You are on page 1of 99

1

‫ف ہرست مضامین‬

‫‪20‬‬ ‫پہلباب‬ ‫‪1‬‬


‫‪20‬‬ ‫صوفیت کی ترقی‬ ‫‪2‬‬
‫‪21‬‬ ‫پہلی فصل‬ ‫‪3‬‬
‫‪27‬‬ ‫دوسری فصل‪:‬ابتدائی صوفیہ‬ ‫‪4‬‬
‫‪29‬‬ ‫ابتدائی تصوف‬ ‫‪5‬‬
‫‪32‬‬ ‫اس مرحلہ سے متعلق ہمارا تبصرہ‬ ‫‪6‬‬
‫‪38‬‬ ‫تیسری فصل‪:‬اصطلحات اور غیر یقینی صورتحال‬ ‫‪7‬‬
‫‪43‬‬ ‫اس کے سنگین نتائج‬ ‫‪8‬‬
‫‪45‬‬ ‫چوتھی فصل‪ :‬صوفیہ اور وجودیہ‬ ‫‪9‬‬
‫‪56‬‬ ‫دوسرا باب‬ ‫‪10‬‬
‫‪56‬‬ ‫صوفیاءکی بدعات‬ ‫‪11‬‬
‫‪57‬‬ ‫پہلی بحث ‪:‬شریعت وحقیقت یا شریعت وطریقت‬ ‫‪12‬‬
‫‪63‬‬ ‫دوسری بحث‪:‬حقیقت( طریقت )محمدی‬ ‫‪13‬‬
‫‪65‬‬ ‫تیسری بحث ‪:‬وحدت ادیان‬ ‫‪14‬‬
‫‪69‬‬ ‫چوتھی بحث‪:‬اولیاءاور کرامات‬ ‫‪15‬‬
‫‪78‬‬ ‫پانچویں بحث‪:‬اقطاب واتاد‬ ‫‪16‬‬
‫‪81‬‬ ‫چھٹی بحث‪:‬بکواسیات اور نامعقولیات‬ ‫‪17‬‬
‫‪87‬‬ ‫دوسری فصل ‪:‬صوفیاءکی عملی بدعات!‬ ‫‪18‬‬
‫‪92‬‬ ‫دوسری بحث ‪:‬علم حدیث اور صوفیاء‬ ‫‪19‬‬
‫‪95‬‬ ‫تیسری بحث‪:‬ہڈ حرامی اوربگاڑ‬ ‫‪20‬‬
‫‪98‬‬ ‫چوتھی بحث‪:‬سماع اور ذکر‬ ‫‪21‬‬
‫‪100‬‬
‫پانچویں بحث‪:‬صوفیاءاور جہاد‬ ‫‪22‬‬

‫‪104‬‬ ‫آج کل کے صوفیاء‬ ‫‪23‬‬


‫‪109‬‬ ‫اختتامی کلمات‬ ‫‪24‬‬
‫‪118‬‬ ‫لحقہ‬ ‫‪25‬‬
‫‪120‬‬ ‫طریق رفاعی کی خلوت نشینیاں‬ ‫‪26‬‬
‫‪121‬‬ ‫‪ 27‬طریقہ تیجانیہ میں جوھرۃ الکمال کا ورد‬
‫‪122‬‬ ‫‪ 28‬ابوسلیمان الدارانی کے کلمات‬
‫حلج کے حالت زندگی‬
‫‪122‬‬ ‫‪29‬‬

‫‪124‬‬ ‫ثبت المراجع‬ ‫‪30‬‬

‫‪2‬‬
‫‪Muslim World Data Processing Pakistan‬‬
‫مقدمہ طباعت دار الرقم‬
‫در اس ات ف ي ال فرق‬

‫الصوفية‬
‫ن شأت ها وت طورها‬

‫ت أل يف‬

‫‪3‬‬
‫طا رق‬ ‫مح مد الع بْ ده‬
‫عب د ال حليم‬

‫الطب عة ال را بعة‬
‫هـ ‪ 2001 -‬م ‪1422‬‬
‫قامت شبكة الدفاع عن السنة بنشر هذا الكتاب على النترنت ‪،‬‬
‫نسأل الله أن يجعل عملنا خالصا ً لوجهه الكريم‬

‫مقدمہ طباعت دار الرقم‬


‫ایک دوست کےہ بھائی کی یہہ چاہت ہوئی کہہ وہہ ”دائرة المرکز‬
‫السلمی“ کی یہاں کسی شاخ ک ے مدیر ہیں اور اس کتاب کو‬
‫مفت تقسیم کے لئے دوبارہ شائع کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان ممالک‬
‫میں اس کی شدید ضرورت ہے جن میں ہم نے بمقتضی مشیئت‬
‫الٰہ ی اپنی زندگی کا طویل عرص ہ گزار رہے ہیں جو ہ م میں سے‬
‫بعض کے لئے تو واقعی طویل ہے اور بعض کے لئے مختصر ۔‬

‫میں صوفیت کےہ متعلق جو کچھہ جانتا ہوں وہہ تو جانتا ہ ی ہوں‬
‫خوا ہ وہ کتب ہوں جو ان ک ے متعلق لکھی گئیں یا و ہ کتب جو ان‬
‫کے ہ اقطاب (جمع قطب صوفیاءکے ہ نزدیک صاحب مقام‬
‫سردار)میں سے کسی نے خوداپنے متعلق لکھی ہوں یا وہ تحریک‬

‫‪4‬‬
‫ہ و جو مشرقی ممالک میں ان ک ے بعض بڑوں ک ے باہمی تصادم‬
‫کے نتیجے میں وجود میں آئی ۔‬

‫اللہ گواہ ہے کہ میں نے جو کچھ جانا یا مشاہدہ کیا یا زندگی گذارآیا‬


‫اس سے بالکل خوش نہیں ۔یہ لوگ اس سنت مطہرہ سے بڑے ہی‬
‫دور ہیں کہ جس کی راتیں بھی دن کی مانند روشن ہیں اور جن‬
‫س ے کج روی وہ ی اختیار کرتا ہے جو ہلکت میں گرا پڑا ہ و جیسا‬
‫ک ہ رسول اللہ ن ے فرمایا‪”:‬اور لوگ غلطی اورصحیح دونوں کرتے‬
‫ہیں غلطی انسان پر وارد ہوتی ہے بلک ہ ی ہ اس ک ے خمیر کا حصہ‬
‫ہے “۔لیکن ی ہ لوگ گمرا ہ ہیں گمرا ہ کرت ے ہیں الل ہ کی قسم میں‬
‫نہیں جان سکا کہ ان کی پالیسی کیا ہے کیا وہ نہیں جانتے کہ بدعت‬
‫جہنم کا باعث ہے کیاانہوں ن ے رسول اللہہ کا ی ہ فرمان نہیں پڑھا‬
‫کہہ ‪:‬من عمل عمل لیس علیہہ امرنا فھ و رد ّ جو ایسا عمل کرے‬
‫جس پر ہمارا حکم نہہ ہو وہہ مردود ہے(مسلم)۔شاطبی فرماتے‬
‫ہیں‪:‬علماءن ے اس حدیث کو تہائی اسلم قرار دیا ہے کیونک ہ اس‬
‫میں آپ کے حکم کی مخالفت کی تمام صورتیں جمع کردی گئی‬
‫‪1‬‬
‫ہیں خواہ وہ بدعت کی صورت میں ہویا معصیت کی صورت میں‬
‫۔‬

‫کیا صوفی ہ ن ے حذیف ہ بن یمان کا ی ہ قول نہیں سن رکھا‪:‬انہوں نے‬


‫دوپتھ ر ل ے کر ایک دوسر ے پر رک ھ کر اپن ے شاگردوں س ے پوچھا‬
‫کیا ان دونوں پتھروں کےہ بیچ میں روشنی دکھائی پڑتی ہے؟وہ‬
‫کہنےہ لگے!ابوعبداللہہ ہمیں توبہ ت کم روشنی دکھائی دیتی ہےہ ۔‬
‫فرمانے لگے ‪:‬اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‬
‫ی ہ نورالبجع (ایک قسم کا پرند ہ جس کی چونچ لمبی اور چوڑی‬
‫ہوتی ہے اور اس ک ے نیچ ے ایک تھیلی سی ہوتی ہے مراد اس کی‬
‫چونچ کے دونوں حصوں کے درمیان جھری ہے)سے بھی ظاہر ہوگا‬
‫تاآنکہہ ایک وقت حق صرف اس قدر رہہ جائےہ گا جس قدر ان‬
‫دونوں پتھروں کےہ درمیان سےہ روشنی جھلک رہی ہےہ اللہہ کی‬
‫قسم تم بدعتیں تلش کروگے تاآنکہ اگر کسی بدست کو ترک کیا‬
‫جارہ ا ہوگا تولوگ کہیں گ ے سنت ترک کردی گئی ۔نیز عبداللہ بن‬
‫مسعود نےہ فرمایا‪:‬ہمارےہ آثار کی اتباع کرو اور بدعتیں مت‬
‫نکالو کیونکہ تم کفایت کردیئے گئے ہو (یعنی دین ہی کافی ہے )۔‬

‫بدعت اور اس کے آثار پر طویل گفتگو ہوسکتی ہے مگر میں نے‬


‫صرف ان امور پر تنبی ہ کی ہے جو اس دور میں رائج ہیں خاص‬
‫(العتصام‪)78/1:‬‬ ‫‪1‬‬

‫‪5‬‬
‫کر ان ممالک میں رائج بعض نادان مسلمانوں کا دین اسلم سے‬
‫متصادم بعض صوفیہہ کی تعظیم کےہ مختلف مظاہ ر سےہ متعلق‬
‫اور ان مشرقی ممالک س ے آن ے والوں ک ے متعلق جو ان جراثیم‬
‫کو وہاں سے ل کر یہاں عوام الناس میں پھیلت ے ہیں یہ بہ ت زیادہ‬
‫نہیں تعجب ہے کہ یہ لوگ سنت مطہرۃ کے انتساب کا دعویٰ کرتے‬
‫ہیں بلکہ ان میں سے بعض منبروں پر اسلمی جمعیت یا اسلمی‬
‫مرکز کےہ نام سےہ خطبےہ دیتےہ ہیں اور یہہ باور کراتےہ ہیں کہہ وہ‬
‫سنی ہیں یا کسی ایسی تقریب میں شریک ہوکر جس کا کوئی‬
‫فائدہہ حاصل نہیں ہوتا یہہ صوفی ہیں یا صوفیاءسےہ محبت کرنے‬
‫والے ان جاہلوں میں سے ہیں جو اس طرح کے مراکز میں کھڑے‬
‫ہوکر اس طرح کےہ دعوےہ کرتےہ ہیں کہہ وہہ لوگوں کےہ سامنے‬
‫صوفیوں کی توحید پیش کرت ے ہیں اور لوگوں کو الل ہ کی طرف‬
‫دعوت دیت ے ہیں کیا یہ لوگ عائش ہ ک ے اس قول س ے واقف نہیں‬
‫ک ہ ‪”:‬جو بدعتی ک ے پاس آیا اس کی حوصل ہ افزائی کی تو گویا‬
‫اس ن ے اسلم کی عمارت ڈھان ے میں اس کی مدد کی “۔الل ہ کے‬
‫دین میں سستی برتن ے وال ے ان لوگوں کو منبروں کا امین کس‬
‫طرح قرار دیا جاسکتا ہے اور کیوں کر لوگ انہیں آگے کردیتے ہیں‬
‫کہ اس امانت کو ان لوگوں ک ے سپرد کرک ے ضائع کردیں جن کے‬
‫متعلق حسن ظن نہیں رکھ ا جاسکتا اور جن ک ے ارادوں س ے بے‬
‫خوف نہیں رہ ا جاسکتا اور جو اسلمی جماعتوں کےہ کمان کے‬
‫خلف برےہ ارادےہ رکھتےہ ہوں وہہ بھ ی ان علقوں میں جہاں کے‬
‫لوگ دین صرف اسی قدر جانتے اور سمجھتے ہیں جو منبروں پر‬
‫انہیں بتایا جائے۔ میں کہتا ہوں ‪:‬کہ لوگ آخر کیوں کر ان گمراہ اور‬
‫بدعتی لوگوں کو آگے بڑھادیتے ہیں تاکہ وہ لوگوں سے خطاب کرے‬
‫پھ ر تحریف کر ے ‪،‬فساد کر ے ‪،‬جھوٹ بک ے اور لوگوں کو سیدھی‬
‫اور سچی راہ سے نکال باہر کرے ۔‬

‫کیایہہ جہالت نہیں‪ ....‬عام لوگوں کی جہالت جنہوں نےہ اپنے‬


‫معاملت ان جیس ے ائمہ ‪،‬شیوخ اور خطباءک ے سپرد کردیئ ے نہ ان‬
‫کی علمیت کی تحقیق کی نہہ ہی ان کےہ منہج اخلص ‪،‬‬
‫اورخیرخواہ ی کی اور پھ ر معاشر ے ک ے سرکرد ہ لوگ انہیں عوام‬
‫الناس ک ے سامن ے حدیث بیان کرن ے ‪،‬خطب ہ دین ے کی دعوت دیتے‬
‫ہیں توکیا یہہ لوگ اسلمی مراکز اجتماعات ‪،‬تقاریب وغیرہہ میں‬
‫انہیں لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے اللہ سے ڈرتے نہیں اورانہی‬
‫میں ہ ی رشد وفلح ک ے کیوں طالب ہوت ے ہیں؟ کیا ان پر واجب‬
‫نہیں ک ہ و ہ ی ہ علمی مناصب صرف ایس ے لوگوں ک ے سپرد کریں‬
‫جو صحیح سنت کے پیروکارہوں بدعت وزیغ وضلل سے دور ہوں‬

‫‪6‬‬
‫کیای ہ بہتر نہیں ک ہ جاہ ل عوام ان لوگوں ک ے بجائ ے ان لوگوں کے‬
‫پاس جائیں جن کےہ پاس سنت کا علم ہوتاکہہ امانت علمی کا‬
‫تقاضا پورا ہوسک ے یا ی ہ بہتر ہے ان کا تسلط اور غلب ہ برقرار رہے‬
‫اگرچہ علم وامانت کا ضیاع ہو یا پھر معاشرے کے سرکردہ لوگوں‬
‫کے ان جیسے لوگوں سے دنیاوی مفاد وابستہ ہیں کہ وہ ان کے ان‬
‫دینی مناصب کو پکا کرتے ہیں جو انہوں نے زمانے کی غفلت میں‬
‫حاصل کئ ے ہوں ۔کیا ملک میں علم کا ایس ے ہ ی فقدان پڑگیا ہے‬
‫جیس ے جہنمیوں ک ے ہاں پانی کا فقدان ہوتا ہے کیا ان ک ے دنیاوی‬
‫مفادات اسی طرح مضبوط ہوں گے کہ وہ عوام اسلمی مراکز ‪،‬‬
‫تنظیموں اور تحریکوں پر مکمل کنٹرول رکھیں‪........‬یا ی ہ سب‬
‫مکس پلیٹ ہے؟!۔‬
‫یقینا حق ہی مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے اللہ کی قسم‬
‫اگر ہم اپنے دینی امور ان لوگوں کے سپرد کردیں جو انہیں کھیل‬
‫بنالیں اور اس لئق نہہ ہوں تو ہمیں ضرور شرمندہہ ہونا پڑےہ گا‬
‫اس دن کہہ جب ندامت کا کوئی فائدہہ نہہ ہوگاان جیسےہ صوفیہ‬
‫جیسے حمزہ یوسف اس کا شیخ مالکی اور حمیم کیلر (جس نے‬
‫خود اپنےہ لئےہ کج روی کا اعتراف کررکھا ہے)یہہ ان ممالک کے‬
‫نوجوانوں میں گھٹیا افکار رائج کرتےہ ہیں اور محی الدین ابن‬
‫عربی (جو دراصل محی الدین یعنی دین کو زند ہ کرن ے وال نہیں‬
‫بلکہ ھادم الدین یعنی دین کی عمارت ڈھانے وال تھا)اور حلج اور‬
‫بایزید بسطامی وغیرہہ کےہ مذہ ب کی طرف دعوت دیتےہ رہےہ یہ‬
‫سب علی العلن وحدت الوجود ‪،‬حلول اور اتحاد ک ے قائل تھے‬
‫اور اپن ے ہی اعتقاد کی حقیقت کو کمتر سمجھت ے تھے اللہ ہی ان‬
‫ک ے دلوں کی کیفیت جانتا ہے ان کا شیخ اکبر رتب ہ جمع (الل ہ ان‬
‫سب کو جہنم میں جمع فرمائے)یعنی اللہ اور اللہ سبحانہ کو پالینے‬
‫والے اجتماع واتحاد بیان کرتے ہوئے کہتا ہے‪:‬‬

‫واشھد فیھا انھا لی صلّت‬ ‫لھا صلواتی بالمقام اقیمھا‬


‫حقیقتہ الجمع فی کل سجدہ‬ ‫کلنا مصل عابد ساجدا لی‬
‫ترجمہ‪”:‬جس مقام پر میں فائز ہوں اس پر فائز رہتے ہوئے میں یہ‬
‫گواہی دیتا ہوں کہ میری نمازیں اس کے لئے ہیں اور اس نے بھی‬
‫میرے لئے نماز پڑھی ہے ہم دونوں ہی نماز پڑھتے ہیں عبادت کرتے‬
‫ہیں ہم سجدہ کرتے ہیں ایک متحد حقیقت کو“۔‬

‫غور کیجئے وہ اپنے نفس کے لئے نماز پڑھتا ہے او ر اسے ہی سجدہ‬


‫کرتا ہے کیونک ہ (اس ک ے بقول )اس کی ذات ہ ی تو الل ہ ہے (اللہ‬

‫‪7‬‬
‫اسے اور اس کے ہم خیالوں کو رسوا کرے ۔آمین)نیز اس شعر کا‬
‫شارح مرتبہ فنا فی الذات کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے‪:‬‬

‫وذاتی لذاتی اذا‬ ‫ففی الصحو بعد المحو لم اک غیرھا‬


‫تحلت تجلت‬
‫ترجمہ‪”:‬فنا ہوجانے کے بعد ہوش میں آ کر بھی میں اس سے الگ‬
‫نہیں ہوتا اور تیری ذات جب میری ہ ی ذات میں حلول کرتی ہے‬
‫تو آشکار ہوجاتی ہے “۔‬

‫حمیم ‪،‬حمزہہ وغیرہہ جیسےہ شعبدہہ باز اس طرح کی خرافات کو‬


‫عام کرتے ہیں ان کے پیروکاروں کی حالت ان لوگوں کو دیکھ کر‬
‫معلوم کریں جو اولیاءکے مزاروں کا طواف کرتے ہیں تاکہ ان کی‬
‫کتابوں کی طباعت کی ان سے اجازت حاصل کرسکیں ۔جیسا کہ‬
‫شیخ عبدالحلیم محمود ازہری ن ے اپنی کتاب ”السید البدوی“کے‬
‫مقدمے میں ذکر کیا ہے ۔‬
‫ی ہ لوگ صرف ان خرافات کی ترویج پر ہ ی اکتفاءنہیں کرت ے بلکہ‬
‫اہ ل السنۃہ والجماعۃہ پیروکاران رسول پر کفر والحاد کی تہمت‬
‫بھ ی لگاتےہ ہیں ان کی امتیازی علمات یہہ ہیں کہہ یہہ صحابہہ کو‬
‫بنظر تحقیر دیکھتےہ ہیں کیونکہہ ان کی سیرتوں میں انہیں اپنی‬
‫بدعات کےہ دلئل نہیں ملتےہ علوہہ ازیں یہہ لوگ ابن تیمیہ جیسے‬
‫اہل علم پر بدعت وکفر کا حکم لگانے سے گریز نہیں کرتے جس‬
‫کی وج ہ صاف ظاہ ر ہے ک ہ ابن تیمیہہ ایسی بدعات اور بدعتیوں‬
‫کے سخت مخالف تھے ۔‬

‫چنانچہہ امت اسلمیہہ کو ان سےہ مکمل اجتناب کرنا چاہئیےہ اور‬


‫ہمیں خاص کر ان سےہ ضرور بچنا چاہیئےہ کیونکہہ اسلمی کتب‬
‫وماخذ ومراجع تک ہمارا وصول مشکل ترین ہے اور اہل علم کی‬
‫قلت ہے جبکہ جھوٹوں‪،‬دھوکے بازوں‪،‬مفاد پرستوں‪،‬بندگان خواہش‬
‫اور متبعین کی کثرت ہے ہم پر رسول الل ہ کی سنت اور ان کے‬
‫بعد ان کے خلفاءراشدین مہدیین کا طریقہ لزم ہے ہمیں چاہیئے کہ‬
‫ہ م اس ے مضبوطی س ے تھام لیں اور دین میں نئی ایجادات سے‬
‫اجتناب کریں کیونک ہ بلشک وشب ہ ہ ر نیاکام بدعت ہے(یہاں حدیث‬
‫ل ہے جو بدعت حسنہ وسیئہ دونوں کو شامل ہے یعنی‬ ‫میں لفظ ک ُ ّ‬
‫ہر بدعت خواہہ حسنہہ ہو یا خواہہ سیئہہ ایسےہ ہی ہرنیاکام بدعت‬
‫وگمراہی ہے)وہ لوگ ہمیں دھوکے میں نہ ڈال دیں جو اپنی ظاہری‬
‫وضع قطع اور پرفریب گفتگو کےہ ذریعےہ خود کو اہ ل علم میں‬
‫شمار کرواتے ہیں جبکہ حقیقتا ً ان کی گول مول گفتگو سنت کی‬

‫‪8‬‬
‫مخالفت میں ہوتی ہےہ دین سےہ خارج ہوتی ہےہ بلکہہ دین کی‬
‫بنیادیں ڈھارہی ہوتی ہے۔‬

‫واﷲ من وراءالقصد‬
‫ڈاکٹر طارق عبدالحلیم ٹورنٹو‬
‫کنیڈا‬
‫جنوری‬ ‫بمطابق‬ ‫‪ 1417‬ہجری‬
‫‪7199‬ء‬

‫جب فکر اسلمی کی بنیاد ہی غلط ہوجائے ۔جیسا کہ آج کل ہے ۔‬


‫پھ ر ی ہ تصوف وتوہ ّم اور پریشان خیالت میں ہ ی مبتل کر ے گی‬
‫اور اندھی تقلید کا رجحان پید اکرے گی۔‬
‫بن‬ ‫(مالک‬
‫نبی)‬

‫جب تصوف کی بو دلوں میں داخل ہوجائے پھر مسلمان دربانوں‬


‫کاہی رخ کرتے ہیں ۔‬
‫(محمد اقبال)‬

‫‪9‬‬
‫ان الحمد ّللٰہہ نحمدہہ ونستعینہہ ونستغفرہہ ونعوذ با‬
‫ﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲ من شرور‬
‫انفسنا وسیئات اعمالنا من یھدہہ ا ﷲ فل مضل ل ہ ومن یضلل فل‬
‫ھادی لہ وصلی اﷲ علی سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم وبعد‪:‬‬

‫‪.1‬صوفیا سےہ متعلق اس کتاب کا مقصد ان تمام کتابوں کا‬


‫احاطہہ نہیں ہےہ جو صوفیوں کےہ متعلق لکھی گئی ہوں یا‬
‫صوفیاءنے لکھی ہوں خواہ اپنے بارے میں یا صوفیت کے متعلق‬
‫اورنہہ ہی ان کےہ اقوال وآراءاور ان کےہ طریقوں کی مکمل‬
‫تفصیل بیان کرنا ہےہ ہمارا مقصد طوالت نہیں بلکہہ ہمارا وہ‬
‫ہدف جس ے ہ م ن ے اپنی نگاہوں ک ے سامن ے نصب کیا ہے و اہل‬
‫حق کو صوفیت س ے متعلق ایک بنیادی اور مختصر معلومات‬
‫فراہم کرنا ہے اور یہ فرقوں اور تفرقہ بازی سے متعلق کلم کا‬
‫ڈھیر لگاکر ناممکن ہے چنانچہ صوفیاءکے احوال کی معرفت ان‬
‫کےہ لئےہ اصولوں اور ان کی ترقی کےہ مراحل اور ان کی‬
‫بدعات اور ان ک ے بنیادی طریق ے جان لینا ہ ی کافی ہے جہاں‬
‫تک ان لوگوں کا تعلق ہےہ جو صوفیت میں سرتا پیر غرق‬
‫ہوچکےہ ہیں تو ان کےہ بارےہ میں سلف صالحین کا کہنا ہےہ کہ‬
‫‪”:‬بدعتی کی طرف بہت ہی کم دھیان دینا چاہیئے “۔‬

‫‪.2‬ہ م اس صوفیت کےہ متعلق نہیں لکھہ رہےہ جو ماضی کا حصہ‬


‫تھی جیسا کہ کہا جاتا ہے بلکہ وہ آج بھی ماضی کے تسلسل کے‬

‫‪10‬‬
‫ساتھ ہی موجود ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ اس کاسایہ وقتی طور‬
‫پر سمٹ گیا تھا اور اب یہہ پوری قوت سےہ ایک مرتبہہ پھر‬
‫اسلم کی دعوت حق کے مقابلے میں پلٹ آئی ہے مشرق میں‬
‫بریلویت مغرب میں تیجانیت اور ان دونوں کے مابین شاذلیت‬
‫اور برھانیت یہہ تمام لمتناہی سلسلےہ جواب مکہہ مدینہہ کی‬
‫طرف پلٹ رہے ہیں ک ہ جو عرص ہ دراز تک ان س ے خالی رہے‬
‫سو کیوں نہہ ہ م مسلمانوں کو ان کی غلطیوں اور خطرات‬
‫سے آگاہ کریں ؟‬

‫‪.3‬جب ہم صوفیت سےہ متعلق گفتگو کریں تو اس سےہ ہمارا‬


‫مقصد صوفیت کا اصطلحی معنی ہےہ یعنی وہہ صوفیت جو‬
‫مخصوص کتابوں میں مخصوص اصطلحات کانام ہے ۔اس کے‬
‫بار ے میں بہ ت س ے اشکالت ہیں ی ہ حقیقی اسلمی منہ ج سے‬
‫کوسوں دور ہےہ بعد ازاں یہہ حلول اور اتحاد جیسےہ خطرناک‬
‫امور میں جاملی تویہہ بلشبہہ اہ ل السنۃہ والجماعۃہ کےہ خطوط‬
‫سےہ دوری اور تفرقہہ بازی ہےہ اور جو لوگ کہتےہ ہیں کہہ ہم‬
‫صوفیت س ے اسلمی سلوک‪،‬دلوں کو نرم کرنا ‪،‬اور دنیا سے‬
‫بے رغبت کرنا مراد لیتے ہیں تو ان سے کہا جائے کہ تم ان امور‬
‫کوصوفیت کانام ہی کیوں دیتے ہوجو کہ ایسے رموز واشکال پر‬
‫مشتمل ایک مستقل علم کا نام ہےہ جو خلف اسلم ہےہ تم‬
‫شبہات س ے دور کیوں نہیں رہت ے اور ان ناموں کو کیوں ترک‬
‫نہیں کردیت ے ک ہ جن کی الل ہ ن ے کوئی دلیل نہیں اتاری نیز زہد‬
‫وتقوی کی کوئی بھی مذمت نہیں کرتا البتہہ صوفیت کی‬
‫مذمت کرتے ہیں‪2‬۔‬

‫جولوگ حسن اخلق‪ ،‬زہد اور شرعی آداب بجالتےہ ہیں انہیں‬
‫نساک‪،‬قراء‪،‬زہاد‪،‬اور عباد کے القابات س ے ملقب کیا جاتا ہے جبکہ‬
‫صوفیہہ کا لقب نہیں دیا جاتا جو روح اور روحانی بیماریوں اور‬
‫دلی خیالت ک ے بار ے میں پڑھت ے پڑھات ے ہیں اور نغظ مذہ ب کے‬
‫رسیا ہوتے ہیں‪ 3‬۔‬
‫چنانچہہ مسئلہہ اخلق وسلوک کا نہیں بلکہہ ان بناوٹی طور‬
‫وطریقوں کا ہے جو روحانی ریاضتوں س ے متعلق خالص عجمی‬
‫اختراعات ہیں جن کا نتیج ہ بلعلم الل ہ ک ے بار ے میں بکواس اور‬
‫اس پر افتراءپردازی ہےہ صوفیت کا مقصد (بزعم خویش )اللہ‬
‫سے مل جانے اور لوگوں سے دور ہوجانا ہے جبکہ یہ منہج انبیاءکی‬

‫تلبیس ابلیس از ابن الجوزی ‪165 :‬‬ ‫‪2‬‬

‫(التصوف السلمی فی الدب والخلق از زکی مبارک ‪)21/2 :‬‬ ‫‪3‬‬

‫‪11‬‬
‫ضد ہے انہیں اس لئ ے مبعوث کیا گیا ک ہ و ہ ساری دنیا میں گھوم‬
‫کرلوگوں کو نیند س ے بیدار کریں یہی وجہ ہے کہ ہم بڑ ے بڑ ے زہاد‬
‫وعباد جیسے ابراہیم ادہم اور فضیل بن عیاض کو اس معنی کی‬
‫صورت میں شمار نہیں کرتے‪4‬۔‬

‫چہہ جائیکہہ ہ م حسن بصری اور ان سےہ پہلےہ لوگوں کو ان میں‬


‫شمار کریں جیسا کہہ صوفیاءپوری ڈھٹائی سےہ ایسا کرنےہ کی‬
‫کوشش کرتےہ ہیں بقول ابن جوزی ”ہ ر فرقہہ لوگوں کےہ سامنے‬
‫جھوٹ کو سچ بناکر پیش کرتا ہےہ اور پھ ر اس کی طرف اہل‬
‫السنۃ کے بڑے بڑے ائمہ کو منسوب کردیتا ہے مثل ً امامیہ شیعہ کی‬
‫تمام باطل احادیث امام جعفر صادق کی طرف منسوب ہیں‬
‫جبکہہ وہہ ان سےہ بری الذم ہ ہیں اور ائمہہ اہ ل السنۃہ میں س ے ہیں‬
‫پہلے قسم کے زہد اور تصوف میں فرق ایسے ہی ہے جیسے تشیع‬
‫کے لغوی معنی میں (یعنی علی سے بلمبالغہ محبت اور ان کی‬
‫مدد کرنا)اور فرقہہ شیعہہ کےہ درمیان ہےہ کہہ اس کےہ مخصوص‬
‫عقائد ہیں جو تحریک باطنیت کا صحابہہ کرام ‪y‬پر طعن وتشنیع‬
‫ک ے راست ے علی ک ے بار ے میں غلو ک ے بعد وجود میں آئ ے بالکل‬
‫اسی طرح باطنیت نے اپنی الحادی تعلیمات کو غالی صوفیاءمیں‬
‫بھی پھیلدیا تھا‪5‬۔‬

‫‪4‬صوفی ہ کو فرق ہ گرداننا بڑ ے ہ ی اچھنب ے اور حیرت کی بات ہے‬


‫کیونکہ سیدھا سادہ عقیدہ یہ ہے کہ وہ بھی اہل السنۃ سے ہیں ۔‬

‫اس بات کے جواب میں ہم کہیں گے کہ اگر تو صوفیاءکا یہ عقیدہ‬


‫ہےہ کہہ اللہہ تک پہنچنےہ کا ذریعہہ کشف وذوق روحانی مشقیں ہیں‬
‫جن کی اللہ نے دلیل نہیں اتاری تو بلشبہ یہ قابل مذمت اور تفرقہ‬
‫بازی ہے توجو حلول اوراتحاد کی بات کہے اس ک ے بار ے میں کیا‬
‫خیال ہے یہ توصریح کفر ہے اور علماءسلف نے علم کلم اور اس‬
‫کی آڑمیں جاری ہون ے والی بدعات وتفرق ہ بازی کی مذمت کی‬
‫ہے اگرچ ہ بعض علماءسلف ن ے بنیت حسن ہ دفاع اسلم کی خاطر‬
‫اس میدان میں قدم بھ ی رکھ ا ہے تو جو فناءاور رہبانیت ک ے نام‬
‫پر عجمی طریق تصوف کی بدعت نکالے اور رقص دف پر اللہ کا‬
‫ذکر کرے اور یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تک پہنچنے کا محمد ‪e‬کی اتباع‬

‫‪( 4‬حاشیہ‪:‬دائرۃ المعارف السلمیہ میں ہے کہ ‪”:‬دوسری صدی ہجری میں پیدا ہونے والے نظریاتی اختلف‬
‫کا کوئی اثر تلش کرنا ہماری بے کار کوشش ہوگی نیز ابراہیم بن ادہم کو ان لوگوں میں سے نہیں مان‬
‫سکتے کہ جن کے مذہب وحدود کی اساس دنیا سے بے رغبتی اور نفس کی اصلح پر ہے ۔‪33/1‬ط ‪1933‬ء)‬
‫‪( 5‬ملحظہ ہو تاریخ المم ‪116/1 :‬از رشید رضا)‬

‫‪12‬‬
‫کے سوا اور طریقہ بھی ہے اس کی مذمت کیوں نہ کی جائے وہ تو‬
‫کافر ہے شیطان کا دوست ہے‪ 6‬۔‬

‫پھر فرق کے عنوان پر لکھنے والے بعض علماءکا تویہی موقف ہے‬
‫جیسے ہ امام رازی اپنی کتاب ”اعتقادات فرق المسلمین‬
‫والمشرکین“میں رقم طراز ہیں‪”:‬جان لو کہ امت ک ے فرق ے بیان‬
‫کرن ے والوں کی اکثریت ن ے صوفیاءکا تذکر ہ نہیں کیااور ی ہ غلطی‬
‫ہے “‪7‬۔‬

‫اس کےہ بعد انہوں نےہ صوفیاءکےہ طبقات و فرقوں کا تذکرہہ کیا‬
‫ہے ۔نیز ابن الندیم نے اپنی کتاب ”الفہرست“کا پانچواں مقالہ ”ان‬
‫سیاحوں‪،‬زاہدوں ‪،‬عبادت گزاروں اور صوفیاءکے بارے میں لکھا ہے‬
‫جو خطرات اور وساوس کے متعلق کلم کرتے ہیں“‪8‬۔‬

‫نیز ابن حزم اپنی کتاب ”الفصل فی الملل والنمل“میں ایک‬


‫فصل بعنوان ”اس قوم کی شناعت جن ک ے فرق ے معروف نہیں‬
‫“باندھنےہ کےہ بعد فرماتےہ ہیں کہہ ‪”:‬صوفیاءکےہ ایک گروہہ نےہ یہ‬
‫دعویٰہ تک کررکھا ہےہ کہہ بعض اولیاءتمام انبیاءسےہ بھی افضل‬
‫ہوتےہ ہیں اور جو عارف باللہہ بن جائےہ اس سےہ اعمال شریعت‬
‫ساقط ہوجاتے ہیں “‪9‬۔‬

‫نیز عباس من منصور الحنبلی اپنی کتاب ”البرہان فی معرفۃ‬


‫عقائد اہ ل الدیان“میں لکھت ے ہیں ک ہ ‪:‬ان (اہ ل السن ۃ )میں کسی‬
‫نےہ بھ ی شدوز اختیارنہیں کیا سوائےہ ایک فرقےہ کےہ جس کا نام‬
‫صوفیت ہے اہ ل السن ۃ س ے قریب بنت ے ہیں ان میں س ے ہیں نہیں‬
‫بلکہ عقائد واعمال میں ان کے خلف ہیں “‪10‬۔‬

‫بظاہ ر اس کتاب ک ے مؤلف ن ے غالی صوفیوں ک ے بار ے میں کچھ‬


‫نہیں کہاہے۔‬

‫لفظ فرق ہ س ے تمہارا مقصد شرعا ً مذموم فرقہ بازی ہے جو اس‬


‫اسلمی بنیاد سے دوری ہے جس کی مثال اجلہ صحابہ وتابعین رہے‬
‫ہیں ہم جانتےہ ہیں کہہ کچھہ بزرگ ہستیاں ایسی بھی ہیں جو‬

‫‪( 6‬تنبیہ الغبی از بقاعی ص ‪)21 :‬‬


‫‪“ 7‬۔(اعتقادات فرق المسلمین از فخرالدین رازی‪)72:‬‬
‫‪ 8‬ہیں“۔(الفہرست ابن الندیم ‪)260 :‬‬
‫‪( 9‬الفصل فی الملل والنمل ‪)226/4 :‬‬
‫‪( 10‬مقدمۃ کتاب اعتقادات فرق المسلمین ‪)11:‬‬

‫‪13‬‬
‫صوفیت کی طرف منسوب ہوتی ہیں لیکن ی ہ چیز صوفیت سے‬
‫متعلق عمومی گفتگو س ے مانع نہیں ہے ان علماءن ے تربیت نفس‬
‫کے حوالے سے صوفیت کا صرف ایک پہلو اختیارکیا جو کہ ان کی‬
‫غلطی ہےہ بہر حال وہہ باطل اور کفر میں مبتل کردینےہ والی‬
‫منحرف صوفیت میں داخل نہیں ہوئےہ ایسےہ ہی مرجئہہ بھی‬
‫مختلف فرقوں میں تقسیم ہوئ ے اور بعض علماءحق بھ ی ان کا‬
‫شکار بن ے سو جب ہ م صوفیت کو ایک ایس ے فرق ے ک ے طور پر‬
‫لیں گے جو منہج اہل السنۃ والجماعۃ سے زیادہ دور ہے تو اس کا یہ‬
‫معنی نہیں کہہ صوفیت کی طرف منسوب ہ ر شخص گمراہہ اور‬
‫منحرف ہے ممکن ہے ک ہ و ہ بڑ ے ع ُبَّاد میں شامل ہ و لیکن اسلم‬
‫کے جامع اور مکمل پہلوں میں سے کسی ایک پہلو کے اعتبار سے‬
‫اس میں کمی ر ہ گئی ہ و اور مسلمان میں سنت س ے دوری کے‬
‫بقدر نقص پیدا ہوجاتا ہے۔‬

‫‪5‬ہ م اس بات کا انکارنہیں کررہےہ کہہ روحانی پہلو میں ابتدائی‬


‫صوفیت کی اعمال قلوب‪،‬اخلص وتوکل وانابت وخشیت الٰہی‬
‫الی الل ہ تعالی ٰ میں تزکی ہ ک ے متعلق گفتگو متاثر کن رہ ی ہے‬
‫لیکن اس بارےہ میں ٓانہوں نےہ تشدد اختیارکیا اور ایسی‬
‫راہداریوں میں جاگھس ے جن میں ان س ے افضل لوگ داخل نہ‬
‫ہوئےہ ایسےہ ہ ی ہ م یہہ بھ ی مانتےہ ہیں کہہ اس کےہ مقابل جانب‬
‫ایس ے لوگ بھ ی ہیں جن ک ے دل بڑ ے ہ ی سخت ہوت ے ہیں تویہ‬
‫بھ ی سنت س ے خروج ہے بلک ہ ی ہ ان یہودیوں ک ے مشاب ہ ہے جن‬
‫ک ے دلوں کو اللہ نے پتھروں س ے بھی سخت قرار دیا ہے جیسا‬
‫کہہ علم کےہ بغیر عبادت کرنےہ میں نصرانیت کی مشابہ ت ہے‬
‫جبکہ مطلوب توسط واعتدال ہے یعنی ان لوگوں کا راستہ جن‬
‫پر اللہ نے انعام کئ ے سو ہم ان لوگوں میںن ہ بنیں جن پر غضب‬
‫کیا گیا جوکہ یہودی ہیں اورنہ ہی ان لوگوں میں جو گمراہ ہوئے‬
‫جو کہ عیسائی ہیں ۔‬

‫‪6‬تصوف اپن ے اصطلحی معنی میں جس ک ے متعلق ہ م ن ے لکھا‬


‫ہے و ہ آج تک موجود ہے اور نسل اسلمی کی تربیت میں ان‬
‫ک ے منفی اثرات بڑ ے واضح ہیں مثل ً شیخ کی بندگی اور اس‬
‫ک ے لئ ے گرپڑن ے کی تربیت اور ہ ر نامعقول کی تصدیق کردینے‬
‫کی تربیت حقیقتا ً یہ بڑی ہی دردناک داستان ہے کہ لوگوں میں‬
‫دجال اور کذاب ہیں جن کےہ پیچھےہ چلنےہ والوں میں علمی‬
‫وغیر علمی یونیورسٹیوں کےہ طلباءکی اکثریت ہےہ البتہہ عوام‬
‫محفوظ ہےہ یہہ عوام کاانصاف ہےہ ۔اسی صوفیانہہ تربیت نے‬

‫‪14‬‬
‫نوجوانوں کو ان کے ہاتھوں کا کھلونا بنادیا ہے وہ ہر لمحے اپنے‬
‫شیخ کے حکم یا اس کے ہاتھوں کسی خرق عادت معجزے کے‬
‫صادر ہونے کے منتظر رہتے ہیں ۔‬

‫ابن عقیل صوفیوں اور متکلمین (فلسفہ)کےہ خطرات سےہ آگاہ‬


‫کرت ے ہوئ ے فرمات ے ہیں ‪”:‬شریعت ک ے لئ ے صوفیوں اور متکلمین‬
‫سے زیادہ نقصان دہ اور کوئی نہیں یہ متکلمین لوگوں کے عقائدان‬
‫کی عقلوں میں شبہات اور وہم پیدا کرکے خراب کردیتے ہیں اور‬
‫صوفیاءاعمال برباد اور دینی قوانین منہدم کرتے ہیں جو کہتا ہو کہ‬
‫مجھے میرے دل نے میرے رب سے بیان کیا گویا اس نے رسول اللہ‬
‫س ے اظہار براءت کردیا میں ان دونوں ک ے طریقوں س ے خوب‬
‫واقف ہوں متکلمین کا مقصد شک پیدا کرنا اور صوفیوں کا‬
‫مقصد بکواس بکنا ہے ‪11‬۔‬

‫ہرجگہ صوفیاءمسلسل نسل اسلمی کے عقائدواعمال کی خرابی‬


‫کا باعث رہے ہیں چنانچہ ان کے بارے میں لکھنا ضروری ہے ہم ان‬
‫شاءاللہ ان کے حقائق لوگوں سے چھپائیں گے نہیں لیکن جیسا کہ‬
‫ہر گروہ اور ہر فرقہ صرف خود کو ہی حق پر سمجھتا ہے اور جو‬
‫کچھہ اس کےہ پاس ہوتا ہےہ اس پر راضی اور قانع ہوتا ہےہ اسی‬
‫طرح یہہ بھ ی خود کو افضل مخلوق اور اللہہ کےہ منتخب دوست‬
‫سمجھتے ہیں غزالی‪ 12‬کا اعتقاد تھا کہ تزکیہ نفس کا اس کے سوا‬
‫اور کوئی راستہ نہیں ۔‬
‫گویاک ہ و ہ اہ ل السن ۃ والجماع ۃ یا اہ ل الحدیث کا یا اہ ل علم وعمل‬
‫اور امام احمد بن حنبل اور امام عبداللہ بن مبارک جیسے عبادت‬
‫گزاروں اور ائم ہ فق ہ وحدیث جیس ے ناموں س ے واقف بھ ی ن ہ تھے‬
‫جب کہ یہ بہت ہیں‪13‬۔‬

