You are on page 1of 10

‫سلطنت عثمانیہ کی متنازع روایت‪ :‬سلطنت کی بقا کے لیے‬

‫سلطان کے باقی تمام بھائیوں کا قتل‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪DEA / A. DAGLI ORTI/Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫وینس کے آرٹ میوزیم میں سلطان محمت سوم (‪ )1603-1566‬کا پورٹریٹ‬

‫وسطی اور شمالی افریقہ کے بڑے‬


‫ٰ‬ ‫سلطنت عثمانیہ کے کئی صدیوں پر محیط طویل دور(جس میں اس نے یورپ‪ ،‬مشرق‬
‫حصے پر حکومت کی اور دور رس اثرات چھوڑے) کے مختلف کردار آج کل کئی ٹی وی ڈراموں اور سیریز کا موضوع‬
‫ہیں۔ ان ہی میں ایک سیریز سلطان احمد اول اور خاص طور پر ان کی اہلیہ قُسم سلطان کی زندگی پر بنی ہے۔ اس سیریز‬
‫اعلی عہدیداروں کی طرف سے مسلسل اپنے چھوٹے بھائی‬ ‫ٰ‬ ‫میں سلطان احمد اپنے ارد گرد کے لوگوں اور سلطنت کے‬
‫کو قتل کرنے کے دباؤ میں نظر آتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں ہر معاشرے میں بھائیوں‪ ،‬باپ بیٹوں اور دیگر رشتہ داروں‬
‫میں تخت کے لیے قتل اور جنگوں کی مثالیں ملتی ہیں۔ تو سلطنت عثمانیہ کی تاریخ میں اس طرح کے واقعات کی کیا‬
‫مثالیں ہیں۔ بات شروع کرتے ہیں سلطان احمد اول کے والد سلطان محمت سوم کی تخت نشینی سے۔‬

‫سنہ ‪ 1595‬کا ایک دن۔ سلطنت عثمانیہ اپنے عروج پر ہے۔ یہ وہ دن ہے جب اس وقت کی سپر پاور کا اقتدار سلطان مراد‬
‫سوم کے انتقال پر ان کے بیٹے‪ W‬محمت کو مل چکا ہے جو اب سلطان محمت سوم ہیں۔‬

‫لیکن اس دن کو تاریخ میں جس وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے وہ شاید استنبول میں شاہی محل میں نئے سلطان کی آمد سے‬
‫زیادہ وہاں سے ‪ 19‬شہزادوں کے جنازوں کا نکلنا تھا۔ یہ جنازے نئے سلطان محمت سوم کے بھائیوں کے تھے جنھیں‬
‫سلطنت میں اس وقت رائج بھائیوں کے قتل کی شاہی روایت کے تحت نئے سلطان کے تخت پر بیٹھتے ہی باری باری گال‬
‫گھونٹ کر ہالک کر دیا گیا تھا‪-‬‬

‫گڈون نے‬
‫سلطنت عثمانیہ کی تاریخ پر مبنی کتاب ’الرڈذ آف دی ہورائزنز` (مشرق اور مغرب کے آقا) میں مصنف جیسن ِ‬
‫تاریخ کے مختلف ذرائع کے حوالے سے شہزادوں کی ہالکت کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شہزادوں کو ایک‬
‫ایک کر کے سلطان کے سامنے الیا گیا۔‬

‫ان میں سے عمر میں سب سے بڑے شہزادے نے جو خوبصورت اور صحت مند جسامت کا مالک تھا التجا کی کہ‬
‫’میرے آقا‪ ،‬میرے بھائی‪ ،‬جو اب میرے والد کی جگہ ہو میری زندگی اس طرح مت ختم کرو‪ -‬غم سے نڈھال سلطان نے‬
‫اپنی داڑھی نوچ لی لیکن جواب میں ایک لفظ نہ بوال۔‘‬

‫جیسن اس دن کا ذکر جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گلیوں میں یہ جنازے جاتے ہوئے دیکھ کر استنبول کے شہریوں‬
‫کے دل ہل گئے تھے۔‬

