Professional Documents
Culture Documents
انسان چاہیے
(تالش حق کی ایک س ّچیِ
کہانی)
مصنف:محمد کامران احمد
1
عرض ناشر
اسال م و علیکم ..
2
ا نبیاء اور اولیا اکرام نے ہم تک امن اور رواداری کا پیغام پہنچایا ۔ یہ
پیغام سراپا مح ب ّ ت ہے ۔ اسی محبت کو پھیالن ا ،اور ایک اللہ کی رضا
حاصل کرنے کا نام دین حق ہے ۔
3
تعارف
تالش حق کی ایک س ّچی کہانی ہے جس کے اکثر اہم کردار ابھی حیات ہیں۔ ِ یہ
اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگ اس کہانی کے مرکزی
کردار کو کوئی خاص شخصیت سمجھ کر اُس کی کھوج میں لگ جائیں کیونکہ
وہ بھی ہم سب کی طرح گناہگار و خطاکار ,اور ہر برائی سے آشنا انسان ہے
لیکن ایک خاصیت ہے اُس میں کہ وہ جو کہتا ہے دل سے کہتا ہے شاید اسی
لئے اکثر اس کی باتیں دل تک پہنچ بھی جاتی ہیں۔ اُس کی کہانی بیان کرنے کا
مقصد فرقہ واریت سے جنم لینے والی اُلجھنوں پر روشنی ڈالنا اور اُن اُلجھنوں
کا ایسا حل تالش کرنا ہے جس میں ہر شخص اپنے اپنے مذہبی دائرے میں
پُرسکون ہو کر رہ سکے۔ اس وقت میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جن چیزوں کا
فیصلہ اللّٰہ نے کرنا ہے ہم سب ایک دوسرے کے لیے وہی فیصلے کرنے کی
کوشش میں مگن ہیں۔ کون جنت میں جائے گا کون دوزخ میں ،کون مومن ہے
کون کافر،کس کو آباد رہنا چاہیے اور کون برباد ہو جانا چاہیے یہ سب فیصلے
ایک دوسرے کے لیے ہم خود ہی کر لیتے ہیں۔ جب تک ہم اِس فرقہ واریت کی
ت مسلمہ کہالنے کے الئق ہی نہیں بن آگ کو بجھا نہیں لیتے تب تک ہم اُم ِ
سکتے۔ یہ آگ ایک دوسرے کے خون سے نہیں بجھ سکتی لیکن ایک دوسرے
کو ایک اللّٰہ کے نام پر گلے لگانے سے،ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان
رکھنے سے ،ایک دوسرے کے لیے دُعا کرنے سے ،ہم اِس آگ کو ضرور بجھا
سکتے ہیں۔ ''فرقوں میں ایک فرق ِہ انسان چاہیے'' اسی آگ کو بجھانے کی ایک
چھوٹی سی کوشش ہے۔ اللّٰہ سے دعا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو بھالئی عطا
فرمائے اور سبھی کو ایک اللّٰہ کے نام پر ایک ہونا نصیب فرمائے۔
اللّٰہ کے حضور جس پاکیزگی کی حاجت ہوتی ہے وہ نہ تو عبادت گاہ سے
حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی لباس سے میسر آتی ہے۔ لوگ محو ہیں ایک دوسرے
کی عبادت گاہ کو کمتر اور اپنی عبادت گاہ کو برتر ثابت کرنے میں۔ تاکہ وہ دنیا
کو منوا سکیں کہ ہماری عبادت گاہ افضل ہے۔ جو رب ہمارے دل دیکھتا ہے ہم
اُس کے لیے ایک دوسرے کی عبادت گاہ بدلنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ یہ سوچ
کر کے یہ میرے مسلک واال مسلمان ہو جائے گا تو کامیاب ہو جائے گا کیونکہ
4
میں اللّٰہ کو باقی لوگوں سے ذیادہ پیارا ہوں۔ اسے لیے اُس نے مجھے تو صحیح
مسلک و مذہب میں پیدا کیا لیکن باقی سب سے وہ اُن کی پیدائش کے پہلے ہی
سے ناراض ہے اِس لیے اُن سب کو غلط مذہب و مسلک میں پیدا کر دیا۔ یہ ایک
ایسی سوچ ہے جس نے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں نفرت کا فتنہ برپا کر
رکھا ہے۔ اللّٰہ کے انبیاء ،اولیاء ،سنت ،سادھو ،درویش یا اور جتنے ناموں سے
تمام مذاہب کے لوگ اللّٰہ والوں کو پکارتے ہیں سب نے ایک اللّٰہ کے لیے لوگوں
عیسی ٌ
ٰ موسی ٌ کے نام لیواوں نے حضرت ٰ سے محبت کا درس دیا۔ لیکن حضرت
کو جھٹالیا اور بعد میں دونوں مذاہب نے حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم
کی پیروی سے انکار کیا۔ مسلمان سارے انبیاء کو مانتے ہیں تو اِن کے بیچ
صحابہ ،اہ ِل بیت ،اور مختلف امامین کے جھگڑے رکھ دیے گئے۔ اللّٰہ نے انسان
کے بیچ یہ جھگڑے کس لیے رکھے۔؟ آخراُس نے ایساکیوں چاہا کہ لوگ الگ
الگ مسلک و مذہب کے پیروکار بن کر اُس کی عبادت کریں۔؟؟ کیا وہ یہ چاہتا
تھا کہ لوگ مذہب و مسلک کے نام پر ایک دوسرے کا گلہ کاٹیں۔؟؟؟ یقینا ً اللّٰہ ایسا
ہرگز نہیں چاہتا تھا۔ اُس نے تو اِس لیے لوگوں کو اتنے سارے روپ دیے کیونکہ
اللّٰہ اِس الئق ہے کے طرح طرح کے روپ میں ،الگ الگ ڈھنگ سے اُس کی
پرستش کی جائے۔ الگ الگ ذبان میں الگ الگ انداز میں اللّٰہ کی بڑائی بیان کی
جائے۔ اللّٰہ بہت بڑا ہے تمام مخلوق اپنے اپنے ڈھنگ سے اپنی تمام زندگی بھی
شایان شان بندگی ناممکن ہے۔ اسی ِ اُس کی عبادت میں گزارے تو بھی اُس کے
لیے اُس نے اٹھارہ ہزار عالمین اور اُن کی مخلوق کو پیدا کیا۔ ہر جانور،
درخت ،پہاڑ ،سمندر ،اپنے اپنے اندازسے اللّٰہ کی عبادت کرتے ہیں اور کبھی
ایک جانور دوسرے جانور کو یہ نہیں کہتا کے تمہارا عبادت کا طریقہ میرے
طریقے سے کمتر ہے۔ اللّٰہ نے انسان کو الگ الگ رنگ اِس لیے دیے کے لوگ
جان سکیں کہ اللّٰہ ہی ہر رنگ کا خالق ہے اور ہر رنگ کا اللّٰہ اُس رنگ کے
لیے کافی ہے۔
حضرت علی ابن ابی طالب کا فرمان ہے کہ "اپنی اوالد کی حد سے ذیادہ فکر
مت کرو ,کیونکہ جیسے تمہارا رب ہے ویسے ہی تمہاری اوالد کا بھی رب ہے"
اِس قول میں جہاں اللّٰہ پے بھروسا کرنے کا درس ہے وہیں اِس میں اِس جانب
بھی اشارہ ہے کہ جیسے آپ کا اللّٰہ ہے جس نے آپ کو تخلیق کیا ،جس نے آپ
کا رزق ،آپ کا جینا مرنا لکھا ،اُسی طرح وہی اللّٰہ دوسرے شخص کا بھی ہے
اور وہ جس طرح آپ کے لیے کافی ہے اُسی طرح اُس کے لیے بھی کافی ہے۔
ہمارا مسلک ,ہمارا مذہب ,ہمارے لیے ہے اُسے دوسرے شخص پہ مسلط کرنے
5
کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہ سوچ کہ "ہم ہی صحیح ہیں اور باقی سب غلط
ہیں" ایک مسلک یا ایک مذہب کی حیثیت سے جینے کے لیے تو اچھی ہے لیکن
بنی نو انسان کی صورت تمام انسانیت کو پروان چڑھانے کے لیے یہ سوچ
زیر اثر آج انسانیت کشت و خون میں مبتال ہے۔ ناکافی ہے۔ بلکہ اسی سوچ کے ِ
ہم لوگوں کے پاس دِین نہیں بلکہ دِین داروں کے صرف نام باقی رہ گئے ہیں۔
اور ہم اُن ناموں کی لڑائی کرواتے رہتے ہیں۔ کوئی لوگوں کو ِ
شان اہ ِل بیعت
منوانے پے تُال ہے تو کوئی چار صحابہ کی عظمت ثابت کرنے میں مگن ہے۔
کسی کو اولیاء کی فکر ہے تو کسی کو یسوع مسیح کی قربانی کی تشہیر مقصود
ہے۔ کوئی مندر کی حفاظت چاہتا ہے تو کسی کو مسجد پر قابض رہنے کی فکر
کھائے جا رہی ہے۔ کسی کو بھی انسانوں کی فکر نہیں ہے۔ سب اپنا اپنا مسلک یا
مذہب بچانے کی فکر میں ہیں۔ ہمیں نہ تو انسان کی پرواہ ہے اور نہ ہی ہمیں
انسانیت عزیز ہے۔ ہمیں خدا سے بس یہ غرض ہے کہ وہ ہمیں کامیاب اور ہم
سے اختالف رکھنے والے سب لوگوں کو نیست و نابود کر دے۔ اور اگر وہ ایسا
نہ کرے تو ہم خدا سے شکوے کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔
مذہب خدا تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ لیکن لوگ یہاں مذہب ہی کو خدا بنائے
بیٹھے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ خدا تو بس ہمارے ہی پاس ہے جنّت صرف ہمارے
لیے ہی ہے اور باقی سب جہنم میں ڈالے جائیں گے یا ہم بھی جہنم میں ڈالے
جائیں گے مگر ہماری سزا پوری ہو جائے گی اور ہم دیر سے ہی صحیح لیکن
جنت میں ضرور جائیں گے اور باقی سب ہمیشہ دوزخ میں ہی جلتے رہیں گے۔
کیا وہ سب اللّٰہ کی مخلوق نہیں ہیں۔؟ کیا ہمارا رب رحمان و رحیم نہیں ہے۔؟
اُسے اگر ہم پے رحم آ جائے گا تو کسی دوسرے پے بھی آ سکتا ہے۔ ہم کون
ہوتے ہیں اللّٰہ کی رحمت کو اپنے آپ تک محدود کرنے والے۔؟ اگر ایک شخص
سر محشر اُسے صرف اُس کے پوری زندگی لوگوں سے بھالئی کرتا ہے تو کیا ِ
مذہب و مسلک کی بنیاد پر جہنم رسید کر دیا جائے گا اور کیا عمر بھر لوگوں کو
دُکھ پہنچانے والے لوگ محض مذہب و مسلک کی بنیاد پر بخش دیے جائیں گے؟
ہرگز ایسا نہیں ہو گا کیونکہ
’’المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ‘‘ (البخاری ،االیمان)
مسلمان وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے کسی کو ضرر پہنچتا ہے اور
نہ نقصان۔
6
اس حدیث میں صاف الفاظ میں ایسے شخص کو مسلمان کہا جا رہا ہے جس کے
ہاتھ اور زبان سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا یہاں نماز روزے کا ذکر نہیں کیا
جا رہا تسبیح ,داڑھی یا ٹوپی کی بات بھی نہیں کی گئی صرف اور صرف اتنی
بات کہ جو دوسرے لوگوں کے لیے بے ضرر ہے وہ مسلمان ہے۔ اب اگر اِس
حدیث کے پیمانے پر لوگوں کو پرکھا جائے تو بہت سے ِسکھ ,ہندؤ ,اور مسیحی
سنّی ,وہابی ,بریلوی غیر حضرات ,مسلمان دکھائی دیں گے اور بہت سے شیعہُ ,
سن
مسلم نظر آئیں گے۔ اِس حدیث شریف سے یہ بھی واضح ہوتا ہے اصل دین ُح ِ
سلوک ہے نہ کے نماز روزے کا طریقہ۔ ہر مذہب بھالئی کا درس دیتا ہے ہر
مذہب اللّٰہ کے لیے لوگوں سے محبت کا درس دیتا ہے کوئی مذہب برائی کی راہ
پے چلنا نہیں سکھاتا۔ اگر غور کیا جائے تو تمام مذاہب کی تعلیمات بھی ایک سی
ہیں۔ صرف اُن تعلیمات کو پہنچانے والوں کے نام مختلف ہیں۔ تھوڑا اور گہرائی
سے سوچا جائے تو نظر آتا ہے کہ یہ تعلیمات پہنچانے والے سب لوگ ایک سے
کردار کے مالک ہیں سب نے لوگوں سے محبت و شفقت سے پیش آ کر محبت و
شفقت ہی کی تلقین کی اور ہم انہی کے ناموں پے نفرت اور ظلم کا بازار گرم
کیے بیٹھے ہیں۔
اپنے مذہب کی تبلیغ کیجیے لیکن جب تک آپ اپنے علم میں کامل نہیں ہیں تب
تک اپنے علم کا اظہار کرنے سے گریز کیجیئے کیونکہ ادھورا علم فتنے کے
سوا اور کچھ بھی نہیں۔ اور اگر مکمل علم سے پہلے ہی آپ تبلیغ کرنا چاہتے ہیں
سنی بن کے دکھائیں سن سلوک کے ذریعے تبلیغ کیجیئے۔ ایسے شیعہُ , تو اپنے ُح ِ
کے لوگوں کا دل چاہے آپ کے مسلک یا مذہب کا پیروکار بننے کا۔ اللّٰہ کا دین,
س ّچا دین ,روز ّاول سے ایک ہی ہے کہ اللّٰہ کے لیے انسان سے محبت کی
جائے۔ تمام انبیاء نے اسی محبت کی تبلیغ کی اور لوگوں کو را ِہ راست پے الئے۔
اللّٰہ خود انسان سے محبت رکھتا ہے۔ ایک انسان کی محبت میں اللّٰہ نے تمام
مخلوق کو پیدا فرمایا۔ وہ ایک انسان مسلمانوں کے لیے حضرت محمد صلی اللّٰہ
عیسی علیہ السالمٰ علیہ و آلہ وسلم ہیں ,جبکہ ایک مسیحی کے لیے وہ حضرت
ہیں اور اسی طرح ہر مذہب کے لوگ الگ الگ شخصیات کو اُس ایک انسان کی
جگہ رکھتے ہیں جس سے اللّٰہ سب سے ذیادہ محبت رکھتا ہے۔ لیکن غور
سن سلوک سے تبلیغ کی ,اپنے کردار سے کیجیئے کہ اُن تمام شخصیات نے ُح ِ
لوگوں کے دِلوں کو قائل کیا۔ وہ لوگ جو اللّٰہ کا انکار کرتے تھے وہ بھی اللّٰہ
والوں کے کردار کی عزت کرنے پے مجبور نظر آتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ
آج ہم اپنا کردار ثابت کرنے کی جگہ اپنے نبی ,صحابی ,امام ,وغیرہ کی برتری
7
ثابت کرنے میں محو ہیں۔ اُن کا عمل اُن کے ساتھ چال گیا۔ ہمارے ,اُن کی اچھائی
یا بُرائی بیان کرنے سے ,اُن کے درجات بُلند یا پست نہیں ہو جائیں گے۔ اور نہ
ہی محض اُن کی اچھائی یا برائی بیان کرنے سے ہم اپنے درجات بُلند کر سکتے
ہیں جب تک کہ ہم اُس سے کچھ سیکھ کر اپنے کردار کی تصحیح نہیں کرتے۔
ت صحابہ یا علی ولی اور اگر اپنے کردار کی تصحیح نہیں کر سکتے تو عظم ِ
کے نعرے بھی لگانا چھوڑ دیجیئے ایک دوسرے کو خارجی ,رافضی کہنا بھی
ترک کر دیجیئے کہ اصل فساد کی جڑ یہی ہے کہ ہم اپنا کردار بُلند کرنے کی
جگہ بُلند شخصیات کے کردار کو بُلند یا پست ثابت کرنے کو دین سمجھ کر ایک
دوسرے پر اپنا اپنا دین مسلط کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اگر آپ اپنے مذہب,
سنّی یا مسیحی سے مسلم مسلک کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں کو شیعہ سے ُ
بنانے کی کوشش کرنے کی جگہ اُسے ایک اللّٰہ پے بھروسا کرنا سکھانے کی
کوشش کیجیئے ,اللّٰہ کے لیے لوگوں سے محبت کرنے کا درس دیجیئے ,دنیا,
نفس اور شیطان سے خبردار رہنا سکھائیں تاکہ لوگ خود آپ کے مسلک و مذہب
کی جانب مائل ہوں اور آپ کے نبی ,آپ کے امام کے ُگن گائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ
آج مسلمان ,ہندؤ ,سب کے سب دنیا اور نفس کو اپنا رب بنائے اُس کی پرستش
میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہماری ,اپنی زندگی سے وابسطہ تمام امیدیں دنیاوی ہی
ہوتی ہیں۔ اچھا اسکول ,اچھی نوکری ,اچھی بیوی ,اچھا گھر ,بس زندگی سے یہی
چاہیے۔ اور اپنے بچوں کے لیے بھی ایسی ہی خواہشات رکھتے اور اِن چیزوں
کی فکر کرتے زندگی گزارنے والے تمام لوگ انسان ہیں کسی مذہب و مسلک
سنّیِ ,سکھ ,ہندؤ سب کے سب صرف انسان کی تمیز سے پرے یہ سب شیعہُ ,
ہیں۔ گناہوں سے ِلتھڑے ,بے عمل لوگ ,یہ نہ ہندؤ ہیں نہ مسلمان نہ کوئی اور۔ یہ
سب صرف لوگ ہیں۔ شیطان کے وسوسوں میں ِگھرے ,ڈرے سہمے لوگ۔ جنہیں
دنیا کی فکر نے برباد کر رکھا ہے۔ اِس وقت میں انسانیت کو ضرورت ہے ایسے
لوگوں کی جو لوگوں کو ایک اللّٰہ کے نام پر ایک کر سکیں۔ مذہب و مسلک کے
نام پر ,رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں کی بہت تقسیم ہو چکی ہے۔ اور اس
تقسیم سے ہم سب اپنے اپنے رب سے بہت دور ہو ُچکے ہیں اور شیطان ہمیں ہر
جانب سے گھیر کر ہمارا قت ِل عام کر رہا ہے۔ اب اس جگہ سے اگر بچ کے نکلنا
تہے تو اس کے لیے تمام انسانیت کو ایک ہونا ہو گا۔ اور اس کام کی ابتدا ا ُ ّم ِ
مسلمہ کو ہی کرنی ہو گی کیونکہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جو خود کو رحمت اللعالمین
کا پیروکار بتاتے ہیں۔ اس لیے یہ ہمارا ہی فرض ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ سب
8
کو بتایا جائے کہ اللّٰہ کی رحمت سب کے لیے ہے اور ِ
دین اسالم کے ماننے
والے تمام مذاہب تمام انسانیت کے لیے سالمتی کا باعث ہیں۔
ذی ل میں دیا گیا مکالمہ اس کتاب کا اصل پیغام ہے۔ مصنف نے بہت
سے فرقوں اور الگ الگ جگہ کے لوگوں کے متعلق بات کی جس کا
مقصد کسی بھی طرح کے لوگوں کی تضحیک کرنا نہیں بلکہ ہر بات
اصالحی نقطۂ نظر سے بیان کی گئی ہے۔ اگر کسی جملے سے کسی
پڑھنے سننے والے کی دل آزاری ہو تو ا ُس کے لیے مصنف معازت
خواہ ہے۔ اس کتاب کا اصل پیغام اس مکالمے میں قید ہے۔ کہ فرقہ
واریت سے نجات حاصل کرنے کا واحد راستہ اپنے اندر موجود تفرقہ
بازی کا خاتمہ ہے
سر میں تنگ آ گیا ہوں اپنے آپ سے ،خود اُس نے التجا بھرے لہجے میں کہاَ ":
سے وحشت ہوتی ہے مجھے۔ میں نماز نہیں پڑھتا ،جب بھی نماز میں کھڑا ہوتا
ہوں تو ایک خوف مجھے گھیر لیتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ پتہ نہیں میرا نماز کا
طریقہ درست بھی ہے یا نہیں ،اس طریقے پر نماز قبول ہو گی یا نہیں انہی
سوچوں میں اُلجھے اُلجھے میں کب السالم و علیكم و رحمة الله تک پہنچ جاتا
سر مجھے کسی فرقے کسی مذہب کی تالش نہیں ہے میں ہوں پتہ ہی نہیں چلتا"۔ َ
تو بس حق جاننا چاہتا ہوں ،مجھے خواہش ہے تو ایک بار حق کو پہچاننے کی
ہے پھر چاہے وہ مجھے عمر بھر دوزخ میں جال لے مجھے کوئی پرواہ نہیں
ہے لیکن ایک بار مجھے یہ پتہ چل جائے کے حق کیا ہے 27 ،فرقوں میں سے
وہ کون سا ایک ہے جو جنتی ہو گا؟ میں نے بہت سے فرقوں کو پڑھا ہے لیکن
میں کسی ایک فرقے کو ُچن نہیں پایا۔ کبھی مجھے لگتا ہے کے یہ تمام فرقے
صحیح ہیں اور کبھی لگتا ہے کے تمام ہی فرقے غلط ہیں۔ یہ حدیث ہر وقت
میرے گمان میں گونجتی رہتی ہے کے " 27فرقے ہوں گے ایک جنتی ہو گا"۔
میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو الگ الگ مسلکوں سے تعلق رکھتے ہیں
لیکن مجھے اُن میں سے ہر ایک جنتی محسوس ہوتا ہے ،الگ الگ مسلکوں سے
تعلق رکھنے کے باوجود اُن سب میں چند خوبیاں مشترک ہیں مثالً وہ جھوٹ نہیں
بولتے ،لوگوں کے ساتھ خوش اخالقی سے پیش آتے ہیں ،دُکھ درد میں سب کے
کام آتے ہیں ،کسی کو بد دُعا نہیں دیتے ،کسی کو اُس کے رنگ ،نسل ،فرقے یا
مذہب کی وجہ سے اُسے کم تر یا جہنمی نہیں سمجھتے ،یہ سب وہ خوبیاں ہیں
جن کی وجہ سے میں اُنہیں جنتی سمجھنے پر مجبور ہوں کیونکہ میرے خیال
9
میں اللہ کو وہ لوگ زیادہ پیارے ہیں جو لوگوں کے حق میں بہتر ہیں۔ تو پھر کیا
یہ ممکن ہے کہ اللہ اُن میں سے کچھ لوگوں کو محض اس لیے جہنم میں ڈال
دے گا کہ وہ لوگ کسی خاص مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتے تھے جبکہ وہ
مسلک یا مذہب اُن لوگوں نے خود اپنے لیے نہیں ُچنا بلکہ اللہ نے اپنی مرضی
سے اُن لوگوں کو اُس مذہب یا مسلک کے ماننے والوں کے گھر پیدا کیا۔؟
پروفیسر صاحب کے چہرے پر ایک گہری مسکان دیکھ کر وہ خاموش ہو گیا
انہوں نے تھوڑے توقف کے بعد کہا" :صاحب زادے میں کوئی مذہبی اسکالر یا
فتوی تو نہیں دے سکتا کےٰ ُمفتی نہیں ہوں اس لیے میں آپ کو اس بات پر کوئی
فالں فرقہ جنتی ہے اور فالں فرقہ جہنمی لیکن میں ہر بات کو عقل و فہم کے
معیار پر پرکھنے کا عادی ہوں۔ آپ جس حدیث کی بات کر رہے ہیں وہ کچھ یوں
ہے کہ" :اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے! میری
اُمت ضرور تہتر ( )27فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک جنت
میں جائے گا اور بہتر ( )27جہنم میں داخل ہوں گے۔" صحابہ کرام نے عرض
کیا ’’ :یارسول اللہ! وہ جنتی گروہ کون ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا :الجماعة’’ .وہ جماعت ہے۔‘‘ بعض جگہ اسے یوں بھی سنا کہ"وہ
جماعت جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہو گی۔" اور بعض جگہ
یوں سنا کہ جو رسول اور آ ِل رسول کے طریقے پر ہوں۔
اب سوچو کے اللہ کے محبوب اور باقی تمام انبیاء ،اولیاء ،صالحین ،اور وہ تمام
ہستیاں جنھیں لوگ مذہب کے نام پر مانتے ہیں اُن کا طریقہ کیا ہے تو آپ کو
دکھائی دے گا کہ ایک بات اُن سب میں مشترک ہے کے ان سب نے اپنی زندگی
حق کی محبت میں گزاری اور اس محبت کی دلیل انہوں نے لوگوں سے محبت
کر کے پیش کی۔ اور اس سے بہتر محبت اور کیا ہو سکتی ہے کے کوئی لوگوں
کو حق کی جانب بالئے۔ اگر تم اپنے اندر سے تفرقہ ختم کر دو تو تمھارے باہر
کا تفرقہ اپنے آپ دم توڑ دے گا۔ ایک پل کے لیے اس حدیث میں بیان کیے گئے
فرقوں سے نظر ہٹاؤ اور صرف ایک لفاظ پر غور کرو "جماعت"۔ ہر جماعت
کہتی ہے کے وہ جماعت ہم ہیں لیکن تم اس جماعت کو اپنے اندر تالش کرنا۔
جماعت جمیعت سے ہے ،جب تم اپنے اندر کی جمیعت تالش کر لو گے تو خود
بہ خود تقسیم سے آزاد ہو جاؤ گے ،اپنے اندر سے تفریق ختم کر دو تو تم اکھٹے
ہونا شروع ہو جاؤ گے۔ دیکھو اپنے دل و زبان کو نفرت کی ہر سوچ ،ہر گمان
10
اور ہر کالم سے پاک کر لو دوسرے کے دین کی فکر چھوڑ دو اپنے دین کی
فکر کرو۔ ہر ایک کے اپنے اعمال ہیں جو وہ اپنے رب کے لیے سر انجام دیتا
ہے اگر وہ عمل صحیح یا غلط ہے تو تم اُس عمل پر جزا یا سزا کے فیصل نہیں
ہو۔ اگر تمہاری نظر لوگوں پر ٹِکی ہے تو جان لو کے تم خود سے نظر ُچرا
رہے ہو۔ اور جب تک تمہاری نظر خود پر نہیں ہو گی تب تک تم بھٹکتے رہو
گے۔ ہر شخص اُس انداز سے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کر رہا ہے جس انداز
کو اُس کے رب نے اُس کے لیے پسند کیا اسی لیے اُسے اُس مسلک یا مذہب میں
منصف اور پیدا کیا۔ اللہ کی ذات بے انصاف یا ظالم نہیں ہے وہ تو سب سے بڑا ِ
سراپا رحمت ہے وہ کیوں کسی انسان کو کافر یا ُمشرک بنا کر دنیا میں بھیجے
گا؟ تم نے کہا جنتی لوگ تم نے ہر مسلک میں دیکھے تو اِس کی وجہ یہی ہے
کے اللہ کا راستہ انسان کے اپنے اندر موجود ہے اُس پر چلنے کے لیے اُسے
اپنا آپ اِکھٹا کرنا ہوتا ہے اپنی سوچ کو اپنے گمان کو جس جس نفرت سے تقسیم
کر کے جتنے بھی ٹُکڑوں میں بانٹا ہے اُن تمام ٹُکڑوں کو جمع کر کے ایک کرنا
ہوتا ہے۔ تمام انسانوں کو ایک سا سمجھنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ انسان اگر
اپنے اندر دوسرے تمام انسانوں کے لیے ایک سی محبت اور عزت پیدا کر لے
اور نفرت کو ترک کر دے تو وہ انسان اُس جماعت کا حصہ بن سکتا ہے جس
کی طرف اِس حدیث میں اشارا کیا گیا ہے۔ جب تم اندر سے ایک ہو جاؤ گے تو
باہر کی تفریق تمھیں پریشان نہیں کر پائے گی۔
پروفیسر صاحب کے جواب نے اُس کا دل مطمئن کر دیا اُس دن کے بعد سے اُس
نے جنتی فرقے کی تالش ترک کر دی کیوں کہ اُسے اپنے اندر کی جماعت مل
گئی تھی۔
11
'' باب۔ '' 01
عجیب بات ہے کے ا ُس سات سال کے بچے کو اللہ کی تالش تھی۔ اکثر
یہ سوال ا ُسے پریشان کرتا تھا کے اگر میرا مسلک ،میرا مذہب ،جو
مجھے میرے ماں باپ سے ِم ال ہے اگر یہ سچا مذہب نا ہ ُوا تو میرا کیا
بنے گا ،میرے ماں ،باپ میرے بہن ،بھائی میرے دوست احباب کا کیا
بن ے گا ،پھر وہ سوچتا کے کہیں ایسا تو نہیں کہ اللہ کی راہ مذہب و
مسلک کی بحث سے ب ُ لند ہو ،پھر ا ُسے مولوی صاحب کی بات یاد آ
جاتی کے ہمارے اس مسلک کے سوا سب لوگ گمراہ ہیں ..حضرت
محمد صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمای ا کے 27 ، 27فرقوں میں
سے ایک جنتی ہو گا اور و ہ ایک ہم ہیں۔ وہ سوچتا مولوی صاحب
نمازی ،پرہیزگار ہیں ،اتنا علم رکھتے ہیں ،وہ یقینا ً بہتر جانتے ہوں
گے ،لیکن وہ اس یقین پر خود کو کبھی مطمئن نہیں کر پاتا کی وں کے
ا ُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس طرح کے مولوی صاحب ہر مسلک،
بلکہ ہر مذہب میں موجود ہوں گے۔ آخر یہ ی تو وہ لوگ ہیں جو کسی
مذہب یا مسلک کی پہچان ہوتے ہیں ،پھر ایک دن ا ُس نے اپنی والدہ
کو کہتے س ُ نا وہ ا ُس کی خالہ سے حضرت بری امام کے م زار پر
جانے کی بات کر رہی تھیں۔ ا ُسے تجسس ہوا کے مزار پر جانے سے
کیا ہوتا ہے یا مزار پر کوئی کیوں جاتا ہے یہ سوال لے کر وہ ایک
بار پھر مولوی صاحب تک جا پہنچا ..اس بار ا ُسے بتایا گیا کے
مزاروں پر شرک ہوتا ہے اور یہ سخت گناہ ہے ..ا ُسے مزید بتایا گیا
کے ہر گناہ کی معافی ہے لیکن شرک جیسے گناہ کی تو کوئی معافی
بھی نہیں ہے۔ اس بار وہ کچھ زیادہ ہی ڈر گیا تھا ا ُس نے اپنی امی کو
بھی سم جھانے کی کوشش کی مگر ا ُنہوں نے ا ُس کی بات پر توجہ
نہیں دی۔ ا ُس رات وہ بہت پریشان تھا ا ُس نے اللہ سے کہا "اللہ میاں
آپ تو سب کچھ کر سکتے ہیں آپ پلیز میری امی کو اس شدید گناہ
چ کی ہیں اور انہیں سے بچا لیجیے اور اگر وہ یہ گناہ پہلے بھی کر ُ
معاف نہیں کیا جا سکت ا تو ا ُن کی جگہ مجھے سزا دے دیجیے گا ۔
ہر روز وہ محلے کے بچوں کے ساتھ قرآن پاک پڑھنے جاتا تھا اور
قاری صاحب سب بچوں کو عصر اور مغرب کی نماز کے لیے ساتھ
12
لے کر جاتے تھے وہ کیونکہ چھوٹا تھا اس لیے ا ُس پر نماز کے
معاملے میں زیادہ سختی نہ تھی وہ اکثر مسجد تو جا تا تھا لیکن کسی
کونے میں بیٹھا اپنی سوچ کی زبانی اللہ سے مح ِو گفتگو رہتا۔ ا ُسے
اس بات کی پرواہ نہیں تھی کے اللہ کی طرف سے جواب آئے گا یا
نہیں۔ ا ُس نے اللہ سے پہلی دفعہ بات شروع کرتے ہوئے ہی کہہ دیا
تھا "اللہ میاں مجھے پتہ ہے کے آپ سب سے بڑے ہیں اور بڑے،
بچ وں کی باتوں کا کم ہی جواب دیتے ہیں جیسے میرے ابو اور دادا
کرتے ہیں اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ بڑوں سے زیادہ باتیں کرو تو
وہ ڈانٹ دیتے ہیں ،اللہ میاں آپ پلیز مجھے ڈانٹیے گا نہیں میں
پرومس کرتا ہوں آپ کو زیادہ تنگ نہیں کروں گا۔
13
''باب۔ '' 00
قاری صاحب سے گستاخی کے واقعہ پر جب ا ُس کی والدہ اور دادا نے
سرزنش کی تو ا ُس نے انھیں بھی وہی جواب دیا کہ "میں قاری صاحب
کے ڈر سے نماز نہیں پڑھوں گا" اور ساتھ ساتھ دادا سے 27فرق وں
والی حدیث کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی پوچھ لیا کہ "آپ کے پاس کیا
ثبوت ہے اس بات کا کہ آپ جس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں وہی
اصل ج ن ّ تی فرقہ ہے" تو دادا نے پ ُ ر اعتماد لہجے میں بلند آواز سے
کہا "ہم جدی پ ُ شتی س ُ نی ہیں ,ہمیں یقین ہے کہ ہم صحیح ہیں"۔ تو ا ُس
نے کہا "ای سا یقین تو ہندو کو بھی ہو گا ,یہودی بھی یہی یقین رکھتا ہو
گا کہ میرا مزہب درست ہے ,یقین تو سب کو ہوتا ہے لیکن آپ کے
پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آپ صحیح مزہب یا صحیح فرقے کے
ماننے والے ہیں؟؟" دادا جان نے َچ پ ّل پھینک کے ماری اور کہا "کل
کا بچہ ,ت ُو ہم سے ہم ارے مسلک کا ثبوت مانگتا ہے۔؟ "
14
موجودگی کو محسوس کر سکتا ہو۔ ویسے تو الل ّٰ ہ کی ذات ہر جگہ
موجود ہے لیکن وہ کون سے فرقے کے س اتھ ہے یہ پتہ چالنے کے
لیے ہم الگ الگ فرقوں کی مساجد میں نماز پڑھا کریں گے اور جس
مسجد میں دل کو کچھ محسوس ہوا ا ُس مسجد کے فرقے کو اپنا لیں
گے۔" تینوں دوستوں نے ا ُس کی تجویز کا خیر مقدم کیا اور ا ِس طرح
چ وں نے سات آٹھ سال کی عمر میں الل ّٰ ہ کی تالش میں الگ الگ چار ب ّ
فرقوں کی مساجد میں نماز پڑھنی شروع کر دی۔
چ وں کی طرح ہی نادان اور شرارتی تھے وہ چاروں اپنے ہم عمر ب ّ
لیکن سال میں ایک دو بار چند دنوں کے لیے وہ تالش جاگ جاتی تھی
لیکن کچھ محسوس نہ ہونے کی ب ِ نا پر چاروں دوست واپس اپنے کھیل
کود میں مگن ہو جاتے۔ وقت گزرتا گیا اور وہ چاروں دوسری تیسری
جماعت سے چھٹی ساتویں جماعت تک پہنچ گئے۔ اب تک وہ کافی حد
تک اردو پڑھنا اور سمجھنا سیکھ گئے تھے۔اور ایک دن دو دوستوں
چ ن لیا ہے۔ ا ُسنے (جو آپس میں بھائی تھے) کہا کہ ہم نے اپنا مسلک ُ
نے حیرت سے پوچھا "کیا تمہیں الل ّٰ ہ کی مو جودگی کا احساس ِم ل
گیا۔؟" تو انہوں نے کہا کہ "ہم نے اس فرقے کی کتابیں پڑھی ہیں اور
ہمارے دل کو یقین آ گیا ہے کہ یہی صحیح فرقہ ہے۔ لیکن تم جو ہمیں
اس راہ پہ لے کر آئے ہم نے دیکھا ہے کہ تم کسی فرقے کی کوئی
کتاب نہیں پڑھتے بلکہ اکثر تم ہمارے ساتھ نماز بھی نہی ں پڑھتے اور
کبھی کبھی تو تم مسجد میں بھی نہیں جاتے باہر ہی بیٹھے رہتے ہو۔
تو تم الل ّٰ ہ کو کیسے تالش کرنے کا ارادہ رکھتے ہو۔؟" جس وقت ا ُس
کا دوست ا ُس سے یہ سوال پوچھ رہا تھا ا ُس وقت دو اور لوگ پاس
بیٹھے ا ُن دونوں کی بات سن رہے تھے۔ ا ُس نے اپنے دوست سے کہا
ک ہ "میں یہ کتابیں اس لیے نہیں پڑھتا کیونکہ ایسی کتابیں ہر فرقے
کے پاس موجود ہوں گی اور ہر فرقے نے قرآن اور حدیث سے اپنے
فرقے کو ج ن ّ تی ثابت کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ اگر ان لوگوں کی
کتابوں میں حق ہوتا تو یہ لوگ کسی ایک فرقے پے متفق ہو گئے
ہوتے۔ یہ کتابیں صرف او ر صرف اپنے فرقے کے لوگوں کو تسلی
ج ڑے رہیں۔ اگر یہ دینے کے لیے ہیں تاکہ لوگ اپنے اپنے فرقے سے ُ
ث ہدایت ہوتیں تو یہ لوگ اس طرح فرقوں میں نہ بٹ ّے کتابیں باع ِ
ہوئے ہوتے۔ کیوں کہ ہدایت یافتہ لوگ ,لوگوں کو ایک کرتے ہیں,
15
جبکہ یہ کتابیں لوگوں کو فرقہ واریت کی تقسیم پہ راضی رہنا
سکھاتی ہیں۔ دیکھو !..ہمارے پاس کچھ لوگ ہماری بات س ُ ن رہے ہیں
لیکن ان کے پاس بھی میری بات کا جواب نہیں ہے۔ کیوں انکل !..کیا
آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ ا ِن فرقوں میں سے کون سا فرقہ درست
ہے۔؟ (ا ُس نے دوست سے بات کرتے کرتے پاس بیٹھے لوگوں سے
سوال کر ڈاال) انہوں نے مذاقیہ لہجے میں کہا "بیٹا ہم نے تو کبھی
تالش ہی نہیں کیا۔ آپ ڈھونڈ سکو تو ڈھونڈ لو۔" ا ُس نے پ ُ ر اعتماد
لہجے میں کہا انشاء الل ّٰ ہ مجھے وہ ضرور ملے گا اور اگر میں
کامیاب نہ بھی ہوا تو بھی جب میں آپ کی عمر کا ہوں گا تو اپنی عمر
چ ے کو یہ جواب نہیں دوں گا جو جواب آپ مجھے دے کے کسی ب ّ
رہے ہیں۔"
16
''باب۔ '' 00
ا ُس وقت وہ ساتویں جماعت میں تھا جب ایک رات ا ُس نے کہا "الل ّٰ ہ
میاں آپ دیکھ رہے ہیں نا کہ کس طرح لوگ پریشان ہیں ,ساری دنیا
میں مسلمان قتل کیے جا رہے ہیں ,ہم سب نے آپ کی ر س ّ ی کو چھوڑ
دیا ہے اور تفرقے میں پڑ چ کے ہیں .پلیز ہمیں معاف کر دیں ,ہمیں
ایک کر دیں ,ہماری غلطی ہے ,میں سب کی طرف سے آپ سے
sorryکرتا ہوں۔ ہم سب شیعہ ,س ُ ن ّ ی ,ہندؤ ,عیسائی بن بن کر تیرا ہی
بننے کی کوشش کرتے ہیں ,لیکن آج نہ ہم تیرے بن پا رہے ہیں نہ
اپنے۔ ہمیں ہمارے دشمن (شیطان) نے بہکا دیا اور ہم نے ا ُس کے
بہکاوے میں آ کر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی ٹ ُکڑے کر لیے۔ لیکن
یہ ہمارے بڑوں کی غلطی تھی ,ہم پے ا ِس کا بوجھ مت ڈال اور ہمیں
آزاد کر دے اس فتنے سے۔" وہ اپنے بستر میں منہ چھپائے رو رہا تھا
اور دل کی زبانی مح ِو فریاد تھا "الل ّٰ ہ میاں مجھے بتائیں ح ق کیا ہے,
میں سب کو بتا دوں گا ,پھر ہم سب ایک ہو جائیں گے ,الل ّٰ ہ میاں پلیز
ہمیں بچا لیجیئے ہم سے غلطی ہوئی ,ہم نے شیطان کی پیروی کی اور
گمراہ ہوئے اور اب ہمیں ڈر لگ رہا ہے کہ ہم آپ سے بہت دور آ
گئے ہیں لیکن اب ہم واپس آنا چاہتے ہیں ,پلیز ہمیں واپس ب ُ ال لی جیے"
ایسے ہی روتے روتے کب ا ُسے نیند آئی ا ُسے کچھ پتا نہ چال۔ صبح
سو کر ا ُٹھا تو ایک ہی سوال سر پے سوار تھا کہ الل ّٰ ہ کیوں ہم میں
ایسے لوگ نہیں بھیجتا جو ہمیں ایک کر سکیں ,شاید لوگوں میں طلب
ہی نہیں رہی ایسے لوگوں کی ,ا ُسے لوگوں پے
غ صّ ہ آ رہا تھا ,خاص کر اپنے بڑوں پر جنہیں صرف اپنی پڑی
تھی ۔ اس غصے کی ایک وجہ شاید وہ انکل بھی تھے جن سے کل پبلک
ٹرانسپورٹ میں اسکول جاتے ہوئے مالقات ہوئی تھی۔
وہ بہت دیر سے انہیں Observeکر رہا تھا۔ وہ انکل ا ُسے تھوڑے
خبطی سے لگ رہے تھے جو ا ُسی کے اسکول کے چوتھی ,پانچویں
چ وں تم قوم کا
چ وں سے بات کر رہے تھے "ب ّ جماعت کے کچھ ب ّ
مستقبل ہو ,پاکستان کا آنے واال کل ہو ,کیا کر رہے ہو تم لوگ ,کہاں
ہیں تمھاری جنریشن کے ہیروز ,کہاں ہیں تماری جنریشن کے اقبال
17
اور سر سید۔؟ ایسی جنریشن سے ہم کیا ا ُمید کر سکتے ہیں جس کے
چ ے صبح اسکول جاتے ہوئ ے بس کا کرایہ ادا کرنا اپنی توہی ن ب ّ
سمجھتے ہیں ,کیسا پاکستان بناؤ گے تم لوگ ,کہاں ہیں تمہاری
جنریشن کے . genious؟
ا ُس کا بس سٹاپ قریب تھا وہ اپنی جگہ سے ا ُٹھا اور بس کے دروازے
کی طرف بڑھا ,وہ انکل دروازے کے پاس والی سیٹ پر بیٹھے تھے
ا ُس کے دماغ میں نہ جانے کیا آیا کہ ا ُس نے ا ُن انکل کی طرف ہاتھ
بڑھایا اور کہا "اسالم و علیکم سر ,کیسے ہیں آپ؟" وہ انکل کسی اور
ہی خیال میں گم تھے انہوں نے کھوئے کھوئ ے انداز میں اپنا پ ُ رانا
فقرہ دہرایا "بیٹا کہاں ہیں آپ کی generationکے genius؟ کیا
بنے گا ا ِس ُم لک ک ا" ا ُس نے کہا "انکل۔۔ ! میں ہوں اپنی generation
کا genius۔آپ بے فکر رہیں انشاءالل ّٰ ہ پاکستان کا بھال ہو گا ,سب
اچھا ہو گا" ا ُنہیں تسلی دیتے ہوئے ,ا ُسے اپنے دل میں بہت سکون
محسوس ہورہا تھا۔
لیکن شاید ا ُن انکل کو ا ُس کا خلوص دکھائی نہیں دیا اور انہوں نے
ا ُس کے پ ُ رانے uniformپر نظر جماتےہوئے مذاق ا ُڑانے والےلہجے
میں کہا "اچھا تو تم ہو اپنی generationکے genius؟ کیا کرو گے
تم بڑے ہو کر؟" ا ُن کے بات کرنے کے انداز سے وہ چڑ سا گیا اور
ا ُن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کے کہا "انکل آپ یہ چھوڑیں کہ میں کیا
کروں گا اور یہ ب تائیں کہ آپ نے کیا ِک یا ہے؟ جو سوال آپ میری
generationسے کر رہے تھے کہ آپ کے geniusکہاں ہیں وہی
سوال میں آپ سے کرتا ہوں ,آپ کے اقبال اور سرسید کہاں ہیں؟ ملک
و قوم کا بیڑا غرق تو آپ کی generationنے کیا ہے ,ہم تو ابھی
چ ے ہیں۔ خیر ہم جو بھی کریں گے لیکن آ پ کی طرح next ب ّ
generationپر اپنی غلطیوں کا بوجھ نہیں ڈالیں گے" اتنا کہتے
کہتے ا ُس نے سٹاپ کے قریب slowہوتی ہوئی بس سے چھالنگ
لگائی اور اسکول کی جانب بڑھنے لگا۔ سارا دن وہ انکل اور ا ُن کی
باتیں ا ُس کے دماغ پر ہتھوڑے برساتی رہیں شام کو وہ یونہی سڑک
کنارے چل تے ,مسجد کو دور سے دیکھ رہا تھا۔ اور دل ہی دل میں الل ّٰ ہ
سے ہم کالم تھا "ال ل ّٰ ہ میاں میں تنگ آ گیا ہوں۔ یہ لوگ ج ن ّ ت اور دوزخ
18
کے فیصلے کو دین بنائے بیٹھے ہیں۔ اور آپ تو میرے دل کی بات
جانتے ہیں اس لیے آپ سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے ا ُس ج ن ّ ت میں کوئی
خاص دلچسپی م حسوس نہیں ہوتی جس کا تزکرہ ان مساجد میں ہوتا
ہے۔ اور میرا ماننا ہے کہ مجھے ا ُس دوزخ سے بھی ڈر نہیں لگتا ہے
جس سے یہ لوگ مجھے ڈراتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ الل ّٰ ہ کی چاہ
اور الل ّٰ ہ کی راہ ,ج ن ّ ت دوزخ سے ہٹ کر کچھ شئے ہے۔ الل ّٰ ہ میاں پلیز,
اگر ایسا کچھ ہے جو ج ن ّ ت سے بھی بڑھ کر ہے ,تو پلیز مجھے
ضرور بتانا۔" یہ خیال آتےہی ا ُس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی
چمک ا ُبھر آئی۔ بات کرتے کرتے وہ مسجد کے دروازے تک پہنچ گیا
تھا ا ُس کا دل چاہا کے مسجد کے اندر جا کر الل ّٰ ہ سے بات کرے۔ وہ
جوتے ا ُت ار کر مسجد کے صحن میں کھڑا ہوا اور مس جد کے گنبد سے
کچھ اوپر فضا میں دیکھتے ہوئے یہ تصور کرنے لگا کے فضا میں
الل ّٰ ہ اپنے تخت پے بیٹھا ا ُسے س ُ ن بھی رہا ہے اور دیکھ بھی رہا ہے۔
ا ُس نے بند ہونٹوں سے اپنی بساط مطابق ِگ ڑ ِگ ڑا کر الل ّٰ ہ سے کہا "الل ّٰ ہ
چ کا ہو ,مجھے نہیں سمجھ آتی کہ میں ک س طرح تجھے میاں میں تھک ُ
تالش کروں اور یہ دنیا مجھے بہت اچھی لگتی ہے ا ِس کی لزتوں کی
خواہش ہوتی ہے مجھے۔ سو آج میں آپ سے یہ کہنے آیا ہوں کہ میں
دنیا میں جا رہا ہوں۔ یہاں سے جانے کے بعد میں جس قدر دنیا دار یا
گناہگار ہو سکا ضرور ہوں گا۔ مگر آپ یاد رکھنا کہ میں نے آپ کو
ت الش کیا تھا تو اگر کبھی آپ کو لگے کہ اسے ب ُ ال لینا چاہیے تو
مجھے ب ُ ال لیجیے گا میں اچھا ب ُ را جیسا بھی ہوں گا ,آپ کی طرف
واپس آ جاؤں گا۔ اور پلیز پلیز پلیز مجھے ضرور واپس ب ُ ال لیجیے گا۔
کیونکہ میں جیسا بھی ہوں آپ کا ہوں۔" اتنا کہہ کر ا ُس نے ا ُسی جگہ
سجدہ کی ا اور مسجد سے چال گیا۔
19
''باب۔ '' 00
ا ُس نے فیصلہ کیا کہ آج کے بعد ا ُس نے صرف دنیا داری کرنی ہے۔
اور جو خطا خود چل کے میرے پاس آئے گی ,میں ا ُس کا ارتکاب
ضرور کروں گا۔ شاید وہ الل ّٰ ہ سے خفا ہو گیا تھا اور یہ سب کر کے
اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ اس بات کو چند دن گزرے
تھے کہ ا ُس کے والد کو کسی کام سے الہور جانا پڑا۔ انہوں نے ا ُسے
بھی ساتھ چلنے کو کہا تو وہ خوشی خوشی تیار ہو گیا رات کا سفر کر
کے وہ صبح فجر کے وقت الہور پہنچ گئے ا ُس کے والد ا ُسے سب
سے پہلے حضرت علی ہجویری رح کے مزار پے لے کر پہنچے۔ وہ
اپنے والد کے ساتھ جوں جوں سیڑھیاں چڑھتا جا رہا تھا ا ُس پر ایک
عجیب کیفیت طاری ہوتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کے زیارت دور سے
پوری طرح دکھائی دینے لگی۔ اور وہ جس سیڑھی پے تھا وہیں ُر ک
گیا۔ ا ُس نے اپنے والد سے کہا "ا ب ّو آپ جائیں اندر ،میں یہیں کھڑا
ہوں" ا ُس کے والد نے ا ُس سے کوئی سوال نہ کیا اور اندر چلے گئے
اور وہ وہیں کھڑا زیارت اور ا ُس کے ارد گرد آنے جانے والے لوگوں
کو دیکھ رہا تھا کچھ لوگ زیارت کو بوسہ دیتے اور کچھ وہاں د ُعا کر
رہے تھے۔ وہ پہلی بار کسی دربار پہ آیا تھا۔ ا ُسے مولوی صاحب کی
بات یاد آئی کہ مزار وں پے شرک ہوتا ہے۔ لیکن آج جب وہ خود ایک
مزار کے سامنے کھڑا تھا تو ا ُسے محسوس ہوا کہ مولوی صاحب نے
صحیح نہیں کہا تھا۔ کیونکہ وہ لوگ جو زیارت کو بوسہ دے رہے
تھے ا ُن میں سے اکثر کے چہروں سے ایک سکون چھلکتا صاف
دکھائی دے رہا تھا اور اسی سکون نے ا ُسے سوچنے پے مجبور کیا
کہ یہ لوگ محو شرک نہیں ہو سکتے۔ ساتھ ساتھ ا ُسے یاد آیا کہ
مولوی صاحب نے ا ُسے یہ بھی بتایا تھا کہ مزاروں پے ایک شرک یہ
بھی ہوتا ہے کہ لوگ الل ّٰ ہ کے ولی سے سوال کرتے ہیں جبکہ الل ّٰ ہ کے
سوا کسی سے کچھ بھی مانگنا شرک ہے۔ ا ُس نے سوچا کہ اولیاء الل ّٰ ہ
اپنی ظاہری زندگی میں کیا کرتے ہوں گے تو ا ُس کے دل نے ا ُسے
سمجھایا کہ یقینا ً اولیاء ال ل ّٰ ہ لوگوں کو ال ل ّٰ ہ سے مالتے ہوں گے۔ یہ
خیال آتے ہی ا ُس کی آنکھوں میں امید کی چمک ا ُبھری۔ ا ُس نے
20
زیارت کی جانب ایسے دیکھا جیسے صاح بِ زیارت تک ا ُس کی نظر
کی رسائی ہو اور د ل سے انہیں مخاطب کر کے کہا "آپ الل ّٰ ہ کے
دوست ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ الل ّٰ ہ والوں سے مانگنا شرک ہے ,لیکن
میں تو الل ّٰ ہ والے سے الل ّٰ ہ ہی کا سوال کر رہا ہوں۔ تو میری ُم راد اگر
پوری ہو جاتی ہے تو مجھے مشرک ہونا مولوی صاحب والے مومن
بننے سے زیادہ محبوب ہے۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے ,بس حق کی
تالش ہے ,اگر آپ میری کچھ مدد کر سکتے ہیں تو پلیز کیجئے گا۔
ویسے میں الل ّٰ ہ میاں سے ناراض ہوں اور تب تک ناراض رہوں گا
جب تک وہ مجھے ِم ل نہیں جاتے۔ لیکن آپ کے پاس آ کے کچھ وقت
کے لیے ناراضگی ملتوی کرنے کا جی چاہا۔ میں دربار کے آداب نہیں
جانتا اس لیے آج اندر نہیں آؤں گا۔ جس دن آپ نے آداب سکھا دیے,
ا ُس دن آؤں گا ,ضرور آؤں گا ,لیکن ا ُس سے پہلے نہیں۔ "
حضرت عثمان بن علی ہجویری رح کے دربار سے واپس آنے کے
بعد وہ ایک بار پھر سے اپنی زندگی میں مشغول ہو گیا۔ ا ُس کی
زندگی کافی سخت تھی۔ نہ وہ پ ڑھائی لکھائی میں اچھا تھا اور نہ ہی
چ ے ا ُسے اپنی ٹیم میں رکھنا کھیل کود میں۔ ا ِس لیے ا ُس کے ہم عمر ب ّ
چ وں پسند نہیں کرتے تھے۔ ا ِس وجہ سے ا ُسے اکیال رہ کر دور سے ب ّ
کو کھیلتا دیکھنے کا موقع ِم ل جاتا تھا اور اس دوران ا ُسے الل ّٰ ہ کی
چ وں کے سلوک جانب متوجہ رہنے کا موقع ِم ل تا۔ وہ اکثر دوسرے ب ّ
چے سے ٹوٹ جاتا تو سوچتا کہ میں نے ایسا کیا ِک یا ہے جو سب ب ّ
مجھے تنگ کرتے ہیں جب کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تو آئینے کے
سامنے کھڑا ہو کے سوچتا کہ شاید میں بہت بدصورت ہوں ,اکثر آئینہ
بھی ا ُس کے اس خیال کی تصدیق کر رہا ہوتا تھا ,ا ُس کے بالوں کی
عجیب سی کٹنگ ,اور اپنے ماموں ,چچا وغیرہ سے لیے ہوئے پینٹ
شرٹ میں( ,جو اکثر ا ُس کی جسامت سے بڑی ہوتی تھیں) وہ بہت
عجیب دکھائی دیتا تھا۔ جب وہ َچ ھٹی جماعت میں پہنچا تو سرکاری
اسکولوں کے یونیفارم تبدیل ہونے کا زمانہ تھا۔ ا ُس سے پہلے کا
شلوار قمیض ہوتا تھا جسے بدل کر پینٹ شرٹ اور ٹائی کیا جا رہا
تھا۔ ا ُسے بس اتنی خوشی تھی کہ چلو ایک پینٹ شرٹ تو میرے پاس
اپنے ناپ کی ہو گی لیکن یہی بات ا ُس کے والدین کے لیے پریشانی کا
باعث تھی کیونکہ ا ُس کے عالوہ ا ُن کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا اور
21
تھا اور ا ُس کے والد شدید محنت کے باوجود بہت مشکل سے گھر چال
رہے تھے۔ وہ اپنے بہن بھائی میں سب سے بڑا تھا ا ِس لیے ا ُسے
اپنے والدین کی مجبوری کافی حد تک سمجھ آتی تھی۔ ا ُس کے والد
کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ کسی بڑی دکان سے مکمل اسکول
یونیفارم خرید سکتے۔ ا ُس وقت ا ُس کے دل پے کیا گ ُ زری یہ ا ُسکا
الل ّٰ ہ ہی جانتا ہے جب ایک ٹیچر نے ا ُسے سیٹ سے اٹھا کے پوری
کالس کے سامنے ذلیل کیا تھا۔ ٹیچر نے ا ُس کی بیلٹ پکڑ کے
کھینچتے ہوئے کہا "یہ کون سے زمانے کی پینٹ پہنی ہوئی ہے ت ُو
چ ے نے آواز لگائی "اپنے ا ب ّو کے زمانے کی"۔ کالس نے؟" کسی ب ّ
ٹ یچراور بچوں کے قہقہوں سے گونج ا ُٹھی۔ سارا وقت ٹیچر نے ا ُسے
چ ے ا ُس کا یونیفارم دیکھ بلیک بورڈ کے سامنے کھڑا رکھا تاکہ سب ب ّ
سکیں۔ ویسے تو وہ کافی مضبوط تھا لیکن ا ُس روز وہ بہت ٹوٹ گیا
تھا۔ کئی دن الگ الگ بہانوں سے اسکول سے چھٹیاں کرنے کے بعد
ا ُس نے پھر سے اسکول جانا شروع کر دیا لیکن اسکول میں وہ اب
کسی لڑکے سے آنکھ مال کے بات کرتے ہوئے بہت جھجھک محسوس
کرتا تھا۔ جب بریک ہوتی تو وہ اسکول کی دیوار پے جا کے بیٹھ جاتا
چ وں کو گراونڈ میں کھیلتا دیکھتا رہتا۔ اسے جب بچپن میں اور سب ب ّ
کھلونے نہ ملتے تھے تو وہ ٹوٹی ہوئی لکڑیوں سے اپنے لیے بندوق,
چ ے ا ُس کا مذاق ا ُڑاتے لیکن ان
ہاکی یا بیٹ بنا لیتا۔ اکثر دوسرے ب ّ
حاالت نے ا ُسے اپنا دل مارنا اور لوگوں کی باتوں کو برداشت کرنا
ِس کھا دیا تھا۔ ا ُس کی عادت بن گئی تھی کہ وہ خاموش رہتا اور ذیادہ
تر تنہا رہتا تھا۔ جس تنہائی کو و ہ اپنے لیے عذاب سمجھتا تھا اور جو
ذل ّ ت ا ُسے آٹھ ,آٹھ آنسو ُر التی تھی ا ُسی تنہائی اور ذل ّ ت نے ا ُسے اتنا
مضبوط کر دیا کہ وہ جینا سیکھ گیا۔ تنہائی نے ا ُسے حق کو سوچنے
کا موقع دیا ,وہ نہیں جانتا تھا مگر یہی تنہائی اور خاموشی ا ُس کی
طاقت بننا شروع ہو گئی تھی۔ ج ب ا ُس نے لوگوں سے دور ہونا شروع
کیا تو لوگ ا ُس کے قریب ہونے کے خواہشمند ہونا شروع ہو گئے
لیکن اب ا ُسے لوگوں کی توجہ کی خواہش نہیں ہوتی تھی۔ ا ُس کے
اپنے اندر جو دنیا آباد ہو رہی تھی وہ خود بھی ابھی ا ُس کی
خوبصورتی سے ناآشنا تھا۔ شروع شروع میں جب دل پر چوٹ ل گتی
تھی تو وہ اکثر اکیلے میں رویا کرتا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ
22
مضبوط ہوتا چال گیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تالش
کو بھی بھولتا جا رہا تھا۔ شاید یہ بھولنے کا سلسلہ ا ُس دن سے جاری
تھا جس دن وہ الل ّٰ ہ سے کہہ کر آیا تھا کہ میں دنیا میں جا رہا ہوں۔
23
''باب۔ '' 00
وہ ا ُس وقت بازار سے گ ُ زر رہا تھا جب ا ُس نے پہلی بار کال ِم با ھو
س ُ نا۔ کسی دکاندار نے اونچی آواز میں کالم لگا رکھا تھا۔ باقی کے
الفاظ تو ا ُس کی سمجھ سے باال تھے لیکن ہر مصرے کے آخر پر ادا
ہونے واال لفظ " ھ ُ و " جیسے بار بار ا ُس کے دل کو چیر کے ا ُس کی
روح کو سرشار کر رہا تھا۔ ا ُس نے دکاندار سے پوچھا کہ یہ کیسا
کالم ہے تو ا ُس نے بتایا کہ یہ کال ِم باھو ہے۔ سلطان با ھو رح کا کالم
ہے ,آپ بہت بڑے ولی الل ّٰ ہ گزرے ہیں۔ یہ س ُ ن کر بے ساختہ ا ُس کی
ذبان سے نکال " بیشک یہ کالم کسی ولی ال ل ّٰ ہ کا ہی ہو سکتا ہے ۔" ات نا
کہہ کر ا ُس نے گھر کی راہ لی۔ لیکن " ھ ُ و ھ ُ و " کی وہ صدا مسلسل ا ُس
کے ساتھ تھی۔ گھر آ کے ا ُس نے سوچا کہ سلطان باہو رح ایک ولی
الل ّٰ ہ ہیں ,کتنا اثر ہے ا ُن کے کالم میں۔ اور پھر ا ُسے یاد آیا کہ پچھلے
سال الہور داتا صاحب کے مزار پر بھی کافی عجیب کیف محسوس ہوا
تھا۔ اسی سوچ میں محو شام ہو گئی مغرب کی اذانیں ہونا شروع ہوئیں
اور وہ ا ُسی طرح اپنی سوچ میں مگن اذانوں کی آوازیں س ُ نتا رہا ایک
مسجد سے أ َشْ ھَ دُ أ َ ْن ال إ ِ ل َ ه َ إ ِ ال الله کی صدا آ رہی تھی تو ایک سے
أ َشْ ھَ دُ أ َ َّن ُم َح َّم دًا َر س ُ و لُ ال ل َّ ِه کی آواز سنائی دے ر ہی تھی پھر یہ
آوازیں مدھم ہوتی چلی جا رہیں تھیں کہ پھر سے اذان کی آواز آنا
شروع ہو گئی کیونکہ باقی اذانیں ختم ہو چکی تھیں اس لیے یہ اذان
صاف س ُ نائی دے رہی تھی اور پھر اذان کے ا ِن الفاظ پر ا ُس کی
سماعت ُر ک گئی " اشھد ان علیا ً ولی الله " یہ الفاظ ا ُس نے پہلی ب ار
نہیں س ُ نے تھے لیکن ا ُس روز ا ِن الفاظ نے پہلی بار ا ُسے اپنی جانب
کھینچا تھا۔ ا ُس نے فور ا ً ارادہ کیا کہ آج مجھے امام بارگاہ جانا ہے۔
شیعہ مسلک سے ا ُسے تھوڑی بہت شناسائی ا ِس لیے بھی تھی کیونکہ
ا ُس کی گلی میں تین گھر اہ ِل تشیع کے تھے اور دو گھروں میں ا ُس کا
تالش حق کی خاطر وہ کبھی امام بارگاہ نہیں ِ آنا جانا بھی تھا۔ لیکن
گیا تھا۔
24
چ کا تھا لیکن پھر ا ُس ایک بار پہلے بھی ا ُسے وہاں جانے کا خیال آ ُ
کے دل نے ا ُسے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ ابھی وقت نہیں آیا۔ اور آج
بھی بار بار ا ُسے یہی خیال آ رہا تھا لیکن وہ بار بار ا ِس خیال کو
شیطان کی کوئی چال سمجھ کے رد کرتا ہ ُوا امام بارگاہ کی جانب قدم
بڑھاتا جا رہا تھا۔ ا ُس نے کئی بار الحول پڑھی ا ِس کے عالوہ اور جو
کچھ ا ُسے یاد تھا ا ُس نے سب پڑھ ڈاال لیکن ا ِس خیال کو رد نہیں کر
پایا کہ ابھی وقت نہیں آیا۔ آخر ایک س ُ نسان گلی سے گ ُ زرتے ا ُسے
محسوس ہ ُوا کہ ا ِس گلی میں آتے ساتھ کوئی ا ُس کے ساتھ ساتھ چل
رہا ہے اور وہ اندیکھا شخص ا َن س ُ نی آواز میں ا ُسے کہہ رہا ہے کہ
ابھی َم ت جاؤ وہاں ,ابھی تمہارے اندر بہت سی کم فہمی ہے ,جس کی
بنا پر ابھی تم سمجھ نہیں پاؤ گے اور ہو سکتا ہے گ ُ مراہ ہو جاؤ ,ا ِس
لیے ابھی لوٹ جاؤ۔ جب وقت آئے گا تو الل ّٰ ہ کی ذات تمھیں خود وہاں
لے جائے گی۔" ا ُن الفاظ میں نہ جانے کیا تھا کہ وہ واپس پلٹنے پے
مجبور ہو گیا اور اپنے گھر واپس آ گیا۔ ا ُس دن کے بعد سے ا ُس نے
تالش حق کی کوشش ترک کر دی۔ِ
ایک دن بے سبب گھومتے وہ ایک ایسی جگ ہ جا پہنچا جہاں kung fu
سکھائی جاتی تھی۔ ا ُس نے ا ُسی دن سے یہ کھیل سیکھنا شروع کر
دیا۔ ا ُس کے ا ُستاد نے ا ُسے سمجھایا کہ ا ِس کھیل کے سیکھنے کا
مقصد یہ نہیں ہے کہ کوئی آپ کو اوئے کہہ کر مخاطب کرے تو آپ
ا ُس کے ہاتھ پاؤں توڑ دیں بلکہ ا ِس کا مقصد آپ میں اتنی ب رداشت
پیدا کرنا ہے کہ کوئی آپ کے منہ پہ تھوک کر بھی چال جائے تو آپ
ا ُف تک نہ کریں"۔ یہ بات ا ُسے عجیب لگی ,ا ُس نے کہا "لیکن سر اگر
دوسروں کی زیادتی کو برداشت ہی کرنا ہے تو یہ kung fuسیکھنے
کا کیا فائدہ ہے۔؟" استاد نے ا ُس کی جانب دیکھا اور کہا "میرے کہنے
کا مقصد یہ ہے کہ بال وجہ اپنی بہادری کے جوہر دکھانے سے پرہیز
کرنا چاہیے اور جہاں تک ہو سکے برداشت کرنا چاہیے کیونکہ کسی
کو چوٹ پہنچانا آپ کے بڑا Fighterہونے کی نشانی ہے لیکن کسی
کی دی ہوئی چوٹ کو برداشت کرنا اور چوٹ پہنچانے والے کو معاف
کر دینا آپ کے بڑا ان سان ہونے کی عالمت ہے۔ یہ کھیل آپ کو بڑا
Fighterبنانے سے ذیادہ آپ کو بڑا انسان بنانا چاہتا ہے۔ اگر آپ
بڑے انسان بن گئے تو یقینا ً آپ بڑے Fighterہیں لیکن اگر آپ بڑے
25
انسان نہ بن سکے تو آپ kung fuمیں کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہو
جائیں آپ نے kung fuسے کچھ نہیں سی کھا۔ ا ُسے اپنے ا ُستاد کی
بات سمجھ آنا شروع ہو گئی تھی ا ِس لیے ا ُس نے صبح شام kung fu
کی practiceکرنا شروع کر دی اکثر وہ اکیال ہی practiceکرتا رہتا
چ کا تھا۔ اب تو تالش حق کا خیال ا ُس کے الشعور میں کہیں کھو ُ ِ تھا۔
ا ُسے یاد بھی نہیں رہا تھا کہ ا ُس نے کبھی ح ق تالش کرنے کی کوشش
بھی کی تھی۔ وقت گ ُ زرتا جا رہا تھا ,میٹرک کے امتحان دینے کے بعد
چ وں کو ا ُس نے سوچا کیوں نہ ایک سے پانچویں جماعت تک کے ب ّ
tuitionپڑھا کر کچھ پیسے کمائے جائیں۔ جلد ہی محلے کے چند
چ وں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ اور بہت گھروں میں ا ُس نے چھوٹے ب ّ
جلد ا ِس کام میں اچھا خاصہ نام بھی بنا لیا۔ ا ُس کے studentsا ُس
سے بہت پیار کرتے تھے۔ جس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ بہت
چ وں کو بہت آسانی سے سمجھا لیتا تھا۔ ا ُس کی مشکل مشکل سوال ب ّ
عادت تھی کہ پہلے ہی دن اپنے studentsسے کہتا کہ آپ نے مجھ
سے جھوٹ نہیں بولنا اگر آپ نے کام نہیں کیا تو آپ مجھ سے یہ نہیں
کہیں گے کہ سر میرے پیٹ میں درد تھا یا مجھے بخار تھا ,مجھے یہ
بہانے پسند نہیں ہیں ,میں نہیں چاہتا کہ آپ میرے ڈر سے الل ّٰ ہ سے
ڈرنا چھوڑ کر مجھ سے جھوٹ بول دیں۔ مجھے خوشی ہو گی اگر آپ
مجھ سے یہ کہہ دیں کہ سر میرا دل نہ یں چاہ رہا تھا کام کرنے کا یا
میں کھیل رہا تھا ا ِس لیے میں نے کام نہیں کیا۔ وہ اپنے studentsکا
چ ے بہتر انداذ سے ا ُس کی دوست بن کہ ا ُنہیں سکھاتا اور اس طرح ب ّ
بات سمجھ جاتے اور پڑھائی میں بہتر سے بہتر کارکردگی دکھاتے۔
کافی عجیب بات ہے کہ وہ پڑھنے سے ذیادہ پ ڑھانے میں تیز تھا۔ ا ُس
نے ا ُن کالسز کے studentsکو بھی پڑھایا جن کا کورس ا ُس نے خود
چ وں کو پڑھانے کے حوالے سے ا ُسے کبھی نہیں پڑھا تھا۔ الل ّٰ ہ نے ب ّ
بہت عزت سے نوازا۔ لیکن گھریلو حاالت نے ا ُسے تعلیم چھوڑ کر
بیس سال کی عمر میں ایک چھوٹی سی سرکاری نوکری کرنے پ ے
مجبور کر دیا۔ ال ل ّٰ ہ نے ا ُسے یہاں بھی بہت عزت دی۔ سرکاری نوکری
ملنے تک ا ُس نے زندگی کے بہت سے سبق سیکھ لیے تھے۔ عش ِ
ق
چ کا تھا۔ دنیا اور ا ِس کی
حقیقی کا طالب مجاز کی سیڑھیاں چڑھ ُ
چ کا تھا۔ ا ُس کے وقت کا شاید ہی کوئی ایسا گناہ ہو ب ُ رائی کو سمجھ ُ
26
جس سے ا ُس کی آشنائی نہ تھی۔ ا ُس وقت ا ُس کی عمر اکیس سال تھی
جب وہ اپنے جگری دوست کی شادی میں شریک تھا ,بارات کی واپسی
پر دولہا کی گاڑی گھر جانے سے پہلے امام بارگاہ پہنچی۔ وہ ایک
اور گاڑی پے اپنے ایک اور دوست کے ساتھ تھا۔ جس دوست کی
شادی تھی وہ گاڑی سے ا ُتر کر امام بار گاہ کے اندر چال گیا اور وہ
اپنے دوسرے دوست کے ساتھ باہر گاڑی میں انتظار کرنے لگا۔ اتنے
چ ے نے آ کے ا ُس سے کہا "انکل !..کیا آپ مجھے امام میں کسی ب ّ
بارگاہ کے اندر لے جائیں گے ,اتنی رات ہے اور بادلوں کی وجہ سے
روشنی بھی کم ہے ,مجھے اکیلے جاتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے ,بس
سالم کر کے واپس آ جائیں گے" ا ُس نے کہا "ٹھیک ہے ,چلو۔" آج وہ
پہلی بار امام بارگاہ کے اندر آیا تھا ,ا ُس کے اندر کسی قسم کا کوئی
چ ے نے احساس نہیں تھا ,نہ خدا کا اور نہ ہی خدا کے گھر کا۔ ا ُس ب ّ
ا ُس سے آگے چلتے ہوئے عَ لم کو بوسہ دیا اور د ُعا کرنا شروع ہو گ یا۔
27
''باب۔ '' 00
وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے عَ لم کے سامنے کھڑا تھا ,ا ُسے ایسے کھڑا
چ ے نے کہا "آپ نے سالم نہیں کیا۔؟" ا ُس نے کہا دیکھ کر ا ُس ب ّ
"مجھے نہیں پتا کہ کیسے سالم کرتے ہیں ,آپ مجھے بتائیں ,کیسے
چ ے نے فور ا ً ا ُس سے معافی ما نگی اور کہا کہ کرتے ہیں سالم۔؟" ب ّ
مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ شیعہ نہیں ہیں ورنہ میں آپ سے یہاں آنے
کو نہیں کہتا"۔ ا ُس نے کہا کہ میرے نزدیک ہر وہ جگہ قاب ِل احترام
ہے جہاں سے الل ّٰ ہ کو پکارا جاتا ہو۔ اب یہاں آیا ہوں تو سالم تو کر
چ ے نے کہا کہ بس عَ لم کو بوسہ دیجی ے اور دعا کر کے جانا چاہیے۔ ب ّ
لیجیے۔ ا ُس نے آگے بڑھ کر عَ لم کو ہاتھ سے چ ھُ وا اور ہاتھ ہونٹوں
اور پیشانی سے لگایا۔
چ ھو کر ا ُس کیجتنی دیر میں ا ُس کی انگلیاں ا ُس کے ہونٹوں کو ُ
پیشانی تک پہنچیں ا ُتنی دیر میں ایک بجلی سی ا ُس کے اندر کوند
چ کی تھی ,ا ُس نے د ُعا کے لیے ہاتھ ا ُٹھا ئے اور آسمان کی جانب ُ
دیکھا ,کالے کالے بادلوں کے ہالے میں چاند صاف دکھائی دے رہا تھا
چ ے کو کہتے س ُ نا "الل ّٰ ہ میاں ,مجھے حق کیاور ا ُس پل ا ُس نے ا ُس ب ّ
چ ے کوتالش ہے ,پلیز میری مدد کیجیے"۔ ا ُس نے حیرت سے ا ُس ب ّ
دیکھا کہ اتنی سی عمر اور ایسی د ُعا۔؟ ا ُس کا دل چا ہا کہ وہ بھی یہی
چ ے کی د ُعا اپنی زبان سے دہرائی اور پھر د ُعا کرے ,تو ا ُس نے ب ّ
چ ہ واپسج ھکا لیا۔ وہ ب ّ
اپنے اعمال کو سوچ کر شرمندگی سے سر ُ
جانے لگا تو وہ بھی ا ُس کے پیچھے پیچھے امام بارگاہ سے باہر نکل
آیا۔ ا ُس پے ایک عجیب سی خاموشی طاری ہو رہی تھی ,کسی کی با ت
س ُ نائی نہیں دے رہی تھی ,زبان جیسے گنگ ہو رہی تھی۔ وہ کسی اور
ہی دنیا میں چال گیا تھا جہاں ا ُسے لوگوں کی اور لوگوں کو ا ُس کی
آواز مشکل سے سنائی دے رہی تھی۔ ا ُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا
کہ یہ سب کیا ہے۔ وہ بار بار خود سے سوال کر رہا تھا کہ یہ مجھے
کیا ہو رہا ہے اور ا ُس کا دل بار بار کہہ رہا تھا کہ مجھے حق کی
تالش ہے ,مجھے ال ل ّٰ ہ کی تالش ہے۔ وہ امام بارگاہ سے اپنے دوست
کے گھر گیا اور ا ُسے دور سے دیکھ کر اپنے گھر کی طرف لوٹ گیا
28
شاید وہ اپنی حالت سے پریشان تھا ا ِس لیے کسی کا سامنا نہیں کرنا
چاہتا تھا۔ اسالم آباد کی بارشیں بہت شدید ہوتی ہیں اس رات جب وہ
اپنے دوست کے گھر سے پیدل واپس اپنے گھر جا رہا تھا تو شدید
چ کی تھی وہ مسلسل اسی سوچ میں بارش ہو رہی تھی رات کافی ہو ُ
تالش حق کا سوال کر رہا ہے؟ اپنے آپ ِ کھویا تھا کہ وہ کس منہ سے
کو اپنے گناہوں پے مالمت کرتا وہ زور زور سے روتا ہوا سنسان
سڑک کے کنارے چلتا جا رہا تھا شدید بارش ہونے کے باوجود ا ُسے
گرم گرم آنسو اپنے چہرے پہ محسوس ہو رہے تھے س ُ وٹ ٹائی پہنے
وہ سر سے پاؤں تک بھیگا ہوا گھر کی جانب چال جا رہا تھا ,ایک
شدید بےچینی نے ا ُسے گھیر رکھا تھا ,وہ ا ِس حالت میں گھر نہیں
جانا چاہتا تھا ,ا ُس نے سوچا کہ گھر کے پاس والی مسجد میں جاتا
ہوں اور نماز پڑھتا ہوں ,شاید ایسا کرنے سے دل کو کچھ سکون
نصیب ہو جائے۔ پھر ا ُس کے دل نے ا ُسے مالمت کی کہ نہ جانے
کتنے سال ہو گئے ہیں تم نے عید کے عالوہ مسجد کی شکل نہیں
دیکھی اور آج اچانک س ے تمہیں کیا ہوا کہ تم حق کی تالش کرنے اور
نماز میں سکون کی دولت تالش کرنے کا سوچ رہے ہو۔ جاؤ کہیں جا
کے شراب پیو ,کسی سے جھگڑا کرو ,کوئی اور گناہ کرو ,شاید تمہارا
خ دا یاد آ رہا ہے۔ دیکھ ا ِس وقت نشہ ٹوٹ رہا ہے ,اسی لیے اب تمہیں ُ
تو مسجد بھی بند ہے اگر سچ می ں آج تیرے اندر کچھ بدل رہا ہوتا تو
کم سے کم یہ مسجد تو ک ُ ھلی ملتی ,جاؤ جا کے کسی میکدے کا دروازہ
کھٹکھٹاؤ۔ الل ّٰ ہ میاں کا گھر عشاء کے بعد بند ہو جاتا ہے۔ وہ اور
پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ رو رو کر ا ُس کی ہچکیاں بندھ رہی تھیں
اور وہ گھر کی جانب جانے کا ارادہ کر رہا تھا کہ ا ُسے یاد آیا کہ
مسجد کی بیسمنٹ سے ایک راستہ مسجد کے اندر جاتا تھا وہ فور ا ً
پلٹا اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا بیسمنٹ کی سیڑھیوں تک پہنچا۔
عام طور پے سیڑھیوں کا راستہ بند رہتا تھا لیکن ا ُس روز وہ راستہ
ک ُ ھال دیکھ کر ا ُس کی خوشی کی انتہا نہ رہی و ہ دل و زبان دونوں
سےکہے جا رہا تھا thank youال ل ّٰ ہ میاں Thank you so muchکہ
آپ نے مجھے رد نہیں کیا اور تیز تیز سیڑھیاں چڑھتا اوپر مسجد تک
پہنچا جوتے ا ُتارے اور اندر چال گیا اندر ایک بزرگ شخص شروع
کی صفوں میں بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے ا ُس نے الکھ چاہا کہ ا ُن کی
29
توجہ ا ُس کی جانب نہ ہو لیکن وہ تو جیسے ا ُسی کے انتظار میں تھے
ا ُس کے اندر آتے ساتھ ہی انہوں نے ا ُسے گہری نظروں سے دیکھنا
شروع کر دیا۔ وہ ا ُن سے اگلی صف میں جا کر کھڑا ہ ُوا اور نماز
پڑھنے کی کوشش شروع کی لیکن شدید رقت کے باعث وہ آیات کے
الفاظ ادا کرنے س ے قاصر رہا۔
جیسے تیسے ا ُس نے دو رکعت نماز ادا کی اور د ُعا کے لیے ہاتھ
ا ُٹھائے "الل ّٰ ہ میاں میں نہیں جانتا کہ اچانک کیا ہو گیا ہے مجھے ,میں
بس حق جاننا چاہتا ہوں ,بس مجھے آپ کی تالش ہے ,جہاں سے بھی
ہو ,جیسے بھی ہو ,بس آپ چاہیے ہو ,مجھے پتہ ہے کہ میں جو مانگ
رہا ہوں ا ُسے مانگنے کی اوقات نہیں ہے میرے پاس ,لیکن پھر بھی
مانگ رہا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ت ُو چاہے تو کسی کو بھی,
کچھ بھی عطا کر سکتا ہے ,مجھے اپنا آپ عطا کر دے" مسلسل رو
چ کا تھا کہ ا ُس سے بیٹھا بھی نہیں جا رہا رو کر اب وہ اتنا نڈھال ہو ُ
تھا۔ وہ وہ اں سے ا ُٹھ کے جانے لگا تو ا ُن بزرگ نے ا ُسے روکا اور
بہت شفقت سے پوچھا "بیٹا کیا بات ہے" ا ُس کے منہ سے کوئی لفظ
نہیں نکل پایا اور وہ بے اختیار ا ُن کے سینے سے لگ کر رونا شروع
ہو گیا پھر ا ُس نے ایک بار پھر خود کو سنبھاال اور ا ُن بزرگ سے
اجازت چاہی۔ گھر پہنچ ک ر وہ اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا مگر ا ُس
کے دل کا اضطراب کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔ بستر سے ا ُٹھ کر
وہ فرش پے بیٹھ گیا اور سر سجدے میں رکھ کے پھر سے رو رو کے
وہی سوچ د ُہرانے لگا پھر شاید روتے روتے بے ہوش ہو گیا۔ اچانک
دل کے کسی کونے سے آواز آئی" ,ا ُٹھ قرآ ن ا ُٹھا"۔ وہ فور ا ً اٹھا اور
قرآن اٹھایا اور اپنے بستر پے بیٹھ گیا۔ اور سوچا کہ قرآن بیچ سے
کھول لیتا ہوں اور جہاں نظر پڑی وہیں سے پڑھوں گا۔ جب ا ُس نے
قرآن کھوال تو جن الفاظ پے نظر پڑی وہ کچھ یوں تھے کہ
31
''باب۔ '' 00
اگلے روز ا ُس نے کافی ُم شکل سے اپنے دوست کے ولیمے میں
شرکت کی کیوں کہ ابھی تک ا ُس کے حواس قابو میں نہیں آ رہے تھے
ا ُسے بولنے اور لوگوں کی بات سمجھنے میں کافی دقت پیش آ رہی
تھی۔ ولیمے سے فار غ ہو کر ا ُس نے گھر کی راہ لی اور گھر پہنچ کر
پھر سے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ ا ُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی
تھی کہ کس راہ چال جائے اور الل ّٰ ہ کو کیسے تالش کیا جائے؟ ا ُس کے
دل نے ا ُسے سمجھایا کہ الل ّٰ ہ کی طلب ہے تو ا ُس راہ چلو جہاں تمہارا
دل تمہیں لے جا رہا ہے ۔ ا ُس نے کہا "یہی دل تو مجھے شراب خانوں
میں لے جاتا رہا ہے اب الل ّٰ ہ کی راہ بھی ا ِس سے پوچھ کے چال تو
پھر تو ہو گیا کام تمام۔" دل نے ا ُسے وہ حدیث یاد دالئی کے "جس
چیز کو تمہارا دل تسلیم کر لے ا ُسے اپنا لو اور جسے نہ تسلیم کرے
ا ُسے ترک کر دو۔" ا ُس نے کہا "ا گر ایسی بات ہے تو سچ یہ ہے کہ
دل نے ابھی تک کسی کو تسلیم نہیں کیا لیکن امام بارگاہ کی جانب
میرا دل کھنچا جا رہا ہے۔ یہ جگہ منزل کا راستہ ضرور دے گی
مجھے۔ شاید میرا رب اپنا آپ عطا کرنے سے پہلے مجھے آزمانا
تالش حق میں میں کسی بھی مسلک ک و اپناتا تو ِ چاہتا ہے۔ کیونکہ میں
شاید کسی کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر میں شیعہ ہوا تو
میرے گھر والے تو شاید سمجھوتا کر لیں لیکن باہر والے ,میرے
دوست ,رشتے دار ,اور اہ ِل محلہ۔؟ شاید لوگ مجھے قتل ہی کر ڈالیں
گے۔ خیر مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ اگر ا ِس راہ سے میں تیری
جانب قدم بڑھا سکتا ہوں تو جب تک ت ُو مجھے مل نہیں جاتا میں ا ِسی
راہ پر چلنا چاہوں گا۔ اے الل ّٰ ہ میں تجھ سے دور جاتے ہوئے نہیں
بلکہ تیری طرف آتے ہوئے مرنا چاہتا ہوں۔ اگر تیری جانب آتے
مجھے مار بھی دیا جائے تو بھی مجھے منظور ہے۔ اگر میری یہی
آزمائش ہے تو میں تیار ہوں۔ آج سے ابھی سے شیعہ ہوتا ہوں۔ میری
تالش کوئی مذہب یا کوئی مسلک نہیں ہے مجھے ت ُو چاہیے ,تو اگر ت ُو
ہندؤ کو ملتا ہے تو میں تجھے ہندؤ بن کے ڈھونڈھنے کو تیار ہوں اگر
32
ت ُو یہودیوں کو ملتا ہے تو میں یہودی بن کے تجھے ڈھونڈتا۔ مگر ت ُو
نے مجھے امام بارگاہ سے پ ُ ک ارا ا ِس لیے
ال إلہ إال الله
محمد رسول الله
ولي الله ۔ ۔ ۔
ّ علي
ٌّ
ا ُس روز سے ا ُس نے نماز ہاتھ کھول کے پڑھنی شروع کی اور کاال
رنگ پہننا شروع کیا۔ محرم کا مہینہ شروع ہوا تو سارے محلے میں
ا ُس کے شیعہ ہونے کی بات پھیل گئی۔ گھر میں تو محرم سے پہلے ہی
سب کو پت ہ تھا ,ا ُس کے والدین کا خیال تھا کے ا ُس کے شیعہ دوست
نے ا ُس پر جادو کروا دیا ہے ۔ جب ا ُس کی والدہ نے ا ُس کے سامنے
اپنے خدشے کا اظہار کیا تو ا ُس نے مجذوبانہ انداز سے کہا " ا ّم ی یہ
او ل تو چڑھتا نہیں اور جادو نہیں ہے ,یہ عشق کا آسیب ہے ,یہ آسیب ّ
جس پے چڑھ جائے ا ُس کی جان لے کر بھی ا ُسے نہیں چھوڑتا" ا ُس
کی ا ّم ی نے جیسے ا ُس کا جواب س ُ نا ہی نہیں اور بیتاب سے لہجے
میں کہا "اگر تمہارے ا ب ّو تمہیں کہیں لے کر جائیں کسی کے پاس دم
وغیرہ کروانے کے لیے تو کیا تم جاؤ گے؟" ا ُس نے مسکرا کر اپنی
ا ّم ی کے پریشان چہرے کو دیکھا او ر ا ُن پاس جا کر بیٹھا اور ا ُن کی
گود میں سر رکھتے ہوئے کہا "ا ّم ی میں ٹھیک ہوں ,مجھے کچھ نہیں
ہوا میں بس الل ّٰ ہ کو تالش کر رہا ہوں ,اور اگر کسی کے جادو کرنے
سے لوگوں کو شیعہ کیا جاتا ہوتا تو آج ساری دنیا شیعہ ہوتی ,کسی
کو کیا ضرورت ہے آپ کے بیٹے کو شیعہ کرن ے کی ,میں پورے ہوش
و ہواس میں شیعہ ہوا ہوں ,آپ پریشان مت ہوں ,بس د ُعا کیجیے کہ
ال ل ّٰ ہ مجھے کامیاب کرے" ا ُس کی ا ّم ی نے ا ُس کے ا ُس کے بالوں میں
ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا "بیٹا یہ د ُعا تو میں ہر وقت کرتی ہوں ,اپنے
چ وں کے لیے ,لیکن تم بڑے ہو اور تمہاری عادت ہے کہ تم سارے ب ّ
ہمیشہ اپنی من مانی کرتے ہو ا ِس لیے تمہاری فکر ذیادہ رہتی ہے,
خیر اب میرے دل کو تھوڑی سی تسل ّ ی ہو گئی ہے اس لیے اب تم جا
کے سو سکتے ہو ,مجھے بھی نیند آ رہی ہے ,اور تھوڑا سا ٹائم ملے
تو نہا بھی لینا اتنے گندے بال ہو رہے ہیں تمہارے" ا ُس کی ا ّم ی کے
لہ جے میں اپنے بیٹے کے لیے ابھی بھی پریشانی تھی۔ جب لوگوں میں
بات پھیلنا شروع ہوئی تو کئی لوگوں نے اپنی قیمتی رائے کا اظہار
33
کرنے کی کوشش کی کسی نے راتوں کو امام بارگاہ آتے جاتے ا ُس
خ دا میں اپنی برتری ثابت کرنے کی چ ھپ کر وار کر کے ,را ہِ ُ پے ُ
کوشش کی تو کسی نے ا ُس کے گھر کے دروازے پر ا ُس کے نام کے
ساتھ ک ُ تا ک ُ تا لکھ کر اپنی دینی محبت کا ثبوت دیا۔ ا ُس نے ا ُس شخص
کو لکھتے ہوئے دیکھا مگر ا ُس پے کچھ ظاہر نہیں کیا۔ اگلے دن وہ
اپنے کمرے میں بیٹھا تھا ا ُس کے کمرے کا ایک دروازہ گھر سے
باہر ک ھُ لتا تھا جس پے ک ُ تا ک ُ تا لکھ ا گیا تھا اور ایک دن گزرنے کے
باوجود ا ُس نے ا ُن الفاظ کو مٹایا نہیں تھا۔ ایک لڑکا جو ا ُس سے
I.Comکی tuitionپڑھنے آتا تھا دروازے پے آیا تو آتے ساتھ ا ُس
کی نظر ا ُس فقرے پے پڑی ,ا ُس نے جلدی سے جیب سے مارکر نکاال
اور تیزی سے ا ُس لکھے ہوئے کو مٹانا شروع کر دی ا۔ ا ُس کی نظر
پڑی تو ا ُس نے کہا "مٹاؤ نہیں اسے لکھا رہنے دو" ا ُس کے student
نے کہا "سر آپ کو پتا ہے کہ یہ لکھا ہوا ہے اور آپ نے اسے مٹایا
نہیں" ا ُس نے کہا "نہیں میں نے ا ِسے ا ِس لیے نہیں مٹایا کیونکہ ا ُس
نے یہ میری نفرت میں نہیں بلکہ الل ّٰ ہ کی محبت میں لکھا ہے ,ا ُس کی
نظر میں َم یں شیعہ ہو کر الل ّٰ ہ سے دور جا رہا ہوں اور وہ اپنی جانب
سے میرا بھال ہی سوچ رہا ہے کہ شاید اپنے ہی دروازے پر اپنے نام
کے ساتھ ک ُ تا ک ُ تا لکھا دیکھ کر میں اپنا راستہ تبدیل کر لوں ,میں کون
اظہار محبت کو مٹانے واال" ا ُس ک ے studentنے ِ ہوتا ہوں ا ُس کے
کہا "سر مجھے فرقوں کا تو نہیں پتا کہ کون سا صحیح اور کون سا
غلط ہے لیکن آپ پر مجھے پورا یقین ہے کہ آپ غلط نہیں ہو سکتے
انشاءال ل ّٰ ہ آپ اپنی تالش میں ضرور کامیاب ہوں گے۔"
34
''باب۔ '' 00
ا ُس نے ماتم کیا ,نوحے پڑھے ,ننگے پیر چال غرض خود کو شیع ہ
ثابت کرنے کے لیے وہ جو جو کر سکتا تھا ا ُس نے کیا ,اور امام
حس ٌن کی شہادت کی رات جب ا ُس نے پہلی بار زنجیر زنی کی تو ا ُس
کے والدین نے ا ُسے صاف الفاظ میں کہ ہ دیا کہ آج کے بعد تم ہمارے
لیےاورہم تمہارے لیے مر گئے۔
ایک رات امام بارگاہ سے واپسی پر ایک سنسان گلی سے گزرتے
ہوئے کچھ لوگ ا ُس پے حملہ آور ہوئے۔ ا ُسے kung fuچھوڑے
چ کے تھے لیکن ا ُس روز ا ُسے احساس ہوا کہ شدید ہوئے کئی سال ہو ُ
smokingکرنے اور practiceنہ کرنے کے باوجود وہ ابھی تک
اپنا دفاع اچھی طرح کر سکتا ہے۔ حملہ آور ایک سے دو ,دو سے تین
اور ہوتے ہوتے س ات ,آٹھ ہو گئے۔ سب لوگ اپنے چہرے چ ھُ پائے
ہاتھوں میں ڈنڈے اور زنجیریں لیے کا فی دیر ا ُسے زیر کرنے کی
کوشش کرتے رہے لیکن ا ُسے چھونا ا ُن کے لیے ناممکن ثابت ہو رہا
تھا۔ ابھی تک وہ یہ نہیں سمجھ پایا تھا کہ یہ حملہ ا ُس پے کس وجہ
سے کیا جا رہا ہے۔ وہ اپنا دفاع کرن ے کے ساتھ ساتھ حملہ آوروں
سے پوچھ بھی رہا تھا کہ آخر کیوں وہ ا ُس کی جان لینا چاہ رہے ہیں
مگر کسی نے کوئی جواب نہ دیا ,ا ُن سب کی کوشش تھی کہ کسی
طرح ا ُسے دبوچ لیا جائے لیکن شاید ا ُس وقت وہ مار کھانے کے موڈ
میں نہیں تھا۔ اچانک حملہ آوروں میں سے کسی نے بلند آ واز میں کہا
"کافر ,کافر _ _" ا ُس نے حیرت سے ا ُن لوگوں کی جانب دیکھا اور
پوچھا "تم لوگ مجھے ا ِس لیے مارنا چاہ رہے ہو کہ میں شیعہ ہو گیا
ہوں؟" ایک حملہ آور نے چیخ کر کہا "ت ُو کافر ہے اور واجب القتل
ہے ,ہم تجھے دین سے پھرنے والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیں
گے" ا ُس نے لڑائی کے دوران ایک حملہ آور سے ایک ڈنڈا چھین لیا
تھا جو ابھی تک حملہ آوروں کی درگت بنانے میں ا ُس کے کام آ رہا
تھا۔ ا ُس نے فور ا ً ڈنڈا پھینکتے ہوئے کہا "ارے یار تم لوگوں نے
پہلے کیوں نہیں بتایا کہ اس لیے مارنا چاہ رہے ہو۔" ا ُس نے دونوں
ہاتھ کھول کے گھ ٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا "ویسے بہتر
35
تھا کہ تم زبان سے بات کرتے لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ تم حق پے
ہو اور تمہاری ا ِس مار پیٹ سے میں ا ِس راہ سے پلٹ جاؤں گا تو آؤ
مارو ,میں بھی دیکھوں کتنا شوق اور لگن ہے تم لوگوں میں لوگوں کو
الل ّٰ ہ کی راہ پر النے کا " سب حملہ آور ا ُسے حیرت سے دیکھنے لگے۔
ا ُسی وقت آس پاس کے گھروں کی الئٹس روشن ہونا شروع ہو گئیں
شاید شور س ُ ن کے لوگ جاگ گئے تھے اور دور پولیس کا سائرن
سنائی دیا جسے س ُ ن کر حملہ آور اور گھبرا گئے اور انہوں نے وہاں
سے بھاگ جانے میں ہی عافیت جانی۔ ا ُن کے جانے کے بعد ا ُس نے
بھی ا ُٹھ کر کپڑے جھاڑے اور گھر کی جانب چل دیا۔
ا ُسے شیعہ ہوئے قریب سات ماہ گ ُ زرے تھے ا ِس دوارن ا ُس کی بہن
کی شادی طے ہو گئی ا ُس کی بہن کے س ُ سر سلطان باہو رح کے
سلسلے سے ُم رید تھے۔ ا ُس سے ِم ل کر انہیں احساس ہوا کہ ا ِس
لڑکے میں الل ّٰ ہ کی طلب ہے اور انہوں نے ا ُسے ایک کارڈ دکھایا جس
پے س ُ رخ رنگ کے دل میں سنہرے رنگ سے الل ّٰ ہ کا نام لکھا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ا ِس نقش کو "اسم الل ّٰ ہ ذات" کہا جاتا ہے ا ُس نے کہا
میں یہ نقش لینا چاہوں گا ,کیسے ملتا ہے یہ نقش۔؟ تو انہوں نے بتایا
کہ سانسوں کے ساتھ ا ِس نقش کا ذکر کیا جاتا ہے اور ُم رشد پاک سے
ا ِس ذکر کی اجازت لینی ضروری ہے۔ اجازت لینے کے لیے آپ کو ا ُن
سے مالقات کرنی پڑے گی۔ اور مالقات کے لیے آپ کو شور کوٹ
تالش
ِ جانا پڑے گا۔ سات ,آٹھ گھنٹے کا سفر ہے۔" ا ُس نے سوچا کہ
حق میں یہ آٹھ گھنٹے کا سفر کیا معنی رکھتا ہے اور کہا "انشاءالل ّٰ ہ
می ں ضرور آپ کے ساتھ چلوں گا۔ جلد یا بدیر جب بھی آپ کا جانا ہو
تو پلیز مجھے بتا دیجیئے گا میں بس وہ نقش حاصل کرنا چاہتا ہوں
لیکن میں بیعت نہیں کروں گا ابھی مجھے صرف نقش چاہیے ,بیعت
کیے بغیر ذکر کی اجازت مل جاتی ہے نا؟ ا ُس نے بےقراری سے
پوچھا تو انہوں نے کہا " جی ہاں ذکر لینے کے لیے بیعت کرنا ضروی
37
نہیں ہے" ا ُس نے خوش ہو کر کہا "ٹھیک ہے۔ ویسے آپ کے ُم رشد
پاک کا نام کیا ہے۔؟" انہوں نے کہا "ہمارے ُم رشد پاک کا نام ہے
" سُ لطان محمد اصغر علی"
38
''باب۔ '' 00
کسی کا ُم رید ہونا ا ُس کی خواہش نہیں تھی۔ وہ تو بس حق جاننا چاہتا
تھا۔ اور اس ِم ال ل ّٰ ہ کا وہ نقش گویا ا ُس کے دل و دماغ میں سما گیا تھا۔
وہ تیزی سے سوچ رہا تھا۔ کوئی ولی الل ّٰ ہ کس مقصد سے لوگوں کو
اس ِم الل ّٰ ہ کا نقش دے کر سانس کے ساتھ ال ل ّٰ ہ کا نام جپھنے کا درس
دیتا ہے۔؟ ا ِس سے ذکر کرنے والے کو کیا ح اصل ہوتا ہو گا۔؟ ا ُس نے
اپنے سوال پھر اپنے دل کے سامنے ال کے رکھ دیے۔ دل نے ا ُسے
ایک حدیث یاد دالئی کہ " ہر چیز کی صفائی کے لیے ایک آلہ ہے ,اور
ذکر ال ل ّٰ ہ ہے۔"
دل کی صفائی کے لیے ِ
ہاں وہ تو ہے لیکن ا ِسے ہم Scientificallyکیسے ثابت کریں گے کہ
ذکر کرنے سے انس ان کے دل پر کوئی اثر پڑتا ہے۔؟ دل نے ا ُسے
اسکول کی چھٹی ,ساتویں جماعت کی سائنس کی کتابیں یاد کرائیں جن
میں ا ُس نے آنکھ کے بارے میں پڑھا تھا کہ آنکھ سے ایک روشنی
نکلتی ہے اور کسی بھی چیز سے ٹکرا کر واپس آنکھ تک جاتی ہے
