Professional Documents
Culture Documents
انقلاب روس - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
انقلاب روس - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
سرمایہ دارانہ نظام کے ردعمل کے نتائج اشتراکیت کی نظریہ اور عمل میں النے کے مراحل_
انقالب روس (،روسی زبان ،Октябрьская революция :اکتیابرساکایا ریوولیوشیا) جسے بالشویک انقالب ،اکتوبر
انقالب یا سویت انقالب بھی کہا جا تا ہے ، عالمی تاریخ کا پہال کامیاب سوشلسٹ انقالب تھا جو کالسیکی مارکسیت
سطور پر استوار ہوا ۔ اسے روس میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے بر پا کیاجس نتیجے میں
یونائیٹڈ سوشلسٹ سوویت یونین()USSRکی بنیاد رکھی گئی۔ ُا س وقت زارشاہی روس میں نافذ پرانے کیلنڈر کے مطابق
انقالبی سرکشی کا آغاز 25اکتوبر (نئے کیلنڈر کے مطابق 7نومبر) کی شام کو ہوا اور بالشویکوں کا اقتدار پر قبضہ 25اور
26اکتوبر کی درمیانی رات کو ہوا۔ [ ]1اس انقالب کے نتیجے میں پہلے مرتبہ محنت کشوں اور مظلوموں کی حکومت قائم
ہوئی اور اس انقالب نے پوری دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان واقعات کا براہ راست مشاہدہ کرنے والے امریکی صحافی
جان ریڈ نے اپنی تصنیف میں انقالب کے بارے میں لکھا کہ’’،کوئی بالشویزم کے بارے میں کچھ بھی سوچے ،یہ ایک ناقابل
تردید حقیقت ہے کہ انقالِب روس انسانیت کی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور بالشویکوں کا اقتدار
عالمگیر اہمیت کا حامل ہے۔‘‘[]2
پس منظر
زار کا روس ایک پسماندہ اور جاگیردارانہ معاشرہ تھا جو جنگ و جدل کے باعث زوال اور انحاط کا شکار تھا۔ اِر روس ملک
کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ وہ افسر شاہی کے ذریعے زراعت ،تجارت اور ہر قسم کے ذرائع کا مختاِر کل تھا۔ ِا س جگہ
تجارت اور صنعت کا بہت زیادہ ذکر کرنے کی شاید ضرورت نہیں کیونکہ سن 1900میں روس میں ایک فیصد سے بھی کم
لوگ صنعتی ورکنگ کالس سے تعلق ر کھتے تھے۔ درحقیقت تمام کا تمام ملک زراعت پیشہ تھا۔ چند ایک جگہوں پر
فیکٹریاں لگ چکی تھیں اور صنعت پیشہ مزدوروں کا استحصال بھی ملک کی زرعی زمینوں پر کام کرنے وا لے کسانوں
طرح شروع ہو چکا تھا۔روس میں زرعی بیگار یا “سرفڈم ” کو 1649میں قانونی تحفظ مال۔ کسانوں کے پسے جانے کا عمل
تو پہلے سے رائج تھا اب اسے قانون کی سر پرستی بھی حاصل ہو گئی۔ اگرچہ 1861میں بیگار زرعی مزدوری کا نظام
[]3 قانونی طور پر منسوخ کر دیا گیا مگر اس کے باوجود مزارعوں کے حاالت میں کوئی قابِل ذکر بہتری نہ ہوئی۔
زار کا مجسمہ
انیسویں صدی کے وسط میں ماسکو میں صنعت کاری کا آغاز ہوا۔ وسط ایشیاءکی پیدا کردہ کپاس سے ماسکو ٹیکسٹائل
انڈسٹری کا لیڈر بن گیا۔ 1900ءتک ماسکو دس الکھ نفوس کا شہر بن چکا تھا۔ دیہاتی عالقوں سے روزانہ الکھوں مزدور
فیکٹریوں میں کام کرنے آتے تھے۔ پیٹرز برگ سے انہیں روزی بھی ملی اور حقوق کا احساس اور شعور بھی۔1894ءمیں
