You are on page 1of 1

‫انجنیٸر سید حسین موسوی‪.

‬‬
‫اصالح اور فرقه پرستي‬
‫ہم فرقہ پرستی میں اتنے خود پسند بن گئے ہیں کہ ہم نے یقین کرلیا ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہی حق ہے۔ ہمیں‬
‫کسی اصالح کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ جو بھی ہماری اصالح کی بات کرے وہ ہمارا دشمن ہے۔ اس لیے‬
‫ہمارے فرقے کے جتنے مبلغ ہیں ان کی ذمیداری ہے کہ ہمارے ہر عمل کو الٹے سیدھے دلیل سے حق قرار دیں چاہے‬
‫وہ باطل ہی کیوں نہ ہو۔ اگر وہ یہ کہے کہ ہمارا یہ عمل غلط ہے تو ہم اسے اپنے فرقے سے نکالنے میں دیر نہیں‬
‫کرینگے۔ ہان جو مبلغ ہمارے مخالف فرقوں کے ہر عمل کو غلط قرار دے وہ ہمارا سب سے بڑا دوست ہے۔‬
‫مجھے نہیں معلوم کہ جب ہمارے امام عجل ہللا فرجہ الشریف تشریف الئینگے اور اس دور کے رائج دین سے مختلف‬
‫دین پیش کرینگے جو ہمیں بلکل نیا دین‪ ،‬نیا نظام‪ ،‬نئی عدالت اور نیا قرآن لگے گا ‪" :‬اذا خرج القائم یقوم بامر جدید‪ ،‬و‬
‫کتاب جدید‪ ،‬و س ّنة جدید و قضاء جدید" (اثباه ھداه ج‪ 7:‬ص‪ )83 :‬تو ہم ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرینگے؟ کیا اس‬
‫نفسیات کے ساتھ جو ہم اس وقت رکھتے ہیں ان کو بھی اپنا دشمن قرار نہیں دینگے؟‪U‬‬
‫امام جعفر صادق علیہ السالم فرماتے ہیں‪:‬‬
‫أحبّ اخواني إليَّ من أهدى إليَّ عيوبي (تحف العقول‪)366 :‬‬
‫دوستوں میں سے مجھے وہ زیادہ محبوب ہے جو میرے عیب مجھے ہدیہ کرے۔‬
‫جب کہ ہم نے اس کے بلکل الٹ نفسیات اپنالی ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ جو بھی یہ کہے گا کہ تم میں یہ عیب ہے اس‬
‫کی اسالھ کریں وہ ہمارا دشمن ہے۔‬
‫ہمیں چاہیے کہ ہم ان افراد کی بات غور سے سنیں جنہوں نے اپنی زندگی دین کی خدمت میں گذاردی ہے‪ ،‬ان کی‬
‫اصالحی اقدامات کے دشمن نہ بنیں بلکہ انکا ساتھ دیں تاکہ دین کا روشن چہرا سامنے آ سکے جو ہماری رسم و رواج‬
‫میں چھپ گیا ہے۔ والسالم‪.‬‬

You might also like