اور جس چیز سے وہ روشنی ٹکرا کے واپس آ رہی ہوتی ہے ا ُس کا
عکس آنکھ کے پردے پے بناتی ہے جس سے دماغ سمجھتا ہے کہ ہم
دیکھ رہے ہیں۔ اور وہ منظر دماغ کے کسی کونے میں محفوظ بھی ہو
ت ضرورت ہم یاد بھی کر سکتے ہیں۔ اب سوچو اگر جاتا ہیں جو بوق ِ
کوئی شخص ال ل ّٰ ہ کا نام سامنے رکھ کر صبح شام ا ِس نام کو اپنی آ نکھ
سے اپنے دل میں ا ُتارے تو ا ُس پے اثر ہو گا کہ نہیں۔؟ اور جس
شخص کو اپنی سانس کے ساتھ ال ل ّٰ ہ کا نام لینے کی عادت پڑ جائے تو
وہ جو مرضی کر رہا ہو لیکن وہ الل ّٰ ہ کی یاد سے غافل نہیں ہو گا۔
ا ِسی لیے اولیاء ال ل ّٰ ہ ,لوگوں کو ال ل ّٰ ہ کی یاد میں رہنے کو کہتے ہیں ۔ "
ح بِ نبی کی خاطر اس ِم محمد کا " ارے واہ !..کیا بات ہے ,پھر تو ُ
بھی تصور کیا جا سکتا ہو گا۔" ا ُس نے خوش ہو کر اپنے آپ سے کہا۔
ا ُس رات وہ اپنے دل کو بہت وسیع محسوس کر رہا تھا اور ایک
عجیب سا سکون ا ُسے اپنی آغوش میں سمیٹے جا رہا تھا۔ چند دن
گزرے کہ ا ُسے پیغا م ِم ال کہ آج رات ہم نے شور کوٹ جانا ہے۔ ایک
تھکا دینے واال رات بھر کا طویل سفر کرنے کے بعد جب وہ بس سے
39
ا ُتر کر پیدل سلطان محمد بہادر علی شاہ رح کے مزار کی جانب بڑھ
رہا تھا تو ا ُسے بتایا گیا کہ " ُم رشد پاک کے سامنے آپ جو بات بھی
چاہیں اپنے دل کی زبانی ا ُن سے کہہ سکتے ہیں۔ وہ دل کی زبان س ُ ن
لیتے ہیں۔" ا ُس نے ا ُن کی بات کا یقین نہیں کیا اور سوچا میں نے کیا
چ کا ہوں۔ کہنا ہے ا ُن سے۔؟ مجھے جو کہنا تھا میں الل ّٰ ہ میاں سے کہہ ُ
ا ُن سے بس " اس ِم ال ل ّٰ ہ " کی اجازت مل جائے۔ جب وہ ا ُن کے ڈیرے
پے پہنچا تو وہاں موجود لوگوں ک و دیکھ کر ا ُسے ایک عجیب سے
سکون کا احساس ہونے لگا۔ روشن چہروں والے لوگ۔ ا ُن کے چہروں
پے داڑھیاں اور سر پے سندھی ٹوپیاں تھیں جو بہت خوب صورت لگ
رہی تھیں۔ وہ اپنے آپ کو جینز ,شرٹ میں ا ُس جگہ ِم س فٹ محسوس
کر رہا تھا کسی نے ا ُسے ایک کپڑا دیا اور کہا ا ِسے سر پے رکھ لو۔
ا ُس نے وہ کپڑا عربی انداز میں سر پے رکھا اور سب لوگوں سے ذرا
فاصلے پے جا کر سلطان محمد بہادر علی شاہ رح کے مزار کی دیوار
سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گ ُ زری تھی کہ ا ُس
نے دیکھا کہ ایک کمرے کا دروازہ کھال اور سب لوگ اپنی اپنی جگہ
موئ دب ہونے لگے اور ا ُس کمرے سے باہر تشریف التے بزرگ کی
جانب بڑھنا شروع ہو گئے۔ جب ا ُس نے ا ُنہیں دیکھا تو خود با خود
ا ُس کے اندر ا ُن کے لیے ادب کا احساس جاگا اور وہ ذرا سیدھا ہو کر
دیوار سے ہٹ کے با ادب ہو کر کھڑا ہوا ا ُسی پل انہوں نے ا ُس کی
جانب دیکھا تو جیسے ا ُس کا دل ا ُس کے قابو میں نہیں رہا اور ا ُس
نے دل کی زبانی ا ُنہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا "مجھے نہیں معلوم
کہ آپ کون ہیں ,مجھے تو اپنا نہیں پتا ,لیکن مجھے ال ل ّٰ ہ کی تالش ہے,
اگر آپ ا ِس تالش میں میری مدد کر سکتے ہیں تو پلیز کیجیے" ۔ جتنی
دیر میں ا ُس نے اپنی بات مکمل کی ا ُتنی دیر میں سلطان محمد اصغر
علی (رح) چلتے ہوئے ا ُس کے قریب آئے اور اپنا داہنا ہاتھ ا ُس کی
جانب بڑھاتے ہوئے اسالم و علیکم کہا۔ ا ُس نے ا ُن سے مصافہ کرتے
ہوئے وعلیکم اسالم کہنے کی کوشش کی مگر ا ُن کے سامنے ذبان نہ
ہل سکی اور وہ دل دل میں سالم کا جوا ب دے کر ا ُنہیں دیکھتا ہی رہ
گیا۔ ا ُن سے ذیادہ دلکش سراپے کا انسان ا ُس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
ا ُنہوں نے ا ُس کا ہاتھ پکڑے پکڑے ا ُسے د ُعا دی " پ ُ تر ال ل ّٰ ہ کامیاب
40
کرے گا ,ال ل ّٰ ہ پاک خیر کرسی " اور اتنا فرما کر وہ وہاں سے تشریف
لے گئے۔
42
''باب۔ '' 10
وہ جیسے جیسے ا ِسم ال ل ّٰ ہ ذات کا تصور کرتا جا رہا تھا ا ُس کے دل
کو سیدھ ملتی جا رہی تھی اور ذکر کی اہمیت ا ُس پے واضح ہوتی جا
رہی تھی۔ ا ُس کے دل نے ا ُسے کہا کہ "زندہ اور ُم ردہ انسان کی
پہچان سانس سے یا دھڑکن سے ہوتی ہے۔ ا ِس کا مطلب یہ کہ انسان
میں سانس اور دھڑکن کا عمل انسان کی روح سے وابستہ ہے۔ جب
ایک شخص ذکر شروع کرتا ہے تو سمجھو کہ بیک وقت وہ اپنی سانس
اور دھڑکن پر الل ّٰ ہ کے نام کا پہرہ بٹھا لیتا ہے۔" ہاں وہ سب تو ٹھیک
ہے لیکن کیا ایسا کچھ قرآن و س ُ نت سے بھی ثابت ہے۔؟ ا ُس نے دل کو
ٹوکا۔ ویسے تو ایسی بہت سی آیات تھیں جن میں ذکر اور اہ ِل ذکر کے
الفاظ موجود تھے لیکن ا ُس وقت قرآن ا ُٹھانے پر جو آیت ا ُس کے
سامنے آئی وہ سورہ انبیاء کی ساتویں آیت تھی۔
وح ي إ ِ ل َ یْ ِھ ْم ف َ ا سْ أ َل ُ و ا ْ أ َھْ لَ ال ِذ ّ كْ ِر إ ِ ن
َو َم ا أ َ ْر سَ لْ ن َ ا ق َ بْ ل َ َك إ ِ ال َّ ِر َج ا ال ً ن ُّ ِ
ك ُن ت ُ ْم ال َ ت َعْ ل َ ُم ون (سورہ انبیاء ) 0
اور (اے حبی بِ مک ّر م!) ہم نے آپ سے پہلے (بھی) َم ردوں کو ہی
(رسول بنا کر) بھیجا تھا ہم ان کی طرف وحی بھیجا کرتے تھے
(لوگو!) تم اہ ِل ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تم (خود) نہ جانتے ہو۔
ا ُس نے یہ آیت اور ا ُس کا ترجمہ کئی بار پڑھا تھا۔ الگ الگ جگہ
الگ الگ طرح سے ا ِس آیت کا ترجمہ بیان کیا گیا تھا۔ ک ئی جگہ 'اہ ِل
ذکر' کا مطلب "اہ ِل علم ,اہ ِل کتاب ,.یا "وہ جو یاد رکھتے ہیں" بیان
کیا گیا تھا۔ ا ُس نے سوچا کہ جب عربی میں 'اہ ِل ذکر' کا لفظ موجود
ہے تو اردو میں 'اہل ذکر' کے لفظ کا الگ الگ انداز سے ترجمہ کیوں
کیا جا رہا ہے۔؟ تو دل نے ا ُسے اپنے وقت کے علماء کا وہ چہرہ
دکھایا جس کا استمعال کرتے ہوئے وہ قرآن سے اپنی مرضی ,مقصد,
یا ضرورت کا معنی اخذ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ا ُس چہرے
کے پیچھے ا ُسے اپنے جیسے بہت سے لوگ دکھائی دیے جو ا ُن ع ُ لماء
کے پیچھے آنکھ بند کر کے چلتے ہیں اور بنا سوچے سمجھے ا ُن کی
ف آخر سمجھ کر دنیا س ُ دھارنے نکل پڑتے ہیں۔ بات کو حر ِ
43
اکثر رات کو اپنے گھر کے سامنے اکیلے کھڑے ہو کے سگریٹ پیتے
رہنا ا ُس کی عادت تھی ,اس دوران وہ اپنی سوچوں میں مگن رہتا تھا۔
ا ُس رات بھی جب وہ وہاں کھڑا سگریٹ پی رہا تھا تو کچھ فاصلے پے
اسٹریٹ الئٹ کے پاس ا ُس کے محلے ک ے چار ,پانچ ,لڑکے کھڑے
آپس میں مذہبی قسم کی گفتگو کرنے میں مصروف تھے ا ُن میں سے
ح لیے سے کسی مدرسے کا طال بِ علم لگ رہا تھا ا ُن ایک لڑکا اپنے ُ
کی بات کا موضوع شاید یہ تھا کہ کون سا فرقہ صحیح ہے اور کون
سا غلط۔ کہ اچانک ا ُس طال بِ علم دکھائی دینے والے لڑکے نے بلند
آواز میں کہا "شیعوں کا ماتم دیکھنا ,ا ُن کے جلوس دیکھنا ک ُ فر ہے,
جو یہ سب دیکھتا ہے ا ُس کا نکاح ختم ہو جاتا ہے ,شدید گ ُ ناہ ہے ا ِن
کی مجلسوں میں جانا ,یہ سب ک ُ فر و شرک ہے۔" ویسے تو ا ُسے عادت
نہیں تھی کسی سے بحث کرنے کی لیکن ا ُس وقت شاید ا ُسے باقی
لڑکوں پے غصہ آ گیا جو بڑے انہماک سے ا ُس کی بات س ُ ن رہے
تھے۔ ا ُس نے ا ُن کی جانب جاتے ہوئے دور سے آواز لگائی "ہیلو
بھائیوں ,ماشاء الل ّٰ ہ بہت ایمان افروز گفتگو ہو رہی ہے کیا میں پاس آ
کے س ُ ن سکتا ہوں" وہ سگریٹ منہ میں دبائے ہوئے بات کرتا ا ُن کے
پاس پہنچ گیا۔ وہ لڑک ے عمر میں ا ُس سے دو ,چار سال چھوٹے تھے
اور محل ّ ے داری کی وجہ سے ا ُسے صرف شکل سے جانتے تھے
کیوں کہ وہ کسی سے ذیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ آج ا ُسے ا ِس طرح اپنی
جانب آتے دیکھ کر سبھی حیران ہوئے۔ ا ُس نے ایک لڑکے کے
کندھے پے ہاتھ رکھتے ہوئے ا ُس لڑکے کی طرف دیکھا جو شیعہ
مسلک کی بات کر رہا تھا اور بہت ادب سے کہا "بھائی بہت عجیب
بات س ُ نی میں نے آپ سے ,ا ِس لیے آپ کے پاس آیا ,یہ نکاح ٹوٹ
جانے کی ایسی وجہ تو میں زندگی میں پہلی بار سن رہا ہوں ,آپ
کوئی عالم ہیں۔؟ ہاں میں عالم کا کورس کر رہا ہوں اور ا ِس سے آگے
ُم فتی بنوں گا ۔" ا ُس نے بدستور گرم لہجے میں جواب دیا۔ "واہ بھائی
اتنی لگن ہے آپ میں دین سیکھنے کی کہ ا ِس کے لیے آپ نے اپنی
پوری زندگی ہی وقف کر دی ہے ,.ماشاء ال ل ّٰ ہ ,ویسے یہ نکاح ٹوٹنے
والی بات آپ نے کہیں پڑھی ہے یا کسی سے س ُ نی ہے۔؟" ا ُس نے
اپنے لہجے کی مٹھاس برقرار رکھ تے ہوئے پوچھا۔ عالم لڑکے نے
کہا "میں نے سنا ہے اور جن سے س ُ نا ہے مجھے یقین ہے کہ انہوں
44
نے حق کہا ہو گا ,یہ میرے دوست ہیں یہ شیعوں کے جلوس میں جانے
کی بات کر رہے تھے ,اس لیے میں انہیں سمجھانے کی کوشش کر تھا
ذکر علی کے بغیر تو ا ِن
ِ کہ ا ُن شیعوں کے جلوس میں مت جانا,
ذکر علی کے ِ شیعوں کی نماز ہی نہیں ہوتی" ا ُس نے کہا "بھائی کیا
بغیر آپ کی نماز ہو جاتی ہے۔؟" عالم لڑکے نے پ ُ ر زور انداز میں کہا
"ہاں ,الحمد لل ّٰ ہ میری نماز ہو جاتی ہے" ا ُس نے کہا "اچھا۔؟ آپ نماز
میں درو ِد ابراہیمی ہی پڑھتے ہیں نا۔؟" عالم لڑکے نے کہا "ہاں ہم
درو ِد ابراہیمی ہی پڑھتے ہیں"۔ "پورا درود پڑھتے ہیں۔؟ میرا مطلب,
رسول اور آ ِل رسول دونوں پے درود بھیجتے ہیں نا۔؟" ا ُس نے اپنے
الفاظ پے زور دیتے ہوئے پوچھا۔ عالم لڑکے نے ا ِس بار جھنجھالئے
ہوئے جواب دیا "ہاں میں پورا درود پڑھتا ہوں"۔ ا ُس نے مسکرا کر
ذکر علی تو آپ بھی کر رہے ہیں۔ آ ِل رسول کی ابتدا کہاں ِ کہا "پھر
سے ہے۔؟" ۔ "حضرت علی سے ہے" اس بار جواب ا ُس کے ساتھ
کھڑے باقی لڑکوں نے دیا تھا۔ عالم لڑکے نے کوئی جواب نہ دیا تو
ا ُس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا "نکاح ٹوٹ جانے کی
وجوہات میرے خیال میں الل ّٰ ہ نے صاف الفاظ میں بتا دی ہیں اور ا ُن
وجوہات میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا کہ کسی دوسرے مذہب و مسلک
کی عبادات دیکھنے سے نکاح ٹوٹ جائے گا یا مکروہ ہو جائے گا اور
ہم لوگوں کے تو نکاح بھی نہیں ہوئے ابھی ,تو ہمارا کیا ٹوٹے گا۔؟
ویسے تو نفرت کی عادت ہی ب ُ ری چیز ہے لیکن اگر کسی سے نفرت
ہی کر رہے ہو تو تھوڑا levelتو رکھو ",ا ُس نے سوچا کہ عالم بھائی
ح س ِن سلوک کی کوئی بات بتائی جائے ا ِس مقصد کو اولیاء ال ل ّٰ ہ کے ُ
سے ا ُس نے بات جاری رکھتے ہوئے ا ُن سے پوچھا "آپ اولیاء کرام
کو تو مانتے ہیں نا۔؟" تو عالم لڑکے نے گرجدار آواز میں کہا
"حضرت ابو بکر صدیق رض ,سے بڑا ولی کوئی نہیں حضرت عمر
رض سے بڑا ولی کوئی نہیں ,حضرت عثمان غنی رض سے بڑا ولی
چ پ ہو گیا تو ا ُس نے پوچھا "اور کوئی نہیں" اتنا کہ کر وہ عالم لڑکا ُ
حضرت علی۔؟" جس پر عالم لڑکے نے پ ُ ر زور لہجے میں کہا "ہم
حضرت علی کو نہیں مانتے ا ُن کی فوجوں نے حضرت عائشہ کی
فوجوں سے جنگ کی تھی ا ِس لیے ہم انہیں نہیں مانتے" ا ُس نے
حیرت سے ا ُس عالم لڑکے سے پوچھا "آپ سچ ُم چ عالم بن رہے ہو۔؟
45
کیا بات ہے آپ کی ,جو عیب آپ کو اہ ِل تشیع میں دکھائی دے رہا ہے
وہی عیب کسی اور نام سے آپ نے خود بھی پال ر کھا ہے ,اور خود
کو ا ُس عیب میں آپ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔؟
میں کسی مسلک کے ساتھ یا خالف نہیں ہوں۔ لیکن میں نفرت کے
خالف ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ جس الل ّٰ ہ نے اپنے محبوب کی محبت میں
ہم سب کو تخلیق کیا ا ُس کی کائنات میں محبت کے سوا کچھ نہیں ہونا
چاہیے۔ لیکن یہ دی کھ کے مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ہم ا ُسی الل ّٰ ہ کے
نام پر ایک دوسرے کی نفرت میں مبتال ہیں اور ا ُس نفرت میں ہم ایک
دوسرے پر جھوٹے الزام لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔ آپ کے ماننے
یا نا ماننے سے کسی ولی ,بزرگ ,یا صحابی کو کوئی فرق نہیں پڑتا,
چ کے ہیں انہوں نے حضرت علی اپنے ح صّ ے کی دنی اوی زندگی گ ُ زار ُ
جو کیا ا ُس کی پوچھ ا ُن سے موئرخوں نے نہیں کرنی بلکہ الل ّٰ ہ نے
کرنی ہے اور الل ّٰ ہ بہترین جاننے واال ہے۔ آپ کیوں خود کو کسی
ایسے انسان کی ب ُ رائی کرنے میں مبتال کرتے ہیں جسے رسول الل ّٰ ہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ نصیب ہو ا۔؟ کسی کی ب ُ رائی بیان کر
کے آپ گناہگار تو ہو سکتے ہیں لیکن ا ِیسا کر کے آپ ثواب نہیں کما
سکتے۔ اگر کسی کی ب ُ رائی کرنا کسی پے لعنت بھیجنا دین کا حصہ
ح کم ہوتا تو سب سے پہلے شیطان پر لعنت بھیج کر ثواب کمانے کا ُ
دیا جاتا۔ آخر کیوں ہم پے ایسے لوگ حاوی ہیں جو د ین و مذہب کو
محبت کا درس بتاتے ہوئے لوگوں کو ایک دوسرے سے نفرت کرنے
کی تعلیم دیتے ہیں۔ ایک صحابی کا دوسرے صحابی سے اگر جھگڑا
ہے تو بھی میں اور آپ کون ہوتے ہیں فیصلہ کرنے والے۔؟ وہ بنا
ُر کے بولتا جا رہا تھا اور عالم لڑکا متذبب انداز میں ا ُس کی بات س ُ ن
رہا ت ھا۔ ا ُس نے کہا "اگر آپ کسی ایک صحابی کی طرف سے
دوسرے صحابی کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنا ہی چاہتے ہیں
تو پہلے ا ُن کے جیسا کردار پیدا کیجیئے پھر بات کیجیے ,اگر لوگوں
میں محبت نہیں بڑھا سکتے تو پلیز نفرت بھی مت پیدا کیجیئے۔" عالم
لڑکے نے ا ُسے کوئی جواب ن ہیں دیا تو ا ُس نے کہا "اگر میری باتوں
سے آپ کی دل آزاری ہوئی تو میں آپ سے معافی مانگتا ہوں لیکن
سر
ایک بار میری بات کو ٹھنڈے دماغ سے سوچیے گا ضرور کہ ِ
محشر آپ نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے یا کسی صحابی کے اعمال
46
کا۔" اتنا کہہ کر وہ باقی لڑکوں سے مخاطب ہوا ا ور کہا "الل ّٰ ہ ایک
ہے ,ا ُس نے خود ہی لوگوں کو الگ الگ مذہب و مسلک میں ا ُتارا
کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ الگ الگ انداز سے لوگ ا ُسے اور ا ُس کے
برگزیدہ بندوں کو یاد کریں۔ وہ ا ِس الئق ہے کہ الگ الگ رنگ میں
ا ُس کی عبادت کی جائے ا ِس لیے ایک دوسرے کی عبادت کے طریقے
او ر ا ُس کے اعتقاد کی روشنی میں ا ُس شخص کو ملنے والی جنت اور
دوزخ کا فیصلہ ا ُسی پر چھوڑ دو جس کی وہ عبادت کرتے ہیں اور
اپنی عبادت اپنے کردار اور اپنے اخالق کی فکر کرو۔ جیسے کہ
رسول الل ّٰ ہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "تم میں بہترین
لوگ وہ ہیں جو اخال ق میں بہتر ہوں" اتنا کہہ کر ا ُس نے ا ُن لڑکوں
سے اجازت لی اور واپس گھر آ گیا۔
47
''باب۔ '' 11
ا ُس عالم لڑکے سے بات کرنے کے بعد وہ بہت دیر اسی سوچ میں رہا
کہ کس طرح کے لوگ عالم ,یا ُم فتی بن رہے ہیں۔ وہ شخص جو کسی
کی نفرت میں بنا سوچے سمجھے کچھ بھی کہنے کو تیار ہے کل کو
فتوی دینے کے الئق
ٰ وہ چند کتابوں کا کورس مکمل کر لینے کے بعد
بن جائے گا اور لوگ ا ُس سے دین کی سمجھ حاصل کریں گے کیا
کتابیں رٹ لینے سے ا ُس کا ِد ل بدل جائے گا۔؟ وہ ا ِنہی سوچوں میں
دل سے مح ِو گفتگو تھا کہ دل نے ا ُسے کہا "آج تو ت ُو ن ے بہت پتے
کی باتیں کی ا ُن لڑکوں سے ,دیکھ آج تجھے تیرے سوالوں کے جواب
تیری ہی زبانی ِم ل رہے ہیں" ۔۔۔ "ہاں میں نے دیکھا وہ گفتگو میری
نہیں تھی ,کوئی اور تھا ,جو مجھ میں بول رہا تھا ,میں بھی ا ُن باتوں
کو کہتے ہوئے ہی سمجھ رہا تھا" ویسے بہت دل کش شخصیت ہے
سلطا ن محمد اصغر علی (رح) کی۔ " ا ُس نے دل سے کہا اور ِد ل نے
ا ُسکی تائید کی۔
وقت گ ُ زرتا گیا۔ ا ُس کی کیفیات دن بہ دن بدلتی جا رہی تھیں اکثر وہ
کسی سمجھدار شخص سے اپنی کیفیات شیئر بھی کر لیتا تھا۔ ایک دن
چ کی ہی ں کہا ُسے کسی نے کہا کہ ا ِب تمھاری کیفیات ا ُس حد کو پہنچ ُ
جس سے آگے تم ُم رشد کے بغیر چلو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے" ا ُن
کی یہ بات جیسے ا ُس کے دل میں بیٹھ گئی اور ا ُس کا مسئلہ یہ نہیں
تھا کہ بیعت کرنی ہے یا نہیں ,بلکہ ا ُس کا مسئلہ یہ تھا کہ بیعت کس
کے ہاتھ پے کروں کیونکہ وہ کہتا تھا کہ"بیعت ا ُس کے ہاتھ پے کروں
گا جس کو دل مانے گا ,اور ابھی تو میں نے ُم رشد کامل کی تالش ہی
شروع نہیں کی ,میں صرف ایک بزرگ سے ِم ال ہوں جنہوں نے
مجھے اس ِم الل ّٰ ہ ذات دیا اور سچ میں بہت اثر ہے ا ُن کی نظر میں لیکن
میں فیصلہ نہیں کر پا رہا۔ انہی سوچوں میں مگن وہ مغرب کی نماز
پڑھنے چال گیا ن ماز کے بعد جب وہ مسجد سے نکال تو ا ُس وقت بھی
ُم رشد کی خواہش ا ُس کے ذہن و دل پے سوار تھی ,وہ سوچ رہا تھا کہ
اصل میں تو ُم رشد کامل رسول ال ل ّٰ ہ صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور
48
ہر وقت میں اولیاء کرام ا ُن کے نائب کی حیثیت سے موجود رہتے ہیں
جن کا کام لوگوں کی راہنمائی ہوتا ہے۔
سوچتے ,سوچتے ا ُسے اس ِم محمد صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کا خیال
آیا تو ا ُس نے تصور کی آنکھ سے اس ِم محمد صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ
وسلم کو دیکھتے ہوئے فریاد کی کہ "میں جیسا بھی ہوں آپ کا ا ُمتی
ہوں اور اپنے وقت میں آپ کے مقرر کردہ نائب کی تالش میں ہوں,
میں ُم رشد کامل کا متالشی ہوں ,پلیز میری مدد کیجیئے"۔
ا ُس روز ا ُسے بار بار یہی خیال آ رہا تھا کہ مجھے ُم رشد کی
ضرورت ہے اور اگر ُم رشد نہ مال تو شاید میں پاگل ,دیوانہ ہو جاؤں
اور اپنے رب کی راہ سے بھٹک جاؤں۔ ا ُس کے لیے بھٹک جانے کا
تالش ُم رشد میں کہیں بھی جانے ِ خیال ہی جان لیو ا تھا۔ الل ّٰ ہ میاں میں
کو تیار ہوں۔ لیکن پلیز مجھے گمراہ مت کیجیئے گا میں آپ سے دور
نہیں ہونا چاہتا۔ ا ُس رات جب وہ سونے کے لیے لیٹا تو بنا ُم رشد
گمراہ ہو جانے کے ڈر سے بہت رویا۔ آنکھیں بند کیے وہ ابھی جاگ
ہی رہا تھا کہ ا ُسے ای ک آواز س ُ نائی دی "اپنا دایاں ہاتھ باہر نکالو"
ا ُس نے ا ِس آواز کو اپنا گمان سمجھا لیکن پھر بھی اپنے رب سے خیر
کی امید رکھتے ہوئے ا ُس نے آنکھ بند کیے ہوئے ہاتھ باہر نکاال تو
ا ُسے صاف محسوس ہوا کے کسی نے ا ُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا
ہو۔ ا ُس نے چونک کر آنک ھیں کھولیں لیکن ا ُسے ایک مدھم سی روشنی
کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا ا ُس نے آنکھیں بند کیں لیکن وہ روشنی بند
آنکھوں سے بھی دکھائی دے رہی تھی اور ا ُس کا ہاتھ ابھی بھی کسی
اندیکھے ہاتھ میں تھا۔ آواز آئی "منہ تے ذبان بند جی ,جو کج کینا اے,
دل نال کینا اے" (منہ اور ذبان بند کر لو اور جو کچھ کہنا ہے دل سے
چ کا تھا۔ انہوں نے کہنا ہے) وہ ا ُن کی آواز اور ا ُن کا انداز پہچان ُ
ا ُسے کلمہ پڑھایا اور ہر گناہ سے توبہ کرنے کو کہا۔ جیسے ,جیسے
وہ بولتے گئے ویسے ,ویسے وہ کہتا گیا اور ا ِسی حالت میں ا ُسے کب
نیند آ گئی ا ُسے پتہ نہ چال ۔
اگلی صبح اٹھتے ساتھ ظاہری طور پے سلطان محمد اصغر علی (رح)
کے ہاتھ پے بیعت کرنے کا فیصلہ کیا اور پتہ کرنے کی کوشش کی
49
کہ جلد از جلد میری ا ُن سے مالقات ہو جائے۔ ا ُسے پتہ چال کہ آپ دو
دن بعد اٹک شہر کے آس پاس کسی جگہ تشریف ال رہے ہیں۔ لیکن آپ
سفر میں ہیں اس لیے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ آپ اٹک میں
کسی کو بیعت کریں گے یا نہیں ,اس لیے کچھ دن انتظار کر لو اور ا ُن
کے سفر سے واپسی پر جھنگ یا شور کوٹ جا کے بیعت کر لینا۔ لیکن
ا ُسے چین ہی نہیں آ رہا تھا وہ جلد از جلد بیعت کرنا چاہ رہا تھا ا ِس
لیے ا ُس نے اٹک شہر جا کے بیعت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ا ُس کے ساتھ
اور لوگ بھی بیعت کرنے جانا چاہ رہے تھے۔ اور ا ِس طرح ا ُن سب
نے اگلے روز وہاں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ اپنے دفتر پہنچا تو ا ُس
چ ھٹی کی مانگ کی اور کہا کہ وہ بیعت کرنا نے اپنے افسر سے ُ
چ ھٹ ی درکار ہے۔ ا ُس کے افسر نے چاہتا ہے ا ِس لیے ا ُسے دو دن کی ُ
چ ھٹی نہیں مل سکتی, ب ُ را سا منہ بناتے ہوئے کہا " ا ِس مقصد کے لیے ُ
چ ھٹی والے دن جا کے کر لینا ,ایسے یہاں بہت کام ہے تم بیعت کسی ُ
چ ھٹی نہیں دیتی" ا ُس نے افسر کا جواب س ُ ن کاموں کے لیے گورنمنٹ ُ
کر کہا "سر بیعت کرنے تو میں نے کل ہی جانا ہے ,جو چیز آپ کو
عام اور بےجا لگ رہی ہے وہ میرے لیے اپنی نوکری اور اپنی زندگی
سے ذیادہ معنی رکھتی ہے۔" ا ُس کے افسر نے ا ُسے گھور کے دیکھا
اور کہا "اگر آپ کو نوکری کی پرواہ نہیں ہے تو ٹھیک ہے کل چلے
جانا" ا ُس نے کہا "سر رزق الل ّٰ ہ کے ہاتھ میں ہے ,جب تک کہ ا لل ّٰ ہ نہ
چاہے آپ یا کوئی اور مجھ سے میرا رزق نہیں چھین سکتا ,ویسے
کتنی عجیب بات ہے کہ ہم لوگ خود ہی اپنے ماتحتوں کو جھوٹ
بولنے پے مجبور کرتے ہیں اور جب کسی کا جھوٹ پکڑا جاتا ہے تو
حیران ہو کر کہتے ہیں کہ مجھے تم سے یہ ا ُمید نہیں تھی کہ تم مجھ
سے جھوٹ بولو گے" ا ُس کے افسر نے کہا " ا ِس بات سے کیا ُم راد
ہے تمہاری۔؟ کیا تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ میں تمہیں جھوٹ بولنے
پے مائل کر رہا ہوں۔؟" ا ُس نے کہا "جی سر میں کچھ ایسی ہی بات
کر رہا ہوں ,ہمیں بچپن سے سچ بولنے کو کہا جاتا ہے لیکن ہم میں
سے سچ سننا کوئی پسند نہیں کر تا ,اگر میں آپ سے کہتا کہ کسی کی
وفات ہو گئی ہے ,یا مجھے کوئی اور گھریلو کام ہے ,یا میں کل اٹک
شہر جاتے ہوئے آپ کو فون پر بتا دیتا کہ میں بیمار ہوں آج دفتر نہیں
چ ھٹی مل جاتی ,ایک طرف تو ہم سب آ سکتا ,تو بہت آرام سے مجھے ُ
50
ا ِس بات کی د ُہائی دیتے ہیں کہ ہم ای ک قوم کی حیثیت سے جھوٹے
چ کے ہیں اور دوسری جانب ہم خود ایک ایسا نظام اور فریبی ہو ُ
ترتیب دے رہے ہیں جو لوگوں کو سچ سے ہٹا کر جھوٹ کی پیروی
کرنا سکھاتا ہے ,اسکول میں ہمیں جو ٹیچر سچائی کا درس دیتا ہے
وہی ٹیچر ہمارے سچ بولنے پر ہماری پٹائی بھی کر دیتا ہے ,طال ب
علم کو پتہ ہوتا ہے کہ اگر وہ ا ُستاد سے یہ کہے گا کہ سر میرے پیٹ
میں درد تھا یا مجھے بخار تھا ا ِس لیے میں نے کام نہیں کیا تو ا ُستاد
یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ طالب علم جھوٹ بول رہا ہے ا ُسے معاف
کر دے گا لیکن کوئی طال بِ علم اگر یہ کہہ دے کے میں بھول گیا تھا
یا کرکٹ میچ میں مصروف ہونے کی وجہ سے مجھے وقت نہ مل سکا
اسکول کا کام کرنے کا تو ا ُستاد کبھی یہ نہیں سوچے گا کہ طال بِ علم
کی سچائی کو سراہا جائے بلکہ ا ِس سچ کو وہ اپنی تضحیک مانتے
ہوئے طالب علم کو سخت سے سخت سزا دے گا ,مانا کہ طالب علم کو
اگر ہر بار سچ بولن ے پے معاف کیا جانے لگے تو وہ الپرواہ ہو جائے
گا لیکن کیا سزا کا اصل حقدار وہ طالب علم نہیں جو ا ُستاد سے جھوٹ
بول رہا ہے ,جب ہم بچپن سے یہی دیکھتے ہیں کہ جھوٹ بولنے واال
بچ جاتا ہے اور سچ بولنے واال پھنس جاتا ہے تو ہم خود ہی جھوٹ
اپنانے پے مجبور ہو جاتے ہیں ۔ ا ِس میں جھوٹ بولنے والے سے ذیادہ
قصوروار وہ شخص ہے جو سچ س ُ ننا ہی نہیں چاہتا ۔ تو سر !! میں نے
سچ بول کر بچپن سے آج تک بہت مار کھائی ہے لیکن کبھی جھوٹ
بول کر اپنی جان بچانے کی کوشش نہیں کی ,ا ِس لیے محض ا ِس
نوکری کی وجہ سے میں سچ کو چھوڑ کر جھوٹ کو نہیں ا پناؤں گا,
جو سچ تھا وہ میں نے آپ کو بتا دیا ,اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ
چ ھٹی دیں یا نہیں لیکن میں نے کل جانا ہے تو آپ کا جو بھی فیصلہ ُ
ہو میری واپسی پر مجھے بتا دیجیئے گا"۔
51
''باب۔ '' 10
اگلے دن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اٹک شہر پہنچا وہاں ا ُس کے
ساتھیوں کے کسی عزیز کا گھر تھا جہاں جا کر ا ُس نے کچھ دیر آرام
کرنے اور کھانا کھانے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ ا ُس مقام کا
ُر خ کیا جہاں س ُ لطان محمد اصغر علی (رح) نے تشریف النا تھا وہاں
پہنچ کر انتظار شروع ہ ُوا تو کبھی خبر ملتی کہ آپ (رح) راستے میں
ہیں تو کبھی یہ پتا چلتا کہ آپ (رح) نے ا ِس جگہ آنے کا ارادہ ملتوی
کر دیا ہے پھر سننے میں آتا کہ یہاں موجود لوگوں کی طرف سے ا ُن
سے درخواست کی گئی ہے کہ آپ یہاں ضرور تشریف الئیں تو ہو
سکتا ہے آپ (رح) آ ہی جائیں۔ ا ُسی کی طرح وہاں قریب 04لوگ
تھے جو س ُ لطان محمد اصغر علی (رح) کے ُم رید ہونا چاہتے تھے۔ ا ُن
سے مالقات کے خواہشمند ا ُن 04کے عالوہ تھے جو شاید وہیں آس
پاس رہتے تھے اور بار بار ا ُن کی آمد کا پوچھ رہے تھے ,لوگوں کا
اشتیاق دیکھ کر ا ُس نے سوچا لوگ کتنی محبت کرتے ہیں س ُ لطان
صاحب سے ,نہ جانے کتنے ُم رید ہوں گے ا ُن کے جو ا ُن سے کت نی
شدید عقیدت رکھتے ہوں گے اور میں۔؟ میں تو بس ایک بار مال ہوں
ا ُن سے ,مجھے تو شاید پرسوں رات سے پہلے ا ُن کی نظر میں ہونے
کا احساس بھی نہیں تھا۔ اور کیا پتہ یہ بیعت والی بات بھی محض میرا
گ ُ مان ہی ہو ,میں کون ہوں۔؟ دنیا کے گناہوں میں لِ تھڑا ایک غلیظ
انسان ج س نے کبھی مسجد کی شکل نہیں دیکھی تھی وہ ایک دن ایسے
چ ے کی فریاد س ُ ن کر ا ُسے
ہی امام بارگاہ پہنچ گیا اور وہاں ا ُس ب ّ
خیال آ جاتا ہے کہ مجھے بھی حق کی تالش ہے۔؟ واہ کیا کہانی ہے
آپ کی۔؟ کیوں اپنا ُم رید بنائیں گے وہ تمھیں۔؟ ایسا کیا ہے تم میں۔؟ تم
کل بھی گناہگ ار تھے اور آج بھی خطا ہی تمہارا اصول ہے۔ بس ,...دل
ہی تو بدال ہے تمہارا ,باقی تو آج بھی تم وہی ہو جو گناہ کو بھی ثواب
کی طرح کماتا تھا۔ خود کو مالمت کرتے وہ اپنے خیالوں میں بہت
چ کی تھی اور ابھی تک س ُ لطان صاحب کی آمد دور نکل گیا۔ رات ہو ُ
کا کچھ پتہ نہ تھا۔ وہاں کے منتظمین نے آس پاس کے گھروں اور
مسجد میں لوگوں کے ٹھہرنے کا انتظام کیا ,ا ُسے بھی جا کے سونے
52
کا کہا گیا لیکن نیند ا ُس کی آنکھوں سے کوسوں د ُور تھی۔ آخری
اطالع ا ُسے یہ ملی کے س ُ لطان صاحب ابھی ایبٹ آباد جا رہے ہیں,
ایبٹ آباد سے واپسی پر ہو سکتا ہے وہ یہ اں تشریف الئیں۔ یہ س ُ ن کر
وہ دل ,دل میں رو پڑا۔ ا ُس نے سوچا کہ شاید ا ِس سب کی وجہ ا ُس کی
موجودگی ہے۔ اگر وہ یہاں نہ ہوتا تو باقی لوگوں کو اتنی زحمت نہ
ا ُٹھانی پڑتی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ مجھ جیسے گناہگار شخص کی
ث زحمت بن رہی ہے ,مجھے موجودگی ا ِن سب لوگوں کے لیے باع ِ
یہاں سے چلے جانا چاہیے صبح فجر کی نماز تک وہ جاگتا رہا اور
نماز کے بعد کچھ دیر کو سو گیا نیند کے عالم میں بھی ا ُسے یہی فکر
تھی کہ ا ُس کی وجہ سے اتنے سارے لوگ خوار ہوئے کاش کہ وہ
یہاں نہ آیا ہوتا۔ سوتے ہوئے وہ بار بار یہی دیکھ رہا تھا کہ س ُ لطان
محمد ا صغر علی (رح) ایک گاڑی میں بیٹھے ہیں اور گاڑی کی
کھڑکی کے ساتھ وہ خود کھڑا ہے ,سلطان صاحب نے گاڑی کی
کھڑکی سے اپنا ہاتھ باہر نکاال ہوا ہے اور ا ُس نے دونوں ہاتھوں سے
ا ُن کا ہاتھ تھاما ہوا ہے کہ اچانک گاڑی چل پڑتی ہے اور ا ُن کا ہاتھ
ا ُس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہ ے۔ وہ ا ِسی خواب میں محو تھا کہ
اچانک س ُ لطان محمد اصغر علی (رح) کی آمد کا شور ا ُٹھا وہ تیزی
سے ا ُٹھا اور ا ُس سڑک کی جانب بھاگا جہاں سے آپ نے آنا تھا وہ
بھاگتے بھاگتے جب سڑک تک پہنچا تو ا ُس نے اپنے خواب کی مانند
س ُ لطان صاحب کو گاڑی میں بیٹھے دیکھا اور تھوڑی دیر میں ا ُن کی
گاڑی ا ُس کے پاس سے گ ُ زرتی ہوئی آگے چلی گئی اور وہ وہیں کھڑا
ا ُن کی دید کے سحر میں کھویا ا ُن کی گاڑی کو جاتے دیکھتا رہ گیا۔
اتنے میں سامنے سے ا ُس کے ساتھ آئے لوگوں میں سے ایک لڑکا ا ُس
کی جوتیاں ا ُٹھائے آتا نظر آیا ,ا ُس نے آتے ساتھ ا ُس کی جوتی اں ا ُس
کے حوالے کرتے ہوئے ا ُس سے کہا "بھائی آپ اپنی جوتی تو پہن
لیتے۔" ا ُس نے کہا "میری آنکھ س ُ لطان صاحب کی آمد کی اطالع سے
کھلی تھی ,خوشی خوشی میں دھیان ہی نہیں رہا۔" آخر ایک طویل
انتظار کے بعد وہ پل آ ہی گیا جب وہ س ُ لطان محمد اصغر علی (رح)
ت بیعت ت ھام کر ا ُن کا ُم رید ہو گیا۔ ایک سفید کپڑے کی لمبی کا دس ِ
سی ر س ّ ی جس کا ایک ِس را س ُ لطان صاحب کے ہاتھ میں تھا اور بیعت
کرنے والے سبھی لوگ ا ُس ر س ّ ی کو دونوں ہاتھوں سے تھامے بیٹھے
53
تھے۔ بیعت کرتے ہوئے ا ُسے اپنا دل اپنے ہاتھوں کے بیچ دھڑکتا
محسوس ہو رہا تھا۔ س ُ لطان صاح ب نے بیعت کے کلمات پڑھے اور
سب ُم ریدین نے ا ُن الفاظ کو دل سے دہرایا۔ بیعت کے بعد ا ُسے ایسا
محسوس ہو رہا تھا جیسے ا ُس نے دوبارہ جنم لیا ہو۔
57
''باب۔ '' 10
ا ُس کے بیعت کرنے کے بعد ا ُس کے سارے بہن بھائی بھی س ُ لطان
محمد اصغر علی (رح) کے ُم رید ہو گئے۔ اب ا ُس نے اپنا مقصد یہ
بنایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس ِم ال ل ّٰ ہ ذات کی روشنی پہنچا
سکے ,ا ِس مقصد سے وہ ہر ملنے والے سے مقدور بھر بات کرنے کی
کوشش کرتا تھا ,اکثر لوگ یہی س ُ ن کر ا ُسے رد کر دیتے تھے کہ وہ
کسی کا ُم رید ہے۔ کیونکہ لوگ ,اولیاء الل ّٰ ہ کے سلسلوں کے گدی
نشینوں سے سخت ناالں نظر آتے ہیں۔ ا ِس بات کا صحیح اندازہ ا ُسے
تب ہ ُوا جب ا ُس کے ایک دوست نے ا ُس سے طرح طرح کے سوال
پوچھے۔ مث ال ً آپ کے ُم رشد کے پاس گاڑیاں کتنی ہیں۔؟ گھر کتنا بڑا
ہے ا ُن کا۔؟ ٹیلی وژن ,ڈش اینٹینا ہے ا ُن کے گھر۔؟ یہ سب ایسے
سوال تھے جنہیں سوچنے کا ا ُسے کبھی خیال ہی نہیں آیا تھا۔ ا ِن سب
سوالوں کے پوچھنے سے ا ُس کے دوست کا مقصد شاید یہ تھا کہ آپ
کسی جعلی پیر کے ُم رید تو نہیں ہو گئے جو لوگوں کو بیوقوف بنا کر
پیسے اکھٹے کرتے ہیں۔ ا ُس نے اپنے دوس ت سے کہا "یار یہ سب
جاننے کی ضرورت پیش نہیں آئی مجھے۔ میں جانتا ہوں کہ لوگ
اولیاء کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور ا ُن کے گدی نشینوں
کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ میں جب س ُ لطان صاحب سے ملنے گیا
تھا تو میرے دل میں الل ّٰ ہ کے سوا کوئی سوال نہیں تھا سو میں نے ا ُن
سے ال ل ّٰ ہ کے سوا کچھ طلب نہ کیا اور انہوں نے مجھے سیدھی راہ
دکھائی۔
سچے درویش ,فقیر ,ولی الل ّٰ ہ ,دنیا و آخرت کے طالبوں سے دور ہی
چ ے درویش کو پہچان سکتے رہتے ہیں۔ صرف الل ّٰ ہ کے طالب ہی س ّ
ہیں۔ جو شخص دنیا کا طالب ہو وہ فقیر کی گاڑی ,ا ُس کا ٹھاٹ دیکھ
کر بھاگ جاتے ہیں اور جو آخرت کے طالب ہوں وہ فقیر کی شریعت
سے گھبرا کر لوٹ جاتے ہیں ,صرف وہ شخص فقیر کے ساتھ چل
سکتا ہے جو خالص الل ّٰ ہ کی طلب رکھتا ہو۔ مگر میں نے دیکھا کہ
سلطان محمد اصغر علی (رح) اتنے سخی بزرگ ہیں کے ہر شخ ص
خواہ وہ طالب دنیا ہی کیوں نہ ہو آپ (رح) ا ُسے اپنے سائے میں جگہ
دیتے ہیں اور ا ُسے طال بِ دنیا سے طالب موال بننے کا درس دیتے
ہیں۔" ا ُس کے دوست نے ا ُسے ہاتھ کے اشارے سے روکا اور کہا "یہ
دنیا دار والی بات تو ٹھیک ہے لیکن آخرت والی بات سمجھ نہیں آئی,
جو شخص اپ نی آخرت کی فکر کر رہا ہے ا ُس سے کیوں دور رہنا
60
فکر آخرت اور الل ّٰ ہ کی چاہت دو الگ الگ ِ چاہتے ہیں اولیاء ..اور کیا
فکر
ِ چیزیں ہیں۔؟" ا ُس نے اپنے دوست کے سوال س ُ ن کر کہا "دیکھو
آخرت جنت حاصل کرنے یا دوزخ سے بچ جانے کی کوشش کا نام ہے
لیکن الل ّٰ ہ کا طالب ,الل ّٰ ہ سے الل ّٰ ہ ہی کو مانگتا ہے۔ الل ّٰ ہ کا ق ُ رب و
دیدار ہی ا ُس کی جنت ہوتا ہے اور الل ّٰ ہ کے ق ُ رب و دیدار سے
محرومی ا ُس کے لیے مقا ِم دوزخ کے ُم ترادف ہے۔ دنیا سے بچ کے
چلنے کی کوشش کرنے والے بہت ہیں لیکن ا ُن میں الل ّٰ ہ کا طلبگار
کوئی کوئی ہی ہوتا ہے۔ اور الل ّٰ ہ والے کسی سے دور نہیں رہنا
چاہتے ,وہ تو چاہتے ہیں کہ ذیادہ سے ذیادہ لوگوں تک حق پہنچ سکے
لیکن لوگوں کی اپنی خواہشات ا ُنہیں اولیاء الل ّٰ ہ کے ق ُ رب سے دور کر
دیتی ہیں۔ جو دنیا کا طالب ہو گا وہ ولی کی دنیا دیکھ کر ا ُس کی
کاملیت پہچانے کی کوشش کرے گا ,جو آخرت کا طالب ہو گا وہ ولی
کے ظاہری اعمال کی کھوج میں لگا رہے گا ,اور ا ُس کی شریعت کی
پیمائش کے ذریعے ولی کی کاملیت کا اندازہ کرنے کی کوشش کرے
گا ,لیکن جو خالص الل ّٰ ہ کا طالب ہوتا ہے وہ ُم رشد کو اپنا آپ سونپ
کر ,اپنے اندر پیدا ہونے والی تبدیلی سے ُم رشد کی کاملیت ک ی شناخت
کرتا ہے۔ الل ّٰ ہ والے کسی کو یہ نہیں کہتے کہ چلے جاؤ تم دنیا دار ہو۔
لوگ اپنی سوچ کے ذاویے سے یہ فیصلہ خود اپنے لیے طے کرتے
ہیں کہ انہوں نے ولی کا ساتھ دینا ہے یا نہیں۔ یہ الل ّٰ ہ کا بنایا نظام ہے
کہ جب لوگوں کی اکثریت گناہ پر آمادہ ہو جائے تو ا ُن پے جہالت چھا
جاتی ہے اور حق ا ُن کی نظر سے پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ اولیاء کے گدی
نشینوں کے ٹھاٹ کسی بڑے ہسپتال کی آرائش کی طرح ہیں جو ا ُن کی
طرف آنے والے لوگوں کو ف ِ لٹر کرتی رہتی ہے تاکہ جو سچ میں بیمار
ہے اور شفا حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کی فیس ادا کرنے کو تیار
ہے وہی مریض ہسپتال میں داخل ہو۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ سچا
ُم رید ,جھوٹے ُم رشد سے بھی کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتا ہے مگر
چ ے ُم رشد سے بھی ک ُ چھ نہیں سیکھ پاتا۔ جھوٹا ُم رید ,س ّ
61
''باب۔ '' 10
وہ خاموش ہوا تو ا ُس کے دوست نے کہا "اچھا چلو مان لیا کہ تم جو
کچھ کہہ رہے ہو وہ صحیح ہے لیکن اولیاء کے درباروں پر جو شرک
ہوتا ہے ا ُس کے بارے میں کیا کہو گے تم۔؟ یہ جو لوگ جا کے اولیاء
کے مزاروں پے سجدے کرتے ہیں یا ُم رشد کے ہاتھ ,پاؤں چومنے
کے بارے میں کیا رائے ہے تمھاری۔؟" ا ُس نے اپنے دوست کے سوال
پر ایک لمبی سی آہ بھرتے ہوئے کہا "میں اسی سوال کے انتظار میں
تھا ,خیر سجدہ صرف الل ّٰ ہ کی ذات کو کیا جاتا ہے ,سجدے کی بنیاد
سجدہ کرنے والے کی نیت پر ہے اگر وہ سجدے کی نیت رکھتا ہے تو
ج ھکنا سجدہ کہالئے گا لیکن اگر وہ سجدے کی نیت کسی بھی جگہ ُ
ج ھکنا سجدہ نہیں کہالئے گا۔ دوسرا یہ نہیں رکھتا تو کسی بھی جگہ ُ
کہ سجدہ سامنے موجود چیز کو نہیں بلکہ دل میں موجود ذات کو ہوتا
ج ھکانے سے سجدہ نہیں ہو جاتا ,جو ہے۔ کسی مزار پے جا کے سر ُ
والدین انسان کو ا ِس دنیا میں لے کر آتے ہیں ا ُن کی زندگی میں ,ا ُن
کی تعظیم میں ,ا ُن کے ہاتھ پاؤں چومنا یا اپنی اوالد کو محب ت سے
بوسہ دینا سمجھ میں آتا ہے ,ا ُن کے مر جانے پر ا ُن کی قبر سے لپٹ
کر رونا یا ا ُسے چومنا بھی سمجھ آتا ہے ,لیکن الل ّٰ ہ کی محبت میں الل ّٰ ہ
کی راہ دکھانے والے کے ہاتھ ,پیر چومنا لوگوں کو شرک محسوس
ہوتا ہے۔ والدین یا اوالد کے ساتھ محبت کا رشتہ اپنے لیے ہوتا ہ ے
ا ِس لیے ا ُنہیں بوسہ دینے میں شرک نہیں ہوتا لیکن ُم رشد کیونکہ ال ل ّٰ ہ
سے مالنے واال ہے اور ا ُس سے محبت بھی ال ل ّٰ ہ کی خاطر کی جا رہی
ہے تو وہی عمل یہاں آ کر شرک بن جاتا ہے۔؟ عام طور پے شرک الل ّٰ ہ
کی ذات یا صفات کو کسی اور سے مالنے کو کہا جاتا ہے۔ وہ عمل
جس کے الئق صرف الل ّٰ ہ کی ذات ہے وہی خیال یا وہی مقام کسی اور
کو دینا شرک کہالتا ہے۔ لیکن ا ِس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ کون
شرک کر رہا ہے اور کون نہیں۔؟ اور یہ کہ شرک صرف عبادت میں
ہوتا ہے یا زندگی کے باقی اعمال بھی شرک بن سکتے ہیں۔؟ ہم
دوسرے مذاہب کے لوگوں ک و مشرک کہتے ہیں کہ وہ الل ّٰ ہ کے سوا
اور کسی اور کی عبادت کرتے ہیں لیکن اپنا شرک ہمیں دکھائی نہیں
62
دیتا۔ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم مال پے ,دوستی پے اور دنیاوی
پہنچ پے بھروسا کرتے ہیں ,جب کوئی تکلیف آتی ہے تو ڈاکٹر اور
دوا پے بھروسا کرتے ہیں ,مرد و عورت ایک دوسرے کی محبت میں
اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ اگر وہ نہ مل سکے تو اپنی پوری زندگی
ا ُس کے غم میں گ ُ زار دیتے ہیں یا پھر زندگی ہی ختم کر لینے کا
سوچتے رہتے ہیں۔ ہم محبت میں ,بھروسے میں ,اعتماد کرنے اور
ا ُمید رکھنے میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو الل ّٰ ہ سے ذیادہ اہمیت
دیتے ہیں۔ کیا یہ شرک نہیں ہے۔؟ ایک عورت یا مرد کی نارسائی کے
غم کو عمر بھر دل سے لگا کر جیتے رہیں گے لیکن ا ِس نارسائی کو
الل ّٰ ہ کی رضا مانتے ہوئے خوشی خوشی زندگی گ ُ زارنے کی کوشش
نہیں کریں گے۔ اصل شرک تو یہ ہوا کہ الل ّٰ ہ سے ذیادہ کوئی شخص
آپ کی زندگی میں ض روری ہے۔کسی کے دل میں کس کے لیے کتنی
محبت ہے یہ یا تو وہ خود جانتا ہے یا پھر الل ّٰ ہ ۔ بہت سی ایسی چیزیں
ہیں جو عام طور پر ممنوع ہیں لیکن کسی خاص حال میں ا ُن کی نہ
صرف اجازت دی گئی بلکہ الل ّٰ ہ نے ا ُسے پسند بھی فرمایا۔ جیسے
اپنے آپ کو اذیت دینا منع ہے لیکن ج ب حضرت اویس قرنی رض نے
رسول الل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کے دندان مبارک کا س ُ ن کر اپنے
سارے دانت مبارک توڑ ڈالے تو الل ّٰ ہ اور الل ّٰ ہ کے رسول صلی الل ّٰ ہ
علیہ و آلہ وسلم نے ا ُن کی محبت کو پسند فرمایا۔ صحابہ کرام رسول
الل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے اتنی محبت رکھتے تھے کہ ا ُن کے
وضو کا پانی زمین پے گرنے نہ دیتے بلکہ ا ُس پانی کو پی لیا کرتے
تھے ,آپ کے ناخن مبارک یا بال مبارک بھی سنبھال کے رکھ لیا
کرتے تھے۔ آخر کیوں وہ اتنی محبت کرتے تھے رسول ال ل ّٰ ہ صلی ال ل ّٰ ہ
علیہ و آلہ وسلم سے۔؟ یقینا ً ا ِس کی وجہ یہ تھی کہ رسول الل ّٰ ہ صلی
الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم وہ ہستی ہیں جنہوں نے صحابہ کو الل ّٰ ہ کی پہچان
عطا کی اور انہیں طال بِ موال بنایا۔ صحابہ کرام نے کون سی حدیثوں
کی کتابیں پڑھی تھیں جو ا ُن کے دل ک ُ ھل گئے تھے۔؟ کیا یہ سب
ت رسول کا اثر نہیں تھا۔ بیشک رسو ِل خدا کی صحبت میں صحب ِ
بیٹھنے سے ا ُن کے دل ک ُ شادہ ہوئے اور ا ُنہوں نے الل ّٰ ہ کی راہ پائی۔
اور الل ّٰ ہ والوں کے ق ُ رب سے ہی الل ّٰ ہ کی راہ ملتی ہے۔
63
جو شخص الل ّٰ ہ کی راہ سکھائے ا ُس انسان سے سیکھنے والوں کو خود
بہ خود والہانہ محبت ہو جاتی ہے۔ ایک شخص اپنے سکھانے والے
سے س یکھ کر الل ّ ہ کی محبت میں جتنا ڈوبے گا اتنی ہی محبت ا ُسے
اپنے سکھانے والے سے ہوتی جائے گی ,ا ِسی لیے لوگ الل ّٰ ہ کی راہ
سکھانے والوں کا ق ُ رب کھوجتے ہیں تاکہ لوگ الل ّٰ ہ کے قریب ہو
سکیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ الل ّٰ ہ والوں کے جتنا زیادہ قریب
ہوتے جائیں گے ا ُت نا ہی وہ الل ّٰ ہ کے قریب ہو جائیں گے۔ اگر کوئی
شخص قسمت سے کسی مومن صفت انسان سے ملتا ہے اور ا ُس سے
الل ّٰ ہ کے ق ُ رب کی راہ حاصل کرتا ہے تو وہ ا ُس کے ہاتھ ,پاؤں کیا,
ا ُس کی جوتیوں تلوے بھی مل جائیں تو وہ ا ُسے بھی عقیدت سے
چومے گا۔ اپنی محبت تو سب کو سمجھ آتی ہے لیکن دوسرے کی
محبت۔؟" ا ُس نے طویل تقریر کرتے کرتے ایک پل ُر ک کر کہا۔
"دوسرے شخص کی محبت سمجھنا آپ کا کام نہیں ہے ,اور نا ہی
دوسرے کی محبت آپ کی سمجھ میں آئے گی کیونکہ محبت سمجھنے
کی چیز نہیں ہے۔ افسوس کہ ہم سب اپنی اپنی محبت میں ڈوبنے کی
جگہ دوسرے کی مح بت پے تنقید کرنے میں محو رہتے ہیں۔ الل ّٰ ہ اگر
انسان کے دل میں ہے تو ا ُس کا سجدہ کسی ب ُ ت کے سامنے بھی مقبول
ہے اور اگر الل ّٰ ہ دل میں نہیں ہے تو کعبے میں بھی سجدہ بے س ُ ود
ہے۔ مومن کے دل کو الل ّٰ ہ نے اپنا عرش کہا ہے اور فرمایا کہ نہیں
سماتا میں زمین و آسمان م یں اور سماتا ہوں اپنے مومن بندے کے دل
میں۔ اگر کسی کو کوئی مومن بندہ مل جائے تو ا ُس پے ا ُس مومن کی
تعظیم واجب ہو گی کہ نہیں۔؟ چلو تعظیم کے حوالے سے ایک اور
موسیٌ کو ایک جھاڑی میں سے آواز دی اور ٰ بات کہتا ہوں کہ الل ّٰ ہ نے
موسیٌ نے ا ُس جگہٰ موسی میں تیرا رب ہوں" تو ح ضرت ٰ کہا "اے
اپنے رب کو سجدہ کیا۔ اب سوچو کہ ا ُس جھاڑی پے الل ّٰ ہ نے ایک
تجل ّ ی فرمائی تھی تو الل ّٰ ہ کے نبی نے وہاں سجدہ کیا تھا ,جب الل ّٰ ہ کی
ذات کی ایک تجلی ہونے کی وجہ سے ایک جھاڑی کو یہ مقام حاصل
ہے کہ الل ّٰ ہ کا نبی ا ُس کے سامنے سجدہ کرے تو سوچو کہ جس شخص
کے دل کو الل ّٰ ہ نے اپنا عرش کہا ہو ا ُس مومن بندے کو کیا مقام
حاصل ہو گا اور ا ُس کی ظاہری زندگی میں اور وفات کے بعد ا ُس کی
64
کس قدر تعظیم کرنا لوگوں پے فرض ہو گا ,کیا کوئی سوچ سکتا
ہے۔؟" ا ُس نے اپنے دوست کی جانب دیکھتے ہوئے اپنی طرف سے
شاید اولیاء کے ادب میں واضح ترین دلیل پیش کی اور خاموش ہو گیا۔
ا ُس کے دوست نے کہا " ا ِس کا مطلب تم اولیاء کے مزاروں پے سجدہ
کرنے کے حق میں ہو۔؟" ا ُس نے کہا "میں صرف ا ِس بات کے حق
میں ہوں کہ کسی کی عبادت ,عقیدت یا عقیدے کی وجہ سے ا ُس کو
کافر ,مشرک یا کچھ اور کہنے کی ِر ی ت ختم کی جائے ,میں صرف ا ِس
بات کے حق میں ہوں کے ہم سب مل کے اپنے اندر کی تقسیم کو ختم
کریں ,میں نہیں کہتا کہ سب لوگوں کو اولیاء کے درباروں پے ماتھا
ٹیکنا شروع کر دیں میں صرف یہ کہتا ہوں کہ کسی کے عقیدے کی
وجہ سے اپنے اندر ا ُس کے لیے بدگمانی پیدا مت کیجیے ,جن چیزوں
پے الل ّٰ ہ فیصل ہے ا ُن چیزوں کا فیصلہ الل ّٰ ہ ہی کو کرنے دیجیئے۔
کسی شخص کے لیے دل میں نفرت رکھ کر ,کسی کے بارے میں ب ُ را
سوچ کر ہم صرف اپنا وقت برباد کرتے ہیں ,اگر کوئی اتنا ہی ب ُ را ہے
تو ا ُس کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔؟ وہی وقت کچھ اچھا
سوچنے م یں صرف کیجیئے۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ "اپنی سوچ
کو پانی کے قطروں کی طرح شفاف رکھو کیونکہ سوچ سے ایمان بنتا
ہے۔" لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے مذہب و مسلک کے نام پر,
رنگ و نسل یا ُم لک و قوم وغیرہ کے نام پر ,نفرت پیدا کرنا شیطان
اور ا ُس کے چیلوں کا کام ہے ,اسی ذریعے سے وہ لوگوں کی سوچ کو
ایک دوسرے کے لیے آلودہ کر کے ا ُن کا ایمان کمزور کرتا ہے۔ "
65
''باب۔ '' 10
وہ اپنی تنخواہ سے پیسے بچا بچا کر دوسرے تیسرے مہینے اپنے
لیے س ُ وٹ سلوایا کرتا اور تقریبا ً ہر وقت ہی س ُ وٹ پہنا کرتا اکثر
دوست مزاق میں پوچھتے "یار تو سوتا بھی کوٹ پینٹ میں ہے۔؟"
ا ُسے بارشوں میں بھیگنے کا بہت شوق تھا۔ وہ اکثر برستی بارش میں
ہ اتھ کھولے آسمان کو دیکھا کرتا اور ا ُس ذات کو ,جو ہر جگہ موجود
ہے ,محسوس کرنے کی کوشش کرتا۔ ا ُسے بالوں کے الگ الگ انداز
ح لیے اور باتوں کے بنانے کا بھی شوق تھا۔ بہت سے لوگ ا ُس کے ُ
بیچ کنفیوز ہو جاتے تھے۔اچھی شکل و صورت کے ساتھ الل ّٰ ہ نے ا ُسے
اچھی آواز اور ان داز بھی دیا تھا۔ لوگ اکثر ا ُس کی شخصیت سے
مرعوب ہو جایا کرتے تھے۔ کسی قریبی دوست نے کہا "یار الل ّٰ ہ
رسول کی بات تو ت ُو بہت زبردست کرتا ہے لیکن یہ سب باتیں تیرے
سراپے سے میل نہیں کھاتیں۔ یا تو لباس بدل لے یا باتیں بدل لے" تو
ا ُس نے کہا "فی الحال تو میرا ان دونوں میں سے کچھ بھی بدلنے کا
ارادہ نہیں ہے ویسے کچھ بدلنے کی کیا ضرورت ہے۔؟ الل ّٰ ہ کا نام
ح لیے کو اپنانے کی ضرورت پڑتی ہے لینے کے لیے کسی خاص ُ
ح لیہ ا ِسی بات کی دلیل ہے کہ الل ّٰ ہ کا نام کسی بھی
کیا۔؟ ویسے میرا ُ
روپ میں رہ کر لیا جا سکتا ہے۔" لوگ ا ُس کے پا س بیٹھنا ا ُس کی
بات س ُ ننا پسند کرتے تھے۔ الگ الگ مسلک کے لوگ بلکہ اکثر غیر
مسلم بھی ا ُس کے پاس بیٹھنا اور ا ُس کی بات س ُ ننا پسند کرتے تھے
کیونکہ وہ کسی مسلک یا مذہب کی نہیں بلکہ ایک ال ل ّٰ ہ کی بات کرتا
تھا ,لوگوں کو مایوسی سے بچانے والی اور ال ل ّٰ ہ کی ذات سے امید پیدا
کرنے والی بات کرتا تھا۔ ُُ اس کا اپنے ُم رشد سے تعلق زیادہ تر دل
زبانی ہی رہا۔ وہ رات بھر کا سفر کر کے صبح س ُ لطان محمد اصغر
علی (رح) کے پاس پہنچتا اور اکثر ا ُنہیں ایک نظر دیکھ کر ہی واپس
چال جاتا تھا ,جب بھی راستے میں ہوتا تو سوچتا کہ آج جا کے ُم رشد
پاک سے کیا کیا کہوں گا لیکن جب ا ُن کے سامنے جاتا تو ذبان ہی نہ
ہلتی۔ سو وہ دل کی زبانی جو کہہ سکتا ہوتا کہہ جاتا اور اکثر تو ا ُن
کے سامنے ا ُس کے دل کی ذبان بھی بند ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ جب
66
وہ اپنے دوست کو بیعت کروانے کے لیے لے کے گیا تو ا ُس کے
کالے کپڑوں ,کلین شیو چہرے اور ننگے سر کے باعث ایک دو لوگوں
نے ا ُسے کچھ سخت باتیں کہیں جس کے باعث وہ د ُکھی دل لیے ُم رشد
پاک کے سامنے پہنچا تو آپ (رح) نے سیاہ رنگ کی سندھی ٹوپی
پہنی ہوئی تھی آپ (رح) نے ا ُس کی جانب دیکھتے ہوئے اپنے سر
سے ٹوپی ا ُتارتے ہوئے فرمایا "ٹوپی ن ال کی ہوندا اے جی ,اے ویکھو
ا َسی اتار دتی ٹوپی ,تے ٹوپی ا ُتارن نال ا ِسی گھٹ گئے آں کیا۔؟ الل ّٰ ہ
دل ویکھدا ہے جی" (ٹوپی سے کیا ہوتا ہے جی ,دیکھو ہم نے ا ُتار دی
ٹوپی تو کیا ہم کم ہو گئے ہیں۔؟ الل ّٰ ہ دل دیکھتا ہے جی) ا ُسے ُم رشد
سے بس ایک نظر کی طلب رہتی تھی ,وہ اکثر دور کھڑا دل کی زبانی
بس اپنے ُم رشد پاک سے ایک نظر کا سوال کر رہا ہوتا تھا "بس ایک
نظر ,پلیز ایک نظر دیکھ لیجیے مجھے" اور جب وہ ا ُس کی جانب
ج ھک جاتی ,وہ ا ُن کی نظر کو اپنی روح میں دیکھتے تو ا ُس کی نظر ُ
ا ُترتا محسوس کرتا ,ا ُس نظر کی سرشاری الفاظ میں نہیں بیان کی جا
سکتی ,ا ُس ایک نظر میں ا ُسے کیا ملتا تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا
تھا۔
وہ بہت دیر اسی سوچ میں رہا کہ ہم سب مل کر ایک دوسرے کے لیے
ا ُس کا دین مشکل سے مشکل تر بنانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ت م
نے نماز نہیں پڑھی۔ تم نے ٹوپی نہیں پہنی ,شلوار قمیض پہن کے
مسجد آیا کرو۔ بس دین کے نام پر یہی باتیں رہ گئی ہیں ہمارے پاس۔
71
الل ّٰ ہ میاں کوئی تو راستہ ہو گا ہم سب کو یہ سوچ دینے کا کہ دین,
مذہب ,ایمان کا معنی یہ نہیں ہے کہ کسی خاص طرح کا لباس پہنا
جائے بلکہ دین کا مطلب ایک خاص دل رکھنا ہے ,جو ہر ایک سے
الل ّٰ ہ کے لیے محبت کرنا جانتا ہو۔
72
''باب۔ '' 10
ا ُسے اپنا آپ کمزور نظر آ رہا تھا ,اتنی بڑی دنیا ,اتنے سارے لوگ,
آخر کیسے ممکن ہو کہ یہ سب لوگ ایک ہو جائیں۔ میں اکیال ایسا کیا
کر سکتا ہو ں۔؟ جو سب کے لیے ہو۔ وہ اکثر کہا کرتا "الل ّٰ ہ میاں میں
ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا جو صرف پاکستانیوں یا مسلمانوں کے لیے
ہو ,میں کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں جو سب انسانوں کے لیے ہو۔ کچھ
ایسا جس سے انسانیت کو فائدہ ہو سکے۔ جب ہم توحید کے قائل ہیں
تو ہمیں واحدانیت کا درس دینا چاہیے۔ لیکن ہم تقسیم کا درس دیتے
ہیں۔ ہر مسلک و مذہب اسی بات پے زور دیتا نظر آتا ہے کہ بس ہم ہی
ہیں جو صحیح ترین ہیں۔ کوئی بھی شخص خود کو بہترین سے کم
ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے ,تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے اور
اعلی یا ادنا ہون ے کا فیصلہ ,مذہب و مسلک کی جگہ ٰ لوگوں کے بیچ
اخالق کی بنیاد پر کریں۔" ا ُس کی سوچ وسیع تر ہوتی جا رہی تھی۔
لیکن ساتھ ساتھ ا ِس سوچ کو لوگوں تک پہنچا نہ پانے کا ڈر بھی شدید
ہوتا جا رہا تھا۔
ُم رشد نے ا ُس کے دل کو سمجھایا کہ لوگوں کی حد سے ذیادہ پرواہ
مت کرو تمہارا اور ا ِن س ب کا رب ایک ہے ,سو وہ جیسے تمہارا ہے,
ا ُسی طرح سب کا ہے اور وہ ا ُن کے لیے کافی ہے۔ تمہارا کام ہے
احسان کا چلن اپنانا ,ہدایت کس کو دینی ہے یہ الل ّٰ ہ کی مرضی پر
ہے ,تم بس اپنی طرف سے کوشش کبھی ترک مت کرنا ,ال ل ّٰ ہ کو اپنی
راہ میں کوشش کرنے والے بہت پسند ہیں ,تو کوشش کرتے رہو ,ال ل ّٰ ہ
کرم کرے گا۔
ایک روز وہ اپنے دفتر سے کسی سرکاری کام سے ایک اور دفتر کی
طرف جا رہا تھا ا ُس کی جیب میں صرف دو روپے تھے ا ِس لیے ا ُس
نے سوچا کہ پیدل چال جائے راستے میں ا ُس کی مالقات اپنے ایک
کزن سے ہو گئی جو وہاں قریب ہی کسی جگہ مالزمت کے لیے
انٹرویو دینے آیا۔ ا ُس نے اپنے کزن سے کہا "میں کسی کام سے جا
رہا ہوں میرے ساتھ چلو پھر واپسی پے گھر اکھٹے چلے جائیں گے۔
کوئی پیسے ہیں جیب میں۔؟ میرے سگریٹ ختم ہونے والے ہیں اور
73
میرے پاس صرف دو روپے ہیں۔" ا ُس کا کزن بھی ا ُسی کی طرح تھا
جس کی جیب میں صرف واپسی کا کرایہ تھا۔ ا ُس نے بات کرتے
کرتے اپنے کزن سے پوچھا "تمھیں پتا ہے ہم سب نے س ُ لطان محمد
اصغر علی (رح) کے ہاتھ پے بیعت کر لی ہے۔؟" ا ُس کے کزن نے
ا ُس سے کہا "ہاں پتا ہے ,ویسے کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ الل ّٰ ہ
والوں کی صحبت کیوں ضروری ہے؟ ایسا کیا ہ وتا ہے اولیاء کی نظر
میں کہ ا ُن کے پاس جا کر لوگوں کے دل کا نظارہ بدل جاتا ہے۔؟ "
ا ُس نے غور سے اپنے کزن کی طرف دیکھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ
ا ُس کا کزن پیری ُم ریدی کو کافی اچھی طرح سمجھتا تھا ,شاید وہ ا ُس
کا امتحان لینا چاہ رہا تھا ا ِس لیے ا ُس سے ا ِس قسم کا سوال پوچھ رہا
تھا۔ ا ُس نے کہا "میں اکثر بہت پریشان ہو جاتا ہوں تو دل میں ُم رشد
پاک کی آواز س ُ نائی دیتی " پ ُ تر ال ل ّٰ ہ پاک خیر کَرسی " ۔ ا ِس ایک جملے
میں نہ جانے کیا تاثیر ہوتی ہے کہ میرے دل کو قرار آ جاتا تھا۔ اور
میں پھر سے آگے بڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ میرے خیال میں جو انسان
الل ّٰ ہ کی ذات میں جتنا ڈوبتا جاتا ہے ا ُتنا ہی ا ُس کا نور وسیع ہوتا جاتا
تصور یار کی بات کی ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ ِ ہے۔ اولیاء کرام نے
ہماری نظر مناظر کو توڑنے جوڑنے کا کام کرتی ہے۔ جیسے کوئی
شخص مسجد میں جاتا ہے تو ب ُ را خیال رد کرتا ہے اور ب ُ رائی میں
چ راتا ہے ,اذان کی آواز آتی ہے تو محو ہو تو الل ّٰ ہ کے خیال سے نظر ُ
گانا کی آواز کم یا بند کر دی جاتی ہے۔ آخر ایسا کیا ہوتا ہے جو
انسان کو عجیب لگتا ہے۔؟ یہ دو منظروں کا ٹکراؤ ہے جسے انسان
اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ انسان کی زندگی انہی مناظر کا کھیل ہے
کہ باہر دکھائی دینے واال منظر انسان کے اندر کون سا نظارہ تحریر
کرتا ہے۔ یہ تحریر انسان خود لکھتا ہے ا ُس کی مرضی ہے وہ جو جی
چاہے اپنے اندر تحریر کرے۔ دنیا میں لوگ اپنے اندر بہت سے منظر
لیے گھومتے رہتے ہیں ہر شخص کے اندر ایک الگ دنیا آباد ہوتی
ہے جس میں ا ُس کے پاس دنیا کی ہر چیز کی تصویر ہوتی ہے۔ ان
میں کچھ تصویریں ایسی ہوتی ہیں جن کا اشارہ ال ل ّٰ ہ کی جانب ہوتا ہے۔
اشارہ ا ِس لیے کیونکہ وہ الل ّٰ ہ کی ذات سے نہیں بلکہ الل ّٰ ہ کی کسی
صفت سے سوال کر رہے ہوتے ہیں۔ مث ال ً کوئی رزق کے لیے پریشان
ہے تو وہ رازق کو پ ُ کار رہا ہے تاکہ ا ُس کے رزق کی تنگی دور ہو
74
جائے لوگ ا ُس کی صفات کو پ ُ کارتے ہیں ,ا ُس کی ذات کو نہیں,
انسان جیسا گمان رکھے گا ویسے روپ میں الل ّٰ ہ ا ُسے ملے گا اور
انسان اپنی غرض کے حساب سے الل ّٰ ہ کا گ ُ مان کرتا ہے ,لوگ بہت سا
خ داؤں کی تالش رزق دینے والے اور بہت سی دنیا عطا ک رنے والے ُ
میں رہتے ہیں ,بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو الل ّٰ ہ کے طالب ہوتے ہیں
بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر کے منظر میں الل ّٰ ہ کی تصویر
ہوتی ہے ورنہ لوگ تو الل ّٰ ہ کو سوچتے ہی نہیں۔ ُم رشد کیونکہ الل ّٰ ہ
کے ساتھ خالص ہوتا ہے ا ِس لیے ا ُس کے اندر کے منظ ر میں الل ّٰ ہ کے
جلوے کثیر تعداد میں ہوتے ہیں تو جب وہ کسی شخص کو دیکھتا ہے
تو اپنے اندر کے منظر سے ا ُسے جوڑ دیتا ہے۔ یہی وہ احسان ہے جو
حضور اقدس صلی الل ّٰ ہ ِ ایک ُم رشد اپنے ُم رید پر کرتا ہے۔ جس طرح
علیہ و آلہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ "احسان کیا ہے" تو آپ صل ی
الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " احسان یہ ہے کہ جب کوئی شخص
نماز ادا کرے تو ایسے جیسے وہ ال ل ّٰ ہ کو دیکھ رہا ہے۔ " ُم رشد ایسا
شخص ہوتا ہے جو ہر وقت الل ّٰ ہ کی یاد میں محو رہتا ہے جب ایسا
شخص لوگوں سے گ ُ ھلتا ملتا ہے ,انہیں دیکھتا ہے تو یہ حقیقی احسان
ہے کسی بھی انسان پر کہ کوئی الل ّٰ ہ واال ا ُس پے نظر کرے۔ تمام
جہانوں کا سارا علم انسان کے اپنے اندر موجود ہے۔ ضرورت ا ِس
بات کی ہوتی ہے کہ ا ُس علم کو اپنے اندر تالش کیا جائے۔ جس طرح
عقلمندوں ,جاہلوں ,امیروں ,غریبوں ,اور نیک یا بد لوگوں کی صحبت
کا انسان کی سوچ پر ک چھ اثر ہوتا ہے ا ُسی طرح الل ّٰ ہ والوں کی
صحبت بھی کچھ اثر رکھتی ہے۔ عقلمند سے عقل اور جاہل سے
جہالت کی ترغیب ملتی ہے۔ عاقل یا جاہل دونوں میں سے کوئی بھی
انسان پر کوئی تعویز یا کوئی جادو نہیں کرتا بلکہ ا ُن کے ساتھ رہنے
سے ا ُن کی بات س ُ ننے سے انسان کے خیاالت متاثر ہوتے ہیں۔ الل ّٰ ہ
والے کیونکہ الل ّٰ ہ سے لو لگائے ہوتے ہیں ا ِس لیے ا ُن کی صحبت سے
انسان کے دل کی گرہ کھلنا شروع ہو جاتی ہے۔ ُم رشد ایک ایک ُم رید
کے کان میں کہہ کے نہیں آتا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا بلکہ
ا ُس کے پاس بیٹھنے سے ,ا ُس کی بات س ُ ننے سے ,ا ُس کی نظر میں
ق قلب کے رہنے سے انسان کا دل روشن ہوتا ہے اور ا ُسے تصدی ِ
ساتھ بات سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہے۔ انسان کی آنکھ ا ُس کے باطن
75
کو ظاہر سے جوڑتی ہے ,بہت سی باتیں جو زبان سے بیاں نہ ہو رہی
ہوں وہ بھی نظر سے عیاں ہو جاتی ہیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں ا ُن کی
ہوس ,اللچ ,غصہ ,پیار سب دکھائی دیتا ہے کیونکہ آنکھ وہ مقام ہے
جہاں انسان کا ظاہر اور باطن ایک ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو جو شخص
اپنے باطن میں الل ّٰ ہ کی یاد رکھتا ہو ا ُس کی نظر کا عالم۔
عالمہ اقبال فرماتے ہیں
زور با زو کا۔؟
ِ کوئی انداز ہ کر سکتا ہے ا ُس کے
نگا ہِ مر ِد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔
ا ُس کی بات س ُ ن کے ا ُس کے کزن نے کہا "تیری باتیں س ُ ن کر بہت
اچھا لگا مجھے خوشی ہے کہ الل ّٰ ہ نے تجھے اتنی جلدی اتنی ساری
سمجھ دی لیکن میں تیرے ُم رشد پاک کا ُم رید نہیں بن سکتا ,تجھے پتا
ہے کہ میرے والد کسی اور سلسلے سے بیعت ہیں اور مجھے بھی
ا ُسی سلسلے میں بیعت کرنی ہو گی" ا ُس نے اپنے کزن سے کہا
"کوئی بات نہیں یار بیعت تو نصیب سے ہوتی ہے ,جس کا جہاں
نصیب ہو گا وہ وہیں ُم رید ہو گا ,اچھا میرے سگریٹ ختم ہو گئے ہیں
ا ُس دوکان سے سگریٹ خرید لوں" ا ُس کے کزن نے کہا "پیسے کہاں
ہیں تیرے پ اس۔؟" تو ا ُس نے کہا "دو روپے ہیں نا ,ایک روپے کا ایک
سگریٹ لوں گا اور ایک روپے کے دو سگریٹ بعد میں لے لوں گا"
یہ کہتے کہتے وہ دوکان میں داخل ہو گئے اور ا ُس نے دوکاندار کو
ایک روپیہ دیتے ہوئے ایک سگریٹ دینے کو کہا ,جتنی دیر میں
دوکاندار نے سگریٹ نکال کے کاؤ نٹر پے رکھا ا ُتنی دیر میں ا ُس نے
دوسرا روپیہ جیب سے نکالتے ہوئے ایک اور سگریٹ کا نام لیا جس
کی قیمت دو روپے تھی اور کہا کہ وہ سگریٹ دے دو۔ دوکاندار نے
ب ُ را سا منہ بناتے ہوئے دوسرا سگریٹ نکال کر دیا جو ا ُس نے فور ا ً
س ُ لگا لیا اور دوکان سے باہر آ گیا۔ ا ُس کا کزن ا ُسے غور سے دیکھ
رہا تھا ,ا ُس نے پوچھا کیا بات ہے تو کزن نے کہا "بھائی ت ُو اتنی دیر
سے سگریٹ اور پیسوں کی فکر میں تھا اور اب بے فکر ہو کر ایک
روپیہ خرچ کرتے کرتے دو کے دو روپے خرچ کر دیے ,ایسا کیا
خیال آیا تھا جس نے سارے پیسے خرچ کروا کر بھی تمہیں سکون
عطا کیا۔؟" ا ُس نے کہا "جب میں نے ایک روپیہ بچایا تو میرے دل
نے مجھے مالمت کی کہ تجھے ایک روپے پے بھروسا ہے ,لیکن
76
ایک الل ّٰ ہ پر بھروسا نہیں ہے ,یہ سوچ کر میں نے دوسرا روپیہ بھی
خرچ کر دیا اور سارے پیسے خرچ کر کے مجھے سکون ہے کہ میں
نے ایک روپے کی جگہ ایک ا لل ّٰ ہ پے بھروسا کیا" ا ُس کے کزن نے
تعالی سے لوگ سگریٹ بھی مانگا ٰ کہا "واہ کیا بھروسہ ہے ,اب الل ّٰ ہ
کریں گے ,تجھے پتہ ہے نا کہ میں تجھے بچپن سے جانتا ہوں۔؟ میں
تجھ پے یقین نہیں کر پاتا ,تیرا کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب ت ُو کیا کر
جائے ,کبھی الگ الگ مسجدوں میں ن مازیں پڑھتا ہے کبھی کبھی چرچ
بھی چال جاتا ہے کچھ وقت پہلے ت ُو شیعہ ہو گیا تھا اور ا َب ت ُو ُم رید
ہو گیا ہے کل کو کیا پتہ کچھ اور ہو جائے ,اور تیری یہ سوچ کہ الل ّٰ ہ
تعالی کیوں دیں ٰ پے بھروسا کرو تو سگریٹ بھی ِم ل جائیں گے ,الل ّٰ ہ
گے تجھے سگریٹ۔؟" ا ُس نے اپنے کزن کے سوال کا کچھ جواب نہ
دیا ,تھوڑی دیر میں وہ دونوں گھر پہنچے تو اندر داخل ہوتے ساتھ
ا ُس کے چھوٹے بھائی نے اپنی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر
ا ُس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا "ویسے تو آپ کی یہ عادت بہت ب ُ ری
ہے لیکن پتا نہیں کیوں آج مارکیٹ سے گ ُ زرتے ہوئے مجھے خیال آیا
کہ مہینے کی آخری تاریخیں ہیں آپ کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو
آپ نے مجھی سے کہنا ہے تو چلو آج بھائی کے کہے بغیر ہی سگریٹ
لے جاتا ہوں" ا ُس نے اپنے بھائی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے کزن
کی جانب دیکھا جو حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ کزن نے ا ُس سے
کہا "تم م جھے بھی وہ نقش دکھاؤ جس کا تم ذکر کرتے ہو" ا ُس نے
اس ِم الل ّٰ ہ کا نقش اپنے کزن کو دکھایا۔ ا ُس نے نقش دیکھا اور چال گیا۔
رات کو قریب گیارہ بجے ا ُس کزن نے آ کر ا ُس کا دروازہ کھٹکھٹایا
اور التجاء بھرے لہجے میں کہا "میں بہت دیر سے بس اسٹاپ پے
کھڑا اپنے گھر کو ج اتی گاڑیوں کو دیکھ رہا ہوں لیکن میرا گھر
جانے کو دل نہیں کر رہا مجھے لگتا ہے کہ میری منزل بھی س ُ لطان
محمد اصغر علی (رح) ہی ہیں میں کسی اور کا ُم رید نہیں ہو سکتا
پلیز مجھے ا ُن کے پاس لے چلو ,میں ا ُن کا ُم رید ہونا چاہتا ہوں" ا ُس
اپنے کزن کو گلے سے لگا کر تسل ی دی اور اگلی صبح ا ُسے بیعت
کرنے کے لیے اپنے ُم رشد پاک کے پاس لے گیا۔
77
اپنے کزن والے واقعے سے ا ُسے سمجھ آیا کہ جس نے بات سمجھنی
ہوتی ہے ا ُسے تمہیدوں کی ضرورت نہیں پڑتی اور جس نے بات نہیں
سمجھنی ا ُسے کسی بھی دلیل سے بات سمجھائی نہیں جا سکتی۔
78
''باب۔ '' 10
ا ُس کے کزن کے ُم رید ہونے سے ا ُس کے خاندان میں کافی ہلچل مچ
گئی تھی کیونکہ ا ُس کے کزن کے والد اپنے بیٹے کو اپنے سلسلے
سے ُم رید کروانا چاہتے تھے انہوں نے ا ُسے کافی سخت باتیں کہیں
ظ خاطر رکھتے ہوئے صرف ات نا اور جواب میں ا ُس نے ادب کو ملحو ِ
کہا کہ "بیعت نصیب سے ہوتی ہے ,ا ِس کے نصیب میں س ُ لطان محمد
ت بیعت تھامنا لکھا تھا" ا ُس کے کزن کے والد اصغر علی (رح) کا دس ِ
نے اپنے بیٹے کو بیعت توڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش بھی کی
چ ے دل سے اپنا ُم رشد مان لیکن ا ُس کا کزن بھی س ُ لطان صاحب کو س ّ
چ کا تھا اور کچ ھ عرصے بعد ا ُس کا کزن سب کچھ چھوڑ کر س ُ لطان ُ
صاحب کی خدمت میں تربیت کے لیے حاضر ہو گیا۔ ا ِس دوران بھی
ا ُسے اپنے کزن کے والدین کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا رہا
لیکن وہ ثابت قدم رہا۔ ا ُس کے کزن کے والدین کا خیال تھا کہ شاید ا ُن
کا بیٹا کسی جہادی تنظیم کا ح صّ ہ بن گیا ہے اور اب کبھی واپس نہیں
آئے گا۔ ا ُس نے انہیں سمجھایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ُم رشد پاک
کی ایک دن کی صحبت میں انسان وہ کچھ سیکھ جاتا ہے جو ا ُن سے
دور رہ کر برسوں میں بھی نہیں سیکھ سکتا۔ تو ا ُس سے پوچھا گیا
اگر ایسا ہے تو تم خود کیوں نہیں گئے ترب یت کے لیے۔؟ اپنے چھوٹے
بھائی کو بھیجا ہمارے بیٹے کو بھیجا اور نا جانے کس کس کو تم نے
ا ِس تربیت کے لیے بھیجا لیکن تم خود کیوں نہیں جاتے تربیت کے
لیے۔؟ تو ا ُس نے کہا کہ "میرا ب ُ الوا نہیں آیا ابھی تک ,جس دن ب ُ الوا
آیا تو میں بھی جانے میں دیر نہیں لگاؤں گا۔" ل یکن ا ُس پے ُم رشد کی
مہربانی ا ِس قدر تھی کہ وہ گھر بیٹھے بھی ہر پل اپنے ُم رشد سے
فیضیاب ہو رہا تھا۔ شاید ا ُس کے ُم رشد نے ا ُس کی تربیت کے لیے
ا ُس کی حقیقی زندگی کے اسباق کا ُ
چ ناؤ کیا تھا۔
ا ُس کی عادت تھی کہ وہ سب کے لیے دعا کرتا تھا اور جو بھی ا ُس
سے ملتا یا بات کرتا ا ُن سب کو بھی د ُعا دیتا تھا۔ اکثر دعائیں جو وہ
لوگوں کے لیے کرتا تھا پوری ہو جاتی تھیں ا ِس وجہ سے لوگوں نے
ا ُسے کوئی پیر سمجھنا شروع کر دیا۔ اپنی شادی کے کچھ عرصہ بعد
79
ا ُس نے داڑھی رکھ لی ,الل ّٰ ہ نے ا ُسے ایک بیٹی سے نوازا۔ ا ُس کے
پیر ساب بننے میں بس ایک داڑھی کی کمی تھی سو وہ بھی پوری ہو
گئی۔ اپنے ُم رشد پاک کی نقل کرتے ہوئے وہ بھی لوگوں کو یہی کہتا
کہ الل ّٰ ہ پاک خیر کرے گا۔ اور جب ا ُن کی ُم رادیں پوری ہوتیں تو وہ
ا ُس سے اور ذیادہ عقیدت رکھنا شروع کر دیتے۔ اگرچہ وہ چند
گھرانے تھے جو ا ُسے ا ِس حیثیت سے جانتے تھے لیکن ا ُسے سبق
سکھانے کے لیے اتنے لوگ بھی کافی تھے۔ ا ُس نے دیکھا کہ لوگوں
کو الل ّٰ ہ سے کوئی سروکار نہیں ہے لوگ بس اپنا کام نکالنا چاہتے
ہیں۔ کوئی الل ّٰ ہ کا طالب نہیں ہے کسی نے ا ُس سے الل ّٰ ہ کے ق ُ رب و
وصال کا سوال نہیں کیا ,سب کو صرف اپنی دنیا س ُ د ھارنے کی فکر
تھی۔ لوگ ا ُس کے پیچھے بھاگتے اور وہ لوگوں سے دور بھاگتا تھا۔
ا ُس نے تنگ آ کر لوگوں سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ اپنی کسی
چ کا ہے ا ِس لیے اب ا ُس کی دعا غلطی کے باعث اپنے مقام سے ِگ ر ُ
میں وہ اثر نہیں رہا لیکن لوگ پھر بھی ا ُس کا پیچھا نہ چھوڑتے او ر
کیسے چھوڑتے جبکہ ا ُن کی د ُعائیں بدستور پوری ہو رہی تھیں۔ ا ُس
نے الل ّٰ ہ کے حضور د ُعا کی کہ میری یہ د ُعائیں قبول نا ہوا کریں تاکہ
لوگ مجھ سے دور رہیں لیکن ایسا نا ہوا۔ ا ُس کی نماز میں حالوت ا ِس
چ کی تھی کہ مغرب کی نماز کے صرف فرض پڑھنے میں قدر بڑھ ُ
ا ُسے تقر یبا ً آدھا گھنٹہ لگ جاتا تھا ,ا ُن دنوں وہ شام کو ایک کلینک پر
پارٹ ٹائم ریسیپشنسٹ کی حیثیت سے کام کر رہا تھا جب ا ُسے لمبی
لمبی نمازیں پڑھنے کی وجہ سے کلینک کی مالزمت سے نکال دیا
گیا۔ جب وہ کسی مسجد میں جاتا تو اکثر لوگ ا ُسے ا ِس طرح ڈوب کر
نماز ادا کرتے دیکھ تے ,تو دیکھتے رہ جاتے ,اکثر ایک مجمع سا لگ
جاتا اور لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے کہ کتنی اچھی نماز
پڑھ رہا ہے یہ لڑکا ,اکثر لوگ نماز کے بعد ا ُس سے آ کر پوچھتے کہ
ا ِس کا راز کیا ہے تو وہ ہمیشہ اپنے ُم رشد کا نام لیتا ,اکثر لوگ یہ
جان کر کہ وہ کسی کا ُم رید ہے ,ا ُسے جاہل سمجھتے اور ا ُس کی نماز
کی حالوت کو محض دکھاوا سمجھ کر بھاگ جاتے اور کچھ لوگ ا ُسے
کوئی الل ّٰ ہ واال سمجھ کر ا ُس سے اپنے لیے دعا کرنے کو کہتے۔ وہ
ا ِن سب چیزوں سے تنگ آ جاتا تھا ,اکثر لوگوں کی عقیدت ا ُس کے
80
نفس کو بہت تقویت دیتی تھیں اور وہ اندر ہ ی اندر اپنے آپ کو لوگوں
کی تعریفوں پے خوش ہونے پر مالمت کرتا رہتا تھا۔
ا ُس نے مسجد میں نماز پڑھنا کم کر دی ,اگر جاتا بھی تو مسجد کے
کسی ایسے کونے میں چ ھُ پ کے نماز ادا کرتا جہاں وہ کم سے کم
لوگوں کی نظر میں آئے۔ ا ُس نے لوگوں کی جھوٹی عقیدت سے بچنے
کی بہت کو شش کی لیکن بے س ُ ود آخرکار جب کچھ سمجھ نہ آیا تو ا ُس
نے اپنے چہرے سے داڑھی صاف کروا دی۔ ا ُس کا یہ عمل دیکھ کر
سب نے ا ُسے لعن طعن کی عقیدت مندوں نے کہا کہ یہ کیسا پیر ہے
جس نے داڑھی صاف کر دی ,دوستوں نے کہا یار آج کے دور میں
داڑھی رکھنا بہت مشکل کام ہے ,کچھ اور خیر خواہوں نے خوشی کا
اظہار کیا اور کہا اب اچھے لگ رہے ہو اتنی سی عمر میں داڑھی
رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے ا ِس عمل کو س ُ نت کا
قتل گردانا اور ا ُسے بہت سی سخت باتیں کہیں۔ ا ُس نے سب کی باتیں
خندہ پیشانی سے س ُ نی مگر کچھ نہ کہا ایک صاحب جو ا ُسی کے دفتر
میں کام کرتے تھے انہوں نے ا ُس کی ا ِس حرکت کی وجہ سے ا ُس
سے ایک مسلسل نفرت پال لی اور جب موقع ملتا تو وہ ا ُسے کچھ نہ
کچھ ضرور کہتے۔ ا ُن صاحب نے بڑی بڑی موچھیں رکھی ہوئی تھیں
ایک روز ا ُسے کہنے لگے کہ "تم نے داڑھی صاف کروا کے شدید
گناہ کا ارتکاب کیا ہ ے ا ِس سے تو اچھا تھا کہ تم داڑھی رکھتے ہی
نہیں" ا ُس نے ا ُن صاحب کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن جب
ا ُنہوں نے بار بار ایک ہی بات کی رٹ لگا دی تو ا ُس نے ا ُن سے کہا
"سر داڑھی کسے کہتے ہیں۔؟" انہوں نے ا ُس کے سوال پر ا ُسے گھور
کے دیکھا اور کہا "تمہیں نہیں پتہ داڑھی کسے کہتے ہیں۔؟ وہ جو تم
نے صاف کروا دی ا ُسے داڑھی کہا جاتا ہے۔" ا ُس نے کہا "اچھا
ت رسول میں کیا فرق ہے۔؟" تو ا ُن صاحب نے ا ُلجھ کر داڑھی اور س ُ ن ِ
کہا " س ُ نتیں تو بہت سی ہی اور داڑھی رکھنا بھی ایک س ُ نت ہے" ا ُس
نے مسکرا کے ا ُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "چہر ے پے ا ُگنے
والے بال بڑھا لینے سے آپ ا ُسے داڑھی کہہ سکتے ہیں لیکن ا ُسے
ت رسول تب تک نہیں کہا جا سکتا جب تک کے داڑھی رکھنے سُ ن ِ
ح ب رسول نہ ہو۔ تقریبا ً ہروالے کی نظر میں حیا نہ ہو ,اور دل میں ُ
مذہب کے پیروکار داڑھی رکھتے ہیں اب کیا کسی غیر مسلم کی
81
ت رسول کہیں گے۔؟" انہوں نے ا ُس کا جواب س ُ ن کر داڑھی کو آپ س ُ ن ِ
کہا "میں مسلمان کی بات کر رہا ہوں کہ جو بھی مسلم شخص داڑھی
ت رسول کا قتل کرتا ہے" ا ُس نے کہا "اگر اس صاف کرتا ہے وہ س ُ ن ِ
ت
طرح دیکھا جائے تو پھر تو جو لوگ شیو کرتے ہیں وہ تو روز س ُ ن ِ
رسول کا قتل کرتے ہوں گے اور موچھیں رکھنے والے تو پھر مذہب
کی نظر میں باغی کہالئیں گے کیوں کہ وہ داڑھی گھٹاتے ہیں جسے
ح کم ہے اور موچھیں جنہیں گھٹانے کو کہا گیا ہے اسے بڑھانے کا ُ
بڑھاتے رہتے ہیں۔" ا ُن صاحب کو جب بات اپنی جانب آتی نظر آئی تو
انہوں نے بات ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ک ہا "سزا جزا سب
الل ّٰ ہ کے ہاتھ ہے ہمارا کام تھا آپ کو سمجھانا تو ہم نے سمجھا دیا
باقی اب تمہاری مرضی ہے جو جی چاہے کرو" ا ُس نے کہا "جی سر
صحیح کہا آپ نے کہ سزا جزا الل ّٰ ہ ہی کے ہاتھ میں ہے ,بات تب
خراب ہوتی ہے جب ہم خود ایک دوسرے کے لیے سزا و جزا کا
فیصلہ ک رنے کی کوشش کرتے ہیں ,اپنے ارد گرد دیکھیں تو آپ کو
ایسے بہت سے داڑھی والے نظر آئیں گے جو بے حیا ہیں اور داڑھی
ت
کے تقدس کو اپنی حرکتوں سے پامال کرتے ہیں میرے خیال میں سَ ن ِ
ح لیہ بنانا اپنا
رسول کے اصل قاتل وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں جیسا ُ
دینی فریضہ سمجھتے ہیں م گر ا ُس کی روح کو اپنانے کا گمان بھی
ا ُن سے کوسوں دور رہتا ہے۔" اتنا کہہ کر ا ُس نے بات ختم کر دی
لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ دین کے نام پر کیا کر رہے ہیں ہم لوگ۔؟ سب
دین کے ظاہر کو اپنانے پر زور دیتے ہیں لیکن ا ِس کے باطن کا خیال
ہی نہیں آتا ہمیں ,شاید ا ِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دین ال ل ّٰ ہ کے لیے نہیں
بلکہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اپناتے ہیں۔ کوئی شخص اگر نماز
پڑھتا ہے تو اپنی باتوں سے ہر ایک پے ظاہر کرنے کی کوشش کرتا
رہتا ہے کہ وہ نمازی ہے" ,اذان کتنے بجے ہو گی ,میں نماز پڑھ کے
آ رہا تھا ,یا نماز پڑھنے جانا ہے ",یہ وہ فقرے ہیں جو ہم عام طور
پر نمازی حضرات کے منہ سے س ُ نتے رہتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ا ِس
