You are on page 1of 9

‫انقالب روس‬

‫سرمایہ دارانہ نظام کے ردعمل کے نتائج اشتراکیت کی نظریہ اور عمل میں النے کے مراحل_‬

‫انقالب روس ‪(،‬روسی زبان‪ ،Октябрьская революция :‬اکتیابرساکایا ریوولیوشیا) جسے بالشویک انقالب‪ ،‬اکتوبر‬
‫انقالب یا سویت انقالب بھی کہا جا تا ہے‪ ،  ‬عالمی تاریخ کا پہال کامیاب سوشلسٹ انقالب تھا جو کالسیکی مارکسیت‬
‫سطور پر استوار ہوا ۔ اسے روس میں لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے‪  ‬بر پا کیاجس نتیجے میں‪ ‬‬
‫یونائیٹڈ سوشلسٹ سوویت یونین(‪)USSR‬کی بنیاد رکھی گئی۔ ُا س وقت زارشاہی روس میں نافذ پرانے کیلنڈر کے مطابق‬
‫انقالبی سرکشی کا آغاز ‪ 25‬اکتوبر (نئے کیلنڈر کے مطابق ‪ 7‬نومبر) کی شام کو ہوا اور بالشویکوں کا اقتدار پر قبضہ ‪ 25‬اور‬
‫‪ 26‬اکتوبر کی درمیانی رات کو ہوا۔ [‪ ]1‬اس انقالب کے نتیجے میں پہلے مرتبہ محنت کشوں اور مظلوموں کی حکومت قائم‬
‫ہوئی اور‪  ‬اس انقالب نے پوری دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان واقعات کا براہ راست مشاہدہ کرنے والے امریکی صحافی‬
‫جان ریڈ نے اپنی تصنیف میں انقالب کے بارے میں لکھا کہ‪’’،‬کوئی بالشویزم کے بارے میں کچھ بھی سوچے‪ ،‬یہ ایک ناقابل‬
‫تردید حقیقت ہے کہ انقالِب روس انسانیت کی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے اور بالشویکوں کا اقتدار‬
‫عالمگیر اہمیت کا حامل ہے۔‘‘[‪]2‬‬

‫‪  ‬پس منظر‬

‫زار کا روس ایک پسماندہ اور جاگیردارانہ معاشرہ تھا جو جنگ و جدل کے باعث زوال اور انحاط کا شکار تھا۔ اِر روس ملک‬
‫کے سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ وہ افسر شاہی کے ذریعے زراعت‪ ،‬تجارت اور ہر قسم کے ذرائع کا مختاِر کل تھا۔ ِا س جگہ‬
‫تجارت اور صنعت کا بہت زیادہ ذکر کرنے کی شاید ضرورت نہیں کیونکہ سن ‪ 1900‬میں روس میں ایک فیصد سے بھی کم‬
‫لوگ صنعتی ورکنگ کالس سے تعلق ر کھتے تھے۔ درحقیقت تمام کا تمام ملک زراعت پیشہ تھا۔ چند ایک جگہوں پر‬
‫فیکٹریاں لگ چکی تھیں اور صنعت پیشہ مزدوروں کا استحصال بھی ملک کی زرعی زمینوں پر کام کرنے وا لے کسانوں‬
‫طرح شروع ہو چکا تھا۔روس میں زرعی بیگار یا “سرفڈم ” کو ‪ 1649‬میں قانونی تحفظ مال۔ کسانوں کے پسے جانے کا عمل‬
‫تو پہلے سے رائج تھا اب اسے قانون کی سر پرستی بھی حاصل ہو گئی۔ اگرچہ ‪ 1861‬میں بیگار زرعی مزدوری کا نظام‬
‫[‪]3‬‬ ‫قانونی طور پر منسوخ کر دیا گیا مگر اس کے باوجود مزارعوں کے حاالت میں کوئی قابِل ذکر بہتری نہ ہوئی۔‬
‫زار کا مجسمہ‬

