You are on page 1of 3

‫مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بنا‬

‫پاکستان میں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مغربی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کا ذمہ دار بھارت‬
‫ہے جس نے پاکستان کے خالف سازشوں اور فوجی جارحیت سے ”مملکت خدا داد“ کو دو لخت کر‬
‫دیا۔ پاکستان میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو اس ”قومی بیانیے“ سے عدم اتفاق کرتے‬
‫ہوئے سقوط ڈھاکہ کی بنیادی وجہ ‪ 1970‬کے عام انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو‬
‫سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ذوالفقار علی بھٹو کے ”ادھر ہم‪ ،‬ادھر تم“ کے نعرے نے بنگالی‬
‫بھائیوں کو ناراض کر کے الگ وطن کے لئے مسلح جدوجہد کرنے اور بھارت کی عسکری حمایت‬
‫لینے پر مجبور کیا اور اس کے نتیجے میں ‪ 90‬ہزار سے زائد پاکستانی بھارت کے جنگی قیدی بنے‬
‫اور پاکستان کی فوج کو تاریخی شکست برداشت کرنا پڑی۔‬
‫تاہم تحریک پاکستان کے دنوں سے لے کر ‪ 1971‬میں مغربی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے‬
‫عرصے میں پیش آنے والے تاریخی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو اس المیے کے کئی ایسے حیرت‬
‫انگیز پہلو سامنے آتے ہیں کہ دل و دماغ پریشانی میں ڈوب جاتا ہے کہ بطور ریاست ہم آج بھی انہی‬
‫پالیسیوں پر گامزن ہیں جس کی وجہ سے پاکستان دو ٹکڑے ہوا۔‬
‫زبان کا جھگڑا‪ :‬اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان کے دنوں میں مشرقی بنگال کے مسلمان پیش‬
‫پیش تھے تاہم قیام پاکستان کے بعد جب ‪ 1948‬میں حکومت پاکستان نے اردو کو بطور واحد سرکاری‬
‫زبان قرار دے کر پورے ملک میں نافذ کرنے کا اعالن کیا تو مشرقی پاکستان کے عوام نے اسے قبول‬
‫کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ اگر صرف اردو کو ہی سرکاری زبان کے طور پر نافذ‬
‫کیا گیا تو مشرقی بنگال کے پڑھے لکھے افراد یک دم ”ان پڑھ“ ہوجائیں گے یوں وہ اہم سرکاری‬
‫عہدے حاصل کرنے میں ناکام ٹھہریں گے۔‬
‫بعدازاں یہ خدشات درست ثابت ہوئے اور بنگالی زبان کو سکوں‪ ،‬ڈاک اور بحریہ میں بھرتی کے‬
‫امتحانوں سے نکال دیا گیا جس پر ‪ 11‬مارچ ‪ 1948‬کو ڈھاکہ یونیورسٹی اور دیگر کالجوں کے طلبہ‬
‫نے یوم احتجاج منایا۔ گورنر جنرل اور بانی پاکستان محمد علی جناح نے ‪ 19‬مارچ ‪ 1948‬کو ڈھاکہ‬
‫کا دورہ کیا اور ‪ 21‬مارچ کو ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ”اردو اور صرف اردو“ کو‬
‫ہی ریاست کی واحد سرکاری زبان قرار دیا۔ ڈھاکہ سے واپس کراچی جانے سے قبل ‪ 28‬مارچ کو‬
‫انہوں نے ریڈیو پر عوام سے خطاب میں دوبارہ ”صرف اردو“ کو قومی زبان کے طور پر نافذ کرنے‬
‫کی پالیسی کا اعالن کیا۔‬
‫بعدازاں عوام میں بے چینی بڑھتی گئی اور اس فیصلے کے خالف بڑے بڑے عوامی اجتماعات ہونے‬
