Professional Documents
Culture Documents
ف ہرست مضامین
2
Muslim World Data Processing Pakistan
مقدمہ طباعت دار الرقم
در اس ات ف ي ال فرق
الصوفية
ن شأت ها وت طورها
ت أل يف
3
طا رق مح مد الع بْ ده
عب د ال حليم
الطب عة ال را بعة
هـ 2001 -م 1422
قامت شبكة الدفاع عن السنة بنشر هذا الكتاب على النترنت ،
نسأل الله أن يجعل عملنا خالصا ً لوجهه الكريم
میں صوفیت کےہ متعلق جو کچھہ جانتا ہوں وہہ تو جانتا ہ ی ہوں
خوا ہ وہ کتب ہوں جو ان ک ے متعلق لکھی گئیں یا و ہ کتب جو ان
کے ہ اقطاب (جمع قطب صوفیاءکے ہ نزدیک صاحب مقام
سردار)میں سے کسی نے خوداپنے متعلق لکھی ہوں یا وہ تحریک
4
ہ و جو مشرقی ممالک میں ان ک ے بعض بڑوں ک ے باہمی تصادم
کے نتیجے میں وجود میں آئی ۔
5
کر ان ممالک میں رائج بعض نادان مسلمانوں کا دین اسلم سے
متصادم بعض صوفیہہ کی تعظیم کےہ مختلف مظاہ ر سےہ متعلق
اور ان مشرقی ممالک س ے آن ے والوں ک ے متعلق جو ان جراثیم
کو وہاں سے ل کر یہاں عوام الناس میں پھیلت ے ہیں یہ بہ ت زیادہ
نہیں تعجب ہے کہ یہ لوگ سنت مطہرۃ کے انتساب کا دعویٰ کرتے
ہیں بلکہ ان میں سے بعض منبروں پر اسلمی جمعیت یا اسلمی
مرکز کےہ نام سےہ خطبےہ دیتےہ ہیں اور یہہ باور کراتےہ ہیں کہہ وہ
سنی ہیں یا کسی ایسی تقریب میں شریک ہوکر جس کا کوئی
فائدہہ حاصل نہیں ہوتا یہہ صوفی ہیں یا صوفیاءسےہ محبت کرنے
والے ان جاہلوں میں سے ہیں جو اس طرح کے مراکز میں کھڑے
ہوکر اس طرح کےہ دعوےہ کرتےہ ہیں کہہ وہہ لوگوں کےہ سامنے
صوفیوں کی توحید پیش کرت ے ہیں اور لوگوں کو الل ہ کی طرف
دعوت دیت ے ہیں کیا یہ لوگ عائش ہ ک ے اس قول س ے واقف نہیں
ک ہ ”:جو بدعتی ک ے پاس آیا اس کی حوصل ہ افزائی کی تو گویا
اس ن ے اسلم کی عمارت ڈھان ے میں اس کی مدد کی “۔الل ہ کے
دین میں سستی برتن ے وال ے ان لوگوں کو منبروں کا امین کس
طرح قرار دیا جاسکتا ہے اور کیوں کر لوگ انہیں آگے کردیتے ہیں
کہ اس امانت کو ان لوگوں ک ے سپرد کرک ے ضائع کردیں جن کے
متعلق حسن ظن نہیں رکھ ا جاسکتا اور جن ک ے ارادوں س ے بے
خوف نہیں رہ ا جاسکتا اور جو اسلمی جماعتوں کےہ کمان کے
خلف برےہ ارادےہ رکھتےہ ہوں وہہ بھ ی ان علقوں میں جہاں کے
لوگ دین صرف اسی قدر جانتے اور سمجھتے ہیں جو منبروں پر
انہیں بتایا جائے۔ میں کہتا ہوں :کہ لوگ آخر کیوں کر ان گمراہ اور
بدعتی لوگوں کو آگے بڑھادیتے ہیں تاکہ وہ لوگوں سے خطاب کرے
پھ ر تحریف کر ے ،فساد کر ے ،جھوٹ بک ے اور لوگوں کو سیدھی
اور سچی راہ سے نکال باہر کرے ۔
6
کیای ہ بہتر نہیں ک ہ جاہ ل عوام ان لوگوں ک ے بجائ ے ان لوگوں کے
پاس جائیں جن کےہ پاس سنت کا علم ہوتاکہہ امانت علمی کا
تقاضا پورا ہوسک ے یا ی ہ بہتر ہے ان کا تسلط اور غلب ہ برقرار رہے
اگرچہ علم وامانت کا ضیاع ہو یا پھر معاشرے کے سرکردہ لوگوں
کے ان جیسے لوگوں سے دنیاوی مفاد وابستہ ہیں کہ وہ ان کے ان
دینی مناصب کو پکا کرتے ہیں جو انہوں نے زمانے کی غفلت میں
حاصل کئ ے ہوں ۔کیا ملک میں علم کا ایس ے ہ ی فقدان پڑگیا ہے
جیس ے جہنمیوں ک ے ہاں پانی کا فقدان ہوتا ہے کیا ان ک ے دنیاوی
مفادات اسی طرح مضبوط ہوں گے کہ وہ عوام اسلمی مراکز ،
تنظیموں اور تحریکوں پر مکمل کنٹرول رکھیں........یا ی ہ سب
مکس پلیٹ ہے؟!۔
یقینا حق ہی مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے اللہ کی قسم
اگر ہم اپنے دینی امور ان لوگوں کے سپرد کردیں جو انہیں کھیل
بنالیں اور اس لئق نہہ ہوں تو ہمیں ضرور شرمندہہ ہونا پڑےہ گا
اس دن کہہ جب ندامت کا کوئی فائدہہ نہہ ہوگاان جیسےہ صوفیہ
جیسے حمزہ یوسف اس کا شیخ مالکی اور حمیم کیلر (جس نے
خود اپنےہ لئےہ کج روی کا اعتراف کررکھا ہے)یہہ ان ممالک کے
نوجوانوں میں گھٹیا افکار رائج کرتےہ ہیں اور محی الدین ابن
عربی (جو دراصل محی الدین یعنی دین کو زند ہ کرن ے وال نہیں
بلکہ ھادم الدین یعنی دین کی عمارت ڈھانے وال تھا)اور حلج اور
بایزید بسطامی وغیرہہ کےہ مذہ ب کی طرف دعوت دیتےہ رہےہ یہ
سب علی العلن وحدت الوجود ،حلول اور اتحاد ک ے قائل تھے
اور اپن ے ہی اعتقاد کی حقیقت کو کمتر سمجھت ے تھے اللہ ہی ان
ک ے دلوں کی کیفیت جانتا ہے ان کا شیخ اکبر رتب ہ جمع (الل ہ ان
سب کو جہنم میں جمع فرمائے)یعنی اللہ اور اللہ سبحانہ کو پالینے
والے اجتماع واتحاد بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:
7
اسے اور اس کے ہم خیالوں کو رسوا کرے ۔آمین)نیز اس شعر کا
شارح مرتبہ فنا فی الذات کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے:
8
مخالفت میں ہوتی ہےہ دین سےہ خارج ہوتی ہےہ بلکہہ دین کی
بنیادیں ڈھارہی ہوتی ہے۔
واﷲ من وراءالقصد
ڈاکٹر طارق عبدالحلیم ٹورنٹو
کنیڈا
جنوری بمطابق 1417ہجری
7199ء
9
ان الحمد ّللٰہہ نحمدہہ ونستعینہہ ونستغفرہہ ونعوذ با
ﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲ من شرور
انفسنا وسیئات اعمالنا من یھدہہ ا ﷲ فل مضل ل ہ ومن یضلل فل
ھادی لہ وصلی اﷲ علی سیدنا محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ وسلم وبعد:
10
ساتھ ہی موجود ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ اس کاسایہ وقتی طور
پر سمٹ گیا تھا اور اب یہہ پوری قوت سےہ ایک مرتبہہ پھر
اسلم کی دعوت حق کے مقابلے میں پلٹ آئی ہے مشرق میں
بریلویت مغرب میں تیجانیت اور ان دونوں کے مابین شاذلیت
اور برھانیت یہہ تمام لمتناہی سلسلےہ جواب مکہہ مدینہہ کی
طرف پلٹ رہے ہیں ک ہ جو عرص ہ دراز تک ان س ے خالی رہے
سو کیوں نہہ ہ م مسلمانوں کو ان کی غلطیوں اور خطرات
سے آگاہ کریں ؟
جولوگ حسن اخلق ،زہد اور شرعی آداب بجالتےہ ہیں انہیں
نساک،قراء،زہاد،اور عباد کے القابات س ے ملقب کیا جاتا ہے جبکہ
صوفیہہ کا لقب نہیں دیا جاتا جو روح اور روحانی بیماریوں اور
دلی خیالت ک ے بار ے میں پڑھت ے پڑھات ے ہیں اور نغظ مذہ ب کے
رسیا ہوتے ہیں 3۔
چنانچہہ مسئلہہ اخلق وسلوک کا نہیں بلکہہ ان بناوٹی طور
وطریقوں کا ہے جو روحانی ریاضتوں س ے متعلق خالص عجمی
اختراعات ہیں جن کا نتیج ہ بلعلم الل ہ ک ے بار ے میں بکواس اور
اس پر افتراءپردازی ہےہ صوفیت کا مقصد (بزعم خویش )اللہ
سے مل جانے اور لوگوں سے دور ہوجانا ہے جبکہ یہ منہج انبیاءکی
11
ضد ہے انہیں اس لئ ے مبعوث کیا گیا ک ہ و ہ ساری دنیا میں گھوم
کرلوگوں کو نیند س ے بیدار کریں یہی وجہ ہے کہ ہم بڑ ے بڑ ے زہاد
وعباد جیسے ابراہیم ادہم اور فضیل بن عیاض کو اس معنی کی
صورت میں شمار نہیں کرتے4۔
( 4حاشیہ:دائرۃ المعارف السلمیہ میں ہے کہ ”:دوسری صدی ہجری میں پیدا ہونے والے نظریاتی اختلف
کا کوئی اثر تلش کرنا ہماری بے کار کوشش ہوگی نیز ابراہیم بن ادہم کو ان لوگوں میں سے نہیں مان
سکتے کہ جن کے مذہب وحدود کی اساس دنیا سے بے رغبتی اور نفس کی اصلح پر ہے ۔33/1ط 1933ء)
( 5ملحظہ ہو تاریخ المم 116/1 :از رشید رضا)
12
کے سوا اور طریقہ بھی ہے اس کی مذمت کیوں نہ کی جائے وہ تو
کافر ہے شیطان کا دوست ہے 6۔
پھر فرق کے عنوان پر لکھنے والے بعض علماءکا تویہی موقف ہے
جیسے ہ امام رازی اپنی کتاب ”اعتقادات فرق المسلمین
والمشرکین“میں رقم طراز ہیں”:جان لو کہ امت ک ے فرق ے بیان
کرن ے والوں کی اکثریت ن ے صوفیاءکا تذکر ہ نہیں کیااور ی ہ غلطی
ہے “7۔
اس کےہ بعد انہوں نےہ صوفیاءکےہ طبقات و فرقوں کا تذکرہہ کیا
ہے ۔نیز ابن الندیم نے اپنی کتاب ”الفہرست“کا پانچواں مقالہ ”ان
سیاحوں،زاہدوں ،عبادت گزاروں اور صوفیاءکے بارے میں لکھا ہے
جو خطرات اور وساوس کے متعلق کلم کرتے ہیں“8۔
13
صوفیت کی طرف منسوب ہوتی ہیں لیکن ی ہ چیز صوفیت سے
متعلق عمومی گفتگو س ے مانع نہیں ہے ان علماءن ے تربیت نفس
کے حوالے سے صوفیت کا صرف ایک پہلو اختیارکیا جو کہ ان کی
غلطی ہےہ بہر حال وہہ باطل اور کفر میں مبتل کردینےہ والی
منحرف صوفیت میں داخل نہیں ہوئےہ ایسےہ ہی مرجئہہ بھی
مختلف فرقوں میں تقسیم ہوئ ے اور بعض علماءحق بھ ی ان کا
شکار بن ے سو جب ہ م صوفیت کو ایک ایس ے فرق ے ک ے طور پر
لیں گے جو منہج اہل السنۃ والجماعۃ سے زیادہ دور ہے تو اس کا یہ
معنی نہیں کہہ صوفیت کی طرف منسوب ہ ر شخص گمراہہ اور
منحرف ہے ممکن ہے ک ہ و ہ بڑ ے ع ُبَّاد میں شامل ہ و لیکن اسلم
کے جامع اور مکمل پہلوں میں سے کسی ایک پہلو کے اعتبار سے
اس میں کمی ر ہ گئی ہ و اور مسلمان میں سنت س ے دوری کے
بقدر نقص پیدا ہوجاتا ہے۔
14
نوجوانوں کو ان کے ہاتھوں کا کھلونا بنادیا ہے وہ ہر لمحے اپنے
شیخ کے حکم یا اس کے ہاتھوں کسی خرق عادت معجزے کے
صادر ہونے کے منتظر رہتے ہیں ۔
نیا پڑھنےہ وال غزالی اور حارث محاسبی 14کی کتابیں پڑھہ کر
سمجھن ے لگتا ہے ک ہ اس ک ے سوا اورکوئی راست ہ ممکن ہ ی نہیں
( 11تلبیس ابلیس)375:
( 12غزالی کا نام ابوحامد محمد بن محمد بن محمد الطوسی الغزالی تھا امام حرمین سے فقہ سیکھی
علم کلم وجدال میں مہارت حاصل کی ابن سیناءاور اخوان الصفا کی کتب سے متاثر تھے پھر یہ چھوڑ
کر صوفیت کی طرف مائل ہوگئ ے اذکیاءمیں س ے تھے انتہائی ذہین وفطین تھے اسی لئ ے ان میں بیک
وقت فقہ سے شغف ،آداب شرح کا التزام اور فلسفہ کلم وصوفیت ملحظہ کئے جاسکت ے ہیں اس بارے
میں ان کے انتہائی کڑوے الفاظ تھے جن میں وہ سر کے بل گرپڑے ہیں ان کی فقہ ،تصوف اور فلسفہ پر
رد میں مشہور تالیفات ہیں ملحظہ ہو( سیر اعلم النبلء)322/19:انہوں نے ان کے بارے میں جو علماءکے
اقوال نقل کی ے ہیں و ہ انصاف کرن ے میں ان کا مبالغ ہ ہے ان کی وفات 505ہجری میں طوس شہ ر میں
ہوئی)
( 13حاشیہ:ملحظ ہ ہو غزالی کی کتاب المنقذ من الضلل اس میں انہوں ن ے قسم کھائی ہے حق تک لے
جانے والے چار ہیں :)1(:فلسفہ۔(:)2کلم۔(:)3امام معصوم۔(:)4کشف۔پھر آخری سے ہی حق کے دلیل کے
طور پر راضی ہوئے)
15
جبکہہ حقیقت اپنی جگہہ برقرار ہےہ جیسےہ نصف النہار کا دمکتا
سورج ہ ر اس شخص کو روشنی دیتا ہے جس کا مقصد نیک ہو
علم کا طالب ہو اور صراط مستقیم کو راستہ بنائے۔
آخر میں ہم اللہہہ سےہہ دعاگو ہیں کہہہ وہہہ صوفیت کی
ابتداءوارتقاءپیش کرنےہ میں ہر طرح کےہ تعصب اور جانبداری
سے محفوظ رکھے ۔آمین
پہلباب
صوفیت کی ترقی
مقدمہ
صوفیت ایک ایسا مستقل اور ممتاز فرقہ نہیں کہ سال کے اعتبار
سےہ ڈھونڈھنےہ وال ے کو ان کی ترقی کےہ ادوار مل جائیں بلکہہ یہ
ایسا ب ے بُنا فرق ہ ہے جس کی کوئی متعین شکل نہیں ہے ان کی
افکار کے حاملین میں بعض فقہاءبھی ہیں اور ان کی بدعات کے
قائل بعض ایسےہ بھ ی ہیں جو اہ ل السنۃہ سےہ نسبت کا دعویٰ
کرتےہ ہیں یہ ی چیز محقق کےہ لئےہ مشکل پیداکردیتی ہےہ اگر وہ
صوفیت ک ے ادوار ومراحل کا باریک بینی س ے جائز ہ لینا چاہتا ہو
چنانچہہ ہ م صدیوں کےہ اعتبار سےہ ان مراحل کےہ بنیادی خطوط
( 14حاشیہ:اس کا نام حارث بن اسدالمحاسبی البغدادی ہے اس کی زہد سے متعلق بہت سی تالیفات ہیں
