You are on page 1of 7

‫آپﷺ مثالی معلم تھے جہالت میں ڈوبے ہوئے انسانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے انہیں اس شان سے پورے‬

‫عالم کی قیادت کے قابل بنا دیا جسکی مثال نہں ملتی آپ ﷺ کی تعلیم و تربیت کردار‘ قول و فعل میں ہم آہنگی‬
‫راست بازی تحمل و برداشت ایثار عدل استقامت اور ان جیسی بے شمار خوبیوں نے کفر و جہالت کی گھٹا ٹوپ اندھیروں‬
‫میں علم اسالم کی شمع روشن کی ۔ آج کے معلمین اور اساتذہ اکرام کو بھی آپﷺ کے اوصاف کو اپناتے ہوئے اپنے‬
‫معلمانہ پیشے کو باخوبی ادا کر سکتے ہیں اور لوگوں کی رہنمائی اور بھالئی کا فریضہ بہترین طریقہ سے سرانجام دے‬
‫سکتے ہیں۔‬

‫تعالی فرماتا ہے۔‬


‫ٰ‬ ‫قراء‘‘ (پڑھ) وحی کا پہال لفظ جس سے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ مال۔ علم‪ ،‬عقل۔ اﷲ‬

‫تعالی فرماتا ہے۔‬


‫ٰ‬ ‫’’اقراء‘‘ (پڑھ) وحی کا پہال لفظ جس سے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ مال۔ علم‪ ،‬عقل۔ اﷲ‬
‫’’اقراء بسم ربک الذی خلق‘‘ (پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے تخلیق کیا)۔‬

‫مسلمان کو جو پہال حکم مال وہ تھا اقراء (پڑھ) اور اقراء بھی کون سا؟ وہ جو اپنے رب کے نام سے شروع ہو‪ ،‬جو انسان‬
‫کو اﷲ کی طرف لے جائے‪ ،‬جو انسان کو اﷲ کی صفات سے‪ ،‬اس کے کماالت سے اور اس کی ذات سے ٓاشنا کروائے‬
‫اور پھر اﷲ نے صرف کتاب ہی نازل نہیں کی بلکہ ساتھ ہی پیغمبر بھی نازل کیا جو کہ اس کتاب کی ٓایات پڑھ کر سنائے‬
‫اور اس کی تعلیم دے۔ اسی لیے ایک جگہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و ٓالہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬

‫آپ (‪ )WAS‬نوید مسیحا اور دعاۓ خلیل ہیں ۔ابراہیم ؑ‪،‬بیت ﷲ کی دیواریں اٹھاتے ہوئے دعا کرتے ہیں۔‬

‫“ اے رب ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیے جو انھیں تیری آیات سنائے ‪،‬ان کو کتاب اور‬
‫حکمت کی تعلیم دےاور ان کی زندگیاں سنوارے ” البقرہ ‪921‬‬

‫لفظ اقرا سے نبوت کا آغاز ہوا۔آپ (‪ )WAS‬کی ذات تمام انسانوں کے لیے نمونہ قرار پائی۔آپ (‪ )WAS‬نے‬

‫“انما بعثت معلما””مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے”‬

‫کے ذریعے اپنا مقام واضح کر دیا۔‬

‫اوراک نسخہ کیمیا ساتھ الیا‬ ‫اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا‬

‫مقصد کی لگن ‪:‬‬

‫ایک معلم کا بلندمقصد ہمیشہ اس کے مطمح نظر رہتا ہے ۔”ﷲ کی زمین پر ﷲ کا نظام قائم کر نا ” اس عظیم مقصد‬
‫کے لئے غار حرا سے اتر تے ہی آپ ہمہ تن مصروف عمل ہوگئے۔ پہلے گھر اور خاندان کودعوت دی پھر قبیلہ کو‬
‫متوجہ کیا ۔ دور نبوت کا ہر لمحہ گواہ ہے کہ آپ اپنے مقصد میں کبھی مصلحت یا مداہنت کا شکار نہیں ہوئے قران میں‬
‫اس کیفیت کی تصویر کشی ہے ۔‬

‫” کہ دو کہ اے کافروں میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو‪ ،‬نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو‬
‫جس کی عبادت میں کرتا ہوں اور نہ میں ان کی عبادت کرنے واال ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے اور نہ تم اس کی‬
‫عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں‪ ،‬تمھارے لیئے تمھارا دین اور میرے لیے میرا دین”‬
‫سورہ الکافرون‬

‫لوگوں کا مذاق سہا‪،‬گالیاں سنیں ‪،‬پتھر کھائے‪،‬شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیے گئے ‪،‬حتی کہ اپنے محبوب‬
‫شہر مکہ سے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ دنیا وی ترغیبات ‪،‬تخت وتاج پیش کیے گئے جن کو آپﷺ نے ٹھکرا دیا مگر‬
‫مقصد سے ایک لمحہ کو بھی غافل نہ ہوئے ۔‬

‫درد مندی ‪:‬‬

‫انسانوں کو انسانوں کی غالمی سے نجات دال کررب واحد کی بندگی پر آمادہ کرنے کے لیے آپ ﷺ پیغمبرانہ صفت‬
‫دلسوزی اور تڑپ سے مزین تھے۔اپنی قوم کو گمراہی سے نکالنے کے لیے شب و روز دل گداز کیفیت میں گذارتے‬
‫رہے۔‬

