You are on page 1of 11

‫تدوین قرآن‬

‫ہہے‬ ‫عربی زبان میںتدوین قرآن کالفظ دو معانی میں ا ستعمال ہ‬


‫ہہو تا ہ‬

‫۔ زبانی حفظ کے معنی میں‬

‫۔ کتابت اور تدوین کے معنی میں‬

‫عہد رسالت میں مذکورہ دونوں معنوں میں حفاظت قِرآن کا انتظام ہوا۔ جہاں تک پہلے معنی کا‬
‫تعلق ہے تو خود رسول ا صلی ا علیہ وسلم نے قِرآن کریم کو اپنے سینہ میں محفوظ کیا اور‬
‫قِرآن کریم آپپ کے صفحات قِلب پر نقش تھا۔ نیز آپ کے دور میں متعدد صحابہہ قِرآن کریم کے‬
‫حافظ تھے‬

‫جہاں تک دوسرے معنی میں حفاظت قِرآن کا تعلق ہے تو اس کا اہتمام بھی دور نبوپی میں بخوبی‬
‫ہوا۔ آپ صلی ا علیہ وسلم کی نگرانی میں اور آپپ کے سامنے مکمل قِرآن کریم لکھا گیا‪،‬اگرچہ‬
‫پتھروں ‪ ،‬کاغذ اور چمڑے کے ٹکڑوں پر ہی سہی‪ ،‬لیکن یہ بات حتمی طور پر کہی جاسکتی‬
‫ہے کہ ابھی رسول ا صلی ا علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا تھا کہ قِرآن کریم اکثر صحابہ کے‬
‫سینوں میں محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف اشیا پر تحریری شکل میں بھی موجود تھا۔‬

‫خود نبی پاک صلی ا علیہ وسلم قِرآن پاک کے یاد کرنے اور اس کے حفظ کرنے کے سلسلہ‬
‫میں اس قِدر حریص تھے کہ نزول وحی کے وقِت آپ اس کے الفاظ کو اسی وقِت دوہرانے‬
‫لگتے تھے تاکہ اچھی طرح یاد ہوجائے اور کوئی کلمہ یاحرف دوران وحی ان سے چھوٹنے نہ‬
‫‪،‬پائے‬

‫اس پر ا تعالیی نے یہ آیت نازل فرماکر آپ کو اطمینان دلیا‬

‫ترجمہ‬
‫آپ قِرآن پاک کو جلدی یاد کرنے کے خیال سے اپنی زبان کو حرکت نہ دیجئے )کیونکہ( اس‬
‫)قِرآن( کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوانا ہم نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے‬

‫صرف نبی علیہ السلم بلکہ انکے صحابہ رضوان ا علیہم کی ایک بڑی تعداد نے قِرآن مجید‬
‫صحابہ کرام رضوان ا علیہم اجمعین نے اپنے خداداد بے نظیرحافظے‬
‫ٴ‬ ‫زبانی یاد کر رکھا تھا۔‬
‫کو جاہلیت کے اشعار‪ ،‬انساب عرب حتی کے اونٹوں اور گھوڑوں کی نسلوں کے حفظ سے ہٹا‬
‫کر‪ ،‬آیات ایلہی کے حفظ پر لگادیا‪ ،‬اہل عرب کو صدیوں تک کی گمراہی کے اندھیروں میں‬
‫بھٹکنے کے بعد قِرآن کریم کی وہ منزل ہدایت نصیب ہوئی تھی جسے وہ اپنی زندگی کا سب‬
‫سے عزیز سرمایہ تصور کرتے تھے‪ ،‬اس لیے انھوں نے اسے یاد رکھنے کے لیے کیا کچھ‬
‫اہتمام کیا‬
‫اگرچہ دور نبوپی میں قِرآن کریم کی حفاظت کا بنیادی دارومدار حفظ پر تھا‪ ،‬لیکن اس کے‬
‫باوجود اسے تحریر میں لنا ضروری سمجھا گیا کہ اس کے ایک ایک لفظ کی حفاظت میں کسی‬
‫قِسم کی کوئی کمی نہ رہ جائے ۔نیز قِرآن کریم صحابہ کرام ہکے لئے ایک مقدس متاع کی حیثیت‬
‫رکھتا تھا‪ ،‬لیہذا اانہوں نے انفرادی حیثیت سے بھی بطور یادگار اسے ضبط تحریر میں لنے کا‬
‫اہتمام کیا‪ ،‬جیسا کہ عموما ا نادر اور نایاب اشیا کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔‬

‫نزول قِرآن مجید کے زمانہ میں ایجادات و مصنوعات کی کمی ضرور تھی‪ ،‬جس طرح آج کاغذ‪،‬‬
‫قِلم اور دوات کی بے شمار قِسمیں دریافت ہیں‪ ،‬اس زمانہ میں اتنی ہرگز نہ تھیں؛ لیکن ایسا بھی‬
‫نہیں کہ اس وقِت کاغذ اور کتابیں دریافت نہ تھیں‪ ،‬یمن‪ ،‬روم اور فارس میں کتب خانے بھی‬
‫تھے‪ ،‬یہود و نصاریی کے پاس کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا‪ ،‬اس زمانے میں ”کاغذ“ وغیرہ کی‬
‫صنعتیں بھی تھیں؛ لیکن بڑے پیمانے پر نہ ہونے کی وجہ سے کاغذ وغیرہ ہر جگہ دریافت نہ‬
‫تھے؛ اس لیے لکھنے کے لیے جو چیز بھی قِابل اور پائدار سمجھ میں آتی اس پر لکھ لیا جاتا‬
‫تھا‬

‫عہدصدیقی میں جمع قرآن‬


‫آنحضرت صلی ا علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا‪،‬‬
‫سارے اجزا الگ الگ تھے‪ ،‬حضرت ابوبکر صدیق رضی ا عنہ نے ان قرآن مجید کی تمام‬
‫سورتوں کو ایک ہی جلد میں مجلد کروانے کا کام حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا؛‬
‫صحابہ کرام کی اجماعی تصدیق حاصل ہوئی۔‬
‫ٴ‬ ‫چنانچہ ایسا نسخہ مرتب ہو گیا جس کو سارے‬

‫حضرت ابوبکر صدیق کے دورر حکومت میں تدوین قرآن کی صورت یہ تھی کہ اسے مختلف‬
‫پارچوں سے نقل کرکے ایک جگہ )کاغذ( پریکجا کیا گیا۔یہ نسخہ بہت سے صحیفوں پر مشتمل‬
‫تھا اورہر سورت الگ الگ صحیفے میں لکھی گئی تھی۔اور صرف وہی کچھ لکھا گیا جس کا‬
‫قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوا تھا۔ ) وہ آیات اور حروف نکال دیے گئے جن کی تلوت منسوخ‬
‫ہو چکی تھی۔(‬

‫دورر صدیقی میں قرآرن کریم کے منتشر حصوں کو یکجا کرنے کا مقصد قرآن مجید کی حفاظت‬
‫کو یقینی بنانا تھا‪ ،‬کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں حاملین قرآن اور حفاظ صحابہ کی وفات سے قرآرن‬
‫مجید کا کوئی حصہ ضائع نہ ہوجائے۔‬

‫پس منظر حدیث کی روشنی میں‬


‫حضورپاک صلی ا علیہ وسلم کے مرض الوفات کے ساتھ ہی فتنے ابھرنے شروع ہوگئے اور‬
‫آپ کی وفات کے بعد ان فتنوں نے شدت اختیار کرلی‪ ،‬حضرت صدیق اکبر رضی ا عنہہ نے ان‬
‫فتنوں کی سرکوبی کے لیے پوری طاقِت وقِوت صرف کردی اور بہت سے معرکےاس دوران‬
‫پیش آئے جن میں سے ایک اہم معرکہ جنگ یمامہ کا ہے‪ ،‬جس میں بہت سے قِراء شہید ہوئے‬
‫جن کا انداز ‪ /۷۰‬اور ایک قِول کے مطابق ‪/۷۰۰‬تک لگایا گیا ہے )تفسیرقِرطبی‪ ،۱/۳۷:‬عمدۃ‬
‫القاری‪(۱۳/۵۳۳:‬‬

‫اس عظیم سانحہ کی وجہ سے بعض اجلۂ صحابہ رضی ا عنہم بالخصوص حضرت عمر‬
‫رضی ا عنہ کو تشویش لحق ہوئی جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت‬
‫” ‪:‬رضی ا عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں‬