‫انیسویں صدی کے وسط میں ماسکو میں صنعت کاری کا آغاز ہوا۔ وسط ایشیاءکی پیدا کردہ کپاس سے ماسکو ٹیکسٹائل‬
‫انڈسٹری کا لیڈر بن گیا۔ ‪ 1900‬ءتک ماسکو دس الکھ نفوس کا شہر بن چکا تھا۔ دیہاتی عالقوں سے روزانہ الکھوں مزدور‬
‫فیکٹریوں میں کام کرنے آتے تھے۔ پیٹرز برگ سے انہیں روزی بھی ملی اور حقوق کا احساس اور شعور بھی۔‪1894‬ءمیں‬
‫آہنی اعصاب کے مالک الیگزینڈر سوم کی اچانک وفات نے اس کے بیٹے نکولس دوم کو روس کا بادشاہ (زار) بنا دیا جو ایک‬
‫کمزور منتظم تھا ‪1905‬ءمزدوروں کے ایک گروپ نے بادشاہ کو عرض گزاشت پیش کی کہ ”ہم سینٹ پیٹرز برگ کے‬
‫باشندے ہمارے بیوی‪ ،‬بچے اور بوڑھے والدین آپ کے حضور انصاف اور تحفظ مانگنے کے لیے آئے ہیں“ اس ُپ ر امن ریلی سے‬
‫سیاسی سرگرمیوں کی ابتداءہو گئی اور احتجاجی جلسوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔‪22‬جنوری ‪1905‬ءہی کے‬
‫ایک یخ بستہ اتوار کے روز شہر میں بجلی بند ہو گئی۔ ‪ Civic Facilities‬ختم ہو گئیں۔ ایک الکھ مزدور ہڑتال پر چلے گئے۔‬
‫معروف مسیحی پادری فادر جورتی گیپن (جو پادری ہونے کے ساتھ ساتھ پولیس کا ایجنٹ بھی تھا) نے شاہی محل کے‬
‫سامنے ایک ُپ رامن مظاہرے کا اہتمام کیا۔ جس میں مزدوروں اور ان کے اہل خانہ نے حصہ لیا۔ مظاہرین ‪ 8‬گھنٹے کی ڈیوٹی‬
‫اور مزدوری میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرین کی تعداد دیکھ کر شاہی گارڈ خوف زدہ ہو گئے۔ انہوں نے خوف زدہ‬
‫ہو کر فائرنگ کر دی جس سے ایک ہزار افراد مارے گئے۔ ”خونیں اتوار“ نے بادشاہت کو نفرت کی عالمت بنا دیا۔ چند سالوں‬
‫بعد پہلی عالمی جنگ چھڑ گئی اور روس بھی جرمنی اور آسٹریا کے خالف جنگ میں شریک ہو گیا۔ جس نے روس کی‬
‫[‪]4‬‬
‫معیشت کو مزید برباد اور قوم کو بدحال کر دیا۔‬

‫پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بد ترین اثرات روس پر بھی پڑے ‪ ،‬جہاں تباہ حالی‪ ،‬قلت اور بھوک نے پورے معاشرے‬
‫کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔‪  ‬جنگ کے اخراجات کے باعث عوامی فالح عامہ کے منصوبوں میں کمی کی گئی اور خوراک‬
‫کی سخت قلت پیدا ہو گئی۔اس دوران فوج میں بھی عمومی گراوٹ کے اثرات دیکھے جا سکے تھے۔ اس کیفیت میں بڑ ے‬
‫پیمانے پر بغاوت اور تحریک کے اثرات منڈالنے لگ گئے۔ پہلے پہل ٹیکسٹائل کے محنت کشوں کی جانب سے احتجاجات کا‬
‫سلسلہ شرو ع کیا گیا جلد ہی اس تحریک کی عوامیت اور جنگوئی میں اضافہ اپنی مرکزیت کے مراکزبدلتا رہا اورٹیکسٹائل‬
‫سے میٹل کے مزدوروں کی طرف تبدیل ہوتا رہا‪،‬معاشی ہڑتالیں سیاسی ہڑتالوں میں بدلتی رہیں اور چھوٹے عالقوں سے‬
‫پیٹروگراڈ منتقل ہوتی رہیں۔‪1917‬کے پہلے دو مہینوں میں‪575,000‬ہڑتالیوں کی تعداد ریکارڈ کی گئی جس کا بڑا حصہ‬
‫دار الحکومت میں تھا۔پولیس کی طرف سے مارے جانے والے چھاپوں کی مہم کے باوجود‪9‬جنوری کو ڈیڑھ الکھ مزدوروں‬
‫نے خونی سالگرہ کے موقع پر ہڑتال کی اور مظاہرہ کیا۔ہڑتالیوں کا موڈ انتہائی جوشیال تھا جن کی قیادت میٹل ورکر کر‬
‫رہے تھے۔سبھی کو محسوس ہوگیاتھا کہ واپسی کا اب کوئی رستہ نہیں رہاہے۔ہر فیکٹری کے اندر‪ ،‬تقریبًاہر جگہ بالشویکوں‬
‫کے گرد ایک سرگرم مرکز قائم ہو چکاتھا۔فروری کے پہلے دو ہفتوں کے دوران میٹنگیں اور ہڑتالیں مسلسل ہوتی رہیں۔‬
‫‪8‬فروری کوپوٹیلوف فیکٹری میں پولیس کا مار مار کر بھرکس نکال دیاگیا جبکہ ‪14‬فروری کو جب ڈوما کا اجالس شروع‬
‫ہو رہاتھا‪90،‬ہزار ورکروں نے پیٹروگراڈ میں ہڑتال کردی۔ماسکو میں بھی کئی پالنٹ بند ہو گئے۔‪16‬فروری کو انتظامیہ نے‬
‫پیٹروگراڈ میں ’’روٹی کارڈ‘‘متعارف کرادیے۔اس انفرادیت نے جذبات کو اور بھی بھڑکا دیا اور‪19‬فروری کو عوام کے جھنڈ‬
‫جن میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں ‪،‬خوراک کی دکانوں پر جمع ہو گئے جو روٹی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ایک دن بعد ہی‬
‫تمام بیکریاں بند کر دی گئیں ‪،‬یہ وہ گرماگرم ماحول تھا جس کی تپش میں انقالب کا شعلہ پک رہاتھا اور جو کچھ ہی‬
‫دنوں کے اندر بھڑکنے واالتھا۔ رہاتھا‪90،‬ہزار ورکروں نے پیٹروگراڈ میں ہڑتال کردی۔ماسکو میں بھی کئی پالنٹ بند ہو گئے۔‬
‫‪16‬فروری کو انتظامیہ نے پیٹروگراڈ میں ’’روٹی کارڈ‘‘متعارف کرادیے۔اس انفرادیت نے جذبات کو اور بھی بھڑکا دیا‬
‫اور‪19‬فروری کو عوام کے جھنڈ جن میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں ‪،‬خوراک کی دکانوں پر جمع ہو گئے جو روٹی کا‬
‫مطالبہ کر رہے تھے۔ایک دن بعد ہی تمام بیکریاں بند کر دی گئیں ‪،‬یہ وہ گرماگرم ماحول تھا جس کی تپش میں انقالب کا‬
‫شعلہ پک رہاتھا اور جو کچھ ہی دنوں کے اندر بھڑکنے واالتھا [‪]5‬۔‬

