You are on page 1of 4

‫اردو صفحہ‬

‫ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ کے تنظیمی فرائض اور فرق‬

‫"بیشک حضرت محمد صل ہللا علیہ والہ وسلم سے اچھا ایڈمنسٹریٹر اور مینیجر کوئی نہیں ہوسکتا۔”‬

‫اسٹیبلشمنٹ‪:‬‬
‫ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ کے مجموعہ کو اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے۔‬

‫ایڈمنسٹریشن کی تعریف‪:‬‬

‫ایسا شخص یا گروہ جو حاالت و واقعات کو جانچے اور انکے مطابق تنظیم یا ادارے کے لیئے الئحہ عمل کو تیار کرے‬
‫اور اسکو منشور کے ساتھ تنظیم کی مینجمنٹ سے عامی و خاصی پر اپالئی کروائے۔‬

‫ایڈمنسٹریشن کے عمومی فرائض‪:‬‬


‫الئحہ عمل یعنی روڈ میپ بنانا۔‬

‫نتائج کو پرکھنا۔تنظیم یا ادارے کے معامالت پر گہری نظر رکھنا۔‬

‫حاالت و واقعات پر گہری نظر اور واقفیت رکھنا۔‬

‫مسائل کا موئثر حل تالش کرنا۔‬

‫تنظیم یا ادارے میں اتحاد اور اتفاق قائم کرنا۔‬

‫نئے میمبران کی صف بندی کرنا۔‬

‫وسائل اور افراد کا درست اور موئثر استعمال کرنا۔‬

‫سیدھے راستے کا تعین کرنا۔‬

‫مشکل گھڑی میں درست فیصلہ کرکے تنظیم میں نئی روح پھونکنا۔‬

‫مجلس مشاورت کا گاہے بگاہے انتظام کرنا اور معامالت کو مینجمنٹ سے کھل کر ڈسکس کرنا۔‬

‫مشوروں اور تجاویز پر غور و حوض کرنا اور اپنے فیصلوں میں شامل کرنا۔‬

‫مجلس مشاورت کے لیئے موزوں نمائندگان کا انتخاب کرنا۔‬

‫کارکنان کی تربیت کرنا اور تربیت کا اعلی میعار قائم کرنا۔‬

‫آداب‪ ,‬اخالقیات اور مذہبی عبادات کی پابندی کروانا۔‬


‫معاملہ فہمی اور تحمل مزاجی پیدا کرنا۔‬

‫تنظیمی امن و امان قائم رکھنا۔‬

‫مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن کے مابین تعلق باہلل قائم کرنا۔‬

‫مینجمنٹ کی تعریف‪:‬‬
‫ایسا شخص یا گروہ جو ایڈمنسٹریشن کے دیئے گئے الئحہ عمل پر عمل کرے اور اسکے نتائج کو معینہ مدت میں حاصل‬
‫کرے اور ایڈمنسٹریشن کو مزید نوک پلک سنوارنے کے لیئے سابقہ تجربات اور مشاہدات کے ساتھ پیش کرے۔‬

‫مینجمنٹ کے عمومی فرائض‪:‬‬


‫ایڈمنسٹریشن کے دئیے گئے الئحہ عمل پر عمل کرنا۔‬

‫پیش کردہ مہم اور منصوبہ کو تکمیل تک پہنچانا۔‬


‫بہترین نتائج حاصل کرنا۔‬

‫تنظیمی یا ادارتی معامالت کو اہل افراد کی مدد سے چالنا۔‬

‫حاالت و واقعات سے موقع پر فائدہ اٹھانا۔‬

‫مسائل کے پیش کردہ حل کے مطابق ان کو ترتیب وار حل کرنا۔‬

‫ایڈمنسٹریشن کے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق کام کرنا۔‬


‫عامی و خاصی کو تنظیم یا ادارے میں شامل ہونے کی ترغیب دینا۔‬

‫وسائل اور افرادی قوت کا ایڈمنسٹریشن کے دیئے گئے الئحہ عمل کے مطابق استعمال کرنا۔‬

‫مشکالت و مصائب کا مردانہ وارمقابلہ کرنا اور بوقت ضرورت ایڈمنسٹریشن کو شامل کرنا اور مشورہ کرنا۔‬