سے بھی دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں وہ اپنی نماز کا رعب جھاڑنے کے
لیے ایک ایک سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ آپ نے نماز پڑھی کہ
ج معے کے روز ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی نہیں ,خاص کر ُ
ہے ک یونکہ سارا ہفتہ مسجد سے دور رہنے کے بعد جب ہم جمعے کی
82
نماز پڑھ لیتے ہیں تو ہم اپنے ساتھ کے ا ُن گناہگاروں سے افضل ہو
ج معے کے دن بھی مسجد جانا نصیب نہیں ہوتا۔ ا ِس جاتے ہیں جنہیں ُ
ج معے کے روز ہمارا ہر ایک سے یہ سوال کرنا بہت ضروری لیے ُ
ج معہ ادا کی ہے یا نہیں۔ اکثر جب وہ کسی نماز ُ
ِ ہوتا ہے کہ ا ُس نے
سے اپنا باطن س ُ دھارنے کی بات کرتا یا کسی کو ُم رشد کی اہمیت
سمجھانے کی کوشش کرتا تو لوگ کہتے کہ الل ّٰ ہ کا دین بہت آسان ہے
نماز روضے کی پابندی کرو سب سے بھالئی کا سلوک کرو اور بس
اس سے ذیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سوچتا کہ اگر دین
محض نماز روزہ ہی ہے تو سارے نمازی مومن کیوں نہیں بن جاتے۔؟
ہر مسجد کے مولوی صاحب ولی الل ّٰ ہ کیوں نہیں ہوتے۔؟ کیا الل ّٰ ہ نے
ح کم نہیں دیا۔؟ کیا تصفی ہِ قلب کے بغیر کوئی انسان حق تزکیہ نفس کا ُ
کو جاننے کے الئق بن سکتا ہے۔؟ ہر گز نہیں۔ تو پھ ر سارا زور
شریعت پوری کرنے پے کیوں دیا جاتا ہے۔؟ ا ُس کے اندر سواالت کا
ایک ہجوم مچا جا رہا تھا۔
83
''باب۔ '' 10
ا ُس کی ظاہری حالت کو دیکھتے ایک روز ا ُس کے کزن نے ا ُس سے
پوچھا "تیرے خیال میں شریعت پوری کرنا کس حد تک ضروری ہے
اور طریقت کو سمجھنا ا ور جاننا کہاں تک ضروری ہے۔؟" ا ُس نے
غور سے اپنے کزن کی جانب دیکھا اور پوچھا " ا ِس سوال کی کوئی
خاص وجہ۔؟" ا ُس کے کزن نے شوخ لہجے میں کہا "ہاں جناب خاص
وجہ آپ خود ہیں ,آپ ہی وہ ہستی ہیں جو ہم سب کے ُم رید ہونے کا
باعث بنے اور اب آپ ہی ایسی چال چلیں گے تو ہمار ا کیا ہو گا" ا ُس
نے مسکرا کر اپنے کزن کی جانب دیکھا اور کہا "میرا کام راہ بتانا
تھا راہ چالنا نہیںُ ,م رشد تک پہنچ گئے تو ُم رشد کو دیکھ کر چلو
مجھے کیوں دیکھتے ہو" ا ُس کا کزن عمر میں ا ُس سے صرف چھ ماہ
بڑا تھا ا ِس لیے دونوں میں گہری دوستی تھی۔ اور بیعت کے بع د یہ
دوستی اور گہری ہو گئی تھی۔ ا ُس کے کزن نے کہا " ُم رشد پاک کو
ہی دیکھ کر چل رہا ہوں ,لیکن تیری فکر رہتی ہے ,ا ِس لیے پوچھ رہا
ہوں کہ شریعت اور طریقت کی ظاہری زندگی میں ضرورت ,اطالق
اور امتزاج کس تناسب سے ہونا چاہیے۔؟ کیا شریعت بلکل چھوڑ دینی
چاہیے اور صرف طریقت تھام کے چلتے رہنا چاہیے۔؟ ایسا کیوں ہوتا
ہے کہ جو لوگ شریعت کے پ ُ ختہ ہیں وہ طریقت ب ُ ھال دیتے ہیں اور
جو طریقت کی راہ میں آتے ہیں وہ شریعت سے دور ہو جاتے ہیں۔؟"
ا ُس کے کزن نے تفصیل سے اپنا سوال بیان کرتے ہوئے ا ُس کی
آنکھوں میں دیکھا تو ا ُس نے کہا "دی کھو شریعت زمین ہے ,شریعت
آپ کو بتاتی ہے کہ زمین پے کس طرح رہنا ہے۔ کیسے ُو ضو کرنا
ہے ,کس ُر خ پے نماز پڑھنی ہے ,لوگوں میں کیسے گ ُ ھلنا ملنا ہے,
اور زندگی کے باقی معامالت کس طرح پورے کرنے ہیں یہ سب ہمیں
شریعت بتاتی ہے۔ طریقت آسمان ہے۔ تو جسے آسمان مل جائے ا ُس
کے قدم زمین پر نہیں رہتے ,بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اتنے قدآور
ہوتے ہیں کہ زمین اور آسمان ایک ساتھ تھام کے چلتے ہیں۔ ا ِس لیے
شریعت والے شریعت ہی کے ہو کے رہ جاتے ہیں اور طریقت والے
طریقت میں ہی ڈوبے رہتے ہیں ,لیکن اہ ِل طریقت ,اہ ِل شریعت سے
84
بہتر ہیں اگر وہ پر ہیزگار ہوں تو۔" وہ کہتے کہتے ُر کا تو ا ُس کے
کزن نے کہا "اب پرہیزگاری کہا سے آ گئی۔؟ جب اہ ِل طریقت نے
شریعت ہی چھوڑ دی تو کس بات کی پرہیزگاری۔؟" ا ُس نے اپنے کزن
کا سوال س ُ ن کر کہا "پرہیزگاری ہی تو وہ شے ہے جو اہ ِل شریعت
اور اہ ِل طریقت کو شریعت یا طریقت کا ا ہل بناتی ہے۔ اگر پرہیزگاری
نہیں ہے تو شریعت ,طریقت سب بے س ُ ود ہے۔ پرہیزگاری یہ ہے کہ
گناہ سے دور رہے ,اپنے نفس پر قابو رکھے ,لوگوں سے احسان کا
ح کم کی تعمیل کرے ,اگر رویہ اختیار کرے اور ہر حال میں الل ّٰ ہ کے ُ
کسی میں یہ خصوصیات ہیں تو وہ پرہیزگار کہالنے کے ال ئق ہے"
ا ُس کے کزن نے ا ُسے ٹوکتے ہوئے کہا "لیکن یہ سب عمل تو شریعت
کا ح صّ ہ ہیں۔" ا ُس نے کہا "ہاں کیونکہ انسان کتنا ہی ب ُ لند کیوں نہ ہو
جائے ا ُسے رہنا زمین پے ہی پڑتا ہے۔ اسی زمین پر زندگی گ ُ زار کر
شریعت ,طریقت ,معارفت اور حقیقت کی سیڑھیاں چڑھی جاتی ہیں۔
جہ اں تک بات ہے کہ دونوں میں سے کیا چیز زیادہ ضروری ہے تو
میں کہوں گا کہ باطن ذیادہ ضروری ہے۔ میں نے حضرت علی کا
ایک فرمان س ُ نا تھا جو کچھ اس طرح تھا کہ تمہاری نیت کتنی ہی
صاف کیوں نہ ہو لیکن لوگ تمہیں تمہارے دکھاوے سے پہچانتے ہیں
اور تمہارا دکھاوا کتنا ہی عا لی شان کیوں نہ ہو الل ّٰ ہ تمہیں تمہاری نیت
سے پہچانتا ہے۔" تو میں نے دکھاوا چھوڑ دیا۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ
مجھے کچھ سمجھنا شروع ہو جائیں ,ت ُو سوچ سکتا ہے کہ ا ُس وقت کیا
حالت ہوتی ہے جب لوگ آپ کو کوئی الل ّٰ ہ واال سمجھ کر آپ سے د ُعا
کرنے کو کہیں اور آپ کو اپ نا آپ خالی دکھائی دے ,میں ڈر جاتا ہوں,
اور جس ال ل ّٰ ہ والے کو میں جانتا ہوں ا ُسے یاد کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں
"الل ّٰ ہ پاک خیر کرسی" تو میں بھی کہہ دیتا ہوں "الل ّٰ ہ خیر کرے گا"
جب میں کہہ دیتا ہوں تو مجھے پھر سے خوف آتا ہے کہ اگر ا ِس کی
د ُعا قبول نہ ہوئی تو ا ِس کا آج کے الل ّٰ ہ والوں پر یقین اور گھٹنے کا
خدشہ ہے اور اگر د ُعا قبول ہو گئی تو مجھ پے یقین بڑھنے کا اندیشہ
ہے ,تو ال ل ّٰ ہ نے اگر ا ُن کی د ُعا قبول کرنی ہے تو میرے کہے بغیر
بھی پوری کر دے گا میں کیوں الل ّٰ ہ اور بندے کے بیچ د ُعائیں قبول
کروانے واال بن کے بیٹھ وں۔؟ میں نے کسی سے نہیں کہا کہ میں کچھ
ہوں۔" کہتے کہتے ا ُس کی آواز ب ھَ ّر ا سی گئی۔ "میں کوئی نہیں ہوں,
85
جو ہیں وہ میرے ُم رشد پاک ہیں۔ یہ بات میں نے لوگوں کو سمجھانے
کی بہت کوشش کی کہ اصل ذات میرے ُم رشد پاک کی ہے ,میں نے
سب کو اس ِم الل ّٰ ہ ذات کی دعوت دی لوگوں نے ذکر بھی لیا لیکن سب
کو اپنی دنیا پیاری ہے ,میں نے الل ّٰ ہ میاں سے بھی کہا کہ آپ کیوں
پوری کر دیتے ہیں ہر بات۔؟ اگر وہ میری ہر بات کو پورا نہ کریں تو
بھی ا ِن لوگوں سے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تو میں
نے یہ راہ اختیار کی۔ اور الحمد لل ّٰ ہ سکون ہے مجھے۔ میں لوگوں کو
چ ا ہوں میں۔صوفی ساب بن کے دھوکہ نہیں دینا چاہتا۔ ابھی تو بہت ک ّ
جس دن مجھے لگا کہ پک گیا ہوں ا ُس دن میں خود لوگوں کو آواز
دے کر بالؤں گا لیکن ابھی مجھے میرے حال پے چھوڑ دو ا ُس کے
کزن نے مسکراتے ہوئے کہا "اچھا چلو چھوڑ دیا آپ کو آپ کے حال
پے لیکن شریعت اور طریقت میں سے کیا اہم ہے یہ تو بتاؤ" تو ا ُس
نے کہا "شریعت ظاہر ہے اور طریقت باطن ہے۔ ہم لوگ باطن
سنوارے بغیر ہی ظاہر سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں ا ِس لیے سارے
مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ نیت باطن کا
ح صّ ہ ہے ہم دین ایک دوسرے پر اور خود پر بھی تھوپنے کی کوشش
کرتے ہیں۔ ڈنڈے کے زور پر اعمال کی ادائیگی سے ہم جسم کو تو
عادی بنا لیتے ہیں لیکن دل۔؟ دل نہیں راضی ہوتا ,دل تب تک نہیں
مانتا جب تک کہ وہ خود سے نہ جان لے۔ اسی لیے اولیاء کرام لوگوں
کے دلوں کی تربیت کرتے ہیں۔ اکثر پہاڑ جیسے اعمال پے انسان کو
وہ مقام حاصل نہیں ہو پاتا جو ایک چھوٹی سی نیت پے مل جاتا ہے۔
تو میں یہ کہوں گا کہ شریعت اور طریقت کی ضرورت اور حقیقت
میں بھی ا ُتنا ہی فرق ہے جتنا کہ عمل اور نیت میں ہے۔ عمل ,نیت
کے بغیر ادھورا ہے لیکن نیت ,عمل کے بغیر بھی کچھ مق ام رکھتی
ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محض نیت کی جائے اور
عمل ترک کر دیا جائے بلکہ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نیت کو
ا ِس قدر خالص کیا جائے کہ وہ خود بہ خود عمل سے ظاہر ہو۔ رسول
ال ل ّٰ ہ صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم نے ہر حال میں نماز قائم رکھنے کا
ح کم دیا ہے ,کسی بھی حال میں نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے, ُ
لیکن پھر بھی ہم عام لوگوں سے نماز چ ھُ وٹ ہی جاتی ہے اور ہمیں
احساس بھی نہیں ہوتا ,کیوں کہ ہم نماز اس لیے نہیں پڑھتے تاکہ نماز
86
قائم کر سکیں بلکہ ا ِس لیے پڑھتے ہیں کیونکہ یہ فرض کی گئی ہے۔
جب ہم ا ِسے محض ف رض سمجھ کر ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو
نماز کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کو کہتے س ُ نا ہے کہ
ہم نماز تو پڑھتے ہیں لیکن یہ ہمیں گناہوں سے نہیں روکتی۔ نماز کا
اصل مقصد الل ّٰ ہ کی یاد قائم کرنا ہے۔ جب ہم نماز شروع کرتے ہیں تو
پہال خیال ہم یہ کرتے ہیں کہ ہم الل ّٰ ہ کے سامنے موجود ہیں ,وہ ہمیں
دیکھ اور س ُ ن رہا ہے ,پھر تمام ب ُ رے خیالوں سے بچتے ہوئے باقی کی
نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن نماز ختم ہونے پر ہم بھول
جاتے ہیں کہ الل ّٰ ہ ہمیں دیکھ اور س ُ ن رہا ہے۔ بزرگا ِن دین نے ظاہری
نماز ا ِس لیے ترک نہیں ک ی کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو عام لوگ ا ِس
کی مثال بنا لیتے اور نماز ترک کرنا شروع کر دیتے اور ا ِس طرح
ایک عام انسان کے گمراہ ہونے کا احتمال تھا ا ِس لیے کامل ب ُ زرگا ِن
دین نے نماز کی سخت سے سخت پابندی کی اور لوگوں کو بھی یہی
حکم دیا۔ نماز فرض ادا کرنے کی نہیں ہے بلکہ قائم کرنے کی چیز
ہے۔ کیا کوئی شخص الل ّٰ ہ کے حضور اپنا فرض پورا کر سکتا ہے۔؟
اس ٹوٹی پھوٹی عبادت سے تو کیا ,ہم اپنی جان دے کر بھی بندگی کا
حق ادا نہیں کر سکتے۔ تو انسان کو چاہیے کہ جتنی شریعت اپنانا ا ُس
کے بس میں ہو ,اپنائے اور ا ُسے بڑھانے کی کوشش کرتا رہے اور
اپنے اعمال کے پیچھے موجود اپنی نیت کو بہتر سے بہتر کرنے کی
کوشش کرتا رہےُ ,م رشد ُم رید کی نیت ہی کی تربیت کرتا ہے تاکہ وہ
ُم رید کے عمل سے ظاہر ہو سکے ,جب نیت س ُ دھرتی ہے تو عمل خود
با خود درست ہو جاتا ہے ,اب وہ عمل لوگوں کو نظر آتا ہے یا نہیں
ا ِ س چیز کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے۔ لیکن جو شخص لوگوں کو
دعوت دے رہا ہے ا ُس کے لیے ا ِس چیز کا دھیان رکھنا بھی واجب
ہے کہ لوگ ا ُس کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں کیونکہ وہ لوگوں
تک ہدایت پہنچانے کا ذریعہ ہے اگر وہ شریعت کی پابندی نہیں کرے
گا اور راہ سے بھٹکے گا ت و اپنے ساتھ باقی لوگوں کا بھی نقصان
کرے گا ,ا ِس لیے ایسا شخص س ُ لطان باہو رح کی تعلیمات کے مطابق
ُم رشد کہالنے کے الئق نہیں ہے ,لیکن ا ِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ
جو شریعت پے پوری طرح کاربند نہ ہو وہ ُم رید کہالنے کے الئق بھی
نہیں ہے۔ ُم رید کو چاہیے کہ طریقت کے س اتھ ساتھ شریعت پر بھی
87
دھیان دے تاکہ کاملیت کی جانب سفر کر سکے لیکن اگر وہ ایسا نہیں
کر پاتا تو ا ِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ طریقت سے بھی نابلد رہے
گا۔" ا ُس کے کزن نے کہا "تیری بات مجھے ہضم ہو رہی ہے لیکن
پھر بھی کچھ کسر ہے ابھی بھی" ا ُس نے مسکرا کر کہا "ہا ں تھوڑی
سی کسر رہ جانی چاہیے کیوں کہ یہی کسر انسان میں آگے بڑھنے کی
چاہ کو بڑھاوا دیتی ہے۔"
88
''باب۔ '' 10
ا ُس کے کزن نے کہا "ہاں یہ تو ہے ,اچھا ایک بات اور ,یہ جو کہتے
ہیں کہ انسان کے درجات ب ُ لند ہوتے ہیں ,یہ کیا ہوتا ہے ,کیا ا ِس کی
کوئی حقیقت بھی ہے یا یہ کوئی خیالی بات ہے۔؟" ا ُس نے ہنس کے
کہا "لگتا ہے آج پھر ت ُو میرا امتحان لینے کے چکر میں ہے ,مجھے
نہیں لگتا کہ یہ سب جو ت ُو مجھ سے پوچھ رہا ہے ,وہ خود تجھے
معلوم نہیں ہے ,.اور جب تجھے پتا ہے تو مجھ سے پوچھنے کی کیا
ضرورت ہے۔؟" ا ُس کے کزن نے کہا "ہاں مجھے پتا ہے لیکن میں
جاننا چاہتا ہوں کے ایک تربیت یافتہ ُم رید جو سب کچھ پڑھ کے سیکھ
کے آیا ہے اور ایک ایسا ُم رید جو گھر بیٹھا ذکر فکر میں مصروف
ہے دونوں میں کیا فرق ہے" ا ُس نے ہنس کے کہا "اگر یہ بات تھی تو
ت ُو سیدھے سیدھے یہی سوال پوچھ لیتا ,خیر جہاں تک بات ہے فرق
کی تو فرق صرف طلب کا ہوتا ہےُ ,م رشد کی طرف سے کبھی کمی
نہیں ہوتی ,وہ سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے ,سب پے ایک سا
مہربان ہوتا ہے ,پھر جس کی جتنی طلب ہوتی ہے وہ ا ُتنا ہی حاصل
کر پاتا ہے ,جس جگہ ایک عام ُم رید تربیت حاصل کرتا ہے ا ُسی جگہ
س ُ لطان صاح ب کے اپنے بیٹے بھی ا ُسی ماحول میں تربیت حاصل کر
رہے ہیں۔ آپ (رح) چاہتے تو ا ُن کے لیے الگ انتظام فرما سکتے
تھے یا یوں کہتے کہ تم تو میرے بیٹے ہو تو تم پے ایسے ہی میری
نظر کرم ہے تمہیں تربیت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن آپ
(رح) نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ یہ شر یعت کا تقاضا تھا ,جسے آپ (رح)
نے پوری طرح نبھایا۔ اب آتے ہیں طریقت کی جانب ,جہاں ُم رشد کی
نظر سے سب کام چلتا ہے وہ چاہے تو ایک پل میں دل کھول دے اور
چاہے تو ُم رید کو آزمائے ,میں نے س ُ نا کہ ایک شخص س ُ لطان محمد
اصغر علی (رح) کی خدمت میں تربیت حاصل کرنے کے لی ے پیش ہوا
تو آپ (رح) نے ا ُسے تربیت گاہ میں جانے کو کہا جب وہ شخص ایک
طویل سفر کرنے کے بعد تربیت گاہ میں داخل ہو رہا تھا تو تربیت گاہ
میں موجود فون کی گھنٹی بجی وہاں موجود ا ُستا ِد محترم نے جب فون
ا ُٹھایا تو س ُ لطان محمد اصغر علی (رح) بات کر رہے تھے ,آپ نے
89
فر مایا "یہ جو شخص دروازے سے داخل ہو رہا ہے ا ِس سے کہو کہ
ا ِس کی تربیت ہو گئی ہے ,فالں جگہ جا کے بیان کیا کرے ۔ " ا ِس
واقعے سے صاف ظاہر ہے کہ طلب اور عطا کا میزان ُم رشد کی نگاہ
مقرر کرتی ہے۔ ایک ُم رید جس قدر اپنا آپ اپنے ُم رشد کو پیش کرتا
ہےُ ,م رشد کی ذات ا ُتن ا ہی ا ُسے عطا کرتی ہے اور اپنا آپ پیش کرنا
یہ نہیں ہے کہ ہم جا کے ا ُن کی خدمت میں پیش ہو گئے کہ ہم تربیت
کے لیے آئے ہیں بلکہ ُم رشد کو اپنا آپ پیش کرنا یہ ہے کہ ہم ا ُن کی
سکھائی راہ چلتے ہوئے اپنی خواہش کو الل ّٰ ہ کی رضا کے تابع کرنے
کی کوشش کریں ,زندگی کے ہ ر موڑ پر ُم رشد کی طرف سے ملنے
والے سبق پر دھیان دیں کہ ُم رشد ہمیں کیا سمجھانا چاہ رہا ہے۔ تو
جس نے اپنا آپ ُم رشد کو سونپ دیا وہ گھر بیٹھے بھی سیکھ سکتا ہے
اور جس نے اپنے ُم رشد کو اپنا آپ نہ سونپا وہ ُم رشد کے پاس رہ کر
بھی نہیں سیکھ سکتا۔ ایک بات اور کہہ دو ں کہ تربیت کر کے
تقوی
ٰ سیکھنے والے اور گھر بیٹھے سیکھنے والے میں موازنہ صرف
کی بنیاد پے کیا جا سکتا ہے۔ جو حکمت و دانائی ُم رشد کی صحبت
میں رہ کر سمجھ آتی ہے ا ُس کا کوئی بدل نہیں ہے لیکن الل ّٰ ہ کی عطا
پے زمان و مکاں کی قید نہیں ہے۔ اس لیے ُم ریدین کے بیچ ُم ر شد کی
عطا کے حوالے سے موازنہ کرنا بے سود ہے۔" اتنا کہہ کر وہ
خاموش ہوا تو ا ُس کے کزن نے کہا "ٹھیک ہے میں سمجھ گیا ,ویسے
یہ سوال میں نے تجھے دیکھنے کے لیے پوچھا تھا کہ ت ُو کیا سوچ
رکھتا ہے ,کہیں تیرے اندار تکبر کی غالظت تو اکھٹی نہیں ہو رہی,
اب سکون ہے مجھے لیکن ہر ایک کو تم یہ سب نہیں سمجھا سکتے,
خیر مجھ سے کئی لوگوں نے تیرے بارے میں بہت سے سوال کیے
ا ِس لیے میں یہ سب پوچھ رہا ہوں ,چلو اب درجات والے سوال کا بھی
جواب دو ۔ ا ُس کا کزن واپس اپنے سوال پر آیا تو ا ُس نے مسکراتے
ہوئے کہا " ا ِس کا مطلب ت ُو سارے جواب جان تے ہوئے بھی مجھ سے
جواب لیے بغیر میری جان نہیں چھوڑے گا۔؟" تو ا ُس کے کزن نے
شوخی سے کہا "زندگی کے پرچے میں سب سوال الزم ہیں ,..چلو
شروع ہو جاؤ۔" ا ُس نے بےچاری سی شکل بنا کر کہا "چل اب ساری
رات ت ُو نے میری ہی س ُ ننی ہے تو یہ بھی س ُ ن لے۔ جسم مٹی ہے اور
روح ال ل ّٰ ہ کا نور ہے ,ہر انسان کا جسم آج بھی زمین پے اپنی ماں کے
90
پیٹ میں تیار ہوتا ہے اور روح آسمان سے بھیجی جاتی ہے۔ اس کا
مطلب کہ انسان کا جسم زمین سے ا ُٹھتا ہے اور روح آسمان سے نازل
ہوتی ہے۔ تمام نور ایک ہے ,مطلب ا ُس میں دوئی نہیں ہے اور نور
ایک لباس سے دوسرے لباس میں داخل ہو جانے سے ٹوٹتا نہیں ہے۔
الل ّٰ ہ کا ن ُ ور ,ایک سمندر کی مانند ہے۔ سوچو کہ جو ذات ہر جگہ
موجود ہے ا ُس نے یقینا ً سمندر کی مانند ہمیں گھیر رکھا ہو گا۔ اب
سوچو کہ ا ُس نور کے سمندر کے الگ الگ درجوں کے پانی کو الگ
الگ نام دے دیے گئے ,کسی درجے کو ع رش و ک ُ رسی کا نام دیا گیا
تو کسی درجے کو جنت اور کسی درجے کے نور کو مالئکہ یا
او ل درجے کے نور کو انسان کہا اور فرشتوں کا نام دیا۔ ا ُس نے ّ
آخری درجے کو جنات کہہ کر پکارا۔ نور کے سمندر کے ب ُ لند ترین
قطروں کو یعنی انسان کو آزمائش کی خاطر پست ترین مقام یعنی
زم ین پر ا ُتارا جاتا ہے۔ جب یہ ایک قطر یا روح سفر کرتی ہوئی ب ُ لند
ترین مقام سے پست ترین مقام یعنی زمین تک پہنچتی ہے تو اپنے
پیچھے ایک راستہ چھوڑ آتی ہے۔ انسان اپنے اچھے ب ُ رے اعمال اور
نیتوں سے ا ُس راستے کے قریب یا دور ہوتا ہے۔ جس کے اندر جتنا
ح ب ہو گا وہ ا ُت نا ہی ا ُس راستے پے آگے جا سکتا ہے۔ یہ راستہ اصل ُ
میں الل ّٰ ہ کی جانب واپسی کا راستہ ہے کہ جس ب ُ لند ی سے ا ُتار کر
تمہیں زمین پے بھیجا گیا ہے ,اگر تم الل ّٰ ہ کے ساتھ خ الص ہو جاؤ تو
تم واپس ا ُسی ب ُ لند ی کو پہنچ سکتے ہو۔ ا ِس جسم میں رہتے ہوئے
انسان کا دل الل ّٰ ہ کے جتنا قریب یا دور ہوتا جاتا ہے ا ُس کے ا ُس کے
درجات ا ُتنے ہی ب ُ لند یا پست ہوتے جاتے ہیں۔ ا ِن درجات کی ب ُ لندی
کے سفر میں ایک حد تک کے درجات عمل سے حاصل کیے جا سکتے
ہیں" وہ ایک پل ُر کا تو ا ُس کے کزن نے تجسس سے پوچھا "کس حد
تک۔؟" ا ُس نے مسکرا کر کہا "وہی بتا رہا ہوں ,ابلیس کی حد تک کے
درجات محض عمل سے حاصل کیے جا سکتے ہیں ,مطلب یہ کہ ایک
شخص جس کے دل میں الل ّٰ ہ کی محبت نہیں ہے وہ محض عباد ا ت کر
کے وہاں تک پہنچ سکتا ہے جہاں تک ابلیس پہنچا تھا ,ا ُس کے دل
میں الل ّٰ ہ کے لیے سب کچھ تھا بس محبت نہیں تھی ,وہ عابد ,زاہ د,
حب ح ب سے خالی تھا کیونکہ اہ ِل ُ
عالم ,فاضل ,سب کچھ تھا مگر ُ
تکبر نہیں کرتے ,وہ جس مقام تک پہنچا ا ُس مقام تک کوئی بھی انسان
91
ح ب سے خالی عباد ا ت کر کے بھی پہنچ سکتا ہے ۔ ا ِس سے آگے کے ُ
درجات عشق سے طے کیے جاتے ہیں ,ابلیس سے آگے کے درجات
کے بھی الگ الگ مقام او ر الگ الگ رنگ ہیں ,ا ِن تمام مقامات یا
درجات کو اکھٹا کر کے مقام انسان کہا جاتا ہے ,مقا ِم انسان کی ابتدا
یہاں سے ہوتی ہے کہ انسان دوسرے لوگوں کے لیے بے ضرر ہو
جائے۔ پھر مقام آتا ہے اپنی اصالح کا۔ اپنی اصالح کرنا ایک طویل
سفر ہے بلکہ جب تک انسان اپنے جسم کی قید میں ہے اپنی اصالح کا
سفر جاری رہتا ہے ,انسان میں ایک خاصیت یہ ہے کہ جیسے دنیا میں
ایک ہی شخص الگ الگ درجات رکھتا ہے مث ال ً وہ کسی کا بیٹا ہے,
کسی کا بھائی ہے ,ا ُسی طرح باطن میں جب کوئی اپنی اصالح کا سفر
شروع کرتا ہے تو ا ُس کے درجات اکھٹے ہونا شروع ہو جا تے ہیں
اسی اصالح کے سفر میں انسان کی عشق سے ُم القات ہوتی ہے اور
جب عشق آتا ہے تو انسان درجات و مقامات کی قید سے آزاد ہو جاتا
ہے۔ "
ا ُس کے کزن نے کہا "تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ لوح ِ محفوظ
وغیرہ پڑھ لینا ,ظاہری زندگی میں کسی کے آج اور کل کا اندازہ کر
لینا کسی بھی علم سے حاصل کیا جا سکتا ہے ,یعنی جو لوگ کسی
کے دل کا حال بتا دیتے ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے؟ "
ا ُس نے کہا "ہاں یہی بات ہے لیکن ضروری نہیں کے دل کا حال بتا
دینے والے سب لوگ غلط یا صحیح ہی ہوں ,لیکن محض ا ِس بات پر
کہ کوئی شخص آپ کی پوشیدہ باتوں کا ع لم رکھتا ہے ,کسی کو راہبر
نہیں مان لینا چاہیے ,جب تک کہ آپ کا دل نہ بدلے۔ اگر کسی کی
صحبت سے آپ کا دل بدلتا ہو تو ا ُس شخص کو ضرور راہبر تسلیم
کیجیئے لیکن اگر کوئی شخص لوگوں کو محض کرتب دکھاتا رہتا ہے
اور ا ُن کے دل نہیں بدلتا تو ایسے شخص کے پیچھے نہیں چلنا
چاہیے۔ انسان کے درجات ا ُس کے چہرے سے ,قول و فعل سے ظاہر
ہو جاتے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنہیں لوگ ا ُن کے
اعمال کی وجہ سے جانوروں کے نام سے پ ُ کارتے ہیں کیونکہ وہ لوگ
چ کے ہوتے ہیں کہ ا ُن کی اپنی روح کے درجات میں ا ِس قدر پست ہو ُ
زندگی کسی جانور کے مقام پر گزر رہی ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص
ال ل ّٰ ہ کی محبت میں عبادت کرتا ہے تو ا ُس کے درجات ذیادہ تیزی سے
92
ب ُ لند ہوتے ہیں اکثر لوگ درجات کے ا ِس سفر میں دنیا ,نفس اور
شیطان کا شکار ہو جاتے ہیں ,کسی کو لوگوں کی عقیدت لے بیٹھتی
ہے اور کسی کو دنیا کی نعمتیں راہ سے پھرنے پ ے مجبور کر دیتی
ہیں۔ ا ِن دونوں سے بچ کر جو آگے نکلتے ہیں شیطان ا ُنہیں تکبر میں
ڈالنے کی کوشش کرتا ہے جو ا ِس سے بھی بچ جاتے ہیں ,شیطان
انہیں راہ سے بھٹک جانے کے خوف سے میں ُم بتال کرتا ہے اور جو
ا ُس مقام پر یہ کہہ دے کہ راہ اور گمراہی الل ّٰ ہ ہی کی طرف سے ہے
اور میں ا ُس کی حکمت پے ا ُس سے راضی ہوا ,تو شیطان دفع ہو جاتا
ہے۔ جو شخص الل ّٰ ہ سے ہر حال میں راضی ہونے کی کوشش شروع
کر دیتا ہے الل ّٰ ہ ا ُسے اپنا ق ُ رب عطا کرنا شروع کر دیتا ہے اور جسے
ق ُ رب عطا ہونا شروع ہو جائے وہ باقی مقامات سے آزاد ہو جاتا ہے
پھر وہ را ہِ ق ُ رب کا راہی بن جاتا ہے اور ا ُس راہ کے درجات طے
کرتا ہے۔ جب تک انسان ا ِس جسم میں زندگی گزار رہا ہے تب تک
ا ُس کے درجات کے پست ہونے کا خدشہ رہتا ہی ہے لیکن را ہِ ق ُ رب
میں ایک ایسا مقام بھی ہے جس تک پہنچ جانے واال کبھی رد نہیں
ہوتا مطلب جو مقام ا ُسے عطا کر دیا گیا وہ مقام ا ُس سے کبھی واپس
نہیں لیا جاتا ,خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو جائے۔ میرے خیال میں
درجات کی اتنی وضاحت سے آپ کو بات اب ٹھیک سے سمجھ آ گئی
ہو گی کہ ُم رشد پاک نے میرا ظاہر واپس پ ُ رانے واال کر دیا ہے لیکن
شیو کر لینے سے ,جینز پہن لینے سے میرے دل کا حا ل نہیں بدل دیا
گیا۔ اب بول میں امتحان میں پاس ہوا یا فیل۔؟" ا ُس کے کزن نے
شرارت سے کہا "جاؤ کیا یاد کرو گے 77نمبر دے دیتا ہوں میں آپ
کو"۔ "اپنے پاس رکھ اپنے 77نمبر" ا ُس نے ناراض ہونے کی
ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا "تیرے 77نمبر کی ضروت نہیں ہے مجھے,
بات کر کر ک ے میرا حلق خشک ہو گیا اور صرف 77نمبر۔؟ سچ
کہتے ہیں گھر کا ُم رغا دال برابر" ا ُس کے کزن نے شریر لہجے میں
کہا " ُم رغا نہیں ُم رغی ۔
ا ُس رات ا ُس کے کزن نے ا ُس سے بہت سے سوال پوچھے اور ا ُسے
خوشی ہوئی جان کر کہ ا ُس کا کزن ا ُس کی اتنی فکر کرتا ہے۔
درحقیقت ایک دوسرے کی ایسی فکر س ُ لطان محمد اصغر علی (رح)
93
کے تقریبا ً سارے ُم ریدین میں پائی جاتی تھی۔ اور یہی فکر ایک
دوسرے کو آگے سے آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی تھی۔
''باب۔ '' 00
ا ُس کے بڑے کسی اور سلسلے کے ب ُ زرگ کے ُم رید تھے لیکن ا ُس
نے اور ا ُس کے بہن بھائی وغیرہ نے س ُ لط ان محمد اصغر علی (رح)
ت بیعت تھام لیا تھا ا ِس لیے اکثر ا ُس کے بڑے ا ُس سے ا ُس کے کا دس ِ
ُم رشد کے بارے میں طرح طرح کے سواالت کرتے جن کا مقصد
عموما ً یہ ثابت کرنا ہوتا کہ ہمارے ُم رشد تمہارے ُم رشد سے ذیادہ
پہنچ والے اور پاکباز ہیں۔ کوئی اور ہوتا تو شاید وہ ا ُسے جواب بھی
نہ دیتا لیکن اپنے بڑوں کے احترام میں ا ُن کے سواالت کا جواب دینا
ا ُس نے ضروری سمجھا۔ ا ُس سے پوچھا گیا کہ الل ّٰ ہ والے تو گوشہ
نشین ہوتے ہیں ,عام لوگوں سے دور رہتے ہیں تو تمہارے ُم رشد نے
جماعت کیوں بنائی ہوئی ہے۔؟ ہر چھوٹے بڑے شہر میں ا ُن کے دفتر
کیو ں ہیں۔؟ اور مریدین کی تربیت کے لیے باقائدہ تربیت گاہ اور
تربیتی کورس بھی ہےُ ,م رشد کو کیا ضرورت ہے ُم ریدین کو کتابیں
پڑھانے کی۔؟ تو ا ُس نے کہا کہ "میرے ُم رشد پاک س ُ لطان محمد اصغر
علی (رح) نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسی جماعت ہو
جو اولیاء کی تعل یمات قرآن و س ُ ن ّ ت کی روشنی میں لوگوں تک
پہنچائے ,اس مقصد سے آپ (رح) نے اصالحی جماعت و عالمی تنظیم
العارفین کے نام سے ایک جماعت تشکیل دی اور اپنے قریبی ساتھیوں
کے ساتھ ا ِس مشن کی تکمیل میں لگ گئے۔ آپ (رح) نے ا ِس مشن کی
تکمیل کے لیے اپنی زندگی اپنا گھر بار ا پنی اوالد سب کچھ وقف کر
دیا۔ ا ِس جماعت کی تربیت کے لیے آپ (رح) نے ایسا تربیتی کورس
تیار کروایا جس میں کچھ خاص مضوعات پے بات کی گئی مث ال ً انسان
کی تخلیق کے اغراض و مقاصد کیا ہیں انسان کیوں آیا ا ِس دنیا میں
اور ا ِسے کہاں جانا ہے۔ یہ وہ بنیادی سوال ہیں جو ہر ایک کے دل
میں رہتے ہیں ,اصل میں یہی سوال دل کی گرہ ہوتے ہیں جس انسان
کو پتا ہی نہیں ہے کہ الل ّٰ ہ نے ا ُس کی تخلیق کیوں کی ہے وہ کسی
بھی مذہب یا مسلک میں رہ کر ا ُلجھا رہے گا ,جب ا ُسے اپنے بنیادی
94
سواالت کا جواب ِم ل جاتا ہے تو ا ُس کے دل کی گرہ ک ُ ھل جاتی ہے,
عا م طور پے ہمارے ہاں ایسے سوال پوچھنے یا سوچنے کی اجازت
ہی نہیں دی جاتی۔ مجھ سے ایک دفعہ میرے چھوٹے بھائی کے دوست
نے پوچھا "الل ّٰ ہ کون ہے اور کہاں سے آیا ,کیا ا ُس سے پہلے بھی
کوئی تھا۔؟" پھر شرمندہ سے لہجے میں کہا "میں نے یہ سوال کئی
لوگوں سے کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا بلکہ اس سوال کے جواب
میں میں نے بہت سخت الفاظ میں ڈانٹ بھی کھائی کہ ایسی سوچ نہیں
رکھنی چاہیے ,ایک دو نے جواب بھی دیا کہ نہ تو ا ُس سے پہلے کچھ
ہے اور نہ ا ُس کے بعد کچھ ہو گا ,وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے
گا ,لیکن ا ِس بات سے میرے دل کو تسلی ن ہیں ہوئی اور جب یہ بات
کسی سے کہہ دو کہ دل کی تسلی نہیں ہوئی تو لوگ کہتے ہیں کہ
تمہارے دل پے مہر لگ گئی ہے کہ قرآن و حدیث کی بات س ُ ن کر بھی
تمہارے دل کی تسلی نہیں ہوتی ,نماز پڑھا کروں ,شلوار قمیض پہنا
کرو ,یا کسی اور نصیحت پے بات شروع ہو جاتی ہے ,لیکن دل ک ی
تسلی نہیں ملتی۔" تو میں نے ا ُس سے کہا کہ "تم نے لفظ ُم عجزہ س ُ نا
ہو گا ,معجزات الل ّٰ ہ کا امر ہوتے ہیں ,ہم سب مانتے ہیں کہ معجزات
موسیٌ نے عصا پھینکا مگر ٰ ظاہر کرنے واال الل ّٰ ہ ہی ہے۔ حضرت
ا ُسے اژدھا الل ّٰ ہ نے بنایا ,اب سوچو کہ معجزہ صرف الل ّٰ ہ کی ذات سے
ک یوں منسوب ہوتا ہے۔؟ تو ا ِس کا جواب یہ ہے کہ الل ّٰ ہ اپنے آپ میں,
اپنی ذات کا سب سے بڑا معجزہ خود ہے ,وہ ایسی ذات ہے جو خود
ہی خود سے ہے ,اور ایسی ذات اور کوئی نہیں ہے جو ہمیشہ سے ہو
اور ہمیشہ رہے تو وہ اپنے آپ کا خود ہی سب سے بڑا معجزہ ہے,
ا ِس لیے تمام معجز ات ا ُس کی ذات سے منسوب کیے جاتے ہیں۔" میرا
جواب س ُ ن کر وہ مطمئن ہو گیا ,میں نے ا ُسے کوئی ایسی بات نہیں
بتائی جو وہ پہلے سے نہیں جانتا تھا لیکن کسی بھی بات کو حکمت
سے بیان کیا جائے تو لوگوں کے دل تک پہنچا جا سکتا ہے ,جب کسی
کتاب کا پہال سبق ہی غائب کر دیا ج ائے تو کتاب کیسے سمجھ آئے
گی۔؟ اکثر جب ہمارے پہلے سوال کا جواب ہمیں نہیں ملتا تو دوسرا
سوال پوچھنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔ لوگ انہی الجھنوں میں زندگی
گ ُ زار دیتے ہیں کہ شاید میری نماز صحیح نہیں ہے یا دل پے ُم ہر لگ
چ کی ہے اب میں دین سمجھنے کے الئق ہی نہیں رہا ,ا ِس لیے ُ
95
معاشرے میں ایسے لوگ ہونے چاہیے ہیں جو لوگوں کو ا ِن بنیادی
الجھنوں سے نکال کر الل ّٰ ہ کی جانب بڑھنے کا حوصلہ دے سکیں۔ یہی
وہ چیز ہے جو س ُ لطان محمد اصغر علی (رح) نے اپنے مریدین کو
سکھائی ,جب ایک ُم رید کے اپنے دل کی گرہ کھل جاتی ہے تو وہ
دوسروں کے دل کی گرہ کھولنے کے الئق ہو جاتا ہے ,اگر کسی
بزرگ ہستی نے ا ِس ترتیب کو عام کرنے کی کوشش کی تو یقینا ً انہوں
نے ایک اچھا عمل سرانجام دیا بلکہ میں تو کہتا ہوں اولیاء کے دیگر
سلسلوں کو بھی ا ِس کوشش کا ح صّ ہ بننا چاہیے اور اگر آپ لوگ ا ِس
کوشش کا ح صّ ہ نہیں بننا چاہ تے تو کم از کم ا ِس کے خالف تو َم ت
جائیں۔ "
ا ُس سے کہا گیا کہ "تمہارے ُم رشد پاک اتنی بڑی جماعت چال رہے
ہیں ,ظاہر ہے ُم ریدین ہی ساری فنڈنگ کرتے ہوں گے ,تو پھر تو یہ
پیسے کا کھیل بھی تو ہو سکتا ہے" ا ُس نے ا ِس سوال کا جواب کچھ
یوں دیا کہ "یہ سب پیسے اکھٹے کرنے کا ڈھنگ نہیں ہے ا ِس کی سب
سے بڑی دلیل ہمارے اپنے دل کا بدالؤ ہے جو ہمیں ہمارے ُم رشد کا
گرویدہ بناتا ہے۔ اور بات یہ ہے کہ کسی ُم رید سے جبر ا ً پیسے نہیں
لیے جاتے ,جس کا دل مانتا ہے وہ فنڈنگ کرتا ہے ,ہم سب لوگ اپنے
اپنے انداز سے الل ّٰ ہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ,کوئی غریبوں کو اپنا
مال دینا ,الل ّٰ ہ کی راہ میں خرچ کرنا سمجھتا ہے تو کوئی رشتے
داروں یا دوستوں کی مدد کرنا افضل سمجھتا ہے ,کوئی مسجد ,مندر
کے ڈبے میں پیسے ڈال کر اپنے رب کی راہ میں خرچ کرنے کا س ُ کھ
حاصل کرتا ہے۔ ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ ا ُس کے خون
پسین ے کی کمائی بہترین مصرف تک پہنچے ,تو ہمیں اپنے ُم رشد پاک
کے پیغام کو عام کرنا الل ّٰ ہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بہترین ذریعہ
محسوس ہوتا ہے۔ اور ا ِس سے بہتر پیغام کیا ہو گا کہ "دوڑو ,..الل ّٰ ہ
کی طرف" ہم جانتے ہیں کہ وہ حق کا پیغام دے رہے ہیں ا ِس لیے ہم
تنَ ,م ن ,دھن سے ا ُن کے ساتھ ہیں اور ہم سے جو ہو سکا ہم ضرور
کریں گے۔ "
ایک اور سوال جو ا ُس سے کئی بار پوچھا گیا وہ یہ تھا کہ اسالم میں
تصویر بنانا منع ہے تو آپ کے ُم رشد پاک تصویر کیوں بنواتے ہیں۔؟"
اور ا ُس کا جواب یہ تھا کہ "اسالم ہر گناہ کو جڑ سے ختم کرنے پے
96
زور دی تا ہے ,تصاویر کی ممانعت ا ِس لیے کی گئی کیونکہ پہلے
زمانوں میں لوگ الل ّٰ ہ کے برگزیدہ بندوں کی تصویر یا ب ُ ت بنا کر ا ُن
کی پرستش شروع کر دیتے تھے رسول الل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم
اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ لوگ ایسی ہی عقیدت رکھتے ہیں کہ
اگر ہمارے پاس ا ُن کی تصاویر ہوتیں تو ہم کچھ ایسا ہی کرتے اور
شاید ا ُن کی تصاویر ا ِس لیے بھی نہیں ہیں کیونکہ ہم میں سے بہت
سے لوگ ُر خ ِ انور کا نظارہ کرنے کے الئق ہی نہیں ہیں۔ لیکن وقت
گ ُ زرنے کے ساتھ ساتھ اولیاء کی تصاویر بنائی گئیں اور اولیاء نے
لوگوں کو اپنی تصویر بنانے کی اجازت بھی دی۔ ہر تصویر ہمارے
اندر ایک تصور بناتی ہے اور آج کے دور میں جب ہمارے اندر باہر
طرح طرح کی تصاویر موجود ہیں جو ہمیں دنیا ,نفس ,اور شیطان کی
جانب ب ُ التی ہیں ,ایسے دور میں ایسی تصاویر کی ضرورت ہے جو
لوگوں کو الل ّٰ ہ کی یاد دالئے ,جب ہم مکہ ,مدینہ کی تصاویر دیکھتے
ہیں ,یا اپنی آنکھوں سے کسی عبادت گاہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں الل ّٰ ہ
کی یاد آتی ہے اور ُم رشد کیونکہ اپنے ُم رید کے لیے الل ّٰ ہ کی راہ کا
راہبر ہوتا ہے ا ِس لیے ُم رید کو اپنے ُم رشد کی تصویر دیکھ کر الل ّٰ ہ
کا خیال آتا ہے ,تو ٹیکنالوجی کا استمعال کر کے اگر کوئی ُم رید الل ّٰ ہ
کو یاد کر سکتا ہے تو کیوں نہ کرے ,تصویر سے منع کرنے والے
شناختی کارڈ ,پاسپورٹ وغیرہ کے معاملے میں 'مجبوری ہے' کہہ کر
تصویر کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن لوگوں کے دلوں میں الل ّٰ ہ کی
یاد پیدا کرنے کے لیے وہی چیز کام کر رہی ہو تو نقطے ا ُٹھانا شروع
کر دیتے ہیں ,فلمیں ,ڈرامے دیکھنے والے لوگ جب کسی ال ل ّٰ ہ والے
کی گفتگو کی ویڈیو پر اعتراز کرتے ہیں تو مجھے بہت عجیب لگتا
ہے کہ اگر ہم نے انگلی ا ُٹھانی ہے تو ہم ب ُ رائی پے کیوں نہیں
ا ُٹھاتے۔؟ کسی فلم اسٹار کی اچھی ب ُ ری تصویریں دیکھتے ہوئے ہمیں
یاد کیوں نہیں آتا کہ تصویر بنانا منع ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہم سب
تصویریں ہی بناتے رہتے ہیں۔ رسول الل ّٰ ہ کی نماز کی تصویر بنانے
کی کوشش کرتے ہیں ,ا ُن کے اعمال اور اخالق کی تصویر بنانے کی
کوشش کرتے ہیں ,ہم ہر جگہ تصویر ہی تو بنا رہے ہوتے ہیں ,بہت
سے لوگ یہاں تک م انتے ہیں کہ تصاویر کی موجودگی میں نماز ہی
نہیں ہوتی ,تو یہ سچ ہے کہ تصاویر کی موجودگی میں نماز قاب ِل
97
قبول نہیں ہوتی لیکن یہ کمرے کی دیواروں پے لگی تصویروں کی
بات نہیں بلکہ دل کی دیواروں پے لگی تصویروں کی بات ہے کہ جب
انسان الل ّٰ ہ حضور حاضر ہو تو ا ُس کے دل میں الل ّٰ ہ کے سوا کوئی
تصویر نہ ہو ,اسی مقصد سے اولیاء کرام الل ّٰ ہ کے نام کا تصور کر
کے نماز ادا کرنے کا درس دیتے ہیں۔ نماز کے طریقے میں ہمیں قبلہ
ُر خ سے لے کر ہمارے چہرے اور پیروں کی ا ُنگلیوں تک کا ُر خ بتایا
جاتا ہے لیکن دل کا ُر خ نہیں بتایا جاتا ,نماز م یں پڑھی جانے والی
آیات کا تلفظ تو بتایا جاتا ہے مگر نماز کا تصور نہیں بتایا جاتا۔ اگر
ہم الل ّٰ ہ کے نام کا تصور کر کے نماز ادا کریں تو نماز میں خیال کو
بھٹکنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ُم رشدُ ,م رید کو اس ِم ال ل ّٰ ہ کا تصور
دے کر ا ُس کا گ ُ مان درست کرتا ہے اور جب ُم ر ید کی توجہ اس ِم ال ل ّٰ ہ
پر مرکوز ہو جاتی ہے تو دورا ِن نماز ا ُس کا خیال بھٹکتا نہیں ہے اور
جب یہ تصور قائم ہو جاتا ہے تو ا ُس کی نماز بھی قائم ہو جاتی ہے۔"
ا ُس کے دوستوں ,رشتے داروں وغیرہ نے ا ُس سے ا ُس کے ُم رشد کے
بارے میں بہت سے سوال کیے۔ ا ُس نے اپنی طرف سے بہترین
جوابات دینے کی کوشش کی ,کسی کو بات سمجھ آئی اور کسی کو
نہیں آئی۔ لیکن ا ِس سب سے ا ُسے سمجھ آیا کہ اولیاء کرام کے
چ کے ہیں, سلسلوں میں بھی بہت سے لوگ توحید کے درس کو بھول ُ
ہر دوسرا شخص اپنے ُم رشد کو بہتر اور دوسرے کے ُم رشد کو کمتر
ثابت کرنے کی کوشش میں ہے ,الگ الگ سلسلوں کے ُم رید جب مل
بیٹھتے ہیں تو اکثر ا ُن کی گ ُ فتگو کا مقصد صرف دوسرے شخص پر
اپنے پیر کی بڑائی ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے
کہ یہ میرے پیر کا ُم رید ہو جائے۔ جبکہ ہر شخص جانتا ہے کہ بیعت
نصیب سے ہوتی ہے ,جس ولی بزرگ کے پاس کسی ک ا فیض ہو گا وہ
ا ُسی کا ُم رید ہو گا۔ بہترین عمل اور بہترین خواہش تو یہ ہے کہ
لوگوں میں الل ّٰ ہ کی جانب پلٹنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے ,ایک
ح بِ ٰال ہی کی ترغیب دی جائے اگر کسی کی بات میں اثر دوسرے کو ُ
ہو گا تو لوگ خود بہ خود ا ُس کے ُم رشد کے ُم رید ہونا چاہیں گے۔
لیکن افسوس کہ لوگ بس ایک دوسرے پے ا ُنگلی ا ُٹھانا جانتے ہیں۔
98
''باب۔ '' 01
ا ُس کی شادی کے پہلے دو سالوں میں الل ّٰ ہ نے ا ُسے ایک بیٹی اور
ایک بیٹے سے نوازا۔ ا ُس کی بہت خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کا نام
اپنے ُم رشد پاک سے پوچھ کے رکھے لیکن جب بھی ا ُن کے سامنے
جاتا تو سب بھول جاتا کہ کیا سوال کرنا تھا۔ س ُ لطان محمد اصغر علی
(رح) کے لیے صرف ا ُسی کی نہیں بلکہ تقریبا ً ہر ُم رید کی یہی
کیفیات تھیں۔ لوگ ٹ ِ ک ٹ ِ کی باندھے ا ُنہیں دیکھا کرتے اور دیکھتے ہی
رہ جاتے۔
ایک قلیل آمدنی کے باعث ا ُس کے معاشی حاالت مسلسل خراب ہی
رہتے لیکن وہ کبھی مایوس یا بہت ذیادہ پریشان نہیں ہو پاتا اور وہ
پریشان ہوتا بھی کیوں۔؟ ا ُس نے ہمیشہ سے یہی دیکھا کہ ہر ُم شکل
شروع شروع میں ُم شکل لگتی ہے اور بعد میں آسان ہو جاتی ہے۔
ایک روز ا ُس کی بیوی نے ا ُس سے اپنی کسی پریشانی کا ذکر کیا تو
ا ُس نے حسب معمول مطمئن لہجے میں کہا "الل ّٰ ہ خیر کرے گا" تو ا ُس
کی بیوی نے پوچھا "آپ ہمیشہ اتنے ُم طمئن کیسے رہتے ہیں ,کیا آپ
کو کسی مسئلے سے پریشانی نہیں ہوتی۔؟" تو ا ُس نے ُم سکرا کر کہا
"پریشان ہو کر ہم مسائل کو اپنے اوپر سوار کرنے کے سوا کچھ نہیں
کرتے ,اگر پریشان ہونے سے مسئلہ حل ہو جائے گا تو بتاؤ ,دونوں
مل کے پریشان ہوتے ہیں ,اور اگر پریشان ہونے سے حل نہیں ملنے
واال تو کیوں نہ الل ّٰ ہ سے پ ُ ر امید رہتے ہوئے مطمئن رہ کے کوشش
کرتے ہوئے الل ّٰ ہ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔؟ ہر مسئلے کا کوئی
نہ کوئی حل ہمیشہ موجود ہوتا ہے اور وقت آنے پے ظاہر ہو جاتا ہے۔
ا ُس حل تک پہنچنے کا سفر استقامت اور اضطراب دونوں سے طے
کیا جا سکتا ہے یہی استقامت اور اضطراب ہماری اپنی نظر میں
ہمارے ایمان کا فیصلہ کرتا ہے جو ہماری روح کے سکون یا پریشانی
کا باعث بنتا ہے۔ ال ل ّٰ ہ کو ہمیں آزمانے کی حاجت نہیں ہے ,یہ آزم ائش
99
تو ا ِس لیے ہوتی ہے تاکہ ہم خود اپنا آپ پہچان سکیں ,ہم سب خود ہی
اپنے اچھے ب ُ رے
کے گواہ ہوتے ہیں ,اپنے ایمان ,استقامت ,عجز ,عشق ,راہ یا گ ُ مراہی
پے ہم خود ہی دال ہوتے ہیں۔ دل کا سکون الل ّٰ ہ کی امان ہے اور
مایوسی اور پریشانی شیطان کا ہتھیار ہے جس کے ذری عے وہ لوگوں
کو الل ّٰ ہ سے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بدگمان کر کے ا ُن کا
ایمان کمزور کرتا ہے۔
" مطلب ,آپ پریشان نہیں ہوتے۔؟" ا ُس کی بیوی نے حیرت سے پوچھا۔
ا ُس نے کہا "ہو جاتا ہوں ,اکثر ایسی سوچ آتی ہے کہ کچھ غلط ہو
جائے گا لیکن پھر دل میں ُم رشد پاک کی آواز گونجتی ہے "الل ّٰ ہ پاک
خیر ک َرسی" اور دل کو یقین ہو جاتا ہے کہ خیر ہی ہو گی اور میں
چاہ کر بھی پریشان نہیں ہو پاتا۔ میرا فہم مجھے سمجھاتا ہے کہ جو
ہوتا ہے الل ّٰ ہ کی رضا سے ہوتا ہے ,سوچو وہ ذات جس کی مرضی
کے بنا ایک پ ت ّا بھی نہیں ہلتا ,ا ُس کی رضا کے بغیر ہم اری زندگی
میں بدالؤ کیسے آ سکتا ہے۔؟ تو جو بھی اچھا یا ب ُ را ہو گا وہ یقینا ً الل ّٰ ہ
کی رحمت ہی ہو گی ,.سکون ,..الل ّٰ ہ سے دنیا و آخرت کی بھالئی
مانگنے میں نہیں بلکہ الل ّٰ ہ سے الل ّٰ ہ کو مانگنے میں ہے ,جب ہم ا ُس
سے سب کچھ مانگتے ہیں مگر ا ُس کی ذات نہیں مانگتے تو ہم اپنے
اصل سے دور ہو جاتے ہیں۔
ا ُس کی بیوی نے ا ُسے ٹوکتے ہوئے کہا "اگر سب الل ّٰ ہ کی مرضی سے
ہوتا ہے تو یہ جو ظلم و بربریت کا بازار لگا ہوا ہے کیا یہ سب بھی
ال ل ّٰ ہ کی رضا ہے۔؟" تو ا ُس نے کہا کہ "جو ہوتا ہے اللہ کی منشا اور
ا ُس کی حکمت سے ہی ہوتا ہے ،الل ہ نے ایک نظام ترتیب دیا ہے جس
کی بنیاد لوگوں کے دل ہیں۔ جب کسی قوم کے لوگ ب ُ رائی کو اپنے
دلوں میں بسا لیتے ہیں تو برائی ا ُن میں عام ہو جاتی ہے۔ انسان جس
شے کی جستجو کرتا ہے وہی پاتا ہے۔ غور سے اپنے ارد گرد دیکھو
یہ تمام ب ُ رائیاں جو ہمارے معاشرے میں موجود ہ یں ہم سب ان برائیوں
کے خواہشمند ہیں۔ ہم اپنے گ ُ مان کو شر سے سجائے رکھتے ہیں۔
آنکھوں سے زنا کی لذ ت لیتے ہیں ,شر میں ڈوبی باتوں کو کہنا س ُ ننا
پسند کرتے ہیں۔ گناہ تک رسائی ہو یا نا ہو لیکن ارادہ ضرور رکھتے
چ کا ہے ہیں۔ گناہ اور ا ُس کا ارادہ ہماری سوچ میں اس قدر جڑ پک ڑ ُ
100
کے ہم اکثر برمال کہتے ہیں کے آج کے دور میں پارسا وہ ہے جسے
گناہ کا موقع نہیں مال۔ لیکن سچ تو یہ ہے کے ہم سب کے سب گناہگار
ہیں۔ جسے موقع مال وہ بھی اور جسے موقع نہیں مال وہ بھی۔ اللہ کے
گناہگار نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ،انسانیت کے گناہگار۔ کیونکہ
اپ نی سوچ کو آلودہ کر کے ہم اپنے وقت کے لوگوں کی سوچ میں اپنا
ووٹ کاسٹ کر دیتے ہیں۔ نس ِل انسانی کی سوچ ا ُس کا آنے واال کل
طے کرتی ہے اگر اکثریت کی سوچ مثبت ہو گی تو لوگ خوشحال ہوں
گے اور اگر اکثریت کی سوچ منفی ہو گی تو معاشرے میں انتشار پیدا
ہو گا۔ اللہ نے کب ھی لوگوں کو برباد نہ کیا بلکہ ہمیشہ لوگوں نے خود
اپنے ایمان خراب کر کے خود کو برباد کیا۔
جو ہمیں ملنا ہوتا ہے وہ ہمیں ہر حال میں مل کر رہتا ہے اور جو
نہیں ِم لنا وہ کتنی ہی فریاد کرو ,وہ نہیں ملنے واال کیونکہ اکثر ہم
دوسرے شخص کا نصیب مانگ رہے ہوتے ہیں ,تو الل ّٰ ہ کسی اور کا
نصیب کسی اور کو نہیں دیتا ,پھر انہی خواہشات کے ادھورے پن کے
پیچھے بھاگتے ہوئے لوگ الل ّٰ ہ سے دور ہو جاتے ہیں ,جبکہ الل ّٰ ہ نے
خواہشا ت کو ا ِس لیے ہمارے اردگرد بکھیرا تاکہ ہم خود اپنے لیے
ف یصلہ کر سکیں کہ ہمیں کیا چاہیے۔ دنیا ,آخرت یا الل ّٰ ہ کی ذات میں
چ ننا ہوتا ہے ,جو الل ّٰ ہ سے الل ّٰ ہ
سے کسی ایک کو ,انسان کو خود ہی ُ
کو طلب کرتا ہے ا ُس کے لیے الل ّٰ ہ کے ِس وا ہر شے کی طلب ہ ِو س بن
جاتی ہے۔ الل ّٰ ہ کو طلب کرنا یہ نہیں ہے کہ ظاہری زندگی کے سب کام
کاج چھوڑ کے عبادت میں محو ہو جائے بلکہ الل ّٰ ہ کی طلب یہ ہے کہ
انسان اپنی ہر طل ب کا ُر خ ال ل ّٰ ہ کی جانب موڑ دے۔ کھانا ,پینا ,جاگنا,
سونا سب ال ل ّٰ ہ کے لیے ,اپنا جینا ,مرنا ال ل ّٰ ہ کی طلب میں ڈھالنے کے
لیے اپنے جینے کی وجہ الل ّٰ ہ کی ذات کو ماننا پڑتا ہے ,میں تم سے یہ
سوچ کر بھی محبت کر سکتا ہوں کہ تم میری بیوی ہو اور یہ بھی
سوچ سکتا ہوں کہ تم وہ ہو جسے الل ّٰ ہ نے میرے لیے بنایا۔ اگر انسان
اپنی ہر محبت کو یہ سوچ کے نبھائے کہ یہ رشتہ الل ّٰ ہ نے ا ُس کے
لیے بنایا ہے تو ظاہری زندگی میں ,رشتوں میں ایک دوسرے کی قدر
بھی ہو گی اور باطن میں بھی س ُ دھار پیدا ہو گا۔ کیونکہ انسان کی
خواہش جس قدر خالص ہو گی ا ُتنا ہی وہ الل ّٰ ہ کے قریب ہوتا جائے گا
اور خواہش کا خالص ہونا یہی ہے کہ ہر خواہش ال ل ّٰ ہ کے لیے خاص
101
ہو جائے۔ ثواب و عذاب کا مطلب الل ّٰ ہ کا ق ُ رب یا ا ُس سے دوری ہونا
چاہیے۔ ہم نماز میں زبان سے بہت سی آیات پڑھتے ہیں اور ا ُن آیات
کے پیچھے اپنے دل میں ایک معنی رکھ لیتے ہیں۔ جب میں چھوٹا تھا
ط مستقیم دکھانے کا یا سیدھی ص را ِ تو اکثر نماز میں الل ّٰ ہ سے خود کو ِ
راہ چالنے کا سوال کرتے ہوئے ساتھ ہی دل میں ا ُس راہ کی حدیں
مقرر کر لیتا تھا کہ الل ّٰ ہ مجھے سیدھی راہ چالنا لیکن میں مولوی
صاحب کی طرح داڑھی نہیں رکھوں گا اور فلمیں دیکھنا بھی میں
نہیں چھوڑ سکتا اور ا ِس کے عالوہ جو جو چیزیں مجھے اچھی لگتی
تھیں ,سب سوچ لیتا تھا کہ فالں فالں کام میں نہیں چھوڑوں گا لیکن
پھر بھی مجھے سیدھی راہ چالنا۔ اب سوچتا ہوں کہ کیا عجیب سوچ
تھی کہ راہ چالنے کا سوال ب ھی اور اپنی مرضی کے وبال بھی۔ لیکن
سچ تو یہ ہے کہ ہم سب اپنی زبان سے کہے جانے والے الفاظ کا اپنے
دل میں کچھ اور مفہوم ضرور رکھتے ہیں اور ہماری زندگی کی کتاب
میں وہی مفہوم درج کیا جاتا ہے۔ میں نے س ُ لطان باہو رح کی کتاب
رسالہ روحی شریف میں پڑھا کہ اہل الل ّٰ ہ اس دعا ( َر ب َّ ن َ ا آ ت ِ ن َ ا ف ِ ي
ار ) سے یہ ُم راد لیتے اآلخ َر ةِ َح سَ ن َ ة ً َو ق ِ ن َ ا عَ ذ َ ا َ
ب ال ن َّ ِ ِ ال دُّ نْ ی َ ا َح سَ ن َ ة ً َو ف ِ ي
ہیں کہ اے الل ّٰ ہ مجھے دنیا میں بھی اپنا ق ُ رب عطا فرما ,آخرت میں
بھی اپنا ق ُ رب عطا فرما اور مج ھے اپنے ہجر کی آگ سے محفوظ
فرما۔ کہ طالب ال ل ّٰ ہ کے لیے تمام تر بھالئی الل ّٰ ہ کے ق ُ رب میں ہے اور
نار جہنم سے زیادہ شدید ہے۔ ہم الل ّٰ ہ سے دوری کی آگ کسی بھی ِ
الفاظ کے تلفظ میں ا ِس قدر دھیان دیتے ہیں کہ معنی سوچنا ہی بھول
جاتے ہیں۔ ضرورت اصل میں معنی میں ڈوبنے کی ہوتی ہے اگر
ہمارے معنی درست ہو جائیں تو الفاظ کا غلط تلفظ بھی درست مطلب
پیش کرے گا اور اگر معنی ہی درست نہ ہوئے تو زیر زبر کی
درستگی بے معنی ہے۔" ا ُس کی بیوی نے کہا "لیکن قرآن صحیح تلفظ
سے پڑھنا افضل ہے ,الفاظ کی درستگی ضروری ہے ,وہ ا ُس ب ُ ت
پرست کا واقع ,جو ب ُ ت کے سامنے یاصنم کہتے کہتے یاصمد کہہ بیٹھا
تھا ,تو ال ل ّٰ ہ نے ا ُسے اپنا بندہ مان کر جواب دیا تھا ,اگر وہ پہلے ہی
یاصمد کہہ کے پ ُ کار لیتا تو ا ُسے پہلے ہی جواب ِم ل جاتا ,ا ِس کا
مطلب معنی کے ساتھ الفاظ کی درستگی بھی ضروری ہے۔" ا ُس نے
غور سے اپنی بیوی کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا "الفاظ کی درست گی
102
تبھی قاب ِل قبول ہوتی ہے جب معنی درست ہوں ,اپنے رب کو یاصنم
کہتے کہتے یاصمد کہہ کر پ ُ کارنے والے کے دل میں کچھ محبت بھی
رہی ہو گی جس نے ا ُس کی پ ُ کار کو عرش تک پہنچایا۔ ایک روز میں
شام سات آٹھ بجے کے قریب گھر آیا تو بارش میں ایک لڑکے کو گھر
کے باہر کھڑے دی کھا ,وہ لڑکا سامنے مارکیٹ میں غبارے بیچا کرتا
تھا کسی ِد ن گ ُ زارے الئق بھی پیسے نہ ملتے تو میرے پاس آ جاتا تھا
میں ا ُس کی زیادہ مدد تو نہ کر پاتا لیکن کھانے کے لیے ا ُسے ضرور
کچھ نہ کچھ دے دیتا تھا ,اکثر ایسا ہوتا کہ گھر میں اتنا ہی کھانا ہوتا
جو صرف میرے لی ے ہوتا تو وہ کھانا میں ا ُسے دے کر خود بھوکا سو
جاتا تھا ,اور اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ا ُسے کھانا دینے کے بعد محلے
میں کسی کے گھر سے کوئی کھانے کی چیز آ جاتی تھی۔ ا ُس روز وہ
لڑکا گھر کے باہر کھڑا میرے آنے کا انتظار کر رہا تھا ,میں آیا تو
ا ُسے دیکھ کے میں سمجھ گیا کہ آج بارش کی وجہ سے ا ُس کی کچھ
آمدنی نہیں ہو سکی ,میں نے ا ُس سے کہا "آپ یہاں بارش میں کیوں
کھڑے ہیں ,دروازہ بجا کر کھانا مانگ لیتے" تو ا ُس نے کہا "میں نے
مانگا تھا کھانا لیکن آپ کے دادا نے مجھے ڈانٹ دیا ,ا ِس لیے میں آپ
کا انتظار کر رہا تھا" ا ُس کی بات س ُ ن کے مجھے د ُکھ کے ساتھ ساتھ
شرمندگی بھی محسوس ہوئی ,میں نے فور ا ً اپنے کمرے کا دروازہ
کھول کے ا ُسے اندر ب ُ الیا ,سوچا کے اپنا کوئی پ ُ رانا لباس ا ُسے دے
دیتا ہوں لیکن دل نے مالمت کی کہ الل ّٰ ہ کی راہ میں دینے کی بات
ہوتی ہے تو پ ُ رانی چیزوں کا ہی خیال کیوں آت ا ہے۔؟ ا ِس خیال کے
آتے ہی میں نے بکسے سے اپنا نیا شلوار قمیض نکاال جو صرف عید
کے دن ہی پہنا تھا ,وہ میرا پسندیدہ ترین جوڑا تھا ,میں نے بہت شوق
سے ِس لوایا تھا ,میں ا ُسے کوئی دوسرا نیا جوڑا بھی دے سکتا تھا,
میرے پاس کافی جوڑے تھے لیکن خود کو پ ُ رانا لباس دینے والی سوچ
پر سزا دینے کے لیے میں نے ا ُسے وہ واال جوڑا دیا اور ا ُسے جوڑا
تبدیل کرنے کے لیے دے کر میں کھانا گرم کرنے چال گیا اور کھانا ال
کر ا ُسی کے ساتھ کھانے بیٹھ گیا۔ میرا ا ُس کے ساتھ بیٹھ کے کھانا
شاید ا ُسے بہت عجیب لگ رہا تھا اور میں کھانا کم ہونے کی وج ہ سے
ُر ک ُر ک کر کھا رہا تھا تاکہ وہ زیادہ کھا سکے۔ ا ُس نے شاید کھانے
کے معاملے میں میری س ُ ستی کو کچھ اور سمجھا اور مجھے تسلی
103
دینے کے لیے کہا "بھائی آپ پریشان نا ہوں ہم بھی مسلمان ہیں آپ
میرے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں" میں نے کہا "یہ بات نہیں ہے بھائی
میں نے شام کو کھانا دیر سے کھایا تھا ا ِس لیے ابھی بھوک نہیں ہے
مجھے ,اور میرے لیے کسی بھی مذہب ,رنگ یا نسل سے بڑھ کر آپ
کا انسان ہونا معنی رکھتا ہے ,مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں
پڑتا کہ آپ مسلمان ہیں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہے ,انسان
اپنی انسانیت سے ب ُ لند یا پست ہوتا ہے ,بس ا ِس کے عالوہ انسانوں
میں اور کسی بنیاد پے فرق نہیں کرنا چاہیے ",مجھے لگا کہ میں
شاید ا ُس کے فہم سے ب ُ لند بات کر رہا ہوں لیکن میں بولتا رہا تاکہ وہ
سارا کھانا کھا سکے اور بولنے کے بہانے مجھے کھانے سے ہاتھ
روکنے کا بہانا مل جائے ,بیچ بیچ میں ,میں ا ُس کا ساتھ دینے کے
لیے چھوٹے چھوٹے نوالے کھاتا رہا تاکہ ا ُسے میرے ُر کنے کا
احساس کم سے کم ہو ,پھر میں نے سگریٹ جال لیا تو ا ُس نے کھانا
کھاتے کھاتے پھر سے بات شروع کی اور کہا " سَ ر جی ہم بس نام کے
ج گیوں میں رہتے ہیں ,اکث ر ہماری مسلمان ہیں ,نالوں کے کنارے ُ
بستیاں بارش یا میونسپالٹی کی وجہ سے برباد ہو جاتی ہیں ,ہم سبھی
لوگ صبح نکلتے ہیں سارا دن کوئی بھیک مانگتا ہے ,کوئی میری
طرح گھوم پھر کے کچھ بیچتا ہے ایسے ہی چھوٹے موٹے کام کر کے
دو وقت کی روٹی حاصل کرتے ہیں ,اور میں نے دیکھا کہ الل ّٰ ہ بھوکا
ا ُٹھاتا ضرور ہے مگر بھوکا س ُ التا نہیں ,شروع شروع میں جب کام
شروع کیا تو کبھی کبھی گھبراتا تھا کہ بھوک ہوئی اور روٹی نہ ملی
تو کیا ہو گا لیکن جلدی یا دیر سے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے ,آج
بھی ایسا ہی کچھ ڈر تھا لیکن پھر آپ آ گئے اور کھانے کے ساتھ ساتھ
اتنے اچھے کپڑے بھی ِم ل گئے" میں نے کہا " ا ِس میں میرا کوئی
کمال نہیں ہے ہر انسان کا اپنا نصیب ہوتا ہے۔" ساتھ ساتھ میں یہ
سوچ رہا تھا کہ ا ُسے کم فہم سمجھنا میری اپنی کم فہمی تھی۔
104
''باب۔ '' 00
مجھے خاموش دیکھ کر ا ُس نے کہا " سَ ر جی آپ سے ایک سوال
پوچھوں۔؟" میں نے کہا "ہا ں پوچھو ,مجھے جتنی سمجھ ہوئی ,ا ُتنا
ضرور بتاؤں گا ,نہیں پتا ہوا تو کہہ دوں گا کہ نہیں معلوم ",تو ا ُس
ج گیوں میں نے دوبارہ اپنی بات وہیں سے شروع کی اور کہا "ہم لوگ ُ
رہتے ہیں ,ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم ُم سلمان ہیں ,لیکن ہماری بستی
میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں کلمہ بھی صحیح سے نہیں آتا,
نماز اور قرآن تو بہت دور کی بات ہے ,ہمارے کپڑے نالوں کے پانی
سے د ُھلتے ہیں ,جس کی وجہ سے ہر وقت ہمارے جسم سے اور
کپڑوں سے بدبو آتی رہتی ہے ,اکثر ہمارے ہاں نکاح بھی ایسے ہی
پڑھاتے ہیں کہ سب اکھٹے ہو کر بس دونوں میاں بیوی سے قبول قبول
کہال دیتے ہیں ,ہمیں چھ کلمے پڑھانے والے بہت مشکل سے ملتے
ہیں ,کیونکہ ہماری بستی میں آنے سے یا ہمارے ساتھ بیٹھنے سے
اکثر لوگوں کا دین ,مذہب خراب ہو جاتا ہے" میں نے ا ُسے ٹوکتے
ہوئے کہا "لیکن ڈھونڈا جائے تو کوئی نہ کوئی ِم ل ہی جاتا ہے" ا ُس
نے کہا "ہاں ِم ل جاتا ہے لیکن ہماری بستی کے بہت سے لوگ کئی
چ کے ہیں۔ میرا بھی ارادہ ہے کہ میں مسجد بار ا ِس چکر میں ذلیل ہو ُ
میں نکاح کروں گا ,ورنہ شادی ہی نہیں کروں گا ,ہمیں لوگ مسجد
چ کامیں نہیں آنے دیتے۔ میری بستی کے کئی لوگوں کے ساتھ ایسا ہو ُ
ہے کہ ا ُنہیں ہاتھ سے پکڑ ک ر ڈانٹ کر مسجد سے ن ِ کاال گیا ,میرے
ساتھ بھی ایسا ہوا کئی بار ,اور ہم مسجد جائیں تو ہمارے اپنے دوست
وغیرہ مذاق ا ُڑاتے ہیں کہ تیرے کپڑے ہی پاک نہیں ہیں اور تو نماز
پڑھتا ہے ,لیکن اکثر میرا بہت دل کرتا ہے نماز پڑھنے کا تو میں
کچھ بیچنے کے بہانے مسجد کے پاس جا کر کھڑا ہو جاتا ہوں اور
جب نماز شروع ہو جاتی ہے اور وہ لوگ جو مجھے مسجد سے ن ِ کاتے
ہیں وہ اپنی نماز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں تو کچھ دیر بعد میں اپنا
چ پکے سے مسجد کے اندر چال سامان مسجد کے باہر ہی چھوڑ کر ُ
چ ھپ کے کھڑا ہو جاتا ہوں او ر نمازیوں جاتا ہوں اور کسی کونے میں ُ
105
ج ھکتا ہوں اور سالم پھیرتے ہی بھاگ کے مسجد سے باہر آ کی طرح ُ
جاتا ہوں کیونکہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو اگلی دفعہ سے مسجد کے
باہر کچھ بیچنے پر بھی پابندی لگ سکتی ہے ,تو میرا سوال یہ ہے کہ
کیا میری نماز قبول ہوتی ہو گی۔؟اپنی بیوی کو یہ واقع بتاتے بتاتے
ا ُس کی آواز بھ ّر ا سی گئی تھی ا ُس نے کہا "میرا بس نہیں چال کہ میں
عقیدت سے ا ُس لڑکے کے ہاتھ چومتا اور ایسی نماز پڑھنے پر ا ُسے
ُم بارکباد دیتا" اور ایک پل ُر ک کر ا ُس نے شرارت سے کہا "ویسے
کافی فلمی سا سین ہو جاتا نا ,اگر میں سچ میں ا ُس کے ہاتھ چوم لیتا
تو۔؟" ا ُس کی بیوی نے ُم سکرا کر کہا "ہاں لیکن آپ نے ا ُسے جواب
کیا دیا۔؟" تو ا ُس نے کہا "میں نے ا ُسے کہا کہ آپ کی نماز قبول ہی
نہیں مقبول ہے کیونکہ ا ُس میں کچھ نا ہونے کے باوجود سب کچھ
ہے ,الل ّٰ ہ کو اپنے بندے کے لباس ,انداز یا آیات کے تلفظ سے غرض
نہیں ہے ,یہ سب ت و نماز کا ادب ہے ,نماز تو الل ّٰ ہ کے حضور خلوص
سے حاضر ہونے کا نام ہے ,ہو سکتا ہے کہ ا ُس پوری جماعت کی
نماز ایک تمہاری نماز کے باعث قبول ہو جاتی ہو ,اور یہ بھی ہو
سکتا ہے کہ ا ُس جماعت میں موجود پاک کپڑوں اور صحیح تلفظ سے
نماز پڑھنے والوں میں سے کسی کی نماز قبول نہ ہو ,لیکن آپ کی
نماز ضرور قبول ہوتی ہے ,اگر آپ کو کلمہ وغیرہ نہیں آتا تو میں آپ
کی مدد کر سکتا ہوں ,لیکن نماز اور کلمے کے الفاظ و تلفظ میں اتنا
مت کھو جانا کہ تم سے الل ّٰ ہ کے لیے یہ خلوص کھو جائے ,الل ّٰ ہ تمہیں
جب بھی یاد آئے تم ا ُسے پ ُ کار سکتے ہو ,ا لل ّٰ ہ تک وہ الفاظ پہنچتے
جو ہم اپنے دل سے ادا کرتے ہیں ,زبان و جسم ا ُس سے بات کرنے کا
ادب ہے لیکن ا ُس کے حضور حاضری دل کی ہوتی ہے ,دل حاضر تو
جسم و زبان بھی قبول ہے اور دل حاضر نہیں ہے تو نہ جسم قبول نہ
زبان ",میری بات س ُ ن کر ا ُسے یقینا ً سکون ِم ال ہو گا لی کن ا ُس کی
چ کا تھا" ا ُس نے کمزور سے باتوں سے میرے اندر ایک ہیجان پیدا ہو ُ
لہجے میں اپنی بیوی سے کہا "اسی جسم و زبان کے طریق و تلفظ
میں کھو کر تو ہم فرقہ واریت کی جنگ چھیڑے بیٹھے ہیں ,میرا بہت
دل کرتا ہے کہ جیسے شیطان نے اپنی چالوں سے ہم لوگوں کو ٹ ُکڑے
ٹ ُکڑے کیا ہے ویسے ہی کوئی ایسا شخص الل ّٰ ہ کی جانب سے آئے جو
کچھ ایسی چال چلے جو ان سب فرقوں کو ,ا ُن کی اپنی جگہ رکھتے
106
ہوئے,ایک کر سکے" ا ُس کی بیوی نے ا ُسے ای سے دیکھا جیسے ا ُس
کی دماغی حالت پ ےشک ہو رہا ہو اورکہا "یہ کیسےممکن ہے کہ سب
لوگ اپن ی جگہ پےرہتے ہوئےایک ہو جائیں ؟ " تو ا ُس نے جوابا ً کہا کہ
" ا ِس فرقہ واریت کی بنیاد یہ ہے کہ ہر مسلک و مذہب کے لوگ اپنا
آپ ب ُ لند کرنے کی جگہ دوسرے کو پست ثابت کر کے اپنی ب ُ لندی کا
ثبوت دینے کی کوشش کرتے ہیں ,ہمارا طریقہ ,ہمارا مسلک ,تمہارے
طریقے اور تمہارے مسلک سے افضل ہے ,یہ بات ثاب ت کرنے کے
لیے جس دن ہم نے اپنے آباؤ اجداد کے نام اور وضو ,نماز کے
تقوی پیش کرنا شروع کر دیا ا ُس ٰ طریقوں کی جگہ اپنا کردار اور اپنا
روز یہ فرقہ واریت کی آگ از خود ب ُ جھ جائے گی۔" ا ُس کی بیوی نے
کہا "آپ کی سوچ اچھی ہے ،الل ّٰ ہ کامیاب کرے آپ کو ،لیکن آپ نے یہ
کیوں کہا کہ کوئی شخص چال چلے۔؟ یہ کیوں نہیں کہا کہ کوئی
معجزہ ہو جائے۔؟" تو ا ُس نے کہا "شیطان کو ا ُسی کے کھیل میں
رہتے ہوئے ہرانا ہے ,تو کچھ تو چال چلنی پڑے گی اور الل ّٰ ہ والوں
سے بہتر چال کون چل سکتا ہے ,چال کا لفظ میں نے ا ِس لیے استمعال
کیا کیونکہ ا ِس بازی ک و پلٹنے کے لیے کوئی بڑی چال چلنی ہو گی,
ہم اپنے ہاتھوں سے اپنا گلہ گھونٹنے میں مصروف ہیں ,ہمیں اس خود
کشی سے الل ّٰ ہ ہی بچا سکتا ہے ,ا ِس لیے دعا کرتا ہوں کہ الل ّٰ ہ کوئی
چ نگل سے ایسا شخص ہم میں بھیجے جو ہم انسانوں کو شیطان کے ُ
چ ھُ ڑا سکے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے ُم رشد پاک کی چالئی ہوئی
ت انسان کو ا ُس کے مقام سے آشنا کر تحریک ایک نہ ایک دن حضر ِ
چ نگل سے چ ھُ ڑانے کا باعث ضرور بنے گی۔ کاش کے شیطان کے ُ
کے میں بھی لوگوں کے لیے کچھ کر سکتا" ا ُس نے حسرت بھرے
لہجے میں کہا تو ا ُس کی بیوی نے کہا "انشاءالل ّٰ ہ ایسا ضرور ہو گا,
بلکہ ہمارے ُم رشد پاک تو بہت پہلے سے یہی کام کر رہے ہیں ,ہماری
سوچ سے بھی پہلے سے ا ُن کا یہی مشن ہے کہ انسان کو ا ُس کے
اصل مقام سے آشنا کر کے ا ُسے شیطان کی قید سے آزادی ِد الئی
جائے ,ہم سب ُم ریدین ا ِس بات کے گواہ ہیں ,میرا بھی دل کرتا ہے کہ
میں ُم رشد پا ک کی سکھائی گئی تربیت حاصل کروں اور خواتین کو
چ ے میری جان چھوڑیں ا ِس جانب آنے کی دعوت دوں ,لیکن آپ کے ب ّ
تو میں کوئی اور کام کروں نا" ا ُس نے مسکرا کر کہا "جب ال ل ّٰ ہ نے
107
چ ن لیا نا ,تو خود با خود وقت نکل آئے گا بس دعا کسی کام کے لیے ُ
کرو کے لوگوں تک الل ّٰ ہ کا پیغام پہنچانے کے کام میں کسی جگہ ہمارا
بھی کچھ مصرف ہو ,ورنہ زندگی بے کار جائے گی۔ " " ہاں یہ تو
ہے ",ا ُس کی بیوی نے تائید کرتے ہوئے ا ُس سے کہا "اچھا مجھے
'آزمائش' ذرا وضاحت سے سمجھائیں۔" ا ُس نے کہا "سمجھاتا ہوں,
لیکن پہلے وہ یاصنم اور یاصمد والی بات مکمل کر دوں کہ شریعت
کی ایک حد ہے ,اگرچے کہ تمام مقامات شریعت میں رہ کر طے کیے
جاتے ہیں لیکن شریعت کی ایک حد ہے۔ مطلب یہ کہ آپ ظاہری نماز
کی حالت میں ایک حد تک اپنا لہجہ سنوار سکتے ہیں ,ایک حد تک
جسمانی پاکیزگی اپنا سکتے ہیں ,نہ تو آپ ہر وقت تالوت کر سکتے
ہیں اور نہ ہی مسلسل جسمانی طور پر ظاہری حالت میں وضو میں رہ
سکتے ہیں ,ا ِس کا مطلب یہ ہے کہ جسم و زبان سے نماز پڑھی تو جا
سکتی ہے لیکن ا ُسے قائم نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ جو چیز قائم ہو
جائے وہ ٹوٹا نہیں کرتی تو یقینا ً نماز قائم کرنے کا طریقہ انسان کے
ج ڑا ہو گا ,کیونکہ یہ دل ہی ہے جو سانسوں کے ساتھ ساتھ دل سے ُ
حرکت میں رہتا ہے ,الل ّٰ ہ کو پ ُ کارنے کے لیے دل ہی کی ضرورت
پڑتی ہے ,الل ّٰ ہ تک ا ُس کی آواز یاصنم کہتے ہوئے بھی پہنچ رہی تھی
کیونکہ وہ ا ُسے محبت بھرے دل سے پ ُ کار رہ ا تھا ا ِس لیے الل ّٰ ہ نے
ا ُس کی ز بان پھیری اور ا ُ سے جواب دیا ,اگر بات محض کسی خاص
نام سے پ ُ کارنے کی ہوتی تو ہر ا ُس شخص کو الل ّٰ ہ کی طرف سے
جواب مال کرتا جو ا ُسے یاصمد کہہ کر پ ُ کارتا ,الل ّٰ ہ المحدود ہے سو
ا ُس کی چاہت بھی المحدود ہے ا ِس لیے ا ُسے چاہنے کے لیے محدود
کی حد سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ جیسے موالنا ر ومی فرماتے ہیں کہ
محبوب کو الودع کہنے کا وقت تو ا ُن پے آتا ہے جو محبوب سے
آنکھوں دیکھی محبت کرتے ہیں ,کیونکہ جو محبوب کو دل اور روح
ج دا ہی نہیں ہوتے۔" وہ خاموش سے چاہتے ہیں وہ محبوب سے کبھی ُ
ہوا تو ا ُس کی بیوی نے کہا "ٹھیک ہے مجھے بات سمجھ آ گئی کہ
تلفظ و طریقے کی درستگی سے ذیادہ ضروری دل کی سوچ کا درست
ہونا معنی رکھتا ہے۔ اب آپ کو نیند آ رہی تو سو جائیں" ا ُس نے کہا
"جب ا ِس طرح کی بات چیت ہو رہی ہو تو نیند کہاں آتی ہے ,تمھیں
نیند آ رہی ہے تو سو جاؤ" ا ُس کی بیوی نے کہا "نہیں مجھے بھی نیند
108
نہیں آ رہی ,چلیں اب آزمائش کی وضاحت کریں کہ آزمائش کیا ہوتی
ہے ,کیوں ہوتی ہے ,اور کیا ایک دفعہ آزمائے جانے کے بعد دوبارہ
ا ُسی راہ سے بھی آزمائش ہو سکتی ہے کیا۔؟ یا ایک راہ سے آزمائے
جانے کے بعد دوبارہ ا ُس راہ سے آزمائش نہیں ہوتی۔؟
109
' 'باب۔ '' 00
ا ُس ن ے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا " ا ِس کا مطلب آج تمھارا سونے
کا ارادہ نہیں ہے۔ خیر ،تم نے کبھی شطرنج کھیلی ہے؟" ا ُسکی بیوی
نے نفی میں سر ہالیا تو ا ُس نے کہا "شطرنج میں تین طرح کے
ُم ہرے ہوتے ہیں ,ہر ُم ہرے کی کچھ نہ کچھ چال ہوتی ہے ,اول درجے
کے مہرے ,بادشاہ اور وزیر کسی بھی جانب حرکت کر سکتے ہیں,
لیکن یہ مہرے بس ایک ایک ہی ہوں گے ,دوسرے درجے ک ے ُم ہرے
دو ,دو ہوتے ہیں فیل ,گھوڑا اور ُر خ ,ا ِن کی الگ الگ مگر خاص چال
ہوتی ہے اور یہ کسی خاص جانب ہی حرکت کر سکتے ہیں۔ اور ا ِس
کے بعد آٹھ پیادے جو صرف سیدھے ہی چل سکتے ہیں ل یکن پیادہ
کسی کو مار دے تو ا ُس کی راہ بدل جاتی ہے۔ مجھے پتا ہے کہ تمہیں
شطرنج سمجھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن شطرنج سے میں
تمہیں کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں ,ا ِس لیے بتا رہا ہوں ,دنیا
میں انسانوں کو بھی شطرنج کے ُم ہروں کی طرح زندگی گ ُ زارنی
پڑتی ہے ,یہاں بھی تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ عام لوگ ,خاص
لوگ ,اور خاص الخاص لوگ۔ شطرنج میں پیادہ سب سے چھوٹا ہوتا
ہے لیکن پیادہ اگر پوری بساط پار کر جائے تو وہ ُر خ ,فیلہ ,گھوڑا یا
وزیر میں سے کچھ بھی بن سکتا ہے ,اگرچ ے کہ پیادہ سب سے چھوٹا
ہے لیکن تمام مہر وں میں سے یہ خاصیت صرف اور صرف اسی
کے پاس ہوتی ہے کہ اگر وہ پوری بساط پار کرنے میں کامیاب ہو
جائے تو بادش اہ کے عالوہ کچھ بھی بن سکتا ہے یع نی وہ واحد ایسا
مہرہ ہے جو اپنی کامیابی سے اپنا مقام بدل سکتا ہے۔ عام انسان کی
حالت بھی ایسی ہی ہوتی ہے کہ اگر وہ آزمائش کی بساط پار کر جائے
تو عام سے خاص بلکہ خاص الخاص بھی بن سکتا ہے۔ یہ جو ُم ہروں
کی چال ہوتی ہے درحقیقت یہی آزمائش ہوتی ہے۔ جس ُم ہرے کی
جیسی بھی چال ہے ا ُسے ویسی ہی چال چلنی پڑے گی ,مطلب گھوڑا,
پیادے کی چال نہیں چل سکتا اور پیادہ گھوڑے کی طرح ڈھائی چال
نہیں چل سکتا ,ا ِسی طرح ظاہری دنیا میں عام ,خاص اور خاص
الخاص لوگوں کا فرق قائم رہتا ہے لیکن یہ دنیا ہے ,شطرنج کی بساط
110
جیسی تو ہے لیکن ا ُس سے بہت زیادہ ب ُ لند ہے ,ا ِس لیے یہاں لوگ
خاص سے عام اور عام سے خاص ہوتے ہی رہتے ہیں ,اپنی چال میں
رہتے ہوئے ,شیطان کی چال سے بچ جانا ہی انسان کی آزمائش ہے۔
اس زمین پر ہر انسان اپنی آزمائش سے ب ُ لند یا پست ہوتا ہے۔ کبھی
سوچا کہ کوئی شے گناہ کیوں ہوتی ہے اور کسی چیز کو ثواب کیوں
کہا جاتا ہے۔؟ اصل میں ہم سب کو ایک نور عطا کیا گیا ہے۔ ا ِس نور
کو اچھے اعمال سے بڑھایا جا سکتا ہے اور ب ُ رے اعمال سے یہ نور
ماند پڑ جاتا ہے۔ اسی لیے کوئی عمل گناہ اور کوئی عمل ثواب کہالتا
ہے۔ اگر کوئی شخص شراب پیے ,زنا کرے ,یا کسی اور گناہ کا
ارتکاب کرے تو الل ّٰ ہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا ,لیکن کیونکہ یہ شئے
خود ا ُس انسان کے لیے اور معاشرے کے لیے خطرناک ہے اس لیے
ا سے گناہ قرار دیا گیا۔
زمین پے موجود چیزوں کی دو طرح کی تقسیم ہے نوری اور ناری۔
دونوں طرح کی چیزوں میں ایک توازن قائم ہے ,جتنی چیزیں نوری
ہوں گی ا ُتنی ہی تعداد میں ناری چیزیں بھی قدرتی طور پر موجود
رہتی ہیں ,مطلب یہ کہ قدرت کی جانب سے میزان برابر رکھا جاتا ہے
لیکن یہ میزان ,وقت میں موجود لوگوں کی سوچ کے باعث کسی ایک
ج ھک جاتا ہے۔ ا ِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وقت میں نور کم ہو جانب ُ
جاتا ہے یا آگ زیادہ ہو جاتی ہے ,بلکہ یوں ہوتا ہے کہ نور یا نار کی
راہ پر چلنے والوں کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی ہے جس سے وقت
میں نور و نار کا توازن بدلتا رہتا ہے۔ تم نے پوچھا کہ آزمائش کیا
ہے ,تو آزمائش ہر پل کی سوچ کا نام ہے۔ اس بساط پر رہتے ہوئے
کسی بھی چال پر انسان کسی بھی پل جو کچھ بھی سوچتا ہے ,حاالت و
واقعات کے رد عمل میں اس کی سوچ کے جہان میں ابھرنے واال
عکس ا ُس کی آزمائش ہوتا ہے ۔ الل ّٰ ہ نے انسان کو کوئی بھی چیز بیکار
میں نہیں دی ,ہر عطا کا کچھ نہ کچھ کام ہے ,الل ّٰ ہ نے انسان کو سوچ
سمجھ کے ساتھ ساتھ گ ُ مان کی دولت سے بھی نوازا ,ہم اپنے گمان کی
طاقت سے بہت سا کام لیتے ہیں ,پہلے سے دیکھی ہوئی چیزوں کو یاد
کرتے ہیں ,یا اپنی خواہش کے م طابق کوئی نیا عکس تیار کر لیتے
ہیں ،اکثر کسی سے جھگڑا کر کے ہم اپنے گمان میں ا ُسے مار پیٹ
کر اپنا دل ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ,اپنے گمان میں ہم آنے
111
واال کل سوچ کر اگلے دنوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ جو دنیا ہم اپنے
باہر دیکھتے ہیں ویسی ہی ایک دنیا ہمارے اندر بسی ہوتی ہے۔ اپنے
باہر کی دنیا میں ہم کچھ ہوں یا نہ ہوں لیکن اپنے اندر کی دنیا کے
سب کچھ ہم خود ہی ہوتے ہیں ا نسان اپنے باہر کی دنیا سے متاثر ہو
کر اپنے اندر کیسی دن یا بناتا ہے یہی ا ُس کی آزمائش ہے اہ ِل دنیا
اپنے گمان میں دنیا بھرے رکھتے ہیں اب وہ کوئی بادشاہ ہو یا کوئی
قبی کے بھکاری دونوں کے گمان کی اوقات ایک سی ہے ,ع ُ ٰ
خواہشمند اپنے گمان کو اج ر و ع ذ اب کے خیال سے آباد کرتے ہیں اور
ایسے لوگ بھی ظاہر میں کسی بھی مذہب و مسلک کے کیوں نہ ہوں ،
نیکوکار ہوں یا گناہگار ،ا ُن سب کے گ ُ مان کی بھی قیمت ایک سی
ہے ,لی کن اہ ِل الل ّٰ ہ اپنے گمان کو الل ّٰ ہ کی یاد سے سجائے رکھتے ہیں
ا ِس لیے ا ُن کے گمان کی ا ُن کے مقام کے حساب سے الگ الگ قیمت
ہوتی ہے ,جو اپنے گ ُ مان کو الل ّٰ ہ کی ذات میں جس قدر ڈبوئے گا وہ
ا ُتنا ہی ب ُ لند ہو گا۔ تم نےاکثر ایسا س ُ نا ہو گا کہ کسی ب ُ زرگ ہستی نے
بہتے دریا کو حکم دیا کہ ُر ک جا تو وہ ُر ک جاتا ہے ,یہ ا ِس لیے ہوتا
ہے کیونکہ ا ُن کے گمان میں الل ّٰ ہ کی یاد کے سوا کچھ نہیں ہوتا,
لیکن جب یہی بات کسی عام شخص کی زبان سے نکلتی ہے تو ا ُس
قبی کی اغراض چ ھُ پی ہوتی ہیں ا ِس لیے بات بے کے پیچھے دنیا و ع ُ ٰ
اثر رہتی ہے۔ انسان کا جینا ,مرنا ,کھانا ,پینا سب پہلے سے طے ہوتا
ہے ,لیکن ا ُس کا گ ُ مان زندگی بھر ا ُس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور ہر
پل بدلتا رہتا ہے ,انسان سو جاتا ہے لیکن یہ گمان پھر بھی حرکت میں
ج ڑارہتا ہے۔ انسان کے گناہ ثواب کا ذیادہ تر ح صّ ہ ا ِسی گمان سے ُ
ہوتا ہے۔ شی طان یہی کرتا ہے کہ لوگوں کے گ ُ مان پے حملہ کر کے
ا ُس میں دنیا اور نفس کی خواہشات بھرتا رہتا ہے تاکہ انسان کے
گ ُ مان کو الل ّٰ ہ کو سوچنے سے دور رکھا جا سکے۔
الل ّٰ ہ کی یاد سے اپنے گمان کو سجانا یہ نہیں ہے کہ انسان دنیا چھوڑ
کر جنگل میں جا بیٹھے بلکہ یہ ہے کہ ا ِ س دنیا میں رہتے ہوئے انسان
اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کو ال ل ّٰ ہ کا انعام ,ال ل ّٰ ہ کی
رضا مان کر ا ُس کا ش ُ کر گزار رہے ,اصل آزمائش ,اسی دنیا میں
رہتے ہوئے ,ا ِس کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے ,الل ّٰ ہ کی جانب
مائل رہنا ہے۔ کسی نامحرم کو دیکھ کر نظر ج ھُ کانا ,اپنے آپ کو
112
ب ُ رے خیاالت سے بچانا ,تھوڑا بہکنا ,تھوڑا سنبھلنا ,الل ّٰ ہ کو ذیادہ
عزیز ہے بنسبت اس کے کہ کوئی شخص گھر بار چھوڑ کر جنگل میں
جا بیٹھے جہاں ا ُسے پریشان کرنے کے لیے نہ تو دنیا ہو اور نہ ہی
شیطان۔ ہم سب کو جو زندگی دی گئی ہے ا ُسی میں رہتے ہوئے الل ّٰ ہ
سے راضی یا ناراض ہونے کی آزمائش کا نام زندگی ہے ,اسی
آزمائش کے باعث زندگی آگے بڑھتی ہے یہ آزمائش نہ ہو تو زندگی
گ ُ زرنے کا احساس ہی نہ ہو۔ اور جہاں تک بات ہے بار بار آزمائے
جانے کی تو یہ آزمانے والے کی مرضی ہے۔ لوگ ایک ہی راستے
سے کئی کئی بار بھی آزم ائے جاتے ہیں کیونکہ اکثر ہمیں بات سمجھ
نہیں آ رہی ہوتی ا ِس لیے بار بار سمجھایا جاتا ہے۔" ا ُس کی بیوی نے
پوچھا "کیا آپ کے ساتھ کچھ ایسا ہ ُوا کبھی۔؟" تو ا ُس نے کہا "ہاں
کئی دفعہ ,میری عادت ہے کہ جوتے مسجد کے باہر ا ُتار کر جاتا ہوں,
ا ِس عادت کی وجہ یہ ہے کہ م یں نے ہمیشہ یہ سوچا کہ جب میں الل ّٰ ہ
کے گھر آیا ہوں تو مجھے ا ُس پے بھروسا رکھنا چاہیے اور اپنی
چ پ ّلوں کی فکر نہیں کرنی چاہیے ,نماز میں اکثر میں اپنے آپ سے
لڑتا رہتا اور اپنا دھیان اپنی چ پ ّل سے ہٹانے کی کوشش کرتا جب روز
مجھے میری چ پ ّل مل جایا کرتی تو آہستہ آہستہ مجھے تسلی ہونا