‫فروری انقالب‬

‫فروری انقالب کے دوران ہڑتال کا ایک منظر‬

‫‪ 23‬فروری‪1917‬ء (موجودہ کیلنڈر کے مطابق ‪7‬مارچ) کو خواتین کا عالمی دن تھا۔ دار الحکومت سینٹ پیٹرز برگ میں‬
‫مرد فیکٹریوں میں اور عورتیں خوراک کا راشن لینے گئی تھیں۔ کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد جواب مل گیا کہ خوراک‬
‫ختم ہو چکی ہے‪ ،‬کچھ نہیں ملے گا۔ [‪ ]4‬اس کے جواب میں عورتوں نے تاریخی ہڑتال کا آغاز کر دیا جسے تاریخ میں فروری‬
‫انقالب سے یاد کیا جاتا ہے۔خواتین نے اردگرد کی فیکڑیوں کے محنت کشوں کو جمع کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں‬
‫تقریبًا ‪50‬ہزار محنت کش ہڑتال پر چلے گئے۔ دو دن بعد تک سینٹ پیٹربرگ کے تمام صنعتی مراکز بند ہو چکے تھے ۔ طلبہ‬
‫ء‪،‬سفید پوش‪  ‬ورکرز اور استاتذہ تک بھی اس جدوجہد میں شامل ہو گئے‪   ‬۔‪27‬فروری کے بعد دار الحکومت کا بیشتر حصہ‬
‫محنت کشوں اور سپاہیوں کے قبضے میں تھا جس میں پل‪ ،‬گولہ بارود‪ ،‬ریلوے اسٹیشن‪ ،‬ٹیلی گراف اور پوسٹ آفس شامل‬
‫تھے۔ ‪1905‬ء کے تجربات کی روشنی میں محنت کشوں نے سوویتیں(محنت کشوں کی پنچایتیں) تشکیل دیں تاکہ سماج‬
‫کے نظام کار پر گرفت مضبوط کی جائے۔ مارچ تک طاقت سے محروم زار نکوالس تخت چھوڑ چکا تھا اور رومانوف شاہی‬
‫خاندان قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔ [‪ ]6‬اب ان کے نعروں میں روٹی اور امن کے ساتھ ساتھ بادشاہت کے خاتمے کا بھی مطالبہ‬
‫شامل ہو گیا۔ شاہی گارڈز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اگلے روز ان کی تعداد دو‬
‫تین الکھ تک پہنچ گئی۔ زار نے فوج بال لی اور اسے امن و امان بحال کرنے کا حکم دیا مگر تربیت یافتہ فوج کا بڑا حصہ‬
‫جنگ کا ایندھن بن چکا تھا۔ وردی میں ملبوس کچھ ریکروٹ تھے اور کچھ تھکی ہاری فوج جو عوام کی طرح جنگ سے‬
‫تنگ آ چکی تھی۔ انہیں مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا گیا تو فوجی ہتھیار پھینک کر مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئے۔‬
‫پیلس سکوائر میں فوج کے ہتھیار رکھنے سے زاروں کی تین سو سالہ بادشاہت کا خاتمہ ہو گیا۔ آخری زار نکولس دوم کو‬
‫تاج و تخت چھوڑنا پڑا۔ [‪  ]4‬آمرانہ طرز حکومت‪ ،‬اقتصادی کمزوری‪ ،‬بد عنوانی اور قدیم طرز پر بنی افواج پر عوامی غیظ‬
‫و غضب باآلخر ایک انقالب کی صورت میں ڈھل گیا جس کا مرکز مغربی شہر پیٹروگراڈ (جو پہلی جنگ عظیم سے قبل‬
‫سینٹ پیٹرز برگ کہالتا تھا) تھا۔ زار کی جگہ روس کی غیر اشتراکی عبوری حکومت نے شہزادہ جورجی لفوف کی زیر‬
‫قیادت اقتدار سنبھاال۔ جوالئی کے فسادات کے بعد لفوف کی جگہ الیگزیندر کیرنسکی نے لے لی۔ عبوری حکومت آزاد خیال‬
‫اور اشتراکیوں کے درمیان ایک اتحاد تھا‪ ،‬جو سیاسی اصالحات کے بعد ایک جمہوری طور پر منتخب کی گئی آئینی مجلس‬
‫(اسمبلی) سامنے النا چاہتی تھی۔یہ انقالب بغیر کسی واضح قیادت یا منصوبہ بندی کے وجود میں آیا۔‪  ‬جب کہ بادشاہ کی‬
‫باال دستی ختم ہو چکی تھی مگر ڈوما میں ابھی بھی ملک کی لبرل پارٹیوں کے اراکین‪ ،‬زمیندار اور امرا بھرے پڑے تھے‬
‫جنھوں نے ملک میں “عبوری حکومت” کا انتظام سنبھال لیا تھا۔ عبوری حکومت اس وقت کے تاریخی حقائق کے نتیجے‬
‫[‪]7‬‬ ‫میں بہت سی مشکالت کا شکار تھی۔ عملی طور پر وہ حکومت کسی بھی قسم کی سماجی تبدیلی کا نشان نہیں تھی۔‬