‫مؤرخ لیسلی پی پیئرس نے اپنی کتاب ’امپیریئل حرم‪ :‬ویمن اینڈ سورینٹی ان دی اوٹومن ایمپائر` میں اس زمانے میں تیار‬
‫کی گئی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے کہ سلطان مراد سوم کے جنازے کے ایک روز بعد ہی ان کے ‪ 19‬شہزادوں کے‬
‫جنازوں کے موقع پر استنبول کے شہریوں کی دوگنی تعداد باہر آئی تھی اور ’ہر آنکھ اشکبار تھی۔`‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪DE AGOSTINI PICTURE LIBRARY‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫سلطان مراد سوم‬

‫نو شہزادوں کی ہالکت‬


‫‪ 1595‬سے اکیس برس پیچھے جائیں تو معلوم ہو گا کہ سلطان محمت سوئم کے والد سلطان مراد سوئم کی حکمرانی کا‬
‫پہال دن بھی مختلف نھیں تھا اور انھیں بھی ایسے ہی مشکل فیصلے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔‬

‫سلطان مراد کے والد سلطنت عثمانیہ کے ‪11‬ویں سلطان سلیم دوئم کا سنہ ‪ 1574‬میں ‪ 50‬برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔‬
‫(اس سال سلطنت عثمانیہ نے شمالی افریقہ میں تیونس بھی فتح کر لیا تھا۔)‬
‫سلطنت کی باگ ڈور ان کے سب سے بڑے بیٹے‪ W‬مراد سوئم کے ہاتھ آئی جو اپنے بعد والے بھائی سے ‪ 20‬سال بڑے‬
‫تھے اور ان کی جانشینی کو بظاہر کسی سے خطرہ نھیں تھا۔ لیکن پھر بھی‪ ،‬فنکل لکھتی ہیں‪ ،‬انھوں نے اپنی تخت نشینی‬
‫پر اپنے سب بھائی مروا دیے اور جنھیں پھر اپنے والد سلطان سلیم دوم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔‬

‫مؤرخ کیروالئن فنکل نے اپنی کتاب ’عثمان کا خواب‪ :‬سلطنت عثمانیہ کی کہانی ‪ ‘1923-1300‬میں سلطان سلیم دوم کے‬
‫یہودی طبیب ڈومینیکو ہیروسولیمیتانو کے حوالے سے شہزادوں کی ہالکت کا منظر کچھ یوں بیان کیا‪’ :‬لیکن سلطان مراد‬
‫نے‪ ،‬جو بہت رحم دل تھے اور خون بہانا برداشت نھیں کر سکتے تھے‪ ،‬اٹھارہ گھنٹے انتظار کیا‪ ،‬اس دوران وہ تخت پر‬
‫بیٹھے اور نہ ہی شہر میں اپنی آمد کا اعالن کیا اور اپنے ‪ 9‬بھائیوں کی جان بچانے کے طریقوں پر غور کرتے رہے۔۔۔‬
‫سلطنت عثمانیہ کے قانون کی خالف ورزی کے ڈر سے انھوں نے روتے ہوئے اپنے (خاص طور پر اس کام کے لیے‬
‫تیار کیے گئے گونگے بہرے) اہلکاروں کو شہزادوں کا گال گھونٹ کر ہالک کرنے کے لیے روانہ کر دیا اور اس کام‬
‫کے لیے ان اہلکاروں کے انچارج کو اپنے ہاتھوں سے نو رومال دیے۔‘‬

‫’مراد اور محمت کے بھائیوں کی چھوٹی چھوٹی قبریں بتاتی ہیں کہ سلطنت میں اس افراتفری سے بچنے کی کیا قیمت ادا‬
‫کی گئی جو اکثر کسی نئے سلطان کی تخت نشینی کے وقت پیدا ہوتی تھی۔‘‬

