You are on page 1of 287

‫فرقوں میں ایک فرق ِہ‬

‫انسان چاہیے‬
‫(تالش حق کی ایک س ّچی‬‫ِ‬
‫کہانی)‬
‫مصنف‪:‬محمد کامران احمد‬
‫‪1‬‬
‫عرض ناشر‬
‫اسال م و علیکم ‪..‬‬

‫تالش حق کی جستجو کسی فرقہ ‪،‬مسلک‪ ،‬مذہب سے باالتر ہے ۔ اس‬


‫تالش اور جستجو کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا آدم کی اپنی تاریخ‬
‫آج کے مادیت پسندی کے دور میں جہاں ظاہری دنیاوی علوم ‪ ،‬سائنس‬
‫و ٹیکنالوجی میں انسان ترقی کرتا چال گیا اور خود کو ظاہری طور‬
‫پر دنیا سے ہم آہنگ کیا وہیں باطنی اصالح اور الله سے تعلق تک‬
‫رسائی اور اس سے ہم آہنگی اتنی ہی کمزور ہوتی چلی گئی۔جس کا‬
‫مشاہدہ آج کل بے چینی و ڈپری شن ج ی سے امراض ہیں ۔ جب کہ یہ‬
‫تالش اور تعلق انسان کے اندر الله نے روز اول سے ودیت کر دی‬
‫ہے ‪ .‬آج کے نوجوان کا سب سے بڑا مثال یہ ہے جب بھی اس نے اس‬
‫بارے میں کوئی کوشش کی تو گو نہ گو خود ساختہ نظریات اس‬
‫کے راستے کی سب سے بری رکاوٹ بن گے آخر کار ان سو الوں کے‬
‫جواب تالش کرتے کرتے پھر برائی اور غالظت ک ے دلدل میں‬
‫پھنستے چلے گئے۔‬
‫میری خواہ ش ہے کے ہمارے نوجوان طبقہ اس کہانی کو پڑھے اور‬
‫وہ تمام سواالت کے جوابات اپنے اندر تالش کریں ‪ ،‬درست اور غلط‬
‫کو خود سمجھنے کی کوشش کریں ‪ ،‬اپنے دل سے اس ک ی گواہی طلب‬
‫کر یں ‪،‬ہم کو وہی ملتا ہے جس کی ہم طلب کرتے ہیں ۔ ہم دنیاوی علم‬
‫کو سیکھنے‪ ،‬معاشی ترقی کے لئے تو بہترین ادارے تالش کرتے ہیں‬
‫لیکن اپنے الله تک پہنچ کے کسی راستے کو نہ جان ن ے کی کوشش‬
‫کرتے ہیں اور نہ ہی طلب ‪،‬ایسے باطنی علم کو سکھانے والوں سے‬
‫ہمارے تعلقات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ جب کے روایتی‬
‫دنیاداری چمکانے والوں نے یہاں بھی لوگوں کو گمراہی کے‬
‫راستے پر ڈال دیا چاہے آپ کسی بھی مسلک سے ہوں اپنے اداروں‬
‫میں رہ کر بھی ایک الله تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ یہ کتاب‬
‫آج کے ہر انسان کی ایسے بہت سے روحانی معمالت اور ان سے‬
‫ہم آہنگی پر رہنمائی کرتی ہے۔‬

‫‪2‬‬
‫ا نبیاء اور اولیا اکرام نے ہم تک امن اور رواداری کا پیغام پہنچایا ۔ یہ‬
‫پیغام سراپا مح ب ّ ت ہے ۔ اسی محبت کو پھیالن ا‪ ،‬اور ایک اللہ کی رضا‬
‫حاصل کرنے کا نام دین حق ہے ۔‬

‫کامران بھائی کی اس بہترین کوشش میں میرا حصہ محض ات نا ہے‬


‫کہ میں اس کو جہاں تک پھیال سکا‪ ،‬پھیالؤں گا ۔'' فرقوں میں ایک‬
‫فرقہ انسان چاہے '' انسان کو انسان سے مالنے کی ایک کاوش‬
‫ہے ۔ میں الله کے بعد کامران بھائی کا تہ ہ دل سے مشکور اور ممنون‬
‫ہوں کے انہوں نے اس سفر میں مجھ پر اعتماد کرتے ہوے مجھے یہ‬
‫موقع دیا ۔ ا ن سے سیکھنے کو جہاں پہلے بہت کچھ مال انشاء اللہ آگے‬
‫بھی الله ان کا سایا تادیر سالمت رکھے گا ‪ (.‬آمین )‬
‫تو آئیے ہم سب ملکر اس تالش کے سفر کی ابتدا کرتے ہیں ۔‬

‫محمد اسماعیل تاج‬

‫‪3‬‬
‫تعارف‬
‫تالش حق کی ایک س ّچی کہانی ہے جس کے اکثر اہم کردار ابھی حیات ہیں۔‬ ‫ِ‬ ‫یہ‬
‫اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگ اس کہانی کے مرکزی‬
‫کردار کو کوئی خاص شخصیت سمجھ کر اُس کی کھوج میں لگ جائیں کیونکہ‬
‫وہ بھی ہم سب کی طرح گناہگار و خطاکار‪ ,‬اور ہر برائی سے آشنا انسان ہے‬
‫لیکن ایک خاصیت ہے اُس میں کہ وہ جو کہتا ہے دل سے کہتا ہے شاید اسی‬
‫لئے اکثر اس کی باتیں دل تک پہنچ بھی جاتی ہیں۔ اُس کی کہانی بیان کرنے کا‬
‫مقصد فرقہ واریت سے جنم لینے والی اُلجھنوں پر روشنی ڈالنا اور اُن اُلجھنوں‬
‫کا ایسا حل تالش کرنا ہے جس میں ہر شخص اپنے اپنے مذہبی دائرے میں‬
‫پُرسکون ہو کر رہ سکے۔ اس وقت میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جن چیزوں کا‬
‫فیصلہ اللّٰہ نے کرنا ہے ہم سب ایک دوسرے کے لیے وہی فیصلے کرنے کی‬
‫کوشش میں مگن ہیں۔ کون جنت میں جائے گا کون دوزخ میں‪ ،‬کون مومن ہے‬
‫کون کافر‪،‬کس کو آباد رہنا چاہیے اور کون برباد ہو جانا چاہیے یہ سب فیصلے‬
‫ایک دوسرے کے لیے ہم خود ہی کر لیتے ہیں۔ جب تک ہم اِس فرقہ واریت کی‬
‫ت مسلمہ کہالنے کے الئق ہی نہیں بن‬ ‫آگ کو بجھا نہیں لیتے تب تک ہم اُم ِ‬
‫سکتے۔ یہ آگ ایک دوسرے کے خون سے نہیں بجھ سکتی لیکن ایک دوسرے‬
‫کو ایک اللّٰہ کے نام پر گلے لگانے سے‪،‬ایک دوسرے کے بارے میں اچھا گمان‬
‫رکھنے سے‪ ،‬ایک دوسرے کے لیے دُعا کرنے سے‪ ،‬ہم اِس آگ کو ضرور بجھا‬
‫سکتے ہیں۔ ''فرقوں میں ایک فرق ِہ انسان چاہیے'' اسی آگ کو بجھانے کی ایک‬
‫چھوٹی سی کوشش ہے۔ اللّٰہ سے دعا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو بھالئی عطا‬
‫فرمائے اور سبھی کو ایک اللّٰہ کے نام پر ایک ہونا نصیب فرمائے۔‬
‫اللّٰہ کے حضور جس پاکیزگی کی حاجت ہوتی ہے وہ نہ تو عبادت گاہ سے‬
‫حاصل ہوتی ہے اور نہ ہی لباس سے میسر آتی ہے۔ لوگ محو ہیں ایک دوسرے‬
‫کی عبادت گاہ کو کمتر اور اپنی عبادت گاہ کو برتر ثابت کرنے میں۔ تاکہ وہ دنیا‬
‫کو منوا سکیں کہ ہماری عبادت گاہ افضل ہے۔ جو رب ہمارے دل دیکھتا ہے ہم‬
‫اُس کے لیے ایک دوسرے کی عبادت گاہ بدلنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ یہ سوچ‬
‫کر کے یہ میرے مسلک واال مسلمان ہو جائے گا تو کامیاب ہو جائے گا کیونکہ‬
‫‪4‬‬
‫میں اللّٰہ کو باقی لوگوں سے ذیادہ پیارا ہوں۔ اسے لیے اُس نے مجھے تو صحیح‬
‫مسلک و مذہب میں پیدا کیا لیکن باقی سب سے وہ اُن کی پیدائش کے پہلے ہی‬
‫سے ناراض ہے اِس لیے اُن سب کو غلط مذہب و مسلک میں پیدا کر دیا۔ یہ ایک‬
‫ایسی سوچ ہے جس نے تمام مذاہب کے ماننے والوں میں نفرت کا فتنہ برپا کر‬
‫رکھا ہے۔ اللّٰہ کے انبیاء‪ ،‬اولیاء‪ ،‬سنت‪ ،‬سادھو‪ ،‬درویش یا اور جتنے ناموں سے‬
‫تمام مذاہب کے لوگ اللّٰہ والوں کو پکارتے ہیں سب نے ایک اللّٰہ کے لیے لوگوں‬
‫عیسی ٌ‬
‫ٰ‬ ‫موسی ٌ کے نام لیواوں نے حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫سے محبت کا درس دیا۔ لیکن حضرت‬
‫کو جھٹالیا اور بعد میں دونوں مذاہب نے حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم‬
‫کی پیروی سے انکار کیا۔ مسلمان سارے انبیاء کو مانتے ہیں تو اِن کے بیچ‬
‫صحابہ‪ ،‬اہ ِل بیت‪ ،‬اور مختلف امامین کے جھگڑے رکھ دیے گئے۔ اللّٰہ نے انسان‬
‫کے بیچ یہ جھگڑے کس لیے رکھے۔؟ آخراُس نے ایساکیوں چاہا کہ لوگ الگ‬
‫الگ مسلک و مذہب کے پیروکار بن کر اُس کی عبادت کریں۔؟؟ کیا وہ یہ چاہتا‬
‫تھا کہ لوگ مذہب و مسلک کے نام پر ایک دوسرے کا گلہ کاٹیں۔؟؟؟ یقینا ً اللّٰہ ایسا‬
‫ہرگز نہیں چاہتا تھا۔ اُس نے تو اِس لیے لوگوں کو اتنے سارے روپ دیے کیونکہ‬
‫اللّٰہ اِس الئق ہے کے طرح طرح کے روپ میں‪ ،‬الگ الگ ڈھنگ سے اُس کی‬
‫پرستش کی جائے۔ الگ الگ ذبان میں الگ الگ انداز میں اللّٰہ کی بڑائی بیان کی‬
‫جائے۔ اللّٰہ بہت بڑا ہے تمام مخلوق اپنے اپنے ڈھنگ سے اپنی تمام زندگی بھی‬
‫شایان شان بندگی ناممکن ہے۔ اسی‬ ‫ِ‬ ‫اُس کی عبادت میں گزارے تو بھی اُس کے‬
‫لیے اُس نے اٹھارہ ہزار عالمین اور اُن کی مخلوق کو پیدا کیا۔ ہر جانور‪،‬‬
‫درخت‪ ،‬پہاڑ‪ ،‬سمندر‪ ،‬اپنے اپنے اندازسے اللّٰہ کی عبادت کرتے ہیں اور کبھی‬
‫ایک جانور دوسرے جانور کو یہ نہیں کہتا کے تمہارا عبادت کا طریقہ میرے‬
‫طریقے سے کمتر ہے۔ اللّٰہ نے انسان کو الگ الگ رنگ اِس لیے دیے کے لوگ‬
‫جان سکیں کہ اللّٰہ ہی ہر رنگ کا خالق ہے اور ہر رنگ کا اللّٰہ اُس رنگ کے‬
‫لیے کافی ہے۔‬
‫حضرت علی ابن ابی طالب کا فرمان ہے کہ "اپنی اوالد کی حد سے ذیادہ فکر‬
‫مت کرو‪ ,‬کیونکہ جیسے تمہارا رب ہے ویسے ہی تمہاری اوالد کا بھی رب ہے"‬
‫اِس قول میں جہاں اللّٰہ پے بھروسا کرنے کا درس ہے وہیں اِس میں اِس جانب‬
‫بھی اشارہ ہے کہ جیسے آپ کا اللّٰہ ہے جس نے آپ کو تخلیق کیا ‪،‬جس نے آپ‬
‫کا رزق‪ ،‬آپ کا جینا مرنا لکھا ‪،‬اُسی طرح وہی اللّٰہ دوسرے شخص کا بھی ہے‬
‫اور وہ جس طرح آپ کے لیے کافی ہے اُسی طرح اُس کے لیے بھی کافی ہے۔‬
‫ہمارا مسلک‪ ,‬ہمارا مذہب‪ ,‬ہمارے لیے ہے اُسے دوسرے شخص پہ مسلط کرنے‬
‫‪5‬‬
‫کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہ سوچ کہ "ہم ہی صحیح ہیں اور باقی سب غلط‬
‫ہیں" ایک مسلک یا ایک مذہب کی حیثیت سے جینے کے لیے تو اچھی ہے لیکن‬
‫بنی نو انسان کی صورت تمام انسانیت کو پروان چڑھانے کے لیے یہ سوچ‬
‫زیر اثر آج انسانیت کشت و خون میں مبتال ہے۔‬ ‫ناکافی ہے۔ بلکہ اسی سوچ کے ِ‬
‫ہم لوگوں کے پاس دِین نہیں بلکہ دِین داروں کے صرف نام باقی رہ گئے ہیں۔‬
‫اور ہم اُن ناموں کی لڑائی کرواتے رہتے ہیں۔ کوئی لوگوں کو ِ‬
‫شان اہ ِل بیعت‬
‫منوانے پے تُال ہے تو کوئی چار صحابہ کی عظمت ثابت کرنے میں مگن ہے۔‬
‫کسی کو اولیاء کی فکر ہے تو کسی کو یسوع مسیح کی قربانی کی تشہیر مقصود‬
‫ہے۔ کوئی مندر کی حفاظت چاہتا ہے تو کسی کو مسجد پر قابض رہنے کی فکر‬
‫کھائے جا رہی ہے۔ کسی کو بھی انسانوں کی فکر نہیں ہے۔ سب اپنا اپنا مسلک یا‬
‫مذہب بچانے کی فکر میں ہیں۔ ہمیں نہ تو انسان کی پرواہ ہے اور نہ ہی ہمیں‬
‫انسانیت عزیز ہے۔ ہمیں خدا سے بس یہ غرض ہے کہ وہ ہمیں کامیاب اور ہم‬
‫سے اختالف رکھنے والے سب لوگوں کو نیست و نابود کر دے۔ اور اگر وہ ایسا‬
‫نہ کرے تو ہم خدا سے شکوے کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔‬
‫مذہب خدا تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ لیکن لوگ یہاں مذہب ہی کو خدا بنائے‬
‫بیٹھے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ خدا تو بس ہمارے ہی پاس ہے جنّت صرف ہمارے‬
‫لیے ہی ہے اور باقی سب جہنم میں ڈالے جائیں گے یا ہم بھی جہنم میں ڈالے‬
‫جائیں گے مگر ہماری سزا پوری ہو جائے گی اور ہم دیر سے ہی صحیح لیکن‬
‫جنت میں ضرور جائیں گے اور باقی سب ہمیشہ دوزخ میں ہی جلتے رہیں گے۔‬
‫کیا وہ سب اللّٰہ کی مخلوق نہیں ہیں۔؟ کیا ہمارا رب رحمان و رحیم نہیں ہے۔؟‬
‫اُسے اگر ہم پے رحم آ جائے گا تو کسی دوسرے پے بھی آ سکتا ہے۔ ہم کون‬
‫ہوتے ہیں اللّٰہ کی رحمت کو اپنے آپ تک محدود کرنے والے۔؟ اگر ایک شخص‬
‫سر محشر اُسے صرف اُس کے‬ ‫پوری زندگی لوگوں سے بھالئی کرتا ہے تو کیا ِ‬
‫مذہب و مسلک کی بنیاد پر جہنم رسید کر دیا جائے گا اور کیا عمر بھر لوگوں کو‬
‫دُکھ پہنچانے والے لوگ محض مذہب و مسلک کی بنیاد پر بخش دیے جائیں گے؟‬
‫ہرگز ایسا نہیں ہو گا کیونکہ‬
‫’’المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ‘‘ (البخاری‪ ،‬االیمان)‬
‫مسلمان وہ شخص ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے کسی کو ضرر پہنچتا ہے اور‬
‫نہ نقصان۔‬

‫‪6‬‬
‫اس حدیث میں صاف الفاظ میں ایسے شخص کو مسلمان کہا جا رہا ہے جس کے‬
‫ہاتھ اور زبان سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا یہاں نماز روزے کا ذکر نہیں کیا‬
‫جا رہا تسبیح‪ ,‬داڑھی یا ٹوپی کی بات بھی نہیں کی گئی صرف اور صرف اتنی‬
‫بات کہ جو دوسرے لوگوں کے لیے بے ضرر ہے وہ مسلمان ہے۔ اب اگر اِس‬
‫حدیث کے پیمانے پر لوگوں کو پرکھا جائے تو بہت سے ِسکھ‪ ,‬ہندؤ‪ ,‬اور مسیحی‬
‫سنّی‪ ,‬وہابی‪ ,‬بریلوی غیر‬ ‫حضرات‪ ,‬مسلمان دکھائی دیں گے اور بہت سے شیعہ‪ُ ,‬‬
‫سن‬
‫مسلم نظر آئیں گے۔ اِس حدیث شریف سے یہ بھی واضح ہوتا ہے اصل دین ُح ِ‬
‫سلوک ہے نہ کے نماز روزے کا طریقہ۔ ہر مذہب بھالئی کا درس دیتا ہے ہر‬
‫مذہب اللّٰہ کے لیے لوگوں سے محبت کا درس دیتا ہے کوئی مذہب برائی کی راہ‬
‫پے چلنا نہیں سکھاتا۔ اگر غور کیا جائے تو تمام مذاہب کی تعلیمات بھی ایک سی‬
‫ہیں۔ صرف اُن تعلیمات کو پہنچانے والوں کے نام مختلف ہیں۔ تھوڑا اور گہرائی‬
‫سے سوچا جائے تو نظر آتا ہے کہ یہ تعلیمات پہنچانے والے سب لوگ ایک سے‬
‫کردار کے مالک ہیں سب نے لوگوں سے محبت و شفقت سے پیش آ کر محبت و‬
‫شفقت ہی کی تلقین کی اور ہم انہی کے ناموں پے نفرت اور ظلم کا بازار گرم‬
‫کیے بیٹھے ہیں۔‬
‫اپنے مذہب کی تبلیغ کیجیے لیکن جب تک آپ اپنے علم میں کامل نہیں ہیں تب‬
‫تک اپنے علم کا اظہار کرنے سے گریز کیجیئے کیونکہ ادھورا علم فتنے کے‬
‫سوا اور کچھ بھی نہیں۔ اور اگر مکمل علم سے پہلے ہی آپ تبلیغ کرنا چاہتے ہیں‬
‫سنی بن کے دکھائیں‬ ‫سن سلوک کے ذریعے تبلیغ کیجیئے۔ ایسے شیعہ‪ُ ,‬‬ ‫تو اپنے ُح ِ‬
‫کے لوگوں کا دل چاہے آپ کے مسلک یا مذہب کا پیروکار بننے کا۔ اللّٰہ کا دین‪,‬‬
‫س ّچا دین‪ ,‬روز ّاول سے ایک ہی ہے کہ اللّٰہ کے لیے انسان سے محبت کی‬
‫جائے۔ تمام انبیاء نے اسی محبت کی تبلیغ کی اور لوگوں کو را ِہ راست پے الئے۔‬
‫اللّٰہ خود انسان سے محبت رکھتا ہے۔ ایک انسان کی محبت میں اللّٰہ نے تمام‬
‫مخلوق کو پیدا فرمایا۔ وہ ایک انسان مسلمانوں کے لیے حضرت محمد صلی اللّٰہ‬
‫عیسی علیہ السالم‬‫ٰ‬ ‫علیہ و آلہ وسلم ہیں‪ ,‬جبکہ ایک مسیحی کے لیے وہ حضرت‬
‫ہیں اور اسی طرح ہر مذہب کے لوگ الگ الگ شخصیات کو اُس ایک انسان کی‬
‫جگہ رکھتے ہیں جس سے اللّٰہ سب سے ذیادہ محبت رکھتا ہے۔ لیکن غور‬
‫سن سلوک سے تبلیغ کی‪ ,‬اپنے کردار سے‬ ‫کیجیئے کہ اُن تمام شخصیات نے ُح ِ‬
‫لوگوں کے دِلوں کو قائل کیا۔ وہ لوگ جو اللّٰہ کا انکار کرتے تھے وہ بھی اللّٰہ‬
‫والوں کے کردار کی عزت کرنے پے مجبور نظر آتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ‬
‫آج ہم اپنا کردار ثابت کرنے کی جگہ اپنے نبی‪ ,‬صحابی‪ ,‬امام‪ ,‬وغیرہ کی برتری‬
‫‪7‬‬
‫ثابت کرنے میں محو ہیں۔ اُن کا عمل اُن کے ساتھ چال گیا۔ ہمارے‪ ,‬اُن کی اچھائی‬
‫یا بُرائی بیان کرنے سے‪ ,‬اُن کے درجات بُلند یا پست نہیں ہو جائیں گے۔ اور نہ‬
‫ہی محض اُن کی اچھائی یا برائی بیان کرنے سے ہم اپنے درجات بُلند کر سکتے‬
‫ہیں جب تک کہ ہم اُس سے کچھ سیکھ کر اپنے کردار کی تصحیح نہیں کرتے۔‬
‫ت صحابہ یا علی ولی‬ ‫اور اگر اپنے کردار کی تصحیح نہیں کر سکتے تو عظم ِ‬
‫کے نعرے بھی لگانا چھوڑ دیجیئے ایک دوسرے کو خارجی‪ ,‬رافضی کہنا بھی‬
‫ترک کر دیجیئے کہ اصل فساد کی جڑ یہی ہے کہ ہم اپنا کردار بُلند کرنے کی‬
‫جگہ بُلند شخصیات کے کردار کو بُلند یا پست ثابت کرنے کو دین سمجھ کر ایک‬
‫دوسرے پر اپنا اپنا دین مسلط کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اگر آپ اپنے مذہب‪,‬‬
‫سنّی یا مسیحی سے مسلم‬ ‫مسلک کی تبلیغ کرنا چاہتے ہیں تو لوگوں کو شیعہ سے ُ‬
‫بنانے کی کوشش کرنے کی جگہ اُسے ایک اللّٰہ پے بھروسا کرنا سکھانے کی‬
‫کوشش کیجیئے‪ ,‬اللّٰہ کے لیے لوگوں سے محبت کرنے کا درس دیجیئے‪ ,‬دنیا‪,‬‬
‫نفس اور شیطان سے خبردار رہنا سکھائیں تاکہ لوگ خود آپ کے مسلک و مذہب‬
‫کی جانب مائل ہوں اور آپ کے نبی‪ ,‬آپ کے امام کے ُگن گائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ‬
‫آج مسلمان‪ ,‬ہندؤ‪ ,‬سب کے سب دنیا اور نفس کو اپنا رب بنائے اُس کی پرستش‬
‫میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہماری‪ ,‬اپنی زندگی سے وابسطہ تمام امیدیں دنیاوی ہی‬
‫ہوتی ہیں۔ اچھا اسکول‪ ,‬اچھی نوکری‪ ,‬اچھی بیوی‪ ,‬اچھا گھر‪ ,‬بس زندگی سے یہی‬
‫چاہیے۔ اور اپنے بچوں کے لیے بھی ایسی ہی خواہشات رکھتے اور اِن چیزوں‬
‫کی فکر کرتے زندگی گزارنے والے تمام لوگ انسان ہیں کسی مذہب و مسلک‬
‫سنّی‪ِ ,‬سکھ‪ ,‬ہندؤ سب کے سب صرف انسان‬ ‫کی تمیز سے پرے یہ سب شیعہ‪ُ ,‬‬
‫ہیں۔ گناہوں سے ِلتھڑے‪ ,‬بے عمل لوگ‪ ,‬یہ نہ ہندؤ ہیں نہ مسلمان نہ کوئی اور۔ یہ‬
‫سب صرف لوگ ہیں۔ شیطان کے وسوسوں میں ِگھرے‪ ,‬ڈرے سہمے لوگ۔ جنہیں‬
‫دنیا کی فکر نے برباد کر رکھا ہے۔ اِس وقت میں انسانیت کو ضرورت ہے ایسے‬
‫لوگوں کی جو لوگوں کو ایک اللّٰہ کے نام پر ایک کر سکیں۔ مذہب و مسلک کے‬
‫نام پر ‪ ,‬رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں کی بہت تقسیم ہو چکی ہے۔ اور اس‬
‫تقسیم سے ہم سب اپنے اپنے رب سے بہت دور ہو ُچکے ہیں اور شیطان ہمیں ہر‬
‫جانب سے گھیر کر ہمارا قت ِل عام کر رہا ہے۔ اب اس جگہ سے اگر بچ کے نکلنا‬
‫ت‬‫ہے تو اس کے لیے تمام انسانیت کو ایک ہونا ہو گا۔ اور اس کام کی ابتدا ا ُ ّم ِ‬
‫مسلمہ کو ہی کرنی ہو گی کیونکہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جو خود کو رحمت اللعالمین‬
‫کا پیروکار بتاتے ہیں۔ اس لیے یہ ہمارا ہی فرض ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ سب‬

‫‪8‬‬
‫کو بتایا جائے کہ اللّٰہ کی رحمت سب کے لیے ہے اور ِ‬
‫دین اسالم کے ماننے‬
‫والے تمام مذاہب تمام انسانیت کے لیے سالمتی کا باعث ہیں۔‬
‫ذی ل میں دیا گیا مکالمہ اس کتاب کا اصل پیغام ہے۔ مصنف نے بہت‬
‫سے فرقوں اور الگ الگ جگہ کے لوگوں کے متعلق بات کی جس کا‬
‫مقصد کسی بھی طرح کے لوگوں کی تضحیک کرنا نہیں بلکہ ہر بات‬
‫اصالحی نقطۂ نظر سے بیان کی گئی ہے۔ اگر کسی جملے سے کسی‬
‫پڑھنے سننے والے کی دل آزاری ہو تو ا ُس کے لیے مصنف معازت‬
‫خواہ ہے۔ اس کتاب کا اصل پیغام اس مکالمے میں قید ہے۔ کہ فرقہ‬
‫واریت سے نجات حاصل کرنے کا واحد راستہ اپنے اندر موجود تفرقہ‬
‫بازی کا خاتمہ ہے‬
‫سر میں تنگ آ گیا ہوں اپنے آپ سے‪ ،‬خود‬ ‫اُس نے التجا بھرے لہجے میں کہا‪َ ":‬‬
‫سے وحشت ہوتی ہے مجھے۔ میں نماز نہیں پڑھتا‪ ،‬جب بھی نماز میں کھڑا ہوتا‬
‫ہوں تو ایک خوف مجھے گھیر لیتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ پتہ نہیں میرا نماز کا‬
‫طریقہ درست بھی ہے یا نہیں‪ ،‬اس طریقے پر نماز قبول ہو گی یا نہیں انہی‬
‫سوچوں میں اُلجھے اُلجھے میں کب السالم و علیكم و رحمة الله تک پہنچ جاتا‬
‫سر مجھے کسی فرقے کسی مذہب کی تالش نہیں ہے میں‬ ‫ہوں پتہ ہی نہیں چلتا"۔ َ‬
‫تو بس حق جاننا چاہتا ہوں‪ ،‬مجھے خواہش ہے تو ایک بار حق کو پہچاننے کی‬
‫ہے پھر چاہے وہ مجھے عمر بھر دوزخ میں جال لے مجھے کوئی پرواہ نہیں‬
‫ہے لیکن ایک بار مجھے یہ پتہ چل جائے کے حق کیا ہے‪ 27 ،‬فرقوں میں سے‬
‫وہ کون سا ایک ہے جو جنتی ہو گا؟ میں نے بہت سے فرقوں کو پڑھا ہے لیکن‬
‫میں کسی ایک فرقے کو ُچن نہیں پایا۔ کبھی مجھے لگتا ہے کے یہ تمام فرقے‬
‫صحیح ہیں اور کبھی لگتا ہے کے تمام ہی فرقے غلط ہیں۔ یہ حدیث ہر وقت‬
‫میرے گمان میں گونجتی رہتی ہے کے "‪ 27‬فرقے ہوں گے ایک جنتی ہو گا"۔‬
‫میں ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو الگ الگ مسلکوں سے تعلق رکھتے ہیں‬
‫لیکن مجھے اُن میں سے ہر ایک جنتی محسوس ہوتا ہے‪ ،‬الگ الگ مسلکوں سے‬
‫تعلق رکھنے کے باوجود اُن سب میں چند خوبیاں مشترک ہیں مثالً وہ جھوٹ نہیں‬
‫بولتے‪ ،‬لوگوں کے ساتھ خوش اخالقی سے پیش آتے ہیں‪ ،‬دُکھ درد میں سب کے‬
‫کام آتے ہیں‪ ،‬کسی کو بد دُعا نہیں دیتے‪ ،‬کسی کو اُس کے رنگ‪ ،‬نسل‪ ،‬فرقے یا‬
‫مذہب کی وجہ سے اُسے کم تر یا جہنمی نہیں سمجھتے‪ ،‬یہ سب وہ خوبیاں ہیں‬
‫جن کی وجہ سے میں اُنہیں جنتی سمجھنے پر مجبور ہوں کیونکہ میرے خیال‬
‫‪9‬‬
‫میں اللہ کو وہ لوگ زیادہ پیارے ہیں جو لوگوں کے حق میں بہتر ہیں۔ تو پھر کیا‬
‫یہ ممکن ہے کہ اللہ اُن میں سے کچھ لوگوں کو محض اس لیے جہنم میں ڈال‬
‫دے گا کہ وہ لوگ کسی خاص مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتے تھے جبکہ وہ‬
‫مسلک یا مذہب اُن لوگوں نے خود اپنے لیے نہیں ُچنا بلکہ اللہ نے اپنی مرضی‬
‫سے اُن لوگوں کو اُس مذہب یا مسلک کے ماننے والوں کے گھر پیدا کیا۔؟‬
‫پروفیسر صاحب کے چہرے پر ایک گہری مسکان دیکھ کر وہ خاموش ہو گیا‬
‫انہوں نے تھوڑے توقف کے بعد کہا‪" :‬صاحب زادے میں کوئی مذہبی اسکالر یا‬
‫فتوی تو نہیں دے سکتا کے‬‫ٰ‬ ‫ُمفتی نہیں ہوں اس لیے میں آپ کو اس بات پر کوئی‬
‫فالں فرقہ جنتی ہے اور فالں فرقہ جہنمی لیکن میں ہر بات کو عقل و فہم کے‬
‫معیار پر پرکھنے کا عادی ہوں۔ آپ جس حدیث کی بات کر رہے ہیں وہ کچھ یوں‬
‫ہے کہ‪" :‬اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے! میری‬
‫اُمت ضرور تہتر (‪ )27‬فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک جنت‬
‫میں جائے گا اور بہتر (‪ )27‬جہنم میں داخل ہوں گے۔" صحابہ کرام نے عرض‬
‫کیا ‪’’ :‬یارسول اللہ! وہ جنتی گروہ کون ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے‬
‫فرمایا ‪ :‬الجماعة‪’’ .‬وہ جماعت ہے۔‘‘ بعض جگہ اسے یوں بھی سنا کہ"وہ‬
‫جماعت جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر ہو گی۔" اور بعض جگہ‬
‫یوں سنا کہ جو رسول اور آ ِل رسول کے طریقے پر ہوں۔‬
‫اب سوچو کے اللہ کے محبوب اور باقی تمام انبیاء‪ ،‬اولیاء‪ ،‬صالحین‪ ،‬اور وہ تمام‬
‫ہستیاں جنھیں لوگ مذہب کے نام پر مانتے ہیں اُن کا طریقہ کیا ہے تو آپ کو‬
‫دکھائی دے گا کہ ایک بات اُن سب میں مشترک ہے کے ان سب نے اپنی زندگی‬
‫حق کی محبت میں گزاری اور اس محبت کی دلیل انہوں نے لوگوں سے محبت‬
‫کر کے پیش کی۔ اور اس سے بہتر محبت اور کیا ہو سکتی ہے کے کوئی لوگوں‬
‫کو حق کی جانب بالئے۔ اگر تم اپنے اندر سے تفرقہ ختم کر دو تو تمھارے باہر‬
‫کا تفرقہ اپنے آپ دم توڑ دے گا۔ ایک پل کے لیے اس حدیث میں بیان کیے گئے‬
‫فرقوں سے نظر ہٹاؤ اور صرف ایک لفاظ پر غور کرو "جماعت"۔ ہر جماعت‬
‫کہتی ہے کے وہ جماعت ہم ہیں لیکن تم اس جماعت کو اپنے اندر تالش کرنا۔‬
‫جماعت جمیعت سے ہے‪ ،‬جب تم اپنے اندر کی جمیعت تالش کر لو گے تو خود‬
‫بہ خود تقسیم سے آزاد ہو جاؤ گے‪ ،‬اپنے اندر سے تفریق ختم کر دو تو تم اکھٹے‬
‫ہونا شروع ہو جاؤ گے۔ دیکھو اپنے دل و زبان کو نفرت کی ہر سوچ‪ ،‬ہر گمان‬

‫‪10‬‬
‫اور ہر کالم سے پاک کر لو دوسرے کے دین کی فکر چھوڑ دو اپنے دین کی‬
‫فکر کرو۔ ہر ایک کے اپنے اعمال ہیں جو وہ اپنے رب کے لیے سر انجام دیتا‬
‫ہے اگر وہ عمل صحیح یا غلط ہے تو تم اُس عمل پر جزا یا سزا کے فیصل نہیں‬
‫ہو۔ اگر تمہاری نظر لوگوں پر ٹِکی ہے تو جان لو کے تم خود سے نظر ُچرا‬
‫رہے ہو۔ اور جب تک تمہاری نظر خود پر نہیں ہو گی تب تک تم بھٹکتے رہو‬
‫گے۔ ہر شخص اُس انداز سے اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کر رہا ہے جس انداز‬
‫کو اُس کے رب نے اُس کے لیے پسند کیا اسی لیے اُسے اُس مسلک یا مذہب میں‬
‫منصف اور‬ ‫پیدا کیا۔ اللہ کی ذات بے انصاف یا ظالم نہیں ہے وہ تو سب سے بڑا ِ‬
‫سراپا رحمت ہے وہ کیوں کسی انسان کو کافر یا ُمشرک بنا کر دنیا میں بھیجے‬
‫گا؟ تم نے کہا جنتی لوگ تم نے ہر مسلک میں دیکھے تو اِس کی وجہ یہی ہے‬
‫کے اللہ کا راستہ انسان کے اپنے اندر موجود ہے اُس پر چلنے کے لیے اُسے‬
‫اپنا آپ اِکھٹا کرنا ہوتا ہے اپنی سوچ کو اپنے گمان کو جس جس نفرت سے تقسیم‬
‫کر کے جتنے بھی ٹُکڑوں میں بانٹا ہے اُن تمام ٹُکڑوں کو جمع کر کے ایک کرنا‬
‫ہوتا ہے۔ تمام انسانوں کو ایک سا سمجھنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے۔ انسان اگر‬
‫اپنے اندر دوسرے تمام انسانوں کے لیے ایک سی محبت اور عزت پیدا کر لے‬
‫اور نفرت کو ترک کر دے تو وہ انسان اُس جماعت کا حصہ بن سکتا ہے جس‬
‫کی طرف اِس حدیث میں اشارا کیا گیا ہے۔ جب تم اندر سے ایک ہو جاؤ گے تو‬
‫باہر کی تفریق تمھیں پریشان نہیں کر پائے گی۔‬
‫پروفیسر صاحب کے جواب نے اُس کا دل مطمئن کر دیا اُس دن کے بعد سے اُس‬
‫نے جنتی فرقے کی تالش ترک کر دی کیوں کہ اُسے اپنے اندر کی جماعت مل‬
‫گئی تھی۔‬

‫‪11‬‬
‫'' باب۔ ‪'' 01‬‬
‫عجیب بات ہے کے ا ُس سات سال کے بچے کو اللہ کی تالش تھی۔ اکثر‬
‫یہ سوال ا ُسے پریشان کرتا تھا کے اگر میرا مسلک‪ ،‬میرا مذہب‪ ،‬جو‬
‫مجھے میرے ماں باپ سے ِم ال ہے اگر یہ سچا مذہب نا ہ ُوا تو میرا کیا‬
‫بنے گا‪ ،‬میرے ماں‪ ،‬باپ میرے بہن‪ ،‬بھائی میرے دوست احباب کا کیا‬
‫بن ے گا‪ ،‬پھر وہ سوچتا کے کہیں ایسا تو نہیں کہ اللہ کی راہ مذہب و‬
‫مسلک کی بحث سے ب ُ لند ہو‪ ،‬پھر ا ُسے مولوی صاحب کی بات یاد آ‬
‫جاتی کے ہمارے اس مسلک کے سوا سب لوگ گمراہ ہیں‪ ..‬حضرت‬
‫محمد صلی الله علیه و آله وسلم نے فرمای ا کے ‪ 27 ، 27‬فرقوں میں‬
‫سے ایک جنتی ہو گا اور و ہ ایک ہم ہیں۔ وہ سوچتا مولوی صاحب‬
‫نمازی‪ ،‬پرہیزگار ہیں‪ ،‬اتنا علم رکھتے ہیں‪ ،‬وہ یقینا ً بہتر جانتے ہوں‬
‫گے‪ ،‬لیکن وہ اس یقین پر خود کو کبھی مطمئن نہیں کر پاتا کی وں کے‬
‫ا ُسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس طرح کے مولوی صاحب ہر مسلک‪،‬‬
‫بلکہ ہر مذہب میں موجود ہوں گے۔ آخر یہ ی تو وہ لوگ ہیں جو کسی‬
‫مذہب یا مسلک کی پہچان ہوتے ہیں‪ ،‬پھر ایک دن ا ُس نے اپنی والدہ‬
‫کو کہتے س ُ نا وہ ا ُس کی خالہ سے حضرت بری امام کے م زار پر‬
‫جانے کی بات کر رہی تھیں۔ ا ُسے تجسس ہوا کے مزار پر جانے سے‬
‫کیا ہوتا ہے یا مزار پر کوئی کیوں جاتا ہے یہ سوال لے کر وہ ایک‬
‫بار پھر مولوی صاحب تک جا پہنچا‪ ..‬اس بار ا ُسے بتایا گیا کے‬
‫مزاروں پر شرک ہوتا ہے اور یہ سخت گناہ ہے‪ ..‬ا ُسے مزید بتایا گیا‬
‫کے ہر گناہ کی معافی ہے لیکن شرک جیسے گناہ کی تو کوئی معافی‬
‫بھی نہیں ہے۔ اس بار وہ کچھ زیادہ ہی ڈر گیا تھا ا ُس نے اپنی امی کو‬
‫بھی سم جھانے کی کوشش کی مگر ا ُنہوں نے ا ُس کی بات پر توجہ‬
‫نہیں دی۔ ا ُس رات وہ بہت پریشان تھا ا ُس نے اللہ سے کہا "اللہ میاں‬
‫آپ تو سب کچھ کر سکتے ہیں آپ پلیز میری امی کو اس شدید گناہ‬
‫چ کی ہیں اور انہیں‬ ‫سے بچا لیجیے اور اگر وہ یہ گناہ پہلے بھی کر ُ‬
‫معاف نہیں کیا جا سکت ا تو ا ُن کی جگہ مجھے سزا دے دیجیے گا ۔‬

‫ہر روز وہ محلے کے بچوں کے ساتھ قرآن پاک پڑھنے جاتا تھا اور‬
‫قاری صاحب سب بچوں کو عصر اور مغرب کی نماز کے لیے ساتھ‬
‫‪12‬‬
‫لے کر جاتے تھے وہ کیونکہ چھوٹا تھا اس لیے ا ُس پر نماز کے‬
‫معاملے میں زیادہ سختی نہ تھی وہ اکثر مسجد تو جا تا تھا لیکن کسی‬
‫کونے میں بیٹھا اپنی سوچ کی زبانی اللہ سے مح ِو گفتگو رہتا۔ ا ُسے‬
‫اس بات کی پرواہ نہیں تھی کے اللہ کی طرف سے جواب آئے گا یا‬
‫نہیں۔ ا ُس نے اللہ سے پہلی دفعہ بات شروع کرتے ہوئے ہی کہہ دیا‬
‫تھا "اللہ میاں مجھے پتہ ہے کے آپ سب سے بڑے ہیں اور بڑے‪،‬‬
‫بچ وں کی باتوں کا کم ہی جواب دیتے ہیں جیسے میرے ابو اور دادا‬
‫کرتے ہیں اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ بڑوں سے زیادہ باتیں کرو تو‬
‫وہ ڈانٹ دیتے ہیں‪ ،‬اللہ میاں آپ پلیز مجھے ڈانٹیے گا نہیں میں‬
‫پرومس کرتا ہوں آپ کو زیادہ تنگ نہیں کروں گا۔‬

‫ایک روز بچوں نے قاری صاحب سے ا س کی شکایت کر دی کے یہ‬


‫مسجد جاتا ہے اور نماز نہیں پڑھتا قاری صاحب کے سامنے پیش‬
‫ہونے پر اس نے شاید اپنے اندر کی تمام ہمت اکھٹی کی اور ان سے‬
‫کہا "قاری صاحب آپ اگر مجھے سزا دینا چاھتے ہیں تو دے لیجیے‬
‫لیکن میں دوسرے بچوں کی طرح آپ کے ڈر سے نماز نہیں پڑھوں‬
‫گا" قاری صاحب نے غصے سے پوچھا "کیا مطلب ہے تمھارا؟" تو‬
‫اس نے کہا "سب لڑکے آپ کے ڈر سے نماز پڑھنے جاتے ہیں کہ اگر‬
‫یہ نماز نہ پڑھیں تو آپ انہیں ماریں گے لیکن میں ایسی نماز نہیں‬
‫پڑھنا چاہتا" قاری صاحب نے پوچھا "تو کیسی نماز پڑھنا چاہتے ہو؟"‬
‫ان کے غصے میں اب تھوڑی سی حیرت بھی شامل ہو چکی تھی۔ آس‬
‫نے کہا "ایسی نماز جو اللہ سے ڈر کر پڑھی جائے‪ ،‬ویسے مجھے یہ‬
‫بات بھی عجیب لگتی ہے کہ اللہ سے ڈرا جائے جب وہ ہم سے اتنا‬
‫پیار کرتا ہے تو ہمیں چاہیے کہ اس کی محبت میں نماز ادا کریں۔"‬
‫قاری صاحب نے کہا "اس بچے سے کفر کی بو آتی ہے اسے لے جاؤ‬
‫یہاں سے اور آئندہ یہ لڑکا میرے مدرسے میں نظر نہ آئے۔‬

‫‪13‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫قاری صاحب سے گستاخی کے واقعہ پر جب ا ُس کی والدہ اور دادا نے‬
‫سرزنش کی تو ا ُس نے انھیں بھی وہی جواب دیا کہ "میں قاری صاحب‬
‫کے ڈر سے نماز نہیں پڑھوں گا" اور ساتھ ساتھ دادا سے ‪ 27‬فرق وں‬
‫والی حدیث کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی پوچھ لیا کہ "آپ کے پاس کیا‬
‫ثبوت ہے اس بات کا کہ آپ جس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں وہی‬
‫اصل ج ن ّ تی فرقہ ہے" تو دادا نے پ ُ ر اعتماد لہجے میں بلند آواز سے‬
‫کہا "ہم جدی پ ُ شتی س ُ نی ہیں‪ ,‬ہمیں یقین ہے کہ ہم صحیح ہیں"۔ تو ا ُس‬
‫نے کہا "ای سا یقین تو ہندو کو بھی ہو گا‪ ,‬یہودی بھی یہی یقین رکھتا ہو‬
‫گا کہ میرا مزہب درست ہے‪ ,‬یقین تو سب کو ہوتا ہے لیکن آپ کے‬
‫پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ آپ صحیح مزہب یا صحیح فرقے کے‬
‫ماننے والے ہیں؟؟" دادا جان نے َچ پ ّل پھینک کے ماری اور کہا "کل‬
‫کا بچہ‪ ,‬ت ُو ہم سے ہم ارے مسلک کا ثبوت مانگتا ہے۔؟ "‬

‫دادا جان کی َچ پ ّل سے بچ کر وہ گھر سے باہر چال گیا جہاں ا ُس کی‬


‫نظر اپنے ہم عمر دوست پر پڑی ا ُس نے سوچا مجھے اپنے دوست‬
‫سے اور ا ُس کے بڑے بھائی سے (جو عمر میں ا ُس سے صرف ایک‬
‫سال بڑا تھا) بات کرنی چاہیے اسی دوران سامنے والی گلی ک ا ایک‬
‫اور بچہ بھی آ گیا جو ا ُسی کی طرح دوسری جماعت میں پڑھتا تھا۔‬
‫ا ُس نے اپنے تینوں دوستوں سے کہا کیا تم لوگوں نے یہ حدیث سنی‬
‫کہ ‪ 27‬فرقے ہوں گے اور ایک ج ن ّ تی ہو گا۔؟ تو تینوں دوستوں نے کہا‬
‫ہاں ہم نے س ُ نا ہے۔ تو ا ُس نے کہا کہ "ہمارے بڑے یہ بات جانتے ہیں‬
‫لیک ن سب ب ِ نا تصدیق کے اپنے بڑوں کا فرقہ اپنائے بیٹھے ہیں۔ میں‬
‫نے ایک اور حدیث بھی س ُ نی ہے کہ ” جس چیز کو تمہارا دل تسلیم کر‬
‫لے ا ُسے اپنا لو اور جسے نہ تسلیم کرے ا ُسے ترک کر دو۔ " تینوں‬
‫دوستوں نے کہا کہ ہاں یہ حدیث بھی ہم نے بھی سنی ہے۔ ا ُس نے کہا‬
‫کہ "یہ حدیث مج ھے صحیح سے سمجھ نہیں آئی کیونکہ عقل‪ ,‬سمجھ تو‬
‫دماغ میں ہوتی ہے پھر حق کا فیصلہ دل کو کیوں دیا گیا۔؟ لیکن اس‬
‫حدیث سے ایک بات سمجھ آتی ہے کہ شاید انسان کا دل الل ّٰ ہ کی‬

‫‪14‬‬
‫موجودگی کو محسوس کر سکتا ہو۔ ویسے تو الل ّٰ ہ کی ذات ہر جگہ‬
‫موجود ہے لیکن وہ کون سے فرقے کے س اتھ ہے یہ پتہ چالنے کے‬
‫لیے ہم الگ الگ فرقوں کی مساجد میں نماز پڑھا کریں گے اور جس‬
‫مسجد میں دل کو کچھ محسوس ہوا ا ُس مسجد کے فرقے کو اپنا لیں‬
‫گے۔" تینوں دوستوں نے ا ُس کی تجویز کا خیر مقدم کیا اور ا ِس طرح‬
‫چ وں نے سات آٹھ سال کی عمر میں الل ّٰ ہ کی تالش میں الگ الگ‬ ‫چار ب ّ‬
‫فرقوں کی مساجد میں نماز پڑھنی شروع کر دی۔‬
‫چ وں کی طرح ہی نادان اور شرارتی تھے‬ ‫وہ چاروں اپنے ہم عمر ب ّ‬
‫لیکن سال میں ایک دو بار چند دنوں کے لیے وہ تالش جاگ جاتی تھی‬
‫لیکن کچھ محسوس نہ ہونے کی ب ِ نا پر چاروں دوست واپس اپنے کھیل‬
‫کود میں مگن ہو جاتے۔ وقت گزرتا گیا اور وہ چاروں دوسری تیسری‬
‫جماعت سے چھٹی ساتویں جماعت تک پہنچ گئے۔ اب تک وہ کافی حد‬
‫تک اردو پڑھنا اور سمجھنا سیکھ گئے تھے۔اور ایک دن دو دوستوں‬
‫چ ن لیا ہے۔ ا ُس‬‫نے (جو آپس میں بھائی تھے) کہا کہ ہم نے اپنا مسلک ُ‬
‫نے حیرت سے پوچھا "کیا تمہیں الل ّٰ ہ کی مو جودگی کا احساس ِم ل‬
‫گیا۔؟" تو انہوں نے کہا کہ "ہم نے اس فرقے کی کتابیں پڑھی ہیں اور‬
‫ہمارے دل کو یقین آ گیا ہے کہ یہی صحیح فرقہ ہے۔ لیکن تم جو ہمیں‬
‫اس راہ پہ لے کر آئے ہم نے دیکھا ہے کہ تم کسی فرقے کی کوئی‬
‫کتاب نہیں پڑھتے بلکہ اکثر تم ہمارے ساتھ نماز بھی نہی ں پڑھتے اور‬
‫کبھی کبھی تو تم مسجد میں بھی نہیں جاتے باہر ہی بیٹھے رہتے ہو۔‬
‫تو تم الل ّٰ ہ کو کیسے تالش کرنے کا ارادہ رکھتے ہو۔؟" جس وقت ا ُس‬
‫کا دوست ا ُس سے یہ سوال پوچھ رہا تھا ا ُس وقت دو اور لوگ پاس‬
‫بیٹھے ا ُن دونوں کی بات سن رہے تھے۔ ا ُس نے اپنے دوست سے کہا‬
‫ک ہ "میں یہ کتابیں اس لیے نہیں پڑھتا کیونکہ ایسی کتابیں ہر فرقے‬
‫کے پاس موجود ہوں گی اور ہر فرقے نے قرآن اور حدیث سے اپنے‬
‫فرقے کو ج ن ّ تی ثابت کرنے کی کوشش کی ہو گی۔ اگر ان لوگوں کی‬
‫کتابوں میں حق ہوتا تو یہ لوگ کسی ایک فرقے پے متفق ہو گئے‬
‫ہوتے۔ یہ کتابیں صرف او ر صرف اپنے فرقے کے لوگوں کو تسلی‬
‫ج ڑے رہیں۔ اگر یہ‬ ‫دینے کے لیے ہیں تاکہ لوگ اپنے اپنے فرقے سے ُ‬
‫ث ہدایت ہوتیں تو یہ لوگ اس طرح فرقوں میں نہ بٹ ّے‬ ‫کتابیں باع ِ‬
‫ہوئے ہوتے۔ کیوں کہ ہدایت یافتہ لوگ‪ ,‬لوگوں کو ایک کرتے ہیں‪,‬‬
‫‪15‬‬
‫جبکہ یہ کتابیں لوگوں کو فرقہ واریت کی تقسیم پہ راضی رہنا‬
‫سکھاتی ہیں۔ دیکھو‪ !..‬ہمارے پاس کچھ لوگ ہماری بات س ُ ن رہے ہیں‬
‫لیکن ان کے پاس بھی میری بات کا جواب نہیں ہے۔ کیوں انکل‪ !..‬کیا‬
‫آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ ا ِن فرقوں میں سے کون سا فرقہ درست‬
‫ہے۔؟ (ا ُس نے دوست سے بات کرتے کرتے پاس بیٹھے لوگوں سے‬
‫سوال کر ڈاال) انہوں نے مذاقیہ لہجے میں کہا "بیٹا ہم نے تو کبھی‬
‫تالش ہی نہیں کیا۔ آپ ڈھونڈ سکو تو ڈھونڈ لو۔" ا ُس نے پ ُ ر اعتماد‬
‫لہجے میں کہا انشاء الل ّٰ ہ مجھے وہ ضرور ملے گا اور اگر میں‬
‫کامیاب نہ بھی ہوا تو بھی جب میں آپ کی عمر کا ہوں گا تو اپنی عمر‬
‫چ ے کو یہ جواب نہیں دوں گا جو جواب آپ مجھے دے‬ ‫کے کسی ب ّ‬
‫رہے ہیں۔"‬

‫وہ دونوں لوگ ا ُس کے ا ِس انداز کو دیکھ کر وہاں سے چلے گئے اور‬


‫ا ُسے افسوس ہوا کہ شاید ا ُس نے ا ُن لوگوں کا دل د ُکھایا۔ خیر ان کے‬
‫جانے کے بعد ا ُس نے اپنے دوست سے ک ہا کہ مجھے اس بات پہ‬
‫چ ن لیا تمہارا دل‬
‫کوئی اعترا ض نہیں ہے کہ تم نے ایک فرقے کو ُ‬
‫یہاں راضی ہے تو یہیں رہو لیکن میرا سفر ابھی جاری ہے۔ ا ُس نے‬
‫چوتھے دوست سے پوچھا کہ ا ُس کا کیا ارادہ ہے۔؟ تو ا ُس نے جواب‬
‫دیا کہ میں اس سب سے الگ ہوں میں جو ہوں بس وہی ٹھیک ہے‬
‫میرے لیے۔ لیکن میں تم پر نظر رکھوں گا کے تم کہاں ُر کتے ہو۔ وہ‬
‫دن چاروں دوستوں کی مشترکہ تالش کا آخری دن تھا۔ لیکن وہ مطمئن‬
‫تھا‪ ,‬اگرچہ وہ جانتا تھا کہ ال ل ّٰ ہ کی تالش کرنے والوں کی فہرست میں‬
‫ا ُس کی تالش‪ ,‬تالش کہالنے کے الئق بھی نہیں تھی لیکن پھر بھی‬
‫ا ُسے یقین تھا اپنی تالش پر نہیں بلکہ الل ّٰ ہ کی ذات پہ کہ وہ ا ُسے‬
‫ضرور اپنی راہ عطا کرے گا۔‬

‫‪16‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ا ُس وقت وہ ساتویں جماعت میں تھا جب ایک رات ا ُس نے کہا "الل ّٰ ہ‬
‫میاں آپ دیکھ رہے ہیں نا کہ کس طرح لوگ پریشان ہیں‪ ,‬ساری دنیا‬
‫میں مسلمان قتل کیے جا رہے ہیں‪ ,‬ہم سب نے آپ کی ر س ّ ی کو چھوڑ‬
‫دیا ہے اور تفرقے میں پڑ چ کے ہیں ‪ .‬پلیز ہمیں معاف کر دیں‪ ,‬ہمیں‬
‫ایک کر دیں‪ ,‬ہماری غلطی ہے‪ ,‬میں سب کی طرف سے آپ سے‬
‫‪ sorry‬کرتا ہوں۔ ہم سب شیعہ‪ ,‬س ُ ن ّ ی‪ ,‬ہندؤ‪ ,‬عیسائی بن بن کر تیرا ہی‬
‫بننے کی کوشش کرتے ہیں‪ ,‬لیکن آج نہ ہم تیرے بن پا رہے ہیں نہ‬
‫اپنے۔ ہمیں ہمارے دشمن (شیطان) نے بہکا دیا اور ہم نے ا ُس کے‬
‫بہکاوے میں آ کر اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی ٹ ُکڑے کر لیے۔ لیکن‬
‫یہ ہمارے بڑوں کی غلطی تھی‪ ,‬ہم پے ا ِس کا بوجھ مت ڈال اور ہمیں‬
‫آزاد کر دے اس فتنے سے۔" وہ اپنے بستر میں منہ چھپائے رو رہا تھا‬
‫اور دل کی زبانی مح ِو فریاد تھا "الل ّٰ ہ میاں مجھے بتائیں ح ق کیا ہے‪,‬‬
‫میں سب کو بتا دوں گا‪ ,‬پھر ہم سب ایک ہو جائیں گے‪ ,‬الل ّٰ ہ میاں پلیز‬
‫ہمیں بچا لیجیئے ہم سے غلطی ہوئی‪ ,‬ہم نے شیطان کی پیروی کی اور‬
‫گمراہ ہوئے اور اب ہمیں ڈر لگ رہا ہے کہ ہم آپ سے بہت دور آ‬
‫گئے ہیں لیکن اب ہم واپس آنا چاہتے ہیں‪ ,‬پلیز ہمیں واپس ب ُ ال لی جیے"‬
‫ایسے ہی روتے روتے کب ا ُسے نیند آئی ا ُسے کچھ پتا نہ چال۔ صبح‬
‫سو کر ا ُٹھا تو ایک ہی سوال سر پے سوار تھا کہ الل ّٰ ہ کیوں ہم میں‬
‫ایسے لوگ نہیں بھیجتا جو ہمیں ایک کر سکیں‪ ,‬شاید لوگوں میں طلب‬
‫ہی نہیں رہی ایسے لوگوں کی‪ ,‬ا ُسے لوگوں پے‬
‫غ صّ ہ آ رہا تھا‪ ,‬خاص کر اپنے بڑوں پر جنہیں صرف اپنی پڑی‬
‫تھی ۔ اس غصے کی ایک وجہ شاید وہ انکل بھی تھے جن سے کل پبلک‬
‫ٹرانسپورٹ میں اسکول جاتے ہوئے مالقات ہوئی تھی۔‬
‫وہ بہت دیر سے انہیں ‪ Observe‬کر رہا تھا۔ وہ انکل ا ُسے تھوڑے‬
‫خبطی سے لگ رہے تھے جو ا ُسی کے اسکول کے چوتھی‪ ,‬پانچویں‬
‫چ وں تم قوم کا‬
‫چ وں سے بات کر رہے تھے "ب ّ‬ ‫جماعت کے کچھ ب ّ‬
‫مستقبل ہو‪ ,‬پاکستان کا آنے واال کل ہو‪ ,‬کیا کر رہے ہو تم لوگ‪ ,‬کہاں‬
‫ہیں تمھاری جنریشن کے ہیروز‪ ,‬کہاں ہیں تماری جنریشن کے اقبال‬

‫‪17‬‬
‫اور سر سید۔؟ ایسی جنریشن سے ہم کیا ا ُمید کر سکتے ہیں جس کے‬
‫چ ے صبح اسکول جاتے ہوئ ے بس کا کرایہ ادا کرنا اپنی توہی ن‬ ‫ب ّ‬
‫سمجھتے ہیں‪ ,‬کیسا پاکستان بناؤ گے تم لوگ‪ ,‬کہاں ہیں تمہاری‬
‫جنریشن کے ‪. genious‬؟‬
‫ا ُس کا بس سٹاپ قریب تھا وہ اپنی جگہ سے ا ُٹھا اور بس کے دروازے‬
‫کی طرف بڑھا‪ ,‬وہ انکل دروازے کے پاس والی سیٹ پر بیٹھے تھے‬
‫ا ُس کے دماغ میں نہ جانے کیا آیا کہ ا ُس نے ا ُن انکل کی طرف ہاتھ‬
‫بڑھایا اور کہا "اسالم و علیکم سر‪ ,‬کیسے ہیں آپ؟" وہ انکل کسی اور‬
‫ہی خیال میں گم تھے انہوں نے کھوئے کھوئ ے انداز میں اپنا پ ُ رانا‬
‫فقرہ دہرایا "بیٹا کہاں ہیں آپ کی ‪ generation‬کے ‪ genius‬؟ کیا‬
‫بنے گا ا ِس ُم لک ک ا" ا ُس نے کہا "انکل۔۔ ! میں ہوں اپنی ‪generation‬‬
‫کا ‪ genius‬۔آپ بے فکر رہیں انشاءالل ّٰ ہ پاکستان کا بھال ہو گا‪ ,‬سب‬
‫اچھا ہو گا" ا ُنہیں تسلی دیتے ہوئے‪ ,‬ا ُسے اپنے دل میں بہت سکون‬
‫محسوس ہورہا تھا۔‬

‫لیکن شاید ا ُن انکل کو ا ُس کا خلوص دکھائی نہیں دیا اور انہوں نے‬
‫ا ُس کے پ ُ رانے ‪ uniform‬پر نظر جماتےہوئے مذاق ا ُڑانے والےلہجے‬
‫میں کہا "اچھا تو تم ہو اپنی ‪ generation‬کے ‪ genius‬؟ کیا کرو گے‬
‫تم بڑے ہو کر؟" ا ُن کے بات کرنے کے انداز سے وہ چڑ سا گیا اور‬
‫ا ُن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کے کہا "انکل آپ یہ چھوڑیں کہ میں کیا‬
‫کروں گا اور یہ ب تائیں کہ آپ نے کیا ِک یا ہے؟ جو سوال آپ میری‬
‫‪ generation‬سے کر رہے تھے کہ آپ کے ‪ genius‬کہاں ہیں وہی‬
‫سوال میں آپ سے کرتا ہوں‪ ,‬آپ کے اقبال اور سرسید کہاں ہیں؟ ملک‬
‫و قوم کا بیڑا غرق تو آپ کی ‪ generation‬نے کیا ہے‪ ,‬ہم تو ابھی‬
‫چ ے ہیں۔ خیر ہم جو بھی کریں گے لیکن آ پ کی طرح ‪next‬‬ ‫ب ّ‬
‫‪ generation‬پر اپنی غلطیوں کا بوجھ نہیں ڈالیں گے" اتنا کہتے‬
‫کہتے ا ُس نے سٹاپ کے قریب ‪ slow‬ہوتی ہوئی بس سے چھالنگ‬
‫لگائی اور اسکول کی جانب بڑھنے لگا۔ سارا دن وہ انکل اور ا ُن کی‬
‫باتیں ا ُس کے دماغ پر ہتھوڑے برساتی رہیں شام کو وہ یونہی سڑک‬
‫کنارے چل تے‪ ,‬مسجد کو دور سے دیکھ رہا تھا۔ اور دل ہی دل میں الل ّٰ ہ‬
‫سے ہم کالم تھا "ال ل ّٰ ہ میاں میں تنگ آ گیا ہوں۔ یہ لوگ ج ن ّ ت اور دوزخ‬
‫‪18‬‬
‫کے فیصلے کو دین بنائے بیٹھے ہیں۔ اور آپ تو میرے دل کی بات‬
‫جانتے ہیں اس لیے آپ سے کہہ رہا ہوں کہ مجھے ا ُس ج ن ّ ت میں کوئی‬
‫خاص دلچسپی م حسوس نہیں ہوتی جس کا تزکرہ ان مساجد میں ہوتا‬
‫ہے۔ اور میرا ماننا ہے کہ مجھے ا ُس دوزخ سے بھی ڈر نہیں لگتا ہے‬
‫جس سے یہ لوگ مجھے ڈراتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ الل ّٰ ہ کی چاہ‬
‫اور الل ّٰ ہ کی راہ‪ ,‬ج ن ّ ت دوزخ سے ہٹ کر کچھ شئے ہے۔ الل ّٰ ہ میاں پلیز‪,‬‬
‫اگر ایسا کچھ ہے جو ج ن ّ ت سے بھی بڑھ کر ہے‪ ,‬تو پلیز مجھے‬
‫ضرور بتانا۔" یہ خیال آتےہی ا ُس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی‬
‫چمک ا ُبھر آئی۔ بات کرتے کرتے وہ مسجد کے دروازے تک پہنچ گیا‬
‫تھا ا ُس کا دل چاہا کے مسجد کے اندر جا کر الل ّٰ ہ سے بات کرے۔ وہ‬
‫جوتے ا ُت ار کر مسجد کے صحن میں کھڑا ہوا اور مس جد کے گنبد سے‬
‫کچھ اوپر فضا میں دیکھتے ہوئے یہ تصور کرنے لگا کے فضا میں‬
‫الل ّٰ ہ اپنے تخت پے بیٹھا ا ُسے س ُ ن بھی رہا ہے اور دیکھ بھی رہا ہے۔‬
‫ا ُس نے بند ہونٹوں سے اپنی بساط مطابق ِگ ڑ ِگ ڑا کر الل ّٰ ہ سے کہا "الل ّٰ ہ‬
‫چ کا ہو‪ ,‬مجھے نہیں سمجھ آتی کہ میں ک س طرح تجھے‬ ‫میاں میں تھک ُ‬
‫تالش کروں اور یہ دنیا مجھے بہت اچھی لگتی ہے ا ِس کی لزتوں کی‬
‫خواہش ہوتی ہے مجھے۔ سو آج میں آپ سے یہ کہنے آیا ہوں کہ میں‬
‫دنیا میں جا رہا ہوں۔ یہاں سے جانے کے بعد میں جس قدر دنیا دار یا‬
‫گناہگار ہو سکا ضرور ہوں گا۔ مگر آپ یاد رکھنا کہ میں نے آپ کو‬
‫ت الش کیا تھا تو اگر کبھی آپ کو لگے کہ اسے ب ُ ال لینا چاہیے تو‬
‫مجھے ب ُ ال لیجیے گا میں اچھا ب ُ را جیسا بھی ہوں گا‪ ,‬آپ کی طرف‬
‫واپس آ جاؤں گا۔ اور پلیز پلیز پلیز مجھے ضرور واپس ب ُ ال لیجیے گا۔‬
‫کیونکہ میں جیسا بھی ہوں آپ کا ہوں۔" اتنا کہہ کر ا ُس نے ا ُسی جگہ‬
‫سجدہ کی ا اور مسجد سے چال گیا۔‬