آہنی اعصاب کے مالک الیگزینڈر سوم کی اچانک وفات نے اس کے بیٹے نکولس دوم کو روس کا بادشاہ (زار) بنا دیا جو ایک
کمزور منتظم تھا 1905ءمزدوروں کے ایک گروپ نے بادشاہ کو عرض گزاشت پیش کی کہ ”ہم سینٹ پیٹرز برگ کے
باشندے ہمارے بیوی ،بچے اور بوڑھے والدین آپ کے حضور انصاف اور تحفظ مانگنے کے لیے آئے ہیں“ اس ُپ ر امن ریلی سے
سیاسی سرگرمیوں کی ابتداءہو گئی اور احتجاجی جلسوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔22جنوری 1905ءہی کے
ایک یخ بستہ اتوار کے روز شہر میں بجلی بند ہو گئی۔ Civic Facilitiesختم ہو گئیں۔ ایک الکھ مزدور ہڑتال پر چلے گئے۔
معروف مسیحی پادری فادر جورتی گیپن (جو پادری ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس کا ایجنٹ بھی تھا) نے شاہی محل کے
سامنے ایک ُپ رامن مظاہرے کا اہتمام کیا۔ جس میں مزدوروں اور ان کے اہل خانہ نے حصہ لیا۔ مظاہرین 8گھنٹے کی ڈیوٹی
اور مزدوری میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرین کی تعداد دیکھ کر شاہی گارڈ خوف زدہ ہو گئے۔ انہوں نے خوف زدہ
ہو کر فائرنگ کر دی جس سے ایک ہزار افراد مارے گئے۔ ”خونیں اتوار“ نے بادشاہت کو نفرت کی عالمت بنا دیا۔ چند سالوں
بعد پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی اور روس بھی جرمنی اور آسٹریا کے خالف جنگ میں شریک ہو گیا۔ جس نے روس کی
[]4
معیشت کو مزید برباد اور قوم کو بدحال کر دیا۔
پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بد ترین اثرات روس پر بھی پڑے ،جہاں تباہ حالی ،قلت اور بھوک نے پورے معاشرے
کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ جنگ کے اخراجات کے باعث عوامی فالح عامہ کے منصوبوں میں کمی کی گئی اور خوراک
کی سخت قلت پیدا ہو گئی۔اس دوران فوج میں بھی عمومی گراوٹ کے اثرات دیکھے جا سکے تھے۔ اس کیفیت میں بڑ ے
پیمانے پر بغاوت اور تحریک کے اثرات منڈالنے لگ گئے۔ پہلے پہل ٹیکسٹائل کے محنت کشوں کی جانب سے احتجاجات کا
سلسلہ شرو ع کیا گیا جلد ہی اس تحریک کی عوامیت اور جنگوئی میں اضافہ اپنی مرکزیت کے مراکزبدلتا رہا اورٹیکسٹائل
سے میٹل کے مزدوروں کی طرف تبدیل ہوتا رہا،معاشی ہڑتالیں سیاسی ہڑتالوں میں بدلتی رہیں اور چھوٹے عالقوں سے
پیٹروگراڈ منتقل ہوتی رہیں۔1917کے پہلے دو مہینوں میں575,000ہڑتالیوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی جس کا بڑا حصہ
دار الحکومت میں تھا۔پولیس کی طرف سے مارے جانے والے چھاپوں کی مہم کے باوجود9جنوری کو ڈیڑھ الکھ مزدوروں
نے خونی سالگرہ کے موقع پر ہڑتال کی اور مظاہرہ کیا۔ہڑتالیوں کا موڈ انتہائی جوشیال تھا جن کی قیادت میٹل ورکر کر
رہے تھے۔سبھی کو محسوس ہوگیاتھا کہ واپسی کا اب کوئی رستہ نہیں رہاہے۔ہر فیکٹری کے اندر ،تقریبًاہر جگہ بالشویکوں
کے گرد ایک سرگرم مرکز قائم ہو چکاتھا۔فروری کے پہلے دو ہفتوں کے دوران میٹنگیں اور ہڑتالیں مسلسل ہوتی رہیں۔