‫جنگ یمامہ کے بعد مجھے امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی ا عنہ نے بلیا میں‬
‫پہنچا تو وہاں پہلے سے حضرت عمر رضی ا عنہ بھی تشریف فرما تھے‪ ،‬حضرت صدیق‬
‫اکبررضی ا عنہہ نے فرمایا کہ یہ عمررضی ا عنہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ‬
‫یمامہ کے شدید معرکہ میں بہت سے حفاظ کام آگئے ہیں‪ ،‬مجھے اندیشہ ہے کہ اگر ایسے ہی‬
‫دیگر معرکوں میں حفاظ شہید ہوتے رہے تو قِرآن مجید کا بہت سا حصہ ان کے سینوں ہی میں‬
‫چلجائے گا؛ اس لیے عمررضی ا عنہہ کہتے ہیں کہ میں )ابوبکررضی ا عنہہ( قِرآن مجید‬
‫کے جمع وتدوین کا اہتمام کروں )حضرت ابوبکر صدیق رضی ا عنہہ فرماتے ہیں کہ( میں ان‬
‫سے کہہ چکا ہوں کہ جس کام کو حضور صلی ا علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں‬
‫)لیکن( عمررضی ا عنہہ کہتے ہیں خدا کی قِسم اس میں سراپا خیر ہی ہے یہ مجھ سے بار بار‬
‫تقاضا کرتے رہے؛ آخر ا تعالیی نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا اور اب میری‬
‫بھی وہی رائے ہے جو عمررضی ا عنہہ کی ہے‪ ،‬زید کہتے ہیں‪ :‬حضرت ابوبکرصدیق رضی‬
‫ا عنہہ نے مجھ سے فرمایا‪ :‬تم نوجوان ہو سمجھدار ہو کسی طرح کی تہمت بھی ہم تمہارے‬
‫)اور تمہارے دین ودیانت کے(بارے میں نہیں پاتے اور تم رسول ا صلی ا علیہ وسلم کے‬
‫کاتب وحی بھی ہو تم قِرآن کریم )کے مختلف اجزاء( کو تلشا کرو اور اس کو جمع کرو!‬
‫حضرت زید رضی ا عنہہ کہتے ہیں‪ :‬کہ خدا کی قِسم اگر وہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کے ایک‬
‫جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم فرماتے تو یہ میرے لیے زیادہ آسان تھا‪ ،‬بنسبت اس‬
‫کام کے جس کا انھوں نے مجھے حکم دیا ہے‪ ،‬یعنی جمع قِرآن کا حضرت زید رضی ا عنہہ‬
‫کہتے ہیں‪ :‬کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ حضرات ایسا کام کیسے کررہے ہیں جس کو رسول ا‬
‫صلی ا علیہ وسلم نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی ا عنہہ نے فرمایا‪ :‬بخدا یہ تو اچھا ہی‬
‫کام ہے‪ ،‬حضرت زید رضی ا عنہہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی ا عنہہ اس بارے‬
‫میں بار بار مجھ سے اصرار کرتے رہے؛ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی ا عنہہ وعمر‬
‫رضی ا عنہہ کی طرح ا تعالیی نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا )پھر میں صرف‬
‫حکم کی تعمیل میں نہیں بلکہ واقِعی ایک اہم ضرورت سمجھ کر اس کام کے لیے تیار ہوگیا(‬
‫پھر میں نے قِرآن کریم کے اجزاء کو تلشا کرنا شروع کیا او راسے کھجور کی شاخوں‪ ،‬پتھر‬
‫کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا؛ یہاں تک کہ سورۃ توبہ کی آخری آیتیں‬
‫ص رعلرییاکیم بایلامیؤمنییرن رراء و م‬
‫ف ررحییمم” )التوبۃ‪:‬‬ ‫ئ اکیم رراسیومل مین أرینفاساکیم رعزییمز رعلرییہ رمارعنتتیم رحری م‬
‫“لرقرید رجا ر‬
‫‪“ (۱۲۸‬ابوخزیمہ انصاری رضی ا عنہہ کے پاس ملی جو کسی اور کے پاس نہیں تھیں”۔‬
‫)صحیح بخاری‪ ،‬کتاب فضائل القرآن‪ ،‬باب جمع القرآن‪(۲۰/۴۹۸۶:‬‬

‫دوسرے سینکڑوں حفاظ کے علوہ خود حضرت زید بھی حافظ تھے اور ان کو یہ معلوم تھا کہ‬
‫یہ آیات کہا ں اور کس سورت سے متعلق ہیں اسی لیے انہوں نے اسکو صحابہ کے پاس تلشا‬
‫بھی کیا ۔!! اس ضمن میں صحابہ کی تلشا تائید وتقویت کے لئے تھی کہ حفظ وحافظے کے‬
‫علوہ لکھے ہوئے سے بھی اسکی تائید ہوجائے اور وہ ابوخزیمہ انصاری سے مل گئی ۔ یہ اس‬
‫بات کی دلیل ہے کہ حضرت زید نے تنہاء حافظے پر اعتماد نہیں کیا ‪،‬سورئہ براءۃ کی آخری‬
‫آیات باوجودیکہ حضرت زید کو حفظ تھیں اور ان کے علوہ متعدد صحابہ کو بھی حفظ تھیں ‪،‬‬
‫لیکن اس وقِت تک اانہیں درج نہیں کیا جب تک کہ کسی صحابی )حضرت خزیمہہ ( کے پاس‬
‫بھی لکھی شہادت نہیں مل گئی ۔یہ اس بات کی گواہی ہے کہ تدوین کے سلسلے میں کس قِدر‬
‫احتیاط کا اہتمام کیا گیا۔‬

‫قِرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی ا عنہ کے پاس رہا‪ ،‬جب ان‬
‫وفات ہو گئی تو حضرت عمر رضی ا عنہ کے پاس محفوظ رہا‪ ،‬جب ان کی بھی وفات ہو گئی‬
‫المومنین حضرت حفصہ رضی ا عنہا کے پاس محفوظ‬ ‫تو )وصیت کے مطابق( آپ کی بیٹی ام ٴ‬
‫رکھا رہا )صحیح بخاری ‪ (۲/۷۴۶‬حضرت عثمان غنی رضی ا عنہ نے ان کے پاس سے ہی‬
‫منگوا کر نقول تیار کرائے تھے۔‬

