Professional Documents
Culture Documents
التمش (احسن)
التمش (احسن)
اپنی گذشتہ تحریر جو کہ قطب الدین ایبک کے متعلق تھی میں ذکر کیا تھا کہ قطب الدین ایبک
کی بادشاہت کے آغاز سے ہندوستان میں جس دور حکومت کی بنیاد پڑی اسے خاندان غالماں
کی حکومت کہاجاتاہے قطب الدین ایبک کے بعد اس کا بیٹا تخت نشیں ہوا تھا جو کہ اس وسیع و
عریض سلطنت کا اہل ثابت نہیں ہو سکا اور ایک سال کے اندر ہی سلطنت ٹکڑوں میں تقسیم ہو
گئی تھی تو شمس الدین التمش تخت نشین ہوا۔جو کہ قطب الدین ایبک کا منہ بوال بیٹا اور داماد
تھا۔قطب الدین نے ایک سوداگر سے شمس الدین التمش کو خریدا تھا۔
التمش قراختائی ترکوں کے قبیلہ البری سے تعلق رکھتا تھا۔اس کے باپ کا نام ایلم خان تھا جو کہ
اپنے قبیلے کا سردار تھا۔کہتے ہیں کہ التمش کے ساتھ بھی حضرت یوسف واال واقع پیش آیا۔اس
کے بھائی بھی اس کی فہم و فراست اور حسن وصورت سے اس سے حسد میں مبتال ہو
گئے۔انھوں نے کسی بہانے سے اسے گھر سے باہر لے جا کر ایک سوداگر کے ہاتھوں بیچ
دیا۔جنہوں نے اسے بخارہ لے جا کر وہاں کے شہزادے کے ایک عزیز صدر جہاں کے ہاتھوں
بیچ دیا۔اس نے اس خاندان میں بہت اچھی تعلیم تربیت پائی۔اس خاندان کے سر براہ کی وفات کے
بعد التمش کو ایک سوداگر حاجی بخاری نے خریدا اور جمال الدین چست قبا کے ہاتھوں فروخت
کر دیا۔ یہ حاجی التمش کو غزنی لے آیا۔روایت ہے کہ التمش کے غزنی میں آتےہی اسکا چرچا
ہو گیا کیونکہ اس وقت تک غزنی میں ایسا خوبرو اور زہین ترک غالم نہیں آیا تھا۔بادشاہ شہاب
الدین غوری ت ک جب اس کا ذکر پہنچا تو بادشاہ نے اسے خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر
حاجی نے اس قیمت پر بیچنے سے انکار کر دیاجس پر بادشاہ خریدنا چاہتا تھا اور حاجی التمش
کو اور ایک دوسرے غالم دونوں کو اکٹھا فروخت کرنا چاہتا تھا مگر بادشاہ صرف التمش کو
خریدنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔جس پر بادشاہ نے ناراض ہو کر اعالن کروا دیا کہ کوئی غزنی
میں حاجی سے غالموں کا سودا نہ کرے ایک سال تک کسی نے التمش کو بادشاہ کےخوف سے
نہیں خریدا۔اس دوران قطب الدین ایبک ہندوستان کی فتوحات کے بعد بادشاہ کے حضور پیش ہوا
تو اس تک التمش غالم کا ذکر پہنچا اس نے بادشاہ کے حضور التمش کو خریدنے کی خواہش کا
اظہار کیا بادشاہ نے جواب دیا کہ میں چونکہ غزنی میں اس کی فروخت کو منع کر چکا ہوں اس
لیے یہ مناسب نہیں ہاں اگر وہ دہلی میں جا کر اس گران قدر غالم کو بیچے تو کوئی اعتراض
نہیں ہے۔چنانچہ قطب الدین نے دہلی واپس جاتے ہوئے اپنے وزیر کو حاجی قبا کو دہلی ساتھ
النے کا حکم دیا ۔حاجی کے دہلی آنے پر قطب الدین ایبک نے التمش اور دوسرے غالم کو ایک
الکھ طالئی سکوں میں خریدا دوسرے غالم کا نام قطب الدین نے ایبک رکھا اور اسے بھتنڈہ کا
امیر مقرر کیا اور التمش کو اپنا فرزند بنا کر اپنے پاس رکھ لیا ۔کچھ عرصہ بعد التمش کو
گوالیار کا امیر بنا دیا اور پھر کچھ عرصہ بعد اسے بدایوں کا حاکم مقرر کر دیاگیا۔
التمش اپنی بہادری،جانثاری اور فراست کی بدولت بہت جلد امیر االمرا ء کے عہدے پر فائز ہو