علم کلم میں مشغولیت کے سبب اپنے باپ کا ترکہ چھوڑ دیا تھا امام ابوزرعہ الرازی سے اس کی کتب
کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے روکا اور فرمایا”:تم پر حدیث لزم ہے کیا تم تک یہ بات کبھی پہنچی کہ
مالک یا ثوری یا اوزاعی ن ے خطرات اور وسوسوں ک ے بار ے میں لکھ ا ہو؟“اس کاانتقال 143ہجری میں
ہوا ملحظہ ہو (صفۃ الصفوۃ ،367/2:سیر اعلم النبلء)110/2:
16
اور ان کی بڑی بڑی افکار ک ے ظہور کو (کہ جنہیں محقق ان کے
مراحل میں سےہ ایک مرحلہہ شمار کرسکتا ہےہ )بیان کرنےہ کی
کوشش کریں گ ے ی ہ ایسا ارتقاءہے جس میں تاریخ فکر گڈم ڈ ہے
اس تفرق کی بنیادی کڑیوں کو الگ الگ کرنا اس وقت س ے لے
کر آج تک انتہائی مشکل ہے۔
پہلی فصل
اسلمی معاشرہ اور طبقہ ع ُبّاد (کثرت سے عبادت کرنے والے )کا
ظہور اسلمی معاشرے کی ابتدائی نشات طبعی اور مکمل تھی
نہ کہ محض تکلفانہ اور فطرت سلیمہ اور اللہ کی طرف سے نازل
کردہ وحی کی تمام باقیات بھی جمع کرچکی تھی ان دنوں عرب
اور خصوصا ً شہری لوگ مثل ً قریش،اوس اور خزرج دیگر اقوام
کی بنسبت فطرت سے زیادہ قریب تھے اسی لئے اللہ نے اپنے نبی
کے لئے افضل ترین قوموں کا انتخاب کیا جن کی رسول اللہ نے
اپنی سرپرستی میں تربیت فرمائی اس طرح وہ ”اس کھیتی کی
طرح ہوگئے جس نے اپنا کنارہ نکال پھر اسے مضبوط کیا پھر موٹا
ہوا اور اپنی جڑ پر کھڑا ہوگیا اور کسان کو خوش کرن ے لگا تاکہ
وہہ ان کےہ ذریعےہ کفار کو چڑھائے“جب بھ ی ان میں سےہ کوئی
ایساعمل سرزد ہوتا جو دین حنیفیت کے خلف ہوتا رسول الل ہ
ان کے لئے صحیح راستہ متعین کرکے انہیں واپس صراط مستقیم
پر گامزن کردیتےہ جیسا جب تین صحابہہ نےہ جب عورتیں مال
ودولت کو چھوڑ کر ترک دنیا کا قصد کیا تو رسول اللہ ن ے فوراً
ہی انہیں صراط مستقیم کی طرف پھیر دیا اور فرمایا کہ ”:میں
روزہ رکھتاہوں چھوڑتا ہوں نماز پڑھتا ہوں سوتا ہوں اور عورتوں
17
سے تعلقات بھی رکھتا ہوں جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ
مجھ سے نہیں“15۔
18
بھ ی تم س ے بہتر ہیں و ہ کہن ے لگ ے ابوعبدالرحمن آخر کیا وج ہ ہے
فرمایا کیونکہ وہ دنیا میں بڑے زاہداور آخرت کے حریص تھے 18۔
مدینہ میں ان ع ُباد میں س ے عامر بن عبداللہ بن زبیر بھی ہیں وہ
روزوں میں وصال کرتے اور ان کے والد فرماتے کہ میں نے ابوبکر
وعمر کو ایسا کرتے نہیں دیکھا19۔
19
دوسری صدی ہجری میں عباداور زہاد طبق ے کی اس ظہور کی
وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اکثر لوگ دنیا کی طرف مائل ہوگئے
تھے دنیا کو جمع کرتے اس مقابلہ کرتے 24۔
اس کےہ رد ّ عمل میں بعض لوگ دنیا سےہ بالکل ہ ی الگ تھلگ
ہوبیٹھےہ اس کےہ علوہہ بھ ی کچھہ انفرادی اسباب ہوں گےہ کسی
خاص صوب ے یا شہ ر ک ے حوال ے س ے صرف ایک ہ ی مظہ ر کو تنہا
سبب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔اس کےہ بعد اس مشروع زہ د اور
تصوف ک ے اجتماع کا مرحل ہ شروع ہوا جبکہہ خاص صوفیت سے
متعلق کتب لکھی گئیں اس کی مثال مالک بن دینار ہیں وہ ایسے
امور کےہ داعی تھےہ جن پر سابقہہ زہاد نہہ تھےہ مثلًمعجزانہ
زندگی،شادی نہ کرنا ،خود تو شادی نہ کرتے ساتھ ہی کہتے بھی کہ
کوئی شخص صدیقین کےہ مراتب تک اسی وقت پہنچ سکتا ہے
جب و ہ بیوی کو چھوڑ د ے گویا و ہ بیو ہ ہ و اور پھ ر کتوں کی رہنے
کی جگہ چلجائے25۔
نیز کہت ے ہیں ک ہ :مج ھ پر ایک ایسا سال آیا ک ہ میں ن ے پورا سال
گوشت ن ہ کھایا سوائ ے عید الضحی ک ے میں صرف اپنی قربانی
کا گوشت کھاتا ہوں(تاریخ التصوف)193:۔اوراکثرکہ ا کرت ے تھے کہ
”:میں نے بہت سی کتابوں میں پڑھا ہے میں ن ے تورات میں پڑھا
ہےہ عیسیٰہ سےہ مروی ہےہ کہہ ”:میں تم سےہ حق کہتا ہوں ،جو
کھانا اور کتوں کےہ ساتھہ سونا یہہ بھی فردوس کی طلب میں
نہایت کم ہے “یا کہتے ”اللہ نے نبیوں میں سے ایک نبی کی طرف
وحی کی “....یا کہتے ”میں نے زبور میں پڑھاہے 26“....۔
20
بھی اسی مرحلے میں شامل 27
عبدالواحد بن زید اور رابعہ عدویہ
ہیں۔
یا جیسے رابعہ عدویہ نے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے بچے کو سینے
س ے چمٹاکر اس کا بوس ہ ل ے رہ ا تھ ا ی ہ دیک ھ کر کہن ے لگی ک ہ میں
نہیں سمجھتی تھ ی ک ہ تیر ے دل میں الل ہ تبارک اسم ہ کی محبت
کے علوہ کے لئے بھی جگہ خالی ہے29۔
21
وسماع کےہ لئےہ )چنانچہہ انہوں نےہ عبادت کا خاص طریقہہ مقرر
کرکےہ اسےہ اختیار کرلیا نیز شرعی عبادت کا التزام بھ ی کرتے
ایس ے ہ ی سماع اور ذکر بالجہ ر کرن ے لگ ے اہ ل مدین ہ قول وعمل
میں ان سے قریب تھے البتہ شامیوں کی اکثریت مجاہد تھی 31۔
جن لوگوں نے الگ طریقہ اختیار کیا ابن جوزی نے انہیں پہلے لوگ
قرار دیا وہ لوگ تھے جنہوں نے زہد اور تعمق (یعنی تکلف اورمینہ
کاری ،بال کی کھال اتارنا)اور تشدداور وساوس وخطرات کی
تفتیش ان سب کو بیک وقت اختیار کیا جو کہ ان سے پہلے لوگوں
میں نہ تھا اسی قسم کے لوگوں کے بارے میں ہم آئندہ فصل میں
کلم کریں گے ان شاءاللہ ۔
22
والےہ مرحلےہ کا ذمہہ دار ہےہ لیکن یہہ ارتقاءغالبا ً اسلمی زمانوں
میں ہوا ان کی ابتداءمیں غلونہہ تھا بلکہہ تصوف انحراف کی
انتہاءتک ساتویں ہجری میں پہنچی اور اس کے ذمہ دار ابن عربی
اور ابن فارض جیسےہ لوگ تھےہ آج کل کی صوفیت علمی اور
عملی دونوں طرح ک ے انحراف س ے گ ڈ م ڈ ہے ایس ے لوگ ہمیشہ
رہے ہیں جو بل علم وباعلم دونوں طرح غالی صوفیاءک ے اقوال
دہرات ے ہیں تیسری صدی ک ے پہل ے مرحل ے ک ے مشہور صوفیاءمیں
جنید بغدادی 33اور سری سقطی34ھی ہیں اور چوتھی صدی میں
ابوطالب المکی35ہیں اور پانچویں صدی کے ہ شروع میں
ابوعبدالرحمن السلمی36ہیں ان کےہ فورا ً بعد ہ ی حلج ظاہ ر ہوا
جو حلول کا قائل تھا لیکن یہ نظریہ صوفیت کے گزشتہ ادوار کی
نسبت کمیاب تھ ا چنانچہہ یہہ تقسیم ہ ر مرحلےہ میں غالب عقیدہ
وعمل کے اعتبار سے ہے۔
ابتدائی تصوف
اپنی ابتداءمیں تصوف تصفیہ روح کے لئے چند نفسانی ریاضتوں ،
جسمانی مشقتوں معروف کسر نفس اور طبعی مجاہدوں سے
معروف تھ ا یہہ تزکیہہ روح جو سلف کےہ ہاں بلتکلف ہ ی حاصل
ہوجاتا تھا جب ایک مکمل تربیت ومشق کا نتیجہ جاٹھہرا تو ہم نے
دیکھ لیا کہ اس تزکیہ کے حصول کے لئے تشدد وتکلف اور اخلص
کی جانچ پڑتال اور چھانٹ پھٹک جو وساوس کی حد تک لے جاتے
کا طریق ہ اختیارکرنا پڑتا ہ م ان ک ے اقوال واحوال میں اس بات
کی تائید دیکھتےہ ہیں جنید بغدادی جس ے اس جماعت کا سرغنہ
کہاجاتا ہے کہتے ہیں:ہم نے تصوف قیل وقال سے نہیں بلکہ بھوک ،
ترک دنیا اور آسائش چھوڑ کر حاصل کیا ہےہ 37۔ معروف کرخی
بیان کرتا ہےہ کہہ :میں ایک عرصہہ روزےہ سےہ رہا اگرکھانےہ کی
طرف بلیا جاتا تو کھالیتا اور ی ہ ن ہ کہتا ک ہ روز ے س ے ہوں 38۔ نیز
( 33ان کا نام ابوالقاسم الخزار تھ ا اصل میں نہاوند ک ے تھے البت ہ پیدا بغداد میں ہوئ ے ان کا قول ہے کہ
کےہ آثار کا راستہہ لزم ”:اللہہ تک پہنچنےہ کا راستہہ مخلوق پر بند ہےہ البتہہ متقین کےہ لئےہ رسول اللہہ
ہے“۔ابوثور سے فقہ سیکھی 298ہجری میں فوت ہوئے ملحظہ ہو صفۃ الصفوۃ)416/2:
34ان کا نام سری بن مغلس تھا جنید بغدادی کے ماموں اور استاذ تھے تنہائی پسند تھے محبت کے بارے
میں گفتگو کرکے جنت کی للچ یا جہنم کے خوف کے بارے میں گفتگو نہ کرتے کہا کرتے کہ ”:سنت میں
کم رہنا بدعت میں زیادہ رہنے سے بہتر ہے “253ہجری میں فوت ہوئے ملحظہ ہو طبقات الشعرانی )74/1:
35ان کا نام محمد بن عطیہ تھا نیک آدمی تھے قوت القلوب میں بعض موضوع احادیث ذکر کی ہیں
لوگوں نے بعض باتوں میں انہیں بدعتی قرار دے کر چھوڑ دیا تھا ۔386ہجری میں فوت ہوئے ملحظہ ہو
البدایۃ والنہایۃ319/11:
36ان کا نام محمد بن حسین الزدی السلمی تھا صوفیاءکی احادیث کا اہتمام کرتے ان کے لئے ان ہی
کی طرز پر ایک تفسیر بھی لکھی ان کے بارے میں محمد یوسف بن القطان النیسابوری فرماتے ہیں
:ثقہ نہیں صوفیہ کے لئے احادیث گھڑتا ہے اس کی تفسیر میں بھی ناجائز باتیں ہیں ان کی وفات
412ہجری میں ہوئی ملحظہ ہو سیر اعلم النبلء247/17:
( 37سیر اعلم النبلء)69/14:
( 38صفۃ الصفوۃ)329/2:
23
بشرالحانی 39کہتا ہے :میں پچاس سال بھن ے گوشت اور چپاتی
کی تمنا کرتا رہا پر میرے پاس ایک درہم نہ ہوا40۔
جنید بغدادی اپنےہ بزرگوں سےہ روایت کرتےہ ہیں کہہ وہہ جب وہ
سوجات ے توانہیں پکارا جاتا کیا تومج ھ س ے سوتا ہے اگر تو سویا
تومیں تجھے کوڑے ماروں گا ۔ایسے ہی غزالی سہل بن عبداللہ کے
بار ے میں لکھت ے ہیں ک ہ و ہ چھوٹ ے کھجور ک ے پت ے کھات ے اورغزالی
کو خود بھ ی جنگلوں میں چل ے جان ے پر آماد ہ کرت ے اور ی ہ شرط
لگات ے ک ہ گھاس پھوس کھان ے کی عادت بنال ے گا۔ابونصر السراج
ک ے نزدیک صوفیت کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ عزت پر ذلت
کو ترجیح دے گا اور نرمی پر سختی کو پسند کرے گا42۔
اور جنید اپنے مرید سے کہتا کہ وہ حدیث پاک نہ پڑھے (اکثر اس کا
مقصد یہ ہوتا کہ تزکی ہ نفس کی ابتداءمیں اصطلحات حدیث کی
گہرائی میںنہ جائے کیونکہ حدیث پڑھنا ترک کردینا تو کفرمیں مبتل
کردیتا ہےہ )یہہ تمام امور اس اعتدال اور آسان دین حنیف اور
39اس کا نام بشر بن حارث ہے عبادت میں لگ کر لوگوں سے الگ رہا اس کی عبادت وورع اور قربانی
میں اس کی تعریف کی جاتی اس کی تین بہنیں بھی اسی طرح تھیں 227ہجری میں فوت ہوا۔سیر
اعلم النبلء41/10:
( 40صفۃ الصفوة)392/2:
( 41التعرف از کلبازی )155:
( 42اللمع)28:
( 43العتصام از شاطبی )214/1:
( 44تلبیس ابلیس)141:
24
طریق صحابہہ ک ے خلف ہیں اس مرحل ے ک ے امتیازات درج ذیل
ہیں :
25
کھات ے تھے ،میٹھ ی اشیاءپسند کرت ے تھے آپ ک ے لئ ے ٹھنڈ ا پانی
شیریں بنایا جاتا48۔
شادی نہہ کرنا ہمیشہہ بھوکا رہنا اس تبتل (گوشہہ نشینی )کے
مترادف ہے جس سے نبی نے اپنے بعض صحابہ کو منع فرمایا
یہی وجہہ تھی کہہ ابن عطاءالدمی فرماتےہ ہیں کہہ :اﷲہماری
عقلیں درست رکھے جو بھوک اور ریاضت کی تنگی کو اپنی
عقل کے زوال کا سبب بنالے وہ نافرمان گناہ گار ہے50۔
جنگلوں میں نکل جانا اس سےہ روکا گیا ہےہ یہہ رہبانیت کی
بدعت ہے ابوداؤد میں ابواسام ہ س ے مروی ہے ک ہ ایک شخص
ن ے کہ ا یا رسول الل ہ سیاحت کی اجازت دیجئ ے آپ ن ے فرمایا:
میری امت کی سیاحت جہاد میں ہے51۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:جنگل میں نکل جانا اس امت کا شیوہ
نہیں52۔
26
جبک ہ وہ بکثرت انفاق فی سبیل اللہ کرتے 54
کررکھن ے س ے منع کیا
تھے ۔
27
دلیل نہیں کیونک ہ اکثر رہبان ک ے پاس اس قدر زہ د تھ ا جس کی
منصور اور اکثر مسلمان استطاعت نہیں رکھتے 59۔
نیز فرماتے ہیں :یہ گانے والے قصیدے اور ان پر مجمع لگانا ان
میں اکبر شیوخ حاضر نہہ ہوئےہ جیسےہ فضیل بن عیاض اور
ابراہیم بن ادہم اور کرخی کچھہ لوگ حاضر ہوئےہ پھر تائب
ہوگئے اور جنید بغدادی اپنی آخری عمر میں حاضر نہ ہوئے 62۔
28
کسی شخص معین کےہ اردگرد تعصب کا سبب نہیں
چانچہہ ان میں کوئی رکاوٹ نہیں اور انتساب شرعی