‫بالشویک پارٹی اور اپریل تھیسز‬

‫اپریل میں لینن کی فن لینڈ سے واپسی ہوئی‪ ،‬ریلوے سٹیشن پر روسی انقالب کی سوشلسٹ خصوصیات پر لینن نے جو‬
‫تقریر کی وہ پارٹی کے بہت سے لیڈروں کے لیے ایک دھماکا تھی۔ لینن اور ’’جمہوری انقالب کی تکمیل‘‘ کے خیر خواہوں کے‬
‫درمیان بحث و مباحثہ پہلے دن سے ہی شروع ہو گیا۔‪4‬اپریل ‪1917‬ءکو مزدوروں اور سپاہیوں کے نمائندگان کی سوویتوں‬
‫(پنچائتوں) کی کل روس کانفرنس کے دو اجالسوں میں لینن نے مستقبل کے الئحہ عمل کے لیے اپنا نکتہ نظر واضح کیا‪،‬‬
‫اسے تاریخ میں اپریل تھیسزکے نام سے جاناجاتا ہے۔اس میں لینن نے عبوری حکومت کی کوئی حمایت نہ کرتے ہوئے‪  ‬اسے‬
‫سرمایہ داروں کی حکومت قرار دیا۔ ساتھ ہی اس حکومت کے سامراجی کردار کو‪  ‬بے نقاب کرنے پر زور دیا۔ محنت کشوں‬
‫اور کسانوں کی حمایت کے ساتھ لینن نے روس میں سوشلسٹ انقال ب کی جانب بڑھنے کااعالن کیا [‪]8‬۔ اس نے ان الفاظ‬
‫میں مزدوروں کی حکومت کا پروگرام دیا‪،‬‬

‫پارلیمانی جمہوریت نہیں۔ ۔ ۔ مزدور نمائندوں کی سوویتوں سے پارلیمانی جمہوریت کی طرف واپس‬
‫لوٹنا ایک ْر جعتی قدم ہو گا۔ ۔ ۔ اس کی بجائے پورے ملک میں نیچے سے اوپر تک مزدوروں‪ ،‬کھیت‬
‫مزدوروں اور کسانوں کی سوویتوں کی جمہوریت۔‬

‫پولیس‪ ،‬فوج اور بیوروکریسی کا مکمل خاتمہ‬

‫تمام سرکاری اہل کاروں کی تنخواہیں نہ صرف یہ کہ ایک مشاق مزدور کی اوسط ُا جرت سے زیادہ نہ‬
‫ہوں گی اور یہ سب کے سب سرکاری اہلکار منتخب شدہ اور قابل تبادلہ ہوں گے (یعنی منتخب کرنے‬
‫والے اپنے نمائندے کو کسی بھی وقت واپس بال سکیں)‬

‫جون میں ماسکو میں بالشویکوں کو بارہ فیصد سے کچھ ہی زیادہ ووٹ ملے تھے۔ ستمبر میں انہوں نے اکیاون فیصد‬
‫ووٹوں کے ساتھ قطعی اکثریت حاصل کر لی۔ مزدور طبقے پر ان کی زبردست گرفت اس ترقی سے واضح ہے جو فیکٹری‬
‫کمیٹیوں کی کانفرنس میں ان کی نمائندگی کو حاصل ہوئی۔ ستمبر تک پیٹروگراڈ میں ان تنظیموں کی عالقائی سطح پر‬
‫منشویک یا سوشل انقالبی اپنی نمائندگی کھو چکے تھے اور ان کی جگہ بالشویکوں نے لے لی تھی۔ [‪]9‬‬