گیا۔قطب الدین نے اپنی بیٹی کا نکاح التمش سے کر دیا۔
قطب الدین ایبک کے انتقال کے ایک سال بعد 607ہجری 1211ء کو التمش تخت نشین ہوا۔26
سال حکومت کرنے کے بعد اس کا انتقال ہو گیا۔التمش کے بعد اس کا بیٹا رکن الدین فیروز تخت
نشین ہوا
مگر وہ صرف 6ماہ حکومت کر سکا تو سلطنت پر سلطان کی سب سے بڑی بیٹی رضیہ بیگم
کی حکومت قائم ہو گئی۔یہی وہ رضیہ بیگم ہے جسے تاریخ رضیہ سلطانہ کے نام سے جانتی
ہے۔
شہاب الدین غوری جب گکھروں کی سرکوبی کے لیے غزنی سے پنجاب کی طرف آیا تو شاہی
حکم کے مطابق قطب الدین بھی ایک بڑا لشکر لے کر شہاب االدین غوری کی مدد کے لیے
پنجاب کی طرف روانہ ہوا۔التمش کو جب یہ خبر ملی تو وہ بھی ایک لشکر لے کر سلطان کے
لشکر سے جا مال ۔التمش اس وقت بدایوں کا حاکم تھا۔
پنجاب کے اس معرکے میں التمش کو اپنی بہادری کے جوہر دکھانے کا خوب موقع مال۔
گکھروں کی فوج دریا کے دوسرے کنارے پر تھیں اور اس طرح سلطان کی فوج کا ان پر کچھ
خاص اثر نہیں تھا اس موقع پر التمش نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا اور اپنے لشکر کو لے کر
مخالفین پر اس بہادری اور دلیری سے حملہ آور ہوا کہ اس حملے میں ہزاروں کی تعداد میں
دشمن کے سپاہی مارے گئے اور گکھروں کو شکست فاش ہوئی ۔سلطان غوری نے التمش کی
بہادری اور دلیری سے متاثر ہو کر اسے شاہی انعامات سے نوازا اور سلطان کے کہنے پر
قطب الدین نے اسے غالمی سے آذاد کر دیا اور اس کے بعد ترقی کر کے التمش امیر اامراء
کے عہدے تک جا پہنچا۔گکھروں سے معرکہ کا واقعہ 602ہجری کا ہے
٭607ہجری میں التمش دہلی کے تخت پر بیٹھا۔
کچھ سرداروں اور امراء نے اس کے تخت نشین ہونے کے بعد بغاوت کر دی اس بغاوت کے
ختم کرنے میں جو جنگ ہوئی اس میں باغی سردار اقسنقر اور فرخ شاہ مارے گئےاور بغاوت
کو سرے سے کچل دیا گیا۔
اسی عرصہ میں جالور کا راجہ اڈیسہ بغاوت پر امادہ ہوا اور خراج کی رقم دینے سے انکار کر
دیا ۔ اس کے انکار پر جالور پر فوج کشی کر کے راجہ کو اپنا مطیع کیا۔
تاج الدین یلدوز نے جو کہ غزنی کا حاکم تھا خوارزم شاہ سے شکست کھانے کے بعد
ہندوستان کی طرف رخ کیا اور 612ہجری 1215میں پنجاب اور تھانیسر قبضہ کر لیا اور
التمش کے دربار میں قاصد بھیج کر التمش کے متعلق ہتک آمیز باتیں کہیں جس سے التمش کی
عزت پر حرف آتا تھا۔اس سے غضبناک ہو کر التمش تاج الدین یلدوز سے جنگ کرنے کے لیے
اپنا لشکر لے کر روانہ ہوا۔ترائن کے مقام پر دونوں میں میں بڑی زبردست جنگ ہوئی اور یلدوز
شکست کھا کر التمش کا قیدی بنا اور بدایوں کے قلعے میں قید کر دیا گیا اور وہیں عالم اسیری
میں انتقال کر گیا۔
٭ 614ہجری میں التمش اور ناصر الدین قباچہ کے مابین الہور کہ کسی عالقہ کے متعلق تنازعہ
پیدا ہو گیا جس کے نتیجہ میں دونوں میں دریائے چناب کے کنارے منصوریہ کے مقام پر جنگ
ہوئی جس میں ناصر الدین قباچہ شکست کھا کر بھاگ گیا۔
ناصر الدین قباچہ نے 615ہجری میں غزنی کے خلجی امراء جو کہ سندھ کے عالقہ پر حملہ آور