‫)صحیح بخاری‪ ،‬فضائل القرآن‪ ،‬باب جمع القرآن‪ ،۲/۷۴۶:‬رقِم‪(۴۹۸۷:‬‬

‫عہدعثمان ہ میں جمع قِرآن‬


‫جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی ا عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ جمع قِرآن ہے‪ ،‬اسی‬
‫طرح حضرت عثمان غنی رضی ا عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ پوری امت کو قِرآن مجید کے‬
‫اس متفق علیہ نسخہ پر جمع کرنا ہے جو ”عہد صدیقی“ میں تیار کیا گیا تھا‪،‬اس کی تفصیل یہ‬
‫ہے کہ شروع میں آیات کے مضمون و معنی کی حفاظت کرتے ہوئے الفاظ میں ادنی تبدیلی کے‬
‫ساتھ پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی‪) ،‬مناہل العرفان( جب حضرت عثمان غنی رضی ا عنہ کا‬
‫زمانہ آیا اور اسلم کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا‪ ،‬تو جن لوگوں نے مذکوہ بال رعایتوں کی بنیاد پر‬
‫اپنے اپنے قِبائلی اور انفرادی لہجوں یا مختلف متواتر تلفظ کے لحاظ سے قِرآن مجید کے مختلف‬
‫نسخے لکھے تھے‪ ،‬انکے درمیان شدید اختلف رونما ہو گیا؛ حتی کہ ایک دوسرے کی تکفیر‬
‫کی جانے لگی‪،‬کافی غوروخوض کے بعد تمام صحابہ کراہم اس بات پرمتفق ہوگئے کہ سبعة‬
‫أحرف کی رعایت کرتے ہوئے کچھ مصاحف تیار کئے جائیں اور ہر علقِہ کی طرف ایک‬
‫مصحف کا نسخہ روانہ کردیا جائے تاکہ وہ اختلف اور جھگڑے کے وقِت اس کی طرف رجوع‬
‫کرسکیں اور ان مصاحف کے علوہ باقِی تمام صحیفے ختم کردیے جائیں ۔ یہی وہ قِابل اعتماد‬
‫صورت تھی جس سے مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کیا اور اختلف کو جڑ سے اکھیڑا‬
‫جاسکتا تھا۔‬
‫پس منظر اور اختلف کی نوعیت‬
‫حضرت عثمان رضی ا عنہہ کے دورر خلفت میں اسلمی سرحدیں دور دور تک‬
‫پھیل چکی تھیں اور اسلم حدورد عرب سے نکل کر روم وفارس اور افریقہ کے‬
‫“بربری” قبائل تک پہنچ چکا تھا‪ ،‬ہرنئے علقہ کے لوگ جب مسلمان ہوتے تھے‬
‫تو اس علقہ کے سب سے مشہور قاری کی قرات کے مطابق قرآن پڑھنا سیکھتے‬
‫ل شام کے رہنے والے حضرت ابی بن کعب رضی ا عنہہ کی قرآت کے‬ ‫تھے‪ ،‬مث ل‬
‫مطابق قرآن پڑھتے تھے‪ ،‬کوفہ والے حضرت عبدا بن مسعود رضی ا عنہہ کی‬
‫قرات کے مطابق قرآن پڑھتے تھے؛ اسی طرح بعض علقہ والے حضرت ابوموسیی‬
‫اشعری رضی ا عنہہ کی قرات کے مطابق قرآن پڑھتے تھے اور ان حضرات کے‬
‫درمیان حروف کی ادائیگی اور قرات کے طریقوں میں اختلف پایا جاتا تھا؛ یہاں یہ‬
‫بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ا تعالیی نے اہرل عرب کی سہولت وآسانی کے لیے‬
‫سات حروف )سات حروف کے متعلق تفصیل جاننے کے لیے دیکھئے “علوم‬
‫القرآن”‪ (۹۷:‬پر قرآن نازل فرمایا؛ تاکہ مختلف لب ولہجوں میں قرآن کا پڑھنا ان‬
‫کے لیے آسان ہوجائے اور صحابہ کرام چونکہ اس حقیقت سے واقف ہوچکے‬
‫تھے اس لیے ان کے درمیان قراتوں میں اختلف ہونے کے باوجود وہ آپس میں‬
‫ایک دوسرے کا ادب واحترام کرتے تھے؛ لیکن جو لوگ نئے نئے اسلم میں داخل‬
‫ہورہے تھے وہ اس حقیقت سے واقف نہیں تھے اور ان کے لیے ساتوں حروف‬
‫کو مکمل طور سے جاننا آسان بھی نہ تھا‪ ،‬کہ اختلف ہونے کی صورت میں اس‬
‫کے ذریعہ فیصلہ کرسکیں‪ ،‬اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ آپس میں ملتے تھے اور‬
‫آپس میں قراتوں کے درمیان اختلف دیکھتے تھے تو ایک دوسرے کی تغلیط‬
‫کرتے تھے اور بسااوقات انکار تک نوبت آجاتی تھی‬
‫ان حالت میں اس بات کا خدشہ تھا کہ لوگ قرآن مجید کی متواتر قرارتوں کو غلط‬
‫قرار دینے کی سنگین غلطی میں مبتل ہو جائیں گے۔دوسرے ‪،‬حضرت زید بن ثابت‬
‫کے لکھے ہوئے نسخہ کے سواپورے عالم اسلم میں کوئی نسخہ نہ تھا جو پوری‬
‫امت کے لیے حجت بن سکے۔اس نسخہ کے علوہ باقی نسخے صحابہ کرام کے‬
‫ذاتی نسخے تھے۔ان میں سات حروف کو یکجا کرنے کا کوئی اہتمام نہ تھا۔ہر کسی‬
‫نے اپنی اپنی قرارت کے مطابق اپنااپنا نسخہ تحر یر کررکھا تھا۔اس طرح کے‬
‫جھگڑوں کے تصفیہ کے لیے کوئی قابرل اعتماد صورت یہی ہوسکتی تھی کہ ایسے‬
‫نسخے عالم اسلم میں پھیلدئے جائیں جن میں ساتوں حروف جمع ہوں اورانہی‬
‫کو دیکھ کہ یہ فیصلہ کیا جائے کہ کون سی قرارت صحیح اور کون سی غلط ہے۔‬
‫حضرت عثمان نے یہی کار نامہ سر انجام دیا۔‬
‫اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت عثمان رضی ا عنہہ کی خلفت‬
‫کے زمانہ میں )مدینہ منوررہ میں( ایک معلم ایک قرات کے مطابق قرآن پڑھتا تھا‬
‫اور دوسرا معلم دوسری قرات کے مطابق‪ ،‬جب بچے آپس میں ملتے تھے تو قرات‬
‫میں ایک دوسرے سے اختلف کرتے تھے اور رفتہ رفتہ اختلف معلمین تک پہنچ‬
‫جاتا تھا؛ پھران میں بھی اختلف رونما ہوکر بسااوقات ایک دوسرے کی تکفیر تک‬
‫نوبت پہنچ جاتی تھی‪ ،‬جب حضرت عثمان غنی رضی ا عنہ کو اس کی خبر پہنچی‬
‫تو آپٓ رضی ا عنہہ نے خطبہ دیا اور فرمایا‪“ :‬تم میرے پاس ہوتے ہوئے اس‬
‫طرح اختلف کررہے ہو تو جو لوگ مجھ سے دور شہروں میں ہوں گے وہ تم سے‬
‫زیادہ اختلف کریں گے‬
‫)فتح الباری‪۲۲//۹:‬۔ التقان‪(۱/۱۳۱:‬‬