‫جوالئی کے دن‬

‫اپریل کے مسلح مظاہرےسے‪ ،‬جس میں ’’عبوری حکومٗت مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا گیا‪ ،‬بڑا متنازع پیدا ہو گیا۔ اس واقعے سے‬
‫دائیں بازو کے بعض نمائندوں کو لینن پر بالنکو ازم (‪ )Blanquism‬کی تہمت لگانے کا موقع ہاتھ آیا۔ (بقول ان کے) عبوری‬
‫حکومت جسے اس وقت سوویت کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی‪ ،‬کو اکھاڑنا اسی صورت ممکن تھا جب تم محنت‬
‫کشوں کی اکثریت کی توہین کرو۔دوسری جانب‪ ،‬روڈزیانکو جیسے مضبوط شخص نے‪ ،‬رنجشوں کی بنا پر استعفٰی دے دیا۔‬
‫اور پرنس لواو نے اقتدار سنبھاال مگر اس کا ٹکراؤکیرنسکی سے ہو گیا اور یوں لواف کے ہٹنے کے بعد کیرنسکی نے جوالئی‬
‫‪ 1917‬میں عارضی حکومت سنبھالی۔ [‪ ]9‬عبوری حکومت کے پلو پیچھے حکمران طبقہ منظم ہو کر انتقام کی تیاریاں کر رہا‬
‫تھا۔ اس کا نتیجہ ’’جوالئی کے دنوں‘‘ کی رجعت میں نکال۔ محنت کشوں کو ایک شکست ہوئی۔اس تمام تر صورت حال کی‬
‫وجہ سے رد انقالب کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔ جنرل کارنیلوف نے انقالب کو کچلنے کے لیے پیٹروگراڈ کی طرف پیش قدمی‬
‫کی۔[‪ ]10‬بالشویکوں نے ایک متحدہ فرنٹ کے ذریعے کارنیلوف کو شکست فاش دینے کا نعرہ بلند کیا‪  ‬۔ جوالئی ہی کے مہینے‬
‫میں سوویتس کے مظاہرے پر بولشویکس کا غلبہ سامنے آیا جب وہاں بولشویکس کا نعرہ‪“ ،‬دس دولت مند وزیر مردہ باد”‬
‫گونجنے لگا[‪]11‬۔‬

‫کامیاب سرکشی‬

‫عبوری مطالبات کے بروقت استعمال کے ساتھ (امن‪ ،‬روٹی اور زمین‪ ،‬تمام طاقت سوویتوں کے لیے) اور لچکدار طریقہ کار‬
‫(متحدہ فرنٹ)کے ذریعے بالشویک سوویتوں میں محنت کشوں اور سپاہیوں کی اکثریت کو جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس‬
‫وقت لینن نے لکھا کہ”بحران پک چکا ہے‪ ،‬بغاوت کی گھڑی آن پہنچی ہے۔“ حکمران طبقوں کو جنگ‪ ،‬زمین اور آزادی کے‬
‫مسائل درپیش تھے اور یہ بہت پیچیدہ ہوتے جا رہے تھے۔بورژوازی کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔جمہوری پارٹیاں‪ ،‬جن میں‬
‫منشویک اور سوشل انقالبی شامل تھے‪ ،‬سامراجی جنگ کی حمایت‪ ،‬مصالحانہ پالیسیوں اور بورژوا اور جاگیرداروں کی‬
‫ملکیتوں میں رعایت دینے کے باعث عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکے تھے۔باشعور فوج اب سامراجی عزائم کے لیے لڑنے‬
‫کے لیے تیار نہ تھی۔جمہوری مشوروں کی پروا نہ کرتے ہوئے مزارعوں نے جاگیرداروں کو ان کی جاگیروں سے اٹھا کر باہر‬
‫پھینک دیا۔دور دراز سرحدوں کی مظلوم قومیتیں پیٹروگراڈ کی بیوروکریسی کے خالف اٹھ کھڑی ہوئیں۔ محنت کشوں اور‬
‫فوجیوں کی اہم ترین سوویتوں میں بالشویک اہم کردار ادا کر رہے تھے۔السر پک چکا تھا۔ اسے اب جراح کی ضرورت تھی۔‬
‫[‪]12‬‬

‫انقالبی سرکشی کو‪  ‬لیون ٹرا‪   ‬ٹسکی نے اپنی کتاب 'انقالب روس کی تاریخ' میں یوں لکھا؛‬