اعتبار سےہ اچھا ہوسکتا ہےہ جیسےہ مہاجرون اور انصار
ایسےہ ہی جائز ومباح بھی ہوتا ہےہ جیسےہ قبائل اور
شہروں کی طرف نسبت اورکبھی مکروہہ وحرام بھی
ہوتا ہےہ جیسےہ ایسی نسبت جو بدعت اور نافرمانی کا
سبب ہو63۔
5اس دور میں لکھ ی جان ے والی کتب جن میں چند کا ہم
ن ے تذکر ہ بھ ی کیا ہے ان ک ے بار ے میں علماءکی آراءدرج
ذیل ہیں :
6اس ابتدائی مرحلےہ سےہ معلوم ہوتاہےہ کہہ تصفیہہ روح کےہ لئے
جسم کو تکلیف دینا اور آسائشوں س ے پرہیز کرنا ی ہ نصاریٰ
س ے متاثر ہون ے کی بناءپر تھ ا امام احمد بن ابوحواری حرملہ
کی ایک کٹیا میں بیٹھےہ راہ ب سےہ اپنی ملقات کا قصہہ بیان
کرت ے ہیں ک ہ انہوں ن ے اس کی رہبانیت کی وج ہ پوچھ ی تو وہ
کہنے لگا جسم زمین سے پیدا کیا گیا ہے اور روح کوآسمان کی
بادشاہت سے سو جب اس کابدن بھوکا رہے اور اسے بے لباس
کرد ے اور اس ے مسلسل بیدار رکھے روح واپس اس جگہ چلی
جاتی ہےہ جہاں سےہ نکلی تھ ی اور جب بدن اسےہ کھلئےہ اور
آرام دےہ تو زمین پر ہی رہتی ہےہ اور دنیا سےہ محبت کرنے
لگتی ہے ابوحواری نے راہب سے ہونے والی یہ گفتگو اپنے شیخ
( 63اقتضاءالصرا المستقیم)71:
( 64تلبیس ابلیس)165:
( 65تلبیس ابلیس167:
29
ابوسلیمان الدرانی کے سامنے ذکر کی تو کہنے لگے کہ :وہ باتیں
بنات ے ہیں ۔گویا انہوں ن ے راہ ب کی گفتگو س ے تعجب کیا اسے
لئےہ امام ذہبی اس پر لکھتےہ ہیں کہہ طریق محمدی بہترین
ہے66۔
اس طبق ے صوفیاءاپن ے زہ د اور ترک دنیا میں سچ ے تھے لیکن ان
میں ایسا تکلف وتشددوسوسےہ تھےہ جن کا شریعت حکم نہیں
کرتی بلکہہ انہیں پسند بھی نہیں کرتی ہم یہہ تصور بھی نہیں
کرسکتے کہ یہ مسلمانوں کے عقائد خراب کرنا چاہتے تھے جیسا کہ
شیع ہ ن ے تشیع کو سیاسی طور پر لیا اور پھ ر اس ے باطنیت کی
کیچڑ میں ڈال دیا 67یہی وجہ ہے کہ ان سے بسا اوقات ایسے الفاظ
صادر ہوئے جن کے بارے میں سوچنے پر ہم مجبورہوجاتے ہیں مثلً
جنید بغدادی نے شبلی سے کہا کہ :ہم نے یہ علم حاصل کرکے اسے
”انڈ ر ورلڈ“چھپائےہ رکھ ا پھ ر تو نےہ آ کر اسےہ ساری خلقت کے
سامنے آشکارا کردیا68۔
30
تیسری فصل:اصطلحات اور غیر یقینی
صورتحال
سنت سے کسی بھی طرح کا انحراف وقت گزرتے بڑھتا جاتا ہے
پر طرف سے یکجا ہونے والے معاون حالت غلط اجتہاد اور باطل
نظریات سبب بنت ے ہیں سو شگاف بڑھتا جاتا ہے اور باطل قوت
پکڑلیتا ہےہ تیسری صدی کےہ اختتام پر صوفیت اپنی ہ ی مشکل
ک ے سات ھ ساتھ ایسی پوشید ہ اور مبہم اصلحات میں واقع ہوگئی
جن ہ ر صوفی اپنی منشاءک ے مطابق تفسیر کرتا نیا صوفی ان
کی بیزار تفسیر کرتا اورپکا صوفی اپنے غلو وضللت کے مطابق
ان کی تفسیر کرتا اور اصطلحات کی یہ شکل اور ان کا واضح
نہ ہونا ہم س ے پہلی امتوں کی گمراہی کا بھی سبب رہ ا ہے ایسے
مبہ م کلمات جو حق وباطل دونوں کا احتمال رکھت ے نصاری ٰ کے
عقیدہہ الوہیت مسیح کا سبب بنےہ جب اللہہ سبحانہہ وتعالیٰہ نے
منہُ“یعنی اپنی روح کہ ا تو اس کا معنی یہ نہ تھ ا ک ہ وہ انہیں ”ُروح ِّ
اس کا جزءہے بلکہ یہ نسبت اعزازی تھی جیسا کہ اللہ فرماتا ہے کہ
”:ناق ۃ اﷲ“یعنی الل ہ کی اونٹنی یا بعض صحاب ہ کرام کو اسد اللہ
یعنی اللہ کا شیر یا سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کہا جاتا ہے یا اللہ
کا فرمان ک ہ :سخر لکم ما فی السموات وما فی الرض جمیعا
منہ۔یعنی اس ن ے تابع کردیا ہے تمہار ے و ہ سب جو آسمانوں میں
ہے اور جو زمین پر ہے سب اسی سے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن نے
مشتب ہ ک ے پیچھے لگن ے وال ے س ے منع کیا ہے اور مشتب ہ کو محکم
کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے اور محکم اللہ کا یہ فرمان ہے کہ
:قل ھواﷲہ احد اﷲہ الصمد لم یلد ولم یولد........یعنی کہہہ دیجئے
شان ی ہ ہے ک ہ الل ہ ایک ہے و ہ ب ے نیاز ہے ن ہ اس ن ے جنا ن ہ و ہ ہی جنا
گیا۔امام احمد فرماتےہ ہیں :عیسیٰ ہ کلمہہ ک ُن ”ہوجا“سےہ پیدا
ہوئے نہ کہ وہ خود ہی کلمہ کُن ہیں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے
بارےہ میں فرمایاکہہ :ول تلبسوا الحق بالباطل یعنی حق وباطل
خلط ملط نہ کرو70۔
31
ان کےہ ہاں منفرد عبارات واصطلحات ہیں جنہیں ان کےہ سوا
کوئی استعمال نہیں کرتا۔
1الفنا:اس مبہم ومجمل لفظ سےہ باطل بلکہہ کفر مراد ہے
صوفیاءاس س ے ”ایک ہ ی وجود س ے معدوم ہوجانا“مراد لیتے
ہیں یعنی اللہہ سبحانہہ کےہ سوا کوئی موجودنہیں اور اس کے
سوا کسی کا وجود حقیقی نہیں اس عقیدہ وحدت الوجود کے
متعلق ہم آئندہ بحث میں گفتگو کریں گے (ان شاءاللہ )
2اس لفظ فناءکا یہہ معنی بھی ہےہ کہہ لوگوں اور خلقت سے
غائب ہونا اور اللہہ کےہ سوا کسی کاحاضر نہہ ہونا اور (غیبوبہ
یعنی غائب ہوجانا)میں واقع ہونا حتی کہ عبادت سے بھی غائب
ہوجانا اس سے یہ وہم ہوتا ہے ک ہ کہ وہ (یعنی غائب ہونے والفنا
ہون ے وال)اور معبود ایک ہ ی شئےہ ہیں اور ی ہ گمان پڑتا ہےہ کہ
اس کی ذات اور اس کی ذات میں اور اس کی صفات اس
کی صفات میں مضحمل ہوگئیں 71۔
32
میں مشغول ہون ے ان کی دیک ھ بھال کرن ے اور ان کی طرف
توجہ دینے کا حکم دیا ہے72۔
اور صحو کہتےہ ہیں عارف کےہ غائب ہوجانےہ اور اس کے
احساس کے زائل ہوجانے کے بعد پلٹ آنا۔
6العشق:صوفیاءنےہ اس لفظ کو اختیار کیا جبکہہ رب تبارک
وتعالیٰ کو اس لفظ س ے موصوف نہیں کیا جاسکتا نہ بندے کا
اپنےہ رب سےہ اظہار محبت کےہ لئےہ یہہ لفظ استعمال کیا
جاسکتاہے 74۔
33
(یعنی )کہہہ دیجئےہ کہہ جو کچھہ آسمانوں اور زمین میں ہےہ اسے
دیکھو۔
34
ثابت ہ و اس طرح کی اصطلحات جاہ ل پر حاوی ہوجاتی ہیں
اور عقل مندکو الجھادیتی ہیں جبکہ وہ دین میں کمزور ہوں ۔
ان شیخ صاحب نے زاد راہ کے بغیر صحراءجاکر خلف سنت عمل
کیا اور توکل کا معنی سمجھنےہ میں غلطی کی اللہہ سبحانہ
وتعالی نےہ اسباب پیدا کرکےہ مخلوق سےہ انہیں اختیارکرنےہ کا
مطالب ہ کیا ہے اور مسلمان محض اسباب پر مکمل اعتماد نہیں
رکھتا لیکن اس کےہ ساتھہ ساتھہ اللہہ پرکلی اعتماد دکرتا ہےہ اور
نتائج کا اللہہ تعالیٰہ سےہ امیدوار ہوتا ہے۔صوفیاءمقام رضا کے
متعلق کہتےہ ہیں کہہ یہہ تقدیر پر بس کئےہ رہنا ہےہ کہہ جو اللہہ کی
طرف س ے آئ ے اسی پر قناعت کرنا یہ معنی بنظر عمیق درست
نہیں مسلمان اللہہ کی تقدیر پر اعتراض نہیں کرتا جیسے
35
مرض،فقرلیکن الل ہ کی تقدیر کو الل ہ ہ ی کی تقدیر س ے ٹالتا ہے
جیسےہ مرض کا علج دوا سےہ کرتا ہےہ اور محنت کرکےہ کماکر
فقر کو ٹالتا ہے اور دینی معاملت جیسے نماز روزہ میں یوں نہیں
کہتا کہہ میں نماز اس لئےہ نہیں پڑھتا کہہ اللہہ نےہ میرےہ مقدر میں
رکھ ی نہیں ی ہ توشیطانی حیلےہ اورمشرکین کا طرز عمل وقول
ہے شریعت احکامات کو نافذ کرنا اور مصائب کو الل ہ کی تقدیر
س ے ہٹانا اور ان پر صبر کرنا واجب ہے ان تمام اصطلحات کے
متعلق ابن قیم کا تبصرہہ نہایت جامع ہےہ ”:کہہ چلنےہ کی آواز
اورپسنے کی آواز سنائی دیتی ہے پر آٹا نہیں دکھائی پڑتا“78۔
اسلم میں فلسفہہ یونانی کتابوں کےہ ترجمےہ کےہ بعد آیا جیسے
افلطون اسکندری کی کتاب ”التاسوعات“ کا عربی ترجمہ
عبدالمسیح بن ناعمہہ الحمصی نےہ ”الثولوجیا“یعنی ربوبیت کے
نام سے کیا80۔
36
ایسےہ ہی ”اثولکوجیا“ارسطو کی کتاب کا ترجمہہ ہےہ اس میں
فیض اور اشراق کا نظریہہ پیش کیا گیا ہےہ جو صوفیت کے
خطرناک ترین دور پر چھایا رہا خصوصا ً سہروردی 81اور ابن
عربی 82کےہ ادوار میں اسی فلسفےہ کےہ دباؤ میں معتزلہہ نےہ ہر
خلف عقل (ان کےہ زعم میں )نص کی تاویل یا انکار شروع
کردیا جیسا کہ وہ جوہر،جزلیتجزا،جسم ،متحیز....وغیرہ الفاظ کے
جھگڑےہ میں بہت آگےہ نکل گئےہ اور فکری بغاوت کےہ دورکی
بہترین مثال قرار پائے اورعملی طور پر بخوشی اسلم سے خارج
قرار پائے ۔
صوفیاءپر فلسفہہ ”الٰہہ سےہ مشابہ ت بقدر طاقت“ کےہ عنوان پر
داخل ہوا انہوں ن ے بند ے کو رب س ے صفات وافعا ل میں مشابہ
قرار دین ے کی کوشش کی جیسا ک ہ غزالی اور اس ک ے ہمنواؤں
نے اپنی کتاب ”المضنون بہ علی غیر اہلہ “میں کیا83۔
37
لیکن صوفیاءکا یہ نظریہ ابن عربی کے نظریہ وحدت والوجود سے
الگ تھا وہہ وحدت الوجود کےہ متعلق کہتا کہہ حقیقی وجود اللہ
سبحانہہ کاہی ہےہ لیکن ہم اپنی آنکھوں کےہ سامنےہ بہت سی
اشیاءقائم دیکھتےہ ہیں ان کاانکار ممکن نہیں اسی لئےہ یہہ تمام
ﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲ عما یقول
موجودات اللہہ کےہ ذات کےہ سوا نہیں ہیں (تعالی ا
الظالمون علوا کبیرا(یعنی )الل ہ ظالموں کےہ ان اقوال س ے بہت
بلند وبال ہے)اور اسی کے مظاہر وتجلیات کا مظہر وتجلی ہے اس
کی آیا ت میں س ے کوئی آیت نہیں جیسا ک ہ اہ ل السن ۃ کہت ے ہیں
تواس طرح رب کی حقیقت یہ ہوئی کہ وہ وجود مطلق ہے نہ اس
کانام ہے ن ہ ہ ی صفت ن ہ ہ ی آخرت میں اس ے دیکھاجائ ے گا ن ہ اس
کا کلم ہے نہ علم ہے نہ اس کے سوا کچھ ہے لیکن وہ کائنات میں
دیکھا جاسکتا ہے85۔
اور جب یہہ سوال پیدا ہوا کہہ وحدت الوجود کا نظریہہ کیونکر
درست ہوسکتا ہے جبک ہ خالق اور مخلوق ،مومن اور کفار سب
ہیں اور کفار کو جہنم میں عذاب ہوگا تو عذاب کون د ے گا ؟تو
ابن عربی ن ے قرآن کریم کی آیت میں تحریف شروع کردی اور
ہر آیت میں ایسا کفر اور باطنیت داخل کردی تاکہ یہ سوال ہی نہ
پیدا ہوچنانچہ اپنی کتاب ”فصوص الحکم “میں کہا کہ ”:موسیٰ
مستقل ہے)
( 85تنبیہ الغبی از بقاعی 40/19:نیز الیمان الوسط از ابن تیمیۃ 132:نیز قطر الولی از شوکانی)190:
( 86مقدمۃ ابن خلدون)471:
38
ن ے ہارون کو اس لئ ے ڈانٹا کہ انہوں ن ے بنی اسرائیل کو بچھڑے
کی عبادت سے منع کردیاتھااورانہوں نے (بچھڑے کی عبادت کرکے
گویا )اللہ ہی کی عبادت کی تھی اسی لئے اللہ نے فیصلہ فرمادیاکہ
ہم اس کےہ سوا کسی کی عبادت نہیں کرتےہ اس اعتبار سے
موسیٰ ہارون سے زیادہ عالم تھے 87۔
اور وہہ ہوا جو قوم عاد کی تباہی کا ذریعہہ بنی وہہ راحت سے
مشتق ہے ۔(عربی کو ہوا میں ریح کہتے ہیں ریح اور راحت دونوں
کا ماد ہ روح ہے راح ۃ مصدر ہے اور ریح مشتق)کیونک ہ اس ن ے ان
ک ے اندھیرجسموں کو راحت د ے دی اور اس ہوا میں عذاب تھا
عقابہ عذوبہ (چاشنی)سے مشتق ہے 88۔
ابن عربی نے فرعون کو مومن قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ اللہ نے
فرمایا قرۃ عین لی ولک (یعنی)فرعون کی بیوی آسیہ نے موسیٰ
کو صندوق سےہ نکالتےہ ہوئےہ کہاکہ)میری اور تیری آنکھوں کی
ٹھنڈ ک بنے اس ایمان کی بدولت جو الل ہ نے اس ے غرق ہوت ے وقت
دیا89۔
ابن عربی نےہ دیگر انبیاءکےہ واقعات میں اسی طرح کی
کارستانیاں کی ہیں جو چاہے اس کی کتابیں پڑھ لے ہر سطر سے
عقیدہہ وحدت والوجود کی بو آئےہ گی اس کا یہہ سارا کلم
درحقیقت دین کی بنیاد ڈھادینے کی سعی ہے اللہ نے کفار کے لئے
جو وعیدیں بیان کی ہیں و ہ اس دنیا ک ے لئ ے نہیں بلک ہ آخرت کے
لئے ہیں چنانچہ ابن عربی اور اس کے شاگرد شعائر اسلمی نماز