‫یہ بھی پڑھیے‬


‫ارطغرل اصل میں کون تھے؟‬

‫تین براعظموں کے سلطان‬

‫منگول آندھی‪ ،‬جس سے بغداد‪ W‬آج تک سنبھل نہیں پایا‬

‫قسطنطنیہ کی فتح‪ ،‬جسے یورپ آج تک نہیں بھوال‬

‫’بھائیوں کے قتل` کے قانون کا پس منظر کیا تھا‬

‫درجنوں شہزادوں اور شہزادیوں کی ان ہالکتوں کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ شہزادوں کا مارے جانا کسی بغاوت یا‬
‫کسی اور جرم کا نتیجہ نھیں تھا بلکہ ان میں سے کچھ تو غلطی کرنے کے قابل بھی نہیں تھے۔‬

‫جس قانون یا روایت کے تحت ان شہزادوں اور شہزادیوں کو ہالک کیا گیا اس کی بنیاد تقریبا ً ایک سو سال قبل ‪15‬ویں‬
‫صدی میں سلطان محمت دوم کے دور میں رکھی گئی تھی جنھوں نے سنہ ‪ 1481‬میں اپنی موت سے چند برس قبل ہدایت‬
‫دی تھی جس کے تحت نیا سلطان اپنے بھائیوں کو ہالک کر سکتا تھا۔‬

‫فنکل نے لکھا ہے کہ سلطان محمت دوم نے اپنا جانشیں نامزد نھیں کیا تھا لیکن انھوں نے اپنے انتقال سے کچھ سال قبل‬
‫جانشینی کے بارے میں اپنے خیاالت کا اظہار کر دیا تھا‪،‬جس میں انھوں نے یہ کہتے ہوئے بھائیوں کو مارنے کی‬
‫باقاعدہ اجازت دی کہ ان کا جو بھی بیٹا سلطان بنے وہ ٹھیک کرے گا‪ ،‬اگر وہ دنیا کی بہتری کے لیے باقیوں کو ہالک کر‬
‫دیتا ہے۔‬

‫ترکی میں تاریخ اور قانون کے ایک استاد پروفیسر ڈاکٹر اکرم بورا اکنجے نے اس روایت کے بارے میں اپنے ایک‬
‫مضمون میں لکھا کہ سلطان محمت دوم کے اپنے الفاظ میں یہ قانون ’نظام عالم` کی بہتری کے لیے بنایا گیا تھا اور‬
‫سلطان کے مطابق ’علماء کی اکثریت اس کے حق میں ہے اس لیے اس اس کے مطابق کارروائی کی جائے۔‘‬

‫ڈاکٹر اکرم کا یہ مضمون ترکی کے اخبار ’روزنامہ صباح‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا۔‬
‫ڈاکٹر اکنجے لکھتے ہیں ’بے شک‪ ،‬بھائیوں کے قتل کا قانون عثمانوی تاریخ کے سب سے متنازع موضوعات میں سے‬
‫ایک ہے۔۔۔سلطنت کی تاریخ میں کئی بار اس طرح کے واقعات ہوئے جن میں سے زیادہ تر کو جائز سمجھا گیا لیکن کچھ‬
‫ہالکتیں‪/‬قتل‪ W‬ایسے بھی ہوئے جنھیں غلط سمجھا گیا اور تنقید کی گئی۔‘‬

‫انھوں نے مزید لکھا کہ کسی شہزادے کے مارے جانے کے لیے اس کا کچھ غلط کرنا ضروری نھیں تھا اور کئی بار‬
‫صرف اس خطرے کی بنیاد پر ہالکت کو جائز سمجھا گیا کہ وہ شہزادہ‪/‬شہزادے مستقبل میں بغاوت کر سکتے ہیں۔‬

‫لیکن سلطان محمت دوم نے اس قانون کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہم ایک واقعے کی مدد‬
‫لے سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں عثمانوی سلطنت کی تاریخ میں تقریبا ً ‪ 70‬برس مزید پیچھے جانا ہو گا جب جوالئی‬
‫‪ 1402‬میں انقرہ کے قریب عثمانوی حکمران سلطان بیزید اور سلطان تیمور(تیمور لنگ) کے درمیان ایک بڑی جنگ‬
‫ہوئی۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Tim Graham/Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬
‫استنبول کے فوجی میوزیم میں سلطان مراد‪ ،‬سلطان بایزید اور سلطان محمت کے پورٹریٹ‬