‫حضرت عثمان رضی ا عنہہ پہلے سے اس مسئلہ میں فکرمند تھے‪ ،‬حضرت‬
‫حذیفہ رضی ا عنہہ کے واقعہ نے انھیں اور زیادہ سوچنے پر مجبور کردیا؛ انھوں‬
‫نے صحابہ رضوان ا علیہم اجمعین کو جمع فرمایا اور اس بارے میں ان سے‬
‫مشورہ کیا اور فرمایا‪”:‬مجھے یہ خبر پہونچی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ‬
‫میری قرات تمہاری قرات سے بہتر ہے اور یہ بات کفر تک پہونچ سکتی ہے”‬
‫صحابہ کرام رضوان ا علیہم اجمعین نے عرض کیا‪ :‬آپٓ کی اس بارے میں کیا‬
‫رائے ہے؟ حضرت عثمان رضی ا عنہہ نے فرمایا‪ :‬میری رائے ہے کہ ہم لوگوں‬
‫کو ایک مصحف پر جمع کردیں؛ تاکہ ان کے درمیان اختلف نہ ہو‪ ،‬صحابہ کرام‬
‫رضی ا عنہہ نے اس رائے کی تحسین فرماکر اس کی تائید فرمائی۔‬
‫)التقان‪ ،۱/۱۳۰:‬فتح الباری‪(۹/۲۲:‬‬

