Professional Documents
Culture Documents
9138 1
9138 1
مال رق میں چین ،ش مال مش ران ،ش رب میں ای تان ،مغ رق میں پاکس وب اور مش ]18[]17اس کے جن
میں ترکمانستان ،ازبکستان اور تاجکس تان ہیں۔ اردگ رد کے تم ام ممال ک س ے افغانس تان کے ت اریخی ،م ذہبی اور ثق افتی
ک لمان ہیں۔ یہ مل وگ مس تر ل را ہے۔ اس کے بیش ق بہت گہ تعل
بالترتیب ایرانیوں ،یونانیوں ،عربوں ،ترکوں ،منگولوں ،انگریزوں ،روسیوں اور ام ریکہ کے قبض ے میں رہ ا ہے۔ مگ ر
اس کے لوگ بیرونی قبض ہ کے خالف ہمیش ہ م زاحمت ک رتے رہے ہیں۔ ای ک مل ک کے ط ور پ ر اٹھ ارویں ص دی کے
وسط میں احمد شاہ ابدالی کے دور میں یہ ابھرا اگرچہ بعد میں درانی سلطنت کے کافی حص ے اردگ رد کے ممال ک کے
حصے بن گئے۔
1919ء میں ش اہ ام ان ہللا خ ان کی قی ادت میں انگری زوں س ے افغانس تان کی آزادی حاص ل کی۔ جس کے بع د افغانس تان
ص حیح معن وں میں ای ک مل ک بن گی ا۔ مگ ر انگری زوں کے دور میں اس کے بیش تر عالقے حقیقت میں آزاد ہی تھے
اور برط انیہ کبھی اس پ ر مکم ل قبض ہ نہیں رکھ س کا۔ 11 س تمبر کے واقعے ک و بنی اد بن ا ک ر ام ریکہ نے طالب ان
پر جنگ مسلط کردی اور طالبان حکومت ( امارت اسالمیہ افغانستان) کو گرادیا لیکن 20سال بعد امریکہ ک و طوی ل تب اہ
کن جنگ کے بعد افغانستان سے نکلنا پڑا ۔بظاہر امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت (اسالمی جمہوریہ افغانستان کے نام سے )
15اگست 2021تک قائم رہی لیکن کابل پر طالبان کے قبضے کے ساتھ ہی اس حک ومت کے اقت دار ک ا س ورج غ روب
ہوگیا ۔ افغانستان پچھلے پینتیس سال سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس نے اس کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی
کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے ہ اتھوں ہ وئی اور کبھی خ انہ جنگی س ے یہ ص ورت ح ال
پیدا ہوئی۔ اگرچہ افغانس تان کے پ اس تی ل ی ا دوس رے وس ائل کی کمی ہے مگ ر اس کی جغرافی ائی حی ثیت ایس ی ہے کہ
وسطی کے درمیان میں ہے اور تینوں خطوں سے ہمیشہ اس کا نس لی ،م ذہبی
ٰ مشرق
ِ وہ وسطی ایشیاء ،جنوبی ایشیاء اور
اور ثقافتی تعلق رہا ہے اور جنگی لحاظ سے اور عالقے میں اپنا دباؤ رکھنے کے ل یے ہمیش ہ اہم رہ ا ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان کا زیادہ رقبہ پتھریال پہاڑی
عالقہ ہے اس وجہ سے کسی بھی بیرونی طاقت کا یہاں قبضہ رکھنا مش کل ہے اور ل وگ زی ادہ ت ر قب ائلی ہیں اس ل یے
کبھی بیرونی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے ،نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے کے ل یے امن نص یب نہیں
ہو سکا۔
افغانستان دنیا کا سب سے غ ریب اور پس ماندہ مل ک ہے جس کی معیش ت ک ا بہت زی ادہ انحص ار ہ یروئن اور افی ون کی
