Professional Documents
Culture Documents
عہد رسالت میں مذکورہ دونوں معنوں میں حفاظت قِرآن کا انتظام ہوا۔ جہاں تک پہلے معنی کا
تعلق ہے تو خود رسول ا صلی ا علیہ وسلم نے قِرآن کریم کو اپنے سینہ میں محفوظ کیا اور
قِرآن کریم آپپ کے صفحات قِلب پر نقش تھا۔ نیز آپ کے دور میں متعدد صحابہہ قِرآن کریم کے
حافظ تھے
جہاں تک دوسرے معنی میں حفاظت قِرآن کا تعلق ہے تو اس کا اہتمام بھی دور نبوپی میں بخوبی
ہوا۔ آپ صلی ا علیہ وسلم کی نگرانی میں اور آپپ کے سامنے مکمل قِرآن کریم لکھا گیا،اگرچہ
پتھروں ،کاغذ اور چمڑے کے ٹکڑوں پر ہی سہی ،لیکن یہ بات حتمی طور پر کہی جاسکتی
ہے کہ ابھی رسول ا صلی ا علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا تھا کہ قِرآن کریم اکثر صحابہ کے
سینوں میں محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف اشیا پر تحریری شکل میں بھی موجود تھا۔
خود نبی پاک صلی ا علیہ وسلم قِرآن پاک کے یاد کرنے اور اس کے حفظ کرنے کے سلسلہ
میں اس قِدر حریص تھے کہ نزول وحی کے وقِت آپ اس کے الفاظ کو اسی وقِت دوہرانے
لگتے تھے تاکہ اچھی طرح یاد ہوجائے اور کوئی کلمہ یاحرف دوران وحی ان سے چھوٹنے نہ
،پائے
ترجمہ
آپ قِرآن پاک کو جلدی یاد کرنے کے خیال سے اپنی زبان کو حرکت نہ دیجئے )کیونکہ( اس
)قِرآن( کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوانا ہم نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے
صرف نبی علیہ السلم بلکہ انکے صحابہ رضوان ا علیہم کی ایک بڑی تعداد نے قِرآن مجید
صحابہ کرام رضوان ا علیہم اجمعین نے اپنے خداداد بے نظیرحافظے
ٴ زبانی یاد کر رکھا تھا۔
کو جاہلیت کے اشعار ،انساب عرب حتی کے اونٹوں اور گھوڑوں کی نسلوں کے حفظ سے ہٹا
کر ،آیات ایلہی کے حفظ پر لگادیا ،اہل عرب کو صدیوں تک کی گمراہی کے اندھیروں میں
بھٹکنے کے بعد قِرآن کریم کی وہ منزل ہدایت نصیب ہوئی تھی جسے وہ اپنی زندگی کا سب
سے عزیز سرمایہ تصور کرتے تھے ،اس لیے انھوں نے اسے یاد رکھنے کے لیے کیا کچھ
اہتمام کیا
اگرچہ دور نبوپی میں قِرآن کریم کی حفاظت کا بنیادی دارومدار حفظ پر تھا ،لیکن اس کے
باوجود اسے تحریر میں لنا ضروری سمجھا گیا کہ اس کے ایک ایک لفظ کی حفاظت میں کسی
قِسم کی کوئی کمی نہ رہ جائے ۔نیز قِرآن کریم صحابہ کرام ہکے لئے ایک مقدس متاع کی حیثیت
رکھتا تھا ،لیہذا اانہوں نے انفرادی حیثیت سے بھی بطور یادگار اسے ضبط تحریر میں لنے کا
اہتمام کیا ،جیسا کہ عموما ا نادر اور نایاب اشیا کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
نزول قِرآن مجید کے زمانہ میں ایجادات و مصنوعات کی کمی ضرور تھی ،جس طرح آج کاغذ،
قِلم اور دوات کی بے شمار قِسمیں دریافت ہیں ،اس زمانہ میں اتنی ہرگز نہ تھیں؛ لیکن ایسا بھی