‫حدیث میں ہے ” میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جالئی روشنی کے لیے مگر پروانے‬
‫ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے ۔وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں مگر پروانے‬
‫اسکی ایک نہیں چلنے دیتے ۔ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کر تمہیں کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ‬
‫میں گر ے پڑ تے ہو ۔ (بخاری ‪ ،‬مسلم )‬

‫رات بھر اپنی امت کے لیے دعائیں مانگتے تھے۔ طائف میں آپﷺ پر پتھر برسائے گئے اور آپ ﷺکی جوتیاں خون سے‬
‫بھر گئیں۔‬

‫طا ئف میں اس کے جسم پر پتھر برستے تھے‬ ‫وہ ابر لطف جس کے سائے کو گلشن ترستے تھے‬

‫حضرت جبرئیل ؑ اس مقصد سے آئے کہ ان پہاڑوں کے درمیان بستی کوکچل دیاجائے مگر آپ ﷺنے بدلہ لینا گوارا نہ‬
‫کیا کہ شاید یہ ایمان لے آئیں ۔ ایک معلم کی دلسوزی اپنے کمال پر نظر آتی ہے ۔سورہ الکہف کی آیت نمبر‪6‬آپ ﷺکی‬
‫کیفیت کو ظاہر کرتی ہے ۔‬

‫” اچھا تو اے نبیﷺ شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ‬
‫الئے۔”‬

‫ابالغ پر عبور‪:‬‬

‫مؤثر ابالغ کی مہارت آپﷺ میں بدرجہ کمال موجود تھی۔ آپﷺکی گفتگو اول سے آخر تک نہایت صاف ہوتی‪،‬کالم‬
‫جامع فرماتے تھے جس کے الفاظ مختصر مگر پراثر ہوتے تھے۔ حضرت ام معبد کی روایت ہے کے آپ ﷺ شیریں کالم‬
‫اور واضح بیان تھے۔ نہ کم گو تھے اور نہ زیادہ گو تھے‪،‬آپﷺکی گفتگو ایسی تھی کے جیسے موتی کے دانے پرو دیے‬
‫گئے ہوں۔حضرت عائشہ کی روایت کے مطابق آپﷺکے کلمات میں فصاحت وبالغت جھلکتی تھی۔آپ ﷺ تبلیغ کی‬
‫حکمت سے ماالمال تھے۔ اگر کوئی آپ ﷺ کے الفاظ شمار کرنا چاہتا تو کر سکتا ۔آپ ﷺکی گفتگو عام وگوں کی‬
‫طرح جلدی جلدی نہیں ہوتی بلکہ صاف صاف ہر مضمون دوسرے مضمون سے ممتاز ہوتا تھا۔ پاس بیٹھنے والے اچھی‬
‫طرح سے ذہن نشین کر لیتے ۔حضرت انس فرماتے ہیں کے آپﷺ بعض مرتبہ کالم کو حسب ضرورت تین تین بار‬
‫دہراتے تاکہ مخاطبین آپﷺ کے الفاظ کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔ جس بات کا تفصیل سے ذکر کرنا تہذیب سے گرا ہوا‬
‫ہوتا تو اس کو حضور اکرمﷺ کنایہ میں بیان کرتے ۔ بات کرتے وقت آپﷺ مسکراتے اور نہایت خندہ پیشانی سے‬
‫گفتگو فرماتے۔آپﷺ کا فرمان تھا‬

‫” آسانیاں بہم پہنچاؤمشکالت میں نہ ڈالو “‬

‫آپﷺ صحابہ کی کسی مجلس میں تشریف التے ہی تعلیم کا آغازنہیں کر دیتے بلکہ جو گفتگو چل رہی ہوتی اس میں‬
‫شامل ہوجاتے یا ان کی توجہ مبذول کراتے پھر تعلیم کا سلسلہ شروع کرتے ۔اصول آمادگی کو مد نظر رکھتے‪،‬لیکچر یا‬
‫خطبے کا طریقہ اختیار کرتے وقت آپﷺ بہت لمبے لیکچر نہیں دیا کرتے تھے ۔طلبہ سے سوال جواب کیا کرتے‬
‫تھے‪،‬تاکہ سامعین کی توجہ برقرار رہے بلکہ کبھی کبھی آغاز ہی سوال جواب سے کرتے تھے۔سبق کو دلچسپ بنانے‬
‫کے لیے آپﷺ قصے ‪،‬کہانیں بھی سنایا کرتے تھے ۔ مظاہراتی طریقہ کی مثال آپﷺ نےدین کے اعمال مثال وضو‪،‬نماز‪،‬‬
‫حج اور اس کے مناسک وغیرہ اسی طرح سکھاۓ ۔ مثالیں ‪ ،‬تشبیہات‪،‬وغیرہ کا استعمال بھی آپﷺ کی طریقہ تدریس‬
‫میں بکثرت نظر آتا ہے ۔‬

‫آپﷺ نے دوران تدریس ذہنی مشق کا طریقہ استعمال کروایا۔تصوراتی نقشہ کے استعمال کے ذریعے ذیلی نکات کی‬
‫وضاحت فرمائی۔اس سلسلے میں مشہور حدیث ہے کہ آپﷺ نے ایک لکیر کھینچی کہ یہ سیدھا راستہ ہےاور یہ ﷲ کی‬
‫طرف جاتا ہے‪ ،‬اسی طرح آپﷺ نے مزیدلکیریں کھینچیں اور فرمایا یہ شیطان کے راستے ہیں۔‬