8فروری کوپوٹیلوف فیکٹری میں پولیس کا مار مار کر بھرکس نکال دیاگیا جبکہ 14فروری کو جب ڈوما کا اجالس شروع
ہو رہاتھا90،ہزار ورکروں نے پیٹروگراڈ میں ہڑتال کردی۔ماسکو میں بھی کئی پالنٹ بند ہو گئے۔16فروری کو انتظامیہ نے
پیٹروگراڈ میں ’’روٹی کارڈ‘‘متعارف کرادیے۔اس انفرادیت نے جذبات کو اور بھی بھڑکا دیا اور19فروری کو عوام کے جھنڈ
جن میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں ،خوراک کی دکانوں پر جمع ہو گئے جو روٹی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ایک دن بعد ہی
تمام بیکریاں بند کر دی گئیں ،یہ وہ گرماگرم ماحول تھا جس کی تپش میں انقالب کا شعلہ پک رہاتھا اور جو کچھ ہی
دنوں کے اندر بھڑکنے واالتھا۔ رہاتھا90،ہزار ورکروں نے پیٹروگراڈ میں ہڑتال کردی۔ماسکو میں بھی کئی پالنٹ بند ہو گئے۔
16فروری کو انتظامیہ نے پیٹروگراڈ میں ’’روٹی کارڈ‘‘متعارف کرادیے۔اس انفرادیت نے جذبات کو اور بھی بھڑکا دیا
اور19فروری کو عوام کے جھنڈ جن میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں ،خوراک کی دکانوں پر جمع ہو گئے جو روٹی کا
مطالبہ کر رہے تھے۔ایک دن بعد ہی تمام بیکریاں بند کر دی گئیں ،یہ وہ گرماگرم ماحول تھا جس کی تپش میں انقالب کا
شعلہ پک رہاتھا اور جو کچھ ہی دنوں کے اندر بھڑکنے واالتھا []5۔
فروری انقالب
23فروری1917ء (موجودہ کیلنڈر کے مطابق 7مارچ) کو خواتین کا عالمی دن تھا۔ دار الحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں
مرد فیکٹریوں میں اور عورتیں خوراک کا راشن لینے گئی تھیں۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد جواب مل گیا کہ خوراک
ختم ہو چکی ہے ،کچھ نہیں ملے گا۔ [ ]4اس کے جواب میں عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کر دیا جسے تاریخ میں فروری
انقالب سے یاد کیا جاتا ہے۔خواتین نے اردگرد کی فیکڑیوں کے محنت کشوں کو جمع کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں
تقریبًا 50ہزار محنت کش ہڑتال پر چلے گئے۔ دو دن بعد تک سینٹ پیٹربرگ کے تمام صنعتی مراکز بند ہو چکے تھے ۔ طلبہ
ء،سفید پوش ورکرز اور استاتذہ تک بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے ۔27فروری کے بعد دار الحکومت کا بیشتر حصہ
محنت کشوں اور سپاہیوں کے قبضے میں تھا جس میں پل ،گولہ بارود ،ریلوے اسٹیشن ،ٹیلی گراف اور پوسٹ آفس شامل
تھے۔ 1905ء کے تجربات کی روشنی میں محنت کشوں نے سوویتیں(محنت کشوں کی پنچایتیں) تشکیل دیں تاکہ سماج
کے نظام کار پر گرفت مضبوط کی جائے۔ مارچ تک طاقت سے محروم زار نکوالس تخت چھوڑ چکا تھا اور رومانوف شاہی
خاندان قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔ [ ]6اب ان کے نعروں میں روٹی اور امن کے ساتھ ساتھ بادشاہت کے خاتمے کا بھی مطالبہ
شامل ہو گیا۔ شاہی گارڈز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اگلے روز ان کی تعداد دو
تین الکھ تک پہنچ گئی۔ زار نے فوج بال لی اور اسے امن و امان بحال کرنے کا حکم دیا مگر تربیت یافتہ فوج کا بڑا حصہ