نہیں کہ اس وقِت کاغذ اور کتابیں دریافت نہ تھیں ،یمن ،روم اور فارس میں کتب خانے بھی
تھے ،یہود و نصاریی کے پاس کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا ،اس زمانے میں ”کاغذ“ وغیرہ کی
صنعتیں بھی تھیں؛ لیکن بڑے پیمانے پر نہ ہونے کی وجہ سے کاغذ وغیرہ ہر جگہ دریافت نہ
تھے؛ اس لیے لکھنے کے لیے جو چیز بھی قِابل اور پائدار سمجھ میں آتی اس پر لکھ لیا جاتا
تھا
حضرت ابوبکر صدیق کے دورر حکومت میں تدوین قرآن کی صورت یہ تھی کہ اسے مختلف
پارچوں سے نقل کرکے ایک جگہ )کاغذ( پریکجا کیا گیا۔یہ نسخہ بہت سے صحیفوں پر مشتمل
تھا اورہر سورت الگ الگ صحیفے میں لکھی گئی تھی۔اور صرف وہی کچھ لکھا گیا جس کا
قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوا تھا۔ ) وہ آیات اور حروف نکال دیے گئے جن کی تلوت منسوخ
ہو چکی تھی۔(
دورر صدیقی میں قرآرن کریم کے منتشر حصوں کو یکجا کرنے کا مقصد قرآن مجید کی حفاظت
کو یقینی بنانا تھا ،کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں حاملین قرآن اور حفاظ صحابہ کی وفات سے قرآرن
مجید کا کوئی حصہ ضائع نہ ہوجائے۔
اس عظیم سانحہ کی وجہ سے بعض اجلۂ صحابہ رضی ا عنہم بالخصوص حضرت عمر
رضی ا عنہ کو تشویش لحق ہوئی جس کی تفصیل صحیح بخاری میں حضرت زید بن ثابت
” :رضی ا عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں
جنگ یمامہ کے بعد مجھے امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی ا عنہ نے بلیا میں
پہنچا تو وہاں پہلے سے حضرت عمر رضی ا عنہ بھی تشریف فرما تھے ،حضرت صدیق
اکبررضی ا عنہہ نے فرمایا کہ یہ عمررضی ا عنہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ
یمامہ کے شدید معرکہ میں بہت سے حفاظ کام آگئے ہیں ،مجھے اندیشہ ہے کہ اگر ایسے ہی
دیگر معرکوں میں حفاظ شہید ہوتے رہے تو قِرآن مجید کا بہت سا حصہ ان کے سینوں ہی میں
چلجائے گا؛ اس لیے عمررضی ا عنہہ کہتے ہیں کہ میں )ابوبکررضی ا عنہہ( قِرآن مجید
کے جمع وتدوین کا اہتمام کروں )حضرت ابوبکر صدیق رضی ا عنہہ فرماتے ہیں کہ( میں ان
سے کہہ چکا ہوں کہ جس کام کو حضور صلی ا علیہ وسلم نے نہیں کیا وہ ہم کیسے کریں
)لیکن( عمررضی ا عنہہ کہتے ہیں خدا کی قِسم اس میں سراپا خیر ہی ہے یہ مجھ سے بار بار
تقاضا کرتے رہے؛ آخر ا تعالیی نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا اور اب میری
بھی وہی رائے ہے جو عمررضی ا عنہہ کی ہے ،زید کہتے ہیں :حضرت ابوبکرصدیق رضی
ا عنہہ نے مجھ سے فرمایا :تم نوجوان ہو سمجھدار ہو کسی طرح کی تہمت بھی ہم تمہارے
)اور تمہارے دین ودیانت کے(بارے میں نہیں پاتے اور تم رسول ا صلی ا علیہ وسلم کے
کاتب وحی بھی ہو تم قِرآن کریم )کے مختلف اجزاء( کو تلشا کرو اور اس کو جمع کرو!