قربانی اور پیوند لگےہ لباسوں اور زندیقیت کی آرائشوں کے
پیچھے صوفیت کے نام پر چھپے رہے 90۔
( 87یعنی ابن عربی کے نزدیک موسی ٰ بھی وحدت الوجود کے قائل تھے ۔نعوذ باللہ من ذلک ۔تنبیہ الغبی
از بقاعی120:بحوالہ فصوص الحکم،فصل)192:
( 88ایضاً95:بحوالہ فصوص فصل نمبر )109
( 89ایضاً)128:
( 90تنبیۃ الغبی الی تکفیر ابن عربی از شیخ برھان الدین البقاعی)
39
فلسفہہ ابن عربی کی طرح وحدت الوجود کےہ قائل نہیں لیکن
انہوں نےہ اس باطل نظریےہ کےہ لئےہ راہہ ضرور ہموار کی ہےہ اللہ
تعالیٰ کے متعلق بل علم باتیں کہہ کر اور اسے اپنی خیالی صفات
سے متصف کرکے اس گمراہی کی وجہ انکا آسمانی شریعت سے
اعراض اور انبیاءک ے نور ہدایت س ے دوری ہے اسی لئ ے انہوں نے
معبود کو ایسی بسیط ذات خیال کیا جو ترکیب کے ہر شائبے اور
صفات سے مکمل پاک ہو جیسے ،قدیر ،سمیع ،بصیریہ صفات ان
کےہ نزدیک مرکب ہیں انہوں نےہ کہا کہہ اس کی حقیقی صفت
”وجود “ہے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ کیا وجود؟تو جواب آتا
کہ کسی شئے کا نہیں گویا ایسا وجود جس کی کوئی صفت نہیں
تو اس اللہ سبحانہ کا وجود ایسا نہیں جسے ہم مسلمان جانتے ہیں
اور جس ن ے رسول مبعوث کئ ے اور کتابیں نازل کیں ،درحقیقت
ان ک ے نزدیک وجود وہ ی الل ہ ہے جس ے ہ م مسلمان مانت ے ہیں اور
جس نےہ رسول بھیجےہ اورکتابیں نازل کیں،وہہ ان کےہ نزدیک ہر
صفت سےہ عاری وجودہےہ فطرتا ً یہہ ان کےہ ذہنوں کےہ باطل
تصورات ہیں حقیقت نہیں چونکہہ صفت وجود ان ک ے نزدیک اللہ
کی خاص ترین صفت ہے تو ان کی عقلوں میں ی ہ بات بیٹ ھ گئی
کہہ ہ ر وجود اللہہ کی وجود کی طرح واجب ہےہ اور چونکہہ عالم
موجود ہے تو وہ اللہ ہے ۔تعالیٰ اللہ عن قولھم علوا کبیرا(یعنی)اللہ
ان کے قول سے بڑا ہی بلند ہے 91۔
40
کےہ تمام حصوں بخروں میں تقسیم کردیا اس کےہ باوجود بھی
فلسفہہ کا شفاف اسلمی عقیدہہ کوبگاڑنےہ بلکہہ تمام انسانی
معاشروں کو بگاڑن ے میں اہ م کردار رہ ا ہے کیونک ہ اس کی بنیاد
صرف ایس ے تصورات پر ہوتی ہے جو ذہ ن میں تو ہوت ے ہیں ذہن
سے باہر حقیقت کی دنیا میں نہیں اسی لئے ایک عظیم عالم دین
ابن تیمیہ اس کی گہرائی میں جاکر واپس آنےہ کےہ بعد فرماتے
ہیں کہہ :بےہ شک جو آفاقی شرائع سےہ جس قدر قریب ہوگا وہ
عقل اور حقیقت کی معرفت س ے بھی اسی قدر قریب ہوگا۔کیا
آپ نےہ مشاہدہہ کیا کہہ کسی فلسفی نےہ کسی علقےہ کی
خیرخواہی کی ہو92۔
ابن تیمیہ نےہ یہاں ایک مغربی مفکر ڈاکٹر ایلکس کارل سے
ملقات کی جس کاخیال تھ ا ک ہ فلسف ے ن ے مغربی معاشر ے میں
تباہی مچائی ہے کہ جس معاشرے میں صرف کتابیں پڑھائی جاتی
ہیں حقیقت پر غور نہیں کیا جاتا وہہ کہتا ہےہ :فلسفی کا فلسفہ
تمام لوگوں کےہ لئےہ قابل قبول نہیں ہوسکتا فلسفی کےہ تمام
دلئل فرضی ہوتے ہیں 93۔
41
کی طرف فطری توج ہ اور انسانی شیطانوں پر شیطانی وحی
کے درمیان ناپسندیدہ انقطاع کا اور ظاہر ہے کہ انسان کے لئے راہ
اعتدال پر گامزن رہنا مشکل ہوجاتاو ہ یا تو تشدد وغلو یا تساہل
ونرمی اور ذم ہ داریوں س ے فرار چاہن ے لگتا ہے پھ ر شیطان بھی
ایسےہ شخص کےہ سامنےہ خود کو عقل کل سمجھتا ہ و بڑےہ گل
کھلتا ہے ک ہ اگر و ہ عام لوگوں اور عام طریق ے ک ے مطابق اپنے
علم ومذہ ب پر قانع رہ ا تو اس ن ے کیاکیا؟لہٰذا ضروری ہے ک ہ نئے
نئ ے کارنامے سرانجام دی ے جائیں اور عجیب وغریب اورانوکھا پن
اختیارکیا جائے یہ پوشیدہ خواہشات ہوتی ہیں جن کاادراک اور جن
سے دور صرف علماءربانیین ہی رہ پاتے ہیں (یا پھر وہ حقائق کی
دنیا کا باشندہ بن جاتا ہے)
ابن تیمیہ شیخ ابراہیم الجعیری سےہ نقل کرتےہ ہیں کہہ :میں نے
ابن عربی کو دیکھ ا و ہ ناپاک شیخ ہے الل ہ کی نازل کرد ہ ہ ر کتاب
اور اس کے بھیجے ہوئے ہر نبی کو جھوٹا کہتا ہے96۔
بقاعی ابن عربی کے حامیوں کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
42
اصولی کہت ے ہیں :اگر کوئی ایسا کلم ہ کہے جس س ے ارتداد لزم
آتا ہواور یہ گمان رکھے کہ وہ توریہ (یعنی دل سے اس کے برعکس
سوچ رکھنا)کررہا ہے تو وہ ظاہرا ً اور باطنا ً کافر ہے98۔
43
ترجمہ”:فنا ہونےہ کےہ بعد ہوش میں آکر بھ ی میں اس سےہ الگ
نہیں اور میری ذات جب میری ہ ی ذات میں حلول کرتی ہے تو
آشکار ہوجاتی ہے“۔
دوسرا باب
صوفیاءکی بدعات
پہلی فصل :علمی بدعات
تمہید:صوفیاءعلمی اور عملی دونوں طرح کی بدعات کے
مرتکب رہے ہیں عملی بدعات س ے ان ک ے و ہ نظریات مراد ہیں
جو انہوں نے اسلمی عقیدے میں بدعات نکالیں اور عملی بدعات
سےہ ان کےہ وہہ طور طریقےہ اور راہیں جو انہوںنےہ صحیح منہج
اسلمی میں بدعات کیں۔
44
بدعت کہنے سے اس کے خطرے میں کمی واقع نہیں ہوگی بدعات
صغیرہ بھی ہوتی ہے اور کبیرہ بھی جو کفر تک لے جاتی ہے تو جو
وحدت ادیان کا معتقدہوا اور ی ہ عقیدہہ رکھےہ ک ہ قطب اور غوث
کائنات میں تصرف کرت ے ہیں و ہ کافر ومشرک ہے اصل مصیبت
رسول اللہ اور خیرالقرون کی عدم متابعت اور اس سے بڑھ کر
کچھ کرنے کی کوشش ہے خواہ اچھی نیت سے ہو یا بری نیت سے
۔
بدعت حسنہہ اور بدعت سیئہہ کی تقسیم ناقابل قبول ہےہ کیونکہ
بدعت ہمیشہ سیئہ ہی ہوتی ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے نبی نے
فرمایا:کل بدع ۃ ضلل ۃ یعنی” ہر“ بدعت گمراہ ی ہے ۔بدعت اپنی
ل جس کا اردو ترجمہ اس صفت (یعنی عربی میں لفظ ک ُ ّ
”ہر“ہے)ک ے اعتبار س ے ایک خاص تعریف کی محتاج بن جاتی ہے
اور ہ م اس تعریف کو اختیار کریں گ ے جو ک ہ امام شاطبی کی
کتاب العتصام میں ہےہ فرماتےہ ہیں ”:وہہ طریقہہ جو دین میں
اختراع ہ و ،شریعت س ے ملتا جلتا ہواس پر عمل کرن ے کا مقصد
اللہ سبحانہ کی عبادت میں مبالغہ ہو “99۔
یعنی ”طریق ہ جو دین میں ہون ہ ک ہ دنیا میں سو اگر کوئی کہے کہ
تم آلت کو بدعت کیوں نہیں کہتےہ توہم کہیں گےہ کہہ یہہ دنیاوی
طریقہ ہیں نہ کہ دینی طریقہ ۔وہ طریقہ جو دین میں اختراع (ایجاد
کردہہ )ہ و اس سےہ پہلےہ اس کی مثل معروف ہ و لیکن اس کی
کوئی اصل (بنیاد)نہہ ہو۔جبکہہ وہہ علوم جو بعد میں ایجاد ہوئے
جیس ے علم نحو اور اصول فق ہ وغیر ہ تو ان کی اصل موجود ہے
یعنی حفظ دین اور یہہ علوم مصالح مرسلہہ کی قبیل سےہ ہیں
حقیقت بھی یہی ہے ایسا کچھ نہیں ہوتا جو بدعتی کی بدعت سے
مشابہ ہو کیونکہ ضرر محض سے تو لوگ خود ہی بھاگتے ہیں لیکن
جو پہلے سے موجود کسی شئے سے مشابہ ہو یہی شبہ بدعت کی
دشواری میں واقع کرتا ہےہ ۔ممکن ہے ک ہ صوفیاءکےہ خلف علم
بدعت ایک مستقل حیثیت اختیار کرلےہ کیونکہہ ان کی بہ ت سی
عملی بدعات مشہور ہیں علوہہ ازیں ہر فرقہہ دین میںایسی
بدعات نکالتا ہے جن کا اللہ نے حکم نہیں دیا ہوتا۔
45
ان اصطلحات کو صوفیاءباربار دہراتےہ ہیں اور انہیں اپنی دیگر
اصطلحات ظاہر وباطن سے لحق کردیتے ہیں اس بحث میں ہم
ان اصطلحات کےہ معانی اور ان کےہ باہمی تعلقات کو اجاگر
کریں گ ے ۔شریعت ان کی نگاہ میں عملی اور تکلیفی احکام کے
مجموعےہ کا نام ہےہ جسےہ فقہہ اسلمی کہتےہ ہیں اور حقیقت
(طریقت)ان احکام سے ورے اسرار ورموز کا نام ہے ،فقہاءلوگوں
کو نماز کےہ ارکان اور سنتیں سکھاتےہ ہیں جبکہہ صوفیاءدل کے
افعال جیسےہ محبت وخشیت کا اہتمام کرتےہ ہیں یہہ معتدل
صوفیاءکی رائےہ ہےہ غالی صوفیاءکہتےہ ہیں کہہ :یہہ احکام عام
مسلمانوں کےہ لئےہ ہیں جن کی عقلیں اور دل معانی علویہہ کا
ادراک چندمخصوص شعائر اور اشکال کی پابندی ک ے بغیر نہیں
کرسکت ے جیس ے نماز پانچ مرتب ہ ایک خاص شکل اور ترتیب سے
پڑھی جاتی ہے یہ ایسے ہی ہے جسے کچھ اساتذہ اپنے طلباءپر کچھ
درسی ذم ہ داریاں عائد کرت ے ہیں کیونک ہ و ہ جانت ے ہیں ک ہ ان کے
طلباءایسےہ کئےہ بغیر ان سےہ علمی استفادہہ نہیں کرسکیں گے
مقصد علم ہوتا ہےہ تواگر کچھہ خواص شرائع کےہ بنیادی مقصد
یعنی (حقیقت وطریقت)کا ادراک رکھتےہ ہوں تومقصد حاصل
ہورہ ا ہےہ انہیں نماز کی پابندی کی ضرورت نہیں نماز اللہہ سے
تعلق کا ذریعہہ ہےہ اگر یہہ تعلق ہمیشہہ برقرار رہتا ہوتو نماز کی
ضرورت صرف شرعی احکامات کےہ احترام کےہ اعتبار سےہ رہ
جاتی ہےہ ا س کا کوئی فائدہہ حاصل نہیں ہوتا ۔بلکہہ بعض
صوفیاءنے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حقیقت کا ادراک رکھنے والے سے
تمام شرعی ذمہ داریاں ساقط ہوجاتی ہیں ۔
اس چیز نےہ صوفیاءکو ایک دوسری اصطلح ظاہ ر اورباطن پر
شیر کردیا صوفیاءنے دعوی کیا کہ قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک
باطن ہے ظاہر وہ ہے جو ا س کے الفاظ سے فہم عربی اور سیاق
وسباق اور دیگر تفسیری اصول کے مطابق لیاجائے اس کا اہتمام
علماءظاہ ر کرت ے ہیں جنہیں صوفیاءبطور تحقیر ”رسمی علماء“
کہت ے ہیں باطن ان الفاظ ک ے پیچھے مخفی علم ہے حقیقی مراد
وہ ی ہے ان پر صرف بلند مقام وال ے خواص ہ ی مطلع ہوت ے ہیں
46
جنہیں صوفیاء(اشارات یعنی باطنیات )کہتےہ ہیں یہہ فقہاءدین پر
تنقید کرتے ہیں کہ وہ اعمال قلوب کا اہتمام نہیں کرتے ۔
درحقیقت یہہ فرق غیر صحیح بلکہہ باطل اور قبیح ہےہ اسلم کے
کسی بھی طرح حصے بخرے کرنا اور اسے اجزاءمیں تقسیم کرنا
قرآن ک ے حص ے بخر ے کردینا ہے اسلم سارا کا سارا ایک جسم
کی مانند ہے جیسا کہ صحابہ نے الل ہ ک ے رسول سے اخذکیا کچھ
اعضاءکے اعمال ہیں تو کچ ھ دل کے جن کا تعلق ایمان کی کمی
وزیادتی سےہ ہےہ یہہ ایمان پہاڑ کی طرح بن جاتا ہےہ اور کبھی
حقیقتاًاور کمزور دانےہ کی طرح لیکن نام اس کا شریعت یا
اسلم یا دین ہی رہتا ہے ہر وہ تقسیم جو دین میں تضاد وتغایر کا
احساس دلئے جیسے کچھ لوگ عقل اور نقل میں فرق کرتے ہیں
گویا نقل عقل ک ے منافی ہ و یا علم اور دین میں فرق کرت ے ہیں
گویا علم دین کے منافی ہو تویہ دشمنان دین کے سامنے کمزوری
کا اظہار اور ان کا راستہہ صاف کرنےہ کےہ مترادف ہوگا (یہہ بھی
اس وقت جب ہ م ایس ے فرق کرن ے والوں ک ے متعلق حسن ظن
رکھیں)۔
ابن جوزی اس تقسیم پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :یہ تقسیم
انتہائی قبیح ہےہ کیونکہہ شریعت کو حق سبحانہہ نےہ خلقت کی
مصلحت ک ے لئ ے وضع کیا ہے اس حقیقت کے سوا جو کچ ھ ہے وہ
شیطانی وساوس ہیں اور صوفیاءکا فقہاءسےہ بغض رکھنا بہت
بڑی زندیقیت ہے102۔
( 100حاضر العالم السلمی از شیکب ارسلن 160/2:بحوالہ احمد شریف السنوسی)
( 101التصوف از زکی مبارک)52/2:
( 102تلبیس ابلیس)337:
47
ظاہ ر اورباطن ک ے مابین اسی فرق ن ے ہ ی انہیں قرآنی آیات کی
تحریف وتاویل شنیع پر آمادہ کیا اور اس تاویل مذموم نے ہی ہر
باطنی فرقے کو آمادہ کیا کہ وہ اللہ کی کتاب سے اپنی خواہش کے
مطابق دلئل ڈھونڈھےہ اسی لئےہ اصول تفسیر کےہ نام سےہ اہل
السن ۃ نے علم تفسیر کو مدون کیا تاکہ معاملہ خطرناک حد تک نہ
چلجائ ے اس آیت قرآنی :فلما جن علیہہ اللیل رای کوکبا قا ھذا
ربی(یعنی)جب اس (ابراہیم ) پر رات چھائی اس نےہ ایک تارہ
دیکھ ا کہن ے لگایہ میرا رب ہے۔ک ے بار ے میں صوفیاءکا باطنی طبقہ