‫مربیانہ مز اج‪:‬‬

‫مثالی معلم نرم مزاج‪ ،‬خوش اخالق اور رقیق القلب ہونا چاہیے۔آپﷺ نے نرم خوئی سے درشت مزاج مشرکین کو زیر‬
‫کیا۔ جس کی گواہی قرآن یوں دیتا ہے۔‬

‫” اےپیغمبر ﷺ یہ ہللا کی بڑی رحمت ہے کے تم ان لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوۓ ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو‬
‫اور سنگدل ہوتے تو یہ سب تمھارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے ۔آل عمران ‪951‬‬

‫اسالمی تاریخ میں جب پیارے نبی صلی ﷲ علیہ و ٓالہ وسلم نے یثرب کے لوگوں کی دعوت قبول کی اور یثرب کے لوگوں‬
‫نے پورا شہر ٓاپ کے حوالے کردیا اور ہجرت کے بعد یثرب مدینۃ النبی صلی اﷲ علیہ و ٓالہ وسلم کے نام سے مشہور‬
‫ہوا‪ ،‬وہیں انتظامات سے فارغ ہوتے ہی ٓا ؐپ نے مسجد نبوی کی بنیاد ڈالی۔ مکہ سے ہجرت کرکے ٓانے والے مہاجرین کو‬
‫مدینہ میں رہنے والے انصار کا بھائی بنا دیا اور یہ بھائی چارہ قائم کرکے اسالمی مواخات کی وہ مثال قائم کی جو ٓاج‬
‫تک دنیا نہ پیش کرسکی۔ اس کے ساتھ ہی ٓا ؐپ نے مسجد کے ساتھ بنے ایک بڑے سے چبوترے پر درس و تدریس کا‬
‫سلسلہ شروع کیا جس میں وہ اصحاب جو مجرد تھے‪ ،‬شامل تھے‪ ،‬وہ اسی چبوترے پر رہا کرتے تھے اور تعلیم حاصل‬
‫کیا کرتے تھے۔ ان کی کفالت کی ذمے داری خود حضور صلی اﷲ علیہ و ٓالہ وسلم اور معاشرہ کیا کرتا تھا۔ چبوترے کو‬
‫عربی میں ’’صفہ‘‘ کہتے ہیں چنانچہ یہ ’’اصحاب صفہ‘‘ کہالئے اور اس طرح اسالمی تاریخ کا پہال اسکول‬
‫دار ارقم کے نام سے اصحاب صفہ کا قائم ہوا۔ یہاں درس و تدریس کا سلسلہ روایتی نہ تھا بلکہ طالب علم پیارے نبی‬
‫ِ‬
‫صحابی بیان کرتے ہیں کہ ’’ہم اس‬
‫ؓ‬ ‫صلی اﷲ علیہ و ٓالہ وسلم سے درس لیتے۔ ادب سے سنتے اور ذہن نشین کرتے۔ ایک‬
‫طرح خاموش مودب بیٹھا کرتے تھے گویا ہمارے سروں پر پرندہ بیٹھا ہو اور ہمارے حرکت کرنے پر وہ اڑ جائے گا‘‘۔‬
‫یہاں پیچیدہ نکات پر بحث ہوتی‪ ،‬علمی مسائل بیان کیے جاتے‪ ،‬ذہن کی گتھیوں کو سلجھایا جاتا‪ ،‬تاریخ کے حوالوں پر‬
‫بحث ہوتی‪ ،‬ماضی کے قصے بیان کیے جاتے‪ ،‬حال کی مثالیں سامنے الئی جاتیں‪ ،‬مستقبل کے خوش ٓایند امکانات کا ذکر‬
‫ہوتا‪ ،‬قر ٓانی قصص پڑھے جاتے‪ ،‬عقائد کا بیان ہوتا‪ ،‬عذاب کا‪ ،‬دوزخ کا ذکر ہوتا‪ ،‬حشر کے ہولناک دن کی حشر سامانیوں‬
‫سے ڈرایا جاتا‪ ،‬جنت کی نعمتوں کی خوش خبری دی جاتی‪ ،‬نیت کے خالص ہونے پر جزا و سزا کا تعین‪ ،‬نتائج سے بے‬
‫پروا عمل‪ ،‬سعی مطلوب کا تذکرہ ہوتا۔ یہ روایتی مدرسہ یا خانقاہ تو تھی نہیں بلکہ یہ تو پیارے نبی صلی اﷲ علیہ و ٓالہ‬
‫وسلم کی محفل تھی۔ یہاں سب کچھ تھا۔ یہ قومی لیکچر ہال بھی تھا۔ یہ سرکاری مہمان خانہ بھی تھا‪ ،‬یہ جمہوری دارالعلوم‬
‫بھی تھا‪ ،‬یہ حکومت کا دربار بھی تھا اور یہ مشورے کا ایوان بھی تھا۔ ٓاپ صلی اﷲ علیہ و ٓالہ وسلم کا مقصد تھا کہ‬
‫مسلمان اپنے اﷲ کو پہچانیں۔ اس کی نعمتوں کا احساس کریں اور اس کا شکر ادا کریں۔ اس کی نافرمانی سے بچیں۔ ایک‬
‫جگہ ٓا ؐپ نے فرمایا‪’’:‬میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ٓاگ جالئی اور جب ٓاس پاس کا ماحول ٓاگ کی روشنی‬
‫سے چمک اٹھا تو یہ کیڑے پتنگے اس پر گرنے لگے اور وہ شخص پوری قوت سے ان کیڑے پتنگوں کو روک رہا ہے‬
‫لیکن پتنگے ہیں کہ اس کی کوشش کو ناکام بنائے دیتے ہیں اور ٓاگ میں گھسے پڑ رہے ہیں اسی طرح میں تمہیں کمر‬
‫ٰ‬
‫مشکوۃ)‬ ‫سے پکڑ پکڑ کر ٓاگ سے روک رہا ہوں اور تم ہو کہ ٓاگ میں گرے پڑ رہے ہو‘‘۔ (‬