ہوتے تھے ان کو شکست دے کر عالقے سے نکال دیا تو وہ پناہ کے لیے التمش کے پاس چلے
گئے اور اس سے مدد کہ درخواست کی جس کے نتیجے میں التمش ایک کثیر لشکر لے کر
ناصرالدین قباچہ کے مدمقابل آیا اور قباچہ ایک بار پھر شکست کھا کر روپوش ہو گیا۔
٭ 618ہجری میں خوارزم شاہ چنگیز خان کے خوف سے بھاگ کر ہندوستان آگیا۔التمش سے
مقابلے کے نتیجے میں خوارزم شاہ کو شکست ہوئی اور وہ سندھ کی طرف فرار ہو گیا وہاں
قباچہ سے جھگڑے کے بعد کچھ اور مکران کے راستے سے ہندوستان کی حدود سے نکل گیا۔
٭ 622ہجری میں لکھنؤ اور بہار پر لشکر کشی کی اور ان عالقوں کو فتح کرنے کے بعد یہاں
اپنے بیٹے ناصرالدین کو حاکم مقرر کیا جس نے غیاث الدین خلجی کو شکست دے کر قتل کر دیا
۔یوں سارا بنگال بھی التمش کی سلطنت میں شامل ہو گیا۔
٭ 623ہجری میں التمش نے رتھنبور کے قلعے پر حملہ کیا اور اسے فتح کر لیا ۔روایت ہے کہ
اس قلعہ پر ستر سے زائد بادشاہوں نے حملہ کیا تھا مگر کوئی بھی اسے فتح نہیں کر سکا تھا
مگر التمش نے چند ماہ میں فتح کر لیا تھا۔
٭ 624ہجری میں قلعہ مندور حدود سوالک کے ساتھ تھا کو بھی فتح کر لیااس کو سندھ کا قلعہ
بھی کہا جاتا تھا۔
اس عرصہ میں التمش کا قباچہ سے ایک بار پھر سامنا ہوا ۔التمش نے قباچہ کو اوچ کے قلعہ
تک محدود کر دیا تھا ۔قلعہ کی تسخیر کے بعد جب قباچہ بھکر کی حدود سے بھاگ رہا تھا تو اس
وقت دریا میں شدید سیالب کی کیفیت تھی اور قباچہ اس سیالب کی نذر ہو گیا۔
٭ 626ہجری میں خالفت عباسیہ کے قاصد دہلی آئےاور التمش کو خلیفہ کی طرف سے بھیجا ہوا
عمامہ پیش کیا جو کی سلطان نے بہت عزت اور احترام سے لیا۔اسی دوران میں التمش کا بڑا
بیٹا ناصر الدین جو کے لکھنؤ اور بہار کا حاکم تھا کا انتقال ہو گیا۔
٭ 627ہجری میں التمش نے لکھنؤ اور بہار میں موجود شورش جو کی اس کے بیٹے کے انتقال
کے بعد شروع ہو گئی تھی اس کا قلع قمع کیا اور ملک عالؤالدین کو وہاں کا حاکم مقرر کیا۔
٭ 629ہجری میں التمش نے گوالیار کا رخ کیا جو کہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل چکا تھا
۔گوالیار کا قلعہ 11ماہ کے محاصرے کے بعد التمش کے قبضے میں آیا
٭ 631ہجری میں التمش نے مالوہ پر حملہ کیا اور وہاں کے قلعے کو فتح کرنے کے اجین پر
بھی قابض ہو گیا۔اور وہاں موجود مہاکال کے مندر کوبرباد کر دیا کہتے ہیں اس مندر کی تعمیر
میں 300سال صرف ہوئے تھے اس مندر سے التمش کو اجین کے راجہ بکرما جیت کی ایک
نایاب تصویر اور پیتل کی کچھ اور تصاویر ہاتھ لگیں تھیں جنھیں التمش اپنے ساتھ دہلی لے
گیا تھا اور انھیں جامع مسجد کےدروازے پر ڈال دیا تاکہ آتے جاتے لوگوں کے پاؤں تلے آکر
پامال ہوں۔
یہاں سے آنے کے بعد التمش لشکر لے کر ملتان روانہ ہوا مگر راستے میں بیمار پڑ گیا اور
واپس دہلی آگیا اور 19روز بیمار رہنے کے بعد 20
شعبان 633ہجری 30اپریل 1236ء کو سلطان التمش کا انتقال ہو گیا۔اس کا دور حکمرانی 26
سال تھا۔
دہلی میں حوض شمشی یا شمشی تاالب التمش کی یادگار میں سے ہے جسے التمش نے تعمیر
کروایا۔
التمش کے بعد اس کا بیٹا رکن الدین فیروز شاہ تخت نشین ہوا۔