You are on page 1of 4

‫سلطان شمس الدین التمش ابو المظفر التمش‬

‫اپنی گذشتہ تحریر جو کہ قطب الدین ایبک کے متعلق تھی میں ذکر کیا تھا کہ قطب الدین ایبک‬
‫کی بادشاہت کے آغاز سے ہندوستان میں جس دور حکومت کی بنیاد پڑی اسے خاندان غالماں‬
‫کی حکومت کہاجاتاہے قطب الدین ایبک کے بعد اس کا بیٹا تخت نشیں ہوا تھا جو کہ اس وسیع و‬
‫عریض سلطنت کا اہل ثابت نہیں ہو سکا اور ایک سال کے اندر ہی سلطنت ٹکڑوں میں تقسیم ہو‬
‫گئی تھی تو شمس الدین التمش تخت نشین ہوا۔جو کہ قطب الدین ایبک کا منہ بوال بیٹا اور داماد‬
‫تھا۔قطب الدین نے ایک سوداگر سے شمس الدین التمش کو خریدا تھا۔‬
‫التمش قراختائی ترکوں کے قبیلہ البری سے تعلق رکھتا تھا۔اس کے باپ کا نام ایلم خان تھا جو کہ‬
‫اپنے قبیلے کا سردار تھا۔کہتے ہیں کہ التمش کے ساتھ بھی حضرت یوسف واال واقع پیش آیا۔اس‬
‫کے بھائی بھی اس کی فہم و فراست اور حسن وصورت سے اس سے حسد میں مبتال ہو‬
‫گئے۔انھوں نے کسی بہانے سے اسے گھر سے باہر لے جا کر ایک سوداگر کے ہاتھوں بیچ‬
‫دیا۔جنہوں نے اسے بخارہ لے جا کر وہاں کے شہزادے کے ایک عزیز صدر جہاں کے ہاتھوں‬
‫بیچ دیا۔اس نے اس خاندان میں بہت اچھی تعلیم تربیت پائی۔اس خاندان کے سر براہ کی وفات کے‬
‫بعد التمش کو ایک سوداگر حاجی بخاری نے خریدا اور جمال الدین چست قبا کے ہاتھوں فروخت‬
‫کر دیا۔ یہ حاجی التمش کو غزنی لے آیا۔روایت ہے کہ التمش کے غزنی میں آتےہی اسکا چرچا‬
‫ہو گیا کیونکہ اس وقت تک غزنی میں ایسا خوبرو اور زہین ترک غالم نہیں آیا تھا۔بادشاہ شہاب‬
‫الدین غوری ت ک جب اس کا ذکر پہنچا تو بادشاہ نے اسے خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر‬
‫حاجی نے اس قیمت پر بیچنے سے انکار کر دیاجس پر بادشاہ خریدنا چاہتا تھا اور حاجی التمش‬
‫کو اور ایک دوسرے غالم دونوں کو اکٹھا فروخت کرنا چاہتا تھا مگر بادشاہ صرف التمش کو‬
‫خریدنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔جس پر بادشاہ نے ناراض ہو کر اعالن کروا دیا کہ کوئی غزنی‬
‫میں حاجی سے غالموں کا سودا نہ کرے ایک سال تک کسی نے التمش کو بادشاہ کےخوف سے‬
‫نہیں خریدا۔اس دوران قطب الدین ایبک ہندوستان کی فتوحات کے بعد بادشاہ کے حضور پیش ہوا‬
‫تو اس تک التمش غالم کا ذکر پہنچا اس نے بادشاہ کے حضور التمش کو خریدنے کی خواہش کا‬
‫اظہار کیا بادشاہ نے جواب دیا کہ میں چونکہ غزنی میں اس کی فروخت کو منع کر چکا ہوں اس‬
‫لیے یہ مناسب نہیں ہاں اگر وہ دہلی میں جا کر اس گران قدر غالم کو بیچے تو کوئی اعتراض‬
‫نہیں ہے۔چنانچہ قطب الدین نے دہلی واپس جاتے ہوئے اپنے وزیر کو حاجی قبا کو دہلی ساتھ‬
‫النے کا حکم دیا ۔حاجی کے دہلی آنے پر قطب الدین ایبک نے التمش اور دوسرے غالم کو ایک‬
‫الکھ طالئی سکوں میں خریدا دوسرے غالم کا نام قطب الدین نے ایبک رکھا اور اسے بھتنڈہ کا‬
‫امیر مقرر کیا اور التمش کو اپنا فرزند بنا کر اپنے پاس رکھ لیا ۔کچھ عرصہ بعد التمش کو‬
‫گوالیار کا امیر بنا دیا اور پھر کچھ عرصہ بعد اسے بدایوں کا حاکم مقرر کر دیاگیا۔‬
‫التمش اپنی بہادری‪،‬جانثاری اور فراست کی بدولت بہت جلد امیر االمرا ء کے عہدے پر فائز ہو‬
‫گیا۔قطب الدین نے اپنی بیٹی کا نکاح التمش سے کر دیا۔‬
‫قطب الدین ایبک کے انتقال کے ایک سال بعد ‪ 607‬ہجری ‪1211‬ء کو التمش تخت نشین ہوا۔‪26‬‬
‫سال حکومت کرنے کے بعد اس کا انتقال ہو گیا۔التمش کے بعد اس کا بیٹا رکن الدین فیروز تخت‬
‫نشین ہوا‬
‫مگر وہ صرف ‪ 6‬ماہ حکومت کر سکا تو سلطنت پر سلطان کی سب سے بڑی بیٹی رضیہ بیگم‬
‫کی حکومت قائم ہو گئی۔یہی وہ رضیہ بیگم ہے جسے تاریخ رضیہ سلطانہ کے نام سے جانتی‬
‫ہے۔‬