‫‪19‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ا ُس نے فیصلہ کیا کہ آج کے بعد ا ُس نے صرف دنیا داری کرنی ہے۔‬
‫اور جو خطا خود چل کے میرے پاس آئے گی‪ ,‬میں ا ُس کا ارتکاب‬
‫ضرور کروں گا۔ شاید وہ الل ّٰ ہ سے خفا ہو گیا تھا اور یہ سب کر کے‬
‫اپنی ناراضگی کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ اس بات کو چند دن گزرے‬
‫تھے کہ ا ُس کے والد کو کسی کام سے الہور جانا پڑا۔ انہوں نے ا ُسے‬
‫بھی ساتھ چلنے کو کہا تو وہ خوشی خوشی تیار ہو گیا رات کا سفر کر‬
‫کے وہ صبح فجر کے وقت الہور پہنچ گئے ا ُس کے والد ا ُسے سب‬
‫سے پہلے حضرت علی ہجویری رح کے مزار پے لے کر پہنچے۔ وہ‬
‫اپنے والد کے ساتھ جوں جوں سیڑھیاں چڑھتا جا رہا تھا ا ُس پر ایک‬
‫عجیب کیفیت طاری ہوتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کے زیارت دور سے‬
‫پوری طرح دکھائی دینے لگی۔ اور وہ جس سیڑھی پے تھا وہیں ُر ک‬
‫گیا۔ ا ُس نے اپنے والد سے کہا "ا ب ّو آپ جائیں اندر ‪ ،‬میں یہیں کھڑا‬
‫ہوں" ا ُس کے والد نے ا ُس سے کوئی سوال نہ کیا اور اندر چلے گئے‬
‫اور وہ وہیں کھڑا زیارت اور ا ُس کے ارد گرد آنے جانے والے لوگوں‬
‫کو دیکھ رہا تھا کچھ لوگ زیارت کو بوسہ دیتے اور کچھ وہاں د ُعا کر‬
‫رہے تھے۔ وہ پہلی بار کسی دربار پہ آیا تھا۔ ا ُسے مولوی صاحب کی‬
‫بات یاد آئی کہ مزار وں پے شرک ہوتا ہے۔ لیکن آج جب وہ خود ایک‬
‫مزار کے سامنے کھڑا تھا تو ا ُسے محسوس ہوا کہ مولوی صاحب نے‬
‫صحیح نہیں کہا تھا۔ کیونکہ وہ لوگ جو زیارت کو بوسہ دے رہے‬
‫تھے ا ُن میں سے اکثر کے چہروں سے ایک سکون چھلکتا صاف‬
‫دکھائی دے رہا تھا اور اسی سکون نے ا ُسے سوچنے پے مجبور کیا‬
‫کہ یہ لوگ محو شرک نہیں ہو سکتے۔ ساتھ ساتھ ا ُسے یاد آیا کہ‬
‫مولوی صاحب نے ا ُسے یہ بھی بتایا تھا کہ مزاروں پے ایک شرک یہ‬
‫بھی ہوتا ہے کہ لوگ الل ّٰ ہ کے ولی سے سوال کرتے ہیں جبکہ الل ّٰ ہ کے‬
‫سوا کسی سے کچھ بھی مانگنا شرک ہے۔ ا ُس نے سوچا کہ اولیاء الل ّٰ ہ‬
‫اپنی ظاہری زندگی میں کیا کرتے ہوں گے تو ا ُس کے دل نے ا ُسے‬
‫سمجھایا کہ یقینا ً اولیاء ال ل ّٰ ہ لوگوں کو ال ل ّٰ ہ سے مالتے ہوں گے۔ یہ‬
‫خیال آتے ہی ا ُس کی آنکھوں میں امید کی چمک ا ُبھری۔ ا ُس نے‬

‫‪20‬‬
‫زیارت کی جانب ایسے دیکھا جیسے صاح بِ زیارت تک ا ُس کی نظر‬
‫کی رسائی ہو اور د ل سے انہیں مخاطب کر کے کہا "آپ الل ّٰ ہ کے‬
‫دوست ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ الل ّٰ ہ والوں سے مانگنا شرک ہے‪ ,‬لیکن‬
‫میں تو الل ّٰ ہ والے سے الل ّٰ ہ ہی کا سوال کر رہا ہوں۔ تو میری ُم راد اگر‬
‫پوری ہو جاتی ہے تو مجھے مشرک ہونا مولوی صاحب والے مومن‬
‫بننے سے زیادہ محبوب ہے۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے‪ ,‬بس حق کی‬
‫تالش ہے‪ ,‬اگر آپ میری کچھ مدد کر سکتے ہیں تو پلیز کیجئے گا۔‬
‫ویسے میں الل ّٰ ہ میاں سے ناراض ہوں اور تب تک ناراض رہوں گا‬
‫جب تک وہ مجھے ِم ل نہیں جاتے۔ لیکن آپ کے پاس آ کے کچھ وقت‬
‫کے لیے ناراضگی ملتوی کرنے کا جی چاہا۔ میں دربار کے آداب نہیں‬
‫جانتا اس لیے آج اندر نہیں آؤں گا۔ جس دن آپ نے آداب سکھا دیے‪,‬‬
‫ا ُس دن آؤں گا‪ ,‬ضرور آؤں گا‪ ,‬لیکن ا ُس سے پہلے نہیں۔ "‬
‫حضرت عثمان بن علی ہجویری رح کے دربار سے واپس آنے کے‬
‫بعد وہ ایک بار پھر سے اپنی زندگی میں مشغول ہو گیا۔ ا ُس کی‬
‫زندگی کافی سخت تھی۔ نہ وہ پ ڑھائی لکھائی میں اچھا تھا اور نہ ہی‬
‫چ ے ا ُسے اپنی ٹیم میں رکھنا‬ ‫کھیل کود میں۔ ا ِس لیے ا ُس کے ہم عمر ب ّ‬
‫چ وں‬ ‫پسند نہیں کرتے تھے۔ ا ِس وجہ سے ا ُسے اکیال رہ کر دور سے ب ّ‬
‫کو کھیلتا دیکھنے کا موقع ِم ل جاتا تھا اور اس دوران ا ُسے الل ّٰ ہ کی‬
‫چ وں کے سلوک‬ ‫جانب متوجہ رہنے کا موقع ِم ل تا۔ وہ اکثر دوسرے ب ّ‬
‫چے‬ ‫سے ٹوٹ جاتا تو سوچتا کہ میں نے ایسا کیا ِک یا ہے جو سب ب ّ‬
‫مجھے تنگ کرتے ہیں جب کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تو آئینے کے‬
‫سامنے کھڑا ہو کے سوچتا کہ شاید میں بہت بدصورت ہوں‪ ,‬اکثر آئینہ‬
‫بھی ا ُس کے اس خیال کی تصدیق کر رہا ہوتا تھا‪ ,‬ا ُس کے بالوں کی‬
‫عجیب سی کٹنگ ‪ ,‬اور اپنے ماموں‪ ,‬چچا وغیرہ سے لیے ہوئے پینٹ‬
‫شرٹ میں‪( ,‬جو اکثر ا ُس کی جسامت سے بڑی ہوتی تھیں) وہ بہت‬
‫عجیب دکھائی دیتا تھا۔ جب وہ َچ ھٹی جماعت میں پہنچا تو سرکاری‬
‫اسکولوں کے یونیفارم تبدیل ہونے کا زمانہ تھا۔ ا ُس سے پہلے کا‬
‫شلوار قمیض ہوتا تھا جسے بدل کر پینٹ شرٹ اور ٹائی کیا جا رہا‬
‫تھا۔ ا ُسے بس اتنی خوشی تھی کہ چلو ایک پینٹ شرٹ تو میرے پاس‬
‫اپنے ناپ کی ہو گی لیکن یہی بات ا ُس کے والدین کے لیے پریشانی کا‬
‫باعث تھی کیونکہ ا ُس کے عالوہ ا ُن کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا اور‬
‫‪21‬‬
‫تھا اور ا ُس کے والد شدید محنت کے باوجود بہت مشکل سے گھر چال‬
‫رہے تھے۔ وہ اپنے بہن بھائی میں سب سے بڑا تھا ا ِس لیے ا ُسے‬
‫اپنے والدین کی مجبوری کافی حد تک سمجھ آتی تھی۔ ا ُس کے والد‬
‫کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ کسی بڑی دکان سے مکمل اسکول‬
‫یونیفارم خرید سکتے۔ ا ُس وقت ا ُس کے دل پے کیا گ ُ زری یہ ا ُسکا‬
‫الل ّٰ ہ ہی جانتا ہے جب ایک ٹیچر نے ا ُسے سیٹ سے اٹھا کے پوری‬
‫کالس کے سامنے ذلیل کیا تھا۔ ٹیچر نے ا ُس کی بیلٹ پکڑ کے‬
‫کھینچتے ہوئے کہا "یہ کون سے زمانے کی پینٹ پہنی ہوئی ہے ت ُو‬
‫چ ے نے آواز لگائی "اپنے ا ب ّو کے زمانے کی"۔ کالس‬ ‫نے؟" کسی ب ّ‬
‫ٹ یچراور بچوں کے قہقہوں سے گونج ا ُٹھی۔ سارا وقت ٹیچر نے ا ُسے‬
‫چ ے ا ُس کا یونیفارم دیکھ‬ ‫بلیک بورڈ کے سامنے کھڑا رکھا تاکہ سب ب ّ‬
‫سکیں۔ ویسے تو وہ کافی مضبوط تھا لیکن ا ُس روز وہ بہت ٹوٹ گیا‬
‫تھا۔ کئی دن الگ الگ بہانوں سے اسکول سے چھٹیاں کرنے کے بعد‬
‫ا ُس نے پھر سے اسکول جانا شروع کر دیا لیکن اسکول میں وہ اب‬
‫کسی لڑکے سے آنکھ مال کے بات کرتے ہوئے بہت جھجھک محسوس‬
‫کرتا تھا۔ جب بریک ہوتی تو وہ اسکول کی دیوار پے جا کے بیٹھ جاتا‬
‫چ وں کو گراونڈ میں کھیلتا دیکھتا رہتا۔ اسے جب بچپن میں‬ ‫اور سب ب ّ‬
‫کھلونے نہ ملتے تھے تو وہ ٹوٹی ہوئی لکڑیوں سے اپنے لیے بندوق‪,‬‬
‫چ ے ا ُس کا مذاق ا ُڑاتے لیکن ان‬
‫ہاکی یا بیٹ بنا لیتا۔ اکثر دوسرے ب ّ‬
‫حاالت نے ا ُسے اپنا دل مارنا اور لوگوں کی باتوں کو برداشت کرنا‬
‫ِس کھا دیا تھا۔ ا ُس کی عادت بن گئی تھی کہ وہ خاموش رہتا اور ذیادہ‬
‫تر تنہا رہتا تھا۔ جس تنہائی کو و ہ اپنے لیے عذاب سمجھتا تھا اور جو‬
‫ذل ّ ت ا ُسے آٹھ‪ ,‬آٹھ آنسو ُر التی تھی ا ُسی تنہائی اور ذل ّ ت نے ا ُسے اتنا‬
‫مضبوط کر دیا کہ وہ جینا سیکھ گیا۔ تنہائی نے ا ُسے حق کو سوچنے‬
‫کا موقع دیا‪ ,‬وہ نہیں جانتا تھا مگر یہی تنہائی اور خاموشی ا ُس کی‬
‫طاقت بننا شروع ہو گئی تھی۔ ج ب ا ُس نے لوگوں سے دور ہونا شروع‬
‫کیا تو لوگ ا ُس کے قریب ہونے کے خواہشمند ہونا شروع ہو گئے‬
‫لیکن اب ا ُسے لوگوں کی توجہ کی خواہش نہیں ہوتی تھی۔ ا ُس کے‬
‫اپنے اندر جو دنیا آباد ہو رہی تھی وہ خود بھی ابھی ا ُس کی‬
‫خوبصورتی سے ناآشنا تھا۔ شروع شروع میں جب دل پر چوٹ ل گتی‬
‫تھی تو وہ اکثر اکیلے میں رویا کرتا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ‬
‫‪22‬‬
‫مضبوط ہوتا چال گیا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی تالش‬
‫کو بھی بھولتا جا رہا تھا۔ شاید یہ بھولنے کا سلسلہ ا ُس دن سے جاری‬
‫تھا جس دن وہ الل ّٰ ہ سے کہہ کر آیا تھا کہ میں دنیا میں جا رہا ہوں۔‬

‫‪23‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫وہ ا ُس وقت بازار سے گ ُ زر رہا تھا جب ا ُس نے پہلی بار کال ِم با ھو‬
‫س ُ نا۔ کسی دکاندار نے اونچی آواز میں کالم لگا رکھا تھا۔ باقی کے‬
‫الفاظ تو ا ُس کی سمجھ سے باال تھے لیکن ہر مصرے کے آخر پر ادا‬
‫ہونے واال لفظ " ھ ُ و " جیسے بار بار ا ُس کے دل کو چیر کے ا ُس کی‬
‫روح کو سرشار کر رہا تھا۔ ا ُس نے دکاندار سے پوچھا کہ یہ کیسا‬
‫کالم ہے تو ا ُس نے بتایا کہ یہ کال ِم باھو ہے۔ سلطان با ھو رح کا کالم‬
‫ہے‪ ,‬آپ بہت بڑے ولی الل ّٰ ہ گزرے ہیں۔ یہ س ُ ن کر بے ساختہ ا ُس کی‬
‫ذبان سے نکال " بیشک یہ کالم کسی ولی ال ل ّٰ ہ کا ہی ہو سکتا ہے ۔" ات نا‬
‫کہہ کر ا ُس نے گھر کی راہ لی۔ لیکن " ھ ُ و ھ ُ و " کی وہ صدا مسلسل ا ُس‬
‫کے ساتھ تھی۔ گھر آ کے ا ُس نے سوچا کہ سلطان باہو رح ایک ولی‬
‫الل ّٰ ہ ہیں‪ ,‬کتنا اثر ہے ا ُن کے کالم میں۔ اور پھر ا ُسے یاد آیا کہ پچھلے‬
‫سال الہور داتا صاحب کے مزار پر بھی کافی عجیب کیف محسوس ہوا‬
‫تھا۔ اسی سوچ میں محو شام ہو گئی مغرب کی اذانیں ہونا شروع ہوئیں‬
‫اور وہ ا ُسی طرح اپنی سوچ میں مگن اذانوں کی آوازیں س ُ نتا رہا ایک‬
‫مسجد سے أ َشْ ھَ دُ أ َ ْن ال إ ِ ل َ ه َ إ ِ ال الله کی صدا آ رہی تھی تو ایک سے‬
‫أ َشْ ھَ دُ أ َ َّن ُم َح َّم دًا َر س ُ و لُ ال ل َّ ِه کی آواز سنائی دے ر ہی تھی پھر یہ‬
‫آوازیں مدھم ہوتی چلی جا رہیں تھیں کہ پھر سے اذان کی آواز آنا‬
‫شروع ہو گئی کیونکہ باقی اذانیں ختم ہو چکی تھیں اس لیے یہ اذان‬
‫صاف س ُ نائی دے رہی تھی اور پھر اذان کے ا ِن الفاظ پر ا ُس کی‬
‫سماعت ُر ک گئی " اشھد ان علیا ً ولی الله " یہ الفاظ ا ُس نے پہلی ب ار‬
‫نہیں س ُ نے تھے لیکن ا ُس روز ا ِن الفاظ نے پہلی بار ا ُسے اپنی جانب‬
‫کھینچا تھا۔ ا ُس نے فور ا ً ارادہ کیا کہ آج مجھے امام بارگاہ جانا ہے۔‬
‫شیعہ مسلک سے ا ُسے تھوڑی بہت شناسائی ا ِس لیے بھی تھی کیونکہ‬
‫ا ُس کی گلی میں تین گھر اہ ِل تشیع کے تھے اور دو گھروں میں ا ُس کا‬
‫تالش حق کی خاطر وہ کبھی امام بارگاہ نہیں‬ ‫ِ‬ ‫آنا جانا بھی تھا۔ لیکن‬
‫گیا تھا۔‬

‫‪24‬‬
‫چ کا تھا لیکن پھر ا ُس‬ ‫ایک بار پہلے بھی ا ُسے وہاں جانے کا خیال آ ُ‬
‫کے دل نے ا ُسے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ ابھی وقت نہیں آیا۔ اور آج‬
‫بھی بار بار ا ُسے یہی خیال آ رہا تھا لیکن وہ بار بار ا ِس خیال کو‬
‫شیطان کی کوئی چال سمجھ کے رد کرتا ہ ُوا امام بارگاہ کی جانب قدم‬
‫بڑھاتا جا رہا تھا۔ ا ُس نے کئی بار الحول پڑھی ا ِس کے عالوہ اور جو‬
‫کچھ ا ُسے یاد تھا ا ُس نے سب پڑھ ڈاال لیکن ا ِس خیال کو رد نہیں کر‬
‫پایا کہ ابھی وقت نہیں آیا۔ آخر ایک س ُ نسان گلی سے گ ُ زرتے ا ُسے‬
‫محسوس ہ ُوا کہ ا ِس گلی میں آتے ساتھ کوئی ا ُس کے ساتھ ساتھ چل‬
‫رہا ہے اور وہ اندیکھا شخص ا َن س ُ نی آواز میں ا ُسے کہہ رہا ہے کہ‬
‫ابھی َم ت جاؤ وہاں‪ ,‬ابھی تمہارے اندر بہت سی کم فہمی ہے‪ ,‬جس کی‬
‫بنا پر ابھی تم سمجھ نہیں پاؤ گے اور ہو سکتا ہے گ ُ مراہ ہو جاؤ‪ ,‬ا ِس‬
‫لیے ابھی لوٹ جاؤ۔ جب وقت آئے گا تو الل ّٰ ہ کی ذات تمھیں خود وہاں‬
‫لے جائے گی۔" ا ُن الفاظ میں نہ جانے کیا تھا کہ وہ واپس پلٹنے پے‬
‫مجبور ہو گیا اور اپنے گھر واپس آ گیا۔ ا ُس دن کے بعد سے ا ُس نے‬
‫تالش حق کی کوشش ترک کر دی۔‬‫ِ‬
‫ایک دن بے سبب گھومتے وہ ایک ایسی جگ ہ جا پہنچا جہاں ‪kung fu‬‬
‫سکھائی جاتی تھی۔ ا ُس نے ا ُسی دن سے یہ کھیل سیکھنا شروع کر‬
‫دیا۔ ا ُس کے ا ُستاد نے ا ُسے سمجھایا کہ ا ِس کھیل کے سیکھنے کا‬
‫مقصد یہ نہیں ہے کہ کوئی آپ کو اوئے کہہ کر مخاطب کرے تو آپ‬
‫ا ُس کے ہاتھ پاؤں توڑ دیں بلکہ ا ِس کا مقصد آپ میں اتنی ب رداشت‬
‫پیدا کرنا ہے کہ کوئی آپ کے منہ پہ تھوک کر بھی چال جائے تو آپ‬
‫ا ُف تک نہ کریں"۔ یہ بات ا ُسے عجیب لگی‪ ,‬ا ُس نے کہا "لیکن سر اگر‬
‫دوسروں کی زیادتی کو برداشت ہی کرنا ہے تو یہ ‪ kung fu‬سیکھنے‬
‫کا کیا فائدہ ہے۔؟" استاد نے ا ُس کی جانب دیکھا اور کہا "میرے کہنے‬
‫کا مقصد یہ ہے کہ بال وجہ اپنی بہادری کے جوہر دکھانے سے پرہیز‬
‫کرنا چاہیے اور جہاں تک ہو سکے برداشت کرنا چاہیے کیونکہ کسی‬
‫کو چوٹ پہنچانا آپ کے بڑا ‪ Fighter‬ہونے کی نشانی ہے لیکن کسی‬
‫کی دی ہوئی چوٹ کو برداشت کرنا اور چوٹ پہنچانے والے کو معاف‬
‫کر دینا آپ کے بڑا ان سان ہونے کی عالمت ہے۔ یہ کھیل آپ کو بڑا‬
‫‪ Fighter‬بنانے سے ذیادہ آپ کو بڑا انسان بنانا چاہتا ہے۔ اگر آپ‬
‫بڑے انسان بن گئے تو یقینا ً آپ بڑے ‪ Fighter‬ہیں لیکن اگر آپ بڑے‬
‫‪25‬‬
‫انسان نہ بن سکے تو آپ ‪ kung fu‬میں کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہو‬
‫جائیں آپ نے ‪ kung fu‬سے کچھ نہیں سی کھا۔ ا ُسے اپنے ا ُستاد کی‬
‫بات سمجھ آنا شروع ہو گئی تھی ا ِس لیے ا ُس نے صبح شام ‪kung fu‬‬
‫کی ‪ practice‬کرنا شروع کر دی اکثر وہ اکیال ہی ‪ practice‬کرتا رہتا‬
‫چ کا تھا۔ اب تو‬ ‫تالش حق کا خیال ا ُس کے الشعور میں کہیں کھو ُ‬ ‫ِ‬ ‫تھا۔‬
‫ا ُسے یاد بھی نہیں رہا تھا کہ ا ُس نے کبھی ح ق تالش کرنے کی کوشش‬
‫بھی کی تھی۔ وقت گ ُ زرتا جا رہا تھا‪ ,‬میٹرک کے امتحان دینے کے بعد‬
‫چ وں کو‬ ‫ا ُس نے سوچا کیوں نہ ایک سے پانچویں جماعت تک کے ب ّ‬
‫‪ tuition‬پڑھا کر کچھ پیسے کمائے جائیں۔ جلد ہی محلے کے چند‬
‫چ وں کو پڑھانا شروع کر دیا۔ اور بہت‬ ‫گھروں میں ا ُس نے چھوٹے ب ّ‬
‫جلد ا ِس کام میں اچھا خاصہ نام بھی بنا لیا۔ ا ُس کے ‪ students‬ا ُس‬
‫سے بہت پیار کرتے تھے۔ جس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ بہت‬
‫چ وں کو بہت آسانی سے سمجھا لیتا تھا۔ ا ُس کی‬ ‫مشکل مشکل سوال ب ّ‬
‫عادت تھی کہ پہلے ہی دن اپنے ‪ students‬سے کہتا کہ آپ نے مجھ‬
‫سے جھوٹ نہیں بولنا اگر آپ نے کام نہیں کیا تو آپ مجھ سے یہ نہیں‬
‫کہیں گے کہ سر میرے پیٹ میں درد تھا یا مجھے بخار تھا‪ ,‬مجھے یہ‬
‫بہانے پسند نہیں ہیں‪ ,‬میں نہیں چاہتا کہ آپ میرے ڈر سے الل ّٰ ہ سے‬
‫ڈرنا چھوڑ کر مجھ سے جھوٹ بول دیں۔ مجھے خوشی ہو گی اگر آپ‬
‫مجھ سے یہ کہہ دیں کہ سر میرا دل نہ یں چاہ رہا تھا کام کرنے کا یا‬
‫میں کھیل رہا تھا ا ِس لیے میں نے کام نہیں کیا۔ وہ اپنے ‪ students‬کا‬
‫چ ے بہتر انداذ سے ا ُس کی‬ ‫دوست بن کہ ا ُنہیں سکھاتا اور اس طرح ب ّ‬
‫بات سمجھ جاتے اور پڑھائی میں بہتر سے بہتر کارکردگی دکھاتے۔‬
‫کافی عجیب بات ہے کہ وہ پڑھنے سے ذیادہ پ ڑھانے میں تیز تھا۔ ا ُس‬
‫نے ا ُن کالسز کے ‪ students‬کو بھی پڑھایا جن کا کورس ا ُس نے خود‬
‫چ وں کو پڑھانے کے حوالے سے ا ُسے‬ ‫کبھی نہیں پڑھا تھا۔ الل ّٰ ہ نے ب ّ‬
‫بہت عزت سے نوازا۔ لیکن گھریلو حاالت نے ا ُسے تعلیم چھوڑ کر‬
‫بیس سال کی عمر میں ایک چھوٹی سی سرکاری نوکری کرنے پ ے‬
‫مجبور کر دیا۔ ال ل ّٰ ہ نے ا ُسے یہاں بھی بہت عزت دی۔ سرکاری نوکری‬
‫ملنے تک ا ُس نے زندگی کے بہت سے سبق سیکھ لیے تھے۔ عش ِ‬
‫ق‬
‫چ کا تھا۔ دنیا اور ا ِس کی‬
‫حقیقی کا طالب مجاز کی سیڑھیاں چڑھ ُ‬
‫چ کا تھا۔ ا ُس کے وقت کا شاید ہی کوئی ایسا گناہ ہو‬ ‫ب ُ رائی کو سمجھ ُ‬
‫‪26‬‬
‫جس سے ا ُس کی آشنائی نہ تھی۔ ا ُس وقت ا ُس کی عمر اکیس سال تھی‬
‫جب وہ اپنے جگری دوست کی شادی میں شریک تھا‪ ,‬بارات کی واپسی‬
‫پر دولہا کی گاڑی گھر جانے سے پہلے امام بارگاہ پہنچی۔ وہ ایک‬
‫اور گاڑی پے اپنے ایک اور دوست کے ساتھ تھا۔ جس دوست کی‬
‫شادی تھی وہ گاڑی سے ا ُتر کر امام بار گاہ کے اندر چال گیا اور وہ‬
‫اپنے دوسرے دوست کے ساتھ باہر گاڑی میں انتظار کرنے لگا۔ اتنے‬
‫چ ے نے آ کے ا ُس سے کہا "انکل‪ !..‬کیا آپ مجھے امام‬ ‫میں کسی ب ّ‬
‫بارگاہ کے اندر لے جائیں گے‪ ,‬اتنی رات ہے اور بادلوں کی وجہ سے‬
‫روشنی بھی کم ہے‪ ,‬مجھے اکیلے جاتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے ‪ ,‬بس‬
‫سالم کر کے واپس آ جائیں گے" ا ُس نے کہا "ٹھیک ہے‪ ,‬چلو۔" آج وہ‬
‫پہلی بار امام بارگاہ کے اندر آیا تھا‪ ,‬ا ُس کے اندر کسی قسم کا کوئی‬
‫چ ے نے‬ ‫احساس نہیں تھا‪ ,‬نہ خدا کا اور نہ ہی خدا کے گھر کا۔ ا ُس ب ّ‬
‫ا ُس سے آگے چلتے ہوئے عَ لم کو بوسہ دیا اور د ُعا کرنا شروع ہو گ یا۔‬

‫‪27‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫وہ جیبوں میں ہاتھ ڈالے عَ لم کے سامنے کھڑا تھا‪ ,‬ا ُسے ایسے کھڑا‬
‫چ ے نے کہا "آپ نے سالم نہیں کیا۔؟" ا ُس نے کہا‬ ‫دیکھ کر ا ُس ب ّ‬
‫"مجھے نہیں پتا کہ کیسے سالم کرتے ہیں‪ ,‬آپ مجھے بتائیں‪ ,‬کیسے‬
‫چ ے نے فور ا ً ا ُس سے معافی ما نگی اور کہا کہ‬ ‫کرتے ہیں سالم۔؟" ب ّ‬
‫مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ شیعہ نہیں ہیں ورنہ میں آپ سے یہاں آنے‬
‫کو نہیں کہتا"۔ ا ُس نے کہا کہ میرے نزدیک ہر وہ جگہ قاب ِل احترام‬
‫ہے جہاں سے الل ّٰ ہ کو پکارا جاتا ہو۔ اب یہاں آیا ہوں تو سالم تو کر‬
‫چ ے نے کہا کہ بس عَ لم کو بوسہ دیجی ے اور دعا کر‬ ‫کے جانا چاہیے۔ ب ّ‬
‫لیجیے۔ ا ُس نے آگے بڑھ کر عَ لم کو ہاتھ سے چ ھُ وا اور ہاتھ ہونٹوں‬
‫اور پیشانی سے لگایا۔‬
‫چ ھو کر ا ُس کی‬‫جتنی دیر میں ا ُس کی انگلیاں ا ُس کے ہونٹوں کو ُ‬
‫پیشانی تک پہنچیں ا ُتنی دیر میں ایک بجلی سی ا ُس کے اندر کوند‬
‫چ کی تھی‪ ,‬ا ُس نے د ُعا کے لیے ہاتھ ا ُٹھا ئے اور آسمان کی جانب‬ ‫ُ‬
‫دیکھا‪ ,‬کالے کالے بادلوں کے ہالے میں چاند صاف دکھائی دے رہا تھا‬
‫چ ے کو کہتے س ُ نا "الل ّٰ ہ میاں‪ ,‬مجھے حق کی‬‫اور ا ُس پل ا ُس نے ا ُس ب ّ‬
‫چ ے کو‬‫تالش ہے‪ ,‬پلیز میری مدد کیجیے"۔ ا ُس نے حیرت سے ا ُس ب ّ‬
‫دیکھا کہ اتنی سی عمر اور ایسی د ُعا۔؟ ا ُس کا دل چا ہا کہ وہ بھی یہی‬
‫چ ے کی د ُعا اپنی زبان سے دہرائی اور پھر‬ ‫د ُعا کرے‪ ,‬تو ا ُس نے ب ّ‬
‫چ ہ واپس‬‫ج ھکا لیا۔ وہ ب ّ‬
‫اپنے اعمال کو سوچ کر شرمندگی سے سر ُ‬
‫جانے لگا تو وہ بھی ا ُس کے پیچھے پیچھے امام بارگاہ سے باہر نکل‬
‫آیا۔ ا ُس پے ایک عجیب سی خاموشی طاری ہو رہی تھی‪ ,‬کسی کی با ت‬
‫س ُ نائی نہیں دے رہی تھی‪ ,‬زبان جیسے گنگ ہو رہی تھی۔ وہ کسی اور‬
‫ہی دنیا میں چال گیا تھا جہاں ا ُسے لوگوں کی اور لوگوں کو ا ُس کی‬
‫آواز مشکل سے سنائی دے رہی تھی۔ ا ُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا‬
‫کہ یہ سب کیا ہے۔ وہ بار بار خود سے سوال کر رہا تھا کہ یہ مجھے‬
‫کیا ہو رہا ہے اور ا ُس کا دل بار بار کہہ رہا تھا کہ مجھے حق کی‬
‫تالش ہے‪ ,‬مجھے ال ل ّٰ ہ کی تالش ہے۔ وہ امام بارگاہ سے اپنے دوست‬
‫کے گھر گیا اور ا ُسے دور سے دیکھ کر اپنے گھر کی طرف لوٹ گیا‬

‫‪28‬‬
‫شاید وہ اپنی حالت سے پریشان تھا ا ِس لیے کسی کا سامنا نہیں کرنا‬
‫چاہتا تھا۔ اسالم آباد کی بارشیں بہت شدید ہوتی ہیں اس رات جب وہ‬
‫اپنے دوست کے گھر سے پیدل واپس اپنے گھر جا رہا تھا تو شدید‬
‫چ کی تھی وہ مسلسل اسی سوچ میں‬ ‫بارش ہو رہی تھی رات کافی ہو ُ‬
‫تالش حق کا سوال کر رہا ہے؟ اپنے آپ‬ ‫ِ‬ ‫کھویا تھا کہ وہ کس منہ سے‬
‫کو اپنے گناہوں پے مالمت کرتا وہ زور زور سے روتا ہوا سنسان‬
‫سڑک کے کنارے چلتا جا رہا تھا شدید بارش ہونے کے باوجود ا ُسے‬
‫گرم گرم آنسو اپنے چہرے پہ محسوس ہو رہے تھے س ُ وٹ ٹائی پہنے‬
‫وہ سر سے پاؤں تک بھیگا ہوا گھر کی جانب چال جا رہا تھا‪ ,‬ایک‬
‫شدید بےچینی نے ا ُسے گھیر رکھا تھا‪ ,‬وہ ا ِس حالت میں گھر نہیں‬
‫جانا چاہتا تھا‪ ,‬ا ُس نے سوچا کہ گھر کے پاس والی مسجد میں جاتا‬
‫ہوں اور نماز پڑھتا ہوں‪ ,‬شاید ایسا کرنے سے دل کو کچھ سکون‬
‫نصیب ہو جائے۔ پھر ا ُس کے دل نے ا ُسے مالمت کی کہ نہ جانے‬
‫کتنے سال ہو گئے ہیں تم نے عید کے عالوہ مسجد کی شکل نہیں‬
‫دیکھی اور آج اچانک س ے تمہیں کیا ہوا کہ تم حق کی تالش کرنے اور‬
‫نماز میں سکون کی دولت تالش کرنے کا سوچ رہے ہو۔ جاؤ کہیں جا‬
‫کے شراب پیو‪ ,‬کسی سے جھگڑا کرو‪ ,‬کوئی اور گناہ کرو‪ ,‬شاید تمہارا‬
‫خ دا یاد آ رہا ہے۔ دیکھ ا ِس وقت‬ ‫نشہ ٹوٹ رہا ہے‪ ,‬اسی لیے اب تمہیں ُ‬
‫تو مسجد بھی بند ہے اگر سچ می ں آج تیرے اندر کچھ بدل رہا ہوتا تو‬
‫کم سے کم یہ مسجد تو ک ُ ھلی ملتی‪ ,‬جاؤ جا کے کسی میکدے کا دروازہ‬
‫کھٹکھٹاؤ۔ الل ّٰ ہ میاں کا گھر عشاء کے بعد بند ہو جاتا ہے۔ وہ اور‬
‫پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ رو رو کر ا ُس کی ہچکیاں بندھ رہی تھیں‬
‫اور وہ گھر کی جانب جانے کا ارادہ کر رہا تھا کہ ا ُسے یاد آیا کہ‬
‫مسجد کی بیسمنٹ سے ایک راستہ مسجد کے اندر جاتا تھا وہ فور ا ً‬
‫پلٹا اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا بیسمنٹ کی سیڑھیوں تک پہنچا۔‬
‫عام طور پے سیڑھیوں کا راستہ بند رہتا تھا لیکن ا ُس روز وہ راستہ‬
‫ک ُ ھال دیکھ کر ا ُس کی خوشی کی انتہا نہ رہی و ہ دل و زبان دونوں‬
‫سےکہے جا رہا تھا ‪ thank you‬ال ل ّٰ ہ میاں ‪ Thank you so much‬کہ‬
‫آپ نے مجھے رد نہیں کیا اور تیز تیز سیڑھیاں چڑھتا اوپر مسجد تک‬
‫پہنچا جوتے ا ُتارے اور اندر چال گیا اندر ایک بزرگ شخص شروع‬
‫کی صفوں میں بیٹھے کچھ پڑھ رہے تھے ا ُس نے الکھ چاہا کہ ا ُن کی‬
‫‪29‬‬
‫توجہ ا ُس کی جانب نہ ہو لیکن وہ تو جیسے ا ُسی کے انتظار میں تھے‬
‫ا ُس کے اندر آتے ساتھ ہی انہوں نے ا ُسے گہری نظروں سے دیکھنا‬
‫شروع کر دیا۔ وہ ا ُن سے اگلی صف میں جا کر کھڑا ہ ُوا اور نماز‬
‫پڑھنے کی کوشش شروع کی لیکن شدید رقت کے باعث وہ آیات کے‬
‫الفاظ ادا کرنے س ے قاصر رہا۔‬
‫جیسے تیسے ا ُس نے دو رکعت نماز ادا کی اور د ُعا کے لیے ہاتھ‬
‫ا ُٹھائے "الل ّٰ ہ میاں میں نہیں جانتا کہ اچانک کیا ہو گیا ہے مجھے‪ ,‬میں‬
‫بس حق جاننا چاہتا ہوں‪ ,‬بس مجھے آپ کی تالش ہے‪ ,‬جہاں سے بھی‬
‫ہو‪ ,‬جیسے بھی ہو‪ ,‬بس آپ چاہیے ہو‪ ,‬مجھے پتہ ہے کہ میں جو مانگ‬
‫رہا ہوں ا ُسے مانگنے کی اوقات نہیں ہے میرے پاس‪ ,‬لیکن پھر بھی‬
‫مانگ رہا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ت ُو چاہے تو کسی کو بھی‪,‬‬
‫کچھ بھی عطا کر سکتا ہے‪ ,‬مجھے اپنا آپ عطا کر دے" مسلسل رو‬
‫چ کا تھا کہ ا ُس سے بیٹھا بھی نہیں جا رہا‬ ‫رو کر اب وہ اتنا نڈھال ہو ُ‬
‫تھا۔ وہ وہ اں سے ا ُٹھ کے جانے لگا تو ا ُن بزرگ نے ا ُسے روکا اور‬
‫بہت شفقت سے پوچھا "بیٹا کیا بات ہے" ا ُس کے منہ سے کوئی لفظ‬
‫نہیں نکل پایا اور وہ بے اختیار ا ُن کے سینے سے لگ کر رونا شروع‬
‫ہو گیا پھر ا ُس نے ایک بار پھر خود کو سنبھاال اور ا ُن بزرگ سے‬
‫اجازت چاہی۔ گھر پہنچ ک ر وہ اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا مگر ا ُس‬
‫کے دل کا اضطراب کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔ بستر سے ا ُٹھ کر‬
‫وہ فرش پے بیٹھ گیا اور سر سجدے میں رکھ کے پھر سے رو رو کے‬
‫وہی سوچ د ُہرانے لگا پھر شاید روتے روتے بے ہوش ہو گیا۔ اچانک‬
‫دل کے کسی کونے سے آواز آئی‪" ,‬ا ُٹھ قرآ ن ا ُٹھا"۔ وہ فور ا ً اٹھا اور‬
‫قرآن اٹھایا اور اپنے بستر پے بیٹھ گیا۔ اور سوچا کہ قرآن بیچ سے‬
‫کھول لیتا ہوں اور جہاں نظر پڑی وہیں سے پڑھوں گا۔ جب ا ُس نے‬
‫قرآن کھوال تو جن الفاظ پے نظر پڑی وہ کچھ یوں تھے کہ‬

‫َو ا ل َّ ِذ ی َن َج ا ھ َ دُوا ف ِ ی ن َ ا ل َ ن َ ْھ ِد ی َ ن َّ ھُ ْم س ُ ب ُ ل َ ن َ ا ۚ َو إ ِ َّن ال ل َّ ه َ ل َ َم َع ا لْ ُم ْح ِ‬


‫س ن ِ ی َن‬

‫اور جنہوں نے ہمارے لیے جستجو کی ہم انہیں ضرور اپنی راہیں‬


‫سمجھا دیں گے اور بے شک الله محسنین کے ساتھ ہے ﴿سورة‬
‫العنكبوت ‪﴾ 96‬‬
‫‪30‬‬
‫یہ آیت پڑھ کے ا ُس نے قرآن بند کر دیا‪ ,‬ا ُس پے پھر سے رقت طاری‬
‫ہو گئی اور ا ُس نے کہا "ا لل ّٰ ہ میاں میں بہت گناہگار ہوں اور آپ‬
‫مجھے یہ جواب دے رہے ہیں کہ جو لوگ ہمارے لیے جستجو رکھتے‬
‫ہیں ہم انہیں ضرور اپنی راہیں سمجھا دیں گے؟ میں نے تو کبھی آپ‬
‫کی تالش نہیں کی۔ اتنا کہہ کر وہ قرآن سینے سے لگائے روتے روتے‬
‫نہ جانے کب سو گیا۔ شاید ا ُس آیت سے ا ُس ک ے دل کو کچھ قرار‬
‫نصیب ہو گیا تھا۔‬

‫‪31‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫اگلے روز ا ُس نے کافی ُم شکل سے اپنے دوست کے ولیمے میں‬
‫شرکت کی کیوں کہ ابھی تک ا ُس کے حواس قابو میں نہیں آ رہے تھے‬
‫ا ُسے بولنے اور لوگوں کی بات سمجھنے میں کافی دقت پیش آ رہی‬
‫تھی۔ ولیمے سے فار غ ہو کر ا ُس نے گھر کی راہ لی اور گھر پہنچ کر‬
‫پھر سے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ ا ُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی‬
‫تھی کہ کس راہ چال جائے اور الل ّٰ ہ کو کیسے تالش کیا جائے؟ ا ُس کے‬
‫دل نے ا ُسے سمجھایا کہ الل ّٰ ہ کی طلب ہے تو ا ُس راہ چلو جہاں تمہارا‬
‫دل تمہیں لے جا رہا ہے ۔ ا ُس نے کہا "یہی دل تو مجھے شراب خانوں‬
‫میں لے جاتا رہا ہے اب الل ّٰ ہ کی راہ بھی ا ِس سے پوچھ کے چال تو‬
‫پھر تو ہو گیا کام تمام۔" دل نے ا ُسے وہ حدیث یاد دالئی کے "جس‬
‫چیز کو تمہارا دل تسلیم کر لے ا ُسے اپنا لو اور جسے نہ تسلیم کرے‬
‫ا ُسے ترک کر دو۔" ا ُس نے کہا "ا گر ایسی بات ہے تو سچ یہ ہے کہ‬
‫دل نے ابھی تک کسی کو تسلیم نہیں کیا لیکن امام بارگاہ کی جانب‬
‫میرا دل کھنچا جا رہا ہے۔ یہ جگہ منزل کا راستہ ضرور دے گی‬
‫مجھے۔ شاید میرا رب اپنا آپ عطا کرنے سے پہلے مجھے آزمانا‬
‫تالش حق میں میں کسی بھی مسلک ک و اپناتا تو‬ ‫ِ‬ ‫چاہتا ہے۔ کیونکہ میں‬
‫شاید کسی کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر میں شیعہ ہوا تو‬
‫میرے گھر والے تو شاید سمجھوتا کر لیں لیکن باہر والے‪ ,‬میرے‬
‫دوست‪ ,‬رشتے دار‪ ,‬اور اہ ِل محلہ۔؟ شاید لوگ مجھے قتل ہی کر ڈالیں‬
‫گے۔ خیر مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ اگر ا ِس راہ سے میں تیری‬
‫جانب قدم بڑھا سکتا ہوں تو جب تک ت ُو مجھے مل نہیں جاتا میں ا ِسی‬
‫راہ پر چلنا چاہوں گا۔ اے الل ّٰ ہ میں تجھ سے دور جاتے ہوئے نہیں‬
‫بلکہ تیری طرف آتے ہوئے مرنا چاہتا ہوں۔ اگر تیری جانب آتے‬
‫مجھے مار بھی دیا جائے تو بھی مجھے منظور ہے۔ اگر میری یہی‬
‫آزمائش ہے تو میں تیار ہوں۔ آج سے ابھی سے شیعہ ہوتا ہوں۔ میری‬
‫تالش کوئی مذہب یا کوئی مسلک نہیں ہے مجھے ت ُو چاہیے‪ ,‬تو اگر ت ُو‬
‫ہندؤ کو ملتا ہے تو میں تجھے ہندؤ بن کے ڈھونڈھنے کو تیار ہوں اگر‬

‫‪32‬‬
‫ت ُو یہودیوں کو ملتا ہے تو میں یہودی بن کے تجھے ڈھونڈتا۔ مگر ت ُو‬
‫نے مجھے امام بارگاہ سے پ ُ ک ارا ا ِس لیے‬
‫ال إلہ إال الله‬
‫محمد رسول الله‬
‫ولي الله ۔ ۔ ۔‬
‫ّ‬ ‫علي‬
‫ٌّ‬
‫ا ُس روز سے ا ُس نے نماز ہاتھ کھول کے پڑھنی شروع کی اور کاال‬
‫رنگ پہننا شروع کیا۔ محرم کا مہینہ شروع ہوا تو سارے محلے میں‬
‫ا ُس کے شیعہ ہونے کی بات پھیل گئی۔ گھر میں تو محرم سے پہلے ہی‬
‫سب کو پت ہ تھا‪ ,‬ا ُس کے والدین کا خیال تھا کے ا ُس کے شیعہ دوست‬
‫نے ا ُس پر جادو کروا دیا ہے ۔ جب ا ُس کی والدہ نے ا ُس کے سامنے‬
‫اپنے خدشے کا اظہار کیا تو ا ُس نے مجذوبانہ انداز سے کہا " ا ّم ی یہ‬
‫او ل تو چڑھتا نہیں اور‬ ‫جادو نہیں ہے‪ ,‬یہ عشق کا آسیب ہے‪ ,‬یہ آسیب ّ‬
‫جس پے چڑھ جائے ا ُس کی جان لے کر بھی ا ُسے نہیں چھوڑتا" ا ُس‬
‫کی ا ّم ی نے جیسے ا ُس کا جواب س ُ نا ہی نہیں اور بیتاب سے لہجے‬
‫میں کہا "اگر تمہارے ا ب ّو تمہیں کہیں لے کر جائیں کسی کے پاس دم‬
‫وغیرہ کروانے کے لیے تو کیا تم جاؤ گے؟" ا ُس نے مسکرا کر اپنی‬
‫ا ّم ی کے پریشان چہرے کو دیکھا او ر ا ُن پاس جا کر بیٹھا اور ا ُن کی‬
‫گود میں سر رکھتے ہوئے کہا "ا ّم ی میں ٹھیک ہوں‪ ,‬مجھے کچھ نہیں‬
‫ہوا میں بس الل ّٰ ہ کو تالش کر رہا ہوں‪ ,‬اور اگر کسی کے جادو کرنے‬
‫سے لوگوں کو شیعہ کیا جاتا ہوتا تو آج ساری دنیا شیعہ ہوتی‪ ,‬کسی‬
‫کو کیا ضرورت ہے آپ کے بیٹے کو شیعہ کرن ے کی‪ ,‬میں پورے ہوش‬
‫و ہواس میں شیعہ ہوا ہوں‪ ,‬آپ پریشان مت ہوں‪ ,‬بس د ُعا کیجیے کہ‬
‫ال ل ّٰ ہ مجھے کامیاب کرے" ا ُس کی ا ّم ی نے ا ُس کے ا ُس کے بالوں میں‬
‫ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا "بیٹا یہ د ُعا تو میں ہر وقت کرتی ہوں‪ ,‬اپنے‬
‫چ وں کے لیے‪ ,‬لیکن تم بڑے ہو اور تمہاری عادت ہے کہ تم‬ ‫سارے ب ّ‬
‫ہمیشہ اپنی من مانی کرتے ہو ا ِس لیے تمہاری فکر ذیادہ رہتی ہے‪,‬‬
‫خیر اب میرے دل کو تھوڑی سی تسل ّ ی ہو گئی ہے اس لیے اب تم جا‬
‫کے سو سکتے ہو‪ ,‬مجھے بھی نیند آ رہی ہے‪ ,‬اور تھوڑا سا ٹائم ملے‬
‫تو نہا بھی لینا اتنے گندے بال ہو رہے ہیں تمہارے" ا ُس کی ا ّم ی کے‬
‫لہ جے میں اپنے بیٹے کے لیے ابھی بھی پریشانی تھی۔ جب لوگوں میں‬
‫بات پھیلنا شروع ہوئی تو کئی لوگوں نے اپنی قیمتی رائے کا اظہار‬
‫‪33‬‬
‫کرنے کی کوشش کی کسی نے راتوں کو امام بارگاہ آتے جاتے ا ُس‬
‫خ دا میں اپنی برتری ثابت کرنے کی‬ ‫چ ھپ کر وار کر کے‪ ,‬را ہِ ُ‬ ‫پے ُ‬
‫کوشش کی تو کسی نے ا ُس کے گھر کے دروازے پر ا ُس کے نام کے‬
‫ساتھ ک ُ تا ک ُ تا لکھ کر اپنی دینی محبت کا ثبوت دیا۔ ا ُس نے ا ُس شخص‬
‫کو لکھتے ہوئے دیکھا مگر ا ُس پے کچھ ظاہر نہیں کیا۔ اگلے دن وہ‬
‫اپنے کمرے میں بیٹھا تھا ا ُس کے کمرے کا ایک دروازہ گھر سے‬
‫باہر ک ھُ لتا تھا جس پے ک ُ تا ک ُ تا لکھ ا گیا تھا اور ایک دن گزرنے کے‬
‫باوجود ا ُس نے ا ُن الفاظ کو مٹایا نہیں تھا۔ ایک لڑکا جو ا ُس سے‬
‫‪ I.Com‬کی ‪ tuition‬پڑھنے آتا تھا دروازے پے آیا تو آتے ساتھ ا ُس‬
‫کی نظر ا ُس فقرے پے پڑی‪ ,‬ا ُس نے جلدی سے جیب سے مارکر نکاال‬
‫اور تیزی سے ا ُس لکھے ہوئے کو مٹانا شروع کر دی ا۔ ا ُس کی نظر‬
‫پڑی تو ا ُس نے کہا "مٹاؤ نہیں اسے لکھا رہنے دو" ا ُس کے ‪student‬‬
‫نے کہا "سر آپ کو پتا ہے کہ یہ لکھا ہوا ہے اور آپ نے اسے مٹایا‬
‫نہیں" ا ُس نے کہا "نہیں میں نے ا ِسے ا ِس لیے نہیں مٹایا کیونکہ ا ُس‬
‫نے یہ میری نفرت میں نہیں بلکہ الل ّٰ ہ کی محبت میں لکھا ہے‪ ,‬ا ُس کی‬
‫نظر میں َم یں شیعہ ہو کر الل ّٰ ہ سے دور جا رہا ہوں اور وہ اپنی جانب‬
‫سے میرا بھال ہی سوچ رہا ہے کہ شاید اپنے ہی دروازے پر اپنے نام‬
‫کے ساتھ ک ُ تا ک ُ تا لکھا دیکھ کر میں اپنا راستہ تبدیل کر لوں‪ ,‬میں کون‬
‫اظہار محبت کو مٹانے واال" ا ُس ک ے ‪ student‬نے‬ ‫ِ‬ ‫ہوتا ہوں ا ُس کے‬
‫کہا "سر مجھے فرقوں کا تو نہیں پتا کہ کون سا صحیح اور کون سا‬
‫غلط ہے لیکن آپ پر مجھے پورا یقین ہے کہ آپ غلط نہیں ہو سکتے‬
‫انشاءال ل ّٰ ہ آپ اپنی تالش میں ضرور کامیاب ہوں گے۔"‬

‫‪34‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ا ُس نے ماتم کیا‪ ,‬نوحے پڑھے‪ ,‬ننگے پیر چال غرض خود کو شیع ہ‬
‫ثابت کرنے کے لیے وہ جو جو کر سکتا تھا ا ُس نے کیا‪ ,‬اور امام‬
‫حس ٌن کی شہادت کی رات جب ا ُس نے پہلی بار زنجیر زنی کی تو ا ُس‬
‫کے والدین نے ا ُسے صاف الفاظ میں کہ ہ دیا کہ آج کے بعد تم ہمارے‬
‫لیےاورہم تمہارے لیے مر گئے۔‬
‫ایک رات امام بارگاہ سے واپسی پر ایک سنسان گلی سے گزرتے‬
‫ہوئے کچھ لوگ ا ُس پے حملہ آور ہوئے۔ ا ُسے ‪ kung fu‬چھوڑے‬
‫چ کے تھے لیکن ا ُس روز ا ُسے احساس ہوا کہ شدید‬ ‫ہوئے کئی سال ہو ُ‬
‫‪ smoking‬کرنے اور ‪ practice‬نہ کرنے کے باوجود وہ ابھی تک‬
‫اپنا دفاع اچھی طرح کر سکتا ہے۔ حملہ آور ایک سے دو‪ ,‬دو سے تین‬
‫اور ہوتے ہوتے س ات‪ ,‬آٹھ ہو گئے۔ سب لوگ اپنے چہرے چ ھُ پائے‬
‫ہاتھوں میں ڈنڈے اور زنجیریں لیے کا فی دیر ا ُسے زیر کرنے کی‬
‫کوشش کرتے رہے لیکن ا ُسے چھونا ا ُن کے لیے ناممکن ثابت ہو رہا‬
‫تھا۔ ابھی تک وہ یہ نہیں سمجھ پایا تھا کہ یہ حملہ ا ُس پے کس وجہ‬
‫سے کیا جا رہا ہے۔ وہ اپنا دفاع کرن ے کے ساتھ ساتھ حملہ آوروں‬
‫سے پوچھ بھی رہا تھا کہ آخر کیوں وہ ا ُس کی جان لینا چاہ رہے ہیں‬
‫مگر کسی نے کوئی جواب نہ دیا‪ ,‬ا ُن سب کی کوشش تھی کہ کسی‬
‫طرح ا ُسے دبوچ لیا جائے لیکن شاید ا ُس وقت وہ مار کھانے کے موڈ‬
‫میں نہیں تھا۔ اچانک حملہ آوروں میں سے کسی نے بلند آ واز میں کہا‬
‫"کافر‪ ,‬کافر _ _" ا ُس نے حیرت سے ا ُن لوگوں کی جانب دیکھا اور‬
‫پوچھا "تم لوگ مجھے ا ِس لیے مارنا چاہ رہے ہو کہ میں شیعہ ہو گیا‬
‫ہوں؟" ایک حملہ آور نے چیخ کر کہا "ت ُو کافر ہے اور واجب القتل‬
‫ہے‪ ,‬ہم تجھے دین سے پھرنے والوں کے لیے نشان عبرت بنا دیں‬
‫گے" ا ُس نے لڑائی کے دوران ایک حملہ آور سے ایک ڈنڈا چھین لیا‬
‫تھا جو ابھی تک حملہ آوروں کی درگت بنانے میں ا ُس کے کام آ رہا‬
‫تھا۔ ا ُس نے فور ا ً ڈنڈا پھینکتے ہوئے کہا "ارے یار تم لوگوں نے‬
‫پہلے کیوں نہیں بتایا کہ اس لیے مارنا چاہ رہے ہو۔" ا ُس نے دونوں‬
‫ہاتھ کھول کے گھ ٹنوں کے بل زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا "ویسے بہتر‬
‫‪35‬‬
‫تھا کہ تم زبان سے بات کرتے لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ تم حق پے‬
‫ہو اور تمہاری ا ِس مار پیٹ سے میں ا ِس راہ سے پلٹ جاؤں گا تو آؤ‬
‫مارو‪ ,‬میں بھی دیکھوں کتنا شوق اور لگن ہے تم لوگوں میں لوگوں کو‬
‫الل ّٰ ہ کی راہ پر النے کا " سب حملہ آور ا ُسے حیرت سے دیکھنے لگے۔‬
‫ا ُسی وقت آس پاس کے گھروں کی الئٹس روشن ہونا شروع ہو گئیں‬
‫شاید شور س ُ ن کے لوگ جاگ گئے تھے اور دور پولیس کا سائرن‬
‫سنائی دیا جسے س ُ ن کر حملہ آور اور گھبرا گئے اور انہوں نے وہاں‬
‫سے بھاگ جانے میں ہی عافیت جانی۔ ا ُن کے جانے کے بعد ا ُس نے‬
‫بھی ا ُٹھ کر کپڑے جھاڑے اور گھر کی جانب چل دیا۔‬

‫سارا راستہ وہ ا ُن حملہ آورں کی سوچ پڑھنے کی کوشش کرتا رہا۔‬


‫کیسا دین تھا ا ُن کا۔؟ کس نبی‪ ,‬کس صحابی کے ماننے والے تھے وہ‬
‫لوگ۔؟ کون سے مذہب کے پیروکار تھے۔؟ ِک س مسلک نے انہیں لوگوں‬
‫کو را ہِ حق پے ال نے کا یہ راستہ بتایا۔؟ الل ّٰ ہ میاں یہاں تو لوگ مذہب‬
‫چ کے ہیں۔ مذہب یا مسلک کا مقصد اگر الل ّٰ ہ کی‬ ‫کی پہچان ہی بھول ُ‬
‫طلب نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے۔؟ کیا نماز کا طریقہ بدل لینے سے‪,‬‬
‫کلمے کے الفاظ بڑھا لینے سے کوئی مومن یا کافر ہو سکتا ہے؟ جب‬
‫تک کہ وہ اپنا دل ن ہ بدلے۔؟ کیا مذہب و مسلک محض عبادت کا طریقہ‬
‫ہے۔؟ یہ کون لوگ ہیں جو ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ایک ہی مذہب کے‬
‫ماننے والے جب ہاتھ کھول کر نماز پڑھیں تو شیعہ بن جاتے ہیں‪ ,‬ہاتھ‬
‫باندھ کے نماز پڑھیں تو س ُ ن ّ ی اور رفع الیدین کر لیں تو اہل حدیث ہو‬
‫جاتے ہیں۔ جب دل کے اندر کچھ نہیں بدال تو کیا فرق پڑتا ہے س ُ ن ّ ی‬
‫سے شیعہ ہو جانے سے۔؟ ہندؤ سے مسلم ہو کر کسی شخص نے کیا‬
‫بدال اگر ا ُس نے اپنا دل نہیں بدال تو۔؟ اور اگر کسی نے اپنا دل بدل لیا‬
‫تو کیا فرق پڑتا ہے اگر وہ ا ُسی مذہب میں مر جائے جس میں وہ پیدا‬
‫کیاگیا تھا۔؟‬
‫ا ُس کے دماغ کی س وئی انہی سوالوں پے ٹ ِ ک گئی تھی۔ "الل ّٰ ہ میاں آپ‬
‫مجھے ا ِن لوگوں کو ایک کرنے کا گ ُ ر سکھا دیجیے۔ میں آپ سے آپ‬
‫کو مانگ رہا تھا لیکن میں بہت گندا ہوں‪ ,‬میں ا ِس الئق نہیں ہوں کہ‬
‫آپ کو حاصل کر سکوں۔ تو میں اپنی د ُعا واپس لیتا ہوں کیونکہ آپ‬
‫مجھے ِم ل گئے اور یہ لوگ اسی طرح آپس میں جھگڑتے رہے‪ ,‬نماز‪,‬‬
‫‪36‬‬
‫روزے‪ ,‬کے طریقے کو مذہب مانتے ہوتے ایک دوسرے کو کافر کافر‬
‫کہہ کر مارتے رہے تو میں تجھے حاصل کر کے کون سا کارنامہ‬
‫سرانجام دوں گا۔ پھر تو مجھ سے بڑا خود غرض کوئی نہ ہو گا اگر‬
‫میں محض اپنے لیے ہدایت طلب کروں اور لوگوں کی فکر ن ہ کروں۔‬
‫شاید یہی اصل ک ُ فر ہو گا۔ الل ّٰ ہ میاں مجھے آپ چاہیے ہیں لیکن اپنے‬
‫لیے نہیں بلکہ لوگوں کے لیے۔ ا ِن لوگوں کے گناہوں کے بدلے مجھے‬
‫جس جہنم میں ڈالنا چاہیں ڈال دیجیے گا لیکن ا ِن لوگوں کو سمجھ عطا‬
‫کر دیجیے انہیں تو یاد ہی نہیں ہے کہ مذہب اپنایا کس لیے جات ا ہے۔"‬
‫وہ دعا کرتے کرتے رو پڑا۔ "اے الل ّٰ ہ مجھے کچھ ایسا کرنے کا موقع‬
‫دینا جس سے میں لوگوں کو ایک کرنے میں انسانیت کی مدد کر‬
‫سکوں۔ اور اگر میں ایسا کچھ کرنے کے الئق نہیں رہا تو مجھے موت‬
‫دے دیجیے میں اپنے لیے نہیں جینا چاہتا۔ ا ِس دنیا میں آیا ہوں تو‬
‫لوگوں ک ے لیے کچھ کر کے جانا چاہتا ہوں۔‬