‫‪ 25‬اکتوبر کو ہماری افواج نے سرما محل کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ شہری ساری رات امن سے سوئے رہے‘ انہیں معلوم‬
‫ہی نہیں ہوا کہ اقتدار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں چال گیا ہے۔ ریلوے سٹیشن‘ ڈاک خانہ‘ تارگر‘ پیٹروگراڈ‘ ٹیلی فون‬
‫ایجنسی اور اسٹیٹ بینک‘ سب پر ہمارا قبضہ ہوچکا تھا۔ اسی شام جب ہم سوویتوں کی کانگریس کے افتتاح کا انتظار کر‬
‫رہے تھے تو لینن اور میں ہال سے ملحقہ ایک کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ کمرہ بالکل خالی تھا‘ ماسوائے کرسیوں کے۔ کسی‬
‫نے ہمارے لیے فرش پر کمبل بچھا دیا۔ شاید وہ لینن کی بہن تھی جو ہمارے لیے سرہانے الئی تھی۔ ہم ساتھ ساتھ لیٹے ہوئے‬
‫تھے۔ جسم اور روح تنے ہوئے تاروں کی طرح تھے۔ ہم نے یہ آرام بڑی محنت کے بعد کمایا تھا۔ نیند نہیں آرہی تھی۔ لٰہ ذا ہم‬
‫مدھم آواز میں باتیں کرنے لگے۔ شورش ختم کرنے کے خیال سے لینن اب مصالحت کرچکا تھا۔ وہ سرخ محافظوں‘ سپاہیوں‬
‫اور جہاز رانوں کے ان ملے جلے ناکوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا‘ جو شہر میں ہر جگہ لگے ہوئے تھے ” ‪ ‬لینن کا کہنا تھا‬
‫”یہ کیسا حیرت ناک نظارہ ہے۔ محنت کش نے سپاہی کے پہلو بہ پہلو رائفل ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اور وہ آگ تاپ رہے‬
‫ہیں“ وہ اپنے گہرے احساس کو دہرائے جارہا تھا۔ آخر کار محنت کش اور سپاہی اکٹھے ہوئے تھے[‪]13‬۔‬

‫پاکستان کے مشہور شاعر فیض احمد فیض نے اپنی نظم میں انقالب روس کو یوں خراج تحسین پیش کیا؛‬

‫سینِۂ وقت سے سارے خونیں کفن‬

‫آج کے دن سالمت اٹھائے گئے‬

‫آج پائے غالماں میں زنجیِر پا‬

‫ایسے چھنکی کہ بانِگ درا بن گئی‬

‫دسِت مظلوم ہتھکڑی کی کڑی‬

‫ایسے چمکی کہ تیِغ فضا بن گئی‬

‫یونائٹیڈ سوشلسٹ سوویت یونین‬

‫انقالب کے نتیجے میں یونائٹیڈ سوشلسٹ سوویت یونین کی ریاست وجو د میں آئی‪ ،‬جس نے دنیا کی تاریخ میں مختصر‬
‫وقت میں شاندار ترقی کی۔ ٹیڈ گرانٹ‪ ،‬نے اپنی کتاب ‪'،‬روس انقالب سے رِد انقالب‪    ‬تک‪  ‬کے صفحہ نمبر ‪ 35‬پرسویت‬
‫یونین کی فتوحات کا ذکر کرتے بیان کیا کہ ‪ ،‬ملین افراد کے قتِل عام کے باوجود سوویت یونین ہٹلر کو شکست دینے میں‬
‫کامیاب ہو گیا اور ‪ 1945‬کے بعد ایک مختصر عرصے میں اپنی تباہ و برباد معیشت کو دوبارہ ترقی دے کر دنیا میں دوسری‬
‫عظیم طاقت بن کر ابھرا۔ ‪ 1917‬میں ایک پسماندہ‪ ،‬نیم جاگیردارانہ اور ناخواندہ افراد کی ایک بڑ ی آبادی واال ملک‬
‫سوویت یونین ایک جدید ترقی یافتہ ملک بن گیا ۔ جس میں دنیا کے چوتھائی حصہ سائنس دان موجود تھے۔ صحت اور‬
‫تعلیم کا توایسا نظام تھا کہ یا تو یہ ملک مغربی ممالک کے برابر تھا یا ُا ن سے بھی زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ اس نے پہال خالئی‬
‫سیارہ تیار کیا اور پہلے انسان کو خال میں پہنچایا۔‬

