You are on page 1of 11

‫‪ANS 01‬‬

‫‪1939 .5‬‬ ‫‪ .2‬جنوب مشرقی ی ورپ‪ ،‬مش رق ‪1977 .4 1919 .3‬‬ ‫‪ .1‬فرانس‬


‫ٰ‬
‫وسطی‪ ‬اور‪ ‬شمالی افریقہ‪ ‬‬
‫‪1943 .10‬‬ ‫‪1943 .9 1926 .8‬‬ ‫‪1989 .7‬‬ ‫‪1951 .6‬‬
‫‪ANS 02‬‬
‫البانیا‪ ‬جس کا پورا نام 'جمہوریہ البانیا' (البانوی میں '‪ )'Republika e Shqipërisë‬ہے۔‪ ‬جنوب مش رقی ی ورپ‪ ‬ک ا ای ک‬
‫مل ک ہے جس کے ش مال مغ رب میں‪ ‬مون ٹی نیگ رو‪ ،‬مش رق میں‪ ‬مق دونیہ‪ ،‬ش مال مش رق میں‪ ‬کوس ووہ‪ ‬اور جن وب‬
‫میں‪ ‬یونان‪ ‬واقع ہیں۔ اس کے مغرب میں‪ ‬بح یرہ ای ڈریاٹک‪ ‬اور جن وب مغ رب میں‪ ‬بح ر االی ونی‪( ‬الب انوی میں ‪)Deti Jon‬‬
‫واقع ہیں۔ اس کے ستر فی صد سے زیادہ لوگ‪ ‬مسلمان‪ ‬ہیں مگر یہ یورپ کا واح د مل ک ہے جہ اں‪ ‬اش تراکیت‪ ( ‬کمی ونزم)‬
‫قائم ہے‪ ،‬نام کی‪ ‬جمہوریت‪ ‬ہے اور یورپی اقوام کو یہاں سے اش تراکیت ک و ختم ک رنے میں بھی ک وئی دلچس پی نہیں ہے۔‬
‫البانی ا‪ ‬ی ورپی اتح اد‪ ‬ک ا رکن بن نے ک ا امی دوار ہے مگ ر‪ ‬ت رکی‪ ‬کی ط رح ابھی ت ک اس ے ک وئی کامی ابی نہیں ہ وئی۔‬
‫البانیا‪ ‬یورپ‪ ‬کا واحد ملک ہے جس میں‪ ‬دوسری جنگِ عظیم‪ ‬کے دوران‪ ‬نازیوں‪( ‬جرمنی‪ ‬کے س اتھی‪ ‬اط الیہ) کے قبض ے‬
‫کے باوجود یہودیوں کو قتل نہیں کیا گیا۔ البانوی مسلمانوں نے یہودیوں کا نہ صرف تحفظ کی ا بلکہ ب یرونی یہودی وں ک و‬
‫بھی پناہ دی۔ البانیہ واحد یورپی ملک ہے جس میں‪ ‬دوسری جن گِ عظیم‪ ‬کے بع د یہودی وں کی تع داد کم ہ ونے کی بج ائے‬
‫بڑھ گئی۔ البانیہ کی نوے فی صد آب ادی الب انوی نس ل س ے تعل ق رکھ تی ہے۔ آخ ری‪ ‬م ردم ش ماری‪1930( ‬ء) کے مط ابق‬
‫آبادی کا ستر فی صد سے زیادہ مسلمان ہیں جس کے بعد سے مردم شماری نہیں ہونے دی گ ئی۔البانی ا میں زم انہ قب ل از‬
‫ت اریخ میں بھی آبادی اں موج ود تھیں۔ ق دیم آب ادی زی ادہ ت ر ایلیری ان قبائ ل پ ر مش تمل تھی۔ بع د میں یون انی تہ ذیب کے‬
‫اثرورسوخ کے زیادہ ہونے کے وقت یونانی قبائ ل بھی ش امل ہ و گ ئے۔ چ وتھی ص دی قب ل مس یح میں البانی ا کے بادش اہ‬
‫نے‪ ‬مقدونیہ‪ ‬سے ایک بڑی جنگ کی مگ ر مق دونیہ پ ر قبض ہ ک رنے میں ناک ام رہ ا۔ اس کے بع د ایلیری ان قبائ ل کے ک ئی‬
‫بادشاہ گذرے جن میں آخری کو‪ ‬س کندر‪ ‬نے شکس ت دے دی۔ ‪ 229‬قب ل مس یح میں البانی ا کی ملکہ تیوت ا نے رومی اف واج‬
‫سے جنگ شروع کی جو کئی جنگوں کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں ‪ 168‬قبل مسیح میں رومی اف واج نے‬
‫انہیں مکمل شکست دے کر ایلیریان قبائل کے اقتدار ک ا خ اتمہ ک ر دی ا۔‪395 ‬ء‪ ‬ت ک یہ روم کے زی ِر نگیں تھ ا۔‪395 ‬ء‪ ‬میں‬
‫روم دو ٹکروں میں مغرب و مشرق کی صورت بٹا تو البانیا‪ ‬بازنطینی سلطنت‪ ‬کا حص ہ بن گی ا اور‪461 ‬ء‪ ‬ت ک ایس ے ہی‬
‫رہا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے مختل ف اق وام مثالً ہن‪ ،‬س الو وغ یرہ اس ک و ت اراج ک رتے رہے اور انہیں‪1460 ‬ء‪ ‬میں‬
‫اس وقت امن نصیب ہوا جب وہ‪ ‬سلطنت عثمانیہ‪ ‬کا حصہ بنا۔‬
‫سلطنت عثمانیہ‪ ‬جب‪ ‬اناطولیہ‪ ‬سے‪ ‬بلقان‪ ‬تک پھیلی تو البانیا بھی اس کا حصہ تھا۔‪ ‬سلطنت عثمانیہ‪ ‬کی توسیع میں سب سے‬
‫زی ادہ رد عم ل البانی ا کے لوگ وں کی ط رف س ے تھ ا جنھ وں نے س ب س ے ب ڑھ ک ر ان ک ا مق ابلہ کی ا اور ‪ ‬ب ازنطینی‬
‫سلطنت‪ ‬کے تمام عالقوں کے آخر میں‪ ‬سلطنت عثمانیہ‪ ‬کا حصہ بنا مگر دلچس پ ب ات یہ ہے کہ یہی وہ خطہ ہے جس نے‬
‫اسالم کا سب سے زیادہ اثر قبول کیا اور آج یہ بوسنیا کی ط رح‪ ‬ی ورپ‪ ‬ک ا مس لم اکثری تی مل ک ہے۔ ی ورپ کے متعص ب‬
‫تاریخ دانوں ک و س ب س ے ب ڑا مس ئلہ یہی درپیش آت ا ہے کہ البانی ا کی ن وے فی ص د آب ادی کے اس الم قب ول ک رنے کی‬
‫وجوہات کی تشریح کس طرح کی جائے۔ ان کے خیال میں البانیا کی آبادی‪ ‬سلطنت عثمانیہ‪ ‬میں اقتدار میں حصہ اور فوائد‬
‫کے لیے اسالم لے آئی۔ مگر یہی عقیدہ ان کے تعصب کی نشان دہی کرتا ہے کیونکہ یہی فوائد باقی اقوام کو بھی حاصل‬
‫ہو سکتے تھے جو اسالم نہ الئے۔ دوسری طرف کسی بھی آبادی کی بڑی قلیل تعداد ک و اقت دار میں فوائ د حاص ل ہ وتے‬
‫ہیں مگر البانیا کی کثیر تعداد اسالم لے آئی جن میں سے بیشتر کا تعلق دیہات سے تھا جہاں ان کو کسی قسم کا مالی فائدہ‬
‫پیش نظر نہ تھا۔ البانیہ کے لوگوں کو ترکوں نے بھی بڑی خوشدلی سے اپنے بھائیوں کے طور پ ر قب ول کی ا اور ت رکی‬
‫کے اہم ترین عہدوں پر البانوی فائز رہے یہاں تک کہ‪ ‬س لطنت عثم انیہ‪ ‬کی ط رف س ے مص ر کے پہلے پاش ا‪ ‬محم د علی‬