پیداوار پر ہے۔ بچے بازی افغ انوں کی س ب س ے مش ہور روایت ہے۔ افغانس تان دراص ل اس رائیل اور ام ریکہ کے زی ر
انتظام ہے۔ طالبان افغانستان کی عالمت ہے جو ملک کی ثقافت اور تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔
افغانستان میں پچاس ہزار س ال پہلے بھی انس انی آب ادی موج ود تھی اور اس کی زراعت بھی دنی ا کی اولین زراعت میں
شامل ہے۔[ ]19سن 2000قبل مسیح میں آریاؤں نے افغانستان ک و ت اراج کی ا۔ پھ ر ایرانی وں نے ان س ے چھین لی ا۔ اس کے
بعد یہ عرصہ تک سلطنت فارس کا حصہ رہا۔ 329قبل مسیح میں اس کے ک ئی حص ے ایرانی وں س ے س کندر اعظم نے
چھین ل یے جس میں بلخ ش امل ہے مگ ر یون انیوں ک ا یہ قبض ہ زی ادہ دی ر نہ رہ ا۔ 642 عیس وی ت ک یہ عالقہ وقت ا ً
فوقت ا ً ہن وں ،منگول وں ،ساس انیوں اور ایرانی وں کے پ اس رہ ا۔ جس کے بع د اس عالقے ک و مس لمانوں نے فتح ک ر لی ا۔
مسلمانوں کی اس فتح کو تاریخ میں عربوں کی فتح سمجھا جات ا ہے ج و غل ط ہے کی ونکہ مس لمانوں میں ک ئی اق وام کے
لوگ شامل تھے۔ اسالم سے پہلے یہاں کے لوگ بدھ مت اور کچھ قبائلی مذاہب کے پیروکار تھے۔
642ء میں مس لمانوں نے اس عالقے ک و فتح کی ا مگ ر یہ اں کے حکم ران عالق ائی لوگ وں ہی ک و بنای ا۔ پہلے یہ
حکم رانی خراس انی عرب وں کے پ اس رہی۔998 ء میں محم ود غزن وی نے ان س ے اقت دار چھین لی ا۔ غوری وں
نے1146 ء میں غزنوی وں ک و شکس ت دی۔ اور انہیں غ زنی کے عالقے ت ک مح دود ک ر دی ا۔ یہ س ب مس لمان تھے
مگر1219 ء میں چنگیز خانی منگولوں نے افغانستان کو تاراج کر دیا۔ ھرات ،غزنی اور بلخ مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔
حتی کہ تیمور نے چودھویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کر لی۔ اسی کی اوالد
منگول بعد میں خود مسلمان ہو گئے ٰ
س ے شہنش اہ ب ابر نے کابل ک و س ولہویں ص دی کے ش روع میں پہلی دفعہ اپن ا دار الحک ومت ق رار دی ا۔ س ولہویں
ص دی س ے اٹھ ارویں ص دی ت ک افغانس تان ک ئی حص وں میں تقس یم رہ ا۔ ش مالی حص ہ پ ر ازبک ،مغ ربی حصے
(ھرات سمیت) پر ایرانی صفویوں اور مشرقی حصہ پر مغل اور پشتون قابض رہے۔1709 ء میں پش تونوں نے م یرویس
خ ان هوت ک کی قی ادت میں ص فویوں کے خالف جن گ ل ڑی اور 1719ء س ے 1729ء ت ک افغانس تان بلکہ ای رانی
شہر اصفہان پر قبض ہ رکھ ا۔1729 ء میں ای رانی بادش اہ ن ادر ش اہ نے انھیں واپس دھکیال اور ان کے قبض ے س ے تم ام
حتی کہ1738 ء میں قندھار اور غزنی پر بھی قبضہ کر لی ا۔ ج و 1747ء ت ک ج اری رہ ا۔ پش تونوں اور
عالقے چھڑائے ٰ
فارسی بولنے والوں کی یہ کشمکش آج بھی جاری ہے حاالنکہ دونوں مسلمان ہیں۔
احمد شاہ درانی کو بجا طور پر افغانستان کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ احمد شاہ درانی کو احمد ش اہ اب دالی کے ن ام س ے بھی