کہتا ہے ”:انہوں نے یہ حالت عطش (پیاس)میں دیکھا گویا ابراہیم
اپن ے رب کی ملقات کی شدت پیاس میں جب ستار ہ دیکھت ے تو
کہتے یہ میرارب ہے کیونکہ پیاسا جب سراب کو دیکھتا ہے تو اسے
پانی یاد آجاتا ہے “۔
48
شاطبی فرماتےہ ہیں:اس آیت سےہ متعلق یہہ دعویٰہ لوگوں کے
علم کے خلف ہے106۔
49
دوسری بحث:حقیقت( طریقت )
محمدی
غلو کی وادیوں میں س ے ایک وادی و ہ بھی ہے جس میں صوفی
واقع ہوئے بلکہ وہ کفر کی وادی ہے یہ رسول الل ہ کے متعلق غلو
کا اور صوفیاءکا انہیں یونانی فلسفہ سے متاثر ہوکر پہلی مخلوق
قرار دین ے کا اور اس نصرانیت س ے متاثر ہون ے کا عجیب امتزاج
ہے جو عیسیٰ کو الٰہی صفات سے متصف کرتی ہے۔
گویا صوفیاءنےہ بس یہہ نہہ کیا کہہ :رسول اللہہ کو قرآن کریم نے
بشر رسول کہا ہے اور وہ اپنے اقطاب کو الٰہی صفات سے متصف
کرتےہ ہیں تو رسول اللہ ہ کےہ کیا کہنےہ لہٰذا انہوں نےہ طریقت
محمدی ہ کی بدعت نکالی اور اس نظری ہ کی بنیاد پر ہ ی بوحیزی
کہتا ہے:
لولہ لم تخرج الدنیا من وکیف تدعو الی الدنیا ضرورۃ من
العدم
( 112ظہ ر السلم 220/4:تمام افلک کےہ مدار کو قطب کہت ے ہیں جو اپنی حرکت وسکون میں پائیدار
ہواور ہر ظاہر و پوشیدہ کو چلرہا ہویہ ہی الوہی حقیقت ہے اور عقل فعال کا نظریہ ہے جو یونانی فلسفے
سے ماخوذ ہے)
( 113ھذہ ھی الصوفیۃ 87:بحوالہ مشیش)
( 114التصوف از زکی مبارک)233/1:
50
ترجمہ”:اس ہستی کی ضرورت دنیا کو کیوں نہ ہو جو اگر نہ ہوتی
تو دنیا عدم سے وجود میں نہ آتی“۔
جبکہہ رسول اللہ اپنی امت پر ہمیشہہ غلو کاخوف کھاتےہ رہے
فرمایا:
ل تطرونی کما اطرت النصاری عیسی ابن مریم انما انا عبداﷲ
ورسولہ۔
مجھے اس قدر ن ہ چڑھاؤ تو جس قدر عیسائیوں ن ے عیسی ٰ ابن
مریم کو چڑھایا
درحقیقت میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔
115
51
اس صورت اورصوفیاءکا اپنےہ اولیاءسےہ متعلق تصور کےہ مابین
بڑا واضح فرق پاتےہ ہیں وہہ یہہ کہہ صوفی بزرگ اور شیعہہ کاامام
معصوم دونوں الٰہی صفات سےہ متصف کئےہ جاتےہ ہیں جبکہ
رسول کو قرآن کریم میں بشر کہا گیا ہے118۔
ابن عربی شعر میں اس عقیدے کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتا ہے:
اس کا دوست ابن فارض کرگاسے اپنی لنگی بنتے وقت کہتا ہے:
( 118ھذہ ھی الصوفیۃ)85:
( 119ھذہ الصوفیۃ)95:
52
وان حل بالقرار فھی وما عقد الزنار حکما سوی یدی
حلت
فل وجہ للنکار بالعصبیۃ وان خر للحجار فی البدعا عاکف
انظر الی العمامۃ احکما فوق بل انظر الی زنار زار دشت حول
خصری راسی
مسلم اناولکنی نصرانی وبرھمی فل تناعنی ل تناعنی
وزرداشتی
لیس لی سوی معبد واحد توکلت علیک ایھاالحق العلی
ووجھک الکریم فیہ غایۃ نعمنی مسجد او کنیسۃ او بیت
اصنام
( 120مجلۃ العروۃ الوثقی شمارہ نمبر 61،1403ہجری زیر ادارات عبدالحکیم الطیبی)
53
یہود کی عبادتیں،نصرانیوں کی لنگی کی گٹھان یا کمر بند ھ اور
ہندوستان کےہ مندر اور مسجدیں یہہ سب ان کےہ لئےہ اللہہ کی
عبادت گاہیں ہیں چاہے وہ جہاں بھی جائیں121۔
54
واضح ہے لیکن میں اسے ان لوگوں میں نہیں سمجھتا جو وحدت
الوجود کے قائل ہیں ۔
”لغت میں قلی قریبی اور مقرب کو کہتے ہیں اور ولیت عداوت
کی ضد کو ولیت کا اصل معنی محبت اور قریب ہونا ہے
اولیاءالل ہ س ے خاص مومن مراد ہیں اللہہ سبحانہہ ن ے ان اولیاءکی
وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
ابن تیمیہ فرماتے ہیں ”:ولی کو ولی اس لئے کہتے ہیں کہ وہ امور
اطاعت کو درست رکھتا ہےہ یعنی ان کی اتباع کرتا ہےہ یہ ی وہ
معنی ہے جس کا مدار محبت قرب اور نصرت پر ہے جو معنی
قرآن کریم میں وارد لفظ ولی اور اس کے مشتقات کی مراد ہے
خواہہ اولیاءاللہہ کی نسبت سےہ ہو یا اعداءاللہہ کی نسبت سے
55
چنانچہ ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم اصطلح کو قرآن کے بیان کردہ
اور مقرر کردہ معنی سے خارج کردیں ۔
ابن عربی کے نزدیک فناءکے مراتب ہیں ایک مرتبہ ولیایت خاقہ کا
بھ ی ہے ا س س ے وراثت مراد ہے کیونک ہ اولیاءالل ہ س ے ڈائیریکٹ
علم سیکھت ے ہیں ایک ولی ابن عربی ک ے نزدیک انبیاءس ے افضل
ہوتا ہےہ کیونکہہ وہہ ذوق والےہ ہوتےہ ہیں اور علم وجود اور اسرار
تقدیر سے واقف ہوتے ہیں۔
ولیت کا یہ رنگ صوفیانہ مفہوم ہے جبکہ قرآن کریم میں ولی ایک
مثبت شخصیت کا حامل ہوتا ہے اور دین سے متعلق ہر حکم ونہی
56
کا پابند ہوتا ہے نیز صحاب ہ اور تابعین اور علماءعاملین اس لفظ
کے زیادہ مستحق ہیں اور اس حدیث کے مکمل مصداق ہیں جس
میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”:جو میرے ولی سے بغض رکھے میں
اس سےہ اعل ن جنگ کرتا ہوں“جبکہہ صوفیاءاس طریق کے
برعکس طریقےہ ولیت کاحصول مانتےہ ہیں کیونکہہ ان کی
ریاضتوں کا مقصد اللہہ کی معرفت ہےہ یا پھ ر فناءجبکہہ اللہہ کی
معرفت اہ ل ایمان کی شان ہے اور فطری معرفت ہے جیسا کہ
ہمیں قرآن بتاتا ہے اور عمل صالح میں ی ہ وصف ہے ک ہ اس کے
عامل کو اللہہ پسند کرنےہ لگتا ہےہ جبکہہ صوفیاءکا فناءانہیں اتحاد
اور حلول ک ے کفر میں مبتلکرتاہے تو اہ ل السن ۃ کا طریق ولیت
نسبتا ً آسان ہےہ اور ہر ایک کےہ لئےہ ہےہ اور ا س طریق کی
ابتداءہ ی الل ہ اور ا س کےہ بندوں کےہ مابین محبت سےہ ہوتی ہے
جبک ہ صوفیت کا طریق ولیت ن ہ صرف مشکل بلک ہ موروثی ہے
مرید کےہ لئےہ پر مشقت راہوں سےہ گزرنا اور پھر ایسی
بکواسیات کا سہارا لینا ضروری ہے جن میں اس ے اللہ کے سامنے
حاضر سمجھاجائے۔اہل السنۃہہہ کےہہہ نزدیک افضل ترین
اولیاءانبیاءورسل ہیں جبک ہ صوفیاءک ے نزدیک انبیاءان فلسف ہ سے
بھی حقیر ہوتےہ ہیں جو الوہیت کا دعویٰہ کرتےہ ہوں جیسا کہ
سہروردی کا کہنا ہے جسے صلح الدین ایوبی نے اپنے ہاتھوں سے
واصل جہنم کیا تواہل السنۃہ کےہ نزدیک ولی سےہ وہہ مثبت
شخصیت کامسلمان ہے ہ جوطاعات کا اہتمام کرتا ہوجبکہ
صوفیاءکے نزدیک وہ ہے جو فناءمیں غرق ہو ۔(انتہی)
57
بناءپر یا کسی صالح شخص کی دعاءسےہ تو اگر خرق عادت
معاملہ نبی کے لئ ے ہ و تو وہ معجزہ ہے اور اگر صالحین ک ے لئے ہو
تو وہ کرامت ہے اور یہ کرامت اگر حقیقتا ً کسی ولی کے لئے ہوتو
دراصل یہہ بھ ی معجزات رسول کا ہ ی ایک رخ ہےہ جو آپ کی
اتباع کی برکت سے حاصل ہوا۔
یہ امور خرق عادت یا علم کی نسبت سے ہوتے ہیں کہ نبی وہ کچھ
سن لیتا ہے جو کوئی دوسرا نہیں سن پاتا یا وہ کچ ھ دیک ھ لیتا ہے
جو کوئی اورنہیں دیکھ پاتا نیند کی حالت میں یا بیداری میں یا وہ
کچھ جان لیتاہے جو کوئی دوسرانہیں جان پاتا ولی اور الہام یا بندہ
مومن کی فراست صادقہ کے اعتبارسے نیز یہ یا تو قدرت و تاثیر
کی قبیل سے ہوتا ہے جیس ے دعائے مستجاب یا کھانے میں برکت
یا آگ کا نہ جلنا صحابہ کرام کے لئے اس نوع کی کرامات ثابت
ہیں یا پھر کسی دینی ضرورت یا حجت کی نوع سےہ ہوتا ہے
جیسےہ ام ایمن نےہ جب ہجرت کی تو ان کےہ پاس کھانےہ پینے
کاسامان نہ تھا وہ بھوک سے نڈھال ہوکر موت کے قریب تر ہوگئیں
تو اپنے سر کے اوپر کچھ محسوس کیاتادیکھاتو ڈول لٹکا ہوا تھا تو
اس س ے سیراب ہوگئیں نیز براءبن مالک قسم کھالیت ے تو اللہ
ان کی قسم پوری کرتا اور سعد بن ابی وقاص مستجاب
الدعوات تھےہ اسلمی لشکر کےہ امیر علءبن حجرمی اور ان
لشکر بحرین میں سمندر کی سطح پر چلمگر سمندر نےہ ان
س ے کچ ھ تعرض نہ کیا جبک ہ ان کے پاس کشتیاں بھی ن ہ تھیں جن
پر وہ سوار ہوتے نیز ابومسلم الخولنی کو آگ میں ڈال گیا مگر وہ
انہیں جلنہ سکی 125۔
یہہ صحیح واقعات صحابہہ کےہ لئےہ ثابت ہیں اور ان سےہ زیادہ
واقعات تابعین ک ے بعد رونما ہوئ ے اہ ل السن ۃ بدعتیوں کی طرح
کرامات کےہ منکر نہیں اور وہہ یہہ بھ ی جانتےہ ہیں کہہ جس اللہہ نے
اسباب اور مسببات کو پیداکیا وہہ اپنےہ بندوں کےہ لئےہ ان خرق
عادت امور پر بھی قادر ہے لیکن صوفیاءصرف اس کے وقوع کو
ہ ی صاحب کرامت کی افضلیت کی دلیل قرار دیت ے ہیں حتی کہ
اگر کسی فاجر کے ہاتھوں ہی کرامت کا صدور ہوتو وہ اسے شیخ
طریقت کا لقب دےہ دیتےہ ہیں چنانچہہ اس موضوع پر کچھ
تحفظات ہونالزمی تقاضا ہے۔
( 125الفتاوی 279/11:از ابن تیمیۃ اس مقام پر ابن تیمی ہ نے معجزات وکرامات س ے متعلق بیش بہا موتی
پیش کئے ہیں)
58
1صحابہہ کےہ لئےہ اس طرح کی کرامات تکلف اور مطالبہہ یا
روحانی ریاضتیں کئےہ بغیر حاصل ہوئیں بلکہہ اس طرح اللہ
انہیں عزت دینا چاہتا تھ ا یا ان کی کسی دعا کا اثر تھ ا جس
میں کوئی دینی مصلحت تھی یا توقیام حجت یاحاجات
مسلمین کی تکمیل جیسا کہ نبی کے معجزات بھی ایسے ہی
تھےہ جبکہہ متاخرین کرامات کو طلب کرتےہ ہیں ان کےہ لئے
تکلف اور روحانی ریاضتیں کرت ے ہیں جن س ے بسا اوقات ان
کا جسم یا نفس بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے حالنک ہ کرامات کو
طلب کرنا اس کےہ حق میں توکوئی دلیل نہیں البتہہ اس کے
خلف دلئل ہیں دراصل انہیں انسان سےہ پردہہ غیب میں
رکھاگیا ہےہ نہہ کہہ یہہ ان تکلیفی امور سےہ ہےہ جن کا بندے
کومکلف بنایا گیا ہے 126۔
59
بھکشو وغیرہہ بکثرت کرتےہ ہیں جس کےہ نتیجےہ میں وہہ اتنے
ایکسپرٹ ہوجات ے ہیں ک ہ گرم آلت ان پر اثر انداز نہیں ہوپاتے
یا و ہ کئی کئی روز کچ ھ کھائ ے پیئ ے بغیر گزار دیت ے ہیں فاسق
لوگ اس ے ان کی کرامت سمجھت ے ہیں ۔اس حوال ے س ے ایک
اہ م سوال ی ہ ہے ک ہ صحاب ہ اور تابعین ک ے ادوار میں اس طرح
ک ے خرق عادات واقعات بہ ت کم ہیں جبک ہ ان ک ے بعد بکثرت
ہیں اس کی کیا وجہہ ہے؟ابن تیمیہ جواب دیتےہ ہیں کہہ ”:یہہ ہر
شخص کی ضرورت کے مطابق ہے جب کوئی کمزورایمان وال
یا محتاج اس کا ضرورت مند ہ و تو ا س ک ے پاس کچ ھ ایسا
خرق عادت معاملہ ہوجاتا ہے جو اس کے ایمان کو قوی کردیتا
ہےہ اور جو اس سےہ بڑھہ کر ولی ہ و تو وہہ اپنےہ بلند رتبےہ کی
بناءپر اس سےہ مستغنی ہوتا ہے* 127جیسےہ اس کرامت کا نہ
ہونا مسلمان ک ے لئ ے مضرنہیں ن ہ ہ ی اس س ے اس ک ے مرتبے
میں کچ ھ فرق پڑتا ہے صحاب ہ س ے اس طرح ک ے امور اس لئے
صادر ہوئ ے ک ہ ان ک ے ذریع ے الل ہ ن ے انہیں اکرام بخشا یا کسی
دینی ضرورت کی تکمیل کی پھ ر ان ک ے بعد ادوار میں اس
طرح ک ے واقعات کا بکثر ت ہونا ابن تیمیہ ک ے قول کی تائید
کرتاہے128۔
3اس دین کا عظیم ترین معجزہہ قرآن کریم ہےہ جسےہ اللہہ نے
محمد کےہ دل پر نازل کیا جب آپ سےہ مادی معجزات کا
مطالبہہ کیا گیا تو آپ نےہ انکار کردیا کیونکہہ یہہ منہ ج دین نہیں
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
127یہ اس وقت ہے جس اس کرامت کا نقل ہونا ثابت ہوجائے علوہ ازیں ہم اس بات سے غافل نہیں کہ
خواہش پرست اور بدعتی ٹولہ اس دور کے بعد اپنے مذہب کی صحت ثابت کرنے کے لئے اس طرح کی
کرامات بکثرت نقل کرنا شروع کردیں جن کی کوئی اساس نہ ہو
( 128فتاوی ابن تیمیۃ)323/11:
60
(................السراء90:تا )93
النعام)50:
61
حقیقت اپنی جگ ہ قائم ہے ک ہ را ہ ہدایت را ہ کتاب وسنت جس پر
صحابہ وتابعین گامزن رہے اس پر استقامت کا مظاہرہ ہی اصل