‫اس کے بعد حضرت عثمان رضی ا عنہہ نے حضرت حفصہ رضی ا عنہہ کے‬
‫پاس پیغام بھیجا کہ وہ صحیفے )جو حضرت ابوبکر رضی ا عنہہ کے حکم سے‬
‫تیار کئے گئے( جو آپٓ کے پاس موجود ہے‪ ،‬ہمارے پاس بھیج دیں‪ ،‬ہم اس کی نقل‬
‫کرواکر آپٓ کو واپس کردیں گے‪ ،‬تو حضرت حفصہ رضی ا عنہہ نے وہ صحیفے‬
‫حضرت عثمان رضی ا عنہہ کے پاس بھیج دیئے اس کے بعد حضرت عثمان رضی‬
‫ا عنہہ نے اس اہم کام کی تکمیل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جن کے بنیادی‬
‫طور پر چار ارکان تھے‬
‫حضرت زید بن ثابت رضی ا عنہہ )‪(۲‬عبدا بن زبیر رضی ا عنہہ )‪(۳‬سعید)‪(۱‬‬
‫بن العاص رضی ا عنہہ )‪(۴‬عبدالرحمن رضی ا عنہہ بن حارث بن ہشام‪ ،‬حضرت‬
‫عثمان رضی ا عنہہ نے ان کو اس کام پر مامور فرمایا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی‬
‫ا عنہہ کے صحیفوں سے قرآن مجید نقل کروا کر ایسے مصاحف تیار کرے جو‬
‫سورتوں کے اعتبار سے مرتب ہو۔‬
‫زید حضرت عثمان کا مقصد حضرت ابوبکر کی طرح صرف قرآن کریم کو دو گتوں‬
‫کے درمیان جمع کرنا نہیں تھا‪،‬بلکہ مسلمانوں کو ان تمام قراء ات پر جمع کرنا‬
‫تھاجو رسول ا صلی ا علیہ وسلم سے ثابت اور معروف تھیں ۔ اور مقصد ایسی‬
‫تمام قراء ات کو خارج کرنا تھا جو آپٓ صلی ا علیہ وسلم سے ثابت اور معروف‬
‫نہیں تھیں ۔ ایک ایسا مصحف اامت کے لئے پیش کرنا تھاجس میں کوئی کمی‬
‫بیشی‪ ،‬نہ تقدیم و تاخیر اور نہ کوئی ایسی قراء ت یا آ یت شامل ہونے پائے جس‬
‫کی تلوت منسوخ ہو چکی تھی۔ اور اس انداز سے لکھا جائے کہ اس کے رسم‬
‫الخط میں تمام قراء ات محفوظ ہو جائیں ۔تاکہ بعد میں کسی خرابی یا شبہات کے‬
‫راہ پانے کا امکان ختم ہو جائے ۔‬
‫اسی لیے حضرت عثمان رضی ا عنہ نے اسی مقصرد عظیم کی خاطر کہ کتاب ایلہی‬
‫میں کسی اختلف کی گنجائش نہ رہ جائے‪ ،‬ایک طرف تو سات مصاحف عثمانی‬
‫تیار کرا کے تمام بلرد اسلمی میں پھیل دیے اور ان کو معیاری مصحف قرار دے‬
‫کر صرف انہی کی نقول کرنا لزمی قرار دیا‪ ،‬دوسری طرف ایسے تمام نسخوں اور‬
‫صحیفوں کو صفحہ ہستی سے نابود کر دیا جو اس اصل معیاری قرآن مجید کے‬
‫نسخہ سے مختلف تھے‪ ،‬تاکہ امت اسلمی کتاب ا پر متحد و متفق رہے‪ ،‬اختلف‬
‫ب‬
‫ت کتا ر‬
‫سے بچے اور ایک قرآن کی پابند رہے۔ یہ کارنامہ عظیم تھا جس نے وحد ر‬
‫ت امت اور اتحاد اسلمی کی راہ ہموار کی۔ یہی حکمت تھی کہ‬ ‫ایلہی کے ذریعہ وحد ر‬
‫حضرت علی نے فرمایاتھا‬
‫ترجمہ‬
‫اگر حضرت عثماہن کی جگہ پر میں حکمران ہوتا تو میں بھی وہی کچھ کرتا جو”‬
‫حضرت عثماہن نے کیا ہے۔”)تفسیر قِرطبی‪1 :‬؍‪(54‬‬
‫قِرآن کریم کے انفرادی نسخوں کےجلنے کا یہ اقِدام حضرت عثمان رضی ا عنہ‬
‫نے صحابہ کے مشورے کے مطابق کیا تھا۔ تمام مصاحف قِرآنی کے فنا ہونے کے‬
‫بعد صرف مصحف عثمانی کی صورت میں قِرآن مجید کا مستند ترین متن مقدس‬
‫محفوظ ہو گیا تھا اور اس پر صحابہ کرام کا اجتماع و اجماع اور اتفاق تھا‪ ،‬حتی کہ‬
‫حضرت عبدا بن مسعود رضی ا عنہ جیسے صحابہ کرام کو بھی‪ ،‬جن کو اپنے‬
‫ذاتی مصاحف کی تلفی کا شدید غم اور حضرت عثمان سے بہت شکوہ تھا)انکی اس‬
‫کے ساتھ یادیں وابستہ تھیں ناکہ اس وجہ سے کہ ان میں مصاحف عثمانی سے ہٹ‬
‫کر کوئی خاص بات تھی ‪ ،‬سورتوں کی ترتیب کا فرق جو ترتیب نزولی آیات کی‬
‫وجہ سے تھا ‘ کے علوہ اس میں کوئی فرق کسی صحیح روایت سے نہیں ملتا (‪،‬‬
‫مصاحف عثمانی کی صورت میں اتحاد امت اور وحدت قِرآن کی حکمت سمجھ میں آ‬
‫گئی تو ان کا شکوہ جاتا رہا اور وہ بھی متفق ہو گئے۔‬
‫یہی اعتماد ان مصاحف کو تمام عالم اسلم میں مل ‪ ،‬جن علقِوں میں یہ مصاحف‬
‫بھیجے گئے تھے‪ ،‬وہاں کے باشندوں نے بھی ان مصاحف کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان‬
‫مصاحف کو ان کے ہاں اعلیی مقام اور مقدس حیثیت حاصل ہوگئی‪ ،‬کیونکہ وہ‬
‫جانتے تھے کہ ان مصاحف کی تدوین کسی فرد واحد کی کارروائی نہیں ہے‪ ،‬بلکہ‬
‫ان کی پشت پر قِرآن کے اولین حفاظ‪ ،‬کاتبین وحی تمام اصحاب رسوپل کا اجماع‬
‫موجود ہے‪ ،‬جنہیں دربار رسالپت سے مدح و توصیف کا وہ پروانہ عطا ہوا ہے جس‬
‫کے وہ واقِعی مستحق تھے۔‬
‫خلفائے راشدین کے عہد کے بعد قرآن کی تدوین وکتابت‬
‫ور عثمانی میں مصاحف کی جو نقلیں تیار کرکے مختلف بلد اسلمیہ کو بھیجی گئیں تھیں‪ ،‬وہ‬
‫ایسے رسم الخط پر مشتمل تھیں جو ساتوں حروف کا متحمل ہو سکے ۔ اسی مقصد کے پیش‬
‫نظر ان مصاحف کو نقطوں اورحرکات سے خالی رکھا گیا تاکہ ان حروف کی تمام متواتر قِراء‬
‫ات __ جو عرضۂ اخیرہ کے وقِت باقِی رکھی گئی تھیں اور ان کی تلوت منسوخ نہیں ہوئی‬
‫تھی __ ان میں سما جائیں۔‬