جنگ کا ایندھن بن چکا تھا۔ وردی میں ملبوس کچھ ریکروٹ تھے اور کچھ تھکی ہاری فوج جو عوام کی طرح جنگ سے
تنگ آ چکی تھی۔ انہیں مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا گیا تو فوجی ہتھیار پھینک کر مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئے۔
پیلس سکوائر میں فوج کے ہتھیار رکھنے سے زاروں کی تین سو سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ آخری زار نکولس دوم کو
تاج و تخت چھوڑنا پڑا۔ [ ]4آمرانہ طرز حکومت ،اقتصادی کمزوری ،بد عنوانی اور قدیم طرز پر بنی افواج پر عوامی غیظ
و غضب باآلخر ایک انقالب کی صورت میں ڈھل گیا جس کا مرکز مغربی شہر پیٹروگراڈ (جو پہلی جنگ عظیم سے قبل
سینٹ پیٹرز برگ کہالتا تھا) تھا۔ زار کی جگہ روس کی غیر اشتراکی عبوری حکومت نے شہزادہ جورجی لفوف کی زیر
قیادت اقتدار سنبھاال۔ جوالئی کے فسادات کے بعد لفوف کی جگہ الیگزیندر کیرنسکی نے لے لی۔ عبوری حکومت آزاد خیال
اور اشتراکیوں کے درمیان ایک اتحاد تھا ،جو سیاسی اصالحات کے بعد ایک جمہوری طور پر منتخب کی گئی آئینی مجلس
(اسمبلی) سامنے النا چاہتی تھی۔یہ انقالب بغیر کسی واضح قیادت یا منصوبہ بندی کے وجود میں آیا۔ جب کہ بادشاہ کی
باال دستی ختم ہو چکی تھی مگر ڈوما میں ابھی بھی ملک کی لبرل پارٹیوں کے اراکین ،زمیندار اور امرا بھرے پڑے تھے
جنھوں نے ملک میں “عبوری حکومت” کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ عبوری حکومت اس وقت کے تاریخی حقائق کے نتیجے
[]7 میں بہت سی مشکالت کا شکار تھی۔ عملی طور پر وہ حکومت کسی بھی قسم کی سماجی تبدیلی کا نشان نہیں تھی۔
اپریل میں لینن کی فن لینڈ سے واپسی ہوئی ،ریلوے سٹیشن پر روسی انقالب کی سوشلسٹ خصوصیات پر لینن نے جو
تقریر کی وہ پارٹی کے بہت سے لیڈروں کے لیے ایک دھماکا تھی۔ لینن اور ’’جمہوری انقالب کی تکمیل‘‘ کے خیر خواہوں کے
درمیان بحث و مباحثہ پہلے دن سے ہی شروع ہو گیا۔4اپریل 1917ءکو مزدوروں اور سپاہیوں کے نمائندگان کی سوویتوں
(پنچائتوں) کی کل روس کانفرنس کے دو اجالسوں میں لینن نے مستقبل کے الئحہ عمل کے لیے اپنا نکتہ نظر واضح کیا،
اسے تاریخ میں اپریل تھیسزکے نام سے جاناجاتا ہے۔اس میں لینن نے عبوری حکومت کی کوئی حمایت نہ کرتے ہوئے اسے
سرمایہ داروں کی حکومت قرار دیا۔ ساتھ ہی اس حکومت کے سامراجی کردار کو بے نقاب کرنے پر زور دیا۔ محنت کشوں
اور کسانوں کی حمایت کے ساتھ لینن نے روس میں سوشلسٹ انقال ب کی جانب بڑھنے کااعالن کیا []8۔ اس نے ان الفاظ
میں مزدوروں کی حکومت کا پروگرام دیا،
پارلیمانی جمہوریت نہیں۔ ۔ ۔ مزدور نمائندوں کی سوویتوں سے پارلیمانی جمہوریت کی طرف واپس
لوٹنا ایک ْر جعتی قدم ہو گا۔ ۔ ۔ اس کی بجائے پورے ملک میں نیچے سے اوپر تک مزدوروں ،کھیت
مزدوروں اور کسانوں کی سوویتوں کی جمہوریت۔
تمام سرکاری اہل کاروں کی تنخواہیں نہ صرف یہ کہ ایک مشاق مزدور کی اوسط ُا جرت سے زیادہ نہ