کرامت ہےہ پھر اگر اللہہ کسی مخلص مومن کو عزاز کسی
کرامت سے نواز دے تو اسے چھپانا واجب ہے اسے ظاہر نہیں کرنا
چاہیئے اور اللہ کے اس احسان پر شکریہ ادا کرنا چاہیئے ۔
قطب 1
اوتاد اربعۃ 2
ابدال ،یہ چالیس ہیں شام میں ....؟ 3
النجباءیہ مخلوق کے بوجھ اپنے اوپر لد لیتے ہیں 4
نقباء 5
ان کےہ نزدیک قطب کسےہ کہتےہ ہیں اس کےہ جواب میں تیجانیہ
تعالی) کی نیابت ہے
ٰ کابانی کہتا ہے:قطب درحقیقت حق (اللہہ
خلق تک حق کی طرف س ے کچ ھ بھ ی قطب ک ے حکم ک ے بغیر
نہیں پہنچ سکتا132۔
62
1جو بشر ہ و مخلوق ہ و اس زمین پر موجود ہو۔اپنی موت کے
وقت اپنا مقرب ترین بدل جانشین چھوڑتا ہے (عیسائیوں سے
مکمل مشابہت)۔
اوتاد ی ہ چار افراد ہیں اور عالم ک ے چار ستونوں مشرق مغرب
شمال جنوب میں ہوتے ہیں136۔
ابدال ی ہ سات افراد ہیں کسی ایک جگ ہ نہیں اپنا جسم چھوڑ کر
زندہ ہیں137۔
63
قرار دیت ے ہیں کیا اللہ عام بادشاہوں کی طرح ایک بادشاہ ہے جو
نائب کا محتاج ہوسبحان اللہ یہ بہتان وافتراءپردازی وبکواس ہے۔
(فتاویہ بزاریہ میں ہے کہ :جو کہے کہ مشائخ کی ارواح حاضر ہوتی
ہیں علم رکھتی ہیں وہہ کافر ہےہ ۔نیز ملحظہہ ہوغایۃہ المانی از
شکری آلوسی 66/3:یہاں اولیاءاوتاد واقطاب سےہ متعلق شیخ
صنع اللہ حنفی نے بہترین کلم کیاہے ملحظہ ہو)66/2:
یہہ روایت صحیح ہویا نہہ ہ و حقیقت یہ ی ہےہ کہہ صوفیت میں عام
رجحان عقل وعقلنیت س ے دوری ہ ی ہے کیونک ہ و ہ سمجھت ے ہیں
کہ احوال اور مقامات تک پہنچن ے کے لئے عقل زائل کرنا ضروری
ہے اسی لئ ے و ہ اپن ے مشائخ ک ے لی ے ایس ے واقعات بیان کرت ے ہیں
جن کا عقل سے بالکل واسطہ نہیں ہوتا جبکہ عقل معرفت علوم
میں شرط اول ہےہ یہہ ایسےہ ہ ی ہےہ جیسےہ آنکھہ کےہ لئےہ بصارت
ضروری ہے پھر اگر اس کے ساتھ ایمان وقرآن کا نور بھی حاصل
64
ہوجائ ے تو ی ہ نور علی نور ہے جبکہ عقل کو بالکل ہی ترک کردینا
تو حیوانیت وبہیمیت ہے ۔
چونکہہ سقوط بغداد کےہ بعد لوگ اسباب کو مسببات کےہ ساتھ
مربوط کرنےہ سےہ عاجز آچکےہ تھےہ لہٰذا تصوف ہ ی وہہ واحد راہ
بچی جو اس مشکل س ے پیچھ ا چھڑاسکتی تھ ی تو لوگ بکثرت
صوفیاءکےہ پاس جانےہ لگےہ ان سےہ تبرک حاصل کرنےہ لگےہ اور
شہروں میں صوفیاءکی بہتات ہوگئی 140۔
کوئی ہمیں جھوٹا اور ظالم نہہ سمجھےہ صوفیاءکےہ یہہ نامعقول
قصے شعرانی کی کتاب ”الطبقات الکبریٰ“سے ماخوذ ہیں وہ ان
قصوں کو نقل کرتا ہے اور اس پر بالکل تنقید نہیں کرتا کیونکہ
اس کےہ عقیدےہ کےہ مطابق یہہ سب صحیح ہےہ بلکہہ مجذوبوں کے
قص ے بیان کرک ے انہیں بنظر تحسین دیکھتاہے حالنکہ یہ کہاجاتا ہے
کہہ یہہ قصےہ ان کےہ بارےہ میں بنائےہ ہوئےہ ہیں لیکن شعرانی انہیں
نقل کرتے وقت ان کا انکار نہیں کرتا اس کے دور سے آج تک ان
قصوں کو پڑھن ے والوں میں س ے کو ئی بھ ی نہیں کہتا ک ہ ہ م ان
قصوں کو نہیںمانتے انہیں ہماری کتابوں سے ہٹایا جائے یہی مشکل
ہے ک ہ لوگ انہیں روا سمجھت ے ہیں اور عمل ً ان کی تصدیق کرتے
ہیں ذیل میں مختلف ادوار س ے ل ے کر مؤلف ک ے دور کےہ 10ویں
صدی ہجری تک کے چند نمونے درج ہیں:
65
جمنا شروع ہوجاتا اور واپس جسم بن جاتا اور پھ ر کہتا کہ
:اگر اللہہ میرا رب نرمی نہہ کرتا تو میں تمہاری طرف نہ
پلٹتا141۔
2شیخ ابوعمرو بن مرزوق القرشی کےہ بارےہ میں لکھتا ہےہ :یہ
عربی شیخ تھ ا جب کوئی عجمی بولنا چاہتا یا عربی عجمی
بولنا چاہتا تویہ اس کے منہ میں تھوک دیتا اور وہ اس کی زبان
بولنا شروع کردیتا گویا اس کی اصل زبان وہی ہے 142۔
بچارےہ مسکین طلباءجو اجنبی زبان پڑھتےہ ہیں اگر آج یہہ شیخ
ہوتے تو انہیں بڑا سکون مل جاتا بڑا سکون۔
3تقی الدین سبکی کہتےہ ہیں :میں محفل سماع میں گیا وہاں
شیخ رسلنی تھے و ہ ہوا میں تیرت ے پھرآہست ہ آہست ہ نیچ ے آجاتے
حتی کہہ جب ان کی کمر زیتون کےہ درخت پر ٹھہرجاتی جو
خشک ہوچکاہوتا اچانک سرسبز ہوجاتا اور پھ ل دینےہ لگتا اور
اس سال زیتون حمل سے بھی ہوگیا143۔
یہاں تعجب شیخ ارسلن س ے نہیں بلک ہ تقی الدین سبکی جیسے
عالم سے ہے کہ اس نے کس طرح قبول کرلیا کہ اللہ کے ذکر کرتے
وقت رقص کیاجائےہ اور یہہ جھوٹ اس نےہ کس طرح مان
لیا(بشرطیکہ شعرانی کا سبکی کے متعلق یہ بیان سچ ہو)
4ابوالعباس احمد ملثم کےہ متعلق شعرانی کہتا ہےہ :لوگوں کا
اس کی عمر میں اختلف تھا بعض کہتے یہ یونس کی امت کا
ہے اور بعض کہت ے ک ہ اس ن ے امام شافعی کو دیکھ ا ہے اس
س ے اس بار ے میں پوچھاگیا تو کہن ے لگا میری عمر اس وقت
تقریبا ً 400سال ہےہ ۔اہ ل مصر اپنی لڑکیوں کو اس کےہ ساتھ
خلوت وجلوت سے منع نہیں کرتے تھے144۔
( 141الطبقات)143/1:
( 142الطبقات)154/1:
( 143الطبقات)152/1:
( 144الطبقات)157/1:
( 145الطبقات)203/1:
66
6حسین ابوعلی کامل عارفین میں سےہ تھ ا بہ ت سی شکلیں
رکھتا تھا کبھی فوجی ہوتا توکبھی درندہ توکبھی ہاتھی (واہ اللہ
کے لطائف)146۔
شاید یہ پاگل تھا جو مکلف نہیں ہوتے البتہ شعرانی کا کہنا کہ ”:وہ
میرا سردار ہے میں اس کی زیر برکت ونظر رہ ا ہوں “توی ہ بھی
باعث تعجب نہیں اور آج کل صوفیاءکےہ جو خیالت ہیں ان کے
مطابق کیا و ہ شعرانی پر تعجب کریں گ ے ہرگز نہیں ان جیسے
صوفی حقیقت سے زیادہ فریب کو مانتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک
علماءسےہ قبل حقیقت کو ُبھل ےہ اور قلندر بیان کردیتےہ ہیں۔یہ
صوفیت اور شعرانی کی کتب کا ہی اثر ہے ہ کہ ہ مصری
یونیورسٹیوں کےہ اساتذہہ جب میڈیکل ،فزکس یا کیمسٹری کے
متعلق گفتگو کررہے ہوت ے ہیں تو اس ان کی عقول صحیح سالم
ہوتی ہیں مگر جب کسی ولی ک ے متعلق گفتگو کرت ے ہیں تو ان
کی عقول کو کیا ہوجاتا ہے کہہ وہہ اس کا ہوا میں اڑنا پانی کی
سطحپر چلنا تسلیم کرلیتے ہیں 148۔
یہ یہاں حقیقی اسلم کا دفاع نہیں کررہے بلکہ عقل کا دفاع کررہے
ہیں اور وہاں کےہ قانونی منطقی سیکولرمذہب کا)یہہ دورنگی
اسباب ومسببات کی معرفت ک ے لئ ے نفسیاتی علج کی محتاج
ہے ہم نے شام کی یونیورسٹیوں میں طلباءکو دیکھاہے کہ کیسے وہ
دجال مفسد ٹائپ لوگوں کی اتباع کرتے ہیں جن کا کذب وفریب
واضح ہوتاہے دراصل ی ہ مشائخ شروع ہ ی س ے مرید ک ے دماغ کی
خبیث شیطانی طریق پر برین واشنگ کردیتےہ ہیں جس سے
جامعات ک ے ن ہ صرف طلب بلک ہ اساتذ ہ بھ ی چوپایوں کی طرح
ان کے پیچھے چلتے ہیں اور صوفیت کانامعقول ماحول ہی بنیادی
محرک قرار پاتا ہے ۔
67
کردے۔صوفیاءکہتے ہیں کہ اس نے حالت جذب یا حالت مستی میں
ایسا کہا اور ہوش کی حالت میں وہہ ان سےہ رجوع کرلیتا ہے
شطح کی تعریف میں کہا جاتا ہےہ ایسا کلمہہ جس پر رعونت
طاری ہو اور ایسا دعویٰہ جو عارفین سےہ حالت اضطرار
واضطراب میں صادر ہو149۔
68
پھ ر جب جنت دسوقی ک ے قبض ے میں ہے تو باطل پرست سوئے
رہیں مشقت کرنے ،تھکنے ،علم حاصل کرنے ،عبادت کرنے یا جہاد
کرنے کی کیا حاجت ہے محض شیخ کی زیارت اس ک ے لئے جنت
ک ے درواز ے کھول د ے گی کیا ی ہ بخشش کا نعم البدل نہیں ؟البتہ
ہم اللہ سے بخشش کے خواستگار ہیں ان کے اقوال نقل کرنے پر
بھی استغفار کرتے ہیں۔
69
غافلین کی اکثریت شیخ کےہ پیچھےہ چلتےہ ہیں ان کےہ ہاتھوں کے
بوسے لیت ے ہیں ان سے سہمے رہت ے ہیں جب بھی و ہ انہیں دیکھیں
جب تک شیخ نہ بولے بولتے نہیں اس کی ہربات مانتے ہیں اس کی
جوتیاں اٹھات ے ہیں لوٹا اٹھات ے ہیں ۔ی ہ سب فلسف ہ و ہ اپنی کتابوں
میں ”آداب مریدین“ ک ے عنوان س ے لکھت ے ہیں کہت ے ہیں:اس کے
آداب میں شیخ کی ظاہرا ً وباطنا ً تعظیم کرنا بھ ی ہےہ اس کے
دشمن ک ے سات ھ مت بیٹ ھ اس ک ے دوست س ے عداوت ن ہ رک ھ اور
اپن ے دل میں آن ے وال کوئی خیال اس س ے مت چھپا (جس طرح
عیسائی چرچ میں اپنےہ گناہوں کا اعتراف کرتےہ ہیں )اس کی
اجازت کے بغیر نہ سفرکر نہ شادی کر ان سے سب سے بڑھ کر یہ
کہتےہ ہیں کہہ مرید پر شیخ سےہ سوال کرنا حرام ہےہ کیونکہہ بسا
اوقات شیخ جاہل ہوتا ہے اسے شرمندہ ہونا پڑتا ہے (اہل السنۃ کے
نزدیک آداب تعلیم و تعلم صوفیاءکےہ آداب سےہ یکسر مختلف
ہیں)تربیت کا یہہ انداز نیا نہیں قشیری آداب سےہ متعلق کہتا
ہے:جس کسی نے کسی شیخ کی صحبت اختیار کی پھر اپن ے دل
میں اس پری ہ اعتراض کیا تو اس ن ے عہ د صحبت کو توڑ ڈالاس
پر توب ہ کرنا واجب ہے مشائخ کہت ے ہیں ک ہ مشائخ ک ے حقوق سے
توبہ نہیں کی جاسکتی155۔
اسی طرز نےہ مشائخ میں غلو کا راستہہ کھول ابوالعباس کے
مطابق غزالی صاحب صدیقیت وصالحین عظمی تھا156۔
گویا صرف خلف سنت ترک قبلہ کا اعتبار نہیں؟اور احمد شریف
السنوسی اپے چچا محمد المہدی سے شدید اعتقاد رکھتااور اس
سے اوپر سوائے محمد کے اور کسی کو نہ سمجھتا تھا158۔
70
شخصیت کمزور پڑجاتی ہے۔اس انداز تربیت پر ہمارا تبصر ہ درج
ذیل ہے:
71
واکرام کا راستہہ دکھایا تووہہ کہنےہ لگےہ ”:تواور تیرا رب جاکر
لڑو ہم تو یہاں پسرے بیٹھے ہیں ”159
تابعین بھی اسی تربیت گاہ میں رہے چنانچہ وہ ناپسند کرتے تھے
کہ ان کے شاگرد ان کے پیچھے چلیں160۔
72
توعلم کی ضرورت نہہ رہی یہہ مغالطہہ ہےہ کیونکہہ مسلمان اپنی
زندگی کےہ آخری لمحہہ تک علم کا محتاج رہتا ہےہ احمد بن
ابوالحواری نے اپنی ساری کتابیں سمندر کے حوالے کرتے ہوئے کہا
کہہ تم بہترین دلیل تھیں (یعنی عمل کےہ لئےہ مگر چونکہہ اب
صوفیانہہ عمل ہےہ اس لئےہ تمہاری ضرورت نہیں۔نعوذ باللہہ من
ذلک)ابوحامد الغزالی علوم شریعت سےہ دور ہوکر علم کشف
جیس ے صوفیان ہ رجحان کو جائز قرار دیت ے ہوئ ے لکھتا ہے:جان لے
ک ہ صوفیاءالٰہیت کی طرف مائل ہوئ ے ہیں ن ہ ک ہ تعلیم کی طرف
اس لئے کہ وہ نہ علم حاصل کرتے ہیں نہ ہی اس کے شوقین ہوتے
ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ریاضتیں اور اللہ کی طرف دھیان اور مال
و اولد اور علم سےہ کٹ جانا اور صرف فرائض ورواتب پر
اقتصار کرنا ہ ی راحج طریق ہےہ وہہ ن ہ قرآن پڑھتےہ ہیں ن ہ حدیث
لکھتے ہیں ۔
73
تیمیہ فرماتےہ ہیں :جھوٹی حدیث ہےہ رسول اللہ فرماتےہ تھے
:رب زدنی علماًاے پروردگار مجھے علم میں زیادہ کر165۔
4اون کالباس پہنو اور خوب عمل کرو اور آدھاپیٹ خوراک کھاؤ
تم آسمانی بادشاہت میں داخل ہوجاؤگےہ ۔اس حدیث کو
ابوطالب المکی نے قوت القلوب میں ذکر کیا ہے 167۔
کیا اللہہ کےہ رسول ایسا کلم کرسکتےہ ہیں یہہ درحقیقت اپنے
عقیدے کہ اون کالباس پہننا چاہیئے کو ثابت کرنے کے بنائی گئی ہے
۔ان کی بیان کردہہ احادیث کےہ چند نمونےہ ہیں جن سےہ ان کی
کتابیں بھری پڑیں ہیں جیسے قشیری کی کتاب الرسالۃ اس میں
اس ن ے صحیح ،ضعیف اور موضوع ہ ر طرح کی احادیث روایت
کی ہیں اور فضل بن عبس الرقاشی سے روایت کرتا ہے جبکہ وہ
احادیث میں بالکل کمزوراور نااہل تھا 168۔
( 165فتاوی)384/11:
( 166فتاوی)563/11:
( 167التصوف از زکی مبارک)44/1:
( 168فتاوی)680/10:
74
مزید عجائب کےہ لئےہ احیاءالقلوب ملحظہہ ہ و جس کےہ مطالعے
سےہ معلوم ہوجائےہ گا کہہ انہیں علم وفقہہ وحدیث سےہ کچھہ لگاؤ
نہیں ہے بلکہ یہ سب انہوں نے دیوار پر دے مارا ہے۔