‫لگے۔ حکومت نے ایسے تمام جلسے جلوسوں اور عوامی اجتماعات کو غیر قانونی قرار دے کر خالف‬
‫ورزی کرنے والوں پر مقدمات درج کرنے شروع کر دیے۔ اس دوران ‪ 21‬فروری ‪ 1952‬ء کو ڈھاکہ‬
‫یونیورسٹی کے طلبہ اور مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے کے خالف احتجاج کا‬
‫اعالن کیا۔ تاہم پولیس نے اس دن مظاہرین کو جمع ہونے سے روکنے کے لئے فائرنگ کر دی جس‬
‫سے کئی طلبہ مارے گئے۔‬
‫ان اموات نے بنگالی عوام میں پھیلے اشتعال اور غم و غصے کو اور بھی بڑھاوا دیا۔ آخر کار ‪1956‬‬
‫ء میں مرکزی حکومت نے بنگالی کو دفتری زبان قرار دیدیا تاہم نو سال تک جاری رہنے والے اس‬
‫الیعنی تنازعے نے مشرقی پاکستان کے شہریوں کے دل میں یہ بات پختہ کر دی کہ انہیں اپنے ہی‬
‫مسلمان بھائیوں سے اپنی مادری زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دلوانے کے لئے طویل جدوجہد کرنا‬
‫پڑی جس میں کئی بنگالی شہریوں کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔‬
‫غیر مساوی ترقی‪ :‬قیام پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی چار کروڑ ‪ 40‬الکھ تھی جبکہ‬
‫مغربی پاکستان میں شامل چاروں صوبوں کی مجموعی آبادی ڈھائی کروڑ کے قریب تھی۔ تاہم‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪1‬‬


‫حکومت‪ ،‬سول سروس اور فوج میں مغربی حصے کے لوگوں کی تعداد مشرقی حصے کی نسبت کہیں‬
‫زیادہ تھی۔ یہ عدم مساوات جنرل ایوب کے دور حکومت میں اور بھی کھل کر سامنے آئی۔ ان کے‬
‫شروع کردہ تین بڑے منصوبے (نئے دارالحکومت اسالم آباد کی تعمیر اور منگال ڈیم و تربیال ڈیم کا‬
‫منصوبہ) صرف مغربی پاکستان کے لئے تھے۔‬
‫سنٹر فار ریسرچ آن پاورٹی ریڈیکشن اینڈ انکم ڈسٹری بیوشن کے مطابق ‪ 1965‬تا ‪ 1968‬کے‬
‫درمیانی عرصے میں یہ عدم مساوات اپنی انتہا پر پہنچ چکی تھی۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں‬
‫بہاو محض ‪ 16‬فی صد جبکہ مغربی پاکستان میں یہ‬ ‫سرمایہ کاری کے حوالے سے سرمائے کا اصل ٔ‬
‫شرح ‪ 75‬فی صد تھی۔ یہی وہ حاالت تھے جن کی بنیاد پر شیخ مجیب نے اپنی تقریروں میں اس فقرے‬
‫کی تکرار شروع کی کہ ”مجھے اسالم آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے“۔‬
‫فوج جسے پاکستان کا سب سے بڑا‪ ،‬منظم اور قومی ادارہ قرار دیا جاتا ہے اس میں عدم مساوات کی‬
‫یہ صورتحال اور بھی ابتر تھی۔ جنوبی ایشیاء کے فوجی امور پر کئی کتابوں کے مصنف سٹیفن پی‬
‫کوہن اپنی کتاب ”پاکستان آرمی“ میں لکھتے ہیں کہ ”فوج میں مشرقی بنگال کی بڑھتی ہوئی نمائندگی‬
‫کے خالف فوج کے اندر مزاحمت تھی نیز بنگالی افسران اور دیگر عہدوں کے فوجی عملے کے‬
‫معیار کو پسند بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ آزادی کے بعد مغربی پاکستان کے مختلف عالقوں کے مسلمانوں‬