‫نیا پڑھنےہ وال غزالی اور حارث محاسبی‪ 14‬کی کتابیں پڑھہ کر‬
‫سمجھن ے لگتا ہے ک ہ اس ک ے سوا اورکوئی راست ہ ممکن ہ ی نہیں‬
‫‪( 11‬تلبیس ابلیس‪)375:‬‬
‫‪( 12‬غزالی کا نام ابوحامد محمد بن محمد بن محمد الطوسی الغزالی تھا امام حرمین سے فقہ سیکھی‬
‫علم کلم وجدال میں مہارت حاصل کی ابن سیناءاور اخوان الصفا کی کتب سے متاثر تھے پھر یہ چھوڑ‬
‫کر صوفیت کی طرف مائل ہوگئ ے اذکیاءمیں س ے تھے انتہائی ذہین وفطین تھے اسی لئ ے ان میں بیک‬
‫وقت فقہ سے شغف ‪،‬آداب شرح کا التزام اور فلسفہ کلم وصوفیت ملحظہ کئے جاسکت ے ہیں اس بارے‬
‫میں ان کے انتہائی کڑوے الفاظ تھے جن میں وہ سر کے بل گرپڑے ہیں ان کی فقہ ‪،‬تصوف اور فلسفہ پر‬
‫رد میں مشہور تالیفات ہیں ملحظہ ہو( سیر اعلم النبلء‪)322/19:‬انہوں نے ان کے بارے میں جو علماءکے‬
‫اقوال نقل کی ے ہیں و ہ انصاف کرن ے میں ان کا مبالغ ہ ہے ان کی وفات ‪505‬ہجری میں طوس شہ ر میں‬
‫ہوئی)‬
‫‪( 13‬حاشیہ‪:‬ملحظ ہ ہو غزالی کی کتاب المنقذ من الضلل اس میں انہوں ن ے قسم کھائی ہے حق تک لے‬
‫جانے والے چار ہیں ‪:)1(:‬فلسفہ۔(‪:)2‬کلم۔(‪:)3‬امام معصوم۔(‪:)4‬کشف۔پھر آخری سے ہی حق کے دلیل کے‬
‫طور پر راضی ہوئے)‬

‫‪15‬‬
‫جبکہہ حقیقت اپنی جگہہ برقرار ہےہ جیسےہ نصف النہار کا دمکتا‬
‫سورج ہ ر اس شخص کو روشنی دیتا ہے جس کا مقصد نیک ہو‬
‫علم کا طالب ہو اور صراط مستقیم کو راستہ بنائے۔‬

‫آخر میں ہم اللہہہ سےہہ دعاگو ہیں کہہہ وہہہ صوفیت کی‬
‫ابتداءوارتقاءپیش کرنےہ میں ہر طرح کےہ تعصب اور جانبداری‬
‫سے محفوظ رکھے ۔آمین‬

‫واﷲ من وراءالقصد والحمد ّللٰہ رب العالمین۔‬

‫پہلباب‬
‫صوفیت کی ترقی‬
‫مقدمہ‬
‫صوفیت ایک ایسا مستقل اور ممتاز فرقہ نہیں کہ سال کے اعتبار‬
‫سےہ ڈھونڈھنےہ وال ے کو ان کی ترقی کےہ ادوار مل جائیں بلکہہ یہ‬
‫ایسا ب ے بُنا فرق ہ ہے جس کی کوئی متعین شکل نہیں ہے ان کی‬
‫افکار کے حاملین میں بعض فقہاءبھی ہیں اور ان کی بدعات کے‬
‫قائل بعض ایسےہ بھ ی ہیں جو اہ ل السنۃہ سےہ نسبت کا دعویٰ‬
‫کرتےہ ہیں یہ ی چیز محقق کےہ لئےہ مشکل پیداکردیتی ہےہ اگر وہ‬
‫صوفیت ک ے ادوار ومراحل کا باریک بینی س ے جائز ہ لینا چاہتا ہو‬
‫چنانچہہ ہ م صدیوں کےہ اعتبار سےہ ان مراحل کےہ بنیادی خطوط‬
‫‪( 14‬حاشیہ‪:‬اس کا نام حارث بن اسدالمحاسبی البغدادی ہے اس کی زہد سے متعلق بہت سی تالیفات ہیں‬
‫علم کلم میں مشغولیت کے سبب اپنے باپ کا ترکہ چھوڑ دیا تھا امام ابوزرعہ الرازی سے اس کی کتب‬
‫کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے روکا اور فرمایا‪”:‬تم پر حدیث لزم ہے کیا تم تک یہ بات کبھی پہنچی کہ‬
‫مالک یا ثوری یا اوزاعی ن ے خطرات اور وسوسوں ک ے بار ے میں لکھ ا ہو؟“اس کاانتقال ‪143‬ہجری میں‬
‫ہوا ملحظہ ہو (صفۃ الصفوۃ ‪،367/2:‬سیر اعلم النبلء‪)110/2:‬‬

‫‪16‬‬
‫اور ان کی بڑی بڑی افکار ک ے ظہور کو (کہ جنہیں محقق ان کے‬
‫مراحل میں سےہ ایک مرحلہہ شمار کرسکتا ہےہ )بیان کرنےہ کی‬
‫کوشش کریں گ ے ی ہ ایسا ارتقاءہے جس میں تاریخ فکر گڈم ڈ ہے‬
‫اس تفرق کی بنیادی کڑیوں کو الگ الگ کرنا اس وقت س ے لے‬
‫کر آج تک انتہائی مشکل ہے۔‬

‫ہم نے صوفیت کے ارتقائی مراحل کو تین مراحل میں تقسیم کیا‬


‫ہے اس سے پہلے اسلمی معاشرے میں طبقہ عباد وزہاد کے ظہور‬
‫سے متعلق ایک تمہید ہے پھر پہل مرحلہ ان ابتدائی صوفیاءکے بارے‬
‫میں ہےہ جن ک ے متعلق کہنا چاہیئےہ کہہ یہیں س ے تفرق شروع ہوا‬
‫اس ک ے بعد اس فرق ے کی مستقل اصطلحات کا مرحل ہ ہے اور‬
‫پھ ر آخری مرحل ہ عقید وحدت الوجود کی ابتداءاور صوفیت میں‬
‫جو ک ہ پہل ے ہ ی تنگ یونانی فلسف ے س ے گ ڈ م ڈ تھ ی اس ک ے داخل‬
‫کئے جانے سے متعلق ہے۔‬

‫پہلی فصل‬
‫اسلمی معاشرہ اور طبقہ ع ُبّاد (کثرت سے عبادت کرنے والے )کا‬
‫ظہور اسلمی معاشرے کی ابتدائی نشات طبعی اور مکمل تھی‬
‫نہ کہ محض تکلفانہ اور فطرت سلیمہ اور اللہ کی طرف سے نازل‬
‫کردہ وحی کی تمام باقیات بھی جمع کرچکی تھی ان دنوں عرب‬
‫اور خصوصا ً شہری لوگ مثل ً قریش‪،‬اوس اور خزرج دیگر اقوام‬
‫کی بنسبت فطرت سے زیادہ قریب تھے اسی لئے اللہ نے اپنے نبی‬
‫کے لئے افضل ترین قوموں کا انتخاب کیا جن کی رسول اللہ نے‬
‫اپنی سرپرستی میں تربیت فرمائی اس طرح وہ ”اس کھیتی کی‬
‫طرح ہوگئے جس نے اپنا کنارہ نکال پھر اسے مضبوط کیا پھر موٹا‬
‫ہوا اور اپنی جڑ پر کھڑا ہوگیا اور کسان کو خوش کرن ے لگا تاکہ‬
‫وہہ ان کےہ ذریعےہ کفار کو چڑھائے“جب بھ ی ان میں سےہ کوئی‬
‫ایساعمل سرزد ہوتا جو دین حنیفیت کے خلف ہوتا رسول الل ہ‬
‫ان کے لئے صحیح راستہ متعین کرکے انہیں واپس صراط مستقیم‬
‫پر گامزن کردیتےہ جیسا جب تین صحابہہ نےہ جب عورتیں مال‬
‫ودولت کو چھوڑ کر ترک دنیا کا قصد کیا تو رسول اللہ ن ے فوراً‬
‫ہی انہیں صراط مستقیم کی طرف پھیر دیا اور فرمایا کہ ‪”:‬میں‬
‫روزہ رکھتاہوں چھوڑتا ہوں نماز پڑھتا ہوں سوتا ہوں اور عورتوں‬

‫‪17‬‬
‫سے تعلقات بھی رکھتا ہوں جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ‬
‫مجھ سے نہیں“‪15‬۔‬

‫چنانچ ہ اعتدال ہی اصل ہے اگر آپ شریعت ک ے عام امور پر غور‬


‫وفکر کریں تو انہیں بھ ی مبنی براعتدال پائیں گ ے تو تشدد کی‬
‫را ہ و ہ اختیار کرتا ہے جس پر بگاڑ غالب ہ و اور تساہ ل کی را ہ وہ‬
‫اپناتا ہے جس پر حرج شدید غالب ہواگر ن ہ ی ہ ہ و اور ن ہ ہ ی و ہ تو‬
‫آپ اعتدال کو ہ ی بطور ضابطہہ دیکھیں گےہ اور اسی اصل کی‬
‫طرف رجوع کرنا چاہیئے ‪16‬۔‬

‫صحاب ہ میں امیر ‪،‬فقیر‪،‬تاجر‪،‬کسان‪،‬مزدور ہ ر طرح ک ے لوگ تھے‬


‫کچ ھ ایس ے تھے جو بطور نائب رسول اللہ س ے علم حاصل کرتے‬
‫اور دوسروں تک پہنچاتے تھے ۔اہل الصفہ نے بھی اپنی خوشی سے‬
‫ہ ی محض عبادت ک ے علم ک ے لئ ے نہیں کٹ ے بیٹھے تھے بلک ہ کسی‬
‫کو اگر کوئی کام کاج ملتا تواپنی پہلی حالت ترک کردیتا یہی‬
‫صحابہ کی زندگی تھی ایسی طبعی زندگی جو علم ‪،‬عمل ‪،‬جہاد‬
‫فی سبیل اللہ تمام صورتوں کو شامل تھی کہ یہاں رسول الل ہ‬
‫ک ے ہاں طالب علم بھ ی ہیں اور اپن ے اہ ل واولد ک ے درمیان بھی‬
‫ہیں بالکل عصر حاضر کی معروف زندگی جیسی کیفیت وہ‬
‫صحابہ جو کسی خاص عبادت میں دوسروں سے زیادہ تھے عبداللہ‬
‫بن عمروبن عاص تویہ بھی پہلی صورت س ے مختلف نہیں ہے وہ‬
‫مکمل شخصیت کے حامل تھے اور اس طرح کے فردی امتیازات‬
‫توکہیں کہیں ہوتےہ ہیں ان کےہ بارےہ میں امام جوینی نےہ درست‬
‫فرمایاکہہ ‪”:‬بدعات وخواہشات کی آگ نےہ ان معزز چہروں کو‬
‫جھلسایانہیں اور نہ ہی وہ اختلف آراءکے جراثیم میں ہی جاگھسے‬
‫جیسے وہ انڈہ جو پھٹتا نہیں ہے “‪17‬۔‬

‫تابعین اوراکثر تبع تابعین بھ ی ایس ے ہ ی تھے علم وعمل عبادت‬


‫وفضل اور آداب شریعت ک ے التزام میں لوگوں س ے ممتاز تھے‬
‫اور خاص اسباب کی بناءپر ان میں سےہ کسی کسی پر شدید‬
‫خوف اور رقت بھی طاری ہوجاتی تھی اگرچ ہ ان کے حالت بڑے‬
‫عالی ہیں لیکن صحابہ اور تابعین ان س ے بھ ی افضل ہیں اسی‬
‫لئےہ عبداللہہ بن مسعود اپنےہ شاگردوں سےہ فرماتےہ ہیں کہہ ‪:‬تم‬
‫اگرچہ اصحاب رسول سے زیادہ نمازی اور روزے دارہو مگر وہ پھر‬

‫(جامع الصول از ابن اثیر‪294/1:‬باب العتقاد فی العمال)‬ ‫‪15‬‬

‫(الموافقات از شاطبی مع تعلیق خضر حسین طبع دارالفکر‪)113/2:‬‬ ‫‪16‬‬

‫(الغیائی از عبدالملک بن عبداﷲ الجوینی‪)42:‬‬ ‫‪17‬‬

‫‪18‬‬
‫بھ ی تم س ے بہتر ہیں و ہ کہن ے لگ ے ابوعبدالرحمن آخر کیا وج ہ ہے‬
‫فرمایا کیونکہ وہ دنیا میں بڑے زاہداور آخرت کے حریص تھے ‪18‬۔‬

‫مدینہ میں ان ع ُباد میں س ے عامر بن عبداللہ بن زبیر بھی ہیں وہ‬
‫روزوں میں وصال کرتے اور ان کے والد فرماتے کہ میں نے ابوبکر‬
‫وعمر کو ایسا کرتے نہیں دیکھا‪19‬۔‬

‫انہ ی میں صفوان بن سلیم بھ ی ہیں ثق ہ ہیں ان ک ے متعلق احمد‬


‫بن حنبل فرمات ے ہیں‪”:‬اس کی گفتگو میں شفاءہے اور اس کے‬
‫ذکر س ے بارش ہوتی ہے ی ہ ٹھنڈ ی رات میں سطح زمین پر نماز‬
‫پڑھتا تھا تاکہ نیند نہ آئے اس نے اللہ کو عہد دیا تھا کہ تاحیات اپنی‬
‫کمر بستر پر نہ رکھے گا“‪132‬ہجری میں فوت ہوئے اگر امام ذہبی‬
‫کی اس کےہ بارےہ میں نقل کردہہ بات واقعتا ایسےہ ہی ہےہ تویہ‬
‫خلف سنت ہے آپ نے فرمایا‪”:‬میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا‬
‫بھ ی ہوں“۔انہ ی میں س ے بصر ہ میں طلق بن حبیب العنزی بھی‬
‫ہیں بڑے عمل پیرا تھے ایسے عطاءالسلمی اس قدر روتے کہ نابینا‬
‫ہوگئے ‪20‬۔‬

‫انہ ی میں کرز بن وبرالحارثی بھ ی ہیں جرجان کےہ رہائشی تھے‬


‫بڑ ے ہ ی عابد وزاہ د تھےہ ان ک ے بار ے میں بھ ی ذہبی کہت ے ہیں کہ‬
‫‪”:‬سلف صالحین میں ان جیسے ع ُباد وزہاد اور اللہ سے ڈرنے والے‬
‫اور قناعت کرنےہ والےہ تھےہ دنیا اور اس کی لذتوں کی پرواہہ نہ‬
‫کرتے تھے نہ متاخرین کی ایجاد کردہ اصطلحات فناءاور اتحاد کے‬
‫قائل وفاعل تھے ‪21‬۔‬
‫انہ ی میں اسود بن یزید بن قیس الکوفی ہیں اس قدر روزے‬
‫رکھتے اور عبادت کرتے کہ جسم سوکھ کر کانٹا ہوگیا تھا‪22‬۔‬

‫ایس ے ہ ی داؤد الطائی ک ے بار ے میں کہاجاتا ہے ک ہ ایک مکان کے‬


‫وارث ہوئ ے لیکن جب اس کا کوئی حص ہ خراب ہوجائ ے اس کی‬
‫مرمت نہہ کرتےہ تاآنکہہ سارا گھ ر ہ ی ڈھ گیا اور یہہ ایک کونےہ میں‬
‫بیٹھے رہے کم کھانے کی وجہ سے انتہائی لغر ہوگئے تھے ‪23‬۔‬

‫(فتاوی ابن تیمیۃ ‪)304/22:‬‬ ‫‪18‬‬

‫(سیراعلم النبلءاز امام ذہبی‪)219/5:‬‬ ‫‪19‬‬

‫(سیراعلم النبلء‪)601/4:‬‬ ‫‪20‬‬

‫(سیراعلم النبلء‪)86/6:‬‬ ‫‪21‬‬

‫(صفوۃ الصفوۃ‪)23/3:‬‬ ‫‪22‬‬

‫(صفوۃ الصفوۃ‪)139/3:‬‬ ‫‪23‬‬

‫‪19‬‬
‫دوسری صدی ہجری میں عباداور زہاد طبق ے کی اس ظہور کی‬
‫وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اکثر لوگ دنیا کی طرف مائل ہوگئے‬
‫تھے دنیا کو جمع کرتے اس مقابلہ کرتے ‪24‬۔‬

‫اس کےہ رد ّ عمل میں بعض لوگ دنیا سےہ بالکل ہ ی الگ تھلگ‬
‫ہوبیٹھےہ اس کےہ علوہہ بھ ی کچھہ انفرادی اسباب ہوں گےہ کسی‬
‫خاص صوب ے یا شہ ر ک ے حوال ے س ے صرف ایک ہ ی مظہ ر کو تنہا‬
‫سبب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اس کےہ بعد اس مشروع زہ د اور‬
‫تصوف ک ے اجتماع کا مرحل ہ شروع ہوا جبکہہ خاص صوفیت سے‬
‫متعلق کتب لکھی گئیں اس کی مثال مالک بن دینار ہیں وہ ایسے‬
‫امور کےہ داعی تھےہ جن پر سابقہہ زہاد نہہ تھےہ مثلًمعجزانہ‬
‫زندگی‪،‬شادی نہ کرنا ‪،‬خود تو شادی نہ کرتے ساتھ ہی کہتے بھی کہ‬
‫کوئی شخص صدیقین کےہ مراتب تک اسی وقت پہنچ سکتا ہے‬
‫جب و ہ بیوی کو چھوڑ د ے گویا و ہ بیو ہ ہ و اور پھ ر کتوں کی رہنے‬
‫کی جگہ چلجائے‪25‬۔‬

‫نیز کہت ے ہیں ک ہ ‪:‬مج ھ پر ایک ایسا سال آیا ک ہ میں ن ے پورا سال‬
‫گوشت ن ہ کھایا سوائ ے عید الضحی ک ے میں صرف اپنی قربانی‬
‫کا گوشت کھاتا ہوں(تاریخ التصوف‪)193:‬۔اوراکثرکہ ا کرت ے تھے کہ‬
‫‪”:‬میں نے بہت سی کتابوں میں پڑھا ہے میں ن ے تورات میں پڑھا‬
‫ہےہ عیسیٰہ سےہ مروی ہےہ کہہ ‪”:‬میں تم سےہ حق کہتا ہوں ‪،‬جو‬
‫کھانا اور کتوں کےہ ساتھہ سونا یہہ بھی فردوس کی طلب میں‬
‫نہایت کم ہے “یا کہتے ”اللہ نے نبیوں میں سے ایک نبی کی طرف‬
‫وحی کی ‪“....‬یا کہتے ”میں نے زبور میں پڑھاہے ‪26“....‬۔‬

‫کتب تراجم میں ان ک ے حالت زندگی پڑھت ے وقت ی ہ بات واضح‬


‫طور پر معلوم ہوتی ہےہ کہہ وہہ قدیم کتابوں کی زہاد وعباد سے‬
‫متعلق عبارات س ے متاثر تھے اور ی ہ بھ ی واضح ہے ک ہ ان کتابوں‬
‫میں تحریف ہوچکی ہےہ اور ہمیں ان پر عمل کرن ے کاحکم نہیں‬
‫بلکہ ان سے روکاگیا ہے ۔‬

‫‪( 24‬مقدمہ ابن خلدون‪)467:‬‬


‫‪( 25‬حاشیہ‪:‬سیراعلم النبلء‪156/8:‬نیزتاریخ التصوف ازعبدالرحمن بدوی نیزحلیۃ الولیاء‪359/2:‬سیر اعلم‬
‫النبلءکے محقق شیخ شعیب فرماتے ہیں ‪:‬صدیقین کی منزل اس عجمی خلف سنت طرز عمل سے‬
‫حاصل نہیں کی جاسکتی آپ سے شادی ترک کرکے رہبانیت اختیار کرنے کے خلف صحیح حدیث ثابت‬
‫ہے)۔‬
‫‪( 26‬ملحظہ ہو ان کے حالت زندگی حلیۃ الولیاء‪)357/2:‬‬

‫‪20‬‬
‫بھی اسی مرحلے میں شامل‬ ‫‪27‬‬
‫عبدالواحد بن زید اور رابعہ عدویہ‬
‫ہیں۔‬

‫ابن تیمیہ فرماتےہ ہیں ‪:‬بعض علماءنےہ کہ ا کہہ جو اللہہ کی عبادت‬


‫اس ک ے اکیل ے کی محبت میں کر ے و ہ زندیق ہے اور جو اس کی‬
‫عبادت اس کے خوف سے کرے وہ مومن موحد ہے‪28‬۔‬
‫بند ے اور رب ک ے درمیان محبت کی تعبیر ک ے لئ ے اسی ن ے ایجاد‬
‫کیا اور پھر اس ک ے بار ے میں صوفیاءموضوع احادیث پیش کرنے‬
‫لگ ے مثلً‪”:‬جب میر ے بند ے پر میرا شغل غالب ہوجائ ے میں اس‬
‫کی نعمت ولذت اپنے ذکر میں بنادیتا ہوں وہ مجھ سے عشق کرتا‬
‫ہےہ میں اس سےہ عشق کرتاہوں“اس میں عبادت کی ترغیب‬
‫جنت کی طمع یا جہنم کے خوف سے نہیں بلکہ اللہ کی محبت میں‬
‫ہے جبکہ یہ آیت کریمہ کے خلف ہے فرمایا‪:‬‬

‫‪(‬النبیاء‪)90:‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬


‫وہ پکارتے ہیں شوق سے ڈرکر۔‬

‫یا جیسے رابعہ عدویہ نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے بچے کو سینے‬
‫س ے چمٹاکر اس کا بوس ہ ل ے رہ ا تھ ا ی ہ دیک ھ کر کہن ے لگی ک ہ میں‬
‫نہیں سمجھتی تھ ی ک ہ تیر ے دل میں الل ہ تبارک اسم ہ کی محبت‬
‫کے علوہ کے لئے بھی جگہ خالی ہے‪29‬۔‬

‫ی ہ توتکلف اورب ے فائد ہ تعمق ہے کیونک ہ رسول اللہ تواپنی بیٹیوں‬


‫کی اولد کا بوسہ بھی لیتے ان سے محبت بھی کرتے تھے۔ابن تیمیہ‬
‫اس ارتقاءکے متعلق فرماتے ہیں ‪:‬تابعین کے آخر عہد میں یہ تین‬
‫چیزیں نکلیں ۔رائے‪،‬کلم‪،‬تصوف اکثر اہل الرائےہ کوفہہ میں اور‬
‫متکلمین اور صوفیاءبصرہ میں تھے اور پھر حسن اور ابن سیرین‬
‫کی وفات ک ے بعد عمرو بن عبید اور واصل بن عطاءاور احمد‬
‫بن علی الہجیمی‪ 30‬ظاہر ہوئےہ اس آخری نےہ صوفیوں کےہ لئے‬
‫چھوٹا سا گھ ر بنادیا یہہ اسلم میں پہلی تعمیر تھی (یعنی ذکر‬
‫‪( 27‬حاشیہ‪:‬رابعہ عدویہ کے بارے میں امام ابوداؤد نے کلم کیا ہے اور اس پر زندیق کی تہمت لگائی ہے‬
‫شاید انہیں اس کے بارے میں کچھ معلوم ہو یہ بیت المقدس میں ‪185‬ہجری میں فوت ہوئی ملحظہ ہو‬
‫البدایہ والنہایہ ‪)186/10:‬۔‬
‫‪( 28‬الفتاوی‪)81/10:‬‬
‫‪( 29‬سیراعلم النبلء‪)156/8:‬‬
‫‪( 30‬ی ہ شیخ البصر ہ عبدالواحد بن زید کاشاگرد تھ ا تقدیر ک ے بار ے میں کلم کرتا تھ ا اس ن ے بصر ہ میں‬
‫عابد ین کے لئے ایک گھر وقف کررکھا تھا دارقطنی کہتے ہیں‪ :‬متروک الحدیث ہے۔ذہبی کہتے ہیں ‪:‬حدیث‬
‫نہیں جانتا لیکن نیک بندہ ہے قدر میں کلم کرنے لگا ہم صوفیوں کی باطلیات سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں‬
‫اس کی وفات ‪200‬ہجری میں ہوئی ملحظہ ہو سیرا علم النبلء‪)408/9:‬‬

‫‪21‬‬
‫وسماع کےہ لئےہ )چنانچہہ انہوں نےہ عبادت کا خاص طریقہہ مقرر‬
‫کرکےہ اسےہ اختیار کرلیا نیز شرعی عبادت کا التزام بھ ی کرتے‬
‫ایس ے ہ ی سماع اور ذکر بالجہ ر کرن ے لگ ے اہ ل مدین ہ قول وعمل‬
‫میں ان سے قریب تھے البتہ شامیوں کی اکثریت مجاہد تھی ‪31‬۔‬

‫ایسےہ ہ ی ابن جوزی اس ارتقاءکو مختصرا ً بیان کرتےہ ہیں ‪:‬عہد‬


‫رسول میں لفظ مومن یا مسلم تھا پھر زاہد وعابد کا لفظ نکل‬
‫آیا پھر کچھ لوگ آئے اور زہد وعبادت کا اہتمام کرنے لگے اور اس‬
‫کےہ لئےہ الگ الگ طریقےہ بنانےہ لگےہ پہلی قوموں کےہ ساتھہ بھی‬
‫ایسا ہ ی ہوا شیطان ن ے پہلوں کو التباس میں ڈالپھ ر ان ک ے بعد‬
‫والوں کو تاآنکہ آخری والوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا‪32‬۔‬

‫جن لوگوں نے الگ طریقہ اختیار کیا ابن جوزی نے انہیں پہلے لوگ‬
‫قرار دیا وہ لوگ تھے جنہوں نے زہد اور تعمق (یعنی تکلف اورمینہ‬
‫کاری ‪،‬بال کی کھال اتارنا)اور تشدداور وساوس وخطرات کی‬
‫تفتیش ان سب کو بیک وقت اختیار کیا جو کہ ان سے پہلے لوگوں‬
‫میں نہ تھا اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں ہم آئندہ فصل میں‬
‫کلم کریں گے ان شاءاللہ ۔‬

‫دوسری فصل‪:‬ابتدائی صوفیہ‬


‫صوفیت ترقی کرتےہ ہوئےہ غلو تک جاپہنچی جب ان میں کچھ‬
‫خارجی عناصر داخل ہوئے تو صوفیاءعملی بدعات سے قولی اور‬
‫اعتقادی بدعات میں مبتل ہوگئےہ جیسےہ ہ ر فرقہہ ابتداءمیں جمنا‬
‫شروع ہوتا ہے پھ ر جڑ پکڑلیتا ہے پھ ر اس کی شاخیں نکلتی ہیں‬
‫پھ ر وہہ غلو اور گمراہ ی میں بڑھتا ہ ی چل جاتا ہےہ اس ارتقاءکو‬
‫تین مراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ‪:‬‬

‫ابتدائی صوفیاءاور ان کے متبعین‬ ‫‪1‬‬


‫صوفیت میں مخصوص اصطلحات کا ظاہر ہونا‬ ‫‪2‬‬
‫ان میں تنگ یونانی فلسفےہ کا داخل ہونا اور اتحاد اور‬ ‫‪3‬‬
‫وحدت الوجود جیسے عقائد کا ظاہر ہونا۔‬
‫یہ تمام مرحلے یا طبقے (طبقے سے ہماری مراد ایک منہج وطریق‬
‫وال ے افراد ہیں کوئی ایک نسل نہیں جیسا ک ہ طبقات کی کتابوں‬
‫میں مؤرخین کی اصطلح ہے)ایک دوسرےہ سےہ الگ نہیں کہ‬
‫مخصوص دور تک پہنچ کر ختم ہوگئ ے بلک ہ مرحل ہ اپن ے س ے برابر‬
‫(فتاوی ابن تیمیۃ‪)359/10:‬‬ ‫‪31‬‬

‫(تلبیس ابلیس‪)161:‬‬ ‫‪32‬‬

‫‪22‬‬
‫والےہ مرحلےہ کا ذمہہ دار ہےہ لیکن یہہ ارتقاءغالبا ً اسلمی زمانوں‬
‫میں ہوا ان کی ابتداءمیں غلونہہ تھا بلکہہ تصوف انحراف کی‬
‫انتہاءتک ساتویں ہجری میں پہنچی اور اس کے ذمہ دار ابن عربی‬
‫اور ابن فارض جیسےہ لوگ تھےہ آج کل کی صوفیت علمی اور‬
‫عملی دونوں طرح ک ے انحراف س ے گ ڈ م ڈ ہے ایس ے لوگ ہمیشہ‬
‫رہے ہیں جو بل علم وباعلم دونوں طرح غالی صوفیاءک ے اقوال‬
‫دہرات ے ہیں تیسری صدی ک ے پہل ے مرحل ے ک ے مشہور صوفیاءمیں‬
‫جنید بغدادی‪ 33‬اور سری سقطی‪34‬ھی ہیں اور چوتھی صدی میں‬
‫ابوطالب المکی‪35‬ہیں اور پانچویں صدی کے ہ شروع میں‬
‫ابوعبدالرحمن السلمی‪36‬ہیں ان کےہ فورا ً بعد ہ ی حلج ظاہ ر ہوا‬
‫جو حلول کا قائل تھا لیکن یہ نظریہ صوفیت کے گزشتہ ادوار کی‬
‫نسبت کمیاب تھ ا چنانچہہ یہہ تقسیم ہ ر مرحلےہ میں غالب عقیدہ‬
‫وعمل کے اعتبار سے ہے۔‬
‫ابتدائی تصوف‬
‫اپنی ابتداءمیں تصوف تصفیہ روح کے لئے چند نفسانی ریاضتوں ‪،‬‬
‫جسمانی مشقتوں معروف کسر نفس اور طبعی مجاہدوں سے‬
‫معروف تھ ا یہہ تزکیہہ روح جو سلف کےہ ہاں بلتکلف ہ ی حاصل‬
‫ہوجاتا تھا جب ایک مکمل تربیت ومشق کا نتیجہ جاٹھہرا تو ہم نے‬
‫دیکھ لیا کہ اس تزکیہ کے حصول کے لئے تشدد وتکلف اور اخلص‬
‫کی جانچ پڑتال اور چھانٹ پھٹک جو وساوس کی حد تک لے جاتے‬
‫کا طریق ہ اختیارکرنا پڑتا ہ م ان ک ے اقوال واحوال میں اس بات‬
‫کی تائید دیکھتےہ ہیں جنید بغدادی جس ے اس جماعت کا سرغنہ‬
‫کہاجاتا ہے کہتے ہیں‪:‬ہم نے تصوف قیل وقال سے نہیں بلکہ بھوک ‪،‬‬
‫ترک دنیا اور آسائش چھوڑ کر حاصل کیا ہےہ ‪ 37‬۔ معروف کرخی‬
‫بیان کرتا ہےہ کہہ ‪:‬میں ایک عرصہہ روزےہ سےہ رہا اگرکھانےہ کی‬
‫طرف بلیا جاتا تو کھالیتا اور ی ہ ن ہ کہتا ک ہ روز ے س ے ہوں ‪ 38‬۔ نیز‬

‫‪( 33‬ان کا نام ابوالقاسم الخزار تھ ا اصل میں نہاوند ک ے تھے البت ہ پیدا بغداد میں ہوئ ے ان کا قول ہے کہ‬
‫کےہ آثار کا راستہہ لزم‬ ‫‪”:‬اللہہ تک پہنچنےہ کا راستہہ مخلوق پر بند ہےہ البتہہ متقین کےہ لئےہ رسول اللہہ‬
‫ہے“۔ابوثور سے فقہ سیکھی ‪298‬ہجری میں فوت ہوئے ملحظہ ہو صفۃ الصفوۃ‪)416/2:‬‬
‫‪ 34‬ان کا نام سری بن مغلس تھا جنید بغدادی کے ماموں اور استاذ تھے تنہائی پسند تھے محبت کے بارے‬
‫میں گفتگو کرکے جنت کی للچ یا جہنم کے خوف کے بارے میں گفتگو نہ کرتے کہا کرتے کہ ‪”:‬سنت میں‬
‫کم رہنا بدعت میں زیادہ رہنے سے بہتر ہے “‪253‬ہجری میں فوت ہوئے ملحظہ ہو طبقات الشعرانی ‪)74/1:‬‬
‫‪ 35‬ان کا نام محمد بن عطیہ تھا نیک آدمی تھے قوت القلوب میں بعض موضوع احادیث ذکر کی ہیں‬
‫لوگوں نے بعض باتوں میں انہیں بدعتی قرار دے کر چھوڑ دیا تھا ۔‪386‬ہجری میں فوت ہوئے ملحظہ ہو‬
‫البدایۃ والنہایۃ‪319/11:‬‬
‫‪ 36‬ان کا نام محمد بن حسین الزدی السلمی تھا صوفیاءکی احادیث کا اہتمام کرتے ان کے لئے ان ہی‬
‫کی طرز پر ایک تفسیر بھی لکھی ان کے بارے میں محمد یوسف بن القطان النیسابوری فرماتے ہیں‬
‫‪:‬ثقہ نہیں صوفیہ کے لئے احادیث گھڑتا ہے اس کی تفسیر میں بھی ناجائز باتیں ہیں ان کی وفات‬
‫‪412‬ہجری میں ہوئی ملحظہ ہو سیر اعلم النبلء‪247/17:‬‬
‫‪( 37‬سیر اعلم النبلء‪)69/14:‬‬
‫‪( 38‬صفۃ الصفوۃ‪)329/2:‬‬

‫‪23‬‬
‫بشرالحانی‪ 39‬کہتا ہے ‪:‬میں پچاس سال بھن ے گوشت اور چپاتی‬
‫کی تمنا کرتا رہا پر میرے پاس ایک درہم نہ ہوا‪40‬۔‬

‫جنید بغدادی نے اپنے شیخ سری السقطی کے صراحی کا ایک ٹوٹا‬


‫حص ہ دیکھہ کر اس ک ے بار ے میں پوچھ ا تو وہہ کہنےہ لگ ے کہہ میری‬
‫بیٹی ن ے اس میں میر ے لئ ے پانی ٹھنڈ ا کیا پھ ر مجھے نیند ن ے آلیا‬
‫کیا دیکھتا ہوں کہہ ایک بڑی خوبصورت لڑکی ہےہ میں نےہ پوچھا‬
‫توکیسےہ ملےہ گی کہنےہ لگی جو ٹھنڈ ا پانی نہہ پیتا ہ و میں نےہ وہ‬
‫صراحی اپنے ہاتھ سے توڑ ڈالی‪ 41‬۔‬

‫جنید بغدادی اپنےہ بزرگوں سےہ روایت کرتےہ ہیں کہہ وہہ جب وہ‬
‫سوجات ے توانہیں پکارا جاتا کیا تومج ھ س ے سوتا ہے اگر تو سویا‬
‫تومیں تجھے کوڑے ماروں گا ۔ایسے ہی غزالی سہل بن عبداللہ کے‬
‫بار ے میں لکھت ے ہیں ک ہ و ہ چھوٹ ے کھجور ک ے پت ے کھات ے اورغزالی‬
‫کو خود بھ ی جنگلوں میں چل ے جان ے پر آماد ہ کرت ے اور ی ہ شرط‬
‫لگات ے ک ہ گھاس پھوس کھان ے کی عادت بنال ے گا۔ابونصر السراج‬
‫ک ے نزدیک صوفیت کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ عزت پر ذلت‬
‫کو ترجیح دے گا اور نرمی پر سختی کو پسند کرے گا‪42‬۔‬

‫انہوں نے اس شخص کے لئے جو ان کے حلقے میں داخل ہونا چاہے‬


‫یا ان کا مرید ہواس کے لئے ایک دستور بنارکھا تھا جس میں یہ ہے‬
‫ک ہ مال چھوڑ ے گا جیسا ک ہ قشیری ن ے اپن ے رسال ہ میں ذکر کیاہے‬
‫اور آہستہ آہستہ خوراک کم کردے گا اورکبھی شادی نہ کرے گا‪43‬۔‬

‫ابوطالب المکی اپنے مرید سے مطالبہ کرتا کہ وہ دن اوررات میں‬


‫دوچپاتی سے زیادہ نہ کھائے ‪44‬۔‬

‫اور جنید اپنے مرید سے کہتا کہ وہ حدیث پاک نہ پڑھے (اکثر اس کا‬
‫مقصد یہ ہوتا کہ تزکی ہ نفس کی ابتداءمیں اصطلحات حدیث کی‬
‫گہرائی میںنہ جائے کیونکہ حدیث پڑھنا ترک کردینا تو کفرمیں مبتل‬
‫کردیتا ہےہ )یہہ تمام امور اس اعتدال اور آسان دین حنیف اور‬

‫‪ 39‬اس کا نام بشر بن حارث ہے عبادت میں لگ کر لوگوں سے الگ رہا اس کی عبادت وورع اور قربانی‬
‫میں اس کی تعریف کی جاتی اس کی تین بہنیں بھی اسی طرح تھیں ‪227‬ہجری میں فوت ہوا۔سیر‬
‫اعلم النبلء‪41/10:‬‬
‫‪( 40‬صفۃ الصفوة‪)392/2:‬‬
‫‪( 41‬التعرف از کلبازی ‪)155:‬‬
‫‪( 42‬اللمع‪)28:‬‬
‫‪( 43‬العتصام از شاطبی ‪)214/1:‬‬
‫‪( 44‬تلبیس ابلیس‪)141:‬‬

‫‪24‬‬
‫طریق صحابہہ ک ے خلف ہیں اس مرحل ے ک ے امتیازات درج ذیل‬
‫ہیں ‪:‬‬

‫‪1‬سماع‪:‬کا ایجاد ہونا اس س ے زہ د پر مشتمل دل نرمادین ے والے‬


‫قصیدوں کا سننا مراد ہےہ یا ایسےہ قصیدےہ جن میں غزلیات‬
‫ہوتیں اور کہتے کہ ہمارا مقصد ان سے رسول ‪e‬ہیں اور جو اسے‬
‫سناتا اسے قوال کہتے اور گانے کا لہجہ استعمال کرتے ۔‬

‫‪2‬ایک خاص طرز جس ے صوفیت کہت ے ک ے متعلق کلم کرنا اور‬


‫ہمارا طریق ہ ‪،‬ہمارامذہ ب ‪،‬ہمارا علم جیس ے لفظ کا ظاہ ر ہونا‬
‫جنید بغدادی کہتےہ ہیں ‪:‬ہمارایہہ علم حدیث رسول سےہ مل‬
‫ہواہے‪45‬۔‬

‫اور ابوسلیمان الدارانی کہتا ہے ‪”:‬میر ے دل میں بسا اوقات قوم‬


‫کےہ نکات میں سےہ کوئی ایک نکتہہ آتا تو اسےہ کتاب وسنت‬
‫دوعادل گواہوں کے بغیر قبول نہ کرتا ‪46‬۔‬

‫یہاں قوم سے اس کی مراد خاص قوم ہے یعنی صوفیاء۔‬

‫‪3‬ایسی کتب لکھی گئیں جو زہد وزہّاد سے متعلق صحیح وسقیم‬


‫احادیث سےہ بھری پڑی ہیں اور نفسانی وقلبی خطرات اور‬
‫فقر وفاقہ کی طرف دعوت سے بھری پڑی ہیں اور اہ ل کتاب‬
‫کی روایات نقل کرتی ہیں مثل ً حارث محاربی کی‬
‫کتابیں‪،‬ابوطالب المکی کی قوت القلوب ‪،‬ابوعبدالرحمن‬
‫السلمی کی تفسیر ‪،‬ابونعیم الصبہانی کی حلیۃہ الولیاءابن‬
‫خلدون فرماتے ہیں ‪:‬ان کا اصل طریق محاسبہ نفس اور لذات‬
‫ک ے متعلق کلم تھ ا پھ ر انہوں ن ے ترقی کی اور اس فن میں‬
‫تالیف کرنےہ لگےہ چنانچہہ ورع اور محاسبہہ کےہ متعلق کتابیں‬
‫لکھیں جیسا ک ہ قشیری ن ے الرسال ہ میں کیا ی ہ اس وقت کی‬
‫بات ہے جب طریقہ محض عبادت ہی رہ گیا‪47‬۔‬

‫اس مرحلہ سے متعلق ہمارا تبصرہ‬


‫‪1‬ی ہ عبادات میں تکلف و تشددان جائز امور کا ترک کردینا ہے‬
‫جس کی مثال سلف میں نہیں ملتی اللہ کے رسول گوشت‬
‫(مدارج السالکین از ابن القیم ‪)142/3 :‬‬ ‫‪45‬‬

‫(مدارج السالکین از ابن القیم ‪)142/3 :‬‬ ‫‪46‬‬

‫(ابن خلدون‪)469:‬‬ ‫‪47‬‬

‫‪25‬‬
‫کھات ے تھے ‪،‬میٹھ ی اشیاءپسند کرت ے تھے آپ ک ے لئ ے ٹھنڈ ا پانی‬
‫شیریں بنایا جاتا‪48‬۔‬

‫نبی ن ے کسی صحابی کو مال ومتاع ضائع ترک کرن ے کاحکم‬


‫نہیں دیا ن ہ ہ ی دین میں تشدد ہمیش ہ روز ہ رکھنا یا ہمیش ہ قیام‬
‫کرنا تو یہود ونصاریٰ کے راہبوں کا وطیرہ ہے ‪49‬۔‬

‫شادی نہہ کرنا ہمیشہہ بھوکا رہنا اس تبتل (گوشہہ نشینی )کے‬
‫مترادف ہے جس سے نبی نے اپنے بعض صحابہ کو منع فرمایا‬
‫یہی وجہہ تھی کہہ ابن عطاءالدمی فرماتےہ ہیں کہہ ‪:‬اﷲہماری‬
‫عقلیں درست رکھے جو بھوک اور ریاضت کی تنگی کو اپنی‬
‫عقل کے زوال کا سبب بنالے وہ نافرمان گناہ گار ہے‪50‬۔‬

‫جنگلوں میں نکل جانا اس سےہ روکا گیا ہےہ یہہ رہبانیت کی‬
‫بدعت ہے ابوداؤد میں ابواسام ہ س ے مروی ہے ک ہ ایک شخص‬
‫ن ے کہ ا یا رسول الل ہ سیاحت کی اجازت دیجئ ے آپ ن ے فرمایا‪:‬‬
‫میری امت کی سیاحت جہاد میں ہے‪51‬۔‬

‫امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں‪:‬جنگل میں نکل جانا اس امت کا شیوہ‬
‫نہیں‪52‬۔‬

‫امام ذہبی فرماتے ہیں ‪:‬طریق محمدی بہترین ہے وہ یہ ہے کہ پاکیزہ‬


‫چیزیں اختیار کرنا اور جائز خواہشات بل اسراف پوری کرنا‬
‫ہمارےہ لئےہ رہبانیت ‪،‬وصال (مسلسل روزہہ رکھنا اور افطار نہ‬
‫کرنا)اور ہمیشہہ روزہہ رکھنا‪،‬ہمیشہہ بھوکےہ رہنا مشروع نہیں کیاگیا‬
‫‪53‬‬
‫علماءنے رہبانیت کی راہ کا انکار کیا ہے‬

‫صوفیاءپر شیطان ن ے التباس ڈال ک ہ سارامال ترک کردیں اگرچہ‬


‫ان کی نیتیں اچھی ہوتی ہیں مگر اعمال غلط ہیں اورحارث‬
‫محاسبی اور غزالی جیس ے لوگوں س ے تعجب ہے ک ہ و ہ اس میں‬
‫کیس ے گرپڑ ے اورکیونکر ترغیب دیت ے تھے اور حارث محاربی کی‬
‫دلیل کہہ عبدالرحمن بن عوف کےہ کھڑا کئےہ جانےہ کا قصہہ ثابت‬
‫نہیں نہ ہی اللہ نے انہیں مال جمع کرنے سے منع کیا بلکہ مال جمع‬
‫‪( 48‬تلبیس ابلیس‪)151:‬‬
‫‪( 49‬حجۃ اﷲ البالغۃ از شاہ ولی اﷲ دھلوی‪)20:‬‬
‫‪( 50‬سیر اعلم النبلء‪)153/14:‬‬
‫‪( 51‬سنن ابی داؤد کتاب الجھاد‪)5/3:‬‬
‫‪( 52‬اقتضاءالصراط المستقیم‪ )105:‬اس سلسلے میں انہوں نے امام احمد کا ایک قول بھی نقل کیا ہے)‬
‫‪( 53‬سیر اعلم النبلء‪)89/12:‬‬