‫ا ُسے شیعہ ہوئے قریب سات ماہ گ ُ زرے تھے ا ِس دوارن ا ُس کی بہن‬
‫کی شادی طے ہو گئی ا ُس کی بہن کے س ُ سر سلطان باہو رح کے‬
‫سلسلے سے ُم رید تھے۔ ا ُس سے ِم ل کر انہیں احساس ہوا کہ ا ِس‬
‫لڑکے میں الل ّٰ ہ کی طلب ہے اور انہوں نے ا ُسے ایک کارڈ دکھایا جس‬
‫پے س ُ رخ رنگ کے دل میں سنہرے رنگ سے الل ّٰ ہ کا نام لکھا تھا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ا ِس نقش کو "اسم الل ّٰ ہ ذات" کہا جاتا ہے ا ُس نے کہا‬
‫میں یہ نقش لینا چاہوں گا‪ ,‬کیسے ملتا ہے یہ نقش۔؟ تو انہوں نے بتایا‬
‫کہ سانسوں کے ساتھ ا ِس نقش کا ذکر کیا جاتا ہے اور ُم رشد پاک سے‬
‫ا ِس ذکر کی اجازت لینی ضروری ہے۔ اجازت لینے کے لیے آپ کو ا ُن‬
‫سے مالقات کرنی پڑے گی۔ اور مالقات کے لیے آپ کو شور کوٹ‬
‫تالش‬
‫ِ‬ ‫جانا پڑے گا۔ سات‪ ,‬آٹھ گھنٹے کا سفر ہے۔" ا ُس نے سوچا کہ‬
‫حق میں یہ آٹھ گھنٹے کا سفر کیا معنی رکھتا ہے اور کہا "انشاءالل ّٰ ہ‬
‫می ں ضرور آپ کے ساتھ چلوں گا۔ جلد یا بدیر جب بھی آپ کا جانا ہو‬
‫تو پلیز مجھے بتا دیجیئے گا میں بس وہ نقش حاصل کرنا چاہتا ہوں‬
‫لیکن میں بیعت نہیں کروں گا ابھی مجھے صرف نقش چاہیے‪ ,‬بیعت‬
‫کیے بغیر ذکر کی اجازت مل جاتی ہے نا؟ ا ُس نے بےقراری سے‬
‫پوچھا تو انہوں نے کہا " جی ہاں ذکر لینے کے لیے بیعت کرنا ضروی‬
‫‪37‬‬
‫نہیں ہے" ا ُس نے خوش ہو کر کہا "ٹھیک ہے۔ ویسے آپ کے ُم رشد‬
‫پاک کا نام کیا ہے۔؟" انہوں نے کہا "ہمارے ُم رشد پاک کا نام ہے‬
‫" سُ لطان محمد اصغر علی"‬

‫‪38‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫کسی کا ُم رید ہونا ا ُس کی خواہش نہیں تھی۔ وہ تو بس حق جاننا چاہتا‬
‫تھا۔ اور اس ِم ال ل ّٰ ہ کا وہ نقش گویا ا ُس کے دل و دماغ میں سما گیا تھا۔‬
‫وہ تیزی سے سوچ رہا تھا۔ کوئی ولی الل ّٰ ہ کس مقصد سے لوگوں کو‬
‫اس ِم الل ّٰ ہ کا نقش دے کر سانس کے ساتھ ال ل ّٰ ہ کا نام جپھنے کا درس‬
‫دیتا ہے۔؟ ا ِس سے ذکر کرنے والے کو کیا ح اصل ہوتا ہو گا۔؟ ا ُس نے‬
‫اپنے سوال پھر اپنے دل کے سامنے ال کے رکھ دیے۔ دل نے ا ُسے‬
‫ایک حدیث یاد دالئی کہ " ہر چیز کی صفائی کے لیے ایک آلہ ہے‪ ,‬اور‬
‫ذکر ال ل ّٰ ہ ہے۔"‬
‫دل کی صفائی کے لیے ِ‬
‫ہاں وہ تو ہے لیکن ا ِسے ہم ‪ Scientifically‬کیسے ثابت کریں گے کہ‬
‫ذکر کرنے سے انس ان کے دل پر کوئی اثر پڑتا ہے۔؟ دل نے ا ُسے‬
‫اسکول کی چھٹی‪ ,‬ساتویں جماعت کی سائنس کی کتابیں یاد کرائیں جن‬
‫میں ا ُس نے آنکھ کے بارے میں پڑھا تھا کہ آنکھ سے ایک روشنی‬
‫نکلتی ہے اور کسی بھی چیز سے ٹکرا کر واپس آنکھ تک جاتی ہے‬
‫اور جس چیز سے وہ روشنی ٹکرا کے واپس آ رہی ہوتی ہے ا ُس کا‬
‫عکس آنکھ کے پردے پے بناتی ہے جس سے دماغ سمجھتا ہے کہ ہم‬
‫دیکھ رہے ہیں۔ اور وہ منظر دماغ کے کسی کونے میں محفوظ بھی ہو‬
‫ت ضرورت ہم یاد بھی کر سکتے ہیں۔ اب سوچو اگر‬ ‫جاتا ہیں جو بوق ِ‬
‫کوئی شخص ال ل ّٰ ہ کا نام سامنے رکھ کر صبح شام ا ِس نام کو اپنی آ نکھ‬
‫سے اپنے دل میں ا ُتارے تو ا ُس پے اثر ہو گا کہ نہیں۔؟ اور جس‬
‫شخص کو اپنی سانس کے ساتھ ال ل ّٰ ہ کا نام لینے کی عادت پڑ جائے تو‬
‫وہ جو مرضی کر رہا ہو لیکن وہ الل ّٰ ہ کی یاد سے غافل نہیں ہو گا۔‬
‫ا ِسی لیے اولیاء ال ل ّٰ ہ‪ ,‬لوگوں کو ال ل ّٰ ہ کی یاد میں رہنے کو کہتے ہیں ۔ "‬
‫ح بِ نبی کی خاطر اس ِم محمد کا‬ ‫" ارے واہ‪ !..‬کیا بات ہے‪ ,‬پھر تو ُ‬
‫بھی تصور کیا جا سکتا ہو گا۔" ا ُس نے خوش ہو کر اپنے آپ سے کہا۔‬
‫ا ُس رات وہ اپنے دل کو بہت وسیع محسوس کر رہا تھا اور ایک‬
‫عجیب سا سکون ا ُسے اپنی آغوش میں سمیٹے جا رہا تھا۔ چند دن‬
‫گزرے کہ ا ُسے پیغا م ِم ال کہ آج رات ہم نے شور کوٹ جانا ہے۔ ایک‬
‫تھکا دینے واال رات بھر کا طویل سفر کرنے کے بعد جب وہ بس سے‬
‫‪39‬‬
‫ا ُتر کر پیدل سلطان محمد بہادر علی شاہ رح کے مزار کی جانب بڑھ‬
‫رہا تھا تو ا ُسے بتایا گیا کہ " ُم رشد پاک کے سامنے آپ جو بات بھی‬
‫چاہیں اپنے دل کی زبانی ا ُن سے کہہ سکتے ہیں۔ وہ دل کی زبان س ُ ن‬
‫لیتے ہیں۔" ا ُس نے ا ُن کی بات کا یقین نہیں کیا اور سوچا میں نے کیا‬
‫چ کا ہوں۔‬ ‫کہنا ہے ا ُن سے۔؟ مجھے جو کہنا تھا میں الل ّٰ ہ میاں سے کہہ ُ‬
‫ا ُن سے بس " اس ِم ال ل ّٰ ہ " کی اجازت مل جائے۔ جب وہ ا ُن کے ڈیرے‬
‫پے پہنچا تو وہاں موجود لوگوں ک و دیکھ کر ا ُسے ایک عجیب سے‬
‫سکون کا احساس ہونے لگا۔ روشن چہروں والے لوگ۔ ا ُن کے چہروں‬
‫پے داڑھیاں اور سر پے سندھی ٹوپیاں تھیں جو بہت خوب صورت لگ‬
‫رہی تھیں۔ وہ اپنے آپ کو جینز‪ ,‬شرٹ میں ا ُس جگہ ِم س فٹ محسوس‬
‫کر رہا تھا کسی نے ا ُسے ایک کپڑا دیا اور کہا ا ِسے سر پے رکھ لو۔‬
‫ا ُس نے وہ کپڑا عربی انداز میں سر پے رکھا اور سب لوگوں سے ذرا‬
‫فاصلے پے جا کر سلطان محمد بہادر علی شاہ رح کے مزار کی دیوار‬
‫سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گ ُ زری تھی کہ ا ُس‬
‫نے دیکھا کہ ایک کمرے کا دروازہ کھال اور سب لوگ اپنی اپنی جگہ‬
‫موئ دب ہونے لگے اور ا ُس کمرے سے باہر تشریف التے بزرگ کی‬
‫جانب بڑھنا شروع ہو گئے۔ جب ا ُس نے ا ُنہیں دیکھا تو خود با خود‬
‫ا ُس کے اندر ا ُن کے لیے ادب کا احساس جاگا اور وہ ذرا سیدھا ہو کر‬
‫دیوار سے ہٹ کے با ادب ہو کر کھڑا ہوا ا ُسی پل انہوں نے ا ُس کی‬
‫جانب دیکھا تو جیسے ا ُس کا دل ا ُس کے قابو میں نہیں رہا اور ا ُس‬
‫نے دل کی زبانی ا ُنہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا "مجھے نہیں معلوم‬
‫کہ آپ کون ہیں‪ ,‬مجھے تو اپنا نہیں پتا‪ ,‬لیکن مجھے ال ل ّٰ ہ کی تالش ہے‪,‬‬
‫اگر آپ ا ِس تالش میں میری مدد کر سکتے ہیں تو پلیز کیجیے" ۔ جتنی‬
‫دیر میں ا ُس نے اپنی بات مکمل کی ا ُتنی دیر میں سلطان محمد اصغر‬
‫علی (رح) چلتے ہوئے ا ُس کے قریب آئے اور اپنا داہنا ہاتھ ا ُس کی‬
‫جانب بڑھاتے ہوئے اسالم و علیکم کہا۔ ا ُس نے ا ُن سے مصافہ کرتے‬
‫ہوئے وعلیکم اسالم کہنے کی کوشش کی مگر ا ُن کے سامنے ذبان نہ‬
‫ہل سکی اور وہ دل دل میں سالم کا جوا ب دے کر ا ُنہیں دیکھتا ہی رہ‬
‫گیا۔ ا ُن سے ذیادہ دلکش سراپے کا انسان ا ُس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔‬
‫ا ُنہوں نے ا ُس کا ہاتھ پکڑے پکڑے ا ُسے د ُعا دی " پ ُ تر ال ل ّٰ ہ کامیاب‬

‫‪40‬‬
‫کرے گا‪ ,‬ال ل ّٰ ہ پاک خیر کرسی " اور اتنا فرما کر وہ وہاں سے تشریف‬
‫لے گئے۔‬

‫ا ِس مالقات کے بعد سے ا ُس پے ایک کیف سا طاری ہو گیا ا ُسے اپنی‬


‫سوچ میں توازن محسوس ہو رہا تھا۔ ایک گہرائی ا ُس کے اندر سما‬
‫رہی ہو جیسے۔ جب اس ِم الل ّٰ ہ ذات کے ذکر کا طریقہ سمجھنے کے لیے‬
‫بیٹھا اور سلطان محمد اصغر علی (رح) کے ایک مقرب ُم رید نے ا ُس‬
‫کی جانب ا ِسم ال ل ّٰ ہ ذات کا نقش بڑھایا ت و ا ُسے محسوس ہوا جیسے وہ‬
‫کارڈ(جس پے اس ِم ال ل ّٰ ہ کا نقش تھا) دھڑک رہا ہے۔ نقش کو دیکھتے‬
‫دیکھتے ا ُس پے ایک غنودگی سی طاری ہو رہی تھی ایک کیف تھا‬
‫جس نے ایک پل کو ا ُس کی آنکھ بند کر دی اور سر جھکا دیا۔ ا ُس نے‬
‫خود کو سنبھالتے ہوئے ا ُن کے ہاتھ سے نقش لیا اور غور کرنے کی‬
‫کوشش کی تو نقش سچ میں دھڑک رہا تھا۔ ا ُس نے پھر سے خود کو‬
‫جھنجھوڑا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کاغذ کا ٹ ُکڑا دھڑک رہا ہو۔؟ یہ‬
‫شاید ا ُس کے اپنے اندر کی کیفیت تھی۔ نقش کو دیکھ دیکھ کر ا ُس پے‬
‫بار بار شدید غنودگی طاری ہو رہی تھی۔ ا ُسے یوں نیند میں جھومتا‬
‫دیکھ کے انہوں نے شفقت بھرے لہجے میں کہا" بیٹا آپ تھکے ہوئے‬
‫ہیں‪ ,‬آپ کو نیند آ رہی ہے‪ ,‬مگر کچھ دیر ہوش و حواس میں رہ کر‬
‫ذکر کا طریقہ سمجھ لیجیئے" ا ُس نے ا ُن کی جانب دیکھتے ہوئے کہا‬
‫"ہاں میں بہت تھکا ہوا ہوں اور نیند بھی آ رہی ہے مگر میں بیہوش‬
‫نہیں ہوں یہ غنودگی ش اید ا ِس نقش کا اثر ہے‪ ,‬آپ ذکر کا طریقہ‬
‫سمجھائیے میں ہمہ تن گوش ہوں۔ "‬
‫ا ُس نے اس ِم ال ل ّٰ ہ ذات کا ذکر کرنا شروع کیا تو ا ُسے اپنے اندر ایک‬
‫وسعت محسوس ہونا شروع ہو گئی ا ُسے اپنے سوالوں کے جواب اپنے‬
‫ق قلب کے‬ ‫ہی اندر سے ملنا شروع ہوئے گئے۔ ا ُسے ہر بات تصدی ِ‬
‫ساتھ س مجھ آنے لگی۔ ا ُسے سمجھ آنا شروع ہوا کہ فرقہ واریت‬
‫درحقیقت ہم سب کے اندر کی تقسیم کا نام ہے۔ ہم کسی کے ساتھ ایک‬
‫پلیٹ میں کھانا کھاتے ہیں‪ ,‬ا ُس کے س ُ کھ دکھ میں شریک ہوتے ہیں‪,‬‬
‫اور اکثر ا ُسے اچھا انسان بھی مانتے ہیں لیکن جہاں ا ُس کے مذہب و‬
‫مسلک کی بات آتی ہے تو ہم ا ُس کی آخرت کو برباد تصور کرتے ہیں۔‬
‫ا ِس سے کسی دوسرے کو تو فرق نہیں پڑتا لیکن ہمارے اپنے دل پر‬
‫‪41‬‬
‫بد گ ُ مانی کی ایک تہہ چڑھ جاتی ہے۔ یہی بدگمانی ہمیں سماجی طور‬
‫پے منقسم کرتی ہے اور سماج میں ایک پہچان ا ُبھارتی ہے کہ ہم ایک‬
‫دوسرے کے مخالف ہیں‪ ,‬کس لیے مخالف ہی ں؟ ا ِس لیے کے ہمیں ایک‬
‫دوسرے کی عبادت اور عبادت گاہ ٹھیک نہیں لگتی۔ ہمیں لگتا ہے کہ‬
‫دوسرے لوگ جس طریقے سے الل ّٰ ہ کی عبادت کرتے ہیں‪ ,‬اور الل ّٰ ہ‬
‫سے جس طرح کا گمان رکھتے ہیں ا ُس سے وہ ضرور جہنم میں چلے‬
‫جائیں گے چاہے وہ نیکوکار ہی کیوں نہ ہوں‪ ,‬اور ہم جس مسلک‪ ,‬یا‬
‫جس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ا ُس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہم‬
‫تمام گناہوں کے باوجود جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ کیسی بیمار‬
‫سوچ ہے کہ شروع کرتے ہیں الل ّٰ ہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور‬
‫نہایت رحم کرنے واال ہے اور پھر ا ُسی الل ّٰ ہ کی رحمت و مہربانی کو‬
‫اپنی ذات تک مح دود کر لیتے ہیں۔ الل ّٰ ہ کے رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم کو رحمت اللعالمین مانتے ہیں اور پھر ا ُن کی رحمت کو اپنے‬
‫فرقے اور مذہب تک کے لوگوں کے لیے خاص کر لیتے ہیں۔ اسالم‬
‫مکمل سالمتی کا دین ہے۔ اس کی سالمتی کو تمام انسانوں تک پہنچنا‬
‫چاہیے لیکن یہ سالمتی ای ک دوسرے پر اپنے نبی‪ ,‬صحابی‪ ,‬یا امام کی‬
‫برتری ثابت کرنے سے نہیں بلکہ ایک دوسرے کو ایک الل ّٰ ہ پے‬
‫بھروسے اور یقین کا درس دینے سے یہ سالمتی لوگوں تک پہنچائی‬
‫جا سکتی ہے۔ اکثر جگہوں پے لکھا ہوتا ہے "مذہبی گفتگو سے پرہیز‬
‫کیجیے" یہ جملہ ا ِس لیے لکھا جاتا ہے تاکہ ا من و امان قائم رہے‬
‫کیونکہ ہم ایک دوسرے کو کافر مشرک ٹھہرائے بنا دین کی بات ہی‬
‫چ کے ہیں کہ دین کا مطلب ال ل ّٰ ہ سے‬ ‫نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ہم بھول ُ‬
‫اپنا تعلق مضبوط کرنا ہے‪ ,‬ہمیں یاد ہی نہیں ہے کہ دین کا مطلب اپنی‬
‫اصالح کرنا ہے۔ ہم سب خود کی اصالح کیے بغیر ہی سب ک ی اصالح‬
‫کرنا چاہتے ہیں اور یہی بات تمام فساد کی جڑ ہے۔ ا ُس نے الل ّٰ ہ سے‬
‫د ُعا کی کہ "الل ّٰ ہ میاں مجھے لوگوں کو ا ِس سوچ سے پاک کرنے کا‬
‫موقع دینا۔ میں آپ سے ا ِس کے سوا اور کچھ نہیں مانگتا۔‬

‫‪42‬‬
‫''باب۔ ‪'' 10‬‬
‫وہ جیسے جیسے ا ِسم ال ل ّٰ ہ ذات کا تصور کرتا جا رہا تھا ا ُس کے دل‬
‫کو سیدھ ملتی جا رہی تھی اور ذکر کی اہمیت ا ُس پے واضح ہوتی جا‬
‫رہی تھی۔ ا ُس کے دل نے ا ُسے کہا کہ "زندہ اور ُم ردہ انسان کی‬
‫پہچان سانس سے یا دھڑکن سے ہوتی ہے۔ ا ِس کا مطلب یہ کہ انسان‬
‫میں سانس اور دھڑکن کا عمل انسان کی روح سے وابستہ ہے۔ جب‬
‫ایک شخص ذکر شروع کرتا ہے تو سمجھو کہ بیک وقت وہ اپنی سانس‬
‫اور دھڑکن پر الل ّٰ ہ کے نام کا پہرہ بٹھا لیتا ہے۔" ہاں وہ سب تو ٹھیک‬
‫ہے لیکن کیا ایسا کچھ قرآن و س ُ نت سے بھی ثابت ہے۔؟ ا ُس نے دل کو‬
‫ٹوکا۔ ویسے تو ایسی بہت سی آیات تھیں جن میں ذکر اور اہ ِل ذکر کے‬
‫الفاظ موجود تھے لیکن ا ُس وقت قرآن ا ُٹھانے پر جو آیت ا ُس کے‬
‫سامنے آئی وہ سورہ انبیاء کی ساتویں آیت تھی۔‬
‫وح ي إ ِ ل َ یْ ِھ ْم ف َ ا سْ أ َل ُ و ا ْ أ َھْ لَ ال ِذ ّ كْ ِر إ ِ ن‬
‫َو َم ا أ َ ْر سَ لْ ن َ ا ق َ بْ ل َ َك إ ِ ال َّ ِر َج ا ال ً ن ُّ ِ‬
‫ك ُن ت ُ ْم ال َ ت َعْ ل َ ُم ون (سورہ انبیاء ‪) 0‬‬
‫اور (اے حبی بِ مک ّر م!) ہم نے آپ سے پہلے (بھی) َم ردوں کو ہی‬
‫(رسول بنا کر) بھیجا تھا ہم ان کی طرف وحی بھیجا کرتے تھے‬
‫(لوگو!) تم اہ ِل ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تم (خود) نہ جانتے ہو۔‬

‫ا ُس نے یہ آیت اور ا ُس کا ترجمہ کئی بار پڑھا تھا۔ الگ الگ جگہ‬
‫الگ الگ طرح سے ا ِس آیت کا ترجمہ بیان کیا گیا تھا۔ ک ئی جگہ 'اہ ِل‬
‫ذکر' کا مطلب "اہ ِل علم‪ ,‬اہ ِل کتاب‪ ,.‬یا "وہ جو یاد رکھتے ہیں" بیان‬
‫کیا گیا تھا۔ ا ُس نے سوچا کہ جب عربی میں 'اہ ِل ذکر' کا لفظ موجود‬
‫ہے تو اردو میں 'اہل ذکر' کے لفظ کا الگ الگ انداز سے ترجمہ کیوں‬
‫کیا جا رہا ہے۔؟ تو دل نے ا ُسے اپنے وقت کے علماء کا وہ چہرہ‬
‫دکھایا جس کا استمعال کرتے ہوئے وہ قرآن سے اپنی مرضی‪ ,‬مقصد‪,‬‬
‫یا ضرورت کا معنی اخذ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ا ُس چہرے‬
‫کے پیچھے ا ُسے اپنے جیسے بہت سے لوگ دکھائی دیے جو ا ُن ع ُ لماء‬
‫کے پیچھے آنکھ بند کر کے چلتے ہیں اور بنا سوچے سمجھے ا ُن کی‬
‫ف آخر سمجھ کر دنیا س ُ دھارنے نکل پڑتے ہیں۔‬ ‫بات کو حر ِ‬
‫‪43‬‬
‫اکثر رات کو اپنے گھر کے سامنے اکیلے کھڑے ہو کے سگریٹ پیتے‬
‫رہنا ا ُس کی عادت تھی‪ ,‬اس دوران وہ اپنی سوچوں میں مگن رہتا تھا۔‬
‫ا ُس رات بھی جب وہ وہاں کھڑا سگریٹ پی رہا تھا تو کچھ فاصلے پے‬
‫اسٹریٹ الئٹ کے پاس ا ُس کے محلے ک ے چار‪ ,‬پانچ‪ ,‬لڑکے کھڑے‬
‫آپس میں مذہبی قسم کی گفتگو کرنے میں مصروف تھے ا ُن میں سے‬
‫ح لیے سے کسی مدرسے کا طال بِ علم لگ رہا تھا ا ُن‬ ‫ایک لڑکا اپنے ُ‬
‫کی بات کا موضوع شاید یہ تھا کہ کون سا فرقہ صحیح ہے اور کون‬
‫سا غلط۔ کہ اچانک ا ُس طال بِ علم دکھائی دینے والے لڑکے نے بلند‬
‫آواز میں کہا "شیعوں کا ماتم دیکھنا‪ ,‬ا ُن کے جلوس دیکھنا ک ُ فر ہے‪,‬‬
‫جو یہ سب دیکھتا ہے ا ُس کا نکاح ختم ہو جاتا ہے‪ ,‬شدید گ ُ ناہ ہے ا ِن‬
‫کی مجلسوں میں جانا‪ ,‬یہ سب ک ُ فر و شرک ہے۔" ویسے تو ا ُسے عادت‬
‫نہیں تھی کسی سے بحث کرنے کی لیکن ا ُس وقت شاید ا ُسے باقی‬
‫لڑکوں پے غصہ آ گیا جو بڑے انہماک سے ا ُس کی بات س ُ ن رہے‬
‫تھے۔ ا ُس نے ا ُن کی جانب جاتے ہوئے دور سے آواز لگائی "ہیلو‬
‫بھائیوں‪ ,‬ماشاء الل ّٰ ہ بہت ایمان افروز گفتگو ہو رہی ہے کیا میں پاس آ‬
‫کے س ُ ن سکتا ہوں" وہ سگریٹ منہ میں دبائے ہوئے بات کرتا ا ُن کے‬
‫پاس پہنچ گیا۔ وہ لڑک ے عمر میں ا ُس سے دو‪ ,‬چار سال چھوٹے تھے‬
‫اور محل ّ ے داری کی وجہ سے ا ُسے صرف شکل سے جانتے تھے‬
‫کیوں کہ وہ کسی سے ذیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ آج ا ُسے ا ِس طرح اپنی‬
‫جانب آتے دیکھ کر سبھی حیران ہوئے۔ ا ُس نے ایک لڑکے کے‬
‫کندھے پے ہاتھ رکھتے ہوئے ا ُس لڑکے کی طرف دیکھا جو شیعہ‬
‫مسلک کی بات کر رہا تھا اور بہت ادب سے کہا "بھائی بہت عجیب‬
‫بات س ُ نی میں نے آپ سے‪ ,‬ا ِس لیے آپ کے پاس آیا‪ ,‬یہ نکاح ٹوٹ‬
‫جانے کی ایسی وجہ تو میں زندگی میں پہلی بار سن رہا ہوں‪ ,‬آپ‬
‫کوئی عالم ہیں۔؟ ہاں میں عالم کا کورس کر رہا ہوں اور ا ِس سے آگے‬
‫ُم فتی بنوں گا ۔" ا ُس نے بدستور گرم لہجے میں جواب دیا۔ "واہ بھائی‬
‫اتنی لگن ہے آپ میں دین سیکھنے کی کہ ا ِس کے لیے آپ نے اپنی‬
‫پوری زندگی ہی وقف کر دی ہے‪ ,.‬ماشاء ال ل ّٰ ہ‪ ,‬ویسے یہ نکاح ٹوٹنے‬
‫والی بات آپ نے کہیں پڑھی ہے یا کسی سے س ُ نی ہے۔؟" ا ُس نے‬
‫اپنے لہجے کی مٹھاس برقرار رکھ تے ہوئے پوچھا۔ عالم لڑکے نے‬
‫کہا "میں نے سنا ہے اور جن سے س ُ نا ہے مجھے یقین ہے کہ انہوں‬
‫‪44‬‬
‫نے حق کہا ہو گا‪ ,‬یہ میرے دوست ہیں یہ شیعوں کے جلوس میں جانے‬
‫کی بات کر رہے تھے‪ ,‬اس لیے میں انہیں سمجھانے کی کوشش کر تھا‬
‫ذکر علی کے بغیر تو ا ِن‬
‫ِ‬ ‫کہ ا ُن شیعوں کے جلوس میں مت جانا‪,‬‬
‫ذکر علی کے‬ ‫ِ‬ ‫شیعوں کی نماز ہی نہیں ہوتی" ا ُس نے کہا "بھائی کیا‬
‫بغیر آپ کی نماز ہو جاتی ہے۔؟" عالم لڑکے نے پ ُ ر زور انداز میں کہا‬
‫"ہاں‪ ,‬الحمد لل ّٰ ہ میری نماز ہو جاتی ہے" ا ُس نے کہا "اچھا۔؟ آپ نماز‬
‫میں درو ِد ابراہیمی ہی پڑھتے ہیں نا۔؟" عالم لڑکے نے کہا "ہاں ہم‬
‫درو ِد ابراہیمی ہی پڑھتے ہیں"۔ "پورا درود پڑھتے ہیں۔؟ میرا مطلب‪,‬‬
‫رسول اور آ ِل رسول دونوں پے درود بھیجتے ہیں نا۔؟" ا ُس نے اپنے‬
‫الفاظ پے زور دیتے ہوئے پوچھا۔ عالم لڑکے نے ا ِس بار جھنجھالئے‬
‫ہوئے جواب دیا "ہاں میں پورا درود پڑھتا ہوں"۔ ا ُس نے مسکرا کر‬
‫ذکر علی تو آپ بھی کر رہے ہیں۔ آ ِل رسول کی ابتدا کہاں‬ ‫ِ‬ ‫کہا "پھر‬
‫سے ہے۔؟" ۔ "حضرت علی سے ہے" اس بار جواب ا ُس کے ساتھ‬
‫کھڑے باقی لڑکوں نے دیا تھا۔ عالم لڑکے نے کوئی جواب نہ دیا تو‬
‫ا ُس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا "نکاح ٹوٹ جانے کی‬
‫وجوہات میرے خیال میں الل ّٰ ہ نے صاف الفاظ میں بتا دی ہیں اور ا ُن‬
‫وجوہات میں ایسا کچھ نہیں کہا گیا کہ کسی دوسرے مذہب و مسلک‬
‫کی عبادات دیکھنے سے نکاح ٹوٹ جائے گا یا مکروہ ہو جائے گا اور‬
‫ہم لوگوں کے تو نکاح بھی نہیں ہوئے ابھی‪ ,‬تو ہمارا کیا ٹوٹے گا۔؟‬
‫ویسے تو نفرت کی عادت ہی ب ُ ری چیز ہے لیکن اگر کسی سے نفرت‬
‫ہی کر رہے ہو تو تھوڑا ‪ level‬تو رکھو‪ ",‬ا ُس نے سوچا کہ عالم بھائی‬
‫ح س ِن سلوک کی کوئی بات بتائی جائے ا ِس مقصد‬ ‫کو اولیاء ال ل ّٰ ہ کے ُ‬
‫سے ا ُس نے بات جاری رکھتے ہوئے ا ُن سے پوچھا "آپ اولیاء کرام‬
‫کو تو مانتے ہیں نا۔؟" تو عالم لڑکے نے گرجدار آواز میں کہا‬
‫"حضرت ابو بکر صدیق رض‪ ,‬سے بڑا ولی کوئی نہیں حضرت عمر‬
‫رض سے بڑا ولی کوئی نہیں‪ ,‬حضرت عثمان غنی رض سے بڑا ولی‬
‫چ پ ہو گیا تو ا ُس نے پوچھا "اور‬ ‫کوئی نہیں" اتنا کہ کر وہ عالم لڑکا ُ‬
‫حضرت علی۔؟" جس پر عالم لڑکے نے پ ُ ر زور لہجے میں کہا "ہم‬
‫حضرت علی کو نہیں مانتے ا ُن کی فوجوں نے حضرت عائشہ کی‬
‫فوجوں سے جنگ کی تھی ا ِس لیے ہم انہیں نہیں مانتے" ا ُس نے‬
‫حیرت سے ا ُس عالم لڑکے سے پوچھا "آپ سچ ُم چ عالم بن رہے ہو۔؟‬
‫‪45‬‬
‫کیا بات ہے آپ کی‪ ,‬جو عیب آپ کو اہ ِل تشیع میں دکھائی دے رہا ہے‬
‫وہی عیب کسی اور نام سے آپ نے خود بھی پال ر کھا ہے‪ ,‬اور خود‬
‫کو ا ُس عیب میں آپ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔؟‬
‫میں کسی مسلک کے ساتھ یا خالف نہیں ہوں۔ لیکن میں نفرت کے‬
‫خالف ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ جس الل ّٰ ہ نے اپنے محبوب کی محبت میں‬
‫ہم سب کو تخلیق کیا ا ُس کی کائنات میں محبت کے سوا کچھ نہیں ہونا‬
‫چاہیے۔ لیکن یہ دی کھ کے مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ہم ا ُسی الل ّٰ ہ کے‬
‫نام پر ایک دوسرے کی نفرت میں مبتال ہیں اور ا ُس نفرت میں ہم ایک‬
‫دوسرے پر جھوٹے الزام لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔ آپ کے ماننے‬
‫یا نا ماننے سے کسی ولی‪ ,‬بزرگ‪ ,‬یا صحابی کو کوئی فرق نہیں پڑتا‪,‬‬
‫چ کے ہیں انہوں نے‬ ‫حضرت علی اپنے ح صّ ے کی دنی اوی زندگی گ ُ زار ُ‬
‫جو کیا ا ُس کی پوچھ ا ُن سے موئرخوں نے نہیں کرنی بلکہ الل ّٰ ہ نے‬
‫کرنی ہے اور الل ّٰ ہ بہترین جاننے واال ہے۔ آپ کیوں خود کو کسی‬
‫ایسے انسان کی ب ُ رائی کرنے میں مبتال کرتے ہیں جسے رسول الل ّٰ ہ‬
‫صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ نصیب ہو ا۔؟ کسی کی ب ُ رائی بیان کر‬
‫کے آپ گناہگار تو ہو سکتے ہیں لیکن ا ِیسا کر کے آپ ثواب نہیں کما‬
‫سکتے۔ اگر کسی کی ب ُ رائی کرنا کسی پے لعنت بھیجنا دین کا حصہ‬
‫ح کم‬ ‫ہوتا تو سب سے پہلے شیطان پر لعنت بھیج کر ثواب کمانے کا ُ‬
‫دیا جاتا۔ آخر کیوں ہم پے ایسے لوگ حاوی ہیں جو د ین و مذہب کو‬
‫محبت کا درس بتاتے ہوئے لوگوں کو ایک دوسرے سے نفرت کرنے‬
‫کی تعلیم دیتے ہیں۔ ایک صحابی کا دوسرے صحابی سے اگر جھگڑا‬
‫ہے تو بھی میں اور آپ کون ہوتے ہیں فیصلہ کرنے والے۔؟ وہ بنا‬
‫ُر کے بولتا جا رہا تھا اور عالم لڑکا متذبب انداز میں ا ُس کی بات س ُ ن‬
‫رہا ت ھا۔ ا ُس نے کہا "اگر آپ کسی ایک صحابی کی طرف سے‬
‫دوسرے صحابی کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنا ہی چاہتے ہیں‬
‫تو پہلے ا ُن کے جیسا کردار پیدا کیجیئے پھر بات کیجیے‪ ,‬اگر لوگوں‬
‫میں محبت نہیں بڑھا سکتے تو پلیز نفرت بھی مت پیدا کیجیئے۔" عالم‬
‫لڑکے نے ا ُسے کوئی جواب ن ہیں دیا تو ا ُس نے کہا "اگر میری باتوں‬
‫سے آپ کی دل آزاری ہوئی تو میں آپ سے معافی مانگتا ہوں لیکن‬
‫سر‬
‫ایک بار میری بات کو ٹھنڈے دماغ سے سوچیے گا ضرور کہ ِ‬
‫محشر آپ نے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے یا کسی صحابی کے اعمال‬
‫‪46‬‬
‫کا۔" اتنا کہہ کر وہ باقی لڑکوں سے مخاطب ہوا ا ور کہا "الل ّٰ ہ ایک‬
‫ہے‪ ,‬ا ُس نے خود ہی لوگوں کو الگ الگ مذہب و مسلک میں ا ُتارا‬
‫کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ الگ الگ انداز سے لوگ ا ُسے اور ا ُس کے‬
‫برگزیدہ بندوں کو یاد کریں۔ وہ ا ِس الئق ہے کہ الگ الگ رنگ میں‬
‫ا ُس کی عبادت کی جائے ا ِس لیے ایک دوسرے کی عبادت کے طریقے‬
‫او ر ا ُس کے اعتقاد کی روشنی میں ا ُس شخص کو ملنے والی جنت اور‬
‫دوزخ کا فیصلہ ا ُسی پر چھوڑ دو جس کی وہ عبادت کرتے ہیں اور‬
‫اپنی عبادت اپنے کردار اور اپنے اخالق کی فکر کرو۔ جیسے کہ‬
‫رسول الل ّٰ ہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "تم میں بہترین‬
‫لوگ وہ ہیں جو اخال ق میں بہتر ہوں" اتنا کہہ کر ا ُس نے ا ُن لڑکوں‬
‫سے اجازت لی اور واپس گھر آ گیا۔‬

‫‪47‬‬
‫''باب۔ ‪'' 11‬‬
‫ا ُس عالم لڑکے سے بات کرنے کے بعد وہ بہت دیر اسی سوچ میں رہا‬
‫کہ کس طرح کے لوگ عالم‪ ,‬یا ُم فتی بن رہے ہیں۔ وہ شخص جو کسی‬
‫کی نفرت میں بنا سوچے سمجھے کچھ بھی کہنے کو تیار ہے کل کو‬
‫فتوی دینے کے الئق‬
‫ٰ‬ ‫وہ چند کتابوں کا کورس مکمل کر لینے کے بعد‬
‫بن جائے گا اور لوگ ا ُس سے دین کی سمجھ حاصل کریں گے کیا‬
‫کتابیں رٹ لینے سے ا ُس کا ِد ل بدل جائے گا۔؟ وہ ا ِنہی سوچوں میں‬
‫دل سے مح ِو گفتگو تھا کہ دل نے ا ُسے کہا "آج تو ت ُو ن ے بہت پتے‬
‫کی باتیں کی ا ُن لڑکوں سے‪ ,‬دیکھ آج تجھے تیرے سوالوں کے جواب‬
‫تیری ہی زبانی ِم ل رہے ہیں" ۔۔۔ "ہاں میں نے دیکھا وہ گفتگو میری‬
‫نہیں تھی‪ ,‬کوئی اور تھا‪ ,‬جو مجھ میں بول رہا تھا‪ ,‬میں بھی ا ُن باتوں‬
‫کو کہتے ہوئے ہی سمجھ رہا تھا" ویسے بہت دل کش شخصیت ہے‬
‫سلطا ن محمد اصغر علی (رح) کی۔ " ا ُس نے دل سے کہا اور ِد ل نے‬
‫ا ُسکی تائید کی۔‬
‫وقت گ ُ زرتا گیا۔ ا ُس کی کیفیات دن بہ دن بدلتی جا رہی تھیں اکثر وہ‬
‫کسی سمجھدار شخص سے اپنی کیفیات شیئر بھی کر لیتا تھا۔ ایک دن‬
‫چ کی ہی ں کہ‬‫ا ُسے کسی نے کہا کہ ا ِب تمھاری کیفیات ا ُس حد کو پہنچ ُ‬
‫جس سے آگے تم ُم رشد کے بغیر چلو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے" ا ُن‬
‫کی یہ بات جیسے ا ُس کے دل میں بیٹھ گئی اور ا ُس کا مسئلہ یہ نہیں‬
‫تھا کہ بیعت کرنی ہے یا نہیں‪ ,‬بلکہ ا ُس کا مسئلہ یہ تھا کہ بیعت کس‬
‫کے ہاتھ پے کروں کیونکہ وہ کہتا تھا کہ"بیعت ا ُس کے ہاتھ پے کروں‬
‫گا جس کو دل مانے گا‪ ,‬اور ابھی تو میں نے ُم رشد کامل کی تالش ہی‬
‫شروع نہیں کی‪ ,‬میں صرف ایک بزرگ سے ِم ال ہوں جنہوں نے‬
‫مجھے اس ِم الل ّٰ ہ ذات دیا اور سچ میں بہت اثر ہے ا ُن کی نظر میں لیکن‬
‫میں فیصلہ نہیں کر پا رہا۔ انہی سوچوں میں مگن وہ مغرب کی نماز‬
‫پڑھنے چال گیا ن ماز کے بعد جب وہ مسجد سے نکال تو ا ُس وقت بھی‬
‫ُم رشد کی خواہش ا ُس کے ذہن و دل پے سوار تھی‪ ,‬وہ سوچ رہا تھا کہ‬
‫اصل میں تو ُم رشد کامل رسول ال ل ّٰ ہ صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور‬

‫‪48‬‬
‫ہر وقت میں اولیاء کرام ا ُن کے نائب کی حیثیت سے موجود رہتے ہیں‬
‫جن کا کام لوگوں کی راہنمائی ہوتا ہے۔‬
‫سوچتے‪ ,‬سوچتے ا ُسے اس ِم محمد صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کا خیال‬
‫آیا تو ا ُس نے تصور کی آنکھ سے اس ِم محمد صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم کو دیکھتے ہوئے فریاد کی کہ "میں جیسا بھی ہوں آپ کا ا ُمتی‬
‫ہوں اور اپنے وقت میں آپ کے مقرر کردہ نائب کی تالش میں ہوں‪,‬‬
‫میں ُم رشد کامل کا متالشی ہوں‪ ,‬پلیز میری مدد کیجیئے"۔‬

‫ا ُس روز ا ُسے بار بار یہی خیال آ رہا تھا کہ مجھے ُم رشد کی‬
‫ضرورت ہے اور اگر ُم رشد نہ مال تو شاید میں پاگل‪ ,‬دیوانہ ہو جاؤں‬
‫اور اپنے رب کی راہ سے بھٹک جاؤں۔ ا ُس کے لیے بھٹک جانے کا‬
‫تالش ُم رشد میں کہیں بھی جانے‬ ‫ِ‬ ‫خیال ہی جان لیو ا تھا۔ الل ّٰ ہ میاں میں‬
‫کو تیار ہوں۔ لیکن پلیز مجھے گمراہ مت کیجیئے گا میں آپ سے دور‬
‫نہیں ہونا چاہتا۔ ا ُس رات جب وہ سونے کے لیے لیٹا تو بنا ُم رشد‬
‫گمراہ ہو جانے کے ڈر سے بہت رویا۔ آنکھیں بند کیے وہ ابھی جاگ‬
‫ہی رہا تھا کہ ا ُسے ای ک آواز س ُ نائی دی "اپنا دایاں ہاتھ باہر نکالو"‬
‫ا ُس نے ا ِس آواز کو اپنا گمان سمجھا لیکن پھر بھی اپنے رب سے خیر‬
‫کی امید رکھتے ہوئے ا ُس نے آنکھ بند کیے ہوئے ہاتھ باہر نکاال تو‬
‫ا ُسے صاف محسوس ہوا کے کسی نے ا ُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا‬
‫ہو۔ ا ُس نے چونک کر آنک ھیں کھولیں لیکن ا ُسے ایک مدھم سی روشنی‬
‫کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا ا ُس نے آنکھیں بند کیں لیکن وہ روشنی بند‬
‫آنکھوں سے بھی دکھائی دے رہی تھی اور ا ُس کا ہاتھ ابھی بھی کسی‬
‫اندیکھے ہاتھ میں تھا۔ آواز آئی "منہ تے ذبان بند جی‪ ,‬جو کج کینا اے‪,‬‬
‫دل نال کینا اے" (منہ اور ذبان بند کر لو اور جو کچھ کہنا ہے دل سے‬
‫چ کا تھا۔ انہوں نے‬ ‫کہنا ہے) وہ ا ُن کی آواز اور ا ُن کا انداز پہچان ُ‬
‫ا ُسے کلمہ پڑھایا اور ہر گناہ سے توبہ کرنے کو کہا۔ جیسے‪ ,‬جیسے‬
‫وہ بولتے گئے ویسے‪ ,‬ویسے وہ کہتا گیا اور ا ِسی حالت میں ا ُسے کب‬
‫نیند آ گئی ا ُسے پتہ نہ چال ۔‬

‫اگلی صبح اٹھتے ساتھ ظاہری طور پے سلطان محمد اصغر علی (رح)‬
‫کے ہاتھ پے بیعت کرنے کا فیصلہ کیا اور پتہ کرنے کی کوشش کی‬
‫‪49‬‬
‫کہ جلد از جلد میری ا ُن سے مالقات ہو جائے۔ ا ُسے پتہ چال کہ آپ دو‬
‫دن بعد اٹک شہر کے آس پاس کسی جگہ تشریف ال رہے ہیں۔ لیکن آپ‬
‫سفر میں ہیں اس لیے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ آپ اٹک میں‬
‫کسی کو بیعت کریں گے یا نہیں‪ ,‬اس لیے کچھ دن انتظار کر لو اور ا ُن‬
‫کے سفر سے واپسی پر جھنگ یا شور کوٹ جا کے بیعت کر لینا۔ لیکن‬
‫ا ُسے چین ہی نہیں آ رہا تھا وہ جلد از جلد بیعت کرنا چاہ رہا تھا ا ِس‬
‫لیے ا ُس نے اٹک شہر جا کے بیعت کرنے کا فیصلہ کیا۔ ا ُس کے ساتھ‬
‫اور لوگ بھی بیعت کرنے جانا چاہ رہے تھے۔ اور ا ِس طرح ا ُن سب‬
‫نے اگلے روز وہاں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ اپنے دفتر پہنچا تو ا ُس‬
‫چ ھٹی کی مانگ کی اور کہا کہ وہ بیعت کرنا‬ ‫نے اپنے افسر سے ُ‬
‫چ ھٹ ی درکار ہے۔ ا ُس کے افسر نے‬ ‫چاہتا ہے ا ِس لیے ا ُسے دو دن کی ُ‬
‫چ ھٹی نہیں مل سکتی‪,‬‬ ‫ب ُ را سا منہ بناتے ہوئے کہا " ا ِس مقصد کے لیے ُ‬
‫چ ھٹی والے دن جا کے کر لینا‪ ,‬ایسے‬ ‫یہاں بہت کام ہے تم بیعت کسی ُ‬
‫چ ھٹی نہیں دیتی" ا ُس نے افسر کا جواب س ُ ن‬ ‫کاموں کے لیے گورنمنٹ ُ‬
‫کر کہا "سر بیعت کرنے تو میں نے کل ہی جانا ہے‪ ,‬جو چیز آپ کو‬
‫عام اور بےجا لگ رہی ہے وہ میرے لیے اپنی نوکری اور اپنی زندگی‬
‫سے ذیادہ معنی رکھتی ہے۔" ا ُس کے افسر نے ا ُسے گھور کے دیکھا‬
‫اور کہا "اگر آپ کو نوکری کی پرواہ نہیں ہے تو ٹھیک ہے کل چلے‬
‫جانا" ا ُس نے کہا "سر رزق الل ّٰ ہ کے ہاتھ میں ہے‪ ,‬جب تک کہ ا لل ّٰ ہ نہ‬
‫چاہے آپ یا کوئی اور مجھ سے میرا رزق نہیں چھین سکتا‪ ,‬ویسے‬
‫کتنی عجیب بات ہے کہ ہم لوگ خود ہی اپنے ماتحتوں کو جھوٹ‬
‫بولنے پے مجبور کرتے ہیں اور جب کسی کا جھوٹ پکڑا جاتا ہے تو‬
‫حیران ہو کر کہتے ہیں کہ مجھے تم سے یہ ا ُمید نہیں تھی کہ تم مجھ‬
‫سے جھوٹ بولو گے" ا ُس کے افسر نے کہا " ا ِس بات سے کیا ُم راد‬
‫ہے تمہاری۔؟ کیا تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ میں تمہیں جھوٹ بولنے‬
‫پے مائل کر رہا ہوں۔؟" ا ُس نے کہا "جی سر میں کچھ ایسی ہی بات‬
‫کر رہا ہوں‪ ,‬ہمیں بچپن سے سچ بولنے کو کہا جاتا ہے لیکن ہم میں‬
‫سے سچ سننا کوئی پسند نہیں کر تا‪ ,‬اگر میں آپ سے کہتا کہ کسی کی‬
‫وفات ہو گئی ہے‪ ,‬یا مجھے کوئی اور گھریلو کام ہے‪ ,‬یا میں کل اٹک‬
‫شہر جاتے ہوئے آپ کو فون پر بتا دیتا کہ میں بیمار ہوں آج دفتر نہیں‬
‫چ ھٹی مل جاتی‪ ,‬ایک طرف تو ہم سب‬ ‫آ سکتا‪ ,‬تو بہت آرام سے مجھے ُ‬
‫‪50‬‬
‫ا ِس بات کی د ُہائی دیتے ہیں کہ ہم ای ک قوم کی حیثیت سے جھوٹے‬
‫چ کے ہیں اور دوسری جانب ہم خود ایک ایسا نظام‬ ‫اور فریبی ہو ُ‬
‫ترتیب دے رہے ہیں جو لوگوں کو سچ سے ہٹا کر جھوٹ کی پیروی‬
‫کرنا سکھاتا ہے‪ ,‬اسکول میں ہمیں جو ٹیچر سچائی کا درس دیتا ہے‬
‫وہی ٹیچر ہمارے سچ بولنے پر ہماری پٹائی بھی کر دیتا ہے‪ ,‬طال ب‬
‫علم کو پتہ ہوتا ہے کہ اگر وہ ا ُستاد سے یہ کہے گا کہ سر میرے پیٹ‬
‫میں درد تھا یا مجھے بخار تھا ا ِس لیے میں نے کام نہیں کیا تو ا ُستاد‬
‫یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ طالب علم جھوٹ بول رہا ہے ا ُسے معاف‬
‫کر دے گا لیکن کوئی طال بِ علم اگر یہ کہہ دے کے میں بھول گیا تھا‬
‫یا کرکٹ میچ میں مصروف ہونے کی وجہ سے مجھے وقت نہ مل سکا‬
‫اسکول کا کام کرنے کا تو ا ُستاد کبھی یہ نہیں سوچے گا کہ طال بِ علم‬
‫کی سچائی کو سراہا جائے بلکہ ا ِس سچ کو وہ اپنی تضحیک مانتے‬
‫ہوئے طالب علم کو سخت سے سخت سزا دے گا‪ ,‬مانا کہ طالب علم کو‬
‫اگر ہر بار سچ بولن ے پے معاف کیا جانے لگے تو وہ الپرواہ ہو جائے‬
‫گا لیکن کیا سزا کا اصل حقدار وہ طالب علم نہیں جو ا ُستاد سے جھوٹ‬
‫بول رہا ہے‪ ,‬جب ہم بچپن سے یہی دیکھتے ہیں کہ جھوٹ بولنے واال‬
‫بچ جاتا ہے اور سچ بولنے واال پھنس جاتا ہے تو ہم خود ہی جھوٹ‬
‫اپنانے پے مجبور ہو جاتے ہیں ۔ ا ِس میں جھوٹ بولنے والے سے ذیادہ‬
‫قصوروار وہ شخص ہے جو سچ س ُ ننا ہی نہیں چاہتا ۔ تو سر !! میں نے‬
‫سچ بول کر بچپن سے آج تک بہت مار کھائی ہے لیکن کبھی جھوٹ‬
‫بول کر اپنی جان بچانے کی کوشش نہیں کی‪ ,‬ا ِس لیے محض ا ِس‬
‫نوکری کی وجہ سے میں سچ کو چھوڑ کر جھوٹ کو نہیں ا پناؤں گا‪,‬‬
‫جو سچ تھا وہ میں نے آپ کو بتا دیا‪ ,‬اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ‬
‫چ ھٹی دیں یا نہیں لیکن میں نے کل جانا ہے تو آپ کا جو بھی فیصلہ‬ ‫ُ‬
‫ہو میری واپسی پر مجھے بتا دیجیئے گا"۔‬

‫‪51‬‬
‫''باب۔ ‪'' 10‬‬
‫اگلے دن وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اٹک شہر پہنچا وہاں ا ُس کے‬
‫ساتھیوں کے کسی عزیز کا گھر تھا جہاں جا کر ا ُس نے کچھ دیر آرام‬
‫کرنے اور کھانا کھانے کے بعد اپنے ساتھیوں کے ساتھ ا ُس مقام کا‬
‫ُر خ کیا جہاں س ُ لطان محمد اصغر علی (رح) نے تشریف النا تھا وہاں‬
‫پہنچ کر انتظار شروع ہ ُوا تو کبھی خبر ملتی کہ آپ (رح) راستے میں‬
‫ہیں تو کبھی یہ پتا چلتا کہ آپ (رح) نے ا ِس جگہ آنے کا ارادہ ملتوی‬
‫کر دیا ہے پھر سننے میں آتا کہ یہاں موجود لوگوں کی طرف سے ا ُن‬
‫سے درخواست کی گئی ہے کہ آپ یہاں ضرور تشریف الئیں تو ہو‬
‫سکتا ہے آپ (رح) آ ہی جائیں۔ ا ُسی کی طرح وہاں قریب ‪ 04‬لوگ‬
‫تھے جو س ُ لطان محمد اصغر علی (رح) کے ُم رید ہونا چاہتے تھے۔ ا ُن‬
‫سے مالقات کے خواہشمند ا ُن ‪ 04‬کے عالوہ تھے جو شاید وہیں آس‬
‫پاس رہتے تھے اور بار بار ا ُن کی آمد کا پوچھ رہے تھے‪ ,‬لوگوں کا‬
‫اشتیاق دیکھ کر ا ُس نے سوچا لوگ کتنی محبت کرتے ہیں س ُ لطان‬
‫صاحب سے‪ ,‬نہ جانے کتنے ُم رید ہوں گے ا ُن کے جو ا ُن سے کت نی‬
‫شدید عقیدت رکھتے ہوں گے اور میں۔؟ میں تو بس ایک بار مال ہوں‬
‫ا ُن سے‪ ,‬مجھے تو شاید پرسوں رات سے پہلے ا ُن کی نظر میں ہونے‬
‫کا احساس بھی نہیں تھا۔ اور کیا پتہ یہ بیعت والی بات بھی محض میرا‬
‫گ ُ مان ہی ہو‪ ,‬میں کون ہوں۔؟ دنیا کے گناہوں میں لِ تھڑا ایک غلیظ‬
‫انسان ج س نے کبھی مسجد کی شکل نہیں دیکھی تھی وہ ایک دن ایسے‬
‫چ ے کی فریاد س ُ ن کر ا ُسے‬
‫ہی امام بارگاہ پہنچ گیا اور وہاں ا ُس ب ّ‬
‫خیال آ جاتا ہے کہ مجھے بھی حق کی تالش ہے۔؟ واہ کیا کہانی ہے‬
‫آپ کی۔؟ کیوں اپنا ُم رید بنائیں گے وہ تمھیں۔؟ ایسا کیا ہے تم میں۔؟ تم‬
‫کل بھی گناہگ ار تھے اور آج بھی خطا ہی تمہارا اصول ہے۔ بس‪ ,...‬دل‬
‫ہی تو بدال ہے تمہارا‪ ,‬باقی تو آج بھی تم وہی ہو جو گناہ کو بھی ثواب‬
‫کی طرح کماتا تھا۔ خود کو مالمت کرتے وہ اپنے خیالوں میں بہت‬
‫چ کی تھی اور ابھی تک س ُ لطان صاحب کی آمد‬ ‫دور نکل گیا۔ رات ہو ُ‬
‫کا کچھ پتہ نہ تھا۔ وہاں کے منتظمین نے آس پاس کے گھروں اور‬
‫مسجد میں لوگوں کے ٹھہرنے کا انتظام کیا‪ ,‬ا ُسے بھی جا کے سونے‬
‫‪52‬‬
‫کا کہا گیا لیکن نیند ا ُس کی آنکھوں سے کوسوں د ُور تھی۔ آخری‬
‫اطالع ا ُسے یہ ملی کے س ُ لطان صاحب ابھی ایبٹ آباد جا رہے ہیں‪,‬‬
‫ایبٹ آباد سے واپسی پر ہو سکتا ہے وہ یہ اں تشریف الئیں۔ یہ س ُ ن کر‬
‫وہ دل‪ ,‬دل میں رو پڑا۔ ا ُس نے سوچا کہ شاید ا ِس سب کی وجہ ا ُس کی‬
‫موجودگی ہے۔ اگر وہ یہاں نہ ہوتا تو باقی لوگوں کو اتنی زحمت نہ‬
‫ا ُٹھانی پڑتی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ مجھ جیسے گناہگار شخص کی‬
‫ث زحمت بن رہی ہے‪ ,‬مجھے‬ ‫موجودگی ا ِن سب لوگوں کے لیے باع ِ‬
‫یہاں سے چلے جانا چاہیے صبح فجر کی نماز تک وہ جاگتا رہا اور‬
‫نماز کے بعد کچھ دیر کو سو گیا نیند کے عالم میں بھی ا ُسے یہی فکر‬
‫تھی کہ ا ُس کی وجہ سے اتنے سارے لوگ خوار ہوئے کاش کہ وہ‬
‫یہاں نہ آیا ہوتا۔ سوتے ہوئے وہ بار بار یہی دیکھ رہا تھا کہ س ُ لطان‬
‫محمد ا صغر علی (رح) ایک گاڑی میں بیٹھے ہیں اور گاڑی کی‬
‫کھڑکی کے ساتھ وہ خود کھڑا ہے‪ ,‬سلطان صاحب نے گاڑی کی‬
‫کھڑکی سے اپنا ہاتھ باہر نکاال ہوا ہے اور ا ُس نے دونوں ہاتھوں سے‬
‫ا ُن کا ہاتھ تھاما ہوا ہے کہ اچانک گاڑی چل پڑتی ہے اور ا ُن کا ہاتھ‬
‫ا ُس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہ ے۔ وہ ا ِسی خواب میں محو تھا کہ‬
‫اچانک س ُ لطان محمد اصغر علی (رح) کی آمد کا شور ا ُٹھا وہ تیزی‬
‫سے ا ُٹھا اور ا ُس سڑک کی جانب بھاگا جہاں سے آپ نے آنا تھا وہ‬
‫بھاگتے بھاگتے جب سڑک تک پہنچا تو ا ُس نے اپنے خواب کی مانند‬
‫س ُ لطان صاحب کو گاڑی میں بیٹھے دیکھا اور تھوڑی دیر میں ا ُن کی‬
‫گاڑی ا ُس کے پاس سے گ ُ زرتی ہوئی آگے چلی گئی اور وہ وہیں کھڑا‬
‫ا ُن کی دید کے سحر میں کھویا ا ُن کی گاڑی کو جاتے دیکھتا رہ گیا۔‬
‫اتنے میں سامنے سے ا ُس کے ساتھ آئے لوگوں میں سے ایک لڑکا ا ُس‬
‫کی جوتیاں ا ُٹھائے آتا نظر آیا‪ ,‬ا ُس نے آتے ساتھ ا ُس کی جوتی اں ا ُس‬
‫کے حوالے کرتے ہوئے ا ُس سے کہا "بھائی آپ اپنی جوتی تو پہن‬
‫لیتے۔" ا ُس نے کہا "میری آنکھ س ُ لطان صاحب کی آمد کی اطالع سے‬
‫کھلی تھی‪ ,‬خوشی خوشی میں دھیان ہی نہیں رہا۔" آخر ایک طویل‬
‫انتظار کے بعد وہ پل آ ہی گیا جب وہ س ُ لطان محمد اصغر علی (رح)‬
‫ت بیعت ت ھام کر ا ُن کا ُم رید ہو گیا۔ ایک سفید کپڑے کی لمبی‬ ‫کا دس ِ‬
‫سی ر س ّ ی جس کا ایک ِس را س ُ لطان صاحب کے ہاتھ میں تھا اور بیعت‬
‫کرنے والے سبھی لوگ ا ُس ر س ّ ی کو دونوں ہاتھوں سے تھامے بیٹھے‬
‫‪53‬‬
‫تھے۔ بیعت کرتے ہوئے ا ُسے اپنا دل اپنے ہاتھوں کے بیچ دھڑکتا‬
‫محسوس ہو رہا تھا۔ س ُ لطان صاح ب نے بیعت کے کلمات پڑھے اور‬
‫سب ُم ریدین نے ا ُن الفاظ کو دل سے دہرایا۔ بیعت کے بعد ا ُسے ایسا‬
‫محسوس ہو رہا تھا جیسے ا ُس نے دوبارہ جنم لیا ہو۔‬

‫بیعت کرنے کے بعد واپس آ کر جب وہ دوبارہ دفتر گیا تو ا ُس کے‬


‫چ ھٹی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ ابھی‬ ‫افسر نے ا ُس سے ُ‬
‫ک چھ ہی دن گ ُ زرے تھے کہ ا ُس کے دفتر میں ا ُسی ادارے کے ایک‬
‫اور افسر کسی دفتری کام سے آئے۔ ا ُن کے چہرے پے داڑھی اور‬
‫ماتھے پے بڑی سی محراب تھی‪ ,‬ساتھ ہی ساتھ وہ کافی اچھی دینی‬
‫گفتگو بھی کرنا جانتے تھے وہ کافی دیر اپنی سیٹ پے بیٹھا ا ُن کی‬
‫بات س ُ نتا رہا۔ کہ اچانک انہوں نے بات کرتے کرتے کہا "شیطان بڑا‬
‫طاقتور ہے‪ ,‬ا ِس کے وار سے بچنا ناممکن ہے‪ ,‬ہم کچھ بھی کر لیں یہ‬
‫ہمیں بہکا کر ورغال کر ہم سے گناہ کروا ہی لیتا ہے اور ہم الکھ‬
‫کوشش کے باوجود کچھ نہیں کر پاتے۔ شیطان بڑا طاقتور ہے"‬

‫" ویسے سر اگر شیطان کو الل ّٰ ہ نے طاقت دی ہے تو انسان کو ا ُس سے‬


‫بچاؤ کا طریقہ بھی بتایا ہے۔" ا ُس نے پہلی بار گفتگو میں ح صّ ہ لیتے‬
‫ہوئے کہا "اگر انسان ا ُس طریقے کے ذریعے شیطان سے اپنا بچاؤ‬
‫نہیں کرتا تو یہ شیطان کی طاقت نہیں بلکہ ہماری کمزوری کی نشانی‬
‫ہے" انہوں نے ا ُس کے س ُ وٹ اور کلین شیو چہرے پر نظ ر جماتے‬
‫ہوئے کہا "بیٹا میں ساٹھ سال کا ہونے واال ہوں دفتر کے بعد میرا‬
‫سارا وقت مسجد میں اپنے جیسے بابوں میں گ ُ زرتا ہے۔ لیکن مجھ سے‬
‫اپنی نگاہ پر قابو نہیں ہوتا‪ ,‬لڑکی ہو یا کوئی عورت‪ ,‬میں ا ُسے‬
‫دیکھنے سے‪ ,‬خود کو روک نہیں پاتا۔ یہ مسئلہ میں نے کئی جگہوں‬
‫پے لوگ وں کے سامنے رکھا ہے لیکن ہر شخص نے یہی جواب دیا کہ‬
‫میں بھی ا ِس معاملے میں بے بس ہوں۔ کہتے ہیں کہ داڑھی رکھ لینے‬
‫سے انسان کی نگاہ میں پردہ آ جاتا ہے‪ ,‬مگر میں نے مسجدوں کے‬
‫پیش امام دیکھے ہیں جو لوگوں کو پانچ وقت نماز پڑھاتے ہیں‪ ,‬اور‬
‫لمبی لمبی داڑھیاں رکھنے ک ے باوجود وہ لوگ عورت کو ب ُ ری نظر‬
‫سے دیکھتے ہیں۔ میں نے ال ل ّٰ ہ کے بتائے ہوئے بچاؤ کے سارے‬
‫‪54‬‬
‫طریقے اپنائے ہوئے ہیں‪ ,‬پھر بھی میں ناکام ہوں‪ ,‬تو پھر میں کیوں نہ‬
‫کہوں کہ شیطان مجھ سے ذیادہ طاقتور ہے" انہوں نے مایوسی سے‬
‫اپنا مسئلہ تفصی ال ً بیان کر دیا۔‬