‫تیمور لنگ اور سلطنت عثمانیہ‬


‫کیروالئن فنکل لکھتی ہیں کہ تیمور لنگ جب اپنے گھر سے جنگی مہمات پر روانہ ہوئے تو اس کے ‪ 30‬برس کے بعد وہ‬
‫چین اور ایران سے ہوتے ہوئے اناطولیہ میں عثمانوی سلطانوں کے عالقے تک پہنچے۔‬

‫فنکل کہتی ہیں کہ تیمور لنگ اپنے آپ کو چنگیز خان کا وارث سمجھتے تھے اور اسی بنیاد پر ان کے خیال میں اناطولیہ‬
‫سلجوق منگول عالقوں پر ان کا حق تھا۔ انھوں نے اناطولیہ کی مختلف ریاستوں (جو اس وقت تک عثمانی سلطانوں کے‬
‫زیر اثر نھیں آئی تھیں) کے درمیان اختالفات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن عثمانوی سلطان بایزید کی نظر بھی‬
‫انھیں ریاستوں پر تھی۔‬

‫اس کا نتیجہ فنکل بتاتی ہیں یہ نکال کہ تیمور لنگ اور بایزید کی فوجیں ‪ 28‬جوالئی ‪ 1402‬کو انقرہ کے قریب آمنے‬
‫سامنے آ گئیں۔ اس جنگ میں سلطان بیزید‪ W‬کو شکست ہوئی اور وہ اس کے بعد‪ W‬زیادہ دیر زندہ نہیں رہے۔ ان کی ہالکت‬
‫کیسے ہوئی؟ اس کے بارے میں فنکل کہتی ہیں کہ کئی آراہ ہیں۔‬

‫لیکن آج کے موضوع کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ ایک مشکل دور میں داخل ہو گئی۔ اگلے ‪20‬‬
‫برس تک سلطنت عثمانیہ کو خانہ جنگی کی وجہ سے شدید تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔‬

‫ڈاکٹر اکنجے لکھتے ہیں کہ بایزید اول کے چاروں بیٹوں کے اپنے اپنے ہزاروں حامی تھے اور وہ برسوں تک آپس میں‬
‫لڑتے رہے۔‬

‫’خانہ جنگی کے آخر میں سلطان کا سب سے چھوٹا بیٹا محمت اول اپنے بھائیوں کو شکست دے کر ‪ 1413‬میں سلطنت‬
‫عثمانیہ کا واحد وارث بنا۔‘‬

‫سلطان محمت اول کو سلطنت عثمانیہ کو اپنے والد سلطان بایزید کی دور میں جو حدود تھیں ان تک بحال کرنے کے لیے‬
‫مزید کئی سال جدوجہد کرنی پڑی۔‬

‫اسی دوران نئے سلطان اور تیمور لنگ(جو وفات پا چکے تھے) کے بیٹے‪ W‬شاہ رخ کے درمیان خطوں کے ذریعے ایک‬
‫دلچسپ مقالمہ ہوا جو ہمارے آج کے موضوع پر روشنی ڈالتا ہے۔ کیروالئن فنکل لکھتی ہیں کہ ‪ 1416‬میں شاہ رخ نے‬
‫سلطان محمت اول کو خط لکھا اور اپنے بھائیوں کو ہالک کرنے پر احتجاج کیا تو عثمانوی سلطان کا جواب تھا کہ ’ایک‬
‫ملک میں دو بادشاہ نہیں رہ سکتے۔۔۔ ہمارے دشمن جنھوں نے ہمیں گھیرا ہوا ہے ہر وقت موقع کی تالش میں رہتے ہیں۔‘‬