‫کو (مختلف تناسب میں) آرمی یونٹوں میں باقاعدہ طور پر جگہ دی گئی مگر بنگالیوں کو نہیں“۔‬
‫ائیر مارشل ذوالفقار علی خان اپنے ایک انٹرویو میں بیان کرتے ہیں کہ ”اپریل ‪ 1967‬کو میں ڈھاکہ‬
‫پہنچا تو وہاں کی دنیا ہی کچھ اور تھی۔ ڈھاکہ کا بیس مغربی پاکستان کے کسی بھی بیس سے مطابقت‬
‫نہیں رکھتا تھا وہاں صرف ایک فائٹر سکوارڈن تھا جبکہ تین اطراف سے بھارت حملے کی زد میں‬
‫رہنے والے پورے مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لئے ‪ 20‬یا ‪ 22‬طیارے تھے۔“‬
‫بنگالیوں پر عدم اعتماد‪ :‬پاکستان کے چار گورنر جنرلوں میں سے صرف ایک خواجہ ناظم الدین‬
‫کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ اسی طرح ‪ 1971‬ء تک وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے والی‬
‫سات شخصیات میں سے تین خواجہ ناظم الدین‪ ،‬محمد علی بوگرہ اورحسین شہید سہروردی کا تعلق‬
‫مشرقی پاکستان یا بنگال سے تھا۔ قیام پاکستان کے ‪ 11‬سال بعد ‪ 1958‬میں ملک میں پہال مارشل ال‬
‫جنرل ایوب خان نے لگایا ان کا تعلق بھی مغربی پاکستان سے تھا۔ انہوں نے اپنے ‪ 11‬سالہ دور اقتدار‬
‫میں کبھی بھی مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے کسی فوجی یا سیاسی شخصیت کو اپنے کچن‬
‫کیبنٹ کا حصہ نہیں بنایا بلکہ اُن کے تمام خاص آدمیوں کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔‬
‫‪1970‬ء کے الیکشن‪ :‬قیام پاکستان کے ‪ 24‬سال بعد ‪ 7‬دسمبر ‪ 1970‬کو پاکستان میں پہلی مرتبہ‬
‫(ایک آدمی‪ ،‬ایک ووٹ) کی بنیاد پر عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت ہونے‬
‫والی حلقہ بندیوں کے ذریعے ‪ 300‬نشستوں پر مشتمل نئی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کے لئے ‪162‬‬
‫جبکہ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے لئے ‪ 138‬نشستیں مختص کی گئیں۔ اس الیکشن میں ‪28‬‬
‫سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ اس انتخاب کے نتیجے میں مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن کی‬
‫عوامی لیگ نے ‪ 160‬جبکہ مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے ‪ 81‬نشستیں‬
‫حاصل کیں۔‬
‫عوامی لیگ نے اس انتخاب میں کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے ‪ 39.2‬فیصد جبکہ پیپلز پارٹی نے‬
‫‪ 18.6‬فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ جنرل یحیی نے اسمبلی کا پہال اجالس تین مارچ ‪ 1971‬کو بالنے‬
‫کا اعالن کیا جسے بعدازاں ملتوی کر دیا گیا۔ ‪ 25‬مارچ ‪ 1971‬ء کو فوج نے مشرقی پاکستان میں‬
‫ملٹری آپریشن شروع کر دیا۔ فوجی حکومت نے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی‬
‫عوامی لیگ پر پابندی عائد کر دی اور اس کے ‪ 160‬منتخب اراکین میں سے ‪ 76‬کو غدار قرار دے‬
‫کر نا اہل کر دیا گیا۔‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪2‬‬