‫یہ مصاحف ایک زمانہ تک بلد اسلمیہ میں رائج رہے‪ ،‬لیکن جب اسلمی فتوحات کا دائرہ‬
‫وسیع ہوگیا‪ ،‬بے شمار عجمی ممالک اسلم کے زیر سایہ آگئے اور عربی اور عجمی زبانوں کا‬
‫باہم اختلط بڑھا توعربی زبان میں لحن عام ہوگیا۔ اوریہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں فصیح عربی‬
‫زبان عجمی اثرات سے ناپید نہ ہوجائے۔ مزید یہ کہ عجمی لوگوں کے لئے قِرآن کریم کو بغیر‬
‫نقطوں اور حرکات کے پڑھنا کافی دشوار تھا ۔چنانچہ اسلمی حکومت کے سامنے یہ خطرہ پیدا‬
‫ہوا کہ کہیں یہ صورت حال کتاب ا میں لحن اور لفظی تحریف پر منتج نہ ہو۔ لیہذا اانہوں نے‬
‫اس صورت حال کے ممکنہ نتائج و اثرات سے نمٹنے کے لئے اس میں نقطوں اور حرکات کا‬
‫اضافہ کیا جائے؛ تاکہ تمام لوگ آسانی سے اس کی تلوت کرسکیں‪ ،‬اس مقصد کے لیے مختلف‬
‫اقِدامات کئے گئے‪ ،‬جن کی مختصر تاریخ درج ذیل ہے‬

‫نقطے‬
‫اہل عرب میں ابتداا حروف پر نقطے لگانے کا رواج نہیں تھا اور پڑھنے والے اس‬
‫طرز کے اتنے عادی تھے کہ انھیں بغیرنقطوں کی تحریر پڑھنے میں کوئی‬
‫دشواری نہیں ہوتی تھی اور سیاق وسباق کی مدد سے مشتبہ حروف میں امتیاز بھی‬
‫بہ آسانی ہوجاتا تھا‪ ،‬خاص طور سے قِرآن کریم کے معاملے میں کسی اشتباہ کا‬
‫امکان اس لیے نہیں تھا کہ اس کی حفاظت کا مدار کتابت پر نہیں؛ بلکہ حافظوں پر‬
‫تھا اور حضرت عثمان رضی ا عنہ نے جو نسخے عالم اسلم کے مختلف حصوں‬
‫میں بھیجے تھے ان کے ساتھ قِاری بھی بھیجے گئے تھے‪ ،‬جو اسے پڑھنا‬
‫سکھاسکیں۔‬
‫نقطے کے دو مفہوم ہیں‬
‫اس سے مرادوہ علمات ہیں جو کسی حرف پر حرکت و سکون اور شدومد وغیرہ‬
‫کی شکل میں لگائی جاتی ہیں۔ چنانچہ بعض لوگوں نے ان نقطوں کو نقط العراب‬
‫کا نام دیا ہے۔‬
‫اس سے مراد وہ نشانات ہیں جو ایک جیسے رسم والے حروف‪،‬مثلل ب‪ ،‬ت‪ ،‬ث‬
‫وغیرہ پر لگائے جاتے ہیں‪ ،‬تاکہ معجم اور مہمل حروف کے درمیان امتیاز‬
‫ہوسکے۔ چنانچہ ب کے ایک نقطے نے اسے اس کے ہم رسم حروف ت اور ثسے‬
‫ممیز کردیاہے اور ج کے نقطے نے اسے اس سے ہم رسم حروف حاور خ سے‬
‫ممیز کردیا ہے۔ اسی طرح د اور ذ اور ر‪ ،‬ز وغیرہ کا معاملہ ہے۔ بعض لوگوں نے‬
‫ان نقطوں کو نقاط العجام کا نام دیا ہے۔‬
‫حرکات‪.‬‬
‫نقطوں کی طرح شروع میں قِرآن کریم پر حرکات )زیر‪ ،‬زبر‪ ،‬پیش( بھی نہیں تھیں‬
‫اور اس میں بھی روایات کا بڑا اختلف ہے کہ سب سے پہلے کس نے حرکات‬
‫لگائیں؟ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ کام سب سے پہلے ابوالسود دولی رحمہ‬
‫ا نے انجام دیا‪ ،‬بعض کہتے ہیں کہ یہ کام حجاج بن یوسف نے یحییی بن یعمر‬
‫رحمہ ا اور نصر بن عاصم لیثی رحمہ ا سے کرایا۔‬
‫)قِرطبی‪(۱/۶۳ :‬‬