ہوں گی اور یہ سب کے سب سرکاری اہلکار منتخب شدہ اور قابل تبادلہ ہوں گے (یعنی منتخب کرنے
والے اپنے نمائندے کو کسی بھی وقت واپس بال سکیں)
جون میں ماسکو میں بالشویکوں کو بارہ فیصد سے کچھ ہی زیادہ ووٹ ملے تھے۔ ستمبر میں انہوں نے اکیاون فیصد
ووٹوں کے ساتھ قطعی اکثریت حاصل کر لی۔ مزدور طبقے پر ان کی زبردست گرفت اس ترقی سے واضح ہے جو فیکٹری
کمیٹیوں کی کانفرنس میں ان کی نمائندگی کو حاصل ہوئی۔ ستمبر تک پیٹروگراڈ میں ان تنظیموں کی عالقائی سطح پر
منشویک یا سوشل انقالبی اپنی نمائندگی کھو چکے تھے اور ان کی جگہ بالشویکوں نے لے لی تھی۔ []9
جوالئی کے دن
اپریل کے مسلح مظاہرےسے ،جس میں ’’عبوری حکومٗت مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا گیا ،بڑا متنازع پیدا ہو گیا۔ اس واقعے سے
دائیں بازو کے بعض نمائندوں کو لینن پر بالنکو ازم ( )Blanquismکی تہمت لگانے کا موقع ہاتھ آیا۔ (بقول ان کے) عبوری
حکومت جسے اس وقت سوویت کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی ،کو اکھاڑنا اسی صورت ممکن تھا جب تم محنت
کشوں کی اکثریت کی توہین کرو۔دوسری جانب ،روڈزیانکو جیسے مضبوط شخص نے ،رنجشوں کی بنا پر استعفٰی دے دیا۔
اور پرنس لواو نے اقتدار سنبھاال مگر اس کا ٹکراؤکیرنسکی سے ہو گیا اور یوں لواف کے ہٹنے کے بعد کیرنسکی نے جوالئی
1917میں عارضی حکومت سنبھالی۔ [ ]9عبوری حکومت کے پلو پیچھے حکمران طبقہ منظم ہو کر انتقام کی تیاریاں کر رہا
تھا۔ اس کا نتیجہ ’’جوالئی کے دنوں‘‘ کی رجعت میں نکال۔ محنت کشوں کو ایک شکست ہوئی۔اس تمام تر صورت حال کی
وجہ سے رد انقالب کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔ جنرل کارنیلوف نے انقالب کو کچلنے کے لیے پیٹروگراڈ کی طرف پیش قدمی
کی۔[ ]10بالشویکوں نے ایک متحدہ فرنٹ کے ذریعے کارنیلوف کو شکست فاش دینے کا نعرہ بلند کیا ۔ جوالئی ہی کے مہینے
میں سوویتس کے مظاہرے پر بولشویکس کا غلبہ سامنے آیا جب وہاں بولشویکس کا نعرہ“ ،دس دولت مند وزیر مردہ باد”
گونجنے لگا[]11۔
کامیاب سرکشی
عبوری مطالبات کے بروقت استعمال کے ساتھ (امن ،روٹی اور زمین ،تمام طاقت سوویتوں کے لیے) اور لچکدار طریقہ کار
(متحدہ فرنٹ)کے ذریعے بالشویک سوویتوں میں محنت کشوں اور سپاہیوں کی اکثریت کو جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس
وقت لینن نے لکھا کہ”بحران پک چکا ہے ،بغاوت کی گھڑی آن پہنچی ہے۔“ حکمران طبقوں کو جنگ ،زمین اور آزادی کے
مسائل درپیش تھے اور یہ بہت پیچیدہ ہوتے جا رہے تھے۔بورژوازی کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔جمہوری پارٹیاں ،جن میں
منشویک اور سوشل انقالبی شامل تھے ،سامراجی جنگ کی حمایت ،مصالحانہ پالیسیوں اور بورژوا اور جاگیرداروں کی
ملکیتوں میں رعایت دینے کے باعث عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکے تھے۔باشعور فوج اب سامراجی عزائم کے لیے لڑنے