حضرت زید رضی ا عنہہ کہتے ہیں :کہ خدا کی قِسم اگر وہ لوگ مجھے کسی پہاڑ کے ایک
جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم فرماتے تو یہ میرے لیے زیادہ آسان تھا ،بنسبت اس
کام کے جس کا انھوں نے مجھے حکم دیا ہے ،یعنی جمع قِرآن کا حضرت زید رضی ا عنہہ
کہتے ہیں :کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ حضرات ایسا کام کیسے کررہے ہیں جس کو رسول ا
صلی ا علیہ وسلم نے نہیں کیا تو حضرت ابوبکر رضی ا عنہہ نے فرمایا :بخدا یہ تو اچھا ہی
کام ہے ،حضرت زید رضی ا عنہہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی ا عنہہ اس بارے
میں بار بار مجھ سے اصرار کرتے رہے؛ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی ا عنہہ وعمر
رضی ا عنہہ کی طرح ا تعالیی نے میرا سینہ بھی اس کام کے لیے کھول دیا )پھر میں صرف
حکم کی تعمیل میں نہیں بلکہ واقِعی ایک اہم ضرورت سمجھ کر اس کام کے لیے تیار ہوگیا(
پھر میں نے قِرآن کریم کے اجزاء کو تلشا کرنا شروع کیا او راسے کھجور کی شاخوں ،پتھر
کی سلوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کرنے لگا؛ یہاں تک کہ سورۃ توبہ کی آخری آیتیں
ص رعلرییاکیم بایلامیؤمنییرن رراء و م
ف ررحییمم” )التوبۃ: ئ اکیم رراسیومل مین أرینفاساکیم رعزییمز رعلرییہ رمارعنتتیم رحری م
“لرقرید رجا ر
“ (۱۲۸ابوخزیمہ انصاری رضی ا عنہہ کے پاس ملی جو کسی اور کے پاس نہیں تھیں”۔
)صحیح بخاری ،کتاب فضائل القرآن ،باب جمع القرآن(۲۰/۴۹۸۶:
دوسرے سینکڑوں حفاظ کے علوہ خود حضرت زید بھی حافظ تھے اور ان کو یہ معلوم تھا کہ
یہ آیات کہا ں اور کس سورت سے متعلق ہیں اسی لیے انہوں نے اسکو صحابہ کے پاس تلشا
بھی کیا ۔!! اس ضمن میں صحابہ کی تلشا تائید وتقویت کے لئے تھی کہ حفظ وحافظے کے
علوہ لکھے ہوئے سے بھی اسکی تائید ہوجائے اور وہ ابوخزیمہ انصاری سے مل گئی ۔ یہ اس
بات کی دلیل ہے کہ حضرت زید نے تنہاء حافظے پر اعتماد نہیں کیا ،سورئہ براءۃ کی آخری
آیات باوجودیکہ حضرت زید کو حفظ تھیں اور ان کے علوہ متعدد صحابہ کو بھی حفظ تھیں ،
لیکن اس وقِت تک اانہیں درج نہیں کیا جب تک کہ کسی صحابی )حضرت خزیمہہ ( کے پاس
بھی لکھی شہادت نہیں مل گئی ۔یہ اس بات کی گواہی ہے کہ تدوین کے سلسلے میں کس قِدر
احتیاط کا اہتمام کیا گیا۔
قِرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی ا عنہ کے پاس رہا ،جب ان
وفات ہو گئی تو حضرت عمر رضی ا عنہ کے پاس محفوظ رہا ،جب ان کی بھی وفات ہو گئی