شروع ہو گئی اور ایک دن جب میں مسجد سے باہر آیا تو میری چ پ ّل
غائب تھی۔ میرے ساتھ ساتھ میرے دوستوں نے بھی مل کے تالش کی
مگر چ پ ّل نہیں ملی لیکن اگلی ہی نماز میں ,میں پھر سے چ پ ّل باہر
چھوڑ کر گیا۔ ا ُس کے بعد بھی ایک دو دفعہ ایسا ہ ُوا لیکن میں نے
اپنی عادت نہیں بدلی ,شادی سے چند ماہ پہلے بھی ایسا ایک واقع ہوا,
میرے پاس تین جوڑے جوتے تھے اور میں انہیں بدل بدل کر پہنا کرتا
تھا۔ ظہر کی نماز میں اکثر اپنے دفتر کے پاس والی مسجد میں پڑھا
کرتا تھا۔ اور حس بِ معمول جوتے باہر ہی ا ُتار کر جاتا تھا۔ ایک دن
مسجد سے باہر نکال تو جوتے غائب تھے ,میں نے جوتے ڈھونڈھنے
کی جگہ فور ا ً الحمدلل ّٰ ہ کہا اور سوچا کہ یقینا ً کوئی شخص سخت
مجبور ہو گا ا ِسی لیے ال ل ّٰ ہ نے میرے جوتے ا ُسے دے دیے ,اور
جوتے چوری ہو جانے پر الل ّٰ ہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ننگے پیر اپنے
دفتر جا پہنچا ,اگلے روز دوسرے جوتے پہن کے دفتر گیا اور ظہر
کی نماز مسجد میں ادا کی اور جب مسجد سے باہر آیا تو جوتے پھر
113
سے غائب تھے ,میں نے گزشتہ روز کی طرح پھر سے الل ّٰ ہ کا ش ُ کر
ادا کیا اور دفتر پہنچا تو میرے دفتر میں کام کرنے والے ایک عمر
رسیدہ صاحب نے مجھے دوبارہ ننگے پیر دفتر آتے دیکھ کر جوتے
چ رانے والے کو سخت بددعائیں دیں تو میں نے ا ُن سے کہا کہ میں ُ
نے ا ُس شخص کو معاف کر دیا ہے ,آپ کچھ مت کہیں ا ُسے لیکن
انہوں نے بد دعائیں دینا نہیں چھوڑا تو میرے دل میں عجیب سا ڈر
پیدا ہوا کہ کہیں ا ُن کی بددعا لگ ہی نہ جائے ،ا ِس لیے م یں نے ا ُسی
وقت دو رکعت نماز پڑھی اور الل ّٰ ہ سے دعا کی کہ ا ُس شخص کو
معاف کر دیا جائے ,اگلے روز میں اپنے جوتوں کا آخری جوڑا پہن
کر دفتر گیا ,میں مسجد کے فرسٹ فلور پے ایک کونے میں اکیال نماز
پڑھتا تھا ,نماز پڑھ کر جب میں سیڑھیاں ا ُتر رہا تھا تو دور سے
میری ن ظر ا ُس جگہ پڑی جہاں میں نے اپنے جوتے ا ُتارے تھے اور
حسب معمول تیسرے روز بھی میرے جوتے غائب تھے۔ یہ دیکھ کر
میں واپس ا ُسی جگہ جا کے بیٹھا جہاں میں نے نماز پڑھی تھی اور
کہا "الل ّٰ ہ میاں اب اور جوتے نہیں ہیں میرے پاس ,اور ابھی پہلی
تاریخ دور ہے ,ورنہ میں نئے جوتے خرید لیتا لیکن ابھی میرے
حاالت ایسے نہیں ہیں کہ نیا جوتا خرید سکوں ,ا ِس لیے پلیز میرے
جوتے واپس کر دیجیے ,اتنا کہہ کر میں خاموشی سے دل میں کسی
جواب کے آنے کا انتظار کرنے لگا ,مجھے دو چار منٹ گ ُ زرے جب
کوئی جواب نہ آیا تو میں نے کہا الل ّٰ ہ میاں میں آج ج وتے لیے بغیر
واپس نہیں جاؤں گا ,اور آپ کو پتا ہے آج دفتر میں کتنا کام ہے ,جتنا
دیر سے جاؤں گا اتنی باتیں س ُ نی پڑیں گی مجھے ,ا ِس لیے پلیز
مجھے میرے جوتے دے دیجیے ,اس طرح تقریبا ً پندرہ منٹ تک کوئی
جواب نہ آیا ,میری عادت ہے کہ میں اپنی دعا بار بار دہراتا نہیں رہتا
اس لیے زبان بند کیے خاموش دل سے ا ُس کا جواب س ُ ننے کا منتظر
تھا کہ دل میں آواز آئی کہ " ا ُٹھو۔" ا ِس ایک لفظ میں اتنا اثر تھا کہ
میں بے اختیار سا ا ُٹھ کے کھڑا ہو گیا ,اور سیڑھیاں ا ُترنے لگا ,جب
آخری سیڑھی ا ُترنے لگا تو دل سے آواز آئی کے مسجد کے ہال میں
دائیں جانب تیسرے ریک میں تمھارے جوتے ہیں ,میں نے جا کر
دیکھا تو سچ ُم چ ا ُس ریک میں میرے جوتے تھے اور ا ِس سے بھی
ذیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ جو جوتے ریک میں رکھے ہوئے
114
تھے وہ ا ُس دن والے نہیں بلکہ ا ُس سے ایک دن پہلے والے تھے۔ میں
نے جوتے نکالے اور الحمدلل ّٰ ہ پڑھتے ہوئے مسجد سے نکل آیا" اتنا
کہہ کر وہ خاموش ہوا تو ا ُس کی بیوی نے کہا " ا ِس کا مطلب کہ ہم
ایک ہی راہ سے بار بار بھی آزمائے جا سکتے ہیں ,یعنی جب انسان
کو کسی سبق کو دہرانے کی ضرورت ہو تو الل ّٰ ہ کی رحمت سے ا ُسے
وہ سبق دوبارہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ اب ٹھ یک سے بات سمجھ آ گئی۔
اب سو جائیں صبح دفتر جانا ہے آپ نے۔" ا ُس نے کہا "ہاں میں بھی
یہی سوچ رہا تھا ,سو جاؤ ,شب بخیر "
وہ اپنی زندگی کے سخت سے سخت حاالت پر بھی بہت مطمئن رہتا
تھا ,اکثر بہت چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے ا ُسے لوگوں سے
پیسے ا ُدھار مانگنے کی ضرورت پڑ جاتی اور کسی کے سامنے ہاتھ
پھیالنے کی ذلت ا ُس کے چہرے سے نمایاں ہو جاتی تھی ,اسی وجہ
سے وہ اکثر کسی کے پاس پیسے مانگنے جاتا تو ا ُس سے کہہ نہ پاتا
اور ایسے ہی واپس آ جاتا ,پھر وہ سوچتا کہ الل ّٰ ہ نے یہی سبب مقرر
فرمایا ہو گا میرے لیے۔ وہ بہت ذمہ داری سے م قررہ وقت پر لوگوں
کا ا ُدھار واپس کر دیا کرتا تھا لیکن مجبور ہو کر کسی سے پیسے
مانگنا ا ُسے اندر سے توڑ دیا کرتا تھا۔
115
''باب۔ '' 00
اکثر شیطان ا ُسے توڑنے کی کوشش کرتا اور کہتا کہ اگر ت ُو الل ّٰ ہ کو
اتنا ہی پیارا ہے تو تیری غریبی کیوں دور نہیں ہو ج اتی ,ت ُو گناہوں
سے پوری طرح پاک کیوں نہیں ہو جاتا۔ تو وہ شیطان کو کہتا کہ یہ
میرے اور میرے الل ّٰ ہ کے بیچ کی بات ہے ,ا ُس نے مجھے جو دیا اور
جو نہیں دیا میں ا ُس سب پر ا ُس سے راضی رہنے کی کوشش کرتا
رہتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ وہ بھی میرے اعمال کی کمی بیشی
کے باوجود مجھ سے راضی رہتا ہو گا ,کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ
میرے جسم پے لگے داغ نہیں دیکھتا بلکہ میرا دل دیکھتا ہے۔ اے
شیطان میں جانتا ہوں کہ ت ُو مجھے میرے گناہ یاد ِد ال کر مجھے توڑنا
چاہتا ہے ,جس طرح ت ُو لوگوں کو ایک نماز چھوڑ دینے کا گناہ یاد
کرا کر دوس ری نماز سے بھی روک دیتا ہے ,لوگ تین جمعے چھوڑ
کر نماز ہی پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں کہ اب تو ہمارے دل پے مہر لگ ہی
چ کی ہے تو نماز پڑھنے کا کیا فائدہ ,میں خوب جانتا ہوں تجھے اور ُ
تیرے ہتھکنڈوں کو ,جا کوئی نئی بات سوچ کے آ ,مجھے معلوم ہے کہ
میرا رب توبہ قبول کرتا ہ ے اور بار بار توبہ قبول کرتا ہے ,میں مانتا
ہوں کہ گناہگار ہوں میں لیکن میں جانتا ہوں کہ کوئی ایسا گناہ نہیں
ہے جس کے بعد بندہ الل ّٰ ہ کی جانب واپس نہ جا سکتا ہو۔ اکثر وہ کسی
سوال پے ا ُلجھ جاتا تو ا ُس کے دل میں ا ُس کے ُم رشد پاک کی طرف
سے جواب آ جاتا جسے س ُ ن کے ا ُس کے دل کو اطمینان ملتا اور
شیطان دفعہ ہو جاتا۔ ایک روز وہ ا ِس سوال میں ا ُلجھا تھا کہ یہ کیسے
پتا چلے گا کہ کون سی آواز شیطان کی ہے اور کون سی رحمان کی۔؟
تو ا ُس کے ُم رشد پاک نے ا ُسے سمجھایا کہ شیطان ہر ایک کے
پیچھے نہیں بھاگتا ,ا ُس نے بہت سے پھندے تی ار کر رکھے ہیں لوگ
انہی پھندوں میں ا ُلجھے رہتے ہیں ,شیطان اپنی بات سے پہچانا جاتا
ہے۔ اگر اندر سے آنے والی آواز آپ کو کسی کے خالف ورغال رہی
ہے ,کسی ب ُ رائی پر ا ُکسا رہی ہے تو یقینا ً وہ آواز شیطان کی ہے,
اپنے اوپر بیتنے والے کسی د ُکھ کا تزکرہ کر کر کے اداس ہ ونا بھی
شیطان کی ہی چال ہے ا ِس افسوس کے ذریعے وہ لوگوں کو الل ّٰ ہ کی
116
ذات سے مایوس کرتا ہے۔ اوالد کا غم ,مال کی فکر ,لوگوں کی نظر
میں اچھا ,ب ُ ر ا یا طاقتور دکھائی دینے کی چاہ ,کسی کو نیچا دکھانے
کی خواہش ,اور کسی کو نیچ سمجھنے کی سوچ ,سب شیطان کی
آوازیں ہیں جو وہ انسان کو ا ُس کے نفس کی زبانی س ُ نا س ُ نا کر ا ُسے
یہ یقین دالنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ تیرے دل کی آواز ہے۔ اور
لوگ ا ِن آوازوں کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ یقین کر بیٹھتے ہیں
کہ یہی ا ُن کے دل کی چاہت ہے۔ ظلم کرنے واال ظلم کرنے کو اپنا
شوق اورحق مانتا ہے اور ظ لم سہنے واال ا ُس ظلم کو اپنی م جبوری
اور اپنا نصیب سمجھتا ہے۔ ایسے ظالم اور مظلوم دونوں گمراہ ہیں,
دونوں شیطان کی قید میں ہیں ,شیطان ا ِسی طرح لوگوں کے ذہنوں کو
غالم کر کے ا ُن پے حکومت کرتا ہے ,جو شخص خود سے لڑنے کی
کوشش نہیں کرتا وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکتا ۔ ایسے لوگوں پر شیطان
توجہ نہیں دیتا ,کیونکہ وہ لوگ خود اپنی ہی گمراہی میں م حو ہیں,
کچھ لوگ دنیا و نفس کی لذ توں کو اپنے س ُ کھ کا سامان سمجھتے ہیں
اور ا ِسی کو جینے کا مقصد بنا لیتے ہیں ,ا ِس طرح کے لوگوں کو
بہکانے کے لیے بھی شیطان کی ضرورت نہیں پڑتی ,ا ُن کا ن فس ہی
ا ُن کی گمراہی کے لیے کافی ہوتا ہے۔ پھر کچھ لوگ ہوتے ہیں جو
دنیا اور نفس کو ہی سب کچھ نہیں سمجھتے بلکہ دین کو بھی اپنی
زندگی کا ح صّ ہ سمجھتے ہیں ,ا ُن کے نزدیک نفس کی ہوس اور دنیا
کی حرص کے ساتھ ساتھ ج ن ّ ت حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ا ِس
لیے ایسے لوگ ظاہ ری عبادات کا خاص اہتمام رکھتے ہیں ,لیکن
ایسے لوگوں کی عبادات محض دنیاوی اور اخروی اغراض کے لیے
ہوتی ہیں ا ِس لیے یہ لوگ بھی شیطان کی توجہ حاصل کرنے میں
ناکام رہتے ہیں ,ا ِس کے بعد وہ لوگ ہیں جو دنیا اور نفس سے بچ کر
چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور عبادات میں دھیان دیتے ہیں ,ا ِن میں
سے اکثر ا ِس سوچ میں ا ُلجھ جاتے ہیں کہ میرا طریقہ ,تلفظ اور
طہارت مشکوک ہے ,اور جو ا ِس شک سے پیچھا چ ھُ ڑا پاتے ہیں ا ُن
میں سے اکثر حور و قصور کو اپنی منزل مان لیتے ہیں ,ا ِن لوگوں پر
بھی شیطان توجہ نہیں دیتا کیونکہ یہ بھی اپنے آپ کے لیے ک افی
ہوتے ہیں۔ ا ِن سب سوچوں سے بچ کر جو شخص الل ّٰ ہ کی طلب میں
آگے بڑھتا ہے ,شیطان ا ُس کے راستے میں آتا ہے۔ اگر کسی راہ پر
117
جانے سے شیطان تمہیں روکنے کی کوشش کرتا ہے تو جان لو کہ وہ
راستہ الل ّٰ ہ کا راستہ ہے۔ شیطان عام لوگوں کے سامنے حرص ,ہوس,
غرور ,مایوسی ,او ر پریشانیوں کے ب ُ ت رکھ کر ا ُنہیں چھوڑ دیتا ہے,
اور سب پر نظر رکھتا ہے کہ کہیں کوئی الل ّٰ ہ کی جانب مائل تو نہیں
ہو رہا۔ جب لوگ الل ّٰ ہ کی جانب بڑھتے ہیں تو وہ ا ُنہیں فرقہ واریت
کی باتوں میں ا ُلجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ کون سا فرقہ صحیح
ہے ,کون سا غلط ہے ,نماز روزے کا صحیح طریقہ کس طرح سیکھا
جائے۔ کون سی کتاب کون سے عالم سے سے مشورہ لینا درست ہے
اور کون سے عالم سے مشورہ کرنا غلط ہے۔ لوگ انہی باتوں میں
ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں ,بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو الل ّٰ ہ کو اپنے دل
میں تالش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ,شیطان ا ُنہیں اپ نے سواالت میں
ا ُلجھانے کی کوشش کرتا ہے ,انہیں ا ُن کی زندگیوں کے حاالت و
واقعات سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ت ُو اپنے رب کے
حضور پیش ہونے کے الئق ہی نہیں ہے ,شیطان لوگوں کے سامنے
انبیاء ،اولیاء اور صالحین کی مثالیں پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ
نیک لوگ تھے اور ت ُو بدکار ہے ا ِس لیے تیری اوقات ہی نہیں ہے کہ
ت ُو الل ّٰ ہ سے ا ُس کا ق ُ رب طلب کر سکے اور لوگ ا ِسے اپنی عاجزی
سمجھ کر الل ّٰ ہ کی طلب سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ا ِس لیے ہر وہ خیال
جو تمہیں الل ّٰ ہ سے ,الل ّٰ ہ والوں سے یا الل ّٰ ہ کی مخلوق سے دور کرتا
ہے شیطا نی خیال ہے۔ ہر وہ بات جو تمھیں الل ّٰ ہ کی راہ سے ُر ک
جانے پے مجبور کرے وہ شیطان ہے جو عاجزی و انکساری کے
لباس میں تمھیں دھوکہ دینے کی کوشش میں ہے۔ تو جو بات محبت
اور انسانیت کے خالف ہو ا ُس پے خواہ کسی بھی نبی ولی یا صحابی
کا نام لکھا ہو ا ُسے ہرگز تسلیم نہیں کرنا۔ الل ّٰ ہ کی آواز انسان کو
حوصلہ دیتی ہے ,ا ُمید دیتی ہے ,ایک دوسرے سے محبت کرنا
سکھاتی ہے ,ب ُ رائی سے روکتی اور بھالئی پر مائل کرتی ہے۔ ہر
انسان اپنے الفاظ سے پہچانا جاتا ہے ,اسی طرح رحمانی یا شیطانی
خیال کی پرکھ بھی ہوتی ہے۔ پیغام سے پہچان ہوتی ہے۔
ح بِاپ نے ُم رشد سے اپنے سوالوں کے جواب حاصل کر کے ا ُس کا دل ُ
ُم رشد سے سرشار ہو جاتا تھا۔ اور وہ اپنے ُم رشد سے ملنے کو بیتاب
ہو جاتا تھا۔ ا ُس کے ُم رشد پاک اکثر ا ُس کے شہر تشریف التے اور
118
تقریبا ً ہر دفعہ ہی ا ُس کو ا ُن سے مالقات کا شرف نصیب ہوتا۔ جس
روز س ُ لطان مح مد اصغر علی (رح) سے ا ُس کی آخری مالقات ہوئی
ا ُس دن شدید رش کے باعث وہ ا ُن کے قریب نہ جا سکا۔ جب آپ (رح)
گاڑی میں بیٹھ کر واپس جانے لگے تو بہت سے لوگ آپ (رح) کی
گاڑی کے پاس اکھٹے ہو گئے اور ا ُسے پھر سے قریب جانے کا موقع
نہ ِم ل سکا تو وہ گیٹ سے تھوڑے فاصلے پے جا کر کھڑا ہو گیا۔ سب
سے ملنے کے بعد جب گاڑی آگے بڑھی تو ا ُس کے سامنے سے
گ ُ زرتے ہوئے ا ُس کے ُم رشد پاک نے گاڑی ُر کوائی اور وہ گاڑی ُر کتا
دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے ُم رشد پاک
کا ہاتھ تھام کر ہاتھ پے بوسہ دیا اور ا ِسی دوران گاڑی چل پ ڑی اور
ا ُس کے ہاتھ سے ا ُن کا ہاتھ چ ھُ وٹ گیا۔ ا ُس ا ِس بات پے ایک عجیب
سا احساس ہوا کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا کہ ُم رشد پاک کسی سے
مل رہے ہوں اور ا ُن کے ڈرائیور گاڑی چال دیں ,ا ُس نے اپنے ُم رشد
پاک کی گاڑی کو دیکھا جو تیزی سے دور جا رہی تھی اور دل زبانی
ا پنے ُم رشد پاک سے کہا " ا ِس بات کا کچھ مطلب ہے کیا۔؟ میں سمجھا
نہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔" تو ا ُس کے دل میں ا ُس کے ُم رشد پاک کی
آواز آئی کہ "اب ُم القات نہیں ہو گی"۔ ایک پل کے لیے ا ُس پر جیسے
سکتا سا طاری ہو گیا۔ یہ سوچ کر کہ اب میں ا ُن سے دوبارہ نہ مل
سکوں گا ,ا ُسے اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔اپنے ُم رشد
کے دیدار سے محروم ہونے کا خیال ہی ا ُس کے لیے جان لیوا تھا۔ جن
ِد نوں وہ پیر ساب ہوتا تھا ا ُس وقت ایک بار ا ُس کا اپنے دفتری ملنے
والوں میں سے کسی کے توسط سے انگلینڈ کی کسی بہت امیر فیملی
کے کچھ لوگوں سے راب طہ ہوا جن کے انگلینڈ میں کسی ہوسپٹل کی
انسپیکنشن چل رہی تھی اور وہ ا ِس سلسلے میں کافی پریشان تھے
انہوں نے ا ُس کے سامنے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو جواب میں ا ُس
نے جو جو بھی کہا سب درست ثابت ہوا اور ا ُس کے بتائے وقت پر ا ُن
کے ہوسپٹل کو کلیرینس بھی مل گئی۔ تو انہوں نے ا ُسے پیغام بھیجا
کہ ہم آپ کو اور آپ کی فیملی کو سب کو انگلینڈ لے کے جانا چاہتے
ہیں آپ بس ہمارے ساتھ رہیں وہاں پر ,آپ کو کسی قسم کا کام کرنے
کی ضرورت نہیں ہے اور اگر چاہیں تو کوئی کام کر بھی سکتے ہیں,
ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔" ا ُس نے ا ُن کی آف ر س ُ ن کر کہا تھا کہ
119
"آپ کی آفر اتنی شاندار ہے کہ ا ِسے کوئی بیوقوف ہی رد کرے گا,
اور بات یہ ہے کہ میں وہ بیوقوف ہوں ,انہوں نے جو کچھ دیکھا س ُ نا
وہ سب میں نہیں بلکہ میرے ُم رشد کی ذات ہے ,ابھی میری بات
صحیح ثابت ہو رہی ہے تو وہ مجھے ساتھ رکھنا چاہ رہے ہیں ,کل کو
اگر میری باتیں پوری ہونا بند ہو گئیں تو کیا واپس بھیج دیں گے
مجھے۔؟ مجھ میں جو کچھ اچھا ہے سب میرے ُم رشد کا ہے ,انہیں
دیکھے بنا مجھے چین نہیں آتا ,اور صرف میں نہیں ا ُن کے اور
مریدین کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ میں یہاں اسالم آباد میں ہ وں اور ہر
مہینے کم از کم ایک بار جھنگ ضرور جاتا ہوں ,ایک جانب سے
قریب آٹھ گھنٹے کا سفر طے کرن ا پڑتا ہے۔ ہم رات کو نکلتے
ہیں ,صبح پہنچ کر اکثر کئی گھنٹے انتظار کرتے ہیں کہ ُم رشد پاک کو
ایک نظر دیکھ سکیں ,ا ُن کی آواز س ُ ن سکیں ,اپنا ہاتھ ا ُن کے ہاتھ میں
دے سکیں۔ اور ا ِس طویل سفر می ں چند پل کی مالقات دل کو وہ سکون
بخشتی ہے جو ساری تھکن ا ُتار دیتی ہے ,میں یہاں رہتے ہوئے ا ُن
سے مالقات کے لیے تڑپتا رہتا ہوں ,انگلینڈ چال گیا تو َم ر ہی نہ جاؤں
کہیں۔ ویسے بھی میں پاکستان سے باہر کسی جگہ نہیں جانا چاہتا میرا
انگلینڈ میرا اپنا ُم لک ہے۔ یہاں کی خالی جیب مجھے انگلینڈ کے
پونڈز سے ذیادہ پیاری ہے۔ اگر وہ مجھے میری وجہ سے اپنے ساتھ
لے جانا چاہتے تو شاید میں سوچتا بھی ا ِس بات پر لیکن " پیر ساب "
بن کے جانے کا شوق نہیں ہے مجھے ۔ میں جو نہیں ہوں وہ بن کر میں
لوگوں کو دھوکہ دیتے ہوئے زندگی نہیں گ ُ زارنا چاہ تا۔" ا ُس روز
ا ُسے یہی خیال کھائے جا رہا تھا کہ میں اپنے ُم رشد کو دیکھے بنا
جیئوں گا کیسے۔؟ اپنے وصال سے کچھ وقت قبل ہی س ُ لطان محمد
اصغر علی (رح) اپنے بڑے بیٹے س ُ لطان محمد علی صاحب کو اپنا
ت فقر کا امین بنایا اور تمام ُم ریدین کو جانشین ظاہر کرتے ہوئے دول ِ
ا ُن کی پیروی کرنے کو کہا۔ ا ِس واقعے سے بھی یہی ظاہر ہوتا تھا کہ
الل ّٰ ہ واال ,الل ّٰ ہ کے پاس جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ س ُ لطان محمد
اصغر علی (رح) نے اپنے آخری ایام کا بیشتر ح صّ ہ اسالم آباد میں ہی
گ ُ زارا۔ آپ (رح) 40اگست 4602کو پیدا ہوئے اور 79دسمبر 7447
کو جہا ِن فانی سے ک ُ وچ فرمایا۔ ا ُس روز صبح ا ُس کی آنکھ اپنے بھائی
کے فون سے ک ھُ لی جس نے ہچکیوں سے روتے ہوئے ا ُسے س ُ لطان
120
محمد اصغر علی (رح) کے پردہ فرمانے کی خبر س ُ نائی۔ ا ُس کی ذبان
سے ایک لفظ نہ نکل سکا اور ا ُس کے بھائی نے ا ُسے بتایا کہ وہ آپ
(رح) کے جنازے میں شر کت کے لیے جھنگ جا رہا ہے۔ ایک پل کو
ا ُس کا دل پسیج کر رہ گیا کیونکہ ا ُس کی جیب خالی تھی اور وہ بہت
شدت سے چاہتا تھا کا آخری بار اپنے ُم رشد پاک کا دیدار کر سکے
لیکن حاالت نے اجازت نہ دی۔ بوجھل دل سے وہ دفتر گیا اور شام کو
جب وہ اپنے کزن سے مال تو بے اختیار ا ُس کے گلے لگ کر رونا
شروع ہو گیا ,ا ُس کے کزن کے والد نے ا ُسے سمجھایا کہ الل ّٰ ہ والے
دنیا سے جانے کے بعد ُم ریدین کے اور ذیادہ قریب ہو جاتے ہیں ,ب ُ ری
بات ہے الل ّٰ ہ والوں کو رویا نہیں کرتے۔ لیکن وہ اپنے آنسو نہ روک
سکا۔ وہ اپنے کزن کو ساتھ لے کر اپنے گھر جا رہا تھا کہ بازار سے
گ ُ زرتے ہوئے نہ جانے ا ُس کے دل میں کیا آئی کہ وہ اپنے کزن کے
ساتھ ایک پی۔سی۔او میں چال گیا اور فون بوتھ میں جا کر جھنگ فون
مالنے لگا ,ا ُس کے کزن نے ا ُسے سمجھاتے ہوئے کہا " ا ِس وقت
کوئی تمہارا فون نہیں ا ُٹھائے گا سب ُم رشد پاک کے جنازے میں
مصروف ہوں گے" تو ا ُس نے کہا "کیا پتہ ہمیں فون پر ہی جنازے
میں شرکت کا موقع ِم ل جائے" اور ایسا ہی ہوا ,فون اٹھانے والے کو
اسالم و علیکم کہتے ہوئے ,تالوت کی آواز س ُ ن کر ا ُس نے پوچھا "کیا
جنازہ پڑھا جا رہا ہے وہاں۔؟" اور ہاں میں جواب س ُ ن کر ا ُس نے کہا
"آپ تھو ڑی دیر کے لیے فون کا ریسیور سائڈ پر رکھ دیجیے اور
ہمیں جنازہ س ُ ننے دیجیئے" انہوں نے ا ُس کی گ ُ زارش قبول کی اور
ریسیور سائڈ پے رکھ دیا ا ِس طرح ا ُس نے اور ا ُس کے کزن نے فون
پر اپنے ُم رشد پاک کے جنازے میں شرکت کر کے اپنے دل کی تسلی
کا سامان کیا۔
121
''باب۔ '' 00
اپنے ُم رشد پاک کے پردہ فرمانے کے بعد وہ کافی وقت دربار پر نہیں
گیا۔ ایک عجیب سی ا ُداسی نے ا ُسے گھیر رکھا تھا۔ بہت سے دوسرے
ُم ریدین نے ا ُسے س ُ لطان محمد علی صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا,
ہر وہ شخص جو س ُ لطان محمد علی صاحب سے مل کر آتا وہ ا ُسے یہی
بتاتا کہ فی ض کا وہی عالم ہے ,بس صورت بدلی ہے باقی سب وہی ہے۔
اور ا ُسے ا ِس بات پر کچھ شک بھی نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ا ُس کے
ُم رشد پاک نے سلسلے کی باگ دوڑ قابل ہاتھوں میں دی ہے اور ا ُس
کے دل میں خواہش تھی کہ جلد از جلد س ُ لطان محمد علی صاحب کے
ہاتھ پر بھی بیعت کر لے۔ لیکن کچھ ایسے حاالت بنے کہ قریب دو
سال تک ا ُس کی ا ُن سے ُم القات نہ ہو سکی ۔ شاید اس کی یہی وجہ
تھی کہ اس دوران الل ّٰ ہ کی ذات نے ا ُس کے لیے کچھ اور ا سب ا ق مرتب
کر رکھے تھے ۔ ا ُس کا انداز گفتگو اور اخالق ایس ا تھ ا کہ وہ ہر طرح
کے لوگ میں اپنی جگہ بنا لیتا تھا۔ اس باعث ہر طرح کے لوگوں سے
اس کی شناسائی تھی اور اسے اکثر ایس ے لوگوں میں بھی بیٹھنے کا
اتفاق ہو جاتا تھا جن میں بیٹھنا تو دور پارسائی کے دعویدار لوگ ان
کا نام لینے سے بھی کتراتے ہیں ۔ جب سے بیعت اختیار کی تھی تب
سے وہ ہر طرح کی محفل میں فقیری رنگ میں گفتگو کرنے کی
کوشش کیا کرتا تھا۔ ا ُس کی زبان مسجد اور میخانے میں ایک سا
بیان کرتی تھی۔ اکثر لوگ ا ُسے حیرت سے دیکھتے اور ا س ے ٹوکتے
کہ کس طرح کے ماحول میں کیا بات کر رہا ہے۔ مگر ایسی جگہ
اکثر اسے ایک شعر یاد آ جاتا جو لوگوں کی زبان بند کرنے کو کافی
ہوتا۔
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کے
یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو
لیکن ا ُس کی بات ہی ایسی ہوتی تھی کہ لوگ ا ُسے س ُ ننا پسند کرتے
اور اکثر وہ بہت آس انی سے لوگوں کو مشکل سے مشکل باتیں س مجھا
لیتا تھا۔ ا ُس دن بھی وہ ایک دوست کے سا تھ اتفاقا ً کسی کے ڈیرے پے
جا پہنچا تھا اور دیکھا کہ ا ُس جگہ کا مالک وہاں بیٹھے لوگوں کو
122
اولیاء کی باتیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور لوگ بحث کے
موڈ میں ا ُس سے ا ُلجھ رہے ہیں۔کسی شخص نے پ ُ ر زور انداز میں کہا
"بھائی الل ّٰ ہ کے آخری رسول کے بعد ,اور مکمل ہدا یت یعنی قرآن
جیسی کتاب کے آنے کے بعد اب یہ ُم رشد کہاں سے آ گیا ,رسول الل ّٰ ہ
صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم ُم رشد کامل ہیں ,بس بندے کا پکا ایمان ہونا
چاہیے الل ّٰ ہ کی ذات پر نبی پاک کا پیغام تمام جہانوں کے لیے ہے ,ا ُن
کے بعد کسی ُم رشد کی کیا ضرورت ہے۔؟" ۔ وہاں م وجود سبھی لوگ
اپنی عام زندگی میں کچھ نہ کچھ کام کرتے تھے اور معزز طریقے
سے اپنی زندگی گ ُ زار رہے تھے۔ غرض کہ سبھی لوگ دنیا کی
نظروں میں اپنی پاکبازی کا بھرم قائم کیے ہوئے تھے۔ ا ُس نے جب
ماحول دیکھا تو بات کرنا ضروری محسوس کیا اور ب ُ لند آواز میں
ڈیرے کے مال ک سے کہا "اگر آپ ب ُ را نہ منائیں تو کیا میں بھی آپ
لوگوں کی گفتگو کا ح صّ ہ بن سکتا ہوں۔؟" "جی ضرور" ڈیرے کے
مالک نے خوشدلی سے کہا " ا ِن لوگوں کو میری بات سمجھ ہی نہیں
آتی کیا پتا آپ کی زبانی کچھ سمجھ آ جائے انہیں۔" ا ُس نے سوال
کرنے والے شخص کو مخاطب کیا اور ک ہا "بھائی اگر میں کہوں کہ
میں ایک ڈاکٹر ہوں ,میں نے بازار سے میڈیکل کی کتابیں خریدیں اور
ایک ایک کر کے ساری کتابیں پڑھ ڈالیں اور اب میں اپنا کلینک
کھولنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں تو آپ کیا کہیں گے ۔ ؟ " سوال
کرنے والے شخص نے ا ُسے عجیب سی نظروں سے دیکھا اور کہا
" میں یہی کہوں گا کہ ا ِس طرح محض کتابیں پڑھ کر کوئی ڈاکٹر
تھوڑی بن سکتا ہے ,کالج ,یونیورسٹی میں داخلہ لینا پڑتا ہے ,کسی
ا ُستاد سے سبق لینا پڑتا ہے اور امتحان پاس کر کے ڈگری حاصل
کرنی پڑتی ہے پھر کہیں جا کر کوئی ڈاکٹر بنتا ہے۔" ا ُس شخص کا
جواب س ُ ن کر ا ُس نے مسکراتے ہوئے کہا "جس کتاب کو انسانوں نے
لکھا ہے ,جسے پڑھ کر انسان کی جسمانی بیماریوں اور ا ُن کے عالج
کی خبر ملتی ہے ا ُس کے لیے ا ُستاد اور درسگاہ کی اہمیت سمجھ آتی
ہے لیکن جس کتاب کو ال ل ّٰ ہ نے لکھا جس میں روح کی بیماری اور
عالج کا بیان ہے ا ُس کتاب کے بارے میں ہم یہ سوچتے ہیں کہ ا ُسے
ہم ب ِ نا کسی ا ُستاد کے ہی سیکھ سکتے ہیں۔ کتنی عجیب سوچ ہے نا۔؟
قرآن سیکھنا سمجھنا بھی کسی قاری صاحب سے ا ِس کا تلفظ سیکھنا
123
نہیں بلکہ قرآن سیکھنا سمجھنا یہ ہے کہ ا ِسے دل میں ا ُتارا جائے۔
کیوں قاری صاحب میں غلط تو نہیں کہہ رہا۔؟" ا ُس نے بات کرتے
کرتے محفل میں موجود قاری صاحب کو مخاطب کر کے پوچھا تو
انہوں نے بھی ا ُس کی تائید کرتے ہوئے کہا "قاری کا کام تو صرف
قرآن کی آیات کا تلفظ سمجھانا ہے اور ویسے بھی آج کل لوگ قرآن
سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ ایک ذمہ داری پوری کرنے کے لیے
ج لنے والوں میں سینہ ٹھوک کر کہہ سکیں پڑھتے ہیں تاک ہ اپنے ملنے ُ
کہ ہم نے قرآن پورا ختم کیا ہوا ہے ,قرآن حفظ کرنے والوں میں بھی
اکثر لوگوں کا مقصد قرآن سیکھنا یا قرآن کو دل میں ا ُتارنا نہیں بلکہ
لوگوں کے دل میں اپنی عزت و احترام بڑھانا ہوتا ہے۔ اور محظ قرآن
کی آیات یاد کر لینا ا ِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ قرآن دل میں ا ُتر گیا
ہے۔ ا ِس کا دل میں ا ُترنا کچھ اور معنی رکھتا ہے۔ آج کل ہم لوگوں
کے دلوں میں قرآن کی حیثیت وہ نہیں رہی جو کہ ہونی چاہیے ,بچوں
کے اسکول کے امتحان شروع ہوتے ہی ہم قاری اور حافظ لوگوں کو
چ ھُ ٹی دے دی جاتی ہ ے ,والدین بہت اطمینان سے کہتے ہیں کہ قاری
صاحب ہمارے بچے کے اسکول کے امتحان ہو رہے ہیں اس لیے ا ِس
چ وں کو قرآن پڑھانے مت آئیے گا۔ اسکول کی پڑھائی کا مہینے آپ ب ّ
ہرج نہ ہو ا ِس خاطر امتحانوں سے پہلے ہی مدرسے خالی ہو جاتے
ہیں ,جس قوم کی نظر میں قرآن کی یہ اہمی ت ہو ا ُس قوم کے دل میں
نور ہدایت نہیں
قرآن کی آیات اور تلفظ تو ہو سکتا ہے لیکن قرآن کا ِ
ہو سکتا۔" قاری صاحب نے تفصیل سے اس کی بات کا جواب دیا تو
ا ُس نے کہا "ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں ,ہم دنیا کو دین پے فوقیت دیتے
ہیں ,گو کہ ہم برمال اس بات کو تسلیم کرنے پے راضی نہیں ہوتے
چ ے کو مار مار چ ہ اسکول نہ جائے تو ب ّلیکن درحقیقت ایسا ہی ہے ,ب ّ
کر بھیجا جاتا ہے لیکن قرآن پڑھنے سے چ ھُ ٹی کرنے میں کوئی
مسئلہ نہیں ہے۔ روزی روٹی کی فکر میں مبتال لوگ ایک دوسرے کی
روزی روٹی ہی کی فکر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی روزی روٹی
پے ہی نظر ر کھتے ہیں ,اسی کے باعث ایک دوسرے کو کمتر یا برتر
سمجھتے ہیں۔ آج تو لوگوں کا نصب العین ہی دنیا اور نفس ہے ,ایسے
لوگوں سے ا ِس بات کا شکوہ کرنا بے جا ہے کہ وہ دین کو اہمیت نہیں
چ ے کی پیدائش سے بھی پہلے دیتے۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں ب ّ
124
سے ماں باپ ا ُس کی دنی ا سوچنا شروع کر دیتے ہیں ,اسی دنیا کی
طرز پر ہم اپنی اوالد کی پرورش کرتے ہیں ,ایک حد تک تو یہ بات
جائز ,درست ,اور الزم ہے لیکن جہاں دنیا کی بھالئی کی اہمیت دین
کی سوچ سے تجاوز کرتی ہے وہاں یہ سوچ آنے والی نسلوں کے لیے
وبال بن جاتی ہے۔ لوگوں کو جب ا ِس دنیا میں ا ُتارا جاتا ہے تو ا ُنہیں
ا ُن کا رب ب ھُ ال دیا جاتا ہے۔ اور پھر ا ُس کے والدین کے ذریعے ا ُسے
کسی بھی مذہب و مسلک کی صورت رب کا نام بتا دیا جاتا ہے ,ساتھ
ساتھ رب سے جوڑنے والوں کے نام بھی بتا دیے جاتے ہیں۔ ا ِن ناموں
کو تھامے لوگ رب کا ذکر کرتے ہیں ,ہر نام کی تجلی ہوتی ہے ,تجلی
کا لفظ ویسے تو الل ّٰ ہ کی ذات کے جلوے کے لیے استمعال ہوتا ہے
ف عام میں کسی بھی شئے کے جلوے کو یا اظہار کو تجلی لیکن عر ِ
کہا جائے گا۔ زمین تجلیات کا گھر ہے ,دن رات میں انسان پر ہزارہا
تجلیات گ ُ زرتی ہیں لیکن ہم ا ُنہیں ا ِس طرح سے نہیں دیکھ تے ,صبح
ہوتی ہے تو سورج کی تجلی اور شام ہوتی ہے تو چاند تاروں کی
چ ہ اپنے بڑوں تجلی ,ماں ,باپ ,بہن ,بھائی ,دوست احباب کی تجلی ,ب ّ
کی بول چال کو دیکھ کر بول چال سیکھتا ہے ,عام طور پر دیکھا
چ ے بھی جلدی جائے تو جن گھروں کے لوگ ذیادہ بولتے ہیں وہاں ب ّ
بولنا سیکھ جاتے ہیں ,انسان پر جس طرح کی تجلیات ہوتی ہیں ا ُسی
طرح کی چیزیں انسان سیکھتا ہے۔ ہر تجلی تک پہنچنے کا ایک راستہ
ہوتا ہے ,جیسے زبان ,انسان اپنے ماں باپ سے سیکھتا ہے لیکن ا ُسی
زبان کا غلط استمعال عموما ً ا ُسے گھر سے باہر سیکھنے کو ملتا ہے,
گناہ کی سیکھ کسی نہ کسی جگہ سے ملتی ہے تو انسان گناہ کرنا
سیکھتا ہے۔ ا ِس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ تجلیات انسان کو اپنے بڑوں
سے ورثے میں ملتی ہیں اور کچھ تجلیات ا ُسے اپنے ماحول سے
حاصل ہوتی ہیں اور پھر انسان آہستہ آہستہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ کچھ
تجلیات خود با خود ا ُس تک پہنچ جاتی ہیں اور کچھ کے لیے ا ُسے
راز ق کی تجلی ہم روز ِ خواہش اور کوشش کرنی پڑتی ہے۔ مث ال ً
کھانے پینے کی شکل میں دیکھتے ہیں ,خالق کی تجلی ہمیں اپنے آپ
میں اور اپنے چار س ُ و دکھائی دیتی ہے۔ ا ِس کے عالوہ شیطان کی
تجلیات بھی ہر جانب واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں ,میں نے تھوڑا
بہت بزنس کے بارے میں پڑھا ہے اور مارکیٹنگ میرا پسندیدہ
125
سبجیکٹ تھا۔ ہمیں پڑھایا گیا کہ ا ِس سبجیکٹ کی بنیاد لوگوں کے دل
میں اپنی مصنوعات کی خواہش پیدا کرنا ہے ,یہ ایک آرٹ ہے ,کوئی
ایسی بات کرنے کا ,جو لوگوں کو یاد رہ جائے۔ اکثر اشتہارات لوگوں
کو یاد ہو جاتے ہیں۔ اور اشتہار بنانے والے کی کوشش بھی یہی ہوتی
ہے کہ لوگوں کو ا ُن کے کالئنٹس کی پروڈکٹ کا نام رٹ جائے۔ ا ِس
تمام کوشش کے پیچھے شیطان کارفرما ہے جو انسان کو ذیادہ سے
ذیادہ دنیا اور نفس کی تجلیات دکھا کر ا ُس میں ذیادہ سے زیادہ
خواہشات بھرنا چاہتا ہے۔ میں جب چھوٹا تھا تو اکثر ٹیلیوژن پر کوئی
گاڑی یا موٹر سائیکل دیکھ کر میں اور میرا کزن ا ِس بات پر ایک
دوسرے سے لڑ پڑتے تھے کہ یہ گاڑی میری ہے اور اکثر ا ِس بات
پر میں ا ُسے مارتا بھی تھا۔ آنکھ سے دکھائی دینے والی تجلی کا
انسان کی سوچ پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ہر طرح کی
تجلی موجود رہتی ہے اور انہی تجلیات میں الل ّٰ ہ کی صفات کی تجلیات
کے ساتھ ساتھ الل ّٰ ہ کی ذات کی تجلی بھی موجود ہوتی ہے۔ صفات کی
تجلیات انسان کو خود ڈھونڈھ لیتی ہیں لیکن ذات کی تجلی انسان کو
خود تالش کرنی پڑتی ہے۔ صفات کی طرح ,ذات کی تجلی بھ ی انسان
کو انسان میں ہی ملتی ہے۔" ایک شخص نے ا ُسے ٹوکتے ہوئے حیرت
سے کہا "لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ الل ّٰ ہ کی ذات کی تجلی کسی
انسان کی صورت ظاہر ہو۔؟ ا ُس کی ذات کی تجلی تو کو ہِ طور نہیں
برداشت کر پایا تو انسان کیسے کر سکتا ہے۔؟" تو ا ُس نے مسکرا کر
سوال کرنے والے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا "انسان اشرف
المخلوقات ہے اور ا ُس کا شرف یہ ہے کہ اگر وہ مومن ہو جائے تو
ال ل ّٰ ہ کی ذات ا ُس کے دل میں سما سکتی ہے۔ پہاڑ واقعتا ً ا ِس بوجھ کو
نہیں ا ُٹھا سکتا۔ لیکن مومن بندے کا دل ا ُس ذات کا گھر کہالتا ہے۔
الل ّٰ ہ کی ذات کی تجلی ہر انسان کو ا ُس کی طلب کے مطابق ملتی ہے,
یہ تجلی وقت میں موجود اولیاء کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی ہے
لیکن ہر شخص کسی ولی تک نہیں پہنچتا۔ مطلب یہ کہ جس کے نصیب
میں ال ل ّٰ ہ کی ذات کی تجلی ہو گی وہ تجلی ا ُس تک کسی بھی انسان کے
روپ میں پہنچ جائے گی پھر جو الل ّٰ ہ کا ط الب ہو گا وہ ا ُس تجلی کے
محور کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ الل ّٰ ہ کا پیغام لوگوں تک پہنچ
کر رہتا ہے لیکن ال ل ّٰ ہ والے کا ہاتھ وہ تھامتا ہے جو ال ل ّٰ ہ کی جانب
126
بڑھنا چاہتا ہے۔ آپ نے کہا کہ الل ّٰ ہ کے رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ
وسلم ُم رشد کامل ہیں ,بیشک ایسا ہی ہ ے ,لیکن کوئی ذریعہ بھی تو ہو
ج ڑنا محض روزے ,نماز یا قرآن پڑھنے سے گا ا ُن سے ُ
ج ڑنے کاُ ,
ہوتا تو آج ہم اتنے فرقوں میں بٹے ہوئے نہیں ہوتے۔ دنیا کے کامیاب
ترین لوگوں کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ یا تو الل ّٰ ہ والے تھے یا
الل ّٰ ہ والے کے ساتھی تھے ,اور پھر اپنے آپ کو دیکھیں ,ہم الل ّٰ ہ والے
نہیں لیکن الل ّٰ ہ والے کے ساتھی تو بن سکتے ہیں۔ تاکہ وہ ہماری روح
کی تربیت کر کے ہمارا دل الل ّٰ ہ کے لیے کھول دےُ ,م رشد سمجھاتا
ہے کہ شیطان سے کیسے لڑا جائے اور نفس کو کس طرح مطمئن کیا
جائے۔" وہ ایک پل کو خاموش ہوا تو ایک شخص نے کہا "اچھا یہ
ُم رشد والی بات تو سمجھ آ گئی لیکن وہ جو آپ نے ٹی وی والی بات
کی ,کہ ا ِس کے ذریعے سے انسان میں خواہشات بھری جاتی ہیں ,تو
ہم لوگ کیا کریں۔؟ کیا ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں۔؟" تو ا ُس نے کہا
"نہیں ,..ٹی وی دیکھیں ,..لیکن ا ُن چیزوں کے اثر کو پہچانتے ہوئ ے
ا ُسے خود پے اثر انداذ مت ہونے دیجیئے۔ ٹیلیوژن سے صرف شیطان
نہیں بلکہ رحمٰ ان کا پیغام بھی ملتا ہے۔ آپ چاہیں تو کسی فلم یا
ڈرامے سے کچھ اچھا بھی سیکھ سکتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ ا ِس
ٹیکنولوجی کو شیطانیت کے لیے استمعال کر رہے ہیں تو کچھ لوگ
ا ِسے رحمانیت کے لیے بھ ی استمعال کر رہے ہیں۔ کیونکہ تجلیات
الکھ پ ُ راثر سہی لیکن اثر ا ُسی پے ہوتا ہے جو اثر لینا چاہے۔ شیطان
کو اگر ا ُسی کے کھیل میں شکست دینی ہے تو ا ُسی کے ہتھیار کو ا ُس
کے خالف استمعال کرنا ہو گا۔ جس چیز کے ذریعے ا ُس نے لوگوں کو
گمراہ کیا ہے ا ُسی چیز کے ذریعے ہم لوگوں کو را ہِ راست پر بھی ال
سکتے ہیں۔ جو لوگ اشتہار بناتے ہیں وہ اپنے ایک منٹ کے اشتہار
میں اپنی مصنوعات کی خصوصیات بیان کرنے کی جگہ اپنی پروڈکٹ
کی تشہیر کے طور پر لوگوں کو کوئی اچھی بات بھی بتا سکتے ہیں۔
جس سے لوگوں کو یاد رہ سکے کہ فالں حدیث ,آیت ,یا د انائی کی بات
میں نے فالں پان مصالے ,فالں چائے بنانے والوں کے تعاون سے
س ُ نی تھی۔ اگر انسان اپنا آپ پہچان لے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے
اور شیطان ا ُس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔" وہ مسلسل بولتا جا رہا تھا
اور لوگ انہماک سے ا ُس کی بات س ُ ن رہے تھے۔ ا ُس کی بات کے
127
اختت ام پر لوگوں نے ا ُس سے ا ُس کے ُم رشد کا نام پوچھا تو ا ُس نے
س ُ لطان محمد علی صاحب کا نام لیا۔ ا ُن کا نام س ُ ن کر جس شخص کا
ڈیرا تھا ا ُس نے چمک کر کہا "بھائی کیا اتفاق ہے کہ آپ کے ُم رشد
پاک کا نام محمد علی ہے اور میرے ُم رشد پاک کا نام علی محمد ہے۔
128
''باب۔ '' 00
باتوں باتوں میں ا ُس نے ا ُن لوگوں میں اپنی تالش کا بھی ذکر کیا
جسے س ُ ن کر ا ُن لوگوں پر اور بھی اثر ہوا اور وہ سب ُم رید ہونے
کے لیے تیار ہو گئے۔ جس شخص نے سوال کیا تھا ا ُس نے کہا "چلو
بھائی اب ہمیں یہ بھی بتا دو کہ ہم کس کے ہاتھ پے ب یعت کریں۔؟" تو
ج ڑاا ُس نے کہا "بھائی بیعت تو نصیب کا کھیل ہے جس کا فیض جہاں ُ
ہو گا وہ وہیں پہنچے گا ,بیعت ا ُس کے ہاتھ پے کرو جس کو دل مانے,
ہر شخص کے لیے ا ُس کا اپنا ُم رشد ہی بہترین ہوتا ہے ا ِس لیے آپ
مجھ سے پوچھو گے تو میں یقینا ً اپنے ُم رشد پاک کا ہی نام لوں گا
کیونکہ میں جو بھی جانتا ہوں اپنے ُم رشد پاک کے ذریعے سے جانتا
ہوں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کا دل کس کو مانتا ہے۔؟" ا ُس شخص
نے عقیدت بھرے لہجے میں کہا "ہمارا دل تو آپ کو مانتا ہے ,آپ
جس کا نام لیں ہم ا ُس کے ُم رید ہو جائیں گے ,کیونکہ یہ بات جو آپ
نے ہمیں آج سمجھائی ہے" ا ُس نے ڈیرے کے مالک کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے کہا "یہ بات یہ بھائی ہمیں قریب ڈیڑھ سال سے سمجھا
رہا ہے۔ مگر سمجھ نہیں آتی تھی ,اور آج آپ نے جس طرح یہ بات
سمجھائی تو دل آپ کو مان گیا ,آپ کی بات بھی مان گیا" ا ُس شخص
نے ک ھُ لے دل سے ا ُس کی تعریف کر تے ہوئے کہا تو ا ُس نے اپنی
تعریف سے خوش ہوئے بغیر کہا کہ "میں ایک باشرعا سلسلے کا
بےشرعا ُم رید ہوں ,بس قسمت سے ا ُن کا سایہ نصیب ہو گیا ,سخی
ذات نے میرے عیب سمیت مجھے قبول کیا ,میں اپنی خواہشات کے
آگے اب بھی کمزور پڑ جاتا ہوں اور خطا کر بیٹھتا ہوں۔ لیکن میر ا
ُم رشد مجھے دھتکار نہیں دیتا کہ جا ت ُو نے فالں گناہ کا ارتکاب کیا
ا ِس لیے اب ت ُو میری ُم ریدی سے خارج ہو گیا ہے۔ ُم رشدُ ,م رید کے
دل میں خطا کرنے سے پیدا ہونے والے خیاالت کا اثر بدل دیتا ہے,
اگر وہ پہلے گناہ کر کے احساس گناہ میں مذید گناہوں کی طرف مائل
ہوت ا تھا تو اب و ہ گناہ کے بعد کسی اچھی سوچ پر مائل ہوگا یا گناہ
ترک کرنے کے بارے میں سوچے گا ُ ،م رشد مرید کا ہاتھ پکڑ کر
اسے گناہ سے نہیں روکتا بلکہ ا ُس کے دل کو ایسی راہ چال دیتا ہے
129
جس پے چل کے ا ُسے خود اپنی حرکت پر دل سے افسوس ہو ,شرم
آئے ,تاکہ ا ُس کے دل میں گناہ سے اجتناب کا ارادہ پیدا ہو ,اور اگر
وہ گناہ سے اجتناب نہیں بھی کرتا تو کم از کم گناہ کے بعد کی ب ُ رائی
سے محفوظ رہے۔ میں جس سلسے سے ُم رید ہوں وہاں شریعت کی
سخت پابندی کی جاتی ہے ,دربار پر یا ُم رشد پاک کی محفل میں آپ
کو کوئی غیر شرعی حرکت نظر نہیں آئے گی۔ س ُ لطان باہو رح ا ِس
قدر کامل مکمل ہستی ہیں کہ فرماتے ہیں ,جو شخص ُم رید کو ایک
نظر میں الل ّٰ ہ کی ذات سے مال نہ دے وہ ُم رشد کہالنے کے الئق ہی
معیار ُم رشدی کے باعث کچھ ایسے بھی ہیں ِ نہیں ہے۔ آپ رح کے ب ُ لند
جو آپ کی تعلیمات کا ہی انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ ا ُس مقام سے
ُم ریدین کو آگاہ کرانے سے قاصر رہتے ہیں جس کا س ُ لطان باہو رح
ذکر فرماتے ہیں۔ ا ِس لیے وہ ا ُن کے ولی الل ّٰ ہ ہونے سے ہی ُم کر
جاتے ہیں۔ اصل میں آپ رح جس مقام کی بات کرتے ہیں ا ُس پر
کھڑے رہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن ا ِس کا یہ مطلب
نہیں ہ ے کہ الل ّٰ ہ کی ذات صرف ا ُن ہی کے در سے ملتی ہے اور باقی
کسی جگہ کوئی فیض نہیں ہے۔ جس شخص کے دل میں الل ّٰ ہ کی طلب
ہو ا ُسے الل ّٰ ہ ضرور ملتا ہے۔ اگر دیکھنے والی نظر ہو تو الل ّٰ ہ ہر
روپ میں ملتا ہے ,اور نظر ہی نہ ہو تو ہر نظارہ بے معنی ہے۔ تو
آپ کے دل میں اگر الل ّٰ ہ کی چاہ ہے تو وہ مسجد ,مندر ,امام بارگاہ,
میں ہی نہیں بلکہ آپ کے ارد گرد موجود انسانوں ,جانورں ,پہاڑوں
میں بھی دکھائی دے گا ,فلموں ,ڈراموں ,گانوں میں بھی ا ُس کے
پیغامات س ُ نائی دیں گے۔ ُم رشدُ ,م رید کے دل کی آنکھ کھولتا ہے۔ اگر
کوئی شخص تمھارے دل کی آن کھ کھول سکتا ہے تو ا ُس کا سلسلہ,
طور ,طریقہ کچھ بھی ہو ا ُس کا ہاتھ تھام لینا چاہیے ,لیکن خوب سے
خوب تر کی تالش جاری رکھنی چاہیے ,جب تک کہ ُم رشد کامل نہ مل
جائے۔ اکثر ہم خود ا ِس الئق نہیں ہوتے کہ کسی کامل ہستی تک پہنچ
سکیں۔ الل ّٰ ہ لوگوں کو ہر جانب سے پ ُ کارت ا ہے ,اگر کوئی یاد کرنے
واال ہو تو ہر شئے ا ُسی کی یاد دالتی ہے۔ میرے خیال میں آپ لوگوں
ج ڑا ہے جہاں سے آپ کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے دعوت کا فیض وہاں ُ
دی جا رہی ہے۔ اس لیے آپ لوگوں کو ا ُس کے ُم رشد کے ہاتھ پے
بیعت کرنی چاہیے جو آپ کو ایک طویل عرصے سے ا ِس جانب النے
130
کی کوشش کر رہا ہے۔" ا ُس کی بات س ُ ن کر ڈیرے کے مالک نے کہا
"کیا آپ جانتے ہیں میرے ُم رشد پاک کو۔؟" تو ا ُس نے کہا "نہیں,...
لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ جس کا ُم رید اتنی طویل کوشش کرنے کی
چ ا درویش ہو گا جس نے اپنے ُم رید سکت رکھتا ہو وہ ضرور کوئی س ّ
میں اتنی چاہ بھری کہ وہ اتنے عرصے سے ا ِن لوگوں کی باتیں س ُ نتا
ہے اور پھر بھی کوشش کرتا رہتا ہے۔ تو میں آپ کی کوشش آپ کی
محنت اور آپ کی لگن کو سالم کرتا ہوں۔ "
ا ُن کے ُم رید انہیں سرکار پ ُ کارا کرتے تھے۔ ا ِس بات کو شاید ایک دو
دن ہی گ ُ زرے تھے کہ ا ُن میں سے اکثر لوگ سرکار علی محمد کے
پاس جانا شروع ہوئے اور ا ُن سے ا ُس کا ذکر بھی کیا پس انہوں نے
ا ُس سے مالقات کی حامی بھر لی۔ اگلے روز جب ڈیرے کے مالک کی
دعوت پے وہ دوبارہ ا ُس ڈیرے پے پہنچا تو ا ُسے بتایا گیا کہ سرکار
علی محمد نے آپ کو یاد کیا ہے اور ا ُس نے فور ا ً ا ُن سے ملنے کا
ا رادہ کر لیا۔ لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ سرکار علی محمد ایک بےشرعا
سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں ,ایک ایسا سلسلہ جو شریعت کی نفی
کرتا تھا۔ ایک ایسا سلسلہ جسے اولیاء کے بہت سے سلسلے ,سلسلہ
ماننے کو ہی تیار نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ سلسلہ چل رہا ہے ,پیری
ج ڑتے ہیں اور اپنی بساط کے ُم ریدی چل رہی ہے ,لوگ آتے ہیںُ ,
مطابق فیض بھی حاصل کرتے ہیں۔ وہ خود جس سلسلے سے بیعت تھا
وہاں بھی شریعت کے بغیر پیری ُم ریدی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ لیکن
چ کا تھا جنہوں نے شریعت سے وہ ایسے اولیاء کے ق صّ ے بھی س ُ ن ُ
ہٹ کر زندگی گ ُ زاری۔ ا ُس کا ذہن ا ُل جھ رہا تھا۔ وہ انہی سوچوں میں
مگن تھا کہ ڈیرے پے موجود لوگوں میں سے کسی ایک نے سوال کیا
"بھائی یہ باشرعا بزرگ اور بے شرعا بزرگ کیا ہوتا ہے۔؟" ا ُس نے
سوال س ُ ن کہ سوچا کہ آج پھر اپنے سوال کا جواب ,اپنی زبانی ہی دینا
پڑے گا۔ ا ُس کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا تھا کہ جس سوال پر وہ خود
سے ا ُلجھ رہا ہوتا تھا وہی سوال کوئی اور ا ُس سے پوچھ بیٹھتا تھا
اور ا ُسے جواب دیتے دیتے ا ُسے خود اپنی بات کا جواب ِم ل جاتا تھا۔
ا ُس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے اپنی بات شروع کرتے ہوئے کہا
" س ُ لطان باہو رح کی تعلیمات کے مطابق بےشرعا شخص ُم رشدی کے
الئق ہی نہیں ہے۔ آپ رح نے فرمایا کہ کوئی شخص ہوا میں ا ُڑتا ہو,
131
یا پانی پر چلتا ہو یا ا ُس کے حکم سے بارشیں برستی ہوں لیکن اگر وہ
ت رسول کا تارک ہو تو ا ُس کے پیچھے مت چلنا کسی ایک بھی س ُ ن ِ
کیونکہ وہ شخص راہبر نہیں بلکہ راہزن ہے وہ تمھیں منزل تک کبھی
نہ پہن چائے گا اور راہ میں ہی چھوڑ دے گا۔ جیسے میں نے پہلے بھی
کہا کہ س ُ لطان باہو رح کامل ذات ہیں اور کاملیت کی بات کرتے ہیں۔
فرض کرو کسی کو اسالم آباد سے کراچی جانا ہے تو وہ جہاز میں
بیٹھ کر بھی جا سکتا ہے اور بس یا ٹرین سے بھی جا سکتا ہے۔ جہاز
ُر کے بغیر پہنچ سک تا ہے ,لیکن ٹرین اور بس کے سفر میں جگہ جگہ
پڑاؤ ہوں گے ,مطلب سفر بندے کی چاہت اور ا ُس کی جیب میں موجود
نقدی کے حساب سے ہوتا ہے۔ ا ِسی طرح الل ّٰ ہ کی جانب کیے جانے
واال سفر بھی چاہت اور نقدی سے طے کیا جاتا ہے۔ ا ِس راہ کی نقدی
اخالص ہے جس میں جتنا اخالص ہو گا وہ ا ُتنی ہی تیزی سے الل ّٰ ہ کی
جانب بڑھ سکتا۔ لوگ الل ّٰ ہ سے طرح طرح کے گ ُ مان رکھتے ہیں ,اسی
باعث رنگ رنگ کے لوگ ہوتے ہیں ,کوئی ڈر کے بات ماننے واال
ہوتا ہے تو کوئی اپنی کوشش کا بدلہ حاصل کرنا چاہتا ہے ,کسی
شخص کو اپنے نفس کی تسکین درکار ہوتی ہے تو کوئی دنیا پرست
ہوتا ہے۔ لوگوں کی الگ الگ سوچ کے باعث انہیں الگ الگ طریقے
سے الل ّٰ ہ کی ذات ملتی ہے۔ ایک شخص اگر کسی گناہ کی لت میں
پھنسا ہوا ہے تو کیا ا ُس کے نصیب میں الل ّٰ ہ کی محبت نہیں ہو سکتی۔؟
نیک لوگ ب ُ رے لوگوں سے پرے رہتے ہیں اور ب ُ رے لوگ نیک لوگوں
سے حجاب کرن ے کی کوشش کرتے ہیں۔ ا ِس لیے الل ّٰ ہ نے ایسے سبب
بنا رکھے ہیں جو ہر مقام سے لوگوں کو ال ل ّٰ ہ کی جانب ب ُ التے ہیں۔ تو
جو لوگ ڈرنے والے ہیں ا ُن کے لیے دوزخ کا ڈر پیدا کیا ,جو لوگ
ص لہ طلب کرتے ہیں ا ُن کے لیے جنت کی خوشخبری اپنے اعمال کا ِ
ج لتا کوئی رکھی ,ہر طرح کے ذہن کے ل یے ا ُسی کی سوچ سے ملتا ُ
ایسا سبب رکھا جس کے ذریعے وہ الل ّٰ ہ کی راہ حاصل کر سکے۔ جس
طرح کسی اونچی عمارت کے الگ الگ فلور ہوتے ہیں ا ُسی طرح
باطن میں ہر اچھائی اور ب ُ رائی کے درجات موجود ہوتے ہیں اور ہر
درجے پر کم از کم ایک شخص ایسا ضرور ہوتا ہے جو اپ نی تمام تر
ب ُ رائی یا اچھائی کے باوجود الل ّٰ ہ کے ساتھ خالص ہوتا ہے۔ یہ اس بات
کی دلیل ہے کہ ال ل ّٰ ہ ہر جگہ موجود ہے اور ا ُس تک پہنچنے کے لیے
132
کسی قسم کی کوئی قید نہیں ہے۔ بےشرعا بزرگوں کو عام طور پر رد
کیا جاتا ہے کیونکہ ا ِس طرح لوگ شریعت سے دور ہو کر معاشرے
میں بےراہ روی پھیالنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ جن اولیاء نے
شریعت کی نفی کی ا ُن کا کچھ خاص مقام تھا جس کی بنیاد پے انہوں
نے نفی کی۔ ایک ایسا مقام جسے سمجھنا ُم ّال حضرات کے بس کی
بات نہیں ہے۔
لوگوں کو فنائیت کا مقام سمجھانے کے لیے الل ّٰ ہ نے وقت میں ایسے
اولیاء بھیجے جنہوں نے مصلحت کے تحت ایسا کیا۔ حضرت منصور
حالج رح ,بابا بھلے شاہ رح ,صوفی سرمد شہید رح ,حضرت مادھو
لعل حسین رح ,وہ چند بزرگ ہیں جو ا ِن سلسلوں کی بنیاد کی سی
حیثیت رکھتے ہیں۔ صوفی سرمد شہید رح کے متعلق مش ہورتھا کے وہ
کلمے کا ایک ہی جز یعنی صر ف " ال ا لہ " پڑھتے تھے وہ سر
ب رہنہ بھی رہا کرتے تھے چناچہ علماء کا اجتماع ہوا – علماءنے
اعتراز کیا کہ آپ کلمے کا ایک ہی جز کیوں پڑھتے ہیں ؟ تو صوفی
سرمد شہید رح نے جواب دیا کہ " میں ابھی نفی میں مستغرق ہوں
مرتبہ اثبات پر نہیں پہنچا م "۔ علماء نے ان سے ستر پوشی کرنے
اور کلمہ پورا پڑھنے کو کہا مگر بےسود ۔ اس لیے وہ واجب القتل
فتوی جاری ہوا ۔ شاہ اسد الل ّٰ ہ
ٰ سمجھے گ ئ ے اور ان کے خالف قتل کا
نے جو ایک صاحب دل بزرگ اور سرمد شہید کے پرانے رفیق
فتوی جاری ہونے پے ا ُن سے کہا " کپڑے پہن لیج یے اور ٰ تھے ,
پورا کل مہ پڑھ لیجیے تاکہ جان بخشی ہوجا ئے " سرمد شہید نے
جواب نہ دیا ۔ ایک نظر ڈالی اور یہ شعر پڑھا کہ
133
کہا جاتا ہے کے قتل سے پہلے انہوں نے یہ شعر پڑھا
135
''باب۔ '' 00
ڈیرے پے موجود لوگوں میں سے کسی نے پوچھا "بھائی یہ اناالحق
کیا ہے۔؟ میں نے اکثر لوگوں سے پوچھا ہے لیکن کسی نے نہیں بتایا"
ا ُس نے سوال کرنے والے کی طرف دیکھا اور کہا "آپ نے نور دیکھا
ہے۔؟ الل ّٰ ہ کا نور۔؟" ا ُس شخص نے کہا "ہم کوئی ولی بزرگ تھوڑی
ہیں جو ا ُس کا نور دیکھ سکیں۔ بس ایک خیال سا آتا ہے کہ الل ّٰ ہ کا
نور روشن ی کے ایک سمندر کی مانند ہو گا جس کی کوئی حد نہیں ہو
گی۔" ا ُس شخص کے جواب پر ا ُس نے کہا " ا ِس طرح کا گمان ہر
شخص کے دل میں رہتا ہے کیونکہ ہم سب ا ِس دنیا میں آنے سے پہلے
چ کے ہیں ,اور ہماری روح ا ُسی کے نور کا ح صّ ہ ہے۔ وہ ا ُسے دیکھ ُ
بلب دیکھ رہے ہو۔؟" ا ُس نے با ت کرتے کرتے ڈیرے پے لگے بلب
کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا "اس بلب کے اندر بھی روشنی ہے
اور باہر بھی ,لیکن روشنی کے جو ذ ّر ات بلب کے اندر ہیں ا ُنہیں ہم
بلب ہی کہتے ہیں اور جو ذرات باہر ہیں ا ُنہیں روشنی کہتے ہیں,
روشنی کے یہ ذ ّر ات بلب سے جتنا دور ہوتے جائیں ا ُت نا ہی مدھم
پڑتے جائیں گے۔ اب اگر کسی طریقے سے ا ِن مدھم ذ ّر ات کو واپس
بلب کی جانب لے کر جایا جائے تو یہ ذ ّر ات جیسے جیسے بلب کے
قریب ہوتے جائیں گے ویسے ویسے ہی یہ روشن سے روشن تر ہوتے
جائیں گے اور ایک مقام ایسا آئے گا کہ روشنی واپس بلب میں داخل
ہو جائے گی۔ ا سی طرح انسان کے اندر جو نور موجود ہے وہ ا ُسی
ح بِذات کا امر ہے لیکن دوری کے باعث مدھم ہے۔ جب ایک شخص ُ
ٰال ہی میں آگے بڑھتا ہے تو ا ُس کے سینے میں موجود نور روشن ہونا
شروع ہو جاتا ہے ,ا ِسی روشنی کے بڑھنے کو درجات کا ب ُ لند ہونا
بھی کہا جاتا ہے۔ الل ّٰ ہ کے قریب لے جانے والی راہوں میں سب سے
تیز راہ عشق ہے۔ تو جب کوئی روشنی کا ذ ّر ہ اپنے مرکز پے واپس
پہنچ جاتا ہے تو وہ مرکز کا ح صّ ہ بن جاتا ہے۔ ا ِس بات کا اظہار
کرنے کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔ ا ِس لیے جب حضرت منصور
فتوی صادر ک یا گیا۔ یہ مقام ٰ حالج نے اقرار کیا تو ا ُنہیں قتل کرنے کا
ایک راز ہے جسے ہر خاص و عام پر نہیں کھوال جا سکتا۔ انہوں نے
136
جو کہا وہ اپنے مقام کے اعتبار سے صحیح کہا لیکن ایسی بات کو
مقا ِم شریعت میں بیان کرنا روا نہ تھا۔ کہتے ہیں ,تم ا ِک گورک دھندا
ہو۔ وہ ذات ,کہ خود ہی چ ھُ پتا ہے ,اور خود ہی چ ھُ پاتا ہے ,اور پھر
کہتا ہے کہ مجھے ڈھونڈ ۔ تو جس نے ا ُسے پا لیا وہ مندر میں بیٹھا
بھی مومن ہو گیا اور جو ا ُسے ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہ کر سکا وہ
کعبے میں بھی بیٹھا کافر ہی رہ گیا۔ اگر آپ دنیا کی ابتدا سے لے کر
اب تک کے حاالت پر نظر دوڑائیں تو دکھائی دیتا ہے کہ سب چیزیں
آہستہ آہستہ نازل ہوئیں۔ ابتدا میں مقصد صرف انسانوں کی آبادکاری
تھا۔ انہیں زمین میں چلنے پھرنے ,جینے مرنے کا طریقہ بتانا تھا۔
لوگ اپنے مسائل کے فیصلے کروانے کے لیے سیدھے الل ّٰ ہ سے سوال
کر لیتے اور جواب مل جاتا۔ جیسے ہابیل اور قابیل کی مثال ہے کہ
انہوں نے ا پنی اپنی قربانی الل ّٰ ہ کے حضور پیش کی اور الل ّٰ ہ نے ہابیل
کی قربانی قبول کر لی۔ آہستہ آہستہ الل ّٰ ہ کا پیغام زمین میں بڑھتا گیا
لیکن ا ُس سے کالم کا طریقہ خفی ہوتا گیا۔ جیسے جیسے انسان کی
سمجھ ,ا ُس کا فہم وسیع ہوتا گیا ویسے ویسے الل ّٰ ہ نے اپنی ذات کے
اظہار ک و روشن سے روشن تر اور پوشیدہ سے پوشیدہ تر کر دیا۔
کبھی ا ُس کی آواز آسمان سے س ُ نائی دیتی تھی اور پھر ا ُس کا پیغام
جبریل علیہ السالم لے کر آنا شروع ہو گئے۔ جس رب نے بنی اسرائیل
س لوں پے نقش کر کے اپنے نبی کے ہاتھ کے لیے اپنی کتاب پتھر کی ِ
دی ا ُسی رب نے رہتی د نیا تک کے لیے تمام کتابوں کا نچوڑ یعنی
قرآن اپنے محبوب بندے کے دل پر نازل کیا۔ وہ رب جس نے اسماعیل
علیہ السالم کی ایڑھی سے زم زم کا چشمہ جاری کر دیا ا ُسی رب نے
میدا ِن کربال میں اپنے محبوب ترین بندوں کو ایک بوند پانی نہ دیا۔
عیسی ابن مریم کو زندہ آسمان پر ا ُٹھا لیا ا ُسی رب نےٰ جس رب نے
حسین ابن علی کا سر نیزے پے چڑھ جانے دیا۔ آخر کیوں؟ کچھ تو
بھید ہو گا ا ِس سب کا؟ تو بھید یہ ہے کہ وہ خود ہی اپنے محبوب
بندوں کے روپ میں اپنے عشق کی مثالیں قائم کرتا ہے۔ جس بندے کا
دل ال ل ّٰ ہ کا عرش بن جائے ,ال ل ّٰ ہ جس کے رگ و پے میں سما جائے,
وہی ایسی قربانی دے سکتا ہے۔ کٹے ہوئے سر کا نیزے پے تالوت
کرنا ,زمین و آسمان میں فنا اور بقا کی ا ِس سے بڑی مثال موجود نہیں
ہے۔ جب قطرہ سمندر سے مل گیا تو ا ُسے سمندر کہنا روا ہے۔
137
ایک بات اور کہتا چلوں کہ اگر کسی بزرگ سے کوئی کرامت ظاہر
ہوتی ہے تو محض ا ِس وجہ سے کہ وہ رسول الل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ
وسلم کا غالم ہوتا ہے ,یہ بات ا ِس لیے بیان کر رہا ہوں کیوں کہ ایک
بار کسی سے بات کرتے ہوئے میں نے ا ُسے س ُ لطان باہو رح کے
مطالق بتایا کہ آپ رح کے چہرے کو دیکھ کر لوگوں کی زبان سے
کلمہ جاری ہو جایا کرت ا تھا تو ا ُس نے فور ا ً کہا کہ "کیا س ُ لطان باہو
رح حضور پاک صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی ذیادہ پہنچ رکھتے
تھے (نعوذبلل ّٰ ہ) کہ جو کلمہ لوگوں کو پڑھانے کے لیئے رسول الل ّٰ ہ
صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم نے اتنی محنت کی وہ س ُ لطان باہو رح کو
دیکھنے ہی سے جاری ہ و جاتا تھا۔؟" تو میں نے ا ُسے کہا کہ کوئی
بھی ولی حضور صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی غالمی ہی سے ولی بنتا
ہے ,اس لیے ا ُس سے جو کرامت ظاہر ہوتی ہے وہ رسول الل ّٰ ہ صلی
الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی ذات کا ,ا ُن کے فیض کا ,ا ُن سے محبت کا
اظہار ہوتی ہے۔ الل ّٰ ہ نے تمام کائنات اپنے محبوب صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ
وسلم کے لیے بنائی ,اگر رسو ِل اکرم صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم دنیا
سے تشریف لے گئے تو یہ کائنات ختم ہو جانی چاہیے تھی۔ لیکن یہ
کائنات اگر ابھی بھی باقی ہے تو یقینا ً ا ِس کا مقصد اب بھی رسو ِل ُ
خ دا
حضرت محمد صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم ہی ہیں۔ الل ّٰ ہ کی پہچان ,ایک
چ کی ہے لیکن الکھ چوبیس ہزار انبیاء کی صورت ,زمین میں ظاہر ہو ُ
الل ّٰ ہ کے محبوب صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی پہچان ابھی باقی ہے,
جب تک یہ پہچان مکمل نہیں ہو جاتی افالک تباہ نہیں ہو سکتے۔
اولیاء کرام کی صورت ,زمین میں ا ِسی پہچان کا عمل جاری ہے۔ الگ
الگ رنگ میں اولیاء کرام ا ُسی ایک ذات اقدس صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ
وسلم کی وسعت کے اظہار میں محو ہیں۔
اصل میں جب کوئی الل ّٰ ہ کی جانب بڑھ رہا ہو تو شیطان ا ُس سے طرح
طرح کے سوال پوچھتا ہے۔ نور و بشر ,شیعہ ,س ُ نی ,ہندو ,مسی حی
جیسے سوالوں میں ا ُلجھاتا ہے۔ جو ا ُس کے سوالوں میں ا ُلجھتا ہے,
ا ُلجھتا ہی چال جاتا ہے۔ انہی سوالوں سے نجات ِد النے کے لیے انسان
کو کسی ا ُستاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ نے اکثر ا ُستاد کے احترام
میں بہت بڑی بڑی باتیں پڑھی ہوں گی ,یہ باتیں اسکول کی کتابیں
پڑھانے والے ا ُستاد کے بارے میں نہیں بلکہ دین سکھانے والے ا ُستاد
138
یعنی ُم رشد کے بارے میں کہی گئی ہیں۔ س ُ لطان باہو رح اپنی کتاب
حضور اکرم صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم
ِ عین الفقر میں لکھتے ہیں کہ
کا فرمان ہے "جس نے حصو ِل دنیا کی خاطر علم حاصل کیا وہ کافر
ج ت بازی کے لئے علم حاصل کیا وہ منافق ہے اور ح ّ
ہے ,جس نے ُ
جس نے رضائے ال ٰہ ی کی خاطر علم حاصل کیا وہ مسلم ہے۔" اب ا ِس
بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دینی و دنیاوی علم حاصل کرنا چھوڑ دو,
ڈاکٹر ,انجینیر ,یا عالم وغیرہ بننا چھوڑ دو۔ بلکہ ا ِس کا مطلب یہ ہے
کے اپنے علم و ہنر کا مقص د حصو ِل دنیا یا لوگوں کی واہ وائی حاصل
کرنا نہ ہو۔ کبھی کبھی محفل میں کسی کو الجواب کر کے اپنے علم
کا ثبوت دینے سے ذیادہ ضروری خاموش رہ کر اپنی بڑائی ثابت کرنا
ج ت کرنے والے عالم ہوں یا ا ُن کی باتوں کو
ح ّ
ہوتا ہے۔ حیل و ُ
دہرانے والے عام لوگ ,دونوں ہی فتنا و فساد کے باعث ہیں۔ "
139
''باب۔ '' 00
وہ خاموش ہوا تو ڈیرے پے موجود ایک اور شخص نے ا ُسے مخاطب
کرتے ہوئے کہا "بھائی یہ نور اور بشر والی بات مجھے بھی آج تک
سمجھ نہیں آئی ,مولوی صاحب کہتے ہیں کہ نبی پاک ہماری طرح بشر
تھے ,اور پیری ُم ریدی والے لوگو ں میں بیٹھو تو یہ کہتے ہیں کہ وہ
نور ہیں۔ مولوی صاحب کہتے کے نور کہنا شرک ہے اور یہ لوگ
کہتے کہ نور نہ کہنا شرک ہے۔ آپ بتاؤ کیا صحیح ہے۔؟" ا ُس نے
سوال کرنے والے سے کہا "دیکھو ہم مانتے ہیں کہ الل ّٰ ہ ہر جگہ
موجود ہے ,اگر وہ ہر جگہ موجود ہے تو ا ِس کا مطلب کہ ہم سب ا ُس
کی ذات کے اندر موجود ہیں ,تمام زمین و آسمان کو ا ُسی نے گھیرے
رکھا ہے۔ سب ا ُسی کا نور ہی ہے۔ بس اصل نور سے دور آ جانے کے
باعث ا ُس کی صورت بدل گئی ہے لیکن وہ صورت بدل جانے کے
باوجود ,ا ُسی نور کے سمندر میں موجزن ہے ,جو ا ُس کا اصل ہے۔
الل ّٰ ہ نے اپنے محبوب صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا آئینہ بنایا اور
جب ا ُس میں اپنا عکس دیکھا تو ا ُس پے عاشق ہو گیا۔ ا ُسی ِ
نور
محمدی صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے تمام ارواح کو پیدا کیا گیا۔
نور
ارواح میں سب سے پہلے تمام انسانی ارواح کو پیدا کیا گیا۔ ِ
محمدی صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے جو ارواح پیدا ہوئیں ا ُن میں
حضرت آدم علیہ السالم کے نور سے فرشتے پیدا ہوئے اسی لیے ا ُن
سے آدم کو سجدہ کرنے کو کہا گیا۔ ال ل ّٰ ہ نے دوسرے سجدے کا ذکر
کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں دوسرے سجدے کی اجازت دیتا تو بیوی
سے کہتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ ک رے۔ جب میں نے اس بات پر غور
کیا تو سمجھ آیا کہ جہاں کوئی ایک ذات کسی دوسری ذات کے وجود
سے جنم لے وہاں سجدہ روا ہو جاتا ہے ,عورت کیونکہ مرد کی پسلی
سے پیدا کی گئی ا ِس لیے الل ّٰ ہ نے فرمایا کہ میں کسی اور کو سجدہ
کرنے کی اجازت دیتا تو عورت کو اپنے شوہر کو سجد ہ کرنے کا
کہتا۔ یہ بات شوہر کی عظمت سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک بھید کا
اظہار ہے کہ جیسے ا ُس نے حضرت آدم علیہ السالم کی پسلی سے
حو ا علیہ السالم کو پیدا فرمایا ا ُسی طرح ا ُس نے ایک نور حضرت ّ
140
سے دوسرے نور جنم دیا اور کیونکہ تمام خلقت کا جنم ایک الل ّٰ ہ کے
ہی نور سے ہے ا ِس لیے ا ُس نے اپنی عبادت میں کسی کو بھی شریک
بنانے سے انکار کر دیا۔ تمام تر نور الل ّٰ ہ ہی کا ہے۔ ہر شئے ا ُسی کی
ذات کا اظہار ہے۔ اچھائی کا خالق الل ّٰ ہ ہے تو ب ُ رائی کا پیدا کرنے واال
بھی وہی ہے ,سب الل ّٰ ہ کی ذات کا اظہار ہے سب الل ّٰ ہ کا نور ہے۔ ی ہ
نور اور بشر کا جھگڑا بے فیض عالموں کا پیدا کردہ ہے درویش کے
لیے سب نور ہے۔ جیسے س ُ لطان باہو رح فرماتے ہیں کہ "میں عل ِم
دیار عشقِ دیدار کا عالم ہوں ,مجھے نور ہی نور دکھائی دیتا ہے۔"
میں کس کا کیسا مقام ہے ا ِس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے بلکہ اپنا مقام
پیدا کر نے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ آپ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم
نے فرمایا کہ میں فقط تم جیسا انسان ہوں۔ تم جیسا کا مطلب یہ نہیں
ہے کہ تم ہوں۔ بہت سے لوگ آپ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی
طرح یا اپنے آباؤ اجداد کی طرح فانی سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر
بڑی عقیدت سے ایسے واقعات کا ذکر کرتے ہیں جن میں پوری
عمارت جل جانے کے باوجود قرآن پاک محفوظ رہا۔ افسوس ہوتا ہے
س ُ ن کر کہ کالم جس کتاب میں لکھا ہوا ہے ا ُس کے بارے میں یہ سوچ
ہے کہ یہ ہمیشہ محفوظ رہے گا اور جس پے یہ کالم نازل ہوا ا ُس
جسم و دل کو فانی سمجھتے ہیں۔ "
وہ خ اموش ہوا تو ڈیرے کے مالک نے کہا "میرے خیال میں اب ہمیں
سرکار علی محمد سے مالقات کے لیے چلنا چاہیے۔" تو ا ُس نے تائید
کی اور وہ سب ا ُن سے مالقات کے لیے روانہ ہو گئے۔ اسالم آباد کے
سیکٹر آئی۔نائن میں پہلی بار وہ ا ُن سے مالقات کے لیے پہنچا۔ ایک
فلیٹ کے الگ الگ کمروں میں لوگ بیٹھے تھے اور ایک کمرے کا
دروازہ بند تھا۔ ڈیرے کے مالک نے ا ُسے ایک کمرے میں انتظار
کرنے کو کہا اور خود بند کمرے کی جانب بڑھا۔ ا ُس کی شخصیت
ایسی تھی کہ لوگ خود بہ خود ا ُس کی جانب کھنچے چلے آتے ,وہ
جس بھی محفل میں ہوتا سب نگاہیں ا ُس کی جانب ہو تیں۔ ا ُس روز بھی
ایسا ہی ہوا کہ وہاں جاتے ساتھ ہر شخص کی نظر ا ُسی پر تھی شاید
چ کی تھی ا ِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ا ُن سب میں یہ بات پھیل ُ
تالش حق میں محو ہے۔ کچھ ِ کہ کوئی شخص سات سال کی عمر سے
لوگوں نے ا ِسی بارے میں حیرت سے ا ُس سے پوچھا تو ا ُس نے کہا
141
ا ِس میں اتنا حیران ہونے کی بات نہیں ,میں بھی آپ جیسا ہی ہوں ,گناہ
گار ہوں ,خطا کار ہوں ,بس یہ الل ّٰ ہ کی مہربانی تھی کہ ا ُس نے ا ُس
عمر میں ایسی سوچ دی اور میرے بار بار بہکنے کے باوجود مجھے
بار بار وہ سوچ پھر سے عطا کی۔ تو ا ِس سب میرا کوئی کمال نہیں
ہے بس الل ّٰ ہ نے راستہ ہی کچھ ایسا رکھا تھا۔ "
ابھی وہ بات کر ہی رہا تھا کہ ڈیرے کا مالک ہانپتا ہوا اور تقریبا ً
بھاگتا ہوا آیا اور کہا "چلو بھائی سرکار ب ُ ال رہے ہیں۔" ا ُس کی حالت
سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ا ُس نے اپنے ُم رشد کا جالل دیکھا ہے۔ ڈیرے
کے مالک نے مزید کہا کہ "میں نے جیسے ہی بتایا کہ میں آپ کو
یہاں انتظار کرنے کے لیے بٹھایا ہے تو ناراض ہو گئے اور کہا کیا
تجھے نہیں پتہ کہ کس کو انتظار کروانا ہے اور کسے نہیں ,جا فور ا ً
ا ُسے اندر لے کر آ۔" ا ُس کی بات س ُ نتے س ُ نتے وہ ا ُن کے کمرے کے
دروازے تک پہنچا اور کمرے کے اندر داخل ہو ا۔ کمرے کے فرش پر
دریاں بچھی ہوئی تھیں اور کمرے کے بیچ فرش پر ایک بستر بچھا
ہوا تھا جس پر سرکار علی محمد صاحب دیوار کے ساتھ تکیے رکھے
ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ وہ ا ُن سے ملنے کے لیے ان کے پاس بیٹھا
تو انہوں نے ا ُسے گلے سے لگا لیا اور ا ُن کی سانس سے ھ ُ و ھ ُ و کی
ص دا پورے کمرے میں س ُ نائی دینے لگی۔ کافی دیر انہوں نے ا ُسے
سینے سے لگائے رکھا اور پھر ا ُسے اپنے پاس بٹھا لیا اور سب سے
کہا "دیکھو الل ّٰ ہ کہاں کہاں سے اپنے بندوں کو پ ُ کارتا ہے ,ا ِس دنیا
میں لوگوں نے پیری ُم ریدی کو دھندا بنایا ہوا ہے ,سچ کیا ہے ,حق
کسے کہتے ہی ں نہ تو کسی کو پتا ہے اور نہ ہی کوئی بتاتا ہے۔" پھر
ا ُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "ت ُو خوش قسمت ہے کہ ال ل ّٰ ہ نے
تجھے تیرے دل سے پ ُ کارا ",پھر اپنے ُم ریدین سے کہا "الل ّٰ ہ انہیں
ملتا ہے جو ا ُسے اپنے اندر تالش کرتا ہے۔ یہ جو کچھ تم اپنے باہر
دیکھتے ہو یہ سب تو دھ وکہ ہے ,فریب ہے ,جسے اپنے اندر خدا نہ
خ دا مل مال ا ُس کے لیے کعبہ کلیسا ایک سا ہے ,اور جسے اپنے اندر ُ
گیا ا ُس کعبے کلیسے کی حاجت ہی نہیں رہتی۔" ُم ریدین سے بات
کرتے کرتے انہوں نے ا ُس کی دراز زلفوں کو ہاتھ سے ا ُس کے
چہرے سے ہٹاتے ہوئے شرارت سے کہا "یار ت ُو تو بہت خوبصورت
ہے ,لڑکیاں تو بہت مرتی ہوں گی تجھ پر۔" تو ا ُس نے نظر ج ھُ کا کر
142
ادب سے کہا "سرکار جو ا ُس پے مر ِم ٹا ہو ا ُس پے دنیا مرتی ہے ,دو
چار مجھ پے َم ر گئیں تو کیا ہوا" انہوں نے ا ُس کے جواب پے مسکرا
کر کہا "اچھی خوبصورت شخصیت ہے تیری ,آواز بھی زبردست ہے,
جا کوئی فلموں ,ڈراموں میں کام کر ,آج کل ویسے بھی اچھا پیسہ مل
جاتا ہے ا ِن کاموں میں ,کہاں درویشوں میں آ بیٹھا ہے ت ُو۔؟" ا ُن کے
سوال پے ا ُس نے بدستور ادب سے جواب دیا "اگر ا ُس کا عطا کردہ
ح سن و جمال۔؟" انہوں ا ُس کا ح سن ا ُسی پر نہ ل ُ ٹایا ,تو کس کام کا یہ ُ
ُ
ج واب س ُ نا اور مریدین کی جانب دیکھتے ہوئے ا ُس کو مخاطب کرتے
ہوئے مذاق ا ُڑانے والے انداز میں ہنستے ہوئے کہا "بھئی کوئی لڑکی
شڑکی پھنسائی ہے کبھی ,کسی لڑکی کو چھیڑ کر تھپڑ بھی کھایا
کبھی۔؟ یا بس الل ّٰ ہ ہی ت الش کرتا رہا ہے ,کوئی دلگی س ُ نا۔" ا ُس نے
مسکرا کر ا ُن کی جانب دیکھا۔ وہ جان گیا تھا کہ سرکار علی محمد
ا ُس کا امتحان لے رہے ہیں۔ ا ُس نے کہا "سرکار میں دنیا کا کوئی کام
نہیں چھوڑا ,ہر طرح کی بات کرنا جانتا ہوں ,لیکن الل ّٰ ہ والوں کے
سائے میں بیٹھ کے غیر الل ّٰ ہ کی باتیں نہیں کی جاتیں مجھ سے ,اکثر
دوستوں کے ساتھ ہ وتا تھا تو وہ مجھ سے پاس سے گ ُ زرنے والی لڑکی
کے بارے میں بات کر رہے ہوتے تھے اور مجھے پتا ہی نہیں ہوتا تھا
کہ ا ُس کے لباس میں کیا کیا چیزیں نمایاں تھیں ,اکثر دوست ا ِس بات
پر نظر کے ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ بھی دیتے اور پوچھتے
لڑکی تو دیکھی تھی نا ت ُو نے یا لڑکی ہی نظر نہیں آتی۔؟ تو میں کہتا
لڑکی تو نظر آ جاتی ہے پر وہ سب نظر نہیں آتا جو تمہیں دکھائی دیتا
ہے۔ بندہ ا ُس کو دیکھے جو ہمارے لیے ہو ,پرائی عورت کو دیکھ کر
دل ترسانے کی کیا ضرورت ہے۔ لڑکیوں کے پیچھے بھاگنے کی
ضرورت نہیں پڑی مجھے کیونکہ لڑکیاں خود می رے پیچھے بھاگتی
تھیں ,لیکن کبھی اس شکل کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا ,اور تھپڑ آج تک
بچو ں کی ماں ہے۔" ا ِس ّ ایک ہی لڑکی سے کھایا ہے جو اب میرے دو
سوچ سے ,کہ کہیں انہیں ا ُس کا بار بار بات پھرانا ,ناگوار نہ گزرے,
ا ُس نے ک ھُ ل کے اپنی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا "سرکار ا ِن
باتوں میں میرا دل لگتا ہوتا تو میں درباروں کی خاک نہ چھانتا۔"
انہوں نے غور سے ا ُس کی جانب دیکھا اور کہا " ت ُو باہو سرکار کا
143
ُم رید ہے نا ,تو چل کال ِم باہو س ُ نا" ا ُس نے ا ُن کی فرمائش کا احترام
کرتے ہوئے ب ُ لند آواز میں کال ِم باہ و پڑھنا شروع کیا
"الف ال ل ّٰ ہ ,چنبے دی ب ُ وٹی ,میرے من وچ ُم رشد الئی ھ ُ و۔ ۔ ۔ "
کالم پڑھتے ہوئے وہ س ُ لطان محمد اصغر علی رح کو سوچ رہا تھا اور
جب وہ یہ بیعت پڑھ رہا تھا "اے تن میرا چشمہ ہوئے ,تے میں
ُم رشد ویکھ نہ رجاں ھ ُ و" تو یہ سوچ کر کہ وہ اب س ُ لطان محمد
ا صغر علی رح کو دوبارہ ا ُس روپ میں نہیں دیکھ سکتا ,ا ُس کی آواز
بھ ّر ا گئی اور ا ُسے کالم پڑھتے پڑھتے ُر ک جانا پڑا۔ سرکار علی
محمد نے ا ُس کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے ا ُس کے کندھے پے ہاتھ
رکھا اور کہا " غم نہ کر پ ُ تر تیرا ُم رشد ہر دم تیرے ساتھ ہے ,.ال ل ّٰ ہ
والے اپنے چ اہنے والوں کے دل میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں " پھر
ح بِ ُم رشد اپنے ُم ریدین کی جانب دیکھتے ہوئے کہا " ا ِس سے سیکھو ُ
کیا ہوتا ہے ,یہی وہ شئے ہے جو ُم رید کو فیضیاب کرتی ہے۔ ا ِس کا
ُم رشد سچ میں کامل ہے جس نے ا ِسے یہ سمجھ عطا کی ,ت ُو ٹھیک
کہتا ہے پ ُ تر ,الل ّٰ ہ والوں کے سائے میں بیٹھ کر غیر الل ّٰ ہ کی بات نہیں
کرتے۔ "
144
''باب۔ '' 00
اسی دوران سرکار علی محمد کا ایک اور مرید اندر آیا اور بہت
عقیدت سے ا ُن کے ہاتھ چومے پھر ا ُن کی اجازت سے ا ُن کے منہ پے
بوسہ دیا تو انہوں نے بوسہ دینے والے کو بناوٹی غصے سے پیچھے
دھکیلت ے ہوئے کہا "یہاں میرے سامنے آ کے میرا منہ چوم رہا ہے
جیسے بڑی محبت ہے ُم رشد سے اور ویسے ُم رشد کو اپنا نوکر بنایا
ہوتا ہے ,تیری جوتی گ ُ م گئی تو ا ُسے ڈھونڈ کے النا کیا میرا کام
ہے۔؟" آنے والے شخص نے فور ا ً ا ُن کے پاؤں پکڑ لیے تو انہوں نے
ُم ریدین کو مخاطب کر ک ے کہا "یہاں آتے ہوئے راستے میں ا ِس کی
جوتی گ ُ م ہو گئی تو یہ کہتا ہے کہ ُم رشد میری مدد کرو ,اب کوئی
بتائے مجھے کہ ُم رشد کا یہ کام ہے کہ ا ِس کی جوتی ڈھونڈتا رہے۔"
ا ُن کی ا ِس بات پر محفل میں بہت سے لوگوں کی ہنسی کی آواز
گونجی۔ ا ُسے سرکار علی محمد صاحب سے دل ز بانی بات کرنے کا
بھی بہت ل ُ طف آیا۔ ا ُن کی بات پر ا ُس نے دل دل سے ا ُن سے کہا " ا ِس
طرح تو ہوتا ہے ا ِس طرح کے کاموں میں ,ت ُو نے دیوانہ بنایا تو وہ
دیوانہ بنا ,نہ دیتے ا ُس کی جوتی تو اگلی بار ایسا نہ ہوتا ,اب ڈھونڈ
کے دی ہے تو ب ھُ گتیں" انہوں نے فور ا ً ا ُس کی طر ف دیکھا اور کہا
" پ ُ تر میں تو ب ھُ گتنے کے لیے تیار ہوں اور ا ِن کی جوتیاں بھی ڈھونڈ
کے دینے کو تیار ہوں لیکن یہ بھی تو بات سمجھیںُ ,م رشد سے دنیا
ہی سیدھی کرواتے رہتے ہیں الل ّٰ ہ مانگنے کا خیال نہیں آتا انہیں۔ میں
کہتا ہوں جب تک میں ہوں ,تب تک مجھ سے کچھ سیکھ ل یں یہ لوگ,
لیکن سیکھنے کا شوق ہی نہیں ہے انہیں ,یہ تو دنیا سیدھی کروانے
آتے ہیں یہاں ,کل کو میں نہ ہوا ت و کسی اور جگہ بیٹھے دنیا کی
بھیک مانگ رہے ہوں گے کیونکہ ا ِن کا مقصد الل ّٰ ہ نہیں بلکہ ا ِن کا
نفس ہے۔ ہم بھی سمجھاتے رہتے ہیں اور ا ِن کو َم ن مانی کرنے د یتے
ہیں کہ چل و میرے پاس بیٹھے ہیں تو کچھ تو الله والی بات سیکھ رہے
ہیں نا۔
ا ُسے پتا چال کہ سرکار علی محمد کسی کو اتنی آسانی سے بیعت نہیں
کرتے ,کہتے کہ پہلے طالب بنو پھر بیعت کرناُ ,م رشد کی صحبت میں
بیٹھو جب بیعت کے الئق ہو جاؤ گے تو بیعت بھی ِم ل جائے گی,.
