Professional Documents
Culture Documents
ہے۔ ان بنیادی حقوق سے انکار ظلم ،جبر ،ناانصافی،غالمی اور عدم مساوات جیسی قبیح
اقوام متحدہ نے دنیا میں بسنے والے انسانوں کے درمیان بھائی ِ سماجی برائیوں کو جنم دیتا ہے۔
چارے ،باہمی احترام اور وسیع تر امن کے قیام کیلئے بنیادی انسانی حقوق کا ایک ڈھانچہ تیّار
۔اقوام متحدہ کے اس منشور کے ِ کیا ہے جسے انسانی حقوق کا عالمی منشور کہا جاتا ہے
ذریعے اسکی رکن قوموں نے بنیادی انسانی حقوق ،انسانی شخصیت کی حرمت اور قدر،
مردوں اور عورتوں کے مساوی حْ قوق ،وسیع تر آزادی کی فضا میں معاشی و سماجی ترقّی کو
معیار زندگی کو بلند کرنے کا مص ّمم ارادہ کرتے ہوئے اس عزم کا اعالن کیا ِ تقویت دینے اور
اشتراک عمل سے ساری دنیا میں اصوالً اور عمالً انسانی ِ اقوام ِمتحدہ کے
ِ ہے کہ وہ خود بھی
حقوق اور بنیادی آزادیوں کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں گی اوردوسروں سے بھی کرائیں گی۔
قوموں کے اس عہد کی تکمیل کیلئے بہت ضروری ہے کہ وہ ان حقوق اور آزادیوں کی نوعیت
کو سمجھ سکیں ۔ اس منشور میں یہ اعالن بھی کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور
اقوام کے واسطے حصو ِل مقصد کا مشترک معیار ہو گا تاکہ ہر فرد اور معاشرے کا ہر ادارہ
پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیم و تشہیر کے ذریعے ان حقوق اور آزادیوں کا اس منشور کو ِ
احترام پیدا کرے اور انہیں قومی اور بین االقوامی سرگرمیوں کے ذریعے رکن اور انکے
ماتحت ملکوں سے منوانے کیلئے بتدریج کوشش کیجائے۔حقیقت یہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق
روز ّاول ہی سے ظالم و کے اس ادراک و احساس کے باوجود یہ دنیا انسانوں کی تخلیق کے ِ
مظلوم ،حاکم و محکوم ،جابر و مجبور اور آقا و غالم کے متحارب و متضاد طبقوں میں منقسم
رہی ہے۔استحصالی و استبدادی قوتوں سے آزادی کے حصول اور بنیادی انسانی حقوق کی
شرف
ِ بحالی کا احساس و ادراک عہ ِد حاضر کی نمایاں خصوصیت ہے جس نے بال امتیاز
دور جدید کی تہذیب نے عزت و تکریم کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے۔ اسی بناء پر ِ انسانیت کی ّ
ا نسانی مساوات ،شخصی آزادی اور جمہوری اقدار کی ترویج کو اپنے بنیادی اصول کے طور
پر تسلیم کیا ہے جس میں بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت ریاست اور معاشرے کی اجتماعی
ہے۔اقوام متحدہ کیجانب سے انسانی حقوق کے اس عالمی منشور کے اعالن کو آج ِ ذ ّمہ داری
68سال ہونیوالے ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان ریاستوں کے ہاتھوں بھی ،جنہوں نے
اس منشور کو تسلیم اور اسکی توثیق کی ہے ،انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا جرم سرزد ہوتا
رہا ہے اور اگر اس کا راستہ نہ روکا گیا تو اس پامالی کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہنے کا امکان
ہے۔ عالمی برادری اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنیوالی تنظیموں کی ان تھک کاوشوں کے
باوجود بھی انسانوں کا ایک بڑا طبقہ آج بھی بنیادی انسانی ح ْقوق سے محروم ہے اور انسانی