‫‪26‬‬
‫جبک ہ وہ بکثرت انفاق فی سبیل اللہ کرتے‬ ‫‪54‬‬
‫کررکھن ے س ے منع کیا‬
‫تھے ۔‬

‫سلف صالحین جنہوں ن ے صحیح معنوں میں اسلم سمجھ ا انہوں‬


‫نےہ تکلف وتشدد کی راہہ اختیار نہہ کی سیدالتابعین سعید بن‬
‫مسیب س ے ان ک ے غلم ن ے کہای ہ لوگ (صوفیاء) بڑا بہترین عمل‬
‫کرتے ہیں کہنے لگے کیا کرتے ہیں ؟کہنے لگا ظہر پڑھ کر عصر تک‬
‫قیام کرت ے ہیں فرمان ے لگ ے تیری خرابی ہ و برد الل ہ کی قسم یہ‬
‫عبادت نہیں توکیاجان ے عبادت کیا ہے عبادت ی ہ ہے ک ہ الل ہ ک ے حکم‬
‫میں غور کیاجائ ے اور اس ک ے حرام کرد ہ امور س ے دور رہ ا جائے‬
‫‪55‬۔‬

‫جسم نفس کی سواری ہے اگر جسم کو اس کا حق ن ہ دیاجائے‬


‫تویہ نفس کی بھاری بھرکم بوجھ نہیں اٹھاپاتا لیکن جب ناجائز زہد‬
‫‪،‬ترک دنیا‪،‬بھوکے رہنا ‪،‬گوشت نہ کھانا ‪،‬بھوسی ٹکڑے کھانا‪،‬اور چلو‬
‫بھر پانی پینا ایسی بدعات رونما ہوں تو جسم پر نفس کے‬
‫خطرات لزم ہوجاتے ہیں اکثر سنا جاتا ہے کہ بھوک یا نیند نہ کرنے‬
‫کی وجہ سے نقصانات ہوئے بسا اوقات انسان نفسیاتی مریض بن‬
‫جاتا ہےہ عبادت کا حصول دنیاوی زندگی ہ ی میں ممکن ہےہ اور‬
‫دنیاوی زندگی بدن کی سلمتی پر موقوف ہے ‪56‬۔‬

‫ترک دنیا نہ تو کتاب اللہ س ے ثابت ہے ن ہ ہی سنت س ے ایسا کرنے‬


‫میں مذموم دنیاوی نقصان ہے جس کا آخرت میں کچھ فائدہ نہیں‬
‫‪57‬۔‬

‫حقیقی زہ د دنیا میں ر ہ کر ہ ی ممکن ہے ک ہ دنیا کا سونا اورمٹی‬


‫دونوں ہ ی برابر ہوجائیں زہ د یہہ ہےہ کہہ لوگوں کی ناجائز تعریف‬
‫ومذمت س ے بچ ے جو ایسا بن جائ ے و ہ پاکیز ہ دل کا مالک ہے اور‬
‫اگر اس میں سے کچ ھ خلف شرع صادر ہوتو ہم اس کی بدعت‬
‫اس کے چہرے پر مار کر اس کارد ّ کردیں گے ‪58‬۔‬

‫عباسی خلیف ہ منصور کی عمرو بن عبید المعتزلی ن ے مدح بیان‬


‫کی کہ وہ بڑا زاہ د ہے اس پر ابن کثیر ن ے لکھ ا کہ‪:‬زہ د اصلح کی‬

‫‪( 54‬تلبیس ابلیس‪)180:‬‬


‫‪( 55‬طبقات ابن سعد‪)135/5:‬‬
‫‪( 56‬الذریعہ الی مکارم الشریعۃ از امام راغب اصفہانی‪)153:‬‬
‫‪( 57‬فتاوی ابن تیمیۃ‪)148/20:‬‬
‫‪( 58‬ابجد العلوم‪)374/2:‬‬

‫‪27‬‬
‫دلیل نہیں کیونک ہ اکثر رہبان ک ے پاس اس قدر زہ د تھ ا جس کی‬
‫منصور اور اکثر مسلمان استطاعت نہیں رکھتے ‪59‬۔‬

‫‪2‬عوام ان لوگوں کی عبادت دیکھہ کر انہیں صحابہہ سےہ افضل‬


‫سمجھن ے لگتی ہے کیونک ہ لوگ نہیں جانت ے ک ہ صحاب ہ کیس ے تھے‬
‫وہ عجیب وغریب حرکات اور تشدد سے حیران ہوتے ہیں اور یہ‬
‫نہیں جانتے کہ شریعت راہ اعتدال کا نام ہے آثار وسنن سے کم‬
‫واقفیت ہی لوگوںکو اس تشدد میں میں مبتل کرتی ہےہ وہ‬
‫سمجھتے ہیں کہ شریعت کا مقصد محض عمل ہے اور اس کے‬
‫لئے علم کی ضرورت نہیں یہ ناممکن ہے کہ اسلمی تشخص کا‬
‫معیار لوگ ہوں جیسا بعض صحاب ہ س ے بھ ی ثابت ہے تومیں یہ‬
‫نہیں کہوں گا کہ ان کے آثار کی اتباع ہمارے لئے ممکن نہیں اور‬
‫ہم اس راہ پر نہیں چل سکتے ۔‬

‫‪3‬انہوں ن ے سماع ایجاد کیا جس ک ے متعلق امام شافعی بغداد‬


‫کی زیارت کے فرماتے ہیں ‪:‬میں اپنے پیچھے بغدادمیں ایسا کام‬
‫چھوڑ کر آرہا ہوں جسے لوگ سماع کہتے ہیں وہ اس کے ذریعے‬
‫لوگوں کو قرآن سےہ روکتےہ ہیں‪60‬ابن تیمیہ فرماتےہ ہیں ‪:‬یہ‬
‫بدعت دوسری صدی ک ے آخر میں نکلی اور اس ے نکالن ے والے‬
‫بہترین صوفیاءتھے‪61‬۔‬

‫نیز فرماتے ہیں ‪:‬یہ گانے والے قصیدے اور ان پر مجمع لگانا ان‬
‫میں اکبر شیوخ حاضر نہہ ہوئےہ جیسےہ فضیل بن عیاض اور‬
‫ابراہیم بن ادہم اور کرخی کچھہ لوگ حاضر ہوئےہ پھر تائب‬
‫ہوگئے اور جنید بغدادی اپنی آخری عمر میں حاضر نہ ہوئے ‪62‬۔‬

‫‪4‬گفتگو کی ابتداءمیں ایک خاص طرز جس کانام صوفیت‬


‫رکھاگیا سےہ ہوئی اورکوئی اعتراض کرسکتاہےہ کہہ اگر‬
‫مسئلہ نام رک ھ لین ے کا ہے تو یہ عمل فق ہ شافعی اور فقہ‬
‫مالکی بلک ہ حدیث س ے بھ ی منسوب ہے اس کا جواب یہ‬
‫ہےہ کہہ یہہ نام ایسےہ علم شرعی کی طرف منسوب ہیں‬
‫جسے اللہ اور اس کا رسول پسند فرماتا ہے مثل ً علم فقہ‬
‫وحدیث نیز ان علوم کی طرف ان ناموں کا انتساب‬

‫‪( 59‬البدایۃ والنھایۃ‪)80/10:‬‬


‫‪( 60‬ابن القیم فرماتے ہیں ‪:‬جب امام شافعی اس سماع زہد سے متعلق یہ کہہ رہے ہیں تو اس سماع کے‬
‫بارے میں کیا کہتے جس میں عجیب وغریب کلم ہوتا ہے ملحظہ ہو‪:‬اغاثۃ اللفہان ‪)239/1:‬‬
‫‪( 61‬الستقامۃ‪)297/1:‬‬
‫‪( 62‬فتاوی ابن تیمیۃ‪)534/11:‬‬

‫‪28‬‬
‫کسی شخص معین کےہ اردگرد تعصب کا سبب نہیں‬
‫چانچہہ ان میں کوئی رکاوٹ نہیں اور انتساب شرعی‬
‫اعتبار سےہ اچھا ہوسکتا ہےہ جیسےہ مہاجرون اور انصار‬
‫ایسےہ ہی جائز ومباح بھی ہوتا ہےہ جیسےہ قبائل اور‬
‫شہروں کی طرف نسبت اورکبھی مکروہہ وحرام بھی‬
‫ہوتا ہےہ جیسےہ ایسی نسبت جو بدعت اور نافرمانی کا‬
‫سبب ہو‪63‬۔‬

‫‪5‬اس دور میں لکھ ی جان ے والی کتب جن میں چند کا ہم‬
‫ن ے تذکر ہ بھ ی کیا ہے ان ک ے بار ے میں علماءکی آراءدرج‬
‫ذیل ہیں ‪:‬‬

‫ابن جوزی قوت القلوب ک ے بار ے میں فرمات ے ہیں ک ہ اس‬


‫میں باطل اور موضوع احادیث ہیں اور ”حلی ۃ الولیاءاز ابی‬
‫نعیم“ کےہ متعلق فرماتےہ ہیں کہہ ‪:‬انہیں صوفیاءمیں ابوبکر‬
‫وعمر وعثمان وعلی ودیگراجلہہ صحابہ ہ کو شامل کرتے‬
‫ہوئے ذرا شرم نہ آئی ‪64‬۔‬

‫ابو زرعہ الرازی سے محاسبی کی کتابوں کے متعلق پوچھا‬


‫گیا تو فرمانے لگے ان کتابوں سے دور رہو ان سے کہا گیا کہ‬
‫ان میں عبرتیں ہیں فرمانے لگے جس کے لئے اللہ کی کتاب‬
‫میں عبرت نہہ ہو اس کےہ لئےہ ان میں بھی عبرت نہیں‬
‫ہوسکتی‪65‬۔‬

‫‪6‬اس ابتدائی مرحلےہ سےہ معلوم ہوتاہےہ کہہ تصفیہہ روح کےہ لئے‬
‫جسم کو تکلیف دینا اور آسائشوں س ے پرہیز کرنا ی ہ نصاریٰ‬
‫س ے متاثر ہون ے کی بناءپر تھ ا امام احمد بن ابوحواری حرملہ‬
‫کی ایک کٹیا میں بیٹھےہ راہ ب سےہ اپنی ملقات کا قصہہ بیان‬
‫کرت ے ہیں ک ہ انہوں ن ے اس کی رہبانیت کی وج ہ پوچھ ی تو وہ‬
‫کہنے لگا جسم زمین سے پیدا کیا گیا ہے اور روح کوآسمان کی‬
‫بادشاہت سے سو جب اس کابدن بھوکا رہے اور اسے بے لباس‬
‫کرد ے اور اس ے مسلسل بیدار رکھے روح واپس اس جگہ چلی‬
‫جاتی ہےہ جہاں سےہ نکلی تھ ی اور جب بدن اسےہ کھلئےہ اور‬
‫آرام دےہ تو زمین پر ہی رہتی ہےہ اور دنیا سےہ محبت کرنے‬
‫لگتی ہے ابوحواری نے راہب سے ہونے والی یہ گفتگو اپنے شیخ‬
‫‪( 63‬اقتضاءالصرا المستقیم‪)71:‬‬
‫‪( 64‬تلبیس ابلیس‪)165:‬‬
‫‪( 65‬تلبیس ابلیس‪167:‬‬

‫‪29‬‬
‫ابوسلیمان الدرانی کے سامنے ذکر کی تو کہنے لگے کہ ‪:‬وہ باتیں‬
‫بنات ے ہیں ۔گویا انہوں ن ے راہ ب کی گفتگو س ے تعجب کیا اسے‬
‫لئےہ امام ذہبی اس پر لکھتےہ ہیں کہہ طریق محمدی بہترین‬
‫ہے‪66‬۔‬

‫اس طبق ے صوفیاءاپن ے زہ د اور ترک دنیا میں سچ ے تھے لیکن ان‬
‫میں ایسا تکلف وتشددوسوسےہ تھےہ جن کا شریعت حکم نہیں‬
‫کرتی بلکہہ انہیں پسند بھی نہیں کرتی ہم یہہ تصور بھی نہیں‬
‫کرسکتے کہ یہ مسلمانوں کے عقائد خراب کرنا چاہتے تھے جیسا کہ‬
‫شیع ہ ن ے تشیع کو سیاسی طور پر لیا اور پھ ر اس ے باطنیت کی‬
‫کیچڑ میں ڈال دیا‪ 67‬یہی وجہ ہے کہ ان سے بسا اوقات ایسے الفاظ‬
‫صادر ہوئے جن کے بارے میں سوچنے پر ہم مجبورہوجاتے ہیں مثلً‬
‫جنید بغدادی نے شبلی سے کہا کہ ‪:‬ہم نے یہ علم حاصل کرکے اسے‬
‫”انڈ ر ورلڈ“چھپائےہ رکھ ا پھ ر تو نےہ آ کر اسےہ ساری خلقت کے‬
‫سامنے آشکارا کردیا‪68‬۔‬

‫ایسےہ ہی بعض علماءکی طرف منسوب کلمات سےہ ان سے‬


‫ناممکن ہیں مثل ً جنید بغدادی کا کہنا کہہ ”عقلءکی عقل حیرت‬
‫میں پڑگئی“ابن تیمیہ کہت ے ہیں ک ہ ‪:‬اس میں نظر ہے کیا ی ہ انہوں‬
‫نے ہی کہا ہے؟جبکہ جنید پر استقامت غالب رہی ہے‪ 69‬یہ پہلے طبقے‬
‫کی حالت ہے اس میں مشروع و غیر مشروع زہ د خلط ملط تھا‬
‫نیز ان ک ے عابدان ہ حالت اور اذکار اور ریاکاری س ے دوری اچھی‬
‫صفات ہیں۔اس کےہ بعد معاملہہ ترقی کرتا ہےہ اس میں ایسی‬
‫اصطلحات داخل کردی جاتی ہیں جن میں کچھہ حق اور کچھ‬
‫باطل ہیں یا دونوں کا احتمال رکھتی ہیں انحراف بڑھہ جاتا ہے‬
‫سنت سےہ دوری اور اس کےہ متعلق وسعت نظری اور کشادہ‬
‫ہوجاتی ہے اس ک ے بار ے میں ہم آئندہ فصل میں گفتگو کریں گے‬
‫ان شاءاللہ ۔‬

‫‪( 66‬سیر اعلم النبلء‪)89/12:‬‬


‫‪ 67‬شیخ رشید رضا کہتے ہیں ‪:‬طویل بحث وتمحیص کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان لوگوں کی‬
‫اکثریت جنہوں نے نصوص شریعت کو بالئے طاق رکھ کر اپنے اقوال وکتب کو مقدم کیا اور وہ صوفیت‬
‫کا لبادہ اوڑھے تھے وہ درحقیقت باطنی تھے پھر اکثر مسلمان ان کی حقیقت جانے بنا ان کی تقلید کرنے‬
‫لگے۔(تاریخ المم ‪)115/1 :‬‬
‫‪( 68‬التصرف از کلبازی‪)145 :‬‬
‫‪ 69‬جنید اور ان جیسے دیگر صوفیاءکے متعلق ابن تیمیہ کا منہج ان کے حق میں عذر پیش کرنا اور یہ کہنا‬
‫کہ ان سے ایسے الفاظ کا صدور ناممکن ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ انہیں زہد وعبادت میں سچا جانتے‬
‫تھے اور بلشبہ یہ منہج بالکل درست ہے اس اعتبار سے کہ مسلمان کی دین میں احتیاط غالب رہتی ہے‬
‫تاآنکہ وہ رجال کے چکر میں نہ پڑجائے لیکن جب ہم جنید اور اس جیسے دیگر صوفیاءکے بارے میں بنظر‬
‫عمیق دیکھتے ہیں تو بات دوسری ہوجاتی ہے کہ ان کے اکثر اقوال یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ صوفیت کی‬
‫بنیاد ڈالنے والوں میں سے ہیں‬

‫‪30‬‬
‫تیسری فصل‪:‬اصطلحات اور غیر یقینی‬
‫صورتحال‬
‫سنت سے کسی بھی طرح کا انحراف وقت گزرتے بڑھتا جاتا ہے‬
‫پر طرف سے یکجا ہونے والے معاون حالت غلط اجتہاد اور باطل‬
‫نظریات سبب بنت ے ہیں سو شگاف بڑھتا جاتا ہے اور باطل قوت‬
‫پکڑلیتا ہےہ تیسری صدی کےہ اختتام پر صوفیت اپنی ہ ی مشکل‬
‫ک ے سات ھ ساتھ ایسی پوشید ہ اور مبہم اصلحات میں واقع ہوگئی‬
‫جن ہ ر صوفی اپنی منشاءک ے مطابق تفسیر کرتا نیا صوفی ان‬
‫کی بیزار تفسیر کرتا اورپکا صوفی اپنے غلو وضللت کے مطابق‬
‫ان کی تفسیر کرتا اور اصطلحات کی یہ شکل اور ان کا واضح‬
‫نہ ہونا ہم س ے پہلی امتوں کی گمراہی کا بھی سبب رہ ا ہے ایسے‬
‫مبہ م کلمات جو حق وباطل دونوں کا احتمال رکھت ے نصاری ٰ کے‬
‫عقیدہہ الوہیت مسیح کا سبب بنےہ جب اللہہ سبحانہہ وتعالیٰہ نے‬
‫منہُ“یعنی اپنی روح کہ ا تو اس کا معنی یہ نہ تھ ا ک ہ وہ‬ ‫انہیں ”ُروح ِّ‬
‫اس کا جزءہے بلکہ یہ نسبت اعزازی تھی جیسا کہ اللہ فرماتا ہے کہ‬
‫‪”:‬ناق ۃ اﷲ“یعنی الل ہ کی اونٹنی یا بعض صحاب ہ کرام کو اسد اللہ‬
‫یعنی اللہ کا شیر یا سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کہا جاتا ہے یا اللہ‬
‫کا فرمان ک ہ ‪:‬سخر لکم ما فی السموات وما فی الرض جمیعا‬
‫منہ۔یعنی اس ن ے تابع کردیا ہے تمہار ے و ہ سب جو آسمانوں میں‬
‫ہے اور جو زمین پر ہے سب اسی سے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن نے‬
‫مشتب ہ ک ے پیچھے لگن ے وال ے س ے منع کیا ہے اور مشتب ہ کو محکم‬
‫کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے اور محکم اللہ کا یہ فرمان ہے کہ‬
‫‪:‬قل ھواﷲہ احد اﷲہ الصمد لم یلد ولم یولد‪........‬یعنی کہہہ دیجئے‬
‫شان ی ہ ہے ک ہ الل ہ ایک ہے و ہ ب ے نیاز ہے ن ہ اس ن ے جنا ن ہ و ہ ہی جنا‬
‫گیا۔امام احمد فرماتےہ ہیں ‪:‬عیسیٰ ہ کلمہہ ک ُن ”ہوجا“سےہ پیدا‬
‫ہوئے نہ کہ وہ خود ہی کلمہ کُن ہیں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے‬
‫بارےہ میں فرمایاکہہ ‪:‬ول تلبسوا الحق بالباطل یعنی حق وباطل‬
‫خلط ملط نہ کرو‪70‬۔‬

‫میں‬ ‫اصطلحات‬ ‫اپنی‬ ‫نےہہہہہہہہہ‬ ‫صوفیہہہہہہہہہہ‬


‫فناءوبقاء‪،‬صحو‪،‬محو‪،‬تجرید‪،،‬تغریدکےہ بارےہ میں کلم کیا ہےہ یہ‬
‫الفاظ حق اور باطل دونوں کااحتمال رکھت ے ہیں بلک ہ باطل کے‬
‫زیادہ قریب ہیں ان کے مؤلفین بھی ان اصطلحات ک ے ایجاد کئے‬
‫جانےہ کا اعتراف کرت ے ہیں ۔ابوبکر کلبازی کہتا ہے‪:‬صوفیوں کی‬

‫‪( 70‬التصرف لمذھب التصوف‪)111:‬‬

‫‪31‬‬
‫ان کےہ ہاں منفرد عبارات واصطلحات ہیں جنہیں ان کےہ سوا‬
‫کوئی استعمال نہیں کرتا۔‬

‫ان اصطلحات کو سب سےہ پہلےہ استعمال کرنےہ والےہ ابوحمزہ‬


‫الصوفی البغدادی (متوفی ‪296‬ہجری)بسطانی اور ابویزید‬
‫الخزار(متوفی ‪277‬ہجری )تھے ۔‬

‫ان کی اصطلحات کی چند مثالیں اور تعریفیں ذکرکرنے کے بعد‬


‫ہم ان کے نتائج کے متعلق گفتگو کریں گے ‪:‬‬

‫‪1‬الفنا‪:‬اس مبہم ومجمل لفظ سےہ باطل بلکہہ کفر مراد ہے‬
‫صوفیاءاس س ے ”ایک ہ ی وجود س ے معدوم ہوجانا“مراد لیتے‬
‫ہیں یعنی اللہہ سبحانہہ کےہ سوا کوئی موجودنہیں اور اس کے‬
‫سوا کسی کا وجود حقیقی نہیں اس عقیدہ وحدت الوجود کے‬
‫متعلق ہم آئندہ بحث میں گفتگو کریں گے (ان شاءاللہ )‬

‫‪2‬اس لفظ فناءکا یہہ معنی بھی ہےہ کہہ لوگوں اور خلقت سے‬
‫غائب ہونا اور اللہہ کےہ سوا کسی کاحاضر نہہ ہونا اور (غیبوبہ‬
‫یعنی غائب ہوجانا)میں واقع ہونا حتی کہ عبادت سے بھی غائب‬
‫ہوجانا اس سے یہ وہم ہوتا ہے ک ہ کہ وہ (یعنی غائب ہونے والفنا‬
‫ہون ے وال)اور معبود ایک ہ ی شئےہ ہیں اور ی ہ گمان پڑتا ہےہ کہ‬
‫اس کی ذات اور اس کی ذات میں اور اس کی صفات اس‬
‫کی صفات میں مضحمل ہوگئیں‪ 71‬۔‬

‫سکر(مست ہونا )بھ ی کہتے‬ ‫صوفیاءاسےہ جمع (اکھٹا ہونا)اور ُ‬


‫ہیں اور جب اس کی عقل واپس پلٹتی ہےہ تو وہہ اسےہ غلط‬
‫کردیتا ہے پھر رب کو رب اور بندے کو بندہ کہتا ہے ۔‬

‫‪3‬اس لفظ جسے صوفیاءفنا کہتے ہیں کا یہ معنی بھی ہے کہ ”ایک‬


‫ہی کےہ ارادےہ سےہ معدوم ہوجانا“یعنی صرف اللہہ ہی سے‬
‫محبت ہ و اسی ک ے لئ ے دوستی وبغض ہ و ی ہ اگرچ ہ درست ہے‬
‫لیکن اس کی تعبیر ک ے لئ ے ان کالفظ فناءاستعمال کرنا قابل‬
‫قبول نہیں کیونکہہ ہ م کہہہ چکےہ ہیں کہہ اس میں پوشیدگی اور‬
‫اشتباہ ہے اور فناءکا یہ معنی کہ ”اللہ کے سوا میں مشغول ہونے‬
‫س ے نفس کو فنا کردینا “جیسا کہ صوفیاءیہ بھی کہت ے ہیں تویہ‬
‫معنی بھ ی ناقابل قبول ہےہ کیونکہہ اللہہ ہ ی نےہ ہمیں مخلوقات‬
‫‪( 71‬تنبیہ الغبی‪)81:‬‬

‫‪32‬‬
‫میں مشغول ہون ے ان کی دیک ھ بھال کرن ے اور ان کی طرف‬
‫توجہ دینے کا حکم دیا ہے‪72‬۔‬

‫‪4‬الجمع والفرق(یعنی اکھٹا ہونااور جداہونا)‪:‬صوفیاءکہتےہ ہیں‬


‫جمع س ے حق بلخلق یعنی خلق ک ے بغیر حق کی طرف اور‬
‫فرق سے خلق بلحق یعنی حق کے بغیر خلق کی طرف اشارہ‬
‫ہوتاہے اور مراد ی ہ لیت ے ہیں ک ہ فرق س ے مراد و ہ کسب ہے جو‬
‫بندہہ اللہہ کی بندگی کےہ قیام کےہ لئےہ کرتا ہےہ اور جمع سے‬
‫ربوبیت کا مشاہد ہ مراد ہے اور جمع وفناءک ے پہل ے معنی یعنی‬
‫وحدت الوجود سے بہت قریب ہے ۔‬

‫سکر والصحو‪(:‬یعنی مست ہونا جیسےہ کوئی نشےہ میں‬ ‫‪5‬ال ُ‬


‫مست ہوتا ہے اور ”ہوش میں آنا“جیسے نشہ کرکے کوئی ہوش‬
‫میں آتا ہے)۔سکر کے متعلق صوفیاءکہتے ہیں کہ ‪:‬بندے پر ایسی‬
‫حالت کاظاہرہونا جس میں اس ک ے لئ ے ن ہ تو سبب کا لحاظ‬
‫ممکن رہے نہ ہی ادب کی رعایت‪73‬۔‬

‫اور صحو کہتےہ ہیں عارف کےہ غائب ہوجانےہ اور اس کے‬
‫احساس کے زائل ہوجانے کے بعد پلٹ آنا۔‬
‫‪6‬العشق‪:‬صوفیاءنےہ اس لفظ کو اختیار کیا جبکہہ رب تبارک‬
‫وتعالیٰ کو اس لفظ س ے موصوف نہیں کیا جاسکتا نہ بندے کا‬
‫اپنےہ رب سےہ اظہار محبت کےہ لئےہ یہہ لفظ استعمال کیا‬
‫جاسکتاہے‪ 74‬۔‬

‫یہ ان کی کثیر اصطلحات میں سے چند کا نمونہ ہے یہ سبب مبہم‬


‫و مجمل ہیں ایسی دیگر اصطلحات حال‪،‬مقام عطش ‪،‬دھ ش ‪،‬‬
‫جمع الجمع ‪....‬وغیرہ بھی ہیں ہم ان میں سے صرف ایک اصطلح‬
‫لیت ے ہیں مثل ً الفناءکیا ی ہ صحیح ہے ؟ کیا مخلوقات س ے رک جانا‬
‫اور ان میں عدم مشغولیت اسلم ہے؟جواب نفی میں ہے کیونکہ‬
‫اللہ تعالیٰ فرماتا ہے‪:‬‬

‫قل انظروا ماذا فی السماوات والرض‬

‫‪( 72‬سیر اعلم النبلء‪)393/15:‬‬


‫‪( 73‬التصرف‪)114:‬‬
‫‪( 74‬کیونکہ اس لفظ میں عریانیت کا عنصر ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ کتاب وسنت میں مودّت ومحبت کے‬
‫الفاظ موجود ہیں مگر عشق کا لفظ قطعاًنہیں نیز کوئی بھی شخص اپنی ماں ‪،‬بہن ‪،‬بیٹی سے اظہار‬
‫محبت کے لئے یہ لفظ ہرگز استعمال نہیں کرتا کیونکہ ان سے کی جانے والی محبت عریانیت سے پاک‬
‫ہوتی ہے ۔مترجم)‬

‫‪33‬‬
‫(یعنی )کہہہ دیجئےہ کہہ جو کچھہ آسمانوں اور زمین میں ہےہ اسے‬
‫دیکھو۔‬

‫نبی نےہ فرمایا‪:‬حبب الی من دنیاکم النساءوالطیب(یعنی)مجھے‬


‫تمہاری دنیا سےہ عورتیں اور خوشبو پسند ہے ۔آپ عائشہہ سے‬
‫ان کے والد ابوبکر ‪t‬سے اور اپنی بیٹی کی اولد حسن وحسین‬
‫سےہ محبت کرتےہ تھےہ شہ د ‪،‬مکہہ اور انصار صحابہ سےہ محبت‬
‫کرتے تھے ‪75‬۔‬

‫صوفیاءکی فناءفی اللہہ کو شش ناممکن ہےہ کیونکہہ اللہہ سبحانہ‬


‫خالق اور وہ مخلوق ہیں تو خالق اور مخلوق ایک کیسے ہوسکتے‬
‫ہیں ی ہ لوگ ایک اور فریب دیت ے ہیں یعنی الصحو بعدالمحو”مٹ‬
‫جان ے ک ے بعد ہوش میں آنا“یا الفرق فی الجمع یعنی یکجا ہوکر‬
‫الگ ہونا مطلب ی ہ ک ہ انسان حالت بندگی کی طرف پلٹ آئ ے یہ‬
‫ان کےہ مونہوں کی محض باتیں ہیں یعنی یہہ کہہ وہہ عبودیت کی‬
‫طرف پلٹ آتا ہےہ حقیقت میں یہہ صرف اوہام باطلہہ ہیں جبکہ‬
‫اسلم عقل کی حفاظت کا تقاضا کرتا ہے تو ایک مسلمان زوال‬
‫عقل کی سعی کیونکر کر سکتا ہےہ جبکہہ صوفیاءربوبیت کے‬
‫اسرار سےہ متعلق گفتگو کرتےہ وقت ایسی باتیں بناتےہ ہیں جو‬
‫طاقت انسانی س ے باہ ر ہیں اسی لئ ے و ہ اس وحدت الوجود کے‬
‫حادث ے س ے دوچار ہوئ ے جو دراصل کفر ہے اور اس بار ے میں وہ‬
‫نفسیاتی عدم توازن کا شکار ہیں کہ جو انسان تکبر وخدائی کے‬
‫زعم میںمبتلہوکر وحی سے اعراض کرتا ہے توغیر محسوس طور‬
‫پر اس نفسیاتی بیماری کا مریض بن جاتا ہے اور وحدت الوجود‬
‫کےہ راستےہ سےہ اپنی باطل نفسیات کو تسکین دیتا ہے جیسا کہ‬
‫فرعون کی نفسیات تھی وہ کہا کرتا تھا کہ ‪:‬انا ربکم العلیٰ میں‬
‫ہی تمہارا سب سےہ برتر رب ہوں۔بدھہ مذہب میں بھی فناءکا‬
‫عقیدہہ موجود ہےہ وہہ اسےہ نروان کہتےہ ہیں بسا اوقات صوفیاءنے‬
‫انہی سے یہ عقیدہ لیا ہے۔‬

‫اس کے سنگین نتائج‬


‫‪1‬اس طرح کی خرافات میں پڑن ے س ے مسلمان علم نافع اور‬
‫عبادت وعمل سےہ دور ہوجاتا ہےہ اور ان اشیاءکےہ بارےہ میں‬
‫باتیں بناتا ہے جن کا وجود تک نہیں ہوتا ن ہ ان کی حقیقت ہی‬
‫ہوتی ہے مسلمان دنیا آباد کرنے کا پابند ہے تاکہ یہ آخرت کا پل‬

‫‪( 75‬سیراعلم النبلء‪)394/15:‬‬

‫‪34‬‬
‫ثابت ہ و اس طرح کی اصطلحات جاہ ل پر حاوی ہوجاتی ہیں‬
‫اور عقل مندکو الجھادیتی ہیں جبکہ وہ دین میں کمزور ہوں ۔‬

‫س ّر بمعنی پوشیدہہ راز)کا تصورنہیں‬‫‪4‬اسلم میں اسرار (جمع ِ‬


‫ہےہ قرآن وسنت بالکل واضح ہیں یہہ اسرار دین کو محتاج‬
‫بنادیتےہ ہیں اور معاملہہ ہر شئےہ کی اپنی منشاءکےہ مطابق‬
‫باطنی تفسیر تک جاپہنچتا ہے ک ہ ہ ر شئ ے کا ایک ظاہ ر ہے اور‬
‫ایک باطن یہ ی وج ہ ہے ک ہ علماءان کی کتب پڑھن ے س ے ہرایک‬
‫کو منع کرتے ہیں‪76‬۔‬

‫‪4‬ان اصطلحات میں ٹھہراؤ بتدریج عقیدہہ وحدت الوجود کی‬


‫جانب لےہ جاتا ہےہ جو کہہ دین سےہ مکمل خروج ہےہ مسلمان‬
‫کتاب وسنت کی طرف پلٹتے ہ ہیں جبکہ ہ صوفیاءذوق ‪،‬‬
‫کشف‪،‬خیالت اور اپنے مشائخ کے کلم کی طرف جبکہ یہ بڑی‬
‫مشکل ہےہ کیونکہہ ہر انسان کا ایسا ذوق ہوتا ہےہ عیسائی‬
‫تثلیثیانہ ذوق جبکہ مشرک شرکیہ ذوق رکھتا ہے ۔‬

‫‪4‬یہہ مرحلہہ مقامات جیسےہ توکل ورضا کی اصطلح کےہ ساتھ‬


‫ممتاز ہےہ اس میں بھی انہوں نےہ صحیح فہم اسلمی سے‬
‫انحراف برتا ہے ان ک ے نزدیک توکل اسباب ترک کردین ے کا نا‬
‫م ہےہ ھروی کہتےہ ہیں ‪”:‬خاص طریق میں توکل توحید اور‬
‫اسباب اختیار کرنےہ سےہ بیگانگی ہےہ “۔ابوسعید الخزار کہتا‬
‫ہے‪”:‬میں صحرامیں تھ ا شدید بھوک لگی میر ے نفس ن ے مجھ‬
‫سے تقاضا کیا کہ میں اللہ سے کھانا مانگوں میں نے کہا یہ توکل‬
‫کرنے والوں کا عمل نہیں“‪77‬۔‬

‫ان شیخ صاحب نے زاد راہ کے بغیر صحراءجاکر خلف سنت عمل‬
‫کیا اور توکل کا معنی سمجھنےہ میں غلطی کی اللہہ سبحانہ‬
‫وتعالی نےہ اسباب پیدا کرکےہ مخلوق سےہ انہیں اختیارکرنےہ کا‬
‫مطالب ہ کیا ہے اور مسلمان محض اسباب پر مکمل اعتماد نہیں‬
‫رکھتا لیکن اس کےہ ساتھہ ساتھہ اللہہ پرکلی اعتماد دکرتا ہےہ اور‬
‫نتائج کا اللہہ تعالیٰہ سےہ امیدوار ہوتا ہے۔صوفیاءمقام رضا کے‬
‫متعلق کہتےہ ہیں کہہ یہہ تقدیر پر بس کئےہ رہنا ہےہ کہہ جو اللہہ کی‬
‫طرف س ے آئ ے اسی پر قناعت کرنا یہ معنی بنظر عمیق درست‬
‫نہیں مسلمان اللہہ کی تقدیر پر اعتراض نہیں کرتا جیسے‬

‫‪( 76‬احقائق التصوف‪)527:‬‬


‫‪( 77‬التصرف از کلبازی‪)150:‬‬

‫‪35‬‬
‫مرض‪،‬فقرلیکن الل ہ کی تقدیر کو الل ہ ہ ی کی تقدیر س ے ٹالتا ہے‬
‫جیسےہ مرض کا علج دوا سےہ کرتا ہےہ اور محنت کرکےہ کماکر‬
‫فقر کو ٹالتا ہے اور دینی معاملت جیسے نماز روزہ میں یوں نہیں‬
‫کہتا کہہ میں نماز اس لئےہ نہیں پڑھتا کہہ اللہہ نےہ میرےہ مقدر میں‬
‫رکھ ی نہیں ی ہ توشیطانی حیلےہ اورمشرکین کا طرز عمل وقول‬
‫ہے شریعت احکامات کو نافذ کرنا اور مصائب کو الل ہ کی تقدیر‬
‫س ے ہٹانا اور ان پر صبر کرنا واجب ہے ان تمام اصطلحات کے‬
‫متعلق ابن قیم کا تبصرہہ نہایت جامع ہےہ ‪”:‬کہہ چلنےہ کی آواز‬
‫اورپسنے کی آواز سنائی دیتی ہے پر آٹا نہیں دکھائی پڑتا“‪78‬۔‬

‫چوتھی فصل‪ :‬صوفیہ اور وجودیہ‬


‫ی ہ مرحلہ صوفیت ک ے مراحل میں خطرناک ترین ہے و ہ اس طرح‬
‫کہہ اس مرحلےہ کی صوفیت میں یونانی فلسفہہ داخل ہوگیا اور‬
‫اسے صوفیت اورنصرانیت سے مشابہ بنادیا کہ جب عیسائیت میں‬
‫رومی داخل ہوئےہ توانہوں نےہ اس میں فلسفہہ بھ ی داخل کردیا‬
‫اسی لئ ے کہ ا جاتا ہے کہ عیسائیت خود رومی بن گئی اور ومیوں‬
‫کی کچھہ مدد نہہ کرسکی بلکہہ ہ م بالجزم ثابت کرسکتےہ ہیں کہ‬
‫یہودیت ونصرانیت ودیگر آسمانی شرائع جن میں تبدیلیاں واقع‬
‫ہوئیں تو اس تبدیلی میں فلسف ہ کا اہ م کردار تھ ا جب فلسف ہ نے‬
‫تورات ک ے نصوص پر تنقید کی اورانہیں معمولی یا قص ہ کہانیاں‬
‫قرار دیا تو اس دباؤ کےہ ماتحت علماءیہود نےہ تاویلیں شروع‬
‫کردیں جیسا کہہ فیلون یہودی نےہ کیا انہوں نےہ ابراہیم کو نور‬
‫قرار دیا اور ان کی بیوی سارۃہ کو خوبی قرار دیا ایسےہ ہی‬
‫نصرانیت نےہ کیا خصوصا ً جبکہہ افلطونی متکلمین اور یونانی‬
‫نمائندوں نےہ ان فلسفیانہہ حملےہ کئےہ تو نصرانی خداوندی کے‬
‫رجال نے اقرار کیا کہ اناجیل میں نامعقول باتیں ہیں چنانچہ انہوں‬
‫نے ان کی فلسفہ کی پسندیدہ تاویلت شروع کردیں‪ 79‬۔‬

‫اسلم میں فلسفہہ یونانی کتابوں کےہ ترجمےہ کےہ بعد آیا جیسے‬
‫افلطون اسکندری کی کتاب ”التاسوعات“ کا عربی ترجمہ‬
‫عبدالمسیح بن ناعمہہ الحمصی نےہ ”الثولوجیا“یعنی ربوبیت کے‬
‫نام سے کیا‪80‬۔‬

‫‪( 78‬مدارج السالکین‪)457/3:‬‬


‫‪( 79‬مذاھب اسلمیین از عبدالرحمن بدوی جلد دوم)‬
‫‪( 80‬ظھرالسلم از احمد امین ‪)156/4 :‬‬

‫‪36‬‬
‫ایسےہ ہی ”اثولکوجیا“ارسطو کی کتاب کا ترجمہہ ہےہ اس میں‬
‫فیض اور اشراق کا نظریہہ پیش کیا گیا ہےہ جو صوفیت کے‬
‫خطرناک ترین دور پر چھایا رہا خصوصا ً سہروردی‪ 81‬اور ابن‬
‫عربی‪ 82‬کےہ ادوار میں اسی فلسفےہ کےہ دباؤ میں معتزلہہ نےہ ہر‬
‫خلف عقل (ان کےہ زعم میں )نص کی تاویل یا انکار شروع‬
‫کردیا جیسا کہ وہ جوہر‪،‬جزلیتجزا‪،‬جسم ‪،‬متحیز‪....‬وغیرہ الفاظ کے‬
‫جھگڑےہ میں بہت آگےہ نکل گئےہ اور فکری بغاوت کےہ دورکی‬
‫بہترین مثال قرار پائے اورعملی طور پر بخوشی اسلم سے خارج‬
‫قرار پائے ۔‬

‫صوفیاءپر فلسفہہ ”الٰہہ سےہ مشابہ ت بقدر طاقت“ کےہ عنوان پر‬
‫داخل ہوا انہوں ن ے بند ے کو رب س ے صفات وافعا ل میں مشابہ‬
‫قرار دین ے کی کوشش کی جیسا ک ہ غزالی اور اس ک ے ہمنواؤں‬
‫نے اپنی کتاب ”المضنون بہ علی غیر اہلہ “میں کیا‪83‬۔‬

‫پھر ابن عربی اور اس کے تلمذہ نے وحدت مطلقہ کا موقف اختیا‬


‫رکیا کیونکہ فلسفہ کہتے ہیں کہ ‪”:‬حقیقی وجود علت اولی (اللہ)ہے‬
‫کیونکہ وہ بالذات مستغنی ہے تو ہر وہ جو اس کا محتاج ہو اس کا‬
‫وجود ایک خیال ہےہ “یہیں سےہ ابن عربی نےہ وحدت الوجود کا‬
‫نظری ہ نکال شروع شروع میں صوفی ہ ن ے اس ے عام شکل میں لیا‬
‫ک ہ الل ہ سبحان ہ ہ ی حقیقی وجود ہے اس س ے ان کی مراد ی ہ ہوتی‬
‫کہ تمام موجودات او رکائنات محض دھوکہ اور وہم ہیں کوئی الگ‬
‫مستقل ذات نہیں جوبالذات قائم ہ و جو ایسا ہ و اس پر حقیقی‬
‫وجود کا اطلق نہیں کیا جاسکتا‪84‬۔‬
‫‪ 81‬اس کا نام یحییٰ بن حبش بن امیرک السہروردی تھا فلسفہ اشراق جس کا موجد افلطون ہے کا‬
‫حامی تھا اس نے نیا دین بنایا اور نبوت کا دعویٰ کیا علماءحلب نے اس کے کفر کا فتوی جاری کیا‬
‫‪587‬ہجری میں قتل ہوا۔سیر اعلم النبلء‪ 201/21:‬نیز شخصیات قلقہ از عبدالرحمن بدوی‪95:‬‬
‫‪ 82‬اس کا نام ابوبکر محی الدین محمد بن علی الحاتمی الطائی الندلسی ہے مرسیہ میں ‪560‬ہجری میں‬
‫پیدا ہواوہیں پل بڑھا پھر مختلف شہروں میں گھوما شام اور روم ‪ ،‬مشرق کے مختلف شہر پھر بغداد آیا‬
‫مغربی بادشاہوں سے خط وکتابت کرتا تھا لوگ اس کے بارے میں مختلف آراءرکھتے کچھ اسے زندیق‬
‫کہتے کچھ ولی مانتے لیکن اپنی کتابیں نہ پڑھنے دیتا درست یہ ہے کہ یہ خبیث اتحادی تھا اس کی کتابیں‬
‫اس کی موت کے بعد ظاہر ہوئیں کیونکہ لوگوں سے الگ رہتا تھا اس کے ساتھ بہت سے اتحادی رہتے تھے‬
‫اسی لئے اس نے اس مسئلے (یعنی حلول اور فنا فی اللہ)میں بڑی سرکشی کا مظاہرہ کیا پھر رسوا ہوا‬
‫‪637‬ہجری میں مرا دیکھئے شذرات الذہب از ابن عماد ‪190/5:‬نیز تنبیہ الغبی از بقاعی ‪178:‬نیز تاریخ‬
‫التصوف از بدوی ‪41:‬‬
‫‪( 83‬درءتعارض العقل والنقل از ابن تیمیۃ‪)82/5:‬‬
‫‪( 84‬اس دور کے بعض مفکرین جو اہل السنۃ سے ہیں نے مطلقا ً کہہ دیا کہ ‪”:‬موجود اور حق اللہ سبحانہ ہی‬
‫ہے “اس کی ان کی مراد شریعت س ے متصادم نہیں و ہ ی ہ ہے ک ہ الل ہ سبحان ہ ہ ی ان غائب موجودات کی‬
‫نسبت باقی اور سرمدی ہے جو اپنے بل بوتے پر قائم نہیں رہ سکتیں بلکہ وہ اللہ سبحانہ کے وجود کا سہارا‬
‫پکڑتی ہیں ی ہ معنی اگرچ ہ شریعت س ے متصادم نہیں ہے لیکن بہ ت س ے ایس ے تصورات کا باعث ہے جو‬
‫بدعت میں واقع کرسکت ے ہیں چنانچ ہ شرعی اصطلحات کا التزام ہی بہتر ہے اہ ل السن ۃ کا عقید ہ ہے کہ‬
‫الل ہ سبحان ہ حق ہے اپنی مخلوقات پر قیوم ہے اور اس ن ے اس کائنات کو پید ا کیا اور اس ے ایسی ذات‬
‫بنایا جس کا اس کی اپنی ذات س ے کوئی تعلق نہیں اوری ہ کہ وہ حقیقی وجود رکھتی ہے محض تصور یا‬
‫وہ م نہیں اور ا س دنیاوی زندگی ک ے بعد معدوم ہوجائ ے گی اور اس کاوجود خالق معبود س ے الگ اور‬