‫پاشا‪ ‬بھی نسالً البانوی تھے۔‬
‫‪1912‬ء‪ ‬میں اس تعماری سازش وں کے ن تیجے میں‪ ‬س لطنت عثم انیہ‪ ‬کے ٹک رے ہ و گ ئے ت و پ انچ س و س ال کے بع د‪28 ‬‬
‫نومبر‪1912 ‬ء‪ ‬کو البانیا ایک آزاد ملک بن گی ا۔ اس تعمار نے‪1912 ‬ء‪ ‬میں البانی ا کی ح دود ک و اس ط رح س ے ق ائم کی ا کہ‬
‫بہت ب ڑی تع داد میں الب انوی ل وگ البانی ا کے پڑوس ی ممال ک بش مول مونٹی نیگرو اور س ربیا و بوس نیا ک ا حص ہ‬
‫بنے۔‪1914 ‬ء‪ ‬میں بعض طاقتور مغربی اقوام کی مدد سے البانیا کے یونانی نسل کے مس یحی لوگ وں نے البانی ا کے ای ک‬
‫چھوٹے عالقے میں ایک خود مختار حکومت بھی قائم کی مگر یہ سازش پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کی وجہ س ے‬
‫پنپ نہ سکی اور‪1920 ‬ء‪ ‬میں البانیا نے خود کو ایک جمہوریہ قرار دے دیا۔ یہ ملک زیادہ دیر ت ک مغ ربی ممال ک س ے‬
‫برداشت نہ ہوا اور‪ ‬اطالیہ‪ ‬نے اپنا اثر و رسوخ البانیا میں البانیا کے بادشاہ زوگ کی مدد سے قائم کرن ا ش روع کی ا اور یہ‬
‫سلسلہ ‪1939‬ء میں‪ ‬اطالیہ‪ ‬کے البانیا پر قبضہ کی صورت میں منتج ہوا۔‪ ‬اطالیہ‪ ‬کے‪ ‬فاشسٹ‪ ‬رہنماء‪ ‬مسولینی‪ ‬نے البانیا میں‬
‫نہایت غیر انسانی سلوک کا مظاہر کیا جس میں ایسے قوانین بھی تھے جن کے مطابق البانی ا کی زب ان ک و مدرس وں اور‬
‫دانشگاہوں سے ختم کر دیا گیا اور تم ام آب ادی ک و اطالیای ا (اٹالیان ائیز) گی ا۔‪1940 ‬ء‪ ‬میں مس ولینی نے البانی ا کی س رزمین‬
‫سے یونان پر حملہ کیا جو ناکام ہوا اور البانیا کے ایک حصہ پر یونان نے قبضہ کر لیا اور اسے اپنا حصہ قرار دے دیا۔‬
‫روس بھی پیچھے نہ رہ ا اور اپن ا اث ر ق ائم ک رنے کی کوش ش کی۔ مس ولینی کے اقت دار کے کم زور پ ڑنے پ ر جرم نی‬
‫نے‪1943 ‬ء‪ ‬البانیا پر قبضہ کر لیا اور پیش کش کی کہ وہ البانیا کو ایک آزاد مگر غیر جانبدار ملک ق رار دی نے پ ر تی ار‬
‫ہے۔‪ 28 ‬نومبر‪1944 ‬ء‪ ‬تک البانوی گوریال افواج نے البانیا کے بیش تر حص وں ک و‪ ‬جرم نی‪ ‬کے آزاد ک روا لی ا اور یہ اس‬
‫واحد مشرقی یورپی قوم کا قصہ ہے جس نے‪ ‬روس‪ ‬کی افواج کی مدد کے بغیر آزادی حاص ل کی تھی۔ اس کے عالوہ یہ‬
‫یورپ کا واحد ملک تھا جس میں یہودیوں کی آبادی‪ ‬دوسری جنگِ عظیم‪ ‬کے بعد کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی تھی۔‬
‫روس کے بڑھتے ہوئے اثر کی وجہ سے البانیا ایک اش تراکی مل ک بن گی ا اور اس ک ا ب ڑا جھک اؤ‪ ‬روس‪ ‬کی ط رف رہ ا‬
‫مگر‪1960 ‬ء‪ ‬سے البانیا نے چین کے ساتھ بھی تعلقات بڑھانا شروع کیے۔‪1990 ‬ء‪ ‬کی دہائی تک مشرقی یورپ اش تراکی‬
‫رہ ا۔ جب تقریب ا ً تم ام مش رقی ی ورپی اق وام‪ ‬اش تراکیت‪ ‬کے غلبہ س ے آزاد ہ وئے تب بھی مغ ربی ممال ک ک و البانی ا ک و‬
‫اشتراکیت کے اثر سے آزاد کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ وہاں کے بیشتر لوگ مسلمان تھے اور اش تراکیت‬
‫سے آزاد ہونے کے بعد م ذہب کی ت رویج ک ا خط رہ موج ود تھ ا۔ مگ ر البانی ا کے لوگ وں نے اش تراکیوں ک و‪1992 ‬ء‪ ‬کے‬
‫انتخابات میں شکست دے دی لیکن اس کے نتیجے میں جو خون خرابا ہوا اس میں ہزاروں الب انوی ل وگ ہالک ہ و گ ئے۔‬
‫اس خون خرابا کا بہانہ بنا کر‪ ‬یورپی اتحاد‪ ‬نے اپنی اف واج البانی ا میں داخ ل کی ت و‪ ‬اط الیہ‪ ‬ک و ہی زی ادہ موق ع دی ا کی ونکہ‬
‫البانیا‪ ‬اطالیہ‪ ‬کی سابق نو آب ادی تھی اور وہ اب بھی اس پ ر اپن ا ح ق جتات ا تھ ا۔ اب بھی ی ورپی اتح اد کے ن ام پ ر اط الوی‬
‫افواج البانیا میں موجود ہیں اور اشتراکی حکومت قائم ہے ت اکہ م ذہب ک ا غلبہ نہ ہ و س کے۔ اس کے عالوہ‪2009 ‬ء‪ ‬س ے‬
‫البانیا‪ ‬نیٹو‪ ‬کا رکن ملک بھی بن چکا ہے۔‬
‫‪ANS 03‬‬
‫تعارف آئین پاکستان ‪1973‬‬
‫پاکستان کا ‪ 1973‬کا آئین منتخب ہونے والے پہلے قومی اسمبلی نے تم ام پارلیم انی پ ارٹیوں کے عب دالحفیظ پ یرزادہ کی‬
‫سربراہی میں ‪ 25‬ممبروں کی کمیٹی کے ذریعے تیار کیا تھا۔ اس دستور کو اسمبلی نے ‪ 10‬اپریل ‪ 1973‬ک و منظ ور کی ا‬
‫تھا اور صدر نے ‪ 12‬اپریل ‪ 1973‬کو اس کی منظوری دی تھی۔ اسے ‪ 14‬اگست ‪ 1973‬ک و ناف ذ کی ا گی ا تھ ا۔ یہ آئین پہال‬
‫تھا ‪ ،‬جس نے زیادہ مقبول تشخیص کا لطف اٹھایا تھا۔ اس نے لطف اٹھای ا اور اب بھی ای ک بہت ب ڑا اح ترام حاص ل کی ا‬
‫اور اسے پاکستان میں اب تک کے بہترین آئین کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔‬
‫‪ 1973‬کے آئین پاکستان کی نمایاں خصوصیات‬