یاد کیا جاتا ہے۔ جون1747 ء میں نادر شاہ قتل ہو گیا جس کے بعد ل ویہ ج رگہ نے اب دالی ق بیلہ کے احم د ش اہ درانی ک و
سربراہ چن لیا۔ پہلے قندھار میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد احم د ش اہ درانی نے تم ام ت ر ق وت افغانس تان ک و ای ک
ملک بنانے پر صرف کی۔ درانی سلطنت میں موجودہ ایران ،افغانستان ،پاکستان اور بھارت کے کچھ عالقے ش امل تھے۔
اس کی سلطنت میں ایران کے شہر مشہد سے لے کر کش میر اور موج ودہ بھ ارت کے ش ہر دہلی ت ک کے عالقے ش امل
تھے۔ احمد شاہ درانی کا ایک اہم کارنامہ جنوری 1761ء میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست دین ا تھ ا۔
لیکن اس جنگ کے بعد سکھوں نے پنجاب میں اثر بڑھانا شروع کیا اور آہستہ آہس تہ پنج اب کے ک ئی عالق وں پ ر قبض ہ
ک ر لی ا۔ لیکن اس وقت ت ک افغانس تان ک و ای ک مض بوط مل ک کی حی ثیت حاص ل ہ و گ ئی تھی۔1772 ء ت ک احم د ش اہ
درانی اور اس کے بعد اس کی اوالد کی حکومت رہی۔ اس کی اوالد میں ایوب ش اہ ک و1823 ء میں قت ل ک ر دی ا گی ا۔ بع د
میں کابل کی حکومت محمد شاہ اور پھر1826 ء میں دوست محمد خان کے پاس چلی گئی۔
دور اقتدار1919 :ء1929-ء) نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اصالحات کیں اور مغربی دنیا س ے
امان ہللا خانِ (
تعلقات قائم کیے۔ اصالحات میں بنیادی تعلیم کا الزمی ق رار دین ا اور مغ ربی ط رز کی دیگ ر اص الحات ش امل تھیں۔ اس
واج کی ے آئے لیکن اف از روس س ائی جس کے جہ وج بھی بن وائی ف تان میں ہ نے1921 ء میں افغانس
تربیت ترکی اور فرانس سے کروائی گئی۔ 1927ء میں امان ہللا خان نے یورپ اور ت رکی ک ا دورہ بھی کی ا جس میں اس
نے مغربی مادی ترقی ک ا ج ائزہ لی ا اور افغانس تان میں ویس ی ت رقی کی خ واہش کی مگ ر جب اس نے کم ال ات اترک کی
طرز پر پردہ پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو قبائل میں بغاوت پھوٹ پ ڑی اور افغ ان اس کے س خت خالف ہ و گ ئے۔
شنواری قبائ ل نے نوم بر 1928ء میں جالل آب اد س ے بغ اوت ش روع کی اور دوس رے لوگ وں ک و س اتھ مال ک ر کاب ل کی
طرف بڑھنے لگے۔ شمال سے تاجک کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ امان ہللا خان پہلے قندھار بھاگا اور فوج تی ار ک رنے
کی کوشش کی مگر ناکام ہوا جس کے بعد وہ بھارت فرار ہو گیا۔ وہاں سے پہلے اطالیہ اور بعد میں س وئٹزرلینڈ میں پن اہ
لی جہاں 1960ء میں وفات پائی۔ اس بغ اوت کے دوران میں جن وری 1929ء میں ح بیب ہللا کالک انی ع رف بچہ س قا نے
کابل پر قبضہ کیا اور حبیب ہللا شاہ غازی کے ن ام س ے حک ومت ق ائم کی مگ ر اکت وبر 1929ء میں ج نرل ن ادر خ ان کی
فوج نے کابل کو گھیر لیا جس پر بچہ سقا فرار ہو کر اپنے گاؤں چال گیا۔ جنرل نادر خان کو انگریزوں کی مکمل حمایت
حاصل تھی جنھوں نے اسے ہتھیار اور پیسہ دیا تھا۔ اس کے عالوہ انگریزوں نے جنرل ن ادر خ ان ک و ای ک ہ زار اف راد