‫ٓاج معاشرے میں ایک مایوسی کی کیفیت نظر ٓاتی ہے۔ ہر شخص کو دوسرے سے شکوہ شکایت ہے۔ زندگی کی ایک دوڑ‬
‫ہے جس میں زیادہ سے زیادہ اور خوب سے خوب ترکی تالش نے سب کو اپنے سحر میں گرفتار کر رکھا ہے۔ پیارے‬
‫نبی صلی اﷲ علیہ و ٓالہ وسلم نے کیا خوبصورت انداز میں اس سے بچنے کا طریقہ بتایا ہے‪’’ ،‬ان لوگوں کی طرف‬
‫دیکھو جو تم سے مال و دولت اور دنیاوی جاہ و مرتبے میں کم ہیں تو تمہارے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا اور ان لوگوں‬
‫کی طرف نہ دیکھو جو تم سے مال و دولت میں اور دنیاوی ساز و سامان میں بڑھے ہوئے ہیں تاکہ جو نعمتیں تمہیں اس‬
‫وقت ملی ہوئی ہیں وہ تمہاری نگاہ میں حقیر نہ ہوں اور نہ خدا کی ناشکری کا جذبہ پیدا ہوگا‘‘۔‬

‫قرآن‪ ::‬ﷲ تعالی اپنی کتاب میں عرب پر ایک اپنے احسان کا ذکر ہوتے فرماتے ہیں کہ‪:‬‬
‫ھُو الَّ ِذي بعث فِي أاْلُ ِّمیِّین رس ً‬
‫ُوال ِم أنھُ أم ی أتلُو عل أی ِھ أم آیاتِ ِه ویُز ِّكی ِھ أم ویُعلِّ ُمھُ ُم أال ِكتاب و أال ِح أكمة وإِ أن كانُوا ِم أن ق أب ُل لفِي ضالل ُمبِین (سورۃ‬
‫الجمعة‪)۲ ،‬‬
‫{ترجمہ‪ :‬وہی (یعنی ﷲ تعالی) تو ہے جس نے امی لوگوں میں ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا‪ ،‬جو انہیں اس (ﷲ) کی آیتیں پڑھ‬
‫کر سنائے‪ ،‬انہیں (کفر‪ ،‬شرک اور گناہوں سے) پاکیزہ بنائے‪ ،‬اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دے‪ ،‬جب کہ وہ (ان رسول کے‬
‫بھیجنے سے) پہلے کھلی گمراہی میں تھے}‬
‫اس آیت پاک میں نبی اکرم صلى ﷲ علیه وسلم کی ایک رسول کی حیثیت سے ذمہ داریاں بیان کی گئی ہیں جو چار ہیں‪ :‬قرآن‬
‫کی تالوت کرنا‪ ،‬تزکیہ واصالح کرنا‪ ،‬کتاب کی تعلیم دینا اور حکمت کی تعلیم دینا۔ ان چاروں کاموں پر غور کیا‬
‫جائے تو یہ "تعلیم وتربیت" ہی کے گرد گھومتے ہیں‪ ،‬ان سے باہر نہیں۔ اس آیت سے یہ بات کھل کر واضح ہوتی ہے کہ کار‬
‫نبوت دراصل کار "تعلیم وتربیت" ہے جس میں بگڑی ہوئی قوموں اور بھٹکے ہوئے لوگوں میں حکمت وبصیرت کے ذریعے‬
‫حق کی تالش کا شوق پیدا کر ‪ ،‬انہیں حق کی راہ دکھال کے اس پر چلنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس لئے نبی ہی کی ذات اقدس‬
‫"معلم" کا واحد نمونہ بننے کی حقدار ہے جس پر دنیا کے تمام معلمین ومعلمات کو پرکھا جا سکتا ہے۔‬