‫ذیل میں آئین پاکستان ‪ 1973‬کی نمایاں خصوصیات ہیں۔‬
‫ایک تحریری اور لمبی دستاویز‬
‫پاکستان کا ‪ 1973‬کا تیسرا آئین اس کے پچھلے ہم منصبوں کی طرح ہے جو فطرت اور کردار میں لکھا گی ا ہے۔ یہ دنی ا‬
‫کے طویل ترین حلقوں میں سے ایک ہے ‪ ،‬جس میں ایک پیش کش اور ‪ 280‬مضامین پر مشتمل ہے ‪ ،‬اس کو ‪ 12‬اب واب‬
‫اور ‪ 6‬شیڈول میں درجہ بند کیا گیا ہے۔ آئینی قوانین کے بیشتر اصولوں کو ہر ممکن ابہام س ے بچ نے کے ل ئے آئین میں‬
‫متعین کیا گیا ہے۔ لہذا یہ گذشتہ کے مقابلے میں جامع اور تقابلی طور پر زیادہ مفصل ہے۔‬
‫اسالمی نظریہ‬
‫پاکس تانیوں ک ا ‪ 1973‬ک ا آئین س ختی س ے اس المی نظ ریہ پ ر مب نی ہے۔ آئین کے آرٹیک ل ون نے پاکس تان ک و اس المی‬
‫جمہوریہ قرار دیا ہے۔ مسلمان روزانہ کی زندگی میں قرآن و سنت کی تعلیمات پر عمل درآمد کرنے کے مش ورے تھے۔‬
‫اسالم ریاستی مذہب ہوگا۔ اس کے عالوہ ‪ ،‬اسالمی نظریاتی کونسل کو صدر اور وزی ر اعظم کے ل ئے بھی مس لمان ہون ا‬
‫الزمی قرار دیا گیا ہے۔‬
‫فیڈرل سسٹم‬
‫آئین کے آرٹیکل اول کے مطابق ‪ ،‬پاکستان وفاقی جمہوریہ ہوگا جسے اسالمی جمہوریہ یا پاکستان کے نام سے جانا جات ا‬
‫ہے۔ قانون سازی کی دو فہرستیں ہیں ‪ -‬فیڈرل لسٹ اور کنکرنٹ لسٹ۔ مرکزی حکومت ک و فی ڈرل لس ٹ میں ش امل تم ام‬
‫معامالت پر قانون سازی کرنے ک ا خصوص ی ح ق حاص ل ہے۔ جہ اں ت ک کن ورٹینٹ لس ٹ ک ا تعل ق ہے ‪ ،‬مرک زی اور‬
‫صوبائی حکومتیں دونوں ہی اپنے موض وعات پ ر ق وانین بناس کتی ہیں ‪ ،‬ت اہم ‪ ،‬تن ازعہ کی ص ورت میں مرک زی ق انون‬
‫غ الب ہوگ ا جبکہ دوس را ناج ائز رہے گ ا۔ باقی ات کے اختی ارات ص وبائی حکومت وں کے س پرد ہیں۔ اگ رچہ ص وبائی‬
‫خودمخت اری ک و یقی نی بنای ا گی ا ہے لیکن مختل ف ق انون س ازی ‪ ،‬انتظ امی اور م الی مع امالت میں وف اقی حک ومت کی‬
‫باالدستی کو تسلیم کیا گیا ہے۔‬
‫پارلیمانی فارم‬
‫‪ 1973‬کا آئین حک ومت کی ای ک پارلیم انی ش کل ق ائم کرت ا ہے۔ وزی ر اعظم اور ک ابینہ کے وزرا پ ارلیمنٹ س ے تعل ق‬
‫رکھتے ہیں اور وہ اپنے طرز عمل اور پالیسیوں کے لئے اس کے ذمہ دار ہیں۔ جب تک وہ اکثریتی ممبروں کے اعتم اد‬
‫سے لطف اندوز ہوں تب تک وہ عہدے پر موجود رہتے ہیں۔ پارلیمنٹ ان کے خالف عدم اعتماد کا ووٹ دے س کتی ہے۔‬
‫صدر مملکت کا سربراہ ہوتا ہے اور وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ صدر کو وزیر اعظم کے مشورے پر عم ل‬
‫کرنا ہے۔‬
‫دو طرفہ بندی‬
‫پچھلے طریق وں کے ب رعکس موج ودہ سیاس ی نظ ام مجلس ش وری (آرٹیک ل ‪ )50-‬کے ن ام س ے دو دو ایوان وں کی‬
‫خصوصیات ہے جو دو ایوانوں پر مشتمل ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ۔ سابقہ‪ ‬ایوان زیریں اور مقبول ایوان ہے جو ب راہ‬
‫راست ‪ 5‬سال کی مدت کے ل ئے منتخب ہوت ا ہے۔ اس کی مجم وعی ط اقت ‪ 217‬ہے (ای ل ای ف او ‪ 342‬کے تحت) جبکہ‬
‫سینیٹ ایوان ب اال ہے ‪ ،‬ج و یونٹ وں کی نمائن دگی کرت ا ہے۔ اس میں ‪ 87‬اراکین (ای ل ای ف او ‪ 100‬کے تحت) پ ر مش تمل‬
‫ہوتے ہیں جو بالواسطہ طور پر ‪ 6‬سال کی مدت کے لئے منتخب ہوتے ہیں۔ قانون سازی کے سلسلے میں دونوں ایوان وں‬
‫میں یکساں اختیارات ہیں لیکن بعض معامالت میں قومی اسمبلی خصوص ا‪ financial ‬م الی ق انون س ازی کے مع امالت‬
‫میں زیادہ طاقتور ہے۔‬
‫بنیادی حقوق‬
‫‪ 1973‬کے آئین میں وہ تمام بنیادی حقوق شامل ہیں جو ناکارہ آئین کے تحت یقینی بنائے گ ئے تھے۔ نہ ہی پ ارلیمنٹ اور‬
‫نہ ہی صوبائی اسمبلیاں ان حقوق کے منافی قانون نافذ کرنے کے مجاز ہیں ورنہ عدالتیں ایسے قوانین کو غیر آئینی قرار‬
‫دیتی ہیں۔ ان حقوق میں سے کچھ میں آزادی کی نقل و ح رکت ‪ ،‬مجلس کی آزادی ‪ ،‬انجمن ‪ ،‬پیش ہ ‪ ،‬تقری ر اور م ذہب کی‬
‫آزادی ‪ ،‬امالک کا حق ‪ ،‬قانون سے پہلے مساوات وغیرہ شامل ہیں۔‬
‫‪ 1973‬کے آئین میں عدلیہ کی آزادی‬
‫آئین ‪ 1973‬کے تحت عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لئے مناسب حفاظتی انتظامات ف راہم ک یے گ ئے ہیں۔ ای ک ب ار‬
‫مقرر ہونے والی اعلی عدالتوں کے ججوں کو صرف سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعہ پیش کردہ انکوائری رپ ورٹ کی‬
‫بنیاد پر ہٹایا جاسکتا ہے۔ اس طرح وہ دفتر کی مکمل حفاظت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ بہت سے دوسرے بھتے کے‬
‫اعلی عدلیہ اور ہائی کورٹ کے ساتھ ایک ہی ع دالتی درجہ بن دی‬
‫ٰ‬ ‫ساتھ بھاری تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ اگلے نمبر پر‬