‫‪37‬‬
‫لیکن صوفیاءکا یہ نظریہ ابن عربی کے نظریہ وحدت والوجود سے‬
‫الگ تھا وہہ وحدت الوجود کےہ متعلق کہتا کہہ حقیقی وجود اللہ‬
‫سبحانہہ کاہی ہےہ لیکن ہم اپنی آنکھوں کےہ سامنےہ بہت سی‬
‫اشیاءقائم دیکھتےہ ہیں ان کاانکار ممکن نہیں اسی لئےہ یہہ تمام‬
‫ﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲ عما یقول‬
‫موجودات اللہہ کےہ ذات کےہ سوا نہیں ہیں (تعالی ا‬
‫الظالمون علوا کبیرا(یعنی )الل ہ ظالموں کےہ ان اقوال س ے بہت‬
‫بلند وبال ہے)اور اسی کے مظاہر وتجلیات کا مظہر وتجلی ہے اس‬
‫کی آیا ت میں س ے کوئی آیت نہیں جیسا ک ہ اہ ل السن ۃ کہت ے ہیں‬
‫تواس طرح رب کی حقیقت یہ ہوئی کہ وہ وجود مطلق ہے نہ اس‬
‫کانام ہے ن ہ ہ ی صفت ن ہ ہ ی آخرت میں اس ے دیکھاجائ ے گا ن ہ اس‬
‫کا کلم ہے نہ علم ہے نہ اس کے سوا کچھ ہے لیکن وہ کائنات میں‬
‫دیکھا جاسکتا ہے‪85‬۔‬

‫توہ ر وجود الل ہ ہے اور الل ہ ہ ی ہ ر وجود ہے بس اس ن ے کائنات کو‬


‫خالق معبود سے ملدیا اور توحید کا بینڈ بجادیایہ تو عیسائیوں کے‬
‫شرک س ے بہ ت ہ ی بڑا شرک ہوا کیونک ہ اس بیمار تصور کی رو‬
‫س ے ہ ر ایک معبود ہے جس کی پوجا ہوتی ہے ۔مؤرخ ابن خلدون‬
‫ابن عربی کے نظریہ کی شرح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ‬
‫یہہ باطل تصورات عام طور پر پوشیدہہ اور ایک دوسرےہ سے‬
‫متناقض ہوتےہ ہیں یہاں تک کہہ اپنےہ حاملین کےہ لئےہ بھی چنانچہ‬
‫فرماتےہ ہیں ‪”:‬اس وحدت سےہ ان کی مراد ہےہ کہہ ہ ر وجود کی‬
‫ذاتی قوتیں ہوتی ہیں حیوانی قوت میں معدنی قوت ہےہ مزید‬
‫بھ ی اور انسانی قوت میں حیوان کی قوت ہےہ مزید بھ ی اور‬
‫فلکیات سےہ انسانیت کو متضمن ہیں مزید بھ ی اور ایسےہ ہی‬
‫روحانی ذوات (فرشتے)پھ ر قوت جامع ہ و ہ ہے جو تمام موجودات‬
‫میں بکھری پڑی ہے تو سب ایک ہی ہوئے یعنی ذات الٰہیہ ہی‪86‬۔‬

‫اور جب یہہ سوال پیدا ہوا کہہ وحدت الوجود کا نظریہہ کیونکر‬
‫درست ہوسکتا ہے جبک ہ خالق اور مخلوق ‪،‬مومن اور کفار سب‬
‫ہیں اور کفار کو جہنم میں عذاب ہوگا تو عذاب کون د ے گا ؟تو‬
‫ابن عربی ن ے قرآن کریم کی آیت میں تحریف شروع کردی اور‬
‫ہر آیت میں ایسا کفر اور باطنیت داخل کردی تاکہ یہ سوال ہی نہ‬
‫پیدا ہوچنانچہ اپنی کتاب ”فصوص الحکم “میں کہا کہ ‪”:‬موسیٰ‬
‫مستقل ہے)‬

‫‪( 85‬تنبیہ الغبی از بقاعی‪ 40/19:‬نیز الیمان الوسط از ابن تیمیۃ‪ 132:‬نیز قطر الولی از شوکانی‪)190:‬‬
‫‪( 86‬مقدمۃ ابن خلدون‪)471:‬‬

‫‪38‬‬
‫ن ے ہارون کو اس لئ ے ڈانٹا کہ انہوں ن ے بنی اسرائیل کو بچھڑے‬
‫کی عبادت سے منع کردیاتھااورانہوں نے (بچھڑے کی عبادت کرکے‬
‫گویا )اللہ ہی کی عبادت کی تھی اسی لئے اللہ نے فیصلہ فرمادیاکہ‬
‫ہم اس کےہ سوا کسی کی عبادت نہیں کرتےہ اس اعتبار سے‬
‫موسیٰ ہارون سے زیادہ عالم تھے ‪87‬۔‬

‫اور وہہ ہوا جو قوم عاد کی تباہی کا ذریعہہ بنی وہہ راحت سے‬
‫مشتق ہے ۔(عربی کو ہوا میں ریح کہتے ہیں ریح اور راحت دونوں‬
‫کا ماد ہ روح ہے راح ۃ مصدر ہے اور ریح مشتق)کیونک ہ اس ن ے ان‬
‫ک ے اندھیرجسموں کو راحت د ے دی اور اس ہوا میں عذاب تھا‬
‫عقابہ عذوبہ (چاشنی)سے مشتق ہے ‪88‬۔‬

‫ابن عربی نے فرعون کو مومن قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ اللہ نے‬
‫فرمایا قرۃ عین لی ولک (یعنی)فرعون کی بیوی آسیہ نے موسیٰ‬
‫کو صندوق سےہ نکالتےہ ہوئےہ کہاکہ)میری اور تیری آنکھوں کی‬
‫ٹھنڈ ک بنے اس ایمان کی بدولت جو الل ہ نے اس ے غرق ہوت ے وقت‬
‫دیا‪89‬۔‬

‫(یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کچھ لوگ ابن عربی کے کلم کی تاویل‬


‫کرتےہ ہیں اور کہتےہ ہیں کہہ اس کا یہہ مقصد نہیں اور یہہ مقصد‬
‫ہے‪....‬یہہ بات درست نہیں عراقی فرماتےہ ہیں ‪:‬جو اس طرح کے‬
‫قبیح اقوال پر جری ہو اس کا یہ عذر قابل قبول نہیں کہ وہ کہے کہ‬
‫میرا مقصد یہ تھ ا یہ ظاہ ر ک ے خلف ہے اس ک ے کلم کی تاویل نہ‬
‫کی جائے نہ کرامت سمجھاجائے)‬

‫ابن عربی نےہ دیگر انبیاءکےہ واقعات میں اسی طرح کی‬
‫کارستانیاں کی ہیں جو چاہے اس کی کتابیں پڑھ لے ہر سطر سے‬
‫عقیدہہ وحدت والوجود کی بو آئےہ گی اس کا یہہ سارا کلم‬
‫درحقیقت دین کی بنیاد ڈھادینے کی سعی ہے اللہ نے کفار کے لئے‬
‫جو وعیدیں بیان کی ہیں و ہ اس دنیا ک ے لئ ے نہیں بلک ہ آخرت کے‬
‫لئے ہیں چنانچہ ابن عربی اور اس کے شاگرد شعائر اسلمی نماز‬
‫قربانی اور پیوند لگےہ لباسوں اور زندیقیت کی آرائشوں کے‬
‫پیچھے صوفیت کے نام پر چھپے رہے ‪90‬۔‬

‫‪( 87‬یعنی ابن عربی کے نزدیک موسی ٰ بھی وحدت الوجود کے قائل تھے ۔نعوذ باللہ من ذلک ۔تنبیہ الغبی‬
‫از بقاعی‪120:‬بحوالہ فصوص الحکم‪،‬فصل‪)192:‬‬
‫‪( 88‬ایضاً‪95:‬بحوالہ فصوص فصل نمبر ‪)109‬‬
‫‪( 89‬ایضاً‪)128:‬‬
‫‪( 90‬تنبیۃ الغبی الی تکفیر ابن عربی از شیخ برھان الدین البقاعی)‬

‫‪39‬‬
‫فلسفہہ ابن عربی کی طرح وحدت الوجود کےہ قائل نہیں لیکن‬
‫انہوں نےہ اس باطل نظریےہ کےہ لئےہ راہہ ضرور ہموار کی ہےہ اللہ‬
‫تعالیٰ کے متعلق بل علم باتیں کہہ کر اور اسے اپنی خیالی صفات‬
‫سے متصف کرکے اس گمراہی کی وجہ انکا آسمانی شریعت سے‬
‫اعراض اور انبیاءک ے نور ہدایت س ے دوری ہے اسی لئ ے انہوں نے‬
‫معبود کو ایسی بسیط ذات خیال کیا جو ترکیب کے ہر شائبے اور‬
‫صفات سے مکمل پاک ہو جیسے ‪،‬قدیر ‪،‬سمیع ‪،‬بصیریہ صفات ان‬
‫کےہ نزدیک مرکب ہیں انہوں نےہ کہا کہہ اس کی حقیقی صفت‬
‫”وجود “ہے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ کیا وجود؟تو جواب آتا‬
‫کہ کسی شئے کا نہیں گویا ایسا وجود جس کی کوئی صفت نہیں‬
‫تو اس اللہ سبحانہ کا وجود ایسا نہیں جسے ہم مسلمان جانتے ہیں‬
‫اور جس ن ے رسول مبعوث کئ ے اور کتابیں نازل کیں ‪،‬درحقیقت‬
‫ان ک ے نزدیک وجود وہ ی الل ہ ہے جس ے ہ م مسلمان مانت ے ہیں اور‬
‫جس نےہ رسول بھیجےہ اورکتابیں نازل کیں‪،‬وہہ ان کےہ نزدیک ہر‬
‫صفت سےہ عاری وجودہےہ فطرتا ً یہہ ان کےہ ذہنوں کےہ باطل‬
‫تصورات ہیں حقیقت نہیں چونکہہ صفت وجود ان ک ے نزدیک اللہ‬
‫کی خاص ترین صفت ہے تو ان کی عقلوں میں ی ہ بات بیٹ ھ گئی‬
‫کہہ ہ ر وجود اللہہ کی وجود کی طرح واجب ہےہ اور چونکہہ عالم‬
‫موجود ہے تو وہ اللہ ہے ۔تعالیٰ اللہ عن قولھم علوا کبیرا(یعنی)اللہ‬
‫ان کے قول سے بڑا ہی بلند ہے‪ 91‬۔‬

‫فلسفہہ کی اسی طرح کی باتیں ابن عربی کےہ نظریہہ وحدت‬


‫الوجود کا سبب بنیں اگرچ ہ اس کانظری ہ فلسف ہ ک ے نظری ے سے‬
‫زیادہہ برا ہےہ خاص طور پر جب قرآنی آیات زبردستی اس کے‬
‫نظری ے پر فٹ کی جائیں اور جب بہ ت س ے نادان مسلمان اسے‬
‫”شیخ اکبر“سمجھتے ہوئے اس کی تعظیم کرتے ہوں۔‬

‫کچھہ اور بھ ی فطری سہار ے ہیں جنہوں ن ے ان لوگوں کو اسلم‬


‫اور عقید ہ توحید ک ے سب س ے بڑ ے مخالف ومنافی نظری ہ وحدت‬
‫الوجود تک پہنچایا انہ ی میں س ے ایک فناءکا نظری ہ بھ ی ہے جس‬
‫کے متعلق ہم گذشتہ بحث میں گفتگو کرآئے ہیں جس طرح جہمیہ‬
‫ن ے الل ہ کی صفات کا انکار کیا اور مسلمانوں پر ا س ک ے اثرات‬
‫مرتب ہوئےہ اسی طرح ممکن ہےہ کہہ نظریہہ فناءنےہ عقیدہہ وحدت‬
‫الوجود کو سہارا دیاہ و مثل ً الل ہ تعالی ٰ ک ے علو کی نفی س ے لزم‬
‫آتا ہے کہ وہ ہر جگ ہ ہے۔اسی طرح انہوں نے اللہ کواس کی کائنات‬
‫‪( 91‬تنبیۃ الغبی از البقاعی)‬

‫‪40‬‬
‫کےہ تمام حصوں بخروں میں تقسیم کردیا اس کےہ باوجود بھی‬
‫فلسفہہ کا شفاف اسلمی عقیدہہ کوبگاڑنےہ بلکہہ تمام انسانی‬
‫معاشروں کو بگاڑن ے میں اہ م کردار رہ ا ہے کیونک ہ اس کی بنیاد‬
‫صرف ایس ے تصورات پر ہوتی ہے جو ذہ ن میں تو ہوت ے ہیں ذہن‬
‫سے باہر حقیقت کی دنیا میں نہیں اسی لئے ایک عظیم عالم دین‬
‫ابن تیمیہ اس کی گہرائی میں جاکر واپس آنےہ کےہ بعد فرماتے‬
‫ہیں کہہ ‪:‬بےہ شک جو آفاقی شرائع سےہ جس قدر قریب ہوگا وہ‬
‫عقل اور حقیقت کی معرفت س ے بھی اسی قدر قریب ہوگا۔کیا‬
‫آپ نےہ مشاہدہہ کیا کہہ کسی فلسفی نےہ کسی علقےہ کی‬
‫خیرخواہی کی ہو‪92‬۔‬

‫(ابن تیمیہ کا مقصد ی ہ ہے ک ہ فلسفی حقیقت دور نظریات اور‬


‫انسانی حقیقت سے الگ زندگی گزارتا ہے ان کی مشکل یہ ہے کہ‬
‫و ہ معاملت کو اس طرح سلجھان ے کی کوشش کرت ے ہیں جس‬
‫کی و ہ قدرت نہیں رکھت ے جبک ہ انبیاءورسل انہ ی معاملت کوبڑی‬
‫آسانی سے حل کردیتے ہیں)‬

‫ابن تیمیہ نےہ یہاں ایک مغربی مفکر ڈاکٹر ایلکس کارل سے‬
‫ملقات کی جس کاخیال تھ ا ک ہ فلسف ے ن ے مغربی معاشر ے میں‬
‫تباہی مچائی ہے کہ جس معاشرے میں صرف کتابیں پڑھائی جاتی‬
‫ہیں حقیقت پر غور نہیں کیا جاتا وہہ کہتا ہےہ ‪:‬فلسفی کا فلسفہ‬
‫تمام لوگوں کےہ لئےہ قابل قبول نہیں ہوسکتا فلسفی کےہ تمام‬
‫دلئل فرضی ہوتے ہیں ‪93‬۔‬

‫فلسفہ پر تنقید جاری رکھتے ہوئے مزیدکہتا ہے ‪:‬ہماری انفرادی اور‬


‫اجتماعی زندگی کوکامیاب علم کرسکتا ہے لیکن ہم نے فلسفیانہ‬
‫افکار ک ے نتائج کو ترجیح د ے دی اور اس بات کو پسند کیا کہ ہم‬
‫حقائق س ے خالی تصورات ک ے بیچ سڑت ے رہیں ‪،‬یقینا اس دورکے‬
‫فلسفہ ہی ہیں جنہوں نے آزاد بندگی کو امریکا ویورپ میں اندھی‬
‫صورت میں پیش کیا ‪94‬۔‬

‫گویا ہر دور میں یہی مشکل رہی ہے جب لوگ ان آسمانی شرائع‬


‫س ے دور ہوجات ے ہیں جو دنیا وآخرت میں انسان کی بھلئی کی‬
‫ضامن ہیں تو ان کےہ سامنےہ ازم پر ازم آتےہ ہیں اجتماعی ‪،‬‬
‫سیاسی اور اقتصادی ازم جو نتیجہ ہوتے ہیں انسان کی اپنے خالق‬
‫‪( 92‬درءتعارض العقل والنقل‪)65/5:‬‬
‫‪( 93‬تاملت فی سلوک النسان‪)47/1:‬‬
‫‪( 94‬تاملت فی سلوک النسان‪)7/1:‬‬

‫‪41‬‬
‫کی طرف فطری توج ہ اور انسانی شیطانوں پر شیطانی وحی‬
‫کے درمیان ناپسندیدہ انقطاع کا اور ظاہر ہے کہ انسان کے لئے راہ‬
‫اعتدال پر گامزن رہنا مشکل ہوجاتاو ہ یا تو تشدد وغلو یا تساہل‬
‫ونرمی اور ذم ہ داریوں س ے فرار چاہن ے لگتا ہے پھ ر شیطان بھی‬
‫ایسےہ شخص کےہ سامنےہ خود کو عقل کل سمجھتا ہ و بڑےہ گل‬
‫کھلتا ہے ک ہ اگر و ہ عام لوگوں اور عام طریق ے ک ے مطابق اپنے‬
‫علم ومذہ ب پر قانع رہ ا تو اس ن ے کیاکیا؟لہٰذا ضروری ہے ک ہ نئے‬
‫نئ ے کارنامے سرانجام دی ے جائیں اور عجیب وغریب اورانوکھا پن‬
‫اختیارکیا جائے یہ پوشیدہ خواہشات ہوتی ہیں جن کاادراک اور جن‬
‫سے دور صرف علماءربانیین ہی رہ پاتے ہیں (یا پھر وہ حقائق کی‬
‫دنیا کا باشندہ بن جاتا ہے)‬

‫اس بحث ک ے اختتام س ے قبل مناسب ہوگا ک ہ ہ م ابن عربی اور‬


‫اس کےہ تلمذہہ کےہ متعلق بعض علماءکی آراءنقل کردیں یعنی‬
‫اس کی وجودی فکر کے اعتبار سے ۔شیخ ابومحمد بن عبدالسلم‬
‫ابن عربی ک ے متعلق کہت ے ہیں‪:‬و ہ برا شیخ قبیح اور کذاب ہے وہ‬
‫عالم کو قدیم کہتا تھااور شرم گا ہ کو حرام ن ہ کہتا تھا(یعنی ماں‬
‫بہنیں وغیرہ محرمات حلل ہیں)‪95‬۔‬

‫ابن تیمیہ شیخ ابراہیم الجعیری سےہ نقل کرتےہ ہیں کہہ ‪:‬میں نے‬
‫ابن عربی کو دیکھ ا و ہ ناپاک شیخ ہے الل ہ کی نازل کرد ہ ہ ر کتاب‬
‫اور اس کے بھیجے ہوئے ہر نبی کو جھوٹا کہتا ہے‪96‬۔‬

‫ابن تیمیہ فرماتےہ ہیں ‪:‬میں نےہ اس کی کتاب الفتوحات المکیہ‬


‫میں اس کے اپنے ہاتھ سے لکھے یہ دوشعر پڑھے ‪:‬‬

‫الرب حق والعبد حق یالیت شعری من المکلف؟‬


‫َ‬
‫او قلت رب ا ّی یکلف‬ ‫ان قلت عبد فذاک رب‬
‫ترجمہ‪:‬رب حق ہےہ اور بندہہ بھی حق ہےہ آخر پھر مکلف کون‬
‫ہے؟اگر میں کہوں کہ بندہ ہے تو وہ رب ہے یا میں کہوں کہ رب ہے‬
‫تو رب کیسے مکلف ہوسکتا ہے‪97‬۔‬

‫بقاعی ابن عربی کے حامیوں کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں ‪:‬‬

‫‪( 95‬فتاوی ابن تیميۃ‪)240/2:‬‬


‫‪( 96‬ایضاً)‬
‫‪( 97‬ایضاً)‬

‫‪42‬‬
‫اصولی کہت ے ہیں ‪:‬اگر کوئی ایسا کلم ہ کہے جس س ے ارتداد لزم‬
‫آتا ہواور یہ گمان رکھے کہ وہ توریہ (یعنی دل سے اس کے برعکس‬
‫سوچ رکھنا)کررہا ہے تو وہ ظاہرا ً اور باطنا ً کافر ہے‪98‬۔‬

‫ابن عربی ک ے شاگردوں میں ابن فارض ہے جو پوری ڈھٹائی اور‬


‫یقین سےہ عقیدہہ وحدت الوجود کا قائل وفاعل تھااپنےہ مشہور‬
‫قصیدے التائیہ میں اسی فکر کو بار بار لتا ہے تاکہ قاری یا سامع‬
‫کو شک نہ رہے ۔مثل ً کہتا ہے‪:‬‬

‫واشھد انھا لی صلت‬ ‫لھا صلتی بالمقام اقیمھا‬


‫حقیقتۃ الجمع فی کل‬ ‫کلنا مصل عابد ساجد الی‬
‫سجدة‬
‫صلتی لغیری فی‬ ‫وماکان صلی سوای فلم نکن‬
‫اذاءکل رکعۃ‬
‫ول فرق بل ذاتی لذاتی‬ ‫وما زلت ایاھا وایای لم تزل‬
‫احبت‬

‫ترجمہ‪”:‬جس مقام پر میں فائز ہوں اس پر فائز رہتےہ ہوئےہ یہ‬


‫گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اس کے (اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ۔‬
‫نعوذ باﷲ من ذلک)لئے نماز پڑھی اور اس نے میرے لئے ہم دونوں‬
‫ہی نماز پڑھتے ہیں عبادت کرتے ہیں ہر سجدہ کرتے ہیں ایک متحد‬
‫حقیقت کو اس نےہ میرےہ سوا نماز نہہ پڑھی تو ہر رکعت کی‬
‫ادائیگی میں میری نماز میر ے علو ہ کسی ک ے لئ ے نہ تھ ی میں وہ‬
‫رہا وہ میں رہا کوئی فرق نہیں بلکہ میری ذات میری ہی ذات سے‬
‫محبت کرتی ہے“ (نعوذ باﷲہ العلی العظیم من ھذا الشیطان‬
‫الرجیم)۔‬

‫کیا اس کےہ بعد وضاحت کی ضرورت ہے؟وہہ اپنےہ ہ ی لئےہ نماز‬


‫پڑھےہ کہہ اس کی ذات ہ ی تو اللہہ ہےہ اللہہ کی پناہہ اور کوئی یہہ نہ‬
‫سمجھے ک ہ ی ہ عالم مستی میں تھ ا و ہ اس بات کی تاکید کرتا ہے‬
‫کہ وہ حالت بیداری اور ہوش وحواس میں تھا‪:‬‬

‫وذاتی بذاتی اذا‬ ‫ففی الصحو بعد المحو لم اک غیرھا‬


‫تحلت تجلت‬

‫‪( 98‬تنبیہ الغبی‪)23:‬‬

‫‪43‬‬
‫ترجمہ‪”:‬فنا ہونےہ کےہ بعد ہوش میں آکر بھ ی میں اس سےہ الگ‬
‫نہیں اور میری ذات جب میری ہ ی ذات میں حلول کرتی ہے تو‬
‫آشکار ہوجاتی ہے“۔‬

‫آج تک صوفیاءاس قصید ے کو پسند کرت ے ہیں اور اس ک ے مؤلف‬


‫کو سلطان العاشقین کہت ے ہیں حالنک ہ اس میں کفر ہے اس کے‬
‫باوجود بھی وہ کہتے ہیں کہ وہ حسن کا شیدائی تھا اوربہنسا نامی‬
‫علق ے میں جاکر دف کی تھال پر عورتوں ک ے سات ھ رقص کرتا‬
‫تھ ا ی ہ لوگوں کو ایس ے ہ ی فریب دیت ے ہیں اورکہت ے ہیں کہہ رقص‬
‫بھی دین ہےہ حقیقتا ً یہہ ماضی کےہ وہہ پہلو ہیں جن سےہ ہر پکا‬
‫مسلمان شرمندگی محسوس کرتا ہے مسلمانوں ک ے لئ ے یہ المیہ‬
‫ہے کہ ان صوفیہ میں وہ لوگ داخل ہوگئے جنہوں نے ان میں ایسے‬
‫وہم پیدا کئے جو جاہل پر حاوی رہے اور عقل مند کو الجھاتے رہے‬
‫وجہہ یہہ تھ ی کہہ صوفیاءنےہ اہ ل السنۃہ اور صحابہہ اور تابعین کے‬
‫منہج کو تھامانہیں ۔‬

‫دوسرا باب‬

‫صوفیاءکی بدعات‬
‫پہلی فصل ‪:‬علمی بدعات‬
‫تمہید‪:‬صوفیاءعلمی اور عملی دونوں طرح کی بدعات کے‬
‫مرتکب رہے ہیں عملی بدعات س ے ان ک ے و ہ نظریات مراد ہیں‬
‫جو انہوں نے اسلمی عقیدے میں بدعات نکالیں اور عملی بدعات‬
‫سےہ ان کےہ وہہ طور طریقےہ اور راہیں جو انہوںنےہ صحیح منہج‬
‫اسلمی میں بدعات کیں۔‬

‫چونکہ عمل علم کے تابع ہے اور ہم علمی بدعات سے متعلق کلم‬


‫کرچکےہ ہیں تو جو علم میں انحراف کرےہ اور بدعت اپنائےہ وہ‬
‫عمل میں بھی انحراف کرتا ہے اس سب کی وجہ استدلل ونظر‬
‫میں منہج اہل السنۃہ والجماعۃہ سےہ دوری ہےہ اس انحراف کو‬

‫‪44‬‬
‫بدعت کہنے سے اس کے خطرے میں کمی واقع نہیں ہوگی بدعات‬
‫صغیرہ بھی ہوتی ہے اور کبیرہ بھی جو کفر تک لے جاتی ہے تو جو‬
‫وحدت ادیان کا معتقدہوا اور ی ہ عقیدہہ رکھےہ ک ہ قطب اور غوث‬
‫کائنات میں تصرف کرت ے ہیں و ہ کافر ومشرک ہے اصل مصیبت‬
‫رسول اللہ اور خیرالقرون کی عدم متابعت اور اس سے بڑھ کر‬
‫کچھ کرنے کی کوشش ہے خواہ اچھی نیت سے ہو یا بری نیت سے‬
‫۔‬

‫بدعت حسنہہ اور بدعت سیئہہ کی تقسیم ناقابل قبول ہےہ کیونکہ‬
‫بدعت ہمیشہ سیئہ ہی ہوتی ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے نبی نے‬
‫فرمایا‪:‬کل بدع ۃ ضلل ۃ یعنی” ہر“ بدعت گمراہ ی ہے ۔بدعت اپنی‬
‫ل جس کا اردو ترجمہ‬ ‫اس صفت (یعنی عربی میں لفظ ک ُ ّ‬
‫”ہر“ہے)ک ے اعتبار س ے ایک خاص تعریف کی محتاج بن جاتی ہے‬
‫اور ہ م اس تعریف کو اختیار کریں گ ے جو ک ہ امام شاطبی کی‬
‫کتاب العتصام میں ہےہ فرماتےہ ہیں ‪”:‬وہہ طریقہہ جو دین میں‬
‫اختراع ہ و ‪،‬شریعت س ے ملتا جلتا ہواس پر عمل کرن ے کا مقصد‬
‫اللہ سبحانہ کی عبادت میں مبالغہ ہو “‪99‬۔‬

‫یعنی ”طریق ہ جو دین میں ہون ہ ک ہ دنیا میں سو اگر کوئی کہے کہ‬
‫تم آلت کو بدعت کیوں نہیں کہتےہ توہم کہیں گےہ کہہ یہہ دنیاوی‬
‫طریقہ ہیں نہ کہ دینی طریقہ ۔وہ طریقہ جو دین میں اختراع (ایجاد‬
‫کردہہ )ہ و اس سےہ پہلےہ اس کی مثل معروف ہ و لیکن اس کی‬
‫کوئی اصل (بنیاد)نہہ ہو۔جبکہہ وہہ علوم جو بعد میں ایجاد ہوئے‬
‫جیس ے علم نحو اور اصول فق ہ وغیر ہ تو ان کی اصل موجود ہے‬
‫یعنی حفظ دین اور یہہ علوم مصالح مرسلہہ کی قبیل سےہ ہیں‬
‫حقیقت بھی یہی ہے ایسا کچھ نہیں ہوتا جو بدعتی کی بدعت سے‬
‫مشابہ ہو کیونکہ ضرر محض سے تو لوگ خود ہی بھاگتے ہیں لیکن‬
‫جو پہلے سے موجود کسی شئے سے مشابہ ہو یہی شبہ بدعت کی‬
‫دشواری میں واقع کرتا ہےہ ۔ممکن ہے ک ہ صوفیاءکےہ خلف علم‬
‫بدعت ایک مستقل حیثیت اختیار کرلےہ کیونکہہ ان کی بہ ت سی‬
‫عملی بدعات مشہور ہیں علوہہ ازیں ہر فرقہہ دین میںایسی‬
‫بدعات نکالتا ہے جن کا اللہ نے حکم نہیں دیا ہوتا۔‬

‫پہلی بحث ‪:‬شریعت وحقیقت یا شریعت‬


‫وطریقت‬
‫‪( 99‬العتصام‪)271/1:‬‬

‫‪45‬‬
‫ان اصطلحات کو صوفیاءباربار دہراتےہ ہیں اور انہیں اپنی دیگر‬
‫اصطلحات ظاہر وباطن سے لحق کردیتے ہیں اس بحث میں ہم‬
‫ان اصطلحات کےہ معانی اور ان کےہ باہمی تعلقات کو اجاگر‬
‫کریں گ ے ۔شریعت ان کی نگاہ میں عملی اور تکلیفی احکام کے‬
‫مجموعےہ کا نام ہےہ جسےہ فقہہ اسلمی کہتےہ ہیں اور حقیقت‬
‫(طریقت)ان احکام سے ورے اسرار ورموز کا نام ہے ‪،‬فقہاءلوگوں‬
‫کو نماز کےہ ارکان اور سنتیں سکھاتےہ ہیں جبکہہ صوفیاءدل کے‬
‫افعال جیسےہ محبت وخشیت کا اہتمام کرتےہ ہیں یہہ معتدل‬
‫صوفیاءکی رائےہ ہےہ غالی صوفیاءکہتےہ ہیں کہہ ‪:‬یہہ احکام عام‬
‫مسلمانوں کےہ لئےہ ہیں جن کی عقلیں اور دل معانی علویہہ کا‬
‫ادراک چندمخصوص شعائر اور اشکال کی پابندی ک ے بغیر نہیں‬
‫کرسکت ے جیس ے نماز پانچ مرتب ہ ایک خاص شکل اور ترتیب سے‬
‫پڑھی جاتی ہے یہ ایسے ہی ہے جسے کچھ اساتذہ اپنے طلباءپر کچھ‬
‫درسی ذم ہ داریاں عائد کرت ے ہیں کیونک ہ و ہ جانت ے ہیں ک ہ ان کے‬
‫طلباءایسےہ کئےہ بغیر ان سےہ علمی استفادہہ نہیں کرسکیں گے‬
‫مقصد علم ہوتا ہےہ تواگر کچھہ خواص شرائع کےہ بنیادی مقصد‬
‫یعنی (حقیقت وطریقت)کا ادراک رکھتےہ ہوں تومقصد حاصل‬
‫ہورہ ا ہےہ انہیں نماز کی پابندی کی ضرورت نہیں نماز اللہہ سے‬
‫تعلق کا ذریعہہ ہےہ اگر یہہ تعلق ہمیشہہ برقرار رہتا ہوتو نماز کی‬
‫ضرورت صرف شرعی احکامات کےہ احترام کےہ اعتبار سےہ رہ‬
‫جاتی ہےہ ا س کا کوئی فائدہہ حاصل نہیں ہوتا ۔بلکہہ بعض‬
‫صوفیاءنے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حقیقت کا ادراک رکھنے والے سے‬
‫تمام شرعی ذمہ داریاں ساقط ہوجاتی ہیں ۔‬

‫شریعت وطریقت میں فرق ہ ی اس انحراف کی ابتداءہےہ جبکہ‬


‫اہل السنۃ کے نزدیک شریعت ہی حقیقت وطریقت ہے نماز اگرچہ‬
‫مخصوص حرکات کانام ہے لیکن خشیت وانابت کا بھ ی ذریع ہ ہے‬
‫ایس ے دیگر تمام احکامات شرعی ہ ہیں جبک ہ انہیں مکمل طور پر‬
‫اس طرح ادا کیا جائے جیسا اللہ چاہتاہے۔‬

‫اس چیز نےہ صوفیاءکو ایک دوسری اصطلح ظاہ ر اورباطن پر‬
‫شیر کردیا صوفیاءنے دعوی کیا کہ قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک‬
‫باطن ہے ظاہر وہ ہے جو ا س کے الفاظ سے فہم عربی اور سیاق‬
‫وسباق اور دیگر تفسیری اصول کے مطابق لیاجائے اس کا اہتمام‬
‫علماءظاہ ر کرت ے ہیں جنہیں صوفیاءبطور تحقیر ”رسمی علماء“‬
‫کہت ے ہیں باطن ان الفاظ ک ے پیچھے مخفی علم ہے حقیقی مراد‬
‫وہ ی ہے ان پر صرف بلند مقام وال ے خواص ہ ی مطلع ہوت ے ہیں‬

‫‪46‬‬
‫جنہیں صوفیاء(اشارات یعنی باطنیات )کہتےہ ہیں یہہ فقہاءدین پر‬
‫تنقید کرتے ہیں کہ وہ اعمال قلوب کا اہتمام نہیں کرتے ۔‬

‫جب ان میں سے کسی سے زکاۃ کا نصاب پوچھاجائے توکہتا ہے کہ‬


‫عوام ک ے لئ ے چالیسواں حص ہ ہے اور ہ م پر ساراخرچ کرنا فرض‬
‫ہےہ اور جب علماءشریعت کےہ مابین کسی مسئلےہ میں اختلف‬
‫ہوجائےہ اور وہہ حل نہہ ہ و تو اہ ل تصوف کےہ علماءباطن کا قول‬
‫معتبر ہوتا ہے ‪100‬۔‬

‫فرمان باری تعالیٰہ ‪:‬ولکن ل تفقھون تسبیحھم (یعنی )تم ان‬


‫کی(غیر انسانی وجنی مخلوقات) تسبیح نہیں سمجھہ پاتےہ ۔کے‬
‫بارےہ میں غزالی کہتا ہےہ اس فن میں علماءظاہ ر وعلماءباطن‬
‫باہم مختلف ہیں‪101‬۔‬

‫درحقیقت یہہ فرق غیر صحیح بلکہہ باطل اور قبیح ہےہ اسلم کے‬
‫کسی بھی طرح حصے بخرے کرنا اور اسے اجزاءمیں تقسیم کرنا‬
‫قرآن ک ے حص ے بخر ے کردینا ہے اسلم سارا کا سارا ایک جسم‬
‫کی مانند ہے جیسا کہ صحابہ نے الل ہ ک ے رسول سے اخذکیا کچھ‬
‫اعضاءکے اعمال ہیں تو کچ ھ دل کے جن کا تعلق ایمان کی کمی‬
‫وزیادتی سےہ ہےہ یہہ ایمان پہاڑ کی طرح بن جاتا ہےہ اور کبھی‬
‫حقیقتاًاور کمزور دانےہ کی طرح لیکن نام اس کا شریعت یا‬
‫اسلم یا دین ہی رہتا ہے ہر وہ تقسیم جو دین میں تضاد وتغایر کا‬
‫احساس دلئے جیسے کچھ لوگ عقل اور نقل میں فرق کرتے ہیں‬
‫گویا نقل عقل ک ے منافی ہ و یا علم اور دین میں فرق کرت ے ہیں‬
‫گویا علم دین کے منافی ہو تویہ دشمنان دین کے سامنے کمزوری‬
‫کا اظہار اور ان کا راستہہ صاف کرنےہ کےہ مترادف ہوگا (یہہ بھی‬
‫اس وقت جب ہ م ایس ے فرق کرن ے والوں ک ے متعلق حسن ظن‬
‫رکھیں)۔‬

‫ابن جوزی اس تقسیم پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں ‪:‬یہ تقسیم‬
‫انتہائی قبیح ہےہ کیونکہہ شریعت کو حق سبحانہہ نےہ خلقت کی‬
‫مصلحت ک ے لئ ے وضع کیا ہے اس حقیقت کے سوا جو کچ ھ ہے وہ‬
‫شیطانی وساوس ہیں اور صوفیاءکا فقہاءسےہ بغض رکھنا بہت‬
‫بڑی زندیقیت ہے‪102‬۔‬

‫‪( 100‬حاضر العالم السلمی از شیکب ارسلن‪ 160/2:‬بحوالہ احمد شریف السنوسی)‬
‫‪( 101‬التصوف از زکی مبارک‪)52/2:‬‬
‫‪( 102‬تلبیس ابلیس‪)337:‬‬

‫‪47‬‬
‫ظاہ ر اورباطن ک ے مابین اسی فرق ن ے ہ ی انہیں قرآنی آیات کی‬
‫تحریف وتاویل شنیع پر آمادہ کیا اور اس تاویل مذموم نے ہی ہر‬
‫باطنی فرقے کو آمادہ کیا کہ وہ اللہ کی کتاب سے اپنی خواہش کے‬
‫مطابق دلئل ڈھونڈھےہ اسی لئےہ اصول تفسیر کےہ نام سےہ اہل‬
‫السن ۃ نے علم تفسیر کو مدون کیا تاکہ معاملہ خطرناک حد تک نہ‬
‫چلجائ ے اس آیت قرآنی ‪:‬فلما جن علیہہ اللیل رای کوکبا قا ھذا‬
‫ربی(یعنی)جب اس (ابراہیم ) پر رات چھائی اس نےہ ایک تارہ‬
‫دیکھ ا کہن ے لگایہ میرا رب ہے۔ک ے بار ے میں صوفیاءکا باطنی طبقہ‬
‫کہتا ہے ‪”:‬انہوں نے یہ حالت عطش (پیاس)میں دیکھا گویا ابراہیم‬
‫اپن ے رب کی ملقات کی شدت پیاس میں جب ستار ہ دیکھت ے تو‬
‫کہتے یہ میرارب ہے کیونکہ پیاسا جب سراب کو دیکھتا ہے تو اسے‬
‫پانی یاد آجاتا ہے “۔‬

‫ابن قیم اس ک ے تعاقب میں فرمات ے ہیں ‪:‬آیت کا قطعا ً ی ہ معنی‬


‫نہیں یہ صوفی لوگ زبانی اشارے دیتے ہیں “‪103‬۔‬

‫اور یہ آیت کہ ‪:‬فاخلع نعلیک(یعنی)اپنی جوتیاں اتار دے کی تفسیر‬


‫میں شیخ عبدالغنی النابلسی جو کہہ متاخرین میں سےہ ہے‬
‫کہتاہے‪:‬یعنی اپنی ظاہری وباطنی صورت یعنی اپنا جسم اور روح‬
‫اتاردے ان کی طرف مت دیکھ کیونکہ وہ تیری جوتیاں ہیں‪104‬۔‬

‫بعض صوفیاءنےہ اس آیت کی تفسیر کی ہےہ کہہ ‪:‬یعنی اپنی دنیا‬


‫وآخرت اتار دے اس کھجور کے پاس ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض‬
‫صوفیاءاس فرق کوغلط قرار دیتے تھے سہل بن عبداللہ تنبیہ کرتے‬
‫ہوئ ے اور نصیحت کرت ے ہوئ ے کہتاہے ک ہ ‪:‬سیاہ ی وسفیدی محفوظ‬
‫کرلویعنی علم کہ جس کسی نے ظاہر کو چھوڑا وہ زندیق ہے‪105‬۔‬

‫اس کے باوجود بھی یہ لوگ اپنے اس عمل سے باز نہ آئے اس آیت‬


‫‪:‬وان یاتوکم اساری (یعنی)”اگر و ہ تمہار ے پاس قیدی بن کرآئیں‬
‫“کےہ بارےہ میں کہتےہ ہیں ‪:‬یعنی گناہوں میں ڈوبےہ ہوئےہ اور آیت‬
‫‪:‬والجارالجنب(یعنی)”اجنبی ہمسایہ“سےہ نفس مراد ہےہ حتی کہ‬
‫خود سہل بن عبداللہہ سےہ مروی ہےہ کہہ اس نےہ ‪:‬ول تقربا ھذہ‬
‫الشجرۃہ (یعنی)”تم دونوں اس درخت کےہ قریب نہہ جانا“ کی‬
‫تفسیر میں کہاکہ‪:‬یہاں کھانا مرادنہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ میرے سوا‬
‫کسی کا قصد نہ کرنا“۔‬
‫‪( 103‬مدارج السالکین‪)61/3:‬‬
‫‪( 104‬شطحات الصوفیۃ‪)195:‬‬
‫‪( 105‬تلبیس ابلیس‪)325:‬‬

‫‪48‬‬
‫شاطبی فرماتےہ ہیں‪:‬اس آیت سےہ متعلق یہہ دعویٰہ لوگوں کے‬
‫علم کے خلف ہے‪106‬۔‬

‫ابوعبدالرحمن السلمی نےہ صوفیاءکےہ لئےہ صوفیت کی طرز پر‬


‫تفسیر لکھی جو دراصل دماغی خلل ہےہ تقریبا ً دوجلدیں ہیں‬
‫کاش اس نے یہ تحریف نہ کی ہوتی‪107‬۔‬

‫اور ان کاشیخ سراج فقہاءدین پر حملے کرتا تھا کیونکہ ان کاعلم‬


‫نفس سے بہت قریب ہے اور وہ تکلیفی امور میں زندگی میں ایک‬
‫آدھ باران کے علوم کے محتاج ہوتے ہیں جبکہ وہ (صوفیاء)ہمیشہ ان‬
‫کے علوم کے محتاج ہوتے ہیں‪108‬۔‬

‫ہ م ی ہ دیکھت ے ہیں ک ہ و ہ ن ہ تو صحاب ہ ک ے کلم میں غور وتدبرکرتے‬


‫ہیں نہ ہی تکلیفی امور میں گفتگو کرتے ہیں جبکہ فہم شریعت کے‬
‫لئ ے فہ م عربیت ضروری ہے کیونک ہ قرآن عربی میں اترا ہے اور‬
‫قرآن کی تفسیر ان معانی سےہ کرنا جو صوفیہہ کےہ دل میں‬
‫خیالت آتےہ ہیں درست نہیں اور اس طرح کی تفسیر سلف‬
‫صالحین س ے منقول نہیں بلک ہ ی ہ باطنیت س ے مشابہہ ہے اور فرق‬
‫اور تفرقہہ کی اصل وجہہ نفس میں آنےہ والےہ خیالت اور عجیب‬
‫وغریب اشیاءہیں ‪109‬۔‬

‫شاعر محمد اقبال ن ے ایک صوفی کا ان اشعار میں خوب تصور‬


‫پیش کیا ہے ‪:‬‬

‫متاع الشیخ لیش ال اساطیر قدیمۃ‬


‫تخمین‬ ‫ظن و‬ ‫کلمہ کلہ‬
‫زناری‬ ‫حتی الن اسلمہ‬
‫وحین صار الحرم دیرا اصبح ھو من براھمتہ‬
‫ترجمہ‪”:‬شیخ (صوفی)کاساز وسامان سوائےہ پرانی کہانیوں کے‬
‫اورکچ ھ نہیں اس کا کلم محض ظن وتخمین ہے اب تک اس کا‬
‫اسلم زناری*‪ 110‬ہے اور جب حرم کسی راہ ب کی کٹیا بن جائے‬
‫تو وہ اس کا برہمن بن جائے گا“‪111‬۔‬
‫‪( 106‬محاسن التاویل از قاسمی‪)73/1:‬‬
‫‪( 107‬التفسیروالمفسرون از محمد حسین ذہبی‪73/1:‬بحوالہ امام ذھبی)‬
‫‪( 108‬اللمع‪)36:‬‬
‫‪( 109‬ملحظہ ہو شیخ خضر حسین کی الموافقات پر تعلیق‪)36:‬‬
‫‪( 110‬زناری اسلم سے مراد ان کا عیسائی رہبان سے متاثر ہونا ہے جو درمیان سے لنگی پہنا کرتے تھے )‬
‫‪( 111‬دیوان ارمغان حجاز‪130:‬بتحقیق سمیر عبدالحمید)‬