کے لیے تیار نہ تھی۔جمہوری مشوروں کی پروا نہ کرتے ہوئے مزارعوں نے جاگیرداروں کو ان کی جاگیروں سے اٹھا کر باہر
پھینک دیا۔دور دراز سرحدوں کی مظلوم قومیتیں پیٹروگراڈ کی بیوروکریسی کے خالف اٹھ کھڑی ہوئیں۔ محنت کشوں اور
فوجیوں کی اہم ترین سوویتوں میں بالشویک اہم کردار ادا کر رہے تھے۔السر پک چکا تھا۔ اسے اب جراح کی ضرورت تھی۔
[]12
انقالبی سرکشی کو لیون ٹرا ٹسکی نے اپنی کتاب 'انقالب روس کی تاریخ' میں یوں لکھا؛
25اکتوبر کو ہماری افواج نے سرما محل کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ شہری ساری رات امن سے سوئے رہے‘ انہیں معلوم
ہی نہیں ہوا کہ اقتدار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چال گیا ہے۔ ریلوے سٹیشن‘ ڈاک خانہ‘ تارگر‘ پیٹروگراڈ‘ ٹیلی فون
ایجنسی اور اسٹیٹ بینک‘ سب پر ہمارا قبضہ ہوچکا تھا۔ اسی شام جب ہم سوویتوں کی کانگریس کے افتتاح کا انتظار کر
رہے تھے تو لینن اور میں ہال سے ملحقہ ایک کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ کمرہ بالکل خالی تھا‘ ماسوائے کرسیوں کے۔ کسی
نے ہمارے لیے فرش پر کمبل بچھا دیا۔ شاید وہ لینن کی بہن تھی جو ہمارے لیے سرہانے الئی تھی۔ ہم ساتھ ساتھ لیٹے ہوئے
تھے۔ جسم اور روح تنے ہوئے تاروں کی طرح تھے۔ ہم نے یہ آرام بڑی محنت کے بعد کمایا تھا۔ نیند نہیں آرہی تھی۔ لٰہ ذا ہم
مدھم آواز میں باتیں کرنے لگے۔ شورش ختم کرنے کے خیال سے لینن اب مصالحت کرچکا تھا۔ وہ سرخ محافظوں‘ سپاہیوں
اور جہاز رانوں کے ان ملے جلے ناکوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا‘ جو شہر میں ہر جگہ لگے ہوئے تھے ” لینن کا کہنا تھا
”یہ کیسا حیرت ناک نظارہ ہے۔ محنت کش نے سپاہی کے پہلو بہ پہلو رائفل ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اور وہ آگ تاپ رہے
ہیں“ وہ اپنے گہرے احساس کو دہرائے جارہا تھا۔ آخر کار محنت کش اور سپاہی اکٹھے ہوئے تھے[]13۔
پاکستان کے مشہور شاعر فیض احمد فیض نے اپنی نظم میں انقالب روس کو یوں خراج تحسین پیش کیا؛
انقالب کے نتیجے میں یونائٹیڈ سوشلسٹ سوویت یونین کی ریاست وجو د میں آئی ،جس نے دنیا کی تاریخ میں مختصر
وقت میں شاندار ترقی کی۔ ٹیڈ گرانٹ ،نے اپنی کتاب '،روس انقالب سے رِد انقالب تک کے صفحہ نمبر 35پرسویت
یونین کی فتوحات کا ذکر کرتے بیان کیا کہ ،ملین افراد کے قتِل عام کے باوجود سوویت یونین ہٹلر کو شکست دینے میں
کامیاب ہو گیا اور 1945کے بعد ایک مختصر عرصے میں اپنی تباہ و برباد معیشت کو دوبارہ ترقی دے کر دنیا میں دوسری
عظیم طاقت بن کر ابھرا۔ 1917میں ایک پسماندہ ،نیم جاگیردارانہ اور ناخواندہ افراد کی ایک بڑ ی آبادی واال ملک
سوویت یونین ایک جدید ترقی یافتہ ملک بن گیا ۔ جس میں دنیا کے چوتھائی حصہ سائنس دان موجود تھے۔ صحت اور
تعلیم کا توایسا نظام تھا کہ یا تو یہ ملک مغربی ممالک کے برابر تھا یا ُا ن سے بھی زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ اس نے پہال خالئی
سیارہ تیار کیا اور پہلے انسان کو خال میں پہنچایا۔