‫موجود ہے۔‬
‫ریاست کی پالیسی کے رہنما اصول‬
‫ریاستی پالیسی کے ہدایت کار اصول سیاسی نظام کے بنیادی مقاصد اور آئن دہ کے الئحہ عم ل ک و پیش ک رتے ہیں۔ تم ام‬
‫سرکاری ادارے ان اصولوں سے رہنمائی لیتے ہیں۔ تاہم ‪ ،‬ان کا ادراک وسائل کی دستیابی ‪ ،‬فیصلہ س ازوں کی ع زم اور‬
‫معاصر ماحول پر منحصر ہے۔ لہذا ان کی خالف ورزی جرم یا غیر ق انونی ک ارروائی نہیں ہے۔ آئین کی بیش تر اس المی‬
‫دفعات ریاستی پالیسی کے خاص اصولوں کا حصہ ہیں خاص ط ور پ ر معاش رتی معاش ی انص اف کے نف اذ س ے نمٹ نے‬
‫والے‬
‫قانون کی حکمرانی‬
‫تمام شہریوں نے قانون کے یکساں تحفظ کو یقینی بنایا۔ آئین میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایگزیکٹو کے پاس‬
‫کسی شہری کو اپنی زندگی ‪ ،‬آزادی ‪ ،‬امالک اور مساوات وغیرہ سے محروم کرنے ک ا اختی ار نہیں ہے اور نہ ہی کس ی‬
‫شخص کو کچھ کام کرنے سے روکا جاسکتا ہے جو قانون کے تحت کرنے کا حق دار ہے۔ ع دالتیں ق انون کے تحف ظ کے‬
‫لئے طرح طرح کے حکم جاری کرسکتی ہیں۔‬
‫‪ANS 04‬‬
‫افغانستان‪ ‬دری‪/‬پشتو‪ :‬افغانستان[‪ )]avɣɒnesˈtɒn‬وسط ایشیا‪ ‬اور‪ ‬جنوبی ایشیا‪ ‬میں واق ع ای ک‪ ‬زمین بن د ملک‪ ‬ہے۔ ‪ ‬‬
‫[‪[]16[ ]15‬‬

‫مال‬ ‫رق میں‪ ‬چین‪ ،‬ش‬ ‫مال مش‬ ‫ران‪ ،‬ش‬ ‫رب میں‪ ‬ای‬ ‫تان‪ ،‬مغ‬ ‫رق میں‪ ‬پاکس‬ ‫وب اور مش‬ ‫‪]18[]17‬اس کے جن‬
‫میں‪ ‬ترکمانستان‪ ،‬ازبکستان‪ ‬اور‪ ‬تاجکس تان‪ ‬ہیں۔ اردگ رد کے تم ام ممال ک س ے افغانس تان کے ت اریخی‪ ،‬م ذہبی اور ثق افتی‬
‫ک‬ ‫لمان‪ ‬ہیں۔ یہ مل‬ ‫وگ‪ ‬مس‬ ‫تر ل‬ ‫را ہے۔ اس کے بیش‬ ‫ق بہت گہ‬ ‫تعل‬
‫بالترتیب‪ ‬ایرانیوں‪ ،‬یونانیوں‪ ،‬عربوں‪ ،‬ترکوں‪ ،‬منگولوں‪ ،‬انگریزوں‪ ،‬روسیوں‪ ‬اور‪ ‬ام ریکہ‪ ‬کے قبض ے میں رہ ا ہے۔ مگ ر‬
‫اس کے لوگ بیرونی قبض ہ کے خالف ہمیش ہ م زاحمت ک رتے رہے ہیں۔ ای ک مل ک کے ط ور پ ر‪ ‬اٹھ ارویں ص دی‪ ‬کے‬
‫وسط میں‪ ‬احمد شاہ ابدالی‪ ‬کے دور میں یہ ابھرا اگرچہ بعد میں‪ ‬درانی سلطنت‪ ‬کے کافی حص ے اردگ رد کے ممال ک کے‬
‫حصے بن گئے۔‬
‫‪1919‬ء‪ ‬میں‪ ‬ش اہ ام ان ہللا خ ان‪ ‬کی قی ادت میں انگری زوں س ے افغانس تان کی آزادی حاص ل کی۔ جس کے بع د افغانس تان‬
‫ص حیح معن وں میں ای ک مل ک بن گی ا۔ مگ ر انگری زوں کے دور میں اس کے بیش تر عالقے حقیقت میں آزاد ہی تھے‬
‫اور‪ ‬برط انیہ‪ ‬کبھی اس پ ر مکم ل قبض ہ نہیں رکھ س کا۔‪ 11 ‬س تمبر‪ ‬کے واقعے ک و بنی اد بن ا ک ر ام ریکہ نے طالب ان‬
‫پر‪ ‬جنگ‪ ‬مسلط کردی اور طالبان حکومت (‪ ‬امارت اسالمیہ افغانستان) کو گرادیا لیکن ‪ 20‬سال بعد‪ ‬امریکہ‪ ‬ک و طوی ل تب اہ‬
‫کن جنگ کے بعد افغانستان سے نکلنا پڑا ۔بظاہر امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت (اسالمی جمہوریہ افغانستان کے نام سے )‬
‫‪ 15‬اگست ‪ 2021‬تک قائم رہی لیکن کابل پر طالبان کے قبضے کے ساتھ ہی اس حک ومت کے اقت دار ک ا س ورج غ روب‬
‫ہوگیا ۔ افغانستان پچھلے پینتیس سال سے مسلسل جنگ کی سی حالت میں ہے جس نے اس کو تباہ کر دیا ہے اور اس کی‬
‫کئی نسلوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ یہ تباہی کبھی غیروں کے ہ اتھوں ہ وئی اور کبھی خ انہ جنگی س ے یہ ص ورت ح ال‬
‫پیدا ہوئی۔ اگرچہ افغانس تان کے پ اس تی ل ی ا دوس رے وس ائل کی کمی ہے مگ ر اس کی جغرافی ائی حی ثیت ایس ی ہے کہ‬
‫وسطی‪ ‬کے درمیان میں ہے اور تینوں خطوں سے ہمیشہ اس کا نس لی‪ ،‬م ذہبی‬
‫ٰ‬ ‫مشرق‬
‫ِ‬ ‫وہ‪ ‬وسطی ایشیاء‪ ،‬جنوبی ایشیاء‪ ‬اور‪ ‬‬
‫اور ثقافتی تعلق رہا ہے اور جنگی لحاظ سے اور عالقے میں اپنا دباؤ رکھنے کے ل یے ہمیش ہ اہم رہ ا ہے۔ یہی وجہ ہے‬
‫کہ استعماری طاقتوں نے ہمیشہ اس پر اپنا قبضہ یا اثر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ افغانستان کا زیادہ رقبہ پتھریال پہاڑی‬
‫عالقہ ہے اس وجہ سے کسی بھی بیرونی طاقت کا یہاں قبضہ رکھنا مش کل ہے اور ل وگ زی ادہ ت ر قب ائلی ہیں اس ل یے‬
‫کبھی بیرونی طاقتوں کو تسلیم نہیں کرتے‪ ،‬نتیجہ یہ کہ اس ملک کو کبھی بھی لمبے عرصے کے ل یے امن نص یب نہیں‬
‫ہو سکا۔‬
‫افغانستان دنیا کا سب سے غ ریب اور پس ماندہ مل ک ہے جس کی معیش ت ک ا بہت زی ادہ انحص ار ہ یروئن اور افی ون کی‬
‫پیداوار پر ہے۔ بچے بازی افغ انوں کی س ب س ے مش ہور روایت ہے۔ افغانس تان دراص ل اس رائیل اور ام ریکہ کے زی ر‬
‫انتظام ہے۔ طالبان افغانستان کی عالمت ہے جو ملک کی ثقافت اور تاریخ کی عکاسی کرتا ہے۔‬