‫‪49‬‬
‫دوسری بحث‪:‬حقیقت( طریقت )‬
‫محمدی‬
‫غلو کی وادیوں میں س ے ایک وادی و ہ بھی ہے جس میں صوفی‬
‫واقع ہوئے بلکہ وہ کفر کی وادی ہے یہ رسول الل ہ کے متعلق غلو‬
‫کا اور صوفیاءکا انہیں یونانی فلسفہ سے متاثر ہوکر پہلی مخلوق‬
‫قرار دین ے کا اور اس نصرانیت س ے متاثر ہون ے کا عجیب امتزاج‬
‫ہے جو عیسیٰ کو الٰہی صفات سے متصف کرتی ہے۔‬

‫جس ے و ہ طریقت محمدی کہت ے ہیں دراصل و ہ اندھیرا ہ ی اندھیرا‬


‫ہے کیونکہ اس کی بنیاد بیمار خیال واوہام ہیں جن کا طریقت کی‬
‫تعریف میں ان کے اقوال اور اس کے متعلق ان کی گفتگو یہ بھی‬
‫خفاءکے پردے میں ہیں رسول اللہ پہل وجود اور پہلی مخلوق ہیں‬
‫‪112‬‬
‫اور ایسےہ قطب ہیں جو اول تا آخر تمام افلک کا مدار ہیں‬
‫انہ ی س ے ہ ی سارےہ راز وابستہہ ہیں اور ہ ر شئےہ انہ ی کےہ سہارے‬
‫قائم ہے‪113‬۔‬

‫وہ عین ایمان ہیں ہرانسان کے وجود کا سبب ہیں‪114‬۔‬

‫گویا صوفیاءنےہ بس یہہ نہہ کیا کہہ ‪:‬رسول اللہہ کو قرآن کریم نے‬
‫بشر رسول کہا ہے اور وہ اپنے اقطاب کو الٰہی صفات سے متصف‬
‫کرتےہ ہیں تو رسول اللہ ہ کےہ کیا کہنےہ لہٰذا انہوں نےہ طریقت‬
‫محمدی ہ کی بدعت نکالی اور اس نظری ہ کی بنیاد پر ہ ی بوحیزی‬
‫کہتا ہے‪:‬‬

‫وکل آی اتی الرسل الکرام بھا فانما اتصلت من نورہ بھم‬


‫ترجمہ‪”:‬مرسلین جس قدر نشانیاں لئے وہ ان تک آپ ہی کے نور‬
‫سے پہنچیں“۔‬

‫لولہ لم تخرج الدنیا من‬ ‫وکیف تدعو الی الدنیا ضرورۃ من‬
‫العدم‬

‫‪( 112‬ظہ ر السلم ‪220/4:‬تمام افلک کےہ مدار کو قطب کہت ے ہیں جو اپنی حرکت وسکون میں پائیدار‬
‫ہواور ہر ظاہر و پوشیدہ کو چلرہا ہویہ ہی الوہی حقیقت ہے اور عقل فعال کا نظریہ ہے جو یونانی فلسفے‬
‫سے ماخوذ ہے)‬
‫‪( 113‬ھذہ ھی الصوفیۃ‪ 87:‬بحوالہ مشیش)‬
‫‪( 114‬التصوف از زکی مبارک‪)233/1:‬‬

‫‪50‬‬
‫ترجمہ‪”:‬اس ہستی کی ضرورت دنیا کو کیوں نہ ہو جو اگر نہ ہوتی‬
‫تو دنیا عدم سے وجود میں نہ آتی“۔‬

‫اور ابن نباتہ المصری کہتا ہے‪:‬‬


‫ول زمان ول خلق ول جبل‬ ‫لولہ ماکان ارض ول افق‬
‫ترجمہ‪”:‬و ہ اگر ن ہ ہوت ے توکچ ھ ن ہ ہوتا ن ہ زمین ن ہ آسمان ن ہ زمان نہ‬
‫خلقت نہ پہاڑ“۔‬

‫جبکہہ رسول اللہ اپنی امت پر ہمیشہہ غلو کاخوف کھاتےہ رہے‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫ل تطرونی کما اطرت النصاری عیسی ابن مریم انما انا عبداﷲ‬
‫ورسولہ۔‬
‫مجھے اس قدر ن ہ چڑھاؤ تو جس قدر عیسائیوں ن ے عیسی ٰ ابن‬
‫مریم کو چڑھایا‬
‫درحقیقت میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔‬
‫‪115‬‬

‫لیکن ان لوگوں کاطرز عمل تو غلو سےہ بھی بڑھہ کر شرک‬


‫وگمراہی ہے اگر ایسا نہیں تو پھر شیخ دباغ کے اس قول کہ ‪:‬اگر‬
‫نور محمد کو عرش پر رکھ دیا جائے تووہ زائل ہوجائے ‪116‬۔‬

‫اورابوالعباس مریسی کےہ اس قول کہہ ‪:‬تمام انبیاءرحمت سے‬


‫پیداکیےہ گئےہ اور ہمارےہ نبی عین رحمت ہیں ۔اللہہ نےہ فرمایا‪:‬وما‬
‫ارسلنٰک ال رحمۃ للعالمین(یعنی)ہم نے آپ کو جہاں والوں کے لئے‬
‫رحمت بناکر بھیجاہے۔ان اقوال کی کیا وضاحت کی جاسکتی ہے‬
‫آپ خود ہی اس عجیب دلیل پر غور کرلیں ۔‬

‫ی ہ تو نصرانیت س ے مکمل موافقت ہوئی جب عیسیٰ عیسائیوں‬


‫ک ے لئ ے الل ہ ک ے بیٹ ے ہیں تو پھ ر صوفیاءطریقت محمدی کیوں نہ‬
‫اختیار کریں ی ہ تو ان ک ے نظری ہ وحدت الوجود کا لزمی نتیج ہ ہے‬
‫‪117‬۔‬

‫افسوس یہ ہے کہ ایک مستشرق نکلین جب شخصیت رسول کی‬


‫متکلم کلم کرتا ہے توغالی صوفی ہ اس وقت اپنی اندھیر وادیوں‬
‫میں بھٹکت ے پھ ر رہے تھے جبک ہ و ہ بالکل درست لکھتا ہے ک ہ ‪:‬جب‬
‫ہم محمد کی شخصیت قرآن کی روشنی میں دیکھتے ہیں توہم‬
‫‪( 115‬صحیح البخاری)‬
‫‪( 116‬ھذہ ھی الصوفیۃ‪)87:‬‬
‫‪( 117‬التصوف از زکی مبارک)‬

‫‪51‬‬
‫اس صورت اورصوفیاءکا اپنےہ اولیاءسےہ متعلق تصور کےہ مابین‬
‫بڑا واضح فرق پاتےہ ہیں وہہ یہہ کہہ صوفی بزرگ اور شیعہہ کاامام‬
‫معصوم دونوں الٰہی صفات سےہ متصف کئےہ جاتےہ ہیں جبکہ‬
‫رسول کو قرآن کریم میں بشر کہا گیا ہے‪118‬۔‬

‫تیسری بحث ‪:‬وحدت ادیان‬


‫صوفیت کی بہ ت سی خرافات وبکواسیات میں س ے ایک وحدت‬
‫ادیان بھی ہے جو بیمار ذہن کی پیداوارہے جس کا خیال یہ ہے کہ وہ‬
‫انسانیت کےہ ہمدرد ہیں جبک ہ درحقیقت اورموجود ہ حالت ہیں یہ‬
‫بڑی ہ ی سنگین فکر ہےہ کیونکہہ کائنات وحیات سےہ متعلق سنن‬
‫الٰہی ہ س ے متصادم ہے جن میں ایک سنت حق وباطل ‪،‬خیر وشر‬
‫کےہ درمیان ٹکراؤ کی بھ ی ہےہ اور تمام ادیان کو ایک قرار دینا‬
‫اسلمی انہدام کا خبیث مرکز ہے یا کسی ایسے مقلد کی بکواس‬
‫ہے جو اپنی بات کی سنگینی سے واقف نہ ہو وگرنہ ایک موحد اور‬
‫قبر پرست اور اللہ کی کتابوں کے محرف اور اپنے نبیوں کے عابد‬
‫کو ایک ہی کیسے مان لیں ہم کس طرح ایمان اور کفر کو کس‬
‫طرح ایک کہہہ دیں یہہ بات ابن عربی اور اس کےہ تلمذہہ جیسا‬
‫عقیدہہ وحدت الوجود پر ایمان لنےہ والہ ی کہہہ سکتا ہےہ جس کا‬
‫عقیدہہ ہے کہہ زمین پر موجود ہ ر شئےہ صحیح ہےہ اسےہ کوئی جدا‬
‫نہیں کرسکتا اور اللہہ اس بات سےہ بڑا وسیع ہے کہہ کوئی معین‬
‫عقیدہ اس کا احاطہ کرے سب صحیح ہے جہاں تک عذاب کا تعلق‬
‫ہے تو وہ عذوبۃ (چاشنی ) سے مشتق ہے‪ 119‬۔‬

‫ابن عربی شعر میں اس عقیدے کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہے‪:‬‬

‫فمرعی لغزلن ودیر لرھبان‬ ‫لقد صار قلبی قابل کل صورۃ‬


‫والواح توراۃ و مصحف قرآن‬ ‫وبیت الوثان وکعبۃ و طائف‬
‫رکائبہ فالحب دینی وایمانی‬ ‫اذین بدین الحب انی توجھت‬

‫ترجمہ‪”:‬میرا دل ہ ر صورت قبول کرلیتا ہے ہرن کی چراگا ہ ہ و یا‬


‫کسی راہب کی کٹیا بت کدہ ہو یا طائف کا کعبہ تورات کی تختیاں‬
‫ہوں یا مصحف قرآن میں دین محبت کا مانن ے وال ہوں اس کے‬
‫سوار جہاں چلے جائیں محبت ہی میرا دین وایمان ہے “۔‬

‫اس کا دوست ابن فارض کرگاسے اپنی لنگی بنتے وقت کہتا ہے‪:‬‬
‫‪( 118‬ھذہ ھی الصوفیۃ‪)85:‬‬
‫‪( 119‬ھذہ الصوفیۃ‪)95:‬‬

‫‪52‬‬
‫وان حل بالقرار فھی‬ ‫وما عقد الزنار حکما سوی یدی‬
‫حلت‬
‫فل وجہ للنکار بالعصبیۃ‬ ‫وان خر للحجار فی البدعا عاکف‬

‫ترجمہ‪”:‬میر ے ہات ھ ک ے بغیر لنگی کی گٹھان مضبوط نہیں اور اگر‬


‫وہ ثابت رہنے کے بجائے کھل جائے تو ہاتھ بھی ہٹ جاتا ہے اور اگر‬
‫وہہ کسی بت کدےہ میں پتھروں کےہ سامنےہ گرپڑےہ تو وہہ پوجا‬
‫کررہ ی ہوتی ہے لہٰذا عصبیت کی بناءپر انکار کی کوئی وج ہ نہیں‬
‫ہوتی۔“‬

‫بعض اعتدال پسند ابن عربی کی کتابوں سےہ خوفزدہہ ضرور‬


‫کرت ے ہیں لیکن اس کی تکفیر نہیں کرت ے اور اس ک ے اقوال کو‬
‫گول مول کرکے پیش کرتے ہیں ان کی تاویلیں کرتے ہیں لیکن ہم‬
‫نے ان میں سے کسی کو جلل الدین رومی کے اشعار سے روکتے‬
‫نہیں سنا جبک ہ اس ے پسند کرنے وال ے بہت ہیں خاص کر ترکی اور‬
‫ہند میں اس کا ایک قصید ہ درج ذیل ہے اس میں و ہ اپن ے استاد‬
‫سے مشابہت کرتے ہوئے لکھتا ہے ‪:‬‬

‫انظر الی العمامۃ احکما فوق بل انظر الی زنار زار دشت حول‬
‫خصری‬ ‫راسی‬
‫مسلم اناولکنی نصرانی وبرھمی‬ ‫فل تناعنی ل تناعنی‬
‫وزرداشتی‬
‫لیس لی سوی معبد واحد‬ ‫توکلت علیک ایھاالحق العلی‬
‫ووجھک الکریم فیہ غایۃ نعمنی‬ ‫مسجد او کنیسۃ او بیت‬
‫اصنام‬

‫ترجمہ‪”:‬پگڑی دیک ھ جس ے میں اپن ے سر پر مضبوط باندھتا ہوں ۔‬


‫بلک ہ زردشت کی لنگی دیک ھ میر ے پہلو پر۔ن ہ و ہ مج ھ س ے الگ رہ‬
‫سکےہ نہہ وہہ مجھہ سےہ الگ ہوسکے۔میں مسلمان ہوں لیکن‬
‫نصرانی‪،‬برہمن‪،‬زردشت بھی ہوں۔یاحق اعلی ٰ تجھ پر میں اعتماد‬
‫رکھتا ہوں۔میر ے لئ ے ایک ہ ی عبادت گا ہ ہے ۔مسجد ہ و یا کنیس ہ یا‬
‫بت کدہ۔تیرا معزز چہر ہ میری لذتوں کی انتہاءہے ۔ن ہ و ہ مج ھ سے‬
‫الگ رہ سکے نہ وہ مجھ سے الگ ہوسکے‪120‬۔‬

‫‪( 120‬مجلۃ العروۃ الوثقی شمارہ نمبر ‪61،1403‬ہجری زیر ادارات عبدالحکیم الطیبی)‬

‫‪53‬‬
‫یہود کی عبادتیں‪،‬نصرانیوں کی لنگی کی گٹھان یا کمر بند ھ اور‬
‫ہندوستان کےہ مندر اور مسجدیں یہہ سب ان کےہ لئےہ اللہہ کی‬
‫عبادت گاہیں ہیں چاہے وہ جہاں بھی جائیں‪121‬۔‬

‫ہ م سار ے صوفیاءکو اس بدعت کا ذم ہ دار قرار نہیں دیت ے کیونکہ‬


‫ایسے ہ اقوال کفر وانحراف وضللت ہیں جو صرف غالی‬
‫صوفیاءکہتےہ ہیں لیکن تصوف کی ایسی ہی کشادہہ راہیں اس‬
‫طرح کی افکارکاسبب بنتی ہیں تو توحید ربوبیت‪،‬او ر ی ہ بات کہ‬
‫اللہ ہ ر شئے کا رب اور مالک ہے میں غرق ہوجانا ‪،‬اور قضاءوقدر‬
‫کونی جو مومن وکافر دونوں کے لئے یکساں ہے میں کھوجانا اور‬
‫شرعی امرونہ ی اور ان ک ے مومنین اور توحید الوہیت کی جانب‬
‫توجہ نہ دینا اور طبعی کلمات میں کھوجانا جیسے محبت الٰہی اور‬
‫عشق الٰہی وغیرہ ان تمام اسباب نے ابویزید بسطامی کو یہ کہنے‬
‫پر آمادہہ کیا جب وہہ یہود کےہ قبرستان سےہ گزرا توکہنےہ لگا یہ‬
‫معذور ہیں اور جب مسلمانوں کے قبرستان سے گزرا تو کہنے لگا‬
‫یہ دھوکے میں پڑے رہے پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے مخاطب ہوکر‬
‫کہن ے لگاک ہ تیر ے عذاب دین ے س ے پہل ے ی ہ ایس ے سامان تھے جن پر‬
‫فیصلے جاری رہے تو توان سے درگزر کردے ‪122‬۔‬

‫گویا و ہ چاہتا ہے ک ہ الل ہ اپنی رحمت جنس بشر پر نچھاور کردے‬


‫گویا و ہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے زیاد ہ اس ک ے بندوں کے لئے رحیم‬
‫بن رہا ہےہ ۔اسی قبیل کےہ کچھہ اقوال امیر شیکب ارسلن نے‬
‫احمد شریف السنوسی‪ 123‬سے نقل کئے ہیں کہ اس کا چچا استاذ‬
‫مہدی اس سے کہا کرتا تھا کسی کو حقیرنہ جاننا نہ مسلمان کو نہ‬
‫عیسائی کو نہ یہودی کو نہ کافر کو کہ شاید وہ اپنی ذات میں اللہ‬
‫کےہ ہاں تجھہ سےہ زیادہہ افضل ہوکیونکہہ تجھےہ اپنےہ خاتمےہ کا علم‬
‫نہیں‪124‬۔‬

‫شیخ سنوسی کا یہہ کلم درست نہیں کیونکہہ جب ہ م کافر کی‬


‫تحقیر کرت ے ہیں تو دراصل اس ک ے کفر ک ے بناءپرایسا کرت ے ہیں‬
‫اور جب و ہ مسلمان ہوجائ ے تو اس ک ے اسلم کی بناءپر اس کا‬
‫احترام کرتےہ ہیں ہ م ظاہ ر کےہ پابند ہیں اس میں صوفیت کااثر‬

‫‪( 121‬ھذہ ھی الصوفیۃ)‬


‫‪( 122‬تاریخ التصوف‪)28:‬‬
‫‪ 123‬یہ‪:‬یہ سنوسی تحریک کا لیڈر تھا جو لیبیا میں آج کل ظاہر ہے ان کے نظریات اٹالین استعمار کے خلف‬
‫ہیں‬
‫‪( 124‬حاضر العالم السلمی‪)164/2:‬‬

‫‪54‬‬
‫واضح ہے لیکن میں اسے ان لوگوں میں نہیں سمجھتا جو وحدت‬
‫الوجود کے قائل ہیں ۔‬

‫ی ہ عقید ہ ان ماسونی افکار س ے مشاب ہ ہے جو وحدت انسانی اور‬


‫اختلف مذہ ب ک ے سبب ترک اختلف کی دعوت دیت ے ہیں ک ہ ہر‬
‫ایک اپنا دین ومذہب وعقیدہ چھوڑ دے کیونکہ انسانیت کے ناطے ہم‬
‫سب ایک ہیں یہہ خبیث دعوت ہےہ جو بظاہ ر بڑی آسودہہ حال ہے‬
‫مگر درپردہولنا ک ہے ۔‬

‫چوتھی بحث‪:‬اولیاءاور کرامات‬


‫اولیاءاوران کی کرامات کےہ عنوان پر صوفیت ہمیشہہ موضوع‬
‫بحث رہی ہےہ اس سےہ متعلق کتاب وسنت کی تعلیمات پیش‬
‫کرن ے سے قبل ولی کی تعریف اور اس لفظ کی ارتقائی حیثیت‬
‫ایک اصطلح کےہ اعتبار سےہ کےہ متعلق گفتگو کرنا ضروری ہے‬
‫اس کےہ بعد ہ م قابل قبول اورناقابل قبول کرامات کےہ متعلق‬
‫گفتگو کریں گےہ ۔امام شوکانی کی کتاب” نظر الولی علی‬
‫حدیث الولی “سے ولی کے متعلق بحث کا ایک مختصر حصہ درج‬
‫ذیل ہے ‪:‬‬

‫”لغت میں قلی قریبی اور مقرب کو کہتے ہیں اور ولیت عداوت‬
‫کی ضد کو ولیت کا اصل معنی محبت اور قریب ہونا ہے‬
‫اولیاءالل ہ س ے خاص مومن مراد ہیں اللہہ سبحانہہ ن ے ان اولیاءکی‬
‫وضاحت کرتے ہوئے فرمایا‪:‬‬

‫(یونس‪)63:‬‬ ‫‪  ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬


‫(اولیاءالل ہ جن پر خوف ہوگان ہ غم ی ہ )و ہ لوگ ہیں جو ایمان لئے‬
‫اور پرہیزگار ہیں ۔‬

‫یعنی جن پر ایمان لناواجب ہے اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جس‬


‫نافرمانی سے پرہیز کرنا واجب ہے اس سے پرہیز کرتے ہیں ۔‬

‫ابن تیمیہ فرماتے ہیں ‪”:‬ولی کو ولی اس لئے کہتے ہیں کہ وہ امور‬
‫اطاعت کو درست رکھتا ہےہ یعنی ان کی اتباع کرتا ہےہ یہ ی وہ‬
‫معنی ہے جس کا مدار محبت قرب اور نصرت پر ہے جو معنی‬
‫قرآن کریم میں وارد لفظ ولی اور اس کے مشتقات کی مراد ہے‬
‫خواہہ اولیاءاللہہ کی نسبت سےہ ہو یا اعداءاللہہ کی نسبت سے‬

‫‪55‬‬
‫چنانچہ ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم اصطلح کو قرآن کے بیان کردہ‬
‫اور مقرر کردہ معنی سے خارج کردیں ۔‬

‫ابن حجر عسقلنی فرماتے ہیں ‪:‬اللہ ک ے ولی سے وہ شخص مراد‬


‫ہے جو عالم باللہ یعنی اللہ (کی ذات وصفات)کا علم رکھنے وال ہو‬
‫اور ہمیش ہ اس کی اطاعت میں لگارہے “ی ہ لفظ اس معنی میں‬
‫استعمال رہ ا تاآنک ہ ی ہ شیع ہ اور صوفی ہ میں رائج ہوا اور انہوں نے‬
‫اسےہ اپنا امام اور شیخ کےہ لئےہ دیگرمعنوں میں استعمال کرنا‬
‫شروع کردیا جو کہہ غیر اسلمی ہیں چنانچہہ یہہ ایک خاص طبقے‬
‫میں محصور ہوکرر ہ گیا جبک ہ اس س ے قبل ہ ر اس بند ے ک ے لئے‬
‫درست تھ ا جو الل ہ کے دین کی کسی بھی طرح مدد کرتا ہوسب‬
‫س ے پہل ے اس ک ے معنی میں تبدیلی شیعہہ ن ے کی اور اسےہ امیر‬
‫المومنین علی بن ابی طالب اور ان کی آل اولد کےہ لئے‬
‫استعمال کیا کہ وہ اور ان کی نسل عرش کے نیچے کی مٹی سے‬
‫بنائ ے گئ ے نورانی بشر ہیں پھ ر اس میں شیعہ اور صوفیاءن ے علم‬
‫لدنی کا اضافہ کرلیا کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ علی بن ابی طالب‬
‫نے رسول اللہ سے الگ علم حاصل کیا تھا ۔‬

‫صوفی قشیری کا خیال ہے کہ‪”:‬ولی کی سب سے بڑی کرامت یہ‬


‫ہے کہ وہ معصوم عن الخطاءہوتا ہے“۔‬

‫صوفیاءنے اس عقیدے میں شیعہ کی تقلید کی ہے وہ بھی اپنے ائمہ‬


‫کو معصوم عن الخطاءسمجھتے ہیں صوفیاءکبھی اسے حفظ سے‬
‫بھی تعبیر کرتے ہیں۔‬

‫کلبازی کہتےہ ہیں کہہ ‪”:‬اپنےہ انبیاءکی عصمت اور اولیاءکی‬


‫حفاظت میں اللہ ک ے طور طریقے ‪“....‬ولی کا سب سے بلند رتبہ‬
‫صوفیاءکے نزدیک فناءہے یہ ولیت کا دروازہ ومقام ہے۔‬

‫ابن عربی کے نزدیک فناءکے مراتب ہیں ایک مرتبہ ولیایت خاقہ کا‬
‫بھ ی ہے ا س س ے وراثت مراد ہے کیونک ہ اولیاءالل ہ س ے ڈائیریکٹ‬
‫علم سیکھت ے ہیں ایک ولی ابن عربی ک ے نزدیک انبیاءس ے افضل‬
‫ہوتا ہےہ کیونکہہ وہہ ذوق والےہ ہوتےہ ہیں اور علم وجود اور اسرار‬
‫تقدیر سے واقف ہوتے ہیں۔‬

‫ولیت کا یہ رنگ صوفیانہ مفہوم ہے جبکہ قرآن کریم میں ولی ایک‬
‫مثبت شخصیت کا حامل ہوتا ہے اور دین سے متعلق ہر حکم ونہی‬

‫‪56‬‬
‫کا پابند ہوتا ہے نیز صحاب ہ اور تابعین اور علماءعاملین اس لفظ‬
‫کے زیادہ مستحق ہیں اور اس حدیث کے مکمل مصداق ہیں جس‬
‫میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ‪”:‬جو میرے ولی سے بغض رکھے میں‬
‫اس سےہ اعل ن جنگ کرتا ہوں“جبکہہ صوفیاءاس طریق کے‬
‫برعکس طریقےہ ولیت کاحصول مانتےہ ہیں کیونکہہ ان کی‬
‫ریاضتوں کا مقصد اللہہ کی معرفت ہےہ یا پھ ر فناءجبکہہ اللہہ کی‬
‫معرفت اہ ل ایمان کی شان ہے اور فطری معرفت ہے جیسا کہ‬
‫ہمیں قرآن بتاتا ہے اور عمل صالح میں ی ہ وصف ہے ک ہ اس کے‬
‫عامل کو اللہہ پسند کرنےہ لگتا ہےہ جبکہہ صوفیاءکا فناءانہیں اتحاد‬
‫اور حلول ک ے کفر میں مبتلکرتاہے تو اہ ل السن ۃ کا طریق ولیت‬
‫نسبتا ً آسان ہےہ اور ہر ایک کےہ لئےہ ہےہ اور ا س طریق کی‬
‫ابتداءہ ی الل ہ اور ا س کےہ بندوں کےہ مابین محبت سےہ ہوتی ہے‬
‫جبک ہ صوفیت کا طریق ولیت ن ہ صرف مشکل بلک ہ موروثی ہے‬
‫مرید کےہ لئےہ پر مشقت راہوں سےہ گزرنا اور پھر ایسی‬
‫بکواسیات کا سہارا لینا ضروری ہے جن میں اس ے اللہ کے سامنے‬
‫حاضر سمجھاجائے۔اہل السنۃہہہ کےہہہ نزدیک افضل ترین‬
‫اولیاءانبیاءورسل ہیں جبک ہ صوفیاءک ے نزدیک انبیاءان فلسف ہ سے‬
‫بھی حقیر ہوتےہ ہیں جو الوہیت کا دعویٰہ کرتےہ ہوں جیسا کہ‬
‫سہروردی کا کہنا ہے جسے صلح الدین ایوبی نے اپنے ہاتھوں سے‬
‫واصل جہنم کیا تواہل السنۃہ کےہ نزدیک ولی سےہ وہہ مثبت‬
‫شخصیت کامسلمان ہے ہ جوطاعات کا اہتمام کرتا ہوجبکہ‬
‫صوفیاءکے نزدیک وہ ہے جو فناءمیں غرق ہو ۔(انتہی)‬

‫معنی ولی اور اس ک ے ارتقاءاور اس ک ے شرعی معنی ک ے بیان‬


‫ووضاحت کےہ بعد کرامات کےہ متعلق اہ ل السنۃہ کا موقف بیان‬
‫کرنا ضروری ہے نیز ی ہ کیا صوفیاءن ے اس موقف کا التزام کیا یا‬
‫نہیں اور کیا ولیت وکرامت میں کچھ تعلق ہے؟۔‬

‫اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کائنات کا پیدا فرمایااور اس میں ایک‬


‫محکم ومضبوط نظام جاری وساری کردیا جس میں ن ہ تو سقم‬
‫ہے نہ ہی تعارض وتخلف اور اسباب کو مسببات اور نتائج اور ان‬
‫ک ے مقدمات ک ے سات ھ مربوط کردیا اور ہ ر شئ ے کو کچ ھ صفات‬
‫عطاءکیں آگ جلتی ہے ‪،‬پانی سیراب کرتاہے‪،‬خوراک بھوک مٹاتی‬
‫ہےہ اور پھر یہہ کائناتی نظام عمدہہ ومرتب ہےہ چاند‪،‬سورج ‪،‬‬
‫ستارے‪،‬دن اوررات کا ہیر پھیر ی ہ سب اس ک ے بہترین نظام ہیں‬
‫تواگر کبھ ی اسباب نتائج س ے مربوط ن ہ ہوں اور ی ہ عادت مالوفہ‬
‫سےہ ہ ٹ کر کچھہ ہ و اللہہ کےہ حکم سےہ کسی دینی مصلحت کی‬

‫‪57‬‬
‫بناءپر یا کسی صالح شخص کی دعاءسےہ تو اگر خرق عادت‬
‫معاملہ نبی کے لئ ے ہ و تو وہ معجزہ ہے اور اگر صالحین ک ے لئے ہو‬
‫تو وہ کرامت ہے اور یہ کرامت اگر حقیقتا ً کسی ولی کے لئے ہوتو‬
‫دراصل یہہ بھ ی معجزات رسول کا ہ ی ایک رخ ہےہ جو آپ کی‬
‫اتباع کی برکت سے حاصل ہوا۔‬

‫یہ امور خرق عادت یا علم کی نسبت سے ہوتے ہیں کہ نبی وہ کچھ‬
‫سن لیتا ہے جو کوئی دوسرا نہیں سن پاتا یا وہ کچ ھ دیک ھ لیتا ہے‬
‫جو کوئی اورنہیں دیکھ پاتا نیند کی حالت میں یا بیداری میں یا وہ‬
‫کچھ جان لیتاہے جو کوئی دوسرانہیں جان پاتا ولی اور الہام یا بندہ‬
‫مومن کی فراست صادقہ کے اعتبارسے نیز یہ یا تو قدرت و تاثیر‬
‫کی قبیل سے ہوتا ہے جیس ے دعائے مستجاب یا کھانے میں برکت‬
‫یا آگ کا نہ جلنا صحابہ کرام کے لئے اس نوع کی کرامات ثابت‬
‫ہیں یا پھر کسی دینی ضرورت یا حجت کی نوع سےہ ہوتا ہے‬
‫جیسےہ ام ایمن نےہ جب ہجرت کی تو ان کےہ پاس کھانےہ پینے‬
‫کاسامان نہ تھا وہ بھوک سے نڈھال ہوکر موت کے قریب تر ہوگئیں‬
‫تو اپنے سر کے اوپر کچھ محسوس کیاتادیکھاتو ڈول لٹکا ہوا تھا تو‬
‫اس س ے سیراب ہوگئیں نیز براءبن مالک قسم کھالیت ے تو اللہ‬
‫ان کی قسم پوری کرتا اور سعد بن ابی وقاص مستجاب‬
‫الدعوات تھےہ اسلمی لشکر کےہ امیر علءبن حجرمی اور ان‬
‫لشکر بحرین میں سمندر کی سطح پر چلمگر سمندر نےہ ان‬
‫س ے کچ ھ تعرض نہ کیا جبک ہ ان کے پاس کشتیاں بھی ن ہ تھیں جن‬
‫پر وہ سوار ہوتے نیز ابومسلم الخولنی کو آگ میں ڈال گیا مگر وہ‬
‫انہیں جلنہ سکی‪ 125‬۔‬

‫یہہ صحیح واقعات صحابہہ کےہ لئےہ ثابت ہیں اور ان سےہ زیادہ‬
‫واقعات تابعین ک ے بعد رونما ہوئ ے اہ ل السن ۃ بدعتیوں کی طرح‬
‫کرامات کےہ منکر نہیں اور وہہ یہہ بھ ی جانتےہ ہیں کہہ جس اللہہ نے‬
‫اسباب اور مسببات کو پیداکیا وہہ اپنےہ بندوں کےہ لئےہ ان خرق‬
‫عادت امور پر بھی قادر ہے لیکن صوفیاءصرف اس کے وقوع کو‬
‫ہ ی صاحب کرامت کی افضلیت کی دلیل قرار دیت ے ہیں حتی کہ‬
‫اگر کسی فاجر کے ہاتھوں ہی کرامت کا صدور ہوتو وہ اسے شیخ‬
‫طریقت کا لقب دےہ دیتےہ ہیں چنانچہہ اس موضوع پر کچھ‬
‫تحفظات ہونالزمی تقاضا ہے۔‬

‫‪( 125‬الفتاوی‪ 279/11:‬از ابن تیمیۃ اس مقام پر ابن تیمی ہ نے معجزات وکرامات س ے متعلق بیش بہا موتی‬
‫پیش کئے ہیں)‬

‫‪58‬‬
‫‪1‬صحابہہ کےہ لئےہ اس طرح کی کرامات تکلف اور مطالبہہ یا‬
‫روحانی ریاضتیں کئےہ بغیر حاصل ہوئیں بلکہہ اس طرح اللہ‬
‫انہیں عزت دینا چاہتا تھ ا یا ان کی کسی دعا کا اثر تھ ا جس‬
‫میں کوئی دینی مصلحت تھی یا توقیام حجت یاحاجات‬
‫مسلمین کی تکمیل جیسا کہ نبی کے معجزات بھی ایسے ہی‬
‫تھےہ جبکہہ متاخرین کرامات کو طلب کرتےہ ہیں ان کےہ لئے‬
‫تکلف اور روحانی ریاضتیں کرت ے ہیں جن س ے بسا اوقات ان‬
‫کا جسم یا نفس بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے حالنک ہ کرامات کو‬
‫طلب کرنا اس کےہ حق میں توکوئی دلیل نہیں البتہہ اس کے‬
‫خلف دلئل ہیں دراصل انہیں انسان سےہ پردہہ غیب میں‬
‫رکھاگیا ہےہ نہہ کہہ یہہ ان تکلیفی امور سےہ ہےہ جن کا بندے‬
‫کومکلف بنایا گیا ہے‪ 126‬۔‬

‫یہ سب فلسفہ سے متاثر ہونے کا انجام ہے کیونکہ وہ اس طرح‬


‫کی خرق عادت امور کےہ حصول کےہ لئےہ اسی طرح معین‬
‫ریاضتیں ضروری قرار دیتے ہیں ۔‬

‫‪2‬اولیاءکی کرامات کا سبب ان کا ایمان وتقوی ہوتاہے اور اللہ‬


‫کا ولی فرائض سنن ونوافل کا پابند ہوتا ہےہ اللہہ کےہ حکم‬
‫کوجانتا ہےہ اور اپنےہ علم پر عمل کرتا ہےہ توجس کا عقیدہ‬
‫وعمل صحیح ہووہ اللہ کا ولی ہے اور اس بات کامستحق ہے کہ‬
‫اللہ اگر چاہے تو اسے اعزاز بخشے ایسی شخصیت کے لئے کچھ‬
‫خرق عادت ہوجانا مضر نہیں ن ہ ہ ی اس ک ے ذریع ے دہوک ے میں‬
‫پڑا جاسکتا ہے ن ہ ہی و ہ اس پر متکبر ہوتا ہے ایسا بھی ہوتا ہے‬
‫کہہ جو اس سےہ بھی افضل ہو اس کےہ لئےہ کرامت ثابت نہ‬
‫ہوچنانچ ہ کر امت افضلیت کی دلیل نہیں ابوبکر صدیق کو یہ‬
‫چیز حاصل ن ہ ہوسکی جبکہہ دیگر کچھہ صحابہہ کو حاصل ہوئی‬
‫بالکل اسی طرح ہر شخص ولی اللہ نہیں ہوسکتا جس کے لئے‬
‫کچھہ خرق عادت ہو جس طرح ہر وہہ شخص جسےہ دنیاوی‬
‫نعمتیں میسر ہوں توی ہ اس کی کرامات شمار ہوتی ہیں بلکہ‬
‫کبھی خرق عادت امر ایسے شخص ک ے لئ ے بھی ممکن ہوجاتا‬
‫ہے جو فرائض کا تارک ہو اور بے حیائیوں کا مرتکب ہو تویہ ہاتھ‬
‫جناتی شیاطین کی شرارت شمار ہوگی جن کا مقصد لوگوں‬
‫کو گمرا ہ کرنا ہ و یاپھ ر الل ہ کی طرف س ے مہلت اور اس کی‬
‫تدبیر شمار ہوگی یا پھر ایسی ریاضت (پریکٹس کرکے مشقت‬
‫کا عادی بن جانا)شمار ہوگی جو کافرہندو سادھو اور بدھ‬
‫‪( 126‬الموافقات از شاطبی‪)283/2:‬‬

‫‪59‬‬
‫بھکشو وغیرہہ بکثرت کرتےہ ہیں جس کےہ نتیجےہ میں وہہ اتنے‬
‫ایکسپرٹ ہوجات ے ہیں ک ہ گرم آلت ان پر اثر انداز نہیں ہوپاتے‬
‫یا و ہ کئی کئی روز کچ ھ کھائ ے پیئ ے بغیر گزار دیت ے ہیں فاسق‬
‫لوگ اس ے ان کی کرامت سمجھت ے ہیں ۔اس حوال ے س ے ایک‬
‫اہ م سوال ی ہ ہے ک ہ صحاب ہ اور تابعین ک ے ادوار میں اس طرح‬
‫ک ے خرق عادات واقعات بہ ت کم ہیں جبک ہ ان ک ے بعد بکثرت‬
‫ہیں اس کی کیا وجہہ ہے؟ابن تیمیہ جواب دیتےہ ہیں کہہ ‪”:‬یہہ ہر‬
‫شخص کی ضرورت کے مطابق ہے جب کوئی کمزورایمان وال‬
‫یا محتاج اس کا ضرورت مند ہ و تو ا س ک ے پاس کچ ھ ایسا‬
‫خرق عادت معاملہ ہوجاتا ہے جو اس کے ایمان کو قوی کردیتا‬
‫ہےہ اور جو اس سےہ بڑھہ کر ولی ہ و تو وہہ اپنےہ بلند رتبےہ کی‬
‫بناءپر اس سےہ مستغنی ہوتا ہے*‪ 127‬جیسےہ اس کرامت کا نہ‬
‫ہونا مسلمان ک ے لئ ے مضرنہیں ن ہ ہ ی اس س ے اس ک ے مرتبے‬
‫میں کچ ھ فرق پڑتا ہے صحاب ہ س ے اس طرح ک ے امور اس لئے‬
‫صادر ہوئ ے ک ہ ان ک ے ذریع ے الل ہ ن ے انہیں اکرام بخشا یا کسی‬
‫دینی ضرورت کی تکمیل کی پھ ر ان ک ے بعد ادوار میں اس‬
‫طرح ک ے واقعات کا بکثر ت ہونا ابن تیمیہ ک ے قول کی تائید‬
‫کرتاہے‪128‬۔‬

‫‪3‬اس دین کا عظیم ترین معجزہہ قرآن کریم ہےہ جسےہ اللہہ نے‬
‫محمد کےہ دل پر نازل کیا جب آپ سےہ مادی معجزات کا‬
‫مطالبہہ کیا گیا تو آپ نےہ انکار کردیا کیونکہہ یہہ منہ ج دین نہیں‬
‫قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ‪:‬‬

‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪  ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬
‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬
‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬
‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬
‫‪‬‬ ‫‪  ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬
‫‪   ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬
‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬
‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬
‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪  ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬

‫‪ 127‬یہ اس وقت ہے جس اس کرامت کا نقل ہونا ثابت ہوجائے علوہ ازیں ہم اس بات سے غافل نہیں کہ‬
‫خواہش پرست اور بدعتی ٹولہ اس دور کے بعد اپنے مذہب کی صحت ثابت کرنے کے لئے اس طرح کی‬
‫کرامات بکثرت نقل کرنا شروع کردیں جن کی کوئی اساس نہ ہو‬
‫‪( 128‬فتاوی ابن تیمیۃ‪)323/11:‬‬

‫‪60‬‬
‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬
‫‪(................‬السراء‪90:‬تا ‪)93‬‬

‫(مشرکین مکہ)نےہ کہا ہم تجھہ پر ایمان نہہ لئیں گےہ تاوقتیکہ‬


‫توہمار ے لئ ے زمین س ے چشم ہ پھاڑ د ے یا نہ ر کھجور وانگور کا‬
‫باغ ہ و جس میں تونہریں چلدےہ یا تو آسمان کا ٹکڑا ہ م پر‬
‫گرادےہ جیسا کہہ تیرا کہنا ہےہ یا تو اللہہ اور فرشتوں کو ہمارے‬
‫سامن ے لے آ یا تیرا سون ے کاگھ ر ہ و یا تو آسمان چڑ ھ جائے اور‬
‫ہ م تیرا چڑھنا جب ہ ی مانیں گ ے جب تو ہمار ے پر ایک کتاب‬
‫اتار لئے جسے ہم پڑھ لیں کہہ دیجئ ے اللہ میرا رب پاک ہے میں‬
‫محض بشر رسول ہوں۔‬

‫ایسے ہی نبی کو حکم دیاگیا کہ وہ دعوی استغناءواختیار کل اور‬


‫علم غیب سے براءت کا اظہار کردیں ‪:‬‬

‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪‬‬
‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪ ‬‬ ‫‪‬‬ ‫‪   ‬‬ ‫‪‬‬
‫النعام‪)50:‬‬ ‫‪  ‬‬ ‫‪  ‬‬ ‫‪ ‬‬

‫کہہ دیجئ ے کہ میں نے تم سے کب کہا اور نہ میں کہتا ہوں کہ میرے‬


‫پاس الل ہ ک ے خزان ے ہیں اورن ہ ہ ی میں غیب جانتا ہوں اور ن ہ میں‬
‫تم سے کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو بس اسی پر چلتا ہوں‬
‫جو میری طرف وحی کیاجائے۔‬

‫یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی بلند مرتبے کے باوجود عام انسانوں‬


‫جیسی تھی‪129‬۔‬

‫جب آپ ن ے ہجرت کی تو آپ ہوا میں اڑ کر نہیں گئ ے بلک ہ عام‬


‫سواروں کی طرح نو دن میں پہنچےہ آخر کیوں؟ کیونکہہ یہ ی وہ‬
‫زندگی کے جو لوگ گزارتے ہیں اللہ وہ مشیئت جو اس نے لوگوں‬
‫میں جاری رکھی ہوئی ہے لیکن اکثر لوگوں کے لئے یہ بات تکلیف‬
‫دہ ہے کہ اس کائنات کا نظام اس طرح محکم ومضبوط ہو اور وہ‬
‫کوشش کرت ے ہیں ک ہ مجذوبوںاور درویشوں کو اس میں تصرف‬
‫کا اختیار دلدیں‪130‬۔‬

‫‪( 129‬الموافقات از شاطبی‪)248/2:‬‬


‫‪( 130‬ثقافتنا از زکی نجیب محمود‪)172:‬‬

‫‪61‬‬
‫حقیقت اپنی جگ ہ قائم ہے ک ہ را ہ ہدایت را ہ کتاب وسنت جس پر‬
‫صحابہ وتابعین گامزن رہے اس پر استقامت کا مظاہرہ ہی اصل‬
‫کرامت ہےہ پھر اگر اللہہ کسی مخلص مومن کو عزاز کسی‬
‫کرامت سے نواز دے تو اسے چھپانا واجب ہے اسے ظاہر نہیں کرنا‬
‫چاہیئے اور اللہ کے اس احسان پر شکریہ ادا کرنا چاہیئے ۔‬

‫پانچویں بحث‪:‬اقطاب واتاد‬


‫جب ولی کا معنی قرآنی مراد سے علوہ اپنی منشاءومرضی کے‬
‫مطابق اختیار کیا گیا تو نتیجتا ً صوفیاءنے اقطاب ‪،‬ابدال ‪،‬اوتادکی‬
‫اصطلحات وضع کرلیں جن پر اللہہ کی طرف سےہ کوئی دلیل‬
‫نہیں اور پھ ر ان اصطلحات کو مقام مرتبےہ تک کےہ اعتبار سے‬
‫ترتیب دیا جس طرح عیسائی اپنےہ دینداروں کو مراتب میں‬
‫سیس یعنی پوپ س ے نیچ ے درج ے کا‬ ‫تقسیم کرت ے ہیں ۔ شماس(ق ِّ‬
‫پادری)سے ابتداءکرتے ہیں اور پوپ پر اختتام کرتے ہیں ۔ایسے ہی‬
‫شیعہ ‪،‬نصیریہ ا ور اسماعیلیہ اپنے ائمہ کی ترتیب لگاتے ہیں جیسے‬
‫سابق پھر تالی پھر ناطق پھر اساس ‪131‬۔‬