صوفیاءیہہ بھول گئےہ یا بھولنےہ کا ڈرامہہ کرنےہ لگےہ کہہ اسلم اس
طرح ہڈ حرامی اور سستی کا مظاہر ہ کرت ے ہوئ ے کون ے کھدروں
میں جان ے س ے منع کرتا ہے اور زھ د ی ہ ہےہ کہہ لوگوں س ے لتعلق
ہوجایاجائے اور ان سے ان کے اموال میں سے کسی بھی شئے کا
سوال ن ہ کیاجائ ے کیونک ہ رسول اللہہ ن ے سوال کرن ے س ے منع کیا
ہے اور محنت مزدوری کاحکم دیاہے:
( 169الکسب)44:
( 170نسائی باب الزکاۃ)60/3:
75
نیز فرمایا”:اگر کوئی لکڑیوں کا گھٹااپنی پیٹھ پر رکھ کر اسے بیچ
آئ ے یہ اس بات س ے بہتر ہے ک ہ کسی س ے سوال کر ے اور وہ اسے
دے بھی دے“171۔
ابن فارض جو نظریہہ وحدت الوجود کےہ اکابرین میں سےہ ہے
قریبی بستی بہنساءمیں کچ ھ کنجریاں تھیں جن ک ے پاس و ہ جاتا
تھا اور وہ اسے گاکر سناتیں اور وہ عالم وجد میں دف کی تھاپ
پر نوجوان لڑکیوں کے ساتھ ڈانس کرتا 173۔
76
لیکن صوفیاءاپنےہ اس بگاڑ کےہ ساتھہ بڑھتےہ ہ ی رہےہ اور مانگنے
والے اور چاپلوسی بن گئے گویا بکری کی کھال میں بھیڑیے ۔
اس طرز کو انک ے لئ ے مباح قرار دین ے وال ے ابوحامد الغزالی اور
ابوعبدالرحمن السلمی وغیر ہ ہیں ان ک ے دلئل نہایت کمزور تھے
ان پر بہت سے علماءنے رد کیا جیس ے ابن جوزی اور ابن قیم نے
اغاثۃہ اللہفان میں خوب رد کیا ۔حقیقت اپنی جگہہ ہےہ کہہ امت
مسلمہہ ایک معتدل امت ہےہ اور اس گانےہ کو وہی حلل قرار
دیتاہے جو اسلم کو صحیح طور پر سمجھ نہ پائے ۔
معاملہہ صرف ان قصائد تک نہہ رہا بلکہہ ڈھول ڈھمکےہ کےہ ساتھ
رقص کرت ے ہوئ ے الل ہ کا ذکر کرن ے تک جاپہنچا جب ”حضر ۃ (مراد
اجتماعی محفل بناکر رقص کرتے ہوئے اللہ کا ذکر کیا جائے)منعقد
ہوتی توپہل ے آہست ہ آہست ہ لفظ الل ہ کا بیک وقت ورد کیا جاتا لیکن
جوں جوں رقص میں تیزی آتی اور شیطان ان کےہ سروں پر
منڈلن ے لگتا ان کی چیخیں انتہائی بلند ہوجاتیں اور لفظ الل ہ کے
بجائ ے لفظ ھوکا ورد ہون ے لگتا اس کےہ بعد سوائ ے شور شرابے
کےہ کچھہ سنائی نہہ دیتا ناس شہوانی چیخ وپکار میں عورتیں
اوربچےہ بھ ی شامل ہوتےہ ۔درحقیقت یہہ یہود کی اتباع ہےہ ان کے
عہ د قدیم کےہ گانوں میں یہہ بھ ی ایک ہےہ کہہ ”:صہیونی بچےہ اپنے
بادشاہہ کو خوش کریں اور دف کی تھال اور عود کی بو میں
سروں پر اس کی رقص کرتےہ ہوئےہ اس کانام لیں رباب کےہ ُ
تسبیح کرو،بلند جھنکار پر اس کی تسبیح کرو“ ۔
176
77
قاضی عیاض کی” ترتیب المدارک “میں ہےہ کہہ :تنیسی کہتا ہے
:ہ م امام مالک بن انس ک ے پاس تھے ان اردگرد ان کےہ شاگرد
تھے کہ اہل نصیبین میں سے ایک شخص کہنے لگا :ہمارے ہاں کچھ
لوگ ہیں جنہیں صوفیاءکہا جاتا ہےہ وہہ کھاتےہ بہت ہیں اور پھر
قصائد گاتے ہیں پھ ر کھڑ ے ہوکر رقص کرن ے لگت ے ہیں؟امام مالک
ن ے کہ ا کیا وہہ چھوٹےہ بچ ے ہیں ؟اس ن ے کہ ا نہیں امام صاحب نے
فرمایا:ک ہ و ہ پاگل ہیں اس ن ے کہانہیں و ہ مشائخ اور باشعور ہیں
امام صاحب فرمان ے لگ ے :میں ن ے کسی مسلمان ک ے بار ے میں
نہیں سنا کہ وہ ایسا کرتا ہو177۔
ان کےہ ان حرکتوں کی وجہہ یہہ بھی ہےہ کہہ نفس انسانی اپنی
خواہشات کو دین ،ذکر ،اور حضر ہ (محفل سماع ورقص)ک ے نام
سے چھپاتا ہے کیونکہ اگر کبھی اس کا پول کھل بھی جائے تب وہ
نافرمانی ہ ی کہلئ ے گی جو ک ہ بدعت س ے کم خطرناک ہے جبکہ
اللہ تعالیٰ نے ذاکرین کو اطمینان قلب ،خشوع وخضوع اور سری
ذکرکرنےہ کی صفات سےہ موصوف کیا ہےہ سلف صالحین جب
قرآن سنتے تو ان کے دل دہل جاتے اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے جبکہ
یہ رقص وطرب اس کے برعکس ہے اللہ نے جب عبادت کاحکم دیا
توی ہ نہیں فرمایا ک ہ جانوروں کی طرح کھاؤ پھ ر رقص کرن ے لگو
بلکہہ یہہ رقص جسےہ وہہ ذ کر کہتےہ ہیں اور اسی طرح کی تمام
امور عقل اور دین دونوں اعتبار س ے قبیح ترین ہیں بلک ہ ی ہ تمام
مسلمانان عالم کےہ لئےہ باعث شرم ہیں جیسا کہہ شاعر ان کے
متعلق کہتا ہے:
78
کی طرح کھانا کھایا جاتا ہے اور اکھٹے ہوکر رقص کیا جاتا ہے اور
وہ (صوفیاء)یہ کہتے ہیں کہ ہم معبود کی محبت میں مست ہوجاتے
ہیں جبکہ انہیں بانسری پھر گانا بجانا مست کردیتا ہے اور پھر اگر
ان پر قرآن پڑھاجائے تب بھی ختم نہیں ہوتا178۔
79
میں جاگھستے تھے اورکہتے کہ :اللہ یہی چاہتاہے ہم اللہ کے ارادے
کی کس طرح مخالفت کریں لہٰذا ہر وقت حکمرانوں کی
سیوا کرتے رہتے خواہ وہ مومن ہوتا یا کافر صدیق ہوتا یا زندیق
179۔
یہہ لوگ وہاں کےہ علماءکےہ اجتماعات میں حکومت فرانس اور
علقائی ناظم کےہ جاسوس بن کر جاتےہ تھےہ لیکن علماءانہیں
وہاں سے نکال دیتے (ایضاً)۔یہی وجہ ہے جزائز میں احیاءاسلم کے
( 179فتاوی)101/2:
( 180یومیات الجلیل از خلیل مردم بک )62 :
( 181رسالۃ الشرک ومظاھرہ از مبارک المیلی نیز ملحظہ ہو مجلۃ الوطن العربی 09-11-1948میں تحریک
اصلح جزائر اور اجنبی جاسوسوں کے متعلق محمد المیلی کا مقالہ )۔
80
داعی شیخ عبدالحمید بن بادیس ن ے سب س ے پہل ے صوفیوں کے
خلف لڑائی لڑ جبکہہ وہہ شہ ر قسنطیہہ میں ایک بہ ت بڑےہ مجمع
میں قرآن کی تفسیر بیان کررہےہ تھےہ ایسےہ ہ ی امیر عبدالقادر
الجزائری نے فرانس کے خلف جنگ کی لیکن صوفیت سے متاثر
ہونے کی بناءپر جنگ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکی اور قبضہ فرانس
کے خلف بغاوت کے دوران ہی شیخ اپنے بیٹے کو کمان سونپ کر
علیحد ہ ہوگئ ے کیونک ہ ان کا فرانس س ے معاہد ہ تھ ا ک ہ تاحیات ان
کے خلف ہتھیارنہیں اٹھائیں گے182۔
اور جب انہیں دمشق میں جلوطن کردیا گیا اور و ہ وہاں جاکر
رہنے لگے توپھر سے وہاں ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود سے
بھ ر پورافکار کی نشر واشاعت پیش پیش رہنےہ لگے۔ہندوستان
میں 1857ک ے انقلب ک ے بعد جب مسلمان انگریز کی مخالفت
پر کمربستہ ہوگئ ے اس انقلب میں مسلمان علماءکی کثیر تعداد
شہید کردی گئی جن میں محدث حسن دہلوی بھی تھے اس دور
میں احمد رضاخان بریلوی طریق ہ بریلویت کا بانی ایک مستقل
کتاب بنام اعلم العلم بان ہندوستان دارالسلم (یعنی سب سے
بڑا اعلن کہہ ہندوستان دارالسلم ہے)لکھتا ہے:اور اس میں
ہندوستان کو دارالسلم قرار دیتا ہے جو برطانیہ کی خدمت کرے
اور اس میں کفارکےہ خلف جہاد نہہ کیاجائےہ پھر صراحتا ً کہتا
ہے:قرآنی نصوص کی رو سےہ ہم مسلمانان ہند پر جہاد فرض
نہیں اور جو ایسا کہے و ہ مسلمانوں کا مخالف اور انہیں نقصان
پہنچانا چاہتا ہے183۔
یہی وجہہ ہےہ کہہ امام ابن تیمیہ صوفیاءکےہ متعلق فرماتےہ ہیں
:صوفیاءجہاد س ے اوروں کی نسبت زیاد ہ دور ہیں حتی ک ہ عوام
الناس میں ہمیں امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے محبت کرنا
اور محارم اللہہ پر غیور ہونا اور غضبناک ہوجانا بکثرت ملتا ہے
مگران میں ذرا بھ ی نہیں ملتا بلکہہ اکثر صوفیاءجہاد کو اسلم
میں نقص اور عیب تصور کرتے ہیں 184۔
ان کا یہہ کہنا ہےہ کہہ ذکر وتدبر اور فناءوبقاءہ ی اصل اور اہ م ہے
صوفیاءکے مذکورہ افعال واقوال ذکرکرنے کے بعد ہم یہ کہنے میں
حق بجانب ہیں ک ہ صوفیان ہ طرز تربیت فکر جہاد وقتال س ے بہت
دور ہے کیونک ہ ان ک ے نزدیک روحانی ریاضتیں ہ ی اصل دین ہیں
( 182حاضر العالم السلمی از شیکب ارسلن)172/2:
ﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲﷲ)43:
( 183البریلویہ از علمہ احسان الٰہی ظھیر رحمہ ا
( 184الستقامۃ از ابن تیمیۃ رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ)268/1:
81
اور یہہ ریاضتیں اس وقت تک ختم نہیں ہوتیں جب تک وہہ درجہ
فناءتک نہہ پہنچ جائیں اور جب وہہ فناءہ و جائےہ گا تو جہاد کیسے
کرے گا؟
یہ ان کی عام اور غالب حالت ہے وگرنہ بعض صوفیاءنے ظالم کے
خلف موافقت بھی کی ہے لیکن ان کی اکثریت ظالم کی حامی
ہی رہی ہے اسی لئے کہاجاتا ہے کہ جب مسلمان سیاسی طور پر
کمزور ہوئ ے تو صوفیوں کا کوئی ن ہ کوئی شعر ضرور سامن ے آتا
ہے185۔
آج کل کے صوفیاء
کیا صوفیاءبدل گئ ے او رکچ ھ ہ م ن ے ان ک ے متعلق سابق ہ صفحات
میں لکھا ہےہ مثل ً وحدت الوجود ،مشائخ میں غلو ،اقطاب
واوتاد،بدعات ومعصیات کیاانہوں ن ے ی ہ سب چھوڑ دیا؟حقیقت یہ
ہے کہ اب بھی وہ ان تمام خرافات وبکواسیات کو مکمل طور پر
تھامےہ ہوئےہ ہیں اور ان افکار کوعالم اسلم میں پھیلرہےہ ہیں
جیسےہ شاذلیت،نقشبندیت ،رفایت ،قادریت ،تیجانیت ،بریلویت،
سہروردیت. ...وغیرہہ ان صوفیاءمیں وہہ جاہ ل عوام بھ ی شامل
ہیں جو اجتماعی ذکر وسماع اور حضرت صاحب کی برکات کے
سوا ان ک ے متعلق کچ ھ نہیں جانت ے ان میں س ے بعض غالی بھی
ہیں جو ابن عربی کا نظریہہ وحدت الوجود مانتےہ ہیں ان میں
بعض فقی ہ علماءبھ ی ہیں جن ک ے لئ ے ان کی طرف نسبت کرنا
مجبوری ہے وگرن ہ و ہ نامکمل اور ناقص رہت ے ہیں چنانچ ہ ضروری
ہے ک ہ مذہ ب میں شافعی اور طریقت میں شاذلی ہو....علی ہذا
القیاس
ایک صوفی مکہ میں مسجد حرام میں قبلہ رخ بیٹھا کرتا تھا لیکن
اس کے مرید مکمل خاموشی سے اپنے پیر کی طرف متوجہ ہوتے
کیونکہ ان کے لئے پیر کا درشن بھی عبادت ہے جبکہ وہ درس بھی
نہیں دے رہا ہوتا۔اور جونہی وہ مجلس سے اٹھتا وہ اس کی طرف
لپکتے ایک اس کی جوتیاں اٹھاتا تو دوسرا اس کی لٹھی اور اس
82
کےہ پیچھےہ ایسےہ چلتےہ جیسےہ انہیں سانپ سونگھہ گیا ہو کیا یہ
اسی تربیت کا شاخسانہہ نہیں جس کےہ متعلق ہ م گفتگو کرآئے
ہیں ۔
شام ہی کاایک اور پیر اپنے مریدوں میں شاذلی ”اور اد“ تقسیم
کرتا جن کا پہل حصہہ ہمیشہہ یہہ ہوتا کہہ ”:یا اللہہ مجھےہ توحید کے
حالوں میں کھینچ لےہ اور مجرد وحدت میں غرق کردےہ “کیایہ
عین وحدت الوجود نہیں ؟
اور جامعہہ ازہر کےہ سابق شیخ عبدالحلیم محمود نےہ اپنےہ آقا
ابوالعباس المریسی ک ے متعلق کتاب لکھنی چاہ ی تو پہل ے بدوی
کی قبر پر جاکر اجازت چاہ ی اجازت ملی توکتاب لکھ ی (اس
کی کتاب کا مقدمہ ملحظہ ہو)اور پھ ر اس ے ہندوستان میں کسی
مزار کی زیارت اور وہاں محفل ذکروسماع میں شرکت کی
دعوت دی جاتی ہےہ تو وہہ چلجاتا ہےہ کیا اسےہ نہیں معلوم کہ
رسول اللہ نےہ اس سےہ منع فرمایا ہےہ کیا صوفیاءنہیں جانتےہ کہ
رسول اللہہ نےہ قبروں پر تعمیر کرنےہ سےہ منع فرمایا ہےہ تو وہ
کیوں آپ کےہ احکامات کی پابندی نہیں کرتےہ جب کہہ آپ سے
محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں یہ خواہش ہی ہے جو ان کی عقل
اور دین دونوں کا ستیاناس کردیتی ہے۔
83
مصر میں تمام طریقوں کا ایک بڑا شیخ ہےہ صوفیاءکا مجلہ
شمار ہ نمبر 57میں ہے ک ہ طریق ہ حامدی ہ اور طریق ہ شاذلی ہ ن ے اپنے
آقا ابراہیم سلمہ الراضی کے تذکرے کے لئے ایک بہت بڑی محفل
کا اہتما م کیا جس میں شیخ المشائخ کو حاضری کی دعوت دی
لیکن انہوں ن ے معذرت کرلی کہہ وہہ بدوی کی محافل میلد میں
مشغول ہیں اور پھر اس کا اگل شمارہ عید میلد کی محافل کے
ذکر س ے بھ ر پڑا تھا....ان ک ے دن رات اسی طرح کی محفلوں
اور تقاریب میں گزرت ے ہیں جو کبھ ی ختم نہیں ہوتیں ہ ر طریق
کی اپنی محفلیں ہیں....