‫ا ُس نے ا ُن ک ی بات توجہ سے س ُ نی اور کہا "سر بات یہ ہے کہ ہم اکثر‬


‫س ُ نت کا ظاہر اپنا کر ا ُس کے باطنی فوائد حاصل کرنے کی کوشش‬
‫کرتے ہیں۔ جب اندر سے کچھ نہیں بدال تو باہر بدل لینا بے س ُ ود ہے۔‬
‫داڑھی رکھ لینا مطلب آپ نے اپنے چہرے کا پردہ کر لیا لیکن نگاہ کا‬
‫پردہ حیا ہے‪ ,‬الل ّٰ ہ سے حیا کرنے سے نگاہ میں پردہ آتا ہے۔ جن‬
‫لوگوں سے آپ پوچھتے رہے ہیں کیا انہوں نے کبھی نہیں س ُ نا کہ‬
‫ج ھکا کر چال کرتے تھے۔‬ ‫رسول الل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم نظر ُ‬
‫میں نے شاید دوسری‪ ,‬تیسری جماعت میں اردو کی کتاب میں ا ُس‬
‫ب ُ ڑھیا کا ق صّ ہ پڑھا تھا جو رسول ال ل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم پر‬
‫کوڑا پھینکا کرتی تھی۔ ا ُس سبق میں ایک الئن یہ تھی کہ وہ بڑھیا‬
‫اپنے گھر کی چھت پے ک ُ وڑا رکھے انتظار کر رہی تھی کہ "ابھی وہ‬
‫آئیں گے نظریں جھکائے‪ ..‬آہستہ آہستہ چلتے ہوئے" ۔ میں نے ا ُس‬
‫سبق سے یہ بات سیکھی تھی کہ رسول الل ّٰ ہ ص لی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم‬
‫ج ھکا‬‫ج ھکا کر چلتے تھے۔ میں تب سے کوشش کرتا ہوں کہ نظر ُ‬ ‫نظر ُ‬
‫کے چال کروں۔ اکثر میری نظر بھی بہک جاتی ہے لیکن میں پھر سے‬
‫ج ھکا کے چلنا شروع کر دیتا ہوں" انہوں نے ا ُسے حیرت سے‬ ‫نظر ُ‬
‫ح لیہ دیکھتے ہوئے ا ُن کے لیے ا ُس کی بات کا یقین‬ ‫دیکھا شاید ا ُس کا ُ‬
‫کرنا ُم شکل ہو رہا تھا "انہوں نے کہا "اچھا تو آپ ا ِتنی سی ع ُ مر میں‬
‫اپنی نظر کی حفاظت کرنا جانتے ہیں تو یہ بتائیں کہ عورت کی‬
‫خوشبو سے کیسے بچاتے ہیں خود کو۔؟" ا ُس نے کہا کہ "میری‬
‫کوشش ہوتی ہے کہ میں کسی کے پاس سے نہ گ ُ زروں‪ ,‬ا ِس مقصد سے‬
‫میں اکثر اپنا راستہ تبدیل کر لیتا ہوں اور اگر پاس سے گ ُ زرنا پڑ ہی‬
‫جائے ت و میں نظر کے ساتھ ساتھ سر بھی ج ھکا لیتا ہوں اور کچھ دیر‬
‫کو سانس بھی روک لیتا ہوں تاکہ ا ُس کی خوشبو سے بھی خود کو بچا‬
‫سکوں‪ ,‬میرے چہرے پے داڑھی نہیں ہے لیکن الحمد لل ّٰ ہ میری نگاہ‬
‫میں پردہ ہے‪ ,‬میں شیطان کو خود پے حاوی نہیں محسوس کرتا‪ ,‬وہ‬
‫ہمارا ا ُس وقت تک کچھ نہیں بگاڑ سکتا جب تک کہ ہم خود ا ُس کے‬
‫‪55‬‬
‫سامنے گ ُ ھٹنے نہیں ٹیک دیتے۔" انہوں نے کہا "بیٹا آپ ٹھیک کہتے‬
‫ہیں میں نے کبھی ایسا سوچا ہی نہیں تھا۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ ہم‬
‫محض ظاہر اپنانے پے زور دیتے ہیں اور باطن کا خیال بھی ہمارے‬
‫گ ُ مان سے غائب رہتا ہے‪ ,‬ویسے آج کل عورتیں بہت بے حجاب ہو‬
‫گئی ہیں‪ ,‬ا ِس لیے بھی ہم َم ردوں کا گناہوں سے بچ کر چلنا ذیادہ‬
‫مشکل ہو گیا ہے۔" انہوں نے اپنے نقط ہِ نظر سے ا ُسے آگاہ کرتے‬
‫ہوئے ا ُس سے ا ُس کی رائے مانگنے والے انداز میں کہا۔ وہ شاید‬
‫ا ُسے اور س ُ ننا چاہ رہے تھے۔‬

‫ا س نے جواب دیا "سر میرا خیال آپ کے خیال کے ا ُلٹ ہے۔ میرے‬


‫خیال میں آج کل مرد بہت ذیادہ بے حجابی کے خواہشمند ہیں ا ِس لیے‬
‫عورت کے لیے حجاب کرنا مشکل ہو گیا ہے۔" انہوں نے کہا "ہاں آپ‬
‫کی بات کسی حد تک درست ہے لیکن مرد میں غیرت ہو تو وہ کم از‬
‫کم اپنی ماں‪ ,‬بہن سے تو پردہ کروا سکتا ہے" ا ُس نے کہا "جی سر‬
‫آپ کی بات صحیح ہے لیکن غیرت مندی کے کچھ اور بھی تقاضے‬
‫ہیں جنھیں پورا کیے بغیر کوئی شخص خود کو اگر غیرت مند‬
‫سمجھے تو یہ ا ُس کی خام خیالی ہے۔ اگر ایک شخص بد نظر ہے‪ ,‬تو‬
‫محض اپنے گھر ک ی عورتوں کو حجاب پہنا کر وہ اپنی غیرت مندی کا‬
‫ثبوت دنیا والوں دے سکتا ہو گا لیکن الل ّٰ ہ کی نظر میں ایسی غیرت‬
‫مندی کسی کام کی نہیں ہے‪ ,‬اکثر غیرت کے نام پے اپنی بہنوں کو قتل‬
‫کرنے والوں کے اپنے کئی معاشقے چل رہے ہوتے ہیں‪ ,‬یہ کیسی‬
‫غیرت مندی ہے۔؟ جس ب ُ رائی کا ا رتکاب مرد گھر سے باہر کر رہا ہے‬
‫وہی ب ُ رائی ا ُس کے گھر سے ظاہر ہو جائے تو ا ُس کی سزا اسی دنیا‬
‫میں دینا واجب ہو جاتی ہے اور وہ فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم خود جو‬
‫کام کسی دوسری عورت کے ساتھ کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے‬
‫وہی کام ہمارے گھر ہو جائے تو ہماری غیرت جاگ ج اتی ہے۔ میں یہ‬
‫نہیں کہتا کہ حجاب نہ کیا جائے لیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ اپنی‬
‫غیرت مندی کا اظہار اپنی بہن کے حجاب کی جگہ اپنی نظر میں حیا‬
‫پیدا کر کے کیجیئے۔ اگر مرد اپنی نظر میں حیا پیدا کر لے تو عورت‬
‫خود بہ خود با حجاب ہو جائے گی‪ ,‬الل ّٰ ہ نے مرد کو اپنے ل یے اور‬
‫عورت کو مرد کے لیے بنایا اس لیے عورت مرد کی خواہش کے‬
‫‪56‬‬
‫مطابق بدل جاتی ہے۔ مرد اگر الل ّٰ ہ کا طالب ہو تو ا ُس کی نظر لوگوں‬
‫کے دل بدل سکتی ہے لیکن وہی مرد اگر نفس و شیطان کا طالب ہو‬
‫جائے تو ا ُس کی نظر شیطانیت پر آمادہ کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتی‬
‫ہے۔ الل ّٰ ہ نے ہر چیز کی ایک حد مقرر کی ہے۔ لیکن جب ہم حد سے‬
‫تجاوز کرتے ہیں تو ہم اپنی نگاہ کی حد بڑھا لیتے ہیں۔ ا ِسی حد سے‬
‫بڑھی ہوئی نظر سے جب ہم کسی حیا دار کو دیکھتے ہیں تو وہ نظر‬
‫چ بھتی ہے۔ ہمارے اپنے اندر خوبصورتی کا معیار ہی بے‬ ‫ا ُسے ُ‬
‫چ کا ہے۔ اپنی بہن بی ٹی کو حجاب پہنے دیکھنے کے‬ ‫حجابی بن ُ‬
‫خواہشمند دوسرے کی بہن بیٹی کو بے حجاب دیکھنا چاہتے ہیں۔‬
‫مجھے نہیں شوق اپنی بہن کو زبردستی حجاب پہنا کر اپنی غیرتمندی‬
‫ثابت کرنے کا۔ کیونکہ میں جب کسی کو نصیحت کرنے کے حوالے‬
‫سے الل ّٰ ہ کے رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب دیکھ تا ہوں تو‬
‫چ ے کو شکر کھانے سے منع کرنے کے‬ ‫مجھے یاد آتا ہے کہ کسی ب ّ‬
‫لیے آپ نے پہلے خود شکر کھانا چھوڑا۔ ا ِس لیے میں سوچتا ہوں کہ‬
‫جب تک میں خود حجاب نہیں کرتا تب تک میں ا ِس الئق ہی نہیں ہوں‬
‫کہ اپنی بہن سے حجاب کرنے کا کہہ سکوں‪ ,‬ا ِس لیے میں خود کو بد‬
‫نظری سے ب چانے کی کوشش کرتا رہتا ہوں‪ ,‬میں ہر جگہ تو اپنی بہن‬
‫کے ساتھ لوگوں کو گ ُ ھورتا ہوا نہیں چل سکتا اور نا ہی ا ُسے حجاب‬
‫ہو س سے بچا سکتا ہوں لیکن کسی‬ ‫پہنا کر بد نظروں کی نظر کی ّ‬
‫دوسرے کی بہن‪ ,‬بیٹی کو ب ُ ری نظر سے نہ دیکھ کر میں الل ّٰ ہ سے ا ُمید‬
‫کر سکتا ہوں کہ وہ میر ی بہن کو اپنی امان میں رکھیں گے ۔ ہم سب‬
‫اپنی کمزوری کا بوجھ دوسروں پر ڈال کر چین کی زندگی گ ُ زارنا‬
‫چاہتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ایسا کر کے ہم طاقت ور نہیں بن‬
‫سکتے۔ اپنا آپ درست کرنا سب سے بڑی عبادت ہے اگر ہر شخص‬
‫ا ِس عبادت پر دھیان دے تو زمین سے مذہب و مسلک ک ے نام پر ہونے‬
‫والے تمام جھگڑے جڑ سے ختم ہو جائیں۔" اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو‬
‫گیا تو ا ُن صاحب نے کہا "بیٹا آپ کے خیاالت س ُ ن کر مجھے بہت اچھا‬
‫لگا انشاءال ل ّٰ ہ میں آپ کی بات پر ضرور عمل کروں گا۔‬

‫‪57‬‬
‫''باب۔ ‪'' 10‬‬
‫ا ُس کے بیعت کرنے کے بعد ا ُس کے سارے بہن بھائی بھی س ُ لطان‬
‫محمد اصغر علی (رح) کے ُم رید ہو گئے۔ اب ا ُس نے اپنا مقصد یہ‬
‫بنایا کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اس ِم ال ل ّٰ ہ ذات کی روشنی پہنچا‬
‫سکے‪ ,‬ا ِس مقصد سے وہ ہر ملنے والے سے مقدور بھر بات کرنے کی‬
‫کوشش کرتا تھا‪ ,‬اکثر لوگ یہی س ُ ن کر ا ُسے رد کر دیتے تھے کہ وہ‬
‫کسی کا ُم رید ہے۔ کیونکہ لوگ‪ ,‬اولیاء الل ّٰ ہ کے سلسلوں کے گدی‬
‫نشینوں سے سخت ناالں نظر آتے ہیں۔ ا ِس بات کا صحیح اندازہ ا ُسے‬
‫تب ہ ُوا جب ا ُس کے ایک دوست نے ا ُس سے طرح طرح کے سوال‬
‫پوچھے۔ مث ال ً آپ کے ُم رشد کے پاس گاڑیاں کتنی ہیں۔؟ گھر کتنا بڑا‬
‫ہے ا ُن کا۔؟ ٹیلی وژن‪ ,‬ڈش اینٹینا ہے ا ُن کے گھر۔؟ یہ سب ایسے‬
‫سوال تھے جنہیں سوچنے کا ا ُسے کبھی خیال ہی نہیں آیا تھا۔ ا ِن سب‬
‫سوالوں کے پوچھنے سے ا ُس کے دوست کا مقصد شاید یہ تھا کہ آپ‬
‫کسی جعلی پیر کے ُم رید تو نہیں ہو گئے جو لوگوں کو بیوقوف بنا کر‬
‫پیسے اکھٹے کرتے ہیں۔ ا ُس نے اپنے دوس ت سے کہا "یار یہ سب‬
‫جاننے کی ضرورت پیش نہیں آئی مجھے۔ میں جانتا ہوں کہ لوگ‬
‫اولیاء کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور ا ُن کے گدی نشینوں‬
‫کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ میں جب س ُ لطان صاحب سے ملنے گیا‬
‫تھا تو میرے دل میں الل ّٰ ہ کے سوا کوئی سوال نہیں تھا سو میں نے ا ُن‬
‫سے ال ل ّٰ ہ کے سوا کچھ طلب نہ کیا اور انہوں نے مجھے سیدھی راہ‬
‫دکھائی۔‬

‫مجھے معلوم ہے کہ جعلی پیروں کے ق ِ صّ وں سے اخبارات بھرے‬


‫پڑے ہیں لیکن بات یہ ہے کہ انسان جس چیز کی کوشش کرتا ہے وہی‬
‫حاصل کرتا ہے جن لوگوں کے ساتھ یہ سب ہوتا ہے‪ ,‬کیا وہ الل ّٰ ہ کی‬
‫طلب میں ج اتے ہیں۔؟ ہرگز نہیں۔ لوگ ال ل ّٰ ہ کے ولی سے یہی ا ُمید‬
‫کرتے ہیں کہ وہ ا ُن کی دنیا سنوار دے گا‪ ,‬اچھی نوکری‪ ,‬من پسند‬
‫بیوی‪ ,‬فرمابردار شوہر‪ ,‬ساس نندوں کا سلوک‪ ,‬وغیرہ وغیرہ‪ ,‬یہی‬
‫چاہیے ہوتا ہے لوگوں کو ال ل ّٰ ہ والوں سے‪ ,‬شاید الکھوں میں ایک دو‬
‫‪58‬‬
‫لوگ ہوں گے جو الل ّٰ ہ ک ی طلب میں الل ّٰ ہ والے کو تالش کرتے ہیں۔‬
‫طال بِ دنیا کو دنیا دار ہی ملتے ہیں۔ جب آپ میں سچی راہ کی طلب ہی‬
‫نہیں تو جھوٹے راہبر سے مالقات ہونے پے شکوہ کیسا۔؟ رہی بات ا ُن‬
‫کی گاڑی ا ُن کے گھر وغیرہ کی تو میں یہ کہوں گا کہ مریض کو‬
‫اپنے عالج سے غرض رکھنی چاہیے ڈاکٹ ر کی گاڑی ا ُس کا گھر دیکھ‬
‫کر ا ُس کی قابلیت کا اندازہ لگانے کی جگہ ا ُس کی دوا سے ملنے‬
‫والی شفا سے ا ُس کی قابلیت کا اندازہ کرنا چاہیے۔ ہم اکثر دیکھتے‬
‫ہیں کہ بڑے بڑے ہوٹلوں کو‪ ,‬بڑی بڑی دکانوں کو خوب سجایا جاتا‬
‫ہے۔ ا ِس سجاوٹ سے کیا ہوتا ہے کبھی ا ِس بات کو سوچا ہے۔؟ ا ُس‬
‫کے دوست نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں ا ُس کی جانب دیکھا‬
‫تو ا ُس نے کہا " ا ِس سجاوٹ کو دیکھ کر لوگوں کو اپنی جیب اور دکان‬
‫یا ہوٹل کی مہنگائی کے بیچ کا فرق سمجھ میں آتا ہے۔ جو شخص کچھ‬
‫خریدنے کی حیثیت رکھتا ہے وہی دکان میں داخل ہوتا ہے باقی لوگ‬
‫دور سے دیکھ کر ہی بھاگ جاتے ہیں۔" ا ُس کے دوست نے ا ُس کی‬
‫بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ہاں یہ تو مجھے بھی پتا ہے لیکن ا ِس بات کا‬
‫پیروں‪ ,‬فقیروں سے کیا تعلق ہے۔؟" ا ُس نے کہا "دنیا دار الل ّٰ ہ والوں‬
‫سے پردہ کرتے ہیں اور الل ّٰ ہ والے دنیا داروں کی نظر سے پوشیدہ‬
‫رہتے ہیں‪ ,‬جب کو ئی بدمعاش یا کوئی سیاست دان لوگوں کا خون چوس‬
‫کر اکھٹی کی ہوئی دولت پر عیش کر رہا ہوتا ہے تو لوگ حیران نہیں‬
‫ہوتے‪ ,‬اگر سیاست دان بڑی گاڑی میں گھوم رہا ہے تو کہا جاتا ہے کہ‬
‫سیاست دان ہونے کی وجہ سے وہ ا ِس ٹھاٹ کے الئق ہے‪ ,‬لیکن کوئی‬
‫ولی‪ ,‬بزرگ‪ ,‬اگر ٹھاٹ سے رہ ر ہا ہو تو لوگ ا ُس پے ا ُنگلی ا ُٹھانے‬
‫میں دیر نہیں کرتے۔ کیا کوئی دنیاوی چیز ال ل ّٰ ہ والے کے شایا ِن شان‬
‫ہو سکتی ہے۔؟ ہرگز نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ بہت سے سلسلوں کے‬
‫گدی نشین اپنے بزرگوں کے نام پے عیش کر رہے ہیں‪ ,‬ا ُن کے‬
‫چ کے ہیں اور وہ اپنے خا ندانی ُم ریدین کی‬ ‫سلسلے فیض سے خالی ہو ُ‬
‫عقیدت کے سہارے صرف اپنا خاندانی وقار برقرار رکھے ہوئے ہیں‬
‫لیکن ا ِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر سلسلے کا یہی حال ہے۔ ال ل ّٰ ہ‬
‫والوں کے دم سے ہی ا ِس دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ کیا خیال ہے تمھارا‬
‫کہ ہم اتنے سارے گناہگاروں سے بھری دنیا ایسے ہی چل رہی ہے۔؟‬
‫اگر تمام لوگ گناہگار ہی ہیں تو پھر تو وقت کی کتاب میں درج ہو گا‬
‫‪59‬‬
‫کہ باطل غالب آ گیا اور حق مغلوب ہو گیا‪ ,‬لیکن حق تو کبھی مغلوب‬
‫نہیں ہوتا‪ ,‬حق تو ہمیشہ غالب رہتا ہے‪ ,‬ہم اپنے ارد گرد کی دنیا‬
‫دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ آج دنیا میں حق ہے ہی کہاں۔؟ تو بات‬
‫یہ ہے کہ یہ زمین حق کے دم پر ہی ٹکی ہے‪ ,‬وقت میں نیکی‪ ,‬ہمیشہ‬
‫بدی سے افضل رہتی ہے اور ا ِس معیار کو برقرار رکھنے کے لیے‬
‫الل ّٰ ہ وقت میں ایسے لوگ ا ُتارتا ہے جن کی ایک پل کی سوچ کی‬
‫اچھائی بھی تمام لوگوں کے شب و روز کی ب ُ رائی پر بھاری ہوتی ہے۔‬
‫وقت میں گناہ اور گناہ گاروں کی تعداد جیسے جیسے بڑھتی جاتی ہے‬
‫ویسے ویسے ہی وقت میں نیکی اور نیکوکار بھی بلند سے بلند درجے‬
‫سے نازل ہونا شروع ہو جاتے ہیں‪ ,‬تاکہ وقت میں اچھائی اور ب ُ رائی‬
‫چ ے اولیاء اگر عام لوگوں پر ظاہر‬ ‫کا تناسب برقرار رہ سکے۔ ایسے س ّ‬
‫ہو جائیں تو لوگ ا ُن کے سامنے دنی ا کی ضد کر کر کے ا ُن کا جینا‬
‫مشکل کر دیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ لوگ نیک مقامات کا ُر خ‬
‫کرنے والوں کو کس طرح اپنی اپنی دعائیں لکھواتے ہیں۔؟ کسی ُم قدس‬
‫مقام کا ُر خ کرنے والے لوگ ہمی میں سے ایک ہوتے ہیں لیکن‬
‫کیونکہ وہ کسی اچھی جگہ جا رہے ہوتے ہیں ا ِس لیے لوگ اپنی اپنی‬
‫ُم راد پوری ہونے کی دعا کرنے کو کہتے ہیں اور بہت کم لوگ ہوتے‬
‫ہیں جو دنیا سے ہٹ کر کچھ طلب کرتے ہیں۔‬

‫سچے درویش‪ ,‬فقیر‪ ,‬ولی الل ّٰ ہ‪ ,‬دنیا و آخرت کے طالبوں سے دور ہی‬
‫چ ے درویش کو پہچان سکتے‬ ‫رہتے ہیں۔ صرف الل ّٰ ہ کے طالب ہی س ّ‬
‫ہیں۔ جو شخص دنیا کا طالب ہو وہ فقیر کی گاڑی‪ ,‬ا ُس کا ٹھاٹ دیکھ‬
‫کر بھاگ جاتے ہیں اور جو آخرت کے طالب ہوں وہ فقیر کی شریعت‬
‫سے گھبرا کر لوٹ جاتے ہیں‪ ,‬صرف وہ شخص فقیر کے ساتھ چل‬
‫سکتا ہے جو خالص الل ّٰ ہ کی طلب رکھتا ہو۔ مگر میں نے دیکھا کہ‬
‫سلطان محمد اصغر علی (رح) اتنے سخی بزرگ ہیں کے ہر شخ ص‬
‫خواہ وہ طالب دنیا ہی کیوں نہ ہو آپ (رح) ا ُسے اپنے سائے میں جگہ‬
‫دیتے ہیں اور ا ُسے طال بِ دنیا سے طالب موال بننے کا درس دیتے‬
‫ہیں۔" ا ُس کے دوست نے ا ُسے ہاتھ کے اشارے سے روکا اور کہا "یہ‬
‫دنیا دار والی بات تو ٹھیک ہے لیکن آخرت والی بات سمجھ نہیں آئی‪,‬‬
‫جو شخص اپ نی آخرت کی فکر کر رہا ہے ا ُس سے کیوں دور رہنا‬
‫‪60‬‬
‫فکر آخرت اور الل ّٰ ہ کی چاہت دو الگ الگ‬ ‫ِ‬ ‫چاہتے ہیں اولیاء‪ ..‬اور کیا‬
‫فکر‬
‫ِ‬ ‫چیزیں ہیں۔؟" ا ُس نے اپنے دوست کے سوال س ُ ن کر کہا "دیکھو‬
‫آخرت جنت حاصل کرنے یا دوزخ سے بچ جانے کی کوشش کا نام ہے‬
‫لیکن الل ّٰ ہ کا طالب‪ ,‬الل ّٰ ہ سے الل ّٰ ہ ہی کو مانگتا ہے۔ الل ّٰ ہ کا ق ُ رب و‬
‫دیدار ہی ا ُس کی جنت ہوتا ہے اور الل ّٰ ہ کے ق ُ رب و دیدار سے‬
‫محرومی ا ُس کے لیے مقا ِم دوزخ کے ُم ترادف ہے۔ دنیا سے بچ کے‬
‫چلنے کی کوشش کرنے والے بہت ہیں لیکن ا ُن میں الل ّٰ ہ کا طلبگار‬
‫کوئی کوئی ہی ہوتا ہے۔ اور الل ّٰ ہ والے کسی سے دور نہیں رہنا‬
‫چاہتے‪ ,‬وہ تو چاہتے ہیں کہ ذیادہ سے ذیادہ لوگوں تک حق پہنچ سکے‬
‫لیکن لوگوں کی اپنی خواہشات ا ُنہیں اولیاء الل ّٰ ہ کے ق ُ رب سے دور کر‬
‫دیتی ہیں۔ جو دنیا کا طالب ہو گا وہ ولی کی دنیا دیکھ کر ا ُس کی‬
‫کاملیت پہچانے کی کوشش کرے گا‪ ,‬جو آخرت کا طالب ہو گا وہ ولی‬
‫کے ظاہری اعمال کی کھوج میں لگا رہے گا‪ ,‬اور ا ُس کی شریعت کی‬
‫پیمائش کے ذریعے ولی کی کاملیت کا اندازہ کرنے کی کوشش کرے‬
‫گا‪ ,‬لیکن جو خالص الل ّٰ ہ کا طالب ہوتا ہے وہ ُم رشد کو اپنا آپ سونپ‬
‫کر‪ ,‬اپنے اندر پیدا ہونے والی تبدیلی سے ُم رشد کی کاملیت ک ی شناخت‬
‫کرتا ہے۔ الل ّٰ ہ والے کسی کو یہ نہیں کہتے کہ چلے جاؤ تم دنیا دار ہو۔‬
‫لوگ اپنی سوچ کے ذاویے سے یہ فیصلہ خود اپنے لیے طے کرتے‬
‫ہیں کہ انہوں نے ولی کا ساتھ دینا ہے یا نہیں۔ یہ الل ّٰ ہ کا بنایا نظام ہے‬
‫کہ جب لوگوں کی اکثریت گناہ پر آمادہ ہو جائے تو ا ُن پے جہالت چھا‬
‫جاتی ہے اور حق ا ُن کی نظر سے پوشیدہ ہو جاتا ہے۔ اولیاء کے گدی‬
‫نشینوں کے ٹھاٹ کسی بڑے ہسپتال کی آرائش کی طرح ہیں جو ا ُن کی‬
‫طرف آنے والے لوگوں کو ف ِ لٹر کرتی رہتی ہے تاکہ جو سچ میں بیمار‬
‫ہے اور شفا حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کی فیس ادا کرنے کو تیار‬
‫ہے وہی مریض ہسپتال میں داخل ہو۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ سچا‬
‫ُم رید‪ ,‬جھوٹے ُم رشد سے بھی کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتا ہے مگر‬
‫چ ے ُم رشد سے بھی ک ُ چھ نہیں سیکھ پاتا۔‬ ‫جھوٹا ُم رید‪ ,‬س ّ‬

‫‪61‬‬
‫''باب۔ ‪'' 10‬‬
‫وہ خاموش ہوا تو ا ُس کے دوست نے کہا "اچھا چلو مان لیا کہ تم جو‬
‫کچھ کہہ رہے ہو وہ صحیح ہے لیکن اولیاء کے درباروں پر جو شرک‬
‫ہوتا ہے ا ُس کے بارے میں کیا کہو گے تم۔؟ یہ جو لوگ جا کے اولیاء‬
‫کے مزاروں پے سجدے کرتے ہیں یا ُم رشد کے ہاتھ‪ ,‬پاؤں چومنے‬
‫کے بارے میں کیا رائے ہے تمھاری۔؟" ا ُس نے اپنے دوست کے سوال‬
‫پر ایک لمبی سی آہ بھرتے ہوئے کہا "میں اسی سوال کے انتظار میں‬
‫تھا‪ ,‬خیر سجدہ صرف الل ّٰ ہ کی ذات کو کیا جاتا ہے‪ ,‬سجدے کی بنیاد‬
‫سجدہ کرنے والے کی نیت پر ہے اگر وہ سجدے کی نیت رکھتا ہے تو‬
‫ج ھکنا سجدہ کہالئے گا لیکن اگر وہ سجدے کی نیت‬ ‫کسی بھی جگہ ُ‬
‫ج ھکنا سجدہ نہیں کہالئے گا۔ دوسرا یہ‬ ‫نہیں رکھتا تو کسی بھی جگہ ُ‬
‫کہ سجدہ سامنے موجود چیز کو نہیں بلکہ دل میں موجود ذات کو ہوتا‬
‫ج ھکانے سے سجدہ نہیں ہو جاتا‪ ,‬جو‬ ‫ہے۔ کسی مزار پے جا کے سر ُ‬
‫والدین انسان کو ا ِس دنیا میں لے کر آتے ہیں ا ُن کی زندگی میں‪ ,‬ا ُن‬
‫کی تعظیم میں‪ ,‬ا ُن کے ہاتھ پاؤں چومنا یا اپنی اوالد کو محب ت سے‬
‫بوسہ دینا سمجھ میں آتا ہے‪ ,‬ا ُن کے مر جانے پر ا ُن کی قبر سے لپٹ‬
‫کر رونا یا ا ُسے چومنا بھی سمجھ آتا ہے‪ ,‬لیکن الل ّٰ ہ کی محبت میں الل ّٰ ہ‬
‫کی راہ دکھانے والے کے ہاتھ‪ ,‬پیر چومنا لوگوں کو شرک محسوس‬
‫ہوتا ہے۔ والدین یا اوالد کے ساتھ محبت کا رشتہ اپنے لیے ہوتا ہ ے‬
‫ا ِس لیے ا ُنہیں بوسہ دینے میں شرک نہیں ہوتا لیکن ُم رشد کیونکہ ال ل ّٰ ہ‬
‫سے مالنے واال ہے اور ا ُس سے محبت بھی ال ل ّٰ ہ کی خاطر کی جا رہی‬
‫ہے تو وہی عمل یہاں آ کر شرک بن جاتا ہے۔؟ عام طور پے شرک الل ّٰ ہ‬
‫کی ذات یا صفات کو کسی اور سے مالنے کو کہا جاتا ہے۔ وہ عمل‬
‫جس کے الئق صرف الل ّٰ ہ کی ذات ہے وہی خیال یا وہی مقام کسی اور‬
‫کو دینا شرک کہالتا ہے۔ لیکن ا ِس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ کون‬
‫شرک کر رہا ہے اور کون نہیں۔؟ اور یہ کہ شرک صرف عبادت میں‬
‫ہوتا ہے یا زندگی کے باقی اعمال بھی شرک بن سکتے ہیں۔؟ ہم‬
‫دوسرے مذاہب کے لوگوں ک و مشرک کہتے ہیں کہ وہ الل ّٰ ہ کے سوا‬
‫اور کسی اور کی عبادت کرتے ہیں لیکن اپنا شرک ہمیں دکھائی نہیں‬
‫‪62‬‬
‫دیتا۔ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو ہم مال پے‪ ,‬دوستی پے اور دنیاوی‬
‫پہنچ پے بھروسا کرتے ہیں‪ ,‬جب کوئی تکلیف آتی ہے تو ڈاکٹر اور‬
‫دوا پے بھروسا کرتے ہیں‪ ,‬مرد و عورت ایک دوسرے کی محبت میں‬
‫اس قدر ڈوب جاتے ہیں کہ اگر وہ نہ مل سکے تو اپنی پوری زندگی‬
‫ا ُس کے غم میں گ ُ زار دیتے ہیں یا پھر زندگی ہی ختم کر لینے کا‬
‫سوچتے رہتے ہیں۔ ہم محبت میں‪ ,‬بھروسے میں‪ ,‬اعتماد کرنے اور‬
‫ا ُمید رکھنے میں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو الل ّٰ ہ سے ذیادہ اہمیت‬
‫دیتے ہیں۔ کیا یہ شرک نہیں ہے۔؟ ایک عورت یا مرد کی نارسائی کے‬
‫غم کو عمر بھر دل سے لگا کر جیتے رہیں گے لیکن ا ِس نارسائی کو‬
‫الل ّٰ ہ کی رضا مانتے ہوئے خوشی خوشی زندگی گ ُ زارنے کی کوشش‬
‫نہیں کریں گے۔ اصل شرک تو یہ ہوا کہ الل ّٰ ہ سے ذیادہ کوئی شخص‬
‫آپ کی زندگی میں ض روری ہے۔کسی کے دل میں کس کے لیے کتنی‬
‫محبت ہے یہ یا تو وہ خود جانتا ہے یا پھر الل ّٰ ہ ۔ بہت سی ایسی چیزیں‬
‫ہیں جو عام طور پر ممنوع ہیں لیکن کسی خاص حال میں ا ُن کی نہ‬
‫صرف اجازت دی گئی بلکہ الل ّٰ ہ نے ا ُسے پسند بھی فرمایا۔ جیسے‬
‫اپنے آپ کو اذیت دینا منع ہے لیکن ج ب حضرت اویس قرنی رض نے‬
‫رسول الل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کے دندان مبارک کا س ُ ن کر اپنے‬
‫سارے دانت مبارک توڑ ڈالے تو الل ّٰ ہ اور الل ّٰ ہ کے رسول صلی الل ّٰ ہ‬
‫علیہ و آلہ وسلم نے ا ُن کی محبت کو پسند فرمایا۔ صحابہ کرام رسول‬
‫الل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے اتنی محبت رکھتے تھے کہ ا ُن کے‬
‫وضو کا پانی زمین پے گرنے نہ دیتے بلکہ ا ُس پانی کو پی لیا کرتے‬
‫تھے‪ ,‬آپ کے ناخن مبارک یا بال مبارک بھی سنبھال کے رکھ لیا‬
‫کرتے تھے۔ آخر کیوں وہ اتنی محبت کرتے تھے رسول ال ل ّٰ ہ صلی ال ل ّٰ ہ‬
‫علیہ و آلہ وسلم سے۔؟ یقینا ً ا ِس کی وجہ یہ تھی کہ رسول الل ّٰ ہ صلی‬
‫الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم وہ ہستی ہیں جنہوں نے صحابہ کو الل ّٰ ہ کی پہچان‬
‫عطا کی اور انہیں طال بِ موال بنایا۔ صحابہ کرام نے کون سی حدیثوں‬
‫کی کتابیں پڑھی تھیں جو ا ُن کے دل ک ُ ھل گئے تھے۔؟ کیا یہ سب‬
‫ت رسول کا اثر نہیں تھا۔ بیشک رسو ِل خدا کی صحبت میں‬ ‫صحب ِ‬
‫بیٹھنے سے ا ُن کے دل ک ُ شادہ ہوئے اور ا ُنہوں نے الل ّٰ ہ کی راہ پائی۔‬
‫اور الل ّٰ ہ والوں کے ق ُ رب سے ہی الل ّٰ ہ کی راہ ملتی ہے۔‬

‫‪63‬‬
‫جو شخص الل ّٰ ہ کی راہ سکھائے ا ُس انسان سے سیکھنے والوں کو خود‬
‫بہ خود والہانہ محبت ہو جاتی ہے۔ ایک شخص اپنے سکھانے والے‬
‫سے س یکھ کر الل ّ ہ کی محبت میں جتنا ڈوبے گا اتنی ہی محبت ا ُسے‬
‫اپنے سکھانے والے سے ہوتی جائے گی‪ ,‬ا ِسی لیے لوگ الل ّٰ ہ کی راہ‬
‫سکھانے والوں کا ق ُ رب کھوجتے ہیں تاکہ لوگ الل ّٰ ہ کے قریب ہو‬
‫سکیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ الل ّٰ ہ والوں کے جتنا زیادہ قریب‬
‫ہوتے جائیں گے ا ُت نا ہی وہ الل ّٰ ہ کے قریب ہو جائیں گے۔ اگر کوئی‬
‫شخص قسمت سے کسی مومن صفت انسان سے ملتا ہے اور ا ُس سے‬
‫الل ّٰ ہ کے ق ُ رب کی راہ حاصل کرتا ہے تو وہ ا ُس کے ہاتھ‪ ,‬پاؤں کیا‪,‬‬
‫ا ُس کی جوتیوں تلوے بھی مل جائیں تو وہ ا ُسے بھی عقیدت سے‬
‫چومے گا۔ اپنی محبت تو سب کو سمجھ آتی ہے لیکن دوسرے کی‬
‫محبت۔؟" ا ُس نے طویل تقریر کرتے کرتے ایک پل ُر ک کر کہا۔‬
‫"دوسرے شخص کی محبت سمجھنا آپ کا کام نہیں ہے‪ ,‬اور نا ہی‬
‫دوسرے کی محبت آپ کی سمجھ میں آئے گی کیونکہ محبت سمجھنے‬
‫کی چیز نہیں ہے۔ افسوس کہ ہم سب اپنی اپنی محبت میں ڈوبنے کی‬
‫جگہ دوسرے کی مح بت پے تنقید کرنے میں محو رہتے ہیں۔ الل ّٰ ہ اگر‬
‫انسان کے دل میں ہے تو ا ُس کا سجدہ کسی ب ُ ت کے سامنے بھی مقبول‬
‫ہے اور اگر الل ّٰ ہ دل میں نہیں ہے تو کعبے میں بھی سجدہ بے س ُ ود‬
‫ہے۔ مومن کے دل کو الل ّٰ ہ نے اپنا عرش کہا ہے اور فرمایا کہ نہیں‬
‫سماتا میں زمین و آسمان م یں اور سماتا ہوں اپنے مومن بندے کے دل‬
‫میں۔ اگر کسی کو کوئی مومن بندہ مل جائے تو ا ُس پے ا ُس مومن کی‬
‫تعظیم واجب ہو گی کہ نہیں۔؟ چلو تعظیم کے حوالے سے ایک اور‬
‫موسیٌ کو ایک جھاڑی میں سے آواز دی اور‬ ‫ٰ‬ ‫بات کہتا ہوں کہ الل ّٰ ہ نے‬
‫موسیٌ نے ا ُس جگہ‬‫ٰ‬ ‫موسی میں تیرا رب ہوں" تو ح ضرت‬ ‫ٰ‬ ‫کہا "اے‬
‫اپنے رب کو سجدہ کیا۔ اب سوچو کہ ا ُس جھاڑی پے الل ّٰ ہ نے ایک‬
‫تجل ّ ی فرمائی تھی تو الل ّٰ ہ کے نبی نے وہاں سجدہ کیا تھا‪ ,‬جب الل ّٰ ہ کی‬
‫ذات کی ایک تجلی ہونے کی وجہ سے ایک جھاڑی کو یہ مقام حاصل‬
‫ہے کہ الل ّٰ ہ کا نبی ا ُس کے سامنے سجدہ کرے تو سوچو کہ جس شخص‬
‫کے دل کو الل ّٰ ہ نے اپنا عرش کہا ہو ا ُس مومن بندے کو کیا مقام‬
‫حاصل ہو گا اور ا ُس کی ظاہری زندگی میں اور وفات کے بعد ا ُس کی‬
‫‪64‬‬
‫کس قدر تعظیم کرنا لوگوں پے فرض ہو گا‪ ,‬کیا کوئی سوچ سکتا‬
‫ہے۔؟" ا ُس نے اپنے دوست کی جانب دیکھتے ہوئے اپنی طرف سے‬
‫شاید اولیاء کے ادب میں واضح ترین دلیل پیش کی اور خاموش ہو گیا۔‬
‫ا ُس کے دوست نے کہا " ا ِس کا مطلب تم اولیاء کے مزاروں پے سجدہ‬
‫کرنے کے حق میں ہو۔؟" ا ُس نے کہا "میں صرف ا ِس بات کے حق‬
‫میں ہوں کہ کسی کی عبادت‪ ,‬عقیدت یا عقیدے کی وجہ سے ا ُس کو‬
‫کافر‪ ,‬مشرک یا کچھ اور کہنے کی ِر ی ت ختم کی جائے‪ ,‬میں صرف ا ِس‬
‫بات کے حق میں ہوں کے ہم سب مل کے اپنے اندر کی تقسیم کو ختم‬
‫کریں‪ ,‬میں نہیں کہتا کہ سب لوگوں کو اولیاء کے درباروں پے ماتھا‬
‫ٹیکنا شروع کر دیں میں صرف یہ کہتا ہوں کہ کسی کے عقیدے کی‬
‫وجہ سے اپنے اندر ا ُس کے لیے بدگمانی پیدا مت کیجیے‪ ,‬جن چیزوں‬
‫پے الل ّٰ ہ فیصل ہے ا ُن چیزوں کا فیصلہ الل ّٰ ہ ہی کو کرنے دیجیئے۔‬
‫کسی شخص کے لیے دل میں نفرت رکھ کر‪ ,‬کسی کے بارے میں ب ُ را‬
‫سوچ کر ہم صرف اپنا وقت برباد کرتے ہیں‪ ,‬اگر کوئی اتنا ہی ب ُ را ہے‬
‫تو ا ُس کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔؟ وہی وقت کچھ اچھا‬
‫سوچنے م یں صرف کیجیئے۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ "اپنی سوچ‬
‫کو پانی کے قطروں کی طرح شفاف رکھو کیونکہ سوچ سے ایمان بنتا‬
‫ہے۔" لوگوں میں ایک دوسرے کے لیے مذہب و مسلک کے نام پر‪,‬‬
‫رنگ و نسل یا ُم لک و قوم وغیرہ کے نام پر‪ ,‬نفرت پیدا کرنا شیطان‬
‫اور ا ُس کے چیلوں کا کام ہے‪ ,‬اسی ذریعے سے وہ لوگوں کی سوچ کو‬
‫ایک دوسرے کے لیے آلودہ کر کے ا ُن کا ایمان کمزور کرتا ہے۔ "‬

‫ا ُس دن اپنے دوست کو سمجھاتے ہوئے ا ُسے خود بہت ساری باتیں‬


‫سمجھ آ گئی تھیں۔ ملنے والے ہر شخص نے ا ُس سے اپنی اپنی سمجھ‬
‫کی بات کہی اور ا ُس نے اپنی سمجھ شیئر کرنے میں کبھی ک نجوسی‬
‫نہیں کی۔ جس کا جہاں تک دل مانا ا ُس نے وہاں تک ا ُس کی بات‬
‫مانی‪ ,‬کوئی ساتھ چال اور کوئی دور ہوا لیکن ا ُس نے کبھی آنے جانے‬
‫والوں کی ذیادہ پرواہ نہیں کی کیونکہ وہ اکیال چال تھا اور ابھی تک‬
‫ا ُس میں اکیلے چ لنے کا حوصلہ باقی تھا‪ ,‬اور ا ُس کا سفر ابھی جاری‬
‫تھ ا۔‬

‫‪65‬‬
‫''باب۔ ‪'' 10‬‬
‫وہ اپنی تنخواہ سے پیسے بچا بچا کر دوسرے تیسرے مہینے اپنے‬
‫لیے س ُ وٹ سلوایا کرتا اور تقریبا ً ہر وقت ہی س ُ وٹ پہنا کرتا اکثر‬
‫دوست مزاق میں پوچھتے "یار تو سوتا بھی کوٹ پینٹ میں ہے۔؟"‬
‫ا ُسے بارشوں میں بھیگنے کا بہت شوق تھا۔ وہ اکثر برستی بارش میں‬
‫ہ اتھ کھولے آسمان کو دیکھا کرتا اور ا ُس ذات کو‪ ,‬جو ہر جگہ موجود‬
‫ہے‪ ,‬محسوس کرنے کی کوشش کرتا۔ ا ُسے بالوں کے الگ الگ انداز‬
‫ح لیے اور باتوں کے‬ ‫بنانے کا بھی شوق تھا۔ بہت سے لوگ ا ُس کے ُ‬
‫بیچ کنفیوز ہو جاتے تھے۔اچھی شکل و صورت کے ساتھ الل ّٰ ہ نے ا ُسے‬
‫اچھی آواز اور ان داز بھی دیا تھا۔ لوگ اکثر ا ُس کی شخصیت سے‬
‫مرعوب ہو جایا کرتے تھے۔ کسی قریبی دوست نے کہا "یار الل ّٰ ہ‬
‫رسول کی بات تو ت ُو بہت زبردست کرتا ہے لیکن یہ سب باتیں تیرے‬
‫سراپے سے میل نہیں کھاتیں۔ یا تو لباس بدل لے یا باتیں بدل لے" تو‬
‫ا ُس نے کہا "فی الحال تو میرا ان دونوں میں سے کچھ بھی بدلنے کا‬
‫ارادہ نہیں ہے ویسے کچھ بدلنے کی کیا ضرورت ہے۔؟ الل ّٰ ہ کا نام‬
‫ح لیے کو اپنانے کی ضرورت پڑتی ہے‬ ‫لینے کے لیے کسی خاص ُ‬
‫ح لیہ ا ِسی بات کی دلیل ہے کہ الل ّٰ ہ کا نام کسی بھی‬
‫کیا۔؟ ویسے میرا ُ‬
‫روپ میں رہ کر لیا جا سکتا ہے۔" لوگ ا ُس کے پا س بیٹھنا ا ُس کی‬
‫بات س ُ ننا پسند کرتے تھے۔ الگ الگ مسلک کے لوگ بلکہ اکثر غیر‬
‫مسلم بھی ا ُس کے پاس بیٹھنا اور ا ُس کی بات س ُ ننا پسند کرتے تھے‬
‫کیونکہ وہ کسی مسلک یا مذہب کی نہیں بلکہ ایک ال ل ّٰ ہ کی بات کرتا‬
‫تھا‪ ,‬لوگوں کو مایوسی سے بچانے والی اور ال ل ّٰ ہ کی ذات سے امید پیدا‬
‫کرنے والی بات کرتا تھا۔ ُُ اس کا اپنے ُم رشد سے تعلق زیادہ تر دل‬
‫زبانی ہی رہا۔ وہ رات بھر کا سفر کر کے صبح س ُ لطان محمد اصغر‬
‫علی (رح) کے پاس پہنچتا اور اکثر ا ُنہیں ایک نظر دیکھ کر ہی واپس‬
‫چال جاتا تھا‪ ,‬جب بھی راستے میں ہوتا تو سوچتا کہ آج جا کے ُم رشد‬
‫پاک سے کیا کیا کہوں گا لیکن جب ا ُن کے سامنے جاتا تو ذبان ہی نہ‬
‫ہلتی۔ سو وہ دل کی زبانی جو کہہ سکتا ہوتا کہہ جاتا اور اکثر تو ا ُن‬
‫کے سامنے ا ُس کے دل کی ذبان بھی بند ہو جاتی تھی۔ ایک دفعہ جب‬

‫‪66‬‬
‫وہ اپنے دوست کو بیعت کروانے کے لیے لے کے گیا تو ا ُس کے‬
‫کالے کپڑوں‪ ,‬کلین شیو چہرے اور ننگے سر کے باعث ایک دو لوگوں‬
‫نے ا ُسے کچھ سخت باتیں کہیں جس کے باعث وہ د ُکھی دل لیے ُم رشد‬
‫پاک کے سامنے پہنچا تو آپ (رح) نے سیاہ رنگ کی سندھی ٹوپی‬
‫پہنی ہوئی تھی آپ (رح) نے ا ُس کی جانب دیکھتے ہوئے اپنے سر‬
‫سے ٹوپی ا ُتارتے ہوئے فرمایا "ٹوپی ن ال کی ہوندا اے جی‪ ,‬اے ویکھو‬
‫ا َسی اتار دتی ٹوپی‪ ,‬تے ٹوپی ا ُتارن نال ا ِسی گھٹ گئے آں کیا۔؟ الل ّٰ ہ‬
‫دل ویکھدا ہے جی" (ٹوپی سے کیا ہوتا ہے جی‪ ,‬دیکھو ہم نے ا ُتار دی‬
‫ٹوپی تو کیا ہم کم ہو گئے ہیں۔؟ الل ّٰ ہ دل دیکھتا ہے جی) ا ُسے ُم رشد‬
‫سے بس ایک نظر کی طلب رہتی تھی‪ ,‬وہ اکثر دور کھڑا دل کی زبانی‬
‫بس اپنے ُم رشد پاک سے ایک نظر کا سوال کر رہا ہوتا تھا "بس ایک‬
‫نظر‪ ,‬پلیز ایک نظر دیکھ لیجیے مجھے" اور جب وہ ا ُس کی جانب‬
‫ج ھک جاتی‪ ,‬وہ ا ُن کی نظر کو اپنی روح میں‬ ‫دیکھتے تو ا ُس کی نظر ُ‬
‫ا ُترتا محسوس کرتا‪ ,‬ا ُس نظر کی سرشاری الفاظ میں نہیں بیان کی جا‬
‫سکتی‪ ,‬ا ُس ایک نظر میں ا ُسے کیا ملتا تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا‬
‫تھا۔‬

‫ایک بار ا ُسے ایک ‪ Insurance Company‬میں کام کرنے کا موقع‬


‫ِم ال۔ ا ُس کے ساتھ قریب ‪ 74‬لوگ اور نئے بھرتی ہوئے تھے۔ شروع‬
‫کے تین دن ا ُن کی ‪ Training‬کے لیے تھے جس میں انہیں‬
‫‪ insurance policies‬کے بارے میں معلومات دینے کے ساتھ ساتھ‬
‫لوگوں کے سواالت کے جوابات دینا بھی سکھائے گئے۔ ‪Class‬‬
‫‪ Instructor‬نے انہیں بتایا کہ جب ا ِس ‪ Insurance Company‬نے‬
‫پاکستان میں اپنا ‪ Business‬شروع کرنے کا ارادہ کیا تو ‪Market‬‬
‫‪ Analysis‬کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ا ِس ُم لک میں‬
‫‪ insurance‬کو ایک غیر اسالمی چیز سمجھا جاتا ہے اس لیے ایسے‬
‫‪ Clients‬کو جو ‪ religious‬ہوں ‪ insurance‬لینے پے آمادہ کرنے‬
‫کے لیئے ا ُن سب سے کہا گیا کہ مذہبی قسم کے ‪ clients‬کو بتائیں کہ‬
‫ہم اپنا سارا پیسہ ‪ shares‬میں ‪ invest‬کرتے ہیں ا ِس لیے ہماری‬
‫‪ company‬کی ‪ insurance policies‬س ُ ود سے بلکل پاک ہیں اور‬
‫ساتھ ہی سعودی عرب کے کسی عال ِم دین کے فتوے کی‬
‫‪67‬‬
‫‪ photocopies‬بھی دی گئیں جس میں س ُ ود سے پاک ‪insurance‬‬
‫‪ policies‬کو حالل قرار دیا گیا تھا۔ وہ ‪ class‬ختم ہونے کے بعد بھی‬
‫یہی سوچتا رہا کہ ہم لوگ چیزوں کو کس قدر گڈ مڈ کر لیتے ہیں۔ جگہ‬
‫جگہ دین کے ٹھیکے دار بیٹھیں جو ہماری سوچ پے روک لگانے کے‬
‫لیے کسی بھی حد سے گزر جانے کو تیار رہتے ہیں۔ خود کو عال ِم دین‬
‫کہنے والے اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ خود کے پاس چار چار‬
‫‪ insurance policies‬ہوں گی‪ ,‬چھ‪ ,‬چھ ‪Bank‬‬
‫‪ Accounts‬ہوں گے لیک ن عام لوگوں کو یہی درس دیں گے کہ خبردار‬
‫س ُ ود حرام ہے‬
‫‪ Bank Accounts, Insurance Policies‬سب س ُ ود پر مبنی ہے یہاں‬
‫اپنا مال مت رکھنا ورنہ برباد ہو جاؤ گے۔ وہ ُم لک جس کے ذ ّم ے اتنا‬
‫س ُ ود واجب االدا ہے کہ ا ُس میں ہر شخص ‪ world bank‬کا مقروض‬
‫پیدا ہو رہا ہے ا ُس ُم لک میں لوگوں کو ا ِس بحث میں ا ُلجھے دیکھ کے‬
‫حیرت ہوئی کہ کس کام میں س ُ ود ہے اور کس میں نہیں۔ جو قوم پیدا‬
‫ہی س ُ ود ذدہ معاشرے میں ہو رہی ہو ا ُس کے تو ہر کام میں س ُ ود ہو گا۔‬
‫اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ الل ّٰ ہ نے کیوں ہمیں ایسے معاشرے میں‬
‫پیدا کیا جس کی بنیاد س ُ ود پ ے رکھی گئی تھی۔؟ یا تو ا ِس کی وجہ یہ‬
‫تھی کہ وہ ہم سے ناراض تھا ا ِس لیے ا ُس نے ہمیں گناہگاری میں پیدا‬
‫کر کے گناہگار ہی مارنا چاہا لیکن یہ بات رحمت کے ُم نافی ہے‪ ,‬الل ّٰ ہ‬
‫رحیم ہے‪ ,‬وہ کسی پے ظلم نہیں کرتا۔ تو ا ُس کی رحمت کی جانب‬
‫دیکھیں تو پھر یقینا ً کوئی ایسی ب ات ضرور ہو گی جس کی وجہ سے‬
‫ہمیں یہ س ُ ود کا بوجھ ال ل ّٰ ہ کی جانب سے معاف کر دیا جائے گا۔ کیا‬
‫عجیب دنیا ہے کہ میری پیدائش سے پہلے ہی میرے ذ ّم ے اتنے گناہ‬
‫ہیں جو میری بربادی کے لیے کافی ہیں۔ انہی سوچوں میں غلطاں وہ‬
‫ایک بڑی مارکیٹ کے پاس پہنچ گیا‪ ,‬ارادہ تھا کہ بڑی دکانوں کے‬
‫مالکان سے ‪ insurance policy‬خریدنے کے لیے کہوں گا لیکن دل‬
‫نے اجازت نہیں دی اور وہ کسی سے بات کرنے کی کوشش کیے بغیر‬
‫ہی گھر واپس چال گیا۔ اگال دن بھی ایسا ہی گ ُ زرا کہ کسی سے بھی‬
‫بات نہ ہو سکی۔ پھر ا ُس سے اگلے روز ‪ Office‬سے نکلتے ہوئے‬
‫اپنے ایک ا ور ساتھی سے بات ہوئی تو ا ُس نے بتایا کہ ا ُسے کسی‬
‫‪ Traveling Agency‬کے مالک نے ب ُ الیا تھا ‪insurance policy‬‬
‫‪68‬‬
‫کے بارے میں معلومات لینے کے لیے۔ ا ُس نے کہا میں بھی تمھارے‬
‫ساتھ چلتا ہوں ۔ ‪ Traveling Agency‬پہنچ کر انہیں انتظار گاہ کی‬
‫راہ دکھا دی گئی۔ وہ جہاں بیٹھے تھے ا ُس سے کچھ فاصلے پر ہی‬
‫‪ Travel Agents‬کی ‪ desks‬تھیں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گ ُ زری تھی کہ‬
‫ایک موالنا صاحب اندر آئے جن کے ساتھ انہی کے حلیے والے چار‬
‫لوگ اور تھے اور ا ُن چاروں کے موئدبانہ انداذ سے صاف ظاہر ہو‬
‫رہا تھا کہ موالنا صاحب ا ُن چاروں کے لیے نہایت محترم ہیں۔ موالنا‬
‫صاحب ایک ‪ Travel agent‬کے سامنے والی کرسی پے براجمان ہو‬
‫گئے آس پاس اور ک ُ رسیاں بھی تھیں لیکن ا ُن کے ساتھ آئے لوگوں نے‬
‫بیٹھنے کی کوشش نہیں کی۔ ‪ Travel agent‬جس عقیدت سے موالنا‬
‫صاحب سے پیش آ رہا تھا ا ُس سے بھی یہ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ‬
‫موالنا صاحب اس ‪ Traveling Agency‬کو اچھا ‪ Business‬دیتے‬
‫ہوں گے۔‬
‫موالنا صاحب کو دیکھ کر ا ُسے نا جانے کیا سوجھی کہ ا ُس نے اپنے‬
‫ساتھی سے کہا "یاد ہے ہم نے کالس میں ‪ insurance‬کے ‪ Islamic‬یا‬
‫‪ non-Islamic‬ہونے کے بارے میں پڑھا تھا؟ ا ُس نے کہا "ہاں یاد‬
‫ہے۔ تم کیا کہتے ہو ‪ Islamic‬یا ‪ non-Islamic‬۔؟" "میرے خیال میں‬
‫اسالم ہمیں اپنا ‪ future plan‬کرنے سے نہیں روکتا لیکن میں یہ بات‬
‫ا ِن موالنا صاحب سے کرنا چاہ ر ہا ہوں۔" ا ُس کے ساتھی نے ا ُسے‬
‫ایسے دیکھا جیسے ا ُس کی دماغی حالت پر شک ہو رہا ہو۔ اور کہا‬
‫"بھائی میرا مار کھانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ تمھارا دل چاہ رہا ہے‬
‫تو جاؤ میں گھر جا رہا ہوں۔ ویسے وہ موالنا صاحب تم سے بات ہی‬
‫نہیں کریں گے تو تم ا ُن کو بات سمجھاؤ گے ک یسے۔ ؟" ا ُس نے کہا‬
‫"تم بس یہاں بیٹھ کے دیکھو‪ ,‬موالنا صاحب خود مجھ سے بات کریں‬
‫گے"۔ اتنا کہہ کر وہ اپنی جگہ سے ا ُٹھا اور جا کے موالنا صاحب کے‬
‫ساتھ والی کرسی پے بیٹھ کر ‪ travel agent‬کو مخاطب کیا "اسالم و‬
‫علیکم بھائی‪ ,‬اگر آپ ب ُ را نہ منائیں تو کچھ دیر بات کر سک تا ہوں آپ‬
‫سے۔؟ اصل میں آپ کے ‪ Boss‬نے ہمیں ‪ insurance policy‬کے لیے‬
‫بالیا تھا لیکن مجھے لگتا ہے کہ ا ُن کا ہم سے ملنے کا کوئی ارادہ‬
‫نہیں ہے۔ تو میں نے سوچا کہ یہاں آیا ہوں تو آپ سے آپ کے کام کے‬
‫بارے میں پوچھ لوں کہ کتنے کتنے پیسوں میں آپ مجھے کہاں کہاں‬
‫‪69‬‬
‫بھیج سک تے ہیں؟ ‪ travel agent‬نے مسکرا کر کہا "کہاں جانا چاہتے‬
‫ہیں آپ؟" (ا ُس کے کرسی پر بیٹھنے سے لے کر اب تک موالنا‬
‫صاحب کی پوری توجہ ا ُسی پر تھی) ا ُس نے کہا "میں پاکستان سے‬
‫باہر کہیں بھی نہیں چاہتا‪ ,‬بس ایسے ہی آپ کی ‪ job‬جاننا چاہ رہا تھا‪,‬‬
‫اصل میں ہر ‪ job‬کی کچھ م جبوریاں ہوتی ہیں۔ جس طرح میری ‪job‬‬
‫کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں‬
‫کہ ‪ insurance‬ایک ‪ non-Islamic‬چیز ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔" یہ‬
‫الفاظ ابھی ا ُس کے منہ سے نکلے ہی تھے کہ موالنا صاحب نے‬
‫گرجدار آواز میں کہا "آپ کس طرح ثابت کریں گے کہ ‪insurance‬‬
‫ایک اسالمی چیز ہے؟ آپ کوئی ُم فتی ہیں‪ ,‬کوئی عالم ہیں‪ ,‬کس حیثیت‬
‫سے آپ یہ فیصلہ صادر کریں گے کہ ‪ insurance‬حالل چیز ہے۔" ا ُس‬
‫نے کہا "میں جو کہنا چاہتا ہوں ا ُس کے لیے میری اتنی حیثیت ہی‬
‫کافی ہے کہ میں بھی الل ّٰ ہ کی تخلیق کا ایک چھوٹا سا ح صّ ہ ہوں۔ الل ّٰ ہ‬
‫نے دین کی سمجھ ہر انسان کے دل میں رکھی ہے تو یہ سمجھ کسی‬
‫کو بھی عطا ہو سکتی ہے‪ ,‬اس کے لیے عا لِ م یا ُم فتی کی ڈگری نہیں‬
‫بلکہ ایک عدد دل درکار ہو تا ہے۔ اور الحمدلل ّٰ ہ دل ہے میرے پاس‪ ,‬آپ‬
‫عا لِ م دین دکھائی دیتے ہیں اور یقینا ً مجھ سے ذیادہ پاکیزہ دل رکھتے‬
‫ہوں گے آپ عقلی دلیل سے مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجیئے کہ میرا‬
‫دل قائل ہو جائے۔ مجھے کسی حدیث کا حوالہ نہیں چاہیے کیونکہ ا ِس‬
‫معاملے میں میرا علم کمزور ہے مجھے بس ایک ہی حدیث یاد ہے کہ‬
‫جس چیز کو تمہارا دل تسلیم کر لے ا ُسے اپنا لو اور جسے نہ تسلیم‬
‫کرے ا ُسے ترک کر دو" موالنا صاحب نے بدستور گرج کر کہا "سود‬
‫حرام ہے‪ ,‬اور ‪ insurance‬میں بھی س ُ ود ‪ involve‬ہے اس لیے‬
‫‪ insurance‬بھی حرام ہے" "تو پھر آپ س ُ ود کو حرام کہ یں نا‬
‫‪ insurance‬کو کیوں حرام کہتے ہیں؟" ا ُس نے مطمئن لہجے میں‬
‫موالنا صاحب سے سوال کیا۔ جس کا جواب موالنا صاحب نے یوں دیا‬
‫کہ " ‪ insurance‬کروانا الل ّٰ ہ کے ساتھ شرط باندھنا ہے‪ ,‬الل ّٰ ہ کی ذات‬
‫پے بھروسا ہونا چاہیے۔" ا ُس نے مسکراتے ہوئے کہا "سر ویسے تو‬
‫مجھے کچھ خاص علم قرآن کا بھی نہیں ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ‬
‫کسی جگہ الل ّٰ ہ نے یہ کہا ہے کہ جب تم میں سے کوئی قریب المرگ‬
‫ہو تو ا ُسے چاہیے کہ وہ اپنی جائیداد وغیرہ اپنے اہل و اعیال میں‬
‫‪70‬‬
‫بانٹ دے۔؟ آپ بتائیے ایسی کوئی بات ہے قرآن میں؟" "ہاں ہے لیکن‬
‫اس آیت سے آپ کیا ثابت ک رنا چاہتے ہیں۔؟ موالنا صاحب نے پوچھا۔‬
‫ا ُس نے کہا "میں اس آیت سے صرف یہ بات ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ‬
‫ہمارا رب ہمیں اپنے مستقبل کی ‪ planing‬سے نہیں روکتا‪ ,‬بلکہ حکم‬
‫دیتا ہے کہ آنے والے کل کے بارے میں سوچو۔ ایک س ُ ود ذدہ‬
‫چ ہ س ُ ود میں ڈوبا ہے وہاں اگر کوئی اپنی‬ ‫چہ ب ّ‬
‫معاشرے میں جہاں ب ّ‬
‫اوالد کے مستقبل کے لیے کچھ سوچ لیتا ہے تو ہمارے ع ُ لماء کیوں‬
‫ا ُسے لعن طعن کرتے ہیں؟ بہت سے ‪ bank accounts‬سے ملنے‬
‫والے س ُ ود کے پیسے سے بہت سے غریبوں کے گھروں کا چولہا جلتا‬
‫ہے‪ ,‬انہی ‪ bank accounts‬سے بہت سے لوگوں کی سفید پوشی کا‬
‫بھرم قائم ہے ۔ اتنے سارے لوگوں تک رزق پہنچنے کا ذریعہ ہیں یہ‬
‫س ُ ود کے بیوپاری ‪ .. Financial institutions‬مذہب کے کون سے‬
‫خانے میں رکھیں گے آپ ایسے ‪ Bank Accounts‬اور ‪insurance‬‬
‫‪ policies‬کو جن سے کسی بیوہ‪ ,‬یتیم‪ ,‬یا بوڑھے کو دو وقت کی روٹی‬
‫میسر آتی ہو؟" ‪ travel agency‬کے لوگ اور خود موالنا صاحب کے‬
‫ساتھی جو پہلے ا ُسے گھور رہے تھے اب ا ُن سب کی آنکھوں میں ا ُس‬
‫کے لیے تائید نظر آ رہی تھی اس بات کو محسوس کرتے ہوئے موالنا‬
‫صاحب نے ا ُس کا مذاق ا ُڑانے والے لہجے میں کہا "بیٹا لگتا ہے آپ‬
‫تو کوئی ولی الل ّٰ ہ ہیں‪ ,‬ویسے پینٹ شرٹ ٹائی پہنے واال کلین شیو ولی‬
‫الل ّٰ ہ پہلی بار دیکھا ہم نے۔" "سر ولی تو کسی بھی جگہ کسی بھی‬
‫روپ میں ہو سکتا ہے۔ لیکن میں کچھ ہونے کا دعوے دار نہیں ہوں‬
‫بس اپنا ‪ point of view‬سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا ا ِس سب میں‬
‫اگر مجھ سے کوئی گستاخی ہو گئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں آپ‬
‫سے۔ میری بات کو پلیز سوچیے گا ضرور۔ الل ّٰ ہ حافظ" اتنا کہہ کر وہ‬
‫اپنی جگہ سے ا ُٹھا اور تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا ‪travel agency‬‬
‫سے باہر نکل گیا۔‬