‫اب ایک نظر التمش کی عملی زندگی پر‬

‫شہاب الدین غوری جب گکھروں کی سرکوبی کے لیے غزنی سے پنجاب کی طرف آیا تو شاہی‬
‫حکم کے مطابق قطب الدین بھی ایک بڑا لشکر لے کر شہاب االدین غوری کی مدد کے لیے‬
‫پنجاب کی طرف روانہ ہوا۔التمش کو جب یہ خبر ملی تو وہ بھی ایک لشکر لے کر سلطان کے‬
‫لشکر سے جا مال ۔التمش اس وقت بدایوں کا حاکم تھا۔‬
‫پنجاب کے اس معرکے میں التمش کو اپنی بہادری کے جوہر دکھانے کا خوب موقع مال۔‬
‫گکھروں کی فوج دریا کے دوسرے کنارے پر تھیں اور اس طرح سلطان کی فوج کا ان پر کچھ‬
‫خاص اثر نہیں تھا اس موقع پر التمش نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا اور اپنے لشکر کو لے کر‬
‫مخالفین پر اس بہادری اور دلیری سے حملہ آور ہوا کہ اس حملے میں ہزاروں کی تعداد میں‬
‫دشمن کے سپاہی مارے گئے اور گکھروں کو شکست فاش ہوئی ۔سلطان غوری نے التمش کی‬
‫بہادری اور دلیری سے متاثر ہو کر اسے شاہی انعامات سے نوازا اور سلطان کے کہنے پر‬
‫قطب الدین نے اسے غالمی سے آذاد کر دیا اور اس کے بعد ترقی کر کے التمش امیر اامراء‬
‫کے عہدے تک جا پہنچا۔گکھروں سے معرکہ کا واقعہ ‪ 602‬ہجری کا ہے‬
‫٭‪607‬ہجری میں التمش دہلی کے تخت پر بیٹھا۔‬
‫کچھ سرداروں اور امراء نے اس کے تخت نشین ہونے کے بعد بغاوت کر دی اس بغاوت کے‬
‫ختم کرنے میں جو جنگ ہوئی اس میں باغی سردار اقسنقر اور فرخ شاہ مارے گئےاور بغاوت‬
‫کو سرے سے کچل دیا گیا۔‬
‫اسی عرصہ میں جالور کا راجہ اڈیسہ بغاوت پر امادہ ہوا اور خراج کی رقم دینے سے انکار کر‬
‫دیا ۔ اس کے انکار پر جالور پر فوج کشی کر کے راجہ کو اپنا مطیع کیا۔‬
‫تاج الدین یلدوز نے جو کہ غزنی کا حاکم تھا خوارزم شاہ سے شکست کھانے کے بعد‬
‫ہندوستان کی طرف رخ کیا اور ‪ 612‬ہجری ‪ 1215‬میں پنجاب اور تھانیسر قبضہ کر لیا اور‬
‫التمش کے دربار میں قاصد بھیج کر التمش کے متعلق ہتک آمیز باتیں کہیں جس سے التمش کی‬
‫عزت پر حرف آتا تھا۔اس سے غضبناک ہو کر التمش تاج الدین یلدوز سے جنگ کرنے کے لیے‬
‫اپنا لشکر لے کر روانہ ہوا۔ترائن کے مقام پر دونوں میں میں بڑی زبردست جنگ ہوئی اور یلدوز‬
‫شکست کھا کر التمش کا قیدی بنا اور بدایوں کے قلعے میں قید کر دیا گیا اور وہیں عالم اسیری‬
‫میں انتقال کر گیا۔‬
‫٭‪ 614‬ہجری میں التمش اور ناصر الدین قباچہ کے مابین الہور کہ کسی عالقہ کے متعلق تنازعہ‬
‫پیدا ہو گیا جس کے نتیجہ میں دونوں میں دریائے چناب کے کنارے منصوریہ کے مقام پر جنگ‬
‫ہوئی جس میں ناصر الدین قباچہ شکست کھا کر بھاگ گیا۔‬
‫ناصر الدین قباچہ نے‪ 615‬ہجری میں غزنی کے خلجی امراء جو کہ سندھ کے عالقہ پر حملہ آور‬
‫ہوتے تھے ان کو شکست دے کر عالقے سے نکال دیا تو وہ پناہ کے لیے التمش کے پاس چلے‬
‫گئے اور اس سے مدد کہ درخواست کی جس کے نتیجے میں التمش ایک کثیر لشکر لے کر‬
‫ناصرالدین قباچہ کے مدمقابل آیا اور قباچہ ایک بار پھر شکست کھا کر روپوش ہو گیا۔‬