‫مجلس مشاورت‪ ,‬میں اکٹھا ہونا اور اکٹھا کرنا۔‬

‫مشورے دینا اور احکامات پر عمل کرنا۔‬

‫اپنےا قول و فعل کے ساتھ خود کو مبنجمنٹ کا اہل ثابت کرنا۔‬

‫مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن کے مابین تعلق باہلل کو مضبوط کرنا۔‬


‫تنظیم یا ادارہ ایک درخت کی مانند ہوتے ہیں۔ اگر اسےکسی راستے پر لگایا جائے گا تو ہرمسافر اسکی چھاؤں اور پھل‬
‫سے مستفید ہوگا اور اگر اسے کسی چٹیل میدان میں لگایا جائے گا تو وہاں صرف کوئی بھوال بھٹکا انسان یا نکما‪ ,‬نکھٹو‬
‫اور آرام پرست انسان ہی جائے گا۔راستے میں لگا ہوا درخت نہ صرف ہر آتے جاتے مسافر کو ٹھنڈی چھاؤں اور شیریں‬
‫پھل مہیا کرے گا بلکہ ایک سوچ بھی دیگا کے کیوں نہ میں بھی ایسے درخت راستوں پر لگاؤں جو مسافروں کو ٹھنڈی‬
‫چھاؤں اور شیریں پھل مہیا کریں اور مسافر میری طرح ان سے مستفید ہوں۔‬

‫جبکہ میدان میں لگا ہوا آرام پرستوں کا درخت ایسی کوئی سوچ مہیا نہیں کرے گا بلکہ میدان میں کھڑا اکلوتا درخت اکیال‬
‫ہی رہے گا اور اس کی چھاؤں اور اس کا پھل یا تو ضائع ہونگے یا پھر نکموں اور آرام پرستوں کے کام آئیں گے۔نہ‬
‫اسکی کوئی دیکھ بھال ہوگی اور نہ پرسان حال اور ایک دن یا تو لکڑ ہارا اس کوکاٹ گرائے گا یا وقت کے ساتھ ساتھ وہ‬
‫بوڑھا ہوکر خود گرجائے گا یا آندھیوں کی نذر ہو جائے گا۔اس لیئے تنظیموں کو راستے کا درخت بنائیں تاکہ وہ اپنے‬
‫پھل اور چھاؤں سےاوروں کو بھی مستفید کریں‪ ,‬ورنہ ان کا حال بھی میدان میں لگے اکیلے درخت جیسا ہوگا۔تنظیم‬
‫چاہے کسی بھی مقصد کے لیے بنائی جائے مگر اس کی بنیادوں میں جب تک ہللا اور اس کے رسول محمد صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کے احکامات اور محبت شامل نہ ہوں گے تک وہ ایک کھوکھلی عمارت کی طرح ہوگی۔‬

‫تنظیمیں یا ادارے ہمیشہ ذاتی تعلقات کی بنیادوں پر نہیں بلکہ تعلق باہلل کی بنیادوں پر استوار ہوتی ہیں۔اگر ہم ہر کسی سے‬
‫اور ہر کوئی ہم سے کوئی نہ کوئی غرض تنظیمی یا ذاتی طور پر رکھ کر ملیں گے تو غرض پوری ہونے پر دونوں‬
‫فریقین منتشر ہو جائیں گے اور تنظیم ہللا کو پیاری ہو جائے گی۔ محبت اور خلوص کا پہال اسالمی اصول بھائی چارہ ہے۔‬
‫سالم دعا کو عام کرنے سے تنظیمیں یا جماعتیں بنا سوچے ڈویلپ ہو جاتی ہیں۔‬

‫انقالب‪:‬‬

‫انقالب ہمیشہ سوچوں کی بہترین پرورش کے نتیجے میں آتا ہے۔ کیونکہ درست اور مثبت سوچ ہمیشہ کسی نہ کسی‬
‫تحریک کو جنم دیتی ہے جو بعد میں مقصدیت کیا اوج پر پہنچ کر انقالب بن جاتی ہے یا پھر انقالب کا باعث بن جاتی‬
‫ہے۔انقالب زمانے کے رد و بدل‪ ،‬آتشگیر سوچوں اور باعمل تحریکوں کاشیریں ثمر ہے جو صبر اور شکر سے ملزوم‬
‫ہے۔‬