‫حدیث‪ ::‬نبی اکرم صلى ﷲ علیه وسلم کی زندگی ایک بھرپور زندگی تھی جس میں گوناں گوں حاالت وواقعات پیش آئے اور آپ‬
‫نے جس طریقے سے ان کا سامنا کیا اور ان کے لئے جو نقطہ نظر و الئحہ عمل اپنایا وہ امت کے لئے قیامت تک کے لئے ایک‬
‫روشنی کے ستون ہے‪ ،‬انہیں واقعات میں سے ایک ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم کا ناراض ہو کر‪ ،‬ایک ماہ کے لئے اپنی‬
‫ازواج مطہرات سے دوری اختیار کرنا ہے جس کا ایک مخصوس پس منظر تھا‪ ،‬اس جگہ ہمیں جس بات سے سروکار ہے وہ‬
‫آپ کا ایک ماہ کے بعداپنی گھر والیوں کے پاس جانے کے بعد‪ ،‬اماں عائشہ رضی ﷲ تعالى عنھا سے مکالمہ ہے۔ چناچہ جب‬
‫آپ اماں عائشہ رضی ﷲ تعالى عنھا کے پاس تشریف الئے اور انہیں ﷲ تعالی کا حکم سنایا جس کا ذکر سورۃ اْلحزاب میں ہے‬
‫کہ‪:‬‬
‫{اے نبی (ص)‪ ،‬آپ اپنی گھر والیوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت کی خواہاں ہو‪ ،‬تو آو میں‬
‫تمہیں کچھ تحفے تحائف دے کر اچھے طریقے سے رخصت کر دوں! اور اگر تم ﷲ ‪ ،‬اس کے پیغمبر اور آخرت کے گھر کی‬
‫طلبگار ہو‪ ،‬تو بال شبہ ﷲ نے تم میں سے نیک خواتین کے لئے شاندار انعام تیار کر رکھا ہے}‬
‫لیکن ساتھ ﷲ کے نبی کو اس چیز کا خیال ہوا کہ یہ کم عمر ہیں‪ ،‬ایسا نہ ہو کہ فیصلہ کرنے میں جلدی کر لیں اور وہ غیر مناسب‬
‫ہو‪ ،‬اس لئے یہ آیت سنانے سے پہلے فرمایا ‪" :‬میں تمہیں ایک معاملے سے آگاہ کرنے لگا ہوں‪ ،‬لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم اس‬
‫میں جلدی نہ کرو بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کر لو"‪ ،‬ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے جب یہ آیت سنائیں تو اس پر اماں‬
‫عائشہ رضی ﷲ تعالى عنھا نے فرمایا‪" :‬اے پیغمبر خدا‪ ،‬کیا آپ کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں! (یہ ہو نہیں سکتا)‬
‫میں تو ﷲ اور اس کے رسول کی طلبگار ہوں" اس کے بعد اماں عائشہ رضی ﷲ تعالى عنھا نے ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم‬
‫سے عرض کیا کہ میری بھی آپ سے ایک درخواست ہے کہ آپ اپنی دوسری بیبیوں کے سامنے جب یہ آیت پیش کریں تو انہیں‬
‫یہ نہ بتائیں کہ میں نے کیا کہا اور یہ کہ میں نے ﷲ اور اس کے رسول کا چناؤ کیا‪ ،‬اور اس کہ وجہ بظاہر یہ تھی کہ بی بی‬
‫عائشہ رضی ﷲ تعالى عنھا سوکن تھیں تو فطری غیرت کے پیش نظر انہوں نے سوچا کہ شاید اس طرح ان میں سے کوئی ﷲ‬
‫کے نبی سے جدائی اختیار کر لے‪ ،‬لیکن ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے اس پر ایک جملہ فرمایا جو اس جگہ اس ساری بات‬
‫کے ذکر کرنے سے مقصود ہے کہ‪:‬‬
‫"إن ﷲ لم یبعثني معنتا والمتعنتا‪ ،‬ولكن بعثني معلما میسرا"(صحیح مسلم‪ ،‬كتاب الطالق‪ ،‬باب بیان أن تخییر امرأته ال یكون طالقا إال‬
‫بالنیة‪ ،‬حدیث جابر بن عبد ﷲ)‬
‫ترجمہ‪ :‬ﷲ تعالی نے میری بعثت اس لئے نہیں کی کہ میں (لوگوں کو) مشکل میں مبتال کروں یا یہ چاہوں کہ دوسرے مشکل میں‬
‫مبتال ہوں‪ ،‬بلکہ ﷲ نے مجھے (دوسرے کے لئے) آسانیاں پیدا کرنے واال معلم بنا کر بھیجا ہے"‬
‫ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے اس واقعہ میں اپنی "بعثت" کا مقصد ہی "معلمی" بتایا اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ معلم کی کیا‬
‫خوبی ہوتی ہے۔‬
‫تاریخ‪ ::‬ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کے بادیہ نشین تہذیب وتمدن سے دور زندگی بسر کر رہے‬
‫تھے‪ ،‬ان میں بہت سے لوگ خانہ بدوش تھے جو آب وگیاہ کی تالش میں سرگرداں رہتے اور جہاں یہ میسر آتے وہاں اپنے‬
‫خیمے گاڑ کر رہنا شروع کر دیتے یہاں تک کہ کسی دوسری جگہ جانے کی ضرورت پیش آئے۔ ان لوگوں میں بہت سے‬
‫خوبیاں تھیں جیسے سخاوت‪ ،‬بہادری‪ ،‬سچائی‪ ،‬جفا کشی وغیرہ وغیرہ لیکن اسی کے ساتھ ان کی طبیعتوں میں سختی اور‬