المومنین حضرت حفصہ رضی ا عنہا کے پاس محفوظ تو )وصیت کے مطابق( آپ کی بیٹی ام ٴ
رکھا رہا )صحیح بخاری (۲/۷۴۶حضرت عثمان غنی رضی ا عنہ نے ان کے پاس سے ہی
منگوا کر نقول تیار کرائے تھے۔
حضرت عثمان رضی ا عنہہ پہلے سے اس مسئلہ میں فکرمند تھے ،حضرت
حذیفہ رضی ا عنہہ کے واقعہ نے انھیں اور زیادہ سوچنے پر مجبور کردیا؛ انھوں
نے صحابہ رضوان ا علیہم اجمعین کو جمع فرمایا اور اس بارے میں ان سے
مشورہ کیا اور فرمایا”:مجھے یہ خبر پہونچی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ
میری قرات تمہاری قرات سے بہتر ہے اور یہ بات کفر تک پہونچ سکتی ہے”
صحابہ کرام رضوان ا علیہم اجمعین نے عرض کیا :آپٓ کی اس بارے میں کیا
رائے ہے؟ حضرت عثمان رضی ا عنہہ نے فرمایا :میری رائے ہے کہ ہم لوگوں
کو ایک مصحف پر جمع کردیں؛ تاکہ ان کے درمیان اختلف نہ ہو ،صحابہ کرام
رضی ا عنہہ نے اس رائے کی تحسین فرماکر اس کی تائید فرمائی۔
)التقان ،۱/۱۳۰:فتح الباری(۹/۲۲:
اس کے بعد حضرت عثمان رضی ا عنہہ نے حضرت حفصہ رضی ا عنہہ کے
پاس پیغام بھیجا کہ وہ صحیفے )جو حضرت ابوبکر رضی ا عنہہ کے حکم سے
تیار کئے گئے( جو آپٓ کے پاس موجود ہے ،ہمارے پاس بھیج دیں ،ہم اس کی نقل
کرواکر آپٓ کو واپس کردیں گے ،تو حضرت حفصہ رضی ا عنہہ نے وہ صحیفے
حضرت عثمان رضی ا عنہہ کے پاس بھیج دیئے اس کے بعد حضرت عثمان رضی
ا عنہہ نے اس اہم کام کی تکمیل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جن کے بنیادی
طور پر چار ارکان تھے
حضرت زید بن ثابت رضی ا عنہہ )(۲عبدا بن زبیر رضی ا عنہہ )(۳سعید)(۱
بن العاص رضی ا عنہہ )(۴عبدالرحمن رضی ا عنہہ بن حارث بن ہشام ،حضرت
عثمان رضی ا عنہہ نے ان کو اس کام پر مامور فرمایا کہ وہ حضرت ابوبکر رضی
ا عنہہ کے صحیفوں سے قرآن مجید نقل کروا کر ایسے مصاحف تیار کرے جو
سورتوں کے اعتبار سے مرتب ہو۔
زید حضرت عثمان کا مقصد حضرت ابوبکر کی طرح صرف قرآن کریم کو دو گتوں
کے درمیان جمع کرنا نہیں تھا،بلکہ مسلمانوں کو ان تمام قراء ات پر جمع کرنا
تھاجو رسول ا صلی ا علیہ وسلم سے ثابت اور معروف تھیں ۔ اور مقصد ایسی
تمام قراء ات کو خارج کرنا تھا جو آپٓ صلی ا علیہ وسلم سے ثابت اور معروف
نہیں تھیں ۔ ایک ایسا مصحف اامت کے لئے پیش کرنا تھاجس میں کوئی کمی
بیشی ،نہ تقدیم و تاخیر اور نہ کوئی ایسی قراء ت یا آ یت شامل ہونے پائے جس
کی تلوت منسوخ ہو چکی تھی۔ اور اس انداز سے لکھا جائے کہ اس کے رسم
