You are on page 1of 3

‫پاکستان کے آئین کی چیدہ چیدہ خصوصیات‬

‫پاکستان کا وجود اگست ‪ 1947‬میں ہوا۔ پاکستان کا پہال آئین‬


‫میں سکندر مرزا نے نافذ کیا۔ ‪ 1956‬کا آئین اپنے وجود کے ٹھیک ‪ 2‬سال ‪ 1958‬میں ملک میں مارشل الء لگنے کے ‪1956‬‬
‫بعد کلعدم قرار دے دیا گیا۔ ‪ 1962‬میں پاکستان کا دوسرا آئین فیلڈ مارشل ایوب خان نے نافذالعمل کیا جو کہ ‪ 1969‬تک قائم‬
‫میں بنا جو کہ چند آئینی ترامیم کے ساتھ آج ‪1973‬رہا۔ پاکستان کا تیسرا اور متفقہ آئین ذالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں‬
‫تک نافذالعمل ہے۔‬

‫کے آئین پاکستان کی نمایاں خصوصیات کے بارے میں ہر پاکستانی شہری کے پاس معلومات ہونا بہت ضروری ہیں‬
‫‪1973:‬‬

‫تحریری آئین )‪(1‬‬


‫آئین تحریری یا غیر تحریری شکل میں ہو سکتا۔ جیسا کے امریکی آئین تحریری شکل میں ہے جبکہ برطانوی آئین کو غیر‬
‫تحریری تصور کیا جاتاہے۔ پاکستانی آئین تحریری شکل میں ہے۔ اسکے آرٹیکلز کی تعداد ‪ 280‬ہے۔‬
‫سرکاری مذہب )‪(2‬‬
‫آئین پاکستان کے آرٹیکل ‪ 2‬کے تحت ریاست پاکستان کا سرکاری مذہب اسالم ہے۔ چونکہ ہللا تبارک تعالی ہی پوری کائنات‬
‫کا بال شرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اسکے مقررکردو حدود کے اندر‬
‫استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے۔ آئین کے آرٹیکل ‪ 41‬کے تحت صدر پاکستان کا مسلمان ہونا ضروری‬
‫ہے اور آرٹیکل ‪ 91‬کے تحت وزیراعظم پاکستان کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ آرٹیکل ‪ 227‬کے مطابق‪ :‬تمام موجودہ قوانین‬
‫کو قرآن و سنت میں منضبط اسالمی احکام کے مطابق بنایا جائے گا‪،‬اور ایسا کوئی قانوں وضع نہیں کیا جائے گا جو کہ‬
‫مذکورہ احکام کے منافی ہو۔‬
‫قومی زبان )‪(3‬‬
‫آئین پاکستان کے آرٹیکل ‪ 251‬کے تحت پاکستان کی قومی زبان اردو ہے‬
‫غیر لچکدار آئین )‪(4‬‬
‫ٓٓآئین پاکستان ایک غیر لچکدار آئین ہے۔ آرٹیکل ‪ 238‬کے تحت آئین پاکستان میں کسی بھی قسم کی تبدلی یا ترمیم کے‬
‫لئے قوم ی اسمبلی اور سینٹ کے اراکین کی دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ صدر پاکستان کی‬
‫منظوری بھی بہت ضروری ہے۔سادہ الفاظ میں ہم کہ سکتے ہیں کہ آئین پاکستان میں کسی بھی قسم کی ترمیم کے لئے‬
‫پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کا ہونا بہت ضروری ہے۔‬
‫پارلیمانی طرز حکومت )‪(5‬‬
‫کے آئین کے تحت پاکستانی ریاست کا طرز حکومت پارلیمانی طرز کا ہے جس میں وفاقی یعنی مرکزی حکومت کا ‪1973‬‬
‫سربراہ وزیراعظم ہوگا جس کا انتخاب پاکستان کی قومی اسمبلی کرتی ہے۔ اور صوبوں کی حکومت کا سربراہ وزیراعلی‬
‫کہالتا ہے۔ وزیراعلی کے لئے صوبائی اسمبلی کا رکن ہونا ضروری ہے۔‬
‫وفاقی جمہوریہ )‪(6‬‬
‫آئین پاکستان آرٹیکل ‪ 1‬کے تحت پاکستانی ریاست وفاقی جمہوریہ ہے جس کے تحت اک وفاقی حکومت ہی ریاست پاکستان‬
‫کے حکومتی معامالت کوچال سکتی ہے۔‬
‫دو ایوانی قانون ساز ادارہ )‪(7‬‬
‫قانون ساز ادا رہ کو مجلس شورہ یا پارلیمنٹ کہا جاتا ہے۔آرٹیکل ‪ 50‬کے تحت پاکستان کی پارلیمنٹ دو ایوانوں اور صدر‬