‫درشتی تھی‪ ،‬کسی امیر کے سامنے جھکنا ان کے لئے دشوار تھا اور ان کی طبیعتوں کا رام کرنا جوئے شیر النے کے مترادف‬
‫تھا جس کہ وجہ سے یہ لوگ کسی امیر کی اطاعت میں نہیں آتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث کی کتابوں میں "كتاب اإلمارۃ"‬
‫میں ایسی کئی حدیثیں ہیں جن میں ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے امام اور امیر کی اطاعت پر انتہائی زور دیا۔ مثال ﷲ کے‬
‫نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے فرمایا‪:‬‬
‫من خلع یدا من طاعة‪ ،‬لقي ﷲ یوم القیامة ال حجة له‪ ،‬ومن مات ولیس في عنقه بیعة‪ ،‬مات میتة جاھلیة (صحیح مسلم‪ ،‬كتاب اإلمارۃ‪،‬‬
‫باب اْلمر بلزوم الجماعة عند ظھور الفتن وتحذیر الدعاۃ إلى الكفر)‬
‫{ترجمہ‪:‬جس نے (امیر کی )اطاعت سے ہاتھ کھینچے‪ ،‬روز محشر خدا کے سامنے اس کا کوئی عذر نفع بخش نہ ہو گا‪ ،‬اور جس‬
‫کی گردن میں بوقت مرگ (امام وقت کی) بیعت (کا عہد وپیماں )نہ ہو تو اسے زمانہ جاہلیہ کی سی موت آئی}‬
‫یہاں ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے ایسے شخص کےعمل کو‪ ،‬جس کا امام وقت کے ساتھ عہد وپیماں نہ ہو‪ ،‬زمانہ جاہلیت‬
‫کے عمل سا قرار دیا جو اسالم سے پہلے کے حاالت کی بہترین ترجمانی ہے اور جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ کسی امام‬
‫وقت کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے کس طرح ناک بھوں چڑھاتے تھے اور ان کے مزاجوں میں بچوں کی سی ضد اور ہٹ‬
‫دھرمی تھی‪ ،‬اور جب ہم احادیث مبارکہ کے ذخیرے میں غور کرتے ہیں تو امیر کی اطاعت کے بارے میں بہت سنگین اور‬
‫سخت ارشادات ملتے ہیں‪ ،‬اس کی بنیادی وجہ یہی تھے جیسے‪:‬‬
‫علیك السمع والطاعة في عسرك ویسرك‪ ،‬ومنشطك ومكرھك‪ ،‬وأثرۃ علیك " (صحیح مسلم‪ ،‬كتاب اإلمارۃ‪ ،‬باب وجوب طاعة‬
‫اْلمراء في غیر معصیة‪ ،‬وتحریمھا في المعصیة‪ ،‬حدیث أبي ھریرۃ)‬
‫{ترجمہ‪ :‬تم (ولی االمر) کی اطاعت تھامے رکھو ‪ ،‬خواہ دشواری ہو خواہ آسانی‪ ،‬خواہ خوش گواری ہو خواہ ناگواری‪ ،‬اور چاہے‬
‫(دنیا کے معامالت میں) تم پر دوسروں کو ترجیح دی جا رہی ہو}‬
‫بلکہ ﷲ کے نبی – صلى ﷲ علیه وسلم – نے یہاں تک فرما دیا کہ امیر کی اطاعت‪ ،‬شرعی حدود میں‪ ،‬میری اطاعت ہے (صحیح‬
‫مسلم‪ ،‬كتاب اإلمارۃ‪ ،‬باب وجوب طاعة اْلمراء في غیر معصیة‪ ،‬وتحریمھا في المعصیة‪ ،‬حدیث أبي ھریرۃ)‬
‫لیکن اس سب کے باوجود‪ ،‬ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم نے ایک مختصر عرصے میں ان طبعیتوں کو رام اور ان مزاجوں‬
‫کو نرم کر دیا ‪ ،‬جس سے اتفاق ویگانگت کی ایک حسین بدلی نے انہیں ڈھانپ لیا اور وہ باہم شیر شکر ہو گئے اور وہ اپنے‬
‫"امیر" کے اس طرح تابع ہوئے کہ اپنے خونی رشتوں سے بھی امیر کا حکم بجا النے کی خاطر لڑنے کے لئے تیار ہو گئے۔ یہ‬
‫معجزہ اثر تبدیلی دراصل اس لئے آ گئی کہ ﷲ کے نبی صلى ﷲ علیه وسلم کے اندر "معلمی" اپنے کمال کے ساتھ جلوہ افروز‬
‫تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی کہنے والے نے کہا جیسا کہ عالمہ قرافی نے اپنی مشہور کتاب "الفروق" میں نقل کیا‪:‬‬
‫لو لم یكن لرسول ﷲ – صلى ﷲ علیه وسلم – معجزۃ إال أصحابه لكفوہ في إثبات نبوته (أنوار البروق في أنواء الفروق ْلبي العباس‬
‫شھاب الدین المعروف بالقرافي)‬
‫{ترجمہ‪ :‬اگر پیغمبر خدا کے صحبت یافتگان کے بجز اور کوئی معجزہ رسول ﷲ کا نہ ہوتا‪ ،‬تو نبوت کے ثبوت کے لئے یہی‬
‫کافی تھے۔}‬
‫اس لئے رسول ﷲ ‪ ،‬حضرت محمد صلى ﷲ علیه وسلم معلم کی ایسی اعلی مثال تھے جس سے دنیا کا ہر معلم رہنمائی لے سکتا‬
‫ہے اور ایسی کسوٹی کہ اس دنیا کی بستی میں بسنے والے ہر مربی کو اس پرکھا جائے گا‪ ،‬اسی لئے اگر کوئی شخصیت اس‬
‫کی حقدار ہے کہ اسے "معلم اول" کا لقب دیا جائے تو سرور کائنات محمد عربی کی شخصیت ہے۔‬