‫یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سلطان بایزید خود اپنے بھائی ’کو ہالک کروانے‘ کے بعد تخت پر بیٹھے تھے۔ سنہ ‪1389‬‬
‫میں سلطنت عثمانیہ کے تیسرے سلطان مراد اول سربیا کے خالف جنگ کے دوران ہالک ہو گئے۔ اس موقع پر شہزادے‬
‫بایزید نے اپنے بھائی کو مروا کر سلطنت کا انتظام سنبھال لیا تھا۔‬

‫فنکل لکھتی ہیں کہ شہزادے بایزید کے ہاتھوں ان کے بھائی شہزادہ یعقوب کا قتل ’عثمانی خاندان میں بھائی کا پہال قتل‬
‫ہے جس کا ریکارڈ موجود ہے۔‘‬

‫تاہم انھوں نے مزید لکھا کہ یہ واضح نھیں کہ یہ قتل وہیں میدان جنگ میں اپنے والد کی ہالکت کی اطالع ملتے ہی انھوں‬
‫نے کروا دیا تھا یا چند ماہ بعد کیا گیا۔ تاہم عثمانی یہ جنگ جیت گئے تھے اور سربیا ان کی تابع ریاست بن گئی تھی۔‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Frank Bienewald/Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫سلطنت عثمانہ کے دور میں شاہی محل کے حرم کا ایک منظر‬

‫بھائیوں کو ہالک کرنے کی روایت اور ترکوں کے جانشینی کے اصول‬


‫گڈون اپنی کتاب ’مغرب اور مشرق کے آقا‘ میں لکھتے ہیں کہ ابتدا‬
‫ترکوں میں جانشینی کی روایت کے بارے میں جیسن ِ‬
‫میں عثمانی سلطنت میں اقتدار خاندان کا مسئلہ ہوتا تھا جس میں بھائی‪ ،‬چچا‪ ،‬کزن اور کئی بار خاتون رشتہ دار بھی کسی‬
‫حد تک حصہ دار ہوتے تھے۔ یہ صورتحال دنیا کی ان سلطنتوں سے مختلف تھی جہاں اقتدار پر صرف بڑے بیٹے کا حق‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫لیسلی پیئرس لکھتی ہیں کہ عثمانوی سلطان صدیوں میں اپنی ایک روایت شاید نہیں بدل سکے۔ وہ لکھتی ہیں ’عثمانوی‬
‫خاندان اپنے طرز حکمرانی کا ایک اصول مکمل طور پر کبھی ترک نھیں کر سکا‪ ،‬جس کے تحت ہر شہزادہ تخت پر‬
‫بیٹھنے‪ W‬کا اہل ضرور ہوتا تھا چاہے اس بات کا حقیقت میں امکان کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔‘‬

‫’سلطان مراد اور ان کے بیٹے محمت کی طرف سے اپنے بھائیوں کو ہالک کروانا یہ ثابت کرتا ہے کہ یورپ کا قانون‬
‫جس کے تحت وراثت مکمل طور پر سب سے بڑے بیٹے‪ W‬کو منتقل ہوتی ہے اور جہاں چھوٹے بھائی بڑے بھائی کے لیے‬
‫خطرہ نھیں ہوتے‪ ،‬ترکوں کی اس سوچ کی جگہ نھیں لے سکا جس کے تحت ہر بیٹا اپنے خاندان کی حکومت کا وارث‬
‫ہوتا ہے۔‘‬

‫اس صورتحال میں کسی بھائی کا سلطان کے خالف بغاوت یا سازش کرنا ضروری نھیں تھا بلکہ یہ بھی ممکن تھا کہ‬
‫سلطنت کے طاقتور حلقے سلطان سے ناخوش ہو کر کسی بھی دوسرے شہزادے کو سلطان بنانے کی کوشش میں لگ‬
‫جاتے۔‬

‫ڈاکٹر اکرم اکنجے نے اپنے مضمون میں آسٹریا کے ایک سفیر اوگیئر غسلِن دی بسبیک کے تاثرات کا ذکر کیا جو سلطان‬
‫سلیمان اول کے دور میں وہاں موجود تھے۔‬