سر نہیں۔صحت بخش اور ح ْقوق کے اس عالمی منشور میں بیان کردہ آزادیاں اور حقوق انہیں می ّ
ت زندگی کی متوازن خوراک ،صاف پانی ،معیاری تعلیم ،محفوظ رہائش جیسی بنیادی ضروریا ِ
شرمندہ تعبیر
ٔ ریاست کے تمام افراد تک فراہمی ایک ایسا خواب بن کر رہ گئی ہے جسکے
ہونے کے راستے میں کئی فلک بوس اور آہنی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ان بنیادی سہولیات کی فراہمی
تصور نہیں کیا جاتا اورّ تو ایک طرف ،دنیا کی ایک بڑی آبادی کو تو آج بھی انسان تک
اکیسویں صدی کے روشن اور آزاد خیال معاشرے میں بھی کروڑوں کی تعداد میں انسانوں
کیساتھ امتیازی سلوک ہی نہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا ہے۔اسے
انسانیت کا بدترین المیہ نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے کہ اس دنیا میں انسان اور انسانیت
کیساتھ یہ نفرت انگیز سلوک جاری ہے جسکے خالف ا ّکا دکا صدائیں تو سنائی دیتی ہیں مگر
بزور
ِ ظلم و جبر کی سیاہ رات کا خاتمہ دکھائی نہیں دیتا۔ دنیا میں ظالم و جابر کے ہاتھوں سے
طاقت اپنے حقوق چھین لینے کی روایت نے مس ّل ّّح مزاحمت کی داغ بیل ڈالی ہے۔ دنیا میں
صہ اب مسلح جدوجہد کا روپ دھار چکا ہے۔اگر صرف جاری اس مزاحمت کا ایک بڑا ح ّ
خطے معصوم انسانوں کے براعظم ایشیاہی کی مثال لے لیں تو فلسطین و مقبوضہ کشمیر کے ّ ِّ
عالم اسالم کیلئے بالخصوص ایسے خون سے رنگین اوریہ مسائل پوری دنیا کیلئے بالعموم اور ِ
ناسور بن چکے ہیں جن پر سات دہائیونسے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی عالمی
برادری کا ضمیر خوابیدہ بلکہ مردہ دکھائی دیتا ہے۔آج انسانی حقوق کا عالمی دن اپنے ماننے
اور منانے والوں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ بس بہت ظلم ہو چکا ،بہت خون بہہ چکا ،بہت
حرمتیں لٹ چکیں ،بہت آنسو بہہ چکے ،اب ظلم و ستم کی اس روایت کا خاتمہ ضروری ہے۔
محروم طبقے کا استحصالی اور غاصب طاقتوں کے خالف علم ِ بغاوت بلند کرنا اور اپنے
مقاصد کے حصول کیلئے طاقت کے استعمال کے وہی ہتھکنڈے استعمال کرنا جو عام طور پر
طرہ امتیاز رہے ہیں دراصل اس مایوسی اورنا ٔ قوتوں ،جابروں اور غاصبوں کا استحصالی ّ
امیدی کی عالمت ہیں جس میں غاصب وجابر کے خالف محض اسلئے آواز نہیں اٹھائی گئی
کیونکہ ان ظالموں کیساتھ بڑی طاقتوں کے معاشی مفادات منسلک ہیں اور غاصب کے خالف
کسی بھی ٹھوس قدم کے اٹھانے میں یہی مفادات حائل ہیں۔ امن پسنداور انسانی حقوق کی
اعلی مقاصد میں اسی صورت کامیابی مل ٰ قوتوں کو انسانی حقوق کی بحالی کے ان علمبرادر ّ
سکتی ہے جب معاشی مفادات کی سطح سے اوپر اٹھ کر اور محروم و مظلوم طبقہ کی مشکالت
و مصائب اور اسکے ر ِدّعمل کے نتیجے میں تشکیل پاتی ایک غیر محفوظ دنیا کو م ِدّنظر
رکھتے ہوئے ظالم کا ہاتھ روکنے کی عملی کوشش کی جائے اوراس غرض سے قاب ِل عمل،
ٹھوس اور نتیجہ خیز اقدامات کئے جائیں ورنہ انسانی حقوق کے ایسے منشوروں کی حیثیت
محض کاغذ کی ایک بے جان دستاویز ہی کی رہ جاتی ہے جس پر پڑی بے حسی و بے اعتنائی
کی دھول مٹی جھاڑ کراس موضوع پر ہزاروں سیمینار اور تقاریر کی جاتیں ہیں ،اسے دوبارہ
انہی کتابوں کی الماریوں میں دھول جمنے کیلئے واپس رکھ دیا جاتا ہے ہر بار۔