‫لینن اکتوبر ‪1917‬ءسے اپنی وفات ‪1924‬ءتک اس نوزائیدہ انقالبی اشتراکی ریاست کے سربراہ رہے۔ ‪ 53‬برس کی عمر میں‬
‫اس دارفانی سے ان کے کوچ کے بعد پارٹی کے جنرل سیکریٹری جوزف اسٹالن ملک کے سربراہ بنے۔ اسٹالن اپنی سخت گیری‬
‫کی بنیاد پر نہ صرف دائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں کی تنقید کا ہدف رہتا بلکہ ان دنوں بائیں بازو کے دانشوروں کی‬
‫تنقید کا بھی نشانہ رہا۔ اس کے آہنی ہتھکنڈوں کے سبب یہ تنقید کچھ بے جا بھی نہیں۔ اقتدار سنبھالنے کے چند ہی برس‬
‫بعد پولٹ بیورو کے چوبیس ارکان میں سے صرف ایک رکن بچا تھا‘ باقی تئیس جالوطن‘ قتل یا پھر سائبیریا کی جیلوں‬
‫میں قید کر دیے گئے تھے۔ لیون ٹراٹسکی دانشور انقالبی کو میکسیکو کی جالوطنی کے دوران ہی قتل کروا دیا گیا تھا۔ یہ‬
‫بتانے کی ضرورت نہیں کہ کیمونسٹ پارٹی کو پولسٹ بیورو کا واحد آزاد رکن جوزف اسٹالن خود تھا۔ ہٹلر کو شکست‬
‫فاش دینے اور روس جیسے زرعی معاشرے میں صنعتی انقالب برپا کرنے والے اس شخص کی جب موت ہوئی تو اس کے‬
‫اثاثہ جات میں کپڑوں کے تین جوڑوں اور دو جوتے کی جوڑیوں کے عالوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ نہ کوئی بینک اکاﺅنٹ اور نہ‬
‫ہی کوئی مکان۔‪  ‬دوسری جنگ عظیم کے ہنگام‘ جب اسٹالن سربراہ مملکت تھا تو اس کا حقیقی بیٹا سوویت یونین کی‬
‫فوج میں بطور نوجوان لیفٹیننٹ جرمنی کے خالف اگلے مورچوں پر لڑ رہا تھا۔ جنگ کے دوران جرمن فوج نے اسے گھیرا‬
‫ڈال کر گرفتار کر لیا اور جنگی قیدی بنا ڈاال۔ جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر چاہتاتھا کہ اسٹالن کے گرفتار بیٹے کے بدلے وہ اپنے‬
‫ایک اہم فوجی جرنیل کو آزاد کروالے‘ جو سوویت یونین کی قید میں تھا۔ہٹلر کا یہ پیغام اور جنگی قیدیوں کے باہمی‬
‫تبادلے کی یہ خواہش لے کر ناربراسٹالن کے پاس پہنچا تو اس نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ ”ایک سپاہی کے ساتھ ایک‬
‫جرنیل کا تبادلہ نہیں کیا جاسکتا“ اگرچہ وہ سپاہی اسٹالن کا اپنا بیٹا تھا‘ وہ ہٹلر کی قید میں جنگ کے دوران اس کے‬
‫کنسٹریشن کیمپ میں وفات پا گیا۔ اسٹالن کے دور کا خاتمہ ‪1959‬ءمیں اس کی موت پر ہوا۔ خردشیف کے سربراہ مملکت‬
‫بننے سے لے کر ‪1991‬ءمیں میخائل گورباچوف کی سربراہ مملکت بنے۔ ‪1991‬ء میں سوویت یونین کے انہدام ہوا[‪]14‬۔‬

‫حوالہ جات‬

‫‪" .1‬انقالِب روس کے سو سال" (‪https://web.archive.org/web/20181224232732/http://www.struggle.‬‬


‫‪ . )/pk/100-years-of-russian-revolution‬طبقاتی جدوجہد‪ 7 .‬نومبر ‪ 24 .2017‬دسمبر ‪ 2018‬میں اصل (‪ht‬‬
‫سے آرکائیو شدہ‪ .‬اخذ شدہ بتاریخ ‪30‬‬ ‫‪)/tp://www.struggle.pk/100-years-of-russian-revolution‬‬
‫اگست ‪.2018‬‬

‫‪ .2‬ج‪ .‬ریڈ‪ ,‬دنیا کو جھنجھوڑ دینے والے سو دن‪.New York: Dover Publications , 1919 ,‬‬

‫‪ "" .3‬انقالب روس‪ :‬سماجی تار یخ میں نویِد صبح نو۔‪https://web.archive.org/web/20181224232719/( "" ,‬‬
‫‪ . )/http://niazamana.com/2017/11/russian-revolution-1‬نیازمانہ‪ 24 .‬دسمبر ‪ 2018‬میں اصل (‪htt‬‬
‫سے آرکائیو شدہ‪ .‬اخذ شدہ بتاریخ ‪ 30‬اگست‬ ‫‪)./p://niazamana.com/2017/11/russian-revolution-1‬‬
‫‪.2018‬‬

‫‪ "" .4‬بادشاہوں اور انقالبیوں کا روس" (‪https://web.archive.org/web/20181224232713/https://www.n‬‬


‫‪ . awaiwaqt.com.pk/04-Aug-2011/118111). Census 2016‬نوائے وقت‪ .‬اگست ‪ 24 .2017‬دسمبر‬
‫سے آرکائیو شدہ‪ .‬اخذ‬ ‫‪ 2018‬میں اصل (‪)https://www.nawaiwaqt.com.pk/04-Aug-2011/118111‬‬
‫شدہ بتاریخ ‪ 16‬جنوری ‪.2018‬‬

‫‪ .5‬ٹراٹسکی‪ ،‬لیون ٹراٹسکی (‪ .)2014‬انقالب روس کی تاریخ‪ .‬طبقاتی جدوجہد پبلیکیشنز الہور‪ .‬صفحات‪x ‬باب اول‪،‬‬
‫والیم اول‪.‬‬

‫‪ .6‬ایلن‪ ،‬ووڈز (‪ 3‬جون ‪1917" .)2009‬ء کا فروری انقالب۔۔۔ جب تخت گرائے گئے" (‪https://web.archive.org/we‬‬
‫‪b/20181224232712/http://www.marxist.pk/the-february-revolution-of-1917-storming-hea‬‬
‫‪ . )/ven‬الل سالم‪ .‬الل سالم پبلیکیشنز‪ 24 .‬دسمبر ‪ 2018‬میں اصل (‪http://www.marxist.pk/the-february‬‬
‫سے آرکائیو شدہ‪ .‬اخذ شدہ بتاریخ مارچ ‪.2017‬‬ ‫‪)./-revolution-of-1917-storming-heaven‬‬

