تھے۔اور ان کی بابت عجیب عجیب باتیں
ہیں۔[]5 مشہور
بعد ازاں آپ کا معتقد سلطان فیروز شاہ تغلق نے آپ کا مقبرہ بنوایا۔ آج بھی اس درگاہ میں ساالر مسعود کے دور کے
ہتھیاروں کو نمائش کو طور پر رکھا دیکھا جاسکتا ہے۔
نعل دروازہ درگاہ سید ساالر مسعود غازؒی بہرائچ
حوالہ جات
.4بحر زخار ،شیخ وجیہ الدین اشرف لکھنوؒی (۲۰۱۹ء) .ترجمہ موالنا ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی .صفحات ، ۵۴۵ –۵۴۳ جلد.۲
بیرونی روابط