Professional Documents
Culture Documents
عالم کی قیادت کے قابل بنا دیا جسکی مثال نہں ملتی آپ ﷺ کی تعلیم و تربیت کردار‘ قول و فعل میں ہم آہنگی
راست بازی تحمل و برداشت ایثار عدل استقامت اور ان جیسی بے شمار خوبیوں نے کفر و جہالت کی گھٹا ٹوپ اندھیروں
میں علم اسالم کی شمع روشن کی ۔ آج کے معلمین اور اساتذہ اکرام کو بھی آپﷺ کے اوصاف کو اپناتے ہوئے اپنے
معلمانہ پیشے کو باخوبی ادا کر سکتے ہیں اور لوگوں کی رہنمائی اور بھالئی کا فریضہ بہترین طریقہ سے سرانجام دے
سکتے ہیں۔
مسلمان کو جو پہال حکم مال وہ تھا اقراء (پڑھ) اور اقراء بھی کون سا؟ وہ جو اپنے رب کے نام سے شروع ہو ،جو انسان
کو اﷲ کی طرف لے جائے ،جو انسان کو اﷲ کی صفات سے ،اس کے کماالت سے اور اس کی ذات سے ٓاشنا کروائے
اور پھر اﷲ نے صرف کتاب ہی نازل نہیں کی بلکہ ساتھ ہی پیغمبر بھی نازل کیا جو کہ اس کتاب کی ٓایات پڑھ کر سنائے
اور اس کی تعلیم دے۔ اسی لیے ایک جگہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و ٓالہ وسلم نے فرمایا:
آپ ( )WASنوید مسیحا اور دعاۓ خلیل ہیں ۔ابراہیم ؑ،بیت ﷲ کی دیواریں اٹھاتے ہوئے دعا کرتے ہیں۔
“ اے رب ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیے جو انھیں تیری آیات سنائے ،ان کو کتاب اور
حکمت کی تعلیم دےاور ان کی زندگیاں سنوارے ” البقرہ 921
لفظ اقرا سے نبوت کا آغاز ہوا۔آپ ( )WASکی ذات تمام انسانوں کے لیے نمونہ قرار پائی۔آپ ( )WASنے
اوراک نسخہ کیمیا ساتھ الیا اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
ایک معلم کا بلندمقصد ہمیشہ اس کے مطمح نظر رہتا ہے ۔”ﷲ کی زمین پر ﷲ کا نظام قائم کر نا ” اس عظیم مقصد
کے لئے غار حرا سے اتر تے ہی آپ ہمہ تن مصروف عمل ہوگئے۔ پہلے گھر اور خاندان کودعوت دی پھر قبیلہ کو
متوجہ کیا ۔ دور نبوت کا ہر لمحہ گواہ ہے کہ آپ اپنے مقصد میں کبھی مصلحت یا مداہنت کا شکار نہیں ہوئے قران میں
اس کیفیت کی تصویر کشی ہے ۔
” کہ دو کہ اے کافروں میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو ،نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو
جس کی عبادت میں کرتا ہوں اور نہ میں ان کی عبادت کرنے واال ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے اور نہ تم اس کی
عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں ،تمھارے لیئے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین”
سورہ الکافرون
لوگوں کا مذاق سہا،گالیاں سنیں ،پتھر کھائے،شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیے گئے ،حتی کہ اپنے محبوب
شہر مکہ سے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ دنیا وی ترغیبات ،تخت وتاج پیش کیے گئے جن کو آپﷺ نے ٹھکرا دیا مگر
مقصد سے ایک لمحہ کو بھی غافل نہ ہوئے ۔
انسانوں کو انسانوں کی غالمی سے نجات دال کررب واحد کی بندگی پر آمادہ کرنے کے لیے آپ ﷺ پیغمبرانہ صفت
دلسوزی اور تڑپ سے مزین تھے۔اپنی قوم کو گمراہی سے نکالنے کے لیے شب و روز دل گداز کیفیت میں گذارتے
رہے۔
حدیث میں ہے ” میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جالئی روشنی کے لیے مگر پروانے
ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے ۔وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں مگر پروانے
اسکی ایک نہیں چلنے دیتے ۔ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کر تمہیں کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ
میں گر ے پڑ تے ہو ۔ (بخاری ،مسلم )
رات بھر اپنی امت کے لیے دعائیں مانگتے تھے۔ طائف میں آپﷺ پر پتھر برسائے گئے اور آپ ﷺکی جوتیاں خون سے
بھر گئیں۔
طا ئف میں اس کے جسم پر پتھر برستے تھے وہ ابر لطف جس کے سائے کو گلشن ترستے تھے
حضرت جبرئیل ؑ اس مقصد سے آئے کہ ان پہاڑوں کے درمیان بستی کوکچل دیاجائے مگر آپ ﷺنے بدلہ لینا گوارا نہ
کیا کہ شاید یہ ایمان لے آئیں ۔ ایک معلم کی دلسوزی اپنے کمال پر نظر آتی ہے ۔سورہ الکہف کی آیت نمبر6آپ ﷺکی
کیفیت کو ظاہر کرتی ہے ۔
” اچھا تو اے نبیﷺ شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ
الئے۔”
ابالغ پر عبور:
مؤثر ابالغ کی مہارت آپﷺ میں بدرجہ کمال موجود تھی۔ آپﷺکی گفتگو اول سے آخر تک نہایت صاف ہوتی،کالم
جامع فرماتے تھے جس کے الفاظ مختصر مگر پراثر ہوتے تھے۔ حضرت ام معبد کی روایت ہے کے آپ ﷺ شیریں کالم
اور واضح بیان تھے۔ نہ کم گو تھے اور نہ زیادہ گو تھے،آپﷺکی گفتگو ایسی تھی کے جیسے موتی کے دانے پرو دیے
گئے ہوں۔حضرت عائشہ کی روایت کے مطابق آپﷺکے کلمات میں فصاحت وبالغت جھلکتی تھی۔آپ ﷺ تبلیغ کی
حکمت سے ماالمال تھے۔ اگر کوئی آپ ﷺ کے الفاظ شمار کرنا چاہتا تو کر سکتا ۔آپ ﷺکی گفتگو عام وگوں کی
طرح جلدی جلدی نہیں ہوتی بلکہ صاف صاف ہر مضمون دوسرے مضمون سے ممتاز ہوتا تھا۔ پاس بیٹھنے والے اچھی
طرح سے ذہن نشین کر لیتے ۔حضرت انس فرماتے ہیں کے آپﷺ بعض مرتبہ کالم کو حسب ضرورت تین تین بار
دہراتے تاکہ مخاطبین آپﷺ کے الفاظ کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔ جس بات کا تفصیل سے ذکر کرنا تہذیب سے گرا ہوا
ہوتا تو اس کو حضور اکرمﷺ کنایہ میں بیان کرتے ۔ بات کرتے وقت آپﷺ مسکراتے اور نہایت خندہ پیشانی سے
گفتگو فرماتے۔آپﷺ کا فرمان تھا
آپﷺ صحابہ کی کسی مجلس میں تشریف التے ہی تعلیم کا آغازنہیں کر دیتے بلکہ جو گفتگو چل رہی ہوتی اس میں
شامل ہوجاتے یا ان کی توجہ مبذول کراتے پھر تعلیم کا سلسلہ شروع کرتے ۔اصول آمادگی کو مد نظر رکھتے،لیکچر یا
خطبے کا طریقہ اختیار کرتے وقت آپﷺ بہت لمبے لیکچر نہیں دیا کرتے تھے ۔طلبہ سے سوال جواب کیا کرتے
تھے،تاکہ سامعین کی توجہ برقرار رہے بلکہ کبھی کبھی آغاز ہی سوال جواب سے کرتے تھے۔سبق کو دلچسپ بنانے
کے لیے آپﷺ قصے ،کہانیں بھی سنایا کرتے تھے ۔ مظاہراتی طریقہ کی مثال آپﷺ نےدین کے اعمال مثال وضو،نماز،
حج اور اس کے مناسک وغیرہ اسی طرح سکھاۓ ۔ مثالیں ،تشبیہات،وغیرہ کا استعمال بھی آپﷺ کی طریقہ تدریس
میں بکثرت نظر آتا ہے ۔
آپﷺ نے دوران تدریس ذہنی مشق کا طریقہ استعمال کروایا۔تصوراتی نقشہ کے استعمال کے ذریعے ذیلی نکات کی
وضاحت فرمائی۔اس سلسلے میں مشہور حدیث ہے کہ آپﷺ نے ایک لکیر کھینچی کہ یہ سیدھا راستہ ہےاور یہ ﷲ کی
طرف جاتا ہے ،اسی طرح آپﷺ نے مزیدلکیریں کھینچیں اور فرمایا یہ شیطان کے راستے ہیں۔
مربیانہ مز اج:
مثالی معلم نرم مزاج ،خوش اخالق اور رقیق القلب ہونا چاہیے۔آپﷺ نے نرم خوئی سے درشت مزاج مشرکین کو زیر