‫اس سلسلے میں تمام روایات کو پیش نظر رکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حرکات‬
‫سب سے پہلے ابوالسود دولیی نے وضع کیں؛ لیکن یہ حرکات ااس طرح کی نہ تھیں‬
‫جیسی آجکل رائج ہیں؛ بلکہ زبر کے لیے حرف کے اوپر ایک نقطہ ) ‪ (—.‬زیر‬
‫کے لیے حرف کے نیچے ایک نقطہ ) ‪ (—.‬اور پیش کے لیے حرف کے سامنے‬
‫ایک نقطہ )‪ (—.‬اور تنوین کے لیے دو نقطے ‪ (—..‬یا ‪ —..‬یا )‪ —..‬مقرر کیئے‬
‫گئے بعد میں خلیل بن احمد رحمہ ا نے ہمزہ اور تشدید کی علمتیں وضع کیں‬
‫)صبح العشی‪۳ :‬؍‪ (۱۶۱ ،۱۶۰‬اس کے بعد حجاج بن یوسف نے یحییی بن یعمر‬
‫رحمہ ا‪ ،‬نصر بن عاصم لیثی رحمہ ا اور حسن بصریی سے بیک وقِت قِرآن کریم‬
‫پر نقطے اور حرکات دونوں لگانے کی فرمائش کی‪ ،‬اس موقِع پر حرکات کے‬
‫اظہار کے لیے نقطوں کے بجائے زیر‪ ،‬زبر‪ ،‬پیش کی موجودہ صورتیں مقرر کی‬
‫گئیں؛ تاکہ حروف کے ذاتی نقطوں سے اان کا التباس پیش نہ آئے۔‬
‫عباسی دورر حکومت‬
‫اس دور میں علم نحو کے عظیم ماہرخلیل بن احمد فراہیدی نے ابواسود یکے نقط الشکل کو‬
‫سامنے رکھتے ہوئے وقِت کے تقاضوں کے مطابق نئی علمات ضبط ایجاد کیں اور یہی وہ‬
‫علمات ضبط ہیں جو آج تک رائج چلی آرہی ہیں۔ اس نے الشکل بالنقاط کی بجائے الشکل‬
‫بالحرکات کا طریقہ ایجاد کیا ‪،‬یعنی اس نے ضمہ )پیش( کے لئے حرف کے اوپر چھوٹی سی‬
‫واو ‪ ،‬فتحہ )زبر( کے لئے حرف کے اوپر ترچھی لکیراور کسرہ )زیر(کے لئے حرف کے‬
‫یا تشدید کے لئے حرف کے اوپر س کا سرا اور جزم کے )‪(ii‬نیچے ایک ترچھی لکیر اورشد‬
‫لئے ج کا سرا اور مد کے لئے حرف کے اوپر آ کی علمت کو اختیار کیا۔اسی طرح اس نے‬
‫اصطلحات وقِف ‘رروم’ و ‘اشمام’ کی دیگر علمات وضع کیں۔ پھر خوبصورتی اور اختصار‬
‫کی خاطر ان علمات میں مزید اصلحات و ترمیمات کی گئیں۔ اور ارتقا کے ان مختلف مراحل‬
‫کے بعد علمات ضبط کا یہ طریقہ رائج ہوا جو اس وقِت ہمارے سامنے موجود ہے۔‬

‫منزلیں‬

‫صحابہ اور تابعین کا معمول تھا وہ ہرہفتے ایک قِرآن ختم کرلیتے تھے اس مقصد کے لیے‬
‫انہوں نے روزانہ تلوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے “حزب” یا “منزل” کہا جاتا‬
‫ہے‪ ،‬اس طرح پورے قِرآن کو کل سات احزاب پر تقسیم کیا گیا تھا۔‬

‫)البرہان‪(۱/۲۵۰ :‬‬

You might also like