‫وہ بہت دیر اسی سوچ میں رہا کہ ہم سب مل کر ایک دوسرے کے لیے‬
‫ا ُس کا دین مشکل سے مشکل تر بنانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ت م‬
‫نے نماز نہیں پڑھی۔ تم نے ٹوپی نہیں پہنی‪ ,‬شلوار قمیض پہن کے‬
‫مسجد آیا کرو۔ بس دین کے نام پر یہی باتیں رہ گئی ہیں ہمارے پاس۔‬
‫‪71‬‬
‫الل ّٰ ہ میاں کوئی تو راستہ ہو گا ہم سب کو یہ سوچ دینے کا کہ دین‪,‬‬
‫مذہب‪ ,‬ایمان کا معنی یہ نہیں ہے کہ کسی خاص طرح کا لباس پہنا‬
‫جائے بلکہ دین کا مطلب ایک خاص دل رکھنا ہے‪ ,‬جو ہر ایک سے‬
‫الل ّٰ ہ کے لیے محبت کرنا جانتا ہو۔‬

‫‪72‬‬
‫''باب۔ ‪'' 10‬‬
‫ا ُسے اپنا آپ کمزور نظر آ رہا تھا‪ ,‬اتنی بڑی دنیا‪ ,‬اتنے سارے لوگ‪,‬‬
‫آخر کیسے ممکن ہو کہ یہ سب لوگ ایک ہو جائیں۔ میں اکیال ایسا کیا‬
‫کر سکتا ہو ں۔؟ جو سب کے لیے ہو۔ وہ اکثر کہا کرتا "الل ّٰ ہ میاں میں‬
‫ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتا جو صرف پاکستانیوں یا مسلمانوں کے لیے‬
‫ہو‪ ,‬میں کچھ ایسا کرنا چاہتا ہوں جو سب انسانوں کے لیے ہو۔ کچھ‬
‫ایسا جس سے انسانیت کو فائدہ ہو سکے۔ جب ہم توحید کے قائل ہیں‬
‫تو ہمیں واحدانیت کا درس دینا چاہیے۔ لیکن ہم تقسیم کا درس دیتے‬
‫ہیں۔ ہر مسلک و مذہب اسی بات پے زور دیتا نظر آتا ہے کہ بس ہم ہی‬
‫ہیں جو صحیح ترین ہیں۔ کوئی بھی شخص خود کو بہترین سے کم‬
‫ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے‪ ,‬تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے اور‬
‫اعلی یا ادنا ہون ے کا فیصلہ‪ ,‬مذہب و مسلک کی جگہ‬ ‫ٰ‬ ‫لوگوں کے بیچ‬
‫اخالق کی بنیاد پر کریں۔" ا ُس کی سوچ وسیع تر ہوتی جا رہی تھی۔‬
‫لیکن ساتھ ساتھ ا ِس سوچ کو لوگوں تک پہنچا نہ پانے کا ڈر بھی شدید‬
‫ہوتا جا رہا تھا۔‬
‫ُم رشد نے ا ُس کے دل کو سمجھایا کہ لوگوں کی حد سے ذیادہ پرواہ‬
‫مت کرو تمہارا اور ا ِن س ب کا رب ایک ہے‪ ,‬سو وہ جیسے تمہارا ہے‪,‬‬
‫ا ُسی طرح سب کا ہے اور وہ ا ُن کے لیے کافی ہے۔ تمہارا کام ہے‬
‫احسان کا چلن اپنانا‪ ,‬ہدایت کس کو دینی ہے یہ الل ّٰ ہ کی مرضی پر‬
‫ہے‪ ,‬تم بس اپنی طرف سے کوشش کبھی ترک مت کرنا‪ ,‬ال ل ّٰ ہ کو اپنی‬
‫راہ میں کوشش کرنے والے بہت پسند ہیں‪ ,‬تو کوشش کرتے رہو‪ ,‬ال ل ّٰ ہ‬
‫کرم کرے گا۔‬
‫ایک روز وہ اپنے دفتر سے کسی سرکاری کام سے ایک اور دفتر کی‬
‫طرف جا رہا تھا ا ُس کی جیب میں صرف دو روپے تھے ا ِس لیے ا ُس‬
‫نے سوچا کہ پیدل چال جائے راستے میں ا ُس کی مالقات اپنے ایک‬
‫کزن سے ہو گئی جو وہاں قریب ہی کسی جگہ مالزمت کے لیے‬
‫انٹرویو دینے آیا۔ ا ُس نے اپنے کزن سے کہا "میں کسی کام سے جا‬
‫رہا ہوں میرے ساتھ چلو پھر واپسی پے گھر اکھٹے چلے جائیں گے۔‬
‫کوئی پیسے ہیں جیب میں۔؟ میرے سگریٹ ختم ہونے والے ہیں اور‬
‫‪73‬‬
‫میرے پاس صرف دو روپے ہیں۔" ا ُس کا کزن بھی ا ُسی کی طرح تھا‬
‫جس کی جیب میں صرف واپسی کا کرایہ تھا۔ ا ُس نے بات کرتے‬
‫کرتے اپنے کزن سے پوچھا "تمھیں پتا ہے ہم سب نے س ُ لطان محمد‬
‫اصغر علی (رح) کے ہاتھ پے بیعت کر لی ہے۔؟" ا ُس کے کزن نے‬
‫ا ُس سے کہا "ہاں پتا ہے‪ ,‬ویسے کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ الل ّٰ ہ‬
‫والوں کی صحبت کیوں ضروری ہے؟ ایسا کیا ہ وتا ہے اولیاء کی نظر‬
‫میں کہ ا ُن کے پاس جا کر لوگوں کے دل کا نظارہ بدل جاتا ہے۔؟ "‬
‫ا ُس نے غور سے اپنے کزن کی طرف دیکھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ‬
‫ا ُس کا کزن پیری ُم ریدی کو کافی اچھی طرح سمجھتا تھا‪ ,‬شاید وہ ا ُس‬
‫کا امتحان لینا چاہ رہا تھا ا ِس لیے ا ُس سے ا ِس قسم کا سوال پوچھ رہا‬
‫تھا۔ ا ُس نے کہا "میں اکثر بہت پریشان ہو جاتا ہوں تو دل میں ُم رشد‬
‫پاک کی آواز س ُ نائی دیتی " پ ُ تر ال ل ّٰ ہ پاک خیر کَرسی " ۔ ا ِس ایک جملے‬
‫میں نہ جانے کیا تاثیر ہوتی ہے کہ میرے دل کو قرار آ جاتا تھا۔ اور‬
‫میں پھر سے آگے بڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ میرے خیال میں جو انسان‬
‫الل ّٰ ہ کی ذات میں جتنا ڈوبتا جاتا ہے ا ُتنا ہی ا ُس کا نور وسیع ہوتا جاتا‬
‫تصور یار کی بات کی ہے۔ کبھی سوچا ہے کہ‬ ‫ِ‬ ‫ہے۔ اولیاء کرام نے‬
‫ہماری نظر مناظر کو توڑنے جوڑنے کا کام کرتی ہے۔ جیسے کوئی‬
‫شخص مسجد میں جاتا ہے تو ب ُ را خیال رد کرتا ہے اور ب ُ رائی میں‬
‫چ راتا ہے‪ ,‬اذان کی آواز آتی ہے تو‬ ‫محو ہو تو الل ّٰ ہ کے خیال سے نظر ُ‬
‫گانا کی آواز کم یا بند کر دی جاتی ہے۔ آخر ایسا کیا ہوتا ہے جو‬
‫انسان کو عجیب لگتا ہے۔؟ یہ دو منظروں کا ٹکراؤ ہے جسے انسان‬
‫اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ انسان کی زندگی انہی مناظر کا کھیل ہے‬
‫کہ باہر دکھائی دینے واال منظر انسان کے اندر کون سا نظارہ تحریر‬
‫کرتا ہے۔ یہ تحریر انسان خود لکھتا ہے ا ُس کی مرضی ہے وہ جو جی‬
‫چاہے اپنے اندر تحریر کرے۔ دنیا میں لوگ اپنے اندر بہت سے منظر‬
‫لیے گھومتے رہتے ہیں ہر شخص کے اندر ایک الگ دنیا آباد ہوتی‬
‫ہے جس میں ا ُس کے پاس دنیا کی ہر چیز کی تصویر ہوتی ہے۔ ان‬
‫میں کچھ تصویریں ایسی ہوتی ہیں جن کا اشارہ ال ل ّٰ ہ کی جانب ہوتا ہے۔‬
‫اشارہ ا ِس لیے کیونکہ وہ الل ّٰ ہ کی ذات سے نہیں بلکہ الل ّٰ ہ کی کسی‬
‫صفت سے سوال کر رہے ہوتے ہیں۔ مث ال ً کوئی رزق کے لیے پریشان‬
‫ہے تو وہ رازق کو پ ُ کار رہا ہے تاکہ ا ُس کے رزق کی تنگی دور ہو‬
‫‪74‬‬
‫جائے لوگ ا ُس کی صفات کو پ ُ کارتے ہیں‪ ,‬ا ُس کی ذات کو نہیں‪,‬‬
‫انسان جیسا گمان رکھے گا ویسے روپ میں الل ّٰ ہ ا ُسے ملے گا اور‬
‫انسان اپنی غرض کے حساب سے الل ّٰ ہ کا گ ُ مان کرتا ہے‪ ,‬لوگ بہت سا‬
‫خ داؤں کی تالش‬ ‫رزق دینے والے اور بہت سی دنیا عطا ک رنے والے ُ‬
‫میں رہتے ہیں‪ ,‬بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو الل ّٰ ہ کے طالب ہوتے ہیں‬
‫بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کے اندر کے منظر میں الل ّٰ ہ کی تصویر‬
‫ہوتی ہے ورنہ لوگ تو الل ّٰ ہ کو سوچتے ہی نہیں۔ ُم رشد کیونکہ الل ّٰ ہ‬
‫کے ساتھ خالص ہوتا ہے ا ِس لیے ا ُس کے اندر کے منظ ر میں الل ّٰ ہ کے‬
‫جلوے کثیر تعداد میں ہوتے ہیں تو جب وہ کسی شخص کو دیکھتا ہے‬
‫تو اپنے اندر کے منظر سے ا ُسے جوڑ دیتا ہے۔ یہی وہ احسان ہے جو‬
‫حضور اقدس صلی الل ّٰ ہ‬ ‫ِ‬ ‫ایک ُم رشد اپنے ُم رید پر کرتا ہے۔ جس طرح‬
‫علیہ و آلہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ "احسان کیا ہے" تو آپ صل ی‬
‫الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا " احسان یہ ہے کہ جب کوئی شخص‬
‫نماز ادا کرے تو ایسے جیسے وہ ال ل ّٰ ہ کو دیکھ رہا ہے۔ " ُم رشد ایسا‬
‫شخص ہوتا ہے جو ہر وقت الل ّٰ ہ کی یاد میں محو رہتا ہے جب ایسا‬
‫شخص لوگوں سے گ ُ ھلتا ملتا ہے‪ ,‬انہیں دیکھتا ہے تو یہ حقیقی احسان‬
‫ہے کسی بھی انسان پر کہ کوئی الل ّٰ ہ واال ا ُس پے نظر کرے۔ تمام‬
‫جہانوں کا سارا علم انسان کے اپنے اندر موجود ہے۔ ضرورت ا ِس‬
‫بات کی ہوتی ہے کہ ا ُس علم کو اپنے اندر تالش کیا جائے۔ جس طرح‬
‫عقلمندوں‪ ,‬جاہلوں‪ ,‬امیروں‪ ,‬غریبوں‪ ,‬اور نیک یا بد لوگوں کی صحبت‬
‫کا انسان کی سوچ پر ک چھ اثر ہوتا ہے ا ُسی طرح الل ّٰ ہ والوں کی‬
‫صحبت بھی کچھ اثر رکھتی ہے۔ عقلمند سے عقل اور جاہل سے‬
‫جہالت کی ترغیب ملتی ہے۔ عاقل یا جاہل دونوں میں سے کوئی بھی‬
‫انسان پر کوئی تعویز یا کوئی جادو نہیں کرتا بلکہ ا ُن کے ساتھ رہنے‬
‫سے ا ُن کی بات س ُ ننے سے انسان کے خیاالت متاثر ہوتے ہیں۔ الل ّٰ ہ‬
‫والے کیونکہ الل ّٰ ہ سے لو لگائے ہوتے ہیں ا ِس لیے ا ُن کی صحبت سے‬
‫انسان کے دل کی گرہ کھلنا شروع ہو جاتی ہے۔ ُم رشد ایک ایک ُم رید‬
‫کے کان میں کہہ کے نہیں آتا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا بلکہ‬
‫ا ُس کے پاس بیٹھنے سے‪ ,‬ا ُس کی بات س ُ ننے سے‪ ,‬ا ُس کی نظر میں‬
‫ق قلب کے‬ ‫رہنے سے انسان کا دل روشن ہوتا ہے اور ا ُسے تصدی ِ‬
‫ساتھ بات سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہے۔ انسان کی آنکھ ا ُس کے باطن‬
‫‪75‬‬
‫کو ظاہر سے جوڑتی ہے‪ ,‬بہت سی باتیں جو زبان سے بیاں نہ ہو رہی‬
‫ہوں وہ بھی نظر سے عیاں ہو جاتی ہیں۔ لوگوں کی آنکھوں میں ا ُن کی‬
‫ہوس‪ ,‬اللچ‪ ,‬غصہ‪ ,‬پیار سب دکھائی دیتا ہے کیونکہ آنکھ وہ مقام ہے‬
‫جہاں انسان کا ظاہر اور باطن ایک ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو جو شخص‬
‫اپنے باطن میں الل ّٰ ہ کی یاد رکھتا ہو ا ُس کی نظر کا عالم۔‬
‫عالمہ اقبال فرماتے ہیں‬
‫زور با زو کا۔؟‬
‫ِ‬ ‫کوئی انداز ہ کر سکتا ہے ا ُس کے‬
‫نگا ہِ مر ِد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔‬
‫ا ُس کی بات س ُ ن کے ا ُس کے کزن نے کہا "تیری باتیں س ُ ن کر بہت‬
‫اچھا لگا مجھے خوشی ہے کہ الل ّٰ ہ نے تجھے اتنی جلدی اتنی ساری‬
‫سمجھ دی لیکن میں تیرے ُم رشد پاک کا ُم رید نہیں بن سکتا‪ ,‬تجھے پتا‬
‫ہے کہ میرے والد کسی اور سلسلے سے بیعت ہیں اور مجھے بھی‬
‫ا ُسی سلسلے میں بیعت کرنی ہو گی" ا ُس نے اپنے کزن سے کہا‬
‫"کوئی بات نہیں یار بیعت تو نصیب سے ہوتی ہے‪ ,‬جس کا جہاں‬
‫نصیب ہو گا وہ وہیں ُم رید ہو گا‪ ,‬اچھا میرے سگریٹ ختم ہو گئے ہیں‬
‫ا ُس دوکان سے سگریٹ خرید لوں" ا ُس کے کزن نے کہا "پیسے کہاں‬
‫ہیں تیرے پ اس۔؟" تو ا ُس نے کہا "دو روپے ہیں نا‪ ,‬ایک روپے کا ایک‬
‫سگریٹ لوں گا اور ایک روپے کے دو سگریٹ بعد میں لے لوں گا"‬
‫یہ کہتے کہتے وہ دوکان میں داخل ہو گئے اور ا ُس نے دوکاندار کو‬
‫ایک روپیہ دیتے ہوئے ایک سگریٹ دینے کو کہا‪ ,‬جتنی دیر میں‬
‫دوکاندار نے سگریٹ نکال کے کاؤ نٹر پے رکھا ا ُتنی دیر میں ا ُس نے‬
‫دوسرا روپیہ جیب سے نکالتے ہوئے ایک اور سگریٹ کا نام لیا جس‬
‫کی قیمت دو روپے تھی اور کہا کہ وہ سگریٹ دے دو۔ دوکاندار نے‬
‫ب ُ را سا منہ بناتے ہوئے دوسرا سگریٹ نکال کر دیا جو ا ُس نے فور ا ً‬
‫س ُ لگا لیا اور دوکان سے باہر آ گیا۔ ا ُس کا کزن ا ُسے غور سے دیکھ‬
‫رہا تھا‪ ,‬ا ُس نے پوچھا کیا بات ہے تو کزن نے کہا "بھائی ت ُو اتنی دیر‬
‫سے سگریٹ اور پیسوں کی فکر میں تھا اور اب بے فکر ہو کر ایک‬
‫روپیہ خرچ کرتے کرتے دو کے دو روپے خرچ کر دیے‪ ,‬ایسا کیا‬
‫خیال آیا تھا جس نے سارے پیسے خرچ کروا کر بھی تمہیں سکون‬
‫عطا کیا۔؟" ا ُس نے کہا "جب میں نے ایک روپیہ بچایا تو میرے دل‬
‫نے مجھے مالمت کی کہ تجھے ایک روپے پے بھروسا ہے‪ ,‬لیکن‬
‫‪76‬‬
‫ایک الل ّٰ ہ پر بھروسا نہیں ہے‪ ,‬یہ سوچ کر میں نے دوسرا روپیہ بھی‬
‫خرچ کر دیا اور سارے پیسے خرچ کر کے مجھے سکون ہے کہ میں‬
‫نے ایک روپے کی جگہ ایک ا لل ّٰ ہ پے بھروسا کیا" ا ُس کے کزن نے‬
‫تعالی سے لوگ سگریٹ بھی مانگا‬ ‫ٰ‬ ‫کہا "واہ کیا بھروسہ ہے‪ ,‬اب الل ّٰ ہ‬
‫کریں گے‪ ,‬تجھے پتہ ہے نا کہ میں تجھے بچپن سے جانتا ہوں۔؟ میں‬
‫تجھ پے یقین نہیں کر پاتا‪ ,‬تیرا کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کب ت ُو کیا کر‬
‫جائے‪ ,‬کبھی الگ الگ مسجدوں میں ن مازیں پڑھتا ہے کبھی کبھی چرچ‬
‫بھی چال جاتا ہے کچھ وقت پہلے ت ُو شیعہ ہو گیا تھا اور ا َب ت ُو ُم رید‬
‫ہو گیا ہے کل کو کیا پتہ کچھ اور ہو جائے‪ ,‬اور تیری یہ سوچ کہ الل ّٰ ہ‬
‫تعالی کیوں دیں‬ ‫ٰ‬ ‫پے بھروسا کرو تو سگریٹ بھی ِم ل جائیں گے‪ ,‬الل ّٰ ہ‬
‫گے تجھے سگریٹ۔؟" ا ُس نے اپنے کزن کے سوال کا کچھ جواب نہ‬
‫دیا‪ ,‬تھوڑی دیر میں وہ دونوں گھر پہنچے تو اندر داخل ہوتے ساتھ‬
‫ا ُس کے چھوٹے بھائی نے اپنی جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر‬
‫ا ُس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا "ویسے تو آپ کی یہ عادت بہت ب ُ ری‬
‫ہے لیکن پتا نہیں کیوں آج مارکیٹ سے گ ُ زرتے ہوئے مجھے خیال آیا‬
‫کہ مہینے کی آخری تاریخیں ہیں آپ کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو‬
‫آپ نے مجھی سے کہنا ہے تو چلو آج بھائی کے کہے بغیر ہی سگریٹ‬
‫لے جاتا ہوں" ا ُس نے اپنے بھائی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے کزن‬
‫کی جانب دیکھا جو حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ کزن نے ا ُس سے‬
‫کہا "تم م جھے بھی وہ نقش دکھاؤ جس کا تم ذکر کرتے ہو" ا ُس نے‬
‫اس ِم الل ّٰ ہ کا نقش اپنے کزن کو دکھایا۔ ا ُس نے نقش دیکھا اور چال گیا۔‬
‫رات کو قریب گیارہ بجے ا ُس کزن نے آ کر ا ُس کا دروازہ کھٹکھٹایا‬
‫اور التجاء بھرے لہجے میں کہا "میں بہت دیر سے بس اسٹاپ پے‬
‫کھڑا اپنے گھر کو ج اتی گاڑیوں کو دیکھ رہا ہوں لیکن میرا گھر‬
‫جانے کو دل نہیں کر رہا مجھے لگتا ہے کہ میری منزل بھی س ُ لطان‬
‫محمد اصغر علی (رح) ہی ہیں میں کسی اور کا ُم رید نہیں ہو سکتا‬
‫پلیز مجھے ا ُن کے پاس لے چلو‪ ,‬میں ا ُن کا ُم رید ہونا چاہتا ہوں" ا ُس‬
‫اپنے کزن کو گلے سے لگا کر تسل ی دی اور اگلی صبح ا ُسے بیعت‬
‫کرنے کے لیے اپنے ُم رشد پاک کے پاس لے گیا۔‬

‫‪77‬‬
‫اپنے کزن والے واقعے سے ا ُسے سمجھ آیا کہ جس نے بات سمجھنی‬
‫ہوتی ہے ا ُسے تمہیدوں کی ضرورت نہیں پڑتی اور جس نے بات نہیں‬
‫سمجھنی ا ُسے کسی بھی دلیل سے بات سمجھائی نہیں جا سکتی۔‬

‫‪78‬‬
‫''باب۔ ‪'' 10‬‬
‫ا ُس کے کزن کے ُم رید ہونے سے ا ُس کے خاندان میں کافی ہلچل مچ‬
‫گئی تھی کیونکہ ا ُس کے کزن کے والد اپنے بیٹے کو اپنے سلسلے‬
‫سے ُم رید کروانا چاہتے تھے انہوں نے ا ُسے کافی سخت باتیں کہیں‬
‫ظ خاطر رکھتے ہوئے صرف ات نا‬ ‫اور جواب میں ا ُس نے ادب کو ملحو ِ‬
‫کہا کہ "بیعت نصیب سے ہوتی ہے‪ ,‬ا ِس کے نصیب میں س ُ لطان محمد‬
‫ت بیعت تھامنا لکھا تھا" ا ُس کے کزن کے والد‬ ‫اصغر علی (رح) کا دس ِ‬
‫نے اپنے بیٹے کو بیعت توڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش بھی کی‬
‫چ ے دل سے اپنا ُم رشد مان‬ ‫لیکن ا ُس کا کزن بھی س ُ لطان صاحب کو س ّ‬
‫چ کا تھا اور کچ ھ عرصے بعد ا ُس کا کزن سب کچھ چھوڑ کر س ُ لطان‬ ‫ُ‬
‫صاحب کی خدمت میں تربیت کے لیے حاضر ہو گیا۔ ا ِس دوران بھی‬
‫ا ُسے اپنے کزن کے والدین کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا رہا‬
‫لیکن وہ ثابت قدم رہا۔ ا ُس کے کزن کے والدین کا خیال تھا کہ شاید ا ُن‬
‫کا بیٹا کسی جہادی تنظیم کا ح صّ ہ بن گیا ہے اور اب کبھی واپس نہیں‬
‫آئے گا۔ ا ُس نے انہیں سمجھایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے ُم رشد پاک‬
‫کی ایک دن کی صحبت میں انسان وہ کچھ سیکھ جاتا ہے جو ا ُن سے‬
‫دور رہ کر برسوں میں بھی نہیں سیکھ سکتا۔ تو ا ُس سے پوچھا گیا‬
‫اگر ایسا ہے تو تم خود کیوں نہیں گئے ترب یت کے لیے۔؟ اپنے چھوٹے‬
‫بھائی کو بھیجا ہمارے بیٹے کو بھیجا اور نا جانے کس کس کو تم نے‬
‫ا ِس تربیت کے لیے بھیجا لیکن تم خود کیوں نہیں جاتے تربیت کے‬
‫لیے۔؟ تو ا ُس نے کہا کہ "میرا ب ُ الوا نہیں آیا ابھی تک‪ ,‬جس دن ب ُ الوا‬
‫آیا تو میں بھی جانے میں دیر نہیں لگاؤں گا۔" ل یکن ا ُس پے ُم رشد کی‬
‫مہربانی ا ِس قدر تھی کہ وہ گھر بیٹھے بھی ہر پل اپنے ُم رشد سے‬
‫فیضیاب ہو رہا تھا۔ شاید ا ُس کے ُم رشد نے ا ُس کی تربیت کے لیے‬
‫ا ُس کی حقیقی زندگی کے اسباق کا ُ‬
‫چ ناؤ کیا تھا۔‬
‫ا ُس کی عادت تھی کہ وہ سب کے لیے دعا کرتا تھا اور جو بھی ا ُس‬
‫سے ملتا یا بات کرتا ا ُن سب کو بھی د ُعا دیتا تھا۔ اکثر دعائیں جو وہ‬
‫لوگوں کے لیے کرتا تھا پوری ہو جاتی تھیں ا ِس وجہ سے لوگوں نے‬
‫ا ُسے کوئی پیر سمجھنا شروع کر دیا۔ اپنی شادی کے کچھ عرصہ بعد‬
‫‪79‬‬
‫ا ُس نے داڑھی رکھ لی‪ ,‬الل ّٰ ہ نے ا ُسے ایک بیٹی سے نوازا۔ ا ُس کے‬
‫پیر ساب بننے میں بس ایک داڑھی کی کمی تھی سو وہ بھی پوری ہو‬
‫گئی۔ اپنے ُم رشد پاک کی نقل کرتے ہوئے وہ بھی لوگوں کو یہی کہتا‬
‫کہ الل ّٰ ہ پاک خیر کرے گا۔ اور جب ا ُن کی ُم رادیں پوری ہوتیں تو وہ‬
‫ا ُس سے اور ذیادہ عقیدت رکھنا شروع کر دیتے۔ اگرچہ وہ چند‬
‫گھرانے تھے جو ا ُسے ا ِس حیثیت سے جانتے تھے لیکن ا ُسے سبق‬
‫سکھانے کے لیے اتنے لوگ بھی کافی تھے۔ ا ُس نے دیکھا کہ لوگوں‬
‫کو الل ّٰ ہ سے کوئی سروکار نہیں ہے لوگ بس اپنا کام نکالنا چاہتے‬
‫ہیں۔ کوئی الل ّٰ ہ کا طالب نہیں ہے کسی نے ا ُس سے الل ّٰ ہ کے ق ُ رب و‬
‫وصال کا سوال نہیں کیا‪ ,‬سب کو صرف اپنی دنیا س ُ د ھارنے کی فکر‬
‫تھی۔ لوگ ا ُس کے پیچھے بھاگتے اور وہ لوگوں سے دور بھاگتا تھا۔‬
‫ا ُس نے تنگ آ کر لوگوں سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ اپنی کسی‬
‫چ کا ہے ا ِس لیے اب ا ُس کی دعا‬ ‫غلطی کے باعث اپنے مقام سے ِگ ر ُ‬
‫میں وہ اثر نہیں رہا لیکن لوگ پھر بھی ا ُس کا پیچھا نہ چھوڑتے او ر‬
‫کیسے چھوڑتے جبکہ ا ُن کی د ُعائیں بدستور پوری ہو رہی تھیں۔ ا ُس‬
‫نے الل ّٰ ہ کے حضور د ُعا کی کہ میری یہ د ُعائیں قبول نا ہوا کریں تاکہ‬
‫لوگ مجھ سے دور رہیں لیکن ایسا نا ہوا۔ ا ُس کی نماز میں حالوت ا ِس‬
‫چ کی تھی کہ مغرب کی نماز کے صرف فرض پڑھنے میں‬ ‫قدر بڑھ ُ‬
‫ا ُسے تقر یبا ً آدھا گھنٹہ لگ جاتا تھا‪ ,‬ا ُن دنوں وہ شام کو ایک کلینک پر‬
‫پارٹ ٹائم ریسیپشنسٹ کی حیثیت سے کام کر رہا تھا جب ا ُسے لمبی‬
‫لمبی نمازیں پڑھنے کی وجہ سے کلینک کی مالزمت سے نکال دیا‬
‫گیا۔ جب وہ کسی مسجد میں جاتا تو اکثر لوگ ا ُسے ا ِس طرح ڈوب کر‬
‫نماز ادا کرتے دیکھ تے‪ ,‬تو دیکھتے رہ جاتے‪ ,‬اکثر ایک مجمع سا لگ‬
‫جاتا اور لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرتے کہ کتنی اچھی نماز‬
‫پڑھ رہا ہے یہ لڑکا‪ ,‬اکثر لوگ نماز کے بعد ا ُس سے آ کر پوچھتے کہ‬
‫ا ِس کا راز کیا ہے تو وہ ہمیشہ اپنے ُم رشد کا نام لیتا‪ ,‬اکثر لوگ یہ‬
‫جان کر کہ وہ کسی کا ُم رید ہے‪ ,‬ا ُسے جاہل سمجھتے اور ا ُس کی نماز‬
‫کی حالوت کو محض دکھاوا سمجھ کر بھاگ جاتے اور کچھ لوگ ا ُسے‬
‫کوئی الل ّٰ ہ واال سمجھ کر ا ُس سے اپنے لیے دعا کرنے کو کہتے۔ وہ‬
‫ا ِن سب چیزوں سے تنگ آ جاتا تھا‪ ,‬اکثر لوگوں کی عقیدت ا ُس کے‬

‫‪80‬‬
‫نفس کو بہت تقویت دیتی تھیں اور وہ اندر ہ ی اندر اپنے آپ کو لوگوں‬
‫کی تعریفوں پے خوش ہونے پر مالمت کرتا رہتا تھا۔‬
‫ا ُس نے مسجد میں نماز پڑھنا کم کر دی‪ ,‬اگر جاتا بھی تو مسجد کے‬
‫کسی ایسے کونے میں چ ھُ پ کے نماز ادا کرتا جہاں وہ کم سے کم‬
‫لوگوں کی نظر میں آئے۔ ا ُس نے لوگوں کی جھوٹی عقیدت سے بچنے‬
‫کی بہت کو شش کی لیکن بے س ُ ود آخرکار جب کچھ سمجھ نہ آیا تو ا ُس‬
‫نے اپنے چہرے سے داڑھی صاف کروا دی۔ ا ُس کا یہ عمل دیکھ کر‬
‫سب نے ا ُسے لعن طعن کی عقیدت مندوں نے کہا کہ یہ کیسا پیر ہے‬
‫جس نے داڑھی صاف کر دی‪ ,‬دوستوں نے کہا یار آج کے دور میں‬
‫داڑھی رکھنا بہت مشکل کام ہے‪ ,‬کچھ اور خیر خواہوں نے خوشی کا‬
‫اظہار کیا اور کہا اب اچھے لگ رہے ہو اتنی سی عمر میں داڑھی‬
‫رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے ا ِس عمل کو س ُ نت کا‬
‫قتل گردانا اور ا ُسے بہت سی سخت باتیں کہیں۔ ا ُس نے سب کی باتیں‬
‫خندہ پیشانی سے س ُ نی مگر کچھ نہ کہا ایک صاحب جو ا ُسی کے دفتر‬
‫میں کام کرتے تھے انہوں نے ا ُس کی ا ِس حرکت کی وجہ سے ا ُس‬
‫سے ایک مسلسل نفرت پال لی اور جب موقع ملتا تو وہ ا ُسے کچھ نہ‬
‫کچھ ضرور کہتے۔ ا ُن صاحب نے بڑی بڑی موچھیں رکھی ہوئی تھیں‬
‫ایک روز ا ُسے کہنے لگے کہ "تم نے داڑھی صاف کروا کے شدید‬
‫گناہ کا ارتکاب کیا ہ ے ا ِس سے تو اچھا تھا کہ تم داڑھی رکھتے ہی‬
‫نہیں" ا ُس نے ا ُن صاحب کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن جب‬
‫ا ُنہوں نے بار بار ایک ہی بات کی رٹ لگا دی تو ا ُس نے ا ُن سے کہا‬
‫"سر داڑھی کسے کہتے ہیں۔؟" انہوں نے ا ُس کے سوال پر ا ُسے گھور‬
‫کے دیکھا اور کہا "تمہیں نہیں پتہ داڑھی کسے کہتے ہیں۔؟ وہ جو تم‬
‫نے صاف کروا دی ا ُسے داڑھی کہا جاتا ہے۔" ا ُس نے کہا "اچھا‬
‫ت رسول میں کیا فرق ہے۔؟" تو ا ُن صاحب نے ا ُلجھ کر‬ ‫داڑھی اور س ُ ن ِ‬
‫کہا " س ُ نتیں تو بہت سی ہی اور داڑھی رکھنا بھی ایک س ُ نت ہے" ا ُس‬
‫نے مسکرا کے ا ُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "چہر ے پے ا ُگنے‬
‫والے بال بڑھا لینے سے آپ ا ُسے داڑھی کہہ سکتے ہیں لیکن ا ُسے‬
‫ت رسول تب تک نہیں کہا جا سکتا جب تک کے داڑھی رکھنے‬ ‫سُ ن ِ‬
‫ح ب رسول نہ ہو۔ تقریبا ً ہر‬‫والے کی نظر میں حیا نہ ہو‪ ,‬اور دل میں ُ‬
‫مذہب کے پیروکار داڑھی رکھتے ہیں اب کیا کسی غیر مسلم کی‬
‫‪81‬‬
‫ت رسول کہیں گے۔؟" انہوں نے ا ُس کا جواب س ُ ن کر‬ ‫داڑھی کو آپ س ُ ن ِ‬
‫کہا "میں مسلمان کی بات کر رہا ہوں کہ جو بھی مسلم شخص داڑھی‬
‫ت رسول کا قتل کرتا ہے" ا ُس نے کہا "اگر اس‬ ‫صاف کرتا ہے وہ س ُ ن ِ‬
‫ت‬
‫طرح دیکھا جائے تو پھر تو جو لوگ شیو کرتے ہیں وہ تو روز س ُ ن ِ‬
‫رسول کا قتل کرتے ہوں گے اور موچھیں رکھنے والے تو پھر مذہب‬
‫کی نظر میں باغی کہالئیں گے کیوں کہ وہ داڑھی گھٹاتے ہیں جسے‬
‫ح کم ہے اور موچھیں جنہیں گھٹانے کو کہا گیا ہے اسے‬ ‫بڑھانے کا ُ‬
‫بڑھاتے رہتے ہیں۔" ا ُن صاحب کو جب بات اپنی جانب آتی نظر آئی تو‬
‫انہوں نے بات ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ک ہا "سزا جزا سب‬
‫الل ّٰ ہ کے ہاتھ ہے ہمارا کام تھا آپ کو سمجھانا تو ہم نے سمجھا دیا‬
‫باقی اب تمہاری مرضی ہے جو جی چاہے کرو" ا ُس نے کہا "جی سر‬
‫صحیح کہا آپ نے کہ سزا جزا الل ّٰ ہ ہی کے ہاتھ میں ہے‪ ,‬بات تب‬
‫خراب ہوتی ہے جب ہم خود ایک دوسرے کے لیے سزا و جزا کا‬
‫فیصلہ ک رنے کی کوشش کرتے ہیں‪ ,‬اپنے ارد گرد دیکھیں تو آپ کو‬
‫ایسے بہت سے داڑھی والے نظر آئیں گے جو بے حیا ہیں اور داڑھی‬
‫ت‬
‫کے تقدس کو اپنی حرکتوں سے پامال کرتے ہیں میرے خیال میں سَ ن ِ‬
‫ح لیہ بنانا اپنا‬
‫رسول کے اصل قاتل وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں جیسا ُ‬
‫دینی فریضہ سمجھتے ہیں م گر ا ُس کی روح کو اپنانے کا گمان بھی‬
‫ا ُن سے کوسوں دور رہتا ہے۔" اتنا کہہ کر ا ُس نے بات ختم کر دی‬
‫لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ دین کے نام پر کیا کر رہے ہیں ہم لوگ۔؟ سب‬
‫دین کے ظاہر کو اپنانے پر زور دیتے ہیں لیکن ا ِس کے باطن کا خیال‬
‫ہی نہیں آتا ہمیں‪ ,‬شاید ا ِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دین ال ل ّٰ ہ کے لیے نہیں‬
‫بلکہ لوگوں کو دکھانے کے لیے اپناتے ہیں۔ کوئی شخص اگر نماز‬
‫پڑھتا ہے تو اپنی باتوں سے ہر ایک پے ظاہر کرنے کی کوشش کرتا‬
‫رہتا ہے کہ وہ نمازی ہے‪" ,‬اذان کتنے بجے ہو گی‪ ,‬میں نماز پڑھ کے‬
‫آ رہا تھا‪ ,‬یا نماز پڑھنے جانا ہے‪ ",‬یہ وہ فقرے ہیں جو ہم عام طور‬
‫پر نمازی حضرات کے منہ سے س ُ نتے رہتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ا ِس‬
‫سے بھی دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں وہ اپنی نماز کا رعب جھاڑنے کے‬
‫لیے ایک ایک سے پوچھتے پھرتے ہیں کہ آپ نے نماز پڑھی کہ‬
‫ج معے کے روز ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی‬ ‫نہیں‪ ,‬خاص کر ُ‬
‫ہے ک یونکہ سارا ہفتہ مسجد سے دور رہنے کے بعد جب ہم جمعے کی‬
‫‪82‬‬
‫نماز پڑھ لیتے ہیں تو ہم اپنے ساتھ کے ا ُن گناہگاروں سے افضل ہو‬
‫ج معے کے دن بھی مسجد جانا نصیب نہیں ہوتا۔ ا ِس‬ ‫جاتے ہیں جنہیں ُ‬
‫ج معے کے روز ہمارا ہر ایک سے یہ سوال کرنا بہت ضروری‬ ‫لیے ُ‬
‫ج معہ ادا کی ہے یا نہیں۔ اکثر جب وہ کسی‬ ‫نماز ُ‬
‫ِ‬ ‫ہوتا ہے کہ ا ُس نے‬
‫سے اپنا باطن س ُ دھارنے کی بات کرتا یا کسی کو ُم رشد کی اہمیت‬
‫سمجھانے کی کوشش کرتا تو لوگ کہتے کہ الل ّٰ ہ کا دین بہت آسان ہے‬
‫نماز روضے کی پابندی کرو سب سے بھالئی کا سلوک کرو اور بس‬
‫اس سے ذیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سوچتا کہ اگر دین‬
‫محض نماز روزہ ہی ہے تو سارے نمازی مومن کیوں نہیں بن جاتے۔؟‬
‫ہر مسجد کے مولوی صاحب ولی الل ّٰ ہ کیوں نہیں ہوتے۔؟ کیا الل ّٰ ہ نے‬
‫ح کم نہیں دیا۔؟ کیا تصفی ہِ قلب کے بغیر کوئی انسان حق‬ ‫تزکیہ نفس کا ُ‬
‫کو جاننے کے الئق بن سکتا ہے۔؟ ہر گز نہیں۔ تو پھ ر سارا زور‬
‫شریعت پوری کرنے پے کیوں دیا جاتا ہے۔؟ ا ُس کے اندر سواالت کا‬
‫ایک ہجوم مچا جا رہا تھا۔‬

‫‪83‬‬
‫''باب۔ ‪'' 10‬‬
‫ا ُس کی ظاہری حالت کو دیکھتے ایک روز ا ُس کے کزن نے ا ُس سے‬
‫پوچھا "تیرے خیال میں شریعت پوری کرنا کس حد تک ضروری ہے‬
‫اور طریقت کو سمجھنا ا ور جاننا کہاں تک ضروری ہے۔؟" ا ُس نے‬
‫غور سے اپنے کزن کی جانب دیکھا اور پوچھا " ا ِس سوال کی کوئی‬
‫خاص وجہ۔؟" ا ُس کے کزن نے شوخ لہجے میں کہا "ہاں جناب خاص‬
‫وجہ آپ خود ہیں‪ ,‬آپ ہی وہ ہستی ہیں جو ہم سب کے ُم رید ہونے کا‬
‫باعث بنے اور اب آپ ہی ایسی چال چلیں گے تو ہمار ا کیا ہو گا" ا ُس‬
‫نے مسکرا کر اپنے کزن کی جانب دیکھا اور کہا "میرا کام راہ بتانا‬
‫تھا راہ چالنا نہیں‪ُ ,‬م رشد تک پہنچ گئے تو ُم رشد کو دیکھ کر چلو‬
‫مجھے کیوں دیکھتے ہو" ا ُس کا کزن عمر میں ا ُس سے صرف چھ ماہ‬
‫بڑا تھا ا ِس لیے دونوں میں گہری دوستی تھی۔ اور بیعت کے بع د یہ‬
‫دوستی اور گہری ہو گئی تھی۔ ا ُس کے کزن نے کہا " ُم رشد پاک کو‬
‫ہی دیکھ کر چل رہا ہوں‪ ,‬لیکن تیری فکر رہتی ہے‪ ,‬ا ِس لیے پوچھ رہا‬
‫ہوں کہ شریعت اور طریقت کی ظاہری زندگی میں ضرورت‪ ,‬اطالق‬
‫اور امتزاج کس تناسب سے ہونا چاہیے۔؟ کیا شریعت بلکل چھوڑ دینی‬
‫چاہیے اور صرف طریقت تھام کے چلتے رہنا چاہیے۔؟ ایسا کیوں ہوتا‬
‫ہے کہ جو لوگ شریعت کے پ ُ ختہ ہیں وہ طریقت ب ُ ھال دیتے ہیں اور‬
‫جو طریقت کی راہ میں آتے ہیں وہ شریعت سے دور ہو جاتے ہیں۔؟"‬
‫ا ُس کے کزن نے تفصیل سے اپنا سوال بیان کرتے ہوئے ا ُس کی‬
‫آنکھوں میں دیکھا تو ا ُس نے کہا "دی کھو شریعت زمین ہے‪ ,‬شریعت‬
‫آپ کو بتاتی ہے کہ زمین پے کس طرح رہنا ہے۔ کیسے ُو ضو کرنا‬
‫ہے‪ ,‬کس ُر خ پے نماز پڑھنی ہے‪ ,‬لوگوں میں کیسے گ ُ ھلنا ملنا ہے‪,‬‬
‫اور زندگی کے باقی معامالت کس طرح پورے کرنے ہیں یہ سب ہمیں‬
‫شریعت بتاتی ہے۔ طریقت آسمان ہے۔ تو جسے آسمان مل جائے ا ُس‬
‫کے قدم زمین پر نہیں رہتے‪ ,‬بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اتنے قدآور‬
‫ہوتے ہیں کہ زمین اور آسمان ایک ساتھ تھام کے چلتے ہیں۔ ا ِس لیے‬
‫شریعت والے شریعت ہی کے ہو کے رہ جاتے ہیں اور طریقت والے‬
‫طریقت میں ہی ڈوبے رہتے ہیں‪ ,‬لیکن اہ ِل طریقت‪ ,‬اہ ِل شریعت سے‬

‫‪84‬‬
‫بہتر ہیں اگر وہ پر ہیزگار ہوں تو۔" وہ کہتے کہتے ُر کا تو ا ُس کے‬
‫کزن نے کہا "اب پرہیزگاری کہا سے آ گئی۔؟ جب اہ ِل طریقت نے‬
‫شریعت ہی چھوڑ دی تو کس بات کی پرہیزگاری۔؟" ا ُس نے اپنے کزن‬
‫کا سوال س ُ ن کر کہا "پرہیزگاری ہی تو وہ شے ہے جو اہ ِل شریعت‬
‫اور اہ ِل طریقت کو شریعت یا طریقت کا ا ہل بناتی ہے۔ اگر پرہیزگاری‬
‫نہیں ہے تو شریعت‪ ,‬طریقت سب بے س ُ ود ہے۔ پرہیزگاری یہ ہے کہ‬
‫گناہ سے دور رہے‪ ,‬اپنے نفس پر قابو رکھے‪ ,‬لوگوں سے احسان کا‬
‫ح کم کی تعمیل کرے‪ ,‬اگر‬ ‫رویہ اختیار کرے اور ہر حال میں الل ّٰ ہ کے ُ‬
‫کسی میں یہ خصوصیات ہیں تو وہ پرہیزگار کہالنے کے ال ئق ہے"‬
‫ا ُس کے کزن نے ا ُسے ٹوکتے ہوئے کہا "لیکن یہ سب عمل تو شریعت‬
‫کا ح صّ ہ ہیں۔" ا ُس نے کہا "ہاں کیونکہ انسان کتنا ہی ب ُ لند کیوں نہ ہو‬
‫جائے ا ُسے رہنا زمین پے ہی پڑتا ہے۔ اسی زمین پر زندگی گ ُ زار کر‬
‫شریعت‪ ,‬طریقت‪ ,‬معارفت اور حقیقت کی سیڑھیاں چڑھی جاتی ہیں۔‬
‫جہ اں تک بات ہے کہ دونوں میں سے کیا چیز زیادہ ضروری ہے تو‬
‫میں کہوں گا کہ باطن ذیادہ ضروری ہے۔ میں نے حضرت علی کا‬
‫ایک فرمان س ُ نا تھا جو کچھ اس طرح تھا کہ تمہاری نیت کتنی ہی‬
‫صاف کیوں نہ ہو لیکن لوگ تمہیں تمہارے دکھاوے سے پہچانتے ہیں‬
‫اور تمہارا دکھاوا کتنا ہی عا لی شان کیوں نہ ہو الل ّٰ ہ تمہیں تمہاری نیت‬
‫سے پہچانتا ہے۔" تو میں نے دکھاوا چھوڑ دیا۔ میں نہیں چاہتا کہ لوگ‬
‫مجھے کچھ سمجھنا شروع ہو جائیں‪ ,‬ت ُو سوچ سکتا ہے کہ ا ُس وقت کیا‬
‫حالت ہوتی ہے جب لوگ آپ کو کوئی الل ّٰ ہ واال سمجھ کر آپ سے د ُعا‬
‫کرنے کو کہیں اور آپ کو اپ نا آپ خالی دکھائی دے‪ ,‬میں ڈر جاتا ہوں‪,‬‬
‫اور جس ال ل ّٰ ہ والے کو میں جانتا ہوں ا ُسے یاد کرتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں‬
‫"الل ّٰ ہ پاک خیر کرسی" تو میں بھی کہہ دیتا ہوں "الل ّٰ ہ خیر کرے گا"‬
‫جب میں کہہ دیتا ہوں تو مجھے پھر سے خوف آتا ہے کہ اگر ا ِس کی‬
‫د ُعا قبول نہ ہوئی تو ا ِس کا آج کے الل ّٰ ہ والوں پر یقین اور گھٹنے کا‬
‫خدشہ ہے اور اگر د ُعا قبول ہو گئی تو مجھ پے یقین بڑھنے کا اندیشہ‬
‫ہے‪ ,‬تو ال ل ّٰ ہ نے اگر ا ُن کی د ُعا قبول کرنی ہے تو میرے کہے بغیر‬
‫بھی پوری کر دے گا میں کیوں الل ّٰ ہ اور بندے کے بیچ د ُعائیں قبول‬
‫کروانے واال بن کے بیٹھ وں۔؟ میں نے کسی سے نہیں کہا کہ میں کچھ‬
‫ہوں۔" کہتے کہتے ا ُس کی آواز ب ھَ ّر ا سی گئی۔ "میں کوئی نہیں ہوں‪,‬‬
‫‪85‬‬
‫جو ہیں وہ میرے ُم رشد پاک ہیں۔ یہ بات میں نے لوگوں کو سمجھانے‬
‫کی بہت کوشش کی کہ اصل ذات میرے ُم رشد پاک کی ہے‪ ,‬میں نے‬
‫سب کو اس ِم الل ّٰ ہ ذات کی دعوت دی لوگوں نے ذکر بھی لیا لیکن سب‬
‫کو اپنی دنیا پیاری ہے‪ ,‬میں نے الل ّٰ ہ میاں سے بھی کہا کہ آپ کیوں‬
‫پوری کر دیتے ہیں ہر بات۔؟ اگر وہ میری ہر بات کو پورا نہ کریں تو‬
‫بھی ا ِن لوگوں سے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تو میں‬
‫نے یہ راہ اختیار کی۔ اور الحمد لل ّٰ ہ سکون ہے مجھے۔ میں لوگوں کو‬
‫چ ا ہوں میں۔‬‫صوفی ساب بن کے دھوکہ نہیں دینا چاہتا۔ ابھی تو بہت ک ّ‬
‫جس دن مجھے لگا کہ پک گیا ہوں ا ُس دن میں خود لوگوں کو آواز‬
‫دے کر بالؤں گا لیکن ابھی مجھے میرے حال پے چھوڑ دو ا ُس کے‬
‫کزن نے مسکراتے ہوئے کہا "اچھا چلو چھوڑ دیا آپ کو آپ کے حال‬
‫پے لیکن شریعت اور طریقت میں سے کیا اہم ہے یہ تو بتاؤ" تو ا ُس‬
‫نے کہا "شریعت ظاہر ہے اور طریقت باطن ہے۔ ہم لوگ باطن‬
‫سنوارے بغیر ہی ظاہر سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں ا ِس لیے سارے‬
‫مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ نیت باطن کا‬
‫ح صّ ہ ہے ہم دین ایک دوسرے پر اور خود پر بھی تھوپنے کی کوشش‬
‫کرتے ہیں۔ ڈنڈے کے زور پر اعمال کی ادائیگی سے ہم جسم کو تو‬
‫عادی بنا لیتے ہیں لیکن دل۔؟ دل نہیں راضی ہوتا‪ ,‬دل تب تک نہیں‬
‫مانتا جب تک کہ وہ خود سے نہ جان لے۔ اسی لیے اولیاء کرام لوگوں‬
‫کے دلوں کی تربیت کرتے ہیں۔ اکثر پہاڑ جیسے اعمال پے انسان کو‬
‫وہ مقام حاصل نہیں ہو پاتا جو ایک چھوٹی سی نیت پے مل جاتا ہے۔‬
‫تو میں یہ کہوں گا کہ شریعت اور طریقت کی ضرورت اور حقیقت‬
‫میں بھی ا ُتنا ہی فرق ہے جتنا کہ عمل اور نیت میں ہے۔ عمل‪ ,‬نیت‬
‫کے بغیر ادھورا ہے لیکن نیت‪ ,‬عمل کے بغیر بھی کچھ مق ام رکھتی‬
‫ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محض نیت کی جائے اور‬
‫عمل ترک کر دیا جائے بلکہ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نیت کو‬
‫ا ِس قدر خالص کیا جائے کہ وہ خود بہ خود عمل سے ظاہر ہو۔ رسول‬
‫ال ل ّٰ ہ صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم نے ہر حال میں نماز قائم رکھنے کا‬
‫ح کم دیا ہے‪ ,‬کسی بھی حال میں نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے‪,‬‬ ‫ُ‬
‫لیکن پھر بھی ہم عام لوگوں سے نماز چ ھُ وٹ ہی جاتی ہے اور ہمیں‬
‫احساس بھی نہیں ہوتا‪ ,‬کیوں کہ ہم نماز اس لیے نہیں پڑھتے تاکہ نماز‬
‫‪86‬‬
‫قائم کر سکیں بلکہ ا ِس لیے پڑھتے ہیں کیونکہ یہ فرض کی گئی ہے۔‬
‫جب ہم ا ِسے محض ف رض سمجھ کر ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو‬
‫نماز کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کو کہتے س ُ نا ہے کہ‬
‫ہم نماز تو پڑھتے ہیں لیکن یہ ہمیں گناہوں سے نہیں روکتی۔ نماز کا‬
‫اصل مقصد الل ّٰ ہ کی یاد قائم کرنا ہے۔ جب ہم نماز شروع کرتے ہیں تو‬
‫پہال خیال ہم یہ کرتے ہیں کہ ہم الل ّٰ ہ کے سامنے موجود ہیں‪ ,‬وہ ہمیں‬
‫دیکھ اور س ُ ن رہا ہے‪ ,‬پھر تمام ب ُ رے خیالوں سے بچتے ہوئے باقی کی‬
‫نماز ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن نماز ختم ہونے پر ہم بھول‬
‫جاتے ہیں کہ الل ّٰ ہ ہمیں دیکھ اور س ُ ن رہا ہے۔ بزرگا ِن دین نے ظاہری‬
‫نماز ا ِس لیے ترک نہیں ک ی کیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو عام لوگ ا ِس‬
‫کی مثال بنا لیتے اور نماز ترک کرنا شروع کر دیتے اور ا ِس طرح‬
‫ایک عام انسان کے گمراہ ہونے کا احتمال تھا ا ِس لیے کامل ب ُ زرگا ِن‬
‫دین نے نماز کی سخت سے سخت پابندی کی اور لوگوں کو بھی یہی‬
‫حکم دیا۔ نماز فرض ادا کرنے کی نہیں ہے بلکہ قائم کرنے کی چیز‬
‫ہے۔ کیا کوئی شخص الل ّٰ ہ کے حضور اپنا فرض پورا کر سکتا ہے۔؟‬
‫اس ٹوٹی پھوٹی عبادت سے تو کیا‪ ,‬ہم اپنی جان دے کر بھی بندگی کا‬
‫حق ادا نہیں کر سکتے۔ تو انسان کو چاہیے کہ جتنی شریعت اپنانا ا ُس‬
‫کے بس میں ہو‪ ,‬اپنائے اور ا ُسے بڑھانے کی کوشش کرتا رہے اور‬
‫اپنے اعمال کے پیچھے موجود اپنی نیت کو بہتر سے بہتر کرنے کی‬
‫کوشش کرتا رہے‪ُ ,‬م رشد ُم رید کی نیت ہی کی تربیت کرتا ہے تاکہ وہ‬
‫ُم رید کے عمل سے ظاہر ہو سکے‪ ,‬جب نیت س ُ دھرتی ہے تو عمل خود‬
‫با خود درست ہو جاتا ہے‪ ,‬اب وہ عمل لوگوں کو نظر آتا ہے یا نہیں‬
‫ا ِ س چیز کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے۔ لیکن جو شخص لوگوں کو‬
‫دعوت دے رہا ہے ا ُس کے لیے ا ِس چیز کا دھیان رکھنا بھی واجب‬
‫ہے کہ لوگ ا ُس کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں کیونکہ وہ لوگوں‬
‫تک ہدایت پہنچانے کا ذریعہ ہے اگر وہ شریعت کی پابندی نہیں کرے‬
‫گا اور راہ سے بھٹکے گا ت و اپنے ساتھ باقی لوگوں کا بھی نقصان‬
‫کرے گا‪ ,‬ا ِس لیے ایسا شخص س ُ لطان باہو رح کی تعلیمات کے مطابق‬
‫ُم رشد کہالنے کے الئق نہیں ہے‪ ,‬لیکن ا ِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ‬
‫جو شریعت پے پوری طرح کاربند نہ ہو وہ ُم رید کہالنے کے الئق بھی‬
‫نہیں ہے۔ ُم رید کو چاہیے کہ طریقت کے س اتھ ساتھ شریعت پر بھی‬
‫‪87‬‬
‫دھیان دے تاکہ کاملیت کی جانب سفر کر سکے لیکن اگر وہ ایسا نہیں‬
‫کر پاتا تو ا ِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ طریقت سے بھی نابلد رہے‬
‫گا۔" ا ُس کے کزن نے کہا "تیری بات مجھے ہضم ہو رہی ہے لیکن‬
‫پھر بھی کچھ کسر ہے ابھی بھی" ا ُس نے مسکرا کر کہا "ہا ں تھوڑی‬
‫سی کسر رہ جانی چاہیے کیوں کہ یہی کسر انسان میں آگے بڑھنے کی‬
‫چاہ کو بڑھاوا دیتی ہے۔"‬