145
لوگ کئی کئی سال سے ا ُن کی صحبت میں بیٹھ رہے تھے لیکن بیعت
نصیب نہیں ہوتی تھی ,جو لوگ بیعت تھے انہیں بھی کئی سالوں کی
صحبت کے بعد بیعت نصیب ہوئی تھی ,ایک شخص کا پتا چال جو
قریب دس بارہ سال سے ا ُن کی خدمت میں بیٹھ رہا تھا لیکن ابھی تک
ف بیعت حاصل نہ یں ہوا تھا۔ ا ُس نے دل زبانی ا ُن سے کہا ا ُسے شر ِ
"آپ تو الل ّٰ ہ والے ہیں ,کسی کا بھی دل بدل سکتے ہیں ,پھر ایسا کیوں
ہے کہ اتنا طویل عرصہ آپ کی صحبت میں بیٹھنے کے باوجود یہ
لوگ ا ِس الئق بھی نہ ہو سکے کہ آپ کے ہاتھ پے بیعت کر سکیں۔؟"
تو انہوں نے پھر سے ا ُس سے ظاہری طور پے بات کی اور کہا " پ ُ تر
ہم کنجوس نہیں ہیں ,بات یہ ہے کہ ہمارے پاس طالب نہیں آتا ,کوئی
چ ا طالب ہو تو ہم ا ُسے خوار نہیں کرتے ,لیکن جس میں الل ّٰ ہ کیس ّ
طلب ہی نہ ہو ا ُسے ُم رید بھی نہیں کرتے ,پاس بٹھاتے ہیں ,بات
سمجھاتے ہیں کہ جس دن بات سمجھ آ جائے گی ا ُس ِد ن وہ ُم ریدی کے
بھی الئق ہو جائے گا ,اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ سیکھتے ہم
سے ہیں لیکن بیعت کرنے کے لیے کسی باشرعا بزرگ کو ڈھونڈتے
ہیں ,ہمیں کوئی شوق نہیں ہے ُم ریدین کی ب ِھ یڑ اکھٹی کرنے کا ,کوئی
آئے تو ہم روکتے نہیں کسی کو۔ اب تو ایسا دور آ گیا پیر بس ُم ریدین
کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں کہتے ہیں کہ چاہے گدھے ہوں پر ُم رید
ہوں۔ ایسے ُم رید نہیں چاہیے ہیں جو کسی جگہ بیٹھ کے ہمارا نام
خراب کریںُ ,م رید تیرے جیسا ہونا چاہیے کہ پیر فخر سے کہہ سکے
کہ یہ میرا ُم رید ہے۔" ا ُن کی بات س ُ ن کر ا ُس نے شرمندگی سے سر
ج ھُ کایا اور کہا "سرکار میں بھی ا ِس الئق نہیں ہوں کہ مجھ پے فخر
کیا جا سکے ,میں تو بہت ب ُ را ُم رید ہوں بلکہ ُم رید کہالنے کے الئق
بھی نہیں ہوں ,بس قسمت سے ا ُن کا سایہ نصیب ہو گیا ,معارفت کی
چار باتیں سمجھ آ گئیں تو لوگ مجھے بھی عارف سمجھ لیتے ہیں,
میرے ُم رشد کے ُم رید ین میں میری حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے,
بہت سے عالم ,عارف ,عاشق لوگ میرے ُم رشد کے سائے میں پروان
چڑھ رہے ہیں۔ اور میری سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ میں بے شرعا
ہوں۔" انہوں نے شفقت سے ا ُس کی جانب دیکھا اور کہا " ُم ریدی
نمازیں پڑھنے ,روزے رکھنے کا نام نہیں ہے بلکہ الل ّٰ ہ سے دل
ج ڑ گیا ا ُس کا ہر کام نماز روزہ ہی ہے جوڑنے کا نام ہے ,جس کا دل ُ
146
ج ڑا ,ا ُس کا نماز ,روزہ ,حج وغیرہ سب اور جس کا الل ّٰ ہ سے دل نہ ُ
دنیا داری ہے۔ درویش کو لوگوں سے نمازی ,پرہیزگار کا لیبل نہیں
چاہیے ہوتا ,اور نہ ہی ا ُسے لوگوں کے آنے جانے سے کوئی فر ق
پڑتا ہے۔ درویش لوگوں کی عقیدت کا بھوکا نہیں ہوتا وہ تو لوگوں
سے دور بھاگتا ہے ,ا ُس کے لیے ا ُس کا الل ّٰ ہ ہی کافی ہوتا ہے ,وہ تو
کہتا ہے کہ بس میں ہوں اور میرا یار ہو ,وہ لوگوں سے بیزار ہوتا
چ کا ہوتا ہے۔ پھر اگر وہ ہے ,کیوں درویش یار یار کرتے ,یار ہی ہو ُ
ل وگوں میں بیٹھتا ہے تو یہ درویش کا احسان ہے لوگوں پر کہ وہ
دنیاداروں کو اپنے سائے میں جگہ دیتا ہے۔ جیسا کہ آقا پاک (صلی
الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم) سے جب جبرائیل نے پوچھا کہ احسان کیا ہے تو
آپ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز ادا کرے تو ایسے جیسے وہ
الل ّٰ ہ کو دیکھ رہا ہے ورنہ وہ تو تمہیں دیکھتا ہی ہے۔ اب ا ِس میں
احسان کہاں ہے ,احسان کون کر رہا ہے اور کس پے کر رہا ہے یہ
سمجھنے کی چیز ہے۔ نماز الل ّٰ ہ کا گ ُ مان کرنے کا نام ہے ,جیسے ہر
عبادت کرنے واال ,دعا کرنے واال ا ُسے پ ُ کارتے ہوئے ا ُسے سوچنے
کی کوشش کرتا ہے ا ُسی سوچ کو قائم کرنا نماز کہالتا ہے۔ اگر کوئی
روز تیرے پاس آئے اور جذبات سے خالی دل لیے ایک ہی طرح کی
باتیں کرتا رہے تو کیا ت ُو بور نہیں ہو جائے گا۔؟ ظاہری نماز وہ سوچ
قائم کرنے کے لیے ہے ,جب نماز قائم ہو جاتی ہے تو پھر ا ُس کا
کھانا ,پینا ,جاگنا ,سونا سب نماز ہے ,آقا پاک (صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ
وسلم) نے زندگی بھر نماز ا ِس لیے ترک نہیں کی کیوں کہ وہ جانتے
تھے کہ میری ا ُمت میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زندگی بھر نماز
پڑھ پڑھ کر بھی نماز قائم نہ کر سکیں گے۔ جس کی نماز قائم ہو گئی
ا ُس کی نماز ہر وقت ادا ہو رہی ہے ,ا ُس کی ن ماز کبھی قضا نہیں
خ دا وہ کامل مکمل ہستی ,جس نے نہ ظاہر میں شیر ُ
ِ ہوتی ,موال علی
کبھی نماز قضا کی اور نہ ہی باطن میں ,اسی لیے ا ُن کی نماز کا قضا
ہونا نہ تو الل ّٰ ہ کو منظور تھا اور نہ ہی الل ّٰ ہ کے رسول کو منظور تھا,
خ دا نماز ادا کریں گے شیر ُ
ِ ا ِس لیے سورج کو واپس بھیجا کہ پہلے
پھر سورج غروب ہو گا۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ مومن کی نماز الل ّٰ ہ اور
ا ُس کے رسول کو اتنی پیاری ہے کہ وقت کو واپس کر دیا جاتا ہے
تاکہ ا ُن کی نماز نہ قضا ہو۔ تو نماز پڑھنے والے پڑھ کے چلے گئے,
147
ا ُسے تا حشر قائم بھی کر گئے۔ اب لوگ بس اصل نماز کی نقل کرتے
ہیں ,تو جو جتنی اچھی نقل کر پاتا ہے وہ اتنا اصل ہو جاتا ہے۔ لیکن
یہ نقل کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اور یہ نقل داڑھی ,ٹوپی ,تسبیح
سے نہیں کی جا سکتی ا ِس کے لیے دل جالنا پڑتا ہے تاکہ ا ُس کی
روشنی میں روح اپنا آپ پہچان سکے ,حضور غوث پاک کا فرمان ہے
کہ جو شخص الل ّٰ ہ کو پہچانتا ہی نہیں وہ ا ُس کی عبادت کیسے کر
سکتا ہے۔ یہ پہچان کیا ہے یہی بات سمجھنے کی چیز ہے۔ اور یہ بات
کسی سے سیکھے ب ِ نا سمجھ نہیں آتی۔ ُم رشد کا کام ُم ریدین کو الل ّٰ ہ کی
پہچان کرانا ہوتا ہے۔ لوگ سب ا ُلجھے ہوئے ہیںُ ,م ّال نے سب کو
عبادتو ں میں ا ُلجھایا ہوا ہے ,فالں طریقے سے ہاتھ پاؤں دھوئے تو
وضو ہے ورنہ نہیں ہے۔ فالں وقت نماز پڑھو اور فالں وقت نماز مت
پڑھو ,فالں فالں سورت پڑھو اور فالں ترتیب سے ُر کوع سجود کرو
تو نماز ہوتی ہے ورنہ نماز ہی نہیں ہوتی۔ جسم و لباس کی پاکیزگی
اور طریقوں میں ا ُل جھایا ہوا ہے لوگوں کو۔ درویش لوگوں کو ا ِن
چاچیزوں میں نہیں ا ُلجھاتا۔ وہ سیدھے سیدھے دل کی بات بتاتا ہے۔ س ّ
ُم رشد لوگوں کو طور طریقوں میں ا ُلجھانے کی جگہ الل ّٰ ہ سے دل لگانا
سکھاتا ہے۔ الل ّٰ ہ سے دل لگانے کا سفر عبادت سے نہیں بلکہ سلوک
سے طے کیا جاتا ہے ,اولی اء کی تربیت تو یہ ہے کہ نماز پڑھ کے
ایک ایک کو نماز نہ پڑھنے پر ٹوکنے سے بہتر ہے ت ُو خود بھی
نماز نہ پڑھتا۔ ایسی نماز ,نمازی کے لیے عذاب کا باعث ہے جسے
پڑھ کر وہ دوسروں کو کمتر یا خود کو برتر محسوس کرنا شروع ہو
جائے۔ اور ایسی بےنمازی جو انسان کو عاجز بنائ ے ,صرف انسان
ہونے کی بنیاد پر لوگوں کا احترام کرنا سکھائے وہ بےنمازی ق ُ ر بِ
ال ٰہ ی کا باعث ہے۔ ُم ّال نے دین کے نام پر لوگوں کو نماز ,روزے کے
طریقوں میں ا ُلجھا کر الل ّٰ ہ کی راہ سے بھٹکایا ہوا ہے اسی لیے لوگ
دین کی بات کرتے ہوئے ایک دوسرے کا گریباں پکڑ رہے ہوت ے ہیں۔
لوگ دنیادار بیوقوف اور جاہل ہیں جو دین کو جانتے ہی نہیں ہیں اور
ُم ّال کے بتائے مسئلوں میں ا ُلجھے رہتے ہیں۔ بڑے فنکار ہوتے ہیں یہ
لوگ۔ یہ پہلے مسئلہ بناتے ہیں۔ وضو کے مسائل ,نماز ,روزے,
طہارت کے مسائل ,وغیرہ وغیرہ۔ پھر ا ُس کے بعد مولوی صاحب
مسئلہ سم جھاتے ہیں اور لوگوں کے مسائل بڑھا دیتے ہیں۔ ایسا وضو
148
نہ ہو تو نماز نہیں ہو گی ,بال ,لباس ,تلفظ ,نماز پڑھنے کی جگہ,
تصویریں اور نہ جانے ِک ن ِک ن چیزوں کو ُم ّال ,انسان اور الل ّٰ ہ کے بیچ
کھڑا کر دیتا ہے۔ کیوں نہیں بتاتے یہ ُم ّال لوگوں کو کہ الل ّٰ ہ کی ذات
ح س ِن سلوک اور سب انسانوں کو ایک برابر کو اپ نے اندر تالش کرو۔؟ ُ
ِگ ن ّ ے کا درس کیوں نہیں دیتے یہ ُم ّال ,پنڈت ,پادری وغیرہ۔؟کیونکہ
اگر وہ ایسا کریں گے تو دین دھرم کے نام پر ک ھُ لی ا ُن کی د ُکانیں بند
ہو جائیں گی۔
149
''باب۔ '' 00
درویش کیونکہ لوگو ں کو اپنے پیچھے دوڑانے کا قائل نہیں ہوتا ا ِس
لیے وہ لوگوں کو مسئلوں میں نہیں ا ُلجھاتا بلکہ لوگوں میں مذہب و
مسلک کا فرق کیے بغیر انہیں حق بات بتاتا ہے ,ا ِسی لیے لوگ
درویش کے دیوانے ہوتے ہیں۔ " بات کرتے کرتے سرکار علی محمد
نے ا ُس کی جانب دیکھا اور کہا "ت ُو بتا ,تجھے الل ّٰ ہ کی تالش تھی,
مسجد ,امام بارگاہ دیکھی ,دربار دیکھا الل ّٰ ہ واال دیکھا ,الل ّٰ ہ دیکھا کہ
نہیں۔؟ الل ّٰ ہ ِم ال کہ نہیں۔؟ " ا ُس نے ا ُن کے سوال پر مسکرا کر کہا
"جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں ,وہ نکلے میرے
ظلمت خانئہ دل کے مکینوں میں" میں اپنے ُم رشد پاک سے ملنے تک
بہت ا ُلجھا رہا بہت سے سوال تھے دل میں ,لیکن ُم رشد ملنے کے بعد
جواب ملنا شروع ہو گئے۔ جب میں شیعہ ہ ُوا تھا تو ایک دوست نے
پوچھا کہ کیا فرق پڑا تم پے شیعہ ہو جانے سے۔؟ تو میں نے کہا کہ
میں فرق ہی تالش کر رہا ہوں ,میں شیعہ ,س ُ ن ّ ی نہیں بلکہ انسان بننا
چاہتا ہوں ,میں ا ِس مسئلے کی جڑ تک پہنچنا چاہتا ہوں ,اور لوگوں
تک ا ِس کا حل پہنچانا چاہتا ہوں ,میں نے جس دن پڑھا تھا کہ جستجو
کرنے والوں کو الل ّٰ ہ ہدایت ضرور دیتا ہے ,ا ُس روز مجھے یقین ہو
گیا تھا کہ الل ّٰ ہ مجھے مل گیا ہے ,مجھے دکھائی د ے گیا تھا کہ وہ
ہمیشہ میرے ساتھ ہی تھا ,ال ل ّٰ ہ کا مل جانا یہی ہے کہ انسان کو ال ل ّٰ ہ
کے ساتھ کا احساس مل جائے ,تو وہ احساس مجھے پہلے قدم پر ہی
مل گیا تھا لیکن میں پورا حق جاننا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تو سکون سے
گھر بیٹھ سکتا تھا کہ مجھے ا ُس کی ذات کا احساس نص یب ہو گیا ,اب
تالش کی ضرورت نہیں ,کیونکہ جب اپنے اندر ذات مل جائے تو باہر
ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ لیکن جب ذات محسوس ہوئی تو
دل نے مجھ سے سوال کیا کہ اپنی ہی قبر روشن کرنی ہے یا لوگوں کا
بھی کچھ احساس ہے۔ بڑی خوشی ,بڑا اطمینان ہے تجھے ,لیکن جن
لوگوں میں رہتے ہوئے تجھ پے یہ سب مہربانی ہوئی کیا ا ُن لوگوں کا
کوئی حق نہیں ہے تجھ پے۔؟ دل کی بات س ُ ن کر میں ڈر گیا اور ارادہ
150
کیا کہ پورا سچ جاننے اور لوگوں تک ا ُسے پہنچانے کی کوشش کروں
گا ,ا ِس لیے مجھے جو راہ دکھائی دی میں نے ثابت قدمی سے ا ُس پر
چلنے کی کوشش کی ,الل ّٰ ہ نے بہت سا ق ُ رب عطا کیا ,بہت سا راز
سمجھایا ,اپنے ُم رشد پاک سے ِم لنے کے بعد جب میں نے پلٹ کر اپنی
گ ُ زشتہ زندگی کی کمزوریوں اور محرومیوں کی جانب دیکھا تو
مجھے ہر چیز درست نظر آئی اور میں اپنے ماضی کو الل ّٰ ہ کی رضا
و حکمت مان کر پ ُ رسکون ہو گیا ,پھر م ستقبل پے نظر دوڑائی تو
ُم رشد نے الل ّٰ ہ کی رضا و حکمت سے ہر حال میں راضی اور پرامید
رہنے کا سبق دیا اور مستقبل کی ف ِ کر بھی ب ھُ ال دی ,جب ماضی و
مستقبل سے چ ھُ ٹکارہ ِم ال تو حال نصیب ہ ُوا ,حال نصیب ہ ُوا تو دل کی
گرہ ک ھُ لنا شروع ہو گئی اور بات پوری طرح سمجھ آنی شروع ہو گئی۔
ہر حال میں الل ّٰ ہ کی یاد قائم ہونا الل ّٰ ہ کا ِم ل جانا ہے ,کھاتے ,پیتے,
سوتے ,جاگتے ,غرض کے ہر حال میں ا ُس کی یاد میں محو رہنا الل ّٰ ہ
کے ق ُ رب کی دلیل ہے۔ اگرچہ کہ ابھی تک میں کچھ کر نہیں پایا لیکن
ارادہ ابھی تک پ ُ ختہ ہے۔" سرکار علی محمد نے ا ُسے ٹوکتے ہوئے
کہا "ت ُو اتنے سارے لوگوں کو اتنی ساری بات سمجھاتا ہے ,لوگوں کو
ُم رشد والی راہ بتاتا ہے ,اور کہتا ہے کہ کچھ کر نہیں پایا ابھی تک۔؟
اور کیا کرنا ہے ت ُو نے۔؟ یہی کام ہوتا ہے بندے کا کہ لوگوں کو
بندگی سکھائے۔" ا ُس نے کہا "سرکار یہ سب بہت ناکافی ہے ,میں نے
بہت سے دعوے کیے تھے ,الل ّٰ ہ سے کہا تھا کہ سب تک تیرا پیغام
پہنچاؤں گا ,لیکن میں کچھ بھی نہیں کر پایا۔ روٹی کپڑا مکان میں
ج نبش بھی نہیں کر پاتا ,بس اس کے ایسا ا ُلجھا ہوں کہ اپنی جگہ سے ُ
عالوہ اور کوئی فکر نہیں ہے۔ مجھے اپنے اوپر ذمہ داری کا ایک
شدید بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ لگتا ہے زمین پے ہونے والی ہر ب ُ رائی
ہر ظ ُ لم میں میری خاموشی کا دخل ہے۔ اگر میں خاموش نہ ہوتا تو
شاید لوگوں کی سوچ بدل سکتا۔ کچھ بڑا کر سکتا۔ لیکن میں سوائے
سوچنے اور بڑی بڑی باتیں کرنے کے ,اور کچھ بھی نہیں کر پایا۔
ت آخر کبھی کبھی بہت ٹوٹ جا تا ہوں۔ تو خود سے کہتا ہوں کہ اب وق ِ
کی ابتد ہونے کو ہے ,ب ُ رائی اپنے عروج کو جا پہنچی تو اچھائی نے
بھی تمام در کھول دیے ,ا ِس لیے مجھ جیسے لوگوں تک بھی درویشی
کی بات پہنچنا شروع ہو گئی ہے ورنہ یہ باتیں سمجھنے کی اوقات
151
نہیں ہے میری ,درویشی کی چار باتیں سیکھ کر خود کو شاید کوئی
درویش سمجھنا شروع ہو گیا ہوں ,یہ میرا نفس ہے شاید جو شہرت کا
بھوکا ہے۔ لیکن میں خود کو اس جواب پر مطمئن نہیں کر پاتا۔" کہتے
کہتے ا ُس کی آنکھ نم ہو گئی ,اور وہ نظر ج ھُ کائے خاموش ہو گیا۔
تو سرکار علی محمد نے کہا "دیکھ ہم تک جو بھی ا چھی ب ُ ری بات
پہنچتی ہے وہ ہمارے پاس رحمان یا شیطان کی امانت ہوتی ہے۔ ا ُسے
آگے پہنچانا یا نہ پہنچانا انسان کا اپنا ظرف ہوتا ہے۔ ہم سب اپنے
پاس موجود امانتوں کے امین ہوتے ہیں اور ا ُس امانت کی صحیح
حقدار تک ترسیل کے لیے یا ا ُس امانت میں خیانت کرنے کے لیے
بےچی ن رہتے ہیں۔ جیسے بہت سے لوگ کسی کے راز کو راز نہیں
رکھ پاتے اور کچھ بہت اچھے ہمراز ہوتے ہیں۔ عام طور پے لوگ
راز رکھنے کے معاملے میں اپنے پرائے یا اپنے مفادات کو نظر میں
رکھتے ہیں ,ا ِسی طرح الل ّٰ ہ والے الل ّٰ ہ کے ہمراز ہوتے ہیں۔ ا ُنہیں یہ
علم و معارفت ا ِس لی ے نہیں دیا جاتا کہ سینے سے لگا کر بیٹھ جائیں
بلکہ ا ِس لیے دیا جاتا ہے تاکہ وہ ا ُسے مخلوق کے فائدے کے لیے
استمعال کرے۔ اب اگر درویش وہ سب علم و معارفت ساتھ لے کر
جنگل میں بیٹھا الل ّٰ ہ ھ ُ و الل ّٰ ہ ھ ُ و کرتا رہے تو ا ِس کا مطلب کہ ا ُس نے
الل ّٰ ہ کی عطا کردہ امانت میں خیانت کی۔ اسی وجہ سے درویش کو
خانقاہ میں بیٹھنا پڑتا ہے ,ا ُسے لوگوں کی عقیدتیں اکھٹی کرنے کا
شوق نہیں ہوتا لیکن لوگوں تک پیغام پہنچانے کی خاطر ا ُسے یہ سب
برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے عجز و عقیدت سے نفس بھاری ہوتا
ہے اور ال ل ّٰ ہ کی امانت حاصل کرنے والو ں کی سب سے بڑی آزمائش
یہی ہوتی ہے کہ کس طرح لوگوں کی بےجا عقیدت سے بچتے ہوئے,
لوگوں تک حق پہنچایا جا سکے۔ جب شمع جلتی ہے تو ا ُس کے گرد
چ ے پروانے نہیں بہت سے پروانے اکھٹے ہو جاتے ہیں لیکن وہ سب س ّ
ہوتے۔ ہر پروانہ شمع میں جلنے کا خواہشمند نہیں ہوتا ,وہ تو بس ا ُس
کی ح د ّت محسوس کرنے کے لیے ا ُس کی روشنی سے محظوظ ہونے
کے لیے ا ُس کے ارد گرد اکھٹے ہوتے ہیں ,شمع ایسے پروانوں کے
ج لنا قبول کرتی ہے لیے روشن نہیں ہوتی ,وہ تو ا ُن پروانوں کے لیے َ
جو شمع میں جل کر شمع ہو جانے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ اسی لیے
بعض اولیاء نے مالم ت کی راہ اختیار کی۔ لوگ نماز روزے کے پابند
152
لوگوں سے بہت آسانی سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ درویش ,دنیا و ع ُ قبا
کے طالبوں سے دور بھاگتا ہے ,وہ تو بس الل ّٰ ہ کے طالب کا ُم نتظر
ہوتا ہے۔ الل ّٰ ہ کا طالب درویش کی شریعت پر نہیں بلکہ ا ُس کی عطا
پر نظر رکھتا ہے جبکہ دنیا و ع ُ قبا کا طالب درویش کی شریعت سے
چ ے اولیاء شریعت کی پاسداری ہی گھبرا کر بھاگ جاتا ہے۔ جو س ّ
کرتے ہیں وہ کچھ اور حساب سے دنیاداروں کو خود سے دور رکھتے
ہیں ,لمبی لمبی گاڑیاں ,بڑے بڑے گھر دنیا و ع ُ قبا کے طالبوں کو الل ّٰ ہ
والوں سے دور رکھنے کے کام بھی آتی ہیں۔ ت ُو بتا ,ت ُو جب اپنے
ُم رشد کے پاس گیا تھا تو کیا ت ُو نے ا ُن کی گاڑی یا گھر وغیرہ پے
توجہ دی تھی۔؟" ا ُن کے سوال پر ا ُس نے نفی میں سر ہالیا تو انہوں
نے کہا "یہی سچے طالب کی نشانی ہے۔ ت ُو جب میرے پاس آیا تو ت ُو
نے باہر بیٹھے چرس اور شراب پیتے لوگوں کو دیکھ کر کیا سوچا۔؟"
ا ُس نے کہا "میں لوگوں کے اعمال پر کچھ خاص توجہ نہیں دیتا ,ہر
شخص اپنی زبان سے اپنا اندر بیان کرتا ہے۔ یہ آپ کا پردہ ہے آپ
کی شریعت ہے جس کے جوابدہ آپ خود ہیں۔ لوگوں کا فیصلہ کرنے
کی مجھے عادت نہیں ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط اور اگر
یہ دیکھن ا ضروری ہو کہ کون کتنے پانی میں ہے تو ا ُس کی بات سے
ا ُس کے ظرف کا اندازہ کرتا ہوں۔" سرکار علی محمد نے اپنے
ُم ریدین سے کہا "دیکھو یہ ہے سچا طالب جسے الل ّٰ ہ والے سے صرف
الل ّٰ ہ ہی کی غرض ہے۔ تم لوگ دیکھ رہے ہو میں ا ِس سے جو جو
پوچھ رہا ہوں یہ سب بتا رہا ہے ,ا ِ س کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ا ِسے
خود ن ُ مائی کا شوق ہے یا مجھے ا ِسے جاننے کے لیے ا ِس کا امتحان
لینے کی ضرورت ہے یہ سب کہا س ُ نی تم لوگوں کے لیے ہے تاکہ تم
سب کچھ سیکھو اور یہ جان سکو کہ تمھارے ُم رشد نے کسی اور کے
ُم رید کو اتنی اہمیت کیوں دی۔" پھر ا ُسے مخاطب کر کے کہا "جب ت ُو
آ کے مجھ سے ِم ال تو ا ِن میں سے بہت سے لوگوں نے سوچا کہ
سرکار ا ِسے اتنی عزت کیوں دے رہے ہیں تو میں نے سوچا انہیں
جواب دے دیا جائے" پھر اپنے ُم ریدین سے کہا "یہ ا ِس کی نہیں ا ِس
اظہار محبت
ِ کے ُم رشد کی عزت ہے ,میں ا ِس کے ُم رشد کامل سے
کر رہا ہوں ۔" پھر ا ُس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا "میرے پاس آتے
رہتے ہیں دوسرے سلسلوں کے ُم رید ,میں کسی کو لفٹ نہیں کراتا
153
لیکن ت ُو بہت پیاری روح ہے اور کامل ُم رشد واال ہے تیرے ُم رشد نے
تجھ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ورنہ بےشرعا درویشوں کی صحبت
سے بڑے بڑے لوگ بھاگ جاتے ہیں ,میرا سالم ہے ایسے ُم رشد کو
جس نے اپنے ُم رید کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ "
154
''باب۔ '' 01
ا س رات وہ ا ُنہی کے ڈیرے پے ُر کا اور صبح تک لوگوں کا آنا جانا
لگا رہا۔ ایک شخص ُم القات کے لیے آیا تو سرکار نے ا ُس شخص سے
ا ُس کی خیریت دریاف ت کرتے ہوئے پوچھا "سب خیر ہے۔؟" تو ا ُس نے
کہا "مالک کا بہت رحم و کرم ہے ُم رشد ,اچھی گزر رہی ہے"۔ آنے
واال ُم رید بہت غور سے ا ُسے دیکھ رہا تھا کہ یہ شخص سرکار کے
اتنے قریب کیوں بیٹھا ہے۔ سرکار نے ا ُس شخص کی نظروں کو
دیکھتے ہوئے پنجابی زبان میں کہا "اے سمجھ و اال بندہ اے ,ایدے
کولوں ِس کھو آدا ب ِ ُم رشد ,جد ِس کھ جاؤ گے تے بے جانا میرے کول"
پھر ا ُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا " پڑھے لکھے لوگوں سے
سیکھنے کا جی کرتا ہے میرا ,اچھا ت ُو مجھے یہ سمجھا کہ رحم اور
کرم میں کیا فرق ہے۔؟" تو ا ُس نے کہا "سرکار میں تو خود آپ سے
سیکھنے آیا ہوں ,آپ خود ہی بیان کیجیئے" تو انہوں نے پھر سے ا ُس
شخص سے کہا "اے ہوندا اے درویش دا ادب ,جواب معلوم اے پر
درویش دے سامنے اپنا علم جھاڑنے دا کوئی شوق نئی" پھر ا ُس سے
کہا "چل اب جواب دے ,رحم تے کرم دا فرق دس۔" تو ا ُس نے موئدب
لہجے میں الفاظ سنبھالتے ہوئ ے کہا "سرکار ,میرے خیال میں جو
طلب پے مل جائے وہ رحم اور جو بے طلب مل جائے وہ کرم ہے۔"
سرکار نے ا ُس کی تائید کرتے ہوئے کہا "ہاں ایسا ہی ہے چل اب یہ
بتا کہ ال ل ّٰ ہ سے کیا طلب کرنا چاہیے اور کیا نہیں ۔؟" وہ سرکار کا
نظریہ سمجھ گیا تھا کہ سرکار ا ُس کی باتوں سے ُم ریدن کو بات کے
ساتھ ساتھ بیان کرنے والے کی گہرائی بھی سمجھانے کی کوشش کر
رہے ہیں ,ا ِس لیے ا ُس نے بات شروع کرتے ہوئے کہا "سرکار میں
نے سیکھا کہ الل ّٰ ہ سے الل ّٰ ہ کے سوا کچھ طلب نہیں کرنا چاہیے ,ہر
عمل ہر سوچ کے اجر و عذاب کو الل ّٰ ہ کے ق ُ رب سے جوڑ لینا چاہ یے,
جیسے لوگ ہر اچھے ب ُ رے کام کے ساتھ گناہ ثواب کی باتیں کرتے
ہیں ,پانی پ ِ ال دو دس نیکیاں ملیں گی ,اذان ہو رہی ہے ,ٹی وی مت
دیکھو ,گناہ ملے گا ,ایسی بہت سی باتیں لوگ ایک دوسرے سے کہتے
رہتے ہیں۔ میرے ُم رشد پاک نے مجھے سکھایا کہ اپنے گ ُ ناہ ثواب کو
155
الل ّٰ ہ کے ق ُ رب اور دوری سے جوڑ دو۔ الل ّٰ ہ کے ق ُ رب کے عالوہ کوئی
اجر مت مانگو اور الل ّٰ ہ سے دوری کے سوا کسی شئے کو عذاب مت
سمجھنا۔ تو میں نے اپنے ُم رشد کے ارشاد کے مطابق ثواب و عذاب
ا ُسی کی ذات کو مان لیا۔ جب یہ سمجھ آیا کہ انسان کو اپنا نصیب مل
کر رہتا ہے تو بےمقصد د ُعاؤں سے بھی جان چ ھُ وٹ گئی۔ جب دوبارہ
الل ّٰ ہ کی تالش شروع کی تو ایک رات شدید سردی کے باعث میں دو دو
کمبل اوڑھے ہوئے بھی سردی سے ٹھٹھر رہا تھا کہ رات تین بجے
کے آس پاس میری آنکھ ک ھُ ل گئی اور میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی
کمبل چہرے سے ہٹایا تو سامنے دیوار پر لگے فریم پر نظر پڑی جس
پے کچھ آیات درج تھیں۔ میری عادت تھی کہ رات جس بھی پہر آنکھ
ک ھُ لتی تو شروع کے الفاظ آنکھوں آنکھوں سے پڑھ لیتا تھا یا پہلے
لفظ کو دیکھتا رہتا تھا۔ "الل ّٰ ہ ُ ن ُ ور السمٰ وات واالرض" کے الفاظ سے
شروع ہونے والی آیات ا ُس رات بھی بستر میں لیٹے ہو ئے میری
نظروں کے سامنے تھی۔ میں کافی شدید نیند کے عالم میں تھا ا ِس لیے
ایک نظر دیکھ کے فور ا ً آنکھ بند کر لی ,لیکن آنکھ بند کرتے ہوئے
چ بھن محسوس کی۔ جیسے کوئی کانچ کا آنکھوں میں ایک عجیب سی ُ
منظر میری آنکھ کے بند ہونے سے ٹوٹ رہا ہو۔ میں نے پھر سے نیند
نیند میں آنکھیں کھولیں اور شروع سے آخر تک وہ آیات پڑھیں اور
چ بھن ابھی بھی برقرار تھی اور دل نے پھر سے آنکھ بند کی لیکن ُ
مالمت کی کہ الل ّٰ ہ کے نام سے ذیادہ تجھے اپنی نیند پیاری ہے۔؟ میں
نے پھر سے آنکھیں کھولیں اور ایک بار پھر سے آیات پڑھیں لیکن
مجھے سکون نہ ِم ال میں بستر سے نکال اور جا کے آیت والے فریم کو
بوسہ دیا اور کئی بار اسے پڑھ کر جب مجھے کچھ سکون محسوس
ہوا تو واپس اپنے بستر کی جانب گیا لیکن بستر پر لیٹنے کی جگہ
بستر کے پاس گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا اور الل ّٰ ہ کو محسوس
کرنے کی کوشش کی لیکن خود پر اس بات کا کچھ خاص احساس
طاری نہ کر سکا کہ الل ّٰ ہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ تو میں نے الل ّٰ ہ سے کہا
"ال ل ّٰ ہ میاں میں جانتا ہوں کہ میں احساس سے خالی ہوں۔ مجھے
محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ ت ُو مجھے دیکھ رہا ہے۔ شاید ا ِس لیے
کیونکہ میں اپنے دل میں تیرے سوا اور بھی خواہشات رکھتا ہوں۔ تو
آج میں ہر خواہش رد کرتا ہوں۔ جس طرح اپنا گرم بستر اور میٹھی
156
نیند چھوڑے بغیر مجھے تیرے نام کو پڑھ کر بھی سکون نہ مل سکا
شاید ا ُسی طرح اپنی خواہشات کی طلب چھوڑے بنا تیرا احساس بھی
میسر نہ آئے۔ ا ِس لیے میں نے آج تک جو کچھ مانگا اور جو کچھ بھی
میں اپنی تمام زندگی میں مانگوں گا۔ آج میں اپنی مانگی دنیا و نفس
کی سب دعائیں رد کرتا ہوں ,مجھے ایسا کچھ عطا نہ کرنا جو تیرے
میرے بیچ دوری کا باعث بنتا ہو۔ ت ُو نے مجھے جو کچھ دیا اور جو
کچھ دینا ہے میں ہر شئے تیرے ق ُ رب پے ق ُ ربان کرتا ہوں۔ مجھے
معلوم ہے کہ میرے الفا ظ جذبات سے خالی ہیں تو اے رب میں تجھ
سے ا ُن جذبات کا سوال کرتا ہوں جن کی موجودگی مجھے تیرے ق ُ رب
کا احساس دے سکیں۔" اور ا ِس طرح د ُعا کر کے ا ُس رات میں سو
گیا۔ لیکن ا ُس کے بعد سے احساس کی دولت میسر آنا شروع ہو گئی۔
مجھے یہی سمجھ آیا کہ الل ّٰ ہ ا ُسی کو ملتا ہے جو الل ّٰ ہ کے سوا ہر
دوسری خواہش ترک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ا ِس کا یہ مطلب نہیں
ہے کہ ا ُس کے بعد میں نے الل ّٰ ہ سے کچھ مانگا نہیں لیکن ا ِس کے بعد
سے مجھے پرواہ نہیں ہوتی اپنی د ُعاؤں کی۔ پوری ہو جائے تو بھی
الحمدلل ّٰ ہ اور پوری نہ ہو تو ذیادہ ش ُ کر ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
جیسے ہم کسی شخص سے ا ُدھار مانگتے ہیں تو دینے والے کی
حیثیت کے مطابق ا ُس سے سوال کرتے ہیں۔ کوئی عام شخص ہو تو
ا ُس سے چند سو روپے مانگتے ہوئے بھی ہم سوچتے ہیں کہ پتا نہیں
ا ِس کے پاس ہوں گے بھی یا نہیں۔ لیکن کوئی بادشاہ سامنے ہو تو ہم
بڑی سے بڑ ی چیز طلب کرنے کی کوشش کریں گے۔ تو الل ّٰ ہ تو سب
سے بڑا ہے ,ا ُس کے پاس تمام بادشاہی ہے ,تو ا ُس سے مانگتے ہوئے
ہمیں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ ا ُس سے دنیا و نفس کی ل ذ ّ ت طلب
کرنے کی جگہ ا ُس کا ق ُ رب و وصال مانگا جائے۔ ا ِس سوچ سے میں
نے کبھی اپنے ُم رشد پاک سے اپن ی کسی بیماری کا ذکر نہیں کیا کیوں
کہ مجھے شرم آتی ہے الل ّٰ ہ والے سے غیر الل ّٰ ہ کا سوال کرتے ہوئے۔"
سرکار نے ا ُس سے پوچھا "تیری ٹانگوں میں کیا مسئلہ ہے۔؟" تو ا ُس
نے کہا "سرکار یہ مسئلہ بہت پ ُ رانا ہے۔ شاید اسکول کے زمانے سے,
جب میں نے م ارشل آرٹس شروع کیں تو ٹانگیں فٹ ہو گئیں تھیں,
لیکن جب ایکسرسائزز چھوڑ دیں تو آہستہ آہستہ مسئلہ بڑھنا شروع ہو
گیا ,کئی سال تک یہ مسئلہ ن ُ مایاں نہیں تھا لیکن میرے ُم رشد پاک کے
157
وصال کے بعد سے یہ زیادہ ہو گیا ہے۔ میں کسی طرح کا وزن نہیں
چ وں کو بھی گود میں نہیں ا ُٹھا سکا ,اکثر ا ُٹھا سکتا اسی لیے اپنے ب ّ
ا ِس معزوری سے بہت ٹوٹ سا جاتا تھا تو سوچتا کہ الل ّٰ ہ سے گ ُ زارش
کروں کہ ا ِس بیماری سے نجات ِم ل سکے ,پھر سوچتا کہ اگر یہ
بیماری لگی ہے تو یقینا ً الل ّٰ ہ کی رضا ہی سے لگی ہو گی اور اگر میں
ا ِس سے تنگ ہوتا ہوں تو ا ِس کا مطلب کہ میں الل ّٰ ہ ک ی رضا میں
راضی نہیں ہوں۔ کئی بار سوچا ُم رشد پاک سے عرض کروں لیکن
غیر الل ّٰ ہ کا سوال دل کی زبان سے بھی نہیں کر سکا۔ میں چلتا ہوں تو
ہر دوسرے قدم پر ٹھوکر لگ جاتی ہے اکثر ِگ ر جاتا ہوں ایک دفعہ
ُم رشد پاک سے ملنے گیا تو بہت سوچ کے ارادہ کر کے گیا تھا کہ آج
ُم ر شد پاک سے اپنے عالج کے لیے کسی سبب کی درخواست کروں گا
س وا سوال نہیں کر لیکن جب سامنے پہنچا تو الل ّٰ ہ والے سے الل ّٰ ہ کے ِ
سکا اور دل زبانی صرف اتنا کہہ سکا کہ مجھے راضی بہ رضا رہنے
کی توفیق دی جائے اور یہ کہ ہر تکلیف پر الحمدلل ّٰ ہ کہنے کی عادت
عطا کی جائے۔ م یری یہ د ُعا قبول ہوئی اور ایسی عادت بن گئی کے
تکلیف کی حالت میں آہ کے ساتھ الحمدلل ّٰ ہ کا لفظ نکلنا شروع ہو گیا
بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آہ بعد میں نکلتی ہے اور الحمدلل ّٰ ہ کا لفظ
پہلے ادا ہوتا ہے۔" سرکار نے پوچھا "ت ُو نے کسی ڈاکٹر سے عالج
کروانے کی کوشش نہ یں کی۔؟" تو ا ُس نے کہا "ہمارے ہاں سرکاری
ہسپتالوں کا حال تو آپ کو پتا ہی ہے انسان اتنا بیمار بیماری سے نہیں
ہوتا جتنا عالج کی خاطر ہسپتالوں کے چ ک ّ ر لگا لگا کر ہو جاتا ہے,
پرائیویٹ عالج کروانے کی جیب اجازت نہیں دیتی لیکن میں نے
کوشش کی تھی عالج کروانے کی مگ ر کچھ نہ بن سکا۔ لیکن میں
پریشان نہیں ہوں۔ الل ّٰ ہ کا کرم ہے کہ ا ُس نے اپنی یاد سے غافل نہیں
رکھا ,تو پھر وہ جیسا رکھے مجھے قبول ہے۔ "
لوگوں میں سے کسی نے کہا "اگر ُم رشد ملنے کے باوجود تیری
بیماری ختم نہیں ہوئی تو ُم رشد پکڑنے کا فائدہ۔؟" ا ُس نے مسکرا کر
معنی خیز انداز میں سرکار علی محمد کی جانب دیکھا ا ُن کے چہرے
پر بھی مسکراہٹ تھی انہوں نے اشارے سے ا ُسے بولنے کو کہا تو
ا ُس نے ا ُس شخص کی جانب دیکھتے ہوئے کہا " ُم رشد کا کام الل ّٰ ہ
ِم النا ہے دنیا ِم النا نہیں ,اگرچہ کہ وہ باطن میں ال ل ّٰ ہ کے ا ِس قدر
158
قریب ہوتا ہے کہ ُم رید کے لیے دنیا کی خواہشات کی سفارش کر
سکتا ہے لیکن یہ چیزیں عطا کرنا ُم رشد کا کام نہیں ہے کیونکہ وہ
دنیا سے دور لے جانے واال ہوتا ہے۔ ا ُس کا کام ُم رید کے دل کو دنیا
کی محبت سے پاک کرنا ہوتا ہے۔ میں نے اپنی دنیا سیدھی کروانے
کے لیے نہیں بلکہ الل ّٰ ہ کی ت الش میں ُم رشد ہاتھ تھاما تھا۔ کہتے ہیں
کہ ُم رید وہ ہے جس کا خود کا کوئی ارادہ نہ ہو۔ جو شخص بیعت کرتا
ہے وہ اپنا ارادہ اپنے ُم رشد کو سونپتا ہے۔ ُم رشدُ ,م رید سے ا ُس کا
ارادہ چھینتا نہیں ہے بلکہ ُم رید کو اختیار دیتا ہے کہ وہ ُم رشد کی
تربیت سے سیکھ کر اپنا ار ادہ خود اپنے ُم رشد کو پیش کرے۔ تو جو
اپنا ارادہ ُم رشد کو سونپ دیتا ہے ا ُس کے لیے ُم رشد سے سوال کرنا
ہی حرام ہے۔ مجھے میرے ُم رشد پاک نے سکھایا کہ لوگ الل ّٰ ہ سے,
الل ّٰ ہ والوں سے بہت سی چیزیں مانگتے ہیں کوئی الل ّٰ ہ مانگتا ہے تو
کوئی دنیا ,کوئی اپنے لیے خوشی م انگتا ہے تو کوئی اپنوں کی خوشی
کی فریاد کرتا ہے ,لیکن جو اپنا آپ الل ّٰ ہ کو سونپ دیتا ہے وہ خاموش
ہو جاتا ہے۔ مجھے اپنے ُم رشد سے جو چاہیے تھا وہ مجھے مل گیا
اب ا ُس کے ساتھ تھوڑی بہت آزمائش بھی ہو تو مجھے فرق نہیں پڑتا,
ا ِس معزوری میں کتنی حکمت ہے یہ الل ّٰ ہ مجھ سے بہتر جانتا ہے میں
کون ہوتا ہوں ا ُسے مشورے دینے واال کہ میرے لیے کیا صحیح ہے
اور کیا غلط ,میری ٹانگوں کا مسئلہ دیکھ کے بہت سے لوگ بہت سی
باتیں کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شیعہ ہوا تھا ا ِس لیے ا ِس
کے ساتھ ایسا ہوا۔ کوئی کہتا ہے کہ ا ِس نے شیعہ ہو کر پھر کسی کی
ُم ریدی اختیار کر لی ا ِس لیے ایسا ہوا ,ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق
کچھ نہ کچھ وجہ نکال ہی لیتا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ میرے
الل ّٰ ہ کا انعام ہے۔" سرکار علی محمد نے مسکراتے ہوئے ا ُس کے
کندھے پے ہاتھ رکھا اور کہا "ت ُو سچا مرید ہے ,ہم سے ملتے رہن ا,
بول !..ہم سے ملنا چھوڑے گا تو نہیں۔؟" ا ُس نے سرکار کا ہاتھ تھام
کے کہا سرکار میرا خود پے کوئی بس نہیں چلتا ,الل ّٰ ہ جہاں لے جائے
میں پہنچ جاتا ہوں ,میری کوشش ہو گی کہ ہمیشہ آپ سے مالقات رہے
لیکن اگر نہ مل سکا تو مجھے یاد ضرور رکھیے گا۔" سرکار نے ا ُس
کا ہ اتھ تھامے ہوئے کہا "چل پھر ہم تجھے بیعت بھی کر لیتے ہیں
تاکہ ہمارا رشتہ تیرے ساتھ پ َ ک ّ ا ہو جائے ,ت ُو اپنے ُم رشد کا ہی ہے,
159
ا ُنہی کا رہے گا ہمیشہ ,لیکن آج سے ت ُو ہمارا بھی ہے اور اب سے ہم
تیرے" ا ِن الفاظ کے ساتھ سرکار علی محمد نے ا ُسے بیعت کرتے
ہوئے اپنے سین ے سے لگا لیا اور کمرہ ایک بار پھر ا ُن کے سانس
کے ذکر سے س ُ نائی دیتی ھ ُ و ھ ُ و کی آواز سے گونج ا ُٹھا "
160
''باب۔ '' 00
سرکار علی محمد کے ہاتھ بیعت ,صُ حبت کی بیعت تھی۔ اور ا ُس کا
خیال تھا کہ ا ِس سے ا ُس کی پہلی بیعت پے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ا ِ س
لیے ا ُس نے بیعت والے واقعے کو سرسری لیا۔ لیکن گھر جا کر جب
ا ُس نے ا ِس بات کا ذکر اپنی بیوی ,اپنے بھائی اور اپنے کزن سے کیا
تو ا ُسے کچھ ایسا ردعمل دکھائی دیا جیسے ا ُس نے کوئی شدید بھاری
غلطی کر دی ہو۔ ا ُس کے کزن نے کہا "تجھ سے ایسی حماقت کی امید
نہیں تھی ,اتنا سمجھدار ہو کر ت ُو نے ایسی غلطی کی ,تجھے نہیں
پتا۔؟ کتنے سخت الفاظ میں س ُ لطان باہو رح نے ایسے شخص کا ذکر
کیا گیا ہے جو ا ُن کا ُم رید ہونے کے بعد کسی اور جگہ بیعت ہو ,بیعت
کرنے کی کیا ضرورت تھی۔؟" تو ا ُس نے کہا "پہلی بات تو یہ کہ میں
جن کا ُم رید تھا ,آ ج بھی ا ُنہی کا ُم رید ہوں ,اور ا ِس بات کی دلیل
مجھے تم لوگوں سے نہیں چاہیے ,میرے دل کا سکون مجھے یہ بات
سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ میں ابھی بھی اپنے ُم رشد پاک کے
سائے میں ہوں۔ تم لوگ کہتے ہو کہ میں سلسلے سے ہی خارج ہو گیا
ہوں لیکن میری روح کا سکون مجھے یقین دالتا ہے کہ ا ِس بیعت سے
میں اپنے ُم رشد سے دور نہیں ہوا۔ ایک ایسے ب ُ زرگ جو کسی کو
بیعت ہی نہیں کرتے ,وہ مجھے اپنے ُم ریدین کے بیچ بیٹھ کر کہہ
رہے ہیں کہ چل آ تجھے بیعت بھی کر لیتا ہوں تو میں وہاں کیا کروں,
اپنا ہاتھ ا ُن کے ہاتھ سے چ ھُ ڑا لوں کہ نہیں جی میں تو س ُ لطان صاحب
کا ُم رید ہوں ,میں تو بیعت نہیں کر سکتا آپ کے ہاتھ پر کیونکہ اگر
میں نے بیعت کر لی تو میں سلسلے سے باہر ہو جاؤں گا۔ س ُ لطان
صاحب کا فرمان سلسلہ چھوڑ کر کسی اور کا ُم رید بننے والے کے
لیے ہے لیکن میں نے سلسلہ تو نہیں چھوڑا ,سوچ اگر میں انکار کرتا
تو ا ُن کے ُم ریدین کو کیسا لگتا۔؟ کیا وہ یہ نہیں سوچتے کہ جسے ا ُن
کے ُم رشد اتنی عزت دے رہے ہیں ا ُس کے دل میں ا ُن کے ُم رشد کا
یہ مقام ہے۔؟ یہ سب باتیں ا ُس وقت میں نے نہیں سوچیں تھیں اور
ابھی بھی ا ِن باتوں پر تم لوگوں کے سوالوں نے مجبور کیا ہے۔ اب تم
لوگوں کی مرضی ہے چاہو تو ا ِس مسئلے کو پیر بھائیوں کے سامنے
161
رکھو اور چاہو تو ُم رشد پاک کے سامنے لے چلو۔ اگر ُم رشد پاک نے
کہہ دیا کہ میں نے غلط کیا تو وہ جو سزا دیں مجھے قبول ہو گی۔"
ا ُس کے کزن نے ا ُس کی فکر میں تقریبا ً روتے ہوئے کہا " ُم رشد پاک
تک تو بات ضرور جائے گ ی بس د ُعا کرو کہ معافی ِم ل جائے" ا ُس
نے اپنے کزن کے جذبات محسوس کرتے ہوئے ا ُسے تسلی دیتے ہوئے
کہا "یار اتنا پریشان تو میں نہیں ہوں جتنا پریشان ت ُو ہو رہا ہے۔ الل ّٰ ہ
خیر کرے گا یار پریشان ہونے سے مسئلے اور خراب ہوتے ہیں۔" ا ُس
کے کزن نے ا ُس کے مطمئن لہجے پر ج ِھ نجھال کر کہا "تجھے کوئی
فکر نہیں ہے ا ِس بات کی کہ ت ُو سلسلے سے باہر کر دیا گیا تو تیرا
کیا ہو گا۔؟" تو ا ُس نے بدستور مطمئن لہجے میں کہا "یار تم لوگوں
کے کہنے پر میں نے فکر کرنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن کوشش
کے باوجود مجھے فکر نہیں ہو رہی ,تو کیا کروں میں۔ ؟ جو کچھ تم
لوگ کہہ رہے ہو وہ مجھے محسوس نہیں ہو رہا۔" ا ُس کی بات س ُ ن کر
ا ُس کا بھائی اور بیوی جو خاموشی سے دونوں کی بات س ُ ن رہے تھے
وہاں سے ا ُٹھ کر چلے گئے۔ جاتے جاتے ا ُس کے بھائی نے ا ُس کے
کزن سے کہا "بھائی کو فی الحال ا ِن کے حال پے چھوڑ دیں۔ ہو سکتا
ہے س ُ لطان محمد علی صاحب اس ہفتے اسالم آباد تشریف الئیں۔ ا ُن
کے سامنے مسئلہ بیان کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کیا جواب ِم لتا ہے۔
ورنہ دربار پے چلے جائیں گے۔" ا ُس کے بھائی نے سوالیہ نظروں
سے ا ُس کی طرف دیکھا تو ا ُس نے کہا "ہاں ٹھیک ہے میں تیار ہوں"۔
ا ُس کے بھائی کے جانے کے بعد ا ُس کے کزن نے کہا " ت ُو نے آخر
کس لیے بیعت کی ا ُن کے ہاتھ پے۔؟ کس چیز کی کمی تھی جس کی
خاطر ت ُو نے بیعت کی۔؟ کیا ا ِس لیے کہ اپنی معزوری سے تنگ آ کر
اب کسی کرامت کا طلبگار ہے ت ُو۔؟ کیا انہوں نے تجھ سے ایسا کچھ
کہا کہ ت ُو بیعت کر لے گا تو تیری ٹان گیں ٹھیک ہو جائیں گی ,یا اپنی
معزوری کے باعث تیرا اپنے ُم رشد سے یقین ا ُٹھ گیا ہے۔؟" ا ُس کے
کزن نے ایک ساتھ اپنے تمام خدشات ا ُس کے سامنے رکھ دیے۔ ا ِس
بار ا ُس نے سنجیدہ انداز میں اپنے کزن سے کہا "مجھے ا ِن چیزوں
چ ک ا ہوتا ,تجھے معلوم کی طلب ہوتی تو میں بہت پہلے اپنا راستہ بدل ُ
ہے کہ میرا دل کوئی فیصلہ کر لے تو میں نہ تو کسی کی س ُ نتا ہوں
اور نہ ہی کسی سے ڈرتا ہوں ,ت ُو جو کچھ سوچ رہا ہے اگر میں نے
162
ایسا کچھ سوچا ہوتا تو میں اقرار کرنے میں دیر نہ لگاتا ,لیکن میں
نے ایسا کچھ نہیں سوچا۔ میرے دل میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور نہ ہی
مجھے کسی قسم کی کمی کا احساس ہے۔ جو سچ تھا میں نے تم لوگوں
کو بتا دیا اب تم جو سوچنا چاہو سوچ س کتے ہو ,مجھے کوئی فرق
نہیں پڑتا اور جہاں تک ا ِس بیماری کی بات ہے تو میں ا ِس سے تنگ
ہوں مگر شفا دینے والے سے مایوس نہیں ہوں ,مجھے معلوم ہے کہ
ا ِس کے پیچ ھے کچھ حکمت ضرور ہے۔ میرا رب جب بھی چاہے گا
مجھے پھر سے چلتا پھرتا کر دے گا۔ میں وہی ہوں جس نے اسالم آباد
کے ارد گرد کے کئی پہاڑ انہی ٹانگوں سے چل کے سَ ر کیے ہیں۔
کئی کئی گھنٹے ب ِ نا ُر کے ,شدید گرمی میں بھی سخت سے سخت دوڑ
بھاگ اور ایکسرسائزز کی ہیں۔ آج اگر میری ٹانگیں میرے دماغ کے
اشارے پے حرکت نہیں کر رہیں تو ا ِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں
اپنے رب سے مایوس ہو گیا ہوں ,اگر وہ وقت نہیں رہا تو یہ وقت بھی
نہیں رہے گا۔ ہو سکتا ہے کسی دن میں گھسٹ گھسٹ کے چلنے کے
الئق بھی نہ رہوں لیکن ا ِس جسم کا ٹوٹ جانا میرے اور م یرے ُم رشد
کے تعلق کو نہیں توڑ سکتا۔ الل ّٰ ہ سے جو رابطہ مجھے میرے ُم رشد
کے وسیلے سے عطا ہوا ا ُسے کوئی بیماری نہیں توڑ سکتی۔ خیر ,اب
س ُ لطان محمد علی صاحب سے بات ہونے تک ا ِس مسئلے پر کوئی بات
نہیں ہو گی۔" اتنا کہہ کر ا ُس نے بات ختم کر دی اور ا ُس کا کزن ب ِ نا
ک چھ کہے ا ُس کے پاس سے ا ُٹھ کر چال گیا۔
سرکار علی محمد سے ِم ل کے ا ُسے بہت اچھا لگا تھا اور وہ بھی ا ُس
سے ِم ل کے خوش ہوئے تھے ,ا ِس لیے وہ تقریبا ً ہر روز ا ُن سے
ملنے جاتا اور گھنٹوں ا ُن کے پاس بیٹھتا۔ سرکار کو پتا چال کہ وہ
شعر کہنے کا شوق بھی رکھتا ہے تو انہو ں نے ا ُس کا کالم س ُ ننا چاہا۔
ا ُس نے کہا مجھے اپنا لکھا یاد نہیں رہتا ا ِس لیے میں کسی دن اپنی
ڈائری لے کے آؤں گا تو س ُ ناؤں گا" سرکار نے کہا "شاعروں کو تو
اپنا کالم لوگوں کو س ُ نا س ُ نا کر ہی یاد ہو جاتا ہے ,ت ُو کیسا شاعر ہے,
جسے کالم یاد نہیں۔؟" ا ُس نے کہا "ا صل میں ,فی الحال صرف لکھنے
کا شوق ہے ,س ُ نانے کے لیے زیادہ لوگ نہیں ہیں میرے پاس ,اور ہر
ایک کی سمجھ کی چیز بھی نہیں ہے ,ا ِس لیے بھی زیادہ س ُ نانے کا
موقع نہیں ملتا۔ بس لکھتا رہتا ہوں اور خود ہی پڑھ کے یا گھر میں
163
کسی کو س ُ نا کے خوش ہوتا رہتا ہوں۔" سرکار نے ک ہا "لوگوں کو
س ُ نایا کر اپنا کالم۔" تو ا ُس نے کہا "ایک دو دفعہ کوشش کی ہے لیکن
شاعری کے حوالے سے کوئی حوصلہ افزاء تاثرات نہیں ِم ال۔ ویسے
کچھ مضامین لکھنے کی کوشش بھی کرتا رہا ہوں ,مضامین پر کافی
حوصلہ افزائی ہوئی لیکن شاعری پر مجھے کہا گیا کہ آپ سمجھتے
کیا ہیں اپنے آپ کو۔؟ کیا ہیں آپ ,جو اتنی بڑی بڑی باتیں لکھتے
ہیں۔؟ انہیں شاعری سے زیادہ شاعر پے اعتراز تھا کہ آپ جیسا
شخص اتنے بڑے الفاظ کیوں کہہ رہا ہے۔ ا ُس وقت تو میرے دل کو
د ُکھ محسوس ہوا لیکن بعد میں مجھے احساس ہوا کہ جو ہ ُوا اچھا ہ ُوا
کیونکہ شاید ا ُس وقت میرے الفاظ میں اور ذات میں پ ُ ختگی کی کمی
تھی ,بلکہ ابھی بھی ہے۔ ابھی بھی میں کافی بےباک قسم کی شعر کہہ
جاتا ہوں ,جو میری ظاہری شخصیت سے میل نہیں کھاتے ا ِس لیے بس
لکھ کر اپنے پاس رکھ لیتا ہوں۔ مجھے اردو اتنی اچھی نہیں آتی ,اور
ستائس ,اٹھائس سال کی عمر اسالم آباد میں گ ُ زارنے کے باوجود میں
پنجابی زبان بھی ڈھنگ سے بولنے سے قاصر ہوں۔ لیکن جب قلم
ا ُٹھاتا ہوں تو خود بہ خود الفاظ ادا ہونا شروع ہو جاتے ہیں مجھے
خود سمجھ نہیں آتا کہ الفاظ کہاں سے آ رہے ہیں۔" سرکار نے ا ُس
سے پوچھا ایسا کیا ل ِ کھ دیا تھا ت ُو نے جو لوگوں کو اتنا بےباک
محسوس ہوا" تو ا ُس نے کہا "میں نے ایک نظم لکھی تھی ,اس پے
بہت اعتراض ہوئے تھے ,تھوڑی سی یاد ہے ,کہ
جو کج وی اے سب میرا اے
میرے دل وچ ال ل ّٰ ہ ڈیرا اے
میرے دل وچ قبلہ کعبہ اے
نقش وعدہ اے ِ میرے دل ِو چ
مینوں دل وچ عرش افالک ِد کھے
ایتھے ہر تھاں ھ ُ و دا گھیرا اے
جو ک ُج وی اے سب میرا اے
میرے دل وچ ال ل ّٰ ہ ڈیرا اے
164
سرکار نے اشعار س ُ ن کے کہا "تو ا ِس میں اعتراض والی کیا بات
ہے۔؟" ا ُس نے کہا "لوگوں کو ا ِس بات پے اعتراض تھا کہ میں کس
منہ سے کہہ رہا ہوں کہ جو کچھ بھی ہے سب میرا ہے" تو سرکار نے
کہا "لیکن اگلے مصرعے ت ُو سب کچھ تیرا ہونے کی وجہ بھی تو بیان
کر رہا ہے یہ کہہ رہا ہے کہ میرے دل وچ الل ّٰ ہ ڈیرا ہے۔ تیری
شاعری اپنی پہچان کا بیان ہے ,ا ِسے جاری رکھنا ,اور مجھے بھی
س ُ نانا۔
165
''باب۔ '' 00
اگلے روز جب وہ سرکار علی محمد کے پاس پہنچا تو ا ُس کے ہاتھ
میں ڈائری دیکھ کر سرکار نے کہا "آج تو ہم تیرا کالم س ُ نیں گے۔
ویسے ت ُو کہتا ہے کہ ت ُو س ُ لطان الفقر ذات کا ُم رید ہے۔ تو کیا کبھی
فقر کے بارے میں لکھا ہے ک ُ چھ۔؟ فقر کے بارے میں ک ُ چھ پتا بھی ہے
یا بس ایسے ہی ُم رید بنا بیٹھا ہے۔؟" سرکار کے سواالت کے ا لفاظ کا
انداز اکثر چوٹ پہنچانے واال ہوتا تھا لیکن درحقیقت ا ُن سواالت میں
کچھ خاص حکمت ہوتی تھی۔ ا ِس لیے ا ُس نے ادب سے فقر کی شان
میں لکھی اپنی نظم پڑھنی شروع کی۔
دو دھاری تلوار فقر
صاح بِ کن سرکار فقر
دے ال ل ّٰ ہ ,ل ل ّٰ ہ واال
او بے پردہ دلدار فقر
طالب نوں مطلو ب مالوے
چ ن دل توں پردے چاوے ُچ ن ُ
دل نوں دل دیدار کراوے
س ر ,ا ِسرار فقر محر ِم ِ
دو دھاری تلوار فقر
صاح بِ ک ن سرکار فقر
سرکار علی محمد نے ا ُس کا کالم س ُ ن کر ا ُس کی بہت حوصلہ افزائی
چ ن کر ا ُس کا وہ کالم س ُ نا جس پر لوگوں کو چن ُکی۔ سرکار نے ُ
اعتراضات تھے۔ ا ُس کی نظم ختم ہونے پر سرکار نے کہا " ُم رشد کی
شان میں بھی کچھ لکھا ہو گا ت ُو نے وہ بھی س ُ نا۔" تو ا ُس نے اپنی
ایک اور نظم پڑھنی شروع کی۔
میرے قلب کو اپنا مقام کیا ہے
ُم رشد میرے کیا خوبصورت کام کیا ہے
پنہاں ہے سارا پنہاں ,بس اسم ال ل ّٰ ہ میں
166
اک لفظ میں سب ق ِ صّ ہ تمام کیا ہے
ُم رشد میرے کیا خوبصورت کام کیا ہے
وص ِل اصل کا عالم کوئی میرے دل سے پوچھے
ا ُس کی نگا ہِ ظالم کوئی میرے دل سے پوچھے
پوچھے کوئی دل سے میرے ل ذ ّ ت آشنائی
کعبے نے ہمیں جھک کر سالم کیا ہے
ُم رشد میرے کیا خوبصورت کام کیا ہے
وہ تقریبا ً روز ہی سرکار علی محمد کے ڈیرے پے جاتا تھا اور اکثر
اپنی ڈائری بھی ساتھ لے جایا کرتا جس میں وہ اکثر شاعری لکھنے
کی کوشش کرتا تھا ا ُس وقت بھی وہ ا ُن کے ڈیرے پے بیٹھا لوگوں کو
اپنا کالم س ُ نا رہا تھا جب ا ُس کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ اپنے
بھائی کا نمبر دیکھتے ہوئے ا ُس نے ُر ک کر کال ر یسیو کی تو ا ُس
کے بھائی نے تقریبا ً روتے ہوئے ا ُس سے کہا "بھائی آپ جہاں بھی
ہیں فور ا ً یہاں آ کر ُم رشد پاک سے ملیں ,معافی مانگیں ,د ُعا کریں کہ
ُم رشد پاک آپ کو معاف کر دیںُ ,م رشد پاک نے جو جو باتیں کہیں ہیں
کسی اور سلسلے میں بیعت کرنے کے حوالے سے آپ س ُ نیں تو شاید
َم ر ہی جائیں۔ بس د ُعا کیجیئے کہ آپ کو معافی ِم ل جائے۔" ا ُس نے
اپنے بھائی کو تسلی دیتے ہوئے کہا "فکر مت کر ,الل ّٰ ہ خیر کرے گا۔
ت ُو مجھے لینے آ سکتا ہے۔؟" تو ا ُس کے بھائی نے کہا " ُم رشد پاک
بہت تھوڑی دیر کے لیے آئے ہیں ہو سکتا ہے تھوڑی دیر میں واپس
چلے ج ائیں ,آپ جتنا جلدی آ سکو آ جاؤ۔" ا ُس وقت سرکار وہاں نہیں
تھے اور وہ ڈیرے پر سرکار کے ُم ریدن کے ساتھ بیٹھا اپنا کالم پڑھ
کے س ُ نا رہا تھا ,ا ُس نے ا ُن لوگوں سے اجازت لی اور وہاں سے نکل
کر اپنے ُم رشد پاک سے ملنے پہنچا۔ تمام راستہ وہ بار بار اسی
مسئلے پر سوچنے کی کوشش کرتا رہا لیکن ایک پل کو ا ُسے ا ِس بات
کی فکر نہ ہو سکی ,وہ چاہ کر بھی ایسا کچھ محسوس نہیں کر پا رہا
تھا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو دور سے س ُ ل طان محمد علی صاحب کا سراپا
دیکھ کر ا ُسے س ُ لطان محمد اصغر علی رح یاد آ گئے ا ُس کا جی چاہا
کہ جا کے س ُ لطان محمد علی صاحب کے سینے سے لگ کر کہے
ُم رشد میں آپ کا ہوں ,میں کہیں بھی چال جاؤں ,کیسا بھی ہو جاؤں,
167
میں آپ کا ہی رہوں گا۔ مجھے الل ّٰ ہ میاں نے آپ کا بنایا ہے ,میری
روح آپ کے ن ُ ور پے پل رہی ہے ,میرا ماننا ہے کہ میں ازل سے آپ
کے نور سے ہوں( ,کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تمام ن بی رسول الل ّٰ ہ صلی
الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے ہیں ,سب ا ُمتیں اپنے اپنے نبی کے
نور سے ہوتی ہیں ,اور اولیاء ,صحابہ ,صالحین ,سب رسول الل ّٰ ہ صلی
الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے ہیں اور ا ُن کے وقت کے باقی لوگ
ا ُن کے نور سے ہیں۔ وقت میں موجود سب لوگوں کا نور اپنے وقت
ج ڑا رہتا ہے۔ اس لیے جو اپنے وقت کے کسی کے صالحین سے ُ
درویش کا ہاتھ تھام لیتا ہے وہ ا ُسی کے نور میں گ ُ م ہو جاتا ہے ,سو
وہ خود کو اپنے ُم رشد کے نور میں گ ُ م محسوس کرتا تھا اور اب تک
ا ُسے ایک پل کو بھی اپنے اور اپنے ُم رشد کے بیچ کسی قسم کی
دوری ک ا احساس نہیں تھا اسی لیے وہ پ ُ رسکون تھا مگر جب وہ
س ُ لطان محمد علی صاحب کے سامنے پیش ہونے جا رہا تھا تو ا ُس کے
دل میں خیال گ ُ زرا کہ کہیں یہ سکون میرا گ ُ مان تو نہیں۔؟ کہیں ایسا
تو نہیں کہ میں واقعی الگ ہو گیا ہوں اور مجھے احساس نہیں ہو پا
ج دا مت رہا ) ا ِس لیے ا ُس نے کہا " ُم رشد پاک مجھے خود سے ُ
کیجیئے گا۔" حس بِ معمول ُم رشد پاک کے سامنے ا ُس کی زبان نہ ک ھُ ل
سکی۔ س ُ لطان محمد علی صاحب نے بہت شفقت سے ا ُس کی خیریت
دریافت کی ا ُس کے کندھے پے ہاتھ رکھا اور وہ دل زبانی صرف اتنا
کہہ سکا کہ " ُم رشد مجھے اپنا رکھنا" کچھ دیر وہاں ُر کنے کے بعد وہ
باقی مریدین کے ساتھ کمرے سے باہر آ گیا۔ ایک اور ُم رید نے ا ُس
سے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ "میں س ُ لطان محمد اصغر
علی رح کا ُم رید ہوں ,ا ُن کے وصال کے بعد جب میں س ُ لطان محمد
علی صاحب سے ملنے گیا تو دور دور سے س ُ لطان صاحب کو دیکھ
کر سوچ رہا تھا کہ اب وہ نظارہ کہاں ,کہ جب س ُ لطان محمد اصغر
علی رح یہاں ہمارے سامنے ہوتے تھے ,جب میں نے ایسا سوچا تو
آپ رح میرے تصور میں آئے اور فرمایا "ت ُساں کے سمجھا جی۔؟,
ا َسی َم ر گئے آں۔؟ نہیں۔ ا َسی اپنے ناں توں صرف 'اصغر' ہٹایا اے"
(تم نے کیا یہ سمجھا کہ ہم َم ر گئے ہیں۔؟ نہیں ,ہم نے اپنے نام سے
صرف 'اصغر' ہٹایا ہے۔) اتنا س ُ ننا تھا کہ میرا دل پھر سے روشن ہو
گیا اور مجھے وہی ق ُ رب پھر سے محسوس ہونے لگا۔ " تھوڑی دیر بعد
168
وہ گھر کے لیے روانہ ہوا اور گھر پہنچ کر اپنے بھائی کا انتظار
کرنے لگا۔ جب ا ُس کا بھائی گھر واپس آیا تو ا ُس نے ا ُس سے پوچھا
کہ بتاؤ ُم رشد پاک سے کیا بات ہوئی۔؟ تو ا ُس کے بھائی نے مسکراتے
ہوئے کہا "کچھ نہیں کہا ,آپ بس جلد از جلد س ُ لطان محمد علی صاحب
کے ہاتھ پر بیعت کر لیجیئے۔" ا ُس نے اپنے بھائی کی آنکھوں میں
دیکھتے ہوئے کہا "فون پے مجھ سے بات کرتے ہوئے تو ت ُو ایسے
رو رہا تھا جیسے ُم رشد پاک نے مجھے سلسلے سے ہی ن ِ کال دیا ہو,
اور اب ت ُو ایسے اطمینان کا اظہار کر رہا ہے جیسے کچھ بھی نہیں
ہوا ہو۔ جب میں ُم رشد پاک سے مالقات کے لیے پہنچا تھا تب بھی ت ُو
مسکرا رہا تھا ,پ ُ رسکون تھا ,مجھ سے بات کرنے سے لے کر م یرے
وہاں پہنچنے تک ایسا کیا ہوا۔؟" ا ُس کے بھائی نے بدستور مسکراتے
ہوئے کہا "ساری باتیں تو میں آپ کو نہیں بتاؤں گا کیونکہ اگر بتا دیں
تو آپ کچھ ذیادہ پھول جائیں گے ,ا ِس لیے صرف اتنی بات بتاتا ہوں
کہ ُم رشد پاک نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ یہ ہمارا ہے اور ہمیش ہ
ہمارا ہی رہے گا ,ا ِس کی فکر مت کیا کرو۔" اپنے بھائی کی بات س ُ ن
کر ا ُس نے کہا "میرے لیے اتنی بات کافی ہے ا ِس سے زیادہ بتانے
کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے دل کو پہلے بھی کسی قسم کا شک نہیں
تھا اور اب بھی میں پ ُ رسکون ہوں" ا ِس واقعے کہ کچھ وقت بعد ا ُس
نے وادی س ُ ون سکیسر میں انگہ شریف کے مقام پر س ُ لطان محمد علی
صاحب کے ہاتھ پے بیعت کر لی۔ س ُ لطان محمد علی صاحب کے ہاتھ
پے بیعت کرنے کے بعد وہ کچھ زیادہ ہی گوشہ نشین ہو گیا تھا۔ شاید
ا ِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب وہ چلنے پھرنے میں بہت دقت
محسوس کرتا تھا اور ہر دوسرے شخص کی نگاہ میں اپنے لیے رحم
یا حقارت کا تاثر دیکھنے سے بچنے کی کوشش نے ا ُسے سب سے
دور کر دیا تھا۔ لوگ ا ُس سے بات کرتے ہوئے ا ُس سے الل ّٰ ہ کا نام
س ُ ننے سے زیادہ ا ُسے ڈاکٹروں ,حکیموں کے نام بتانے کے خواہشمند
نظر آتے تھے۔ اکثر وہ کسی کو تکلیف میں دیکھتا تو د َ م ک ر دیتا تھا
اور عام طور پے ا ُس کے د َ م سے لوگوں کو شفا بھی ِم ل جاتی تھی۔
ا ُس رات ا ُس کے ا ب ّو کی طبیعت کافی خراب تھی اور انہوں نے ا ُسے
د َ م کرنے کے لیے جگایا ,ا ُس کے د َ م سے ا ُس کے والد کو کافی آرام
محسوس ہوا اور وہ سونے کے لیے لیٹ گئے لیکن پندرہ منٹ بعد ہی
169
ا ُس کے والد نے پھر سے ا ُسے جگایا اور ہسپتال چلنے کو کہا صبح
سوا سات بجے کے آس پاس ا ُس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اپنے والد
کی وفات پے ا ُس پے ایک عجیب سا سکوت طاری تھا ,ایک بار آنسو
آنکھ تک آئے لیکن تمام گھر والوں کی اشکبار آنکھوں نے اور الل ّٰ ہ
سے ہر حال میں را ضی رہنے کے وعدے نے ا ُسے رونے کی اجازت
نہیں دی۔ ایک سکون اور اطمینان ا ُس کے چہرے اور آواز و انداز
اظہار
ِ سے واضح ہو رہا تھا جس کی وجہ سے جو لوگ ا ُس سے
افسوس کرنے آتے وہ بھی سوچتے کہ یہ تو پہلے ہی اتنا پ ُ رسکون ہے
اظہار افسوس کرنے میں کچھ لوگ شدید ِ ا ِسے کیا تسلی دی جائے۔
بناوٹ کا استمعال کرتے ہیں ,ایسے کچھ لوگ جب فرد ا ً فرد ا ً سب سے
شدید اظہار افسوس کرتے ا ُس کی جانب آئے تو ا ُس نے پ ُ ر سکون
لہجے میں کہا "الل ّٰ ہ جو کرتا ہے بہترین کرتا ہے۔ الل ّٰ ہ نے کوئی ظلم
نہیں ہم پر اور نہ ہی کوئی د ُکھوں کا پہاڑ توڑا ہے۔ الحمدلل ّٰ ہ جو ہوا,
اچھا ہوا ,یہ ا ُس کی رضا و حکمت ہے ,ا ِس لیے یقینا ً یہی بات بہترین
ہے۔" ا ُس کی ا ِس بات پر کسی نے بعد میں ا ُسے ٹوکا کہ آپ نے
صحیح نہیں کیا تو ا ُس نے کہا "آج شام تک یا زیادہ سے زیادہ کل
صبح تک یہ سب جو آج شدید رنج میں ہیں ,اپنے آپ کو اور ایک
دوسرے ک و یہی بات کہہ رہے ہوں گے کہ جو ہوا سب الل ّٰ ہ کی مرضی
تھی ,الل ّٰ ہ جب کسی کو د ُکھ دیتا ہے تو ا ُسے سہنے کا حوصلہ بھی دیتا
ہے۔ جو بات کل ہر کوئی کہے گا وہی بات آج میں نے کہہ دی تو کیا
ب ُ را کیا۔
170
''باب۔ '' 00
جب ا ُس کے والد کا جنازہ ا ُٹھایا گیا تو وہ دو ر بیٹھا دیکھ رہا تھا۔
ا ُسے یاد آیا کہ اپنے ایک مسیحی دوست کی والدہ اور والد کے
جنازوں کو جب اٹھانے کا وقت آیا تو ا ُس کے اہل خانہ کے ساتھ مل
کر ا ُس نے جنازہ ا ُٹھایا تھا۔ شاید مرنے والے کو اپنے قریبی لوگوں
کے کندھوں کی آرزو ہوتی ہو گی۔ لیکن آج وہ اپنی جسمانی حالت کے
باعث اپنے والد کے جنازے کو کندھا دینے کے قابل بھی نہیں تھا۔
بھیڑ میں کسی سے ٹکرانے کے باعث وہ گر سکتا تھا ا ِس لیے بھی
نماز جنازہ کے بعد قبرستان پہنچ کر ِ ا ُسے جنازے سے دور رہنا پڑا۔
ا ُس نے گ ُ زارش کی کہ کچھ دیر ا ُسے جنازے کے ساتھ چلنے دیا
جائے اور ا ِ س دوران ا ُس نے کچھ دیر جنازے پے ہاتھ رکھ کر چار
قدم چل کر خود کو تسلی دی کہ میں نے بھی اپنے والد کے جنازے کو
کندھا دے لیا۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد بڑا بیٹا ہونے کے باعث
ا ُس کی ذمہ داری بڑھ گئی تھی لیکن اپنی جسمانی حالت کے باعث وہ
اب کوئی ذمہ داری نبھان ے کے قابل نہیں رہا تھا۔ ا ُس کے دادا دادی
بھی ا ُس کے ساتھ ہی رہتے تھے ا ِس لیے بھی ا ُسے تسلی رہتی تھی۔
عجیب سوچ تھی ا ُس کی ,اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات ا ُس کی
سوچ پر گہرا اثر چھوڑتے اور اپنی خود کی زندگی میں ہونے والے
واقعات کا احساس چاہ کر بھی ا ُس کی سوچ کا محور نہیں بن پاتے
تھے۔ ا ِس باعث گھر کی تمام ذمہ داری ا ُس کی والدہ ,بیوی اور بھائی
پر آ گئی۔ ا ُس کے چھوٹے بھائی نے بڑے بیٹے کے فرائض سنبھالے,
ا ُس کی والدہ نے والد کی جگہ لی ,اور ا ُس کی بیوی نے ا ُس کے
چ وں کے لیے ماں اور باپ دونوں کے فرائض سرانجام دیے۔ ا ُس نے ب ّ
اپنے آپ کو دفتر کے کام کاج میں ا ِس قدر مصروف کر لیا کہ اکثر
رات گئے گھر جاتا۔ دیر سے گھر جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ
اب وہ خود سے چل کر گھر سے دفتر نہیں جا پاتا تھا۔ جو راستہ پیدل
دس سے پندرہ منٹ میں آسانی سے طے کیا جا سکتا تھا ا ُس کے لیے
ا ُسے کسی سواری کی ضرورت پڑتی۔ اگرچہ ا ُس کا بھائی اور دوست
وغیرہ ہمیشہ ا ُس کی مدد کرتے رہتے تھے لیکن پھر بھی اکثر ا ُس
171
کے دل میں یہ بات آتی کہ وہ لوگوں کا محتاج ہوتا جا رہا ہے۔ یہ
محتاجی ا ُس کے جسم تک ہی محدود تھی۔ اپنے دفتری کام کاج کے
حوالے سے سب ا ُسے بہت عزت کی نگ اہ سے دیکھتے اور ا ُس کی
ذہانت کی داد دیتے تھے۔ ا ِس ذہانت نے ا ُسے اپنے ڈیپارٹمینٹ میں
بہت سی عزت اور شہرت دی لیکن ا ِس کے ساتھ ساتھ دفتر کی بہت
سی ذمہ داری ا ُس کے سر آ گئی تھی اور یہ ذمہ داری ا ُس کے پاس
ایک بہترین جواز تھا اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے دور بھاگن ے کا۔
ا ُس کے گھر والوں نے ا ُس کے ساتھ سمجھوتا کر لیا تھا۔ الل ّٰ ہ نے
ا ُسے بہت سی صالحیت دی تھی لیکن ا ُس نے اپنی صالحیت کا کبھی
کچھ خاص استمعال نہیں کیا۔ Touchstone Communicationsنامی
ایک معروف کال سینٹر جہاں کام کرنے کے لیے انگریزی زبان اہل
ذبان کی طرح بول نی پڑتی تھی وہاں ا ُس نے قریب ایک سال کام کیا۔
جہاں سے امریکہ کی مختلف اسٹیٹیس میں پاکستانی لڑکے لڑکیاں
مختلف امریکن بینکس کی طرف سے کالز کیا کرتے تھے۔ اپنے مالی
پیش نظر اور اپنی بیوی اور کزن کے پ ُ ر زور اسرار پر حاالت کے ِ
ا ُسے کال سینٹر میں کام کرنا پڑا۔ اک ثر لوگ ا ُسے حیرت سے دیکھتے
کہ ا ِس کی تعلمی قابلیت صرف انٹرمیڈیٹ ہے اور وہ کبھی پاکستان
سے باہر کسی ُم لک نہیں گیا۔ اکثر لوگوں سے آمنے سامنے انگریزی
زبان میں بات کرتے وہ جھجھک سا جاتا تھا لیکن کال پر امریکی
عوام سے بات چیت کرتے ا ُس کا اعتماد قاب ِل دید ہوتا ت ھا۔ جس
سرکاری محکمے میں وہ کام کرتا تھا وہاں ا ُسے آڈٹ اور اکاونٹس
کے بارے میں معلومات کے حوالے سے ایک ایکسپرٹ کی حیثیت
سے دیکھا جاتا۔ ا ُس کے ہاتھ کے لکھے سرکاری خطوط کی انگریزی
پڑھ کر اکثر لوگ مرعوب ہو جاتے تھے۔ لیکن ا ِن تمام صالحیتوں کے
باوجود وہ اپنے گھر بار کے لیے گ ُ زارے الئق آمدنی بھی اکھٹی نہیں
کر پاتا تھا۔ کیونکہ کہ سرکاری محکموں میں عام طور پر کام کرنے
اور کام نہ کرنے کی ایک سی تنخواہ ملتی ہے۔ اور زیادہ کام کرنے
والے کو ا ُس کی ایمانداری پر شاباشی کے عالوہ کچھ نہیں ملتا۔ تو
کچھ ایسے ہی حاالت کا سامنا ا ُسے بھی تھا لیکن الل ّٰ ہ نے کبھی ا ُسے
مایوسی کا شکار نہیں ہونے دیا اور ہمیشہ اپنی ش ُ کر گ ُ زاری پے
معمور رکھا۔ کم آمدنی اور سخت حاالت کے باوجود وہ اور ا ُس کے
172
گھر کے باقی لوگ خوش رہنا جانتے تھے۔ اپنے گھریلو حاالت سے
زیادہ ا ُسے لوگوں کی فکر کھائے جاتی تھی۔ جو شخص اپنے والد کی
اچانک موت پر ایک آنسو نہ رویا وہ ُم لک میں کسی جگہ ہونے والے
بم دھماکے میں مرنے والے لوگوں کا س ُ ن کر گھنٹوں رویا کرتا
تھا۔جوالئی 7442میں جب الل مسجد کا واقعہ پیش آیا تو وہ اندر سے
بہت زیادہ ٹوٹ گیا۔ ا ُس کا دفتر الل مسجد کے سامنے والی عمارت
میں تھا اور گھر بھی پاس ہی تھا ا ِس لیے ا ِس واقعے سے پہلے اور
بعد کے بہت سے حاالت ا ُس کی نظروں سے گ ُ زرے۔ ا ِس واقعے کے
دوارن ایک روز ا ُس کے بیٹے نے ایک ڈرائنگ بنا کر ا ُسے دکھائی۔
تو ا ُس نے ڈرائنگ دیکھ کر اپنے بیٹے سے پوچھا کہ یہ کیا بنایا ہے۔
تو ا ُس نے تصوی ر پر ا ُگلی رکھتے ہوئے کہا یہ مسجد ہے اور یہ سب
مولویوں کی الشیں ہیں۔ ا ُس نے چونک کر اپنے بیٹے کو دیکھا جو
ا ُس وقت پہلی جماعت میں پڑھتا تھا اور ا ُس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں
لے کر ا ُس کا ماتھا چوما ا ُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اپنے پانچ سالہ
بیٹے کو کیا کہے ,ب ہرحال ا ُس نے اپنے الفاظ اکھٹے کرتے ہوئے کہا
"بیٹا ایسی ڈرائنگ نہیں بناتے ,ب ُ ری بات ہے" تو ا ُس کے بیٹے نے
کہا "بابا مولوی دہشتگرد ہوتے ہیں ,وہ سب کو مار دیتے ہیں۔ بابا یہ
دہشتگرد مسلمان ہوتے ہیں۔؟" ا ُس نے بےبسی کے عالم میں اپنے
بیٹے کو گلے سے لگا لیا اور کہ ا "بیٹا دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں
ہوتا۔ اور کوئی مذہب دہشتگردی نہیں سکھاتا۔" کرفیو کے دوران جب
کچھ دیر کو لوگوں کو خریداری کے لیے گھروں سے نکلنے کی
اجازت ملی تو وہ بھی گھر سے باہر نکل کر کھڑا ہوا ا ُس کا بیٹا بھی
ساتھ تھا ,گھر کے سامنے مارکیٹ میں ک ھُ لی د ُ کان دیکھ کر ا ُس کے
بیٹے نے کسی چیز کی فرمائش کی تو ا ُس نے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں
پیسے دے کر کہا کہ جاؤ لے آؤ چیز ,میں آپ کو دیکھ رہا ہوں۔ ا ُس
کے بیٹے نے ا ُس کے ہاتھ سے پیسے لیے اور بااعتماد انداز میں
مارکیٹ کی جانب بڑھا ا ُس روز ا ُس نے پہلی بار اپنے بیٹے کو اکیلے
بازار بھیجا تھا وہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ یقین بھی
عجیب چیز ہے جو کام انسان اپنی تمام تر طاقت اور حوصلے سے
نہیں کر پاتا وہ کام اکثر یقین سے ہو جاتا ہے ,جب ا ُس نے اپنے بیٹے
کو خود بازار جانے کو کہا تو ا ُس کا بیٹا ایک پل کو سہم سا گیا لیکن
173
جب ا ُس نے کہا کہ میں آپ کو دیکھ رہا ہوں تو اس بات سے کہ ا ُس کا
باپ ا ُسے دیکھ رہا ہے ا ُس کے اندر ایک اعتماد جاگ ا ُٹھا ,ا ُس نے
سوچا کہ الل ّٰ ہ بھی اپنے بندے سے یہی کہتا ہے میں تجھے دیکھ رہا
ہوں مگر ہم اس بات پر یقین نہیں کر پاتے۔ اتنی دیر میں ا ُس کا بیٹا
اپن ی مطلوبہ چیز لے کر پلٹ رہا تھا اور ا ُس کے اعتماد میں کوئی
فرق نہ تھا کہ اچانک ا ُس کی نظر ایک پولیس والے پر پڑی اور وہ
سہم سا گیا اور بھاگ کے ا ُس کے پاس آ کر کہنے لگا "بابا بھاگیں
ورنہ پولیس ہمیں گولی مار دے گی" ا ُس کا بیٹا بات کرتے کرتے
اپنے باپ کے پیچھے چ ھُ پنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ا ُس نے فور ا ً
اپنے بیٹے سے کہا "نہیں بیٹا وہ آپ کو نہیں ماریں گے ,دوست ہیں وہ
آپ کے ,دیکھو وہ دیکھ رہے ہیں آپ کو۔" کرفیو کے باعث عالقہ
س ُ نسان تھا اس لیے ا ُس کی اور ا ُس کے بیٹے کی تمام گفتگو واضح
طور پر پولیس والے کے کان تک پہنچ رہی تھی اور جس طرح وہ سہم
کر بھاگا تھا ا ُس سے بھی پولیس واال ا ُس کی جانب متوجہ تھا ا ُس نے
اپنے بیٹے کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے خود سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا
کیا اور کہا "دیکھو کسی نے آپ کو گولی نہیں ماری ,وہ دوست ہیں
آپ کے جاؤ ا ُن سے ہاتھ ِم ال کر آؤ" ا ُس کا بیٹا تھوڑا سا جھجھکا مگر
پولیس والے کو مسکراتے ہوئے اپنی جانب دیکھتے ہوئے ا ُس نے ا ُس
کی جانب بڑھنا شروع کیا اور جا کر ا ُس سے ہاتھ مالیا۔ پولیس والے
نے بہت شفقت سے ا ُس سے ہاتھ مالیا اور ا ُس کے سر پے ہاتھ
پھیرتے ہوئے ا ُس سے ا ُس کا نام پوچھا اور ا ُس کا بیٹا اپنا نام بت ا کر
واپس لوٹ آیا۔ ا ِس تمام عرصے میں ا ُس نے اور ا ُس پولیس والے نے
ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔ اور دونوں کی آنکھوں میں
ایک سی ا ُلجھن تھی کہ کیا آنے والی نسل کو ِس سٹم پے یقین کرنے کا
حبدرس دینا چاہیے یا نہیں ,ایک پل کو ا ُس سپاہی نے ا ُس کی ُ
الوطنی کو بھی سراہا لیکن ُم لک و قوم کے کل کی ایک مایوسی
دونوں کی آنکھ میں موجود تھی جس کے باوجود ا ُن دونوں نے شاید
ایک پ ُ رامید پاکستانی ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کی۔ کرفیو کا
وقفہ ختم ہونے کو تھا ا ِس لیے وہ اپنے بیٹے کو لیے گھر واپس آ گیا۔
چہمگر ا ُس کے اندر ایک جنگ س ی چل رہی تھی۔ ایک پانچ سال کے ب ّ
اتنا اثر لے رہا ہے حاالت کا کہ ا ُسے ہر مولوی دہشتگرد نظر آ رہا
174
ہے ,اور اپنی قوم کے سپاہیوں پر سے بھی ا ُس کا اعتماد ا ُٹھ رہا ہے۔
ایک ہی دن میں ا ُس نے اپنے بیٹے کی دو غلط فہمیاں دور کرنے کی
کوشش کی تھی لیکن وہ سوچ رہا تھا ک ہ ا ُس نے صحیح کیا یا غلط۔
آنے والے کل میں ا ُس کا بیٹا کیا کہے گا کہ ا ُس کے باپ نے ا ُسے
صحیح سبق دیا تھا یا غلط۔ ا ِس کا فیصلہ آنے والے کل نے کرنا تھا
جو فی الحال ا ُس کی نظروں سے اوجھل تھا۔
175
''باب۔ '' 00
ا ُس کی شادی کی سالگرہ جوالئی کے مہینے میں ہی ہوتی تھی ,ا ُس
کی بیوی نے ا ُسے یاد ِد الیا تو ا ُس نے غمگین لہجے میں کہا "اب شاید
ہم شادی کی سالگرہ کبھی نہ منائیں۔" ا ُس کی بیوی نے ا ُس کا اشارہ
سمجھتے ہوئے کہا "ہاں بہت سا خون ناحق بہہ رہا ہے" ا ُس نے کہا
"خو ِن ناحق تو آج ساری د ُنیا میں مسلمانوں کا ہی بہایا جا رہا ہے,
افسوس ا ِس بات کا ہے کہ ہم پر یہ وقت آ گیا ہے کہ دونوں جانب ہم
ہی ہیں ,دونوں جانب انسان ہیں ,دونوں جانب سے نعرہ تکبیر ب ُ لند ہو
رہا ہے ,دونوں جانب سے ہم ہی قتل ہو رہے ہیں دونوں جانب سے
پاکستان ہی کا نقصان ہو رہا ہے۔ میں دونوں میں سے کس ی کے ساتھ
نہیں ہوں۔ میری فکر یہ ہے کہ حاالت یہاں تک پہنچے تو کیوں پہنچے
کہ آج ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنا گلہ کاٹنے میں مصروف ہیں۔ ہم سب
اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہے ہیں۔ روز اس قبر میں ہم اپنے والدین,
اوالد ,دوست وغیرہ سب کو دفنا رہے ہیں لیکن جاگنے کو تیار نہ یں
ہیں۔ کوئی بھی شخص اپنی خامی درست کرنے کا خواہاں نہیں ہے سب
یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ س ُ دھر جائیں۔ خود شناسی کسے کہتے
ہیں ,خود بینی کس شئے کا نام ہے ,ا ِن باتوں کا تو جیسے درس ہی
اٹھا لیا گیا ہے زمین سے۔" ا ُس کی بیوی نے پوچھا "آپ کس کے ساتھ
ہیں۔؟ حکومت کے یا الل مسجد والوں کے۔؟" تو ا ُس نے کہا "میں
دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہیں ہوں ,دونوں کا مطالبہ درست مگر
طریق ہِ کار غلط ہے۔ اگر اسالم نافذ کرنا ہے تو لوگوں کے دل بدلنے
کی کوشش کیجیئے ا ُن میں سالمتی کی سوچ بھرنے کی کوشش
کیجیئے اسالم خود بہ خود نافذ ہو جائے گ ا۔ زنا کی خواہشمند قوم کو
زور زبردستی سے حجاب کروا کے اسالمی نظام کا نفاذ نہیں ہوتا۔
جب ا ُس کے اندر اسالم نہیں ہے تو ا ُس کے باہر اسالم پھیال دینے کا
کوئی فائدہ نہیں ہے ,زبردستی کر کے آپ ا ُسے غالم کر سکتے ہیں
مسلمان نہیں۔ اکثر لوگ جو اپنے ماں باپ کے ڈر سے د اڑھی رکھتے
ہیں یا حجاب کرتے ہیں وہ روک ٹوک کرنے والے ماں باپ سے دور
ہوتے ساتھ ایسے حجاب کو ترک کرتے ہیں جیسے کسی عذاب میں
176
مبتال تھے۔ کیا فائدہ ایسے حجاب کا جس میں رہتے ہوئے بھی انسان
بےحیا ہو۔؟" ا ُس کی بیوی نے ا ُسے ٹوکتے ہوئے کہا "لیکن اگر سب
لوگ با پردہ ہ و کر پھرنا شروع کر دیں تو معاشرے میں کچھ تو
س ُ دھار پیدا ہو گا ,لوگ دین کی طرف مائل ہوں گے۔ گناہ کے مواقع کم
ہوں گے تو گناہ بھی کم ہو گا ,کسی جانب سے معاشرے میں س ُ دھار کا
سلسلہ شروع ہو گا ,تو ایسی سختی میں فائدہ بھی تو ہو سکتا ہے۔ "
ا ُس نے مسکرا کر اپنی بیوی کی جانب دیکھا اور کہا "جب تک دل نہ
بدلے تب تک کچھ نہیں بدلتا ,ایسے بہت سے ُم لک ہیں جہاں لوگ
حجاب کرتے ہیں لیکن ا ُن کا معاشرہ بھی گمراہیوں میں ڈوبا ہے اور
ہر طرح کا گناہ موجود ہے۔ اور پردے کی وجہ قانون ہے ,الل ّٰ ہ نہیں۔
جب ا ُس کا عمل الل ّٰ ہ کے لیے نہیں ہے ت و ایسا عمل ب ِ گاڑ پیدا کرنے
کے عالوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ رسول الل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم
نے آہستہ آہستہ دین کو لوگوں کی زندگی میں داخل کیا ,ایک معاشرے
دور جاہلیت کے ا ُن لوگوں سے ِ کی حیثیت سے ہم لوگ کسی بھی طرح
کم نہیں ہیں۔ ہم لوگ کسی بھی زاویے سے مسلما ن نہیں ہیں۔ مسلمان
ہونا محض مسلم نام رکھ لینا یا نماز روزہ ادا کر لینا نہیں ہے۔ بلکہ
کسی بھی مذہب کا پیروکار ہونا ,محض ا ُن جیسا نام رکھنا ,ا ُن جیسا
ح لیہ بنانا اور ا ُن کے طریقے سے عبادت کرنا ,نہیں ہے۔ ُ
دین و مذہب تو الل ّٰ ہ سے دل جوڑنے کا نام ہے دین تو لوگوں میں
سالمتی بانٹنے کا نام ہے۔ جس نبی نے پتھر کھا کر بھی لوگوں کو
طرز
ِ بد د ُعا نہیں دی ا ُس نبی کے نام لیوا لوگ جب ا ُسی کے نام پر یہ
عمل اپنا لیں کہ تم نے ہمارے اتنے لوگ مارے تھے ا ِس لیے اب ہم
تمھارے اتنے لوگ مار رہے ہیں۔ تو ا ُس قوم کو برباد ہونے سے کوئی
نہیں بچا سکتا۔ ا ِن لوگوں کو اگر بدلنا ہے تو ا ِن کے دل بدلنے کی
کوشش کرنی چاہیے ,یہ ایسی قوم ہے کہ اگر ان کے دل بدل جائیں تو
یہ دنیا بدل دینے کی صالحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ہم سب دل بدلنے کی
جگہ جسمانی تبدیلیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ انقالب ضرور آئے
گا لیکن ا ُس کے ل یے ہمیں اپنی سوچ میں انقالب النا پڑے گا۔ جب تک
ہماری سوچ نہیں بدلے گی تب تک کچھ نہیں بدلنے واال۔ "
چ کا تھاالل مسجد کے واقعے کے بعد ا ُس کے اندر بہت کچھ ٹوٹ ُ
آئے دن ُم لک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر رو رو کر
177
چ کے تھے۔ ا ُس کی بیوی بھی س ُ لطان خ شک ہو ُا ِب ا ُس کے اندر آنسو ُ
محمد اصغر علی رح کی ُم رید تھی اور ایک تربیت یافتہ اور باعمل
عورت تھی۔ ا ُس کے ُم رشد پاک نے لوگوں تک اولیاء کا پیغام پہنچانے
کے لیے جو جماعت قائم کی تھی ,اسالم آباد میں ا ُس جماعت کی ایک
شاخ خواتین کے لیے بنانے کا کام ا ُس کی بیوی کے س ُ پرد کیا گیا۔ جب
لوگوں کو اپنے گھر درس پے ب ُ النے کا مرحلہ آیا تو ا ُس کی بیوی نے
ا ُس سے کہا "آپ مجھے بتائیں کہ محلے میں کس کس گھر میں دعوت
دوں اور کس گھر میں نہیں۔" تو ا ُس نے کہا "ہر گھر میں ۔۔ ,شیعہ,
س ُ ن ّ ی ,مسیحی ,ہماری گلی میں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں اور سب
کے گھر دعوت دینی ہے۔ کیونکہ ہم کسی مسلک مذہب کی نہیں بلکہ
الل ّٰ ہ کی دعوت دے رہے ہیں اور اس دعوت پے سب کا حق ہے" ا ُس
کی بیوی نے کہا "لیکن ہر کوئی تو نہیں آئے گا نا ,میں نے سوچا تھا
کہ سب کے گھر جا کر خواتین کو میالد اور درس کی دعوت دوں گی,
لیکن اکثر لوگ تو میال د وغیرہ مانتے ہی نہیں ہیں تو ایسے لوگوں کو
دعوت دینے کا کیا فائدہ۔؟ اور غیر مذہب کے لوگ کیوں آئیں گے۔؟