کیا۔ جس کی گواہی قرآن یوں دیتا ہے۔
” اےپیغمبر ﷺ یہ ہللا کی بڑی رحمت ہے کے تم ان لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوۓ ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو
اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمھارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے ۔آل عمران 951
اسالمی تاریخ میں جب پیارے نبی صلی ﷲ علیہ و ٓالہ وسلم نے یثرب کے لوگوں کی دعوت قبول کی اور یثرب کے لوگوں
نے پورا شہر ٓاپ کے حوالے کردیا اور ہجرت کے بعد یثرب مدینۃ النبی صلی اﷲ علیہ و ٓالہ وسلم کے نام سے مشہور
ہوا ،وہیں انتظامات سے فارغ ہوتے ہی ٓا ؐپ نے مسجد نبوی کی بنیاد ڈالی۔ مکہ سے ہجرت کرکے ٓانے والے مہاجرین کو
مدینہ میں رہنے والے انصار کا بھائی بنا دیا اور یہ بھائی چارہ قائم کرکے اسالمی مواخات کی وہ مثال قائم کی جو ٓاج
تک دنیا نہ پیش کرسکی۔ اس کے ساتھ ہی ٓا ؐپ نے مسجد کے ساتھ بنے ایک بڑے سے چبوترے پر درس و تدریس کا
سلسلہ شروع کیا جس میں وہ اصحاب جو مجرد تھے ،شامل تھے ،وہ اسی چبوترے پر رہا کرتے تھے اور تعلیم حاصل
کیا کرتے تھے۔ ان کی کفالت کی ذمے داری خود حضور صلی اﷲ علیہ و ٓالہ وسلم اور معاشرہ کیا کرتا تھا۔ چبوترے کو
عربی میں ’’صفہ‘‘ کہتے ہیں چنانچہ یہ ’’اصحاب صفہ‘‘ کہالئے اور اس طرح اسالمی تاریخ کا پہال اسکول
دار ارقم کے نام سے اصحاب صفہ کا قائم ہوا۔ یہاں درس و تدریس کا سلسلہ روایتی نہ تھا بلکہ طالب علم پیارے نبی
ِ
صحابی بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم اس
ؓ صلی اﷲ علیہ و ٓالہ وسلم سے درس لیتے۔ ادب سے سنتے اور ذہن نشین کرتے۔ ایک
طرح خاموش مودب بیٹھا کرتے تھے گویا ہمارے سروں پر پرندہ بیٹھا ہو اور ہمارے حرکت کرنے پر وہ اڑ جائے گا‘‘۔
یہاں پیچیدہ نکات پر بحث ہوتی ،علمی مسائل بیان کیے جاتے ،ذہن کی گتھیوں کو سلجھایا جاتا ،تاریخ کے حوالوں پر
بحث ہوتی ،ماضی کے قصے بیان کیے جاتے ،حال کی مثالیں سامنے الئی جاتیں ،مستقبل کے خوش ٓایند امکانات کا ذکر
ہوتا ،قر ٓانی قصص پڑھے جاتے ،عقائد کا بیان ہوتا ،عذاب کا ،دوزخ کا ذکر ہوتا ،حشر کے ہولناک دن کی حشر سامانیوں
سے ڈرایا جاتا ،جنت کی نعمتوں کی خوش خبری دی جاتی ،نیت کے خالص ہونے پر جزا و سزا کا تعین ،نتائج سے بے
پروا عمل ،سعی مطلوب کا تذکرہ ہوتا۔ یہ روایتی مدرسہ یا خانقاہ تو تھی نہیں بلکہ یہ تو پیارے نبی صلی اﷲ علیہ و ٓالہ
وسلم کی محفل تھی۔ یہاں سب کچھ تھا۔ یہ قومی لیکچر ہال بھی تھا۔ یہ سرکاری مہمان خانہ بھی تھا ،یہ جمہوری دارالعلوم
بھی تھا ،یہ حکومت کا دربار بھی تھا اور یہ مشورے کا ایوان بھی تھا۔ ٓاپ صلی اﷲ علیہ و ٓالہ وسلم کا مقصد تھا کہ
مسلمان اپنے اﷲ کو پہچانیں۔ اس کی نعمتوں کا احساس کریں اور اس کا شکر ادا کریں۔ اس کی نافرمانی سے بچیں۔ ایک
جگہ ٓا ؐپ نے فرمایا’’:میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ٓاگ جالئی اور جب ٓاس پاس کا ماحول ٓاگ کی روشنی
سے چمک اٹھا تو یہ کیڑے پتنگے اس پر گرنے لگے اور وہ شخص پوری قوت سے ان کیڑے پتنگوں کو روک رہا ہے
لیکن پتنگے ہیں کہ اس کی کوشش کو ناکام بنائے دیتے ہیں اور ٓاگ میں گھسے پڑ رہے ہیں اسی طرح میں تمہیں کمر