‫‪ .7‬ڈاکٹر طاہرمنصور‪ ،‬قاضی (نومبر ‪" .)2017‬انقالب روس‪ :‬سماجی تار یخ میں نویِد صبح نو۔" (‪https://web.archiv‬‬
‫‪ . )/e.org/web/20190105220852/http://niazamana.com/2017/11/russian-revolution-1‬نیا‬
‫سے‬ ‫زمانہ‪ 05 .‬جنوری ‪ 2019‬میں اصل (‪)/http://niazamana.com/2017/11/russian-revolution-1‬‬
‫آرکائیو شدہ‪ .‬اخذ شدہ بتاریخ ‪ 30‬دسمبر ‪.2010‬‬
‫‪ .8‬مترجم‪ :‬صبغت وائیں‪ ،‬لینن (نومبر ‪" .)2013‬اپریل تھیسس" (‪https://web.archive.org/web/20181224232‬‬
‫‪ . )/715/http://www.struggle.pk/lenin-april-thesis-in-urdu‬طبقاتی جدوجہد‪ 24 .‬دسمبر ‪ 2018‬میں‬
‫سے آرکائیو شدہ‪ .‬اخذ شدہ بتاریخ ‪ 6‬نومبر‬ ‫اصل (‪)/http://www.struggle.pk/lenin-april-thesis-in-urdu‬‬
‫‪.2009‬‬

‫‪ .9‬گرانٹ‪ ،‬ٹیڈ (اپریل ‪" .)2013‬کیا بالشویک انقالب ایک ُکو تھا؟" (‪https://web.archive.org/web/201812242‬‬
‫دسمبر ‪ 2018‬میں اصل‬ ‫‪32721/http://www.struggle.pk/was-bolshevik-revolution-a-coup/). 24‬‬
‫سے آرکائیو شدہ‪ .‬اخذ شدہ بتاریخ ‪30‬‬ ‫(‪)./http://www.struggle.pk/was-bolshevik-revolution-a-coup‬‬
‫اگست ‪.2018‬‬

‫‪ .10‬ووڈز‪ ،‬ایلن (مارچ ‪1917" .)2017‬ء کا فروری انقالب۔۔۔ جب تخت گرائے گئے" (‪https://web.archive.org/web/‬‬
‫‪. )20181224232723/https://chingaree.com/index.php/2017-03-23-15-33-33/80-1917‬‬
‫چنگاری‪ 24 .‬دسمبر ‪ 2018‬میں اصل (‪https://chingaree.com/index.php/2017-03-23-15-33-33/80-‬‬
‫سے آرکائیو شدہ‪ .‬اخذ شدہ بتاریخ ‪ 6‬نومبر ‪.2009‬‬ ‫‪)1917‬‬

‫‪ .11‬خان‪ ،,‬نعمان علی (‪" .)2017‬ہم روسی سوویت انقالب کے سوویں سال میں جی رہے ہیں۔‪https://web.archiv( "" ,‬‬
‫دسمبر ‪ 2018‬میں اصل (‪http://daani‬‬ ‫‪e.org/web/20181224232726/http://daanish.pk/9958). 24‬‬
‫سے آرکائیو شدہ‪ .‬اخذ شدہ بتاریخ ‪ 6‬نومبر ‪.2009‬‬ ‫‪)sh.pk/9958‬‬

‫‪ .12‬ٹراٹسکی‪ ،‬لیون (‪ .)2014‬انقالب روس کے دفاع میں‪ .‬صفحات‪.x ‬‬

‫‪ .13‬ٹراٹسکی‪ ،‬لیون (‪ .)2017‬انقالب روس کی تاریخ تیسرا حصہ اردو ایڈیشن‪ .‬الہور‪ :‬طبقاتی جدوجہد پبلیکشرز‪.‬‬
‫صفحات‪.x ‬‬

‫‪" .14‬سوویت انقالب کے سو سال" (‪https://web.archive.org/web/20181224232731/http://dailykhabrai‬‬


‫‪ . )/n.com.pk/2017/10/22/73349‬روزنامہ خبریں‪ .‬اکتوبر ‪ 24 .2017‬دسمبر ‪ 2018‬میں اصل (‪http://dail‬‬
‫سے آرکائیو شدہ‪ .‬اخذ شدہ بتاریخ ‪ 30‬اگست ‪.2018‬‬ ‫‪)/ykhabrain.com.pk/2017/10/22/73349‬‬

‫اخذ کردہ از «?‪https://ur.wikipedia.org/w/index.php‬‬


‫‪&oldid=4640282‬انقالب_روس=‪»title‬‬


آخری ترمیم ‪ 5‬دن قبل بدست ‪
UrduBot‬‬
‫تمام مواد ‪ CC BY-SA 3.0‬کے تحت میسر ہے‪ ،‬جب تک اس کی‬
‫مخالفت مذکور نہ ہو۔‬

You might also like