الخط میں تمام قراء ات محفوظ ہو جائیں ۔تاکہ بعد میں کسی خرابی یا شبہات کے
راہ پانے کا امکان ختم ہو جائے ۔
اسی لیے حضرت عثمان رضی ا عنہ نے اسی مقصرد عظیم کی خاطر کہ کتاب ایلہی
میں کسی اختلف کی گنجائش نہ رہ جائے ،ایک طرف تو سات مصاحف عثمانی
تیار کرا کے تمام بلرد اسلمی میں پھیل دیے اور ان کو معیاری مصحف قرار دے
کر صرف انہی کی نقول کرنا لزمی قرار دیا ،دوسری طرف ایسے تمام نسخوں اور
صحیفوں کو صفحہ ہستی سے نابود کر دیا جو اس اصل معیاری قرآن مجید کے
نسخہ سے مختلف تھے ،تاکہ امت اسلمی کتاب ا پر متحد و متفق رہے ،اختلف
ب
ت کتا ر
سے بچے اور ایک قرآن کی پابند رہے۔ یہ کارنامہ عظیم تھا جس نے وحد ر
ت امت اور اتحاد اسلمی کی راہ ہموار کی۔ یہی حکمت تھی کہ ایلہی کے ذریعہ وحد ر
حضرت علی نے فرمایاتھا
ترجمہ
اگر حضرت عثماہن کی جگہ پر میں حکمران ہوتا تو میں بھی وہی کچھ کرتا جو”
حضرت عثماہن نے کیا ہے۔”)تفسیر قِرطبی1 :؍(54
قِرآن کریم کے انفرادی نسخوں کےجلنے کا یہ اقِدام حضرت عثمان رضی ا عنہ
نے صحابہ کے مشورے کے مطابق کیا تھا۔ تمام مصاحف قِرآنی کے فنا ہونے کے
بعد صرف مصحف عثمانی کی صورت میں قِرآن مجید کا مستند ترین متن مقدس
محفوظ ہو گیا تھا اور اس پر صحابہ کرام کا اجتماع و اجماع اور اتفاق تھا ،حتی کہ
حضرت عبدا بن مسعود رضی ا عنہ جیسے صحابہ کرام کو بھی ،جن کو اپنے
ذاتی مصاحف کی تلفی کا شدید غم اور حضرت عثمان سے بہت شکوہ تھا)انکی اس
کے ساتھ یادیں وابستہ تھیں ناکہ اس وجہ سے کہ ان میں مصاحف عثمانی سے ہٹ
کر کوئی خاص بات تھی ،سورتوں کی ترتیب کا فرق جو ترتیب نزولی آیات کی
وجہ سے تھا ‘ کے علوہ اس میں کوئی فرق کسی صحیح روایت سے نہیں ملتا (،
مصاحف عثمانی کی صورت میں اتحاد امت اور وحدت قِرآن کی حکمت سمجھ میں آ
گئی تو ان کا شکوہ جاتا رہا اور وہ بھی متفق ہو گئے۔
یہی اعتماد ان مصاحف کو تمام عالم اسلم میں مل ،جن علقِوں میں یہ مصاحف
بھیجے گئے تھے ،وہاں کے باشندوں نے بھی ان مصاحف کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان
مصاحف کو ان کے ہاں اعلیی مقام اور مقدس حیثیت حاصل ہوگئی ،کیونکہ وہ
جانتے تھے کہ ان مصاحف کی تدوین کسی فرد واحد کی کارروائی نہیں ہے ،بلکہ
ان کی پشت پر قِرآن کے اولین حفاظ ،کاتبین وحی تمام اصحاب رسوپل کا اجماع
موجود ہے ،جنہیں دربار رسالپت سے مدح و توصیف کا وہ پروانہ عطا ہوا ہے جس
کے وہ واقِعی مستحق تھے۔
خلفائے راشدین کے عہد کے بعد قرآن کی تدوین وکتابت