ٰ
مشکوۃ) سے پکڑ پکڑ کر ٓاگ سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ ٓاگ میں گرے پڑ رہے ہو‘‘۔ (
ٓاج معاشرے میں ایک مایوسی کی کیفیت نظر ٓاتی ہے۔ ہر شخص کو دوسرے سے شکوہ شکایت ہے۔ زندگی کی ایک دوڑ
ہے جس میں زیادہ سے زیادہ اور خوب سے خوب ترکی تالش نے سب کو اپنے سحر میں گرفتار کر رکھا ہے۔ پیارے
نبی صلی اﷲ علیہ و ٓالہ وسلم نے کیا خوبصورت انداز میں اس سے بچنے کا طریقہ بتایا ہے’’ ،ان لوگوں کی طرف
دیکھو جو تم سے مال و دولت اور دنیاوی جاہ و مرتبے میں کم ہیں تو تمہارے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا اور ان لوگوں
کی طرف نہ دیکھو جو تم سے مال و دولت میں اور دنیاوی ساز و سامان میں بڑھے ہوئے ہیں تاکہ جو نعمتیں تمہیں اس
وقت ملی ہوئی ہیں وہ تمہاری نگاہ میں حقیر نہ ہوں اور نہ خدا کی ناشکری کا جذبہ پیدا ہوگا‘‘۔
قرآن ::ﷲ تعالی اپنی کتاب میں عرب پر ایک اپنے احسان کا ذکر ہوتے فرماتے ہیں کہ:
ھُو الَّ ِذي بعث فِي أاْلُ ِّمیِّین رس ً
ُوال ِم أنھُ أم ی أتلُو عل أی ِھ أم آیاتِ ِه ویُز ِّكی ِھ أم ویُعلِّ ُمھُ ُم أال ِكتاب و أال ِح أكمة وإِ أن كانُوا ِم أن ق أب ُل لفِي ضالل ُمبِین (سورۃ
الجمعة)۲ ،
{ترجمہ :وہی (یعنی ﷲ تعالی) تو ہے جس نے امی لوگوں میں ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا ،جو انہیں اس (ﷲ) کی آیتیں پڑھ
کر سنائے ،انہیں (کفر ،شرک اور گناہوں سے) پاکیزہ بنائے ،اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے ،جب کہ وہ (ان رسول کے
بھیجنے سے) پہلے کھلی گمراہی میں تھے}
اس آیت پاک میں نبی اکرم صلى ﷲ علیه وسلم کی ایک رسول کی حیثیت سے ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں جو چار ہیں :قرآن
کی تالوت کرنا ،تزکیہ واصالح کرنا ،کتاب کی تعلیم دینا اور حکمت کی تعلیم دینا۔ ان چاروں کاموں پر غور کیا
جائے تو یہ "تعلیم وتربیت" ہی کے گرد گھومتے ہیں ،ان سے باہر نہیں۔ اس آیت سے یہ بات کھل کر واضح ہوتی ہے کہ کار
نبوت دراصل کار "تعلیم وتربیت" ہے جس میں بگڑی ہوئی قوموں اور بھٹکے ہوئے لوگوں میں حکمت وبصیرت کے ذریعے
حق کی تالش کا شوق پیدا کر ،انہیں حق کی راہ دکھال کے اس پر چلنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس لئے نبی ہی کی ذات اقدس
"معلم" کا واحد نمونہ بننے کی حقدار ہے جس پر دنیا کے تمام معلمین ومعلمات کو پرکھا جا سکتا ہے۔
حدیث ::نبی اکرم صلى ﷲ علیه وسلم کی زندگی ایک بھرپور زندگی تھی جس میں گوناں گوں حاالت وواقعات پیش آئے اور آپ
نے جس طریقے سے ان کا سامنا کیا اور ان کے لئے جو نقطہ نظر و الئحہ عمل اپنایا وہ امت کے لئے قیامت تک کے لئے ایک
روشنی کے ستون ہے ،انہیں واقعات میں سے ایک ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم کا ناراض ہو کر ،ایک ماہ کے لئے اپنی
ازواج مطہرات سے دوری اختیار کرنا ہے جس کا ایک مخصوس پس منظر تھا ،اس جگہ ہمیں جس بات سے سروکار ہے وہ
آپ کا ایک ماہ کے بعداپنی گھر والیوں کے پاس جانے کے بعد ،اماں عائشہ رضی ﷲ تعالى عنھا سے مکالمہ ہے۔ چناچہ جب
آپ اماں عائشہ رضی ﷲ تعالى عنھا کے پاس تشریف الئے اور انہیں ﷲ تعالی کا حکم سنایا جس کا ذکر سورۃ اْلحزاب میں ہے