‫اس اقدام سے عوامی لیگ کے منتخب اراکین کی تعداد کم ہو کر ‪ 84‬رہ گئی۔ جنرل یحیی نے اپنے‬
‫اقتدار کو طول دینے اور ایک ہنگ پارلیمنٹ تشکیل دینے کی خواہش کے زیر اثر مشرقی پاکستان میں‬
‫عوامی لیگ کے ‪ 76‬اراکین کو غدار ڈیکلیئر کر کے نا اہل کرنے سے خالی ہونے والی خالی نشستوں‬
‫پر ضمنی انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا۔ جماعت اسالمی کی سربراہی میں چھ پارٹیوں نے فوجی آمر‬
‫کی آشیر باد سے ان خالی نشستوں پر اپنے مشترکہ امیدوار کھڑے کیے جنہیں ‪ 11‬نومبر کو بالمقابلہ‬
‫منتخب قرار دیدیا گیا۔ اس دوران مشرقی پاکستان میں فوج اور مکتی باہنی کے درمیان جھڑپیں خانہ‬
‫جنگی کی صورت اختیار کر چکی تھیں جبکہ بھارت کی فوج بھی عملی طور پر مکتی باہنی کے ساتھ‬
‫جنگ میں شامل ہو گئی تھی۔ تین دسمبر کو مغربی پاکستان کے محاذ پر بھی جنگ شروع ہو چکی‬
‫تھی۔‬
‫سقوط ڈھاکہ کا دن‪ :‬اس وقت جب مشرقی پاکستان میں جنگ اپنے منطقی انجام کی جانب گامزن‬
‫تھی م غربی پاکستان میں جنرل یحیی اور ان کی حکومت کا بیانیہ یہی تھا کہ پاکستان جنگ جیت رہا‬
‫ہے اور ”ارض پاک“ کے ایک ایک انچ کا دفاع کیا جائے گا۔ تاہم ‪ 16‬دسمبر کو مشرقی پاکستان میں‬
‫جنرل نیازی کی کمانڈ میں لڑنے والی فوج کے ‪ 56‬ہزار ‪ 400‬جوانوں اور افسران نے بھارت کی فوج‬
‫کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جنگی قیدیوں کی تعداد کے لحاظ سے یہ ہتھیار‬
‫ڈالنے کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے نتیجے میں پاکستان رقبے‬
‫اور آبادی کے لحاظ سے ”امت مسلمہ“ کی سب سے بڑی ریاست کے اعزاز سے محروم ہو گیا۔‬
‫پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں آج تک مقتدر طبقات نے نہ تو جمہوریت کو پنپنے دیا اور نہ ہی‬
‫عوامی امنگوں کا خیال رکھا۔ اگر کسی فرد‪ ،‬گروہ یا قوم کے کسی حصے نے زبان‪ ،‬ثقافت یا شناخت‬
‫کا مطالبہ کیا تو اُس پر غداری‪ ،‬ملک دشمنی اور عالقائی عصیبت کا الزام لگا دیا گیا۔ یہ مقتدر طبقات‬
‫دباو یا اپنے زیر اثر رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ یہ‬‫منتخب حکومتوں یا سیاستدانوں کو ہمیشہ ٔ‬
‫طرز عمل پاکستان کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ جن ممالک میں فوج کے اپنے کاروباری مفادات‬
‫ہیں وہاں فوج کی بطور ادارہ ریاست میں پالیسی سازی اور وسائل کی تقسیم کے عمل پر زیادہ سے‬
‫زیادہ اختیار کی خواہش یا جنگ ایک فطری عمل بن چکی ہے۔ اگر ہمیں مستقبل میں اس طرح کے‬
‫کسی سانحے سے بچنا ہے تو اس کے لئے سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ شفاف اور غیر‬
‫جانبدار انتخابات کا انعقاد یقینی بناتے ہوئے عوام کی رائے کا احترام کیا جائے اور جمہوری عمل کو‬
‫”کنٹرولڈ انوائرمنٹ“ کی بجائے قدرتی طور پر آگے بڑھنے کا موقع دیا جائے۔‬

‫‪AWAIS YOUNAS‬‬ ‫‪3‬‬

You might also like