کی فوج بھی تیار کر کے دی تھی جو وزیرستانی قبائلیوں پر مشتمل تھی۔ نادر خان نے قرآن کو ضامن بنا کر اس کو پناہ
[]21
ا۔ روا دی لک ے قت و اس ات ر جب وہ کابل آی افی دی مگ اور مع
دور اقتدار1929 :ء۔ 1933ء ) جو امان ہللا خ ان ک ا رش تہ دار تھ ا اس نے ن ادر ش اہ کے ن ام س ے 1929ء میں
نادر خانِ (
افغانستان کا تخت سنبھاال۔ مگر 1933ء میں کابل کے ایک ط الب علم نے اس ے قت ل ک ر دی ا جس کے بع د اس کے انیس
(دور اقتدار1933 :ء۔ 1973ء ) نے چ الیس س ال ت ک افغانس تان پ ر حک ومت
ِ سالہ بیٹے ظاہر شاہ بادشاہ بن گیا۔ ظاہر شاہ
کی۔ وہ افغانستان کا آخری بادشاہ تھا۔ اس نے کئی وزیر اعظم بدلے جن کی مدد سے اس نے حک ومت کی۔ جن میں س ے
ای ک س ردار محم د داؤد خ ان( المع روف س ردار داؤد) تھ ا ج و اس ک ا ک زن تھ ا۔ س ردار داؤد نے روس اور بھ ارت س ے
تعلقات بڑھ ائے۔ اس ے پاکس تان س ے نف رت تھی۔ پاکس تان س ے تعلق ات کی خ رابی کی وجہ س ے افغانس تان ک و اقتص ادی
(دورص دارت1973 :ء1978-ء) اس نے
ِ مشکالت ہوئیں تو سردار داؤد کو 1963ء میں استعفی دینا پڑا۔ مگر سردار داؤد
دس سال بعد 17جوالئی 1973ء کو ایک ف وجی بغ اوت میں افغانس تان پ ر قبض ہ ک ر لی ا۔ اس بغ اوت ک و روس( اس وقت
سوویت یونین) کی مدد حاصل تھی۔ ظاہر شاہ فرار ہو کر اطالیہ چال گیا۔ 27اپری ل 1978ء ک و س ردار داؤد ک و ای ک اور
بغاوت میں قتل کر دیا گیا۔ اور نور محمد ترہ کئی صدر بن گیا۔ اس بغاوت کو بھی روس کی مدد سے ممکن بنایا گی ا۔ اس
حکومت نے کمیونزم کو رائج کرنے کی کوشش کی اور روس کی ہر میدان میں مدد لی جن میں سڑکوں کی تعم یر س ے
لے کر فوجی م دد ت ک س ب کچھ ش امل تھ ا۔ روس کی یہ کامی ابی ام ریکہ ک و کبھی پس ند نہیں آئی چن انچہ س ی آئی اے (
)CIAنے اس المی قوت وں ک و مض بوط کرن ا ش روع کی ا۔ جس س ے مل ک میں فس ادات پھ وٹ پ ڑے۔ نتیجت ا ً 1979ء
میں روس نے افغانس تان کی حک ومت کی دع وت پ ر افغانس تان میں اپ نی ف وج ات ار دی اور عمالً افغانس تان پ ر اس ی
طرح روس کا قبضہ ہو گیا جس طرح آج کل امریکہ کا قبضہ تھا۔
روس نے افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد بھی اس وقت کی نجیب ہللا حکومت کی م دد ج اری رکھی مگ ر 18اپری ل،
1992ء کو مجاہدین کے ایک گروہ نے جنرل عبدالرشید دوستم اور احمد شاہ مسعود کی قیادت میں کابل پر قبضہ ک ر لی ا
اور افغانستان کو اسالمی دولت بنانے کا اعالن کر دیا۔ مگر امریکا اسلحہ کی مدد سے مجاہدین کے مختلف گروہ وں کے
درمیان میں اقتدار کے حصول کے لیے خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس وقت ایک اسالمی جہادی کونس ل بن ائی گ ئی جس
کی قیادت پہلے صبغت ہللا مجددی اور بعد میں برہان الدین ربانی نے کی مگر مجاہدین کی آپس کی لڑائی میں اضافہ ہوتا