‫صوفیاءنےہ بھ ی اسی طرح اپنےہ اولیاءکو درجات کےہ اعتبار سے‬


‫مرتب کیا ہے ‪:‬‬

‫قطب‬ ‫‪1‬‬
‫اوتاد اربعۃ‬ ‫‪2‬‬
‫ابدال ‪،‬یہ چالیس ہیں شام میں ‪....‬؟‬ ‫‪3‬‬
‫النجباءیہ مخلوق کے بوجھ اپنے اوپر لد لیتے ہیں‬ ‫‪4‬‬
‫نقباء‬ ‫‪5‬‬

‫ان کےہ نزدیک قطب کسےہ کہتےہ ہیں اس کےہ جواب میں تیجانیہ‬
‫تعالی) کی نیابت ہے‬
‫ٰ‬ ‫کابانی کہتا ہے‪:‬قطب درحقیقت حق (اللہہ‬
‫خلق تک حق کی طرف س ے کچ ھ بھ ی قطب ک ے حکم ک ے بغیر‬
‫نہیں پہنچ سکتا‪132‬۔‬

‫پھر صوفیاءکے ہاں قطب بھی دوطرح کے ہیں ‪:‬‬

‫‪( 131‬فتاوی ابن تیمیۃ‪)439/11:‬‬


‫‪( 132‬ھذہ ھی الصوفیۃ‪)125:‬‬

‫‪62‬‬
‫‪1‬جو بشر ہ و مخلوق ہ و اس زمین پر موجود ہو۔اپنی موت کے‬
‫وقت اپنا مقرب ترین بدل جانشین چھوڑتا ہے (عیسائیوں سے‬
‫مکمل مشابہت)۔‬

‫‪2‬و ہ قطب جس کا کوئی قائم مقام نہیں بن سکتا وہ ایک چنیدہ‬


‫روح ہوتا ہے جو اس کائنات میں میں ایسے سیر کرتا ہے جیسے‬
‫روح جسم میں چلتی ہے‪133‬۔‬

‫رفاعی ان تمام مراتب سے بھی آگے ہے اپنے ایک شاگرد سے کہتا‬


‫ہے ‪:‬اپنے شیخ کو قطبیت سے پاک رکھ ‪134‬۔‬

‫ابوالعباس مریسی ک ے نزدیک مقام صدیقیت مقام قطبیت سے‬


‫بھی فائق ہے ‪135‬۔‬

‫اوتاد ی ہ چار افراد ہیں اور عالم ک ے چار ستونوں مشرق مغرب‬
‫شمال جنوب میں ہوتے ہیں‪136‬۔‬

‫ابدال ی ہ سات افراد ہیں کسی ایک جگ ہ نہیں اپنا جسم چھوڑ کر‬
‫زندہ ہیں‪137‬۔‬

‫ایک مسلمان ان خرافات کوپڑھ سن کر تعجب میں پڑجاتا ہے کہ‬


‫جرجانی وغیر ہ جو علم ومعرفت کا دعوی ٰ کرت ے ہوں کس طرح‬
‫یہ باتیں کرجاتے ہیں یہ تو عقیدہ اسلمیہ سے مزاحم پرخطر راستے‬
‫ہیں ی ہ عقیدہہ کہہ اللہہ سبحان ہ وتعالی ٰ کےہ سوا کوئی اور بھ ی اس‬
‫کائنات میں تصرف کرتا ہے شرک اکبر ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے‬
‫اوپر اولیاءکو صدیقین کے وصف سے متصف کیا ہے جیسے صدیق‬
‫اکبر اور سیدہہ مریم ام عیسیٰہ مگر یہہ لوگ اللہہ اور اس کے‬
‫رسول کی کھلی مخالفت کرنےہ لگےہ ہیں کہہ ‪:‬قطبیت مرتبہ‬
‫صدیقیت سے بڑھ کر ہے۔ان کے کلم کا خلف عقل بلشبہ معلوم‬
‫ہے کیونک ہ عقل ان خرافات کو نہیں مان سکتی ک ہ اقطاب اوتاد‬
‫عالم میں تصرف کرتے ہیں وہ چار ہیں یہ سات ہیں وہ کہاں سے یہ‬
‫تعداد وتخصیص لے کر آئے ہیں اورکہاں سے قطب کو اللہ کا نائب‬

‫‪( 133‬ھذہ ھی الصوفیۃ‪125:‬نیز تنبیہ الغبی کا حاشیہ‪)32:‬‬


‫‪( 134‬طبقات الشعرانی‪)144/1:‬‬
‫‪( 135‬لطائف المنن‪)12:‬‬
‫‪( 136‬التعریفات از جرجانی‪)39:‬‬
‫‪( 137‬التعریفات از جرجانی‪)23:‬‬

‫‪63‬‬
‫قرار دیت ے ہیں کیا اللہ عام بادشاہوں کی طرح ایک بادشاہ ہے جو‬
‫نائب کا محتاج ہوسبحان اللہ یہ بہتان وافتراءپردازی وبکواس ہے۔‬
‫(فتاویہ بزاریہ میں ہے کہ ‪:‬جو کہے کہ مشائخ کی ارواح حاضر ہوتی‬
‫ہیں علم رکھتی ہیں وہہ کافر ہےہ ۔نیز ملحظہہ ہوغایۃہ المانی از‬
‫شکری آلوسی ‪66/3:‬یہاں اولیاءاوتاد واقطاب سےہ متعلق شیخ‬
‫صنع اللہ حنفی نے بہترین کلم کیاہے ملحظہ ہو‪)66/2:‬‬

‫یہاں طریقت محمدی ‪،‬وحدت الدیان س ے متعلق صوفیاءکا کلم‬


‫ہم نہیں لکھ سکت ے کیونکہ وہ مردہ کلم اورگھٹیا بکواس س ے زیادہ‬
‫کچھ بھی نہیں ۔جس کی تعبیر ہمارے لئے ممکن نہیں درحقیقت وہ‬
‫اسلم کی شاندار عمارت زمین بوس کرنے والی غنوصیت ہے (یہ‬
‫ایک فلسفیانہہ دین ہےہ اس کی بہ ت سی صورتیں ہیں جس کی‬
‫ابتداءیہ ہے کہ حق کی معرفت اس کشف کے ذریعے ممکن ہے جو‬
‫براستہہ ظن وتخمین عارف کا معروف کےہ ساتھہ مل کر حاصل‬
‫ہواور ی ہ معرفت علم واستدلل ک ے ذریع ے ممکن نہیں ی ہ تصوف‬
‫ہ ی کی ایک قسم ہےہ جو معرفت کی اعلیٰہ ترین راہہ سمجھی‬
‫جاتی ہےہ اس کا عقیدہہ ہےہ کہہ خرق اور ادیان میں کچھہ آڑ نہیں‬
‫سب ایک ہیں اس اعتبار سے یہ انتہائی خطرناک ہے یہ یونانی لفظ‬
‫غنوسیس یعنی معرفت سےہ نکلی ہےہ پہلی صدی عیسوی میں‬
‫جب یونانی اور مشرقی ثقافت کا اختلط ہوا اس کے نتیجے میں‬
‫ی ہ بہ ت پھیل گئی تھ ی اس ک ے بانیان میں تیسری صدی عیسوی‬
‫کا فلسفی افلطون بھی ہے ملحظہ ہو مقدمہ الطریق الولیۃ الیھا‬
‫از ابراہیم ہلل‪)77:‬‬

‫چھٹی بحث‪:‬بکواسیات اور نامعقولیات‬


‫امام شافعی فرمات ے ہیں‪:‬اگر کوئی دن ک ے شرو ع میں صوفی‬
‫بن جائے توظہر سے پہلے پہلے احمق بن جائے گا ‪138‬۔‬

‫یہہ روایت صحیح ہویا نہہ ہ و حقیقت یہ ی ہےہ کہہ صوفیت میں عام‬
‫رجحان عقل وعقلنیت س ے دوری ہ ی ہے کیونک ہ و ہ سمجھت ے ہیں‬
‫کہ احوال اور مقامات تک پہنچن ے کے لئے عقل زائل کرنا ضروری‬
‫ہے اسی لئ ے و ہ اپن ے مشائخ ک ے لی ے ایس ے واقعات بیان کرت ے ہیں‬
‫جن کا عقل سے بالکل واسطہ نہیں ہوتا جبکہ عقل معرفت علوم‬
‫میں شرط اول ہےہ یہہ ایسےہ ہ ی ہےہ جیسےہ آنکھہ کےہ لئےہ بصارت‬
‫ضروری ہے پھر اگر اس کے ساتھ ایمان وقرآن کا نور بھی حاصل‬

‫‪( 138‬تلبیس ابلیس‪)370:‬‬

‫‪64‬‬
‫ہوجائ ے تو ی ہ نور علی نور ہے جبکہ عقل کو بالکل ہی ترک کردینا‬
‫تو حیوانیت وبہیمیت ہے ۔‬

‫۔(ملحظہہ ہ و فتاوی ابن تیمیۃ‪ 338/3:‬نیزابن تیمیہہ نےہ دس جلدیں‬


‫صرف اس عنوان پر لکھ ی ہیں کہہ شریعت منقولہہ اور حقیقت‬
‫معقول ہ میں بالکل فرق نہیں )کوئی مسلمان مکلف اسی وقت‬
‫بنتا ہے جب وہ عاقل ہویہ بھی علم ہے لیکن صوفیاءہے کے ہاں سب‬
‫ممکن ہےہ سب چلتا ہےہ خواہہ کتنا ہی عجیب ہو کیونکہہ ان کے‬
‫مشائخ کی کسی بات کارد نہیں کیا جاسکتا اور اگر رد کریا تو‬
‫پھ ر وہہ حجاب میں آجاتا ہےہ اس طرح کےہ معاملت نہیں سمجھ‬
‫سکتا اسی لئے ان کے قصے وحکایات یہود ونصاری کے لئے باعث‬
‫مذاق ہیں جیسا کہ آلوسی نے لکھا ہے‪139‬۔‬

‫چونکہہ سقوط بغداد کےہ بعد لوگ اسباب کو مسببات کےہ ساتھ‬
‫مربوط کرنےہ سےہ عاجز آچکےہ تھےہ لہٰذا تصوف ہ ی وہہ واحد راہ‬
‫بچی جو اس مشکل س ے پیچھ ا چھڑاسکتی تھ ی تو لوگ بکثرت‬
‫صوفیاءکےہ پاس جانےہ لگےہ ان سےہ تبرک حاصل کرنےہ لگےہ اور‬
‫شہروں میں صوفیاءکی بہتات ہوگئی ‪140‬۔‬

‫کوئی ہمیں جھوٹا اور ظالم نہہ سمجھےہ صوفیاءکےہ یہہ نامعقول‬
‫قصے شعرانی کی کتاب ”الطبقات الکبریٰ“سے ماخوذ ہیں وہ ان‬
‫قصوں کو نقل کرتا ہے اور اس پر بالکل تنقید نہیں کرتا کیونکہ‬
‫اس کےہ عقیدےہ کےہ مطابق یہہ سب صحیح ہےہ بلکہہ مجذوبوں کے‬
‫قص ے بیان کرک ے انہیں بنظر تحسین دیکھتاہے حالنکہ یہ کہاجاتا ہے‬
‫کہہ یہہ قصےہ ان کےہ بارےہ میں بنائےہ ہوئےہ ہیں لیکن شعرانی انہیں‬
‫نقل کرتے وقت ان کا انکار نہیں کرتا اس کے دور سے آج تک ان‬
‫قصوں کو پڑھن ے والوں میں س ے کو ئی بھ ی نہیں کہتا ک ہ ہ م ان‬
‫قصوں کو نہیںمانتے انہیں ہماری کتابوں سے ہٹایا جائے یہی مشکل‬
‫ہے ک ہ لوگ انہیں روا سمجھت ے ہیں اور عمل ً ان کی تصدیق کرتے‬
‫ہیں ذیل میں مختلف ادوار س ے ل ے کر مؤلف ک ے دور کےہ ‪10‬ویں‬
‫صدی ہجری تک کے چند نمونے درج ہیں‪:‬‬

‫‪1‬شیخ احمد رفاعی کے تذکر ے میں شعرانی لکھتا ہے ‪:‬جب حق‬


‫تعالی ٰ اس پر تعظیما ً تجلی ڈالتا تو وہپگھ ل جاتا حتی ک ہ پانی‬
‫کا ٹکڑا سا بن جاتا پھ ر اسےہ لطف پالیتا پھ ر وہہ آہستہہ آہستہ‬

‫‪( 139‬محاکمۃ الحمدیین‪)490:‬‬


‫‪( 140‬ظھرالسلم از احمد امین‪)219/4:‬‬

‫‪65‬‬
‫جمنا شروع ہوجاتا اور واپس جسم بن جاتا اور پھ ر کہتا کہ‬
‫‪:‬اگر اللہہ میرا رب نرمی نہہ کرتا تو میں تمہاری طرف نہ‬
‫پلٹتا‪141‬۔‬

‫‪2‬شیخ ابوعمرو بن مرزوق القرشی کےہ بارےہ میں لکھتا ہےہ ‪:‬یہ‬
‫عربی شیخ تھ ا جب کوئی عجمی بولنا چاہتا یا عربی عجمی‬
‫بولنا چاہتا تویہ اس کے منہ میں تھوک دیتا اور وہ اس کی زبان‬
‫بولنا شروع کردیتا گویا اس کی اصل زبان وہی ہے‪ 142‬۔‬

‫بچارےہ مسکین طلباءجو اجنبی زبان پڑھتےہ ہیں اگر آج یہہ شیخ‬
‫ہوتے تو انہیں بڑا سکون مل جاتا بڑا سکون۔‬

‫‪3‬تقی الدین سبکی کہتےہ ہیں ‪:‬میں محفل سماع میں گیا وہاں‬
‫شیخ رسلنی تھے و ہ ہوا میں تیرت ے پھرآہست ہ آہست ہ نیچ ے آجاتے‬
‫حتی کہہ جب ان کی کمر زیتون کےہ درخت پر ٹھہرجاتی جو‬
‫خشک ہوچکاہوتا اچانک سرسبز ہوجاتا اور پھ ل دینےہ لگتا اور‬
‫اس سال زیتون حمل سے بھی ہوگیا‪143‬۔‬

‫یہاں تعجب شیخ ارسلن س ے نہیں بلک ہ تقی الدین سبکی جیسے‬
‫عالم سے ہے کہ اس نے کس طرح قبول کرلیا کہ اللہ کے ذکر کرتے‬
‫وقت رقص کیاجائےہ اور یہہ جھوٹ اس نےہ کس طرح مان‬
‫لیا(بشرطیکہ شعرانی کا سبکی کے متعلق یہ بیان سچ ہو)‬

‫‪4‬ابوالعباس احمد ملثم کےہ متعلق شعرانی کہتا ہےہ ‪:‬لوگوں کا‬
‫اس کی عمر میں اختلف تھا بعض کہتے یہ یونس کی امت کا‬
‫ہے اور بعض کہت ے ک ہ اس ن ے امام شافعی کو دیکھ ا ہے اس‬
‫س ے اس بار ے میں پوچھاگیا تو کہن ے لگا میری عمر اس وقت‬
‫تقریبا ً ‪400‬سال ہےہ ۔اہ ل مصر اپنی لڑکیوں کو اس کےہ ساتھ‬
‫خلوت وجلوت سے منع نہیں کرتے تھے‪144‬۔‬

‫‪5‬شیخ ابراہیم جعبری کی ایک مرید ہ ان کا وعظ سنتی جبک ہ وہ‬


‫مصر اور سوڈان کے پرے ہوتی تھی‪145‬۔‬

‫‪( 141‬الطبقات‪)143/1:‬‬
‫‪( 142‬الطبقات‪)154/1:‬‬
‫‪( 143‬الطبقات‪)152/1:‬‬
‫‪( 144‬الطبقات‪)157/1:‬‬
‫‪( 145‬الطبقات‪)203/1:‬‬

‫‪66‬‬
‫‪6‬حسین ابوعلی کامل عارفین میں سےہ تھ ا بہ ت سی شکلیں‬
‫رکھتا تھا کبھی فوجی ہوتا توکبھی درندہ توکبھی ہاتھی (واہ اللہ‬
‫کے لطائف)‪146‬۔‬

‫‪7‬ابراہیم بن عصفیر‪:‬اس پر اکثر حال آت ے ی ہ جناز ہ ک ے آگ ے چلتا‬


‫اور گالیاں دیتا اور اول فول بکتا اسک ے بڑ ے عجیب حال تھے‬
‫اور مجھہ سےہ محبت کرتا تھا میں اس کی زیر برکت‬
‫ونظرتھا‪147‬۔‬

‫شاید یہ پاگل تھا جو مکلف نہیں ہوتے البتہ شعرانی کا کہنا کہ ‪”:‬وہ‬
‫میرا سردار ہے میں اس کی زیر برکت ونظر رہ ا ہوں “توی ہ بھی‬
‫باعث تعجب نہیں اور آج کل صوفیاءکےہ جو خیالت ہیں ان کے‬
‫مطابق کیا و ہ شعرانی پر تعجب کریں گ ے ہرگز نہیں ان جیسے‬
‫صوفی حقیقت سے زیادہ فریب کو مانتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک‬
‫علماءسےہ قبل حقیقت کو ُبھل ےہ اور قلندر بیان کردیتےہ ہیں۔یہ‬
‫صوفیت اور شعرانی کی کتب کا ہی اثر ہے ہ کہ ہ مصری‬
‫یونیورسٹیوں کےہ اساتذہہ جب میڈیکل ‪،‬فزکس یا کیمسٹری کے‬
‫متعلق گفتگو کررہے ہوت ے ہیں تو اس ان کی عقول صحیح سالم‬
‫ہوتی ہیں مگر جب کسی ولی ک ے متعلق گفتگو کرت ے ہیں تو ان‬
‫کی عقول کو کیا ہوجاتا ہے کہہ وہہ اس کا ہوا میں اڑنا پانی کی‬
‫سطحپر چلنا تسلیم کرلیتے ہیں‪ 148‬۔‬

‫یہ یہاں حقیقی اسلم کا دفاع نہیں کررہے بلکہ عقل کا دفاع کررہے‬
‫ہیں اور وہاں کےہ قانونی منطقی سیکولرمذہب کا)یہہ دورنگی‬
‫اسباب ومسببات کی معرفت ک ے لئ ے نفسیاتی علج کی محتاج‬
‫ہے ہم نے شام کی یونیورسٹیوں میں طلباءکو دیکھاہے کہ کیسے وہ‬
‫دجال مفسد ٹائپ لوگوں کی اتباع کرتے ہیں جن کا کذب وفریب‬
‫واضح ہوتاہے دراصل ی ہ مشائخ شروع ہ ی س ے مرید ک ے دماغ کی‬
‫خبیث شیطانی طریق پر برین واشنگ کردیتےہ ہیں جس سے‬
‫جامعات ک ے ن ہ صرف طلب بلک ہ اساتذ ہ بھ ی چوپایوں کی طرح‬
‫ان کے پیچھے چلتے ہیں اور صوفیت کانامعقول ماحول ہی بنیادی‬
‫محرک قرار پاتا ہے ۔‬

‫عقل کے زوال کی انتہاءصوفیاءشطح یعنی بکواس کہتے ہیں وہ یہ‬


‫کہہ ان کاکوئی شیخ نامعقول یا کفریہہ یا زندیقیہہ باتیں شروع‬
‫‪( 146‬الطبقات‪)87/1:‬‬
‫‪( 147‬الطبقات‪)140/1:‬‬
‫‪( 148‬ملحظہ ہو ثقافتنا از زکی نجیب)‬

‫‪67‬‬
‫کردے۔صوفیاءکہتے ہیں کہ اس نے حالت جذب یا حالت مستی میں‬
‫ایسا کہا اور ہوش کی حالت میں وہہ ان سےہ رجوع کرلیتا ہے‬
‫شطح کی تعریف میں کہا جاتا ہےہ ایسا کلمہہ جس پر رعونت‬
‫طاری ہو اور ایسا دعویٰہ جو عارفین سےہ حالت اضطرار‬
‫واضطراب میں صادر ہو‪149‬۔‬

‫ذیل میں ان کی بکواسیات کے کچھ نمونے درج ہیں ‪:‬‬

‫ابویزید بسطامی کہتا ہے‪:‬جہنم مجھےہ دیکھہ کر سرد پڑجاتی ہے‬


‫میں مخلوق کے لئے رحمت ہوں اور آگ جہنم کو تومیں اپنی پلک‬
‫جھپکا کر بجھاسکتا ہوں‪150‬۔‬

‫دسوقی علی العلن کہتاہے‪:‬جہنم کے دروازے اس کے ہاتھ میں ہیں‬


‫اور جو اس کی زیارت کر ے گا و ہ اس ے جنت الفردوس میں جگہ‬
‫دے گا‪151‬۔‬

‫ابوالحسن شاذلی دس سمندروں کا مجموعہہ ہےہ پانچ انسانی‬


‫ہیں‪:‬محمد ‪،‬ابوبکر‪،‬عمر‪،‬عثمان‪،‬علی ۔بقیہہہ پانچ روحانی ہیں‬
‫‪:‬جبرائیل‪،‬میکائیل‪،‬اسرافیل‪،‬عزرائیل اور روح‪152‬۔‬
‫اور احمد بن سلیمان الزاہد کی سفارش کو اللہ نے اس کے تمام‬
‫ہم عصر کے متعلق قبول کرلیا‪153‬۔‬

‫ان کی بکواسیات کے یہی چند نمونے کافی ہیں ان کی بکواسیات‬


‫اس لئق نہیں کہ ان پر تبصرہ کیا جائے اسلم کا مضبوط قاعدہ ہے‬
‫کہ ہم ظاہر پر حکم لگاتے ہیں توکسی کے لئے گنجائش نہیں کہ وہ‬
‫ان کےہ اقوال کےہ باطن کو ان کےہ ظاہ ر کےہ برعکس قرار دے‬
‫اسلم کو اس کی بکواس سےہ محفوظ رکھنا واجب ہےہ بلکہہ یہ‬
‫شرک ہے کیونکہ جو جہنم وجنت میں تصرف کا مدعی ہو بالفاظ‬
‫دیگر وہ الوہیت کا مدعی ہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ہمسر ہون ے کا‬
‫دعویدار ہے ۔ابن عقیل فرمات ے ہیں‪:‬ایسا کہن ے وال خوا ہ کوئی ہو‬
‫زندیق ہے واجب القتل ہے‪154‬۔‬

‫‪( 149‬شطحات الصوفیۃ از بدوی‪)22/1:‬‬


‫‪( 150‬تاریخ التصوف از عبدالرحمن بدوی)‬
‫‪( 151‬ھذہ ھی الصوفیۃ‪)121:‬‬
‫‪( 152‬لطائف المنین‪)57:‬‬
‫‪( 153‬الطبقات‪)82/2:‬‬
‫‪( 154‬تلبیس ابلیس‪)343:‬‬

‫‪68‬‬
‫پھ ر جب جنت دسوقی ک ے قبض ے میں ہے تو باطل پرست سوئے‬
‫رہیں مشقت کرنے ‪،‬تھکنے ‪،‬علم حاصل کرنے ‪،‬عبادت کرنے یا جہاد‬
‫کرنے کی کیا حاجت ہے محض شیخ کی زیارت اس ک ے لئے جنت‬
‫ک ے درواز ے کھول د ے گی کیا ی ہ بخشش کا نعم البدل نہیں ؟البتہ‬
‫ہم اللہ سے بخشش کے خواستگار ہیں ان کے اقوال نقل کرنے پر‬
‫بھی استغفار کرتے ہیں۔‬

‫دوسری فصل ‪:‬صوفیاءکی عملی‬


‫بدعات!‬
‫پہلی بحث‪:‬پسماندہ تربیت‬
‫انت اسیر فی قید المل والصوفی‬
‫انت ل تاخذ الحیاۃ عن حکمۃ القرآن‬
‫لیس لک بآیات القرآن شان‬
‫ال ان تموت بسھولۃ سورۃ یس‬
‫) محمد اقبال (‬

‫ترجمہ‪”:‬تو ملوصوفی کی قید میں ہے حکمت قرآنی س ے زندگی‬


‫نہیں لیتا آیات قرآنی میں تیرے لئے کچھ نہیں ال یہ کہ تو سورۃ یس‬
‫پڑھ کر باآسانی مرجائے گا“۔‬

‫صوفیاءنے اپن ے مریدوں کی تربیت ک ے ایسے قواعد بنائے ہیں جن‬


‫کا مقدمہ مرید کو شیخ کے سامنے بالکل ذلیل کردینا ہے کہ بیچارا‬
‫مرید ایک ڈول کھینچنےہ وال آلہہ بن جاتا ہےہ اس کی اپنی کوئی‬
‫شخصیت نہیں رہتی جو اس سےہ کہہہ دیاجائےہ وہہ اسےہ بلسوچے‬
‫سمجھے دہراتا رہتا ہے بلک ہ ی ہ اندھ ی چال ہے اور جب ی ہ پسماندہ‬
‫تربیتی مرحلہ ختم ہوتاہے وہ مرید کو ایک معین لباس ‪،‬معین ڈھنگ‬
‫‪،‬معین شیخ اور معین طریق کا گروید ہ بناچک ے ہوت ے ہیں اس کے‬
‫چند معروف قاعدے درج ذیل ہیں‪:‬‬

‫شیخ ک ے سامن ے ایسا بن جا جیسا غسل دین ے وال ے ک ے لئے‬ ‫‪-‬‬


‫میت۔‬
‫اعتراض نہ کر بھٹک جائے گا۔‬ ‫‪-‬‬
‫جس نے شیخ سے کہا کیوں وہ کامیاب نہ ہوا۔‬ ‫‪-‬‬
‫جس کا کوئی شیخ نہ ہو تو اس کا شیطان شیخ ہوتا ہے‬ ‫‪-‬‬

‫‪69‬‬
‫غافلین کی اکثریت شیخ کےہ پیچھےہ چلتےہ ہیں ان کےہ ہاتھوں کے‬
‫بوسے لیت ے ہیں ان سے سہمے رہت ے ہیں جب بھی و ہ انہیں دیکھیں‬
‫جب تک شیخ نہ بولے بولتے نہیں اس کی ہربات مانتے ہیں اس کی‬
‫جوتیاں اٹھات ے ہیں لوٹا اٹھات ے ہیں ۔ی ہ سب فلسف ہ و ہ اپنی کتابوں‬
‫میں ”آداب مریدین“ ک ے عنوان س ے لکھت ے ہیں کہت ے ہیں‪:‬اس کے‬
‫آداب میں شیخ کی ظاہرا ً وباطنا ً تعظیم کرنا بھ ی ہےہ اس کے‬
‫دشمن ک ے سات ھ مت بیٹ ھ اس ک ے دوست س ے عداوت ن ہ رک ھ اور‬
‫اپن ے دل میں آن ے وال کوئی خیال اس س ے مت چھپا (جس طرح‬
‫عیسائی چرچ میں اپنےہ گناہوں کا اعتراف کرتےہ ہیں )اس کی‬
‫اجازت کے بغیر نہ سفرکر نہ شادی کر ان سے سب سے بڑھ کر یہ‬
‫کہتےہ ہیں کہہ مرید پر شیخ سےہ سوال کرنا حرام ہےہ کیونکہہ بسا‬
‫اوقات شیخ جاہل ہوتا ہے اسے شرمندہ ہونا پڑتا ہے (اہل السنۃ کے‬
‫نزدیک آداب تعلیم و تعلم صوفیاءکےہ آداب سےہ یکسر مختلف‬
‫ہیں)تربیت کا یہہ انداز نیا نہیں قشیری آداب سےہ متعلق کہتا‬
‫ہے‪:‬جس کسی نے کسی شیخ کی صحبت اختیار کی پھر اپن ے دل‬
‫میں اس پری ہ اعتراض کیا تو اس ن ے عہ د صحبت کو توڑ ڈالاس‬
‫پر توب ہ کرنا واجب ہے مشائخ کہت ے ہیں ک ہ مشائخ ک ے حقوق سے‬
‫توبہ نہیں کی جاسکتی‪155‬۔‬

‫اسی طرز نےہ مشائخ میں غلو کا راستہہ کھول ابوالعباس کے‬
‫مطابق غزالی صاحب صدیقیت وصالحین عظمی تھا‪156‬۔‬

‫شیخ نجم الدین شیخ ابوالعباس مریسی ک ے پیچھے قبل ہ رخ نماز‬


‫پڑھنےہ میں شرم محسوس کرتا تھ ا چنانچہہ اپنا چہرہہ قطب کی‬
‫طرف پھیر لیتا لیکن ابوالعباس متواضع تھ ا وہہ کہتا میں خلف‬
‫سنت عمل سے خوش نہیں ہوتا‪157‬۔‬

‫گویا صرف خلف سنت ترک قبلہ کا اعتبار نہیں؟اور احمد شریف‬
‫السنوسی اپے چچا محمد المہدی سے شدید اعتقاد رکھتااور اس‬
‫سے اوپر سوائے محمد کے اور کسی کو نہ سمجھتا تھا‪158‬۔‬

‫تربیت کا یہ ی غلط طریقہہ باپوں میں بھ ی منتقل ہوگیا وہہ بھی‬


‫اپنی اولد کی جبری تربیت کرنےہ لگےہ جس سےہ بچےہ کی اپنی‬

‫‪( 155‬ھذہ ھی الصوفیۃ‪)101:‬‬


‫‪( 156‬لطائف المنن‪)77:‬‬
‫‪( 157‬لطائف المنن‪)74:‬‬
‫‪( 158‬حاضر العالم السلی ‪ 162/2:‬از شیکب ارسلن)‬

‫‪70‬‬
‫شخصیت کمزور پڑجاتی ہے۔اس انداز تربیت پر ہمارا تبصر ہ درج‬
‫ذیل ہے‪:‬‬

‫‪1‬مرید کی تربیت کے یہ آداب انتہائی مکروہ ہیں ایسا اس لئے کیا‬


‫جاتا ہےہ تاکہہ شیخ کی دین سےہ جہالت پر پردہہ ڈال جائےہ اور‬
‫احترام کےہ نام پر اس کےہ دل ودماغ کو مکمل کنٹرول میں‬
‫کرلیا جائےہ اور صوفیاءکا یہہ کہنا کہہ علم سینوں میں ہوتا ہے‬
‫کتابوں میںنہیں اس کی وج ہ ی ہ ہے کہ طلباءکو کتب فقہ وحدیث‬
‫س ے روکا جائ ے کیونک ہ اگر اس ن ے انہیں پڑھ ا تو اس کی عقل‬
‫کا بند درواز ہ کھ ل جائ ے گا اور شیخ ک ے دجل وفریب س ے آگاہ‬
‫ہوجائے گا۔‬

‫‪2‬رسول اللہہ ن ے اپن ے صحاب ہ کی ایسی کمینی تربیت نہیں کی‬


‫بلکہ ایسی تربیت کی جو انہیں قائد اور مرد میدان بناتی وہ اللہ‬
‫کے رسول سے سوال کیا کرتے کیا یہ وحی ہے یا مشورہ ورائے‬
‫اگر و ہ مشور ہ ورائ ے ہوتی تو و ہ بھ ی اپنا مشور ہ پیش کردیتے‬
‫جیسا کہہ سعد بن معاذ نےہ غزوہہ خندق میں کیا جب رسول‬
‫اللہہ ن ے قبیل ہ بنو غطفان س ے مصالحت کرنی چاہ ی نبی اپنی‬
‫حکیمانہ قیادت کے باوجود ان کی طرف توجہ دیتے اور ان سے‬
‫صورتحال کے متعلق تبادلہ خیال کرتے اور ان س ے یہ نہ کہت ے کہ‬
‫تم مجھہ پر کیوں کر رائےہ پیش کرسکتےہ ہوجبکہہ میں جملہ‬
‫مخلوق کا سردار ہوں اور رب العالمین کانمائندہہ ہوں؟اور‬
‫صحابہ بھی رسول اللہ سے باوجود شدید محبت کے آپ کے لئے‬
‫کھڑے نہ ہوتے نہ آپ کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے کیونکہ وہ جانتے تھے‬
‫ک ہ آپ بھ ی انسان کی تعظیم میں مبالغ ہ کوناپسند کرت ے ہیں‬
‫رسول اللہ کو اپنے صحابہ کی اسی حکیمانہ تربیت کا نتیجہ تھا‬
‫کہہ آپ کےہ بعد خلیفہہ اول ابوبکر صدیق لوگوں سےہ خطاب‬
‫کرت ے ہوئ ے کہت ے ہیں اگر میں غلط کروں تومجھے سیدھ ا کردو‬
‫اور فرمات ے اگر میں الل ہ کی کتاب میں اپنی رائ ے پیش کرنے‬
‫لگوں تو نہ آسمان مج ھ پر سایہ فگن ہوگا اورن ہ ہی زمین میرا‬
‫بوج ھ برداشت کر ے گی ۔جبک ہ صوفی ہ کہت ے ہیں ‪:‬ک ہ شیخ کا ہر‬
‫طریق ہ تسلیم کیاجائ ے جبک ہ شریعت ک ے مقابل کون سا طریقہ‬
‫ٹھہرسکتا ہے؟عمر بن خطاب دستوں ک ے قائدین اور علقوں‬
‫کےہ گورنروں کو لکھتےہ ہیں کہ‪”:‬لوگوں کو خوشامدی بناکر‬
‫انہیں ذلیل مت کرو“ کیونکہہ جو قوم پست ہ و اس میں خیر‬
‫نہیں ہوتی جیسا ک ہ قرآن کریم بنی اسرائیل کا قص ہ بیان کرتا‬
‫ہےہ کہہ وہہ فرعون کےہ غلم تھےہ جب موسیٰہ نےہ انہیں عزت‬

‫‪71‬‬
‫واکرام کا راستہہ دکھایا تووہہ کہنےہ لگےہ ‪”:‬تواور تیرا رب جاکر‬
‫لڑو ہم تو یہاں پسرے بیٹھے ہیں ‪”159‬‬

‫تابعین بھی اسی تربیت گاہ میں رہے چنانچہ وہ ناپسند کرتے تھے‬
‫کہ ان کے شاگرد ان کے پیچھے چلیں‪160‬۔‬

‫اور کہتے کہ تابع اورمتبوع دونوں کے لئے باعث فتنہ ہے‪161‬۔‬

‫صحابہ سے معروف نہیں کہ وہ رسول اللہ کے ہاتھ کا بوسہ لیتے‬


‫ہیں ایسابہ ت نادر ہے بعض علماءاس ے مطلقا ً حرام قرار دیتے‬
‫ہیں جیسےہ امام مالک ‪،‬امام سلیمان بن حرب کہتےہ ہیں یہ‬
‫چھوٹا سجد ہ ہے ۔انس بن مالک س ے مروی ہے کہت ے ہیں ‪:‬ہم‬
‫نے کہا یا رسول اللہ کیا ہم ایک دوسرے سے سہما کریں آپ نے‬
‫فرمایانہیں ‪162‬۔‬

‫‪3‬ہزاروں بیوقوں کا شیوخ ک ے پیچھے چلن ے کی وجہ حقیقت سے‬


‫فرار ہے ۔یا ایک دوسر ے کی دیکھا دیکھی ایسا ہوتا ہے کہ اپنی‬
‫مشکلت حل کرائیں ‪،‬میرے خیال میں یہ شرعی احکامات سے‬
‫دوری کا نتیج ہ ہے خاص کر تنگی اور تکلیف کی حالت میں ‪،‬‬
‫بعض لوگ محض شوقیہہ طور پر عجیب وغریب واقعات کو‬
‫سچا مان لیتے ہیں جبکہ حقیقتا ً وہ جھوٹے ہوتے ہیں‪163‬۔‬

‫دوسری بحث ‪:‬علم حدیث اور صوفیاء‬


‫صوفیاءکےہ لئےہ خاص کر متاخرین صوفیاءکےہ لئےہ علوم شریعت‬
‫خاص کر علم فق ہ وحدیث کا اہتمام بڑا ہ ی مشکل ہے کیونک ہ ان‬
‫علوم سےہ ان کی جہالت آشکارا ہوجائےہ گی اور جب یہہ فقہ‬
‫وحدیث ان مریدین ک ے دل ودماغ میں سماگئ ے تو کوئی ان کی‬
‫سیوا کرنے وال نہیں بچے گا جبکہ متقدمین صوفیاءعلوم شرعیہ کا‬
‫اہتمام کرتے تھے لیکن یا توان کی شخصیت دورنگی ہوتی تھی کہ‬
‫فقہہ واصول کےہ بھی عالم ہیں لیکن جب صوفیت کےہ متعلق‬
‫گفتگو کریں تو شخصیت ہ ی بدل جاتی جیس ے ابوحامد الغزالی‬
‫یاپھر اچھا خاصاعلم حاصل کرنے کے بعد اسے ترک کرچکا ہوگا کہ‬
‫علم عمل کے لئے وسیلہ ہے جب عمل کے میدان میں قدم رکھ دیا‬
‫‪( 159‬سورۃ المائدہ‪)24:‬‬
‫‪( 160‬کتاب العلم از زھیر بن حرب‪)146:‬‬
‫‪( 161‬کتاب العلم‪)138:‬‬
‫‪( 162‬سنن ابن ماجہ کتاب الدب‪)1220/2:‬‬
‫‪( 163‬کیف تفکر از منیر بعلبکی)‬

‫‪72‬‬
‫توعلم کی ضرورت نہہ رہی یہہ مغالطہہ ہےہ کیونکہہ مسلمان اپنی‬
‫زندگی کےہ آخری لمحہہ تک علم کا محتاج رہتا ہےہ احمد بن‬
‫ابوالحواری نے اپنی ساری کتابیں سمندر کے حوالے کرتے ہوئے کہا‬
‫کہہ تم بہترین دلیل تھیں (یعنی عمل کےہ لئےہ مگر چونکہہ اب‬
‫صوفیانہہ عمل ہےہ اس لئےہ تمہاری ضرورت نہیں۔نعوذ باللہہ من‬
‫ذلک)ابوحامد الغزالی علوم شریعت سےہ دور ہوکر علم کشف‬
‫جیس ے صوفیان ہ رجحان کو جائز قرار دیت ے ہوئ ے لکھتا ہے‪:‬جان لے‬
‫ک ہ صوفیاءالٰہیت کی طرف مائل ہوئ ے ہیں ن ہ ک ہ تعلیم کی طرف‬
‫اس لئے کہ وہ نہ علم حاصل کرتے ہیں نہ ہی اس کے شوقین ہوتے‬
‫ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ریاضتیں اور اللہ کی طرف دھیان اور مال‬
‫و اولد اور علم سےہ کٹ جانا اور صرف فرائض ورواتب پر‬
‫اقتصار کرنا ہ ی راحج طریق ہےہ وہہ ن ہ قرآن پڑھتےہ ہیں ن ہ حدیث‬
‫لکھتے ہیں ۔‬

‫ابن الجوزی غزالی ک ے اس کلم پر لکھت ے ہیں‪:‬اس کلم کا ایک‬


‫فقی ہ س ے صادر ہونا مج ھ پر بڑا گراں ہے اس کی قباحت مخفی‬
‫نہیں یہ درحقیقت بساط شریعت کو لپیٹ کررکھ دیتا ہے ‪164‬۔‬

‫جن اوہام کا و ہ شکار بن ے ان میں ان کای ہ کہنا بھ ی ہے کہ‪:‬ہ م اپنا‬


‫علم اس زندہ سے لیتے ہیں جو مرتا نہیں جبکہ اہل الحدیث اپناعلم‬
‫ایک کے بعد ایک مردے سے لیتے ہیں پھر اپنے شیخ کا یہ شیخ پڑھا‪:‬‬

‫اذا طالبونی بعلم الورق‬


‫برزت علیھم بعلم الخرق‬
‫ترجمہ‪”:‬جب و ہ مج ھ س ے کاغذی علم کا مطالب ہ کرت ے ہیں تومیں‬
‫انہیں خرق عادت(کرامت)کا علم دکھاتا ہوں“۔‬

‫حدیث سے اس صوفیانہ اعراض کے نتیجے میں انہوں نے ہ ر طرح‬


‫کی صحیح وسقیم سچی جھوٹی احادیث اپنی کتابوں میں بھرمار‬
‫کردی احیاءالقلوب اور الرسالۃ اور حقائق التفسیر بعض احادیث‬
‫ضعیف ہ وموضوع ہ جن س ے و ہ اپن ے مذہ ب کو ثابت کرت ے ہیں درج‬
‫ذیل ہیں ‪:‬‬

‫‪1‬بعض عارفین نے فرمایا‪:‬معرفت کا اول حیرت وآخر حیرت ہے‬


‫دلیل میں جھوٹی حدیث پیش کی کہہہ ‪:‬زدنی فیک‬
‫تحیّراً(یعنی)اپنی ذات متعلق مجھےہ مزید حیران کردے“۔ابن‬
‫‪( 164‬تلبیس ابلیس‪)323:‬‬

‫‪73‬‬
‫تیمیہ فرماتےہ ہیں ‪:‬جھوٹی حدیث ہےہ رسول اللہ فرماتےہ تھے‬
‫‪:‬رب زدنی علماًاے پروردگار مجھے علم میں زیادہ کر‪165‬۔‬

‫‪2‬محمد بن طاہر مقدسی نے مسئلہ سماع میں اس اعرابی کی‬


‫حدیث ذکر کی ہےہ جس نےہ درج ذیل ابیات میں نبی کی‬
‫تعریف کی ہے ‪:‬میر ے جگر کو خواہ ش کا سانپ چاٹ گیا اس‬
‫کا نہہ توکوئی معالج ہےہ نہہ ہی دم جھاڑکرنےہ والسوائےہ اس‬
‫محبوب کےہ جن س ے مجھےہ شغف ہےہ ان کےہ پاس میرا علج‬
‫اور تریاق ہے اور وہ محمد ہیں جب انہوں نے ان ابیات کو سنا‬
‫تو وہہ حاضر ہوگئےہ حتی کہہ آپ کےہ کندھےہ سےہ چادر بھی‬
‫گرپڑی۔ابن تیمیہ فرماتےہ ہیں ‪:‬یہہ جھوٹی اور موضوع حدیث‬
‫ہے‪166‬۔‬

‫معلوم نہیں کس طرح و ہ یہ سب روایت کردیت ے ہیں شاید سانپ‬


‫ان کی عقلوں کو چاٹ جاتا ہے نہ کہ ان کے دلوں کو ۔‬

‫‪3‬ایک حدیث یہ بھی ہے جسے انہوں نے روایت کیا ہے کہ ‪”:‬اگر تم‬


‫پتھر سے حسن ظن رکھو تو وہ بھی نفع دے “یہ شرکیہ کلم اور‬
‫صریح بہتان ہے ہ م ن ے یہ حدیث بعض صوفیاءس ے خود سنی ہے‬
‫وہ اس کے معتقد ہیں ۔‬

‫‪4‬اون کالباس پہنو اور خوب عمل کرو اور آدھاپیٹ خوراک کھاؤ‬
‫تم آسمانی بادشاہت میں داخل ہوجاؤگےہ ۔اس حدیث کو‬
‫ابوطالب المکی نے قوت القلوب میں ذکر کیا ہے ‪167‬۔‬