نیز کہتا ہے:میں نےہ نبی سےہ سفارش کی کہہ جو بھ ی مجھہ سے
وردسیکھ لے آپ اس کے پچھلے سارے گناہ معاف فرمادیں187۔
کیا یہہ بےہ راہہ روی اور شرعی ذمہہ داریوں سےہ فرار کا دعوی
نہیں ؟
84
نیز رسول اللہ کےہ متعلق غلو کرتےہ ہوئےہ کہتا ہےہ :نبی ہر جگہ
تصرف رکھتےہ ہیں وہہ ساتوں زمینوں کےہ بادشاہہ اورلوگوں کے
مالک ہیں189۔
لیکن ہندوستان کےہ مسلمانوں یعنی اہ ل الحدیث کا دشمن تھا
انہیں گالیاں دیتا اور شاہہ اسماعیل شہید دہلوی جیسےہ قائد کو
گالیاں دیتا جو سکھوں کے خلف ایک معرکے میں شہید ہوئے۔
( 189البریلویۃ)69:
( 190تاریخ التصوف از بدوی )30 :
85
معتزلہہ ،شیعہہ اور خوارج کی بھی مکمل سرپرستی کرتےہ ہیں
دراصل وہ ہ مسلمانوں کی درخشندہ ہ تاریخ کا ایک دوسرا
اوربھیانک رخ مسلمانوں ک ے سامن ے لنا چاہت ے ہیں اور ا س کے
ذریع ے مسلمانوں کو اسلم س ے متنفر کرنا چاہت ے ہیں حالنک ہ ہم
اس صوفیت وتفرقہ بازی کو اسلم کی تاریخ توکیا اسلم کا حصہ
بھی نہیں مانتےہ چہہ جائیکہہ اسےہ وہہ اپنےہ مقاصد مذمومہہ کےہ لئے
استعمال میں لسکیں کسی فرد کی برائی اسلم کو برانہیں
کرسکتی ۔
اختتامی کلمات
آخر میں آپ کو شدت سے انتظار ہوگا کہ آخر ہمارے بیان کردہ ان
تمام حقائق کے پیچھے وہ کون سے محرکات کارفرماتھے جس نے
تفرقہ بازی کی آگ کو ہوا دی اور صراط مستقیم سے دوری میں
اضاف ہ ہوتاگیا اورلوگ منہ ج اہ ل السن ۃ والجماع ۃ س ے اعراض کرنے
لگے اس کے لئے ہم چند مشترک عوامل ومحرکات کا تذکرہ کریں
گ ے ک ہ جس ن ے صوفیت کو حالی ہ صورت تک پہنچایا ہے اور اسے
ایسی بنیادیں فراہ م کیں جن کی بناءپر و ہ دیگر فَِرق س ے ممتاز
ہوگئی اس طرح ایک مسلمان کے لئے خیر اور شر میں تمیز اور
فرق کرنا اور عصر حاضر کے حقائق اور اس کے داعیان حق کو
داعیان باطل سےہ الگ کرنا آسان ہوجائےہ گا ان عوامل کو ہم
مختصر طور پر بیان کریں گے
86
ان کی ایسی تحریف وتاویل کرتےہ ہیں جونصوص سے
مناسبت نہہ رکھتی حتی کہہ وہہ ان سےہ اپنےہ باطل اقوال
ونظریات ثابت کرنےہہ لگتےہہ جیساکہہہ شریعت وحقیقت
(طریقت)کی بحث میں قرآنی تاویل وتحریف کی بہ ت سی
مثالیں ملحظہہ کرچکےہ ہیں انہیں یہہ دھوکہہ دیاگیا کہہ یہہ تاویل
وتحریف آیت قرآنی کا مفہوم مخالف ہے (یعنی باطنیت)جس
کاادراک صرف خواص ہ ی کرسکتےہ ہیں جبکہہ یہہ باطنیت اور
اہل کتاب کا طریقہ ہے اللہ تعالیٰ ان کے متعلق فرماتا ہے :من
الذین ھادوا یحرفون الکلم عن مواضعہ(یعنی )یہود جو کلمات
(احکامات)کو ان کےہ مقامات (درست معانی)سےہ بدل ڈالتے
ہیں 191۔
87
اقوال واعمال س ے الل ہ کا قرب حاصل کرت ے ہیں جن س ے ان
س ے پہل ے وال ے نہیں کرسک ے اورو ہ ان مراتب تک جاپہنچ ے جن
تک ان سےہ پہلےہ والےہ سابقین اولین نہیں پہنچ پائےہ لہٰذا اس
کاانجام یہہ ہوا کہہ وہہ بوقت اختلف منہج صحابہہ وتابعین کی
طرف رجوع نہہ کرتےہ اور امت کےہ بہترین طبقےہ سےہ استفادہ
کرنے سے محروم کردیئے گئے۔
88
سے مراد اصحاب معرفت مراد ہیں ابن عربی نے کہاکہ:کچھ لوگ
عرفاءہیں یعنی خاص اللہ والے 196۔
نیز سراج کہتا ہےہ کہہ :تمام اصحاب رسول اللہ میں سےہ صرف
علی اس س ے مراد ہیں کچ ھ معانی جلیل ۃ اور اشارات دقیق ہ اور
توحید ومعرفت اور اہل علم کی عبارت وانفرادیت کی بناءپرجن
کا ادراک فقط اہل حقائق صوفیاءہی کرسکتے ہیں197۔
89
آخرمیں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم نے صوفیاءکے متعلق محض ا س
لئےہ لکھاتاکہہ منہ ج اہ ل السنۃہ والجماعۃہ کو دیگر مناہ ج باطلہہ سے
ممتاز کیا جاسکے کیونکہ اس امت کا آخر اسی منہج سے درست
ہوگاجس س ے اس ک ے اول کی اصلح ہوئی اور یہی و ہ الل ہ کادین
ہےہ جسےہ اللہہ نےہ اپنےہ رسول محمد پر نازل فرمایا یہی سلف
صالحین کا فہم تھا دیگر تمام راست ے حامل نہیں و ہ اس س ے جدا
اور الگ ہیں صوفیت کسی بھی صورت میں اسلم کا منہ ج نہیں
قرار پاسکتی اس کی وجوہات ہم اس کتاب میں درج کر آئے ہیں
جو لوگ کہت ے ہیں کہ صوفیت محض ایک راہ سلوک ہے جس میں
نفس کی اصلح کی جاتی ہے اور روح کا تزکیہ کیا جاتا ہے توانہیں
جوابا ً کہا جائے گاجس کے لئے قرآن کی آیات اور اللہ کے رسول
کی احادیث صحیحہہ طیبہہ میں نفس کی اصلح اور روح کو
پاکیزگی نہہ ہ و اور جو ان کےہ ذریعےہ ان مقامات ومراتب کو نہ
پاسک ے جس س ے الل ہ اور اس کا رسول محبت کرت ے ہیں تو ان
کی مخالفت کرنے والی خواہ صوفیت ہو یا کوئی اور راہ اس میں
قطعا ً خیر نہیں ہوسکتی البت ہ ابتدائی اور قدیم صوفیاءجنہوں نے
انسانی نفس اور دلی بیماریوں (یعنی بغض ،کینہہہ ،
حسد،شہوت،نفاق،کفر وغیرہ)کےہ علج کےہ حوالےہ سےہ جو عمدہ
باتیں کہیں تویہہ قابل قبول ہیں ہ م انہیںصوفیاءنہیں مانتےہ کیونکہ
صوفیت تو بدعات کے ایک مستقل سلسلے اور علم کا نام ہے اور
صوفیت اختیار کرنے والے ہ ر شخص کے لئے ان بدعات کو اختیار
کرنا ضروری ہوجاتا ہے غزالی جس نے دلی امراض کے علج سے
متعلق بہترین کلم کیا ہے وہ صوفیاءک ے پھندوں کاشکار بن گیا وہ
کہتاہے ”:عارفین مجازکی پستی س ے حقیقت کی بلندی پر چڑھ
جات ے ہیں اور ا س امر کا دیک ھ کرمشاہدہ کرت ے ہیں کہ اس وجود
میں اللہ کے سوا کچھ نہیں “یہ عین وحدت الوجود ہی تو ہے 200۔
90
ابن تیمیہہ جنہیں صوفیاءکا سب سےہ بڑا دشمن سمجھاجاتا ہے
جب صوفیت اور متکلمین میں تقابل کا مسئلہ آتا ہے تو متکلمین
کی جدل ونظر کےہ مقابلےہ میں صوفیاءکےہ عمل وعبادت کو
افضل قرار دیت ے ہیں ظاہ ر ہے ک ہ انہوں ن ے اس فضیلت میں ان
ابتدائی صوفیاءہی کی رعایت کی ہےہ جو اسماءوصفات کے
موضوع سے متعلق باوجود کثرت عبادت کے منہج صحیح پر ثابت
قدم تھے اور انہوں ن ے اس میں ان صوفیاءکا اعتبار نہیں کیا جو
امور توحید ،علم وعمل میں مختلف پہلوؤں ک ے حامل تھے مثلً
کلبازی خوکود کو معتدل اور موحد کہتا ہے اور کہتا ہے کہ ”تجھ پر
کوئی شاہ د نہیں توہ ی حق ہے“یہہ کلم حق اور باطل دونوں کا
احتمال رکھتا ہے ایسے ہی قشیری اولیاءکو معصوم قرار دیتا تھا
اور سلمی نےہ تفسیر میں عجیب وغریب باتیں کی ہیں اور
غزالی نےہ احیاءالعلوم میں جو قصےہ نقل کئےہ ہیں وہہ انتہائی
عجیب ہیں حتی کہہ قدیم صوفیاءمثل ً جنید،شبلی ،اور محاسبی
وغیر ہ ن ے بھ ی فاش غلطیاں کی ہیں جبک ہ انہیں اعتدال پسند کہا
جاتا ہے۔
ابن تیمی ہ صوفی ہ اورمتکلمین میں اکثر موازن ہ کرت ے ہیںاور فرماتے
ہیں کہ ان لوگوں کا انحراف یہ ہے اور ان کا انحراف یہ ہے مقصد
غالی متکلمین ہوت ے جیس ے رازی اور آمدی وگرن ہ کیا و ہ اشاعرہ
متکلمین جیس ے ابوبکر باقلنی اورنمون ے صوفیاءک ے مابین موازنہ
کریں گ ے حالنک ہ ابوبکرباقلنی ن ے اسلم کا دفاع کیا اس کاعلم
اور فق ہ اور صوفیاءکی بکواسیات س ے کئی گنا بہتر ہیں یہ ی وجہ
ہے ک ہ ایک اور عالم دین ابن عقیل بھ ی یہ ی رائ ے دیت ے ک ہ :میرے
نزدیک متکلمین صوفیاءسے بہتر ہیں کیونکہ متکلمین شک کو دور
کرت ے ہیں جبک ہ صوفیاءشک وشبہات اور وہ م کو پیدا کرت ے اورجو
کہتا ہوکہہ مجھےہ میرےہ دل نےہ میرےہ رب سےہ بیان کیا گویا وہ
صراحت کررہاہے کہ وہ اللہ کے رسول سے بیزارہے 201۔
91
واعمال کا جائزہ لیں توجان لیں گے کہ وہ بدعتی ہیں لیکن تعصب
اور نخوت و ع ُجب کا کیاکیا جائے مسئلہ یہ نہیں کہ ہر ایک اپنے لئے
اپنی پسند کی راہ چن لے بلکہ حق صرف ایک ہے اور وہ اہل السنۃ
والجماعۃہ کا راستہہ ہےہ اس کےہ سوا ماسوا گمراہ ی کےہ اور کچھ
بھی نہیں ہم ہمیشہ دعاکرت ے ہیں جو اللہ کے رسول کیا کرتے تھے
:
لحقہ
92
صوفیاءکی کتب کے بارے میں علماءکی
رائے
1کتاب احیاءالعلوم الدین مؤلفہ ابوحامد الغزالی:امام ابن تیمیہ
فرمات ے ہیں :اس میں بہ ت سی مفید باتیں ہیں اس میں بہت
سا فلسفیانہہ مواد ہےہ جس کا تعلق توحید ،انبیاء،اور حشر
ونشر س ے علماءن ے ابوحامد الغزالی پر اس سلسل ے میں رد
کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اسے شفاءنے بجائے صحت مند کرنے کے
مزید بیمار کردیاان کی مراد کتاب الشفاءہےہ جو فلسفہہ کے
بارےہ میں ابن سینا کی تالیف ہےہ غزالی کی کتاب میں بہت
سی احادیث وآثار ضعیف بلکہ موضوع ہیں اور صوفیاءکے بہت
سے مغالطے اور ان کی بکواسیات بھی ہیں نیز ایسے بزرگوں
اور صوفیوں کاکلم بھی ہے جو اعمال قلوب میں مشغول تھے
اور کتاب وسنت کے پابند تھے البتہ مہلک امور سے متعلق کلم
کا اکثر حصہ حارث المحاسبی کی کتاب الرعایۃ سے ماخوذ ہے
جیس ے ،تکبر ،ع ُجب اور حسد س ے متعلق کلم جس میں سے
کچھ تو قابل قبول ہے اور اکثرناقابل قبول ہے202۔
امام ذہبی فرمات ے ہیں:اس میں اکثر باطل احادیث ہیں اور یہ
بہ ت بہتر ہوتی اگر اس میں حکماءک ے طریق اور صوفیت کی
خرافات سے متعلق آداب ،رسوم اور زہد نہ ہوتا 205۔
( 202فتاوی ابن تیمیہ)551/10:
( 203تلبیس ابلیس)353:
( 204الرسائل از عبداللطیف آل شیخ)137/3:
( 205الرسائل از عبداللطیف آل شیخ)140/3:
93
2کتاب قوت القلوب از ابوطالب مکی :امام شافعی فرماتے
ہیں:ابوطالب نےہ اپنی آراءمیں علماءکی مخالفت کی ہے
بسااوقات اجماع کی بھی مخالفت کی ہےہ لیکن وعظ
ونصیحت اور آخرت کی ترغیب س ے متعلق بہترین گفتگو کی
ہے چنانچہ طلباءآخرت کی ہولناکیوں سے آگاہ ہونے کے لئے اس
کی کتاب کا مطالعہہ کرسکتےہ ہیں لیکن عوام الناس کےہ لئے
اس کا مطالعہ کرناحلل نہیں 206۔
94
اس شرط ک ے سات ھ ک ہ صبح وشام ک ے علو ہ کچ ھ ن ہ کھائ ے گا اور
صرف اتنا کھائ ے گا ک ہ رمق باقی رہے اور گوشت ن ہ کھائ ے گا(یہ
ہندومت اور نصرانیت سےہ مشابہت ہے)اور یہہ کہہ کسی ایک
مخصوص جگہہ پاک جگہہ میں لوگوں سےہ مکمل طور پر چھپ
کررہے گا کہ کوئی اس ک ے پاس نہ آسک ے اور ہ ر وقت یا حمید کا
ورد کرےہ گا ہر نماز کےہ بعد کم ازکم تین ہزار دفعہہ دوسری
ریاضت میں اس کا ورد یا رحیم ہوگاکم ازکم چار ہزار بار اور
تیسری ریاضت میں یاوہاب کا ورد کرےہ گا کم از کم پانچ ہزار
دفع ہ اور ان خلوتوں ک ے بھ ی خاص مختلف درج ے ہیں جو طریق
رفاعی کے ہرمرید کے لئے ہیں اور ہر اس شخص کے لئے جو عہد
کر ے کہ سات دنوں تک خلوت اختیار کر ے گا جس کی ابتداءگیارہ
محرم س ے ہوگی اور ان سات دنوں میں چیختا رہے گا اور گھر
والی کےہ ساتھہ بستر پر بالکل نہیں سوئےہ گا اور گوشت نہیں
کھائےہ گا ۔رفاعی کہتا ہےہ کہہ :سات دنوں کی خلوت مالک اور
مرید صادق کے لئے باعث فیض ہے 211۔
ان الفاظ میں موجود شرک وبدعت واضح ہےہ دیگر صوفیانہ
طریقوں کے اوراد میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔
( 211الطرق الصوفیۃ از عامر نجار 104/100:نیز غایۃ المانی از ابوالمعالی آلوسی)230/1:
( 212التیجانیۃ)262:
95
ابوسلیمان الدارانی کے کلمات
آخرت کی کنجی بھوک ہے،دنیا کی کنجی سیر ہوناہےہ ،اور دنیا
وآخرت میں ہ ر خیر کی بنیاد اللہہ تعالیٰہ کا خوف ہےہ ،ہ م اسے
عبادت نہیں مانت ے ک ہ تو صف میں کھڑا ہوپھ ر کوئی دوسرا تیرے
قدم ہلدےہ لیکن تو ہمہہ وقت اپنی قدم کس کر باندھہ لےہ پھر
عبادت کر اس دل میں کچ ھ خیر نہیں جو توقع کر ے کہہ اس کا
دروازہہ کھلےہ گا اور کوئی کچھہ دےہ جائےہ گا ۔میں نےہ ایسا کوئی
صوفی نہیں دیکھا جس میں خیر ہو سوائے عبداللہ بن مرزوق کے
میں ان کےہ لئےہ نرم گوشہہ رکھتا ہوں ۔جس کا آج اس کےہ کل
جیسا گزرے میں دنیا میں دن بسر کرنے اور درخت لگانے کے لئے
باقی رہنا پسند نہیں کرتا 213۔
96
اصطخری فرماتے ہیں:حلج بہروپیا تھا ہر طریقہ اختیار کرلیتا ایک
حالت سےہ دوسری حالت تک ترقی کرتےہ کرتےہ اس حال میں
پہنچا کہ کہنے لگا کہ اس نے اپنے آپ کو اطاعت سے پاک کرلیا اور
اپنے دل کو اعمال صالحہ میں لگادیا اور اپنی ذات سے الگ ہوگیا
پھ ر وہہ ترقی کرتےہ ہوئ ے مقربین کےہ مقام تک پہنچا پھ ر وہہ درجہ
معافاۃ تک پہنچا یہاں تک کہ اپنی طبعی بشریت سے بالکل ہی پاک
ہوگیا اس وقت اس میں الل ہ کی وہ روح سماگئی جو عیسیٰ بن
مریم میں تھی اب وہ جس چیز کا ارادہ کرے وہ ہوجاتی ہے215۔
ثبت المراجع
97
إسماعيل بن كثير ابن خلدون
البداية والنهاية ابن كثير
أبو المعالي محمد شكري اللوسي
غاية الماني في الرد على النبهاني
نعمان خير الدين اللوسي
جلء العينين في محاكمة الحمدين
برهان الدين البقاعي
تنبيه الغبي لتكفير ابن عربي :تحقيق الوكيل
أبو الريحان محمد بن أحمد – تحقيق البيروني
ما للهند من مقولة :ط .حيدر أباد
عبد القادر – الفتح الرباني الجيلني
التعريفات الجرجاني
محمد بن أحمد بن عثمان الذهبي
سير أعلم النبلء :ط .مؤسسة الرسالة
الطبقات ابن سعد
أبو إسحاق إبراهيم بن موسى الشاطبي
العتصام من البدع الشاطبي
الموافقات – الفادات والنشادات
المام محمد بن الحسين الشيباني
الكسب :تحقيق سهيل زكار
محمد بن علي – الشوكاني
قطر الولي على حديث الولي :تحقيق إبراهيم هلل
عبد الوهاب – الطبقات الكبرى الشعراني
اعتقادات فرق المسلمين الرازي
الحسين بن محمد – الذريعة إلى مكارم الشريعة الراغب الصفهاني
أبو بكر محمد – التعرف لمذهب التصوف الكلباذي
ظهر السلم احمد أمين
الشيعة وآل البيت إحسان إلهي ظهير
يوميات الخليل خليل مردم بك
التصوف السلمي في الداب والخلق زكي مبارك
الصوفية سميع عاطف الزين
حاضر العالم السلمي شكيب أرسلن
أبجد العلوم صديق بن حسن القنوجي
الطرق الصوفية عامر النجار
الغلو والفرق الغالية في الحضارة السلمية عبد ال سلوم السامرائي
حقائق عن التصوف عبد القادر عيسى
النوار الرحمانية لهداية الفرق التيجانية عبد الرحمن الفريقي
النسان الكامل في السلم – شخصيات قلقة في السلم – من تاريخ
التصوف السلمي – من تاريخ اللحاد – شطحات صوفية عبد الرحمن بدوي
الصلة بين التصوف والتشيع ط .دار المعارف د .مصطفى الشيبي
هذه هي الصوفية ط .دار الكتب العلمية عبد الرحمن الوكيل
التيجانية – نشر دار طيبة علي بن محمد الدخيل ال
مشكلة الفكار مالك بن نبي
موقف العقل والعلم والعالم من رب العالمين مصطفى صبري
تاريخ المام رشيد رضا
حجة ال البالغة ولي ال الدهلوي
الحضارة السلمية في القرن الرابع الهجري آدم متز
98
تأملت في سلوك النسان – نشرة جامعة الدول العربية الكسيس كاريل
99