ور عثمانی میں مصاحف کی جو نقلیں تیار کرکے مختلف بلد اسلمیہ کو بھیجی گئیں تھیں ،وہ
ایسے رسم الخط پر مشتمل تھیں جو ساتوں حروف کا متحمل ہو سکے ۔ اسی مقصد کے پیش
نظر ان مصاحف کو نقطوں اورحرکات سے خالی رکھا گیا تاکہ ان حروف کی تمام متواتر قِراء
ات __ جو عرضۂ اخیرہ کے وقِت باقِی رکھی گئی تھیں اور ان کی تلوت منسوخ نہیں ہوئی
تھی __ ان میں سما جائیں۔
یہ مصاحف ایک زمانہ تک بلد اسلمیہ میں رائج رہے ،لیکن جب اسلمی فتوحات کا دائرہ
وسیع ہوگیا ،بے شمار عجمی ممالک اسلم کے زیر سایہ آگئے اور عربی اور عجمی زبانوں کا
باہم اختلط بڑھا توعربی زبان میں لحن عام ہوگیا۔ اوریہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں فصیح عربی
زبان عجمی اثرات سے ناپید نہ ہوجائے۔ مزید یہ کہ عجمی لوگوں کے لئے قِرآن کریم کو بغیر
نقطوں اور حرکات کے پڑھنا کافی دشوار تھا ۔چنانچہ اسلمی حکومت کے سامنے یہ خطرہ پیدا
ہوا کہ کہیں یہ صورت حال کتاب ا میں لحن اور لفظی تحریف پر منتج نہ ہو۔ لیہذا اانہوں نے
اس صورت حال کے ممکنہ نتائج و اثرات سے نمٹنے کے لئے اس میں نقطوں اور حرکات کا
اضافہ کیا جائے؛ تاکہ تمام لوگ آسانی سے اس کی تلوت کرسکیں ،اس مقصد کے لیے مختلف
اقِدامات کئے گئے ،جن کی مختصر تاریخ درج ذیل ہے
نقطے
اہل عرب میں ابتداا حروف پر نقطے لگانے کا رواج نہیں تھا اور پڑھنے والے اس
طرز کے اتنے عادی تھے کہ انھیں بغیرنقطوں کی تحریر پڑھنے میں کوئی
دشواری نہیں ہوتی تھی اور سیاق وسباق کی مدد سے مشتبہ حروف میں امتیاز بھی
بہ آسانی ہوجاتا تھا ،خاص طور سے قِرآن کریم کے معاملے میں کسی اشتباہ کا
امکان اس لیے نہیں تھا کہ اس کی حفاظت کا مدار کتابت پر نہیں؛ بلکہ حافظوں پر
تھا اور حضرت عثمان رضی ا عنہ نے جو نسخے عالم اسلم کے مختلف حصوں
میں بھیجے تھے ان کے ساتھ قِاری بھی بھیجے گئے تھے ،جو اسے پڑھنا
سکھاسکیں۔
نقطے کے دو مفہوم ہیں
اس سے مرادوہ علمات ہیں جو کسی حرف پر حرکت و سکون اور شدومد وغیرہ
کی شکل میں لگائی جاتی ہیں۔ چنانچہ بعض لوگوں نے ان نقطوں کو نقط العراب
کا نام دیا ہے۔
اس سے مراد وہ نشانات ہیں جو ایک جیسے رسم والے حروف،مثلل ب ،ت ،ث
وغیرہ پر لگائے جاتے ہیں ،تاکہ معجم اور مہمل حروف کے درمیان امتیاز
ہوسکے۔ چنانچہ ب کے ایک نقطے نے اسے اس کے ہم رسم حروف ت اور ثسے
ممیز کردیاہے اور ج کے نقطے نے اسے اس سے ہم رسم حروف حاور خ سے
ممیز کردیا ہے۔ اسی طرح د اور ذ اور ر ،ز وغیرہ کا معاملہ ہے۔ بعض لوگوں نے
ان نقطوں کو نقاط العجام کا نام دیا ہے۔
حرکات.