‫پاکستان پر مشتمل ہے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کو قومی اسمبلی کہا جاتا ہے جبکہ پارلیمنٹ کے ایوان باال کو سینٹ کہا‬
‫جاتا ہے۔ قومی اسمبلی کے اجالس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی یا ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کرتے ہیں جبکہ سینٹ‬
‫کے اجالسوں کی صدارت چیرمین سینٹ یا ڈپتی چیرمین سینٹ کرتے ہیں۔‬
‫براہ راست انتخابات )‪(8‬‬
‫آئین پاکستان کے تحت پاکستان کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا انتخاب براہ راست انتخاب کے‬
‫ذریعہ کیا جاتا ہے۔‬
‫بنیادی حقوق )‪(9‬‬
‫پاکستان کا آئین پاکستان کے ہر شہری کو اسکے بنیادی حقوق (جن میں قانون کے تحت نقل و حرکت کی آزادی‪ ،‬کسی‬
‫اجتماع کی آزادی‪ ،‬انجمن سازی کی آزادی‪ ،‬کاروبار کرنے کی آزادی‪ ،‬آزادی رائے‪ ،‬تقریر کی آزادی‪ ،‬بالوجہ حراست سے‬
‫بچاؤ‪ ،‬مذہب‪ ،‬زبان‪ ،‬تعلیم‪ ،‬رسم و رواج وغیرہ) کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ان بنیادی حقوق کا تذکرہ آئین کے آرٹیکل ‪ 8‬سے‬
‫)ان بنیادی حقوق کا مطالعہ کرنا ہر پاکستانی شہری کے لئے بہت ضروری ہے(لے کر آرٹیکل ‪ 28‬تک ملتا ہے۔‬
‫صوبائی خودمختاری )‪(10‬‬
‫کے آئین پاکستان میں صوبوں کو زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری فراہم کی گئی ہے۔ آٹھارویں آئین ترمیم کے ‪1973‬‬
‫بعد پاکستان کی تاریخ میں صوبوں کو سب سے زیادہ صوبائی خودمختاری فراہم کی گئی ہے۔(حقیقت یہ ہے کہ اگر ‪1971‬‬
‫تک مشترکہ پاکستان میں صوبوں کو آج کے دور کی طرح کی صوبائی خودمختاری ملی ہوتی تو شاید پاکستان کبھی بھی‬
‫)دولخت نہ ہوتا‬
‫واحد شہریت )‪(11‬‬
‫آئین پاکستان نے پاکستان میں واحد شہریت کے اصولو ں کو متعارف کرایا ہے‪ ،‬جس کی سب سے بہترین مثال یہ ہے کہ‬
‫کوئی بھی امیدوار اگر اسکے پاس دوہری شہریت ہے تو وہ قومی اسمبلی‪ ،‬صوبائی اسمبلی اور سینٹ کا انتخاب نہیں لڑ‬
‫سکتا۔‬
‫ریفرنڈم )‪(12‬‬
‫ٓآئین پاکستان آرٹیکل ‪ 48‬کے تحت صدر پاکستا ن کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی قومی اہمیت کے مسئلے پر‬
‫وزیراعظم کی ایڈوائس پر ریفرنڈم کرانے کا حکم دے سکتا ہے۔‬
‫خواتین کے حقوق )‪(13‬‬
‫آئین پاکستان نے خواتین کو مساوی حقوق مہیا کئے ہیں۔ اور یہاں تک کے خواتین کو قومی دھارے اور فیصلہ سازی‪،‬‬
‫قانون سازی میں بنا کسی رکاوٹ کے قومی اسمبلی‪ ،‬صوبائی ا سمبلیوں اور سینٹ کے ایوانوں میں پہنچانے کے لئے‬
‫خصوصی نشستیں مہیاکی ہیں۔ )(بغیربراہ راست انتخاب لڑے‬
‫اقلیتوں کے حقوق )‪(14‬‬
‫آئین کا آرٹیکل ‪ 20‬پاکستان میں اقلیتوں کو انکے مذہبی حقوق کا تحفظ مہیا کرتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے اقلیتی شہری‬
‫اپنے مذہب کو اپنانے اور اپنی عبادت گاہ بنانے اور ان میں عبادت کرنے میں آزاد ہیں۔‬
‫عدلیہ کی آزادی )‪(15‬‬
‫ٓآئین پاکستان عدلیہ کی آزادی کو یقینی بناتا ہے‪ ،‬آٹھارویں اور انیسویں آئینی ترمیم کے ذریعہ عدالتی کمیشن کی تشکیل‬