کہ:
{اے نبی (ص) ،آپ اپنی گھر والیوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کی خواہاں ہو ،تو آو میں
تمہیں کچھ تحفے تحائف دے کر اچھے طریقے سے رخصت کر دوں! اور اگر تم ﷲ ،اس کے پیغمبر اور آخرت کے گھر کی
طلبگار ہو ،تو بال شبہ ﷲ نے تم میں سے نیک خواتین کے لئے شاندار انعام تیار کر رکھا ہے}
لیکن ساتھ ﷲ کے نبی کو اس چیز کا خیال ہوا کہ یہ کم عمر ہیں ،ایسا نہ ہو کہ فیصلہ کرنے میں جلدی کر لیں اور وہ غیر مناسب
ہو ،اس لئے یہ آیت سنانے سے پہلے فرمایا " :میں تمہیں ایک معاملے سے آگاہ کرنے لگا ہوں ،لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم اس
میں جلدی نہ کرو بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کر لو" ،ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے جب یہ آیت سنائیں تو اس پر اماں
عائشہ رضی ﷲ تعالى عنھا نے فرمایا" :اے پیغمبر خدا ،کیا آپ کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں! (یہ ہو نہیں سکتا)
میں تو ﷲ اور اس کے رسول کی طلبگار ہوں" اس کے بعد اماں عائشہ رضی ﷲ تعالى عنھا نے ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم
سے عرض کیا کہ میری بھی آپ سے ایک درخواست ہے کہ آپ اپنی دوسری بیبیوں کے سامنے جب یہ آیت پیش کریں تو انہیں
یہ نہ بتائیں کہ میں نے کیا کہا اور یہ کہ میں نے ﷲ اور اس کے رسول کا چناؤ کیا ،اور اس کہ وجہ بظاہر یہ تھی کہ بی بی
عائشہ رضی ﷲ تعالى عنھا سوکن تھیں تو فطری غیرت کے پیش نظر انہوں نے سوچا کہ شاید اس طرح ان میں سے کوئی ﷲ
کے نبی سے جدائی اختیار کر لے ،لیکن ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے اس پر ایک جملہ فرمایا جو اس جگہ اس ساری بات
کے ذکر کرنے سے مقصود ہے کہ:
"إن ﷲ لم یبعثني معنتا والمتعنتا ،ولكن بعثني معلما میسرا"(صحیح مسلم ،كتاب الطالق ،باب بیان أن تخییر امرأته ال یكون طالقا إال
بالنیة ،حدیث جابر بن عبد ﷲ)
ترجمہ :ﷲ تعالی نے میری بعثت اس لئے نہیں کی کہ میں (لوگوں کو) مشکل میں مبتال کروں یا یہ چاہوں کہ دوسرے مشکل میں
مبتال ہوں ،بلکہ ﷲ نے مجھے (دوسرے کے لئے) آسانیاں پیدا کرنے واال معلم بنا کر بھیجا ہے"
ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے اس واقعہ میں اپنی "بعثت" کا مقصد ہی "معلمی" بتایا اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ معلم کی کیا
خوبی ہوتی ہے۔
تاریخ ::ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کے بادیہ نشین تہذیب وتمدن سے دور زندگی بسر کر رہے
تھے ،ان میں بہت سے لوگ خانہ بدوش تھے جو آب وگیاہ کی تالش میں سرگرداں رہتے اور جہاں یہ میسر آتے وہاں اپنے
خیمے گاڑ کر رہنا شروع کر دیتے یہاں تک کہ کسی دوسری جگہ جانے کی ضرورت پیش آئے۔ ان لوگوں میں بہت سے
خوبیاں تھیں جیسے سخاوت ،بہادری ،سچائی ،جفا کشی وغیرہ وغیرہ لیکن اسی کے ساتھ ان کی طبیعتوں میں سختی اور
درشتی تھی ،کسی امیر کے سامنے جھکنا ان کے لئے دشوار تھا اور ان کی طبیعتوں کا رام کرنا جوئے شیر النے کے مترادف
تھا جس کہ وجہ سے یہ لوگ کسی امیر کی اطاعت میں نہیں آتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کی کتابوں میں "كتاب اإلمارۃ"