‫رسول کائنات ﷺ کا شمار دنیا کی ان ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیا کو ہمہ معامالت میں نئے اسالیب اور جہات‬ ‫ِ‬
‫سے متعارف کروایا۔ آپ ﷺ وہ کامل شخصیت تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی کمال تربیت بلکہ اپنے کردار سے بھی‬
‫ایسی جماعت تیار کی جن میں انسانیت کی معراج کا وجو ِد کامل نظر آتا ہے۔ حضرت انسان نے اپنی تخلیق سے لے کر‬
‫رسول معظمﷺ تک ہر ایک ذات میں کوئی نہ کوئی کمی کوتاہی یا غلطی پائی لیکن آمنہ کے بط ِن اطہر سے پیدا ہونے‬
‫ص جمیلہ و‬ ‫والے لعلﷺ نےانسانیت ایسا نادر نمونہ پیش کیا جو ہر قسم کی ھفوات سے مط ّھر تھا۔ بے شمار خصائ ِ‬
‫رسول اکرم ﷺ نے بطور معلم و مدرس بے مثل کردار پیش کیا۔ آپ ﷺ کی تعلیمات سے زیادہ‬ ‫ِ‬ ‫اوصاف حمیدہ کے مرکب‬
‫ِ‬
‫ت رسو ِل کریم صلی ہللا علیہ‬‫ِ‬ ‫حیا‬ ‫جو‬ ‫گے‬ ‫کریں‬ ‫ذکر‬ ‫کا‬ ‫تدریس‬ ‫اصول‬
‫ِ‬ ‫چند‬ ‫ان‬ ‫ہم‬ ‫میں‬ ‫ذیل‬ ‫تھا۔‬ ‫اخالق‬ ‫کا‬ ‫آپ‬ ‫معلم‬ ‫کن‬ ‫متاثر‬
‫ہیں۔‬ ‫ماخوذ‬ ‫سے‬ ‫وسلم‬
‫پہلے شاگردوں میں حصو ِل علم کا شوق اور جستجو پیدا کرنا پھر علم منتقل کرنا آپﷺ کا تدریسی طریقہ تھا۔ کئی مواقع‬
‫انتقال علم فرماتے۔ مثال اال اخبرکم‬
‫ِ‬ ‫حصول علم کا اشتیاق پیدا کرتے پھر‬
‫ِ‬ ‫پر صحابہ کرام کو مخاطب کر کے پہلے ان میں‬
‫(کیا میں تمہیں خبر نہ دوں؟) اال ادلکم علی شیئ (کیا میں تمہیں ایسی چیز کی رہنمائی نا کر دوں؟؟) اتدرون مالغیبة ( کیا‬
‫تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟)اور ایسے کئی الفاظ جو انسان کو چوکنہ کر دینے کو کافی ہوتے ہیں۔‬
‫نبی کریم ﷺ موقعہ و مناسبت اور طالب علم کی کیفیت دیکھ کر تعلیم دیتے مثال ایک ہی سوال “اسالم میں سب سے‬
‫افضل عمل کون سا ہے؟” مختلف صحابہ کرام نے مختلف اوقات میں پوچھا تو ہر ایک کو اس کے ذاتی معامالت اور‬
‫دیا۔۔‬ ‫جواب‬ ‫مختلف‬ ‫کر‬ ‫دیکھ‬ ‫مناسبت‬ ‫کی‬ ‫موقعہ‬
‫تعلیم رسول ہللا‬
‫ِ‬ ‫اپنے طلبہ کے ساتھ نرمی و شفقت کا معاملہ کرنا اور بے جا مار پیٹ اور زد وکوب دے گریز کرنا بھی‬
‫ﷺ کا خاصہ تھا۔ حضرت انس رضی ہللا عنہ جنہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ بطور خادم و طالب علم دس سال گزارے وہ بیان‬
‫کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے آج تک کبھی مجھے مارنا تو دور کی بات غصہ تک نہ ہوئے حتی کہ کبھی مجھے یہ تک نہیں‬
‫کہا کہ انس تم نے یہ کام کیوں کیا یا یہ کام کیوں نہ کیا۔ سبحان ہللا العظیم۔‬
‫کا نام ‪Activity Based Learning‬آپﷺ صحابہ کو سمجھانے کیلئے کچھ کر کے پیش کرتے یا کرواتے جسے ہم‬
‫دیتے ہیں۔جس سے موضوع کا فہم و ادراک صحابہ کرام کے قلوب و اذہان میں ازبر ہو جاتا مثال ایک دن آپ صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے اپنے عصا سے زمین پر ایک سیدھا خط کھینچا اور کہا یہ میرا سیدھا راستہ ہے جو اس پہ چال وہ‬
‫کامیاب ہو گیا اور پھر اس خط کے ارد گرد کچھ ترچھے خطوط کھینچے اور کہا یہ گمراہی کے راستے ہیں۔‬
‫اس کے عالوہ رسول معظم ﷺ ہر میسر آنے والے موقعے میں تعلیم کے پہلو کو اجاگر کر کے اپنے طلبہ تک پہنچاتے۔‬
‫ض علم آنے والے طلبہ کا خیر مقدم کرتے۔گفتگو کرتے ہوئے طلبہ کو اپنے قریب بٹھاتے۔ اور پھر ان کی‬ ‫اپنے پاس بغر ِ‬