‫اگر کوئی آپ پر ایک بار احسان کرے تو آپ ہمیشہ اس کے ہمیشہ احسان مند رہیں گے‪ ،‬ہمیشہ اس کی عزت کریں گے‬
‫اور کوشش کریں گے کہ آپ بھی کسی نہ کسی طرح اس کے کام آسکیں تو وہ دوبارہ آپ کے اخالق اور محبت میں غرق‬
‫نادانستہ پھر آپ پر کوئی احسان کر بھی دے گا تو وہ نہ اسکو آپ پر اپنا احسان لگے گا اور نہ آپ کو خود پر اس کا‬
‫کوئی احسان محسوس ہوگا۔ ایک ایسا تعلق بن جائے گا کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے الزم و ملزوم ہو جائیں گے‬
‫تنظیمیں ایسے لوگوں کے سر پر بہت اچھی چلتی ہیں جو ذاتی زندگی میں صلہ رحم اور احسان مند اور ایمان دار ہوں۔‬
‫عبادت مسلمانوں کو ہللا نے بالکل پانی کی نعمت کی طرح نوازی ہے۔ جیسے ایک درخت پانی کے بغیر سوکھ جاتا ہے‬
‫ایسے ہی کوئی جماعت یا تنظیم ہللا کی عبادت اور رسول محمد صلی ہللا کی محبت کے بغیر سکڑ جاتی ہے اور اس کے‬
‫کارکن منتشر ہوجاتے ہیں۔‬

‫جب تنظیم یا جماعت میں کوئی تنظیمیں یا عمومی جھگڑا یا فتنہ سر اٹھائے تو اسٹبلشمنٹ کو مجلس مشاورت بالنی‬
‫چاہیے جو سب سے پہلے فریقین کا مدعا سنیں پھر اس کا حل قرآن وحدیث سے تالش کریں‪ ،‬یعنی مذہبی رہنمائی لیں۔ اگر‬
‫وہاں سے کوئی حل نہ ملے تو فریقین اور حاضرین مجلس کی متفقہ رائے سے جیوری ٹیم جو کہ‪ 2‬یا ‪ 4‬ممبران پر‬
‫مشتمل ہوکا انتخاب کریں جو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جھگڑوں اور فتنوں کا تنظیم میں سے خاتمہ‬
‫کریں اور تنظیم کو منتشر ہونے اور نا اتفاقی سے ایک ہی نشست میں بچالیں گے۔نئے ساتھیوں کو تنظیم یا جماعت کا‬
‫منہج اور منشور اچھی طرح سے بتایا اور سمجھایا جائے اور ان میں قربانی اور ایثار کا جذبہ پیدا کیا جائے۔‬

‫وقتی جوش اور جذبہ بلکل پریشر کوکر میں رکھے پانی کی طرح ہوتا ہے جو آتا ہے جو ایک بار وبال آنے پر کوکر کا‬
‫ڈکھن بھک سے اڑا دیتا ہے اور اردگرد موجود انسانوں کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے ککر بھی خالی ہو جاتا ہے اسی‬
‫طرح سوچ فکر اورنظریہ کو سمجھے بغیر صرف وقتی جوش اور جذبے کے ساتھ شامل ہونے والے افراد بھاگ کھڑے‬
‫ہوتے ہیں اور ان کا جوش اور جذبہ بالکل ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور وہ کسی کام کے نہیں رہتے ناخود کے اور نہ ہی کسی‬
‫تنظیم یا ادارے کے۔ پرانے ساتھیوں کو ریا کاری تکبر اور غرور سے بچانا اور ان کی تربیت کرنا ایڈمنسٹریشن کے‬
‫فرائض میں شامل ہے مگر مینجمنٹ کا بھی فرض ہے دنیا کے وہ پرانے ساتھیوں پر گہری نظر رکھے۔‬