میں ایسی کئی حدیثیں ہیں جن میں ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے امام اور امیر کی اطاعت پر انتہائی زور دیا۔ مثال ﷲ کے
نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے فرمایا:
من خلع یدا من طاعة ،لقي ﷲ یوم القیامة ال حجة له ،ومن مات ولیس في عنقه بیعة ،مات میتة جاھلیة (صحیح مسلم ،كتاب اإلمارۃ،
باب اْلمر بلزوم الجماعة عند ظھور الفتن وتحذیر الدعاۃ إلى الكفر)
{ترجمہ:جس نے (امیر کی )اطاعت سے ہاتھ کھینچے ،روز محشر خدا کے سامنے اس کا کوئی عذر نفع بخش نہ ہو گا ،اور جس
کی گردن میں بوقت مرگ (امام وقت کی) بیعت (کا عہد وپیماں )نہ ہو تو اسے زمانہ جاہلیہ کی سی موت آئی}
یہاں ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے ایسے شخص کےعمل کو ،جس کا امام وقت کے ساتھ عہد وپیماں نہ ہو ،زمانہ جاہلیت
کے عمل سا قرار دیا جو اسالم سے پہلے کے حاالت کی بہترین ترجمانی ہے اور جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ کسی امام
وقت کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے کس طرح ناک بھوں چڑھاتے تھے اور ان کے مزاجوں میں بچوں کی سی ضد اور ہٹ
دھرمی تھی ،اور جب ہم احادیث مبارکہ کے ذخیرے میں غور کرتے ہیں تو امیر کی اطاعت کے بارے میں بہت سنگین اور
سخت ارشادات ملتے ہیں ،اس کی بنیادی وجہ یہی تھے جیسے:
علیك السمع والطاعة في عسرك ویسرك ،ومنشطك ومكرھك ،وأثرۃ علیك " (صحیح مسلم ،كتاب اإلمارۃ ،باب وجوب طاعة
اْلمراء في غیر معصیة ،وتحریمھا في المعصیة ،حدیث أبي ھریرۃ)
{ترجمہ :تم (ولی االمر) کی اطاعت تھامے رکھو ،خواہ دشواری ہو خواہ آسانی ،خواہ خوش گواری ہو خواہ ناگواری ،اور چاہے
(دنیا کے معامالت میں) تم پر دوسروں کو ترجیح دی جا رہی ہو}
بلکہ ﷲ کے نبی – صلى ﷲ علیه وسلم – نے یہاں تک فرما دیا کہ امیر کی اطاعت ،شرعی حدود میں ،میری اطاعت ہے (صحیح
مسلم ،كتاب اإلمارۃ ،باب وجوب طاعة اْلمراء في غیر معصیة ،وتحریمھا في المعصیة ،حدیث أبي ھریرۃ)
لیکن اس سب کے باوجود ،ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے ایک مختصر عرصے میں ان طبعیتوں کو رام اور ان مزاجوں
کو نرم کر دیا ،جس سے اتفاق ویگانگت کی ایک حسین بدلی نے انہیں ڈھانپ لیا اور وہ باہم شیر شکر ہو گئے اور وہ اپنے
"امیر" کے اس طرح تابع ہوئے کہ اپنے خونی رشتوں سے بھی امیر کا حکم بجا النے کی خاطر لڑنے کے لئے تیار ہو گئے۔ یہ
معجزہ اثر تبدیلی دراصل اس لئے آ گئی کہ ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم کے اندر "معلمی" اپنے کمال کے ساتھ جلوہ افروز
تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کہنے والے نے کہا جیسا کہ عالمہ قرافی نے اپنی مشہور کتاب "الفروق" میں نقل کیا:
لو لم یكن لرسول ﷲ – صلى ﷲ علیه وسلم – معجزۃ إال أصحابه لكفوہ في إثبات نبوته (أنوار البروق في أنواء الفروق ْلبي العباس
شھاب الدین المعروف بالقرافي)
{ترجمہ :اگر پیغمبر خدا کے صحبت یافتگان کے بجز اور کوئی معجزہ رسول ﷲ کا نہ ہوتا ،تو نبوت کے ثبوت کے لئے یہی
کافی تھے۔}
اس لئے رسول ﷲ ،حضرت محمد صلى ﷲ علیه وسلم معلم کی ایسی اعلی مثال تھے جس سے دنیا کا ہر معلم رہنمائی لے سکتا