‫’عثمانوی سلطان کا بیٹا ہونا کوئی خوش نصیبی نھیں ہے کیونکہ ان میں سے ایک جب سلطان بن جاتا ہے تو باقیوں کے‬
‫لیے موت کا انتظار ہی رہ جاتا ہے۔ اگر سلطان کے بھائی زندہ ہوں تو فوج کے سلطان سے تقاضے ہی ختم نھیں ہوتے‬
‫اور سلطان اگر ان کی بات نھیں مانتا تو وہ کہہ دیتے ہیں خدا تمہارے بھائی کو سالمت رکھے‪ ،‬جس کا مطلب یہ بتانا ہوتا‬
‫ہے کہ وہ اسے بھی تخت پر بٹھا سکتے ہیں۔‘‬
‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪Chris McGrath/Getty Images‬‬

‫‪،‬تصویر کا کیپشن‬

‫استنبول کی نیلی مسجد جو سلطان احمد اول نے بنوائی تھی‬

‫بھائیوں کو قتل کرنے کی روایت کا خاتمہ‬


‫لیسلی پیئرس نے لکھا ہے کہ شاہی خاندان میں بھائیوں کو ہالک کروانے کی روایت غیر مقبول ہوتی جا رہی تھی۔‬

‫’شروع میں اس روایت کو اقتدار کی وحدانیت برقرار رکھنے کے لیے برداشت کیا گیا تاکہ حکمران کو کسی چیلنج کا‬
‫سامنا نہ کرنا پڑے۔‘‬

‫انھوں نے مزید لکھا کہ ابتدا میں جب سلطنت عثمانیہ پھیل رہی تھی اور سلطان خود طویل عرصے کے لیے‬
‫دارالحکومت سے دور مہمات پر جاتے تھے‪ W،‬لوگوں کو اس وقت یہ روایت ٹھیک لگتی ہو گی لیکن ’سلطان سلیمان کے‬
‫دور کے بعد‪ W‬کم عمر لڑکے اور بچے جو ابھی گود میں تھے اس روایت کا نشانہ بنے اور اکثر ایسے سلطانوں کو بچانے‬
‫کے لیے جو بہت کم دارالحکومت سے باہر جاتے تھے۔ سنہ ‪ 1574‬تک تو استنبول کے عوام نے شہزادوں کی ہالکت کا‬
‫یہ ڈرامہ اپنے سامنے دیکھا ہی نھیں تھا۔‘‬

‫مؤرخ پیئرس لکھتی ہیں ’کسی نئے سلطان کے سب بھائیوں کا ایک ساتھ مارے جانا اور محل سے ایک ساتھ جنازوں کا‬
‫نکلنا جن میں سے کچھ بہت ہی چھوٹے تھے دیکھ کر لوگوں کو لگا ہو گا کہ یہ سب پرانے زمانے کے لیے تھا۔‘‬

‫انھوں نے اپنی کتاب میں بھائیوں کو ہالک کروانے کی اس روایت کا ذکر کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے مختلف‬
‫پہلوؤں پر تفصیل سے بات کی ہیں۔‬

‫محمت سوم کے بعد سلطان احمد اول تخت نشین ہوئے لیکن انھوں نے اپنے بھائی کو دباؤ کے باوجود ہالک نھیں کروایا‬
‫لیکن یہ روایت اس وقت مکمل طور پر ختم نھیں ہوئی۔‬

‫تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان احمد اول کے سات بیٹوں میں سے چار ان کے تخت پر بیٹھنے والے دو بیٹوں سلطان‬
‫عثمان دوم اور سلطان مراد چہارم کے حکم پر مارے گئے۔‬

‫ڈاکٹر اکرم نے لکھا کہ جب سلطان احمد اول کا انتقال ہوا تو ان کی جگہ ان کا بھائی تخت نشین ہوا حاالنکہ ان کے بیٹے‬
‫موجود تھے۔ ’یہ پہال موقع تھا کہ ایک سلطان کی موت کے بعد ان کی جگہ ان کے بھائی نے لی۔‘‬

You might also like