لینن اکتوبر 1917ءسے اپنی وفات 1924ءتک اس نوزائیدہ انقالبی اشتراکی ریاست کے سربراہ رہے۔ 53برس کی عمر میں
اس دارفانی سے ان کے کوچ کے بعد پارٹی کے جنرل سیکریٹری جوزف اسٹالن ملک کے سربراہ بنے۔ اسٹالن اپنی سخت گیری
کی بنیاد پر نہ صرف دائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں کی تنقید کا ہدف رہتا بلکہ ان دنوں بائیں بازو کے دانشوروں کی
تنقید کا بھی نشانہ رہا۔ اس کے آہنی ہتھکنڈوں کے سبب یہ تنقید کچھ بے جا بھی نہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے چند ہی برس
بعد پولٹ بیورو کے چوبیس ارکان میں سے صرف ایک رکن بچا تھا‘ باقی تئیس جالوطن‘ قتل یا پھر سائبیریا کی جیلوں
میں قید کر دیے گئے تھے۔ لیون ٹراٹسکی دانشور انقالبی کو میکسیکو کی جالوطنی کے دوران ہی قتل کروا دیا گیا تھا۔ یہ
بتانے کی ضرورت نہیں کہ کیمونسٹ پارٹی کو پولسٹ بیورو کا واحد آزاد رکن جوزف اسٹالن خود تھا۔ ہٹلر کو شکست
فاش دینے اور روس جیسے زرعی معاشرے میں صنعتی انقالب برپا کرنے والے اس شخص کی جب موت ہوئی تو اس کے
اثاثہ جات میں کپڑوں کے تین جوڑوں اور دو جوتے کی جوڑیوں کے عالوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ کوئی بینک اکاﺅنٹ اور نہ
ہی کوئی مکان۔ دوسری جنگ عظیم کے ہنگام‘ جب اسٹالن سربراہ مملکت تھا تو اس کا حقیقی بیٹا سوویت یونین کی
فوج میں بطور نوجوان لیفٹیننٹ جرمنی کے خالف اگلے مورچوں پر لڑ رہا تھا۔ جنگ کے دوران جرمن فوج نے اسے گھیرا
ڈال کر گرفتار کر لیا اور جنگی قیدی بنا ڈاال۔ جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر چاہتاتھا کہ اسٹالن کے گرفتار بیٹے کے بدلے وہ اپنے
ایک اہم فوجی جرنیل کو آزاد کروالے‘ جو سوویت یونین کی قید میں تھا۔ہٹلر کا یہ پیغام اور جنگی قیدیوں کے باہمی
تبادلے کی یہ خواہش لے کر ناربراسٹالن کے پاس پہنچا تو اس نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ ”ایک سپاہی کے ساتھ ایک
جرنیل کا تبادلہ نہیں کیا جاسکتا“ اگرچہ وہ سپاہی اسٹالن کا اپنا بیٹا تھا‘ وہ ہٹلر کی قید میں جنگ کے دوران اس کے
کنسٹریشن کیمپ میں وفات پا گیا۔ اسٹالن کے دور کا خاتمہ 1959ءمیں اس کی موت پر ہوا۔ خردشیف کے سربراہ مملکت
بننے سے لے کر 1991ءمیں میخائل گورباچوف کی سربراہ مملکت بنے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام ہوا[]14۔
حوالہ جات
.2ج .ریڈ ,دنیا کو جھنجھوڑ دینے والے سو دن.New York: Dover Publications , 1919 ,
"" .3انقالب روس :سماجی تار یخ میں نویِد صبح نو۔https://web.archive.org/web/20181224232719/( "" ,
. )/http://niazamana.com/2017/11/russian-revolution-1نیازمانہ 24 .دسمبر 2018میں اصل (htt
سے آرکائیو شدہ .اخذ شدہ بتاریخ 30اگست )./p://niazamana.com/2017/11/russian-revolution-1
.2018
.5ٹراٹسکی ،لیون ٹراٹسکی ( .)2014انقالب روس کی تاریخ .طبقاتی جدوجہد پبلیکیشنز الہور .صفحاتx باب اول،
والیم اول.