‫افغانستان میں پچاس ہزار س ال پہلے بھی انس انی آب ادی موج ود تھی اور اس کی زراعت بھی دنی ا کی اولین زراعت میں‬
‫شامل ہے۔[‪ ]19‬سن ‪ 2000‬قبل مسیح میں آریاؤں نے افغانستان ک و ت اراج کی ا۔ پھ ر ایرانی وں نے ان س ے چھین لی ا۔ اس کے‬
‫بعد یہ عرصہ تک سلطنت فارس کا حصہ رہا۔ ‪ 329‬قبل مسیح میں اس کے ک ئی حص ے ایرانی وں س ے‪ ‬س کندر اعظم‪ ‬نے‬
‫چھین ل یے جس میں‪ ‬بلخ‪ ‬ش امل ہے مگ ر یون انیوں ک ا یہ قبض ہ زی ادہ دی ر نہ رہ ا۔‪ 642 ‬عیس وی ت ک یہ عالقہ وقت ا ً‬
‫فوقت ا ً‪ ‬ہن وں‪ ،‬منگول وں‪ ،‬ساس انیوں‪ ‬اور‪ ‬ایرانی وں‪ ‬کے پ اس رہ ا۔ جس کے بع د اس عالقے ک و مس لمانوں نے فتح ک ر لی ا۔‬
‫مسلمانوں کی اس فتح کو تاریخ میں عربوں کی فتح سمجھا جات ا ہے ج و غل ط ہے کی ونکہ مس لمانوں میں ک ئی اق وام کے‬
‫لوگ شامل تھے۔ اسالم سے پہلے یہاں کے لوگ بدھ مت اور کچھ قبائلی مذاہب کے پیروکار تھے۔‬
‫‪642‬ء‪ ‬میں مس لمانوں نے اس عالقے ک و فتح کی ا مگ ر یہ اں کے حکم ران عالق ائی لوگ وں ہی ک و بنای ا۔ پہلے یہ‬
‫حکم رانی‪ ‬خراس انی‪ ‬عرب وں کے پ اس رہی۔‪998 ‬ء‪ ‬میں‪ ‬محم ود غزن وی‪ ‬نے ان س ے اقت دار چھین لی ا۔ غوری وں‬
‫نے‪1146 ‬ء‪ ‬میں غزنوی وں ک و شکس ت دی۔ اور انہیں غ زنی کے عالقے ت ک مح دود ک ر دی ا۔ یہ س ب مس لمان تھے‬
‫مگر‪1219 ‬ء‪ ‬میں‪ ‬چنگیز خانی‪ ‬منگولوں‪ ‬نے افغانستان کو تاراج کر دیا۔‪ ‬ھرات‪ ،‬غزنی‪ ‬اور‪ ‬بلخ‪ ‬مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔‬
‫حتی کہ‪ ‬تیمور‪ ‬نے چودھویں صدی میں ایک عظیم سلطنت قائم کر لی۔ اسی کی اوالد‬
‫منگول بعد میں خود مسلمان ہو گئے ٰ‬
‫س ے شہنش اہ‪ ‬ب ابر‪ ‬نے‪ ‬کابل‪ ‬ک و س ولہویں ص دی کے ش روع میں پہلی دفعہ اپن ا دار الحک ومت ق رار دی ا۔‪ ‬س ولہویں‬
‫ص دی‪ ‬س ے‪ ‬اٹھ ارویں ص دی‪ ‬ت ک افغانس تان ک ئی حص وں میں تقس یم رہ ا۔ ش مالی حص ہ پ ر‪ ‬ازبک‪ ،‬مغ ربی حصے‬
‫(ھرات‪ ‬سمیت) پر ایرانی‪ ‬صفویوں‪ ‬اور مشرقی حصہ پر‪ ‬مغل‪ ‬اور‪ ‬پشتون‪ ‬قابض رہے۔‪1709 ‬ء‪ ‬میں پش تونوں نے م یرویس‬
‫خ ان هوت ک کی قی ادت میں ص فویوں کے خالف جن گ ل ڑی اور ‪1719‬ء س ے ‪1729‬ء ت ک افغانس تان بلکہ ای رانی‬
‫شہر‪ ‬اصفہان‪ ‬پر قبض ہ رکھ ا۔‪1729 ‬ء‪ ‬میں ای رانی بادش اہ‪ ‬ن ادر ش اہ‪ ‬نے انھیں واپس دھکیال اور ان کے قبض ے س ے تم ام‬
‫حتی کہ‪1738 ‬ء‪ ‬میں‪ ‬قندھار‪ ‬اور‪ ‬غزنی‪ ‬پر بھی قبضہ کر لی ا۔ ج و ‪1747‬ء ت ک ج اری رہ ا۔ پش تونوں اور‬
‫عالقے چھڑائے ٰ‬
‫فارسی بولنے والوں کی یہ کشمکش آج بھی جاری ہے حاالنکہ دونوں مسلمان ہیں۔‬
‫احمد شاہ درانی‪ ‬کو بجا طور پر افغانستان کا بانی کہا جا سکتا ہے۔‪ ‬احمد شاہ درانی‪ ‬کو‪ ‬احمد ش اہ اب دالی‪ ‬کے ن ام س ے بھی‬
‫یاد کیا جاتا ہے۔ جون‪1747 ‬ء‪ ‬میں‪ ‬نادر شاہ‪ ‬قتل ہو گیا جس کے بعد‪ ‬ل ویہ ج رگہ‪ ‬نے اب دالی ق بیلہ کے‪ ‬احم د ش اہ درانی‪ ‬ک و‬
‫سربراہ چن لیا۔ پہلے‪ ‬قندھار‪ ‬میں اپنی حکومت قائم کرنے کے بعد احم د ش اہ درانی نے تم ام ت ر ق وت افغانس تان ک و ای ک‬
‫ملک بنانے پر صرف کی۔ درانی سلطنت میں موجودہ‪ ‬ایران‪ ،‬افغانستان‪ ،‬پاکستان‪ ‬اور‪ ‬بھارت‪ ‬کے کچھ عالقے ش امل تھے۔‬
‫اس کی سلطنت میں‪ ‬ایران‪ ‬کے شہر‪ ‬مشہد‪ ‬سے لے کر‪ ‬کش میر‪ ‬اور موج ودہ‪ ‬بھ ارت‪ ‬کے ش ہر‪ ‬دہلی‪ ‬ت ک کے عالقے ش امل‬
‫تھے۔‪ ‬احمد شاہ درانی‪ ‬کا ایک اہم کارنامہ جنوری ‪1761‬ء میں‪ ‬پانی پت کی تیسری جنگ‪ ‬میں‪ ‬مرہٹوں‪ ‬کو شکست دین ا تھ ا۔‬
‫لیکن اس جنگ کے بعد‪ ‬سکھوں‪ ‬نے‪ ‬پنجاب‪ ‬میں اثر بڑھانا شروع کیا اور آہستہ آہس تہ پنج اب کے ک ئی عالق وں پ ر قبض ہ‬
‫ک ر لی ا۔ لیکن اس وقت ت ک افغانس تان ک و ای ک مض بوط مل ک کی حی ثیت حاص ل ہ و گ ئی تھی۔‪1772 ‬ء‪ ‬ت ک‪ ‬احم د ش اہ‬
‫درانی‪ ‬اور اس کے بعد اس کی اوالد کی حکومت رہی۔ اس کی اوالد میں ایوب ش اہ ک و‪1823 ‬ء‪ ‬میں قت ل ک ر دی ا گی ا۔ بع د‬
‫میں کابل کی حکومت محمد شاہ اور پھر‪1826 ‬ء‪ ‬میں‪ ‬دوست محمد خان‪ ‬کے پاس چلی گئی۔‬
‫دور اقتدار‪1919 :‬ء‪1929-‬ء) نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد اصالحات کیں اور مغربی دنیا س ے‬
‫امان ہللا خان‪ِ ( ‬‬
‫تعلقات قائم کیے۔ اصالحات میں بنیادی تعلیم کا الزمی ق رار دین ا اور مغ ربی ط رز کی دیگ ر اص الحات ش امل تھیں۔ اس‬
‫واج کی‬ ‫ے آئے لیکن اف‬ ‫از روس س‬ ‫ائی جس کے جہ‬ ‫وج بھی بن‬ ‫وائی ف‬ ‫تان میں ہ‬ ‫نے‪1921 ‬ء‪ ‬میں افغانس‬