چال گیا۔ بیرونی طاقتوں نے پشتو اور فارسی بولنے والوں کی باہمی منافرت ک ا خ وب فائ دہ اٹھای ا۔ اس وقت کی حک ومت
اس مح رومی پی دا ہ وا۔ پاکس تان اور
میں پش تونوں کی نمائن دگی نہ ہ ونے کے براب ر تھی جس س ے ان میں ش دید احس ِ
افغانستان کے کچھ علما نے مدرسوں کے طلبہ کو منظم کرنا شروع کیا جن کو بعد میں طالب ان کہ ا ج انے لگ ا۔ پاکس تانی
فوج کے جنرل نصیر ہللا بابر طلبہ کو استعمال کرنے کے خیال کے بانی تھے۔ 1996ء میں طالب ان کے رہنم ا مال محم د
عمر نے کابل پر قبضہ کیا۔ انھوں نے افغانستان کو اسالمی امارت قرار دیا اور طالبان نے انھیں امیر الموم نین تس لیم ک ر
لیا۔ طالبان نے 2000ء تک افغانستان کے پچانوے فی صد عالقے پر قبض ہ ک ر کے ای ک اس المی حک ومت ق ائم کی۔ اس
زمانے میں افغانستان میں نسبتا ً امن قائم رہا اور پوست کی کاشت بھی نہ ہوئی۔ طالبان ک و بج ز پاکس تان ،س عودی ع رب
اور متحدہ عرب امارات کے کسی نے تسلیم نہ کیا اور مغربی دنیا نے شمالی اتح اد کی م دد ج اری رکھی ج و افغانس تان
کے شمال میں کچھ اختیار رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک خالص اسالمی حکومت مغربی دنی ا اور بھ ارت ک و
ہرگز قبول نہ تھی۔ ی اد رہے کہ طالب ان س ے پہلے بھ ارت ک و افغانس تان میں خاص ا عم ل دخ ل تھ ا۔ طالب ان کے دور میں
پاکستان کا اثر افغانستان میں بڑھ گیا اور پچاس سال میں پہلی دفعہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پ ر ای ک ط رح س ے
دوستانہ امن قائم رہا۔ مگر پاکستان نے طالبان کے خالف امریکہ کی مدد کر کے نہ صرف طالب ان ک ا اعتم اد کھوی ا بلکہ
ایک پاکستان دشمن اور بھارت دوست حکومت افغانستان میں قائم ہو گئی۔
دوحہ معاہدے کے چودہ ماہ بعد کافی حد تک غیر ملکی افواج انخال کرچکی تھی۔ یکم مئی 2021کو طالبان نے کٹھ پتلی
افغان حکومت کے خالف ایک مسلح کاروائی شروع کی اور بمشکل س اڑھے تین م اہ میں بیش تر افغ ان عالق وں ک و فتح
کرلیا اور 15اگست 2021ء کو طالبان نے بغیر کسی مزاحمت کے کابل دوبارہ فتح کر کے اسالمی امارت افغانستان ک و
بحال کر دیا۔۔ 30اگست کو بقیہ غیر ملکی افواج بھی انخال کرگئیں۔
17اگست کو بقیا افغان فوج اور حکومتی عہدیداروں نے صوبہ پنجشیر میں امرہللا صالح اور احمد مسعود کی قیادت میں
ایک حکومت قائم کی اور طالب ان کے خالف مس لح ک ارروائیوں ک ا آغ از کی ا اور 6س تمبر ت ک شکس ت کھ ا گ ئے اور
طالبان پنجشیر میں داخل ہوگئے۔
7اکتوبر 2021ء کو ترجمان طالبان ذبیح هللا مجاہد نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے 33ارکان کو عب وری حک ومت
اعلی عہدوں پر تعینات کرنے کا اعالن کیا۔ مال محمد حسن اخوند افغانستان کے عبوری وزیراعظم مقرر کیے گئے۔
ٰ کے
افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ روس اور امریک ا کی کش مکش اور اس عالقے