بلکہ وہ تو دعوت دینے پر بھی ب ُ را مان جائیں گے۔" ا ُس نے کہا "نہیں
ایسا نہیں ہو گا ,تم صرف یہ پیغام دو گی کہ ہم مذہب و مسلک سے ہٹ
ح بِ ال ٰہ ی کا درس دیں گے ا ِس لیے آپ سب تشریف الئیے کر صرف ُ
گا ,جب تم شروع میں ہی وضاحت کر دو گی کہ فرقہ پرستی سے ہٹ
کر بات کی جائے گی تو لوگ کم سے کم ایک دفعہ تمھیں س ُ ننا ضرور
چاہیں گے ,اور جب انہیں نظر آئے گا کہ تم سچ میں فرقہ واریت سے
ح بِ ال ٰہ ی کی بات کر رہی ہو تو وہ بار بار
پاک صرف اور صرف ُ
تمھیں س ُ ننے کی خواہش کریں گے۔ تمھارا کام پیغام پہنچانا ہے ,لوگوں
کو کھینچ کر النا نہیں ,دعوت سب کو دو ,پھر جو آئے نہ آئے ا ُس کی
مرضی ہے" ا ُس کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور الل ّٰ ہ کی مہربانی سے
ا ُس درس میں شیعہ ,س ُ نی ,صوفی کے ساتھ مسیحی خواتین نے بھی
شرکت کی۔
178
''باب۔ '' 00
باپ بیٹی کا رشتہ بہت انمول رشتہ ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ
بیٹیاں ماں سے ذیادہ باپ کے قریب ہوتی ہیں۔ ا ُس کی بیوی بھی اپنے
والد کے بہت قریب تھی اور چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ ا ِس لیے
بھی اپنے والد کا سارا پیار ا ُسے ہی ِم ال ۔ ا ُس کے والد بھی اپنے اندر
ج ستجو حق رکھتے تھے ا ِس لیے وہ ُم رشد کامل کی تالش میں الگ ُ
الگ بزرگوں کے پاس جاتے اور ہر بزرگ سے الل ّٰ ہ کی پہچان طلب
کرتے اور جہاں بات نہ بنتی وہاں جانا چھوڑ دیتے ,کیونکہ ا ُن کی
چےچ ی تھی ا ِس لیے ذیادہ تر ا ُن کا رابطہ اچھے اور س ّ طلب س ّ
چ ے ب ُ زرگ حضرات کو مریدین کی تعداد بڑھانے بزرگوں سے ہ ُوا۔ س ّ
چ ے طالبوں کو ا ُن کی طلب کے مطابق کا شوق نہیں ہوتا ا ِس لیے وہ س ّ
آگے بھیج دیتے ہیں۔ ایک بزرگ سے جتنا فیض جس کے نصیب میں
ہوتاُ ,م رید کی کیفیت کے مطابق ,بزرگا ِن دین ا ُتنا فیض ا ُسے سونپ
کر ا ُسے ا ُس ب ُ زرگ کے حوالے کر دیتے ہیں جس کے پاس ُم رید کا
باقی کا فیض ہوتا ہے۔ ا ِسی ترتیب پر چلتے ہوئے وہ حاجی رحمت الل ّٰ ہ
المعروف پیر دھنکہ شریف تک پہنچے ,اور کئی بار ا ُن کے پاس
حاضری دینے اور مسلسل الل ّٰ ہ کی پہچان اور ا ُس کے ق ُ رب کی التجاء
کرنے کے بعد ایک دن بابا دھنکہ شریف نے ا ُنھیں د ُعا دیتے ہوئے
کہا "جا خضر علیہ السالم تیری مدد کریں گے۔ "
وہ اپنی تمام کیفیات اپنی بیٹی سے شیئر کرتے اور ا ُن کی بیٹی بھی
اپنی دعاؤں کے ذریعے اپنے والد کی مدد کرنے کی کوشش کرتی
رہتی۔ دونوں باپ بیٹی عبادات میں ایک دوسرے پے سبقت لے جانے
ک ی کوشش کرتے۔ ایک دن میں ہزاروں بار درود شریف پڑھتے اور
الل ّٰ ہ سے الل ّٰ ہ کے قرب کا سوال کرتے۔ اور ایک دن ا ُس کے والد کی
مالقات س ُ لطان محمد اصغر علی رح کی قائم کردہ اصالحی جماعت
کے کار ک ُ نان سے ہوئی اور پہلی ہی ُم القات میں وہ ا ُن کار ک ُ نان کی
گفتگو سے شدید متا ثر ہوئے پھر س ُ لطان محمد اصغر علی رح سے
ف مالقات حاصل کیا اور ا ُن کے ُم رید ہوئے۔ انھوں نے اپنی بیٹی شر ِ
ح ب ال ٰہ ی کی دولت سے آراستہ کرتے ہوئے پروان چڑھایا تھا اور کو ُ
179
بیٹی نے بھی اپنے والد کی محنت ضائع نہیں ہونے دی۔ ا ُسے نماز اور
درود پڑھتے رہنے میں سکون ملتا تھا۔ جس عمر میں لڑکیاں فیشن
وغیرہ کی باتیں کرتی ہیں ا ُس ع ُ مر میں ا ُسے باپردہ رہنے کی فکر
رہتی۔ جب دوسری لڑکیاں اپنی کالسز چھوڑ کر کالج میں اپنی سہلیوں
کے ساتھ گھوما کرتی تھیں تب وہ کالس چھوڑ کر کالج میں موجود
مسجد میں بیٹھی عبادت میں مصروف رہتی تھی۔ ا ُس ک ی ٹیچرز نے
ا ُسے کئی بار تنبیہ کی کہ کالسز چھوڑ کر مسجد میں نہ بیٹھا کرے
لیکن وہ باز نہ آئی تو ایک دن ا ُسے کہا گیا کہ اگر ا ُس نے مسجد میں
بیٹھنا ترک نہ کیا تو کالج کی مسجد بند کرا دی جائے گی۔ تو ا ُس نے
جوابا ً کہا کہ آپ مسجد بند مت کیجیئے میں آپ کا کالج ہی چ ھوڑ دیتی
جڑ ہوں۔ اور ا ِس طرح ا ُس نے پڑھائی چھوڑ دی ,ا ُس کا دل الل ّٰ ہ سے ُ
گیا تھا ا ِس لیے دنیاوی علم سے ا ُس کا جی ا ُچاٹ ہو ُ
چ کا تھا۔
ح ب ال ٰہ ی کا درس حاصل ایک لڑکی جس نے اپنے والد کی تربیت سے ُ
کیا اور ا ُسے اپنے جینے کا مقصد بنانے کی کوشش کی۔ ایک باپ جس
ح بِ ال ٰہ ی کی راہ پر ڈال کر تربیت کا حق ادا کر دیا۔نے اپ نی بیٹی کو ُ
انہی کی بدولت ا ُسے بھی س ُ لطان محمد اصغر علی رح تک پہنچنا
نصیب ہوا تھا۔ ا ُس کے س ُ سر ہی وہ شخص تھے جنہوں نے ا ُس کے دل
میں الل ّٰ ہ کی طلب محسوس کی اور ا ُسے اپنے ُم رشد پاک سے متعارف
کروایا۔ ا ُس کے س ُ سر شریعت کے سخت پابند انسان تھے۔ جب وہ پہلی
بار ا ُن کے ساتھ س ُ لطان محمد اصغر علی رح سے ملنے گیا تھا تو ا ُن
کی بیٹی بھی ساتھ تھی اور سارا راستہ ا ُس نے دیکھا کہ دونوں باپ
بیٹی کو صرف یہی فکر تھی کہ وہ وقت پے نماز ادا کر لیں۔ فرض
نمازوں کے ساتھ ساتھ دونوں نف لی نمازوں کے بھی سخت پابند تھے۔
جب وہ لوگ اسالم آباد سے جھنگ کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو ا ُس
نے سوچا کہ یہ لڑکی اتنا طویل سفر کیسے کرے گی۔؟ اور ا ُسے یہ
احساس بھی ہو رہا تھا کہ ا ِس کی موجودگی کی وجہ سے شاید سفر
اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ لیکن ا ُس لڑکی نے تمام راستہ اپنا حجاب
اور اپنا آپ ایسے سنبھاال کہ ا ُس کی نظر میں ا ُس لڑکی کے لیے بہت
سا احترام پیدا ہو گیا۔ س ُ لطان محمد اصغر علی رح سے شور کوٹ میں
مالقات کے بعد واپسی پر وہ لوگ غلطی سے کسی اور جانب چلے
گئے اور یہ بات انھیں تب سمجھ آئی جب گاڑی واال ا ُنھیں ایک در یا
180
کے کنارے ا ُتار کر واپس چال گیا۔ ا ُسے پتہ چال کہ دریا کے ا ُس پار
س ُ لطان باہو رح کا دربار ہے اور ا ُس لڑکی کا کہنا ہے کہ ہم اگر
راستہ بھٹک کر یہاں تک پہنچے ہیں ,تو اب یہ بات جانتے ہوئے کہ ہم
گھر کی جانب نہیں بلکہ س ُ لطان باہو رح کے دربار کی جانب سفر کر
رہے تھے ,ہمیں اپنا سفر ا ُن کے دربار کی جانب جاری رکھنا چاہیے
اور دربار پے حاضری دیے بغیر واپس نہیں جانا چاہیے۔ جب کہ ا ُس
کی سوچ یہ تھی کہ جلد از جلد اسالم آباد واپسی کا انتظام کیا جائے
کیوں کہ شام ہونے کو ہے اور ایسے دور دراز عالقوں میں شام کے
بعد کسی سواری کا ملنا ُم شکل ہو جاتا ہے۔ ا ُس نے اپنے س ُ سر سے
اپنے خدشے کا اظہار کیا اور اپنی بیٹی کو سمجھانے کو کہا تو انھوں
چ کا ہوں ,آپ خود بات کر لیجیے ,شاید آپ نے کہا کہ "میں کوشش کر ُ
کی بات سمجھ جائے۔ "
ا ُن کے کہنے پے وہ ا ُس لڑکی کی جانب بڑھا جو سب سے الگ تھلگ
دریا کنار ے نماز ادا کرنے کے بعد د ُعا میں مشغول تھی۔ ا ُسے اپنے
پاس کھڑا دیکھ کر وہ ا ُس کی جانب متوجہ ہوئی تو ا ُس نے اپنی رائے
کا اظہار کرتے ہوئے کہا "میرے خیال میں ہمیں واپسی کا سفر اختیار
کرنا چاہیے کیونکہ شام ہونے کو ہے" تو ا ُس لڑکی نے ا ُس کی بات
سمجھتے ہوئے اطمین ان سے کہا " ا ِس کائنات میں ہر کام کا ایک
مقررہ وقت ہے اور وہ الل ّٰ ہ کی رضا سے ا ُسی وقت پر ہو گا ,نہ ایک
پل پہلے نہ ایک پل بعد ,ہم انسان ب ِ الوجہ آنے والے وقت کو سوچ کر
پریشان ہوتے رہتے ہیں ,جب کسی راستے پے جاتے ہوئے منزل سے
ایک قدم پہلے ال ل ّٰ ہ آپ کو روک کر ب تا دے کہ یہ راستہ فالں جانب
جاتا ہے تو ا ِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ آخری قدم آپ اپنی
مرضی سے ا ُٹھائیں۔ تو اب ہماری مرضی ہے کہ ہم اپنی خواہشات کو
اور اپنے دنیاوی آرام کو سوچتے ہوئے ا ِس راستے سے پلٹ جائیں یا
پھر ا ُس کی رضا سمجھتے ہوئے آخری قدم بھی ا ُس ی جانب ا ُٹھائیں
جس جانب وہ ہمیں لے جا رہا تھا" زندگی میں شاید پہلی بار کسی نے
ا ُسے الجواب کر دیا تھا۔ ا ُس نے کہا "جی آپ بلکل صحیح کہہ رہی
ہیں" اور اتنا کہہ کر وہ فور ا ً وہاں سے دور آ گیا۔ ا ُسی وقت واپسی
کی سواری کا انتظام ہوگیا اور وہ لوگ دریا کے سفر کی جگہ کسی
اور راستے سے س ُ لطان باہو رح کے دربار تک پہنچے۔ گ ُ زرتے
181
گ ُ زرتے دور سے ہیر رانجھا کا مزار بھی دیکھ اور س ُ لطان باہو رح
کے دربار پر حاضری دینے کے بعد اسالم آباد کی طرف روانہ ہو
گئے۔
ا ُس کی بیوی بہت اخالص و استقامت سے اپنے ُم رشد پاک کا پیغام عام
کرنے کی کوش ش کر رہی تھی ,جس کا ثمر یہ تھا کہ یہ پیغام چند ماہ
میں ہی بہت سے لوگوں کو متاثر کر گیا اور خواتین تیزی سے ا ِس
جماعت کا ح صّ ہ بننا شروع ہو گئیں۔ ا ُس نے دن رات ایک کر کے
لوگوں تک پیغام پہنچایا اور اسی دوران اکتوبر 7442میں الل ّٰ ہ نے
ا ُسے ایک اور بیٹا دیا۔ اپن ے بڑے بیٹے کی پیدائش پے ا ُس کی بہت
خواہش تھی کہ اپنے ُم رشد پاک سے پوچھ کر اپنے بیٹے کا نام رکھے
لیکن وہ ُم رشد کے سامنے زبان نہ کھول سکا۔ ا ِس بیٹے کی پیدائش
پے ا ُس نے سوچا کہ نام پوچھنے کی مجال تو ہو گی نہیں میری ,اس
لیے خود ہی نام رکھ دیتا ہوں۔ لیکن اس بار ا ُس کی خواہش پوری ہوئی
اور ا ُس ک ے مرشد کی بارگاہ سے اس کے بیٹے 'باہو' کا نام مال ۔
دونوں میاں بیوی اکثر رات گئے تک بیٹھ کر احادیث ,یا اولیاء اللہ کی
تعلیمات پر ایک دوسرے سے بات کرتے۔ ا ُس کی بیوی اپنے والد کے
بعد ا ُسے اپنے ا ُستادوں میں شمار کرتی تھی۔ وہ اپن ے ُم رشد کے پیغام
کو عام کرنے کے لیے خود تو کچھ نہ کر سکا لیکن ا ِس کام میں اپنی
بیوی کی مدد کے لیے وہ جو کچھ کر سکتا تھا ا ُس نے کیا۔ ا ُس کی
والدہ نے بھی اپنی بہو کا ساتھ دیا۔ ایک ہی دن میں کئی جگہ جا کر
ح بِ ال ٰہ ی کا درس دینا ا ُس کی بیوی کے لیے عا م بات تھی۔خواتین کو ُ
اکثر وہ اپنی بیوی ک ے سو جانے کے بعد حسرت سے ا ُس کے پیر
دیکھت ا جو اکثر پیدل چل چل کر سوج جاتے تھے۔ اور سوچتا کہ اے
الل ّٰ ہ یہ کتنے خوش نصیب پیر ہیں جو تیری راہ میں چلتے ہیں ک اش
ایسے پیر میرے پاس بھی ہوتے۔ وہ اکثر اپنی بیوی سے کہتا کہ
" کاش میں بھی تمھاری طرح ُم رشد پاک کا پیغام عام کر رہا ہوتا,
لیکن مجھے یہ سعادت نصیب نہیں ہو سکی ا ِس لیے میں تمھارے لیے
آ سانی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور اپنی طرف سے ا ُس پیغام
کی کوشش میں اپنا ح صّ ہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں کیوں کہ جو کام
مجھے کرنا تھا وہ کام تم کر رہی ہو ۔ "
182
''باب۔ '' 00
ایک بار ا ُس کے دادا نے ا ُس سے کہا کہ "اپنی بیوی پر نظر رکھا
کرو ,عورت ذات کو اتنی آزادی دینا ٹھیک نہیں ہے۔ تم ا ُس سے پوچھا
کرو کہ کہاں جا رہی ہے اور کب واپس آئے گی۔" تو ا ُس نے اپنے
دادا سے کہا کہ "مجھے اعتماد ہے ,اور یقین ہے کہ میرے اعت ماد کو
ٹھیس نہیں پہنچے گی" ا ُس کے دادا نے ا ُسے ٹوکتے ہوئے کہا "کسی
پے اندھا اعتماد کرنا درست نہیں ہے ,تمھیں یقینا ً اپنی بیوی پر اعتماد
ہو گا لیکن پھر بھی دھیان رکھنا چاہیے" تو ا ُس نے کہا " دادا جان,
میں نے کہا مجھے اعتماد ہے ,یہ نہیں کہا کہ مجھے اپنی بیوی پے
اعتماد ہے ,اگرچہ کہ مجھے ا ُس پر بھی اعتماد ہے ,لیکن میرے ا ِس
رویے کی بنیاد الل ّٰ ہ پر اعتماد ہے ,اپنے ُم رشد پر اور ا ُن کے پیغام پر
اعتماد ہے اور خود اپنے آپ پر اعتماد ہے۔ الل ّٰ ہ پر اعتماد کہ میں نے
ا ُس کے نام کی خاطر اپنی بیوی کو گھر سے باہر نکلنے کی اجا زت
دی ا ِس لیے وہ میری بیوی کو گ ُ مراہ نہیں ہونے دے گا اور ا ُس کی
حفاظت کرے گاُ ,م رشد پے اور ا ُن کے پیغام پر اعتماد یہ کہ ا ُن کی
تربیت اور ا ُن کی کوشش کی برکت میری بیوی کو را ہ ِ راست پر
رکھے گی۔ اور اپنے اوپر اعتماد یہ کہ میں جب گھر سے دور ہوتا
ہوں تو اپنا آپ سنبھال کے رکھتا ہوں ,جہاں کام کرتا ہوں وہاں لوگ
مجھ میں الکھ ب ُ رائی نکالیں گے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں
بدنظر ہوں۔ جب میں کسی کی بہن ,بیٹی ,بیوی کو ب ُ ری نظر سے نہیں
دیکھتا ,جو جذبات میری بیوی کی امانت ہیں ا ُن میں خیانت نہیں کرتا
تو مجھے یقین رہتا ہے کہ میری بہن ,بیٹی ,بیوی بھی محفوظ رہے
گی ,جو شخص خود خراب ہوتا ہے وہ سب پر شک کرتا ہے ,جس
طرح کسی اور کی بہن ,بیوی ,بیٹی سے ِم لتا تھا ا ُسی طرح سوچتا ہے
کہ میری بہن ,بیوی ,بیٹی کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے ,ا ِس
لیے ا ُن پر بےجا پابندی لگا کر ,شک کر کے ,اور اکثر مار پیٹ کر
کے بھی اپنے کرتوت کا پھل دیکھنے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے,
ت عمل ہے۔ جس نے کچھ غلط کرنا ہے وہ روک ٹوک لیکن دنیا مکافا ِ
کے باوجود کر جائے گا اور جس نے نہیں کرنا وہ آزاد رہ کر بھی
183
اپنی حدود کی پاسداری کرے گا۔ تو میرے خیال میں عورت پر بےجا
پ ابندی لگا کر خود پریشان رہنے اور ا ُسے پریشان کرنے کی جگہ
مرد کو اپنے اوپر پابندی لگانی چاہیے اور اپنا آپ درست رکھتے
ہوئے اپنی خواتین کی دیکھ بھال کرنی چاہیے جو شخص خود درست
ہو گا وہ کبھی بھی عورت پر بےجا پابندی نہیں لگائے گا۔ اور میری
بیوی تو الل ّٰ ہ کے نام کی خاطر گھر سے نکلی ہے ا ُس کے والد یا
بھائی وغیرہ ہمیشہ ا ُس کے ساتھ آتے جاتے ہیں اور میری ا ّم ی یا ا ُس
کی ا ّم ی بھی ہمیشہ ا ُس کے ساتھ ہوتی ہیں اس لیے فکر کی بات نہیں
ہے اطمینان رکھیے ,الل ّٰ ہ خیر کرے گا۔" ا ُس کے دادا نے کہا "کبھی
کبھی تم اتنی سمجھداری کی بات کرتے ہو کہ میں حیران رہ جاتا ہوں,
ٹھیک ہے تم جو کہہ رہے ہو مجھے سمجھ آ گیا الل ّٰ ہ تمھیں اور
تمھارے ُم رشد کو سالمت رکھے جنھوں نے تم لوگوں کو اتنی اچھی
سمجھ اور شعور دیا۔ خوش رہو ہمیشہ ,الل ّٰ ہ تم لوگوں کو ا ِس نیک
مقصد میں کامیاب کرے۔" ا ُس کے دادا نے ک ھُ لے د ل سے ا ُس کی
تعریف کی اور د ُعا دی۔
ایک دفعہ ا ُس کی بیوی نے بھی ا ُس سے شوخ سی ناراضگی سے کہا
"آپ مجھ سے کبھی نہیں پوچھتے کہ کہاں گئی تھی یا کہاں جا رہی ہو
کب آؤ گی ,آپ نے تو کبھی منع بھی نہیں کیا مجھے کہیں آنے جانے
سے ,آپ کو نہیں لگتا کہ بندے کو تھوڑا شوہر پ ن بھی دکھانا
چاہیے۔" تو ا ُس نے اپنی بیوی سے کہا "میرے خیال میں شوہر پن
بیوی پے روک ٹوک کرنا نہیں ہے۔ ویسے بھی تم خود ہمیشہ مجھے
بتا کر جاتی ہو۔ اور ال ل ّٰ ہ مجھے ایسی ذبان نہ دے ,ایسا اختیار نہ دے
جو ا ِس راہ سے کسی کو روکنے کا سبب بنے۔ ایسا شوہر پن نہیں کرن ا
میں نے ,جو میرے ُم رشد پاک کے پیغام کی ترسیل میں ُر کاوٹ بن
سکتا ہو۔ میں تمھیں اپنے تمام حقوق معاف کرتا ہوں۔ اپنے شوہر کے
لیے تمھاری جو ذمہ داریاں ہیں ا ُن میں اگر کوئی کمی واقع ہو جائے
تو میں الل ّٰ ہ کو حاضر ناظر جان کر وہ سب ذمہ داریاں تمھیں معاف
کرتا ہوں ,اور میں تمھیں ال ل ّٰ ہ کے نام کے لیے وقف کرتا ہوں۔" ا ُس
کی بیوی نے کہا "الل ّٰ ہ کے نام کے لیے تو میں بھی خود کو وقف کرنا
چاہتی ہوں لیکن انشاء الل ّٰ ہ میں اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر نہیں
بلکہ تمام ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے اس پیغام کو عام کروں گی ,یہ
184
میرے ا کیلے کی محنت نہیں ہے آپ سب ا ِس میں میرے ساتھ ہیں۔
انشاء الل ّٰ ہ یہ پیغام گھر گھر پہنچے گا۔ "
وہ جسمانی طور پر دن بہ دن ڈھلتا جا رہا تھا اور اپنی گھریلو ذمہ
چ کا تھا۔ جو شخص اپنے ُم رشد سے داریوں سے تقریبا ً الگ تھلگ ہو ُ
کبھی ہر ماہ ملنے جایا کرتا تھا اب وہ مہی نوں ا ُن سے مالقات نہ کر
پاتا۔ ایک الگ دنیا تھی ا ُس کی جس میں کسی کو آنے جانے کی
اجازت نہیں تھی۔ ا ُس نے اپنے آپ کو بہال لیا تھا کہ الل ّٰ ہ کی راہ میں
لوگوں کے لیے وہ بس اتنا ہی کر سکتا تھا ,اکثر اپنے آپ کو مالمت
کرتے ہوئے وہ خود سے کہتا "تم کیا سمجھتے ہو خود کو ,اپنی
گزشتہ زندگی دیکھو اور اپنی اوقات یاد کرو ,شکر کرو کہ کسی الل ّٰ ہ
والے کا سایہ نصیب ہو گیا ,تم کیوں اولیاء کے سلسلوں کو بدنام کرنا
چاہتے ہو ,تم ا ِس الئق نہیں ہو کہ صوفیا کی بات کر سکو ,یہ تمھارا
کام نہیں ہے اور شاید تمھاری معزوری بھی اسی وجہ سے ہے تاکہ تم
ایسے حلقوں سے دور رہ سکو جہاں الل ّٰ ہ کا ذکر ہو رہا ہو۔ اور
دھیرے دھیرے ا ُس نے اپنے دل کو ا ِس سوچ پر راضی کر لیا کہ میرا
کام یہیں تک تھا۔ میں لوگوں کے لیے ایک صُ بح ِ روشن کا طالب تھا
تو میرے ُم رشد پاک اور ا ُن کی جماعت دن رات ا ُسی کوشش میں
مصروف ہیں۔ مجھے لوگوں کی بہت فکر رہتی تھی نا ,شاید اسی لیے
الل ّٰ ہ نے مجھے ا ُن لوگوں سے ِم لوا دیا جو لوگوں کی بہتری کے لیے
کچھ کر رہے ہیں اور مجھے یہ بھی بتا دیا کہ لوگوں کے لیے کچھ کر
جانے والے لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ افسوس کے میں ا ُن جیسا بھی نہ بن
سکا ,اور ضروری تو نہیں کہ ہر وہ شخص جو ال ل ّٰ ہ کی طلب رکھتا ہو
ا ُسے ا ِس طلب کو عام کرنے کا بھی شرف حاصل ہو۔ تجھے ال ل ّٰ ہ کی
تالش تھی تو الل ّٰ ہ مل گیا تجھے بس تیرا کام یہیں تک تھا ,لوگوں تک
پیغام پہنچانا تیرے بس کا کام نہیں ہے۔ ا ِن خیاالت نے ا ُسے ہر چیز
سے دور کر دیا گھنٹوں اکیلے بیٹھے رہنا ا ُس کا معمول بن گیا تھا
اور طبیعت میں ایک عجیب سا ِچ ڑچڑا پن پیدا ہو گیا جس کی وجہ
سے وہ اندر ہی اندر گ ھُ لتا جا رہا تھا۔ اس نے زندگی سے بیزار ہو کر
اپنا مزاج مزید بگاڑ لیا اور پھر وہ ا ِس قدر بگاڑ کا شکار ہوا کہ اس
کی بد مزاجی سے تنگ آ کر ا ُس کی ب یوی نے ا ُس سے علیحدگی
اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ لیکن اپنے شوہر کو بتائے بغیر جب وہ
185
اپنے والد کے ساتھ ا ُن کے گھر سے جانے کو تیار ہوئی تو گھر سے
نکلتے ہوئے ا ُس نے اپنے والد سے کہا "ابو میں کسے چھوڑ کر جا
رہی ہوں ,ا ِس شخص سے میرا ایک رشتہ میرے ُم رشد کے توس ط سے
بھی تو ہے ,میں ا ُنہیں ا ِس حال میں نہیں چھوڑ سکتی ,وہ اتنے کمز ور
نہیں ہیں کہ اتنی چھوٹی سی بات سے ہار جائیں ,میں پھر سے کوشش
کروں گی انہیں واپس النے کی ,لیکن ا ِس بار میں اپنا شوہر جان کر
نہیں بلکہ اپنے ُم رشد پاک کا ُم رید سمجھ کر انہیں واپس النے کی
کوش ش کروں گی۔ ُم رشد کی ذات نے ا ُس کی بیوی کے دل میں ایسا
خیال ڈال کر اسے اپنا ارادہ تبدیل کرنے پر مائل کیا جس کے باعث
اس کا گھر ٹوٹنے سے محفوظ رہا اور ا ُسے پتہ بھی نہ چال کہ ا ُس
کے ساتھ کیا ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔
186
''باب۔ '' 00
ح بِ ال ٰہ ی سے متعلق سوال ا ُس کی بیوی نے پہلے کی طرح ا ُس سے ُ
کرنا شروع کیے تاکہ ا ُسے یاد دالیا جا سکے کہ وہ کون ہے۔ دونوں
میاں بیوی کے بیچ سوال و جواب کا یہ سلسلہ جو کئی سالوں سے
منقطع تھا ایک بار پھر شروع ہوا تو ا ُس پر ا ِس سب کا کافی اچھا اثر
پڑنا شروع ہوا۔ ا ِس دوران ایک روز ا ُس کی بیوی نے ا ُس سے کہا
"آج آپ مجھے شیطان کے بارے میں سمجھائیں ,کیا ہے شیطان ,اور
کیسے لوگوں کے ذہن پر قابض ہوتا ہے۔" تو ا ُس نے مسکرا کر کہا
"لوگ تم سے الل ّٰ ہ کے بارے میں پوچھتے ہیں اور تم مجھ سے شیطان
کے بارے میں پوچھ رہی ہو۔؟ تم خود بہتر جانتی ہو ,مجھ سے کیا
پوچھ رہی ہو۔؟" ا ُس کی بیوی نے کہا "مجھے نہیں پتہ کہ میں کیا
جانتی ہوں اور کیا نہیں لیکن میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کیا جانتے
ہیں۔ "
ا ُس نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے بات شروع کرتے ہوئے کہا
"ابلیس وہ جن ہے جسے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ درجات کی ب ُ لندی
کے باعث وہ فرشتوں کا سردار بن بیٹھا ,کسی بھی مخلوق کے درجات
تب ب ُ لند ہوتے ہیں جب الل ّٰ ہ ا ُس پے نظر کرتا ہے۔ جب الل ّٰ ہ نے ابلیس
کو مردود کیا تو الل ّٰ ہ نے ا ُس سے نظر پھیر لی۔ اور الل ّٰ ہ جس سے نظر
پھیر لے وہ شئے فنا ہو جاتی ہے لیکن ابلیس کو الل ّٰ ہ نے قیامت تک
ج ڑ گئی۔ ا ُس کی کی زندگی دی۔ اب ابلیس کی بقا انسان کی نظر سے ُ
کوشش ہوتی ہے کہ انسان کی نظروں کے سامنے رہ سکے ,دنیا کی
ہر شئے شیطان کے کام کی چیز ہے کیونکہ ا ِن تمام چیزوں کے
ذریعے وہ لوگوں کی نظر میں آ سکتا ہے۔" ا ُس کی بیوی نے ا ُسے
ٹوکتے ہوئے کہا "لیکن زمین پر موجود ہر چیز کیسے ا ُس کے کام کی
ہو سکتی ہے۔؟" تو ا ُس نے مسکرا کر کہا "اب یہ سوال پوچھ ہی لیا
ہے تو خاموشی سے س ُ نو جواب طویل ہے۔ شیطان جب مردود ہوا تو
کہتے ہیں کہ ہزاروں سال تک وہ الل ّٰ ہ سے مانگتا رہا تھا اور ا ُس نے
جو جو مانگا الل ّٰ ہ نے ا ُسے سب دیا۔ یہ با ت س ُ ن کر میں نے سوچا کہ
کاش مجھے ایسا مجھے موقع ملتا تو میں ال ل ّٰ ہ سے ال ل ّٰ ہ کو ہی مانگ
187
لیتا ,یا کم از کم معافی ہی طلب کر لیتا ,لیکن شاید ابلیس انسان کے
خالف منصوبہ بندی میں مصروف تھا اور اپنی انا کی آگ میں جل رہا
تھا ا ِس لیے وہ معافی کا خواستگار نہیں ہو س کا۔ میں نے سوچا کہ اگر
میں ابلیس کی جگہ ہوتا تو انسان کی دشمنی میں الل ّٰ ہ سے کیا کیا
مانگتا۔ کسی کے سامنے آئے بنا ا ُس کے سامنے آنا ,ا ُس کی سوچ میں
اپنی آواز بھرنا ,اور انسان سے ا ُس کا ن ُ ور چھین کر خود کو طاقتور
بنانے کا فن ,شاید میں ایسی ہی چیزیں مانگتا ,ا ور جب جن ہونے سے
لے کر فرشتوں کا سردار ہونے تک کا سفر کیا ہوتا تو راہ میں جو
کچھ بھی میں نے دیکھا ہوتا ہر شئے کو انسان کے خالف استمعال میں
النے پر دسترس مانگتا۔ تاکہ میں انسان کو تقسیم کر سکوں۔ لوگوں کو
ایک دوسرے کے خالف کر سکوں اور ایک دوسرے کے خالف
سوچنے میں ا ِس قدر محو کر سکوں کہ وہ اپنا آپ سوچنا بھول جائیں۔
انسانوں کو تقسیم کرنے کا کام ابلیس نے انہی طاقتوں کے بل بوتے
پے کیا ہے۔ یاد کرو کہ زمین پے ہونے والے پہلے قتل کی وجہ انسان
کی اپنی خواہش تھی۔ سوچو کہ ا ُس وقت میں جب انسان گناہ کے وجود
سے ہی ناآشنا تھ ا ا ُس وقت ا ُس نے کس طرح گناہ کا ارادہ اور ترغیب
حاصل کی۔؟ یقینا ً یہ ا ُس کا نفس تھا جو شیطان کا پیروکار تھا اسی
لیے ا ُس نے قابیل کو الل ّٰ ہ کی نافرمانی کی راہ پر ڈال کر ا ُسے ابلیس
کے مشابہ کر دیا۔ ابلیس کا کام انسان کو ا ُس کے مقام سے ِگ ر جانے
کے خیال میں ُم ب تال کرنا ہے ,اب ت ُو نے فالں کام کر لیا تو ت ُو اپنے
رب سے دور گیا ,اب نیکی کرنے کا کیا فائدہ۔؟ ا ِس طرح کے بہت
سے خیاالت انسان کی سوچ میں گھر کیے رہتے ہیں۔ انسان چار
عناصر کا مرکب ہے آگ ,ہوا ,مٹی اور پانی۔ اصل میں مٹی ایسی چیز
ہے جس میں یہ تینوں چیزیں اکھٹی ہوتی ہیں۔ شیطان آگ ہے اور
انسان نور ہے۔ نور کی ظاہری صورت پانی ہے۔ اسی لیے سائنس پانی
کو زندگی کی بنیاد تسلیم کرتی ہے۔ انسان کے ظاہر ہونے سے پہلے
تمام مخلوق اپنے اپنے درجے پر موجود تھی آگ آگ تھی اور پانی
پانی تھا مگر جب انسان کا جسم تخلیق ہو رہا تھا تو فرش توں نے کہا
کہ یہ زمین میں فساد برپا کرے گا۔ شاید انہوں نے آگ اور پانی ایک
جسم میں یکجا ہوتے دیکھ کر یہ سوچا ہو گا کہ یہ فساد برپا کرے گا۔
188
گندم کا دانہ بھی انہی چار عناصر کا مرکب تھا اسی لیے ا ُس پیڑ سے
دور رہنے کا حکم ہوا۔
شیطان لوگوں کے خیاالت سے کھیلتا ہے ۔ ہر چیز کچھ نہ کچھ کہتی
ہے۔ دنیا کا مال اسباب دیکھ کر ہر شخص کے دل میں ا ُسے حاصل
کرنے کی چاہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ اس تمام اسباب سے آتی ہوئی آواز ہے
جسے ہم اپنے نفس کے کانوں سے س ُ نتے ہیں ,آئس کریم دیکھ کر آئس
کریم کھانے کا جی کرتا ہے ,گاڑی ,مکان ,دکان ,عورت وغ یرہ ,ہر
اچھی چیز دیکھ کر انسان کے اندر ا ُسے حاصل کرنے کی خواہش
ہوتی ہے اور ہر غم ,بیماری ,د ُکھ ,تکلیف سے انسان دور بھاگتا ہے۔
ج ڑی لذتیں انسان کو اپنی خواہش کرنے کیوں کہ دنیا اور نفس سے ُ
کی دعوت دیتی ہیں اور رنج و الم لوگوں کو خود سے دور رہنے کی
صدا دیتے ہی ں ,اونچے اونچے محل ہوں یا چھوٹے چھوٹے مکان ,سب
کچھ نہ کچھ کہتے ہیں ,انسان ایک غیر محسوس انداز میں ا ِس زبان
کو س ُ نتا ہے اور ا ُس سے متاثر بھی ہوتا ہے۔ شیطان کو ا ِن تمام
زبانوں پر عبور حاصل ہے ا ِس لیے وہ امیروں کو غریبی سے ڈرا کر
گمراہ کرتا ہے اور غریبوں کو امیری کی چاہت میں مبتال کر کے را ہِ
ح سن پے راست سے دور کرتا ہے۔ خوبصورت کو ا ُس کے خود کے ُ
مغرور ہونے کا سبق اور کم صورت کو اپنی صورت کی فکر کرنے
کا درس ,نفس کی زبانی شیطان ہی س ُ ناتا ہے۔ ا ُس نے انسانوں سے ا ُن
ح سن نظر آتا کا نور چھین چھین کر بہت کچھ بنا لیا ہے۔ آگ میں جت نا ُ
ہے یہ سب اس لیے دکھائی دیتا ہے کیونکہ ہم ا ُسے نور سے دیکھ
رہے ہوتے ہیں۔ تم مشینز کو دیکھو ,لوگوں کی رہائشگاہوں کو دیکھو
جو وقت کے ساتھ ساتھ اور ذیادہ دلکش ہوتے جا رہے ہیں۔ کیمرہ,
تصویر ,ٹیلی وژن کو دیکھو۔ کسی زمانے میں ٹی وی ایک نایاب شئے
ت ھا۔ لکڑی کے ڈبے میں ,بڑے بڑے چینل یا بٹن وغیرہ اور پھر لوگ
جیسے جیسے ا ِس کے گرویدہ ہوتے گئے ویسے ویسے یہ ڈبہ خوب
سے خوب تر ہوتا گیا۔ ہم جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو درحقیقت ہم
اپنی نظر سے ا ُسے چھو رہے ہوتے ہیں۔ سائنس بتاتی ہے کہ جب دو
چیزیں آپس میں ٹکراتی ہ یں تو دونوں اجسام کے مولیکیولز کا کچھ نہ
کچھ ح صّ ہ ادھر سے ا ُدھر ضرور منتقل ہوتا ہے۔ جیسے ہر ا ُس چیز
کو جسے ہم چ ھُ وتے ہیں ا ُس پے ہمارا فنگر پرنٹ رہ جاتا ہے۔ اب
189
سوچو کہ شیطان کو ا ِس کا کیا فائدہ ہے۔؟ تو ا ُسے یہ فائدہ ہے کہ وہ
ہمارے لمس ,ہماری سوچ اور ہماری ن ظر کے ذریعے اپنی ترقی کا
سامان کرتا ہے۔ اور ہمارے لیے بہتر سے بہتر پھندا تیار کرتا ہے۔
الل ّٰ ہ اپنی مخلوق کو رحم و کرم کی نظر سے دیکھتا ہے اور جب وہ
غضب و جالل کی نظر سے دیکھ لے تو اکثر پورے کا پورا شہر
نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ نیست و نابود ہو جانا بھی نیست و
نابود ہو جانے والوں پے الل ّٰ ہ کا رحم ہی ہے کہ ا ُس نے ا ُنہیں مزید
گمراہی سے بچا لیا۔ اچھا ,ب ُ را ,مومن ,کافر سب الل ّٰ ہ کی نظر میں
رہتے ہیں ا ِسی لیے ا ُن سب کا وجود زندہ رہتا ہے ,لیکن جسے ا ُس نے
مردود کر دیا اور ا ُس پر نگاہ کرنا چھوڑ دیا وہ انسان کی نظر کا
محتاج ہو گیا۔ اسی لیے وہ انسان کی نظروں میں آنے کے بہانے تالش
ح سن پیدا کرنے کاکرتا رہتا ہے۔ کسی سنگ تراش کو پتھر میں ُ
مشورہ دیتا ہے تو کسی کو کسی کرتب کی ترکیب بتاتا ہے ,امیر میں
اپنی امیری ظاہر کرنے کا شوق پیدا کرتا ہے اور غریب کو اپنی
مفلسی کی و جہ سے خود کو دوسروں سے کمتر سمجھنے کا خبط الحق
کرتا ہے۔ یہ سب شیطان کا کھیل ہے ,ا ُس کا کام ہے لوگوں کو الل ّٰ ہ
کے خیال سے دور رکھنا ,اور وہ لوگوں کو انہی کے خیاالت کے
مطابق شر انگیز گمانوں میں مبتال کرتا ہے۔ اور یہ سب کمال انسان
کی اپنی ہی نظر کا ہے۔ انسان جب کچھ دیکھتا ,س ُ نتا ,یا چکھتا ہے تب
ہی وہ ا ُس کی خواہش کرتا ہے اگر وہ کسی چیز کو جانتا نہ ہو تو وہ
ا ُس کی خواہش بھی نہ کرے۔ اسی لیے الل ّٰ ہ نے ہر چیز کی حد مقرر
کر دی۔ جب تک کوئی شئے ال ل ّٰ ہ کی مقرر کردہ حد میں ہے تب تک وہ
شیطان سے محفوظ ہے اور جہاں حد سے ت جاوز کیا وہاں وہ چیز
زیر اثر آ جائے گی۔ شیطان کو ہ َوا کی مانند پوری زمین ِ شیطان کے
میں ہر جگہ موجود ہونے کا اختیار حاصل ہے۔ اسی فضا میں تمام
انسانوں کا نور بھی موجود رہتا ہے جسے اپنی چالوں کے ذریعے
تقسیم کر کے ,شیطان لوگوں کی سوچ تقسیم کرتا ہے۔
ہندوستانی ,پاکستانی ,کاال ,گورا ,مسلم ,غیر مسلم ,میرا محلہ ,میری
گلی ,میرا دوست ,اور نہ جانے کس کس نام کی تقسیم کو انسانوں پر
ح بِ اہل و اعیال یا ح بِ دینُ ,
ح ب الوطنیُ ,چ کا ہے۔ ہم ُ مسلط کیا جا ُ
اپنی معاشی و معاشرتی مجبوریوں کے نام پر ,یا ا ِسے اپنا عالقائی,
190
قومی ,یا مذہ بی تشخص جان کر ا ِس تقسیم کو نبھائے چلے جا رہے
حب
ح ب آدم کے بنا نہ تو ُ
ہیں۔ اور ا ِس جانب توجہ ہی نہیں دیتے کہ ُ
ح بِ دین۔ جن قوموں کو اپنےالوطنی کام کی چیز ہے اور نہ ہی ُ
انسانی تشخص کی خبر نہیں وہ اپنے عالقائی اور قومی تشخص کے
نام پر ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے م یں مصروف ہیں۔
191
''باب۔ '' 00
" شیطان ایک سوچ کا نام ہے۔ جسے وقت میں ایک مقام دیا گیا۔ یوں
سوچو کہ تمام زمین پر ایک آگ کی چادر سی بچھی ہوئی ہو ,ا ُس آگ
کی چادر کو تم شیطان سمجھو جو ہوا کی لہروں کی مانند ہر جگہ
پھیال ہ ُوا ہے لیکن وہ نقصان تب پہنچائے گا جب انسان ا ُسے نقصان
پہنچانے کا موقع دے گا۔" ا ُس کی بیوی نے پھر سے ا ُسے ٹوکتے
ہوئے کہا "اگر شیطان اتنا پست ہے تو وہ لوگوں کے دماغ تک کیسے
پہنچ جاتا ہے۔؟" ا ُس نے مسکرا کر کہا "بتا رہا ہوں ,تم سکون سے
سنو تو سہی ,کوئی بات سمجھ نا آئے تو بعد میں پوچھ لینا ,ویسے میں
کوشش کروں گا کہ مکمل بات کر سکوں۔ الل ّٰ ہ نے اپنے محبوب صلی
الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء کی صورت ایک خاص لباس اور
انداز لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ داڑھی رکھنا ,سطر ڈھانپنا ,ا ُٹھنا
بیٹھنا ,کھانا پینا ,ان سب چیزوں کے طریقہ کار واضح کیے گئے۔ جو
رب یہ کہتا ہے کہ نہیں دیکھتا میں تمھارے چہرے کو بلکہ دیکھتا
ہوں تمھارے دل۔ ا ُسی رب نے جسم اور چہرے کے انداز بیان کیے
اور الگ الگ لباس و انداز کو پسند ناپسند فرمایا۔ضرور اس کی کوئی
خاص وجہ ہو گی۔ جب غور کیا تو سمجھ آیا کہ شیطان انسان کو اور
انسان شیطان کو دیکھ سکتا ہے۔ لیکن شیطان انسان کو تب دیکھ سکتا
ہے جب انسان شیطان کو موقع دیتا ہے۔ لباس دیکھو جیسے عرب
پہنتے ہیں جس میں تمام سطر چھپ جاتی ہے۔ لیکن انسان ایک
چ ست لباس میں دیکھنا پسند کرتا ہے۔ ا ِس کی دوسرے کو اور خود کو ُ
بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان آنکھ کے نور سے دیکھ رہا ہو تا ہے ا ِس
لیے آگ خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔ آگ اس لیے کہہ رہا ہوں کیوں
کہ ہم ظاہر میں جو کچھ بھی دیکھتے ہیں ا ُس پر آگ کا ایک غالف
موجود ہوتا ہے۔ جیسے اگر ہم سمندر کی تہہ میں جا کر اپنے ارد گرد
دیکھیں تو نظر آنے والی ہر چیز اور نظر کے بیچ پانی موجود ہو گا
ا ُس ی طرح زمین میں ہر جانب منظر اور نظر کے بیچ آگ رہتی ہے۔
یہ ہے شیطان جسے آگ سے پیدا کیا گیا اور ا ُس آگ کو زمین میں ہوا
کی مانند موجود رہنے کا اختیار دیا گیا ,اور نظر سے اپنا خیال
192
دوسرے شخص کے دماغ تک پہنچانے کا فن عطا کیا گیا۔ جیسے ا ُس
حو ا کو گندم ک ا دانہ کھانے کی ترغیب دی ,تو وہ ا ِسی نے حضرت ّ
نظر کی طاقت سے دی۔ ہم لوگ ا ُس وقت میں جی رہے ہیں جس میں
چ کا ہے۔ اور ہر اچھا ب ُ را انسان ا ِس نظام کا غ ُ الم دجال کا نظام قائم ہو ُ
ہے۔ جسے ہم 'سسٹم' کہتے ہیں۔ یہ نظام لوگوں کو اپنے حساب سے
چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ لوگ ہی ا ِس کا ح صّ ہ بنتے اور لوگ ہی
اسے چالتے بھی ہیں لیکن ا ِس کی ڈور شیطان کے ہاتھ میں ہے۔ سب
لوگ ذہنی طور پر ا ِس سسٹم کے غالم ہیں جو انھیں سوچنے کی
صالحیت سے محروم کرتا ہے اور دن رات یہی سوچ ہمارے ذہنوں
میں بھرنے کی کوشش میں محو رہتا ہے کہ تم ا ِس سسٹم کا کچھ نہیں
بگ اڑ سکتے اگر تم نے اس کے خالف جانے کی کوشش کی تو مار
دیے جاؤ گے ,اور اکثر ہوتا بھی یہی ہے۔ سسٹم کی بنیاد ڈر پر ہے۔
شیطان کی چال یہ تھی کہ لوگوں کو بے لباس جسم دکھائے جائیں اور
جب بے لباس جسم دیکھنے والی نگاہیں کسی بالباس جسم کو دیکھتی
ہیں تو ا ُس لباس میں بے لباسی تالش کرتی ہیں۔ عورت کو فور ا ً
احساس ہو جاتا ہے کہ ا ُسے کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ بے لباس
جسموں کو دیکھ دیکھ کر اپنی نظر میں شہوت بھرنے والے لوگوں کی
ہ ِو س سے بھری نظریں صرف دوسری عورتوں پر نہیں بلکہ ا ُن
لوگوں کی اپنی ماں ,بہن ,بیوی ,بیٹی پر بھی اثر ا نداز ہوتی ہیں خواہ
وہ انہیں پاک سوچ سے ہی کیوں نہ دیکھ رہے ہوں۔ یہ شہوت اور
ہ ِو س الل ّٰ ہ کی تجلیات دیکھ کر کم بھی کی جا سکتی ہے۔ جس طرح یہ
بے لباس اجسام شیطان کی تجلیات ہیں ا ُسی طرح ال ل ّٰ ہ کا نام ,ال ل ّٰ ہ
والوں کی صورت ,ال ل ّٰ ہ کی یاد دالنے والی ہر چیز ال ل ّٰ ہ کی ہی تجلی
ہے۔
ق جہان کی مسجد ,مندر ,کلیسا اور اس طرح کی سب جگہیں جو خال ِ
یاد دالئیں سب الل ّٰ ہ ہی کی تجلیات ہیں۔ جس طرح شیطان کی تجلیات
سے نظر شر آلودہ ہوتی ا ُسی طرح الل ّٰ ہ کی تجلیات سے نظر وسیع اور
پ ُ ر نور بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ ہم سوچ
ہی نہیں پاتے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جب لوگ شیطان کے
نظام کے مغلوب ہوئے تو ا ِس نظام کے تحت ا ُس نے کم لباسی اور بے
لباسی کو عام کیا۔ ہم لوگ ایسا لباس پہننا پسند کرتے ہیں جس میں
193
ہماری سطر نمایاں ہو۔ جب ہم ایسے کپڑے پہنتے ہیں جن میں ہمارا
جسم نمایاں ہو تو دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ ,ہماری شرمگاہوں
تک ,شیطان کی نظر کی بھی رسائی ہو جاتی ہے اور وہ اپنی نظر کے
ذریعے ہمارے اندر شہوت ,حرص ,ہ ِو س ,حسد ,اللچ ,بدگمانی اور
نفرت وغیرہ بھرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان شیطان کے
اشاروں پر چلنے پے مجبور ہو جاتا ہے۔
آگ اور نور کی ایک ترتیب ہے۔ زمین پر ہر چیز میں آگ اور نور
ایک خاص تناسب سے موجود ہے۔ جیسے پھل ,سبزی وغیرہ ا ُگاتے
ہوئے دھوپ اور پانی کی ضرورت پڑتی ہے ,ہوا اور مٹی کی حاجت
ہوتی ہے ا ِن تمام چیزوں کو خاص تناسب سے اکھٹا کر کے کوئی بھی
پھل سبزی وغیرہ تیار ہوتا ہے اور جب انسان ا ُسے کھاتا ہے تو ا ُس
میں موجود نور انسان کے جسم میں گ ھُ ل جاتا ہے اور آگ ا ُس کے
جسم کے مختلف راستوں سے باہر نکل جاتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو
درست ہو گا کہ کھانے پینے کی اشیاء کا باطنی ح صّ ہ انسان کے باطن
میں مل جاتا ہے اور ا ُس کا ظاہری ح صّ ہ ا ُس کے جسم سے باہر آ
جاتا ہے۔ کھانا پکاتے ہوئے بھی ہم آگ اور پانی کا استمعال کرتے
ہیں۔
ایک چیز پر غور کرنا کہ اکثر چیزوں میں ل ذ ّ ت پیدا کرنے کے لیے
ا ُسے مختلف مصالحہ جات میں زیادہ سے زیادہ پکایا جاتا ہے۔ خاص
کر ہمارے برصغیر میں کھانے کی ل ذ ّ ت کی خاطر اکثر ا ُس کی غذائیت
ہی مار دی جاتی ہے۔ ہم کھانے پکاتے ہوئے درحقیقت ا ُس میں موجود
نور کو جال کر ا ُس میں آگ بھر رہے ہوتے ہیں اسی وجہ سے انبیاء,
اولیاء ,صالحین نے سادہ غذا پسند کی کیونکہ لذیذ کھانے انسان کے
نفس کو لذتوں کا عادی بناتے اور شہوت پر ا ُبھارتے ہیں ,اکثر لوگ
شک ایت کرتے ہیں کہ ہم اپنی نفسانی خواہشات سے ہار جاتے ہیں ا ِس
کی بھی بنیادی وجہ ہمارا کھانا پینا ہی ہوتا ہے۔ لیکن ا ِس کھانے پینے
میں وہ سب بھی شامل ہوتا ہے جو ہم دیکھتے اور س ُ نتے ہیں۔ طرح
طرح کی خوارک ہم اپنے جسم و روح میں ا ُتارتے رہتے ہیں جو
ہماری گمراہیوں ا ور کوتاہیوں کا باعث بنتی ہے۔ اکثر تم نے س ُ نا ہو
گا کہ کسی کو کوئی بات سمجھ نہ آئے تو لوگ کہتے ہیں کہ بات ا ُس
194
کے اوپر سے گ ُ زر گئی۔ یعنی بات ا ُسے سمجھ نہیں آئی لیکن ا ِس بات
کی گہرائی یہ ہے کہ ہمارے س َ ر سے اوپر ایک نور کا سمندر موجود
ہے جس میں ہم اپنے جسم سے نہیں بلکہ اپنی عقل ,اپنی سوچ اور
اپنے گ ُ مان کے مطابق سفر کرتے ہیں۔ یوں سوچو کہ آسمان سے لے
کر ہمارے دل تک نور کی ایک لہر موجود ہے اس لہر کا کچھ ح صّ ہ
ہمارے س َ ر سے لے کر سینے تک موجود ہے اور باقی ہمارے سَ ر
سے اوپر آسمان تک موجود ہے۔ انسان کے درجات ,ا ُس کی س وچ ,ا ُس
کا فہم ,سب اسی لہر میں بلند ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص ہم سے
کوئی ایسی بات کرتا ہے جو ہمارے فہم سے ب ُ لند ہوتی ہے تو وہ بات
اسی نور میں محفوظ ہو جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ انسان کا
فہم ا ُس بات تک پہنچ جاتا ہے اور وہ بات ا ُسے سمجھ آ جاتی ہے۔
بزرگوں کی محفل میں بیٹھنے کے لیے اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ
اکثر وقتی طور پر تو یہ باتیں انسان کی سمجھ میں نہیں آتیں لیکن یہ
باتیں ا ُس کے نور میں ,جسے ہم لوگ الشعور کا نام بھی دیتے ہیں,
محفوظ ہو جاتیں ہیں اور انسان کی سوچ کو ب ُ لند کرنے میں مدد دیتی
ہیں۔ یہ نور ہمیں دکھائی نہیں دیتا لیکن شیطان ا ِس نور کو دیکھ سکتا
ہے اور ا ِس میں اپنے خیاالت باآسانی شامل کر سکتا ہے۔ ا ِس مقصد
کے لیے ضروری تھا کہ شیطان اتنا ب ُ لند ہو سکے کہ انسان کے قد
سے ذیادہ بڑے قد کا مالک بن سکے۔ جس طرح نوری اشیاء نور کی
عالمت ہیں ا ُسی طرح ناری اشیاء آگ کی آماجگاہ ہیں۔ ب ُ لند و باال
عمارتیں بھی ا ِس کام میں شیطان کی مدد کرتی ہیں۔ زمین کے اوپر
موجود چیزوں میں نورانیت ذیادہ ہوتی ہے اور زمین کے نیچے
موجود چیزوں میں آگ ذیادہ ہوتی ہے۔ جب ہم کوئی عمارت تعمیر
کرتے ہیں تو اگر کوئی کم ب ُ لند عمارت ہے تو محض مٹی او ر لکڑی
کے استمعال سے تعمیر ممکن ہے لیکن ذیادہ ب ُ لند عمارت بنانا مضبوط
دھاتوں کو استمعال میں الئے بغیر ممکن نہیں۔ ہر چیز کا کچھ نہ کچھ
مصرف ہے زمین پر موجود ہر چیز کسی نہ کسی طرح انسان کے حق
میں یا مخالف کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کر رہی ہوتی ہے۔ جب ہم
آگ سے بنی چیزوں کو اپنے ارد گرد جگہ دیتے ہیں تو یہ سب چیزیں
شیطان کو ہمارے قریب ہونے اور قد میں ہم سے بلند ہونے میں مدد
کرتی ہیں۔ جس کے ذریعے وہ بلند سے بلند مقام سے ہمارے ذہن پے
195
حملہ آور ہو سکتا ہے۔" ا ُس کی بیوی نے کہا "لیکن کیسے ,آخر
شیطان اتنا طاقتور کیسے ہو جاتا ہے۔؟" ا ُس نے کہا "تمھیں پتا ہے
شیطان کا قد کتنا ہے۔؟" ا ُس کس بیوی نے نفی میں سر ہالیا تو ا ُس نے
کہا "شیطان جس کا اصل قد ہمارے پاؤں کے انگوٹھے سے ذیادہ ب ُ لند
نہیں ہے آج وہ ہم سے اتنا ب ُ لند بنا بیٹھا ہے جتنی ب ُ لندی پر آج یہ
سیٹالئٹس گھوم رہی ہیں۔ اتنی ب ُ لندی سے جب وہ کسی کے دماغ میں
کوئی خیال ڈالتا ہے تو انسان کسی کٹھ پ ُ تلی کی طرح ا ُس کا کہا مانتا
ہے۔" ا ُس کی بیوی نے ا ُلجھے ہوئے لہجے میں کہا "یہ کیسے ہو
سکتا ہے کہ شیطان ا ِس طرح ہم سب کے دماغ پے اثر انداز ہوتا ہو,
اور الل ّٰ ہ نے کیوں دی ا ُسے اتنی طاقت ,ا ور اگر ایسا ہے تو ہم ا ُس
سے کیسے بچ سکتے ہیں۔؟ "
ا ُس نے مسکرا کر کہا "تمھیں معلوم ہے نا کہ ہمارے ارد گرد ہر
طرف الگ الگ طرح کی لہریں موجود ہیں۔؟ ریڈیو ,ٹی وی ,موبائل
فون ,اور نہ جانے کون کون سی لہروں کے جال نے ہمیں ہر طرف
سے گھیر رکھا ہے ,ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے آس پاس ان لہروں کے
ساتھ کتنے قسم کے الفاظ اور تصاویر گھوم پھر رہے ہیں اور وہ الفاظ
اور تصاویر ہماری سوچ پر کیا اثر ڈال رہے ہیں۔ شیطان انہی لہروں
کے ساتھ شب و روز ہمیں اندر ہی اندر کھوکھال کرتا جا رہا ہے۔ جب
مجھے شیطان کی ا ِن سب طاقتوں کا علم ہوا تو میرے دل نے مجھ
سے سوال کیا کہ کیا تجھے شیطان سے ڈر نہیں لگ رہا تو میں نے
دل سے کہا کہ نہیں بلکہ یہ سب س ُ ن کر میں خود کو اور ذیادہ طاقتور
محسوس کر رہا ہوں کیونکہ وہ شیطان ہے مردود ہے اور انسان
اشرف المخلوقات ہے۔ تو یقینا ً انسان ا ُس سے کہیں ذیادہ طاقتور ہو گ ا۔
شیطان کی طاقت دیکھتے ہوئے انسان کو ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ اپنی
طاقت کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کہتے ہیں کہ کسی کی
طاقت کا اندازہ کرنا ہو تو ا ُس کے دشمن کو دیکھ لو۔ جتنا کوئی
شخص طاقتور ہو گا ا ُتنا ہی بڑا ا ُس کا دشمن بھی ہو گا۔ ویسے تو
معیار
ِ شیطان سبھی انسان وں کا دشمن ہے لیکن سب لوگ ا ُس کے
دشمنی تک نہیں پہنچ پاتے۔ کیونکہ عام طور پر لوگ خود ہی اپنے
دشمن بنے ہوتے ہیں۔ ا ِس لیے شیطان کے اصل دشمن وہ ہوتے ہیں جو
ا ُس کے بنائے پھندوں سے نکل جاتے ہیں۔ "
196
''باب۔ '' 00
ا ُس کی بیوی نے پریشان سے لہجے میں سوال کیا " لیکن اس قدر
طاقتور دشمن سے کوئی کیسے بچ سکتا ہے۔؟ کیا مکمل پردہ کر کے,
حجاب پہن کر شیطان سے بچا جا سکتا ہے۔؟ لیکن وہ تو اتنی ب ُ لندی
پے بیٹھا ہم سب کی سوچ سے کھیل رہا ہے ,ہم کیسے اپنا دفاع کر
سکتے ہیں۔؟ کیا ا ِن اونچی اونچی عمارتوں کو گرا دیا جائے ,کیا ا ِن
س یٹالئٹس کو تباہ کر دیا جائے ,کیا ریڈیو ,ٹی وی ,موبائل فون وغیرہ
کو ختم کیے بغیر ہم شیطان سے چ ھُ ٹکارا حاصل نہیں کر سکتے۔؟" تو
ا ُس نے کہا "کر سکتے ہیں۔ ہم ,شیطان سے اور ا ُس کے نظام سے,
کہیں ذیادہ طاقتور ہیں۔ شیطان نے خود ایک بات کہی تھی کہ اے الل ّٰ ہ
تیرے مخل ص بندوں کا میں کچھ نہیں بگاڑ سکوں گا۔ مانا کہ وہ ہمیں
چ کا ہے اور ہم مجبور ہیں ا ِس بے حجابی کو اپنانے پر۔ بے حجاب کر ُ
کیونکہ ا ِس سسٹم کی غالمی کیے بغیر ہمارا جینا مشکل ہو جائے گا۔
چ کے ہیں ,لیکن ا ِن سب چیزوں کو تباہ نہیں مانا کہ ہم لوگ بہت دور آ ُ
کرنا بلکہ ش یطان کے ہتھیار ,ا ُسی کے خالف استمعال کرنے ہیں۔
ہمارے ارد گرد یہ جتنی لہریں ہیں یہ سب ہمارے ہی نور کے درجات
ہیں جن میں جگہ جگہ اب شیطان کا بسیرہ ہے۔ اگر ہم اپنا آپ جان
جائیں تو انہی لہروں کو اپنے حق میں بھی استمعال کر سکتے ہیں۔
لیکن اپنا آپ جاننے کے لیے ا ِس وقت میں سب سے پہلے تقسیم سے
نجات حاصل کرنی ہو گی۔ زمین پر کھنچی لکیروں کی بنیاد پر ہم سب
نے اپنے اپنے ِد ل میں جتنی لکیریں کھینچی ہیں سب کو ِم ٹا کر ایک
انسان بن کر سوچنا ہو گا۔ شیطان ہمیں بہکانے میں شیعہ ,س ُ نی ,ہندو,
مسلم نہیں دیکھتا۔ ا ُس کے لیے ہم سب انسا ن ہیں۔ ایک دوسرے کے
لیے یا الل ّٰ ہ کے لیے نہیں تو دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے ہی ہم
ایک بار اکھٹے ہو جائیں۔ ا ِس بار کسی ایک ُم لک یا قوم کے نام پر
نہیں بلکہ انسانیت کے نام پر ایک ہونے کی ضرورت ہے ہمیں۔
یہ سچ ہے کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شیطان ا ُسے اپنے گھ یرے
میں لینا شروع کر دیتا ہے۔ اور انسان اپنے دشمن کو پہچان ہی نہیں
197
پاتا اور ا ُس کے بنائے گڑھوں میں ہی اپنی پوری زندگی گ ُ زار کر
گمراہی کی موت مر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان سے بچنے کے
لیے الل ّٰ ہ کے ساتھ خالص ہونا ضروری ہے۔ جو الل ّٰ ہ کے ساتھ خالص
ہو گیا وہ کچھ بھی کرتا پھرے ,بے لباس ہو ,بے حجاب ہو ,بے شرعا
ہو , ,اگر ا ُس کے اعمال سے حقوق العباد متاثر نہیں ہوتے تو ا ِس کا
مطلب ہے کہ ا ِن تمام تر ب ُ رائیوں کے باوجود شیطان ا ُس کا کچھ نہیں
بگاڑ سکا اور ایک شخص نمازی ہو ,اپنے لباس کا خیال رکھتا ہو,
اپنی نظر کی حفاظت کرتا ہو ,با اخالق ہو ,لوگوں کے حقوق بھی
پورے کرنے کی کوشش کرتا ہو اور گناہوں سے بھی دور رہتا ہو
لیکن اگر وہ الل ّٰ ہ کے ساتھ خالص نہ ہو تو سب اعما ِل صالحا کرنے
کے باوجود وہ گمراہ ہی ہے۔ ا ِس کا مطلب یہ کہ باقی رہ جانے واال,
قائم رہ جانے واال اور سچا عمل ,الل ّٰ ہ کے ساتھ خالص ہونا ہی ہے اس
کے عالوہ ہر عمل فانی ہے۔ جس کاغذ پر الل ّٰ ہ کا نام لکھ دیا جائے ا ُس
کی قدر و منزلت بدل جاتی ہے۔ ا ُسی طرح زندگی کا جو پل الل ّٰ ہ کے
لیے گ ُ زرا وہی پل زندگی ہے۔ تو جو شخص الل ّٰ ہ کے لیے جینا شروع
کرتا ہے ا ُس کا ہر کام عبادت ہے ,الل ّٰ ہ کے ق ُ رب کا سفر ہے۔ اور جو
الل ّٰ ہ کے سوا کسی اور مقصد کو اپنی ذندگی کا محور بناتا ہے ا ُس کی
عبادت و ریاضت بھی گمراہی ہی ہے۔" ا ُس کی بیوی نے حیرت سے
پوچھا "کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ الل ّٰ ہ کے ساتھ خالص ہو جانے کہ
بعد گناہ بے اثر ہو جاتا ہے۔؟ وہ گناہ بھی ک رے تو وہ الل ّٰ ہ کے ق ُ رب
میں ہوتا ہے اور گناہ ا ُسے الل ّٰ ہ سے دور نہیں کرتا۔؟" ا ُس نے مسکرا
کر کہا "ہاں میں یہی کہہ رہا ہوں۔ جو ال ل ّٰ ہ کے ساتھ خالص ہو جاتا ہے
ا ُس کا غلط بھی صحیح ہوتا ہے۔ کیونکہ ا ُس کا صحیح اور غلط دونوں
الل ّٰ ہ کے لیے ہوتا ہے ا ِس لیے وہ ہر ط رح سے صحیح ہوتا ہے۔
اگرچے کہ لوگ ا ُسے غلط سمجھتے ہوں۔
جیسے ایک بار بابا فرید رح نے رمضان کے مہینے میں عصر کے
وقت ایک مہمان ہندو کا دل رکھنے کی غرض سے ا ُس کا الیا ہوا
شربت پی لیا تو ُم ریدین نے ایک ہندو کی فرمائش پر روزہ توڑ دینے
پر سخت تنقید کی مگر دوسرے دن سب تنقید کرنے والے شرمندہ ہو
گئے جب آپ رح کی ا ِس ادا پر ا ُس شخص کا تمام عالقہ مسلمان ہونے
کے لیے آپ رح کے پاس آ گیا اور کہا کہ کتنا عظیم الشان مذہب ہے
198
آپ کا ,جس کے ماننے والے اپنا روزہ توڑنا تو گوارہ کر لیتے ہیں
لیکن کسی کا دل نہیں توڑتے۔ یہ ا ِسی بات کی م ثال ہے کہ جو الل ّٰ ہ
کے ساتھ خالص ہو جاتا ہے ا ُس کا غلط بھی صحیح ہو جاتا ہے۔ ایسی
اور بہت سی مثالیں موجود ہیں جو ا ِس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ
گناہ یا ثواب کا فیصلہ عمل کرنے والے کے دل کے حال پے ہوتا ہے۔
قتل کرنے کا حکم ایک جج بھی دیتا ہے اور ایک دہشتگردوں کا لیڈر
بھی ,لیکن دونوں کے حکم میں صحیح اور غلط کا فرق ا ُن کی جگہ
سے ناپا جاتا ہے نہ کہ ا ُن کے فیصلے سے۔ جب ہم شیطان کا قد سوچ
کر گھبراتے ہیں تو ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر ا ُس کا قد
سیٹالئٹس تک ہے تو ہمارا قد تو الہوت تک ہے اگر ہم اپنی روح کے
اصل قد س ے آشنا ہو جائیں تو شیطان ہم سے گھبرانا شروع ہو جائے
گا۔شیطان کا یہ کھیل تماشہ انسان کو ا ُس کے اصل کی جانب لوٹنے
سے روکنے کی سازش ہے اور یہ سازش ا ُسی وقت تک کارگر ہے
جب تک کہ انسان اپنی پہچان سے دور ہے۔ جس انسان کو اپنی پہچان
حاصل ہو جائے شیطان ا ُس کا کچھ ن ہیں بگاڑ سکتا۔ جوش ملیح آبادی
کی ایک رباعی ہے کہ
200
''باب۔ '' 01
اتنا کہہ کر ا ُس نے اپنی بات پے واپس آتے ہوئے کہا "ایک دفعہ میں
نے سوچا کہ شیطان ہمارے ارد گرد موجود ہے تو ہم ا ُسے اور وہ
ہمیں ضرور چ ھُ وتا ہو گا لیکن ا ِس بات کی عقلی دلیل کیا ہے۔؟ ا ِس
بات کو کس طرح ثابت کیا جا سکتا ہے کہ آگ ہمیں یا ہم آگ کو
چ ھُ وتے ہیں۔؟ کوئی ظاہری روپ ,کوئی ظاہری اثر ایسا ضرور ہو گا
جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو گی۔ جب ا ِس سوال میں ا ُلجھ گیا تو
س ُ لطان محمد علی صاحب سے یہی سوال دل زبانی پوچھا تو جواب
میں ایک اور سوال ِم ال" ,تم نے ناخن تراشے کہ نہیں۔؟" میں نے کہا
"جی دو تین دن پہلے ہی تراشے تھے ,آپ حکم کریں تو دوبارہ تراش
لیتا ہوں۔ لیکن ا ِس بات کا کوئی جواب نہ ِم ال۔ تو میں نے سوچا کہ
شاید میرے ناخن میں کوئی ایسی ناپاکی موجود ہے جس کے باعث
ُم رشد پاک نے مجھے میرے سوال کا جواب دینے کی جگہ مجھے
ناخن تراشنے کو کہا ہے لیکن ناخن تو بہت چھوٹے ہیں میرے ,اور
صاف بھی ہیں۔ خیر میں نے انہیں پھر سے تراشنے کا ارادہ کیا ,مگر
جب ارادہ کیا تو ایک سوچ آئ ی کہ ُم رشد پاک نے ناخن تراشنے کی
بات کہی ,کہیں یہی میرے سوال کا جواب تو نہیں۔؟ جب غور کیا تو
پتا چال کہ آگ ہمارے جسم کو چند مقامات سے قدرتی طور پر چ ھُ وتی
ہے اور ان مقامات پر آگ کا کچھ ح صّ ہ رہ جاتا ہے اسی لیے ناخن
اور جسم کے کچھ ح صّ وں کے بال تراشنے کو کہا ج اتا ہے۔ جسم کے
ا ِن خاص ح صّ وں کے عالوہ بھی شیطان ہمارے پورے جسم کو شہوت
کا نمونہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ چہرہ ,بال ,سینہ ,کمر ,ٹانگیں ہر
چیز کو آگ کے لحاظ سے ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ عورت اور
مرد کی خوبصورتی کا ایک معیار صبح شام ہمارے سامنے پیش کیا
جاتا ہے او ر ہم سب ا ُس معیار پر پورا ا ُترنے کی کوشش میں مصروف
رہتے ہیں۔ مرد چاہے کتنا ہی کم صورت ہو لیکن خوبصورت بیوی کا
خواہشمند رہتا ہے۔ یہ خواہش ایک حد تک جائز ہے لیکن ا ُس سے
آگے یہ خواہش فتنہ فساد کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔اکثر لوگ دل سے
بہت حسین ہوتے ہیں لیکن شیطان نے جو پیمانے لوگوں کی آنکھوں
201
میں گھول رکھے ہیں ا ُن کے باعث ہم ا ُن لوگوں کی خوبصورتی دیکھ
ہی نہیں پاتے۔
میں جب 6ویں کالس میں تھا تو اردو کی کتاب میں عالمہ اقبال رح
کی نظم شکوہ ,جوا بِ شکوہ پڑھنے کا موقعہ مال۔ اردو کے ٹیچر کو
نہ جانے مجھ میں ایسا کیا نظر آیا کہ انہوں نے مجھے 'شکوہ' یاد
کرنے اور صبح اسمبلی میں سارے اسکول کے بچوں کے سامنے
پڑھنے کے لیے کہا اور مجھے ایک شعر کی بھی سمجھ نہیں تھی,
بہت مشکل سے میں نے وہ الفاظ یاد کیے تھے اور تھر تھر کانپتے
ہوئے پورے اسکول کے سامنے اتنا ب ُ را پڑھا تھا کہ کئی دن لڑکے
م جھے جہاں دیکھتے تو کہتے کہ "ہمیں تم سے یہ شکوہ ہے کہ تم نے
'شکوہ' بہت ب ُ را پڑھا۔" لیکن وقت کے ساتھ ا ُس کی سمجھ بھی ِم ل
گئی۔ اپنے کالم 'شکوہ' میں ایک جگہ اقبال رح فرماتے ہیں کہ
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر ..
کہیں مسجود تھے پتھر ,کہیں معبود شجر ..
پیکر محسوس تھی انساں کی نظر .. ِ وگر
خ ِ ُ
مانتا پھر کوئی اندیکھے ُ
خ دا کو کیونکر ..
ا ُس کی بیوی نے کہا "بس ایک مصرعہ سمجھ نہیں آیا" تو ا ُس نے
ایک بھر پور مسکراہٹ سے کہا "جو مصرعہ سمجھ نہیں آیا ا ُسی کو
خ وگر" مطلب سمجھانے کے لیے اتنی ساری تمہید باندھی ہے۔ " ُ
"پیکر محسوس" مطلب ایسا پیکر جسے محسوس کیا جا ِ طلبگا ر۔
سکے۔ اقبال رح یہاں یہ بات کہ رہے ہیں کہ لوگ خدا کے نام پر کسی
ایسے سراپے کا اقرار کرتے تھے کہ جسے وہ دیکھ سکتے۔ تو اقبال
اپنا شکوہ بیان کرتے ہوئے اسالم سے پہلے کا منظر بتاتے ہیں کہ
خ داؤں کی پرستش میں محو تھا مسلمانوں سے پہلے انسان ایس ے ُ
جسے وہ دیکھ سکتا تھا ,چ ھُ و سکتا تھا ,محسوس کر سکتا تھا ,تو
خ دا کو کیسے مانتا۔ایسے وقت میں کوئی اندیکھے ُ
شیطان اسی چال سے انسان کو بے وقوف بناتا آیا ہے کہ وہ انسان کی
پیکر محسوس" بناتا ہے۔ ِ وگر
خ ِ نظر کے ذریعے ا ُس کی سوچ کو " ُ
زمین میں ہمیں اپنے ارد گرد جو کچھ بھی دکھائی دیتا ہے ہم ا ُسے
ظاہری طور پر چ ھُ و کر جان سکتے ہیں لیکن اپنی ذات کے لیے الل ّٰ ہ
چ نا جسے نہ چ ھُ وا جا سکے اور نہ دیکھا جا سکے۔ ا ُس نے ایسا روپ ُ
202
نے ہر شئے میں سما کر ,ہر جگہ موجود رہ کر بھی ہر ایک کی نظر
سے پوشیدہ رہ نے کا فیصلہ کیا۔ انسان کی فطرت ہے کہ یہ ماحول
سے مانوس ہو جاتا ہے۔ لوگوں نے جب ہر چیز کو الگ الگ وجود
کے ساتھ دیکھا تو الل ّٰ ہ کو بھی مجسم صورت میں دیکھنے کی چاہ پیدا
ہوئی اور اسی بات کا فائدہ ا ُٹھا کر شیطان نے ا ُنہیں آگ ,جانوروں,
اور پارسا لوگوں سے لے کر س ورج ,چاند ,ستاروں تک ہر دوسری
شئے کو سجدہ کرنے پر مجبور کیا۔ دھیرے دھیرے لوگوں کو سمجھ
خ دا یہ سب نہیں بلکہ ا ِس سب کا پیدا کرنے واال ہے۔ آہستہ آئی کہ ُ
خ دا کی ذات سمجھ آنا شروع ہوئی تو انہیں آہستہ لوگوں کو ا َن دیکھے ُ
خ دا کی موجودگی کا احساس ملنا شروع ہوا ل یکن جب ہم شیطان کے ُ
وگر
خ ِ بنائے ہوئے نظام کے غالم ہوئے تو ا ُس نے پھر سے ہمیں " ُ
پیکر محسوس" بنانا شروع کر دیا۔ انبیاء ,اولیاء ,صالحین کی کرامتوں ِ
پر شک کرنا لوگوں کی عادت ہے کیونکہ ہم دن رات بناوٹ میں
سچائی دیکھنے کے عادی ہیں۔ ہم اپنی نارمل زندگی میں کسی مرد یا
عورت کو ا ُتنے زاویوں سے نہیں دیکھتے جتنے زاویوں سے ہماری
فلمیں اور ڈرامے ہمیں مرد و زن کا جسم دکھاتے ہیں۔ عام زندگی میں
ہم اتنے حادثات بھی نہیں دیکھتے جتنے حادثات ہمیں ٹی وی دکھا دیتا
ہے۔ جرائم ,دھوکہ ,محبت ,نفرت اور نہ جانے کون کون سے
ج ڑی داستانیں ہمارے گمان کے دریچوں میں گھر موضوعات سے ُ
کیے رہتی ہیں اور انسان انہی جھوٹی کہانیوں میں اپنی زندگی کی
سچائی تالش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ساتھ ساتھ ا ُسے یہ بھی
سمجھ آتا جاتا ہے کہ صفائی اور سچائی سے جھوٹ بولنا بھی ایک فن
ہے جسے خلوص سے نبھانے واال ایک سچا فن کار کہالتا ہے۔ جب ہم
جھوٹ میں سچائی تالش کرنے کے عادی ہو گئے تو ہمیں ہر سچ میں
جھوٹ دیکھنے کی عادت ہو گئی۔ ہم الل ّٰ ہ اور الل ّٰ ہ والوں سے بدگمان
ہونا شروع ہو گئے۔ ہم میں سے چند لوگ اپنی دنیاوی خواہشات کے
ہاتھوں کسی ڈھونگی پیر وغیرہ کا نشانہ بنتے ہیں اور ایس ی وارداتوں
کی کہانیاں ہزاروں لوگوں کو سچے ال ل ّٰ ہ والوں سے دور کرنے کے
خ دا کے انکار میں محو ہیں۔ اگر کام آتی ہیں۔ ہم پھر سے ا َن دیکھے ُ
َم ن چاہی عزت ,دولت ,شہرت وغیرہ ہے تو الل ّٰ ہ ساتھ ہے اور اگر یہ
سب نہیں ہے تو ال ل ّٰ ہ ساتھ نہیں ہے۔ ال ل ّٰ ہ واال اگر اچھی نوک ری ,اچھی
203
عورت ,اچھا کاروبار دیتا ہے تو وہ الل ّٰ ہ واال ہے اور اگر ہماری
خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو وہ الل ّٰ ہ واال ہی نہیں ہے۔ آج ہم سورج,
چاند ,ستاروں جیسی چیزوں کی جگہ دنیا ,نفس ,اور شیطان کی
پرستش میں محو ہیں۔ جس طرح وہ لوگ ظاہری صورت کی خاطر
مختلف مخلوق کی پوجا میں مصروف تھے ا ُسی طرح ہم بھی آج اپنی
خواہشات کی پرستش میں مصروف ہیں۔
دور جاہلیت کے وہ ب ُ ت پرست ,وہ کافر ,وہ یہود و نصارا شاید ہم سے ِ
بہتر تھے ,کیونکہ ا ُن کے ب ُ ت ,ا ُن کا ک ُ فر سب کے سامنے تھا۔ لیکن ہم
تو اپنے ب ُ ت ,اپنا ک ُ فر ,اپنی روح میں چ ھُ پائے جی رہے ہیں۔ وہ لوگ
جو بیٹیوں کو زندہ دفنا کر دیا کرتے تھے وہ شاید اپنے گناہوں کی
ادائیگی میں ہم سے زیادہ صاف گو تھے۔ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں
کو زندہ دفنانے کی رسم تو نہیں ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ایسی
بہت سی رسمیں ہیں جن کے باعث بہت سی بیٹیاں جیتے جی ہر روز
ب ار بار دفن کی جاتی ہیں اور ہم ا ِس عمل کو گناہ ماننے کی جگہ ا ِس
سب کو اپنا فرض یا حق سمجھ کر نبھاتے ہیں۔ یہود و نصارا جن کے
بارے میں قرآن کی زبانی الل ّٰ ہ نے کہا کہ یہ کبھی تمھارے دوست نہیں
ہو سکتے وہ یہود و نصارا آج ہمارے اندر موجود ہیں۔ یہ یہود و
نصارا امر یکہ ,اسرائیل وغیرہ نہیں بلکہ نفس اور دنیا کی خواہشات
ہیں جس نے تمام انسانوں کو مذہب و مسلک کی تمیز کے بغیر اپنے
شکنجے میں پھنسا کر ذلیل کر رکھا ہے۔ ہم امریکہ ,اسرئیل یا انڈیا
سے جنگ کرنے کو جہاد کہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خالف جنگ کو
اپنا مقصد بتاتے ہیں لیکن ن فس کے خالف ,دنیا اور شیطان کے خالف
جنگ کرنے کا کسی کو خیال نہیں آتا۔ ہم لوگوں کو ال ل ّٰ ہ ,ایشور,
عیسی ,محمد کے نام پر ٰ موسی ,
ٰ بھگوان کے نام پر اعتراض ہے,
اعتراض ہے ,ا ِن مقدس ناموں کے عالوہ اور بہت سے نام ہیں جن کی
بنیاد پر ہم مذہب ,مسلک ,رنگ و نسل کی دشمنی نبھانے میں مصروف
ہیں۔ لیکن ا ِس مشترکہ دشمن 'شیطان' پر تو سب کی رائے ایک ہے نا۔
اس دشمن سے لڑنے کی خاطر ہی ایک ہو جائیں۔ جیسے اکثر فلموں
میں دکھاتے ہیں کہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق زمین پر حملہ کر
دیتی ہے۔ ا ُسی طرح اگر سچ میں کوئی مخلوق حملہ آور ہو جائے تو
سب زمین والے محض انسانیت کی بقا کے لیے اکھٹے ہو کر ا ُس
204
مخلوق کا مقابلہ کریں گے۔ تو ا ِس وقت شیطان کی طرف سے انسان
کے خالف یہی جنگ چل رہی ہے۔ لیکن ہم میں کسی کو ا ِس جنگ کی
پرواہ نہیں ہے۔
205
''باب۔ '' 00
ا ُس نے سگریٹ س ُ لگاتے ہوئے اداس سے لہجے میں ک ہا "میری بہت
خواہش تھی کہ ا ِس جنگ میں انسانیت کی کچھ مدد کر سکتا لیکن میں
کچھ بھی نہیں کر پایا ,انسانیت کی مدد تو دور ,میں تو اپنی مدد بھی
نہیں کر پایا۔ تو ا ُس کی بیوی نے ا ُس کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش
کرتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا "آپ اتنی بڑی بڑی باتیں اتنی
آسانی سے سمجھا جاتے ہیں کہ جن کے لیے ہمیں الفاظ ہی نہیں ملتے۔
یہ مت سوچیں کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے بلکہ یہ سوچیں کہ آپ سب
کچھ کر سکتے ہیں ,شیطان آپ کے حوصلے توڑنے کی کوشش میں
ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر آپ ا ُس کے خالف کھڑے ہو گئے تو
وہ آپ کا کچھ بھی نہیں بگ اڑ پائے گا ,ا ِس خوف سے وہ آپ کو آپ کی
ہی نظروں میں کمزور ثابت کر کے آپ کو آپ کے مقصد سے دور کر
رہا ہے۔" ا ُس نے خالی خالی آنکھوں سے اپنی بیوی کی جانب دیکھتے
ہوئے کہا "میرا مقصد تم لوگوں کو آگے النا تھا ,اب تم لوگ اپنی جگہ
پہنچ گئے ہو ,اس لیے اب میرے ہونے کا مقصد ختم ہو گیا ہے" ا ُس
کی بیوی نے ا ُس کے کندھے پکڑ کر ا ُسے جھجھوڑتے ہوئے کہا "یہ
فیصلہ کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں کہ کس کا مقصد پورا ہو گیا اور
کس کا نہیں ,اگر آپ کا مقصد پورا ہو گیا ہوتا تو آپ ا ِس وقت زندہ ہی
نہیں ہوتے ,آپ زندہ ہیں ,ا ِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا مقصد ابھی
باقی ہے۔ موت تب آئے گی جب ا ُس نے آنا ہے ,ال ل ّٰ ہ نے ہم سب کو
ایک مقررہ وقت دیا ہے لیکن ا ِس وقت کو کس طرح گ ُ زارنا ہے یہ
ہماری مرضی پر ہے ,انسان کی اصل شخصیت ا ُس کا دنیاوی کام کاج
نہیں بلکہ ا ُس کا دل ہوتا ہے ,وہ کسی فیکٹری کا مالک ہو یا کوئی ع ام
مزدور ,الل ّٰ ہ ا ُسے ا ُس کے دل کے حال سے جانتا ہے ,آپ ا ِس بات کی
پرواہ چھوڑ دیجیے کہ آپ الل ّٰ ہ کا پیغام عام کر سکتے ہیں یا نہیں۔ آپ
ا ُس کے ساتھ زبردستی تو نہیں کر سکتے نا ,ا ُس کی مرضی ہے کہ وہ
جس کو چاہے اپنے پیغام کی ترسیل کے لیے استمعال کرے اور جسے
چاہے چ ھُ پا کر رکھے۔ تو آپ کیوں ا ِس فکر میں خود کو تباہ کرنے
میں مصروف ہیں کہ میں پیغام عام نہیں کر رہا۔ جب ال ل ّٰ ہ چاہے گا تو
206
خود بہ خود آپ اس پیغام کا ح صّ ہ بن جائیں گے۔ اور انشاء الل ّٰ ہ وہ
وقت ضرور آئے گا جب آپ ُم رشد پاک کا پیغام وہاں تک پہنچائیں گے
جہاں میں ب ھی نہیں پہنچا سکی لیکن تب تک خود کو سنبھال کر
رکھیں ,آپ اپنے دشمن کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں ,لیکن ا ُس کا
مقابلہ کرنے کی جگہ آپ ہتھیار ڈال کر میدان چھوڑنے کی تیاری میں
مشغول ہیں۔ بس یہی غلطی ہے آپ کی۔ اور یہی آپ کے دشمن کی فتح
ہے" اپن ی بیوی کی بات س ُ ن کر ا ُس کی مایوسی میں ڈوبی آنکھوں میں
ا ُمید کی ایک مدھم سی کرن نمودار ہو رہی تھی۔ ا ُس نے کہا "ہاں شاید
تم ٹھیک کہہ رہی ہو ۔ میں کوشش کروں گا خود کو ا ِس مایوسی سے
نکالنے کی" ا ُس کی بیوی نے کہا "میں آپ کے ساتھ ہوں ,آپ کوشش
کیجیے انشاء الل ّٰ ہ مہربانی ہو گی۔ آپ کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے
کہ آپ نے ُم رشد پاک سے ظاہری طور پر ملنا چھوڑ دیا ہے۔ آپ کے
الفاظ بار بار ا ِس بات ثبوت پیش کرتے ہیں کہ ُم رشد پاک سے آپ کا
باطنی رابطہ بہت مضبوط ہے لیکن ظاہری رابطہ بھی کچھ معانی
رکھتا ہے اور ا ِس سب مسئلے کی جڑ یہی ہے کہ آپ نے ظاہری
راب طہ ختم کر لیا ہے ا ِسی لیے آپ کا ظاہر بگڑنا شروع ہو گیا ہے۔"
ا ُس نے اپنی بیوی کی تائید کرتے ہوئے کہا "ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔
الل ّٰ ہ خیر کرے گا ,انشاء الل ّٰ ہ میں ضرور کوشش کروں گا۔ اور اب تم
پریشان نہیں ہونا ,مجھے بات سمجھ آ گئی ہے ,تھینکس ,تم نے مجھے
وہ کچھ س مجھایا جو میں خود سے سمجھنا نہیں چاہ رہا تھا۔ اصل میں
میری چال ہی ا ُلٹی ہے شاید ,ایک دفعہ مجھے استھما کا مرض ہو گیا
تھا۔ ایک دن اٹیک ہوا تو میں تھوڑا سا گھبرایا ,دوسرے دن دفتر میں
ایک سموسہ کھایا اور ٹھنڈا یخ پانی پیا اور ساتھ ہی سگریٹ س ُ لگا لیا۔
ابھی ایک دو کش ہی لگائے تھے کہ سانس آنا تقریبا ً بند ہو گیا,
گھبراہٹ سے آنکھ سے خود بہ خود آنسو آنا شروع ہوئے تو میں اپنی
حالت پے بے ساختہ مسکرا ا ُٹھا۔ دفتر کے لوگ ڈاکٹر کے پاس لے کر
گئے تو ڈاکٹر نے مجھے نیبالئز کرنے کے بعد مجھے کہا کہ ٹھنڈی
اور کھٹی چیزیں بلکل نہیں استمعال کرنی ہیں آپ نے ,تو میرے ساتھ
گئے دفتر والوں میں سے ایک نے کہا ڈاکٹر صاحب اسے سگریٹ سے
بھی تو منع کیجیے ,تو ڈاکٹر نے چونک کر مجھ سے پوچھا تم سگریٹ
پیتے ہو۔؟ خبردار سگریٹ تو تمھارے جیسے مریض کے لیے خود
207
کشی ہے۔ اگر تم نے سگریٹ پیا ,تو اگلی دفعہ اٹیک ہو تو میرے پاس
نہیں آنا۔ ڈاکٹر کی بات س ُ ن کر میں اور ڈر گیا۔ دوپہر میں ایک بجے
کے آس پاس مجھے اٹیک ہوا تھا اور شام پانچ ,ساڑھے پانچ تک میں
نے ڈر کے مارے ایک سگریٹ بھی نہیں پیا۔ لیکن شام کو جب میں
گھر سے باہر نکال تو دل میں خیال آیا کہ شاید شیطان نے میرے
سا نس کے ذکر پر حملہ کیا ہے۔ یہ سوچ کر میں نے کہا اے شیطان
تیری یہ ہمت کہ ت ُو میرے ذکر پے حملہ آور ہوتا ہے۔ اتنا کہتے ہوئے
دل میں خیال آیا کہ ت ُو تو خود شیطان سے ڈرا ہوا ہے کہ کہیں یہ پھر
سے میرا سانس بند نہ کر دے ,اسی لیے تین چار گھنٹے سے ت ُو نے
کچھ بھی نہیں کھایا پیا۔ پھر ت ُو کس منہ سے شیطان پر بھڑک رہا ہے۔
یہ سوچ آتے ہی میں نے بازار کا ُر خ کیا۔ چاٹ والے سے تیز مرچ
مصالے والی چاٹ بنانے کو کہا اور ساتھ ہی ٹھنڈے یخ سوڈے کا
گالس خریدا اور چاٹ کے ساتھ ساتھ سوڈا ختم کیا پھر سگریٹ س ُ لگا
کر ایک اور دکان پر گیا اور ٹھنڈی ٹھنڈی لسی پی۔ اور گھر واپس
آنے تک تین چار سگریٹ اور پی لیے۔
اب یہ عالج نہیں بلکہ خود کشی کی ہی کوشش گنی جائے گی لیکن یہ
حرکت کرنے کے بعد سے آج تک مجھے دوبارہ سانس کا مسئلہ نہیں
ہ ُوا۔ خیر وہ سب اپنی جگہ لیکن انشاء الل ّٰ ہ میں خود کو بدلنے کی
کوشش ضرور کروں گا۔ تم پریشان مت ہو۔ الل ّٰ ہ خیر کرے گا۔ تم نے
بیوی کا حق ادا کر دیا ,مجھے ناز ہے تم پر اور میں الل ّٰ ہ کا شکر
گزار ہوں کہ ا ُس نے اتنی اچھی بیوی دی مجھے۔" ا ُس کی تعریف پر
ا ُس کی بیوی نے دھیمی سی مسکراہٹ سے کہا "یہ سب میں اپنے
شوہر کے لیے نہیں بلکہ اپنے ُم رشد پاک کے ُم رید کے لیے کر رہی
ہوں ,جب تک شوہر کے لیے کوشش کرتی رہی تب تک میں ناکام ہی
رہی لیکن آج جب الل ّٰ ہ کا بندہ سمجھ کر ,ایک بیوی کی سوچ سے نکل
کر ,محض ایک انسان بن کر ایک انسان کی مدد کرنے کی کوشش کر
رہی ہوں ,تو سب آسان لگ رہا ہے۔ میں بیوی کی طرح آ پ کی مدد
نہیں کر سکی ,بہت جلدی مایوس ہو جاتی تھی ,لیکن اب میں پ ُ ر امید
ہوں۔ الل ّٰ ہ کرم کرے گا۔ انشاء الل ّٰ ہ کوئی ایسا سبب بنے گا کہ سب
ٹھیک ہو جائے گا۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ ُم رشد پاک نے آپ کو جو
ڈھیل دی ہوئی ہے وہ جلد ہی ختم ہونے والی ہے اور ُم رشد پاک آپ
208
ک و کان سے پکڑ کر واپس لے کر آئیں گے۔ آپ کی بات مجھے سمجھ آ
رہی ہے شاید ا ِس سب میں میری اپنی تربیت بھی پوشیدہ تھی۔ میں نے
اپنے دل میں آپ کی محبت کا ایک بہت بڑا ب ُ ت تراش رکھا تھا جو
شاید آپ کو مایوسی میں ڈولتے دیکھ کر ٹوٹ گیا۔ ا ِسی لیے میں نے
آپ کو چھوڑ کر جا نے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لیکن آج آپ کی بات س ُ ن
کر مجھے آپ میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ لیکن یہ سب آپ جیسے
شخص کو زیب نہیں دیتا ,اب میں آپ کو کسی چیز سے نہیں روکوں
گی۔ اب آپ کو ُم رشد پاک خود ہی روکیں گے۔ مجھے آپ سے کسی
قسم کا کوئی شکوہ نہیں ہے۔ اگر آپ خود کو م جھ سے دور نہ کرتے
تو شاید میں اپنا آپ کبھی نہ پہچان سکتی۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ
غلط نہیں ہیں لیکن میں خود کو سمجھانے سے قاصر تھی۔ کامل ُم رشد
کی شان ہے کہ طالب کے دل میں رکھے تمام ب ُ ت توڑ کر ا ُس دل کو
کعبہ بناتا ہے۔ اگر آپ یہ سب نہ کرتے تو میں خود پر کبھی اع تماد نہ
کر پاتی۔ ا ِس سب کے پیچھے آپ کے لیے بھی کچھ سبق تھے اور
میرے لیے بھی لیکن ا ِب بس کریں۔ اپنا آپ سنبھالیں واپس پلٹیں۔ ابھی
بہت سا کام باقی ہے اور جو آپ کے ح صّ ے کا کام ہے وہ آپ ہی نے
کرنا ہے ا ُسے کوئی اور نہیں کر سکتا۔ ا ِس لیے ا ِن مایوسی کے
خیاالت سے ک نارہ کیجیئے اور واپس آئیں۔ چلیں اب سو جائیں صبح
دفتر بھی جانا ہے آپ نے" ا ُس رات جب وہ سونے کے لیٹا تو بہت دیر
تک اپنی بیوی کی باتوں پر غور کرتا رہا۔ ا ُس نے اپنے دل میں اپنے
دشمن سے لڑنے کا اور خود کو بدلنے کا ارادہ کر لیا تھا۔
ابھی اپنی بیوی سے وہ سب باتیں کیے ا ُسے چند دن ہی گ ُ زرے تھے
کہ اصالحی جماعت کی ایک معتبر شخصیت حاجی محمد نواز صاحب
ا ُس کے گھر تشریف الئے اور آتے ساتھ گھر کے مالک سے ملنے کی
خواہش ظاہر کی۔ جب وہ ا ُن کے سامنے گیا تو انہوں نے بہت شفقت
سے ا ُس کی خیر خیریت دریافت کی۔ وہ حاجی نواز صاحب کا بہ ت
گرویدہ تھا اور ا ُس روز وہ ا ُس کے گھر میں ا ُس کی نظروں کے
سامنے بیٹھے ا ُس سے مح ِو گفتگو تھے۔ ا ُس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ
بات کرتے جائیں اور وہ انہیں س ُ نتا جائے۔ جب گفتگو کے دوران
انہوں نے ا ُس سے پوچھا کہ دل پے اس ِم الل ّٰ ہ کیسے نقش کرتے ہو تو
ا ُس نے جان بو جھ کر ا ُن کے سامنے ا ُلٹا نقش کر کے بتایا تاکہ حاجی
209
نواز صاحب ا ُسے اور زیادہ سمجھائیں اور یہی ہوا بھی۔ جب ا ُس نے
دل پر اس ِم الل ّٰ ہ کا نقش ا ُلٹا بنایا تو حاجی صاحب نے فور ا ً ا ُس سے کہا
"آپ نے اپنے موبائل فون میں ِس م ہی ا ُلٹی ڈالی ہوئی ہے تو موبائل
کام کیسے کر ے گا۔ اس ِم الل ّٰ ہ کا نقش ایسے نہیں بلکہ ایسے کرتے ہیں"
اور ی ہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی انگشت شہادت سے ا ُس کے دل پر
اس ِم الل ّٰ ہ نقش کیا۔ اور ایک پل میں ا ُس نے اپنے اندر ایک عجیب سی
تبدیلی محسوس کی۔ جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل تھا۔
210
''باب۔ '' 00
حاجی نواز صاحب کے جانے کے بعد شام تک وہ اپنے آپ کو بدلنے
کے بارے میں سوچتا رہا ا ِس سوچ کا اختتام ایک مضبوط ارادے پر
ہ ُوا .جس کے بعد وہ اپنی زندگی کی طرف واپس لوٹ آیا .ا ِس سب
مایوسی سے جان چ ھُ ڑانے میں ا ُس کا ساتھ دینے والوں میں سب سے
بڑا کردار ا ُس کی بیوی نے ادا کیا۔ ا ُس کا حوصلہ بڑھایا ,دن رات ا ُس
کی خدمت کی اور ا ُسے دوبارہ زندگی میں آگے بڑھنے کی ا ُمید دی ۔
انسان اکثر اپنی کم عقلی کے باعث نعمت کو زحمت سمجھ لیتا ہے
لیکن وقت انسان کو احساس ِد ال دیتا ہے کہ وہ غلط تھا اور الل ّٰ ہ نے
ا ُس کی بہتری ہی سوچ رکھ ی تھی۔
214
تھی کہ ایک ا لل ّٰ ہ کے نام پر سب انسانوں کو ایک کیا جا سکے۔ بس اس
سے زیادہ ا ُس کی اور کوئی خواہش نہیں تھی۔
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں ..