‫تربیت‪ ‬ترکی‪ ‬اور‪ ‬فرانس‪ ‬سے کروائی گئی۔ ‪1927‬ء میں‪ ‬امان ہللا خان‪ ‬نے یورپ اور ت رکی ک ا دورہ بھی کی ا جس میں اس‬
‫نے مغربی مادی ترقی ک ا ج ائزہ لی ا اور افغانس تان میں ویس ی ت رقی کی خ واہش کی مگ ر جب اس نے‪ ‬کم ال ات اترک‪ ‬کی‬
‫طرز پر پردہ پر پابندی لگانے کی کوشش کی تو قبائل میں بغاوت پھوٹ پ ڑی اور افغ ان اس کے س خت خالف ہ و گ ئے۔‬
‫شنواری قبائ ل نے نوم بر ‪1928‬ء میں‪ ‬جالل آب اد‪ ‬س ے بغ اوت ش روع کی اور دوس رے لوگ وں ک و س اتھ مال ک ر کاب ل کی‬
‫طرف بڑھنے لگے۔ شمال سے تاجک کابل کی طرف بڑھنے لگے۔ امان ہللا خان پہلے قندھار بھاگا اور فوج تی ار ک رنے‬
‫کی کوشش کی مگر ناکام ہوا جس کے بعد وہ بھارت فرار ہو گیا۔ وہاں سے پہلے‪ ‬اطالیہ‪ ‬اور بعد میں‪ ‬س وئٹزرلینڈ‪ ‬میں پن اہ‬
‫لی جہاں ‪1960‬ء میں وفات پائی۔ اس بغ اوت کے دوران میں جن وری ‪1929‬ء میں ح بیب ہللا کالک انی ع رف‪ ‬بچہ س قا‪ ‬نے‬
‫کابل پر قبضہ کیا اور حبیب ہللا شاہ غازی کے ن ام س ے حک ومت ق ائم کی مگ ر اکت وبر ‪1929‬ء میں‪ ‬ج نرل ن ادر خ ان‪ ‬کی‬
‫فوج نے کابل کو گھیر لیا جس پر‪ ‬بچہ سقا‪ ‬فرار ہو کر اپنے گاؤں چال گیا۔ جنرل نادر خان کو انگریزوں کی مکمل حمایت‬
‫حاصل تھی جنھوں نے اسے ہتھیار اور پیسہ دیا تھا۔ اس کے عالوہ انگریزوں نے جنرل ن ادر خ ان ک و ای ک ہ زار اف راد‬
‫کی فوج بھی تیار کر کے دی تھی جو وزیرستانی قبائلیوں پر مشتمل تھی۔ نادر خان نے‪ ‬قرآن‪ ‬کو ضامن بنا کر اس کو پناہ‬
‫[‪]21‬‬
‫ا۔‬ ‫روا دی‬ ‫لک‬ ‫ے قت‬ ‫و اس‬ ‫ات‬ ‫ر جب وہ‪ ‬کابل‪ ‬آی‬ ‫افی دی مگ‬ ‫اور مع‬
‫دور اقتدار‪1929 :‬ء۔ ‪1933‬ء ) جو‪ ‬امان ہللا خ ان‪ ‬ک ا رش تہ دار تھ ا اس نے ن ادر ش اہ کے ن ام س ے ‪1929‬ء میں‬
‫نادر خان‪ِ ( ‬‬
‫افغانستان کا تخت سنبھاال۔ مگر ‪1933‬ء میں کابل کے ایک ط الب علم نے اس ے قت ل ک ر دی ا جس کے بع د اس کے انیس‬
‫(دور اقتدار‪1933 :‬ء۔ ‪1973‬ء ) نے چ الیس س ال ت ک افغانس تان پ ر حک ومت‬
‫ِ‬ ‫سالہ بیٹے‪ ‬ظاہر شاہ‪ ‬بادشاہ بن گیا۔ ظاہر شاہ‬
‫کی۔ وہ افغانستان کا آخری بادشاہ تھا۔ اس نے کئی وزیر اعظم بدلے جن کی مدد سے اس نے حک ومت کی۔ جن میں س ے‬
‫ای ک‪ ‬س ردار محم د داؤد خ ان‪( ‬المع روف س ردار داؤد) تھ ا ج و اس ک ا ک زن تھ ا۔ س ردار داؤد نے‪ ‬روس‪ ‬اور‪ ‬بھ ارت‪ ‬س ے‬
‫تعلقات بڑھ ائے۔ اس ے‪ ‬پاکس تان‪ ‬س ے نف رت تھی۔ پاکس تان س ے تعلق ات کی خ رابی کی وجہ س ے افغانس تان ک و اقتص ادی‬
‫(دورص دارت‪1973 :‬ء‪1978-‬ء) اس نے‬
‫ِ‬ ‫مشکالت ہوئیں تو سردار داؤد کو ‪1963‬ء میں استعفی دینا پڑا۔ مگر سردار داؤد‬
‫دس سال بعد ‪ 17‬جوالئی ‪1973‬ء کو ایک ف وجی بغ اوت میں افغانس تان پ ر قبض ہ ک ر لی ا۔ اس بغ اوت ک و‪ ‬روس‪( ‬اس وقت‬
‫سوویت یونین) کی مدد حاصل تھی۔‪ ‬ظاہر شاہ‪ ‬فرار ہو کر‪ ‬اطالیہ‪ ‬چال گیا۔ ‪ 27‬اپری ل ‪1978‬ء ک و س ردار داؤد ک و ای ک اور‬
‫بغاوت میں قتل کر دیا گیا۔ اور‪ ‬نور محمد ترہ کئی‪ ‬صدر بن گیا۔ اس بغاوت کو بھی روس کی مدد سے ممکن بنایا گی ا۔ اس‬
‫حکومت نے کمیونزم کو رائج کرنے کی کوشش کی اور روس کی ہر میدان میں مدد لی جن میں سڑکوں کی تعم یر س ے‬
‫لے کر فوجی م دد ت ک س ب کچھ ش امل تھ ا۔ روس کی یہ کامی ابی‪ ‬ام ریکہ‪ ‬ک و کبھی پس ند نہیں آئی چن انچہ س ی آئی اے (‬
‫‪ )CIA‬نے اس المی قوت وں ک و مض بوط کرن ا ش روع کی ا۔ جس س ے مل ک میں فس ادات پھ وٹ پ ڑے۔ نتیجت ا ً ‪1979‬ء‬
‫میں‪ ‬روس‪ ‬نے افغانس تان کی حک ومت کی دع وت پ ر افغانس تان میں اپ نی ف وج ات ار دی اور عمالً افغانس تان پ ر اس ی‬
‫طرح‪ ‬روس‪ ‬کا قبضہ ہو گیا جس طرح آج کل‪ ‬امریکہ‪ ‬کا قبضہ تھا۔‬
‫روس‪ ‬نے افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد بھی اس وقت کی نجیب ہللا حکومت کی م دد ج اری رکھی مگ ر ‪ 18‬اپری ل‪،‬‬
‫‪1992‬ء کو مجاہدین کے ایک گروہ نے‪ ‬جنرل عبدالرشید دوستم‪ ‬اور‪ ‬احمد شاہ مسعود‪ ‬کی قیادت میں‪ ‬کابل‪ ‬پر قبضہ ک ر لی ا‬
‫اور افغانستان کو اسالمی دولت بنانے کا اعالن کر دیا۔ مگر امریکا اسلحہ کی مدد سے مجاہدین کے مختلف گروہ وں کے‬
‫درمیان میں اقتدار کے حصول کے لیے خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ اس وقت ایک اسالمی جہادی کونس ل بن ائی گ ئی جس‬
‫کی قیادت پہلے‪ ‬صبغت ہللا مجددی‪ ‬اور بعد میں‪ ‬برہان الدین ربانی‪ ‬نے کی مگر مجاہدین کی آپس کی لڑائی میں اضافہ ہوتا‬
‫چال گیا۔ بیرونی طاقتوں نے‪ ‬پشتو‪ ‬اور‪ ‬فارسی‪ ‬بولنے والوں کی باہمی منافرت ک ا خ وب فائ دہ اٹھای ا۔ اس وقت کی حک ومت‬