میں ان کے مزموم مقاصد ہیں۔ افغانستان مسلسل جنگ کا ش کار رہ ا ہے اور اس ے معاش ی ت رقی کی مہلت ہی نہیں ملی۔
افغانستان کی خاصی آبادی ایران اور پاکستان کو ہجرت ک ر گ ئی تھی جن میں س ے کچھ اب واپس آن ا ش روع ہ وئے ہیں
مگر ہجرت نے ان کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور نئی پود کو پڑھنے لکھنے اور کوئی ہ نر س یکھنے کے مواق ع بھی
کم ہی ملے ہیں۔ افغانستان میں جن لوگ وں نے ہج رت نہیں بھی کی انھیں جن گ نے مص روف رکھ ا۔ مجب وراً اس لحہ کی
تجارت ،جنگ بطور سلسلہ روزگار اور افیم و پوست کی تجارت ہی ان کا مقدر بنی۔ ایک بڑی تع داد س مگلنگ س ے بھی
وابستہ ہوئی۔ بہت معمولی تعداد پوست کے عالوہ دوسری اجناس بھی کاشت کرتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مط ابق
2001ء کے بعد معیشت نے خاصی ترقی کی ہے مگر اس سلسلے میں ک وئی قاب ِل اعتم اد اعدادوش مار نہیں مل تے۔ البتہ
افغانستان سے باہر رہنے والے افغانیوں نے اب کچھ سرمایہ کاری شروع کی ہے مثالً 2005ء میں دبئی کے ایک افغانی
خاندان نے ڈھائی کروڑ ڈالر سے کوکا کوال کا ایک پالنٹ افغانستان میں لگایا ہے۔ افغانستان کو ابھی غیر ملکی امداد پ ر
زر مبادلہ کے ب یرونی ذخ ائر ص رف پچ اس ک روڑ ام ریکی ڈال ر کے ل گ بھ گ
انحصار کرنا پڑتا ہے اور2006ء میں ِ
تھے۔ افرا ِط زر افغانستان کا ایک بنیادی مسئلہ رہ ا ہے اور افغ انی روپیہ کی قیمت بھی مسلس ل گ رتی رہی ہے مگ ر اب
حاالت کچھ بہتر ہیں۔ 2003ء کے بعد 14نئے بنک بھی کھلے ہیں جن میں کئی غیر ملکی بنک بھی شامل ہیں۔ کاب ل کی
ترقی کے لیے بھی نو ارب امریکا ڈالر مہیا کیے گئے ہیں۔ افغانستان ک ئی بین االق وامی اداروں ک ا رکن ہے اور ح ال ہی
میں سارک ( )SAARCکا رکن بھی بنا ہے۔ ایک اہم پیش رفت قدرتی گیس کی دریافت ہے جس کا استعمال اور فروخت
بڑے پیمانے پر شروع ہونے کی امید ہے۔
ANS 05
محمMMد رضMMا شMMاہ پہلMMوی ای ران میں1979 ء کے انقالب س ے قب ل ای ران کے آخ ری بادش اہ تھے۔ اس انقالب ک و ای رانی
عوام انقالب اسالمی ایران کے نام یاد کرتی ہے۔
شاہ محمد رضا پہلوی (1980ء 1919 -ء) کو اپنے اقتدار پر اتنا اعتماد تھا کہ انہوں نے اپنے لیے شہنشاہ کا لقب اختی ار
کیا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی دو بیویوں کو صرف اس لیے طالق دے دی کہ وہ ان کے لیے وارث سلطنت پیدا نہ کرس کیں۔
آخر میں انہوں نے تیسری بیوی فرح دیبا سے اکتوبر1960 ء میں شادی کی۔ ان کے بطن سے ولی عہد رضا پی دا ہ وئے۔
مگر اس کے بعد خود شاہ کو سلطنت چھوڑ کر جالوطن ہو جانا پڑا۔
نياران پيلس Narayan Palaceكی تعمير 1958ء ميں شروع ہوئی شہنشاہ ايران محم د رض ا پہل وی نے دنيا بھ ر كی
ناياب اشياء اس ميں جمع كيں اور دس سال بعد 1968ء ميں اس ميں رہ ائش پ ذير ہ وئے۔ انقالب ايران ت ک وہ اس ی مح ل
ميں اپنی ملكہ فرح پہلوی کے ہمراہ مقيم تھے اور يہیں سے انھیں ملک بدر ہونا پڑا۔ محل كی ہر چيز كو محف وظ ک ر ديا