‫کیا اللہہ کےہ رسول ایسا کلم کرسکتےہ ہیں یہہ درحقیقت اپنے‬
‫عقیدے کہ اون کالباس پہننا چاہیئے کو ثابت کرنے کے بنائی گئی ہے‬
‫۔ان کی بیان کردہہ احادیث کےہ چند نمونےہ ہیں جن سےہ ان کی‬
‫کتابیں بھری پڑیں ہیں جیسے قشیری کی کتاب الرسالۃ اس میں‬
‫اس ن ے صحیح ‪،‬ضعیف اور موضوع ہ ر طرح کی احادیث روایت‬
‫کی ہیں اور فضل بن عبس الرقاشی سے روایت کرتا ہے جبکہ وہ‬
‫احادیث میں بالکل کمزوراور نااہل تھا ‪168‬۔‬

‫‪( 165‬فتاوی‪)384/11:‬‬
‫‪( 166‬فتاوی‪)563/11:‬‬
‫‪( 167‬التصوف از زکی مبارک‪)44/1:‬‬
‫‪( 168‬فتاوی‪)680/10:‬‬

‫‪74‬‬
‫مزید عجائب کےہ لئےہ احیاءالقلوب ملحظہہ ہ و جس کےہ مطالعے‬
‫سےہ معلوم ہوجائےہ گا کہہ انہیں علم وفقہہ وحدیث سےہ کچھہ لگاؤ‬
‫نہیں ہے بلکہ یہ سب انہوں نے دیوار پر دے مارا ہے۔‬

‫تیسری بحث‪:‬ہڈ حرامی اوربگاڑ‬


‫ابتداءً صوفیاءعبادت وریاضت میں واقعی سچے تھے اگرچہ ان کے‬
‫بعض اعمال خلف سنت بھی تھے جیسا کہ ہم ذکر کرآئے ہیں اس‬
‫کےہ بعد ایسےہ لوگ آئےہ جنہوں نےہ تکیےہ اور مسندیں بنائیں اور‬
‫عیش وآرام کی دوکانیں(آستانیں)کھول کر بیٹھہ گئےہ محنت‬
‫مزدوری سےہ جان چھڑا کر کھانےہ پینےہ اور رقص و سرور اور‬
‫ڈھول ڈھمک ے میں مست ہوگئ ے اور ہ ر ظالم وفاجر س ے دنیا کی‬
‫بھیک مانگنےہ لگےہ بشر المریسی کی بھوک اور سری کا خوف‬
‫خداوندی اور جنید کی مشقت کو کنار ے لگادیا(ملحظہ ہ و تلبیس‬
‫ابلیس)جبکہہ محض عبادت اور تنہائی کی غرض سےہ بھی اس‬
‫طرح کےہ آستانےہ (یعنی انسانی آبادی سےہ الگ جانےہ تنہائی یا‬
‫انسانی آبادی میں رہتےہ ہوئےہ بالکل الگ تھلگ جگہہ جس طرح‬
‫راہب کی کٹیا ہوتی ہے)بناکر ان میں تکیے لگادینا بدعت ہے کیونکہ‬
‫مسجدیں بناکر ان میں تکیے لگادینا یہ عیسائی راہبوں کی کٹیاؤں‬
‫سےہ مشابہت ہےہ ۔بعض صوفیاءسےہ جب کہاجاتا کیا تو اپنا جبہ‬
‫بیچ ے گا تو و ہ کہتا ہے اگر شکاری اپنا ہتھیار بیچ د ے توپھ ر شکار‬
‫کیسےہ کرےہ گاامام محمد حسن الشیبانی صوفیاءکےہ اس طرز‬
‫عمل سے بڑے حیران ہوتے کہ کیسے یہ لوگوں کے ہاں حلل وحرام‬
‫کی تمیز کئے بغیر کھانے جاتے ہیں‪169‬۔‬

‫صوفیاءیہہ بھول گئےہ یا بھولنےہ کا ڈرامہہ کرنےہ لگےہ کہہ اسلم اس‬
‫طرح ہڈ حرامی اور سستی کا مظاہر ہ کرت ے ہوئ ے کون ے کھدروں‬
‫میں جان ے س ے منع کرتا ہے اور زھ د ی ہ ہےہ کہہ لوگوں س ے لتعلق‬
‫ہوجایاجائے اور ان سے ان کے اموال میں سے کسی بھی شئے کا‬
‫سوال ن ہ کیاجائ ے کیونک ہ رسول اللہہ ن ے سوال کرن ے س ے منع کیا‬
‫ہے اور محنت مزدوری کاحکم دیاہے‪:‬‬

‫ارشاد فرمایا‪:‬اوپر وال ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ‪170‬۔‬

‫‪( 169‬الکسب‪)44:‬‬
‫‪( 170‬نسائی باب الزکاۃ‪)60/3:‬‬

‫‪75‬‬
‫نیز فرمایا‪”:‬اگر کوئی لکڑیوں کا گھٹااپنی پیٹھ پر رکھ کر اسے بیچ‬
‫آئ ے یہ اس بات س ے بہتر ہے ک ہ کسی س ے سوال کر ے اور وہ اسے‬
‫دے بھی دے“‪171‬۔‬

‫سعید بن مسیب تیل کے تاجر تھے اورابوحنیفہ کپڑا فروخت کرتے‬


‫تھے یہ بڑے علماءزہاد اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے ۔‬

‫ابتداء ً صوفیاءعورتوں س ے شادی نہ کرت ے اور اس پر سختی سے‬


‫کاربند رہتے مگر بعد کے صوفیاءعورتوں سے میل جول کرنے لگے‬
‫اور مرید ہ کوبھ ی طریقت میں اور ذکر کی مخلوط محافل میں‬
‫شامل کرن ے لگ ے کیونکہ باطنیت ک ے نظریہ اباحیت (یعنی ہ ر شئے‬
‫حلل کو جائز ہےہ حتی کےہ محرمات بھی)سےہ بہت قریب تھے‬
‫کیونک ہ نظری ہ وحدت الوجود جو بعد ک ے صوفیاءمیں مکمل پھیل‬
‫چکا تھا وہ اس اباحیت کی راہ سمجھاجاتا ہے کیونکہ ثواب وعقاب‬
‫کا تصور تو ناممکن ہوگیا تو اچھائی کی صورت میں کون ثواب‬
‫دے گا اوربرائی کرنے پر کون سزا دے گا؟جبکہ انسان خود ہی اللہ‬
‫کا جزءہےہ ۔یہہ اخلقیات کی جڑیں تک اکھاڑ پھینکنا ہے اسی لئے‬
‫بعض صوفیاءاخلقی گراوٹ والی اور انتہائی گھٹیا زندگی گزارتے‬
‫تھے ‪172‬۔‬

‫ابن فارض جو نظریہہ وحدت الوجود کےہ اکابرین میں سےہ ہے‬
‫قریبی بستی بہنساءمیں کچ ھ کنجریاں تھیں جن ک ے پاس و ہ جاتا‬
‫تھا اور وہ اسے گاکر سناتیں اور وہ عالم وجد میں دف کی تھاپ‬
‫پر نوجوان لڑکیوں کے ساتھ ڈانس کرتا ‪173‬۔‬

‫بعض معتدل صوفیاءاس صورتحال س ے ناخوش تھے جیس ے شیخ‬


‫ابوسعید اعرابی اپنی کتاب ”طبقات انسان“میں کہتا ہے‪:‬اس علم‬
‫کے متعلق کلم کرنے والوں میں آخری جنید تھے ان کے بعد ایسے‬
‫لوگ رہے جن کے تذکرے سے شرم آتی ہے‪174‬۔‬

‫نیز سہ ل التستری کہتاہےہ ‪300:‬ہجری ک ے بعد ہمار ے اس علم کے‬


‫متعلق کلم کرنا جائزنہیں کیونکہ پھر ایسے لوگ آئے جولوگوں کے‬
‫سامنے بنتے تھے ‪175‬۔‬

‫‪( 171‬نسائی باب الزکاۃ‪)93/3:‬‬


‫‪( 172‬التصوف از زکی مبارک ‪155/1:‬نیزالملل والنحل از ابن حزم ‪)226/4:‬‬
‫‪( 173‬جلءالعینین از آلوسی‪)75:‬‬
‫‪( 174‬الحفارۃ السلمیہ از آدم متز‪)39/2:‬‬
‫‪( 175‬الحفارۃ السلمیہ از آدم متز‪)39/2:‬‬

‫‪76‬‬
‫لیکن صوفیاءاپنےہ اس بگاڑ کےہ ساتھہ بڑھتےہ ہ ی رہےہ اور مانگنے‬
‫والے اور چاپلوسی بن گئے گویا بکری کی کھال میں بھیڑیے ۔‬

‫چوتھی بحث‪:‬سماع اور ذکر‬


‫ابتداء ً صوفیاءمحفل سماع میں حاضر ہوت ے جو کسی ایک خاص‬
‫مکان میں منعقد ہوتی اور ایک اچھی آواز وال کچ ھ موسیقی کے‬
‫ساتھ گاکر ایسے اشعار سناتا جس نے دل نرم ہوجاتے اور ان میں‬
‫زہ د کی ترغیب ہوتی پھ ر نرمی کرت ے ہوئ ے و ہ غزل اور لیلی ٰ اور‬
‫سعدیٰ کے تذکرے گانے لگے اور کہتے یہ کہ ہماری ان سے مراد اللہ‬
‫ک ے رسول ہیں ی ہ گان ے مطلق اور غیر معین محبت کا ہیجان پیدا‬
‫کرت ے چنانچ ہ ہ ر ایک اپن ے دل کی مانن ے لگا خوا ہ ملک و ہ قوم کی‬
‫محبت ہو یا عورتوں سے عشق۔‬

‫اس طرز کو انک ے لئ ے مباح قرار دین ے وال ے ابوحامد الغزالی اور‬
‫ابوعبدالرحمن السلمی وغیر ہ ہیں ان ک ے دلئل نہایت کمزور تھے‬
‫ان پر بہت سے علماءنے رد کیا جیس ے ابن جوزی اور ابن قیم نے‬
‫اغاثۃہ اللہفان میں خوب رد کیا ۔حقیقت اپنی جگہہ ہےہ کہہ امت‬
‫مسلمہہ ایک معتدل امت ہےہ اور اس گانےہ کو وہی حلل قرار‬
‫دیتاہے جو اسلم کو صحیح طور پر سمجھ نہ پائے ۔‬

‫معاملہہ صرف ان قصائد تک نہہ رہا بلکہہ ڈھول ڈھمکےہ کےہ ساتھ‬
‫رقص کرت ے ہوئ ے الل ہ کا ذکر کرن ے تک جاپہنچا جب ”حضر ۃ (مراد‬
‫اجتماعی محفل بناکر رقص کرتے ہوئے اللہ کا ذکر کیا جائے)منعقد‬
‫ہوتی توپہل ے آہست ہ آہست ہ لفظ الل ہ کا بیک وقت ورد کیا جاتا لیکن‬
‫جوں جوں رقص میں تیزی آتی اور شیطان ان کےہ سروں پر‬
‫منڈلن ے لگتا ان کی چیخیں انتہائی بلند ہوجاتیں اور لفظ الل ہ کے‬
‫بجائ ے لفظ ھوکا ورد ہون ے لگتا اس کےہ بعد سوائ ے شور شرابے‬
‫کےہ کچھہ سنائی نہہ دیتا ناس شہوانی چیخ وپکار میں عورتیں‬
‫اوربچےہ بھ ی شامل ہوتےہ ۔درحقیقت یہہ یہود کی اتباع ہےہ ان کے‬
‫عہ د قدیم کےہ گانوں میں یہہ بھ ی ایک ہےہ کہہ ‪”:‬صہیونی بچےہ اپنے‬
‫بادشاہہ کو خوش کریں اور دف کی تھال اور عود کی بو میں‬
‫سروں پر اس کی‬ ‫رقص کرتےہ ہوئےہ اس کانام لیں رباب کےہ ُ‬
‫تسبیح کرو‪،‬بلند جھنکار پر اس کی تسبیح کرو“ ۔‬
‫‪176‬‬

‫‪( 176‬ھذہ ھی الصوفیۃ‪)143:‬‬

‫‪77‬‬
‫قاضی عیاض کی” ترتیب المدارک “میں ہےہ کہہ ‪:‬تنیسی کہتا ہے‬
‫‪:‬ہ م امام مالک بن انس ک ے پاس تھے ان اردگرد ان کےہ شاگرد‬
‫تھے کہ اہل نصیبین میں سے ایک شخص کہنے لگا ‪:‬ہمارے ہاں کچھ‬
‫لوگ ہیں جنہیں صوفیاءکہا جاتا ہےہ وہہ کھاتےہ بہت ہیں اور پھر‬
‫قصائد گاتے ہیں پھ ر کھڑ ے ہوکر رقص کرن ے لگت ے ہیں؟امام مالک‬
‫ن ے کہ ا کیا وہہ چھوٹےہ بچ ے ہیں ؟اس ن ے کہ ا نہیں امام صاحب نے‬
‫فرمایا‪:‬ک ہ و ہ پاگل ہیں اس ن ے کہانہیں و ہ مشائخ اور باشعور ہیں‬
‫امام صاحب فرمان ے لگ ے ‪:‬میں ن ے کسی مسلمان ک ے بار ے میں‬
‫نہیں سنا کہ وہ ایسا کرتا ہو‪177‬۔‬

‫ان کےہ ان حرکتوں کی وجہہ یہہ بھی ہےہ کہہ نفس انسانی اپنی‬
‫خواہشات کو دین ‪،‬ذکر ‪،‬اور حضر ہ (محفل سماع ورقص)ک ے نام‬
‫سے چھپاتا ہے کیونکہ اگر کبھی اس کا پول کھل بھی جائے تب وہ‬
‫نافرمانی ہ ی کہلئ ے گی جو ک ہ بدعت س ے کم خطرناک ہے جبکہ‬
‫اللہ تعالیٰ نے ذاکرین کو اطمینان قلب ‪،‬خشوع وخضوع اور سری‬
‫ذکرکرنےہ کی صفات سےہ موصوف کیا ہےہ سلف صالحین جب‬
‫قرآن سنتے تو ان کے دل دہل جاتے اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے جبکہ‬
‫یہ رقص وطرب اس کے برعکس ہے اللہ نے جب عبادت کاحکم دیا‬
‫توی ہ نہیں فرمایا ک ہ جانوروں کی طرح کھاؤ پھ ر رقص کرن ے لگو‬
‫بلکہہ یہہ رقص جسےہ وہہ ذ کر کہتےہ ہیں اور اسی طرح کی تمام‬
‫امور عقل اور دین دونوں اعتبار س ے قبیح ترین ہیں بلک ہ ی ہ تمام‬
‫مسلمانان عالم کےہ لئےہ باعث شرم ہیں جیسا کہہ شاعر ان کے‬
‫متعلق کہتا ہے‪:‬‬

‫وحق النصیحۃ ان تستمتع‬ ‫ال قل قول عبد نصوح‬


‫بان الغناءسنۃ تتبع‬ ‫متی علم الناس فی دیننا‬
‫ویرقص فی الجمع حتی‬ ‫وان یاکل المرءاکل الحمار‬
‫یقع‬
‫وما اسکر القوم ال‬ ‫وقالوا‪ :‬سکرنا بحب اللہ‬
‫القصع‬
‫و(یسن) لو تلیت ما‬ ‫ویسکرہ النا¸ ثم الغنا‬
‫انصدع‬
‫ترجمہ‪”:‬خبردار خیرخوا ہ بند ے والی بات کر نصیحت کا حق اداکر‬
‫تاکہہ تیری بات کی طرف توجہہ دی جائےہ جب لوگوں(یعنی غیر‬
‫مسلمین)کو پتہ چلے گا کہ ہمارے دین میں گانا گایا جاتا ہے گدھوں‬
‫‪( 177‬ترتیب المدارک‪5/4:‬حقائق عن التصوف ک ے مؤلف ن ے ناکام کوشش کی ہے ک ہ امام مالک اور امام‬
‫شافعی صوفیاءکی تعریف کیا کرتے تھے جبکہ وہ ان سے بیزار تھے )‬

‫‪78‬‬
‫کی طرح کھانا کھایا جاتا ہے اور اکھٹے ہوکر رقص کیا جاتا ہے اور‬
‫وہ (صوفیاء)یہ کہتے ہیں کہ ہم معبود کی محبت میں مست ہوجاتے‬
‫ہیں جبکہ انہیں بانسری پھر گانا بجانا مست کردیتا ہے اور پھر اگر‬
‫ان پر قرآن پڑھاجائے تب بھی ختم نہیں ہوتا‪178‬۔‬

‫پانچویں بحث‪:‬صوفیاءاور جہاد‬


‫ابتدائی مسلمانوں کو جہاد کی تربیت دی جاتی تھی و باطل سے‬
‫ٹکرانےہ اور حق کا دفاع کرنےہ اور امر بالمعروف اورنہی عن‬
‫المنکر کرنےہ کےہ لئےہ ہمہہ تیار رہتےہ تھےہ اس طرح وہہ اللہہ کے‬
‫احکامات نافذ کرتےہ تھےہ اگر شر کو خیر سےہ دور نہہ کیاجائے‬
‫توزمین بگاڑ کا شکار ہوجائےہ سلف صالحین سرحدوں کا پہرہ‬
‫دیت ے تھے تاک ہ فضیلت جہاد کوحاصل کرسکیں مثل ً امام احمد بن‬
‫حنبل اور امام عبداللہہ بن مبارک انہوں نےہ فضیل بن عیاض کو‬
‫لکھا اور اسےہ سخت سست کہا کہہ وہہ مکہہ میں عبادت میں‬
‫مشغول ہے اور اسلمی سرحدوں کی حفاظت میں شریک نہیں‬
‫ہوتا ی ہ قص ہ مشہور ومعروف ہےہ تو اس اہ م موضوع س ے متعلق‬
‫صوفیاءکا کیا نظریہ ہے ؟‬
‫‪1‬ابوحامد الغزالی ن ے ”احیاءالعلوم الدین“اس وقت لکھ ی جب‬
‫صلیبی شام پر قابض تھے اس ن ے اس میں اس اعمال قلوب‬
‫سے متعلق سب کچھ لکھا مگر جہاد کے متعلق ایک سطر بھی‬
‫نہیں لکھی ۔‬

‫‪2‬جہاد س ے جان چھڑان ے ک ے لئ ے اپنی عادت ک ے مطابق و ہ ایک‬


‫موضوع اور ضعیف حدیث پیش کردیتے ہیں کہ ”ہم جہاد اصغر‬
‫سےہ جہاد اکبر کی طرف پلٹ آئےہ ہیں “اور جہاد اصغر سے‬
‫قتال فی سبیل الل ہ اور جہاد اکبر س ے جہاد بالنفس مراد لیتے‬
‫ہیں جبکہ رسول الل ہ کی سیرت طیبہ تو کچھ اور ہی کہتی ہے‬
‫اور ی ہ حدیث ثابت نہیں ہے اس میں واضح مغالط ہ دیا گیا ہے‬
‫جبکہہ ”جہاد فی سبیل اللہ“سےہ بڑھہ کر اور جہاد بالنفس کیا‬
‫ہوسکتا ہے اس سب کا مقصد محض مسلمانوں کو جہاد سے‬
‫روکنا اور جہاد سے جان چھڑانا ہے ۔‬

‫‪3‬وہہ اس سلسلےہ میں اللہہ کی تقدیر کونی کو دلیل بناتےہ ہیں‬


‫اورکہتےہ ہیں کہہ دشمن‪،‬بیماری اور فقر اللہہ نےہ جوبھ ی مقرر‬
‫کیاہےہ اس پر راضی رہنا چاہیئےہ اس لئےہ وہہ ظالم حکمرانوں‬

‫‪( 178‬اغاثۃ اللہفان از ابن قیم)‬

‫‪79‬‬
‫میں جاگھستے تھے اورکہتے کہ ‪:‬اللہ یہی چاہتاہے ہم اللہ کے ارادے‬
‫کی کس طرح مخالفت کریں لہٰذا ہر وقت حکمرانوں کی‬
‫سیوا کرتے رہتے خواہ وہ مومن ہوتا یا کافر صدیق ہوتا یا زندیق‬
‫‪179‬۔‬

‫مگر و ہ ی ہ بھول گئ ے ک ہ تقدیر کونی س ے تقدیر شرعی ک ے ذریعے‬


‫تعرض کیا جاسکتاہے مثل ً بیماری کا علج دوا س ے اور دشمن کا‬
‫علج جہاد سے ۔‬

‫‪4‬آج کل جبکہ اکثر اسلمی ممالک پر امریکہ برطانیہ اور فرانس‬


‫کا تسلط ہےہ اکثر صوفیاءاپنےہ اذکار واشغال میں اس طرح‬
‫جت ے پڑ ے ہیں جیس ے کچ ھ ہوا ہ ی نہیں بلک ہ ی ہ سوریا(شام) میں‬
‫برطانوی نمائندے جنرل سیبرس کے لئے مولَوِیت (یہ صوفیاءکا‬
‫ایک فرق ہ ہے جو جلل الدین رومی کی طرف منسوب ہے ان‬
‫کا شیخ لمبی سی ٹوپی پہنتا ہے )ک ے طریق پر محفل ذکر کا‬
‫اہتمام کرت ے ہیں اس محفل میں اس ے ان کا شیخ ہاشم عطیہ‬
‫(جوکہ طریقہ سعیدیہ اور بدریہ دونوں کا شیخ ہے)دعوت دیتا ہے‬
‫اور پھ ر اشعار پڑھے جات ے ہیں اور مولویت کا افتتاح کیا جاتا‬
‫پھ ر گھ ر کامالک اس کا اور اس ک ے دیگر رفقاءکا نام ل ے کر‬
‫تقریر کرتا اور جمہوری صدر اور بادشاہہ جارج سادس اور‬
‫مسٹر چرچل اور جنرل سیبرس کی تعریفیں کرتا آخر میں‬
‫جنرل کلمات تشکر اداکرتا ‪180‬۔‬

‫نیز الجزائر جہاں فرانس صوفیہہ کےہ مختلف طریقوں کی نہ‬


‫صرف حوصل ہ افزائی کرتا ہے بلک ہ انہیں محفل اذکار منعقدکرنے‬
‫اور اپنی عید ک ے موقعوں پر طبلوں اور جھنڈوں ک ے سات ھ نکلنے‬
‫کی کھلی چھوٹ بھی دیتا ہےہ اسی لئےہ وہاں آباد کاروں اور‬
‫صوفیوں کی ریفارمرز (مصلحین)ک ے مدمقابل حمایت کی جاتی‬
‫‪181‬‬
‫ہے‬

‫یہہ لوگ وہاں کےہ علماءکےہ اجتماعات میں حکومت فرانس اور‬
‫علقائی ناظم کےہ جاسوس بن کر جاتےہ تھےہ لیکن علماءانہیں‬
‫وہاں سے نکال دیتے (ایضاً)۔یہی وجہ ہے جزائز میں احیاءاسلم کے‬

‫‪( 179‬فتاوی‪)101/2:‬‬
‫‪( 180‬یومیات الجلیل از خلیل مردم بک ‪)62 :‬‬
‫‪( 181‬رسالۃ الشرک ومظاھرہ از مبارک المیلی نیز ملحظہ ہو مجلۃ الوطن العربی ‪09-11-1948‬میں تحریک‬
‫اصلح جزائر اور اجنبی جاسوسوں کے متعلق محمد المیلی کا مقالہ )۔‬

‫‪80‬‬
‫داعی شیخ عبدالحمید بن بادیس ن ے سب س ے پہل ے صوفیوں کے‬
‫خلف لڑائی لڑ جبکہہ وہہ شہ ر قسنطیہہ میں ایک بہ ت بڑےہ مجمع‬
‫میں قرآن کی تفسیر بیان کررہےہ تھےہ ایسےہ ہ ی امیر عبدالقادر‬
‫الجزائری نے فرانس کے خلف جنگ کی لیکن صوفیت سے متاثر‬
‫ہونے کی بناءپر جنگ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی اور قبضہ فرانس‬
‫کے خلف بغاوت کے دوران ہی شیخ اپنے بیٹے کو کمان سونپ کر‬
‫علیحد ہ ہوگئ ے کیونک ہ ان کا فرانس س ے معاہد ہ تھ ا ک ہ تاحیات ان‬
‫کے خلف ہتھیارنہیں اٹھائیں گے‪182‬۔‬

‫اور جب انہیں دمشق میں جلوطن کردیا گیا اور و ہ وہاں جاکر‬
‫رہنے لگے توپھر سے وہاں ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود سے‬
‫بھ ر پورافکار کی نشر واشاعت پیش پیش رہنےہ لگے۔ہندوستان‬
‫میں ‪ 1857‬ک ے انقلب ک ے بعد جب مسلمان انگریز کی مخالفت‬
‫پر کمربستہ ہوگئ ے اس انقلب میں مسلمان علماءکی کثیر تعداد‬
‫شہید کردی گئی جن میں محدث حسن دہلوی بھی تھے اس دور‬
‫میں احمد رضاخان بریلوی طریق ہ بریلویت کا بانی ایک مستقل‬
‫کتاب بنام اعلم العلم بان ہندوستان دارالسلم (یعنی سب سے‬
‫بڑا اعلن کہہ ہندوستان دارالسلم ہے)لکھتا ہے‪:‬اور اس میں‬
‫ہندوستان کو دارالسلم قرار دیتا ہے جو برطانیہ کی خدمت کرے‬
‫اور اس میں کفارکےہ خلف جہاد نہہ کیاجائےہ پھر صراحتا ً کہتا‬
‫ہے‪:‬قرآنی نصوص کی رو سےہ ہم مسلمانان ہند پر جہاد فرض‬
‫نہیں اور جو ایسا کہے و ہ مسلمانوں کا مخالف اور انہیں نقصان‬
‫پہنچانا چاہتا ہے‪183‬۔‬

‫یہی وجہہ ہےہ کہہ امام ابن تیمیہ صوفیاءکےہ متعلق فرماتےہ ہیں‬
‫‪:‬صوفیاءجہاد س ے اوروں کی نسبت زیاد ہ دور ہیں حتی ک ہ عوام‬
‫الناس میں ہمیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے محبت کرنا‬
‫اور محارم اللہہ پر غیور ہونا اور غضبناک ہوجانا بکثرت ملتا ہے‬
‫مگران میں ذرا بھ ی نہیں ملتا بلکہہ اکثر صوفیاءجہاد کو اسلم‬
‫میں نقص اور عیب تصور کرتے ہیں ‪184‬۔‬

‫ان کا یہہ کہنا ہےہ کہہ ذکر وتدبر اور فناءوبقاءہ ی اصل اور اہ م ہے‬
‫صوفیاءکے مذکورہ افعال واقوال ذکرکرنے کے بعد ہم یہ کہنے میں‬
‫حق بجانب ہیں ک ہ صوفیان ہ طرز تربیت فکر جہاد وقتال س ے بہت‬
‫دور ہے کیونک ہ ان ک ے نزدیک روحانی ریاضتیں ہ ی اصل دین ہیں‬
‫‪( 182‬حاضر العالم السلمی از شیکب ارسلن‪)172/2:‬‬
‫ﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲ‪)43:‬‬
‫‪( 183‬البریلویہ از علمہ احسان الٰہی ظھیر رحمہ ا‬
‫‪( 184‬الستقامۃ از ابن تیمیۃ رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ‪)268/1:‬‬

‫‪81‬‬
‫اور یہہ ریاضتیں اس وقت تک ختم نہیں ہوتیں جب تک وہہ درجہ‬
‫فناءتک نہہ پہنچ جائیں اور جب وہہ فناءہ و جائےہ گا تو جہاد کیسے‬
‫کرے گا؟‬

‫یہ ان کی عام اور غالب حالت ہے وگرنہ بعض صوفیاءنے ظالم کے‬
‫خلف موافقت بھی کی ہے لیکن ان کی اکثریت ظالم کی حامی‬
‫ہی رہی ہے اسی لئے کہاجاتا ہے کہ جب مسلمان سیاسی طور پر‬
‫کمزور ہوئ ے تو صوفیوں کا کوئی ن ہ کوئی شعر ضرور سامن ے آتا‬
‫ہے‪185‬۔‬

‫آج کل کے صوفیاء‬
‫کیا صوفیاءبدل گئ ے او رکچ ھ ہ م ن ے ان ک ے متعلق سابق ہ صفحات‬
‫میں لکھا ہےہ مثل ً وحدت الوجود ‪،‬مشائخ میں غلو ‪،‬اقطاب‬
‫واوتاد‪،‬بدعات ومعصیات کیاانہوں ن ے ی ہ سب چھوڑ دیا؟حقیقت یہ‬
‫ہے کہ اب بھی وہ ان تمام خرافات وبکواسیات کو مکمل طور پر‬
‫تھامےہ ہوئےہ ہیں اور ان افکار کوعالم اسلم میں پھیلرہےہ ہیں‬
‫جیسےہ شاذلیت‪،‬نقشبندیت‪ ،‬رفایت‪ ،‬قادریت‪ ،‬تیجانیت‪ ،‬بریلویت‪،‬‬
‫سہروردیت‪. ...‬وغیرہہ ان صوفیاءمیں وہہ جاہ ل عوام بھ ی شامل‬
‫ہیں جو اجتماعی ذکر وسماع اور حضرت صاحب کی برکات کے‬
‫سوا ان ک ے متعلق کچ ھ نہیں جانت ے ان میں س ے بعض غالی بھی‬
‫ہیں جو ابن عربی کا نظریہہ وحدت الوجود مانتےہ ہیں ان میں‬
‫بعض فقی ہ علماءبھ ی ہیں جن ک ے لئ ے ان کی طرف نسبت کرنا‬
‫مجبوری ہے وگرن ہ و ہ نامکمل اور ناقص رہت ے ہیں چنانچ ہ ضروری‬
‫ہے ک ہ مذہ ب میں شافعی اور طریقت میں شاذلی ہو‪....‬علی ہذا‬
‫القیاس‬

‫م یہ دیکھتے ہیں کہ ایسے علماءاگرچہ ان کے ماحول میں چلتے ہیں‬


‫مگر ان ک ے تمام عقائد تسلیم نہیں کرت ے لیکن رسم ورواج کو‬
‫توڑنے سے ڈرتے اور گھبراتے ہیں۔‬

‫ایک صوفی مکہ میں مسجد حرام میں قبلہ رخ بیٹھا کرتا تھا لیکن‬
‫اس کے مرید مکمل خاموشی سے اپنے پیر کی طرف متوجہ ہوتے‬
‫کیونکہ ان کے لئے پیر کا درشن بھی عبادت ہے جبکہ وہ درس بھی‬
‫نہیں دے رہا ہوتا۔اور جونہی وہ مجلس سے اٹھتا وہ اس کی طرف‬
‫لپکتے ایک اس کی جوتیاں اٹھاتا تو دوسرا اس کی لٹھی اور اس‬

‫‪( 185‬اسرار ورموز از محمد اقبال مترجم عبدالوہاب عزام)‬

‫‪82‬‬
‫کےہ پیچھےہ ایسےہ چلتےہ جیسےہ انہیں سانپ سونگھہ گیا ہو کیا یہ‬
‫اسی تربیت کا شاخسانہہ نہیں جس کےہ متعلق ہ م گفتگو کرآئے‬
‫ہیں ۔‬

‫شام ہی کاایک اور پیر اپنے مریدوں میں شاذلی ”اور اد“ تقسیم‬
‫کرتا جن کا پہل حصہہ ہمیشہہ یہہ ہوتا کہہ ‪”:‬یا اللہہ مجھےہ توحید کے‬
‫حالوں میں کھینچ لےہ اور مجرد وحدت میں غرق کردےہ “کیایہ‬
‫عین وحدت الوجود نہیں ؟‬

‫اور جامعہہ ازہر کےہ سابق شیخ عبدالحلیم محمود نےہ اپنےہ آقا‬
‫ابوالعباس المریسی ک ے متعلق کتاب لکھنی چاہ ی تو پہل ے بدوی‬
‫کی قبر پر جاکر اجازت چاہ ی اجازت ملی توکتاب لکھ ی (اس‬
‫کی کتاب کا مقدمہ ملحظہ ہو)اور پھ ر اس ے ہندوستان میں کسی‬
‫مزار کی زیارت اور وہاں محفل ذکروسماع میں شرکت کی‬
‫دعوت دی جاتی ہےہ تو وہہ چلجاتا ہےہ کیا اسےہ نہیں معلوم کہ‬
‫رسول اللہ نےہ اس سےہ منع فرمایا ہےہ کیا صوفیاءنہیں جانتےہ کہ‬
‫رسول اللہہ نےہ قبروں پر تعمیر کرنےہ سےہ منع فرمایا ہےہ تو وہ‬
‫کیوں آپ کےہ احکامات کی پابندی نہیں کرتےہ جب کہہ آپ سے‬
‫محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں یہ خواہش ہی ہے جو ان کی عقل‬
‫اور دین دونوں کا ستیاناس کردیتی ہے۔‬

‫طریق رفاعی ک ے مریدوں کا اب بھ ی ی ہ طریق ہ ہے ک ہ وہہ محفل‬


‫ذکر وسماع میں جاکر اپن ے جسم کو تیز گرم آل ے پر مارت ے ہیں‬
‫اور جب اثر نہیں ہوتا تو وہاں موجود اس ے اس کی کرامت مانتے‬
‫ہیں اور اگر وہہ فاسق ہوتا ہےہ تو کہتےہ ہیں یہہ شیخ طریقت کی‬
‫کرامت ہے۔‬

‫جب آپ شام کےہ شمالی حصوں میں جائیں یا مصر یا مغربی‬


‫ممالک میں تو وہاں اس رفاعی طریق کی پہلوانیت کو ملحظہ‬
‫کریں گےہ اور مصر میں بدوی یا حسین کےہ میلد میں کیا کچھ‬
‫نہیں ہوتا ڈھول کی تھاپ اور سارنگی کی سروں پر ڈانس ہوتا ہے‬
‫مرد وزن کا اختلط ہوتا ہے فرائض کی کچ ھ پرواہ نہیں کی جاتی‬
‫اس سے اہل اسلم پشیمان ہیں ان کادین اس سے بری ہے جامعہ‬
‫ازہر اس کے برابر میں ہی ہے لیکن کوئی روکنے وال نہیں مسجد‬
‫حسین میں نماز ہوتی ہےہ لیکن محفل میں شرکت کرنےہ والے‬
‫نماز نہیں پڑھت ے کیونک ہ و ہ اس لئ ے تھوڑی ہ ی آت ے ہیں بلک ہ و ہ تو‬
‫محفل حسین میں شریک ہونے آتے ہیں نہ کہ نماز پڑھنے ۔‬

‫‪83‬‬
‫مصر میں تمام طریقوں کا ایک بڑا شیخ ہےہ صوفیاءکا مجلہ‬
‫شمار ہ نمبر ‪57‬میں ہے ک ہ طریق ہ حامدی ہ اور طریق ہ شاذلی ہ ن ے اپنے‬
‫آقا ابراہیم سلمہ الراضی کے تذکرے کے لئے ایک بہت بڑی محفل‬
‫کا اہتما م کیا جس میں شیخ المشائخ کو حاضری کی دعوت دی‬
‫لیکن انہوں ن ے معذرت کرلی کہہ وہہ بدوی کی محافل میلد میں‬
‫مشغول ہیں اور پھر اس کا اگل شمارہ عید میلد کی محافل کے‬
‫ذکر س ے بھ ر پڑا تھا‪....‬ان ک ے دن رات اسی طرح کی محفلوں‬
‫اور تقاریب میں گزرت ے ہیں جو کبھ ی ختم نہیں ہوتیں ہ ر طریق‬
‫کی اپنی محفلیں ہیں‪....‬‬

‫مصر میں کس قدرلطیف ے ہیں لیکن ان پر ہنسن ے ک ے بجائ ے رونا‬


‫آتا ہے ۔افریق ہ میں تونہایت ہ ی براحال ہے وہاں ک ے مغربی حصے‬
‫پر خاص طورپر سینیگال میں طریق ہ تیجانی ہ پور ے طور پر چھایا‬
‫ہوا ہے اور ان کے بے عقلی اور گمراہی کے لئے کافی دلیل طریقہ‬
‫تیجانیہ کے بانی کا یہ قول ہی ہے ‪:‬جس نے جمعہ اور پیر کو ہماری‬
‫زیارت کی وہ جنت میں بلحساب داخل ہوگا‪186‬۔‬

‫نیز کہتا ہے‪:‬میں نےہ نبی سےہ سفارش کی کہہ جو بھ ی مجھہ سے‬
‫وردسیکھ لے آپ اس کے پچھلے سارے گناہ معاف فرمادیں‪187‬۔‬

‫کیا یہہ بےہ راہہ روی اور شرعی ذمہہ داریوں سےہ فرار کا دعوی‬
‫نہیں ؟‬

‫مشرق میں بھی حالت بری ہےہ ہندوستانیوں (وپاکستانیوں)کو‬


‫مبالغہ آمیز اور عجیب وغریب قصے سنا سنا کر دھوکہ دیا جاتا ہے‬
‫اور وہاں بریلویت پاکستان تک پھیل چکی ہے وہاں اس ک ے ماننے‬
‫وال ے بہ ت س ے ب ے وقوف اور احمق ہیں اور اس کی بنیاد رسول‬
‫اللہہ کی ذات میں غلو اورعقید ہ اہ ل السن ۃ کی مخالفت ہے (ان‬
‫کے ہ متعلق استاذ احسان الٰہی ظہیر نے ہ ”البریلویہ ہ عقائد‬
‫وتاریخ“لکھ ی ہےہ اس میں ان کےہ فساد وگمراہ ی کا خوب پول‬
‫کھول ہے)اس طریق کا بانی احمد رضا عقیدہ توحید سے دور منہج‬
‫صوفیاءکی وضاحت کرتےہ ہوئےہ کہتا ہے‪:‬جب تم میدان میں ہوتو‬
‫اصحاب قبور سے مدد لو‪188‬۔‬

‫‪( 186‬التیجانیۃ از علی دخیل اﷲ ﷲ‪)238:‬‬


‫‪( 187‬التیجانیۃ از علی دخیل اﷲ ﷲ‪)238:‬‬
‫‪( 188‬البریلویۃ‪)60:‬‬

‫‪84‬‬
‫نیز رسول اللہ کےہ متعلق غلو کرتےہ ہوئےہ کہتا ہےہ ‪:‬نبی ہر جگہ‬
‫تصرف رکھتےہ ہیں وہہ ساتوں زمینوں کےہ بادشاہہ اورلوگوں کے‬
‫مالک ہیں‪189‬۔‬
‫لیکن ہندوستان کےہ مسلمانوں یعنی اہ ل الحدیث کا دشمن تھا‬
‫انہیں گالیاں دیتا اور شاہہ اسماعیل شہید دہلوی جیسےہ قائد کو‬
‫گالیاں دیتا جو سکھوں کے خلف ایک معرکے میں شہید ہوئے۔‬

‫آخر میں ایک سوال ضروری ہے ک ہ استشراقی حلقے صوفیت کو‬


‫اس قدر اہمیت کیوں دیتے ہیں؟بلکہ یہ کہنا چاہیئ ے کہ صوفیت سے‬
‫متعلق جدید مباحث کا منبع مستشرقین ہیںجو صوفیت کے‬
‫موضوعات پر حاشی ے لکھت ے ہیں اور اس س ے متعلق کتب چھپوا‬
‫کر تقسیم کرواتےہ ہیں ۔‪1854‬میں المانیہہ تائیہہ ابن فارض کا‬
‫اطالوی زبان میں ترجمہہ کردیا گیا۔ایسےہ ہی ‪1917‬میں روم میں‬
‫اٹالین میں اس کا اکینترو نےہ اس کا ترجمہہ کیا اور ‪1921‬میں‬
‫نیکلسن نے انگریزی میں اس کا ترجمہ کیا‪190‬۔‬

‫اور فرانسیسی مستشرق ماسینون نے اپنی پوری زندگی حسین‬


‫ابن منصور حلج کی کتب کے لئے وقف کردی کہ جس کے واجب‬
‫القتل ہون ے کا علماءن ے فتوی ٰ دیا تھ ا کیونک ہ و ہ حلول کا قائل تھا‬
‫اور ماسینون نےہ حلج کےہ متعلق تین جلدوں پر مشتمل ایک‬
‫کتاب بھی لکھی ۔‬
‫(دیوان حلج کی شرح کےہ مقدمےہ میں کامل مصطفی الشیبی‬
‫لکھتا ہےہ کہہ ‪:‬قیس سریانی عراقی جو اب پیرس میں مقیم ہے‬
‫اور جسے دھان الموصلی کہا جاتا ہے اس نے بتایا ہے کہ مستشرق‬
‫لویس ماسینون نےہ ‪ 1953‬ک ے موسم بہار میں اس کی ذم ہ داری‬
‫لگائی کہ حسین بن منصور حلج کی روح کو ایصال ثواب کے لئے‬
‫اس کی وفات ک ے دن دارالحکومت فرانس ک ے اس گرج ے میں‬
‫جس کا میں آفیسر ہوں نماز پڑھے موصلی کہتا ہے کہ میں اس کا‬
‫مطالب ہ سن کر دنگ ر ہ گیا اورمیں ن ے کہ ا ک ہ حلج تومسلمان تھا‬
‫تو و ہ کہن ے لگا حلج صوفی تھ ا روحانی شخصیت تھ ا اور مختلف‬
‫مذاہ ب اس کےہ نزدیک اہمیت نہیں رکھتےہ تھےہ ۔ملحظہہ ہ و مجلہ‬
‫حوادث نمبر ‪1420‬میں مقالہ جسے جہاد فاضل نے لکھا ہے)‬

‫مستشرقین نےہ فقط ”صوفیت“اور ان میں غالی صوفیاءکو‬


‫منظر عام پر لنے کا اہتمام نہیں کیا بلکہ دیگر تمام فرق ے جیسے‬

‫‪( 189‬البریلویۃ‪)69:‬‬
‫‪( 190‬تاریخ التصوف از بدوی ‪)30 :‬‬

‫‪85‬‬
‫معتزلہہ ‪،‬شیعہہ اور خوارج کی بھی مکمل سرپرستی کرتےہ ہیں‬
‫دراصل وہ ہ مسلمانوں کی درخشندہ ہ تاریخ کا ایک دوسرا‬
‫اوربھیانک رخ مسلمانوں ک ے سامن ے لنا چاہت ے ہیں اور ا س کے‬
‫ذریع ے مسلمانوں کو اسلم س ے متنفر کرنا چاہت ے ہیں حالنک ہ ہم‬
‫اس صوفیت وتفرقہ بازی کو اسلم کی تاریخ توکیا اسلم کا حصہ‬
‫بھی نہیں مانتےہ چہہ جائیکہہ اسےہ وہہ اپنےہ مقاصد مذمومہہ کےہ لئے‬
‫استعمال میں لسکیں کسی فرد کی برائی اسلم کو برانہیں‬
‫کرسکتی ۔‬

‫اختتامی کلمات‬
‫آخر میں آپ کو شدت سے انتظار ہوگا کہ آخر ہمارے بیان کردہ ان‬
‫تمام حقائق کے پیچھے وہ کون سے محرکات کارفرماتھے جس نے‬
‫تفرقہ بازی کی آگ کو ہوا دی اور صراط مستقیم سے دوری میں‬
‫اضاف ہ ہوتاگیا اورلوگ منہ ج اہ ل السن ۃ والجماع ۃ س ے اعراض کرنے‬
‫لگے اس کے لئے ہم چند مشترک عوامل ومحرکات کا تذکرہ کریں‬
‫گ ے ک ہ جس ن ے صوفیت کو حالی ہ صورت تک پہنچایا ہے اور اسے‬
‫ایسی بنیادیں فراہ م کیں جن کی بناءپر و ہ دیگر فَِرق س ے ممتاز‬
‫ہوگئی اس طرح ایک مسلمان کے لئے خیر اور شر میں تمیز اور‬
‫فرق کرنا اور عصر حاضر کے حقائق اور اس کے داعیان حق کو‬
‫داعیان باطل سےہ الگ کرنا آسان ہوجائےہ گا ان عوامل کو ہم‬
‫مختصر طور پر بیان کریں گے‬