‫اس مح رومی پی دا ہ وا۔‪ ‬پاکس تان‪ ‬اور‬
‫میں پش تونوں کی نمائن دگی نہ ہ ونے کے براب ر تھی جس س ے ان میں ش دید احس ِ‬
‫افغانستان کے کچھ علما نے مدرسوں کے طلبہ کو منظم کرنا شروع کیا جن کو بعد میں‪ ‬طالب ان‪ ‬کہ ا ج انے لگ ا۔ پاکس تانی‬
‫فوج کے‪ ‬جنرل نصیر ہللا بابر‪ ‬طلبہ کو استعمال کرنے کے خیال کے بانی تھے۔ ‪1996‬ء میں طالب ان کے رہنم ا‪ ‬مال محم د‬
‫عمر‪ ‬نے کابل پر قبضہ کیا۔ انھوں نے افغانستان کو اسالمی امارت قرار دیا اور طالبان نے انھیں امیر الموم نین تس لیم ک ر‬
‫لیا۔‪ ‬طالبان‪ ‬نے ‪2000‬ء تک افغانستان کے پچانوے فی صد عالقے پر قبض ہ ک ر کے ای ک اس المی حک ومت ق ائم کی۔ اس‬
‫زمانے میں افغانستان میں نسبتا ً امن قائم رہا اور پوست کی کاشت بھی نہ ہوئی۔ طالبان ک و بج ز پاکس تان‪ ،‬س عودی ع رب‬
‫اور متحدہ عرب امارات کے کسی نے تسلیم نہ کیا اور مغربی دنیا نے شمالی اتح اد کی م دد ج اری رکھی ج و افغانس تان‬
‫کے شمال میں کچھ اختیار رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک خالص اسالمی حکومت مغربی دنی ا اور‪ ‬بھ ارت‪ ‬ک و‬
‫ہرگز قبول نہ تھی۔ ی اد رہے کہ طالب ان س ے پہلے‪ ‬بھ ارت‪ ‬ک و افغانس تان میں خاص ا عم ل دخ ل تھ ا۔ طالب ان کے دور میں‬
‫پاکستان کا اثر افغانستان میں بڑھ گیا اور پچاس سال میں پہلی دفعہ‪ ‬پاکستان‪ ‬اور افغانستان کی سرحد پ ر ای ک ط رح س ے‬
‫دوستانہ امن قائم رہا۔ مگر پاکستان نے طالبان کے خالف‪ ‬امریکہ‪ ‬کی مدد کر کے نہ صرف طالب ان ک ا اعتم اد کھوی ا بلکہ‬
‫ایک پاکستان دشمن اور بھارت دوست حکومت افغانستان میں قائم ہو گئی۔‬
‫دوحہ معاہدے کے چودہ ماہ بعد کافی حد تک غیر ملکی افواج انخال کرچکی تھی۔ یکم مئی ‪ 2021‬کو طالبان نے کٹھ پتلی‬
‫افغان حکومت کے خالف ایک مسلح کاروائی شروع کی اور بمشکل س اڑھے تین م اہ میں بیش تر افغ ان عالق وں ک و فتح‬
‫کرلیا اور ‪ 15‬اگست ‪2021‬ء کو طالبان نے بغیر کسی مزاحمت کے کابل دوبارہ فتح کر کے اسالمی امارت افغانستان ک و‬
‫بحال کر دیا۔۔ ‪ 30‬اگست کو بقیہ غیر ملکی افواج بھی انخال کرگئیں۔‬
‫‪ 17‬اگست کو بقیا افغان فوج اور حکومتی عہدیداروں نے صوبہ پنجشیر میں ‪ ‬امرہللا صالح‪ ‬اور احمد مسعود کی قیادت میں‬
‫ایک حکومت قائم کی اور طالب ان کے خالف مس لح ک ارروائیوں ک ا آغ از کی ا اور ‪ 6‬س تمبر ت ک شکس ت کھ ا گ ئے اور‬
‫طالبان‪ ‬پنجشیر‪ ‬میں داخل ہوگئے۔‬
‫‪ 7‬اکتوبر ‪2021‬ء کو ترجمان طالبان‪ ‬ذبیح هللا مجاہد‪ ‬نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے ‪ 33‬ارکان کو عب وری حک ومت‬
‫اعلی عہدوں پر تعینات کرنے کا اعالن کیا۔‪ ‬مال محمد حسن اخوند‪ ‬افغانستان کے عبوری وزیراعظم مقرر کیے گئے۔‬
‫ٰ‬ ‫کے‬
‫افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں شامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ روس اور امریک ا کی کش مکش اور اس عالقے‬
‫میں ان کے مزموم مقاصد ہیں۔ افغانستان مسلسل جنگ کا ش کار رہ ا ہے اور اس ے معاش ی ت رقی کی مہلت ہی نہیں ملی۔‬
‫افغانستان کی خاصی آبادی ایران اور پاکستان کو ہجرت ک ر گ ئی تھی جن میں س ے کچھ اب واپس آن ا ش روع ہ وئے ہیں‬
‫مگر ہجرت نے ان کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے اور نئی پود کو پڑھنے لکھنے اور کوئی ہ نر س یکھنے کے مواق ع بھی‬
‫کم ہی ملے ہیں۔ افغانستان میں جن لوگ وں نے ہج رت نہیں بھی کی انھیں جن گ نے مص روف رکھ ا۔ مجب وراً اس لحہ کی‬
‫تجارت‪ ،‬جنگ بطور سلسلہ روزگار اور افیم و پوست کی تجارت ہی ان کا مقدر بنی۔ ایک بڑی تع داد س مگلنگ س ے بھی‬
‫وابستہ ہوئی۔ بہت معمولی تعداد پوست کے عالوہ دوسری اجناس بھی کاشت کرتی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے مط ابق‬
‫‪2001‬ء کے بعد معیشت نے خاصی ترقی کی ہے مگر اس سلسلے میں ک وئی قاب ِل اعتم اد اعدادوش مار نہیں مل تے۔ البتہ‬
‫افغانستان سے باہر رہنے والے افغانیوں نے اب کچھ سرمایہ کاری شروع کی ہے مثالً ‪2005‬ء میں دبئی کے ایک افغانی‬
‫خاندان نے ڈھائی کروڑ ڈالر سے کوکا کوال کا ایک پالنٹ افغانستان میں لگایا ہے۔ افغانستان کو ابھی غیر ملکی امداد پ ر‬
‫زر مبادلہ کے ب یرونی ذخ ائر ص رف پچ اس ک روڑ ام ریکی ڈال ر کے ل گ بھ گ‬
‫انحصار کرنا پڑتا ہے اور‪2006‬ء میں ِ‬
‫تھے۔ افرا ِط زر افغانستان کا ایک بنیادی مسئلہ رہ ا ہے اور افغ انی روپیہ کی قیمت بھی مسلس ل گ رتی رہی ہے مگ ر اب‬