‫‪88‬‬
‫''باب۔ ‪'' 10‬‬
‫ا ُس کے کزن نے کہا "ہاں یہ تو ہے‪ ,‬اچھا ایک بات اور‪ ,‬یہ جو کہتے‬
‫ہیں کہ انسان کے درجات ب ُ لند ہوتے ہیں‪ ,‬یہ کیا ہوتا ہے‪ ,‬کیا ا ِس کی‬
‫کوئی حقیقت بھی ہے یا یہ کوئی خیالی بات ہے۔؟" ا ُس نے ہنس کے‬
‫کہا "لگتا ہے آج پھر ت ُو میرا امتحان لینے کے چکر میں ہے‪ ,‬مجھے‬
‫نہیں لگتا کہ یہ سب جو ت ُو مجھ سے پوچھ رہا ہے‪ ,‬وہ خود تجھے‬
‫معلوم نہیں ہے‪ ,.‬اور جب تجھے پتا ہے تو مجھ سے پوچھنے کی کیا‬
‫ضرورت ہے۔؟" ا ُس کے کزن نے کہا "ہاں مجھے پتا ہے لیکن میں‬
‫جاننا چاہتا ہوں کے ایک تربیت یافتہ ُم رید جو سب کچھ پڑھ کے سیکھ‬
‫کے آیا ہے اور ایک ایسا ُم رید جو گھر بیٹھا ذکر فکر میں مصروف‬
‫ہے دونوں میں کیا فرق ہے" ا ُس نے ہنس کے کہا "اگر یہ بات تھی تو‬
‫ت ُو سیدھے سیدھے یہی سوال پوچھ لیتا‪ ,‬خیر جہاں تک بات ہے فرق‬
‫کی تو فرق صرف طلب کا ہوتا ہے‪ُ ,‬م رشد کی طرف سے کبھی کمی‬
‫نہیں ہوتی‪ ,‬وہ سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے‪ ,‬سب پے ایک سا‬
‫مہربان ہوتا ہے‪ ,‬پھر جس کی جتنی طلب ہوتی ہے وہ ا ُتنا ہی حاصل‬
‫کر پاتا ہے‪ ,‬جس جگہ ایک عام ُم رید تربیت حاصل کرتا ہے ا ُسی جگہ‬
‫س ُ لطان صاح ب کے اپنے بیٹے بھی ا ُسی ماحول میں تربیت حاصل کر‬
‫رہے ہیں۔ آپ (رح) چاہتے تو ا ُن کے لیے الگ انتظام فرما سکتے‬
‫تھے یا یوں کہتے کہ تم تو میرے بیٹے ہو تو تم پے ایسے ہی میری‬
‫نظر کرم ہے تمہیں تربیت کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لیکن آپ‬
‫(رح) نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ یہ شر یعت کا تقاضا تھا‪ ,‬جسے آپ (رح)‬
‫نے پوری طرح نبھایا۔ اب آتے ہیں طریقت کی جانب‪ ,‬جہاں ُم رشد کی‬
‫نظر سے سب کام چلتا ہے وہ چاہے تو ایک پل میں دل کھول دے اور‬
‫چاہے تو ُم رید کو آزمائے‪ ,‬میں نے س ُ نا کہ ایک شخص س ُ لطان محمد‬
‫اصغر علی (رح) کی خدمت میں تربیت حاصل کرنے کے لی ے پیش ہوا‬
‫تو آپ (رح) نے ا ُسے تربیت گاہ میں جانے کو کہا جب وہ شخص ایک‬
‫طویل سفر کرنے کے بعد تربیت گاہ میں داخل ہو رہا تھا تو تربیت گاہ‬
‫میں موجود فون کی گھنٹی بجی وہاں موجود ا ُستا ِد محترم نے جب فون‬
‫ا ُٹھایا تو س ُ لطان محمد اصغر علی (رح) بات کر رہے تھے‪ ,‬آپ نے‬
‫‪89‬‬
‫فر مایا "یہ جو شخص دروازے سے داخل ہو رہا ہے ا ِس سے کہو کہ‬
‫ا ِس کی تربیت ہو گئی ہے‪ ,‬فالں جگہ جا کے بیان کیا کرے ۔ " ا ِس‬
‫واقعے سے صاف ظاہر ہے کہ طلب اور عطا کا میزان ُم رشد کی نگاہ‬
‫مقرر کرتی ہے۔ ایک ُم رید جس قدر اپنا آپ اپنے ُم رشد کو پیش کرتا‬
‫ہے‪ُ ,‬م رشد کی ذات ا ُتن ا ہی ا ُسے عطا کرتی ہے اور اپنا آپ پیش کرنا‬
‫یہ نہیں ہے کہ ہم جا کے ا ُن کی خدمت میں پیش ہو گئے کہ ہم تربیت‬
‫کے لیے آئے ہیں بلکہ ُم رشد کو اپنا آپ پیش کرنا یہ ہے کہ ہم ا ُن کی‬
‫سکھائی راہ چلتے ہوئے اپنی خواہش کو الل ّٰ ہ کی رضا کے تابع کرنے‬
‫کی کوشش کریں‪ ,‬زندگی کے ہ ر موڑ پر ُم رشد کی طرف سے ملنے‬
‫والے سبق پر دھیان دیں کہ ُم رشد ہمیں کیا سمجھانا چاہ رہا ہے۔ تو‬
‫جس نے اپنا آپ ُم رشد کو سونپ دیا وہ گھر بیٹھے بھی سیکھ سکتا ہے‬
‫اور جس نے اپنے ُم رشد کو اپنا آپ نہ سونپا وہ ُم رشد کے پاس رہ کر‬
‫بھی نہیں سیکھ سکتا۔ ایک بات اور کہہ دو ں کہ تربیت کر کے‬
‫تقوی‬
‫ٰ‬ ‫سیکھنے والے اور گھر بیٹھے سیکھنے والے میں موازنہ صرف‬
‫کی بنیاد پے کیا جا سکتا ہے۔ جو حکمت و دانائی ُم رشد کی صحبت‬
‫میں رہ کر سمجھ آتی ہے ا ُس کا کوئی بدل نہیں ہے لیکن الل ّٰ ہ کی عطا‬
‫پے زمان و مکاں کی قید نہیں ہے۔ اس لیے ُم ریدین کے بیچ ُم ر شد کی‬
‫عطا کے حوالے سے موازنہ کرنا بے سود ہے۔" اتنا کہہ کر وہ‬
‫خاموش ہوا تو ا ُس کے کزن نے کہا "ٹھیک ہے میں سمجھ گیا‪ ,‬ویسے‬
‫یہ سوال میں نے تجھے دیکھنے کے لیے پوچھا تھا کہ ت ُو کیا سوچ‬
‫رکھتا ہے‪ ,‬کہیں تیرے اندار تکبر کی غالظت تو اکھٹی نہیں ہو رہی‪,‬‬
‫اب سکون ہے مجھے لیکن ہر ایک کو تم یہ سب نہیں سمجھا سکتے‪,‬‬
‫خیر مجھ سے کئی لوگوں نے تیرے بارے میں بہت سے سوال کیے‬
‫ا ِس لیے میں یہ سب پوچھ رہا ہوں‪ ,‬چلو اب درجات والے سوال کا بھی‬
‫جواب دو ۔ ا ُس کا کزن واپس اپنے سوال پر آیا تو ا ُس نے مسکراتے‬
‫ہوئے کہا " ا ِس کا مطلب ت ُو سارے جواب جان تے ہوئے بھی مجھ سے‬
‫جواب لیے بغیر میری جان نہیں چھوڑے گا۔؟" تو ا ُس کے کزن نے‬
‫شوخی سے کہا "زندگی کے پرچے میں سب سوال الزم ہیں‪ ,..‬چلو‬
‫شروع ہو جاؤ۔" ا ُس نے بےچاری سی شکل بنا کر کہا "چل اب ساری‬
‫رات ت ُو نے میری ہی س ُ ننی ہے تو یہ بھی س ُ ن لے۔ جسم مٹی ہے اور‬
‫روح ال ل ّٰ ہ کا نور ہے‪ ,‬ہر انسان کا جسم آج بھی زمین پے اپنی ماں کے‬
‫‪90‬‬
‫پیٹ میں تیار ہوتا ہے اور روح آسمان سے بھیجی جاتی ہے۔ اس کا‬
‫مطلب کہ انسان کا جسم زمین سے ا ُٹھتا ہے اور روح آسمان سے نازل‬
‫ہوتی ہے۔ تمام نور ایک ہے‪ ,‬مطلب ا ُس میں دوئی نہیں ہے اور نور‬
‫ایک لباس سے دوسرے لباس میں داخل ہو جانے سے ٹوٹتا نہیں ہے۔‬
‫الل ّٰ ہ کا ن ُ ور‪ ,‬ایک سمندر کی مانند ہے۔ سوچو کہ جو ذات ہر جگہ‬
‫موجود ہے ا ُس نے یقینا ً سمندر کی مانند ہمیں گھیر رکھا ہو گا۔ اب‬
‫سوچو کہ ا ُس نور کے سمندر کے الگ الگ درجوں کے پانی کو الگ‬
‫الگ نام دے دیے گئے‪ ,‬کسی درجے کو ع رش و ک ُ رسی کا نام دیا گیا‬
‫تو کسی درجے کو جنت اور کسی درجے کے نور کو مالئکہ یا‬
‫او ل درجے کے نور کو انسان کہا اور‬ ‫فرشتوں کا نام دیا۔ ا ُس نے ّ‬
‫آخری درجے کو جنات کہہ کر پکارا۔ نور کے سمندر کے ب ُ لند ترین‬
‫قطروں کو یعنی انسان کو آزمائش کی خاطر پست ترین مقام یعنی‬
‫زم ین پر ا ُتارا جاتا ہے۔ جب یہ ایک قطر یا روح سفر کرتی ہوئی ب ُ لند‬
‫ترین مقام سے پست ترین مقام یعنی زمین تک پہنچتی ہے تو اپنے‬
‫پیچھے ایک راستہ چھوڑ آتی ہے۔ انسان اپنے اچھے ب ُ رے اعمال اور‬
‫نیتوں سے ا ُس راستے کے قریب یا دور ہوتا ہے۔ جس کے اندر جتنا‬
‫ح ب ہو گا وہ ا ُت نا ہی ا ُس راستے پے آگے جا سکتا ہے۔ یہ راستہ اصل‬ ‫ُ‬
‫میں الل ّٰ ہ کی جانب واپسی کا راستہ ہے کہ جس ب ُ لند ی سے ا ُتار کر‬
‫تمہیں زمین پے بھیجا گیا ہے‪ ,‬اگر تم الل ّٰ ہ کے ساتھ خ الص ہو جاؤ تو‬
‫تم واپس ا ُسی ب ُ لند ی کو پہنچ سکتے ہو۔ ا ِس جسم میں رہتے ہوئے‬
‫انسان کا دل الل ّٰ ہ کے جتنا قریب یا دور ہوتا جاتا ہے ا ُس کے ا ُس کے‬
‫درجات ا ُتنے ہی ب ُ لند یا پست ہوتے جاتے ہیں۔ ا ِن درجات کی ب ُ لندی‬
‫کے سفر میں ایک حد تک کے درجات عمل سے حاصل کیے جا سکتے‬
‫ہیں" وہ ایک پل ُر کا تو ا ُس کے کزن نے تجسس سے پوچھا "کس حد‬
‫تک۔؟" ا ُس نے مسکرا کر کہا "وہی بتا رہا ہوں‪ ,‬ابلیس کی حد تک کے‬
‫درجات محض عمل سے حاصل کیے جا سکتے ہیں‪ ,‬مطلب یہ کہ ایک‬
‫شخص جس کے دل میں الل ّٰ ہ کی محبت نہیں ہے وہ محض عباد ا ت کر‬
‫کے وہاں تک پہنچ سکتا ہے جہاں تک ابلیس پہنچا تھا‪ ,‬ا ُس کے دل‬
‫میں الل ّٰ ہ کے لیے سب کچھ تھا بس محبت نہیں تھی‪ ,‬وہ عابد‪ ,‬زاہ د‪,‬‬
‫حب‬ ‫ح ب سے خالی تھا کیونکہ اہ ِل ُ‬
‫عالم‪ ,‬فاضل‪ ,‬سب کچھ تھا مگر ُ‬
‫تکبر نہیں کرتے‪ ,‬وہ جس مقام تک پہنچا ا ُس مقام تک کوئی بھی انسان‬
‫‪91‬‬
‫ح ب سے خالی عباد ا ت کر کے بھی پہنچ سکتا ہے ۔ ا ِس سے آگے کے‬ ‫ُ‬
‫درجات عشق سے طے کیے جاتے ہیں‪ ,‬ابلیس سے آگے کے درجات‬
‫کے بھی الگ الگ مقام او ر الگ الگ رنگ ہیں‪ ,‬ا ِن تمام مقامات یا‬
‫درجات کو اکھٹا کر کے مقام انسان کہا جاتا ہے‪ ,‬مقا ِم انسان کی ابتدا‬
‫یہاں سے ہوتی ہے کہ انسان دوسرے لوگوں کے لیے بے ضرر ہو‬
‫جائے۔ پھر مقام آتا ہے اپنی اصالح کا۔ اپنی اصالح کرنا ایک طویل‬
‫سفر ہے بلکہ جب تک انسان اپنے جسم کی قید میں ہے اپنی اصالح کا‬
‫سفر جاری رہتا ہے‪ ,‬انسان میں ایک خاصیت یہ ہے کہ جیسے دنیا میں‬
‫ایک ہی شخص الگ الگ درجات رکھتا ہے مث ال ً وہ کسی کا بیٹا ہے‪,‬‬
‫کسی کا بھائی ہے‪ ,‬ا ُسی طرح باطن میں جب کوئی اپنی اصالح کا سفر‬
‫شروع کرتا ہے تو ا ُس کے درجات اکھٹے ہونا شروع ہو جا تے ہیں‬
‫اسی اصالح کے سفر میں انسان کی عشق سے ُم القات ہوتی ہے اور‬
‫جب عشق آتا ہے تو انسان درجات و مقامات کی قید سے آزاد ہو جاتا‬
‫ہے۔ "‬
‫ا ُس کے کزن نے کہا "تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ لوح ِ محفوظ‬
‫وغیرہ پڑھ لینا‪ ,‬ظاہری زندگی میں کسی کے آج اور کل کا اندازہ کر‬
‫لینا کسی بھی علم سے حاصل کیا جا سکتا ہے ‪,‬یعنی جو لوگ کسی‬
‫کے دل کا حال بتا دیتے ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے؟ "‬
‫ا ُس نے کہا "ہاں یہی بات ہے لیکن ضروری نہیں کے دل کا حال بتا‬
‫دینے والے سب لوگ غلط یا صحیح ہی ہوں‪ ,‬لیکن محض ا ِس بات پر‬
‫کہ کوئی شخص آپ کی پوشیدہ باتوں کا ع لم رکھتا ہے‪ ,‬کسی کو راہبر‬
‫نہیں مان لینا چاہیے‪ ,‬جب تک کہ آپ کا دل نہ بدلے۔ اگر کسی کی‬
‫صحبت سے آپ کا دل بدلتا ہو تو ا ُس شخص کو ضرور راہبر تسلیم‬
‫کیجیئے لیکن اگر کوئی شخص لوگوں کو محض کرتب دکھاتا رہتا ہے‬
‫اور ا ُن کے دل نہیں بدلتا تو ایسے شخص کے پیچھے نہیں چلنا‬
‫چاہیے۔ انسان کے درجات ا ُس کے چہرے سے‪ ,‬قول و فعل سے ظاہر‬
‫ہو جاتے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنہیں لوگ ا ُن کے‬
‫اعمال کی وجہ سے جانوروں کے نام سے پ ُ کارتے ہیں کیونکہ وہ لوگ‬
‫چ کے ہوتے ہیں کہ ا ُن کی‬ ‫اپنی روح کے درجات میں ا ِس قدر پست ہو ُ‬
‫زندگی کسی جانور کے مقام پر گزر رہی ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص‬
‫ال ل ّٰ ہ کی محبت میں عبادت کرتا ہے تو ا ُس کے درجات ذیادہ تیزی سے‬
‫‪92‬‬
‫ب ُ لند ہوتے ہیں اکثر لوگ درجات کے ا ِس سفر میں دنیا‪ ,‬نفس اور‬
‫شیطان کا شکار ہو جاتے ہیں‪ ,‬کسی کو لوگوں کی عقیدت لے بیٹھتی‬
‫ہے اور کسی کو دنیا کی نعمتیں راہ سے پھرنے پ ے مجبور کر دیتی‬
‫ہیں۔ ا ِن دونوں سے بچ کر جو آگے نکلتے ہیں شیطان ا ُنہیں تکبر میں‬
‫ڈالنے کی کوشش کرتا ہے جو ا ِس سے بھی بچ جاتے ہیں‪ ,‬شیطان‬
‫انہیں راہ سے بھٹک جانے کے خوف سے میں ُم بتال کرتا ہے اور جو‬
‫ا ُس مقام پر یہ کہہ دے کہ راہ اور گمراہی الل ّٰ ہ ہی کی طرف سے ہے‬
‫اور میں ا ُس کی حکمت پے ا ُس سے راضی ہوا‪ ,‬تو شیطان دفع ہو جاتا‬
‫ہے۔ جو شخص الل ّٰ ہ سے ہر حال میں راضی ہونے کی کوشش شروع‬
‫کر دیتا ہے الل ّٰ ہ ا ُسے اپنا ق ُ رب عطا کرنا شروع کر دیتا ہے اور جسے‬
‫ق ُ رب عطا ہونا شروع ہو جائے وہ باقی مقامات سے آزاد ہو جاتا ہے‬
‫پھر وہ را ہِ ق ُ رب کا راہی بن جاتا ہے اور ا ُس راہ کے درجات طے‬
‫کرتا ہے۔ جب تک انسان ا ِس جسم میں زندگی گزار رہا ہے تب تک‬
‫ا ُس کے درجات کے پست ہونے کا خدشہ رہتا ہی ہے لیکن را ہِ ق ُ رب‬
‫میں ایک ایسا مقام بھی ہے جس تک پہنچ جانے واال کبھی رد نہیں‬
‫ہوتا مطلب جو مقام ا ُسے عطا کر دیا گیا وہ مقام ا ُس سے کبھی واپس‬
‫نہیں لیا جاتا‪ ,‬خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو جائے۔ میرے خیال میں‬
‫درجات کی اتنی وضاحت سے آپ کو بات اب ٹھیک سے سمجھ آ گئی‬
‫ہو گی کہ ُم رشد پاک نے میرا ظاہر واپس پ ُ رانے واال کر دیا ہے لیکن‬
‫شیو کر لینے سے‪ ,‬جینز پہن لینے سے میرے دل کا حا ل نہیں بدل دیا‬
‫گیا۔ اب بول میں امتحان میں پاس ہوا یا فیل۔؟" ا ُس کے کزن نے‬
‫شرارت سے کہا "جاؤ کیا یاد کرو گے ‪ 77‬نمبر دے دیتا ہوں میں آپ‬
‫کو"۔ "اپنے پاس رکھ اپنے ‪ 77‬نمبر" ا ُس نے ناراض ہونے کی‬
‫ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا "تیرے ‪ 77‬نمبر کی ضروت نہیں ہے مجھے‪,‬‬
‫بات کر کر ک ے میرا حلق خشک ہو گیا اور صرف ‪ 77‬نمبر۔؟ سچ‬
‫کہتے ہیں گھر کا ُم رغا دال برابر" ا ُس کے کزن نے شریر لہجے میں‬
‫کہا " ُم رغا نہیں ُم رغی ۔‬
‫ا ُس رات ا ُس کے کزن نے ا ُس سے بہت سے سوال پوچھے اور ا ُسے‬
‫خوشی ہوئی جان کر کہ ا ُس کا کزن ا ُس کی اتنی فکر کرتا ہے۔‬
‫درحقیقت ایک دوسرے کی ایسی فکر س ُ لطان محمد اصغر علی (رح)‬

‫‪93‬‬
‫کے تقریبا ً سارے ُم ریدین میں پائی جاتی تھی۔ اور یہی فکر ایک‬
‫دوسرے کو آگے سے آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی تھی۔‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ا ُس کے بڑے کسی اور سلسلے کے ب ُ زرگ کے ُم رید تھے لیکن ا ُس‬
‫نے اور ا ُس کے بہن بھائی وغیرہ نے س ُ لط ان محمد اصغر علی (رح)‬
‫ت بیعت تھام لیا تھا ا ِس لیے اکثر ا ُس کے بڑے ا ُس سے ا ُس کے‬ ‫کا دس ِ‬
‫ُم رشد کے بارے میں طرح طرح کے سواالت کرتے جن کا مقصد‬
‫عموما ً یہ ثابت کرنا ہوتا کہ ہمارے ُم رشد تمہارے ُم رشد سے ذیادہ‬
‫پہنچ والے اور پاکباز ہیں۔ کوئی اور ہوتا تو شاید وہ ا ُسے جواب بھی‬
‫نہ دیتا لیکن اپنے بڑوں کے احترام میں ا ُن کے سواالت کا جواب دینا‬
‫ا ُس نے ضروری سمجھا۔ ا ُس سے پوچھا گیا کہ الل ّٰ ہ والے تو گوشہ‬
‫نشین ہوتے ہیں‪ ,‬عام لوگوں سے دور رہتے ہیں تو تمہارے ُم رشد نے‬
‫جماعت کیوں بنائی ہوئی ہے۔؟ ہر چھوٹے بڑے شہر میں ا ُن کے دفتر‬
‫کیو ں ہیں۔؟ اور مریدین کی تربیت کے لیے باقائدہ تربیت گاہ اور‬
‫تربیتی کورس بھی ہے‪ُ ,‬م رشد کو کیا ضرورت ہے ُم ریدین کو کتابیں‬
‫پڑھانے کی۔؟ تو ا ُس نے کہا کہ "میرے ُم رشد پاک س ُ لطان محمد اصغر‬
‫علی (رح) نے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی ایسی جماعت ہو‬
‫جو اولیاء کی تعل یمات قرآن و س ُ ن ّ ت کی روشنی میں لوگوں تک‬
‫پہنچائے‪ ,‬اس مقصد سے آپ (رح) نے اصالحی جماعت و عالمی تنظیم‬
‫العارفین کے نام سے ایک جماعت تشکیل دی اور اپنے قریبی ساتھیوں‬
‫کے ساتھ ا ِس مشن کی تکمیل میں لگ گئے۔ آپ (رح) نے ا ِس مشن کی‬
‫تکمیل کے لیے اپنی زندگی اپنا گھر بار ا پنی اوالد سب کچھ وقف کر‬
‫دیا۔ ا ِس جماعت کی تربیت کے لیے آپ (رح) نے ایسا تربیتی کورس‬
‫تیار کروایا جس میں کچھ خاص مضوعات پے بات کی گئی مث ال ً انسان‬
‫کی تخلیق کے اغراض و مقاصد کیا ہیں انسان کیوں آیا ا ِس دنیا میں‬
‫اور ا ِسے کہاں جانا ہے۔ یہ وہ بنیادی سوال ہیں جو ہر ایک کے دل‬
‫میں رہتے ہیں‪ ,‬اصل میں یہی سوال دل کی گرہ ہوتے ہیں جس انسان‬
‫کو پتا ہی نہیں ہے کہ الل ّٰ ہ نے ا ُس کی تخلیق کیوں کی ہے وہ کسی‬
‫بھی مذہب یا مسلک میں رہ کر ا ُلجھا رہے گا‪ ,‬جب ا ُسے اپنے بنیادی‬
‫‪94‬‬
‫سواالت کا جواب ِم ل جاتا ہے تو ا ُس کے دل کی گرہ ک ُ ھل جاتی ہے‪,‬‬
‫عا م طور پے ہمارے ہاں ایسے سوال پوچھنے یا سوچنے کی اجازت‬
‫ہی نہیں دی جاتی۔ مجھ سے ایک دفعہ میرے چھوٹے بھائی کے دوست‬
‫نے پوچھا "الل ّٰ ہ کون ہے اور کہاں سے آیا‪ ,‬کیا ا ُس سے پہلے بھی‬
‫کوئی تھا۔؟" پھر شرمندہ سے لہجے میں کہا "میں نے یہ سوال کئی‬
‫لوگوں سے کیا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا بلکہ اس سوال کے جواب‬
‫میں میں نے بہت سخت الفاظ میں ڈانٹ بھی کھائی کہ ایسی سوچ نہیں‬
‫رکھنی چاہیے‪ ,‬ایک دو نے جواب بھی دیا کہ نہ تو ا ُس سے پہلے کچھ‬
‫ہے اور نہ ا ُس کے بعد کچھ ہو گا‪ ,‬وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے‬
‫گا‪ ,‬لیکن ا ِس بات سے میرے دل کو تسلی ن ہیں ہوئی اور جب یہ بات‬
‫کسی سے کہہ دو کہ دل کی تسلی نہیں ہوئی تو لوگ کہتے ہیں کہ‬
‫تمہارے دل پے مہر لگ گئی ہے کہ قرآن و حدیث کی بات س ُ ن کر بھی‬
‫تمہارے دل کی تسلی نہیں ہوتی‪ ,‬نماز پڑھا کروں‪ ,‬شلوار قمیض پہنا‬
‫کرو‪ ,‬یا کسی اور نصیحت پے بات شروع ہو جاتی ہے‪ ,‬لیکن دل ک ی‬
‫تسلی نہیں ملتی۔" تو میں نے ا ُس سے کہا کہ "تم نے لفظ ُم عجزہ س ُ نا‬
‫ہو گا‪ ,‬معجزات الل ّٰ ہ کا امر ہوتے ہیں‪ ,‬ہم سب مانتے ہیں کہ معجزات‬
‫موسیٌ نے عصا پھینکا مگر‬ ‫ٰ‬ ‫ظاہر کرنے واال الل ّٰ ہ ہی ہے۔ حضرت‬
‫ا ُسے اژدھا الل ّٰ ہ نے بنایا‪ ,‬اب سوچو کہ معجزہ صرف الل ّٰ ہ کی ذات سے‬
‫ک یوں منسوب ہوتا ہے۔؟ تو ا ِس کا جواب یہ ہے کہ الل ّٰ ہ اپنے آپ میں‪,‬‬
‫اپنی ذات کا سب سے بڑا معجزہ خود ہے‪ ,‬وہ ایسی ذات ہے جو خود‬
‫ہی خود سے ہے‪ ,‬اور ایسی ذات اور کوئی نہیں ہے جو ہمیشہ سے ہو‬
‫اور ہمیشہ رہے تو وہ اپنے آپ کا خود ہی سب سے بڑا معجزہ ہے‪,‬‬
‫ا ِس لیے تمام معجز ات ا ُس کی ذات سے منسوب کیے جاتے ہیں۔" میرا‬
‫جواب س ُ ن کر وہ مطمئن ہو گیا‪ ,‬میں نے ا ُسے کوئی ایسی بات نہیں‬
‫بتائی جو وہ پہلے سے نہیں جانتا تھا لیکن کسی بھی بات کو حکمت‬
‫سے بیان کیا جائے تو لوگوں کے دل تک پہنچا جا سکتا ہے‪ ,‬جب کسی‬
‫کتاب کا پہال سبق ہی غائب کر دیا ج ائے تو کتاب کیسے سمجھ آئے‬
‫گی۔؟ اکثر جب ہمارے پہلے سوال کا جواب ہمیں نہیں ملتا تو دوسرا‬
‫سوال پوچھنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔ لوگ انہی الجھنوں میں زندگی‬
‫گ ُ زار دیتے ہیں کہ شاید میری نماز صحیح نہیں ہے یا دل پے ُم ہر لگ‬
‫چ کی ہے اب میں دین سمجھنے کے الئق ہی نہیں رہا ‪ ,‬ا ِس لیے‬ ‫ُ‬
‫‪95‬‬
‫معاشرے میں ایسے لوگ ہونے چاہیے ہیں جو لوگوں کو ا ِن بنیادی‬
‫الجھنوں سے نکال کر الل ّٰ ہ کی جانب بڑھنے کا حوصلہ دے سکیں۔ یہی‬
‫وہ چیز ہے جو س ُ لطان محمد اصغر علی (رح) نے اپنے مریدین کو‬
‫سکھائی‪ ,‬جب ایک ُم رید کے اپنے دل کی گرہ کھل جاتی ہے تو وہ‬
‫دوسروں کے دل کی گرہ کھولنے کے الئق ہو جاتا ہے‪ ,‬اگر کسی‬
‫بزرگ ہستی نے ا ِس ترتیب کو عام کرنے کی کوشش کی تو یقینا ً انہوں‬
‫نے ایک اچھا عمل سرانجام دیا بلکہ میں تو کہتا ہوں اولیاء کے دیگر‬
‫سلسلوں کو بھی ا ِس کوشش کا ح صّ ہ بننا چاہیے اور اگر آپ لوگ ا ِس‬
‫کوشش کا ح صّ ہ نہیں بننا چاہ تے تو کم از کم ا ِس کے خالف تو َم ت‬
‫جائیں۔ "‬
‫ا ُس سے کہا گیا کہ "تمہارے ُم رشد پاک اتنی بڑی جماعت چال رہے‬
‫ہیں‪ ,‬ظاہر ہے ُم ریدین ہی ساری فنڈنگ کرتے ہوں گے‪ ,‬تو پھر تو یہ‬
‫پیسے کا کھیل بھی تو ہو سکتا ہے" ا ُس نے ا ِس سوال کا جواب کچھ‬
‫یوں دیا کہ "یہ سب پیسے اکھٹے کرنے کا ڈھنگ نہیں ہے ا ِس کی سب‬
‫سے بڑی دلیل ہمارے اپنے دل کا بدالؤ ہے جو ہمیں ہمارے ُم رشد کا‬
‫گرویدہ بناتا ہے۔ اور بات یہ ہے کہ کسی ُم رید سے جبر ا ً پیسے نہیں‬
‫لیے جاتے‪ ,‬جس کا دل مانتا ہے وہ فنڈنگ کرتا ہے‪ ,‬ہم سب لوگ اپنے‬
‫اپنے انداز سے الل ّٰ ہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں‪ ,‬کوئی غریبوں کو اپنا‬
‫مال دینا‪ ,‬الل ّٰ ہ کی راہ میں خرچ کرنا سمجھتا ہے تو کوئی رشتے‬
‫داروں یا دوستوں کی مدد کرنا افضل سمجھتا ہے‪ ,‬کوئی مسجد‪ ,‬مندر‬
‫کے ڈبے میں پیسے ڈال کر اپنے رب کی راہ میں خرچ کرنے کا س ُ کھ‬
‫حاصل کرتا ہے۔ ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ ا ُس کے خون‬
‫پسین ے کی کمائی بہترین مصرف تک پہنچے‪ ,‬تو ہمیں اپنے ُم رشد پاک‬
‫کے پیغام کو عام کرنا الل ّٰ ہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بہترین ذریعہ‬
‫محسوس ہوتا ہے۔ اور ا ِس سے بہتر پیغام کیا ہو گا کہ "دوڑو‪ ,..‬الل ّٰ ہ‬
‫کی طرف" ہم جانتے ہیں کہ وہ حق کا پیغام دے رہے ہیں ا ِس لیے ہم‬
‫تن‪َ ,‬م ن‪ ,‬دھن سے ا ُن کے ساتھ ہیں اور ہم سے جو ہو سکا ہم ضرور‬
‫کریں گے۔ "‬
‫ایک اور سوال جو ا ُس سے کئی بار پوچھا گیا وہ یہ تھا کہ اسالم میں‬
‫تصویر بنانا منع ہے تو آپ کے ُم رشد پاک تصویر کیوں بنواتے ہیں۔؟"‬
‫اور ا ُس کا جواب یہ تھا کہ "اسالم ہر گناہ کو جڑ سے ختم کرنے پے‬
‫‪96‬‬
‫زور دی تا ہے‪ ,‬تصاویر کی ممانعت ا ِس لیے کی گئی کیونکہ پہلے‬
‫زمانوں میں لوگ الل ّٰ ہ کے برگزیدہ بندوں کی تصویر یا ب ُ ت بنا کر ا ُن‬
‫کی پرستش شروع کر دیتے تھے رسول الل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم‬
‫اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ لوگ ایسی ہی عقیدت رکھتے ہیں کہ‬
‫اگر ہمارے پاس ا ُن کی تصاویر ہوتیں تو ہم کچھ ایسا ہی کرتے اور‬
‫شاید ا ُن کی تصاویر ا ِس لیے بھی نہیں ہیں کیونکہ ہم میں سے بہت‬
‫سے لوگ ُر خ ِ انور کا نظارہ کرنے کے الئق ہی نہیں ہیں۔ لیکن وقت‬
‫گ ُ زرنے کے ساتھ ساتھ اولیاء کی تصاویر بنائی گئیں اور اولیاء نے‬
‫لوگوں کو اپنی تصویر بنانے کی اجازت بھی دی۔ ہر تصویر ہمارے‬
‫اندر ایک تصور بناتی ہے اور آج کے دور میں جب ہمارے اندر باہر‬
‫طرح طرح کی تصاویر موجود ہیں جو ہمیں دنیا‪ ,‬نفس‪ ,‬اور شیطان کی‬
‫جانب ب ُ التی ہیں‪ ,‬ایسے دور میں ایسی تصاویر کی ضرورت ہے جو‬
‫لوگوں کو الل ّٰ ہ کی یاد دالئے‪ ,‬جب ہم مکہ‪ ,‬مدینہ کی تصاویر دیکھتے‬
‫ہیں‪ ,‬یا اپنی آنکھوں سے کسی عبادت گاہ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں الل ّٰ ہ‬
‫کی یاد آتی ہے اور ُم رشد کیونکہ اپنے ُم رید کے لیے الل ّٰ ہ کی راہ کا‬
‫راہبر ہوتا ہے ا ِس لیے ُم رید کو اپنے ُم رشد کی تصویر دیکھ کر الل ّٰ ہ‬
‫کا خیال آتا ہے‪ ,‬تو ٹیکنالوجی کا استمعال کر کے اگر کوئی ُم رید الل ّٰ ہ‬
‫کو یاد کر سکتا ہے تو کیوں نہ کرے‪ ,‬تصویر سے منع کرنے والے‬
‫شناختی کارڈ‪ ,‬پاسپورٹ وغیرہ کے معاملے میں 'مجبوری ہے' کہہ کر‬
‫تصویر کی اجازت دے دیتے ہیں لیکن لوگوں کے دلوں میں الل ّٰ ہ کی‬
‫یاد پیدا کرنے کے لیے وہی چیز کام کر رہی ہو تو نقطے ا ُٹھانا شروع‬
‫کر دیتے ہیں‪ ,‬فلمیں‪ ,‬ڈرامے دیکھنے والے لوگ جب کسی ال ل ّٰ ہ والے‬
‫کی گفتگو کی ویڈیو پر اعتراز کرتے ہیں تو مجھے بہت عجیب لگتا‬
‫ہے کہ اگر ہم نے انگلی ا ُٹھانی ہے تو ہم ب ُ رائی پے کیوں نہیں‬
‫ا ُٹھاتے۔؟ کسی فلم اسٹار کی اچھی ب ُ ری تصویریں دیکھتے ہوئے ہمیں‬
‫یاد کیوں نہیں آتا کہ تصویر بنانا منع ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہم سب‬
‫تصویریں ہی بناتے رہتے ہیں۔ رسول الل ّٰ ہ کی نماز کی تصویر بنانے‬
‫کی کوشش کرتے ہیں‪ ,‬ا ُن کے اعمال اور اخالق کی تصویر بنانے کی‬
‫کوشش کرتے ہیں‪ ,‬ہم ہر جگہ تصویر ہی تو بنا رہے ہوتے ہیں‪ ,‬بہت‬
‫سے لوگ یہاں تک م انتے ہیں کہ تصاویر کی موجودگی میں نماز ہی‬
‫نہیں ہوتی‪ ,‬تو یہ سچ ہے کہ تصاویر کی موجودگی میں نماز قاب ِل‬
‫‪97‬‬
‫قبول نہیں ہوتی لیکن یہ کمرے کی دیواروں پے لگی تصویروں کی‬
‫بات نہیں بلکہ دل کی دیواروں پے لگی تصویروں کی بات ہے کہ جب‬
‫انسان الل ّٰ ہ حضور حاضر ہو تو ا ُس کے دل میں الل ّٰ ہ کے سوا کوئی‬
‫تصویر نہ ہو‪ ,‬اسی مقصد سے اولیاء کرام الل ّٰ ہ کے نام کا تصور کر‬
‫کے نماز ادا کرنے کا درس دیتے ہیں۔ نماز کے طریقے میں ہمیں قبلہ‬
‫ُر خ سے لے کر ہمارے چہرے اور پیروں کی ا ُنگلیوں تک کا ُر خ بتایا‬
‫جاتا ہے لیکن دل کا ُر خ نہیں بتایا جاتا‪ ,‬نماز م یں پڑھی جانے والی‬
‫آیات کا تلفظ تو بتایا جاتا ہے مگر نماز کا تصور نہیں بتایا جاتا۔ اگر‬
‫ہم الل ّٰ ہ کے نام کا تصور کر کے نماز ادا کریں تو نماز میں خیال کو‬
‫بھٹکنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ُم رشد‪ُ ,‬م رید کو اس ِم ال ل ّٰ ہ کا تصور‬
‫دے کر ا ُس کا گ ُ مان درست کرتا ہے اور جب ُم ر ید کی توجہ اس ِم ال ل ّٰ ہ‬
‫پر مرکوز ہو جاتی ہے تو دورا ِن نماز ا ُس کا خیال بھٹکتا نہیں ہے اور‬
‫جب یہ تصور قائم ہو جاتا ہے تو ا ُس کی نماز بھی قائم ہو جاتی ہے۔"‬
‫ا ُس کے دوستوں‪ ,‬رشتے داروں وغیرہ نے ا ُس سے ا ُس کے ُم رشد کے‬
‫بارے میں بہت سے سوال کیے۔ ا ُس نے اپنی طرف سے بہترین‬
‫جوابات دینے کی کوشش کی‪ ,‬کسی کو بات سمجھ آئی اور کسی کو‬
‫نہیں آئی۔ لیکن ا ِس سب سے ا ُسے سمجھ آیا کہ اولیاء کرام کے‬
‫چ کے ہیں‪,‬‬ ‫سلسلوں میں بھی بہت سے لوگ توحید کے درس کو بھول ُ‬
‫ہر دوسرا شخص اپنے ُم رشد کو بہتر اور دوسرے کے ُم رشد کو کمتر‬
‫ثابت کرنے کی کوشش میں ہے‪ ,‬الگ الگ سلسلوں کے ُم رید جب مل‬
‫بیٹھتے ہیں تو اکثر ا ُن کی گ ُ فتگو کا مقصد صرف دوسرے شخص پر‬
‫اپنے پیر کی بڑائی ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے‬
‫کہ یہ میرے پیر کا ُم رید ہو جائے۔ جبکہ ہر شخص جانتا ہے کہ بیعت‬
‫نصیب سے ہوتی ہے‪ ,‬جس ولی بزرگ کے پاس کسی ک ا فیض ہو گا وہ‬
‫ا ُسی کا ُم رید ہو گا۔ بہترین عمل اور بہترین خواہش تو یہ ہے کہ‬
‫لوگوں میں الل ّٰ ہ کی جانب پلٹنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے‪ ,‬ایک‬
‫ح بِ ٰال ہی کی ترغیب دی جائے اگر کسی کی بات میں اثر‬ ‫دوسرے کو ُ‬
‫ہو گا تو لوگ خود بہ خود ا ُس کے ُم رشد کے ُم رید ہونا چاہیں گے۔‬
‫لیکن افسوس کہ لوگ بس ایک دوسرے پے ا ُنگلی ا ُٹھانا جانتے ہیں۔‬

‫‪98‬‬
‫''باب۔ ‪'' 01‬‬
‫ا ُس کی شادی کے پہلے دو سالوں میں الل ّٰ ہ نے ا ُسے ایک بیٹی اور‬
‫ایک بیٹے سے نوازا۔ ا ُس کی بہت خواہش تھی کہ اپنے بیٹے کا نام‬
‫اپنے ُم رشد پاک سے پوچھ کے رکھے لیکن جب بھی ا ُن کے سامنے‬
‫جاتا تو سب بھول جاتا کہ کیا سوال کرنا تھا۔ س ُ لطان محمد اصغر علی‬
‫(رح) کے لیے صرف ا ُسی کی نہیں بلکہ تقریبا ً ہر ُم رید کی یہی‬
‫کیفیات تھیں۔ لوگ ٹ ِ ک ٹ ِ کی باندھے ا ُنہیں دیکھا کرتے اور دیکھتے ہی‬
‫رہ جاتے۔‬
‫ایک قلیل آمدنی کے باعث ا ُس کے معاشی حاالت مسلسل خراب ہی‬
‫رہتے لیکن وہ کبھی مایوس یا بہت ذیادہ پریشان نہیں ہو پاتا اور وہ‬
‫پریشان ہوتا بھی کیوں۔؟ ا ُس نے ہمیشہ سے یہی دیکھا کہ ہر ُم شکل‬
‫شروع شروع میں ُم شکل لگتی ہے اور بعد میں آسان ہو جاتی ہے۔‬
‫ایک روز ا ُس کی بیوی نے ا ُس سے اپنی کسی پریشانی کا ذکر کیا تو‬
‫ا ُس نے حسب معمول مطمئن لہجے میں کہا "الل ّٰ ہ خیر کرے گا" تو ا ُس‬
‫کی بیوی نے پوچھا "آپ ہمیشہ اتنے ُم طمئن کیسے رہتے ہیں‪ ,‬کیا آپ‬
‫کو کسی مسئلے سے پریشانی نہیں ہوتی۔؟" تو ا ُس نے ُم سکرا کر کہا‬
‫"پریشان ہو کر ہم مسائل کو اپنے اوپر سوار کرنے کے سوا کچھ نہیں‬
‫کرتے‪ ,‬اگر پریشان ہونے سے مسئلہ حل ہو جائے گا تو بتاؤ‪ ,‬دونوں‬
‫مل کے پریشان ہوتے ہیں‪ ,‬اور اگر پریشان ہونے سے حل نہیں ملنے‬
‫واال تو کیوں نہ الل ّٰ ہ سے پ ُ ر امید رہتے ہوئے مطمئن رہ کے کوشش‬
‫کرتے ہوئے الل ّٰ ہ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔؟ ہر مسئلے کا کوئی‬
‫نہ کوئی حل ہمیشہ موجود ہوتا ہے اور وقت آنے پے ظاہر ہو جاتا ہے۔‬
‫ا ُس حل تک پہنچنے کا سفر استقامت اور اضطراب دونوں سے طے‬
‫کیا جا سکتا ہے یہی استقامت اور اضطراب ہماری اپنی نظر میں‬
‫ہمارے ایمان کا فیصلہ کرتا ہے جو ہماری روح کے سکون یا پریشانی‬
‫کا باعث بنتا ہے۔ ال ل ّٰ ہ کو ہمیں آزمانے کی حاجت نہیں ہے‪ ,‬یہ آزم ائش‬

‫‪99‬‬
‫تو ا ِس لیے ہوتی ہے تاکہ ہم خود اپنا آپ پہچان سکیں‪ ,‬ہم سب خود ہی‬
‫اپنے اچھے ب ُ رے‬
‫کے گواہ ہوتے ہیں‪ ,‬اپنے ایمان‪ ,‬استقامت‪ ,‬عجز‪ ,‬عشق‪ ,‬راہ یا گ ُ مراہی‬
‫پے ہم خود ہی دال ہوتے ہیں۔ دل کا سکون الل ّٰ ہ کی امان ہے اور‬
‫مایوسی اور پریشانی شیطان کا ہتھیار ہے جس کے ذری عے وہ لوگوں‬
‫کو الل ّٰ ہ سے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بدگمان کر کے ا ُن کا‬
‫ایمان کمزور کرتا ہے۔‬
‫" مطلب‪ ,‬آپ پریشان نہیں ہوتے۔؟" ا ُس کی بیوی نے حیرت سے پوچھا۔‬
‫ا ُس نے کہا "ہو جاتا ہوں‪ ,‬اکثر ایسی سوچ آتی ہے کہ کچھ غلط ہو‬
‫جائے گا لیکن پھر دل میں ُم رشد پاک کی آواز گونجتی ہے "الل ّٰ ہ پاک‬
‫خیر ک َرسی" اور دل کو یقین ہو جاتا ہے کہ خیر ہی ہو گی اور میں‬
‫چاہ کر بھی پریشان نہیں ہو پاتا۔ میرا فہم مجھے سمجھاتا ہے کہ جو‬
‫ہوتا ہے الل ّٰ ہ کی رضا سے ہوتا ہے‪ ,‬سوچو وہ ذات جس کی مرضی‬
‫کے بنا ایک پ ت ّا بھی نہیں ہلتا‪ ,‬ا ُس کی رضا کے بغیر ہم اری زندگی‬
‫میں بدالؤ کیسے آ سکتا ہے۔؟ تو جو بھی اچھا یا ب ُ را ہو گا وہ یقینا ً الل ّٰ ہ‬
‫کی رحمت ہی ہو گی‪ ,.‬سکون‪ ,..‬الل ّٰ ہ سے دنیا و آخرت کی بھالئی‬
‫مانگنے میں نہیں بلکہ الل ّٰ ہ سے الل ّٰ ہ کو مانگنے میں ہے‪ ,‬جب ہم ا ُس‬
‫سے سب کچھ مانگتے ہیں مگر ا ُس کی ذات نہیں مانگتے تو ہم اپنے‬
‫اصل سے دور ہو جاتے ہیں۔‬
‫ا ُس کی بیوی نے ا ُسے ٹوکتے ہوئے کہا "اگر سب الل ّٰ ہ کی مرضی سے‬
‫ہوتا ہے تو یہ جو ظلم و بربریت کا بازار لگا ہوا ہے کیا یہ سب بھی‬
‫ال ل ّٰ ہ کی رضا ہے۔؟" تو ا ُس نے کہا کہ "جو ہوتا ہے اللہ کی منشا اور‬
‫ا ُس کی حکمت سے ہی ہوتا ہے‪ ،‬الل ہ نے ایک نظام ترتیب دیا ہے جس‬
‫کی بنیاد لوگوں کے دل ہیں۔ جب کسی قوم کے لوگ ب ُ رائی کو اپنے‬
‫دلوں میں بسا لیتے ہیں تو برائی ا ُن میں عام ہو جاتی ہے۔ انسان جس‬
‫شے کی جستجو کرتا ہے وہی پاتا ہے۔ غور سے اپنے ارد گرد دیکھو‬
‫یہ تمام ب ُ رائیاں جو ہمارے معاشرے میں موجود ہ یں ہم سب ان برائیوں‬
‫کے خواہشمند ہیں۔ ہم اپنے گ ُ مان کو شر سے سجائے رکھتے ہیں۔‬
‫آنکھوں سے زنا کی لذ ت لیتے ہیں‪ ,‬شر میں ڈوبی باتوں کو کہنا س ُ ننا‬
‫پسند کرتے ہیں۔ گناہ تک رسائی ہو یا نا ہو لیکن ارادہ ضرور رکھتے‬
‫چ کا ہے‬ ‫ہیں۔ گناہ اور ا ُس کا ارادہ ہماری سوچ میں اس قدر جڑ پک ڑ ُ‬
‫‪100‬‬
‫کے ہم اکثر برمال کہتے ہیں کے آج کے دور میں پارسا وہ ہے جسے‬
‫گناہ کا موقع نہیں مال۔ لیکن سچ تو یہ ہے کے ہم سب کے سب گناہگار‬
‫ہیں۔ جسے موقع مال وہ بھی اور جسے موقع نہیں مال وہ بھی۔ اللہ کے‬
‫گناہگار نہیں بلکہ ایک دوسرے کے‪ ،‬انسانیت کے گناہگار۔ کیونکہ‬
‫اپ نی سوچ کو آلودہ کر کے ہم اپنے وقت کے لوگوں کی سوچ میں اپنا‬
‫ووٹ کاسٹ کر دیتے ہیں۔ نس ِل انسانی کی سوچ ا ُس کا آنے واال کل‬
‫طے کرتی ہے اگر اکثریت کی سوچ مثبت ہو گی تو لوگ خوشحال ہوں‬
‫گے اور اگر اکثریت کی سوچ منفی ہو گی تو معاشرے میں انتشار پیدا‬
‫ہو گا۔ اللہ نے کب ھی لوگوں کو برباد نہ کیا بلکہ ہمیشہ لوگوں نے خود‬
‫اپنے ایمان خراب کر کے خود کو برباد کیا۔‬
‫جو ہمیں ملنا ہوتا ہے وہ ہمیں ہر حال میں مل کر رہتا ہے اور جو‬
‫نہیں ِم لنا وہ کتنی ہی فریاد کرو‪ ,‬وہ نہیں ملنے واال کیونکہ اکثر ہم‬
‫دوسرے شخص کا نصیب مانگ رہے ہوتے ہیں‪ ,‬تو الل ّٰ ہ کسی اور کا‬
‫نصیب کسی اور کو نہیں دیتا‪ ,‬پھر انہی خواہشات کے ادھورے پن کے‬
‫پیچھے بھاگتے ہوئے لوگ الل ّٰ ہ سے دور ہو جاتے ہیں‪ ,‬جبکہ الل ّٰ ہ نے‬
‫خواہشا ت کو ا ِس لیے ہمارے اردگرد بکھیرا تاکہ ہم خود اپنے لیے‬
‫ف یصلہ کر سکیں کہ ہمیں کیا چاہیے۔ دنیا‪ ,‬آخرت یا الل ّٰ ہ کی ذات میں‬
‫چ ننا ہوتا ہے‪ ,‬جو الل ّٰ ہ سے الل ّٰ ہ‬
‫سے کسی ایک کو‪ ,‬انسان کو خود ہی ُ‬
‫کو طلب کرتا ہے ا ُس کے لیے الل ّٰ ہ کے ِس وا ہر شے کی طلب ہ ِو س بن‬
‫جاتی ہے۔ الل ّٰ ہ کو طلب کرنا یہ نہیں ہے کہ ظاہری زندگی کے سب کام‬
‫کاج چھوڑ کے عبادت میں محو ہو جائے بلکہ الل ّٰ ہ کی طلب یہ ہے کہ‬
‫انسان اپنی ہر طل ب کا ُر خ ال ل ّٰ ہ کی جانب موڑ دے۔ کھانا‪ ,‬پینا‪ ,‬جاگنا‪,‬‬
‫سونا سب ال ل ّٰ ہ کے لیے‪ ,‬اپنا جینا‪ ,‬مرنا ال ل ّٰ ہ کی طلب میں ڈھالنے کے‬
‫لیے اپنے جینے کی وجہ الل ّٰ ہ کی ذات کو ماننا پڑتا ہے‪ ,‬میں تم سے یہ‬
‫سوچ کر بھی محبت کر سکتا ہوں کہ تم میری بیوی ہو اور یہ بھی‬
‫سوچ سکتا ہوں کہ تم وہ ہو جسے الل ّٰ ہ نے میرے لیے بنایا۔ اگر انسان‬
‫اپنی ہر محبت کو یہ سوچ کے نبھائے کہ یہ رشتہ الل ّٰ ہ نے ا ُس کے‬
‫لیے بنایا ہے تو ظاہری زندگی میں‪ ,‬رشتوں میں ایک دوسرے کی قدر‬
‫بھی ہو گی اور باطن میں بھی س ُ دھار پیدا ہو گا۔ کیونکہ انسان کی‬
‫خواہش جس قدر خالص ہو گی ا ُتنا ہی وہ الل ّٰ ہ کے قریب ہوتا جائے گا‬
‫اور خواہش کا خالص ہونا یہی ہے کہ ہر خواہش ال ل ّٰ ہ کے لیے خاص‬
‫‪101‬‬
‫ہو جائے۔ ثواب و عذاب کا مطلب الل ّٰ ہ کا ق ُ رب یا ا ُس سے دوری ہونا‬
‫چاہیے۔ ہم نماز میں زبان سے بہت سی آیات پڑھتے ہیں اور ا ُن آیات‬
‫کے پیچھے اپنے دل میں ایک معنی رکھ لیتے ہیں۔ جب میں چھوٹا تھا‬
‫ط مستقیم دکھانے کا یا سیدھی‬ ‫ص را ِ‬ ‫تو اکثر نماز میں الل ّٰ ہ سے خود کو ِ‬
‫راہ چالنے کا سوال کرتے ہوئے ساتھ ہی دل میں ا ُس راہ کی حدیں‬
‫مقرر کر لیتا تھا کہ الل ّٰ ہ مجھے سیدھی راہ چالنا لیکن میں مولوی‬
‫صاحب کی طرح داڑھی نہیں رکھوں گا اور فلمیں دیکھنا بھی میں‬
‫نہیں چھوڑ سکتا اور ا ِس کے عالوہ جو جو چیزیں مجھے اچھی لگتی‬
‫تھیں‪ ,‬سب سوچ لیتا تھا کہ فالں فالں کام میں نہیں چھوڑوں گا لیکن‬
‫پھر بھی مجھے سیدھی راہ چالنا۔ اب سوچتا ہوں کہ کیا عجیب سوچ‬
‫تھی کہ راہ چالنے کا سوال ب ھی اور اپنی مرضی کے وبال بھی۔ لیکن‬
‫سچ تو یہ ہے کہ ہم سب اپنی زبان سے کہے جانے والے الفاظ کا اپنے‬
‫دل میں کچھ اور مفہوم ضرور رکھتے ہیں اور ہماری زندگی کی کتاب‬
‫میں وہی مفہوم درج کیا جاتا ہے۔ میں نے س ُ لطان باہو رح کی کتاب‬
‫رسالہ روحی شریف میں پڑھا کہ اہل الل ّٰ ہ اس دعا ( َر ب َّ ن َ ا آ ت ِ ن َ ا ف ِ ي‬
‫ار ) سے یہ ُم راد لیتے‬ ‫اآلخ َر ةِ َح سَ ن َ ة ً َو ق ِ ن َ ا عَ ذ َ ا َ‬
‫ب ال ن َّ ِ‬ ‫ِ‬ ‫ال دُّ نْ ی َ ا َح سَ ن َ ة ً َو ف ِ ي‬
‫ہیں کہ اے الل ّٰ ہ مجھے دنیا میں بھی اپنا ق ُ رب عطا فرما‪ ,‬آخرت میں‬
‫بھی اپنا ق ُ رب عطا فرما اور مج ھے اپنے ہجر کی آگ سے محفوظ‬
‫فرما۔ کہ طالب ال ل ّٰ ہ کے لیے تمام تر بھالئی الل ّٰ ہ کے ق ُ رب میں ہے اور‬
‫نار جہنم سے زیادہ شدید ہے۔ ہم‬ ‫الل ّٰ ہ سے دوری کی آگ کسی بھی ِ‬
‫الفاظ کے تلفظ میں ا ِس قدر دھیان دیتے ہیں کہ معنی سوچنا ہی بھول‬
‫جاتے ہیں۔ ضرورت اصل میں معنی میں ڈوبنے کی ہوتی ہے اگر‬
‫ہمارے معنی درست ہو جائیں تو الفاظ کا غلط تلفظ بھی درست مطلب‬
‫پیش کرے گا اور اگر معنی ہی درست نہ ہوئے تو زیر زبر کی‬
‫درستگی بے معنی ہے۔" ا ُس کی بیوی نے کہا "لیکن قرآن صحیح تلفظ‬
‫سے پڑھنا افضل ہے‪ ,‬الفاظ کی درستگی ضروری ہے‪ ,‬وہ ا ُس ب ُ ت‬
‫پرست کا واقع‪ ,‬جو ب ُ ت کے سامنے یاصنم کہتے کہتے یاصمد کہہ بیٹھا‬
‫تھا‪ ,‬تو ال ل ّٰ ہ نے ا ُسے اپنا بندہ مان کر جواب دیا تھا‪ ,‬اگر وہ پہلے ہی‬
‫یاصمد کہہ کے پ ُ کار لیتا تو ا ُسے پہلے ہی جواب ِم ل جاتا‪ ,‬ا ِس کا‬
‫مطلب معنی کے ساتھ الفاظ کی درستگی بھی ضروری ہے۔" ا ُس نے‬
‫غور سے اپنی بیوی کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا "الفاظ کی درست گی‬
‫‪102‬‬
‫تبھی قاب ِل قبول ہوتی ہے جب معنی درست ہوں‪ ,‬اپنے رب کو یاصنم‬
‫کہتے کہتے یاصمد کہہ کر پ ُ کارنے والے کے دل میں کچھ محبت بھی‬
‫رہی ہو گی جس نے ا ُس کی پ ُ کار کو عرش تک پہنچایا۔ ایک روز میں‬
‫شام سات آٹھ بجے کے قریب گھر آیا تو بارش میں ایک لڑکے کو گھر‬
‫کے باہر کھڑے دی کھا‪ ,‬وہ لڑکا سامنے مارکیٹ میں غبارے بیچا کرتا‬
‫تھا کسی ِد ن گ ُ زارے الئق بھی پیسے نہ ملتے تو میرے پاس آ جاتا تھا‬
‫میں ا ُس کی زیادہ مدد تو نہ کر پاتا لیکن کھانے کے لیے ا ُسے ضرور‬
‫کچھ نہ کچھ دے دیتا تھا‪ ,‬اکثر ایسا ہوتا کہ گھر میں اتنا ہی کھانا ہوتا‬
‫جو صرف میرے لی ے ہوتا تو وہ کھانا میں ا ُسے دے کر خود بھوکا سو‬
‫جاتا تھا‪ ,‬اور اکثر ایسا بھی ہوتا کہ ا ُسے کھانا دینے کے بعد محلے‬
‫میں کسی کے گھر سے کوئی کھانے کی چیز آ جاتی تھی۔ ا ُس روز وہ‬
‫لڑکا گھر کے باہر کھڑا میرے آنے کا انتظار کر رہا تھا‪ ,‬میں آیا تو‬
‫ا ُسے دیکھ کے میں سمجھ گیا کہ آج بارش کی وجہ سے ا ُس کی کچھ‬
‫آمدنی نہیں ہو سکی‪ ,‬میں نے ا ُس سے کہا "آپ یہاں بارش میں کیوں‬
‫کھڑے ہیں‪ ,‬دروازہ بجا کر کھانا مانگ لیتے" تو ا ُس نے کہا "میں نے‬
‫مانگا تھا کھانا لیکن آپ کے دادا نے مجھے ڈانٹ دیا‪ ,‬ا ِس لیے میں آپ‬
‫کا انتظار کر رہا تھا" ا ُس کی بات س ُ ن کے مجھے د ُکھ کے ساتھ ساتھ‬
‫شرمندگی بھی محسوس ہوئی‪ ,‬میں نے فور ا ً اپنے کمرے کا دروازہ‬
‫کھول کے ا ُسے اندر ب ُ الیا‪ ,‬سوچا کے اپنا کوئی پ ُ رانا لباس ا ُسے دے‬
‫دیتا ہوں لیکن دل نے مالمت کی کہ الل ّٰ ہ کی راہ میں دینے کی بات‬
‫ہوتی ہے تو پ ُ رانی چیزوں کا ہی خیال کیوں آت ا ہے۔؟ ا ِس خیال کے‬
‫آتے ہی میں نے بکسے سے اپنا نیا شلوار قمیض نکاال جو صرف عید‬
‫کے دن ہی پہنا تھا‪ ,‬وہ میرا پسندیدہ ترین جوڑا تھا‪ ,‬میں نے بہت شوق‬
‫سے ِس لوایا تھا‪ ,‬میں ا ُسے کوئی دوسرا نیا جوڑا بھی دے سکتا تھا‪,‬‬
‫میرے پاس کافی جوڑے تھے لیکن خود کو پ ُ رانا لباس دینے والی سوچ‬
‫پر سزا دینے کے لیے میں نے ا ُسے وہ واال جوڑا دیا اور ا ُسے جوڑا‬
‫تبدیل کرنے کے لیے دے کر میں کھانا گرم کرنے چال گیا اور کھانا ال‬
‫کر ا ُسی کے ساتھ کھانے بیٹھ گیا۔ میرا ا ُس کے ساتھ بیٹھ کے کھانا‬
‫شاید ا ُسے بہت عجیب لگ رہا تھا اور میں کھانا کم ہونے کی وج ہ سے‬
‫ُر ک ُر ک کر کھا رہا تھا تاکہ وہ زیادہ کھا سکے۔ ا ُس نے شاید کھانے‬
‫کے معاملے میں میری س ُ ستی کو کچھ اور سمجھا اور مجھے تسلی‬
‫‪103‬‬
‫دینے کے لیے کہا "بھائی آپ پریشان نا ہوں ہم بھی مسلمان ہیں آپ‬
‫میرے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں" میں نے کہا "یہ بات نہیں ہے بھائی‬
‫میں نے شام کو کھانا دیر سے کھایا تھا ا ِس لیے ابھی بھوک نہیں ہے‬
‫مجھے‪ ,‬اور میرے لیے کسی بھی مذہب‪ ,‬رنگ یا نسل سے بڑھ کر آپ‬
‫کا انسان ہونا معنی رکھتا ہے‪ ,‬مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں‬
‫پڑتا کہ آپ مسلمان ہیں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہے‪ ,‬انسان‬
‫اپنی انسانیت سے ب ُ لند یا پست ہوتا ہے‪ ,‬بس ا ِس کے عالوہ انسانوں‬
‫میں اور کسی بنیاد پے فرق نہیں کرنا چاہیے‪ ",‬مجھے لگا کہ میں‬
‫شاید ا ُس کے فہم سے ب ُ لند بات کر رہا ہوں لیکن میں بولتا رہا تاکہ وہ‬
‫سارا کھانا کھا سکے اور بولنے کے بہانے مجھے کھانے سے ہاتھ‬
‫روکنے کا بہانا مل جائے‪ ,‬بیچ بیچ میں‪ ,‬میں ا ُس کا ساتھ دینے کے‬
‫لیے چھوٹے چھوٹے نوالے کھاتا رہا تاکہ ا ُسے میرے ُر کنے کا‬
‫احساس کم سے کم ہو‪ ,‬پھر میں نے سگریٹ جال لیا تو ا ُس نے کھانا‬
‫کھاتے کھاتے پھر سے بات شروع کی اور کہا " سَ ر جی ہم بس نام کے‬
‫ج گیوں میں رہتے ہیں‪ ,‬اکث ر ہماری‬ ‫مسلمان ہیں‪ ,‬نالوں کے کنارے ُ‬
‫بستیاں بارش یا میونسپالٹی کی وجہ سے برباد ہو جاتی ہیں‪ ,‬ہم سبھی‬
‫لوگ صبح نکلتے ہیں سارا دن کوئی بھیک مانگتا ہے‪ ,‬کوئی میری‬
‫طرح گھوم پھر کے کچھ بیچتا ہے ایسے ہی چھوٹے موٹے کام کر کے‬
‫دو وقت کی روٹی حاصل کرتے ہیں‪ ,‬اور میں نے دیکھا کہ الل ّٰ ہ بھوکا‬
‫ا ُٹھاتا ضرور ہے مگر بھوکا س ُ التا نہیں‪ ,‬شروع شروع میں جب کام‬
‫شروع کیا تو کبھی کبھی گھبراتا تھا کہ بھوک ہوئی اور روٹی نہ ملی‬
‫تو کیا ہو گا لیکن جلدی یا دیر سے کچھ نہ کچھ مل ہی جاتا ہے‪ ,‬آج‬
‫بھی ایسا ہی کچھ ڈر تھا لیکن پھر آپ آ گئے اور کھانے کے ساتھ ساتھ‬
‫اتنے اچھے کپڑے بھی ِم ل گئے" میں نے کہا " ا ِس میں میرا کوئی‬
‫کمال نہیں ہے ہر انسان کا اپنا نصیب ہوتا ہے۔" ساتھ ساتھ میں یہ‬
‫سوچ رہا تھا کہ ا ُسے کم فہم سمجھنا میری اپنی کم فہمی تھی۔‬