‫طرف اتنی توجہ کرتے کہ سامعین بھی ہمہ تن گوش ہو جاتے اور کالم کا ایسا انداز اختیار کرتے کہ طلبہ دم سادھ کر‬
‫بیٹھتے اور ایک ایک لفظ بعینہ انہی الفاظ کے ساتھ ازبر کر لیتے جو آپ ﷺ اپنی زبان سے نکالتے۔ یعنی حضور ﷺ‬
‫‪(Communication‬‬ ‫)‪Skills‬‬ ‫رکھتے۔‬ ‫مہارت‬ ‫کمال‬ ‫میں‬
‫یا کبھی کنیت سے پکارتے جیسے ایک )‪Nick Name‬شاگردوں سے محبت کے اظہار کیلئے کبھی ان کو مختصر نام (‬
‫دن ایک صحابی کو بلیوں سے کھیلتے دیکھا تو ابو ھریرہ کہہ دیا اور پھر وہ تا ابد راوی حدیث ابو ھریرہ رض بن کر‬
‫رہ گئے۔ ایسے ہی حضرت علی رض کو مٹی سے کھیلتے دیکھا تو ابو تراب کہہ دیا۔‬
‫محسن انسانیت ﷺ جیسے اپنے طلبہ کی تعلیم و تربیت کا بند و بست فرماتے ایسے ہی اپنے طلبہ کیلئے دعائیں بھی‬
‫خوب کرتے۔ مثال کے طور پر ایک دن عبد ہللا بن عباس رضی ہللا عنہ کا قرآن مجید سے محبت کا عالم دیکھا تو ان‬
‫کیلئے دعا کی کہ “اللھم علّمہ القرآن” اے ہللا اس کو قرآن کا عالم بنا دے۔ ایسی دعا کی کہ صدیاں بیت جانے کے‬
‫باوجود آج بھی ابن عباس رضی ہللا عنہ تفسیر قرآن کا ماخذ شمار کیے جاتے ہیں۔۔‬
‫ٹھہراو ہوتا اور اپنی بات کو خوب وضاحت کے ساتھ بیان‬
‫ٗ‬ ‫رسول ہللا ﷺ جب طلبہ سے بات کرتے تو آپ کی گفتگو میں‬
‫ب ضرورت اپنی بات کا اعادہ بھی فرما دیتے۔ ایسے ہی آپ ﷺ اپنے طلبہ کو تعلیم دیتے ہوئے ہاتھوں‬ ‫فرماتے۔ اور حس ِ‬
‫کا بھرپور استعمال کرتے۔ مثال ایک دن فرمایا میں اور یتیم کی کفالت کرنے )‪Body Language‬سے مناسب اشارے(‬
‫واال جنت میں ایسے ہوں گے اور ساتھ ہی اپنی شہادت والی اور درمیانی انگشت مبارک کو مال کر ہوا میں لہرایا۔‬
‫معلّ ِم انسانیت ﷺ اپنے طلبہ کے تف ّھ ِم کامل کیلئے مثالوں کا استعمال کرتے مثال ایک دفعہ فرمانے لگے کہ ہللا کو گنہگار‬
‫کا توبہ کرنا اس قدر خوشگوار لگتا ہے جیسے کسی بھوکے صحرائی مسافر کو اپنا گمشدہ زا ِد راہ مل جائے۔‬
‫ث مشقت سوال پہ اپنی ناپسندیدگی کا‬‫آپ ﷺ طلبہ سے مناسب اور علم طلب سوال پہ خوش ہوتے اور بے کار اور باع ِ‬
‫اظہار کرتے۔ اور اگر کسی سوال کا جواب آپ ﷺ کے پاس نہ ہوتا تو بجائے اپنی طرف سے جواب دینے یا اٹکل پنچو‬
‫کرتے۔‬ ‫انتظار‬ ‫کا‬ ‫الہی‬ ‫وحی‬
‫ِ‬ ‫اور‬ ‫جاتے‬ ‫ہو‬ ‫خاموش‬ ‫کے‬ ‫لگانے‬
‫صرف نظر نہ کرتے لیکن ایسی باتوں کو اشارہ و کنایہ‬
‫ِ‬ ‫کسی قابل شرم مسئلے کی تفہیم مقصود ہوتی تو اسے بھی ہرگز‬
‫کی زبان میں ایسا سمجھاتے کہ طلبہ تک انتقا ِل علم بھی ہو جاتا اور شرم و حیاء کا دامن بھی سالمت رہتا۔۔‬
‫ایسے ہی آقائے دو جہاں ﷺ طلبہ کے سیکھنے کے عمل کو آسان بنانے کیلئے پہلے اجماال بیان کرتے اور پھر مکمل‬
‫تفصیل کے ساتھ مکمل جزئیات کو سمجھاتے اور اگر کہیں مناسب سمجھتے کہ تھوڑے کالم سے ہی بات مکمل سمجھ آ‬
‫جائے گی تو اسی پہ اکتفاء کرتے۔ ایسی احادیث جن میں تھوڑے کالم میں گہری بات کہہ دی جائے ان کو “جوامع‬
‫الکلم” کہا جاتا ہے مثال ال ضرر وال ضرار (اسالم میں نہ خود کو نقصان پہنچانا جائز ہے نہ کسی دوسرے کو)‬
‫الغرض رسول ہللا ﷺ بطور استاد ایک کامل ترین معلّم تھے کہ جن کے مکتب سے نکلنے والے طلبہ عرب و عجم کے‬
‫ایسے حکمراں بنے کہ وہ عوام کے اجسام کے ساتھ ساتھ ان کے قلوب و اذھان کے بھی حکمران ہوتے تھے۔‬

You might also like