‫حاالت کچھ بہتر ہیں۔ ‪2003‬ء کے بعد ‪ 14‬نئے بنک بھی کھلے ہیں جن میں کئی غیر ملکی بنک بھی شامل ہیں۔ کاب ل کی‬
‫ترقی کے لیے بھی نو ارب امریکا ڈالر مہیا کیے گئے ہیں۔ افغانستان ک ئی بین االق وامی اداروں ک ا رکن ہے اور ح ال ہی‬
‫میں سارک (‪ )SAARC‬کا رکن بھی بنا ہے۔ ایک اہم پیش رفت قدرتی گیس کی دریافت ہے جس کا استعمال اور فروخت‬
‫بڑے پیمانے پر شروع ہونے کی امید ہے۔‬
‫‪ANS 05‬‬
‫محم‪MM‬د رض‪MM‬ا ش‪MM‬اہ پہل‪MM‬وی‪ ‬ای ران‪ ‬میں‪1979 ‬ء‪ ‬کے انقالب س ے قب ل‪ ‬ای ران‪ ‬کے آخ ری بادش اہ تھے۔ اس انقالب ک و ای رانی‬
‫عوام‪ ‬انقالب اسالمی ایران‪ ‬کے نام یاد کرتی ہے۔‬
‫شاہ محمد رضا پہلوی (‪1980‬ء ‪1919 -‬ء) کو اپنے اقتدار پر اتنا اعتماد تھا کہ انہوں نے اپنے لیے شہنشاہ کا لقب اختی ار‬
‫کیا۔ انہوں نے اپنی ابتدائی دو بیویوں کو صرف اس لیے طالق دے دی کہ وہ ان کے لیے وارث سلطنت پیدا نہ کرس کیں۔‬
‫آخر میں انہوں نے تیسری بیوی‪ ‬فرح دیبا‪ ‬سے اکتوبر‪1960 ‬ء‪ ‬میں شادی کی۔ ان کے بطن سے‪ ‬ولی عہد‪ ‬رضا پی دا ہ وئے۔‬
‫مگر اس کے بعد خود شاہ کو سلطنت چھوڑ کر جالوطن ہو جانا پڑا۔‬
‫نياران پيلس ‪ Narayan Palace‬كی تعمير ‪1958‬ء ميں شروع ہوئی شہنشاہ ايران محم د رض ا پہل وی نے دنيا بھ ر كی‬
‫ناياب اشياء اس ميں جمع كيں اور دس سال بعد ‪1968‬ء ميں اس ميں رہ ائش پ ذير ہ وئے۔‪ ‬انقالب ايران‪ ‬ت ک وہ اس ی مح ل‬
‫ميں اپنی ملكہ فرح پہلوی کے ہمراہ مقيم تھے اور يہیں سے انھیں ملک بدر ہونا پڑا۔ محل كی ہر چيز كو محف وظ ک ر ديا‬
‫گيا ہے۔ اسی محل کے سا‍تھ ايک اور قديم محل موجود ہے جو قاچار خاندان كے زير استعمال رہا تھا اور بعد ميں شہنشاہ‬
‫ايران نے اسے اپ نے س ركاری آفس میں تب ديل ك ر ليا تھ ا۔ مح ل س ے ملحقہ شہنش اہ ايران کے آفس میں دنيا كی عظيم‬
‫شخصيات كی تصاوير ركھی گئی ہیں جن میں سابق وزيراعظم پاكستان‪ ‬ذو الفقار علی بھٹو‪ ‬كی تصوير بھی موجود ہے۔‬
‫مختلف اسباب کے تحت ایران میں‪ ‬خمینی‪ ‬انقالب آیا۔ ‪ 16‬جنوری‪1979 ،‬ء کو شاہ محمد رضا پہلوی ایران سے باہر جانے‬
‫کے لیے اپنے خصوصی ہوائی جہاز میں داخل ہوئے تو وہ زار و قطار رو رہے تھے۔ مل ک س ے ب اہر ج انے کے ل یے‬
‫اس وقت کے وزیر اعظم شاہ پور بختیار نے آمادہ کیا۔ ‪ 11‬فروری ‪ 1979‬میں ایران کی شاہی حکومت کا مکمل خاتمہ ہو‬
‫گیا۔ اس کے بعد وہ مختلف ملکوں میں پھرتے رہے۔‪]4[ ‬۔ سب سے پہلے مصر کے شہر اسوان گئے‪ ،‬اس کے بعد م راکش‬
‫کے شاہ حسن دوم کے مہمان رہے۔ مراکش کے بعد بہاماس کے پیراڈائز آئی لینڈ میں قیام پزیر ہوئے اور پھ ر میکس یکو‬
‫سٹی کے قریب کورناواکا شہر میں میکسیکو کے ص در ج وز لوزپ یز پورٹیل و کے مہم ان ب نے۔ چھ ہف تے نیوی ارک کے‬
‫ہسپتال کورنیل میڈیکل میں جراحتی عالج کرواتے رہے۔ قیام کے دوران ڈیوڈ ڈی نیوسم کے خفیہ نام کا استعمال کی ا ج و‬
‫اس وقت کے نائب وزیر خارجہ برائے سیاسی امور کا اصل نام تھا۔ ایران میں امریکی سفارتی خانے کے جالئے ج انے‬
‫پر شاہ ایران کو امریکا سے جانا پڑا۔ فیڈل کاسترو کی وجہ سے میکسیکو نے دوبارہ میزبانی سے انکار کر دیا‪ ،‬مجبوراَ‬
‫پانامہ کے تفریحی جزیرے اسال کونتا دورا میں قیام کی ا۔ پان امہ میں مق امی اف راد کے ہنگ اموں اور ف وجی حکم ران کے‬
‫ناروا سلوک سے تنگ آ کر مارچ ‪ 1980‬میں مصر کی سیاسی پن اہ قب ول ک ر لی۔ یہ اں ت ک کہ ‪ 27‬ج والئی‪1980 ،‬ء ک و‬
‫قاہرہ کے ایک اسپتال میں ان کا انتقال ہو گیا۔ موت کے وقت شاہ کی جو دولت بیرونی بینکوں میں جمع تھی وہ دس ہزار‬
‫[‪]5‬‬
‫ملین پونڈ سے بھی زیادہ تھی۔‬
‫شاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی کی تین بیویاں __‬
‫فوزیہ فواد (‪ ,5‬نومبر ‪ ,2 - 1921‬جوالئی ‪ ،)2013‬مص ری ش ہزادی اور ش اہ ف واد اول کی بی ٹی تھیں۔ ش اہ‬ ‫‪‬‬

‫ایران سے ان کی پہلی شادی (‪ )1948 - 1939‬ایک سیاسی معاملہ تھا جس کا نتیجہ نو سال بع د طالق کی ص ورت‬
‫نکال۔‬
‫ثریا اسفندیاری (‪ ,22‬جون ‪ ,26 - 1932‬اکتوبر ‪ ,)2001‬ایرانی سفارت کار خلیل اسفندیار بختیاری کی بی ٹی‬ ‫‪‬‬

‫تھیں۔ دونوں کی شادی سات سال (‪ )1958 - 1951‬چلی اور طالق ہو گئی۔‬
‫فرح دیبا (پ۔ ‪ ,14‬اکتوبر ‪ ،)1938‬ایرانی فوجی آفیسر سہراب دیبا کی بیٹی ہیں۔ شاہ کی پہلی دو شادیاں اوالد‬ ‫‪‬‬

‫نرینہ کی نعمت سے محروم رہیں یوں سلطنت و شہنشاہیت کا کوئی وارث نہیں مال تھا۔ ف رح دیب ا کی ش اہ ای ران کے‬
‫ساتھ ‪ 1959‬میں شادی ہوئی جبکہ ‪ 1980‬میں محمد رضا شاہ انتقال کر گئے۔‬

You might also like