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں ..
اقبال رح کے بہت سے اشعار ا ُسے اپنی زندگی کا ح صّ ہ محسوس
ہوتے تھے اور اکثر اپنی حالت بیان کرنے میں ا ُس کے لیے مددگار
بھی ثابت ہوتے تھے۔ اکثر جب لوگ ا ُس کے الفاظ سے متاثر ہوتے
ہوئے ا ُس کے ظاہر پر ا ُنگلی ا ُٹھاتے تو وہ عالمہ اقبال رح کا یہ شعر
اکثر پڑھا کرتا تھا کہ
اقبال بڑا اپدیشک ہےَ ,م ن باتوں میں موہ لیتا ہے ..
گ ُ فتار کا غازی تو یہ بنا ,کردار کا غازی بن ن ہ سکا ..
215
''باب۔ '' 00
جیسے جیسے ا ُس کا حج پے جانے کا وقت قریب آ رہا تھا ویسے
ویسے ا ُس کا دل اور زور سے دھڑک رہا تھا۔ جس جس کو بھی پتا
چال کہ وہ حج کے لیے جانے کا ارادہ رکھتا ہے ا ُس نے اپنی اپنی
سوچ کے مطابق ا ُسے کچھ نہ کچھ کہنا ضروری سمجھا۔ کسی نے
اپنے لیے د ُعا کرنے کے لیے کہا تو کسی نے اپنوں کے لیے د ُعا
کرنے کی گزارش کی ,کچھ لوگوں نے ا ُس کی ٹانگوں کے مسئلے کے
پیش نظر ا ُسے حج کے فیصلے پر نظر ثانی کا مشورہ دیا۔ تو کچھ نے ِ
کعبے کے سامنے اپنی صحت یابی کے لیے د ُعا کرنے کے لیے کہا۔
تقریبا ً ہر دوسرے ش خص نے ا ُسے بتایا کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر
پڑتے ہی جو د ُعا مانگو قبول ہوتی ہے۔ ا ِس لیے فالں د ُعا مانگنا اور
فالں فریاد کرنا۔ لیکن سب لوگوں کی د ُعائیں دنیا تک ہی محدود تھیں۔
ہر ایک کو وہ اپنی بات سمجھا نہیں سکتا تھا ا ِس لیے خاموشی سے
سب کے مشورے س ُ نتا رہتا۔ ایک حافظ صاحب ,جو بہت خوبصورت
قاری بھی تھے ,ا ُس کے صاح بِ فہم دوستوں میں سے ایک تھے,
انہوں نے بھی جب ا ُس سے یہی بات کہی کہ خانہ کعبہ کو دیکھتے
ساتھ پہلی نظر میں اپنی صحت یابی کے لیے د ُعا مانگیے گا تو ا ُس
سے رہا نہ گیا اور ا ُس نے کہا "یار حافظ صاحب آپ سے پہل ے بھی
چ کے ہیں مجھے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اگر الل ّٰ ہ کئی لوگ یہ مشورہ دے ُ
سے مانگنے کے لیے کسی کے پاس ایک ایسا موقعہ ہو جس میں ا ُسے
یقین ہو کہ ا ُس کی د ُعا رد نہیں ہو گی تو کیا یہ ا ُس کی خود غرضی
کی انتہا نہیں ہو گی کہ وہ محض اپنی ذات کے لیے کچھ مانگ لے۔
ایسے ش اندار موقعے پر تو ا ُسے تمام انسانوں کی بھالئی طلب کرنی
چاہیے۔ تاکہ وہ ا ُس کی عطا کا کچھ حق ادا کر سکے۔ اگر میں آپ سے
کہوں کہ حافظ صاحب جو مانگنا ہے مانگو تو آپ مجھ سے میری
اوقات کے مطابق مجھ سے بہت ذیادہ مانگ لیں گے تو دس بیس ہزار
روپے کا سوال کریں گے ,یہی بات آپ سے کوئی بادشاہ کہے تو آپ
بادشاہ کی اوقات اور سخاوت کو م ِد نظر رکھتے ہوئے کوئی سلطنت یا
مال و دولت کا تقاضہ کریں گے ,لیکن جب ک ُ ل جہانوں کا بادشاہ کسی
216
مقدس مقام کو خود سے منسلک کر کے ا ُس در کی فضیلت بیان کرتے
ہوئے لوگوں کو یہ کہتا ہے کہ میرے در پے آ کر جو سوال کرو گے
میں قبول کروں گا تو ہم یہاں دینے والے کی شان کے مطابق ا ُس سے
تمام انسانوں کی بھالئی کیوں نہیں مانگتے۔؟ میری د ُعا ہے کہ الل ّٰ ہ
مجھے اگر ایسا موقع دے تو ا ُس موقعے پر ایسی د ُعا مانگنے کی
توفیق بھی دے جس میں سب کی بھالئی ہو۔ ورنہ مجھ سے بڑا
خ ودغرض کوئی نہ ہو گا۔ تو میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ میں
اتنے اچھے موقعے کو ا ِس طرح ضائع کر دوں۔ ویسے میرے خیال
میں د ُعا کی قبولیت صرف اور صرف الل ّٰ ہ کی رضا پر منحصر ہے۔
الل ّٰ ہ کی رضا ,د ُعا کرنے والے کے دل کی حالت ,د ُعا کے الفاظ ,اور
ا ُس د ُعا کے مقصد پر منحصر ہوتی ہے۔ نہ کہ د ُعا کرنے والے کے
ظاہری مقام پر۔ لوگ کعبے کو دیکھ کر نہ جانے کیا کیا مانگتے ہوں
گے۔ لیکن ہر ایک کو وہ سب ظاہری طور پر عطا نہیں کیا جاتا۔
د ُعائیں ضرور د ُعا کرنے والوں کے اعمال ناموں میں محفوظ ہو جاتی
ہوں گی لیکن ظاہری قبولیت کے پیچھے ب ہت سی رمز پوشیدہ ہوتی
ہے۔ جس کے باعث انسان ظاہر میں الل ّٰ ہ کی حکمت کو نظر انداز
کرتے ہوئے بے مقصد د ُعائیں کر کر کے عطا کرنے والے سے
بدگمان ہو جاتا ہے۔ یہ شیطان ہے جو اپنی تمام تر طاقت کا استمعال
صرف اور صرف انسان کے اندر بے مقصد خواہشات پیدا کرنے کے
لیے کر تا ہے۔ انہی خواہشات کے دھارے بہہ کر ہم یہ بھول جاتے ہیں
کہ استقامت ,طلب سے بہتر راستہ ہے۔ کیونکہ طلب کرنے واال اپنی
طلب کے مطابق حاصل کرتا ہے اور طلب پوری نہ ہونے پر یا طلب
سے کم ملنے پر ,عطا کرنے والے سے بد گ ُ مان ہو کر راہ سے بھٹک
سکتا ہے لیکن استقامت رکھ نے واال ہر حال میں الل ّٰ ہ سے راضی رہنے
کی کوشش میں رہتا ہے ا ِس لیے ا ُس پر عطا ,عطا کرنے واال اپنی
شان کے مطابق کرتا ہے۔ جب کوئی شخص الل ّٰ ہ سے ہر حال میں
راضی ہو جاتا ہے تو الل ّٰ ہ بھی ا ُس کے ہر حال سے راضی ہو جاتا
ہے۔" حافظ صاحب نے ا ُس کی بات اطمینان سے س ُ ن ی اور کہا "سبحان
الل ّٰ ہ کیا سوچ ہے آپ کی۔ یقینا ً الل ّٰ ہ نے کسی خاص مصلحت سے آپ کو
اس آزمائش میں ڈال رکھا ہے۔ "
217
حج کے سفر کے بارے میں سوچ کر وہ اکثر اپنی والدہ کے لیے
پریشان ہو جایا کرتا تھا۔ کبھی کبھی ا ُسے یہ خیال بھی آتا کہ شاید ا ِس
سفر میں میری موت لکھی ہ و۔ اور وہ اکثر اپنے قریبی دوستوں سے
ا ِس خدشے کا ذکر کرتے ہوئے کہتا کہ "کہ شاید حج کے دوران میری
موت واقع ہو جائے ,تو کہا س ُ نا معاف کر دینا" ایک دفعہ ا ُس کی اس
بات پر ا ُس کے ایک دوست نے مذاق کرتے ہوئے ا ُسے کہا "بھائی ت ُو
بے فکر رہ ت ُو نہیں مرتا ,ایسے مقدس م قامات پر نیک لوگ مرتے ہیں
ا ِس لیے ت ُو بے فکر رہ ,کچھ نہیں ہو گا تجھے ,کچھ عرصے بعد ت ُو
پھر سے یہیں ہمارے ساتھ بیٹھا سموسے کھا رہا ہو گا۔"
دن رات تیزی سے گ ُ زر رہے تھے اور جلد ہی وہ دن آن پہنچا جب وہ
اپنی والدہ کے ساتھ اسالم آباد ایرپورٹ کی جانب مح ِو سفر تھا ۔ عجیب
حال تھا ا ُس کا ,ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرا ہاتھ اپنی والدہ کے
کندھے پے رکھے وہ دل میں ندامت لیے آگے بڑھ رہا تھا۔ اسالم آباد
ایرپورٹ سے ہی الل ّٰ ہ کی مدد لوگوں کی صورت ا ُن کے ساتھ ہو گئی
تھی۔ لوگوں نے ہر ممکن حد تک ا ُن کے کام آنے کی کوشش کی۔ م ک ّ ہ
پہن چتے ساتھ رہائش گاہ پے سامان رکھنے کے بعد سب لوگ مسجد
الحرام کی جانب روانہ ہوئے۔ م ک ّ ہ کی فضا میں ایک جالل کی سی
کیفیت رہتی ہے۔ لوگوں کے برتاؤ میں بھی ایک سختی سی محسوس
ہوتی ہے۔ جیسے ہر شئے الل ّٰ ہ کے گھر کے ادب و احترام کا اشارہ کر
رہی ہو۔ مسجد کے باہر ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو معزور اور
بزرگ لوگوں کو وہیل چیئر پر بٹھا کر ا ُجرتا ً طواف اور سعی وغیرہ
ف کعبہ کرنا پڑا۔ ا ُسے اچھی کروا دیتے ہیں۔ ا ُسے بھی ایسے ہی طوا ِ
طرح یاد تھا کہ ا ُس نے کیا د ُعا مانگنی ہے۔ ویسے بھی ایک طویل
عرصے سے ا ُسے صرف ایک د ُعا مانگنے کی عا دت تھی۔ "اے الل ّٰ ہ ..
سب کو مل جا" بس وہ یہی مانگا کرتا تھا اور ا ُس دن بھی خانہ کعبہ
کو دیکھ کر ا ُس کے دل سے یہی الفاظ نکلے کہ "اے الل ّٰ ہ سب کو اپنی
ذات ,اپنا قرب عطا فرما ,الل ّٰ ہ میاں ہم سب انسان آپ سے بہت دور آ
گئے ہیں ,شیطان نے ہمیں ٹ ُکڑے ٹ ُکڑے کر دیا ہ ے ,ہم نے غلطی کی
چ کا ہے کہ شیطان کی پیروی کر کے ,وہ ہمیں تجھ سے اتنا دور کر ُ
اب تیرا پتہ بھی یاد نہیں ہمیں ,اے الل ّٰ ہ ہم نے اپنی جانوں پے ظلم کیا
اور شیطان کی پیروی کرتے ہوئے تباہی و بربادی کو اپنا مقدر بنا لیا,
218
اور آج شیطان ہمارا قت ِل عام کرنے میں مصروف ہ ے اور ہم سب
خاموشی سے اپنی اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ایک دوسرے کو
قتل ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اگر ت ُو نے ہم پے رحم نہ کیا تو ہمیں برباد
ہو جانے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اے الل ّٰ ہ مجھے میرے لیے کچھ
نہیں چاہیے ,میں جس حال میں بھی ہوں ,خوش ہوں,بس اتنی سی
ت انسان کی حالت پے رحم فرمایا جائے اور گزارش ہے کہ حضر ِ
ہمیں ایک ہو کر اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی
جائے" الل ّٰ ہ کے گھر کی شان و عظمت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا
سکتا۔ ایک ایسا جالل کا عالم جس میں زبان گنگ اور ذہن ماؤف ہو
جاتا ہے اور انسان کسی خوا ب کے عالم میں چال جاتا ہے۔ کعبے کا
منظر ابھی آنکھوں میں ٹھیک سے سما نہ پایا تھا کہ طواف کا مرحلہ
اختتام کو پہنچ گیا۔ سعی سے فارغ ہو کر ا ُس نے اور ا ُس کی والدہ
نماز فجر ادا کی اور ع ُ مرے کے باقی مناسک سے فراغت کے بعد ِ نے
واپس رہائشگاہ کا ُر خ کیا۔ ابھی انہیں آئے ایک دو دن ہی گزرے تھے
سفر مدینہ کا اعالن ہوا۔ ا ِس اعالن کے ساتھ ہی ایک عجیب سے ِ کہ
احساس نے ا ُس کے دل کو گھیر لیا تھا۔ جیسے کوئی آغوش جس میں
ا ُس کی روح گ ھُ لی جا رہی تھی۔ مکہ میں ا ُس کی رہائش حرم سے
کافی فاصلے پر تھی ا ِس لیے ا ُس کے لیے بار بار حرم جانا مشکل
تھا۔ ا ُس کے ساتھ جتنے لوگ تھے سب نے اپنی جانب سے ا ُس کی ہر
ممکن مدد کی اور کسی تکلیف کا احساس نہ ہونے دیا۔ مدینہ جاتے
ہوئے ا ُسے یہی ڈر تھا کہ یہاں بھی اگر رہائش دور ِم لی تو یہاں بھی
ا ُسے حرم میں ذیادہ وقت گ ُ زارنے کا موقع نہیں ملے گا۔ عجب حالت
تھی دل ک ی ,جب ا ُن کی بس حرم کے ارد گرد چلتی ہوئی کبھی حرم
کے قریب سے گ ُ زرتی تو کبھی دور سے۔ بس میں موجود ہر شخص
کی خواہش تھی کہ حرم کے قریب رہائش ملے اور الل ّٰ ہ کا کرنا ایسا
ہوا کہ مسج ِد نبوی کے بلکل سامنے روضۂ رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و
آلہ وسلم کے قریب ہی رہائش ملی جب پہلی بار مسج ِد نبوی ,روضۂ
رسول صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے لیے جانے کا مرحلہ
آیا تو ا ُس کے ساتھ موجود سب لوگوں نے ا ُس کی والدہ کو یقین ِد الیا
کہ وہ ا ُس کا خیال رکھیں گے اور ا ُس کے ساتھ رہیں گے۔ لیکن مسج ِد
نبوی صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم میں داخل ہوتے ساتھ سب لوگ ا ُس
219
سے الگ ہو گئے اور وہ تنہا ہو گیا۔ ا ُسے چلنے پھرنے کے لیے کسی
کے کندھے پے ہاتھ رکھنا پڑتا تھا اور بنا سہارے کے وہ چلتے چلتے
ِگ ر جایا کرتا تھا ا ِس لیے خود کو اتنی بھیڑ میں اکیال دیکھ کر وہ ایک
پل کو گھبرا سا گیا۔ لیکن دور سے نظر آت ی روضۂ رسول صلی الل ّٰ ہ
علیہ و آلہ وسلم کی جالیوں اور گنب ِد ِخ ضرہ کے منظر نے ا ُسے تھام
لیا اور اکیلے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ اپنے بچپن میں ا ُسے ایک
ہی نعت یاد تھی اور یہی نعت وہ ہر جگہ پڑھا کرتا تھا۔ ا ُس روز
روضۂ رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب قد م بڑھاتے وہی
نعت ا ُس کی سوچ کے جہان میں گونج رہی تھی۔
فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر
ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں
خود ا ُنہی کو پ ُ کاریں گے ہم دور سے
راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے
جیسے ہی سبز گنبد نظر آئے گا
بندگی کا قرینہ بدل جائے گا
حج کے ِد نوں میں ایک جانب سے روضۂ رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ
وسلم کی زیارت کے لیے راستہ بند کر دیا جاتا ہے اور دوسری جانب
سے لوگوں کو روضۂ رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے
لیے ایک طویل قطار میں لگنا پڑتا ہے۔ جس جانب روضۂ رسول صلی
الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم ہے ا ُس جانب وہاں کی انتظامیہ کے لوگ کھڑے
ہوتے ہیں جو لوگوں کو دوسری طرف سے آنے کا کہتے ہیں۔ وہ دور
سے دیکھ رہا تھا کہ وہ لوگ سخت انداز میں لوگوں کو وہاں سے
پیچھے دھکیل رہے تھے۔ ا ُسے لگا شاید ا ُسے بھی دھکیل دیا جائے گا
لیکن ایسا ن ہ ہوا بلکہ ا ُس کی حالت دیکھتے ہوئے ایک شخص نے
آگے بڑھ کر ا ُس کا ہاتھ تھاما اور ا ُسے لے جا کر روضۂ رسول صلی
الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی جالیوں کے سامنے ایک ستون کے ساتھ کھڑا
کر دیا۔
220
''باب۔ '' 00
دل کا عجیب حال تھا۔ اپنی حالت پے ندامت سے زمین میں گڑھ جانے
کو جی چاہ رہا تھا۔ الل ّٰ ہ کے رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کے
حضور پیش کرنے کے لیے ا ُس کے پاس ندامت کے سوا کچھ نہیں
عرض تمنا کرنے کو کہہ رہا تھا مگر ِ تھا۔ دل تھا کہ ا ُسے بار بار
احترا ِم بارگاہ رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم میں جیسے ا ُس کے
الفاظ کی جرا عت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ پھر ا ُس نے دل سے پ ُ کارتے
ہوئے کہا "یارسول الل ّٰ ہ میرے دل پے ہاتھ رکھ دیجیے تاکہ میری
دھڑکنوں کو کچھ قرار نصیب ہو اور مجھے اجازت دیجیئے کہ جو
میں کہنے کی خواہش رکھتا ہوں وہ آج آپ سے کہہ سکوں۔ مجھے ڈر
ہے کہ میری آواز حد سے تجاوز نہ کر جائے ,مجھے ڈر ہے کہ
میرے الفاظ کسی گستاخی کے مرتکب نہ ٹھریں۔ مجھے بات کرنے کا
سلیقہ نہیں ہے۔ مجھے اجازت دیجیئے کہ میں اپنی فریاد اپنے انداز
میں بیان کر سکوں۔ میں جانتا ہوں کہ میرے ادب کا ب ُ لند و محتاط
ترین معیار بھی بارگاہ اقدس کے آداب کے شایاں نہیں ہے ,اس لیے
یارسول الل ّٰ ہ !..ا ِس گندے کو ,ا ِس بے ادب و گستاخ کو اپنی بات کہنے
کے لیے اپنے ٹوٹے پھوٹے عشق و ایمان کی امان درکار ہے۔ مجھے
اجازت دیجیئے کہ میں اپنا ُم دعا بیان کر سکوں۔ "
اسی اثناء میں انتظامیہ کہ لوگوں نے رش کم کرنے کی خاطر جالیوں
کے سامنے کھڑے لوگوں کو وہاں سے ہٹانا شروع کر دیا۔ ویسے بھی
ایشیا کے سارے مسلمان ا ُنہیں مشرک دکھائی دیتے ہیں ا ِس لیے ہم پے
کچھ زیادہ سختی کی جاتی ہے اور شرک سے روکنے کی بھی پوری
کوشش کی جاتی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ایک پل کو ا ُسے خیال آیا کہ
شاید ا ُسے اپنا حال بیان کرنے کی اجازت ن ہیں ملی ,اور ا ِسی بات کے
اظہار میں ا ُسے یہاں سے دھکیل دیا جائے گا۔ لیکن دوسرے ہی پل
ا ُس کی غلط فہمی دور ہو گئی جب ا ُس کے ساتھ کھڑے دوسرے
لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیا گیا اور کسی نے ا ُسے نظر بھر کے بھی
نہیں دیکھا تو یہ سوچ کر ا ُس کا دل خوشی سے جھوم ا ُٹھا کہ ال ل ّٰ ہ کے
رسول رحمت اللعالمین صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم نے ا ُسے فریاد کی
221
اجازت دے دی۔ ا ُس نے اپنے ُم ضترب دل کو سنبھاال ,آنکھوں سے
بہتے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ,آواز و انداز
کو اور موئدب کرنے کی کوشش کی ,اپنے الفاظ سنبھالے اور دل کی
زبان سے آق ائے دو جہاں صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے گزارش
کرتے ہوئے کہا "یارسول الل ّٰ ہ میں ا ُس وقت کے لوگوں میں سے ایک
چ کا ہے۔ ہوں جس وقت میں زمین پے انسان ِذ ل ّ ت کی انتہا کو پہنچ ُ
لوگ جہالت میں پیدا ہوتے ہیں اور جہالت کے رائج کردہ نظام کے
تحت ,موت آنے تک ہر پل جہالت کے ہاتھوں ,ایک نئی موت َم ر َم ر
کر زندگی جیتے ہیں۔ ہم اپنے اخالق ,اپنا کردار ,اپنی ُو سعت سب کچھ
چ کے ہیں۔ حضور میں اپنے وقت کا گناہگار ترین شخص ہوں۔ کھو ُ
اور اتنا شدید گناہگار ہوں کہ مجھے ہر گناہ کرنے والے کی مجبوری
سمجھ آ جاتی ہے ا ِس لیے میں ا ُن سے نفرت نہ یں کر پاتے۔ مجھے
د ُکھ ہوتا ہے روز َم رتی ہوئی انسانیت کو دیکھ کر۔ سڑک پے بھیک
مانگنے والے شخص سے لے کر تخت و تاج والوں تک اور پانچ
نمازیں پڑھانے والے ُم ّال سے لے کر بڑی بڑی درگاہوں کے گدی
نشنیوں تک سب اپنی اپنی فکر میں جی رہے ہیں۔ کسی کو بھی
ح جرہ, انسانیت کی یا ا نسانوں کی پرواہ نہیں ہے سب اپنی مسجد ,اپنا ُ
اپنا ُم لک ,شہر یا قصبہ ,قبیلہ بچانے کی فکر میں ُم بتال ہیں۔ اور اب تو
چ کی ہے کہ ہم نے ا ِسے صرف اپنی ذات یہ تقسیم ہم میں ا ِس قدر گ ھُ ل ُ
تک بھی محدود کرنا سیکھ لیا ہے۔ ہم میں جو ہدایت والے ہیں وہ
لوگوں کی جہالت کے باعث اپنا آپ چ ھُ پائے بیٹھے ہیں۔ اور ا ِس عالم
میں ہر مذہب میں بیٹھے دین کے ٹھیکے داروں نے مذہب کے نام پر
انسانیت کا قت ِل عام شروع کیا ہوا ہے۔ آپ محس ِن انسانیت ہیں تمام
جہانوں کے لیے رحمت ہیں تمام انسان اور ہر طرح کی مخلوق کا
وجود صرف اور صرف آپ کی ذات ا قدس کے اظہار کی خاطر ہے۔
آپ نے ا ِس وقت کے بارے میں جو کچھ کہا تھا سب ا ُسی طرح پورا ہو
رہا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ روز َم رتے ہیں ,نہ مارنے والے کو پتہ ہے
کہ وہ کیوں کسی کی جان لے رہا ہے اور نہ ہی َم رنے واال جانتا ہے
کہ ا ُس کی جان کیوں لی گئی۔ آج ہمارا قبلہ عورت ہ ے۔ ہماری تمام
خواہشات کا ُر خ دنیا ,نفس اور شیطان کی جانب ہے۔ اہل الل ّٰ ہ ا ِسی
222
باعث ہم سے دور ہو گئے ہیں کیونکہ ہم ا ُن سے بھی الل ّٰ ہ نہیں بلکہ
دنیا و نفس کی ل ذ ّ ت طلب کرتے ہیں۔
آج دنیا پرست ,نفس پرست اور شیطانیت کی پوجا کرنے والے لوگوں
کو واپس ب ُ النے واال کوئ ی نہیں ہے۔ کیونکہ انہوں نے خود اپنے اوپر
سب دروازے بند کر لیے ہیں۔ یارسول الل ّٰ ہ وہی حال ہے جو آپ کے
ظہور سے پہلے تھا بلکہ ہم لوگ شاید ا ُن سب سے بھی گئے گ ُ زرے
ہیں۔ میں ا ُنہی گناہگاروں میں سے ایک ہوں۔ میرا تعلق ا ُس دور سے
جب بے لباسی ,جھوٹ ,دھوکہ ,زنہ ,چوری ,سب عام ہے۔ ل ُ وٹ
کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ گناہوں کی بارش ہے ,یارسول الل ّٰ ہ میں
گناہوں سے اپنا دامن نہیں بچا پایا۔ بلکہ دامن بچانے کی کوشش بھی
نہیں کر پایا۔ میں اپنے وقت کے لوگوں سے مشابہ تقریبا ً سبھی گناہوں
کا آئینہ ہوں۔ میں اپنے لوگوں کی جانب سے آپ سے گ ُ زا رش کرتا ہوں
کہ ہمیں ہمارے دشمن نے قید کر لیا ہے۔ ہماری مدد کیجیے۔ اور اگر
آپ نے ہماری مدد نہیں کی تو یقینا ً ہم برباد ہو جائیں گے۔ یارسول الل ّٰ ہ
ہم جو بھی ہیں ,جیسے بھی ہیں ,آپ کے ہیں ,الل ّٰ ہ نے ہمیں آپ کی
ا ُمت میں پیدا کیا ا ِس نسبت سے ہماری داد رسی بھی آپ کے ہاتھ ہے۔
یارسول الل ّٰ ہ میرے لوگوں پے رحم فرمائیں۔ یارسول الل ّٰ ہ ہمیں ایک کر
دیجیے۔ یارسول الل ّٰ ہ ہم لوگ شیطان کی قید میں مجبوری کی ا ُس حد
تک جا پہنچے ہیں جہاں پاکباز عورتوں کو جسم اور ولی صفت
چ پن اور چ وں سے ا ُن کا ب ّ
َم ردوں کو ضمیر بیچنا پڑ جاتا ہے۔ ب ّ
بو ڑھوں سے ا ُن کے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا جاتا ہے۔ ہم سب
خاموش تماشائیوں کی طرح ایک دوسرے کی عزت کو پامال ہوتا
دیکھتے ہیں۔ انسان کو انسان کے ہاتھوں جانوروں کی طرح ذبح ہوتے
دیکھتے ہیں لیکن کچھ نہیں بولتے ,یارسول الل ّٰ ہ ہمیں شیطان کے ا ِس
ق ٰال ہی کے سحر میں ُم بتال کر سحر سے نکال کر محبت و عش ِ
دیجیئے۔ میں جانتا ہوں کہ میں جو مانگ رہا ہوں ہم لوگ ا ُس سب کے
اہل نہیں ہیں لیکن ہمیں اہل بننے کی جانب دھکیال تو جا سکتا ہے۔
ق حقیقی کو پہنچ سکیں۔ تاکہ ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں تو عش ِ
یارسول الل ّٰ ہ میری اور کوئی د ُعا نہ یں ہے۔ مجھے بس میرے لوگوں
کی خیر درکار ہے۔ پلیز الل ّٰ ہ سے کہیے کہ ہمیں اپنی جانب پھیر لے۔
ال ل ّٰ ہ آپ کا ہے اور ہمیں ہمارا ال ل ّٰ ہ تبھی ملے گا جب ہم آپ کے ہوں
223
گے۔ یارسول الل ّٰ ہ آپ رحمت اللعالمین ہیں پلیز میرے لوگوں پے اپنی
رحمت برسا دیجیے۔ یارسول الل ّٰ ہ آج وہ وقت ہے جب دنیا بھر میں
چ کا ہے۔ ہم سب خود بھی اپنے مذہب کو مسلمان ہونا ایک گالی بن ُ
گالی دیتے ہیں اور دوسرے بھی ہمیں ہمارے مذہب کے باعث انسانیت
کا دشمن گردانتے ہیں۔ یارسول الل ّٰ ہ وہ مذہب جس کا نام ہی سالمتی
ہے ,وہ مذہب جو تمام انسانیت کی بھالئی کے لیے ا ُتا را گیا آج وہی
مذہب ظلم و دہشت کا نشان بنا ہوا ہے۔ یارسول الل ّٰ ہ ا ِس مذہ بِ اسالم کو
پھر سے سب انسانوں کے لیے سالمتی کا باعث بننے کا موقع دیجیئے۔
ہم میں موجود ا ُن خاص بندوں کو لوگوں پے ظاہر کر دیجیئے جو ہمیں
ایک کر سکتے ہیں۔ ہمیں برباد مت ہونے دیجیئے۔ یارسول الل ّٰ ہ ہمیں
بچا لیجیئے۔ ہمیں پھر سے ایک کر دیجیئے۔ میرے لوگوں کو بچا
لیجیئے۔ میرے لوگوں کو بچا لیجیئے۔ "
شدید رقت کے عالم میں وہ روضۂ رسول کے سامنے کھڑا آج اپنے دل
کی ہر بات الل ّٰ ہ کے رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے کہہ دینا
چ کا تھا۔ ا ِس لیے وہ جو کچھ کہہ چاہتا تھا ا ُس کے ضبط کا بند ٹوٹ ُ
سکتا تھا ا ُس نے سب کہہ دیا۔ ا ِس دوران کسی شخص نے ا ُسے وہاں
سے ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔ "یارسول الل ّٰ ہ میں نے سوچا تھا کہ آپ
کے روضے کی جالیوں میں سے آپ کے روضے کے اندر کا منظر
دکھائی دیتا ہو گا لیکن یہاں تو اندر بھی پردہ پڑا ہوا ہے شاید یہ
ہماری ہی آنکھوں پے پڑے دنیا و نفس کے پردوں کا اثر ہے جس کے
باعث ہمیں اندر جھانکنے کی اجازت نہیں ہے۔ یا پھر یہ سعودی
حکومت کی ہمیں شرک سے روکنے کی کوشش ہے۔ خیر جو بھی ہے
مگر آپ کے اور ہمارے بیچ پڑا یہ پردہ بہت تکلیف دہ ہے۔ یارسول
الل ّٰ ہ ی ہ پردہ ا ُٹھا دیجیئے ,ہمیں اپنا جلوہ دکھا دیجیئے۔ ا ِس روتی,
سسکتی انسانیت کو ظ ُ لمت سے نکال لیجیئے۔" اسی دوران ا ُس کے
ساتھ آئے لوگوں میں سے ایک شخص ا ُس تک پہنچ گیا اور ا ُس کا ہاتھ
پکڑ کر جالیوں کے قریب لے گیا۔ روضۂ رسول کی جالیوں سے کچھ
فاصلے پر ایک اور آڑ کھڑی کی جاتی ہے تاکہ ایشین مسلمان روضۂ
رسول کی جالیوں کو چ ھُ و کر بھی شرک نہ کر سکیں۔ کچھ دیر ا ُس آڑ
کے پاس کھڑے ہونے کے بعد ا ُس کے ساتھ موجود شخص نے ا ُس کا
ہاتھ تھاما اور ا ُسے لے جا کر روضۂ رسول کے ساتھ موجود ستونوں
224
کے بیچ کھڑا کر دیا۔ وہ سب عشاء کی جماع ت ہو جانے کے بعد مسج ِد
نبوی پہنچے تھے ا ِس لیے ا ُس کی عشاء کی نماز ابھی رہتی تھی۔ ا ُس
جگہ بھی بہت شدید رش تھا اور حج کے ِد نوں میں کسی کو بھی وہاں
زیادہ نماز نہیں پڑھنے دیتے بلکہ انتظامیہ کہ لوگ نماز کے دوران
بھی لوگوں کو ا ُٹھا دیتے ہیں لیکن ا ُس نے سکون سے ن ماز ادا کی اور
کسی نے ا ُسے وہاں سے بھی نہیں ہٹایا۔ نماز ادا کرنے کے بعد ایک
اور شخص ا ُسے ِم ال جو ا ُس کا ہاتھ پکڑ کر ا ُسے واپس رہائشگاہ کی
طرف لے گیا۔ وہ بھیڑ میں چل پھر نہیں سکتا تھا ا ِس لیے ا ُسے کسی
شہر رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ
ِ سہارے کی ضرورت پڑتی تھی اور
وسلم کی ایسی مہربان فضا تھی کہ جہاں ا ُسے ضرورت محسوس ہوتی
ا ُسی جگہ کوئی نہ کوئی شخص ا ُس کی مدد کے لیے موجود ہوتا تھا۔
225
''باب۔ '' 00
جب وہ اپنی رہائش پر پہنچا تو کمرے کی کھڑکی سے گنب ِد ِخ ضرہ
سامنے دکھائی دیتا تھا۔ صاف س ُ تھرے کمرے اور آرام دے بس تر
ت عالم کی رحیمی کا نمونہ ہو۔ ا ُس کے ساتھ جیسے ہر چیز رحم ِ
موجود تقریبا ً سبھی لوگوں نے ا ِس بات کا ذکر کیا۔ سب کو ا ِس بات
احساس شاید ا ِس لیے بھی ذیادہ تھا کیونکہ م ک ّ ہ میں ملنے والے بستر
چھوٹے اور کم آرام دہ تھے۔ا ُس نے سوچ رکھا تھا کہ جب سونے کے
خ دا سے اور ذیادہ التجائیں لیے لیٹوں گا تو آنکھ بند کر کے رسو ِل ُ
کروں گا۔ مگر جب سونے کا وقت ہوا تو ا ُسے لگا کہ ا ُس کے پاس
ج ملہ بار بارالفاظ ختم ہو گئے ہیں۔ ِر ق ّ ت کے عالم میں بس ایک ہی ُ
ا ُس کے ذبان و ِد ل سے ادا ہو رہا تھا۔ "یارسول الل ّٰ ہ میرے لوگوں کو
بچا لیجیئے ۔ ی ارسول الل ّٰ ہ میرے لوگوں کو بچا لیجیئے۔" میرے لوگ,
میرے لوگ ,کہتے کہتے کب وہ نیند کی وادی میں ا ُتر گیا ا ُسے پتہ
بھی نہ چال۔ فجر کے وقت آنکھ ک ھُ لی اور روضۂ رسول کے پاس
مسجد کے صحن میں نماز ادا کرنے کے بعد وہ بہت دیر تک دور بیٹھا
روضۂ رسول کو ,گنب ِد خضرہ کو اور گنبد کے پس منظر میں چمکتے
چاند کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اکثر اس ِم الل ّٰ ہ کو اپنے تصور میں رکھتا۔ اور
ہر وقت اپنی سوچ کے ہر منظر میں الل ّٰ ہ کے نام کو ساتھ رکھنے کی
کوشش کرتا۔ اسی سوچ میں وہ اکثر اس ِم محمد اور اس ِم علی بھی دیکھا
کرتا اور دل زبانی اپنی کیفیت بیان کر کے سکون حاصل کر لیتا تھا۔
ایک دفعہ ا ُس نے ا ِس بات کا ذکر کسی دوست سے کیا تو ا ُس کے
دوست نے پوچھا "تم ا ِن ناموں کا تصور کرتے ہو ,ا ُن سے بات کرتے
ہو ,تو کیا ا ُن کی طرف سے جواب بھی آتا ہے۔؟" تو ا ُس نے جواب دیا
کہ "مجھے کسی نہ کسی صورت اپنے سوالوں کے ج واب مل ہی جاتے
ہیں۔ ا ُن ناموں سے میں نے کبھی جواب کی ضد نہیں کی۔ میں بس کہہ
دیتا ہوں اور کہیں نہ کہیں سے مجھے جواب بھی ِم ل جاتا ہے۔ میں تو
بس ا ِن مقدس ناموں سے اپنا احساس بیان کرنے پے یقین رکھتا ہوں۔
جواب آئے یا نہ آئے سوال کرتے رہنے چاہیے۔ اور ویسے بھی جو
لوگ جواب آ جانے کو سوال س ُ ن لیے جانے کی دلیل سمجھتے ہیں وہ
226
اکثر جواب نہ ملنے پر مایوس ہو جایا کرتے ہیں۔ وہ مقدس ہستیاں ہیں
میری ہمت نہیں ہوتی کے جواب کی خاطر بار بار سوال کروں۔ ا ِس
لیے میں سوال کر کے س ُ ن لیے جانے کا یقین کر لیتا ہوں اور اعتماد
رکھتا ہوں ک ہ اگر میرا سوال جواب کے الئق ہوا تو جواب ضرور ملے
گا اور جواب نہ ملے تو میں جواب کی ضد کرنے کی جگہ اپنا سوال
بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ "
ا ُس روز گ ُ نب ِد ِخ ضرہ کے پس منظر میں چمکتے چاند کو دیکھتے
ہوئے جب ا ُس نے اپنے تصور پے غور کیا تو ا ُسے اس ِم علی دکھائی
د یا اور یاد آیا کہ یہ تصور ا ُس وقت سے مسلسل ا ُس کے ساتھ ہے جب
وہ روضۂ رسول کے ساتھ ریاض الجنئہ میں مختلف ستونوں کے قریب
نماز ادا کر کے آیا تھا۔ ا ُسے یاد آیا کہ ا ُن ستونوں کے بیچ ایک ستون
کا نام ستو ِن علی تھا۔
مسج ِد نبوی میں شدید رش کے باعث وہ دوبارہ روضۂ رسول کی
جالیوں کے سامنے نہیں جا سکا۔ قریب نو دن ا ُسے مدینہ میں گ ُ زارنے
کا موقع ِم ال۔ ہر روز وہ فجر کی نماز کے بعد اپنی رہائش پے آتا اور
جب ظہر کی نماز کے لیے مسج ِد نبوی میں جاتا تو عشاء پڑھ کر ہی
واپس آتا۔ لوگوں کو آتا جاتا دیکھنا اور اپنی سوچ کی زبانی الل ّٰ ہ کے
محبوب صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے مح ِو فریاد رہنا ا ُس کا معمول
تھا۔ لوگ نماز کے بعد تالوت کرتے نفلی نمازیں اور مسنون د ُعائیں
پڑھتے جبکہ وہ نماز پڑھ کر اکثر سو جایا کرتا تھا یا پھر درود
شریف پڑھتا رہتا تھا۔ اور ب ِ نا کچھ کھائے پیے ظہر سے عشاء تک کا
وقت گ ُ زارتا۔ ا ُسے ہر وقت سگریٹ پینے کی عادت تھی لیکن مسج ِد
نبوی کے سرور میں ا ُسے سگریٹ کی بھی طلب نہیں ہوتی تھی۔ ا ُسے
م سج ِد نبوی کے ارد گرد موجود بلند و باال عمارتیں عجیب لگ رہی
تھیں ا ُسے یاد آیا کہ م ک ّ ہ میں بھی ا ُسے حرم کے ِگ رد حرم سے اونچی
عمارات دیکھ ک ر بہت عجیب محسوس ہوا تھا۔ دل نے ا ُسے سمجھایا
کہ "بادشاہوں کی خواہشات کی تکمیل میں آج کل کے علم و حکمت
کے ٹھیکے دار کچھ بھی کہہ دینے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ بات
سمجھتے ہوئے ت ُو ا ِس سب کو دیکھ کر حیران کیوں ہوتا ہے۔ اپنے
وقت کے لوگوں کو دیکھ ,کیا انہیں ا ِس سب س ے کوئی فرق پڑتا ہے
227
کہ الل ّٰ ہ کے گھر کی عمارت اونچی ہونی چاہیے ی ا نیچی۔؟ یہ تو بس
اپنی دنیا بلند کرنا چاہتے ہیں اور بس۔"
مسج ِد نبوی میں روز وہ بہت سے لوگوں کو دیکھتا الگ الگ ُم لکوں
سے آئے مسلمانوں کو الگ الگ انداز میں ایک ساتھ باجماعت نماز
پڑھتے دیکھ کر ا ُ س کے دل کو ایک گہرا سرور حاصل ہوتا تھا۔
سعودی عرب میں ایک مسلک کے عالوہ کسی دوسرے مسلک کی
تبلیغ کی اجازت نہیں ہے۔ حج پے جاتے ہوئے آپ کسی قسم کی کوئی
کتاب نہیں لے جا سکتے۔ لیکن تمام راستہ ایک خاص قسم کا لِ ٹریچر
پڑھنے کے لیے دیا جاتا ہے جو ایک خاص سوچ کی تبل یغ کرتا ہے۔
جہاں مختلف مسلک رسول الل ّٰ ہ کو محترم اور مکرم ترین ذات مانتے
ہوئے ا ُن کی پیروی کرتے ہوئے ب ُ لند ہونے کی بات کرتے ہیں وہیں
ا ِس سوچ کے ماننے والے ,لوگوں کو رسو ِل ُ
خ دا کو اپنے برابر ال کر
سوچنے کا درس دیتے ہیں۔ ا ُنہیں اپنی طرح کا انسان سمجھ کر دین
سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی لیے اکثر لوگ حج و ع ُ مرہ کر
لینے کے بعد شرک و بدعت کے فتوے صادر کرنے میں بہت ماسٹر ہو
جاتے ہیں۔ ویسے تو یہ لوگ ہر بات کا ریفرنس پوچھنے کے بھی
ماسٹر ہوتے ہیں لیکن اپنی بات کے ریفرینس میں عام طور پر ا ِن کے
پاس ایک ہی بات ہوتی ہے ک ہ ہم نے یہ بات حرم میں س ُ نی ہے۔
لیکن ا ُس نے کبھی کسی کتابی ریفرینس پر کسی بات کو قبول یا رد
نہیں کیا تھا کیونکہ ا ُس کا ماننا تھا کہ حق خود اپنے ہونے کی دلیل
ہوتا ہے ا ِسی لیے وہ ہر بات کو ا ِسی روشنی میں دیکھتا تھا۔
228
''باب۔ '' 00
ایک صاحب مسج ِد نبوی میں الگ الگ لوگوں سے بات کرتے ہوئے
ا ُسے روز دکھائی دیتے تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی ا ُس سے بات
کرنے کی کوشش نہیں کی۔ شاید ا ِس کی ایک وجہ ا ُس کا کاال لباس
بھی تھا۔ ا ُس روز وہ آنکھ بند کیے لیٹا ہوا تھا اور دل دل میں درود
شریف پڑھ رہا تھا کہ اپنے پاس بیٹھے لوگوں کی گ فتگو س ُ ن کر وہ ا ُٹھ
کر بیٹھ گیا۔ ا ُس نے دیکھا کہ وہی صاحب کسی شخص کو یہ
سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ "صرف الل ّٰ ہ سے مانگو ,الل ّٰ ہ
کے سوا کسی سے بھی کچھ بھی مانگنا شرک ہے۔ کسی سے کیوں کہا
جائے کہ میرے لیے د ُعا کیجیئے جب الل ّٰ ہ تمھاری شہ رگ سے زیادہ
قریب ہے تو تمھیں چاہیے کہ تم خود ا ُس سے مانگو۔" ا ُسے اپنی
جانب متوجہ دیکھ کر ا ُن صاحب نے اور زور سے اپنی بات جاری
رکھتے ہوئے کہا "کسی پیر ,فقیر سے جا کر کیوں کہا جائے کہ
ہمارے لیے د ُعا کرو۔ اگر وہ اتنا قریب ہوتا تو اپنے لیے د ُعا کر کے
خود امیر نہ ہو جاتا۔؟ گھر بن ا لیتا ,فقیر کیوں بنا پھر رہا ہے۔؟ لوگوں
کو ایسی د ُعاؤں کے اللچ دے کر یہ پیر وغیرہ لوگوں کو شرک و
بدعت پر مائل کرتے ہیں اور لوگوں کے مال کے ساتھ ساتھ ا ُن کا
ایمان بھی ل ُ وٹ لیتے ہیں۔ دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا بدعت
ہے۔ اب آپ بتائیں کہ کیا کبھی صحابہ نے رسول الل ّٰ ہ کا میالد منایا ہو۔
یہ سب کیا ہے یہ گیارویں منانا ,جمعراتیں منانا۔ اور آج کل تو میوزک
چ کا ہے۔ مطلب ایک تو بدعت کا عذاب اوپر سے بھی ا ِس کا ِح صّ ہ بن ُ
ایک اور حرام چیز کو ساتھ شامل کرنے کا عذاب الگ سے ہے۔ بیشک
گ ُ مراہی مذید گ ُ مراہی کا باعث بنتی ہے۔ آپ چلیں میرے ساتھ موالنا
صاحب کا بیان س ُ نیں اور اپنے دین کو پہچانیں ,ہدایت حاصل کریں۔"
ا ُس نے اور دوسرے شخص نے کوئی جواب نہ دیا تو ا ُس شخص نے
مذید کہا "آپ لوگ اتنی دور سے یہاں آئے ہیں محض نمازیں اور
تالوت مت کیجیئے۔ اپنے دین کو سمجھنے کی کوشش کیجیئے ہم
ان جانے میں ایسی بہت سی حرکتیں کر جاتے ہیں جو شرک و بدعت
کے ُز مرے میں آتی ہیں یہاں آئے ہیں تو کچھ سیکھ کر جائیں۔" ا ُس
229
شخص کے شدید اصرار پر ا ُس نے سوچا کہ ا ِن صاحب کی اتنی ساری
ص لے میں انہیں کچھ نہ کچھ جواب تو دینا ہی چاہیے ا ِس محنت کے ِ
لیے ا ُس نے کہا"جی انشاء الل ّٰ ہ ضرور سیکھنے کی کوشش کریں گے۔
ماشاء الل ّٰ ہ آپ بہت محنت اور لگن سے لوگوں تک دین کی سمجھ
کار خیر کتنے عرصے سے پہنچانے کا کام کر رہے ہیں۔ ویسے آپ یہ ِ
سر انجام دے رہے ہیں۔؟" ا ُس کے ُم نہ سے اپنی تعریف س ُ ن کر ا ُن
صاحب نے فور ا ً ترنگ میں آتے ہوئے کہا "بس میں تو اپنی پوری
زندگی دین کے لیے وقف کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں بھی آپ
بھائیوں کی طرح پاکستان سے ہوں۔ ہر سال الل ّٰ ہ مجھے میرے دوسرے
ساتھیوں کے ساتھ ا ِس پاک سر زمین پر آنے کا موقع دیتا ہے۔ میں آٹھ
چ کا ہوں اور بہت سے ع ُ مرے بھی کیے۔ ہماری جماعت ہر حج کر ُ
سال لوگوں کو یہاں بھیجتی ہے ہم تبلیغ بھی کرتے ہیں اور حج و
ع ُ مرہ کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں۔ "
ا ُن صاحب کی بات پر ا ُس نے کہا "میں جب یہاں آ رہا تھا تو اتنے
سارے لوگوں نے د ُعا کرنے کو کہا تھا۔ آپ تو ہر سال یہاں آتے ہیں
آپ سے بھی بہت سارے لوگ د ُعا کرنے کو کہتے ہو ں گے نا۔؟" تو
ا ُن صاحب نے بدستور اپنی سعادتوں پے ا ِتراتے ہوئے کہا "ہاں بہت
سے لوگ ہر سال بہت سی دعائیں کرنے کو کہتے ہیں میں نے تو
ڈائری رکھی ہوئی سب کی د ُعائیں لکھ کر لے آتا ہوں اور کعبے کے
سامنے بیٹھ کر سب کی د ُعائیں الل ّٰ ہ کے گھر تک پہنچا دیتا ہوں۔" ا ُن
کی بات س ُ ن کر ا ُس نے ُم سکراتے ہوئے کہا "آپ نے وہاں کبھی کسی
کو یہ نہیں کہا کہ ال ل ّٰ ہ سے مانگو مجھ سے کیوں مانگ رہے ہو یا یہ
کہ ال ل ّٰ ہ سے ڈائریکٹ د ُعا مانگو وہ تمھاری شہ رگ سے بھی قریب
ہے۔ وہاں نہیں بتایا لوگوں کو کہ کسی سے د ُعا کرنے کو کہنا شرک
ہو جاتا ہے۔ ؟ اگر آپ اپنی ڈائری میں د ُعا نوٹ کر کے الل ّٰ ہ کے گھر
تک پہنچا سکتے ہیں تو یقینا ً جس کا دل الل ّٰ ہ کا گھر ہو وہ بھی لوگوں
کی د ُعا الل ّٰ ہ تک پہنچا سکتا ہے۔ ایسے کئی واقعات ہیں جن میں لوگوں
نے رسول ال ل ّٰ ہ صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے د ُعا کرنے کو کہا۔ میں
نے تو نہیں س ُ نا کہ کسی کو یہ جواب مال ہو کہ مجھ سے نہیں الل ّٰ ہ
سے مانگو۔" ا ُن صاحب نے متذبب لہجے میں کہا "اور یہ جو قبروں
سے جا کے د ُعائیں مانگتے ہیں یہ بھی تو شرک ہی ہے۔ قبروں سے
230
کیوں مانگتے ہیں لوگ۔؟ جب کہ مرنے واال َم ر گیا اب تو وہ خود
محتاج ہے ا ُس نے کسی کے لیے کیا کرنا ہے اب۔؟ بجائے ا ِس کے کہ
صاحب قبر کے لیے د ُعا کی جائے یہ لوگ ا ُلٹا ا ُنہی سے د ُعا مانگنے
لگ جاتے ہیں ,یہ لوگ پیروں فقیروں کو پتا نہیں کیا سمجھتے ہیں,
مرنے واال مر گیا ,پتہ نہیں قبر میں ہڈیاں بھی ہوں گی کہ نہیں اور یہ
لوگ ا ُن سے ا ِس طرح مدد ما نگتے ہیں جیسے وہی سب کچھ ہوں۔"تو
ا ُس نے ذرا سنجیدہ لہجے میں کہا "قبر میں ہڈیاں ,آپ کی اور میرے
جیسے لوگوں کی سڑائی جاتی ہیں الل ّٰ ہ والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
ا ِس کی واضح مثال ہمیں واقعہ معراج میں ملتی ہیں۔ وہ انبیاء جنہوں
نے رسول الل ّٰ ہ کی اقتدا میں بیت الم قدس میں نماز ادا کی تھی وہ سب
ا ُس وقت صاح بِ قبر تھے۔ ہم مسلمانوں پر پانچ نمازیں اور تیس
روزے بھی کسی صاح بِ قبر ہی کے مشورے کے باعث فرض ہوئیں
موسیٌ ا ُس وقت صاحب قبر ہی تھے جب انہوں نے رسول الل ّٰ ہ ٰ تھیں۔
سفر معراج کے دوران مالقات کی۔ کیا ا ِس واقعے سے یہ ثابت ِ سے
نہیں ہوتا کہ صاح بِ قبر س ُ نتے بھی ہیں اور سفارش بھی کرتے ہیں۔"
ا ُن صاحب نے ِچ ڑ کر کہا "آپ انبیاء کی بات کر رہے ہیں۔ آج کل وہ
لوگ کہاں۔؟ " تو اُس نے کہا "انبیاء کی بات اِس لیے کر رہا ہوں تاکہ آپ انبیاء
غالموں کا مقام تو بعد کی بات ہے۔" تو کے سردار کا مقام سمجھ سکیں اُن کے ُ
اُن صاحب نے کہا "خیر انبیاء کی تو بات ہی الگ ہے اُن کے بارے میں ہم ناقص
العقل لوگ کیا کہہ سکتے ہیں اللّٰہ کی اپنی حکمت ہے اور باقی پیروں ,فقیروں
کے بارے میں ایسے سوچنا کہ وہ مرنے کے بعد بھی زندہ ہو سکتے ہیں یہ بلکل
جائز نہیں ہے۔" تو اُس نے کہا "کیا مرنے کے بعد آپ قبر میں زندہ نہیں ہوں
گے۔؟" تو انہوں نے چونک کر پوچھا "کیا مطلب۔؟" تو اُس نے مسکرا کر کہا
"قبر میں سوال جواب سب کس کے ساتھ ہو گا۔؟ آپ زندہ ہوں گے تو آپ کو اجر
و عذاب محسوس ہو گا نا۔ قبر یا تو دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے یا
جنت کے باغوں میں سے ایک باغ۔ انسان قبر میں زندہ ہو گا تو ہی جنت دوزخ
کا مزا لے سکے گا نا۔ اس کا مطلب کہ انسان کی روح اپنی قبر میں ہی موجود
ہوتی ہے اور انسان کے اعمال کے حساب سے اُس پے قبر تنگ یا ُکشادہ ہو
جاتی ہے اور مرنے کے بعد وہ اپنے اعمال اور اللّٰہ کے ساتھ اپنے ُگمان کے
مطابق قبر کی زندگی ُگزارتا ہے۔ کیا قبرستان سے ُگزرتے ہوئے 'اسالم و علیکم
یا اہل القبور' پڑھنے کو نہیں کہا جاتا۔؟ اگر وہاں کوئی نہیں ہے تو سالم کس کو
231
روضہ رسول پر
ٔ ٌٰ
عیسی کیا جاتا ہے۔؟ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب حضرت
حاضر ہو کے سالم عرض کریں گے اور سالم کا جواب آئے گا جسے ہر خاص
ب قبر کیسن سکے گا۔ عجیب بات ہے نا کہ ایک طرف آپ ثواب و عذا ِ و عام ُ
بھی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب اللّٰہ کے ُمقرب بندوں کو اپنی قبروں میں
زندہ ماننے کو شرک و بدعت جیسے نام بھی دیتے ہیں۔ قبر میں تو سبھی زندہ ہی
ہوتے ہیں تبھی اُن کو ثواب و عذاب محسوس ہوتا ہے اور اللّٰہ کے مقرب بندے
زمین کے اوپر بھی لوگوں کے اور اللّٰہ کے بیچ رابطہ ہوتے ہیں اور زمین کے
نیچے بھی اُن کا کام مخلوق کی بھالئی ہوتا ہے۔ اسی لیے لوگ اُن سے دُعا کی
درخواست کرتے ہیں۔ اللّٰہ بیشک ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے لیکن
اُس کی محبت اور قُرب اِس بات پر منحصر ہے کہ آپ اُس کے کتنے قریب ہیں
سنتا ہے لیکن کوئی کوئی اُس کے اتنا قریب ہوتا ہے جو اپنی بات وہ تو سب کی ُ
اُس سے منوا لیتا ہے۔ اور جہاں تک رسول اللّٰہ کی شان میں اشعار پڑھنے کی
بات ہے تو ایسی بہت سی روایات موجود ہیں جن میں صحابہ نے رسول اللّٰہ کی
شان میں اشعار کہے۔ اللّٰہ والوں کی شان بیان کرنا کوئی نئی چیز نہیں ہے ,یہ
ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ جو اللّٰہ کی شان بیان کرتے ہیں لوگ اُن کی شان بیان
کرتے ہیں۔ عجیب سوچ ہے کہ کسی سیاسی لیڈر ,کسی عورت ,حتکہ ٹوتھ پیسٹ
اور ٹوتھ برش کی بھی تعریف میں اشعار کہے جاتے ہیں۔ لیکن جب کوئی بات
اللّٰہ والوں سے منسوب ہوتی ہے تو اُس میں نقطے نِکالنا شروع کر دیے جاتے
طرز بیاں ہوتا ہے۔ اللّٰہ کے کالم 'قرآن' کا بھی ایک انداز
ِ ہیں۔ ہر بیان کا ایک
بیاں ہے۔ آیات کا ایک لہجہ ہے۔ اُسی طرح ہر انسان کا اپنا لہجہ ہوتا ہے جس
طرز محبت پے ٹوکنے کی ِ سے وہ اپنی محبت بیان کرتا ہے۔ کسی کو اُس کے
موسی سے ناراضگی کا اظہار کیا۔ یاد کیجیئے جو ٌٰ وجہ سے اللّٰہ نے حضرت
ٌٰ
موسی شخص اللّٰہ سے کہہ رہا تھا کہ آ تیرے بالوں میں کنگی کروں وغیرہ۔ جب
نے اُسے ٹوکا تو اللّٰہ نے کہا اُس کا اظہار مجھے کتنا پسند آ رہا تھا آپ سوچ نہیں
سکتے۔ تو جس بات کی اجازت اللّٰہ نے ایک نبی کو نہیں دی ہم وہ بات کرنا اپنا
اظہار محبت کرنے ِ دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اپنے انداز میں اپنے محبوب سے
کی اجازت ہر شخص کو ہے۔ نعت رسول اللّٰہ کے زمانے میں بھی پڑھی جاتی
تھی اور آج بھی پڑھی جاتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ اکثر لوگ اپنا منفرد
انداز
ِ انداز بناتے بناتے کچھ ذیادہ ہی منفرد ہو جاتے ہیں اور ا ُن کا
بیاں اکثر ادب کی حد سے باہر ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی یہ سب شرک
و بدعت میں نہیں آتا۔ "بھر دو جھولی میری یامحمد" ا ِس طرح کے
232
اشعار کو اکثر لوگ شرک گردانتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جو
ذات ہمارے وجود کی وجہ ہے ,ک ُ ل کائنات کا نظام جن کے اظہار کی
خاطر بنا وہ ذات جس کے صدقے آسمان بارشیں برساتا اور زمین اناج
ا ُگاتی ہے ,وہ ذات جس کی وجہ سے انسان کو الل ّٰ ہ سے عشق کرنے
کی اجازت ملی۔ وہ ذات جس کی وجہ سے عجز و ایمان کی جھولی
عطا ہوئی اگر وہ ذات بھی ا ِس جھولی کو نہیں بھر سکتی تو پھر ا ِسے
کوئی بھی نہیں بھر سکتا۔ الل ّٰ ہ کو لوگ جس کے وسیلے سے جانتے
ہیں۔ جن کا نام لے کر لوگ الل ّٰ ہ کے دین میں داخل ہوتے ہیں جن کی
محبت کو الل ّٰ ہ نے خود تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا ا ُن سے سوال نہیں
کریں گے تو کس سے کریں گے۔ سب الل ّٰ ہ ہی سے ہوتا ہے لیکن الل ّٰ ہ
نے ہر چیز کا سبب بنا رکھا ہے۔ ا ُس سبب کو پ ُ کارنا پڑتا ہے۔ اکثر
س ُ نا ہو گا کہ اگر جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو الل ّٰ ہ سے مانگو۔
لیکن الل ّٰ ہ سے مانگنا یہ نہیں ہے کہ ظاہری وسیلے کو نظر انداز کر
دیا جائے۔ الل ّٰ ہ آپ کو تسمہ ال کر نہیں دیتا بلکہ آپ کے لیے سبب بنا
دیتا ہے تسمہ آپ کو بازار سے ہی خریدنا پڑتا ہے آسمان سے نازل
نہیں ہوتا۔ کسی دوست سے ا ُدھار مانگنا ,کسی ڈاکٹر کے عالج سے
شفایاب ہو جانے ک ی امید رکھنا ,کسی سرکاری اہل کار کو رشوت دے
کر اپنا کام ن ِ کلوانے کی امید رکھنا یہ سب چیزیں بڑے آرام سے سمجھ
آ جاتی ہیں اور یہاں شرک محسوس نہیں ہوتا لیکن جب کوئی شخص
الل ّٰ ہ کے رسول یا صالحین کی ارواح سے دین کی سیکھ سمجھ حاصل
کرنے کا سوال کرتا ہے یا اپنی ظاہ ری زندگی کی مشکالت میں آسانی
کی سفارش کرنے کو کہتا ہے تو ہم شرک کے ف ٰت وے صادر کرنے لگ
جاتے ہیں۔ "
233
''باب۔ '' 00
ا ُس شخص نے ج ِھ ال کر کہا "اور یہ جو لوگ یاعلی مدد کہتے ہیں یا
حضرت علی کو ُم شکل ک ُ شا کہتے ہیں کیا یہ شرک نہیں ہے۔؟" تو ا ُس
نے کہا "میں ٹھیک سے چل پھر نہیں سکتا اگر میں کسی شخص سے
مدد مانگوں گا تو کیا میں شرک کا ارتکاب کروں گا۔؟" ا ُس شخص نے
چکرا کر کہا "لیکن جو موجود ہی نہیں وہ آپ کی مدد کیسے کر سکتا
ہے۔؟" تو ا ُس نے کہا "موجود اور غیر موجود کی بات میں آپ سے
چ کا ہوں ا ِس لیے د ُ ہراؤں گا نہیں۔ خیر آپ کا موبائل
پہلے بھی کہہ ُ
فون بہت اچھا لگا مجھے ,کتنے کا ہے۔؟" ان صاحب نے فور ا ً اپنے
قیمتی موبائل کی قیمت بتائی تو ا ُس نے کہا "ویسے یہ موبائل فون
بھی بہت کمال کی چیز ہے ا ِس موبائل کے بنانے والے کی ذہانت کی
داد دینی چاہیے جس کے دماغ نے لوگوں کے لیے ا تنی آسانیاں پیدا
کر دیں۔" تو ا ُن صاحب نے کہا "داد کا اصل مستحق تو گراہم بیل ہے
جس نے فون ایجاد کیا تھا۔ حج کے سفر میں ہم لوگوں کے لیے ا ِس
سے بہت آسانی ہو گئی ہے لوگوں کو ڈھونڈنا بہت آسان ہو گیا ہے۔
میں تو گراہم بیل کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اگرچہ وہ غیر مس لم تھا
لیکن تمام انسانوں کی بہت سی مشکالت آج بھی ا ُس کے دم سے حل ہو
رہی ہیں۔" ا ُس نے ا ُس شخص کی بات پر مسکراتے ہوئے کہا "ویسے
کیا گراہم بیل کو ا ُس کی موت کے بعد شکریہ کہنا شرک نہیں ہے۔؟"
ا ُس شخص نے چونک کر ا ُس کی طرف دیکھا تو ا ُس نے مذید کہا
"عجیب بات ہے ن ا کہ گراہم بیل تو مرنے کے بعد بھی لوگوں کی مدد
کر رہا ہے ا ُن کی ُم شکلیں آسان کر رہا ہے اور ا ُسے خراج ِ تحسین
پیش کرنے میں بھی کوئی ب ُ رائی نہیں ہے لیکن الل ّٰ ہ کے مقرب بندے
جن کی زندگی کے حاالت ,جن کے فرمان ,رہتی دنیا تک تمام انسانوں
کے لیے مشع ِل راہ ہیں ا ُن سے کچھ سیکھ کر یا ا ُن کے بلند مرتبہ کو
دیکھ کر اگر کوئی ا ُن سے مدد طلب کرے یا ا ُنہیں اپنی مشکل حل
کرنے واال کہہ کر پ ُ کارے تو ہم ا ُسے خارج از دین کہنا شروع کر
دیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس ایسی سوچ پر اور ایسے ع ُ لماء پر جو
معاشرت و ثقافت کو دین کے ساتھ ایسا گڈ م ڈ کر کے پیش کرتے ہیں
234
کہ لوگ نہ دین کے رہتے ہیں نہ دنیا کے۔ تو ا ُن صاحب نے کہا کہ
"میں تو ابھی طالب علم ہوں اور زندگی بھر طالب علم ہی رہوں گا,
انسان زندگی بھر سیکھتا رہتا ہے۔ لیکن جس کا دل الل ّٰ ہ نے ہدایت کے
لیے بند کر دیا ہو ایسا شخص کبھی کچھ نہیں سیکھ سکت ا۔ ہم تو بحث
نہیں کرتے کسی سے۔ تمھارا دین تمھارے لیے اور ہمارا دین ہمارے
لیے۔" پھر ا ُس شخص نے رازدارانہ انداز میں ا ُس سے سوال کیا "آپ
یہاں اور لوگوں سے تو بات نہیں کرتے۔؟" تو ا ُس نے سرد سے لہجے
میں کہا "میں یہاں لوگوں سے بات کرنے نہیں آیا ہوں۔ ہاں اگر کسی
کو بہت شوق ہو بات کرنے کا تو ا ُس سے ا ُس کی تسلی کی خاطر بات
کر لیتا ہوں۔ آپ بے فکر رہیں آپ کے ح صّ ے کے بیوقوفوں کو میں
یہاں کچھ نہیں کہوں گا۔ اب آپ جائیں کسی اور کو جا کہ شرک و
بدعت سمجھائیے گا۔" وہ صاحب ا ُس کا انداز دیکھ کر بنا کچھ کہے
چ کے تھے کہ ا ُن اپنی جگہ سے ا ُٹھ کر چلے گئے۔ کیونکہ وہ سمجھ ُ
کی دال یہاں نہیں گلنے والی۔
ا ُس شخص کے جانے کے بعد ا ُس نے خود کو مالمت کی کہ ت ُو نے
ا ُس کا ِد ل د ُکھایا لیکن ِد ل نے کہا کہ "وہ جس ارادے سے آیا تھا ا ُسے
ایسا ہی جواب ملنا چاہیے تھا ورنہ وہ جان نہ چھوڑتا اور نہ جانے
کون کون سے ف ٰت وے س ُ ننے کو ملتے ا ِس لیے جو ہوا اچھا ہوا۔ ادھورا
علم فتنہ ہوتا ہے۔ عجیب لوگ ہیں خود مانتے ہیں کہ ابھی طالب علم
ہیں اور پھر بھی ا ُستاد بن کے لوگوں کو ِس کھانے کی کوشش کرتے
س کھانے کی کوشش کرنا۔ ہیں ,پہلے اپنی تعلیم تو مکمل کر لو پھر ِ
ایسے بہت سے لو گ ہیں معاشرے میں جو کسی بھی بات کو پوری
طرح جانے بغیر ہی ا ُسے آگے بیان بھی کرتے ہیں اور اپنے نظریے
کی پیروی کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں ,یہی نہیں بلکہ اپنا نظریہ
نہ ماننے والوں کو خارج از دین گرداننے سے بھی باز نہیں آتے۔
کسی جاننے والے کا عاجزی میں خود کو ک م علم کہنا جائز ہے لیکن
جو شخص علم واال ہو ا ُس کی کیفیت یہ نہیں ہوتی ہے کہ میں تو کم
علم ہوں ,وہ تو کہتا ہے کہ جس چیز کے بارے میں پوچھنا چاہو پوچھ
لو ,میں جواب دوں گا۔ اگر کوئی شخص خود کو کم علم سمجھتا ہے تو
ا ُسے اپنی زبان بند رکھنی چاہیے۔ یا پھر اپنی رائے کو آخری رائے
سمجھتے ہوئے دوسروں کے دماغ پر الدنے کی کوشش نہیں کرنی
235
چاہیے۔ جب تک کسی شخص کو کسی چیز کا پورا علم نہ ہو تو ہم عام
زندگی میں بھی ا ُس کا اعتبار نہیں کرتے لیکن دین مذہب کے معاملے
میں فور ا ً یقین کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کوئی شخص یہ کہے کہ
میں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا ہے آئیے میں آپ کا عالج کر
دوں تو آپ ا ُسے کہیں گے کہ بھائی پہلے اپنی ڈگری مکمل کر لے بعد
میں میرا عالج کر لینا۔ لیکن دین کے معاملے میں لوگ کالج میں
ایڈمشن لیے بغیر ہی ایک دوسرے کا آپریشن کرتے پھرتے ہیں اور
لوگ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ا ِس آپریشن میں ا ُن کا ِد ل نکال لیا گیا ہے
اور ُم ردہ جسم کو لوگوں کے بیچ تعفن پھیالنے کے لیے چھوڑ دیا گیا
ہے۔
ا ِس طرح کے لوگ ہر مذہب و مسلک میں ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے
دماغ چھوٹے اور ُم نہ بڑے ہوتے ہیں ا ِس لیے ایسے لوگ دین دھرم
کے معاملے میں اکثر بہت جلد ی آگ بگوال ہو جاتے ہیں یہ لوگ بہت
پ ُ ر اعتماد انداز میں اپنی ناقص رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ مانتے بھی
ہیں کہ ا ُن کی رائے ناقص ہے مگر پھر بھی اظہار کرنا ضروری
سمجھتے ہیں۔ ا ِس دنیا میں ہر مذہب کے لوگ اپنے مذہب کی اصل
تعلیمات سے غافل ہیں اور اسی لیے ایسی ناقص را ئے رکھنے والے
لوگ دین اور علم کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو بہکانے میں کامیاب ہو
جاتے ہیں۔"
ا ُس نے اپنے ِد ل کی طویل تقریر س ُ ن کے کہا "اے ِد ل ت ُو ٹھیک کہتا
ہے لیکن ا ُس کی ِد ل آزاری ہوئی بس یہ بات مناسب نہیں لگی مجھے۔"
تو دل نے کہا "یہ تمھارا ظرف ہے کہ تم یہ محس وس کر رہے ہو۔ یہ
اعلی ظرفی ہے کہ تم اپنے دشمن کو معاف کر دو لیکن جو ال ل ّٰ ہ کا
دشمن ہے ,یا الل ّٰ ہ کی مخلوق کا دشمن ہے ,ا ُسے معاف کرنے کا
اختیار تمھارے پاس نہیں ہے۔ یہاں بات ظرف کی نہیں ذمہ داری کی
ہے۔ جو شخص لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش میں لگا ہو ا ُس کی
ِد ل آزاری کر دینی چاہیے ,ہو سکتا ہے کہ ا ِسی بہانے وہ را ہِ راست
پر آ جائے اور اگر یہ نہ ہو تو کم از کم اگلی بار کسی سے ایسی بات
کرتے ہوئے وہ ایک بار سوچے تو صحیح کہ وہ جو بات کہنے جا رہا
ہے ا ُس کا مکمل علم بھی ہے ا ُس کے پاس یا نہیں۔" ا ُس نے کہا "میں
سمجھتا ہوں تیری بات لیکن میں تو سب کو ایک ہونے کا درس دینا
236
چاہتا ہوں۔" تو دل نے ا ُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا "سب لوگ ایک
نہیں ہو سکتے ,حق و باطل قیامت تک کے لیے ہیں۔ سب کو ایک
کرنے کی کوشش اچھی ہے لیکن سب کسی ایک جانب تو نہیں آ سکتے
نا۔ کوئی نہ کوئی تو مخالف رہے گا ہی۔ اور جو بات تم کہنے جا رہے
ہو ,ا ُس میں تو مخالفوں کی قطار لگنے والی ہے۔ کس کس کی ِد ل
آزاری سے بچنے کی کوشش کرو گے۔؟ اور اگر یہی کرتے رہو گے
تو اپنی بات کیسے پہنچاؤ گے لوگوں تک۔؟ ا ِس لیے حق بات کے بیان
میں حق کے سوا کسی کی پرواہ مت کرنا۔ ب ِ نا تصدیق بات کرنے والے
بہت ہوتے ہیں تصدیق کے ساتھ بات کرنے واال کوئی کوئی ہوتا ہے۔
اور بات کی تصدیق حدیث کا ریفرینس جان لینے سے نہیں بلکہ دل
کے اقرار سے ہوتی ہے۔ اگر ریفرینس سے دل کی تصدیق ہو جاتی
ہوتی تو آج زمین پر ایک ہی مذہب ہوتا۔ اگر تمھیں تورات یا انجیل
کے صدیوں پرانے ن ُ سخے مل جائیں تو کیا ا ُنہیں پڑھ کر تم اپنا مذہب
بدل لو گے۔؟ مذہب تو دور لوگ محض احادیث کے ریفرنسز سے خود
اپنے دل کو اپنے مسلک پر بھی راضی نہیں کر پاتے۔ کتابیں پڑھ
لینے سے تصدیق نہیں مل جاتی ,تصدیق تب تک نہیں ملتی جب تک
کہ ِد ل کو احساس حاصل نہ ہو۔ حق کو م حسوس کیے بغیر انسان اپنے
جسم کو اپنے دماغ کو راضی کر سکتا ہے لیکن ا ِس سے ِد ل راضی
نہیں ہوتا۔ ب ِ نا تصدیق کے بات آگے بیان کر دینے والوں کو اسی لیے
ناپسند کیا گیا ہے کیونکہ تصدیق سے خالی زبان کا علم فتنہ کے سوا
کچھ بھی نہیں۔ آج ہر مذہب و مسلک بلکہ زندگی کے ہر ش ُ عبے میں
ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنے ادھورے علم سے دوسرے لوگوں
کا نقصان کرنے کے در پے رہتے ہیں۔ بس یہی غلطی ہے ہماری کہ
ہم ایسے لوگوں کو جواب دینے کی جگہ ا ُن کی ہاں میں ہاں مالنے
لگ جاتے ہیں۔ اگر انسانوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہو تو ا ُنہیں سب
سے پہلے ا پنے ادھورے علم کے اظہار سے روکنے کی کوشش کرو
تاکہ لوگ مکمل بات کرنے والوں کی بات پر کان دھر سکیں۔" ا ُس نے
کہا "اے دل میں پہلے کبھی تجھ سے جیت سکا ہوں جو آج جیت جاؤں
گا۔؟ ت ُو ٹھیک کہتا ہے مگر پھر بھی میں کم سے کم ایک بار اپنی بات
سب کو سمجھانے کی کوشش ضرور کروں گا پھر الل ّٰ ہ کی مرضی وہ
جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گ ُ مراہ کرے۔"
237
مسج ِد نبوی میں ا ُسے بہت سے لوگ ملے جنہیں وہ جانتا نہیں تھا۔ ا ُن
انجان لوگوں میں کچھ ایسے تھے کہ انہیں دیکھ کر دل عقیدت سے
ج ھُ کا جاتا تھا اور کچھ ایسے تھے جنہیں دیکھ کر ہی ا ُس کا دل ا ُنہیں
سخت الفاظ میں مخاطب کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ا ُس نے دونوں
جگہ دل کو سنبھالنے کی کوشش کی اور خود کو میانہ روی پر مائل
رکھنے کی کوشش کی۔
لوگوں کے بارے میں سوچتے ہوئے ا ُسے اکثر خیال آتا کہ اقبال کے
اشعار جو انہوں نے "ابلیس کا پیغام اپنے سیاسی فرزندوں کے نام"
کے عنوان سے کہے تھے ,آج ہم ان اشعار کی ایسی تصویر بنے
بیٹھے ہیں گویا ابلیس کا وہ فرمان ا ُس کے سیاسی فرزند حرف بہ
چ کے ہوں۔
حرف پورا کر ُ
ال کر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں
زناریوں کو دیر کہن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بد ن سے نکال دو
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیالت
اسالم کو حجاز و یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ عالج
مال کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو
اقبال کے نفس سے ہے اللے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چم ن سے نکال دو
238
''باب۔ '' 00
مدینہ میں اپنے سبھی دن رات ا ُس نے مسج ِد نبوی میں یا اپنے ہوٹل
کے کمرے میں گ ُ زارے۔ ا ُس کے ساتھ کے سب لوگ مختلف زیارتوں
پر گئے مگر وہ کسی زیارت پر نہیں گیا۔ ا ُس کی والدہ اور ا ُس کے
ساتھ موجود اکثر لوگوں کو ا ُس کی یہ حرکت ناگوار گ ُ زری ۔ مگر ا ُس
نے کسی کو کوئی جواب نہیں دیا۔
ا ُس کا ماننا تھا کہ ہم کسی ظاہری مقام سے الل ّٰ ہ کے قریب یا دور نہیں
ہو سکتے بلکہ وہ تو گناہ اور ثواب کے بارے میں بھی یہی فلسفہ
رکھتا تھا کہ کوئی گناہ انسان کو الل ّٰ ہ سے دور نہیں کرتا اور نہ ہی
ثواب الل ّٰ ہ کے قریب کرت ا ہے۔ ا ُس کے کسی دوست نے ا ُس کی یہ بات
س ُ ن کر کہا "بھائی عجیب سائنس ہے تیری ,اگر گناہ ثواب بندے کو
قریب یا دور نہیں کرتے تو گناہ ثواب کا مقصد کیا رہ گیا۔" تو ا ُس نے
کہا "جو ہر جگہ موجود ہو ا ُس سے کیسی دوری اور کیسا ق ُ رب۔ یہ
گناہ ثواب انسان کی اپنی سوچ کے پ ردے ہیں۔ اصل میں جب ہم گناہ
کرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو پست کر رہے ہوتے ہیں۔ انسان کا ایک
اصل مقام ہوتا ہے اور ا ُس اصل مقام سے پست درجات کے بہت سے
کام انسان پر فرض ہوتے ہیں۔ ا ِس بات کو یوں دیکھو کہ جیسے کھانا
پینا وغیرہ انسان کی شخصیت کا ح صّ ہ نہیں ہے بلکہ ا ُس کی جسمانی
ضرورت ہے۔ وہ کسی بھی درجے کا انسان ہو ا ُس کے لیے کھانا پینا
ضروری ہے لیکن ہم کسی انسان کو ا ُس کے کھانے پینے سے نہیں
بلکہ ا ُس کے اخالق و کردار کی بنیاد پر پرکھتے ہیں ہر شخص اپنے
درجات سے ا ُتر کر ن ِ چلے درجات پر جاتا ہے اور پھر واپس اپنے
اعلی شخص رفع حاجت کرتا ہے, ٰ اعلی سے
ٰ اصل مقام پر آ جاتا ہے۔
ہم بستری کرتا ہے ,لیکن یہ سب ا ُس کا کردار نہیں ہوتا۔ ایک جائز حد
ہے جہاں تک انسان جا سکتا ہے ,ا ُس حد سے تجاوز انسان کو گناہ
میں ُم بتال کرتا ہے۔ گناہ کرنے سے انسان اپنے نفس کی نظر میں چور
بن جاتا ہے۔ جیسے ک سی شخص کے سامنے کوئی گناہ کرنا انسان کو
ا ُس شخص کی نظر میں ِگ را دیتا ہے اور اس وجہ سے ہم خود ا ُس کے
سامنے بھالئی کی بات کرتے ہوئے جھجھک تے ہیں۔ جیسے جس
239
شخص کو پتا ہو کہ ہم نماز کے پابند نہیں ہیں ا ُس شخص کو ہم نماز
پڑھنے کا کہتے ہوئے جھجھکتے ہیں لیکن جو ہمی ں نہیں جانتا ا ُس
کے نماز نہ پڑھنے پر ہم ا ُسے سختی سے ٹوکنے سے بھی باز نہیں
آتے۔ اسی طرح ہم اچھائی یا ب ُ رائی کر کے اپنے نفس کی نظر میں ب ُ لند
یا پست ہوتے ہیں جسے ہم عام طور پر الل ّٰ ہ کے قریب یا دور ہونا
سمجھتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو ی ہی
نفس ا ُس کا آئینہ بن کر ا ُس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے کہ ت ُو نے
فالں گناہ کر لیا اب ت ُو الل ّٰ ہ سے دور ہو گیا ہے یا پھر یہ کہ ت ُو نے
فالں نیکی کی اب تو ت ُو الل ّٰ ہ کے بہت قریب ہو گیا ہے۔ یہ دونوں
سوچیں باطل ہیں۔ الل ّٰ ہ اعمال سے نہیں خلوص سے ملتا ہے اور
خلوص یہی ہے کہ اپنا آپ ا ُس کی ذات میں گ ُ م کر دیا جائے۔ ا ُسے گناہ
و ثواب ,اجر و عذاب کی سوچ سے ہٹ کر سوچا جائے۔ ایک دوست
کی طرح ا ُسے ہر وقت ساتھ رکھا جائے اور ایک دوست کی طرح
مخاطب کر کے ا ُس سے بات کی جائے" ا ُس کے دوست نے حیرت
سے کہا "دوست کی طرح مخاطب کر کے کی سے بات کی جا سکتی ہے
الل ّٰ ہ سے۔؟ ا ُس سے بات کرنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ ب ِ نا وضو کے
تو ہم نماز نہیں پڑھ سکتے ا ُس سے ہمکالم ہونا تو دور کی بات ہے۔"
تو ا ُس نے کہا کہ "اسی لیے تو الل ّٰ ہ نے کہا کہ میں اپنے بندے کے
گمان کے مطابق ہوں وہ میرے ساتھ جیسا چاہے گمان ک رے۔ جو لوگ
ا ُسے ثواب ,عذاب ,حساب ,کتاب واال سمجھتے ہیں ا ُن کے ساتھ وہ
ویسا ہی بن کے ملتا ہے اور جو لوگ ا ُسے اپنا دوست سمجھ کر ساتھ
رکھتے ہیں ا ُن کے ساتھ وہ دوست بن کر ہی رہتا ہے۔ جیسے کسی
بھی غلطی کے باوجود اپنی ماں سے انسان یہ امید رکھتا ہے کہ وہ
ا ُسے معا ف کر دے گی ا ُسی طرح کی امید الل ّٰ ہ سے بھی رکھنی چاہیے
اور کسی گناہ کو اپنے اور الل ّٰ ہ کے بیچ حائل نہیں کرنا چاہیے۔ اصل
دوری یہی ہے کہ الل ّٰ ہ کی جانب جاتے ہوئے کسی خطا کو مانع سمجھا
جائے۔ یہ نفس ہے جو انسان کو کسی نہ کسی بہانے الل ّٰ ہ کی جانب
جانے کا حوصلہ ا کھٹا کرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ بس
پہال قدم ہی فیصلہ کرتا ہے کہ انسان میں راہ چلنے کا حوصلہ ہے کہ
نہیں ,اور شیطان اسی پہلے قدم کو روکنے کے لیے انسان کی سوچ
میں ک ُ وٹ ک ُ وٹ کر یہ بات بھرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ت ُو ال ل ّٰ ہ کی
240
جانب پلٹ نہیں سکتا۔ جو لوگ پھر بھ ی حوصلہ کرتے ہیں شیطان
ا ُنہیں پاکی ناپاکی کی فکر میں مبتال کرتا ہے اور مسائل میں ا ُلجھانے
کی کوشش کرتا ہے۔ اب کوشش تو شروع ہو گئی لیکن شک جان نہیں
چھوڑتا۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو بدنی پاکیزگی کے حوالے سے
خود کو مطمئن کر پاتے ہیں۔ اور سوچتے ہیں کہ جیسا بھی ہ وں الل ّٰ ہ
کے سامنے حاضر ہو جانا چاہیے کیونکہ میں ہر حالت میں ا ُسی کے
سامنے حاضر ہوں۔ ہر انسان جانتا اور مانتا ہے کہ ہر حالت میں وہ
الل ّٰ ہ کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ گناہ کے ارادے سے لے کر گناہ کر
لینے کے بعد تک انسان کسی کی نظر میں ہو یا نہ ہو لیکن الل ّٰ ہ کے
سامنے ضرور ہوتا ہے ,یہ بات ا ِس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کسی
بھی حال میں الل ّٰ ہ سے دور نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف ایک احساس یا
ایک سوچ ہوتی ہے جو ا ُس کی روح کو مفلوج کر رہی ہوتی ہے۔ اکثر
لوگ نماز ترک کر دینے کا ذمہ دار لباس کی ناپاکی کو قرار دے کر
اپنے دل کو تسکی ن پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ
عمل ,سوچ اور کوشش کو اکھٹا کر کے پاکی ناپاکی کے شک پر قابو
پانے کی کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو شیطان انہیں مذہب
ج ڑی باتوں میں ا ُلجھاتا ہے اور یہ میں موجود مسلکوں کی تقسیم سے ُ
باتیں نہ ختم ہونے والی ہیں۔ کس کس کو ماننا ضروری ہے اور کس
کس کو نہ ماننا ضروری ہے۔ کس طریقے سے نماز ہوتی ہے اور کس
طریقے سے نماز نہیں ہوتی ,کس کس کا عمل درست نہیں تھا ,کون
کون گمراہ ہوا اور کون راہ پر رہا ا ِس کا پرچار کر کر کے ایک
دوسرے کو برباد تصور کرنا ہی تصور کی بربادی اور فساد کی جڑ
ہے ۔ ال ل ّٰ ہ اپنی تمام مخلوق کے لیے کافی ہے۔ وہ ہر انسان کا رب ہے۔
ا ُس کی جنت دوزخ الل ّٰ ہ کے ہاتھ ہے الل ّٰ ہ کی مرضی ہے کہ وہ ا ُس
سے راضی ہو گا یا نہیں۔ لیکن ا ِس بات کو لے کر ہم کیوں ایک
دوسرے کی جنت دوزخ کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں۔؟" ا ُس کے
دوست نے پوچھا تو پھر ش یطان سے بچنے کا کیا راستہ ہے کیا ہے وہ
دین جسے تھام کہ ہم شیطان کی چالوں سے بچ سکتے ہیں۔؟ شیطان
بہت طاقتور ہے ا ُس کے پاس اتنے سارے حربے موجود ہیں۔ " تو ا ُس
نے کہا "دین ایک دوسرے کے عیب بیان کرنا ایک دوسرے کو ا ُس
کے عقائد کے اعتبار سے کافر ,مشرک گرداننا نہی ں ہے۔ دین سالمتی
241
کا نام ہے۔ دین اپنی اصالح کا نام ہے۔ انبیاء ,اولیاء ,صالحین ا ِن سب
کا ذکر لوگوں تک قرآن و حدیث اور دیگر کتابوں کے ذریعے ا ِس لیے
پہنچایا گیا تاکہ لوگ اپنی اصالح کریں اور ا ُن کے جیسے کردار کا
حامل بننے کی کوشش کریں۔ دنیا کے کسی بھی مذہب و مس لک کے
ماننے والے جتنا زور دوسرے لوگوں پر اپنے پیشوا کی عظمت ثابت
کرنے میں لگاتے ہیں ا ُتنا زور اگر وہ اپنے پیشوا کا کردار اپنانے
میں صرف کریں تو لوگ خود بہ خود ا ُن کے پیشوا کو حق مان لیں
گے۔ لیکن سب کے سب محض باتوں سے اپنا مذہب و مسلک ثابت
کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ اپنے لوگوں میں بیٹھ کر ا ُن
سے اپنے فہم و فراست کی داد وصولنے کی حد تک یا لوگوں کو اپنے
اپنے مسلک سے جوڑے رکھنے کی غرض تک تو ٹھیک ہے لیکن
ایک معاشرے کی حیثیت سے ,بنی نو انسان کی حیثیت سے زمین پر
امن کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے یہ طریقہ غیر مو ضوع ہے۔
تمام لوگ کسی ایک مذہب کا حصہ تب بن سکتے ہیں جب کسی مذہب
کے لوگ آپسی جھگڑے ختم کر کے تمام انسانوں کے لیے سالمتی کا
باعث بننے کی کوشش کریں گے۔ یہ سب تب ممکن ہے جب ہم ہر ایک
کو مذہب و مسلک اور ذات برادری وغیرہ سے ہٹ کر صرف انسان
مانتے ہوئے ا ُس کی اور ا ُس کے مذہب کی عزت کرنے کی کوشش
کریں گے۔ دین کی بات یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو اپنے اندر
موجود حرص ,ہوس ,اللچ ,ب ُ غض ,اور نفرت جیسے دشمنوں سے لڑ کر
ایک بہتر انسان بننے کی کوشش کرنے کا سبق دیا کریں ,دنیا اور
شیطان سے مقابلہ کرنے اور ایک دوسرے کو ال ل ّٰ ہ کی جان ب بڑھنے کا
حوصلہ دینا دین کی بات ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی بات کرتا ہے جو
انسان کو انسان کا دشمن بناتی ہو تو وہ کوئی بھی ہو وہ دین کی نہیں
بلکہ گمراہی اور فساد کی بات کر رہا ہے۔ کیونکہ رحمٰ ن و رحیم ذات
کا دین انسانیت کے لیے رحمت بننے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تو جو
خ لقی اور رحیمی کو خ دا سے بھالئی کرنے کو ,خوش ُ ق ُ
لوگ مخلو ِ
دین سمجھتے ہیں وہ کسی بھی مسلک و مذہب میں رہتے ہوئے ال ل ّٰ ہ کو
راضی کر لیتے ہیں اور جو یہ نہیں سمجھ پاتے ا ُن کا کسی بھی
مسلک و مذہب کو اپنانا بےمعنی ہے۔" ا ُس دن ا ُس کا دوست تو ا ُس کی
بات اچھی طرح سمج ھ گیا تھا لیکن وہ یہ بات جانتے ہوئے کہ ہر
242
شخص میری بات کو نہیں سمجھے گا ,اپنی بات ہر شخص تک ایک
بار ضرور پہنچانے کا خواہشمند تھا۔
مدینے کی فضائیں ا ُس کے وجدان کو وسیع سے وسیع تر کر رہی تھیں
اور انسانوں کی گمراہی کا غم ا ُس کے دل کو ُر الئے جا رہا تھا۔ وہ
بےچ ین تھا لوگوں کو کسی ایسی راہ کی خبر دینے کے لیے جو انہیں
ث رحمت بننے ا ُن کی جگہ پر رہتے ہوئے ,تمام لوگوں کے لیے باع ِ
کی سعی کرنے کا درس دے سکے۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ رحمت
ث
خ دا کے لیے باع ِ اللعالمین صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کا دین مخلو ِ
ق ُ
رحمت بننے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔
243
''باب۔ '' 00
رات دن تیزی سے گ ُ زر رہے تھے ا ُس کی آتے جاتے ایک ہی رٹ تھی
"یا رسول الل ّٰ ہ میرے لوگوں پے اپنی رحمت برسا دیجیئے۔ میرے
لوگوں کی مدد کیجیئے۔ الل ّٰ ہ میاں سے میری فریاد کہہ دیجیئے۔ میں
جانتا ہوں کہ ہم لوگ بہت گناہ گار ہیں۔ اگر الل ّٰ ہ کی رحمت ہم سے
ہماری گناہ گاری کی وجہ سے دور ہے تو الل ّٰ ہ سے کہیے کہ ان سب
روز حشر لوگ ایکِ کے گناہ مجھے دے دے۔ میں نے س ُ نا ہے کہ
چ رانے کی کوشش کرتے ہوں گے کہ کہیں یہ ہم دوسرے سے نظریں ُ
سے ہماری نیکیاں نہ مانگ لے۔ یہ بھی س ُ نا ہے کہ لوگوں کے حساب
کتاب کے دوران ا ُن کے گناہ و ثواب دوسرے ` لوگوں کو دے دیے
جائیں گے۔ تو میں رہتی دنیا میں اپنا آپ الل ّٰ ہ کے حضور پیش کرتا
ہوں کہ میرے لوگوں کے سب گناہ مجھے دے دیجیئے لیکن انہیں ایک
کر دیجیئے۔ اب بس کر دیجیئے ہم انسان اور خصوصا ً مسلمان پوری
دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ ہمیں معاف کر دیجیئے ہمیں پھر
سے اپنی جانب پلٹا لیجیئے۔ میرے لوگوں کو معاف کر دیجیئے۔"
مسج ِد نبوی میں گ ُ زارے اپنے تمام وقت میں ا ُس نے صرف ایسی ہی
د ُعائیں مانگیں۔ کبھی دل میں اپنے لیے کچھ مانگنے کا خیال آتا تو وہ
بار بار ایک ہی ب ات د ُہراتا کہ "میرا رب مجھے جس حال میں رکھے
میں ا ُس سے راضی ہوں۔ مجھے الل ّٰ ہ سے کچھ اور طلب نہیں ہے۔"
اکثر اپنے لیے کچھ طلب کرنے کا خیال آنے پر وہ الحول بھی پڑھتا
پھر کچھ سوچ کر کہتا کہ "ال ل ّٰ ہ سے اگر اپنے لیے کچھ مانگنا ہی ہے
تو پھر لوگوں تک ال ل ّٰ ہ کا پیغ ام پہنچانے کا ذریعہ ہونا طلب کرنا
چاہیے۔" پھر وہ یہی مانگتا کہ ا ُسے الل ّٰ ہ کی سچی راہ عام کرنے کا
سبب ہونا نصیب کیا جائے۔
ایک صاحب جن کا نام عطا الل ّٰ ہ تھا ,وہ اور ا ُن کے چند رشتے دار ا ُس
کے حج کے سفر کے ساتھی تھے۔ عطا الل ّٰ ہ صاحب بھی ایک سرکاری
مالزم تھے اور جلد ریٹائر ہونے والے تھے۔ مسج ِد نبوی آتے جاتے
ہوئے وہ تقریبا ً ہمیشہ ا ُس کے ساتھ ہوتے تھے۔ مسج ِد نبوی سے آخری
بار باہر آتے ہوئے وہ عطا الل ّٰ ہ صاحب کے کندھے پے ہاتھ رکھے
244
دوسرے ہاتھ سے اپنی چھڑی سنبھالتے ہوئے دھیرے دھیرے آگے بڑھ
رہا تھا اور بار بار دل کی زباں سے ایک ہی بات دہرا رہا تھا "یا
رسول الل ّٰ ہ میرے لوگوں کو معاف کر دیجیئے"۔ وہ بار بار پلٹتا,
روضۂ رسول کی جانب دیکھتا کہ شاید دل کو کوئی آواز سنائی دے کہ
"جا تیرے لوگوں کو بخش دیا گیا" اور کچھ نہ سنائی دینے پے دوبارہ
آگے کی جانب قدم ا ُٹھانا شروع کر دی تا۔
اقبال کا یہ شعر اکثر ا ُس کے ذہن میں گردش کرتا رہتا تھا۔
ت ویراں سے .. نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کش ِ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ..