نقطوں کی طرح شروع میں قِرآن کریم پر حرکات )زیر ،زبر ،پیش( بھی نہیں تھیں
اور اس میں بھی روایات کا بڑا اختلف ہے کہ سب سے پہلے کس نے حرکات
لگائیں؟ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ کام سب سے پہلے ابوالسود دولی رحمہ
ا نے انجام دیا ،بعض کہتے ہیں کہ یہ کام حجاج بن یوسف نے یحییی بن یعمر
رحمہ ا اور نصر بن عاصم لیثی رحمہ ا سے کرایا۔
)قِرطبی(۱/۶۳ :
اس سلسلے میں تمام روایات کو پیش نظر رکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حرکات
سب سے پہلے ابوالسود دولیی نے وضع کیں؛ لیکن یہ حرکات ااس طرح کی نہ تھیں
جیسی آجکل رائج ہیں؛ بلکہ زبر کے لیے حرف کے اوپر ایک نقطہ ) (—.زیر
کے لیے حرف کے نیچے ایک نقطہ ) (—.اور پیش کے لیے حرف کے سامنے
ایک نقطہ ) (—.اور تنوین کے لیے دو نقطے (—..یا —..یا ) —..مقرر کیئے
گئے بعد میں خلیل بن احمد رحمہ ا نے ہمزہ اور تشدید کی علمتیں وضع کیں
)صبح العشی۳ :؍ (۱۶۱ ،۱۶۰اس کے بعد حجاج بن یوسف نے یحییی بن یعمر
رحمہ ا ،نصر بن عاصم لیثی رحمہ ا اور حسن بصریی سے بیک وقِت قِرآن کریم
پر نقطے اور حرکات دونوں لگانے کی فرمائش کی ،اس موقِع پر حرکات کے
اظہار کے لیے نقطوں کے بجائے زیر ،زبر ،پیش کی موجودہ صورتیں مقرر کی
گئیں؛ تاکہ حروف کے ذاتی نقطوں سے اان کا التباس پیش نہ آئے۔
عباسی دورر حکومت
اس دور میں علم نحو کے عظیم ماہرخلیل بن احمد فراہیدی نے ابواسود یکے نقط الشکل کو
سامنے رکھتے ہوئے وقِت کے تقاضوں کے مطابق نئی علمات ضبط ایجاد کیں اور یہی وہ
علمات ضبط ہیں جو آج تک رائج چلی آرہی ہیں۔ اس نے الشکل بالنقاط کی بجائے الشکل
بالحرکات کا طریقہ ایجاد کیا ،یعنی اس نے ضمہ )پیش( کے لئے حرف کے اوپر چھوٹی سی
واو ،فتحہ )زبر( کے لئے حرف کے اوپر ترچھی لکیراور کسرہ )زیر(کے لئے حرف کے
یا تشدید کے لئے حرف کے اوپر س کا سرا اور جزم کے )(iiنیچے ایک ترچھی لکیر اورشد
لئے ج کا سرا اور مد کے لئے حرف کے اوپر آ کی علمت کو اختیار کیا۔اسی طرح اس نے
اصطلحات وقِف ‘رروم’ و ‘اشمام’ کی دیگر علمات وضع کیں۔ پھر خوبصورتی اور اختصار
کی خاطر ان علمات میں مزید اصلحات و ترمیمات کی گئیں۔ اور ارتقا کے ان مختلف مراحل
کے بعد علمات ضبط کا یہ طریقہ رائج ہوا جو اس وقِت ہمارے سامنے موجود ہے۔
منزلیں
صحابہ اور تابعین کا معمول تھا وہ ہرہفتے ایک قِرآن ختم کرلیتے تھے اس مقصد کے لیے
انہوں نے روزانہ تلوت کی ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے “حزب” یا “منزل” کہا جاتا
ہے ،اس طرح پورے قِرآن کو کل سات احزاب پر تقسیم کیا گیا تھا۔
)البرہان(۱/۲۵۰ :