ہے اور ایسی کسوٹی کہ اس دنیا کی بستی میں بسنے والے ہر مربی کو اس پرکھا جائے گا ،اسی لئے اگر کوئی شخصیت اس
کی حقدار ہے کہ اسے "معلم اول" کا لقب دیا جائے تو سرور کائنات محمد عربی کی شخصیت ہے۔
رسول کائنات ﷺ کا شمار دنیا کی ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا کو ہمہ معامالت میں نئے اسالیب اور جہات ِ
سے متعارف کروایا۔ آپ ﷺ وہ کامل شخصیت تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی کمال تربیت بلکہ اپنے کردار سے بھی
ایسی جماعت تیار کی جن میں انسانیت کی معراج کا وجو ِد کامل نظر آتا ہے۔ حضرت انسان نے اپنی تخلیق سے لے کر
رسول معظمﷺ تک ہر ایک ذات میں کوئی نہ کوئی کمی کوتاہی یا غلطی پائی لیکن آمنہ کے بط ِن اطہر سے پیدا ہونے
ص جمیلہ و والے لعلﷺ نےانسانیت ایسا نادر نمونہ پیش کیا جو ہر قسم کی ھفوات سے مط ّھر تھا۔ بے شمار خصائ ِ
رسول اکرم ﷺ نے بطور معلم و مدرس بے مثل کردار پیش کیا۔ آپ ﷺ کی تعلیمات سے زیادہ ِ اوصاف حمیدہ کے مرکب
ِ
ت رسو ِل کریم صلی ہللا علیہِ حیا جو گے کریں ذکر کا تدریس اصول
ِ چند ان ہم میں ذیل تھا۔ اخالق کا آپ معلم کن متاثر
ہیں۔ ماخوذ سے وسلم
پہلے شاگردوں میں حصو ِل علم کا شوق اور جستجو پیدا کرنا پھر علم منتقل کرنا آپﷺ کا تدریسی طریقہ تھا۔ کئی مواقع
انتقال علم فرماتے۔ مثال اال اخبرکم
ِ حصول علم کا اشتیاق پیدا کرتے پھر
ِ پر صحابہ کرام کو مخاطب کر کے پہلے ان میں
(کیا میں تمہیں خبر نہ دوں؟) اال ادلکم علی شیئ (کیا میں تمہیں ایسی چیز کی رہنمائی نا کر دوں؟؟) اتدرون مالغیبة ( کیا
تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟)اور ایسے کئی الفاظ جو انسان کو چوکنہ کر دینے کو کافی ہوتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ موقعہ و مناسبت اور طالب علم کی کیفیت دیکھ کر تعلیم دیتے مثال ایک ہی سوال “اسالم میں سب سے
افضل عمل کون سا ہے؟” مختلف صحابہ کرام نے مختلف اوقات میں پوچھا تو ہر ایک کو اس کے ذاتی معامالت اور
دیا۔۔ جواب مختلف کر دیکھ مناسبت کی موقعہ
تعلیم رسول ہللا
ِ اپنے طلبہ کے ساتھ نرمی و شفقت کا معاملہ کرنا اور بے جا مار پیٹ اور زد وکوب دے گریز کرنا بھی
ﷺ کا خاصہ تھا۔ حضرت انس رضی ہللا عنہ جنہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ بطور خادم و طالب علم دس سال گزارے وہ بیان
کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے آج تک کبھی مجھے مارنا تو دور کی بات غصہ تک نہ ہوئے حتی کہ کبھی مجھے یہ تک نہیں
کہا کہ انس تم نے یہ کام کیوں کیا یا یہ کام کیوں نہ کیا۔ سبحان ہللا العظیم۔
کا نام Activity Based Learningآپﷺ صحابہ کو سمجھانے کیلئے کچھ کر کے پیش کرتے یا کرواتے جسے ہم
دیتے ہیں۔جس سے موضوع کا فہم و ادراک صحابہ کرام کے قلوب و اذہان میں ازبر ہو جاتا مثال ایک دن آپ صلی ہللا
علیہ وسلم نے اپنے عصا سے زمین پر ایک سیدھا خط کھینچا اور کہا یہ میرا سیدھا راستہ ہے جو اس پہ چال وہ
کامیاب ہو گیا اور پھر اس خط کے ارد گرد کچھ ترچھے خطوط کھینچے اور کہا یہ گمراہی کے راستے ہیں۔
اس کے عالوہ رسول معظم ﷺ ہر میسر آنے والے موقعے میں تعلیم کے پہلو کو اجاگر کر کے اپنے طلبہ تک پہنچاتے۔