‫‪104‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫مجھے خاموش دیکھ کر ا ُس نے کہا " سَ ر جی آپ سے ایک سوال‬
‫پوچھوں۔؟" میں نے کہا "ہا ں پوچھو‪ ,‬مجھے جتنی سمجھ ہوئی‪ ,‬ا ُتنا‬
‫ضرور بتاؤں گا‪ ,‬نہیں پتا ہوا تو کہہ دوں گا کہ نہیں معلوم‪ ",‬تو ا ُس‬
‫ج گیوں میں‬ ‫نے دوبارہ اپنی بات وہیں سے شروع کی اور کہا "ہم لوگ ُ‬
‫رہتے ہیں‪ ,‬ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم ُم سلمان ہیں‪ ,‬لیکن ہماری بستی‬
‫میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں کلمہ بھی صحیح سے نہیں آتا‪,‬‬
‫نماز اور قرآن تو بہت دور کی بات ہے‪ ,‬ہمارے کپڑے نالوں کے پانی‬
‫سے د ُھلتے ہیں‪ ,‬جس کی وجہ سے ہر وقت ہمارے جسم سے اور‬
‫کپڑوں سے بدبو آتی رہتی ہے‪ ,‬اکثر ہمارے ہاں نکاح بھی ایسے ہی‬
‫پڑھاتے ہیں کہ سب اکھٹے ہو کر بس دونوں میاں بیوی سے قبول قبول‬
‫کہال دیتے ہیں‪ ,‬ہمیں چھ کلمے پڑھانے والے بہت مشکل سے ملتے‬
‫ہیں‪ ,‬کیونکہ ہماری بستی میں آنے سے یا ہمارے ساتھ بیٹھنے سے‬
‫اکثر لوگوں کا دین‪ ,‬مذہب خراب ہو جاتا ہے" میں نے ا ُسے ٹوکتے‬
‫ہوئے کہا "لیکن ڈھونڈا جائے تو کوئی نہ کوئی ِم ل ہی جاتا ہے" ا ُس‬
‫نے کہا "ہاں ِم ل جاتا ہے لیکن ہماری بستی کے بہت سے لوگ کئی‬
‫چ کے ہیں۔ میرا بھی ارادہ ہے کہ میں مسجد‬ ‫بار ا ِس چکر میں ذلیل ہو ُ‬
‫میں نکاح کروں گا‪ ,‬ورنہ شادی ہی نہیں کروں گا‪ ,‬ہمیں لوگ مسجد‬
‫چ کا‬‫میں نہیں آنے دیتے۔ میری بستی کے کئی لوگوں کے ساتھ ایسا ہو ُ‬
‫ہے کہ ا ُنہیں ہاتھ سے پکڑ ک ر ڈانٹ کر مسجد سے ن ِ کاال گیا‪ ,‬میرے‬
‫ساتھ بھی ایسا ہوا کئی بار‪ ,‬اور ہم مسجد جائیں تو ہمارے اپنے دوست‬
‫وغیرہ مذاق ا ُڑاتے ہیں کہ تیرے کپڑے ہی پاک نہیں ہیں اور تو نماز‬
‫پڑھتا ہے‪ ,‬لیکن اکثر میرا بہت دل کرتا ہے نماز پڑھنے کا تو میں‬
‫کچھ بیچنے کے بہانے مسجد کے پاس جا کر کھڑا ہو جاتا ہوں اور‬
‫جب نماز شروع ہو جاتی ہے اور وہ لوگ جو مجھے مسجد سے ن ِ کاتے‬
‫ہیں وہ اپنی نماز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں تو کچھ دیر بعد میں اپنا‬
‫چ پکے سے مسجد کے اندر چال‬ ‫سامان مسجد کے باہر ہی چھوڑ کر ُ‬
‫چ ھپ کے کھڑا ہو جاتا ہوں او ر نمازیوں‬ ‫جاتا ہوں اور کسی کونے میں ُ‬
‫‪105‬‬
‫ج ھکتا ہوں اور سالم پھیرتے ہی بھاگ کے مسجد سے باہر آ‬ ‫کی طرح ُ‬
‫جاتا ہوں کیونکہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو اگلی دفعہ سے مسجد کے‬
‫باہر کچھ بیچنے پر بھی پابندی لگ سکتی ہے‪ ,‬تو میرا سوال یہ ہے کہ‬
‫کیا میری نماز قبول ہوتی ہو گی۔؟اپنی بیوی کو یہ واقع بتاتے بتاتے‬
‫ا ُس کی آواز بھ ّر ا سی گئی تھی ا ُس نے کہا "میرا بس نہیں چال کہ میں‬
‫عقیدت سے ا ُس لڑکے کے ہاتھ چومتا اور ایسی نماز پڑھنے پر ا ُسے‬
‫ُم بارکباد دیتا" اور ایک پل ُر ک کر ا ُس نے شرارت سے کہا "ویسے‬
‫کافی فلمی سا سین ہو جاتا نا‪ ,‬اگر میں سچ میں ا ُس کے ہاتھ چوم لیتا‬
‫تو۔؟" ا ُس کی بیوی نے ُم سکرا کر کہا "ہاں لیکن آپ نے ا ُسے جواب‬
‫کیا دیا۔؟" تو ا ُس نے کہا "میں نے ا ُسے کہا کہ آپ کی نماز قبول ہی‬
‫نہیں مقبول ہے کیونکہ ا ُس میں کچھ نا ہونے کے باوجود سب کچھ‬
‫ہے‪ ,‬الل ّٰ ہ کو اپنے بندے کے لباس‪ ,‬انداز یا آیات کے تلفظ سے غرض‬
‫نہیں ہے‪ ,‬یہ سب ت و نماز کا ادب ہے‪ ,‬نماز تو الل ّٰ ہ کے حضور خلوص‬
‫سے حاضر ہونے کا نام ہے‪ ,‬ہو سکتا ہے کہ ا ُس پوری جماعت کی‬
‫نماز ایک تمہاری نماز کے باعث قبول ہو جاتی ہو‪ ,‬اور یہ بھی ہو‬
‫سکتا ہے کہ ا ُس جماعت میں موجود پاک کپڑوں اور صحیح تلفظ سے‬
‫نماز پڑھنے والوں میں سے کسی کی نماز قبول نہ ہو‪ ,‬لیکن آپ کی‬
‫نماز ضرور قبول ہوتی ہے‪ ,‬اگر آپ کو کلمہ وغیرہ نہیں آتا تو میں آپ‬
‫کی مدد کر سکتا ہوں‪ ,‬لیکن نماز اور کلمے کے الفاظ و تلفظ میں اتنا‬
‫مت کھو جانا کہ تم سے الل ّٰ ہ کے لیے یہ خلوص کھو جائے‪ ,‬الل ّٰ ہ تمہیں‬
‫جب بھی یاد آئے تم ا ُسے پ ُ کار سکتے ہو‪ ,‬ا لل ّٰ ہ تک وہ الفاظ پہنچتے‬
‫جو ہم اپنے دل سے ادا کرتے ہیں‪ ,‬زبان و جسم ا ُس سے بات کرنے کا‬
‫ادب ہے لیکن ا ُس کے حضور حاضری دل کی ہوتی ہے‪ ,‬دل حاضر تو‬
‫جسم و زبان بھی قبول ہے اور دل حاضر نہیں ہے تو نہ جسم قبول نہ‬
‫زبان‪ ",‬میری بات س ُ ن کر ا ُسے یقینا ً سکون ِم ال ہو گا لی کن ا ُس کی‬
‫چ کا تھا" ا ُس نے کمزور سے‬ ‫باتوں سے میرے اندر ایک ہیجان پیدا ہو ُ‬
‫لہجے میں اپنی بیوی سے کہا "اسی جسم و زبان کے طریق و تلفظ‬
‫میں کھو کر تو ہم فرقہ واریت کی جنگ چھیڑے بیٹھے ہیں‪ ,‬میرا بہت‬
‫دل کرتا ہے کہ جیسے شیطان نے اپنی چالوں سے ہم لوگوں کو ٹ ُکڑے‬
‫ٹ ُکڑے کیا ہے ویسے ہی کوئی ایسا شخص الل ّٰ ہ کی جانب سے آئے جو‬
‫کچھ ایسی چال چلے جو ان سب فرقوں کو‪ ,‬ا ُن کی اپنی جگہ رکھتے‬
‫‪106‬‬
‫ہوئے‪,‬ایک کر سکے" ا ُس کی بیوی نے ا ُسے ای سے دیکھا جیسے ا ُس‬
‫کی دماغی حالت پ ےشک ہو رہا ہو اورکہا "یہ کیسےممکن ہے کہ سب‬
‫لوگ اپن ی جگہ پےرہتے ہوئےایک ہو جائیں ؟ " تو ا ُس نے جوابا ً کہا کہ‬
‫" ا ِس فرقہ واریت کی بنیاد یہ ہے کہ ہر مسلک و مذہب کے لوگ اپنا‬
‫آپ ب ُ لند کرنے کی جگہ دوسرے کو پست ثابت کر کے اپنی ب ُ لندی کا‬
‫ثبوت دینے کی کوشش کرتے ہیں‪ ,‬ہمارا طریقہ‪ ,‬ہمارا مسلک‪ ,‬تمہارے‬
‫طریقے اور تمہارے مسلک سے افضل ہے‪ ,‬یہ بات ثاب ت کرنے کے‬
‫لیے جس دن ہم نے اپنے آباؤ اجداد کے نام اور وضو‪ ,‬نماز کے‬
‫تقوی پیش کرنا شروع کر دیا ا ُس‬ ‫ٰ‬ ‫طریقوں کی جگہ اپنا کردار اور اپنا‬
‫روز یہ فرقہ واریت کی آگ از خود ب ُ جھ جائے گی۔" ا ُس کی بیوی نے‬
‫کہا "آپ کی سوچ اچھی ہے‪ ،‬الل ّٰ ہ کامیاب کرے آپ کو ‪ ،‬لیکن آپ نے یہ‬
‫کیوں کہا کہ کوئی شخص چال چلے۔؟ یہ کیوں نہیں کہا کہ کوئی‬
‫معجزہ ہو جائے۔؟" تو ا ُس نے کہا "شیطان کو ا ُسی کے کھیل میں‬
‫رہتے ہوئے ہرانا ہے‪ ,‬تو کچھ تو چال چلنی پڑے گی اور الل ّٰ ہ والوں‬
‫سے بہتر چال کون چل سکتا ہے‪ ,‬چال کا لفظ میں نے ا ِس لیے استمعال‬
‫کیا کیونکہ ا ِس بازی ک و پلٹنے کے لیے کوئی بڑی چال چلنی ہو گی‪,‬‬
‫ہم اپنے ہاتھوں سے اپنا گلہ گھونٹنے میں مصروف ہیں‪ ,‬ہمیں اس خود‬
‫کشی سے الل ّٰ ہ ہی بچا سکتا ہے‪ ,‬ا ِس لیے دعا کرتا ہوں کہ الل ّٰ ہ کوئی‬
‫چ نگل سے‬ ‫ایسا شخص ہم میں بھیجے جو ہم انسانوں کو شیطان کے ُ‬
‫چ ھُ ڑا سکے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے ُم رشد پاک کی چالئی ہوئی‬
‫ت انسان کو ا ُس کے مقام سے آشنا کر‬ ‫تحریک ایک نہ ایک دن حضر ِ‬
‫چ نگل سے چ ھُ ڑانے کا باعث ضرور بنے گی۔ کاش‬ ‫کے شیطان کے ُ‬
‫کے میں بھی لوگوں کے لیے کچھ کر سکتا" ا ُس نے حسرت بھرے‬
‫لہجے میں کہا تو ا ُس کی بیوی نے کہا "انشاءالل ّٰ ہ ایسا ضرور ہو گا‪,‬‬
‫بلکہ ہمارے ُم رشد پاک تو بہت پہلے سے یہی کام کر رہے ہیں‪ ,‬ہماری‬
‫سوچ سے بھی پہلے سے ا ُن کا یہی مشن ہے کہ انسان کو ا ُس کے‬
‫اصل مقام سے آشنا کر کے ا ُسے شیطان کی قید سے آزادی ِد الئی‬
‫جائے‪ ,‬ہم سب ُم ریدین ا ِس بات کے گواہ ہیں‪ ,‬میرا بھی دل کرتا ہے کہ‬
‫میں ُم رشد پا ک کی سکھائی گئی تربیت حاصل کروں اور خواتین کو‬
‫چ ے میری جان چھوڑیں‬ ‫ا ِس جانب آنے کی دعوت دوں‪ ,‬لیکن آپ کے ب ّ‬
‫تو میں کوئی اور کام کروں نا" ا ُس نے مسکرا کر کہا "جب ال ل ّٰ ہ نے‬
‫‪107‬‬
‫چ ن لیا نا‪ ,‬تو خود با خود وقت نکل آئے گا بس دعا‬ ‫کسی کام کے لیے ُ‬
‫کرو کے لوگوں تک الل ّٰ ہ کا پیغام پہنچانے کے کام میں کسی جگہ ہمارا‬
‫بھی کچھ مصرف ہو‪ ,‬ورنہ زندگی بے کار جائے گی۔ " " ہاں یہ تو‬
‫ہے‪ ",‬ا ُس کی بیوی نے تائید کرتے ہوئے ا ُس سے کہا "اچھا مجھے‬
‫'آزمائش' ذرا وضاحت سے سمجھائیں۔" ا ُس نے کہا "سمجھاتا ہوں‪,‬‬
‫لیکن پہلے وہ یاصنم اور یاصمد والی بات مکمل کر دوں کہ شریعت‬
‫کی ایک حد ہے‪ ,‬اگرچے کہ تمام مقامات شریعت میں رہ کر طے کیے‬
‫جاتے ہیں لیکن شریعت کی ایک حد ہے۔ مطلب یہ کہ آپ ظاہری نماز‬
‫کی حالت میں ایک حد تک اپنا لہجہ سنوار سکتے ہیں‪ ,‬ایک حد تک‬
‫جسمانی پاکیزگی اپنا سکتے ہیں‪ ,‬نہ تو آپ ہر وقت تالوت کر سکتے‬
‫ہیں اور نہ ہی مسلسل جسمانی طور پر ظاہری حالت میں وضو میں رہ‬
‫سکتے ہیں‪ ,‬ا ِس کا مطلب یہ ہے کہ جسم و زبان سے نماز پڑھی تو جا‬
‫سکتی ہے لیکن ا ُسے قائم نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ جو چیز قائم ہو‬
‫جائے وہ ٹوٹا نہیں کرتی تو یقینا ً نماز قائم کرنے کا طریقہ انسان کے‬
‫ج ڑا ہو گا‪ ,‬کیونکہ یہ دل ہی ہے جو سانسوں کے ساتھ ساتھ‬ ‫دل سے ُ‬
‫حرکت میں رہتا ہے‪ ,‬الل ّٰ ہ کو پ ُ کارنے کے لیے دل ہی کی ضرورت‬
‫پڑتی ہے‪ ,‬الل ّٰ ہ تک ا ُس کی آواز یاصنم کہتے ہوئے بھی پہنچ رہی تھی‬
‫کیونکہ وہ ا ُسے محبت بھرے دل سے پ ُ کار رہ ا تھا ا ِس لیے الل ّٰ ہ نے‬
‫ا ُس کی ز بان پھیری اور ا ُ سے جواب دیا‪ ,‬اگر بات محض کسی خاص‬
‫نام سے پ ُ کارنے کی ہوتی تو ہر ا ُس شخص کو الل ّٰ ہ کی طرف سے‬
‫جواب مال کرتا جو ا ُسے یاصمد کہہ کر پ ُ کارتا‪ ,‬الل ّٰ ہ المحدود ہے سو‬
‫ا ُس کی چاہت بھی المحدود ہے ا ِس لیے ا ُسے چاہنے کے لیے محدود‬
‫کی حد سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ جیسے موالنا ر ومی فرماتے ہیں کہ‬
‫محبوب کو الودع کہنے کا وقت تو ا ُن پے آتا ہے جو محبوب سے‬
‫آنکھوں دیکھی محبت کرتے ہیں‪ ,‬کیونکہ جو محبوب کو دل اور روح‬
‫ج دا ہی نہیں ہوتے۔" وہ خاموش‬ ‫سے چاہتے ہیں وہ محبوب سے کبھی ُ‬
‫ہوا تو ا ُس کی بیوی نے کہا "ٹھیک ہے مجھے بات سمجھ آ گئی کہ‬
‫تلفظ و طریقے کی درستگی سے ذیادہ ضروری دل کی سوچ کا درست‬
‫ہونا معنی رکھتا ہے۔ اب آپ کو نیند آ رہی تو سو جائیں" ا ُس نے کہا‬
‫"جب ا ِس طرح کی بات چیت ہو رہی ہو تو نیند کہاں آتی ہے‪ ,‬تمھیں‬
‫نیند آ رہی ہے تو سو جاؤ" ا ُس کی بیوی نے کہا "نہیں مجھے بھی نیند‬
‫‪108‬‬
‫نہیں آ رہی‪ ,‬چلیں اب آزمائش کی وضاحت کریں کہ آزمائش کیا ہوتی‬
‫ہے‪ ,‬کیوں ہوتی ہے‪ ,‬اور کیا ایک دفعہ آزمائے جانے کے بعد دوبارہ‬
‫ا ُسی راہ سے بھی آزمائش ہو سکتی ہے کیا۔؟ یا ایک راہ سے آزمائے‬
‫جانے کے بعد دوبارہ ا ُس راہ سے آزمائش نہیں ہوتی۔؟‬

‫‪109‬‬
‫' 'باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ا ُس ن ے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا " ا ِس کا مطلب آج تمھارا سونے‬
‫کا ارادہ نہیں ہے۔ خیر‪ ،‬تم نے کبھی شطرنج کھیلی ہے؟" ا ُسکی بیوی‬
‫نے نفی میں سر ہالیا تو ا ُس نے کہا "شطرنج میں تین طرح کے‬
‫ُم ہرے ہوتے ہیں‪ ,‬ہر ُم ہرے کی کچھ نہ کچھ چال ہوتی ہے‪ ,‬اول درجے‬
‫کے مہرے‪ ,‬بادشاہ اور وزیر کسی بھی جانب حرکت کر سکتے ہیں‪,‬‬
‫لیکن یہ مہرے بس ایک ایک ہی ہوں گے‪ ,‬دوسرے درجے ک ے ُم ہرے‬
‫دو‪ ,‬دو ہوتے ہیں فیل‪ ,‬گھوڑا اور ُر خ‪ ,‬ا ِن کی الگ الگ مگر خاص چال‬
‫ہوتی ہے اور یہ کسی خاص جانب ہی حرکت کر سکتے ہیں۔ اور ا ِس‬
‫کے بعد آٹھ پیادے جو صرف سیدھے ہی چل سکتے ہیں ل یکن پیادہ‬
‫کسی کو مار دے تو ا ُس کی راہ بدل جاتی ہے۔ مجھے پتا ہے کہ تمہیں‬
‫شطرنج سمجھنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن شطرنج سے میں‬
‫تمہیں کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں‪ ,‬ا ِس لیے بتا رہا ہوں‪ ,‬دنیا‬
‫میں انسانوں کو بھی شطرنج کے ُم ہروں کی طرح زندگی گ ُ زارنی‬
‫پڑتی ہے‪ ,‬یہاں بھی تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ عام لوگ‪ ,‬خاص‬
‫لوگ‪ ,‬اور خاص الخاص لوگ۔ شطرنج میں پیادہ سب سے چھوٹا ہوتا‬
‫ہے لیکن پیادہ اگر پوری بساط پار کر جائے تو وہ ُر خ‪ ,‬فیلہ‪ ,‬گھوڑا یا‬
‫وزیر میں سے کچھ بھی بن سکتا ہے‪ ,‬اگرچ ے کہ پیادہ سب سے چھوٹا‬
‫ہے لیکن تمام مہر وں میں سے یہ خاصیت صرف اور صرف اسی‬
‫کے پاس ہوتی ہے کہ اگر وہ پوری بساط پار کرنے میں کامیاب ہو‬
‫جائے تو بادش اہ کے عالوہ کچھ بھی بن سکتا ہے یع نی وہ واحد ایسا‬
‫مہرہ ہے جو اپنی کامیابی سے اپنا مقام بدل سکتا ہے۔ عام انسان کی‬
‫حالت بھی ایسی ہی ہوتی ہے کہ اگر وہ آزمائش کی بساط پار کر جائے‬
‫تو عام سے خاص بلکہ خاص الخاص بھی بن سکتا ہے۔ یہ جو ُم ہروں‬
‫کی چال ہوتی ہے درحقیقت یہی آزمائش ہوتی ہے۔ جس ُم ہرے کی‬
‫جیسی بھی چال ہے ا ُسے ویسی ہی چال چلنی پڑے گی‪ ,‬مطلب گھوڑا‪,‬‬
‫پیادے کی چال نہیں چل سکتا اور پیادہ گھوڑے کی طرح ڈھائی چال‬
‫نہیں چل سکتا‪ ,‬ا ِسی طرح ظاہری دنیا میں عام‪ ,‬خاص اور خاص‬
‫الخاص لوگوں کا فرق قائم رہتا ہے لیکن یہ دنیا ہے‪ ,‬شطرنج کی بساط‬

‫‪110‬‬
‫جیسی تو ہے لیکن ا ُس سے بہت زیادہ ب ُ لند ہے‪ ,‬ا ِس لیے یہاں لوگ‬
‫خاص سے عام اور عام سے خاص ہوتے ہی رہتے ہیں‪ ,‬اپنی چال میں‬
‫رہتے ہوئے‪ ,‬شیطان کی چال سے بچ جانا ہی انسان کی آزمائش ہے۔‬
‫اس زمین پر ہر انسان اپنی آزمائش سے ب ُ لند یا پست ہوتا ہے۔ کبھی‬
‫سوچا کہ کوئی شے گناہ کیوں ہوتی ہے اور کسی چیز کو ثواب کیوں‬
‫کہا جاتا ہے۔؟ اصل میں ہم سب کو ایک نور عطا کیا گیا ہے۔ ا ِس نور‬
‫کو اچھے اعمال سے بڑھایا جا سکتا ہے اور ب ُ رے اعمال سے یہ نور‬
‫ماند پڑ جاتا ہے۔ اسی لیے کوئی عمل گناہ اور کوئی عمل ثواب کہالتا‬
‫ہے۔ اگر کوئی شخص شراب پیے‪ ,‬زنا کرے‪ ,‬یا کسی اور گناہ کا‬
‫ارتکاب کرے تو الل ّٰ ہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا‪ ,‬لیکن کیونکہ یہ شئے‬
‫خود ا ُس انسان کے لیے اور معاشرے کے لیے خطرناک ہے اس لیے‬
‫ا سے گناہ قرار دیا گیا۔‬
‫زمین پے موجود چیزوں کی دو طرح کی تقسیم ہے نوری اور ناری۔‬
‫دونوں طرح کی چیزوں میں ایک توازن قائم ہے‪ ,‬جتنی چیزیں نوری‬
‫ہوں گی ا ُتنی ہی تعداد میں ناری چیزیں بھی قدرتی طور پر موجود‬
‫رہتی ہیں‪ ,‬مطلب یہ کہ قدرت کی جانب سے میزان برابر رکھا جاتا ہے‬
‫لیکن یہ میزان‪ ,‬وقت میں موجود لوگوں کی سوچ کے باعث کسی ایک‬
‫ج ھک جاتا ہے۔ ا ِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وقت میں نور کم ہو‬ ‫جانب ُ‬
‫جاتا ہے یا آگ زیادہ ہو جاتی ہے‪ ,‬بلکہ یوں ہوتا ہے کہ نور یا نار کی‬
‫راہ پر چلنے والوں کی تعداد گھٹتی بڑھتی رہتی ہے جس سے وقت‬
‫میں نور و نار کا توازن بدلتا رہتا ہے۔ تم نے پوچھا کہ آزمائش کیا‬
‫ہے‪ ,‬تو آزمائش ہر پل کی سوچ کا نام ہے۔ اس بساط پر رہتے ہوئے‬
‫کسی بھی چال پر انسان کسی بھی پل جو کچھ بھی سوچتا ہے‪ ,‬حاالت و‬
‫واقعات کے رد عمل میں اس کی سوچ کے جہان میں ابھرنے واال‬
‫عکس ا ُس کی آزمائش ہوتا ہے ۔ الل ّٰ ہ نے انسان کو کوئی بھی چیز بیکار‬
‫میں نہیں دی‪ ,‬ہر عطا کا کچھ نہ کچھ کام ہے‪ ,‬الل ّٰ ہ نے انسان کو سوچ‬
‫سمجھ کے ساتھ ساتھ گ ُ مان کی دولت سے بھی نوازا‪ ,‬ہم اپنے گمان کی‬
‫طاقت سے بہت سا کام لیتے ہیں‪ ,‬پہلے سے دیکھی ہوئی چیزوں کو یاد‬
‫کرتے ہیں‪ ,‬یا اپنی خواہش کے م طابق کوئی نیا عکس تیار کر لیتے‬
‫ہیں‪ ،‬اکثر کسی سے جھگڑا کر کے ہم اپنے گمان میں ا ُسے مار پیٹ‬
‫کر اپنا دل ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتے ہیں‪ ,‬اپنے گمان میں ہم آنے‬
‫‪111‬‬
‫واال کل سوچ کر اگلے دنوں کے خواب دیکھتے ہیں۔ جو دنیا ہم اپنے‬
‫باہر دیکھتے ہیں ویسی ہی ایک دنیا ہمارے اندر بسی ہوتی ہے۔ اپنے‬
‫باہر کی دنیا میں ہم کچھ ہوں یا نہ ہوں لیکن اپنے اندر کی دنیا کے‬
‫سب کچھ ہم خود ہی ہوتے ہیں ا نسان اپنے باہر کی دنیا سے متاثر ہو‬
‫کر اپنے اندر کیسی دن یا بناتا ہے یہی ا ُس کی آزمائش ہے اہ ِل دنیا‬
‫اپنے گمان میں دنیا بھرے رکھتے ہیں اب وہ کوئی بادشاہ ہو یا کوئی‬
‫قبی کے‬ ‫بھکاری دونوں کے گمان کی اوقات ایک سی ہے‪ ,‬ع ُ ٰ‬
‫خواہشمند اپنے گمان کو اج ر و ع ذ اب کے خیال سے آباد کرتے ہیں اور‬
‫ایسے لوگ بھی ظاہر میں کسی بھی مذہب و مسلک کے کیوں نہ ہوں ‪،‬‬
‫نیکوکار ہوں یا گناہگار‪ ،‬ا ُن سب کے گ ُ مان کی بھی قیمت ایک سی‬
‫ہے ‪ ,‬لی کن اہ ِل الل ّٰ ہ اپنے گمان کو الل ّٰ ہ کی یاد سے سجائے رکھتے ہیں‬
‫ا ِس لیے ا ُن کے گمان کی ا ُن کے مقام کے حساب سے الگ الگ قیمت‬
‫ہوتی ہے‪ ,‬جو اپنے گ ُ مان کو الل ّٰ ہ کی ذات میں جس قدر ڈبوئے گا وہ‬
‫ا ُتنا ہی ب ُ لند ہو گا۔ تم نےاکثر ایسا س ُ نا ہو گا کہ کسی ب ُ زرگ ہستی نے‬
‫بہتے دریا کو حکم دیا کہ ُر ک جا تو وہ ُر ک جاتا ہے‪ ,‬یہ ا ِس لیے ہوتا‬
‫ہے کیونکہ ا ُن کے گمان میں الل ّٰ ہ کی یاد کے سوا کچھ نہیں ہوتا‪,‬‬
‫لیکن جب یہی بات کسی عام شخص کی زبان سے نکلتی ہے تو ا ُس‬
‫قبی کی اغراض چ ھُ پی ہوتی ہیں ا ِس لیے بات بے‬ ‫کے پیچھے دنیا و ع ُ ٰ‬
‫اثر رہتی ہے۔ انسان کا جینا‪ ,‬مرنا‪ ,‬کھانا‪ ,‬پینا سب پہلے سے طے ہوتا‬
‫ہے‪ ,‬لیکن ا ُس کا گ ُ مان زندگی بھر ا ُس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور ہر‬
‫پل بدلتا رہتا ہے‪ ,‬انسان سو جاتا ہے لیکن یہ گمان پھر بھی حرکت میں‬
‫ج ڑا‬‫رہتا ہے۔ انسان کے گناہ ثواب کا ذیادہ تر ح صّ ہ ا ِسی گمان سے ُ‬
‫ہوتا ہے۔ شی طان یہی کرتا ہے کہ لوگوں کے گ ُ مان پے حملہ کر کے‬
‫ا ُس میں دنیا اور نفس کی خواہشات بھرتا رہتا ہے تاکہ انسان کے‬
‫گ ُ مان کو الل ّٰ ہ کو سوچنے سے دور رکھا جا سکے۔‬
‫الل ّٰ ہ کی یاد سے اپنے گمان کو سجانا یہ نہیں ہے کہ انسان دنیا چھوڑ‬
‫کر جنگل میں جا بیٹھے بلکہ یہ ہے کہ ا ِ س دنیا میں رہتے ہوئے انسان‬
‫اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کو ال ل ّٰ ہ کا انعام‪ ,‬ال ل ّٰ ہ کی‬
‫رضا مان کر ا ُس کا ش ُ کر گزار رہے‪ ,‬اصل آزمائش‪ ,‬اسی دنیا میں‬
‫رہتے ہوئے‪ ,‬ا ِس کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے‪ ,‬الل ّٰ ہ کی جانب‬
‫مائل رہنا ہے۔ کسی نامحرم کو دیکھ کر نظر ج ھُ کانا‪ ,‬اپنے آپ کو‬
‫‪112‬‬
‫ب ُ رے خیاالت سے بچانا‪ ,‬تھوڑا بہکنا‪ ,‬تھوڑا سنبھلنا‪ ,‬الل ّٰ ہ کو ذیادہ‬
‫عزیز ہے بنسبت اس کے کہ کوئی شخص گھر بار چھوڑ کر جنگل میں‬
‫جا بیٹھے جہاں ا ُسے پریشان کرنے کے لیے نہ تو دنیا ہو اور نہ ہی‬
‫شیطان۔ ہم سب کو جو زندگی دی گئی ہے ا ُسی میں رہتے ہوئے الل ّٰ ہ‬
‫سے راضی یا ناراض ہونے کی آزمائش کا نام زندگی ہے‪ ,‬اسی‬
‫آزمائش کے باعث زندگی آگے بڑھتی ہے یہ آزمائش نہ ہو تو زندگی‬
‫گ ُ زرنے کا احساس ہی نہ ہو۔ اور جہاں تک بات ہے بار بار آزمائے‬
‫جانے کی تو یہ آزمانے والے کی مرضی ہے۔ لوگ ایک ہی راستے‬
‫سے کئی کئی بار بھی آزم ائے جاتے ہیں کیونکہ اکثر ہمیں بات سمجھ‬
‫نہیں آ رہی ہوتی ا ِس لیے بار بار سمجھایا جاتا ہے۔" ا ُس کی بیوی نے‬
‫پوچھا "کیا آپ کے ساتھ کچھ ایسا ہ ُوا کبھی۔؟" تو ا ُس نے کہا "ہاں‬
‫کئی دفعہ‪ ,‬میری عادت ہے کہ جوتے مسجد کے باہر ا ُتار کر جاتا ہوں‪,‬‬
‫ا ِس عادت کی وجہ یہ ہے کہ م یں نے ہمیشہ یہ سوچا کہ جب میں الل ّٰ ہ‬
‫کے گھر آیا ہوں تو مجھے ا ُس پے بھروسا رکھنا چاہیے اور اپنی‬
‫چ پ ّلوں کی فکر نہیں کرنی چاہیے‪ ,‬نماز میں اکثر میں اپنے آپ سے‬
‫لڑتا رہتا اور اپنا دھیان اپنی چ پ ّل سے ہٹانے کی کوشش کرتا جب روز‬
‫مجھے میری چ پ ّل مل جایا کرتی تو آہستہ آہستہ مجھے تسلی ہونا‬
‫شروع ہو گئی اور ایک دن جب میں مسجد سے باہر آیا تو میری چ پ ّل‬
‫غائب تھی۔ میرے ساتھ ساتھ میرے دوستوں نے بھی مل کے تالش کی‬
‫مگر چ پ ّل نہیں ملی لیکن اگلی ہی نماز میں‪ ,‬میں پھر سے چ پ ّل باہر‬
‫چھوڑ کر گیا۔ ا ُس کے بعد بھی ایک دو دفعہ ایسا ہ ُوا لیکن میں نے‬
‫اپنی عادت نہیں بدلی‪ ,‬شادی سے چند ماہ پہلے بھی ایسا ایک واقع ہوا‪,‬‬
‫میرے پاس تین جوڑے جوتے تھے اور میں انہیں بدل بدل کر پہنا کرتا‬
‫تھا۔ ظہر کی نماز میں اکثر اپنے دفتر کے پاس والی مسجد میں پڑھا‬
‫کرتا تھا۔ اور حس بِ معمول جوتے باہر ہی ا ُتار کر جاتا تھا۔ ایک دن‬
‫مسجد سے باہر نکال تو جوتے غائب تھے‪ ,‬میں نے جوتے ڈھونڈھنے‬
‫کی جگہ فور ا ً الحمدلل ّٰ ہ کہا اور سوچا کہ یقینا ً کوئی شخص سخت‬
‫مجبور ہو گا ا ِسی لیے ال ل ّٰ ہ نے میرے جوتے ا ُسے دے دیے‪ ,‬اور‬
‫جوتے چوری ہو جانے پر الل ّٰ ہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ننگے پیر اپنے‬
‫دفتر جا پہنچا‪ ,‬اگلے روز دوسرے جوتے پہن کے دفتر گیا اور ظہر‬
‫کی نماز مسجد میں ادا کی اور جب مسجد سے باہر آیا تو جوتے پھر‬
‫‪113‬‬
‫سے غائب تھے‪ ,‬میں نے گزشتہ روز کی طرح پھر سے الل ّٰ ہ کا ش ُ کر‬
‫ادا کیا اور دفتر پہنچا تو میرے دفتر میں کام کرنے والے ایک عمر‬
‫رسیدہ صاحب نے مجھے دوبارہ ننگے پیر دفتر آتے دیکھ کر جوتے‬
‫چ رانے والے کو سخت بددعائیں دیں تو میں نے ا ُن سے کہا کہ میں‬ ‫ُ‬
‫نے ا ُس شخص کو معاف کر دیا ہے‪ ,‬آپ کچھ مت کہیں ا ُسے لیکن‬
‫انہوں نے بد دعائیں دینا نہیں چھوڑا تو میرے دل میں عجیب سا ڈر‬
‫پیدا ہوا کہ کہیں ا ُن کی بددعا لگ ہی نہ جائے ‪ ،‬ا ِس لیے م یں نے ا ُسی‬
‫وقت دو رکعت نماز پڑھی اور الل ّٰ ہ سے دعا کی کہ ا ُس شخص کو‬
‫معاف کر دیا جائے‪ ,‬اگلے روز میں اپنے جوتوں کا آخری جوڑا پہن‬
‫کر دفتر گیا‪ ,‬میں مسجد کے فرسٹ فلور پے ایک کونے میں اکیال نماز‬
‫پڑھتا تھا‪ ,‬نماز پڑھ کر جب میں سیڑھیاں ا ُتر رہا تھا تو دور سے‬
‫میری ن ظر ا ُس جگہ پڑی جہاں میں نے اپنے جوتے ا ُتارے تھے اور‬
‫حسب معمول تیسرے روز بھی میرے جوتے غائب تھے۔ یہ دیکھ کر‬
‫میں واپس ا ُسی جگہ جا کے بیٹھا جہاں میں نے نماز پڑھی تھی اور‬
‫کہا "الل ّٰ ہ میاں اب اور جوتے نہیں ہیں میرے پاس‪ ,‬اور ابھی پہلی‬
‫تاریخ دور ہے‪ ,‬ورنہ میں نئے جوتے خرید لیتا لیکن ابھی میرے‬
‫حاالت ایسے نہیں ہیں کہ نیا جوتا خرید سکوں‪ ,‬ا ِس لیے پلیز میرے‬
‫جوتے واپس کر دیجیے‪ ,‬اتنا کہہ کر میں خاموشی سے دل میں کسی‬
‫جواب کے آنے کا انتظار کرنے لگا‪ ,‬مجھے دو چار منٹ گ ُ زرے جب‬
‫کوئی جواب نہ آیا تو میں نے کہا الل ّٰ ہ میاں میں آج ج وتے لیے بغیر‬
‫واپس نہیں جاؤں گا‪ ,‬اور آپ کو پتا ہے آج دفتر میں کتنا کام ہے‪ ,‬جتنا‬
‫دیر سے جاؤں گا اتنی باتیں س ُ نی پڑیں گی مجھے‪ ,‬ا ِس لیے پلیز‬
‫مجھے میرے جوتے دے دیجیے‪ ,‬اس طرح تقریبا ً پندرہ منٹ تک کوئی‬
‫جواب نہ آیا‪ ,‬میری عادت ہے کہ میں اپنی دعا بار بار دہراتا نہیں رہتا‬
‫اس لیے زبان بند کیے خاموش دل سے ا ُس کا جواب س ُ ننے کا منتظر‬
‫تھا کہ دل میں آواز آئی کہ " ا ُٹھو۔" ا ِس ایک لفظ میں اتنا اثر تھا کہ‬
‫میں بے اختیار سا ا ُٹھ کے کھڑا ہو گیا‪ ,‬اور سیڑھیاں ا ُترنے لگا‪ ,‬جب‬
‫آخری سیڑھی ا ُترنے لگا تو دل سے آواز آئی کے مسجد کے ہال میں‬
‫دائیں جانب تیسرے ریک میں تمھارے جوتے ہیں‪ ,‬میں نے جا کر‬
‫دیکھا تو سچ ُم چ ا ُس ریک میں میرے جوتے تھے اور ا ِس سے بھی‬
‫ذیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ جو جوتے ریک میں رکھے ہوئے‬
‫‪114‬‬
‫تھے وہ ا ُس دن والے نہیں بلکہ ا ُس سے ایک دن پہلے والے تھے۔ میں‬
‫نے جوتے نکالے اور الحمدلل ّٰ ہ پڑھتے ہوئے مسجد سے نکل آیا" اتنا‬
‫کہہ کر وہ خاموش ہوا تو ا ُس کی بیوی نے کہا " ا ِس کا مطلب کہ ہم‬
‫ایک ہی راہ سے بار بار بھی آزمائے جا سکتے ہیں‪ ,‬یعنی جب انسان‬
‫کو کسی سبق کو دہرانے کی ضرورت ہو تو الل ّٰ ہ کی رحمت سے ا ُسے‬
‫وہ سبق دوبارہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ اب ٹھ یک سے بات سمجھ آ گئی۔‬
‫اب سو جائیں صبح دفتر جانا ہے آپ نے۔" ا ُس نے کہا "ہاں میں بھی‬
‫یہی سوچ رہا تھا‪ ,‬سو جاؤ‪ ,‬شب بخیر "‬
‫وہ اپنی زندگی کے سخت سے سخت حاالت پر بھی بہت مطمئن رہتا‬
‫تھا‪ ,‬اکثر بہت چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لیے ا ُسے لوگوں سے‬
‫پیسے ا ُدھار مانگنے کی ضرورت پڑ جاتی اور کسی کے سامنے ہاتھ‬
‫پھیالنے کی ذلت ا ُس کے چہرے سے نمایاں ہو جاتی تھی‪ ,‬اسی وجہ‬
‫سے وہ اکثر کسی کے پاس پیسے مانگنے جاتا تو ا ُس سے کہہ نہ پاتا‬
‫اور ایسے ہی واپس آ جاتا‪ ,‬پھر وہ سوچتا کہ الل ّٰ ہ نے یہی سبب مقرر‬
‫فرمایا ہو گا میرے لیے۔ وہ بہت ذمہ داری سے م قررہ وقت پر لوگوں‬
‫کا ا ُدھار واپس کر دیا کرتا تھا لیکن مجبور ہو کر کسی سے پیسے‬
‫مانگنا ا ُسے اندر سے توڑ دیا کرتا تھا۔‬

‫‪115‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫اکثر شیطان ا ُسے توڑنے کی کوشش کرتا اور کہتا کہ اگر ت ُو الل ّٰ ہ کو‬
‫اتنا ہی پیارا ہے تو تیری غریبی کیوں دور نہیں ہو ج اتی‪ ,‬ت ُو گناہوں‬
‫سے پوری طرح پاک کیوں نہیں ہو جاتا۔ تو وہ شیطان کو کہتا کہ یہ‬
‫میرے اور میرے الل ّٰ ہ کے بیچ کی بات ہے‪ ,‬ا ُس نے مجھے جو دیا اور‬
‫جو نہیں دیا میں ا ُس سب پر ا ُس سے راضی رہنے کی کوشش کرتا‬
‫رہتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ وہ بھی میرے اعمال کی کمی بیشی‬
‫کے باوجود مجھ سے راضی رہتا ہو گا‪ ,‬کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ‬
‫میرے جسم پے لگے داغ نہیں دیکھتا بلکہ میرا دل دیکھتا ہے۔ اے‬
‫شیطان میں جانتا ہوں کہ ت ُو مجھے میرے گناہ یاد ِد ال کر مجھے توڑنا‬
‫چاہتا ہے‪ ,‬جس طرح ت ُو لوگوں کو ایک نماز چھوڑ دینے کا گناہ یاد‬
‫کرا کر دوس ری نماز سے بھی روک دیتا ہے‪ ,‬لوگ تین جمعے چھوڑ‬
‫کر نماز ہی پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں کہ اب تو ہمارے دل پے مہر لگ ہی‬
‫چ کی ہے تو نماز پڑھنے کا کیا فائدہ‪ ,‬میں خوب جانتا ہوں تجھے اور‬ ‫ُ‬
‫تیرے ہتھکنڈوں کو‪ ,‬جا کوئی نئی بات سوچ کے آ‪ ,‬مجھے معلوم ہے کہ‬
‫میرا رب توبہ قبول کرتا ہ ے اور بار بار توبہ قبول کرتا ہے‪ ,‬میں مانتا‬
‫ہوں کہ گناہگار ہوں میں لیکن میں جانتا ہوں کہ کوئی ایسا گناہ نہیں‬
‫ہے جس کے بعد بندہ الل ّٰ ہ کی جانب واپس نہ جا سکتا ہو۔ اکثر وہ کسی‬
‫سوال پے ا ُلجھ جاتا تو ا ُس کے دل میں ا ُس کے ُم رشد پاک کی طرف‬
‫سے جواب آ جاتا جسے س ُ ن کے ا ُس کے دل کو اطمینان ملتا اور‬
‫شیطان دفعہ ہو جاتا۔ ایک روز وہ ا ِس سوال میں ا ُلجھا تھا کہ یہ کیسے‬
‫پتا چلے گا کہ کون سی آواز شیطان کی ہے اور کون سی رحمان کی۔؟‬
‫تو ا ُس کے ُم رشد پاک نے ا ُسے سمجھایا کہ شیطان ہر ایک کے‬
‫پیچھے نہیں بھاگتا‪ ,‬ا ُس نے بہت سے پھندے تی ار کر رکھے ہیں لوگ‬
‫انہی پھندوں میں ا ُلجھے رہتے ہیں‪ ,‬شیطان اپنی بات سے پہچانا جاتا‬
‫ہے۔ اگر اندر سے آنے والی آواز آپ کو کسی کے خالف ورغال رہی‬
‫ہے‪ ,‬کسی ب ُ رائی پر ا ُکسا رہی ہے تو یقینا ً وہ آواز شیطان کی ہے‪,‬‬
‫اپنے اوپر بیتنے والے کسی د ُکھ کا تزکرہ کر کر کے اداس ہ ونا بھی‬
‫شیطان کی ہی چال ہے ا ِس افسوس کے ذریعے وہ لوگوں کو الل ّٰ ہ کی‬

‫‪116‬‬
‫ذات سے مایوس کرتا ہے۔ اوالد کا غم‪ ,‬مال کی فکر‪ ,‬لوگوں کی نظر‬
‫میں اچھا‪ ,‬ب ُ ر ا یا طاقتور دکھائی دینے کی چاہ‪ ,‬کسی کو نیچا دکھانے‬
‫کی خواہش‪ ,‬اور کسی کو نیچ سمجھنے کی سوچ‪ ,‬سب شیطان کی‬
‫آوازیں ہیں جو وہ انسان کو ا ُس کے نفس کی زبانی س ُ نا س ُ نا کر ا ُسے‬
‫یہ یقین دالنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ تیرے دل کی آواز ہے۔ اور‬
‫لوگ ا ِن آوازوں کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ یقین کر بیٹھتے ہیں‬
‫کہ یہی ا ُن کے دل کی چاہت ہے۔ ظلم کرنے واال ظلم کرنے کو اپنا‬
‫شوق اورحق مانتا ہے اور ظ لم سہنے واال ا ُس ظلم کو اپنی م جبوری‬
‫اور اپنا نصیب سمجھتا ہے۔ ایسے ظالم اور مظلوم دونوں گمراہ ہیں‪,‬‬
‫دونوں شیطان کی قید میں ہیں‪ ,‬شیطان ا ِسی طرح لوگوں کے ذہنوں کو‬
‫غالم کر کے ا ُن پے حکومت کرتا ہے‪ ,‬جو شخص خود سے لڑنے کی‬
‫کوشش نہیں کرتا وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکتا ۔ ایسے لوگوں پر شیطان‬
‫توجہ نہیں دیتا‪ ,‬کیونکہ وہ لوگ خود اپنی ہی گمراہی میں م حو ہیں‪,‬‬
‫کچھ لوگ دنیا و نفس کی لذ توں کو اپنے س ُ کھ کا سامان سمجھتے ہیں‬
‫اور ا ِسی کو جینے کا مقصد بنا لیتے ہیں‪ ,‬ا ِس طرح کے لوگوں کو‬
‫بہکانے کے لیے بھی شیطان کی ضرورت نہیں پڑتی‪ ,‬ا ُن کا ن فس ہی‬
‫ا ُن کی گمراہی کے لیے کافی ہوتا ہے۔ پھر کچھ لوگ ہوتے ہیں جو‬
‫دنیا اور نفس کو ہی سب کچھ نہیں سمجھتے بلکہ دین کو بھی اپنی‬
‫زندگی کا ح صّ ہ سمجھتے ہیں‪ ,‬ا ُن کے نزدیک نفس کی ہوس اور دنیا‬
‫کی حرص کے ساتھ ساتھ ج ن ّ ت حاصل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ا ِس‬
‫لیے ایسے لوگ ظاہ ری عبادات کا خاص اہتمام رکھتے ہیں‪ ,‬لیکن‬
‫ایسے لوگوں کی عبادات محض دنیاوی اور اخروی اغراض کے لیے‬
‫ہوتی ہیں ا ِس لیے یہ لوگ بھی شیطان کی توجہ حاصل کرنے میں‬
‫ناکام رہتے ہیں‪ ,‬ا ِس کے بعد وہ لوگ ہیں جو دنیا اور نفس سے بچ کر‬
‫چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور عبادات میں دھیان دیتے ہیں‪ ,‬ا ِن میں‬
‫سے اکثر ا ِس سوچ میں ا ُلجھ جاتے ہیں کہ میرا طریقہ‪ ,‬تلفظ اور‬
‫طہارت مشکوک ہے‪ ,‬اور جو ا ِس شک سے پیچھا چ ھُ ڑا پاتے ہیں ا ُن‬
‫میں سے اکثر حور و قصور کو اپنی منزل مان لیتے ہیں‪ ,‬ا ِن لوگوں پر‬
‫بھی شیطان توجہ نہیں دیتا کیونکہ یہ بھی اپنے آپ کے لیے ک افی‬
‫ہوتے ہیں۔ ا ِن سب سوچوں سے بچ کر جو شخص الل ّٰ ہ کی طلب میں‬
‫آگے بڑھتا ہے‪ ,‬شیطان ا ُس کے راستے میں آتا ہے۔ اگر کسی راہ پر‬
‫‪117‬‬
‫جانے سے شیطان تمہیں روکنے کی کوشش کرتا ہے تو جان لو کہ وہ‬
‫راستہ الل ّٰ ہ کا راستہ ہے۔ شیطان عام لوگوں کے سامنے حرص‪ ,‬ہوس‪,‬‬
‫غرور‪ ,‬مایوسی‪ ,‬او ر پریشانیوں کے ب ُ ت رکھ کر ا ُنہیں چھوڑ دیتا ہے‪,‬‬
‫اور سب پر نظر رکھتا ہے کہ کہیں کوئی الل ّٰ ہ کی جانب مائل تو نہیں‬
‫ہو رہا۔ جب لوگ الل ّٰ ہ کی جانب بڑھتے ہیں تو وہ ا ُنہیں فرقہ واریت‬
‫کی باتوں میں ا ُلجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ کون سا فرقہ صحیح‬
‫ہے‪ ,‬کون سا غلط ہے‪ ,‬نماز روزے کا صحیح طریقہ کس طرح سیکھا‬
‫جائے۔ کون سی کتاب کون سے عالم سے سے مشورہ لینا درست ہے‬
‫اور کون سے عالم سے مشورہ کرنا غلط ہے۔ لوگ انہی باتوں میں‬
‫ڈوبتے ابھرتے رہتے ہیں‪ ,‬بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو الل ّٰ ہ کو اپنے دل‬
‫میں تالش کرنے کی کوشش کرتے ہیں‪ ,‬شیطان ا ُنہیں اپ نے سواالت میں‬
‫ا ُلجھانے کی کوشش کرتا ہے‪ ,‬انہیں ا ُن کی زندگیوں کے حاالت و‬
‫واقعات سے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ت ُو اپنے رب کے‬
‫حضور پیش ہونے کے الئق ہی نہیں ہے‪ ,‬شیطان لوگوں کے سامنے‬
‫انبیاء ‪ ،‬اولیاء اور صالحین کی مثالیں پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ‬
‫نیک لوگ تھے اور ت ُو بدکار ہے ا ِس لیے تیری اوقات ہی نہیں ہے کہ‬
‫ت ُو الل ّٰ ہ سے ا ُس کا ق ُ رب طلب کر سکے اور لوگ ا ِسے اپنی عاجزی‬
‫سمجھ کر الل ّٰ ہ کی طلب سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ا ِس لیے ہر وہ خیال‬
‫جو تمہیں الل ّٰ ہ سے‪ ,‬الل ّٰ ہ والوں سے یا الل ّٰ ہ کی مخلوق سے دور کرتا‬
‫ہے شیطا نی خیال ہے۔ ہر وہ بات جو تمھیں الل ّٰ ہ کی راہ سے ُر ک‬
‫جانے پے مجبور کرے وہ شیطان ہے جو عاجزی و انکساری کے‬
‫لباس میں تمھیں دھوکہ دینے کی کوشش میں ہے۔ تو جو بات محبت‬
‫اور انسانیت کے خالف ہو ا ُس پے خواہ کسی بھی نبی ولی یا صحابی‬
‫کا نام لکھا ہو ا ُسے ہرگز تسلیم نہیں کرنا۔ الل ّٰ ہ کی آواز انسان کو‬
‫حوصلہ دیتی ہے‪ ,‬ا ُمید دیتی ہے‪ ,‬ایک دوسرے سے محبت کرنا‬
‫سکھاتی ہے‪ ,‬ب ُ رائی سے روکتی اور بھالئی پر مائل کرتی ہے۔ ہر‬
‫انسان اپنے الفاظ سے پہچانا جاتا ہے‪ ,‬اسی طرح رحمانی یا شیطانی‬
‫خیال کی پرکھ بھی ہوتی ہے۔ پیغام سے پہچان ہوتی ہے۔‬
‫ح بِ‬‫اپ نے ُم رشد سے اپنے سوالوں کے جواب حاصل کر کے ا ُس کا دل ُ‬
‫ُم رشد سے سرشار ہو جاتا تھا۔ اور وہ اپنے ُم رشد سے ملنے کو بیتاب‬
‫ہو جاتا تھا۔ ا ُس کے ُم رشد پاک اکثر ا ُس کے شہر تشریف التے اور‬
‫‪118‬‬
‫تقریبا ً ہر دفعہ ہی ا ُس کو ا ُن سے مالقات کا شرف نصیب ہوتا۔ جس‬
‫روز س ُ لطان مح مد اصغر علی (رح) سے ا ُس کی آخری مالقات ہوئی‬
‫ا ُس دن شدید رش کے باعث وہ ا ُن کے قریب نہ جا سکا۔ جب آپ (رح)‬
‫گاڑی میں بیٹھ کر واپس جانے لگے تو بہت سے لوگ آپ (رح) کی‬
‫گاڑی کے پاس اکھٹے ہو گئے اور ا ُسے پھر سے قریب جانے کا موقع‬
‫نہ ِم ل سکا تو وہ گیٹ سے تھوڑے فاصلے پے جا کر کھڑا ہو گیا۔ سب‬
‫سے ملنے کے بعد جب گاڑی آگے بڑھی تو ا ُس کے سامنے سے‬
‫گ ُ زرتے ہوئے ا ُس کے ُم رشد پاک نے گاڑی ُر کوائی اور وہ گاڑی ُر کتا‬
‫دیکھ کر تیزی سے آگے بڑھا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے ُم رشد پاک‬
‫کا ہاتھ تھام کر ہاتھ پے بوسہ دیا اور ا ِسی دوران گاڑی چل پ ڑی اور‬
‫ا ُس کے ہاتھ سے ا ُن کا ہاتھ چ ھُ وٹ گیا۔ ا ُس ا ِس بات پے ایک عجیب‬
‫سا احساس ہوا کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا کہ ُم رشد پاک کسی سے‬
‫مل رہے ہوں اور ا ُن کے ڈرائیور گاڑی چال دیں‪ ,‬ا ُس نے اپنے ُم رشد‬
‫پاک کی گاڑی کو دیکھا جو تیزی سے دور جا رہی تھی اور دل زبانی‬
‫ا پنے ُم رشد پاک سے کہا " ا ِس بات کا کچھ مطلب ہے کیا۔؟ میں سمجھا‬
‫نہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔" تو ا ُس کے دل میں ا ُس کے ُم رشد پاک کی‬
‫آواز آئی کہ "اب ُم القات نہیں ہو گی"۔ ایک پل کے لیے ا ُس پر جیسے‬
‫سکتا سا طاری ہو گیا۔ یہ سوچ کر کہ اب میں ا ُن سے دوبارہ نہ مل‬
‫سکوں گا‪ ,‬ا ُسے اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔اپنے ُم رشد‬
‫کے دیدار سے محروم ہونے کا خیال ہی ا ُس کے لیے جان لیوا تھا۔ جن‬
‫ِد نوں وہ پیر ساب ہوتا تھا ا ُس وقت ایک بار ا ُس کا اپنے دفتری ملنے‬
‫والوں میں سے کسی کے توسط سے انگلینڈ کی کسی بہت امیر فیملی‬
‫کے کچھ لوگوں سے راب طہ ہوا جن کے انگلینڈ میں کسی ہوسپٹل کی‬
‫انسپیکنشن چل رہی تھی اور وہ ا ِس سلسلے میں کافی پریشان تھے‬
‫انہوں نے ا ُس کے سامنے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو جواب میں ا ُس‬
‫نے جو جو بھی کہا سب درست ثابت ہوا اور ا ُس کے بتائے وقت پر ا ُن‬
‫کے ہوسپٹل کو کلیرینس بھی مل گئی۔ تو انہوں نے ا ُسے پیغام بھیجا‬
‫کہ ہم آپ کو اور آپ کی فیملی کو سب کو انگلینڈ لے کے جانا چاہتے‬
‫ہیں آپ بس ہمارے ساتھ رہیں وہاں پر‪ ,‬آپ کو کسی قسم کا کام کرنے‬
‫کی ضرورت نہیں ہے اور اگر چاہیں تو کوئی کام کر بھی سکتے ہیں‪,‬‬
‫ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔" ا ُس نے ا ُن کی آف ر س ُ ن کر کہا تھا کہ‬
‫‪119‬‬
‫"آپ کی آفر اتنی شاندار ہے کہ ا ِسے کوئی بیوقوف ہی رد کرے گا‪,‬‬
‫اور بات یہ ہے کہ میں وہ بیوقوف ہوں‪ ,‬انہوں نے جو کچھ دیکھا س ُ نا‬
‫وہ سب میں نہیں بلکہ میرے ُم رشد کی ذات ہے‪ ,‬ابھی میری بات‬
‫صحیح ثابت ہو رہی ہے تو وہ مجھے ساتھ رکھنا چاہ رہے ہیں‪ ,‬کل کو‬
‫اگر میری باتیں پوری ہونا بند ہو گئیں تو کیا واپس بھیج دیں گے‬
‫مجھے۔؟ مجھ میں جو کچھ اچھا ہے سب میرے ُم رشد کا ہے‪ ,‬انہیں‬
‫دیکھے بنا مجھے چین نہیں آتا‪ ,‬اور صرف میں نہیں ا ُن کے اور‬
‫مریدین کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ میں یہاں اسالم آباد میں ہ وں اور ہر‬
‫مہینے کم از کم ایک بار جھنگ ضرور جاتا ہوں‪ ,‬ایک جانب سے‬
‫قریب آٹھ گھنٹے کا سفر طے کرن ا پڑتا ہے۔ ہم رات کو نکلتے‬
‫ہیں‪ ,‬صبح پہنچ کر اکثر کئی گھنٹے انتظار کرتے ہیں کہ ُم رشد پاک کو‬
‫ایک نظر دیکھ سکیں‪ ,‬ا ُن کی آواز س ُ ن سکیں‪ ,‬اپنا ہاتھ ا ُن کے ہاتھ میں‬
‫دے سکیں۔ اور ا ِس طویل سفر می ں چند پل کی مالقات دل کو وہ سکون‬
‫بخشتی ہے جو ساری تھکن ا ُتار دیتی ہے‪ ,‬میں یہاں رہتے ہوئے ا ُن‬
‫سے مالقات کے لیے تڑپتا رہتا ہوں‪ ,‬انگلینڈ چال گیا تو َم ر ہی نہ جاؤں‬
‫کہیں۔ ویسے بھی میں پاکستان سے باہر کسی جگہ نہیں جانا چاہتا میرا‬
‫انگلینڈ میرا اپنا ُم لک ہے۔ یہاں کی خالی جیب مجھے انگلینڈ کے‬
‫پونڈز سے ذیادہ پیاری ہے۔ اگر وہ مجھے میری وجہ سے اپنے ساتھ‬
‫لے جانا چاہتے تو شاید میں سوچتا بھی ا ِس بات پر لیکن " پیر ساب "‬
‫بن کے جانے کا شوق نہیں ہے مجھے ۔ میں جو نہیں ہوں وہ بن کر میں‬
‫لوگوں کو دھوکہ دیتے ہوئے زندگی نہیں گ ُ زارنا چاہ تا۔" ا ُس روز‬
‫ا ُسے یہی خیال کھائے جا رہا تھا کہ میں اپنے ُم رشد کو دیکھے بنا‬
‫جیئوں گا کیسے۔؟ اپنے وصال سے کچھ وقت قبل ہی س ُ لطان محمد‬
‫اصغر علی (رح) اپنے بڑے بیٹے س ُ لطان محمد علی صاحب کو اپنا‬
‫ت فقر کا امین بنایا اور تمام ُم ریدین کو‬ ‫جانشین ظاہر کرتے ہوئے دول ِ‬
‫ا ُن کی پیروی کرنے کو کہا۔ ا ِس واقعے سے بھی یہی ظاہر ہوتا تھا کہ‬
‫الل ّٰ ہ واال‪ ,‬الل ّٰ ہ کے پاس جانے کی تیاری کر رہا ہے۔ س ُ لطان محمد‬
‫اصغر علی (رح) نے اپنے آخری ایام کا بیشتر ح صّ ہ اسالم آباد میں ہی‬
‫گ ُ زارا۔ آپ (رح) ‪ 40‬اگست ‪ 4602‬کو پیدا ہوئے اور ‪ 79‬دسمبر ‪7447‬‬
‫کو جہا ِن فانی سے ک ُ وچ فرمایا۔ ا ُس روز صبح ا ُس کی آنکھ اپنے بھائی‬
‫کے فون سے ک ھُ لی جس نے ہچکیوں سے روتے ہوئے ا ُسے س ُ لطان‬
‫‪120‬‬
‫محمد اصغر علی (رح) کے پردہ فرمانے کی خبر س ُ نائی۔ ا ُس کی ذبان‬
‫سے ایک لفظ نہ نکل سکا اور ا ُس کے بھائی نے ا ُسے بتایا کہ وہ آپ‬
‫(رح) کے جنازے میں شر کت کے لیے جھنگ جا رہا ہے۔ ایک پل کو‬
‫ا ُس کا دل پسیج کر رہ گیا کیونکہ ا ُس کی جیب خالی تھی اور وہ بہت‬
‫شدت سے چاہتا تھا کا آخری بار اپنے ُم رشد پاک کا دیدار کر سکے‬
‫لیکن حاالت نے اجازت نہ دی۔ بوجھل دل سے وہ دفتر گیا اور شام کو‬
‫جب وہ اپنے کزن سے مال تو بے اختیار ا ُس کے گلے لگ کر رونا‬
‫شروع ہو گیا‪ ,‬ا ُس کے کزن کے والد نے ا ُسے سمجھایا کہ الل ّٰ ہ والے‬
‫دنیا سے جانے کے بعد ُم ریدین کے اور ذیادہ قریب ہو جاتے ہیں‪ ,‬ب ُ ری‬
‫بات ہے الل ّٰ ہ والوں کو رویا نہیں کرتے۔ لیکن وہ اپنے آنسو نہ روک‬
‫سکا۔ وہ اپنے کزن کو ساتھ لے کر اپنے گھر جا رہا تھا کہ بازار سے‬
‫گ ُ زرتے ہوئے نہ جانے ا ُس کے دل میں کیا آئی کہ وہ اپنے کزن کے‬
‫ساتھ ایک پی۔سی۔او میں چال گیا اور فون بوتھ میں جا کر جھنگ فون‬
‫مالنے لگا‪ ,‬ا ُس کے کزن نے ا ُسے سمجھاتے ہوئے کہا " ا ِس وقت‬
‫کوئی تمہارا فون نہیں ا ُٹھائے گا سب ُم رشد پاک کے جنازے میں‬
‫مصروف ہوں گے" تو ا ُس نے کہا "کیا پتہ ہمیں فون پر ہی جنازے‬
‫میں شرکت کا موقع ِم ل جائے" اور ایسا ہی ہوا‪ ,‬فون اٹھانے والے کو‬
‫اسالم و علیکم کہتے ہوئے‪ ,‬تالوت کی آواز س ُ ن کر ا ُس نے پوچھا "کیا‬
‫جنازہ پڑھا جا رہا ہے وہاں۔؟" اور ہاں میں جواب س ُ ن کر ا ُس نے کہا‬
‫"آپ تھو ڑی دیر کے لیے فون کا ریسیور سائڈ پر رکھ دیجیے اور‬
‫ہمیں جنازہ س ُ ننے دیجیئے" انہوں نے ا ُس کی گ ُ زارش قبول کی اور‬
‫ریسیور سائڈ پے رکھ دیا ا ِس طرح ا ُس نے اور ا ُس کے کزن نے فون‬
‫پر اپنے ُم رشد پاک کے جنازے میں شرکت کر کے اپنے دل کی تسلی‬
‫کا سامان کیا۔‬

‫‪121‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫اپنے ُم رشد پاک کے پردہ فرمانے کے بعد وہ کافی وقت دربار پر نہیں‬
‫گیا۔ ایک عجیب سی ا ُداسی نے ا ُسے گھیر رکھا تھا۔ بہت سے دوسرے‬
‫ُم ریدین نے ا ُسے س ُ لطان محمد علی صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا‪,‬‬
‫ہر وہ شخص جو س ُ لطان محمد علی صاحب سے مل کر آتا وہ ا ُسے یہی‬
‫بتاتا کہ فی ض کا وہی عالم ہے‪ ,‬بس صورت بدلی ہے باقی سب وہی ہے۔‬
‫اور ا ُسے ا ِس بات پر کچھ شک بھی نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ا ُس کے‬
‫ُم رشد پاک نے سلسلے کی باگ دوڑ قابل ہاتھوں میں دی ہے اور ا ُس‬
‫کے دل میں خواہش تھی کہ جلد از جلد س ُ لطان محمد علی صاحب کے‬
‫ہاتھ پر بھی بیعت کر لے۔ لیکن کچھ ایسے حاالت بنے کہ قریب دو‬
‫سال تک ا ُس کی ا ُن سے ُم القات نہ ہو سکی ۔ شاید اس کی یہی وجہ‬
‫تھی کہ اس دوران الل ّٰ ہ کی ذات نے ا ُس کے لیے کچھ اور ا سب ا ق مرتب‬
‫کر رکھے تھے ۔ ا ُس کا انداز گفتگو اور اخالق ایس ا تھ ا کہ وہ ہر طرح‬
‫کے لوگ میں اپنی جگہ بنا لیتا تھا۔ اس باعث ہر طرح کے لوگوں سے‬
‫اس کی شناسائی تھی اور اسے اکثر ایس ے لوگوں میں بھی بیٹھنے کا‬
‫اتفاق ہو جاتا تھا جن میں بیٹھنا تو دور پارسائی کے دعویدار لوگ ان‬
‫کا نام لینے سے بھی کتراتے ہیں ۔ جب سے بیعت اختیار کی تھی تب‬
‫سے وہ ہر طرح کی محفل میں فقیری رنگ میں گفتگو کرنے کی‬
‫کوشش کیا کرتا تھا۔ ا ُس کی زبان مسجد اور میخانے میں ایک سا‬
‫بیان کرتی تھی۔ اکثر لوگ ا ُسے حیرت سے دیکھتے اور ا س ے ٹوکتے‬
‫کہ کس طرح کے ماحول میں کیا بات کر رہا ہے۔ مگر ایسی جگہ‬
‫اکثر اسے ایک شعر یاد آ جاتا جو لوگوں کی زبان بند کرنے کو کافی‬
‫ہوتا۔‬
‫زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کے‬
‫یا وہ جگہ بتا دے جہاں پر خدا نہ ہو‬
‫لیکن ا ُس کی بات ہی ایسی ہوتی تھی کہ لوگ ا ُسے س ُ ننا پسند کرتے‬
‫اور اکثر وہ بہت آس انی سے لوگوں کو مشکل سے مشکل باتیں س مجھا‬
‫لیتا تھا۔ ا ُس دن بھی وہ ایک دوست کے سا تھ اتفاقا ً کسی کے ڈیرے پے‬
‫جا پہنچا تھا اور دیکھا کہ ا ُس جگہ کا مالک وہاں بیٹھے لوگوں کو‬