گيا ہے۔ اسی محل کے ساتھ ايک اور قديم محل موجود ہے جو قاچار خاندان كے زير استعمال رہا تھا اور بعد ميں شہنشاہ
ايران نے اسے اپ نے س ركاری آفس میں تب ديل ك ر ليا تھ ا۔ مح ل س ے ملحقہ شہنش اہ ايران کے آفس میں دنيا كی عظيم
شخصيات كی تصاوير ركھی گئی ہیں جن میں سابق وزيراعظم پاكستان ذو الفقار علی بھٹو كی تصوير بھی موجود ہے۔
مختلف اسباب کے تحت ایران میں خمینی انقالب آیا۔ 16جنوری1979 ،ء کو شاہ محمد رضا پہلوی ایران سے باہر جانے
کے لیے اپنے خصوصی ہوائی جہاز میں داخل ہوئے تو وہ زار و قطار رو رہے تھے۔ مل ک س ے ب اہر ج انے کے ل یے
اس وقت کے وزیر اعظم شاہ پور بختیار نے آمادہ کیا۔ 11فروری 1979میں ایران کی شاہی حکومت کا مکمل خاتمہ ہو
گیا۔ اس کے بعد وہ مختلف ملکوں میں پھرتے رہے۔]4[ ۔ سب سے پہلے مصر کے شہر اسوان گئے ،اس کے بعد م راکش
کے شاہ حسن دوم کے مہمان رہے۔ مراکش کے بعد بہاماس کے پیراڈائز آئی لینڈ میں قیام پزیر ہوئے اور پھ ر میکس یکو
سٹی کے قریب کورناواکا شہر میں میکسیکو کے ص در ج وز لوزپ یز پورٹیل و کے مہم ان ب نے۔ چھ ہف تے نیوی ارک کے
ہسپتال کورنیل میڈیکل میں جراحتی عالج کرواتے رہے۔ قیام کے دوران ڈیوڈ ڈی نیوسم کے خفیہ نام کا استعمال کی ا ج و
اس وقت کے نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور کا اصل نام تھا۔ ایران میں امریکی سفارتی خانے کے جالئے ج انے
پر شاہ ایران کو امریکا سے جانا پڑا۔ فیڈل کاسترو کی وجہ سے میکسیکو نے دوبارہ میزبانی سے انکار کر دیا ،مجبوراَ
پانامہ کے تفریحی جزیرے اسال کونتا دورا میں قیام کی ا۔ پان امہ میں مق امی اف راد کے ہنگ اموں اور ف وجی حکم ران کے
ناروا سلوک سے تنگ آ کر مارچ 1980میں مصر کی سیاسی پن اہ قب ول ک ر لی۔ یہ اں ت ک کہ 27ج والئی1980 ،ء ک و
قاہرہ کے ایک اسپتال میں ان کا انتقال ہو گیا۔ موت کے وقت شاہ کی جو دولت بیرونی بینکوں میں جمع تھی وہ دس ہزار
[]5
ملین پونڈ سے بھی زیادہ تھی۔
شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کی تین بیویاں __
فوزیہ فواد ( ,5نومبر ,2 - 1921جوالئی ،)2013مص ری ش ہزادی اور ش اہ ف واد اول کی بی ٹی تھیں۔ ش اہ
ایران سے ان کی پہلی شادی ( )1948 - 1939ایک سیاسی معاملہ تھا جس کا نتیجہ نو سال بع د طالق کی ص ورت
نکال۔
ثریا اسفندیاری ( ,22جون ,26 - 1932اکتوبر ,)2001ایرانی سفارت کار خلیل اسفندیار بختیاری کی بی ٹی
تھیں۔ دونوں کی شادی سات سال ( )1958 - 1951چلی اور طالق ہو گئی۔
فرح دیبا (پ۔ ,14اکتوبر ،)1938ایرانی فوجی آفیسر سہراب دیبا کی بیٹی ہیں۔ شاہ کی پہلی دو شادیاں اوالد
نرینہ کی نعمت سے محروم رہیں یوں سلطنت و شہنشاہیت کا کوئی وارث نہیں مال تھا۔ ف رح دیب ا کی ش اہ ای ران کے
ساتھ 1959میں شادی ہوئی جبکہ 1980میں محمد رضا شاہ انتقال کر گئے۔