‫‪1‬شرعی علوم سےہ نامکمل واقفیت‪:‬ابن جوزی فرماتےہ ہیں‬


‫‪:‬شیطان نے انہیں سب سے پہلے اس فریب میں مبتل کیا کہ وہ‬
‫کہن ے لگ ے ک ہ مقصد عمل ہے اور ہ م ہم ہ وقت الل ہ ک ے ذکر اور‬
‫اس کی عبادت میں مصروف رہت ے ہیں دنیا کو چھوڑ کر اللہ‬
‫کی طرف متوجہ ہوچکے ہیں ۔یہی تصور بتدریج علم کے روشن‬
‫چراغ کو بجھانےہ لگا تاآنکہہ وہہ علم شرعی سےہ اعراض کرنے‬
‫لگ ے جبک ہ وہ ی صحیح عمل کی بنیاد ہے جیس ے فق ہ ‪،‬حدیث اور‬
‫تفسیر کےہ علوم ان پر جہالت چھاگئی نتیجتا ً وہہ بدعات‬
‫وخرافات میں پڑگئےہ اکثر صوفیاءکی عبادات خاص کی عام‬
‫صوفیاءکی بدعات ہیں اس کی وجہہ وہہ مغالطےہ ہیں جو ان‬
‫مشائخ ان کے لئے مزین کرکے پیش کرتے رہے۔‬

‫‪2‬تاویل وتحریف‪:‬تمام فرقوں کی مشترکہ مصیبت و نصوص کے‬


‫ظاہ ر ومتبادر(یعنی ظاہری مفہوم)سےہ اعراض کرتےہ ہیں اور‬

‫‪86‬‬
‫ان کی ایسی تحریف وتاویل کرتےہ ہیں جونصوص سے‬
‫مناسبت نہہ رکھتی حتی کہہ وہہ ان سےہ اپنےہ باطل اقوال‬
‫ونظریات ثابت کرنےہہ لگتےہہ جیساکہہہ شریعت وحقیقت‬
‫(طریقت)کی بحث میں قرآنی تاویل وتحریف کی بہ ت سی‬
‫مثالیں ملحظہہ کرچکےہ ہیں انہیں یہہ دھوکہہ دیاگیا کہہ یہہ تاویل‬
‫وتحریف آیت قرآنی کا مفہوم مخالف ہے (یعنی باطنیت)جس‬
‫کاادراک صرف خواص ہ ی کرسکتےہ ہیں جبکہہ یہہ باطنیت اور‬
‫اہل کتاب کا طریقہ ہے اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرماتا ہے ‪:‬من‬
‫الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ(یعنی )یہود جو کلمات‬
‫(احکامات)کو ان کےہ مقامات (درست معانی)سےہ بدل ڈالتے‬
‫ہیں‪ 191‬۔‬

‫‪،‬‬ ‫غلو‪:‬اقطاب‬ ‫(پیرصاحبان)کےہہہہہ متعلق‬ ‫‪3‬مشایخ‬


‫اوتاد‪،‬اولیاء‪،‬کرامات اور ان سے متعلق صوفیانہ عقائد‪،‬اور اسی‬
‫طرز کی پسماندہہ صوفیان ہ تربیت جس میں مرید اور شاگرد‬
‫کو پیر اور صاحب طریقت اور شیخ کے سامنے بالکل ہی ذلیل‬
‫وحقیر کردیا جاتا ہے ان امور س ے متعلق گفتگو میں بہت کچھ‬
‫لکھ چکے ہیں یقینا یہ تصوف کی سب گھٹیا صفت ہے اور شیعہ‬
‫اور نصاریٰ سے مشابہ ہے شیعہ اپن ے اماموں اورنصاریٰ مسیح‬
‫کی ذات میں اسی طرح کاغلو کرتےہ ہیں اور انہیں مرتبہ‬
‫الوہیت پر فائز کرتے ہیں یہی و ہ عمل ہے جس س ے رسول اللہ‬
‫ن ے اپنی امت کو ڈرایا اوربچایا ارشاد فرمایا‪:‬ل تطرونی کما‬
‫اطرت النصاری عیسی ابن مریم انما انا عبدا ﷲ ورسولہ میرے‬
‫بارےہ میں غلو نہہ کرنا جس طرح عیسائیو ں نےہ عیسیٰہ بن‬
‫مریم ک ے بار ے میں غلو کیا درحقیقت میں الل ہ کا بند ہ اوراس‬
‫کا رسول ہو(بخاری)۔اگر ہمار ے علماءمیں کوئی مفسد ہے تو‬
‫و ہ یہود ک ے مشاب ہ ہے اور اگر ہمار ے عابدین میں کوئی مفسد‬
‫ہےہ تو وہہ نصاریٰہ سےہ مشابہہ ہےہ اور حق پر وہہ ہےہ جسےہ اللہ‬
‫توفیق دے اور غلو یہودونصاریٰ کی مشابہت سے نجات دے ۔‬

‫‪4‬منہج سلف صالحین سےہہ دوری‪:‬صوفیانہہہ بدعتی اعمال‬


‫واعتقادات کا لزمی نتیج ہ ی ہ ہوا ک ہ و ہ اہ ل السن ۃ والجماع ۃ اور‬
‫صحابہہ وتابعین کےہ منہج عمل وعقیدہہ سےہ دور ہوگئےہ مقام‬
‫سلفیت سےہ گرپڑےہ اگرچہہ یہہ ماننےہ کےہ لئےہ تیار نہیں کیونکہ‬
‫صوفیاءسمجھتےہ ہیں کہہ اہل السنۃہ صرف سطحی اسلم کو‬
‫جانتے ہیں جبکہ ان کے مشائخ حقیقی اسلم کو اسی لئے وہ ان‬
‫‪( 191‬النساء‪)46:‬‬

‫‪87‬‬
‫اقوال واعمال س ے الل ہ کا قرب حاصل کرت ے ہیں جن س ے ان‬
‫س ے پہل ے وال ے نہیں کرسک ے اورو ہ ان مراتب تک جاپہنچ ے جن‬
‫تک ان سےہ پہلےہ والےہ سابقین اولین نہیں پہنچ پائےہ لہٰذا اس‬
‫کاانجام یہہ ہوا کہہ وہہ بوقت اختلف منہج صحابہہ وتابعین کی‬
‫طرف رجوع نہہ کرتےہ اور امت کےہ بہترین طبقےہ سےہ استفادہ‬
‫کرنے سے محروم کردیئے گئے۔‬

‫‪5‬تصوف اور تشیع ک ے مابین تعلق‪:‬صوفیت کا شیعیت س ے بڑا‬


‫گہرا رشتہ ہے ان دونوں کا دھیان صحابہ میں سے علی بن ابی‬
‫طالب اور حسن بن علی پرہی رہتا ہےہ جو کہہ صوفیاءکے‬
‫نزدیک سب سے پہلے قطب ہیں‪ 192‬۔‬

‫اور صوفیاءکی اقطاب اور اوتاد کی تقسیم بھ ی اسماعیلیت‬


‫اور شیعیت سے مشابہت کی بنیاد پر ہے‪193‬۔‬

‫ان دونوں فرقوں (صوفیت اور شیعیت)کےہ رونما ہونےہ کی‬


‫وجوہات اور ان ک ے مزاج قریب قریب ہیں شیع ہ سیاسی میدان‬
‫میں سرگرم رہے اور صوفیہ میدان زندگی میں اور تمام مسلمان‬
‫اقوام میں سب سے زیادہ صوفی اہل فارس میں ہوئے ‪194‬۔‬

‫صوفیاءنےہ زندگی سےہ متعلق عقیدہہ بھ ی بعض ان شیعہہ سےہ لیا‬


‫جو مہدیت ک ے قائل تھے کہ وہ اب تک زندہ ہیں ۔ابن حزم فرماتے‬
‫ہیں‪:‬نعض ب ے وقوف صوفیاءبھ ی اسی را ہ پر چل ے اورکہت ے ہیں کہ‬
‫الیاس اورخضر ابھی تک زندہ ہیں ‪195‬۔‬

‫سلمی نےہ اپنی تفسیر میں ان مخالف منہج صحیح تفسیری‬


‫روایات پر اعتماد کیا ہے جو امام جعفر صادق کی طرف منسوب‬
‫کی جاتی ہیں ان میں ایک یہہ بھ ی ہےہ کہہ جب شیعہہ نےہ اللہہ کے‬
‫فرمان‪”:‬وعلی العراف رجال(یعنی)اعراف(ایک دیوار کانام ہے‬
‫جو جنت اور جہنم کے درمیان ہے)پرکچھ لوگ ہوں گے “کے متعلق‬
‫کہ ا ک ہ اس س ے علی مراد ہیں و ہ اپن ے مددگاروں ک ے نام جانتے‬
‫ہیں توسلمی نےہ بھ ی اسی رنگ میں کہہہ دیا کہہ اصحاب اعراف‬

‫‪( 192‬لطائف المنن‪)67:‬‬


‫‪( 193‬ابجد العلوم از صدیق حسن خان ‪)160/2:‬‬
‫‪( 194‬التصوف از زکی مبارک‪)28/2:‬‬
‫‪( 195‬الصلۃ بین التصوف والتشیع از مصطفی شیبی‪)136:‬‬

‫‪88‬‬
‫سے مراد اصحاب معرفت مراد ہیں ابن عربی نے کہاکہ‪:‬کچھ لوگ‬
‫عرفاءہیں یعنی خاص اللہ والے ‪196‬۔‬

‫نیز سراج کہتا ہےہ کہہ ‪:‬تمام اصحاب رسول اللہ میں سےہ صرف‬
‫علی اس س ے مراد ہیں کچ ھ معانی جلیل ۃ اور اشارات دقیق ہ اور‬
‫توحید ومعرفت اور اہل علم کی عبارت وانفرادیت کی بناءپرجن‬
‫کا ادراک فقط اہل حقائق صوفیاءہی کرسکتے ہیں‪197‬۔‬

‫جبکہہ علی باتفاق مسلمین اپنےہ سےہ پہلےہ خلفاءیعنی ابوبکر‬


‫وعمروعثمان کے بعد دیگر صحابہ سے افضل ہیں اورعلماءصحابہ‬
‫میں سے ہیں تو اس خاص افضلیت کا کیا معنی؟‬

‫ایسےہ ہی ولی کےہ معصوم عن الخطاءہونےہ کا عقیدہہ بھی‬


‫صوفیاءن ے شیع ہ س ے ہ ی لیا ہے جو اپن ے ائم ہ کومعصوم قرار دیتے‬
‫ہیں لیکن پھ ر مرور زمان ہ ک ے سات ھ سات ھ اس ے حفظ س ے بدل ڈال‬
‫قشیری اپن ے اس عقیدےہ کی وضاحت کرت ے ہوئ ے لکھتا ہےہ ‪:‬جان‬
‫لوک ہ اولیاءکی سب س ے بزرگ کرامت ی ہ ہے ک ہ و ہ محض اطاعت‬
‫ہ ی کرتےہ ہیں اور ہ ر طرح کی معصیت ومخالفت سےہ معصوم‬
‫ہوت ے ہیں اور ان کی جمل ہ کرامات میں س ے ایک ی ہ بھ ی ہوسکتی‬
‫ہے کہ انہیں اپنے ولی ہونے کا علم ہو‪198‬۔‬

‫ان عجیب وغریب رشتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ صوفیت کے تمام‬


‫طریقےہ علی کی طرف منسوب ہوت ے ہیں پھ ر وہہ ایک دوسرے‬
‫کےہ اسی طرح وارث بنتےہ چلےہ جاتےہ ہیں جس طرح شیعہہ کے‬
‫اماموں میں میراث چلتی ہےہ ۔اگر یہہ پیری وبزرگی مجاہدات‬
‫وریاضیات کا نتیجہ ہے تو پھر کیا اس کی اولد کا بھی پیر ومرشد‬
‫ہونا ضروری ہے؟‬

‫شیخ عبدالقادر جیلنی ۔شیخ احمد رفاعی‪،‬بدوی‪،‬ابوالحسن‬


‫الشاذلی‪،‬بکتاشی ‪،‬سنوسی ‪،‬مہدی‪،‬ان سب کا نسب بالخر علی‬
‫سےہ ملدیاجاتا ہےہ حتی کہہ غیر عربی عجمی مثل ً محمد نور‬
‫بخش ‪،‬خواجہ اسحاق ‪،‬اوربالیم سلطان ‪....‬وغیرہ ان کانسب بھی‬
‫علی سے ہی ملدیا جاتا ہے‪199‬۔‬

‫والتشیع ‪)191:‬‬ ‫التصوف‬ ‫بین‬ ‫‪( 196‬الصلۃ‬


‫والتشیع ‪)343:‬‬ ‫التصوف‬ ‫بین‬ ‫‪( 197‬الصلۃ‬
‫والتشیع از مصطفی شیبی‪)386:‬‬ ‫التصوف‬ ‫بین‬ ‫‪( 198‬الصلۃ‬
‫والتشیع‪)446:‬‬ ‫التصوف‬ ‫بین‬ ‫‪( 199‬الصلۃ‬

‫‪89‬‬
‫آخرمیں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم نے صوفیاءکے متعلق محض ا س‬
‫لئےہ لکھاتاکہہ منہ ج اہ ل السنۃہ والجماعۃہ کو دیگر مناہ ج باطلہہ سے‬
‫ممتاز کیا جاسکے کیونکہ اس امت کا آخر اسی منہج سے درست‬
‫ہوگاجس س ے اس ک ے اول کی اصلح ہوئی اور یہی و ہ الل ہ کادین‬
‫ہےہ جسےہ اللہہ نےہ اپنےہ رسول محمد پر نازل فرمایا یہی سلف‬
‫صالحین کا فہم تھا دیگر تمام راست ے حامل نہیں و ہ اس س ے جدا‬
‫اور الگ ہیں صوفیت کسی بھی صورت میں اسلم کا منہ ج نہیں‬
‫قرار پاسکتی اس کی وجوہات ہم اس کتاب میں درج کر آئے ہیں‬
‫جو لوگ کہت ے ہیں کہ صوفیت محض ایک راہ سلوک ہے جس میں‬
‫نفس کی اصلح کی جاتی ہے اور روح کا تزکیہ کیا جاتا ہے توانہیں‬
‫جوابا ً کہا جائے گاجس کے لئے قرآن کی آیات اور اللہ کے رسول‬
‫کی احادیث صحیحہہ طیبہہ میں نفس کی اصلح اور روح کو‬
‫پاکیزگی نہہ ہ و اور جو ان کےہ ذریعےہ ان مقامات ومراتب کو نہ‬
‫پاسک ے جس س ے الل ہ اور اس کا رسول محبت کرت ے ہیں تو ان‬
‫کی مخالفت کرنے والی خواہ صوفیت ہو یا کوئی اور راہ اس میں‬
‫قطعا ً خیر نہیں ہوسکتی البت ہ ابتدائی اور قدیم صوفیاءجنہوں نے‬
‫انسانی نفس اور دلی بیماریوں (یعنی بغض ‪،‬کینہہہ ‪،‬‬
‫حسد‪،‬شہوت‪،‬نفاق‪،‬کفر وغیرہ)کےہ علج کےہ حوالےہ سےہ جو عمدہ‬
‫باتیں کہیں تویہہ قابل قبول ہیں ہ م انہیںصوفیاءنہیں مانتےہ کیونکہ‬
‫صوفیت تو بدعات کے ایک مستقل سلسلے اور علم کا نام ہے اور‬
‫صوفیت اختیار کرنے والے ہ ر شخص کے لئے ان بدعات کو اختیار‬
‫کرنا ضروری ہوجاتا ہے غزالی جس نے دلی امراض کے علج سے‬
‫متعلق بہترین کلم کیا ہے وہ صوفیاءک ے پھندوں کاشکار بن گیا وہ‬
‫کہتاہے ‪”:‬عارفین مجازکی پستی س ے حقیقت کی بلندی پر چڑھ‬
‫جات ے ہیں اور ا س امر کا دیک ھ کرمشاہدہ کرت ے ہیں کہ اس وجود‬
‫میں اللہ کے سوا کچھ نہیں “یہ عین وحدت الوجود ہی تو ہے ‪200‬۔‬

‫یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ منہج صوفیت کی ہماری توضیح کا‬


‫ی ہ معنی نہیں ک ہ ان ک ے ہ ر فرد پر ہ م ن ے فاسد عقید ہ وعمل ہونے‬
‫کا حکم لگادیا یہاں حق باطل بہ ت زیادہہ خلط ملط ہےہ ایک ہی‬
‫شخص میں شر اور خیر سنت اور بدعت جمع ہیں لہٰذا ہ م نے‬
‫عدل کرت ے ہوئ ے شر اور خیر دونوں ک ے پہلو ذکر کردیئےہ کیونکہ‬
‫کچ ھ لوگ صوفیت کی ابتداءکی نسبت اس ے صحیح راہ قرار دیتے‬
‫ہیں لیکن پھ ر بھ ی ان ک ے حقیقی دینداری س ے واقفیت ضروری‬
‫ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی انہیں صغیرہ گناہ کا مرتکب سمجھ رہا‬
‫ہو جبکہ اللہ کے نزدیک وہ کبیرہ ہو۔‬
‫‪( 200‬موقف العقل از مصطفی حبری‪)94/3:‬‬

‫‪90‬‬
‫ابن تیمیہہ جنہیں صوفیاءکا سب سےہ بڑا دشمن سمجھاجاتا ہے‬
‫جب صوفیت اور متکلمین میں تقابل کا مسئلہ آتا ہے تو متکلمین‬
‫کی جدل ونظر کےہ مقابلےہ میں صوفیاءکےہ عمل وعبادت کو‬
‫افضل قرار دیت ے ہیں ظاہ ر ہے ک ہ انہوں ن ے اس فضیلت میں ان‬
‫ابتدائی صوفیاءہی کی رعایت کی ہےہ جو اسماءوصفات کے‬
‫موضوع سے متعلق باوجود کثرت عبادت کے منہج صحیح پر ثابت‬
‫قدم تھے اور انہوں ن ے اس میں ان صوفیاءکا اعتبار نہیں کیا جو‬
‫امور توحید ‪،‬علم وعمل میں مختلف پہلوؤں ک ے حامل تھے مثلً‬
‫کلبازی خوکود کو معتدل اور موحد کہتا ہے اور کہتا ہے کہ ”تجھ پر‬
‫کوئی شاہ د نہیں توہ ی حق ہے“یہہ کلم حق اور باطل دونوں کا‬
‫احتمال رکھتا ہے ایسے ہی قشیری اولیاءکو معصوم قرار دیتا تھا‬
‫اور سلمی نےہ تفسیر میں عجیب وغریب باتیں کی ہیں اور‬
‫غزالی نےہ احیاءالعلوم میں جو قصےہ نقل کئےہ ہیں وہہ انتہائی‬
‫عجیب ہیں حتی کہہ قدیم صوفیاءمثل ً جنید‪،‬شبلی ‪،‬اور محاسبی‬
‫وغیر ہ ن ے بھ ی فاش غلطیاں کی ہیں جبک ہ انہیں اعتدال پسند کہا‬
‫جاتا ہے۔‬

‫ابن تیمی ہ صوفی ہ اورمتکلمین میں اکثر موازن ہ کرت ے ہیںاور فرماتے‬
‫ہیں کہ ان لوگوں کا انحراف یہ ہے اور ان کا انحراف یہ ہے مقصد‬
‫غالی متکلمین ہوت ے جیس ے رازی اور آمدی وگرن ہ کیا و ہ اشاعرہ‬
‫متکلمین جیس ے ابوبکر باقلنی اورنمون ے صوفیاءک ے مابین موازنہ‬
‫کریں گ ے حالنک ہ ابوبکرباقلنی ن ے اسلم کا دفاع کیا اس کاعلم‬
‫اور فق ہ اور صوفیاءکی بکواسیات س ے کئی گنا بہتر ہیں یہ ی وجہ‬
‫ہے ک ہ ایک اور عالم دین ابن عقیل بھ ی یہ ی رائ ے دیت ے ک ہ ‪:‬میرے‬
‫نزدیک متکلمین صوفیاءسے بہتر ہیں کیونکہ متکلمین شک کو دور‬
‫کرت ے ہیں جبک ہ صوفیاءشک وشبہات اور وہ م کو پیدا کرت ے اورجو‬
‫کہتا ہوکہہ مجھےہ میرےہ دل نےہ میرےہ رب سےہ بیان کیا گویا وہ‬
‫صراحت کررہاہے کہ وہ اللہ کے رسول سے بیزارہے ‪201‬۔‬

‫قشیری صوفیاءکو انبیاءورسل ک ے بعد سب س ے افضل مانتا تھا‬


‫اور کہتا کہہ وہہ مخلوق کےہ مددگار ہیں مجھےہ نہیں معلوم کہہ وہ‬
‫صحاب ہ اور تابعین اور علماءعاملین کو کیا درج ہ دیتا تھ ا دیتا بھی‬
‫تھا یا نہیں ؟اللہہہ نےہہ سچ فرمایا‪:‬کل حزب بما لدیھم‬
‫فرحون(یعنی)ہر ٹولہ اسی پر نازاں ہے جو اس کے پاس ہے (یعنی‬
‫عقائد واعمال )اگر یہہ لوگ شریعت کی کسوٹی پر اپنےہ عقائد‬
‫‪( 201‬تلبیس ابلیس‪)375:‬‬

‫‪91‬‬
‫واعمال کا جائزہ لیں توجان لیں گے کہ وہ بدعتی ہیں لیکن تعصب‬
‫اور نخوت و ع ُجب کا کیاکیا جائے مسئلہ یہ نہیں کہ ہر ایک اپنے لئے‬
‫اپنی پسند کی راہ چن لے بلکہ حق صرف ایک ہے اور وہ اہل السنۃ‬
‫والجماعۃہ کا راستہہ ہےہ اس کےہ سوا ماسوا گمراہ ی کےہ اور کچھ‬
‫بھی نہیں ہم ہمیشہ دعاکرت ے ہیں جو اللہ کے رسول کیا کرتے تھے‬
‫‪:‬‬

‫اللھ م رب جبرئیل ومیکائیل واسرافیل فاطرا لسموات والرض‬


‫عالم الغیب والشھادۃہ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ‬
‫یختلفون اھدنا لما اختلف فیہہ من الحق باذنک انک تھدی من‬
‫تشاءالی صراط مستقیم‬

‫”یا الل ہ جبرائیل ومیکائیل واسرافیل ک ے رب آسمانوں وزمین کے‬


‫خالق غائب وموجود کو جاننے والے توہی اپنے بندوں کے اختلفات‬
‫کا فیصلہہ فرمائ ے گا ہمیں اپن ے حکم س ے ہدایت عطاکر حق کی‬
‫جس میں اختلف کیاگیا ہویقینا تو جسے چاہتا ہے صراط مستقیم‬
‫کی راہ دکھا دیتا ہے۔‬

‫وآخر دعوانا ان الحمد ّللٰہ رب العالمین‬

‫لحقہ‬

‫‪92‬‬
‫صوفیاءکی کتب کے بارے میں علماءکی‬
‫رائے‬
‫‪1‬کتاب احیاءالعلوم الدین مؤلفہ ابوحامد الغزالی‪:‬امام ابن تیمیہ‬
‫فرمات ے ہیں ‪:‬اس میں بہ ت سی مفید باتیں ہیں اس میں بہت‬
‫سا فلسفیانہہ مواد ہےہ جس کا تعلق توحید ‪،‬انبیاء‪،‬اور حشر‬
‫ونشر س ے علماءن ے ابوحامد الغزالی پر اس سلسل ے میں رد‬
‫کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اسے شفاءنے بجائے صحت مند کرنے کے‬
‫مزید بیمار کردیاان کی مراد کتاب الشفاءہےہ جو فلسفہہ کے‬
‫بارےہ میں ابن سینا کی تالیف ہےہ غزالی کی کتاب میں بہت‬
‫سی احادیث وآثار ضعیف بلکہ موضوع ہیں اور صوفیاءکے بہت‬
‫سے مغالطے اور ان کی بکواسیات بھی ہیں نیز ایسے بزرگوں‬
‫اور صوفیوں کاکلم بھی ہے جو اعمال قلوب میں مشغول تھے‬
‫اور کتاب وسنت کے پابند تھے البتہ مہلک امور سے متعلق کلم‬
‫کا اکثر حصہ حارث المحاسبی کی کتاب الرعایۃ سے ماخوذ ہے‬
‫جیس ے ‪،‬تکبر ‪،‬ع ُجب اور حسد س ے متعلق کلم جس میں سے‬
‫کچھ تو قابل قبول ہے اور اکثرناقابل قبول ہے‪202‬۔‬

‫ابن جوزی فرمات ے ہیں ‪:‬مجھے غزالی س ے سخت تعجب ہے کہ‬


‫وہہ کیونکر ان خلف شریعت امور کا حکم دیتا ہےہ اور کس‬
‫طرح منہہ کےہ بل پوری رات کھڑےہ رہنےہ اورمال ضائع کردینے‬
‫اورکمائی کےہ لئق ہونےہ کےہ باوجود بھیک مانگنےہ کو حلل‬
‫وجائز قرار دیتا ہے غزالی ن ے فق ہ کو تصوف ک ے بدل ے بیچ کر‬
‫خسار ے کا سودا کیا ہے پاک ہے و ہ ذات جس ن ے اس ے اس کی‬
‫کتاب احیاءکےہ ذریعےہ دائرہہ فقہہ سےہ نکال کر صوفیت میں‬
‫داخل کردیا‪203‬۔‬
‫ابوبکر طرطوشی فرماتےہ ہیں ‪:‬غزالی نےہ کتاب الحیاءکو‬
‫رسول اللہہ پر جھوٹ س ے بھردیا روئ ے زمین پر اس س ے بڑھ‬
‫کر اور کیا جھوٹ ہوگا؟ ک ہ غزالی ن ے اپنی کتاب میں فلسفہ‬
‫کے مذاہب اور صوفیاءکے عقائد بھردیئے‪204‬۔‬

‫امام ذہبی فرمات ے ہیں‪:‬اس میں اکثر باطل احادیث ہیں اور یہ‬
‫بہ ت بہتر ہوتی اگر اس میں حکماءک ے طریق اور صوفیت کی‬
‫خرافات سے متعلق آداب ‪،‬رسوم اور زہد نہ ہوتا‪ 205‬۔‬
‫‪( 202‬فتاوی ابن تیمیہ‪)551/10:‬‬
‫‪( 203‬تلبیس ابلیس‪)353:‬‬
‫‪( 204‬الرسائل از عبداللطیف آل شیخ‪)137/3:‬‬
‫‪( 205‬الرسائل از عبداللطیف آل شیخ‪)140/3:‬‬

‫‪93‬‬
‫‪2‬کتاب قوت القلوب از ابوطالب مکی‪ :‬امام شافعی فرماتے‬
‫ہیں‪:‬ابوطالب نےہ اپنی آراءمیں علماءکی مخالفت کی ہے‬
‫بسااوقات اجماع کی بھی مخالفت کی ہےہ لیکن وعظ‬
‫ونصیحت اور آخرت کی ترغیب س ے متعلق بہترین گفتگو کی‬
‫ہے چنانچہ طلباءآخرت کی ہولناکیوں سے آگاہ ہونے کے لئے اس‬
‫کی کتاب کا مطالعہہ کرسکتےہ ہیں لیکن عوام الناس کےہ لئے‬
‫اس کا مطالعہ کرناحلل نہیں‪ 206‬۔‬

‫ابن کثیر فرماتے ہ ہیں‪:‬نیک آدمی تھا اپنی کتاب ”قوت‬


‫القلوب“میں موضوع احادیث ذکر کی ہیں لوگ اسےہ بدعتی‬
‫کہتے تھے اور اسے چھوڑےرکھاتھا‪207‬۔‬

‫‪3‬ابوعبدالرحمن السلمی کی تفسیر قرآن‪:‬ابن تیمی ہ فرمات ے ہیں‬


‫‪:‬اس کی کتابوں میں صحیح احادیث اور دین ک ے اعتبار سے‬
‫مفید کلم ہے بعض ایسی ضعیف احادیث اور ناقابل قبول کلم‬
‫بھ ی ہے جو نادان ک ے لئ ے مضر ہے بعض لوگ اس کی روایت‬
‫میں تردد کرتے تھے‪ 208‬۔‬

‫ذہبی فرمات ے ہیں‪:‬اس کی ایک کتاب ہے جس ے حقائق التفسیر‬


‫کہاجاتا ہے کاش و ہ اس ے تصنیف ن ہ کرتا و ہ تحریف اور باطنیت‬
‫سے معمور ہے پڑھ کر دیکھ لو اس میں عجائبات ہیں ‪209‬۔‬

‫واحدی کہت ے ہیں ‪:‬اگر و ہ اس ک ے تفسیر قرآن ہون ے کا اعتقاد‬


‫رکھتا تھا تو کافرہے ‪210‬۔‬

‫طریق رفاعی کی خلوت نشینیاں‬


‫اس میں مقدم یا جادیش کے مرتبے تک پہنچنے تک پہنچنے کے لئے‬
‫مرید کو چار قسم کی خلوت نشینی اختیار کرنی پڑتی ہے ۔‬
‫تین دن ابتداءاتوار سے ہوگی۔‬ ‫‪1‬‬
‫تین دن ابتداءپیر سے ہو ۔‬ ‫‪2‬‬
‫چار دن ابتداءمنگل سے ہو۔‬ ‫‪3‬‬
‫‪ 5‬دن ابتداءبدھ سے ہو۔‬ ‫‪4‬‬
‫‪( 206‬الفادات والنشارات‪)44:‬‬
‫‪( 207‬البدایۃ والنھایۃ‪)319/11:‬‬
‫‪( 208‬فتاوی‪)386/1:‬‬
‫‪( 209‬التفسیروالفسرون‪)386/2:‬‬
‫‪( 210‬التفسیروالفسرون‪)386/2:‬‬

‫‪94‬‬
‫اس شرط ک ے سات ھ ک ہ صبح وشام ک ے علو ہ کچ ھ ن ہ کھائ ے گا اور‬
‫صرف اتنا کھائ ے گا ک ہ رمق باقی رہے اور گوشت ن ہ کھائ ے گا(یہ‬
‫ہندومت اور نصرانیت سےہ مشابہت ہے)اور یہہ کہہ کسی ایک‬
‫مخصوص جگہہ پاک جگہہ میں لوگوں سےہ مکمل طور پر چھپ‬
‫کررہے گا کہ کوئی اس ک ے پاس نہ آسک ے اور ہ ر وقت یا حمید کا‬
‫ورد کرےہ گا ہر نماز کےہ بعد کم ازکم تین ہزار دفعہہ دوسری‬
‫ریاضت میں اس کا ورد یا رحیم ہوگاکم ازکم چار ہزار بار اور‬
‫تیسری ریاضت میں یاوہاب کا ورد کرےہ گا کم از کم پانچ ہزار‬
‫دفع ہ اور ان خلوتوں ک ے بھ ی خاص مختلف درج ے ہیں جو طریق‬
‫رفاعی کے ہرمرید کے لئے ہیں اور ہر اس شخص کے لئے جو عہد‬
‫کر ے کہ سات دنوں تک خلوت اختیار کر ے گا جس کی ابتداءگیارہ‬
‫محرم س ے ہوگی اور ان سات دنوں میں چیختا رہے گا اور گھر‬
‫والی کےہ ساتھہ بستر پر بالکل نہیں سوئےہ گا اور گوشت نہیں‬
‫کھائےہ گا ۔رفاعی کہتا ہےہ کہہ ‪:‬سات دنوں کی خلوت مالک اور‬
‫مرید صادق کے لئے باعث فیض ہے ‪211‬۔‬

‫(شیبی اس کے بارے میں لکھتاہے کہ ان سات دنوں کی خلوت کا‬


‫مقصد حسین پر شدید غم کا اظہارکرنا ہےہ جیسا کہہ شیعہہ کا‬
‫وطیرہہ ہےہ لیکن مریدوں کو اس طرح بہلیا پھسلیا جاتا ہےہ کہ‬
‫انہیں شیعیت کا شبہ نہیں ہوتا )‬

‫طریقہ تیجانیہ میں جوھرۃ الکمال کا ورد‬


‫یااللہہ عین رحمت ربانی ‪،‬یا قوت حقیقی ‪،‬مرکز فہ م ومعانی ‪،‬‬
‫انسانی کائنات کے نور ‪،‬صاحب حق ربانی ‪،‬ہر بحر وبر سے گزرنے‬
‫والی ہواؤں پر چھاجانےہ والی روشنی پر رحمت وسلمتی کر‬
‫یاالل ہ اس عین حق پر جن س ے حقائق ک ے بڑ ے بڑ ے عرش ظاہر‬
‫ہوجات ے ہیں‪،‬عین معارف اقوام پر ‪،‬اپنےہ کامل وسیدھےہ رست ے پر‬
‫رحمت بھیج یا اللہہ کنز اعظم کی حقیقت کےہ طلوع ہونےہ والے‬
‫حق پر‪ ،‬اور ان کی آل پر ایسی رحمت اتار جس ک ے ذریع ے ہم‬
‫انہیں پہچان لیں ‪212‬۔‬

‫ان الفاظ میں موجود شرک وبدعت واضح ہےہ دیگر صوفیانہ‬
‫طریقوں کے اوراد میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔‬

‫‪( 211‬الطرق الصوفیۃ از عامر نجار‪ 104/100:‬نیز غایۃ المانی از ابوالمعالی آلوسی‪)230/1:‬‬
‫‪( 212‬التیجانیۃ‪)262:‬‬

‫‪95‬‬
‫ابوسلیمان الدارانی کے کلمات‬
‫آخرت کی کنجی بھوک ہے‪،‬دنیا کی کنجی سیر ہوناہےہ ‪،‬اور دنیا‬
‫وآخرت میں ہ ر خیر کی بنیاد اللہہ تعالیٰہ کا خوف ہےہ ‪،‬ہ م اسے‬
‫عبادت نہیں مانت ے ک ہ تو صف میں کھڑا ہوپھ ر کوئی دوسرا تیرے‬
‫قدم ہلدےہ لیکن تو ہمہہ وقت اپنی قدم کس کر باندھہ لےہ پھر‬
‫عبادت کر اس دل میں کچ ھ خیر نہیں جو توقع کر ے کہہ اس کا‬
‫دروازہہ کھلےہ گا اور کوئی کچھہ دےہ جائےہ گا ۔میں نےہ ایسا کوئی‬
‫صوفی نہیں دیکھا جس میں خیر ہو سوائے عبداللہ بن مرزوق کے‬
‫میں ان کےہ لئےہ نرم گوشہہ رکھتا ہوں ۔جس کا آج اس کےہ کل‬
‫جیسا گزرے میں دنیا میں دن بسر کرنے اور درخت لگانے کے لئے‬
‫باقی رہنا پسند نہیں کرتا ‪213‬۔‬

‫حلج کے حالت زندگی‬


‫ابن کثیر فرماتے ہیں‪:‬ہم اللہ کی پناہ میں آتے ہیں اس بات سے کہ‬
‫ہ م اس ک ے بار ے میں و ہ کچ ھ کہہ دیں جو اس ن ے ن ہ کیا ہویا اس‬
‫کی طرف جھوٹےہ اقوال افعال کومنسوب کردیں سو اب ہ م یہ‬
‫کہتےہ ہیں کہہ اس کا نام حسین بن منصور حلج تھ ا اس کا دادا‬
‫فارس کا مجوس تھ ا و ہ واسط میں پلبڑھ ا پھ ر بغداد چل آیا اور‬
‫بارہا مکہ گیا اپنے نفس پر جبر کرتا کھلے آسمان تلے مسجد حرام‬
‫کےہ وسط میں بیٹھا رہتا بڑےہ بڑےہ صوفیاءکےہ ساتھہ رہا جیسے‬
‫جنید‪،‬بغدادی فرمات ے ہیں ہیں ‪:‬عمرو بن عثمان مکی ‪،‬ابوالحسین‬
‫النووی۔خطیب بغدادی فرماتےہ ہیں ‪:‬صوفیاءکی اس کےہ متعلق‬
‫مختلف آراءہیں اکثر نےہ نفی کردی ہےہ کہہ حلج ان میں سے‬
‫ہوبعض نے اس ے قبول کیا ہے جیسے ابوالعباس بغدادی ‪،‬محمد بن‬
‫خفیف اور ابراہیم بن محمد انہوںنے اس کے حال کو درست قرار‬
‫دیا ہے ۔تمام علماءکا اجماع ہے ک ہ و ہ واجب القتل تھ ا اور حالت‬
‫کفر میں ہ ی قتل ہوا بڑا جادوگر اوربہروپیا تھ ا ہ ر ایک کا مذہب‬
‫اختیار کرلیتا اگر اہ ل السن ۃ ہوں تو سنی روافض ہوں تو رافضی‬
‫معتزلہ ہوں تو معتزلی صوفیاءہوں تو صوفی ‪،‬فاسقین وغیرہ ہوں‬
‫تو ان ک ے سات ھ ہمیش ہ لوگوں کو گمرا ہ کرتا اور خود کو ان سے‬
‫افضل کہتا تاآنک ہ رب ہون ے کا دعوی ٰ کرن ے لگا چنانچ ہ بغداد میں‬
‫اسے قید کردیا گیا علماءنے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ وہ کافر ہے‬
‫زندیق ہے جادوگر اور انتہاءدرجے کاجھوٹا ہے‪214‬۔‬

‫‪( 213‬حلیۃ الولیاء‪ 259/9:‬نیز صفوۃ الصفوۃ‪)223/4:‬‬


‫‪( 214‬البدایۃ والنھایۃ‪)138/11:‬‬

‫‪96‬‬
‫اصطخری فرماتے ہیں‪:‬حلج بہروپیا تھا ہر طریقہ اختیار کرلیتا ایک‬
‫حالت سےہ دوسری حالت تک ترقی کرتےہ کرتےہ اس حال میں‬
‫پہنچا کہ کہنے لگا کہ اس نے اپنے آپ کو اطاعت سے پاک کرلیا اور‬
‫اپنے دل کو اعمال صالحہ میں لگادیا اور اپنی ذات سے الگ ہوگیا‬
‫پھ ر وہہ ترقی کرتےہ ہوئ ے مقربین کےہ مقام تک پہنچا پھ ر وہہ درجہ‬
‫معافاۃ تک پہنچا یہاں تک کہ اپنی طبعی بشریت سے بالکل ہی پاک‬
‫ہوگیا اس وقت اس میں الل ہ کی وہ روح سماگئی جو عیسیٰ بن‬
‫مریم میں تھی اب وہ جس چیز کا ارادہ کرے وہ ہوجاتی ہے‪215‬۔‬

‫سبحان ربک رب العزۃہ عما یصفون ‪ ،‬وسلم علی المرسلین‬


‫والحمد ّللٰہ رب العالمین‬

‫ثبت المراجع‬

‫أحمد بن عبد الحليم‬


‫الفتاوى ‪ :‬ط ‪ .‬الرياض‬
‫اقتضاء الصراط المستقيم‬
‫درء تعارض العقل والنقل‪ :‬تحقيق رشاد سالم‬ ‫ابن تيمية‬
‫الجواب الصحيح لمن بدل دين المسيح‬
‫الستقامة ‪ :‬تحقيق رشاد سالم‬

‫محمد بن أبي بكر‬


‫مدراج السالكين‬ ‫ابن القيم‬
‫إغاثة اللهفان‬
‫عبد الرحمن بن علي‬
‫صفة الصفوة‬ ‫ابن الجوزي‬
‫تلبيس إبليس‬
‫لطائف المنن‬ ‫ابن عطاء ال السكندري‬
‫مقالت السلميين‬ ‫أبو الحسن الشعري‬
‫اللمع‬ ‫أبو الحسن الشعري‬
‫المقدمة‬ ‫أبو نصر السراج‬

‫‪( 215‬الحضارة السلمیۃ از آدم متز‪)63/2:‬‬

‫‪97‬‬
‫إسماعيل بن كثير‬ ‫ابن خلدون‬
‫البداية والنهاية‬ ‫ابن كثير‬
‫أبو المعالي محمد شكري‬ ‫اللوسي‬
‫غاية الماني في الرد على النبهاني‬
‫نعمان خير الدين‬ ‫اللوسي‬
‫جلء العينين في محاكمة الحمدين‬
‫برهان الدين‬ ‫البقاعي‬
‫تنبيه الغبي لتكفير ابن عربي ‪ :‬تحقيق الوكيل‬
‫أبو الريحان محمد بن أحمد – تحقيق‬ ‫البيروني‬
‫ما للهند من مقولة ‪ :‬ط ‪ .‬حيدر أباد‬
‫عبد القادر – الفتح الرباني‬ ‫الجيلني‬
‫التعريفات‬ ‫الجرجاني‬
‫محمد بن أحمد بن عثمان‬ ‫الذهبي‬
‫سير أعلم النبلء ‪ :‬ط ‪ .‬مؤسسة الرسالة‬
‫الطبقات‬ ‫ابن سعد‬
‫أبو إسحاق إبراهيم بن موسى‬ ‫الشاطبي‬
‫العتصام من البدع‬ ‫الشاطبي‬
‫الموافقات – الفادات والنشادات‬
‫المام محمد بن الحسين‬ ‫الشيباني‬
‫الكسب ‪ :‬تحقيق سهيل زكار‬
‫محمد بن علي –‬ ‫الشوكاني‬
‫قطر الولي على حديث الولي ‪ :‬تحقيق إبراهيم هلل‬
‫عبد الوهاب – الطبقات الكبرى‬ ‫الشعراني‬
‫اعتقادات فرق المسلمين‬ ‫الرازي‬
‫الحسين بن محمد – الذريعة إلى مكارم الشريعة‬ ‫الراغب الصفهاني‬
‫أبو بكر محمد – التعرف لمذهب التصوف‬ ‫الكلباذي‬
‫ظهر السلم‬ ‫احمد أمين‬
‫الشيعة وآل البيت‬ ‫إحسان إلهي ظهير‬
‫يوميات الخليل‬ ‫خليل مردم بك‬
‫التصوف السلمي في الداب والخلق‬ ‫زكي مبارك‬
‫الصوفية‬ ‫سميع عاطف الزين‬
‫حاضر العالم السلمي‬ ‫شكيب أرسلن‬
‫أبجد العلوم‬ ‫صديق بن حسن القنوجي‬
‫الطرق الصوفية‬ ‫عامر النجار‬
‫الغلو والفرق الغالية في الحضارة السلمية‬ ‫عبد ال سلوم السامرائي‬
‫حقائق عن التصوف‬ ‫عبد القادر عيسى‬
‫النوار الرحمانية لهداية الفرق التيجانية‬ ‫عبد الرحمن الفريقي‬
‫النسان الكامل في السلم – شخصيات قلقة في السلم – من تاريخ‬
‫التصوف السلمي – من تاريخ اللحاد – شطحات صوفية‬ ‫عبد الرحمن بدوي‬
‫الصلة بين التصوف والتشيع ط ‪ .‬دار المعارف‬ ‫د‪ .‬مصطفى الشيبي‬
‫هذه هي الصوفية ط ‪ .‬دار الكتب العلمية‬ ‫عبد الرحمن الوكيل‬
‫التيجانية – نشر دار طيبة‬ ‫علي بن محمد الدخيل ال‬
‫مشكلة الفكار‬ ‫مالك بن نبي‬
‫موقف العقل والعلم والعالم من رب العالمين‬ ‫مصطفى صبري‬
‫تاريخ المام‬ ‫رشيد رضا‬
‫حجة ال البالغة‬ ‫ولي ال الدهلوي‬
‫الحضارة السلمية في القرن الرابع الهجري‬ ‫آدم متز‬

‫‪98‬‬
‫تأملت في سلوك النسان – نشرة جامعة الدول العربية‬ ‫الكسيس كاريل‬

Muslim World Data Processing Pakistan


http://www.muwahideen.tk
http://www.muwahideen.co.cc
Email: info@muwahideen.tk

99

You might also like