‫انقالب سوچوں کی تبدیلی سے رونما ہوتے ہیں لوگوں کی تبدیلی سے نہیں‪ ،‬لوگ آتے جاتے رہتے ہیں مگر مثبت سوچ‬
‫ہمیشہ ایک ہی رہنی چاہیے یا وقت کے ساتھ حاالت و واقعات کو نظر میں رکھ کر مثبت رخ پر بدلنا چاہیے۔ لوگوں کی‬
‫تبدیلی سے صرف تھوڑی دیر کا میلہ لگتا ہے انقالب نہیں آتا۔ جب تک دماغوں میں موجود نظریات اور سوچیں تبدیل نہ‬
‫ہونگی انقالب کی منزل بہت دور ہے۔غیر ملکی مبصرین اور مفکرین کی معاشرے کے متعلق تعریفات سے میں انکاری‬
‫ہو ں۔ ان کے بقول مختلف مزاج اور مختلف نظریات کے حامل لوگوں کا کوئی خاص گروہ معاشرہ کہالتا ہے‪ ،‬جبکہ ایسا‬
‫نہیں ہے۔اسے وقتی طور پر اگر معاشرہ مان بھی لیا جائے تب بھی یہ تاریخ اسالمی سوچ اور نظریہ پر پوری نہیں‬
‫اترتی۔‬

‫معاشرہ وہ تھا جو ہمارے نبی حضرت محمد صللہ وسلم نے ہللا کے احکامات عرب میں پھیال کر تشکیل دیا تھا۔ان سے‬
‫پہلے سب مندرجہ باال فرنگی تاریخ کے مطابق نام نہاد معاشرے کے فرد تھے مگر جب ہمارے نبی حضرت محمد صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم نے نبوت کا اعالن کیا تو جوق در جوق الگ الگ مزاج اور نظریے کے مالک صحابہ نے ایک مزاج ایک‬
‫نظریہ اپنا کر نئے معاشرے کی بنیاد ڈالی تھی۔ اسالم سے پہلے ہر کوئی منتشر سوچ اور مزاج کا حامل تھا اسالم نے‬
‫سب کو ایک جیسا مزاج اور سوچ دیکرباقاعدہ معاشرے کی زنجیر میں باندھا تھا۔لہذا میری نظر میں معاشرہ ایک جیسے‬
‫مزاج اور نظریہ رکھنے والے لوگوں کے گروہ کا نام ہے۔‬

‫اس لیے ہمیں تنظیم سازی بھی ایسے طریقے سے کرنی چاہیے کہ اس میں معاشرے کا اہم پہلو اپنی پوری شان سے نظر‬
‫آئےاور معاشرے میں تنظیم اور تنظیم کے کارکنان اور اسٹیبلشمنٹ الگ جگہ پر کھڑے نہ نظر آئیں بلکہ اسالمی تعریف‬
‫کے مطابق موجود معاشرے کا حصہ لگے۔ذمہ داری اور عہدہ اس انسان کو دیا جانا چاہیے جس کا تقوی بلند ہو‪ ،‬خطابت‬
‫کا جوہر رکھتا ہو اور وہ اپنی ذات میں پورا سائیکاٹرسٹ ہو جو لوگوں کی اور تنظیمی ساتھیوں کی نفسیات پر گہری نظر‬
‫رکھتا ہو اور ان کی نفسیات کے مطابق ان سے کام لینا جانتا ہو۔‬

‫جس منزل کا کوئی راستہ نہیں وہ منزل بیکار ہے‪ ،‬یہ سفر کی کوئی منزل نہیں وہ سفر بیکار ہے اور منزل بھی ہے‪،‬‬
‫راستہ بھی ہے مگر سفر کرنے کا طریقہ نہیں معلوم تو وقت کا زیاں ہے۔ لہذا تنظیمی افراد کو ان تینوں باتوں کا مطلب‬
‫اور مقصد بتانا اسٹیبلشمنٹ کا فرض ہے تاکہ دورانے سفر (تحریک اور جدوجہد) کوئی کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہ‬
‫بنے۔آخر میں بس اتنا ہی کہ ہمیں آج عہدہ جاتی جنگ نہیں بلکہ عہد جاتی جنگ لڑنی ہے۔بحیثیت مسلمان جو عہد ہم نے‬
‫اپنے ہللا اور اس کے رسول صلی ہللا وسلم سے باندھا ہے کے ان کا نام پوری دنیا پر پھیالئیں گے۔ہم اگر آج عہدوں اور‬
‫تعریفوں کی جنگ میں الجھ گئے تو شاید ہمارا بھی نام سے دوسری قوموں اور جماعتوں کی طرح مٹ جائے۔‬

You might also like