‫٭‪ 618‬ہجری میں خوارزم شاہ چنگیز خان کے خوف سے بھاگ کر ہندوستان آگیا۔التمش سے‬
‫مقابلے کے نتیجے میں خوارزم شاہ کو شکست ہوئی اور وہ سندھ کی طرف فرار ہو گیا وہاں‬
‫قباچہ سے جھگڑے کے بعد کچھ اور مکران کے راستے سے ہندوستان کی حدود سے نکل گیا۔‬
‫٭‪ 622‬ہجری میں لکھنؤ اور بہار پر لشکر کشی کی اور ان عالقوں کو فتح کرنے کے بعد یہاں‬
‫اپنے بیٹے ناصرالدین کو حاکم مقرر کیا جس نے غیاث الدین خلجی کو شکست دے کر قتل کر دیا‬
‫۔یوں سارا بنگال بھی التمش کی سلطنت میں شامل ہو گیا۔‬
‫٭‪ 623‬ہجری میں التمش نے رتھنبور کے قلعے پر حملہ کیا اور اسے فتح کر لیا ۔روایت ہے کہ‬
‫اس قلعہ پر ستر سے زائد بادشاہوں نے حملہ کیا تھا مگر کوئی بھی اسے فتح نہیں کر سکا تھا‬
‫مگر التمش نے چند ماہ میں فتح کر لیا تھا۔‬
‫٭‪ 624‬ہجری میں قلعہ مندور حدود سوالک کے ساتھ تھا کو بھی فتح کر لیااس کو سندھ کا قلعہ‬
‫بھی کہا جاتا تھا۔‬
‫اس عرصہ میں التمش کا قباچہ سے ایک بار پھر سامنا ہوا ۔التمش نے قباچہ کو اوچ کے قلعہ‬
‫تک محدود کر دیا تھا ۔قلعہ کی تسخیر کے بعد جب قباچہ بھکر کی حدود سے بھاگ رہا تھا تو اس‬
‫وقت دریا میں شدید سیالب کی کیفیت تھی اور قباچہ اس سیالب کی نذر ہو گیا۔‬
‫٭‪ 626‬ہجری میں خالفت عباسیہ کے قاصد دہلی آئےاور التمش کو خلیفہ کی طرف سے بھیجا ہوا‬
‫عمامہ پیش کیا جو کی سلطان نے بہت عزت اور احترام سے لیا۔اسی دوران میں التمش کا بڑا‬
‫بیٹا ناصر الدین جو کے لکھنؤ اور بہار کا حاکم تھا کا انتقال ہو گیا۔‬
‫٭‪ 627‬ہجری میں التمش نے لکھنؤ اور بہار میں موجود شورش جو کی اس کے بیٹے کے انتقال‬
‫کے بعد شروع ہو گئی تھی اس کا قلع قمع کیا اور ملک عالؤالدین کو وہاں کا حاکم مقرر کیا۔‬
‫٭‪ 629‬ہجری میں التمش نے گوالیار کا رخ کیا جو کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکا تھا‬
‫۔گوالیار کا قلعہ ‪ 11‬ماہ کے محاصرے کے بعد التمش کے قبضے میں آیا‬
‫٭‪ 631‬ہجری میں التمش نے مالوہ پر حملہ کیا اور وہاں کے قلعے کو فتح کرنے کے اجین پر‬
‫بھی قابض ہو گیا۔اور وہاں موجود مہاکال کے مندر کوبرباد کر دیا کہتے ہیں اس مندر کی تعمیر‬
‫میں ‪ 300‬سال صرف ہوئے تھے اس مندر سے التمش کو اجین کے راجہ بکرما جیت کی ایک‬
‫نایاب تصویر اور پیتل کی کچھ اور تصاویر ہاتھ لگیں تھیں جنھیں التمش اپنے ساتھ دہلی لے‬
‫گیا تھا اور انھیں جامع مسجد کےدروازے پر ڈال دیا تاکہ آتے جاتے لوگوں کے پاؤں تلے آکر‬
‫پامال ہوں۔‬
‫یہاں سے آنے کے بعد التمش لشکر لے کر ملتان روانہ ہوا مگر راستے میں بیمار پڑ گیا اور‬
‫واپس دہلی آگیا اور ‪ 19‬روز بیمار رہنے کے بعد ‪20‬‬
‫شعبان ‪ 633‬ہجری ‪ 30‬اپریل ‪1236‬ء کو سلطان التمش کا انتقال ہو گیا۔اس کا دور حکمرانی ‪26‬‬
‫سال تھا۔‬
‫دہلی میں حوض شمشی یا شمشی تاالب التمش کی یادگار میں سے ہے جسے التمش نے تعمیر‬
‫کروایا۔‬
‫التمش کے بعد اس کا بیٹا رکن الدین فیروز شاہ تخت نشین ہوا۔‬

You might also like