مسجد کے باہری دروازے کے قریب پہنچ کر ا ُس نے پھر پلٹ کے
روضۂ رسول کی جانب دیکھنے کا ارادہ کیا تو اچانک ا ُس کے دل
میں ایک جوش سخاوت سے بھرپور آواز کی گ َ رج س ُ نائی دی "کون
ہیں تیرے لوگ۔؟" ایک پل کو ا ُس کا دل دھڑکنا بھول گیا ,زبان گنگ
سی ہو گئی مگر دوسرے ہی پل ا ُس نے موقع غنیمت جانتے ہوئے
فور ا ً کہا "جتنے انسان ہیں سب میرے لوگ ہیں۔" دل زبانی یہ بات
کہتے کہتے ا ُس ن ے اپنا ُر خ روضۂ رسول کی جانب پھیرتے ہوئے کہا
"یا رسول الل ّٰ ہ میں تمام انسانوں کی بھالئی چاہتا ہوں۔ میں اپنے وقت
کے بد ترین لوگوں سے لے کر بہترین لوگوں تک کے لیے خیر مانگنا
چاہتا ہوں۔ ہر سینے میں دل ہے ,تو ہر دل میں رب بسنا چاہیے۔ یہ
گناہوں میں ڈوبے ,شیطان کے ہاتھوں کٹھ پ ُ تلی بنے لوگ ,میرے لوگ
ہیں ,یہ ایک دوسرے کا خون بہانے والے ,غریبوں کا خون چوسنے
والے ,میرے لوگ ہیں۔ وہ لوگ جو ہر پل مر مر کے زندگی گ ُ زارتے
ہیں اور پھر بھی ال ل ّٰ ہ کو یاد نہیں کرتے ,وہ بھی میرے لوگ ہیں۔
یارسول الل ّٰ ہ یہ ظالم کرنے والے اور ظلم سہنے والے ,سب میرے
لوگ ہیں۔ میں ا ِن سب کی بھالئی چاہتا ہوں۔ یارسول الل ّٰ ہ میری بس یہی
عرض ہے کہ میرے لوگوں پے رحم ہو۔ یارسول الل ّٰ ہ میری گزارش
ہے کہ نس ِل آدم پے رحم کیا جائے اور ا ُنہیں کشت و خوں سے نکال
لیا جائے۔
یارسول الل ّٰ ہ ہمارے وقت کے پارسا لوگ گناہ گاروں سے دور رہتے
ہیں کہ کہیں ا ُن کی پارسائی پے حرف نہ آئے۔ اور گناہ گار نیک
لوگوں کے رویے کی وجہ سے نیکی ہی سے بدظن ہو جاتے ہیں۔ ب ُ رے
245
لوگ ,ب ُ روں کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ جو خود کو اچھا
سمجھتے ہیں وہ صرف اپنے جیسوں کو ہی اچھائی کے الئق سمجھتے
ہ یں۔ یارسول الل ّٰ ہ ہم سب ایک دوسرے کے خالف شیطان کے مددگار
بنے بیٹھے ہیں۔ اگر کسی کا گناہ پتا چل جائے تو ا ُسے ا ِس قدر زلیل
کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو گناہ کو ہی زندگی بنانے پے مجبور ہو جاتا
ہے یا پھر زندگی ہی ختم کر لیتا ہے۔ الل ّٰ ہ معاف کر دیتا ہے لیکن ہم
لوگ ایک دوسرے کو کبھی نہیں معاف کرتے۔ عمر بھر ایک ہی خطا
کی سزا دیتے رہتے ہیں۔ اگر آپ بھی ہماری دادرسی نہیں کریں گے
تو ہم گناہگاروں کی کون سنے گا۔ میں اپنے وقت کے گناہگاروں کی
طرف سے آپ سے فریاد کرتا ہوں ہماری مدد کیجیئے۔ میں الل ّٰ ہ میاں
سے اکثر کہتا ہوں کہ یہ سب میرے نہیں بلکہ تیرے لوگ ہیں پھر پتا
نہیں کیوں ا ِن سب کا درد مجھے محسوس ہوتا۔ نہ جانے کیوں مجھے
لگتا ہے کہ اگر یہ گناہگار پلٹے تو دنیا پلٹ دیں گے۔ میں کچھ کرنا
چاہتا ہوں ا ِن لوگوں کے لیے ,الل ّٰ ہ کی جانب پلٹنے میں لوگوں کی مدد
کرنا چاہتا ہوں۔ اگر میری نی ت میں کھوٹ ہے یا میرے جیسا خطاکار
ا ِس سعادت کے الئق نہیں ہے تو جو ا ِس الئق ہے ا ُسے دنیا پے ظاہر
کر دیجیئے۔ کچھ ایسا ہو جائے کہ جسے دیکھ کر لوگ ا ُس کی جانب
رجوع کر سکیں۔ بس اور کچھ نہیں چاہیے مجھے۔" ا ُسے کوئی جواب
نہ ِم ال اور وہ سر ج ھُ کائے اپنی رہائش کی جان ب چل پڑا۔ مگر اب ا ُس
کے دل کو ایک سکون سا تھا کہ ا ُس نے اپنی عرضی پیش کر دی۔
عالمہ اقبال کا کالم ,نسل آدم کے لیے ا ُن کے دل میں موجود شدید
ق کائنات سے محبت و فکر کا ,منہ بولتا ثبوت ہے۔ مگر ایک جگہ خال ِ
گویا مح ِو شکوہ ہوتے ہیں اور ا ُس کی کائنات کی فکر کو ا ُسی کے
حوالے کرتے ہوئے کچھ اشعار فرماتے ہیں۔ ا ُس کی حالت بھی اقبال
کے ان اشعار سے ملتی جلتی تھی۔
249
''باب ۔ '' 01
مدینہ سے واپس آ کر حج تک کا اپنا تمام وقت ا ُس نے مکہ میں ہی
گ ُ زارا۔ ایک صاحب جن کا نام 'نیاز' تھا ,پاکستانی تھے اور کئی سال
سے م ک ّ ہ میں مقیم تھے۔ ا ُن کی وساطت سے ا ُسے حج سے پہلے
نی اور جمرات وغیرہ جانے کا موقع ِم ال۔ ا ِس دوران میدا ِن عرافاتِ ,م ٰ
ا ُسے جب ِل رحمت (وہ مقام جہاں آد مٌ کی توبہ قبول ہوئی تھی) پے
جانے کا موقع ِم ال۔ جب وہ جب ِل رحمت کے قریب پہنچا تو سب نے
ا ُسے اوپر ا ُس نشان تک جانے سے منع کیا۔ مگر ا ُس نے ا ِصرار کیا
کہ وہ جائے گا۔ نیاز صاحب کے کندھے پے ہاتھ رکھے ا ُس نے
سیڑھیاں چڑھیں اور ا ُس نشان ت ک جا کر ایک بار پھر الل ّٰ ہ سے فریاد
کی اور کہا کہ "جس مقام پر ت ُو نے آد مٌ کی توبہ قبول کی ا ُس مقام پر
میں تجھ سے نس ِل آدم کی توبہ کا سوال کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ت ُو
توبہ قبول کرنے واال ہے ا ِس لیے ت ُو توبہ کرنے کی توفیق ا ُسی کو
دیتا ہے جس کی توبہ ت ُو نے قبول کرنی ہوتی ہے۔ اے رب ہمیں وہ
توبہ دے دے۔"
حج سے پہلے کے تمام دن ا ُس نے مکہ میں رہائشگاہ پر ہی گ ُ زارے۔
نماز جمعہ کے سوا تقریبا ً سبھی نمازیں ا ُس نے رہائش کے قریب
موجود مسجد کی جگہ اپنے کمرے میں ہی پڑھیں۔ معزوری کے باعث
ا ُس کے لیے روز خانہ کعبہ جانا مشکل تھا اور پھر ا ُس کی وجہ سے
ا ُس کی والدہ کو بھی کافی زحمت ہوتی تھی۔ ا ِس لیے ا ُس نے حد سے
بڑھنے کی کوشش نہیں کی۔
عدیل اور عمیر نامی دو لوگ اور حج کے سفر میں ا ُس کے ساتھ
تھے۔ ویسے تو عدیل اسالم آباد میں ا ُس کے گھر کے پاس ہی رہتا تھا
لیکن کبھی مالقات نہیں ہو س کی۔ اور عمیر بھی اسالم آباد ہی سے تھا۔
حج کے تمام سفر میں عدیل اور عمیر نے بھی ا ُس کی بہت مدد کی۔
سامان ا ُٹھانا ,کھانا النا یا کوئی اور کام کاج ہوتا تو یہ سب ا ُس کی مدد
میں پیش پیش ہوتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے وسیلے سے ال ل ّٰ ہ
نے ا ُس کے لیے حج کا سفر انتہا ئی آسان بنا دیا تھا۔ جب حج کا وقت
منی جانے کے لیے ٰ آیا تو وہ احرام باندھے رہائش سے باہر آیا اور
250
بس میں سوار ہونے کے مرحلے سے گ ُ زرا۔ لوگوں میں ایک عجیب
سی بےصبری تھی۔ ہر شخص بھاگ بھاگ کر بس میں سوار ہونا چاہ
رہا تھا دھکم پیل میں ا ُس کے لیے بس میں سوار ہونا کافی مشکل تھا
اور پھر پاکستانی عوام کے لیے حج کا انتظام بھی کرپشن کی بدولت
کافی خراب تھا۔ بڑی مشکل سے ایک بس میں جگہ ملی تو رہائشگاہ
منی کی جانب جاتے ہوئے راستے میں دوسرے ممالک سے آنے ٰ سے
والے حاجیوں کو بھی بس میں سوار ہوتے دیکھنے کا موقع مال۔
دوسرے ممالک کے حاجیوں کو قطار بنا کر نظم و ضبط کے ساتھ
بسوں میں سوار ہوتے دیکھ کر ا ُس کا سر شرم سے ج ھُ ک گیا۔ کیونکہ
ایسا نظم و ضبط پاکستانی حاجیوں میں کہیں نظر نہیں آتا تھا۔ وہ لوگ
جنہیں اکثر پاکستانی حقارت سے کاال یا حبشی کہتے ہیں۔ وہ لوگ جن
کے چھوٹے قد یا چھوٹی آنکھ یں اکثر لوگوں کو عجیب یا مضحکہ خیز
محسوس ہوتی ہیں ,وہ چھوٹی آنکھوں اور کالی رنگت والے لوگ ا ُسے
نظم و ضبط میں اپنے ہم وطنوں سے بہت آگے دکھائی دے رہے تھے۔
ا ُسے احساس ہوا کہ اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے آج کل ہمارے
پاس صرف اور صرف اپنا نام و نسب ہی رہ گیا ہے۔ کردار سے خالی
لوگ ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے صرف اپنے
دنیاوی ُر تبے یا مال و زر اور خاندان کا نام لیتے ہیں۔ وسوسہ شاید
انسان کے ساتھ یہی دھوکہ کرتا ہو گا کہ ا ُس کی سوچ کو حق کے
معیار سے ہٹا کر باطل پر رکھ دیتا ہو گا اور جب معیار ہی بدل گیا تو
سوچ خود بہ خود باطل ہو جاتی ہے۔ لوگوں پر ایک عجیب سا خوف
سوار رہتا ہے۔ اور ننانوے فیصد یہ خوف بےجا ہوتا ہے۔ مرد کی
نسبت یہ خوف عورتوں میں ذیادہ پایا جاتا ہے۔ جب تک بیٹا گھر نہ آ
جائے تب تک بیٹے کی ماں جاگتی رہتی ہے اور باپ پریشان تو ہوتا
ہے لیکن اکثر ا ُسے نیند آ ہی جاتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو ب ُ رے
خیال آتے ہیں۔ یہ نہ ہو جائے اور وہ نہ کھو جائے ,ایسا ہ ُوا تو۔؟ اور
ایسا نہ ہ ُوا تو۔؟ یہ سب سوال ہم سے ہمارا نفس ہی پوچھا کرتا ہے اور
انسان انہی سواالت سے پیدا ہونے والے خطرات سے ڈرتے ہوئے
انہی خیاالت میں ڈوبے زند گی گ ُ زارتا رہتا ہے۔ کچھ لوگ ان خطرات
میں ڈوبے دنیا کمانے میں لگ جاتے ہیں اور کچھ لوگ آخرت کی چاہ
ج ال رنگ میں لگ جاتے ہیں اور کچھ لوگ دنیا اور آخرت کا ایک ِم ال ُ
251
اپنا کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ اپنا الگ
رنگ تراشنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ا ِن لوگوں
کے پاس دنیا اور آخرت کی نعمتوں کے انبار بھی لگ جائیں لیکن
ایسے لوگ زندگی بھر خود کو نفس اور شیطان سے آزاد نہیں کروا
خ دا سے ناآشنائی میں ہی زندگی گ ُ زار دیتےپاتے اور خود سے اور ُ
ہیں۔ جو شخص اپنے اندر سے آتی آواز کو نہیں پہچانتا کہ یہ نف س کی
صدا ہے یا دل کی آواز۔؟ وہ خودی کو کیا جانے گا۔؟ نفس انسان کو
بےسکون کرتا ہے ,بدلہ ,نفرت ,ناز ,خودغرضی ,بھوک ,ل ذ ّ ت وغیرہ
سب نفس کی خواہشات ہیں جو کسی نہ کسی روپ میں انسان کو
بےچین رکھتی ہیں۔ یہ خواہشات ا ُن لوگوں کو ذیادہ تنگ کرتی ہیں جو
اپنے نفس کو الل ّٰ ہ کی مرضی پر راضی ہونا نہیں سکھاتے۔ غ ُ ربت
اکثر انسان کو اپنی خواہشات مارنا سکھا دیتی ہے۔ لیکن عموما ً لوگ
ا ِسے اپنے لیے عذاب سمجھتے ہیں اور خواہشات کی چاہ میں الل ّٰ ہ کی
راہ بھول جاتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے اندر سے آتی ہر آواز
کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر ا ُس پر عمل کرنے سے پہلے ا ُسے
اچھی طرح پرکھے۔ اگر وہ آواز ,زبان ,آنکھ ,کان ,ناک یا جسم کے
ج ڑی ہے تو وہ نفس کی آواز ہے۔ ایک کسی اور ح صّ ے کی لذت سے ُ
حد تک ا ِن لذتوں کو پورا کرنا فرض ہے۔ جیسے ہر شخص کو کھانے
پینے یا شادی کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن جب کوئی حد سے تجاوز
کرتا ہے تو یہی لذتیں ا ُس کے نفس کو ا ُس پر حاوی کرنے کا باعث
بن جاتی ہیں۔ جب نفس حاوی ہوتا ہے تو اکثر انسان میں خوف پیدا
ہوتا ہے اور لوگ ا ِس خوف کو عبادت سے َر د کرنے کی کوشش میں
لگ جاتے ہیں۔ ا ِس کوشش میں اکثر خواتین زیادہ کامیاب رہتی ہیں۔
مرد کے پاس دنیا کے بہت سے کام ہوتے ہیں جن میں ا ُسے گناہ کے
بہت سے موقعے مل جاتے ہیں اور وہ خود کو عبادت کرنے کے الئق
سمجھنا ہی چھوڑ دیتا ہے لیکن جب دنیا ا ُسے ٹ ھُ کرا دیتی ہے یا جب
وہ دنیا کے الئق نہیں رہتا تو وہ بھی خود کو عبادت کرنے کا عادی بنا
ہی لیتا ہے۔ کچھ لوگ اپ نے نفس کے ساتھ مل کر بغاوت پر ا ُتر آتے
ہیں اور "میں تو بس ایسا ہی ہوں" کا لیبل لگا کر زندگی گ ُ زارنے میں
مصروف ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کے عیب تالش کرنا اور ا ُن کی تشہیر
کرنا ,نفس کی خواہش ہے۔ غیبت ,غصہ ,نفرت ,شہوت سب نفس کی
252
خواہش ہے۔ کسی انسان سے محبت ہو جانا ب ُ رائی نہیں ہے لیکن ا ُس
ایک انسان کو الل ّٰ ہ سے یا الل ّٰ ہ کے فیصلوں سے ذیادہ اہمیت دینا ب ُ رائی
ہے۔ اکثر لوگ کسی بچھڑ جانے والے کی یاد میں اپنی پوری زندگی
ا ُداسی کا دامن تھام کے گ ُ زارنا قبول کر لیتے ہیں۔ اور انہیں یاد ہی
نہیں رہتا کہ الل ّٰ ہ ا ُن کے ساتھ ہے اور ہر ایک سے بڑھ کر ا ُن سے
محبت کرتا ہے۔ کسی کے دیے ہوئے تحفے دیکھ دیکھ کر رونے والے
لوگوں کو الل ّٰ ہ کے تحائف دیکھ کر خوش ہونے کا خیال تک نہیں آتا۔
اگر کوئی محبت کو زندگی سمجھتا ہے تو ا ُسے چاہیے کہ وہ ا ُس سے
محبت کرے جو محبت کا اصل حقدار ہے۔ اور ا ُس کی محبت ک و ہر
محبت پر حاوی رکھے۔ اپنی خوشی اپنا غم سب الل ّٰ ہ کی ذات سے
منسوب رکھے۔ الل ّٰ ہ کے سوا کسی شئے کو اپنے رنج و راحت کی وجہ
نہ سمجھے۔ لیکن یہ سب تب ممکن ہے جب انسان اپنے اندر سے آتی
آواز کو جواب دینے کی عادت ڈالے۔ اپنی خواہش کو اور ِد ل میں پیدا
ہونے والے وسو سوں کو الل ّٰ ہ کی رحمت و حکمت پر یقین کی زبانی
جواب دینے کی کوشش کرے۔ جب دل کو خیال آئے کے میری اوالد کو
کچھ ہو جائے گا تو ا ِس خیال کو فور ا ً جواب دینا چاہیے کہ مجھے الل ّٰ ہ
پے بھروسا ہے وہ یقینا ً اپنی مخلوق پے مہربان ہے اور اگر کوئی
حادثہ پیش آ بھی گیا تو ا ِ سی میں بھالئی ہو گی ,میں اپنے رب سے ہر
حال میں راضی ہوں۔ اپنی سوچ کو الل ّٰ ہ کی یاد دالنے کی عادت ڈالنی
ج ر أت کم سے کم ہو۔" کوئی ا ُس کے اندر چاہیے تاکہ ا ُسے بہکنے کی ُ
بیٹھا کہتا رہتا اور وہ س ُ نتا رہتا تھا۔ "اگر لوگ اپنے اندر چ ھُ پی نفرت
اور خوف پر قابو پانے کی کوشش کریں تو باہر کی دنیا میں بہت کچھ
بدل سکتے ہیں۔ لیکن لوگ شیطان کے ا ِس جال سے ن ِ کل ہی نہیں
پاتے۔ یہی وسوسے ایمان کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں اور یہی وہ
بنیادی چیز ہے جس میں بگاڑ ہر طرح کی گمراہی کا موجب ہے۔ لوگ
اپنے دل کی آواز پہچان ہی نہیں پاتے۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ دل
انسان کو مایوس ہونا نہیں بلکہ حوصلہ کرنا سکھاتا ہے ,دل لوگوں کو
حقارت سے نہیں بلکہ رحیمی اور شفقت سے دیکھنے کا درس دیتا
ہے ,دل محبت کا پیغام دیتا ہے اور الل ّٰ ہ پے یقین کرنا سکھاتا ہے۔ دل
انسان کو کمزور نہیں طاقتور بناتا ہے۔" وہ خود کو س ُ ن رہا تھا اور
253
سوچ رہا تھا کہ یہ سب حکمت عام لوگوں تک کیسے پہنچائی جا سکتی
ہے۔ خود سے ا ُلجھے ہوئے ا ُس نے کچھ اشعار کہے۔
254
''باب۔ '' 00
حج کا تمام سفر ا ُسے بہت کچھ دیکھنے اور جاننے کا موقعہ ِم ال۔ بلکہ
اپنی تمام زندگی ا ُس نے لوگوں سے سیکھنے کی کوشش کی۔ ا ُن کا
درد ,ا ُن کا کرب محسوس کرنے کی کوشش کی اور ا ِس کوش ش میں
اکثر ا ُسے اپنا درد بھول جاتا۔ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو ا ِس بے
چینی سے نکالنے کی کسی ترکیب کی خاطر ا ُس نے اپنی سوچ کو
وقف کر دیا تھا۔ ا ُس کا ذہن ہر وقت کسی حل کی تالش میں رہتا تھا۔
وہ جب بھی لوگوں کو لڑتے جھگڑتے دیکھتا تو ا ُس کا دل بیقرار ہو
جاتا۔ وہ سوچتا کہ ایسے لوگوں کو کس طرح سمجھایا جا سکتا ہے۔؟
نماز
ِ منی پہنچ کر پہلی ہی نماز پر لوگوں میں بحث دیکھنے کو ملی۔
ٰ
عصر کا وقت تھا اور باجماعت دو رکعت پڑھنے کے بعد جب امامت
کروانے والے صاحب نے تیسری رکعت کے لیے تکبیر پڑھی تو کچھ
لوگ تیسری رکعت کے لیے کھڑ ے ہو گئے اور کچھ لوگ بیٹھے
دوسری رکعت مکمل کر کے نماز ختم کر رہے تھے۔ کہ ایک صاحب
نے نماز توڑتے ہوئے ب ُ لند آواز میں کہا "اگر آپ لوگ فالں امام کو
مانتے ہیں تو آپ کو دو رکعت نماز پڑھانی چاہیے اور جو جو فالں
فقہ کے ماننے والے ہیں ا ُنہیں چاہیے کہ چار رکعت نماز پڑھنے کے
بعد اپنا مسلک بھی تبدیل کر لیں"۔ ا ُن صاحب کی یہ حرکت تقریبا ً
سبھی کو کافی ناگوار گ ُ زری کہ اگر انہیں کچھ کہنا ہی تھا تو جماعت
ختم ہونے کے بعد بھی کہہ سکتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ حج کے
منی میں ہی قیام کیا جاتا ہے تو حج کرنے ٰ مناسک پورے ہونے تک
نی میں قیام کے دوران نماز پوری پڑھے گا یا قصر کرے گا۔ واال م ٰ
لوگوں کے پاس اپنا اپنا نقطہ نظر ثابت کرنے کے لیے بس غصہ اور
بدتمیزی ہی رہ گئی ہی شاید ,لوگوں نے دین کسی ایسی شئے کا نام
رکھ لیا ہے جس میں اپنی بات منوانا ہی سب سے اہم نقطہ ہے۔
دورا ِن حج کسی شخص نے کہا "لوگ کتنی مشقت ا ُٹھا رہے ہیں الل ّٰ ہ
ا ِن سب لوگوں کا حج قبول فرمائے" تو ا ُس نے کہا "ال ل ّٰ ہ ہمیں دین کی
سمجھ عطا فرمائے بس یہی قبولیت ہے۔ ہر سال اتنے سارے لوگ حج
کرتے ہیں اگر محض مناسک کی احسن طور پر ادائیگی ہی حج ہوتا تو
255
آج ہم ایک قوم کی حیثیت سے بہتری کی ج انب رواں ہوتے۔ د ُعا
کیجیئے کہ الل ّٰ ہ ہمیں اپنی راہ کی سمجھ عطا فرمائے"۔
الل ّٰ ہ کے بارے میں ا ُس کی سوچ کچھ الگ ہی تھی۔ جب پہلی بار ا ُس
نے اپنی والدہ سے پوچھا تھا "ا ّم ی الل ّٰ ہ میاں کون ہیں۔؟" تو ا ُس کی
والدہ نے کہا "الل ّٰ ہ میاں ہمارے دوست ہیں ,وہ ہر وقت ہمار ے ساتھ
رہتے ہیں ,ہمارا خیال رکھتے ہیں ,ہم سے پیار کرتے ہیں ,سب لوگ
ہمیں چھوڑ دیتے ہیں لیکن الل ّٰ ہ ہمیں کبھی اکیال نہیں چھوڑتا" ا ُس نے
پوچھا "ا ّم ی الل ّٰ ہ میاں صرف ہمارے ہیں نا۔؟" تو ا ُس کی والدہ نے کہا
"نہیں بیٹا۔ الل ّٰ ہ میاں سب کے ہیں۔ اور وہ ہر ایک کے لیے کافی ہیں"
اپنی والدہ کے بیان کردہ گمان کو ا ُس کے معصوم دل نے حرف بہ
حرف جذب کر لیا تھا۔ ا ُس نے الل ّٰ ہ کو ہمیشہ اپنا دوست مانا اور ہر
حال میں ا ُسے اپنے ساتھ محسوس کیا۔ لیکن اپنے ارد گرد کے لوگوں
کو ایک دوسرے کو مذہب و مسلک کی بنیاد پر کافر اور بدبخت
خ دا کے بیچ کہیں ا ُلجھ کر رہ
گردانت ے ہوئے دیکھ کر وہ مذہب اور ُ
گیا۔ عبادت کا کون سا طریقہ درست ہے اور کون سا نہیں ,کس کس کو
چ ا ماننا چاہیے اور کس کس کو جھوٹا کہنا ضروری ہے ,کس مسلک س ّ
کی بنیاد کون لوگ ہیں اور کون سے مذہب کے لوگ زیادہ کمتر ہیں,
کس صحابی کا درجہ ب ُ ل ند ہے اور کون سے ب ُ زرگ زیادہ شان والے
ہیں ,لوگوں کے پاس انہی سوالوں اور جوابوں کے مجموعے کا نام
دین تھا۔ وہ لوگ ایک دوسرے سے دین کی روشنی میں عبادت و
طہارت سے لے کر ہمبستری تک کے اصول جاننے پے تو بہت زور
دیتے تھے لیکن ا ُس دین کی روشنی میں ڈھل کے روشن ہونے کا
چ کا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے نماز سوال ا ُن کے گمانوں سے ِم ٹ ُ
روزے کے طریقوں کو غلط صحیح ثابت کرنے کو فصاحت و بالغت
کا درجہ دیتے۔ کسی آیت کا مفہوم اپنے مطلب کی بات تک لے آنے کو
یا اپنے مطلب کی بات قرآن و حدیث سے ثابت کر دینے کو علم سمجھا
جاتا۔ لوگ اپنی تصحی ح کرنے کو تیار نہیں تھے اور ایک دوسرے کی
تصحیح کرنے کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے تھے۔ حضرت علی کے
نام کے ساتھ رضی الل ّٰ ہ عنہ کہنا چاہیے یا علیہ السالم کہنا چاہیے۔
لوگ اسی بات پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جاتے اور ا ُن
کے فرمان میں موجود نصیحت سے سبق لینا بھ ول جاتے۔ مسجدوں
256
میں ثواب و عذاب کے ق صّ ے ,امام بارگاہوں میں تفضی ِل علی,
درگاہوں پے شا ِن اولیاء ,اور دینی مجلسوں میں صحابہ کی عظمت
ت رسول کا بیان جگہ جگہ جاری تھا مگر ا ُس کے دور میں اور س ُ ن ِ
لوگ ا ِن بیانات سے اپنا آپ نہیں س ُ دھارتے تھے بلکہ ا ُس میں سے
نقطے یاد کرنے کی کوشش کرتے اور ا ُس علم کو دوسرے مسلک و
مذہب پر اپنی برتری کا ثبوت بنا کر محفلوں میں بیان کرتے۔ یہ سب
دیکھ کر وہ سوچتا کہ اگر یہ سب بیان لوگوں کے دل میں انسان و
انسانیت کی محبت پیدا نہیں کرتے تو یہ سب بیان بے س ُ ود ہیں۔ مسئلہ
علم میں نہیں بلکہ تعلیم م یں ہے۔
260
''باب۔ '' 00
وہ اکثر سوچتا کہ جب جب الل ّٰ ہ نے کوئی نبی مبعوث کیا تو کچھ
لوگوں کو تو ا ُس نبی پر اور ا ُس کے کالم پر ب ِ نا کسی دلیل کے دل
سے یقین ہو گیا اور کچھ کے دل کو مع جزات سے تقویت ملی اور وہ
ایمان لے آئے۔ کچھ ایمان ال کر بھی شکوک میں رہے اور کچھ کے
شکوک نے انہیں ایمان ہی نہ النے دیا۔ الل ّٰ ہ اور الل ّٰ ہ کے کالم پر یقین
کی بنیاد ہمیشہ الل ّٰ ہ کے بندے بنے۔ کسی انسان کو دیکھ کر ہی انسانوں
نے الل ّٰ ہ کو پہچانا۔ اگر یوں کہا جائ ے تو یقینا ً درست ہو گا کہ الل ّٰ ہ کے
بندے پر ایمان ,الل ّٰ ہ پر ایمان النے کی وجہ بنا۔ مگر حقیقت میں ایمان
کم ہی لوگوں کو نصیب ہوا۔ لوگ ایک دوسرے سے نبی کا ذکر س ُ نتے
ق ایسا ہے اور وہ ایسے رحیم و شفیق ہیں اور وہ تھے کہ ا ُن کا اخال ِ
سچ بولتے ہیں اور لوگوں سے بھال ئی کا سلوک کرتے ہیں وغیرہ
وغیرہ۔ پھر جب لوگ ملتے اور نبی کو جیسا س ُ نا تھا ویسا ہی پاتے تو
ا ُن کے دل کا یقین اور پ ُ ختہ ہو جاتا تھا۔ سبھی انبیاء نے ایک دوسرے
کی بھالئی چاہنے کا درس دیا۔ مگر ا ُن کے جانے کے بعد ہر قوم نے
دین کو اپنے لیے خاص کر لیا اور ا ُس سے باہر موجود لوگوں کو خود
سے کمتر جانا۔ ہمارا نبی ہی الل ّٰ ہ کے بعد کائنات کی افضل ترین ذات
ہے۔ اسی بات پر خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہوئے یہود نے
عیسیٌ کو ماننے سے انکار کیا تھا اور پھر دونوں مذاہب نے ٰ حضرت
اسالم کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ ا ِس حقیقت کو تس لیم کرنا
مسلمانوں کے لیے آسان ہے کہ تمام نبی ایک ہی نبی کا عکس ہیں۔
دوسرے مذاہب کے لیے جو سختی کا رویہ ا ُس وقت کے ک ُ فار میں پایا
جاتا تھا وہی رویہ آج کے مسلمانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ بہت سے
مسلم حکمرانوں کا نام بہت سے غیر مسلم ممالک میں بہت ادب و
احترام س ے لیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے دوسرے مذاہب کا احترام کیا
اور ا ُن کے اسی اخالق کو دیکھتے ہوئے دوسرے مذاہب کے لوگوں
نے دی ِن اسالم میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔ آج وہ کردار ,وہ اخالق,
چ کا ہے۔ جب کوئی غیر مذہب کا شخص اسالم ت مسلمہ سے ناپید ہو ُ ام ِ
کے بارے میں پڑھت ا ہے اور پھر مسلمانوں کا حال دیکھتا ہے تو ا ُسے
261
مسلمانوں میں اسالم کی کوئی جھلک نہیں دکھائی دیتی۔ ہم ایسی قوم
چ کے ہیں جسے خود غرضی ,اللچ ,ہ ِو س اور حرص نے ب ُ ری طرح بن ُ
جکڑ رکھا ہے۔ لوگ اپنا مذہب و مسلک تاریخ کی روشنی میں ثابت
کرنے کو دین گردانتے ہیں۔ اسی لیے ایک دوسرے کو اپنے مسلک کی
برتری ثابث کر کے ا ُسے اپنا ہم مسلک بنانے کی کوشش کرتے ہیں
کیونکہ ہمارے نزدیک دین محض عبادت کا انداز ہے۔ کس کس دن اور
کس کس وقت بھوکا رہنا ہے اور کس کس وقت مسجد ,مندر میں جانا
ہے اور کس کس انداز میں سجدہ کرنا ہے بس یہی انداز اپنان ا لوگوں
کا مذہب ہے۔ جبکہ دین عبادت کا انداز نہیں بلکہ عبد بننے کا انداز
ہے۔ جب لوگوں نے دین اور بھالئی کو اپنی عبادتوں کے طریقے اور
اپنے عقائد کے ساتھ مخصوص کر لیا تو ا ُنہوں نے اپنا دین برباد کر
ت العالمین کا نام لینے والی قوم جب ن ماز, لیا۔ رب العالمین اور رحم ِ
روزے کے طریقوں پر یا تاریخی مسائل پر اپنا اپنا نظریہ بیان کرتے
ہوئے خود کو باقی مسلمانوں سے الگ اور خود کو جنتی اور دوسروں
کو جہنمی قرار دیتی تو وہ سوچتا کہ یہ لوگ ایک طرف تو ا ُسے
عالمین کا رب مانتے ہیں اور دوسری جانب ا ُسی کی رحمت کو خود
تک محدود سمجھ تے ہیں۔ یقینا ً ایسا کر کے وہ الل ّٰ ہ کی رحمت کو تو
محدود نہیں کر پاتے مگر اپنی سوچ ضرور محدود کر لیتے ہیں۔ مذہب
و مسلک کی بنیاد پر دوسرے مذاہب کے لیے ایک خاص قسم کی
حقارت ,نفرت ,غصہ یا ب ُ رائی اپنی سوچ کے کسی کونے میں ہر
شخص چ ھُ پائے بیٹھا ہے اور یہی وہ چیز ہ ے جو سوچ کو تقسیم کرتی
ہے اور انسان کے اندر تفرقے کو جنم دیتی ہے۔ ال ل ّٰ ہ انسانوں کو
جوڑتا ہے اور شیطان انسانوں کو توڑتا ہے یہ تقسیم صرف سوچ سے
ہی ہوتی ہے اور سوچ میں ہی رہ کر انسانوں کو تقسیم کرتی ہے۔ لوگ
ج لتے ہیں ایک دوسرے کے غم و خوشی میں ایک دوسرے سے ملتے ُ
شریک ہوتے ہیں مگر اپنی سوچ کے جہان میں خود کو دوسروں سے
الگ کر کے رکھنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اکثر ا ُس کی سوچ
ا ُسے فرقہ واریت سے ا َٹے معاشرے کی سیر کرواتی جہاں ہر فرقہ
خ دائے واحد کی اشرف اپنے اپنے مفاد کے مطابق کام کر رہا تھا۔ ُ
ترین مخلوق کو ا ِن بے شمار ٹ ُکڑوں میں منقسم دیکھ کر وہ ہمیشہ بے
تاب ہو جاتا تھا کہ کسی طرح ا ِن ٹ ُکڑوں کو سمیٹ سکے۔ ا ِسی سوچ
262
اور جستجو نے ا ُسے تالش میں رکھا۔ وہ لوگوں کو ا ِس تقسیم سے باہر
نکالنے کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا مگر وہ کچھ بھی نہ کر پایا۔ حج
سے واپس آ کر وہ اپنی پ ُ ر انی زندگی میں پھر سے محو ہو گیا۔ وقت
گ ُ زرتا گیا اور وہ اپنے اندر ہی اندر ڈوبتا گیا۔ وہ اپنے آپ میں ایک
گناہگار شخص تھا مگر ا ُس کے پاس بہت سے سوالوں کے جواب
تھے۔ اور وہی جواب لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری ا ُس کے دل کو
سکون نہیں لینے دیتی تھی۔ ا ِس لیے وہ لوگو ں تک کسی نہ کسی رنگ
میں اپنی بات پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ مگر یہ سب ا ُسے بہت
ناک افی محسوس ہوتا تھا ۔ ایک وسیع سوچ کے عالوہ ا ُس کے پاس کچھ
بھی نہ تھا۔ اپنی سوچ کے مطابق وہ کوئی بھی قاب ِل ذکر کام نہیں کر
پایا اس لئے ا ُس کی کہانی یہاں اختتام پزیر ہوتی ہے ۔
لوگ کہتے ہیں کہ جو لوگ کچھ نہیں کر سکتے وہ باتیں کرتے ہیں,
مگر میرے خیال میں زمین میں سب کاموں کی بنیاد باتوں پر ہی ہے۔
انسان کا بیان ہی ا ُس کے اندر کا اظہار ہوتا ہے۔ ا ِس اظہار کو
دوسرے لوگ پہچان سکیں یا نہیں لیکن یہ انسان خود اپنا گواہ ہے اور
الل ّٰ ہ سب کے دل کا حال جانتا ہے۔ اضطراری اور غیر اضطراری
طور پر ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ سب کسی جگہ پہلے الفاظ کی
صورت جنم لیتا ہے پھر ظاہر میں ا ُس کی کوئی صورت تیار ہوتی
ہے۔ بات باتوں میں نہیں بلکہ کہنے والے کے دل میں ہوتی ہے۔ اگر
چ ائی ہو تو ا ُس کی بات س ُ نے والے کے دلکہنے والے کے دل میں س ّ
پر ضرور اثر کرے گی۔یہ کہانی لکھنے کے دوران میں نے اکثر
سوچا کہ میں اکیال کیا کر سکتا ہوں۔؟ کتنے لوگ ہوں گے جن تک
میری بات پہنچے گی۔؟ لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے ایسی باتوں کے
لیے۔ کوئی نہیں چاہتا س ُ دھرنا۔ لوگ بس باتیں س ُ ننے کے شوقی ن ہوتے
ہیں۔ پاکستانی قوم کو انقالب چاہیے ہی نہیں۔ ا ِن کا مسئلہ بجلی ,پانی,
گیس ہے۔ غریبی اور بے روزگاری ہے۔ جس شخص کو دو وقت کی
روٹی میسر نہیں ہے ا ُسے میرے انسان اور انسانیت کے فلسفے میں
کیا دلچسپی ہو سکی ہے۔ جس کی بیوی پیسوں کے لیے ہر وقت ا ُس
چ ے بھوک سے ب ِ لکتے رہتے ہوں ,وہ شخص ہندؤ سے لڑتی رہتی ہو ,ب ّ
یا مسلم کچھ بھی ہو ا ِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔؟ فرقوں میں ایک فرقۂ
263
انسان بنا لینے سے ایک عام آدمی کی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔؟
لوگوں کو اپنی روزی روٹی کی فکر چھوڑے گی تو وہ الل ّٰ ہ کے بارے
میں سوچیں گے۔ میں جانتا ہو ں کہ لوگوں پر ایسا ایسا وقت گ ُ زرتا ہے
کہ وہ الل ّٰ ہ کی ذات کا ہی انکار کر دیتے ہیں۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ
جس ُم لک کی بنیاد اقبال کے خواب پر ہے ا ُس کی تعبیر یہ نہیں ہو
سکتی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جو اسالم کا وہ چہرہ دنیا
کے سامنے ال سکتے ہیں جس کی خاطر " پاکستان کا مطلب ال الہ
اال ال ل ّٰ ہ مح ّم د رسول الله ﷺ " بتایا گیا تھا۔ مجھے پتہ ہے کے
میری بات پر یقین کرنا مشکل ہے۔ لیکن میرا ایک خواب ہے کہ میرے
ُم لک کے لوگ الل ّٰ ہ کی خاطر ,دی ِن اسالم کی خاطر ,اپنی خاطر اور
تمام انسانیت کی خاطر اپنے ِد ل و دماغ میں پل تی نفرت کو نکال کر
چ ے آ کر ایک دوسرے کا احترام کرنے کی ِر یت ڈالیں۔ جب ہمارے ب ّ
ہم سے کسی دوسرے مذہب یا مسلک کے بارے میں پوچھیں تو ہم ا ُن
کی ب ُ رائی بیان کرنے کی جگہ بچوں کو یہ بات سمجھائیں کہ مذہب و
مسلک کا فیصلہ الل ّٰ ہ کے ہاتھ ہے ,ہمارا کام فقط لوگوں سے ب ھالئی
ہے۔ جب لوگ اپنے دل سے ایک دوسرے کے لیے نفرت و حقارت
جیسے جذبوں کو الگ کریں گے تو وہ ایک دوسرے کے خالف شیطان
کے مددگار بننا چھوڑ دیں گے۔ بس ہمیں ا ِس وقت صرف ا ِسی چیز کی
ضرورت ہے۔ لوگ عبادات کی کوشش کرتے ہیں اور خود کو عبادات
کا پابند بنانے میں ناکام پ اتے ہیں۔ ا ِس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ
الل ّٰ ہ کا بندہ بننے کی کوشش کیے بغیر ہی عبادت کرنے کی کوشش
کرتے ہیں۔ الل ّٰ ہ کا بندہ وہ ہے جو الل ّٰ ہ کے لیے لوگوں سے محبت کرتا
ہو۔ لوگوں سے محبت کرنا الل ّٰ ہ اور ا ُس کے بندوں کی س ُ ن ّ ت ہے۔ جو
ا ِس س ُ ن ّ ت کو اپنا لیتا ہے و ہ الل ّٰ ہ کا بندہ بن جاتا ہے۔ کوئی شخص
دعوی کرتا ہو کہ وہ آپ کا مالزم ہے اور وہ آپ کی جگہ کسی اور ٰ
شخص کے پاس کام کرتا ہو تو کیا آپ ا ُسے اپنا مالزم مان لیں گے۔؟
یقینا ً نہیں۔ یہی حال ا ِس وقت اوال ِد آدم کی اکثریت کا ہے۔ یہ عبادت
ثواب کمانے کے لیے کرتے ہیں تاک ہ انہیں جنت حاصل ہو سکے یا
ا ِس لیے کرتے ہیں کہ وہ دوزخ میں نہ ڈالے جائیں۔ بات ایک ہی ہے
کہ ا ُن کی طلب الل ّٰ ہ نہیں بلکہ الل ّٰ ہ کی نعمتیں ہیں۔ لوگ صرف اپنے
لیے آسائش چاہتے ہیں جب وہ اپنی آسائش چاہتے ہیں تو وہ الل ّٰ ہ کے
264
لیے دنیا کی تکالیف ا ُٹھانے سے پرہیز کرن ے کی کوشش کرتے ہیں
اور اپنی زندگی کی آزمائش کے آگے سر ٹیک دیتے ہیں۔ جب وہ دل
میں ہار مان لیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی طاقت
گنوا دیتے۔ جب لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو
وہ اپنی اپنی آسائش کا سامان اکھٹا کرنے کی صورت تالش کرنا
شر وع کر دیتے ہیں۔ آج جو لوگ خود کو ہندؤ ,مسلم ,مسیحی یا کوئی
اور نام دیتے ہیں ا ُن کی کثیر اکثریت اپنے مذہب کی تعلیمات کے
خالف چل رہی ہے۔ ا ِن لوگوں میں مذہب کا صرف نام رہ گیا ہے اور
وہ ا ِس نام کو اپنی دنیاوی ضرورت کے تحت استمعال کرتے ہیں۔ یہ
لوگ عبادتگاہیں بن اتے ہیں الل ّٰ ہ والوں کی یاد میں بڑی بڑی محفلیں
سجاتے ہیں مگر ا ِس کا مقصد لوگوں میں محبت بانٹنا نہیں بلکہ اپنی
تقسیم واضح کرنا ہوتا ہے۔ جب ا ِن محفلوں میں دوسرے مذہب و
مسلک کے لوگوں کے لیے تمسخر و تکبر کی کیفیت لیے عیب دار
لوگ اکھٹے ہوتے ہیں اور واپس جا کر د وبارہ ا ُنہی گناہوں میں کھو
جاتے ہیں تو وہ لوگ درحقیقت ا ُنہی ناموں کو بدنام کرتے ہیں ِج ن کا
ذکر وہ اپنی عبادتگاہوں میں کیا کرتے ہیں۔ کیا آج کے یہودی,
مسیحی ,یا مسلمان اپنے اپنے مذہب کے نام پر دھبہ نہیں ہیں۔؟ مقدس
ہستیوں کے نام لینے والے ہی اپنے اپنے اخالق س ے ,اپنی سوچ سے,
اور اپنے الفاظ سے ا ُن کی شان میں گ ُ ستاخی کرنے میں محو ہیں۔ پھر
کون سے مذہب و مسلک کی بات کرتے ہیں لوگ۔ کس بات پر خود کو
دوسروں سے الگ مانتے ہیں۔ غور سے دیکھیں تو سبھی مذاہب
گمراہی کی راہ چل رہے ہیں۔ شیطان سبھی مذاہب کے انسانوں کا
یکساں دشمن ہے۔ وہ کسی بھی مذہب کے انسانوں کا دوست نہیں ہے۔
انسانیت کی تقسیم ہی شیطان کا ہتھیار ہے۔ جب تک کوئی ایک مذہب
سبھی مذاہب کے لوگوں کو انسانیت کے نام پر ایک کرنے کا بیڑا نہیں
ا ُٹھائے گا تب تک ہم سب بے جا تقسیموں کی بنیاد پر ایک دوسرے
سے لڑتے ہی رہیں گے اور ای ک دوسرے کے خالف شیطان کی مدد
کرتے رہیں گے۔ جو لوگ شیطان کے مددگار بن کے زندگی گزار
رہے ہوں ا ُن کا سب عمل فتنہ فساد ہی ہے کیونکہ وہ شیطان کے بندے
ہیں۔
265
''باب۔ '' 00
ص ہ(
(آخری ح ّ
لوگوں کو اپنے اندر سے یہ فساد ختم کرنا ہو گا۔ ہم مسلمان الل ّٰ ہ کے
آخری نبی کے ماننے والے ہیں۔ رحمت العالمین کی رحمت کو دنیا
میں عام کرنے کی ذمہ داری ا ُسی قوم پر ہے جو ا ُن کی رحمت کے
دعوی کرتی ہے۔ بہت فخر ہے مسلمانوں کو ٰ سائے میں ہونے کا
مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے پر۔ مسلمان ہونے کے باعث ایک دن
بخش دیے جانے کا بھی یقین رکھتے ہیں او ر باقی سب مذاہب کے
اعلی ہیں
ٰ لوگوں کا مقدر جہنم بھی سمجھتے ہیں۔ اگر ہم سچ میں اتنے
تو ہمیں اپنے ا ِس مقام کی قدر کرنی چاہیے۔ اگر ہم بڑے ہیں تو ہمیں
خ دا صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ
اپنے بڑے پن کا اظہار کرنا چاہیے۔ رسو ِل ُ
وسلم کی پیروی میں ا ُن کا کردار اپنانے کی کو شش کرنی چاہیے۔ اور
عال ِم اسالم کو تمام مذاہب کے لیے سالمتی کا باعث بنا کر پیش کرنا
چاہیے۔ میں نہیں کہتا کہ لوگوں کو عبادات نہیں کرنی چاہیے مگر میں
یہ ضرور کہتا ہوں کہ ِد ل کو نفرت سے پاک کیے بغیر عبادت کسی
کام کی نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر لوگ عبادات میں غفل ت کر بھی
جائیں تو بھی ا ُنہیں اپنی اخالقیات میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ اپنی
سوچ میں غفلت کر کے شیطان کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ ا ِس وقت میں
زیر سایہ لوگوں کو اعمال کے پیچھے دوڑایا جاتا ہے اور ِ ُم ّال ازم کے
نیتوں کی تربیت پر دھیان نہیں دیا جاتا۔ ا ِس لیے عموما ً ل وگ بے روح
اعمال سے تھک جاتے ہیں یا خود کو اعمال کا عادی بنا کر دین کے
معاملے میں دوسروں پے سختی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بس ایک ہی
رٹ ہے سب کی کہ ہمارے طریقے سے چلو تو راہ پر ہو ورنہ گمراہ
ہو جبکہ الل ّٰ ہ کی راہ نماز روزے کے طریقے یا تاریخی عقائد نہیں
بلکہ ال ل ّٰ ہ کی راہ تو اخالص ,اخالق اور بھالئی کی راہ ہے ,نبی اکرم
صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام زندگی اسی بات کا اظہار ہے کہ
266
الل ّٰ ہ کی راہ ہر خاص و عام کے لیے رحمت کی انتہا بن کے دکھانے
کا نام ہے۔ زمین پے موجود لوگ جن ہستیوں کو مقدس جانتے ہیں
انہوں نے تمام ا نسانوں کی بھالئی کے لیے کام کیا۔ ا ُن سب کا سلوک,
ا ُن کا اخالق ,ا ِس بات کا سبب بنا کہ لوگوں نے ا ُن کی پیروی کی اور
چ ی پیروی کرنے والوں نے ہمیشہ اپنے کردار سے ثابت کیا کہ وہ س ّ
کس کے پیروکار ہیں۔ اسی لیے ا ُن کے نام باقی رہ گئے۔ میرا کہنا بس
اتنا ہے کہ دین کو اگر دوسروں پر ثابت کرنا ہی مقصود ہے تو اپنے
کردار سے کیجیئے اور اگر کردار سے نہیں کر سکتے تو کم از کم
ایسی بات کیجیئے جو لوگوں میں نفرت پھیالنے کا باعث نہ بنے۔ ا ِس
وقت میں ہمیں صرف انسانیت اپنانے کی ضرورت ہے اور بس۔ سب
انسان کسی ایک مذہب یا مسلک پر متفق نہ یں ہو سکتے مگر سب
انسان انسانیت کے نام پر ایک ہونے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔
ا ِس وقت میں ا ِس کوشش کی سب سے زیادہ ضرورت مسلمانوں کو
ہے۔ ہم دنیا بھر میں مسلمان ہونے کے باعث قتل کیے جا رہے ہیں۔
اور حد یہ ہے کہ ہم مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو
ایک دوسرے کو غیر مسلک مسلمان ہونے کی وجہ سے قتل کرنا ثواب
کا باعث سمجھتے ہیں۔ جس مذہب کی تعلیمات یہ کہتی ہوں کہ ایک
انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے ا ُس مذہب میں جب ایسے لوگ
منبر پر جا بیٹھیں جو ایک کلمہ گو کو دوسرے کلمہ گو کے خون کا
پیاسا بناتے ہوں تو ا ُس قوم کا قت ِل عام واجب ہو جاتا ہے۔ اگر لوگ
ایسے لوگوں کے پیچھے کھڑی ب ِ ھیڑ کا ح صّ ہ بننا چھوڑ دیں تو ا ُن کی
طاقت کم کی جا سکتی ہے۔ جب تک ہم اپنا اصل نہیں اپناتے تب تک
ہو س ,حرص ,اللچ اور شہوت ہم بہتری کی جانب نہیں بڑھ سکتے۔ ّ
سے بھرے دل لیے لوگ ایک دوسرے کا حق مارتے ہیں اور خود کو
کسی مقدس ہستی کا منتظر بھی بتاتے ہیں۔ اپنی آنکھوں میں اپنے
کرب کی داستان لیے فریاد بھری نگاہوں سے آسمان کو دیکھتے رہنے
سے کوئی مسیحا نازل نہیں ہو گا جب تک کہ لوگ اپنے دل کی دنیا
کو ا ُس مسیحا کی آمد کے لیے نہیں سجاتے۔ میری نظر میں ہر ان سان
کے لیے حق وہی ہے جس پے ب ِ نا کسی دلیل کے ا ُس کے دل کو یقین آ
جائے۔ ہم قرآن و حدیث کی ہزاروں دلیلیں دے کر کسی کو مسلمان
نہیں کر سکتے کیونکہ جب ا ُس کا ِد ل ہی ایک شئے کا انکار کرتا ہے
267
تو وہ کس طرح ا ُس کی بات مان سکتا ہے۔؟ لیکن اگر ہم ہمیشہ ا ُس
کے ساتھ بھال ئی کا سلوک روا رکھیں ,ا ُس سے ادب و احترام سے پیش
ح س ِن سلوک سے متاثر ہو آئیں تو ہو سکتا ہے کہ ایک ِد ن وہ ہمارے ُ
ح س ِن اخالق کر ہمارے مذہب میں داخل ہو جائے۔ دی ِن اسالم کی تبلیغ ُ
اور صلہ رحمی سے ہوئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسالم پھیالنے والے
مسلمان باکردار ,بااخالق اور لوگوں پر رحم کرنے والے تھے۔ ہم سب
گناہگار لوگ ہیں لیکن گناہگار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم الل ّٰ ہ
کی جانب پلٹنے کا حوصلہ ہی چھوڑ دیں۔ شیطان کی بہترین چالوں
احساس گناہ میں ڈبو کر
ِ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ انسان کو
انسان سے الل ّٰ ہ کی جانب پلٹنے کا ح وصلہ بھی چھین لیتا ہے۔ جب
لوگوں کی اکثریت عبادتگاہوں میں اور اپنی محفل و تنہائی میں حق
کے نعرے لگانے کی جگہ اپنی عام زندگی میں حق کہنا اور س ُ ننا پسند
کرنا شروع کر دے گی تو انسانیت کی بھالئی کی راہیں ک ھُ لنا شروع
ہو جائیں گی۔ جب تک لوگ اپنی ذات میں انقالب نہ یں الئیں گے تب
تک کسی قسم کا کوئی انقالب نہیں آنے واال۔ ہم وہ لوگ ہیں جو حیرت
سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ شاید یہ
شخص ہمارا ساتھ دے گا۔ شاید یہ ہماری بھالئی کا سبب بنے گا۔ شاید
یہ ہمیں نجات دالئے گا۔ ہر شخص ایک الگ الگ ''شاید'' کی بنیاد پر
اپنے آنے والے کل کا خواب دیکھتا ہے۔ اور ا ُس میں بہتری کی ا ُمید
کرتا ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو ہر طرح کے "شاید" سے بچنے
کی کوشش کرتے ہوئے الل ّٰ ہ پے یقین کر کے زندگی گزارنے کی
کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دنیا اور دنیا والوں سے ہٹ کر
خود پر بھروسا کرنا پڑتا ہے ,اسباب کو چھوڑ کر مسبب االسباب کا
دامن تھامنا پڑتا ہے۔ ہمارا انقالب ہماری اپنی روح میں قید ہے۔ ہم
لوگ بہتر سیاسی ,سماجی نظام بنا کر کوئی تبدیلی نہیں ال سکتے
کیونکہ ہم اپنے دل نہیں بدلتے۔ ا ِس وقت میں ہمیں روح کے انقالب
کی ضرورت ہے۔ ہم جب تک اپنی رو ح میں انقالب نہیں الئیں گے تب
تک ہم یوں ہی جلتے َم رتے رہیں گے۔ ا ِس وقت میں بہترین عمل یہ
ہے کہ الل ّٰ ہ کی محبت میں لوگوں سے بھالئی کی جائے۔
268
روحوں کے انقالب کی کو ئی بات کیجیئے ۔
دل کو عقل کی قید سے آزاد کیجیئے۔
جسموں کی تربیت سے نہ کچھ بات بنے ہے۔
جب تک کہ نہ ا ِس روح کو آباد کیجیئے۔
فط رت یہی ہے ازل سے خود آشناؤں کی۔
سَ ر دیجیئے پر راز کو نہ فاش کیجیئے۔
ِح کمت یہی ہے دیجیئے درس عشق کا۔
انسانیت سے انساں کو آباد کیجیئے۔
ما نگتا ہے خو ِن دل انقال بِ انقالب۔
س لسلہ آغاز کیجیئے۔ خود میں خودی کا ِ
الل ّٰ ہ نے سب کو ایک دوس رے سے مختلف مگر ایک سا بنایا ہے۔ ایک
سا ا ِس لیے کہ ہم سب کو ا ُس نے انسان بنایا مگر ہر ایک کو ایک
الگ سراپا ایک الگ سوچ عطا کی۔ لوگ الگ الگ طرح کا لباس پہن
کر ,طرح طرح کے بال بنا کر ,خود کو دوسروں سے منفرد ثابت
کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اپنے اندر چ ھُ پی انفر ادیت تالش نہیں
کرتے۔ یہ نہیں سوچتے کہ الل ّٰ ہ نے پہلے ہی سے ہمیں ایک دوسرے
سے منفرد تخلیق کیا ہے۔ ہم سب انسانوں میں پیدا ہوتے ہیں ,انسانوں
کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں ,مگر اپنے آپ میں ہم ,ہر دوسرے انسان
ج دا ,اپنا ایک الگ وجود رکھتے ہیں۔ ہر انسان کے الگ الگ سے ُ
فنگر پرنٹس بنانے والے نے پہلے ہی سے سب کو الگ الگ رنگ دے
رکھا ہے۔ ضرورت صرف اپنا رنگ پہچاننے کی ہے۔ جس ذات نے
اپنی کائنات میں اتنی ساری انفرادیت رکھی وہ یقینا ً چاہتا ہو گا کہ
لوگ الگ الگ رنگ میں ا ُسے چاہیں۔ غور کریں تو کسی مشہور
شخص کو اپنے چاہنے والوں کے مذہب ,مسلک ,قوم ,قبیلے سے کوئی
غرض نہیں ہوتی۔ ا ُس کے لیے صرف یہ بات اہم ہوتی ہے کہ لوگ ا ُس
کے ساتھ ہیں یا نہیں۔ ہم لوگ اپنی روز م ّر ہ کی زندگی میں بھی لوگوں
کے برتاؤ کے اعتبار سے ہی ا ُن پر بھروسا یا شک کرتے ہیں۔ دنیا کا
نظام اسی اعتبار پر چل رہا ہے۔ ہم لوگ ایک دوسرے کی دوستی
دشمنی سے غرض رکھتے ہیں۔ لوگوں کو ا ُن کے رویے اور اپنے
مفادات کی بنیاد پر پرکھنے والے لوگ جب اپنے رب کو بیان کرتے
269
ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کو ا ُن کے دل سے نہیں بلکہ مذہب و
مسلک کی بنیاد پر پرکھتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے مجھے لوگوں کی سوچ
دی کھ کر۔ ہمارے پاس سب کچھ ہے بس شعور کی کمی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ جس جس شخص تک میرا یہ پیغام پہنچے گا وہ
ایک بار میری بات کو سوچے گا ضرور۔ میں الل ّٰ ہ کی ا ِس کائنات بہت
چھوٹا سا ح صّ ہ ہوں۔ اگر ا ِس کتاب سے ایک بھی شخص کا دل نہیں
بدلتا تو بھی مجھے افسوس نہیں ہو گا کیونکہ میرا کام صرف صاف
صاف بات بیان کرنا تھا۔ کون سیکھتا ہے اور کون نہیں یہ میرا مسئلہ
نہیں ہے۔ ا س کا اختتام کرتے ہوئے میں اپنے سبھی پڑھنے والوں کا
ش ُ کریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اب تک کے تمام سفر میں میرا
ساتھ دیا اور میرا حوصلہ بڑھایا۔ کچھ لوگوں نے حوصلہ شکنی کی
کوشش بھی کی ا ُن سب کا بھی بہت بہت ش ُ کریہ۔ مجھے سب لوگوں
کے رویے سے بہت کچھ سیکھنے کو مال۔ بہت سے باشعور لوگوں نے
مجھے جوائن کیا جنہیں دیکھ کر مجھے اپنی بات بیان کرنے کا
حوصلہ ِم ال۔ ا ِس کہانی کے بیان کرنے کا مقصد لوگوں میں الل ّٰ ہ کی
جانب بڑھنے کا حوصلہ پیدا کرنا اور ا ِس کوشش میں مذہب و مسلک
کی تمیز کے بغیر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا شعور پیدا کرنا تھا۔
شیطان تمام انسانوں کا دشمن ہے۔ اور دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔
اب ا ِس دشمنی میں ہماری مرضی ہے کہ ہم انسانوں کے مختلف
گروہوں سے دشمنی کر کے شیطان کو دوست بنائیں یا انسانوں سے
دوستی کر کے الل ّٰ ہ کے دشمن کو زیر کرنے کی کوشش کریں۔ فرقۂ
درس انسانیت ہے۔ جب اتنے سارے فرقے پہلے سے موجود ہیں ِ انسان
تو چلیں ایک اور فرقہ بنا لیتے ہیں۔ ایک ایسا فرقہ جس میں ہر مذہب
و مسلک کے لوگ موجود ہوں۔ ایک ایسا فرقہ جو ہر رن گ و نسل کے
لوگوں کو محض انسان ہونے کی بنیاد پر عزت کی نگاہ سے دیکھتا
ہو۔ ایک ایسا مسلک جس میں لوگ اپنے اخالق کی ب ُ لندی سے اپنے
اخالص کا اظہار کرتے ہوں۔ ایسے لوگ جو الل ّٰ ہ کی خاطر ایک
دوسرے سے محبت کرتے ہوں۔ انسانوں کا ایک ایسا گروہ جو لوگوں
کو الل ّٰ ہ کی جا نب بڑھنے کا حوصلہ دے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو
اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ اپنی زندگی میں آنے جانے والے لوگوں
ج دائی میں اس طرح کھو جاتے ہیں کہ گویا ا ُن کا کوئی کے ق ُ رب و ُ
270
رب ہی نہ ہو۔ لوگ شیطان کی بچھائی بساط میں پھنس کر کیڑوں
مکوڑوں کی سی زندگی گ ُ زانا قبول کر لیتے ہیں اور اپنے اصل مقام
سے ناآشنا رہتے ہیں۔ لوگ چیزوں کو اور رشتوں کو ا ِس قدر چاہتے
ہیں کہ ا ُن کے نا ملنے پر اپنا جینا حرام کر لیتے ہیں۔ کسی بیوفا کی
یادوں میں جلتے رہنے کی عادت ,کسی نہ ملنے والی چیز کے غم کو
سینے سے لگائے روتے رہنے کا جنوں ,یہ سب شیطان کے بنائے
پھندے ہیں ِج ن میں گھیر کر وہ لوگوں کو الل ّٰ ہ کی یاد سے غافل رکھتا
چ کے ہیں شاید ہے۔ دنیا اور آخرت کی محبت میں انسان انسانیت بھول ُ
اسی لیے دنیا یا جنت حاصل کرنے کے نام پر وہ انسانوں کا خون
بہانے سے بھی باز نہیں آتے۔ میں نہیں کہتا کہ لوگوں کو پانچ وقت
کی عبادت نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہر وقت
کی عبادت ,وقتی عبادات سے زیادہ اہم ہے۔ زمین میں چلتے پھرتے
ص لہ رحمی کا رویہ اختیار کرنا اصل ح س ِن سلوک اور ِ لوگوں سے ُ
عبادت ہے۔ اگر ہم یہ عبادت نہیں کر سکتے تو ہمیں عبادتگاہوں میں
جا ک ر دنیا کو یہ دکھانے کا بھی کوئی حق نہیں ہے کہ ہم ا ُن مقدس
ہستیوں کے ماننے والے ہیں جن کی تمام زندگی لوگوں سے بھالئی کا
سلوک کرنے کا درس ہے۔ سب لوگ کسی ایک مکت بِ فکر کو نہیں اپنا
سکتے۔ سب لوگ کسی ایک بزرگ کے ُم رید نہیں بن سکتے ,نہ ہی
سب لوگ کسی ایک مسلک یا مذہب کے پیروکار بن سکتے ہیں۔ سب
لوگوں کو اگر کسی ایک بات پر متفق کیا جا سکتا ہے تو وہ انسانیت
کی سالمتی ہے۔ کسی کو ب ُ را مت کہیئے ,اپنے اندر کی ب ُ رائی پر نظر
رکھیے۔ جب ہم سب اپنی اپنی ب ُ رائی کو صاف کرنے کی کوشش کریں
گے تو انشاء ال ل ّٰ ہ ہم ضرور دنیا میں بھالئ ی کا نظام رائج کر سکیں
گے۔ ا ِس وقت میں ہمیں اپنی نظر میں حیا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنے دل میں نرمی اور باتوں میں خلوص پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم لوگ ایک قوم کی حیثیت سے بہت خوفزدہ لوگ ہیں۔ ہم کسی کے
بھی خالف انقالب نہیں ال سکتے کیونکہ ہم ا ِس نظام سے ڈر کے جینا
چ کے ہیں۔ لیکن اپنے آپ کے خالف انقالب النا ابھی بھی ہمارے سیکھ ُ
بس میں ہے۔ کہتے ہیں کہ جس قوم کے اعمال حد سے زیادہ ب ُ رے ہو
جاتے ہیں ا ُس پر ب ُ رے حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ کیا پتہ ہمارا
انقالب ہمارے خود کے اندر موجود ہو اور ہم ا ُسے باہر تالش کرتے
271
پھر رہے ہوں۔
ہم سب کو ایک دوسرے سے رحیمی کا سلوک کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک دوسرے کا سہارا بننے کی کوشش کیجیئے۔ ہم الل ّٰ ہ کی حدود سے
چ کا ہے۔ ا ِس
بہت دور آ چکے ہیں۔ شیطان ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر ُ
تاریکی سے نکلنے کا واحد راستہ بس یہی ہے کہ ایک دوسرے کا
ہاتھ تھاما جائے اور آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ جب ہم ایک
دوسرے کا ہاتھ تھامیں گے تو ہمیں احساس ہو گا کہ الل ّٰ ہ کی راہ ایک
دوسرے کی مدد کرنا ہی تھا۔ اس کہانی کو محض ایک کہانی سمجھتے
ہوئے ا ِس کہانی کے مرکزی کردار کو اپنے اندر تالش کیجیئے۔
لوگوں کا درد محسوس کرنے واال ا ُن کے لیے د ُعائیں کرنے واال ایک
شخص ہم سب کے اندر موجود ہے۔ ایک دوسرے کو معاف کرنے کی
ِر یت ڈالنے کی کوشش کیجیئے۔ انشاء الل ّٰ ہ ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔
الل ّٰ ہ بہت مہربان ہے ا ُس کی رحمت لوگوں میں بانٹنے کی کوشش
ث رحمت بن سکتی ہے۔ الل ّٰ ہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب ہمارے لیے باع ِ
کو اپنی راہ میں کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
272
فرقوں میں ایک فرق ِہ انسان چاہیے
تالش حق کی ایک سچی کہانی)) ِ
مقدمہ
یہ کہانی لکھنے کے دوران اور کہانی ختم ہونے سے لے کر اب تک مجھے
بہت سی مثبت و منفی آراء کا سامنا رہا۔ میں اُن سبھی لوگوں کا مشکور ہوں
جنہوں نے میری اِس کوشش کو اپنی آراء پیش کرنے کے الئق سمجھا۔ اِن سبھی
آراء نے مجھے مذید سوچنے اور کہانی کو مختلف پہلوؤں سے پرکھنے کا
موقعہ فراہم کیا۔ میں سبھی طرح کی آراء پیش کرنے والوں کا احترام کرتا ہوں
اور اگر میں کسی کے اعتراض کا جواب دے رہا ہوں تو اُس کی بنیاد صرف یہ
سن کر مجھے ہے کہ اِس کہانی کا مصنف ہونے کی حیثیت سے کچھ اعتراضات ُ
محسوس ہوا کہ اِس بات کی وضاحت طلب کرنا میرے پڑھنے والوں کا حق ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کہانی کا نام اور کہانی آپس میں میل نہیں کھاتے۔ یا یہ
ب
کہ نام تو "فرقوں میں ایک فرق ِہ انسان چاہیے" ہے لیکن کہانی ایک خاص مکت ِ
ب فکر کو تنقید کا نشانہ
فکر کے ِگرد گھومتی نظر آتی ہے اور چند خاص مکات ِ
بناتی ہے۔ اگرچے کہ کہانی پر لگائے گئے بہت سے اعترضات کے جواب کہانی
میں پہلے ہی سے بیان کیے جا ُچکے ہیں لیکن پھر بھی کچھ باتوں کو مذید
واضح کرتے ہوئے پھر سے کہنا چاہوں گا کہ اِس کتاب کا بنیادی مقصد فرقہ
واریت کی بنیاد پر برپا فسادات کی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہے۔ اِس آگ سے نکلنے
کے لیے سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے
مسلک و مذہب پر بےجا تنقید کرنا بند کریں۔ اِس کہانی میں ا ُس تمام بےجا تنقید
کے مضامین کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ لوگ اپنے دِل
صاف کر سکیں اور اللّٰہ کی بنائی انفرادیت کا احترام کر سکیں۔ کہانی کا کردار
ب فکر سے ُگزر رہا ہے جو اِس وقت میں سب سے ذیادہ اعتراضات کی اُن مکات ِ
زد میں ہیں اِس لیے یہ ایک فطری سی بات ہے کہ وہ اُنہی اعتراضات کا جواب
دے گا جو اُس کی فکر کو نشانہ بناتے ہوں گے۔ اِس سب کے باوجود کہانی بار
دین حق اللّٰہ کی خاطر مخلوق سے محبت کرنا بار اسی بات پر زور دیتی ہے کہ ِ
ہے۔ سبھی مذاہب کے پیروکار اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص
حقوق العباد میں درست نہیں ہے تو اُس کی کوئی بھی عبادت کارآمد نہیں ہے۔ تو
273
پھر ہم سب حقوق العباد کا درس چھوڑ کر حقوق اللّٰہ کے طریقوں پر ایک
دوسرے سے کیوں جھگڑ رہے ہیں۔؟ ہم جن باتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کو
جہنمی ثابت کرنے کی کوشش میں محو ہیں اُن میں سے اکثر باتیں بےبنیاد ہیں
اور محض نفرت سے بھرے بیمار ذہنوں کی پیداوار ہیں۔ کہانی کا نام اپنے پیغام
کی پوری طرح وضاحت کرتا ہے کہ ہم سب جن فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اُنہی
فرقوں میں رہتے ہوئے اگر صرف انسانیت اپنانے کی کوشش کی جائے تو
ہمارے بیچ پھیلی اِس آگ پر قاب ِل ذکر حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم سب
ایک دوسرے کا احترام ,مذہب ,مسلک ,قوم ,قبیلے کی جگہ ,اُس شخص میں
موجود انسانیت کی بنیاد پر کریں تو ہم ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
اِس کہانی کے بیان کرنے سے میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ اِسے پڑھنے
والے اپنا مسلک چھوڑ دیں بلکہ اِسے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پڑھنے
والے کے دِل سے دوسرے کے مسلک کو چھیڑنے کا خیال َرد کیا جا سکے۔
لوگ اپنے اپنے مسلک پر اپنے دل کو راضی رکھنے کی کوشش کرتے کرتے
اِس َحد تک سخت ہو ُچکے ہیں کہ اپنی بات کے سامنے کسی کی بھی بات کو
ب فکر سے تعلق قاب ِل غور ہی نہیں سمجھتے ,اگر کہنے واال کسی دوسرے مکت ِ
رکھتا ہو تو ساری توجہ اُس کے بیان میں غلطی نکالنے پر صرف کی جاتی ہے,
اور اگر وہ ہم مسلک ہے تو اُس کی ہر بات کی ِبنا سوچے سمجھے تائید کی
جاتی ہے۔ اکثر غیر مسلک شخص سے بات کرتے ہوئے اِس بات کا خاص خیال
رکھا جاتا ہے کہ سامنے سے آنے والی ہر بات شیطان کا ہتھیار ہے۔ جب دو
لوگ ایک دوسرے کو شیطان کا روپ سمجھ کے بات کرتے ہیں تو دونوں ہی
شیطان کے ہاتھوں کٹھ پُتلی بن جاتے ہیں شیطان اِسی طرح لوگوں میں نفرت کا
زہر بھرتا ہے۔ فرقوں میں بٹی ہوئی مسلمان قوم کے سبھی فرقے اپنے اپنے انداز
سے خود کو فرقہ کہنے سے کتراتے ہیں اور اپنے آپ کو اصلی اور باقی سب
کو نقلی یا نامکمل مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا کہنا بس اتنا
ہے کہ اگر ہم انسانیت کی بھالئی کے لیے کام نہیں کرتے ,لوگوں سے اللّٰہ کے
لیے محبت نہیں کرتے ,آپس میں اُنس و محبت پیدا کرنے کی جگہ نفرت اور
حقارت کی َر ِوش کو فروغ دیتے ہیں تو ہمارا خود کو کسی بھی مذہب یا مسلک
کا پیروکار گرداننا ہی بےمعنی ہے کیونکہ را ِہ ُخدا تو انہی چیزوں میں پوشیدہ
تھی جنہیں ہم نے ترک کر دیا۔
کچھ لوگوں نے اس کہانی کے بارے میں یہ بھی کہا کے یہ کہانی عامر خان
کی فلم" پی -کے " سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ اِس بات کے جواب میں بس
یہ کہنا چاہوں گا کہ " "P.Kایک تخیالتی کہانی ہے اور یہ ایک سچی کہانی ہے۔
" پی -کے " کے لئے وہ سب بات کرنا نسبتا ً آسان تھا کیونکہ اُس کا خود کا
کوئی مذہب نہ تھا لیکن اِس کہانی کا کردار کسی دوسرے سیارے کی مخلوق
نہیں ہے بلکہ اسی دنیا کا باشندہ ہے جہاں روز مذہب و مسلک کے نام پر
انسانیت کا قتل کیا جاتا ہے۔ اور اِس کردار کے پاس محض سوال نہیں بلکہ اُن کا
276
ت مسلمہ جواب اور خاطر خواہ وضاحت بھی موجود ہے۔ اِس کہانی کا مقصد اُم ِ
کے بیچ پھیلی نفرتوں کو کم کرنا ہے۔ اپنے اور دوسروں کے مسلک کو لے کر
ہم لوگ ایک بےجا جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ ہر مسلک ہر جماعت ہر گروہ
دعوی ہے کہ صرف ہم ہی حق پر ہیں اور باقی سب باطل ہیں یا اُن کا حق
ٰ کا یہ
نامکمل ہے اور ہمارے پاس کامل حق ہے۔ اگر انسان زمین میں رہتے ہوئے اللّٰہ
ث رحمت بن کر زندگی ُگزارنا نہیں سیکھتے تو کی خاطر مخلوق کے لیے باع ِ
انہوں نے کسی بھی عبادت سے کچھ نہیں حاصل کیا۔
اس کہانی پر ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ کہانی بار بار سبھی مذاہب کو
تقوی ہے تو وہ کسی بھی مذہبٰ ب
کامیابی کی راہ بتاتی ہے کہ اگر کوئی صاح ِ
تقوی نہیں ہے تو خود کو کسی بھی مذہب ٰ میں رہتے ہوئے کامیاب ہے اور اگر
یا مسلک کا پیروکار کہالنا بےمعنی ہے۔ اگر ایسا ہے تو مختلف انبیاء اولیاء نے
تبلیغ کیوں کی۔؟ وہ سب کو کہہ دیتے کہ بس قناعت اختیار کرو بیشک بُتوں کی
سنتا ہے اِس لیے اپنا مذہب مت بدلو بس پوجا کرتے رہو اللّٰہ تمھاری ہر بات ُ
گناہوں سے توبہ کرو لوگوں کی خدمت کرو اور بس تم کامیاب ہو۔
دین اسالم کی
اِس اعتراض کی وضاحت میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تمام انبیاء نے ِ
ہی تبلیغ کی ,اگر غور کیا جائے تو مذاہب کے مابین فرق صرف اللّٰہ والوں کے
نام کا ہے۔ عقائد بھی تقریبا ً ایک جیسے ہی ہیں۔ صرف طریقوں میں فرق ہے۔
عبادات سب کرتے ہیں ,ہر مذہب بھالئی کی ترغیب دیتا ہے ,کوئی بھی مذہب
بُرائی کی دعوت نہیں دیتا ,ہر مذہب اپنے پیروکار کو تب صادق تسلیم کرتا ہے
جب وہ لوگوں کے لیے بھالئی کا سبب ہو یا کم از کم لوگ اُس کے شر سے
محفوظ ہوں۔ ہم مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہر روح مسلمان پیدا کی جاتی ہے
پھر اُس کا مذہب اُسے اُس کے والدین سے ملتا ہے۔ اِس بات سے ایک مطلب یہ
بھی نکلتا ہے کہ مسلمان ہونا یا نہ ہونا ایک روحانی چیز ہے اور مذہب جسم سے
ُجڑا ہے جس کے ذریعے اپنی روح کی پہچان کی جاتی ہے۔ کئی دوسرے مذاہب
میں بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہر روح ہمارے مذہب کی پیروکار پیدا ہوتی
ہے اور پھر اُس کے والدین اُسے اپنے مذہب کا پیروکار بنا دیتے ہیں۔ اِس بات کا
پرچار اس لیے بھی کیا جاتا ہے تاکہ ہر مذہب کے ماننے والے اپنے پیروکاروں
کو یہ واضح کر سکیں کہ اللّٰہ سب کے ساتھ انصاف کرتا ہے۔ عجیب سوچ ہے
نا ,کہ جو رب ہر روح کو مسلمان رکھتا ہے وہ اُسے غیر مسلم مذہب کے ماننے
277
روز محشر وہ اُس سے اسی بات پر ناراض والوں میں پیدا کر دیتا ہے ,اور پھر ِ
بھی ہو گا کہ تُو مسلمان کیوں نہیں ہُوا۔ سچ تو یہ ہے کہ جو ذات انسان کی روح
کو مسلمان پیدا کرتی وہ اُسے کسی بھی مذہب میں رکھتے ہوئے مسلمان رکھنے
دین اسالم کی ہی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر پر بھی قادر ہے۔ اگر ہم ِ
مذہب و مسلک کے لوگوں کو اُن کی اخالقیات اور کردار کی بنیاد پر پرکھنا
شروع کریں تو ہمیں دکھائی دے گا کہ خود کو مسلمان کہنے والے بہت سے
لوگ اسالم کی ُرو سے مسلمان ہی نہیں ہیں اور خود کو غیر مسلم کہنے والے
بہت سے لوگ درحقیقت مسلمان ہیں۔ انسان کی روح جو فطری طور پر اللّٰہ کی
عبد ہے اُسے زمین میں ایک جسم عطا کیا جاتا ہے کہ وہ اُس میں رہتے ہوئے
اللّٰہ کو پہچان سکے۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مذاہب میں
تقسیم ,ترامیم اور توجیہات ہوتی رہیں لیکن کوئی نیا مذہب نہیں آیا۔ یہی بات اِس
شئے کی دلیل ہے کہ اللّٰہ کا دین مکمل ہو ُچکا ہے۔ تبلیغِ دین اِس لیے کی گئی
تاکہ اللّٰہ کی طرف سے نازل کردہ تجدید رائج کی جا سکے لیکن کسی بھی
شخص کو طاقت کے زور پر اپنا مذہب بدلنے کو نہیں کہا گیا بلکہ ہر مذہب کے
ماننے والوں کے ساتھ صلہ رحمی کا درس دیا گیا۔ اولیاء اللّٰہ نے لوگوں پر اُن کا
مذہب بدلنے کے لیے زور نہیں دیا بلکہ اپنے کردار اور اخالق سے خالق کی
دین اسالم خاطر مخلوق پر رحیم ہونے کا درس دیا اور یہی حیلہ اُن لوگوں کے ِ
میں داخل ہونے کا وسیلہ بنا۔ حق کی تبلیغ کرنا ضروری ہے لیکن اُس کا طریقہ
وہ نہیں ہے جو آج کل ہم لوگوں نے اپنا رکھا ہے۔ جس دن ہم مسلمانوں نے صبر
و قناعت کی اور خالق کی خاطر مخلوق سے محبت کی تبلیغ شروع کر دی اُس
دن لوگ خود بہ خود ہمارے مذہب کو قبول کر لیں گے۔ لیکن فی الحال تو ا ُ ّمت
ُمسلمہ دہشتگرد کے نام سے مشہور ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم سالمتی
ظلم کی تبلیغ کرنے میں مصروف ہیں۔ اللّٰہ نے ہر والے دین کے نام پر نفرت اور ُ
سن سلوک عطا کیا ہے۔ اور ہر مذہب کا مذہب کے ماننے والوں کو ایک سا ُح ِ
سن سلوک کو اپناتا ہے تو اُس ماننا ہے کہ اگر کوئی اپنے نبی کے تلقین کردہ ُح ِ
کی عبادات قبول ہوں گی ورنہ ُخدائے بزرگ و برتر کی خوشنودی کے لیے اُس
کی جانب سے کی جانے والی ہر کوشش رد کر دی جائے گی۔
فرقہ پرستی کے خالف ہونے اور اِس تقسیم کو پُر زور انداز میں َرد کرنے کے
باوجود اپنی ذاتی زندگی میں کسی نہ کسی ایک مقام پر مجھے بھی خود کو کسی
ایک تقسیم کا حصہ کہنا پڑتا ہے۔ دیگر مسلمانوں کی طرح میں بھی اپنے مذہب
کو دیگر مذاہب سے ُمقدم جانتا ہوں کیونکہ میں نے جو کچھ سیکھا وہ بھی کسی
278
زیر سایہ رہ کر ہی سیکھا۔ اگر دیکھا جائے تو اپنی اِس کتاب کے ب فکر کے ِ مکت ِ
ب فکر کی تبلیغ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن ذریعے میں بھی اپنی مکت ِ
ب فکر کو اپنے آباؤ اجداد کے کردار سے نہیں بلکہ اپنے کردار میں اپنے مکت ِ
سے ثابت کرنے میں یقین رکھتا ہوں۔ آواز بُلند کرنے کی جگہ اگر الفاظ بُلند کر
لیے جائیں تو لوگوں کے دل زیر ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ جیسے حضرت علی
ابن ابی طالب کا فرمان ہے کہ "لوگوں کے دل صحرائی جانور (کی مانند) ہیں,
(پس) جو اِنہیں سدھائے گا ,یہ اُسی کی طرف ج ُھکیں گے۔" میں اپنے ارد گرد
موجود غیر مذہب و مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے لیے جیسا محسوس کرتا
ہوں ویسے ہی احساس کی تبلیغ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ابرہیم علیہ السالم کو
اللّٰہ نے ایک حیلہ عطا فرمایا تھا کہ جس کے تحت آپ نے ستارہ پرست قوم کے
سامنے ستارے کی جانب اشارتا ً فرمایا کہ یہ میرا رب ہو سکتا ہے۔ تو ستارہ
پرستوں نے آپ کو پسندیدگی اور حیرت سے دیکھا اور اُن کے دل آپ کی بات
توجہ سے سننے پر مائل ہو گئے یہی ماجرہ چاند اور سورج کی پرستش کرنے
والوں کے ساتھ بھی پیش آیا اور جب سب آپ کی بات میں دلچسپی لینے لگے تو
ت توحید پیش فرمائی۔ لوگوں کا میالن اپنی جانب راغب کر کے اُنہیں آپ نے دعو ِ
اپنی بات کا وزن سمجھانا آسان ہو جاتا ہے۔ انبیاء اولیاء اور دیگر بُزرگ ہستیوں
نے اسی طرح تبلیغِ دین فرمائی کہ پہلے لوگوں کے دل اپنی جانب مائل کیے اور
پھر انہیں اللّٰہ کی جانب پھیر دیا۔ ہمارے دور کے ُم ّال طبعیت لوگ اگر اُس وقت
میں بھی ہوتے تو یقینا ً ابرہیم علیہ السالم کے اِس حیلے کی تکمیل سے پہلے ہی
فتوی صادر کرنے میں دیر نہ ٰ اُنہیں نعوذ بللّٰہ مشرک گردان کر واجب القتل کے
ب قیامت سے قبل کی بڑی بڑی نشانیوں کے منتظر ہیں۔ ہم جن لگاتے۔ ہم سب قُر ِ
مقدس ہستیوں کی آمد کے ُمنتظر ہیں کیا ہم نے اُن کی آمد کے لیے خود کو تیار
کیا ہے۔؟ کیا ہم نے اپنی اپنی تقسیم سے ہٹ کر صرف انسان بن کر کبھی کچھ
سوچا ہے۔؟ میرا خواب ہے کہ اہ ِل اسالم اہ ِل زمین میں انسان سے محبت کا
انقالب برپا کریں۔ لیکن جب تک ہم اپنے اندر محبت کا انقالب پیدا نہیں کریں گے
وہ انقالب ہمارے باہر نہیں آ سکے گا۔ اِس وقت میں شاید ہمیں ویسے ہی کسی
حیلے کی ضرورت ہے جیسا کہ ابرہیم علیہ السالم کو عطا کیا گیا تھا۔ یہ کتاب یہ
سبق بھی دینے کی کوشش کرتی ہے کہ دوسروں پر تنقید اور اُن کی تزلیل کیے
سننے کے بغیر بھی اپنی بات بیان کی جا سکتی ہے۔ ہم لوگ ایک دوسرے کو ُ
لیے ہی تیار نہیں ہیں۔ اور جب تک ہم ایک دوسرے کا احترام نہیں کریں گے تب
تک ہم اہ ِل اسالم ہی نہیں بن سکتے۔ مسلمان ہونا اور تبلیغِ اسالم کرنا تو بہت دور
279
کی بات ہے۔ میری سوچ کے مطابق اس وقت میں ہم سبھی کو اپنے اپنے مذہب و
مسلک پر قائم ہونے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنی اپنی جگہ اپنا آپ درست کریں
گے تو یقینا ً ہم حق کی جانب راغب ہونا شروع ہو جائیں گے۔ فی الحال تو ہم سب
دنیا و نفس کے پنجروں میں قید ہیں اور یہاں رہتے ہوئے اگر ہم یہی بات سمجھ
لیں کہ تمام عبادات اللّٰہ ہی کے لیے ہیں اور اُن کے قبول یا رد ہو جانے کا فیصلہ
بھی اللّٰہ ہی کے ہاتھ میں ہے تو بہت کافی ہے۔ ایک دوسرے کے اعمال کا فیصلہ
کرنے کی جگہ اپنے اعمال کے فیصلے کی فکر حاصل ہو جانا بھی بڑی نعمت
ہے۔ کس کا مذہب درست ہے اور کس کا مذہب غلط اِس سوال سے زیادہ اہم سوال
یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے مذہب پر قائم بھی ہیں کہ نہیں۔
فصاحت و بالغت سے بھرے سب قول و بیاں تب کارآمد ہیں جب وہ لوگوں کو
جوڑنے والے ہوں ورنہ اُن سے فتنہ و فساد ہی پھیلتا ہے۔ اِس کتاب کا مقصد
انسانوں اور خاص کر خود کو مسلمان کہنے والی قوم کے درمیان موجود ایسی
ہی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ اللّٰہ تمام جہانوں کا پالنے واال ہے اور وہ ہر
ایک کے لیے رحمٰ ن و رحیم ہے۔ وہ کسی سے ناانصافی نہیں کرتا کسی پر ظلم
رازق ,خالق ,مالک وہی ہے۔ وہ اپنی تمام مخلوق سے محبت نہیں کرتا۔ سب کا ِ
کرنے واال ہے۔ کسی شخص پر اگر عذاب بھی نازل ہو رہا ہے تو وہ عذاب بھی
اللّٰہ کی طرف سے اُس شخص کے لیے رحمت ہی ہے۔ یہ وہ سب باتیں ہیں
ت مسلمہ کی ہر جماعت تسلیم کرتی ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ سب یہ بھی جنہیں اُم ِ
تقوی ہی اصل ہے تو ہم ٰ تقوی کے ِبنا سب کچھ ادھورا ہے۔ اگر
ٰ مانتے ہیں کہ
تقوی اختیار کرنے کو کیوں ترجیح نہیں دیتے۔؟ کیوں ایک دوسرے کے ٰ سب
طریقے کو غلط اور اپنے طریقے کو صحیح ثابت کرنے کو تبلیغِ دین اور حق کا
پرچار سمجھ کر نبھانے میں مصروف ہیں لوگ۔؟ شاید اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے
کہ لوگ خود کو قناعت اختیار کرنے سے معزور پاتے ہیں۔ اپنی خواہشات کی
پیروی چھوڑنا ناممکن نظر آتا ہے۔ خودغرضی ترک کرنے میں اور اخالق
سدھارنے میں تکلیف ہوتی ہے۔ اپنے نفس سے جیتنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ جب ُ
ہم اپنے عمل سے اخالق سے اور کردار سے اپنا عقیدہ ثابت نہیں کر پاتے تو
پھر ہم اپنے عقائد کو تاریخ سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فالں حدیث
اور فالں آیت کی ُرو سے ہمارا عقیدہ درست ہے اور تمھارا عقیدہ غلط ,ہم تو حق
ب فکر کے بیان کرتے ہیں کوئی مانے یا نا مانے۔ یہ وہ تسلیاں ہیں جو ہر مکت ِ
لوگ اپنے آپ کو دیتے ہیں اور خود کو پُرسکون کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تقوی ہے۔ اللّٰہ کی
ٰ ب
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دین دار صرف وہ ہے جو صاح ِ
280
شان کریمی پے نظر کرتا ہوں اور ایک غیر مذہب شخص کو دیکھتا ہوں تو ِ
نقش قدم ٌٰ
عیسی کے ِ مجھے دکھائی دیتا ہے کہ اگر ایک مسیحی شخص سچ میں
سر محشر اللّٰہ اپنی رحمت کے صدقے اُس پر زندگی ُگزار کر اللّٰہ تک پہنچے تو َ
ق معبودیت معاف بھی کر سکتا ہے۔ لیکن حقوق العباد پر وہ شخص کو اپنا ح ِ
انسان کی پکڑ کرنے واال ہے۔ جس چیز پر ہم سب کے مذاہب کے مطابق ہماری
سخت پکڑ ہونی ہے اُس چیز کی پرواہ چھوڑ کر ہم کون سے مذہب یا مسلک کے
پیروکار بنتے ہیں۔؟ ایک دوسرے سے حقوق اللّٰہ کی ادائیگی کے موضوع پر
صرف ہو گا اُسی وقت کو اپنا آپ درست کرنے میں جھگڑنے میں جو وقت َ
صرف کریں یا پھر لوگوں کو اللّٰہ کی رحمت سے اُمید باندھے رکھنا ِسکھائیں۔
ایک دوسرے کے سجدوں پے شک کرتے رہنا دین نہیں ہے۔ دین اپنے سجدے
میں یقین بھرنے کا نام ہے۔
ق آدم سے لے کر اب تک کی تاریخ کو انسان اور خالق کے رشتے کی اگر تخلی ِ
ُرو سے دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ ّاول ّاول اللّٰہ نے آدم علیہ السالم کو بھیجا,
زمین میں مخلوق بسائی۔ آہستہ آہستہ انسان کو زمین میں رہنے کا ڈھنگ سکھانے
والے نے انسان کو بااختیار کیا اور اپنے اختیار پر پردے ڈالنے شروع کر دیے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہابیل اور قابیل کے لیے کتنا آسان تھا اللّٰہ سے اپنی اپنی
محبت کے بارے میں فیصلہ لینا۔ اگر آج کے دَور میں اللّٰہ لوگوں کو یہ کہے کہ
ت حق کا متالشی ہے ,فالں پہاڑ پر اپنی قُربانی رکھ کر مجھ ہر وہ شخص جو ذا ِ
سے میری مرضی جان لے تو یقینا ً ایک وسیع اکثریت اپنی اپنی قُربانی اللّٰہ کے
حضور اِس مقصد سے پیش کرے گی کہ اُسے صحیح مذہب و مسلک سمجھا دیا
جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سب سہولتیں ختم ہوتی گئیں۔ اور انسان اور اللّٰہ
کے بیچ پردے حائل ہوتے گئے یہاں تک کہ لوگ اُس کی صفات سے ہی نا آشنا
ہو گئے۔ لوگ اُس کے وجود کا احساس رکھتے ہوئے اُس کی پہچان بھول گئے۔
اِسی لیے وہ سورج ,چاند ,ستاروں کو اُس کا روپ سمجھ کر اُسی ُخدا کی پرستش
کرنے کی کوشش کرتے تھے جس نے اُنہیں بنایا تھا۔ جتنے بھی مذاہب ہیں اُن
سب میں ُخدا کا تصور موجود ہے اور ہر وقت کے انسان میں ُخدا کی ذات کا
کچھ نہ کچھ نقش موجود تھا مگر وہ اُس کی صفات سے ناآشنا تھا اسی لیے انسان
طاقت کے نشے میں ُخدائی کا دعویدار بن بیٹھتا تھا اور لوگ کسی نہ کسی
غرض کے تحت ا ُس کی پرستش کرتے تھے۔ انسان سے اپنا آپ چ ُھپا لینے کے
بعد اُس نے خود ہی اُن کی راہنمائی کے لیے اُن میں پیغمبر بھیجنے شروع کیے
اور اُنہیں اپنی جانب راغب کرنا شروع کیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ اللّٰہ نے اپنے انبیاء
281
کے ذریعے یا اُن کے ساتھ ہونے کے اظہار میں انسان کو کچھ معجزے دکھائے
جن سے انسان پر اللّٰہ کی قُدرت آشکار ہوئی اور وہ سمجھ پایا کہ اللّٰہ سورج,
چاند ,ستاروں کا بھی خالق و مالک ہے اور اُن سب سے افضل و بزرگ ہستی
ہے۔ جب لوگ اِس بات کا یقین کر ُچکے کہ اللّٰہ ہی ہے جو زندگی و موت پر
عیسی ابن
ٰ قُدرت رکھنے واال ہے۔ وہی ہے جو بیماروں کو شفا دیتا ہے تو اللّٰہ نے
مریم علیہ السالم کو مبعوث فرما دیا اور وہ صفات ,جنہیں انسان اب تک صرف
اللّٰہ کی ذات سے وابسطہ کرتا تھا ,اپنے نبی کی ذات سے ظاہر فرما دیں۔ اللّٰہ نے
اپنے انبیاء کی صورت اپنی صفات کا اظہار فرمایا اور آخری نبی پر اپنی ذات کا
اظہار مکمل فرما دیا۔ اُس نے بنانے سے مٹانے تک اور مٹا کر پھر سے بنا
ت انسان کو پیش کر دینے تک کی صفات کا اظہار اپنے انبیاء کی صورت حضر ِ
دیا تھا تاکہ انسان پہلے اُن صفات کو سمجھ لے جن کا مجموعہ وہ انسانیت کو
مظہر ذات میں ہی اکھٹا ہو ِ مظاہر صفات کا مجموعہ بیشک ِ عطا کرنے واال ہے۔
سکتا ہے۔ اِسی لیے گزشتہ انبیاء کے بہت سے معجزات نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ
ت اطہر سے ظاہر ہوئے اور جو معجزات آپ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی ذا ِ
وسلم نے خود نہیں دکھائے وہ معجزات آپ کی پیروی کرنے والوں سے ظاہر
ہوئے۔ ہر دوسرے نبی کی آمد سے انسانیت کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بنی انسان
کے نام نازل ہونے واال اللّٰہ کا پیغام بھی پروان چڑھتا رہا اور آخری نبی کی آمد
پر پایہ تکمیل کو پہنچا۔ کچھ لوگوں نے نئی شریعت کی اتباع کی اور کچھ لوگوں
نے اُس کی پیروی کرنے سے انکار کیا۔ اِس طرح مذاہب کی تقسیم وجود میں آئی
اور ہر مذہب کے پیروکاروں نے وقتا ً فوقتا ً اپنے اپنے مذاہب کی تبلیغ جاری
رکھی اور اُس کی بقا اور سربُلندی کے لیے کوشاں رہے۔ انبیاء کا اللّٰہ کی عطا
کردہ شریعت کی تبلیغ کرنا اِس لیے بھی ضروری تھا کیوں کہ وہ اللّٰہ کے دین
کو مکمل کرنے والے تھے۔ اس سب کے باوجود سب نے ایک ہی دین کی تبلیغ
عیسی علیہ السالم کی طرح خاتم ٰ موسی علیہ السالم اور حضرت ٰ کی۔ حضرت
دین ابرھیمی کی ہی تبلیغ فرمائی۔ اس النبین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی ِ
سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام مذاہب ایک ہی بنیاد پر قائم ہیں اور وہ بنیاد عبادت کا
الہی میں خالص ہونا ہے۔
ب ٰ طریقہ نہیں بلکہ ُح ِ
اِس ا ُ ّمت میں پیدا ہونے والے اللّٰہ کے سبھی برگزیدہ بندوں نے اپنے کردار و
ت اقدس کی بڑائی اور رحیمی و کریمی کا پیغام دیا۔ یہ سب اخالق سے اُسی ذا ِ
الہی کی پہچان واضح کرنے کے لیے ہی بھیجی گئیں۔ یہی وہ ت ٰ مظہر ذا ِ
ِ ہستیاں
ہستیاں ہیں جن کے درجات انبیاء کی مانند ہیں اور ایسی ہستیاں ہر وقت میں
موجود ہوتی ہیں۔ لیکن اِس وقت میں ہم لوگ اپنی سوچ ,نیت اور عمل کے باعث
اُن ہستیوں سے بہت دور آ ُچکے ہیں۔ جب تک ہم اپنے اندر سے نفرت کی
غالظت صاف نہیں کریں گے تب تک ہم حق سے دور ہی رہیں گے کیونکہ حق
تو سراپا عشق ہے ,حق تو بال امتیاز رحمت بانٹنے اور بھالئی کرنے کا درس
ضد ہے۔ اِس لیے جب تک ہم نفرت کی روش کو ہے۔ اور نفرت اِس سب کی ِ
دعوی نہیں کر سکتے۔
ٰ ترک نہیں کرتے ہم اہ ِل حق ہونے کا
اللّٰہ کا دین کسی ظاہری ُحلیے کا محتاج نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بھی روپ
انسان کے باطن پر دال ہوتا ہے۔ انسان کی پہچان اُس کے ُحلیے سے نہیں بلکہ
اُس کی بات سے ہوتی ہے۔ ایک خیال اکثر لوگوں کے دل میں آتا ہے کہ دین کی
راہ چلے تو داڑھی رکھنی پڑے گی پردہ کرنا پڑے گا کیسے کروں گا۔؟ لوگ کیا
کہیں گے۔؟ وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ دین کی راہ دِل کی راہ ہے۔ جب تک انسان کا دِل
نہ بدلے تب تک اُس کے ُحلیہ بدل لینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور جب دِل بدل
گیا تو ُحلیہ خود بہ خود بن جاتا ہے۔ داڑھی رکھے بغیر بھی اپنا اخالق و کردار
درست کیا جا سکتا ہے۔ اور جب دل بن جائے تو پردہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے
لیکن پہلے دل کو تو اللّٰہ کی جانب مائل کیا جائے۔ کیونکہ اصل شئے تو اپنے دل
283
کو اللّٰہ کے ساتھ خالص کرنا ہے اور یہ صفت کسی ُحلیے کی محتاج نہیں ہے۔
آپ خواہ کسی بھی مسلک و مذہب سے ہیں اگر اُسے تالش کرنا چاہتے ہیں تو
اپنے اندر تالش کیجیے۔ آپ کیسے بھی ہوں لیکن جب لوگوں سے بات کیجیے تو
کوئی ایسی بات کیجیے جس سے آپ لوگوں کو اللّٰہ کی جانب راغب کر سکیں,
اُن کے بیچ پھیلی نفرت کی آگ کو کم کر کے اُن کے دل میں ایک دوسرے کے
لیے محبت پیدا کر سکیں ,اللّٰہ آپ کا دل دیکھتا ہے بس اِس دل کی تربیت کیجیے
جب دل کی تربیت ہو جائے گی تو آپ کی گفتگو آپ کی آئینہ دار ہو گی۔ لوگ
اکثر کہنے والے کا ُحلیہ دیکھ کر اُس کی بات کا وزن جانچنے کی کوشش کرتے
ہیں۔ اِسی وجہ سے کچھ لوگ ,محض داڑھی رکھ کر ,پانچ وقت مسجد میں جا
کر ,لوگوں کے ذہن زیر کرنے اور اُنہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
حضرت علی ابن ابی طالب کا فرمان ہے کہ "یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے
بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔" عام طور پر ہم لوگ بس یہی دیکھتے رہ
سننے کے بعد بھی ذہن اسی بات میں جاتے ہیں کہ کون کہہ رہا ہے اور بات ُ
اٹکا رہتا ہے کہ یہ بات ہمارے مسلک کے مولوی صاحب نے کہی تھی تو یقینا ً
یہ بات سو فیصد درست ہی ہو گی اور اسی سوچ کے تحت ہم بات میں غور کیے
بغیر ہی اُسے تسلیم کر لیتے ہیں۔ بس اسی بات کی ضرورت ہے ہمیں کہ ہم
"کون" کی جگہ "کیا" پر دھیان دیں اور جس شئے کو دل تسلیم نہ کرے اُسے
پرکھنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ جو لوگ اللّٰہ کے لیے جستجو کرتے ہیں ,اللّٰہ
اُنہیں ضرور ملتا ہے۔
284
آدم کو آدمیت کا ساز بیچتا ہوں..
سکو تو میں بھی آواز بیچتا ہوں.. سن ََگر ُ
میں صوفی و ُم ّال نہ کوئی عا ِلم و ِ
عامل..
فر عشق کے انداز بیچتا ہوں.. کافر ہوںُ ,ک ِ
جوہر کامل پوشیدہ ہے تُجھی میں.. ِ وہ
سمجھو اگر تو میں خودی کا راز بیچتا ہوں..
گہرائیوں سے ڈھونڈ کر اونچائیاں التا ہوں اور..
ُکوزے میں بھر کے ِبحر کے اعجاز بیچتا ہوں..
سن ذرا ,مجھ سے بھی کر سوداگری.. سننے والے ُ او ُ
میں کَرگسوں کے بدلے شہباز بیچتا ہوں..
مسجو ِد مالئک ہے مسجود کا لبادہ..
مسجد کے نمازی کو نماز بیچتا ہوں..
میرے پاس جو گوہر ہیں تمھاری ہی امانت ہیں..
میں تم کو تمھارے ہی الفاظ بیچتا ہوں..
مسلک انسان کا ہوں پیروکار اے دوست.. ِ میں
تفریق کے جھگڑوں سے بے نیاز بیچتا ہوں..
)ختم ُ
شد(
285
رابطہ
مح ّم د کامران احمد
muhammadkamranahamd@outlook.com
https://facebook.com/muhammadkamranahmad
Join us on facebook page and Youtube Channel
https://facebook.com/Firqaeinsan/
https://www.youtube.com/channel/UC6ThdifkKmKb1rVi_xRN
adQ
286
Muhammad Kamran Ahmad
287