ض علم آنے والے طلبہ کا خیر مقدم کرتے۔گفتگو کرتے ہوئے طلبہ کو اپنے قریب بٹھاتے۔ اور پھر ان کی اپنے پاس بغر ِ
طرف اتنی توجہ کرتے کہ سامعین بھی ہمہ تن گوش ہو جاتے اور کالم کا ایسا انداز اختیار کرتے کہ طلبہ دم سادھ کر
بیٹھتے اور ایک ایک لفظ بعینہ انہی الفاظ کے ساتھ ازبر کر لیتے جو آپ ﷺ اپنی زبان سے نکالتے۔ یعنی حضور ﷺ
(Communication )Skills رکھتے۔ مہارت کمال میں
یا کبھی کنیت سے پکارتے جیسے ایک )Nick Nameشاگردوں سے محبت کے اظہار کیلئے کبھی ان کو مختصر نام (
دن ایک صحابی کو بلیوں سے کھیلتے دیکھا تو ابو ھریرہ کہہ دیا اور پھر وہ تا ابد راوی حدیث ابو ھریرہ رض بن کر
رہ گئے۔ ایسے ہی حضرت علی رض کو مٹی سے کھیلتے دیکھا تو ابو تراب کہہ دیا۔
محسن انسانیت ﷺ جیسے اپنے طلبہ کی تعلیم و تربیت کا بند و بست فرماتے ایسے ہی اپنے طلبہ کیلئے دعائیں بھی
خوب کرتے۔ مثال کے طور پر ایک دن عبد ہللا بن عباس رضی ہللا عنہ کا قرآن مجید سے محبت کا عالم دیکھا تو ان
کیلئے دعا کی کہ “اللھم علّمہ القرآن” اے ہللا اس کو قرآن کا عالم بنا دے۔ ایسی دعا کی کہ صدیاں بیت جانے کے
باوجود آج بھی ابن عباس رضی ہللا عنہ تفسیر قرآن کا ماخذ شمار کیے جاتے ہیں۔۔
ٹھہراو ہوتا اور اپنی بات کو خوب وضاحت کے ساتھ بیان
ٗ رسول ہللا ﷺ جب طلبہ سے بات کرتے تو آپ کی گفتگو میں
ب ضرورت اپنی بات کا اعادہ بھی فرما دیتے۔ ایسے ہی آپ ﷺ اپنے طلبہ کو تعلیم دیتے ہوئے ہاتھوں فرماتے۔ اور حس ِ
کا بھرپور استعمال کرتے۔ مثال ایک دن فرمایا میں اور یتیم کی کفالت کرنے )Body Languageسے مناسب اشارے(
واال جنت میں ایسے ہوں گے اور ساتھ ہی اپنی شہادت والی اور درمیانی انگشت مبارک کو مال کر ہوا میں لہرایا۔
معلّ ِم انسانیت ﷺ اپنے طلبہ کے تف ّھ ِم کامل کیلئے مثالوں کا استعمال کرتے مثال ایک دفعہ فرمانے لگے کہ ہللا کو گنہگار
کا توبہ کرنا اس قدر خوشگوار لگتا ہے جیسے کسی بھوکے صحرائی مسافر کو اپنا گمشدہ زا ِد راہ مل جائے۔
ث مشقت سوال پہ اپنی ناپسندیدگی کاآپ ﷺ طلبہ سے مناسب اور علم طلب سوال پہ خوش ہوتے اور بے کار اور باع ِ
اظہار کرتے۔ اور اگر کسی سوال کا جواب آپ ﷺ کے پاس نہ ہوتا تو بجائے اپنی طرف سے جواب دینے یا اٹکل پنچو
کرتے۔ انتظار کا الہی وحی
ِ اور جاتے ہو خاموش کے لگانے
صرف نظر نہ کرتے لیکن ایسی باتوں کو اشارہ و کنایہ
ِ کسی قابل شرم مسئلے کی تفہیم مقصود ہوتی تو اسے بھی ہرگز
کی زبان میں ایسا سمجھاتے کہ طلبہ تک انتقا ِل علم بھی ہو جاتا اور شرم و حیاء کا دامن بھی سالمت رہتا۔۔
ایسے ہی آقائے دو جہاں ﷺ طلبہ کے سیکھنے کے عمل کو آسان بنانے کیلئے پہلے اجماال بیان کرتے اور پھر مکمل
تفصیل کے ساتھ مکمل جزئیات کو سمجھاتے اور اگر کہیں مناسب سمجھتے کہ تھوڑے کالم سے ہی بات مکمل سمجھ آ
جائے گی تو اسی پہ اکتفاء کرتے۔ ایسی احادیث جن میں تھوڑے کالم میں گہری بات کہہ دی جائے ان کو “جوامع
الکلم” کہا جاتا ہے مثال ال ضرر وال ضرار (اسالم میں نہ خود کو نقصان پہنچانا جائز ہے نہ کسی دوسرے کو)
الغرض رسول ہللا ﷺ بطور استاد ایک کامل ترین معلّم تھے کہ جن کے مکتب سے نکلنے والے طلبہ عرب و عجم کے
ایسے حکمراں بنے کہ وہ عوام کے اجسام کے ساتھ ساتھ ان کے قلوب و اذھان کے بھی حکمران ہوتے تھے۔