‫کے بعد پاکستانی عدلیہ پہلے سے زیادہ آزاد ہوچکی ہے۔‬
‫حکمت عملی کے اصول )‪(16‬‬
‫آئین پاکستان نے متعدد حکمت عملی کے درج ذیل اصول فراہم کئے ہیں‪ ،‬اور یہ اصول ریاست پاکستان کے حکومتی‬
‫معامالت کو چالنے کے لئے حکومت وقت کی رہنمائی کرتے ہیں‪:‬۔ درج ذیل حکمت عملی کے اصول آئین کے آرٹیکل‪29‬‬
‫سے لے کر آرٹیکل ‪ 40‬میں درج ہیں۔‬
‫۔۔ اسالمی طرز‪ ،‬زندگی۔۔ مقامی حکومتی اداروں کا فروغ۔۔ تعصبات کی حوصلہ شکنی ۔۔ قومی زندگی میں خواتین کی مکمل‬
‫شمولیت‬
‫۔۔ خاندان کا تحفظ۔۔ اقلیتوں کا تحفظ۔۔ معاشرتی انصاف کا فروغ اور معاشرتی برائیوں کا خاتمہ‬
‫۔۔ مسلح افواج میں عوام کی شرکت ۔۔ عالم اسالم سے رشتے مضبوط کرنا اور عالمی امن کو فروغ دینا۔۔ عوام کی معاشرتی‬
‫اور معاشی فالح و بہبود کا فروغ‬
‫قومی اقتصادی کونسل )‪(17‬‬
‫آئین کے آرٹیکل ‪ 156‬کے تحت وزیراعظم پاکستان جو کہ قومی اقتصادی کونسل کے چیرمین ہوتا ہے‪ ،‬صوبائی وزرا اعلی‬
‫اور ہر صوبے سے وزیراعلی کا نامزد کردہ رکن‪ ،‬اور چار دوسرے اراکین جن کو وزیراعظم نامزد کرتا ہے اس کونسل‬
‫کے اراکین ہوتے ہیں۔ قومی اقتصادی کونسل ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال کا جائزہ لے گی اور وفاقی اور صوبائی‬
‫ح کومتوں کی مشورہ دینے کے لئے‪ ،‬مالیاتی‪ ،‬تجارتی‪ ،‬معاشرتی اور اقتصادی پالیسیوں کے بارے منصوبے وضع کرتی‬
‫ہے۔‬
‫مشترکہ مفادات کونسل )‪(18‬‬
‫آئین کے آرٹیکل ‪ 153‬کے تحت بننے والی مشترکہ مفادات کونسل کے اراکین میں وزیراعظم چیرمین‪ ،‬صوبوں کے‬
‫وزرااعلی‪ ،‬اور تین اراکین جن کو وفاقی حکومت نامزد کرتی ہے۔‬
‫اعلی عدالتی کونسل یا سپریم جوڈیشل کونسل )‪(19‬‬
‫آئین اکے آرٹیکل ‪ 209‬کے تحت اعلی عدلیہ کے ججز کے خالف جسمانی یا دماغی معذوری یا بدعنوانی کے متعلق ملنے‬
‫والی اطالعات کی بناء پر تحقیقات کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل قائم کی گئی ہے۔جو کہ تحقیقات کرنے کے بعد اپنی‬
‫سفارشات صدر پاکستان کو بھیجتی ہے کہ آیا جج کو اپنے عہدہ پر برقرار رہنا چاہیے یا نہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل‬
‫اعلی عدلیہ کے ججز کے لئے ضابطہ اخالق بھی جاری کرتی ہے جس کو عدالت عظمی اور عدالت عالیہ کے جج‬
‫ملحوظ رکھیں گے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل )‪(20‬‬
‫کے تحت اسالمی نظریاتی کونسل تشکیل پائی ہے۔ اسالمی نظریاتی کونسل مجلس شورہ اور صوبائی ‪228‬آئین کے آرٹیکل‬
‫اسمبلیوں سے ایسے ذرائع اور وسائل کی سفارش کرنا جن سے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں انفرادی اور‬
‫اجتماعی طور پر ہر لحاظ سے اسالم کے ان اصولوں اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب اور امداد ملے جن کا‬
‫قرآن پاک اور سنت میں تعین کیا گیا ہے۔ کسی ایوان‪ ،‬کسی ممبر اسمبلی‪ ،‬صدر یا کسی گورنر کو کسی ایسے سوال کے‬
‫بارے میں مشورہ دینا جس میں کونسل سے اس بابت رجوع کیا گیا ہو آیا کوئی مجوزہ قانون اسالمی احکام کے منافی ہے یا‬
‫نہیں۔‬

You might also like