.6ایلن ،ووڈز ( 3جون 1917" .)2009ء کا فروری انقالب۔۔۔ جب تخت گرائے گئے" (https://web.archive.org/we
b/20181224232712/http://www.marxist.pk/the-february-revolution-of-1917-storming-hea
. )/venالل سالم .الل سالم پبلیکیشنز 24 .دسمبر 2018میں اصل (http://www.marxist.pk/the-february
سے آرکائیو شدہ .اخذ شدہ بتاریخ مارچ .2017 )./-revolution-of-1917-storming-heaven
.7ڈاکٹر طاہرمنصور ،قاضی (نومبر " .)2017انقالب روس :سماجی تار یخ میں نویِد صبح نو۔" (https://web.archiv
. )/e.org/web/20190105220852/http://niazamana.com/2017/11/russian-revolution-1نیا
سے زمانہ 05 .جنوری 2019میں اصل ()/http://niazamana.com/2017/11/russian-revolution-1
آرکائیو شدہ .اخذ شدہ بتاریخ 30دسمبر .2010
.8مترجم :صبغت وائیں ،لینن (نومبر " .)2013اپریل تھیسس" (https://web.archive.org/web/20181224232
. )/715/http://www.struggle.pk/lenin-april-thesis-in-urduطبقاتی جدوجہد 24 .دسمبر 2018میں
سے آرکائیو شدہ .اخذ شدہ بتاریخ 6نومبر اصل ()/http://www.struggle.pk/lenin-april-thesis-in-urdu
.2009
.9گرانٹ ،ٹیڈ (اپریل " .)2013کیا بالشویک انقالب ایک ُکو تھا؟" (https://web.archive.org/web/201812242
دسمبر 2018میں اصل 32721/http://www.struggle.pk/was-bolshevik-revolution-a-coup/). 24
سے آرکائیو شدہ .اخذ شدہ بتاریخ 30 ()./http://www.struggle.pk/was-bolshevik-revolution-a-coup
اگست .2018
.10ووڈز ،ایلن (مارچ 1917" .)2017ء کا فروری انقالب۔۔۔ جب تخت گرائے گئے" (https://web.archive.org/web/
. )20181224232723/https://chingaree.com/index.php/2017-03-23-15-33-33/80-1917
چنگاری 24 .دسمبر 2018میں اصل (https://chingaree.com/index.php/2017-03-23-15-33-33/80-
سے آرکائیو شدہ .اخذ شدہ بتاریخ 6نومبر .2009 )1917
.11خان ،,نعمان علی (" .)2017ہم روسی سوویت انقالب کے سوویں سال میں جی رہے ہیں۔https://web.archiv( "" ,
دسمبر 2018میں اصل (http://daani e.org/web/20181224232726/http://daanish.pk/9958). 24
سے آرکائیو شدہ .اخذ شدہ بتاریخ 6نومبر .2009 )sh.pk/9958
.13ٹراٹسکی ،لیون ( .)2017انقالب روس کی تاریخ تیسرا حصہ اردو ایڈیشن .الہور :طبقاتی جدوجہد پبلیکشرز.
صفحات.x
آخری ترمیم 5دن قبل بدست
UrduBot
تمام مواد CC BY-SA 3.0کے تحت میسر ہے ،جب تک اس کی
مخالفت مذکور نہ ہو۔