‫‪122‬‬
‫اولیاء کی باتیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور لوگ بحث کے‬
‫موڈ میں ا ُس سے ا ُلجھ رہے ہیں۔کسی شخص نے پ ُ ر زور انداز میں کہا‬
‫"بھائی الل ّٰ ہ کے آخری رسول کے بعد‪ ,‬اور مکمل ہدا یت یعنی قرآن‬
‫جیسی کتاب کے آنے کے بعد اب یہ ُم رشد کہاں سے آ گیا‪ ,‬رسول الل ّٰ ہ‬
‫صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم ُم رشد کامل ہیں‪ ,‬بس بندے کا پکا ایمان ہونا‬
‫چاہیے الل ّٰ ہ کی ذات پر نبی پاک کا پیغام تمام جہانوں کے لیے ہے‪ ,‬ا ُن‬
‫کے بعد کسی ُم رشد کی کیا ضرورت ہے۔؟" ۔ وہاں م وجود سبھی لوگ‬
‫اپنی عام زندگی میں کچھ نہ کچھ کام کرتے تھے اور معزز طریقے‬
‫سے اپنی زندگی گ ُ زار رہے تھے۔ غرض کہ سبھی لوگ دنیا کی‬
‫نظروں میں اپنی پاکبازی کا بھرم قائم کیے ہوئے تھے۔ ا ُس نے جب‬
‫ماحول دیکھا تو بات کرنا ضروری محسوس کیا اور ب ُ لند آواز میں‬
‫ڈیرے کے مال ک سے کہا "اگر آپ ب ُ را نہ منائیں تو کیا میں بھی آپ‬
‫لوگوں کی گفتگو کا ح صّ ہ بن سکتا ہوں۔؟" "جی ضرور" ڈیرے کے‬
‫مالک نے خوشدلی سے کہا " ا ِن لوگوں کو میری بات سمجھ ہی نہیں‬
‫آتی کیا پتا آپ کی زبانی کچھ سمجھ آ جائے انہیں۔" ا ُس نے سوال‬
‫کرنے والے شخص کو مخاطب کیا اور ک ہا "بھائی اگر میں کہوں کہ‬
‫میں ایک ڈاکٹر ہوں‪ ,‬میں نے بازار سے میڈیکل کی کتابیں خریدیں اور‬
‫ایک ایک کر کے ساری کتابیں پڑھ ڈالیں اور اب میں اپنا کلینک‬
‫کھولنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں تو آپ کیا کہیں گے ۔ ؟ " سوال‬
‫کرنے والے شخص نے ا ُسے عجیب سی نظروں سے دیکھا اور کہا‬
‫" میں یہی کہوں گا کہ ا ِس طرح محض کتابیں پڑھ کر کوئی ڈاکٹر‬
‫تھوڑی بن سکتا ہے‪ ,‬کالج‪ ,‬یونیورسٹی میں داخلہ لینا پڑتا ہے‪ ,‬کسی‬
‫ا ُستاد سے سبق لینا پڑتا ہے اور امتحان پاس کر کے ڈگری حاصل‬
‫کرنی پڑتی ہے پھر کہیں جا کر کوئی ڈاکٹر بنتا ہے۔" ا ُس شخص کا‬
‫جواب س ُ ن کر ا ُس نے مسکراتے ہوئے کہا "جس کتاب کو انسانوں نے‬
‫لکھا ہے‪ ,‬جسے پڑھ کر انسان کی جسمانی بیماریوں اور ا ُن کے عالج‬
‫کی خبر ملتی ہے ا ُس کے لیے ا ُستاد اور درسگاہ کی اہمیت سمجھ آتی‬
‫ہے لیکن جس کتاب کو ال ل ّٰ ہ نے لکھا جس میں روح کی بیماری اور‬
‫عالج کا بیان ہے ا ُس کتاب کے بارے میں ہم یہ سوچتے ہیں کہ ا ُسے‬
‫ہم ب ِ نا کسی ا ُستاد کے ہی سیکھ سکتے ہیں۔ کتنی عجیب سوچ ہے نا۔؟‬
‫قرآن سیکھنا سمجھنا بھی کسی قاری صاحب سے ا ِس کا تلفظ سیکھنا‬
‫‪123‬‬
‫نہیں بلکہ قرآن سیکھنا سمجھنا یہ ہے کہ ا ِسے دل میں ا ُتارا جائے۔‬
‫کیوں قاری صاحب میں غلط تو نہیں کہہ رہا۔؟" ا ُس نے بات کرتے‬
‫کرتے محفل میں موجود قاری صاحب کو مخاطب کر کے پوچھا تو‬
‫انہوں نے بھی ا ُس کی تائید کرتے ہوئے کہا "قاری کا کام تو صرف‬
‫قرآن کی آیات کا تلفظ سمجھانا ہے اور ویسے بھی آج کل لوگ قرآن‬
‫سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ ایک ذمہ داری پوری کرنے کے لیے‬
‫ج لنے والوں میں سینہ ٹھوک کر کہہ سکیں‬ ‫پڑھتے ہیں تاک ہ اپنے ملنے ُ‬
‫کہ ہم نے قرآن پورا ختم کیا ہوا ہے‪ ,‬قرآن حفظ کرنے والوں میں بھی‬
‫اکثر لوگوں کا مقصد قرآن سیکھنا یا قرآن کو دل میں ا ُتارنا نہیں بلکہ‬
‫لوگوں کے دل میں اپنی عزت و احترام بڑھانا ہوتا ہے۔ اور محظ قرآن‬
‫کی آیات یاد کر لینا ا ِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ قرآن دل میں ا ُتر گیا‬
‫ہے۔ ا ِس کا دل میں ا ُترنا کچھ اور معنی رکھتا ہے۔ آج کل ہم لوگوں‬
‫کے دلوں میں قرآن کی حیثیت وہ نہیں رہی جو کہ ہونی چاہیے‪ ,‬بچوں‬
‫کے اسکول کے امتحان شروع ہوتے ہی ہم قاری اور حافظ لوگوں کو‬
‫چ ھُ ٹی دے دی جاتی ہ ے ‪ ,‬والدین بہت اطمینان سے کہتے ہیں کہ قاری‬
‫صاحب ہمارے بچے کے اسکول کے امتحان ہو رہے ہیں اس لیے ا ِس‬
‫چ وں کو قرآن پڑھانے مت آئیے گا۔ اسکول کی پڑھائی کا‬ ‫مہینے آپ ب ّ‬
‫ہرج نہ ہو ا ِس خاطر امتحانوں سے پہلے ہی مدرسے خالی ہو جاتے‬
‫ہیں‪ ,‬جس قوم کی نظر میں قرآن کی یہ اہمی ت ہو ا ُس قوم کے دل میں‬
‫نور ہدایت نہیں‬
‫قرآن کی آیات اور تلفظ تو ہو سکتا ہے لیکن قرآن کا ِ‬
‫ہو سکتا۔" قاری صاحب نے تفصیل سے اس کی بات کا جواب دیا تو‬
‫ا ُس نے کہا "ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں‪ ,‬ہم دنیا کو دین پے فوقیت دیتے‬
‫ہیں‪ ,‬گو کہ ہم برمال اس بات کو تسلیم کرنے پے راضی نہیں ہوتے‬
‫چ ے کو مار مار‬ ‫چ ہ اسکول نہ جائے تو ب ّ‬‫لیکن درحقیقت ایسا ہی ہے‪ ,‬ب ّ‬
‫کر بھیجا جاتا ہے لیکن قرآن پڑھنے سے چ ھُ ٹی کرنے میں کوئی‬
‫مسئلہ نہیں ہے۔ روزی روٹی کی فکر میں مبتال لوگ ایک دوسرے کی‬
‫روزی روٹی ہی کی فکر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی روزی روٹی‬
‫پے ہی نظر ر کھتے ہیں‪ ,‬اسی کے باعث ایک دوسرے کو کمتر یا برتر‬
‫سمجھتے ہیں۔ آج تو لوگوں کا نصب العین ہی دنیا اور نفس ہے‪ ,‬ایسے‬
‫لوگوں سے ا ِس بات کا شکوہ کرنا بے جا ہے کہ وہ دین کو اہمیت نہیں‬
‫چ ے کی پیدائش سے بھی پہلے‬ ‫دیتے۔ ہم جس دنیا میں رہتے ہیں وہاں ب ّ‬
‫‪124‬‬
‫سے ماں باپ ا ُس کی دنی ا سوچنا شروع کر دیتے ہیں‪ ,‬اسی دنیا کی‬
‫طرز پر ہم اپنی اوالد کی پرورش کرتے ہیں ‪ ,‬ایک حد تک تو یہ بات‬
‫جائز‪ ,‬درست‪ ,‬اور الزم ہے لیکن جہاں دنیا کی بھالئی کی اہمیت دین‬
‫کی سوچ سے تجاوز کرتی ہے وہاں یہ سوچ آنے والی نسلوں کے لیے‬
‫وبال بن جاتی ہے۔ لوگوں کو جب ا ِس دنیا میں ا ُتارا جاتا ہے تو ا ُنہیں‬
‫ا ُن کا رب ب ھُ ال دیا جاتا ہے۔ اور پھر ا ُس کے والدین کے ذریعے ا ُسے‬
‫کسی بھی مذہب و مسلک کی صورت رب کا نام بتا دیا جاتا ہے‪ ,‬ساتھ‬
‫ساتھ رب سے جوڑنے والوں کے نام بھی بتا دیے جاتے ہیں۔ ا ِن ناموں‬
‫کو تھامے لوگ رب کا ذکر کرتے ہیں‪ ,‬ہر نام کی تجلی ہوتی ہے‪ ,‬تجلی‬
‫کا لفظ ویسے تو الل ّٰ ہ کی ذات کے جلوے کے لیے استمعال ہوتا ہے‬
‫ف عام میں کسی بھی شئے کے جلوے کو یا اظہار کو تجلی‬ ‫لیکن عر ِ‬
‫کہا جائے گا۔ زمین تجلیات کا گھر ہے‪ ,‬دن رات میں انسان پر ہزارہا‬
‫تجلیات گ ُ زرتی ہیں لیکن ہم ا ُنہیں ا ِس طرح سے نہیں دیکھ تے‪ ,‬صبح‬
‫ہوتی ہے تو سورج کی تجلی اور شام ہوتی ہے تو چاند تاروں کی‬
‫چ ہ اپنے بڑوں‬ ‫تجلی‪ ,‬ماں‪ ,‬باپ‪ ,‬بہن‪ ,‬بھائی‪ ,‬دوست احباب کی تجلی‪ ,‬ب ّ‬
‫کی بول چال کو دیکھ کر بول چال سیکھتا ہے‪ ,‬عام طور پر دیکھا‬
‫چ ے بھی جلدی‬ ‫جائے تو جن گھروں کے لوگ ذیادہ بولتے ہیں وہاں ب ّ‬
‫بولنا سیکھ جاتے ہیں‪ ,‬انسان پر جس طرح کی تجلیات ہوتی ہیں ا ُسی‬
‫طرح کی چیزیں انسان سیکھتا ہے۔ ہر تجلی تک پہنچنے کا ایک راستہ‬
‫ہوتا ہے‪ ,‬جیسے زبان‪ ,‬انسان اپنے ماں باپ سے سیکھتا ہے لیکن ا ُسی‬
‫زبان کا غلط استمعال عموما ً ا ُسے گھر سے باہر سیکھنے کو ملتا ہے‪,‬‬
‫گناہ کی سیکھ کسی نہ کسی جگہ سے ملتی ہے تو انسان گناہ کرنا‬
‫سیکھتا ہے۔ ا ِس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ تجلیات انسان کو اپنے بڑوں‬
‫سے ورثے میں ملتی ہیں اور کچھ تجلیات ا ُسے اپنے ماحول سے‬
‫حاصل ہوتی ہیں اور پھر انسان آہستہ آہستہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ کچھ‬
‫تجلیات خود با خود ا ُس تک پہنچ جاتی ہیں اور کچھ کے لیے ا ُسے‬
‫راز ق کی تجلی ہم روز‬ ‫ِ‬ ‫خواہش اور کوشش کرنی پڑتی ہے۔ مث ال ً‬
‫کھانے پینے کی شکل میں دیکھتے ہیں‪ ,‬خالق کی تجلی ہمیں اپنے آپ‬
‫میں اور اپنے چار س ُ و دکھائی دیتی ہے۔ ا ِس کے عالوہ شیطان کی‬
‫تجلیات بھی ہر جانب واضح طور پر دکھائی دیتی ہیں‪ ,‬میں نے تھوڑا‬
‫بہت بزنس کے بارے میں پڑھا ہے اور مارکیٹنگ میرا پسندیدہ‬
‫‪125‬‬
‫سبجیکٹ تھا۔ ہمیں پڑھایا گیا کہ ا ِس سبجیکٹ کی بنیاد لوگوں کے دل‬
‫میں اپنی مصنوعات کی خواہش پیدا کرنا ہے‪ ,‬یہ ایک آرٹ ہے‪ ,‬کوئی‬
‫ایسی بات کرنے کا‪ ,‬جو لوگوں کو یاد رہ جائے۔ اکثر اشتہارات لوگوں‬
‫کو یاد ہو جاتے ہیں۔ اور اشتہار بنانے والے کی کوشش بھی یہی ہوتی‬
‫ہے کہ لوگوں کو ا ُن کے کالئنٹس کی پروڈکٹ کا نام رٹ جائے۔ ا ِس‬
‫تمام کوشش کے پیچھے شیطان کارفرما ہے جو انسان کو ذیادہ سے‬
‫ذیادہ دنیا اور نفس کی تجلیات دکھا کر ا ُس میں ذیادہ سے زیادہ‬
‫خواہشات بھرنا چاہتا ہے۔ میں جب چھوٹا تھا تو اکثر ٹیلیوژن پر کوئی‬
‫گاڑی یا موٹر سائیکل دیکھ کر میں اور میرا کزن ا ِس بات پر ایک‬
‫دوسرے سے لڑ پڑتے تھے کہ یہ گاڑی میری ہے اور اکثر ا ِس بات‬
‫پر میں ا ُسے مارتا بھی تھا۔ آنکھ سے دکھائی دینے والی تجلی کا‬
‫انسان کی سوچ پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ہر طرح کی‬
‫تجلی موجود رہتی ہے اور انہی تجلیات میں الل ّٰ ہ کی صفات کی تجلیات‬
‫کے ساتھ ساتھ الل ّٰ ہ کی ذات کی تجلی بھی موجود ہوتی ہے۔ صفات کی‬
‫تجلیات انسان کو خود ڈھونڈھ لیتی ہیں لیکن ذات کی تجلی انسان کو‬
‫خود تالش کرنی پڑتی ہے۔ صفات کی طرح‪ ,‬ذات کی تجلی بھ ی انسان‬
‫کو انسان میں ہی ملتی ہے۔" ایک شخص نے ا ُسے ٹوکتے ہوئے حیرت‬
‫سے کہا "لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ الل ّٰ ہ کی ذات کی تجلی کسی‬
‫انسان کی صورت ظاہر ہو۔؟ ا ُس کی ذات کی تجلی تو کو ہِ طور نہیں‬
‫برداشت کر پایا تو انسان کیسے کر سکتا ہے۔؟" تو ا ُس نے مسکرا کر‬
‫سوال کرنے والے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا "انسان اشرف‬
‫المخلوقات ہے اور ا ُس کا شرف یہ ہے کہ اگر وہ مومن ہو جائے تو‬
‫ال ل ّٰ ہ کی ذات ا ُس کے دل میں سما سکتی ہے۔ پہاڑ واقعتا ً ا ِس بوجھ کو‬
‫نہیں ا ُٹھا سکتا۔ لیکن مومن بندے کا دل ا ُس ذات کا گھر کہالتا ہے۔‬
‫الل ّٰ ہ کی ذات کی تجلی ہر انسان کو ا ُس کی طلب کے مطابق ملتی ہے‪,‬‬
‫یہ تجلی وقت میں موجود اولیاء کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی ہے‬
‫لیکن ہر شخص کسی ولی تک نہیں پہنچتا۔ مطلب یہ کہ جس کے نصیب‬
‫میں ال ل ّٰ ہ کی ذات کی تجلی ہو گی وہ تجلی ا ُس تک کسی بھی انسان کے‬
‫روپ میں پہنچ جائے گی پھر جو الل ّٰ ہ کا ط الب ہو گا وہ ا ُس تجلی کے‬
‫محور کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ الل ّٰ ہ کا پیغام لوگوں تک پہنچ‬
‫کر رہتا ہے لیکن ال ل ّٰ ہ والے کا ہاتھ وہ تھامتا ہے جو ال ل ّٰ ہ کی جانب‬
‫‪126‬‬
‫بڑھنا چاہتا ہے۔ آپ نے کہا کہ الل ّٰ ہ کے رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم ُم رشد کامل ہیں‪ ,‬بیشک ایسا ہی ہ ے‪ ,‬لیکن کوئی ذریعہ بھی تو ہو‬
‫ج ڑنا محض روزے‪ ,‬نماز یا قرآن پڑھنے سے‬ ‫گا ا ُن سے ُ‬
‫ج ڑنے کا‪ُ ,‬‬
‫ہوتا تو آج ہم اتنے فرقوں میں بٹے ہوئے نہیں ہوتے۔ دنیا کے کامیاب‬
‫ترین لوگوں کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ یا تو الل ّٰ ہ والے تھے یا‬
‫الل ّٰ ہ والے کے ساتھی تھے‪ ,‬اور پھر اپنے آپ کو دیکھیں‪ ,‬ہم الل ّٰ ہ والے‬
‫نہیں لیکن الل ّٰ ہ والے کے ساتھی تو بن سکتے ہیں۔ تاکہ وہ ہماری روح‬
‫کی تربیت کر کے ہمارا دل الل ّٰ ہ کے لیے کھول دے‪ُ ,‬م رشد سمجھاتا‬
‫ہے کہ شیطان سے کیسے لڑا جائے اور نفس کو کس طرح مطمئن کیا‬
‫جائے۔" وہ ایک پل کو خاموش ہوا تو ایک شخص نے کہا "اچھا یہ‬
‫ُم رشد والی بات تو سمجھ آ گئی لیکن وہ جو آپ نے ٹی وی والی بات‬
‫کی‪ ,‬کہ ا ِس کے ذریعے سے انسان میں خواہشات بھری جاتی ہیں‪ ,‬تو‬
‫ہم لوگ کیا کریں۔؟ کیا ٹی وی دیکھنا چھوڑ دیں۔؟" تو ا ُس نے کہا‬
‫"نہیں‪ ,..‬ٹی وی دیکھیں‪ ,..‬لیکن ا ُن چیزوں کے اثر کو پہچانتے ہوئ ے‬
‫ا ُسے خود پے اثر انداذ مت ہونے دیجیئے۔ ٹیلیوژن سے صرف شیطان‬
‫نہیں بلکہ رحمٰ ان کا پیغام بھی ملتا ہے۔ آپ چاہیں تو کسی فلم یا‬
‫ڈرامے سے کچھ اچھا بھی سیکھ سکتے ہیں۔ اگر کچھ لوگ ا ِس‬
‫ٹیکنولوجی کو شیطانیت کے لیے استمعال کر رہے ہیں تو کچھ لوگ‬
‫ا ِسے رحمانیت کے لیے بھ ی استمعال کر رہے ہیں۔ کیونکہ تجلیات‬
‫الکھ پ ُ راثر سہی لیکن اثر ا ُسی پے ہوتا ہے جو اثر لینا چاہے۔ شیطان‬
‫کو اگر ا ُسی کے کھیل میں شکست دینی ہے تو ا ُسی کے ہتھیار کو ا ُس‬
‫کے خالف استمعال کرنا ہو گا۔ جس چیز کے ذریعے ا ُس نے لوگوں کو‬
‫گمراہ کیا ہے ا ُسی چیز کے ذریعے ہم لوگوں کو را ہِ راست پر بھی ال‬
‫سکتے ہیں۔ جو لوگ اشتہار بناتے ہیں وہ اپنے ایک منٹ کے اشتہار‬
‫میں اپنی مصنوعات کی خصوصیات بیان کرنے کی جگہ اپنی پروڈکٹ‬
‫کی تشہیر کے طور پر لوگوں کو کوئی اچھی بات بھی بتا سکتے ہیں۔‬
‫جس سے لوگوں کو یاد رہ سکے کہ فالں حدیث‪ ,‬آیت‪ ,‬یا د انائی کی بات‬
‫میں نے فالں پان مصالے‪ ,‬فالں چائے بنانے والوں کے تعاون سے‬
‫س ُ نی تھی۔ اگر انسان اپنا آپ پہچان لے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے‬
‫اور شیطان ا ُس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا۔" وہ مسلسل بولتا جا رہا تھا‬
‫اور لوگ انہماک سے ا ُس کی بات س ُ ن رہے تھے۔ ا ُس کی بات کے‬
‫‪127‬‬
‫اختت ام پر لوگوں نے ا ُس سے ا ُس کے ُم رشد کا نام پوچھا تو ا ُس نے‬
‫س ُ لطان محمد علی صاحب کا نام لیا۔ ا ُن کا نام س ُ ن کر جس شخص کا‬
‫ڈیرا تھا ا ُس نے چمک کر کہا "بھائی کیا اتفاق ہے کہ آپ کے ُم رشد‬
‫پاک کا نام محمد علی ہے اور میرے ُم رشد پاک کا نام علی محمد ہے۔‬

‫‪128‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫باتوں باتوں میں ا ُس نے ا ُن لوگوں میں اپنی تالش کا بھی ذکر کیا‬
‫جسے س ُ ن کر ا ُن لوگوں پر اور بھی اثر ہوا اور وہ سب ُم رید ہونے‬
‫کے لیے تیار ہو گئے۔ جس شخص نے سوال کیا تھا ا ُس نے کہا "چلو‬
‫بھائی اب ہمیں یہ بھی بتا دو کہ ہم کس کے ہاتھ پے ب یعت کریں۔؟" تو‬
‫ج ڑا‬‫ا ُس نے کہا "بھائی بیعت تو نصیب کا کھیل ہے جس کا فیض جہاں ُ‬
‫ہو گا وہ وہیں پہنچے گا‪ ,‬بیعت ا ُس کے ہاتھ پے کرو جس کو دل مانے‪,‬‬
‫ہر شخص کے لیے ا ُس کا اپنا ُم رشد ہی بہترین ہوتا ہے ا ِس لیے آپ‬
‫مجھ سے پوچھو گے تو میں یقینا ً اپنے ُم رشد پاک کا ہی نام لوں گا‬
‫کیونکہ میں جو بھی جانتا ہوں اپنے ُم رشد پاک کے ذریعے سے جانتا‬
‫ہوں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کا دل کس کو مانتا ہے۔؟" ا ُس شخص‬
‫نے عقیدت بھرے لہجے میں کہا "ہمارا دل تو آپ کو مانتا ہے‪ ,‬آپ‬
‫جس کا نام لیں ہم ا ُس کے ُم رید ہو جائیں گے‪ ,‬کیونکہ یہ بات جو آپ‬
‫نے ہمیں آج سمجھائی ہے" ا ُس نے ڈیرے کے مالک کی طرف اشارہ‬
‫کرتے ہوئے کہا "یہ بات یہ بھائی ہمیں قریب ڈیڑھ سال سے سمجھا‬
‫رہا ہے۔ مگر سمجھ نہیں آتی تھی‪ ,‬اور آج آپ نے جس طرح یہ بات‬
‫سمجھائی تو دل آپ کو مان گیا‪ ,‬آپ کی بات بھی مان گیا" ا ُس شخص‬
‫نے ک ھُ لے دل سے ا ُس کی تعریف کر تے ہوئے کہا تو ا ُس نے اپنی‬
‫تعریف سے خوش ہوئے بغیر کہا کہ "میں ایک باشرعا سلسلے کا‬
‫بےشرعا ُم رید ہوں‪ ,‬بس قسمت سے ا ُن کا سایہ نصیب ہو گیا‪ ,‬سخی‬
‫ذات نے میرے عیب سمیت مجھے قبول کیا‪ ,‬میں اپنی خواہشات کے‬
‫آگے اب بھی کمزور پڑ جاتا ہوں اور خطا کر بیٹھتا ہوں۔ لیکن میر ا‬
‫ُم رشد مجھے دھتکار نہیں دیتا کہ جا ت ُو نے فالں گناہ کا ارتکاب کیا‬
‫ا ِس لیے اب ت ُو میری ُم ریدی سے خارج ہو گیا ہے۔ ُم رشد‪ُ ,‬م رید کے‬
‫دل میں خطا کرنے سے پیدا ہونے والے خیاالت کا اثر بدل دیتا ہے‪,‬‬
‫اگر وہ پہلے گناہ کر کے احساس گناہ میں مذید گناہوں کی طرف مائل‬
‫ہوت ا تھا تو اب و ہ گناہ کے بعد کسی اچھی سوچ پر مائل ہوگا یا گناہ‬
‫ترک کرنے کے بارے میں سوچے گا ‪ُ ،‬م رشد مرید کا ہاتھ پکڑ کر‬
‫اسے گناہ سے نہیں روکتا بلکہ ا ُس کے دل کو ایسی راہ چال دیتا ہے‬

‫‪129‬‬
‫جس پے چل کے ا ُسے خود اپنی حرکت پر دل سے افسوس ہو‪ ,‬شرم‬
‫آئے‪ ,‬تاکہ ا ُس کے دل میں گناہ سے اجتناب کا ارادہ پیدا ہو‪ ,‬اور اگر‬
‫وہ گناہ سے اجتناب نہیں بھی کرتا تو کم از کم گناہ کے بعد کی ب ُ رائی‬
‫سے محفوظ رہے۔ میں جس سلسے سے ُم رید ہوں وہاں شریعت کی‬
‫سخت پابندی کی جاتی ہے‪ ,‬دربار پر یا ُم رشد پاک کی محفل میں آپ‬
‫کو کوئی غیر شرعی حرکت نظر نہیں آئے گی۔ س ُ لطان باہو رح ا ِس‬
‫قدر کامل مکمل ہستی ہیں کہ فرماتے ہیں‪ ,‬جو شخص ُم رید کو ایک‬
‫نظر میں الل ّٰ ہ کی ذات سے مال نہ دے وہ ُم رشد کہالنے کے الئق ہی‬
‫معیار ُم رشدی کے باعث کچھ ایسے بھی ہیں‬ ‫ِ‬ ‫نہیں ہے۔ آپ رح کے ب ُ لند‬
‫جو آپ کی تعلیمات کا ہی انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ ا ُس مقام سے‬
‫ُم ریدین کو آگاہ کرانے سے قاصر رہتے ہیں جس کا س ُ لطان باہو رح‬
‫ذکر فرماتے ہیں۔ ا ِس لیے وہ ا ُن کے ولی الل ّٰ ہ ہونے سے ہی ُم کر‬
‫جاتے ہیں۔ اصل میں آپ رح جس مقام کی بات کرتے ہیں ا ُس پر‬
‫کھڑے رہنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ لیکن ا ِس کا یہ مطلب‬
‫نہیں ہ ے کہ الل ّٰ ہ کی ذات صرف ا ُن ہی کے در سے ملتی ہے اور باقی‬
‫کسی جگہ کوئی فیض نہیں ہے۔ جس شخص کے دل میں الل ّٰ ہ کی طلب‬
‫ہو ا ُسے الل ّٰ ہ ضرور ملتا ہے۔ اگر دیکھنے والی نظر ہو تو الل ّٰ ہ ہر‬
‫روپ میں ملتا ہے‪ ,‬اور نظر ہی نہ ہو تو ہر نظارہ بے معنی ہے۔ تو‬
‫آپ کے دل میں اگر الل ّٰ ہ کی چاہ ہے تو وہ مسجد‪ ,‬مندر‪ ,‬امام بارگاہ‪,‬‬
‫میں ہی نہیں بلکہ آپ کے ارد گرد موجود انسانوں‪ ,‬جانورں‪ ,‬پہاڑوں‬
‫میں بھی دکھائی دے گا‪ ,‬فلموں‪ ,‬ڈراموں‪ ,‬گانوں میں بھی ا ُس کے‬
‫پیغامات س ُ نائی دیں گے۔ ُم رشد‪ُ ,‬م رید کے دل کی آنکھ کھولتا ہے۔ اگر‬
‫کوئی شخص تمھارے دل کی آن کھ کھول سکتا ہے تو ا ُس کا سلسلہ‪,‬‬
‫طور‪ ,‬طریقہ کچھ بھی ہو ا ُس کا ہاتھ تھام لینا چاہیے‪ ,‬لیکن خوب سے‬
‫خوب تر کی تالش جاری رکھنی چاہیے‪ ,‬جب تک کہ ُم رشد کامل نہ مل‬
‫جائے۔ اکثر ہم خود ا ِس الئق نہیں ہوتے کہ کسی کامل ہستی تک پہنچ‬
‫سکیں۔ الل ّٰ ہ لوگوں کو ہر جانب سے پ ُ کارت ا ہے‪ ,‬اگر کوئی یاد کرنے‬
‫واال ہو تو ہر شئے ا ُسی کی یاد دالتی ہے۔ میرے خیال میں آپ لوگوں‬
‫ج ڑا ہے جہاں سے آپ کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے دعوت‬ ‫کا فیض وہاں ُ‬
‫دی جا رہی ہے۔ اس لیے آپ لوگوں کو ا ُس کے ُم رشد کے ہاتھ پے‬
‫بیعت کرنی چاہیے جو آپ کو ایک طویل عرصے سے ا ِس جانب النے‬
‫‪130‬‬
‫کی کوشش کر رہا ہے۔" ا ُس کی بات س ُ ن کر ڈیرے کے مالک نے کہا‬
‫"کیا آپ جانتے ہیں میرے ُم رشد پاک کو۔؟" تو ا ُس نے کہا "نہیں‪,...‬‬
‫لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ جس کا ُم رید اتنی طویل کوشش کرنے کی‬
‫چ ا درویش ہو گا جس نے اپنے ُم رید‬ ‫سکت رکھتا ہو وہ ضرور کوئی س ّ‬
‫میں اتنی چاہ بھری کہ وہ اتنے عرصے سے ا ِن لوگوں کی باتیں س ُ نتا‬
‫ہے اور پھر بھی کوشش کرتا رہتا ہے۔ تو میں آپ کی کوشش آپ کی‬
‫محنت اور آپ کی لگن کو سالم کرتا ہوں۔ "‬
‫ا ُن کے ُم رید انہیں سرکار پ ُ کارا کرتے تھے۔ ا ِس بات کو شاید ایک دو‬
‫دن ہی گ ُ زرے تھے کہ ا ُن میں سے اکثر لوگ سرکار علی محمد کے‬
‫پاس جانا شروع ہوئے اور ا ُن سے ا ُس کا ذکر بھی کیا پس انہوں نے‬
‫ا ُس سے مالقات کی حامی بھر لی۔ اگلے روز جب ڈیرے کے مالک کی‬
‫دعوت پے وہ دوبارہ ا ُس ڈیرے پے پہنچا تو ا ُسے بتایا گیا کہ سرکار‬
‫علی محمد نے آپ کو یاد کیا ہے اور ا ُس نے فور ا ً ا ُن سے ملنے کا‬
‫ا رادہ کر لیا۔ لیکن وہ سوچ رہا تھا کہ سرکار علی محمد ایک بےشرعا‬
‫سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں‪ ,‬ایک ایسا سلسلہ جو شریعت کی نفی‬
‫کرتا تھا۔ ایک ایسا سلسلہ جسے اولیاء کے بہت سے سلسلے‪ ,‬سلسلہ‬
‫ماننے کو ہی تیار نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ سلسلہ چل رہا ہے‪ ,‬پیری‬
‫ج ڑتے ہیں اور اپنی بساط کے‬ ‫ُم ریدی چل رہی ہے‪ ,‬لوگ آتے ہیں‪ُ ,‬‬
‫مطابق فیض بھی حاصل کرتے ہیں۔ وہ خود جس سلسلے سے بیعت تھا‬
‫وہاں بھی شریعت کے بغیر پیری ُم ریدی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ لیکن‬
‫چ کا تھا جنہوں نے شریعت سے‬ ‫وہ ایسے اولیاء کے ق صّ ے بھی س ُ ن ُ‬
‫ہٹ کر زندگی گ ُ زاری۔ ا ُس کا ذہن ا ُل جھ رہا تھا۔ وہ انہی سوچوں میں‬
‫مگن تھا کہ ڈیرے پے موجود لوگوں میں سے کسی ایک نے سوال کیا‬
‫"بھائی یہ باشرعا بزرگ اور بے شرعا بزرگ کیا ہوتا ہے۔؟" ا ُس نے‬
‫سوال س ُ ن کہ سوچا کہ آج پھر اپنے سوال کا جواب‪ ,‬اپنی زبانی ہی دینا‬
‫پڑے گا۔ ا ُس کے ساتھ اکثر ایسا ہی ہوتا تھا کہ جس سوال پر وہ خود‬
‫سے ا ُلجھ رہا ہوتا تھا وہی سوال کوئی اور ا ُس سے پوچھ بیٹھتا تھا‬
‫اور ا ُسے جواب دیتے دیتے ا ُسے خود اپنی بات کا جواب ِم ل جاتا تھا۔‬
‫ا ُس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے اپنی بات شروع کرتے ہوئے کہا‬
‫" س ُ لطان باہو رح کی تعلیمات کے مطابق بےشرعا شخص ُم رشدی کے‬
‫الئق ہی نہیں ہے۔ آپ رح نے فرمایا کہ کوئی شخص ہوا میں ا ُڑتا ہو‪,‬‬
‫‪131‬‬
‫یا پانی پر چلتا ہو یا ا ُس کے حکم سے بارشیں برستی ہوں لیکن اگر وہ‬
‫ت رسول کا تارک ہو تو ا ُس کے پیچھے مت چلنا‬ ‫کسی ایک بھی س ُ ن ِ‬
‫کیونکہ وہ شخص راہبر نہیں بلکہ راہزن ہے وہ تمھیں منزل تک کبھی‬
‫نہ پہن چائے گا اور راہ میں ہی چھوڑ دے گا۔ جیسے میں نے پہلے بھی‬
‫کہا کہ س ُ لطان باہو رح کامل ذات ہیں اور کاملیت کی بات کرتے ہیں۔‬
‫فرض کرو کسی کو اسالم آباد سے کراچی جانا ہے تو وہ جہاز میں‬
‫بیٹھ کر بھی جا سکتا ہے اور بس یا ٹرین سے بھی جا سکتا ہے۔ جہاز‬
‫ُر کے بغیر پہنچ سک تا ہے‪ ,‬لیکن ٹرین اور بس کے سفر میں جگہ جگہ‬
‫پڑاؤ ہوں گے‪ ,‬مطلب سفر بندے کی چاہت اور ا ُس کی جیب میں موجود‬
‫نقدی کے حساب سے ہوتا ہے۔ ا ِسی طرح الل ّٰ ہ کی جانب کیے جانے‬
‫واال سفر بھی چاہت اور نقدی سے طے کیا جاتا ہے۔ ا ِس راہ کی نقدی‬
‫اخالص ہے جس میں جتنا اخالص ہو گا وہ ا ُتنی ہی تیزی سے الل ّٰ ہ کی‬
‫جانب بڑھ سکتا۔ لوگ الل ّٰ ہ سے طرح طرح کے گ ُ مان رکھتے ہیں‪ ,‬اسی‬
‫باعث رنگ رنگ کے لوگ ہوتے ہیں‪ ,‬کوئی ڈر کے بات ماننے واال‬
‫ہوتا ہے تو کوئی اپنی کوشش کا بدلہ حاصل کرنا چاہتا ہے‪ ,‬کسی‬
‫شخص کو اپنے نفس کی تسکین درکار ہوتی ہے تو کوئی دنیا پرست‬
‫ہوتا ہے۔ لوگوں کی الگ الگ سوچ کے باعث انہیں الگ الگ طریقے‬
‫سے الل ّٰ ہ کی ذات ملتی ہے۔ ایک شخص اگر کسی گناہ کی لت میں‬
‫پھنسا ہوا ہے تو کیا ا ُس کے نصیب میں الل ّٰ ہ کی محبت نہیں ہو سکتی۔؟‬
‫نیک لوگ ب ُ رے لوگوں سے پرے رہتے ہیں اور ب ُ رے لوگ نیک لوگوں‬
‫سے حجاب کرن ے کی کوشش کرتے ہیں۔ ا ِس لیے الل ّٰ ہ نے ایسے سبب‬
‫بنا رکھے ہیں جو ہر مقام سے لوگوں کو ال ل ّٰ ہ کی جانب ب ُ التے ہیں۔ تو‬
‫جو لوگ ڈرنے والے ہیں ا ُن کے لیے دوزخ کا ڈر پیدا کیا‪ ,‬جو لوگ‬
‫ص لہ طلب کرتے ہیں ا ُن کے لیے جنت کی خوشخبری‬ ‫اپنے اعمال کا ِ‬
‫ج لتا کوئی‬ ‫رکھی‪ ,‬ہر طرح کے ذہن کے ل یے ا ُسی کی سوچ سے ملتا ُ‬
‫ایسا سبب رکھا جس کے ذریعے وہ الل ّٰ ہ کی راہ حاصل کر سکے۔ جس‬
‫طرح کسی اونچی عمارت کے الگ الگ فلور ہوتے ہیں ا ُسی طرح‬
‫باطن میں ہر اچھائی اور ب ُ رائی کے درجات موجود ہوتے ہیں اور ہر‬
‫درجے پر کم از کم ایک شخص ایسا ضرور ہوتا ہے جو اپ نی تمام تر‬
‫ب ُ رائی یا اچھائی کے باوجود الل ّٰ ہ کے ساتھ خالص ہوتا ہے۔ یہ اس بات‬
‫کی دلیل ہے کہ ال ل ّٰ ہ ہر جگہ موجود ہے اور ا ُس تک پہنچنے کے لیے‬
‫‪132‬‬
‫کسی قسم کی کوئی قید نہیں ہے۔ بےشرعا بزرگوں کو عام طور پر رد‬
‫کیا جاتا ہے کیونکہ ا ِس طرح لوگ شریعت سے دور ہو کر معاشرے‬
‫میں بےراہ روی پھیالنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ جن اولیاء نے‬
‫شریعت کی نفی کی ا ُن کا کچھ خاص مقام تھا جس کی بنیاد پے انہوں‬
‫نے نفی کی۔ ایک ایسا مقام جسے سمجھنا ُم ّال حضرات کے بس کی‬
‫بات نہیں ہے۔‬
‫لوگوں کو فنائیت کا مقام سمجھانے کے لیے الل ّٰ ہ نے وقت میں ایسے‬
‫اولیاء بھیجے جنہوں نے مصلحت کے تحت ایسا کیا۔ حضرت منصور‬
‫حالج رح‪ ,‬بابا بھلے شاہ رح‪ ,‬صوفی سرمد شہید رح‪ ,‬حضرت مادھو‬
‫لعل حسین رح‪ ,‬وہ چند بزرگ ہیں جو ا ِن سلسلوں کی بنیاد کی سی‬
‫حیثیت رکھتے ہیں۔ صوفی سرمد شہید رح کے متعلق مش ہورتھا کے وہ‬
‫کلمے کا ایک ہی جز یعنی صر ف " ال ا لہ " پڑھتے تھے وہ سر‬
‫ب رہنہ بھی رہا کرتے تھے چناچہ علماء کا اجتماع ہوا – علماءنے‬
‫اعتراز کیا کہ آپ کلمے کا ایک ہی جز کیوں پڑھتے ہیں ؟ تو صوفی‬
‫سرمد شہید رح نے جواب دیا کہ " میں ابھی نفی میں مستغرق ہوں‬
‫مرتبہ اثبات پر نہیں پہنچا م "۔ علماء نے ان سے ستر پوشی کرنے‬
‫اور کلمہ پورا پڑھنے کو کہا مگر بےسود ۔ اس لیے وہ واجب القتل‬
‫فتوی جاری ہوا ۔ شاہ اسد الل ّٰ ہ‬
‫ٰ‬ ‫سمجھے گ ئ ے اور ان کے خالف قتل کا‬
‫نے جو ایک صاحب دل بزرگ اور سرمد شہید کے پرانے رفیق‬
‫فتوی جاری ہونے پے ا ُن سے کہا " کپڑے پہن لیج یے اور‬ ‫ٰ‬ ‫تھے ‪,‬‬
‫پورا کل مہ پڑھ لیجیے تاکہ جان بخشی ہوجا ئے " سرمد شہید نے‬
‫جواب نہ دیا ۔ ایک نظر ڈالی اور یہ شعر پڑھا کہ‬

‫عمر یست کہ آوازہ منصور کہن شد‬


‫من از سر نو جلوہ دہم دار و رسن را‬
‫یعنی‬
‫منصور کی آواز پرانی ہوئے ایک مدت ہو گ ئ ی‬
‫میں ن ئ ے سرے سے دار و سن پر جلوہ افروز ہوتا ہوں‬

‫‪133‬‬
‫کہا جاتا ہے کے قتل سے پہلے انہوں نے یہ شعر پڑھا‬

‫سر جدا کرد از تنم شوخے کہ باما یار بود‬


‫قصہ کو تہ کرد‪ ،‬ورنہ درد سر بسیار بود‬

‫ایک شوخ نے جو ہمارا یار تھا ‪ ،‬میرے تن سے سر جدا کر‬


‫دیا‬
‫اچھا ہی ہوا کے اس نے کہانی مختصر کر دی ورنہ درد سر بہت‬
‫زیادہ تھا‬

‫ان اولیاء نے جو بات کہی وہ ع ُ لماء کی نظر میں ک ُ فر و شرک تھا‪,‬‬


‫لیکن اہ ِل نظر دیکھ سکتے تھے۔ جیسے بابا بھلے شا ہ رح ‪ ,‬ایک بار‬
‫عالم جذب میں آپ کے منہ سے منصور کا نعرہ ” انالحق “ نکل گیا۔ اس‬
‫وقت آپ بٹالہ کے ضلع گورداس پور میں قیام پذیر تھے۔ جب لوگوں‬
‫نے آپ کے منہ سے یہ نعرہ سنا تو آپ کو پکڑ کر قاضی شہر فاضل‬
‫فتوی دیا جا سکے۔‬
‫ٰ‬ ‫الدین کے پاس لے گئے کہ ان کے خالف کفر کا‬
‫شیخ فاضل الدین جو ظاہری علوم کے ساتھ ساتھ تصوف کی چاشنی‬
‫سے بھی لبریز تھے۔ انہوں نے مجذوب کی حالت دیکھی تو کہا‪" :‬ایہہ‬
‫سچ کہن دا اے‪ ،‬ای ہہ حالے الھا (کچا ۔ الھڑ) ہی اے‪ ،‬ایہنوں آکھو شاہ‬
‫عنایت کول جا کے پک آوے" (یہ سچ کہتا ہے‪ ,‬یہ ابھی کچا ہے‪ ,‬ا ِسے‬
‫کہو کہ حضرت شاہ عنایت رح کے پاس جائے تاکہ یہ پکا ہو جائے)‬
‫بابا بل ّ ھے شاہ کے منہ سے نکلنے واال کلمہ معمولی نہ تھا اور اس پر‬
‫انہیں موت کی سز ا بھی دی جا سکتی تھی مگر شیخ فاضل الدین نے‬
‫پنجابی زبان کے لفظوں کی رعایت دیتے ہوئے اگلے پڑا ؤ کی طرف‬
‫بھیج دیا ۔ مطلب یہ ہے کے سمجھنے وا لے سمجھتے ہیں اور اگر‬
‫غور کیا جائے تو یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ‬
‫ال ل ّٰ ہ اولیاء کرام کی کرامات بھی نمایا ں سے نمایاں ترین کرتا جا رہا‬
‫ہے۔ جس بات کے لیے منصور حالج واجب القتل ٹھرے ا ُسی بات کے‬
‫لیے بابا ب ھُ لے شاہ کو معاف کر دیا گیا جبکہ دونوں صاح بِ نظر‬
‫قاضی کی عدالت میں پیش کیے گئے تھے۔ الل ّٰ ہ واال باشرعا یا بے‬
‫‪134‬‬
‫شرعا نہیں ہوتا وہ تو بس الل ّٰ ہ واال ہوتا ہے۔ الل ّٰ ہ ا ُسے کیسے پسند کرتا‬
‫ہے یہ الل ّٰ ہ کا اور الل ّٰ ہ والے کا مسئلہ ہے ُم رید کو ا ِس چ ک ّ ر میں نہیں‬
‫پڑنا چاہیے کہ پیر صاحب نماز پڑھتے ہیں کہ نہیں۔ بلکہ یہ دیکھنا‬
‫چاہیے کہ ا ُن کی صحبت میں بیٹھ کر ا ُس کا دل بدل رہا ہے کہ نہیں۔‬
‫اگر کسی ولی کی صحبت سے دل بدل رہا ہے تو ایسے ولی کو دل دے‬
‫خلوص سے نیت سے دل پیش کرنے کے باوجود دل‬ ‫ِ‬ ‫دینا چاہیے۔ اور‬
‫نہ بدلے تو ایسے پیر صاحب کو چھوڑ بھی دینا چاہیے۔ اور کسی‬
‫صاح بِ نظر کو تالش کرنا چاہیے۔ "‬

‫‪135‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ڈیرے پے موجود لوگوں میں سے کسی نے پوچھا "بھائی یہ اناالحق‬
‫کیا ہے۔؟ میں نے اکثر لوگوں سے پوچھا ہے لیکن کسی نے نہیں بتایا"‬
‫ا ُس نے سوال کرنے والے کی طرف دیکھا اور کہا "آپ نے نور دیکھا‬
‫ہے۔؟ الل ّٰ ہ کا نور۔؟" ا ُس شخص نے کہا "ہم کوئی ولی بزرگ تھوڑی‬
‫ہیں جو ا ُس کا نور دیکھ سکیں۔ بس ایک خیال سا آتا ہے کہ الل ّٰ ہ کا‬
‫نور روشن ی کے ایک سمندر کی مانند ہو گا جس کی کوئی حد نہیں ہو‬
‫گی۔" ا ُس شخص کے جواب پر ا ُس نے کہا " ا ِس طرح کا گمان ہر‬
‫شخص کے دل میں رہتا ہے کیونکہ ہم سب ا ِس دنیا میں آنے سے پہلے‬
‫چ کے ہیں‪ ,‬اور ہماری روح ا ُسی کے نور کا ح صّ ہ ہے۔ وہ‬ ‫ا ُسے دیکھ ُ‬
‫بلب دیکھ رہے ہو۔؟" ا ُس نے با ت کرتے کرتے ڈیرے پے لگے بلب‬
‫کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا "اس بلب کے اندر بھی روشنی ہے‬
‫اور باہر بھی‪ ,‬لیکن روشنی کے جو ذ ّر ات بلب کے اندر ہیں ا ُنہیں ہم‬
‫بلب ہی کہتے ہیں اور جو ذرات باہر ہیں ا ُنہیں روشنی کہتے ہیں‪,‬‬
‫روشنی کے یہ ذ ّر ات بلب سے جتنا دور ہوتے جائیں ا ُت نا ہی مدھم‬
‫پڑتے جائیں گے۔ اب اگر کسی طریقے سے ا ِن مدھم ذ ّر ات کو واپس‬
‫بلب کی جانب لے کر جایا جائے تو یہ ذ ّر ات جیسے جیسے بلب کے‬
‫قریب ہوتے جائیں گے ویسے ویسے ہی یہ روشن سے روشن تر ہوتے‬
‫جائیں گے اور ایک مقام ایسا آئے گا کہ روشنی واپس بلب میں داخل‬
‫ہو جائے گی۔ ا سی طرح انسان کے اندر جو نور موجود ہے وہ ا ُسی‬
‫ح بِ‬‫ذات کا امر ہے لیکن دوری کے باعث مدھم ہے۔ جب ایک شخص ُ‬
‫ٰال ہی میں آگے بڑھتا ہے تو ا ُس کے سینے میں موجود نور روشن ہونا‬
‫شروع ہو جاتا ہے‪ ,‬ا ِسی روشنی کے بڑھنے کو درجات کا ب ُ لند ہونا‬
‫بھی کہا جاتا ہے۔ الل ّٰ ہ کے قریب لے جانے والی راہوں میں سب سے‬
‫تیز راہ عشق ہے۔ تو جب کوئی روشنی کا ذ ّر ہ اپنے مرکز پے واپس‬
‫پہنچ جاتا ہے تو وہ مرکز کا ح صّ ہ بن جاتا ہے۔ ا ِس بات کا اظہار‬
‫کرنے کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔ ا ِس لیے جب حضرت منصور‬
‫فتوی صادر ک یا گیا۔ یہ مقام‬ ‫ٰ‬ ‫حالج نے اقرار کیا تو ا ُنہیں قتل کرنے کا‬
‫ایک راز ہے جسے ہر خاص و عام پر نہیں کھوال جا سکتا۔ انہوں نے‬
‫‪136‬‬
‫جو کہا وہ اپنے مقام کے اعتبار سے صحیح کہا لیکن ایسی بات کو‬
‫مقا ِم شریعت میں بیان کرنا روا نہ تھا۔ کہتے ہیں‪ ,‬تم ا ِک گورک دھندا‬
‫ہو۔ وہ ذات‪ ,‬کہ خود ہی چ ھُ پتا ہے‪ ,‬اور خود ہی چ ھُ پاتا ہے‪ ,‬اور پھر‬
‫کہتا ہے کہ مجھے ڈھونڈ ۔ تو جس نے ا ُسے پا لیا وہ مندر میں بیٹھا‬
‫بھی مومن ہو گیا اور جو ا ُسے ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہ کر سکا وہ‬
‫کعبے میں بھی بیٹھا کافر ہی رہ گیا۔ اگر آپ دنیا کی ابتدا سے لے کر‬
‫اب تک کے حاالت پر نظر دوڑائیں تو دکھائی دیتا ہے کہ سب چیزیں‬
‫آہستہ آہستہ نازل ہوئیں۔ ابتدا میں مقصد صرف انسانوں کی آبادکاری‬
‫تھا۔ انہیں زمین میں چلنے پھرنے‪ ,‬جینے مرنے کا طریقہ بتانا تھا۔‬
‫لوگ اپنے مسائل کے فیصلے کروانے کے لیے سیدھے الل ّٰ ہ سے سوال‬
‫کر لیتے اور جواب مل جاتا۔ جیسے ہابیل اور قابیل کی مثال ہے کہ‬
‫انہوں نے ا پنی اپنی قربانی الل ّٰ ہ کے حضور پیش کی اور الل ّٰ ہ نے ہابیل‬
‫کی قربانی قبول کر لی۔ آہستہ آہستہ الل ّٰ ہ کا پیغام زمین میں بڑھتا گیا‬
‫لیکن ا ُس سے کالم کا طریقہ خفی ہوتا گیا۔ جیسے جیسے انسان کی‬
‫سمجھ‪ ,‬ا ُس کا فہم وسیع ہوتا گیا ویسے ویسے الل ّٰ ہ نے اپنی ذات کے‬
‫اظہار ک و روشن سے روشن تر اور پوشیدہ سے پوشیدہ تر کر دیا۔‬
‫کبھی ا ُس کی آواز آسمان سے س ُ نائی دیتی تھی اور پھر ا ُس کا پیغام‬
‫جبریل علیہ السالم لے کر آنا شروع ہو گئے۔ جس رب نے بنی اسرائیل‬
‫س لوں پے نقش کر کے اپنے نبی کے ہاتھ‬ ‫کے لیے اپنی کتاب پتھر کی ِ‬
‫دی ا ُسی رب نے رہتی د نیا تک کے لیے تمام کتابوں کا نچوڑ یعنی‬
‫قرآن اپنے محبوب بندے کے دل پر نازل کیا۔ وہ رب جس نے اسماعیل‬
‫علیہ السالم کی ایڑھی سے زم زم کا چشمہ جاری کر دیا ا ُسی رب نے‬
‫میدا ِن کربال میں اپنے محبوب ترین بندوں کو ایک بوند پانی نہ دیا۔‬
‫عیسی ابن مریم کو زندہ آسمان پر ا ُٹھا لیا ا ُسی رب نے‬‫ٰ‬ ‫جس رب نے‬
‫حسین ابن علی کا سر نیزے پے چڑھ جانے دیا۔ آخر کیوں؟ کچھ تو‬
‫بھید ہو گا ا ِس سب کا؟ تو بھید یہ ہے کہ وہ خود ہی اپنے محبوب‬
‫بندوں کے روپ میں اپنے عشق کی مثالیں قائم کرتا ہے۔ جس بندے کا‬
‫دل ال ل ّٰ ہ کا عرش بن جائے‪ ,‬ال ل ّٰ ہ جس کے رگ و پے میں سما جائے‪,‬‬
‫وہی ایسی قربانی دے سکتا ہے۔ کٹے ہوئے سر کا نیزے پے تالوت‬
‫کرنا‪ ,‬زمین و آسمان میں فنا اور بقا کی ا ِس سے بڑی مثال موجود نہیں‬
‫ہے۔ جب قطرہ سمندر سے مل گیا تو ا ُسے سمندر کہنا روا ہے۔‬
‫‪137‬‬
‫ایک بات اور کہتا چلوں کہ اگر کسی بزرگ سے کوئی کرامت ظاہر‬
‫ہوتی ہے تو محض ا ِس وجہ سے کہ وہ رسول الل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم کا غالم ہوتا ہے‪ ,‬یہ بات ا ِس لیے بیان کر رہا ہوں کیوں کہ ایک‬
‫بار کسی سے بات کرتے ہوئے میں نے ا ُسے س ُ لطان باہو رح کے‬
‫مطالق بتایا کہ آپ رح کے چہرے کو دیکھ کر لوگوں کی زبان سے‬
‫کلمہ جاری ہو جایا کرت ا تھا تو ا ُس نے فور ا ً کہا کہ "کیا س ُ لطان باہو‬
‫رح حضور پاک صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی ذیادہ پہنچ رکھتے‬
‫تھے (نعوذبلل ّٰ ہ) کہ جو کلمہ لوگوں کو پڑھانے کے لیئے رسول الل ّٰ ہ‬
‫صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم نے اتنی محنت کی وہ س ُ لطان باہو رح کو‬
‫دیکھنے ہی سے جاری ہ و جاتا تھا۔؟" تو میں نے ا ُسے کہا کہ کوئی‬
‫بھی ولی حضور صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی غالمی ہی سے ولی بنتا‬
‫ہے‪ ,‬اس لیے ا ُس سے جو کرامت ظاہر ہوتی ہے وہ رسول الل ّٰ ہ صلی‬
‫الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم ہی کی ذات کا‪ ,‬ا ُن کے فیض کا‪ ,‬ا ُن سے محبت کا‬
‫اظہار ہوتی ہے۔ الل ّٰ ہ نے تمام کائنات اپنے محبوب صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم کے لیے بنائی‪ ,‬اگر رسو ِل اکرم صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم دنیا‬
‫سے تشریف لے گئے تو یہ کائنات ختم ہو جانی چاہیے تھی۔ لیکن یہ‬
‫کائنات اگر ابھی بھی باقی ہے تو یقینا ً ا ِس کا مقصد اب بھی رسو ِل ُ‬
‫خ دا‬
‫حضرت محمد صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم ہی ہیں۔ الل ّٰ ہ کی پہچان‪ ,‬ایک‬
‫چ کی ہے لیکن‬ ‫الکھ چوبیس ہزار انبیاء کی صورت‪ ,‬زمین میں ظاہر ہو ُ‬
‫الل ّٰ ہ کے محبوب صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی پہچان ابھی باقی ہے‪,‬‬
‫جب تک یہ پہچان مکمل نہیں ہو جاتی افالک تباہ نہیں ہو سکتے۔‬
‫اولیاء کرام کی صورت‪ ,‬زمین میں ا ِسی پہچان کا عمل جاری ہے۔ الگ‬
‫الگ رنگ میں اولیاء کرام ا ُسی ایک ذات اقدس صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم کی وسعت کے اظہار میں محو ہیں۔‬
‫اصل میں جب کوئی الل ّٰ ہ کی جانب بڑھ رہا ہو تو شیطان ا ُس سے طرح‬
‫طرح کے سوال پوچھتا ہے۔ نور و بشر‪ ,‬شیعہ‪ ,‬س ُ نی‪ ,‬ہندو‪ ,‬مسی حی‬
‫جیسے سوالوں میں ا ُلجھاتا ہے۔ جو ا ُس کے سوالوں میں ا ُلجھتا ہے‪,‬‬
‫ا ُلجھتا ہی چال جاتا ہے۔ انہی سوالوں سے نجات ِد النے کے لیے انسان‬
‫کو کسی ا ُستاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ نے اکثر ا ُستاد کے احترام‬
‫میں بہت بڑی بڑی باتیں پڑھی ہوں گی‪ ,‬یہ باتیں اسکول کی کتابیں‬
‫پڑھانے والے ا ُستاد کے بارے میں نہیں بلکہ دین سکھانے والے ا ُستاد‬
‫‪138‬‬
‫یعنی ُم رشد کے بارے میں کہی گئی ہیں۔ س ُ لطان باہو رح اپنی کتاب‬
‫حضور اکرم صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم‬
‫ِ‬ ‫عین الفقر میں لکھتے ہیں کہ‬
‫کا فرمان ہے "جس نے حصو ِل دنیا کی خاطر علم حاصل کیا وہ کافر‬
‫ج ت بازی کے لئے علم حاصل کیا وہ منافق ہے اور‬ ‫ح ّ‬
‫ہے‪ ,‬جس نے ُ‬
‫جس نے رضائے ال ٰہ ی کی خاطر علم حاصل کیا وہ مسلم ہے۔" اب ا ِس‬
‫بات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دینی و دنیاوی علم حاصل کرنا چھوڑ دو‪,‬‬
‫ڈاکٹر‪ ,‬انجینیر‪ ,‬یا عالم وغیرہ بننا چھوڑ دو۔ بلکہ ا ِس کا مطلب یہ ہے‬
‫کے اپنے علم و ہنر کا مقص د حصو ِل دنیا یا لوگوں کی واہ وائی حاصل‬
‫کرنا نہ ہو۔ کبھی کبھی محفل میں کسی کو الجواب کر کے اپنے علم‬
‫کا ثبوت دینے سے ذیادہ ضروری خاموش رہ کر اپنی بڑائی ثابت کرنا‬
‫ج ت کرنے والے عالم ہوں یا ا ُن کی باتوں کو‬
‫ح ّ‬
‫ہوتا ہے۔ حیل و ُ‬
‫دہرانے والے عام لوگ‪ ,‬دونوں ہی فتنا و فساد کے باعث ہیں۔ "‬

‫‪139‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫وہ خاموش ہوا تو ڈیرے پے موجود ایک اور شخص نے ا ُسے مخاطب‬
‫کرتے ہوئے کہا "بھائی یہ نور اور بشر والی بات مجھے بھی آج تک‬
‫سمجھ نہیں آئی‪ ,‬مولوی صاحب کہتے ہیں کہ نبی پاک ہماری طرح بشر‬
‫تھے‪ ,‬اور پیری ُم ریدی والے لوگو ں میں بیٹھو تو یہ کہتے ہیں کہ وہ‬
‫نور ہیں۔ مولوی صاحب کہتے کے نور کہنا شرک ہے اور یہ لوگ‬
‫کہتے کہ نور نہ کہنا شرک ہے۔ آپ بتاؤ کیا صحیح ہے۔؟" ا ُس نے‬
‫سوال کرنے والے سے کہا "دیکھو ہم مانتے ہیں کہ الل ّٰ ہ ہر جگہ‬
‫موجود ہے‪ ,‬اگر وہ ہر جگہ موجود ہے تو ا ِس کا مطلب کہ ہم سب ا ُس‬
‫کی ذات کے اندر موجود ہیں‪ ,‬تمام زمین و آسمان کو ا ُسی نے گھیرے‬
‫رکھا ہے۔ سب ا ُسی کا نور ہی ہے۔ بس اصل نور سے دور آ جانے کے‬
‫باعث ا ُس کی صورت بدل گئی ہے لیکن وہ صورت بدل جانے کے‬
‫باوجود‪ ,‬ا ُسی نور کے سمندر میں موجزن ہے‪ ,‬جو ا ُس کا اصل ہے۔‬
‫الل ّٰ ہ نے اپنے محبوب صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا آئینہ بنایا اور‬
‫جب ا ُس میں اپنا عکس دیکھا تو ا ُس پے عاشق ہو گیا۔ ا ُسی ِ‬
‫نور‬
‫محمدی صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے تمام ارواح کو پیدا کیا گیا۔‬
‫نور‬
‫ارواح میں سب سے پہلے تمام انسانی ارواح کو پیدا کیا گیا۔ ِ‬
‫محمدی صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے جو ارواح پیدا ہوئیں ا ُن میں‬
‫حضرت آدم علیہ السالم کے نور سے فرشتے پیدا ہوئے اسی لیے ا ُن‬
‫سے آدم کو سجدہ کرنے کو کہا گیا۔ ال ل ّٰ ہ نے دوسرے سجدے کا ذکر‬
‫کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں دوسرے سجدے کی اجازت دیتا تو بیوی‬
‫سے کہتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ ک رے۔ جب میں نے اس بات پر غور‬
‫کیا تو سمجھ آیا کہ جہاں کوئی ایک ذات کسی دوسری ذات کے وجود‬
‫سے جنم لے وہاں سجدہ روا ہو جاتا ہے‪ ,‬عورت کیونکہ مرد کی پسلی‬
‫سے پیدا کی گئی ا ِس لیے الل ّٰ ہ نے فرمایا کہ میں کسی اور کو سجدہ‬
‫کرنے کی اجازت دیتا تو عورت کو اپنے شوہر کو سجد ہ کرنے کا‬
‫کہتا۔ یہ بات شوہر کی عظمت سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ ایک بھید کا‬
‫اظہار ہے کہ جیسے ا ُس نے حضرت آدم علیہ السالم کی پسلی سے‬
‫حو ا علیہ السالم کو پیدا فرمایا ا ُسی طرح ا ُس نے ایک نور‬ ‫حضرت ّ‬
‫‪140‬‬
‫سے دوسرے نور جنم دیا اور کیونکہ تمام خلقت کا جنم ایک الل ّٰ ہ کے‬
‫ہی نور سے ہے ا ِس لیے ا ُس نے اپنی عبادت میں کسی کو بھی شریک‬
‫بنانے سے انکار کر دیا۔ تمام تر نور الل ّٰ ہ ہی کا ہے۔ ہر شئے ا ُسی کی‬
‫ذات کا اظہار ہے۔ اچھائی کا خالق الل ّٰ ہ ہے تو ب ُ رائی کا پیدا کرنے واال‬
‫بھی وہی ہے‪ ,‬سب الل ّٰ ہ کی ذات کا اظہار ہے سب الل ّٰ ہ کا نور ہے۔ ی ہ‬
‫نور اور بشر کا جھگڑا بے فیض عالموں کا پیدا کردہ ہے درویش کے‬
‫لیے سب نور ہے۔ جیسے س ُ لطان باہو رح فرماتے ہیں کہ "میں عل ِم‬
‫دیار عشق‬‫ِ‬ ‫دیدار کا عالم ہوں‪ ,‬مجھے نور ہی نور دکھائی دیتا ہے۔"‬
‫میں کس کا کیسا مقام ہے ا ِس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے بلکہ اپنا مقام‬
‫پیدا کر نے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ آپ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم‬
‫نے فرمایا کہ میں فقط تم جیسا انسان ہوں۔ تم جیسا کا مطلب یہ نہیں‬
‫ہے کہ تم ہوں۔ بہت سے لوگ آپ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنی‬
‫طرح یا اپنے آباؤ اجداد کی طرح فانی سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر‬
‫بڑی عقیدت سے ایسے واقعات کا ذکر کرتے ہیں جن میں پوری‬
‫عمارت جل جانے کے باوجود قرآن پاک محفوظ رہا۔ افسوس ہوتا ہے‬
‫س ُ ن کر کہ کالم جس کتاب میں لکھا ہوا ہے ا ُس کے بارے میں یہ سوچ‬
‫ہے کہ یہ ہمیشہ محفوظ رہے گا اور جس پے یہ کالم نازل ہوا ا ُس‬
‫جسم و دل کو فانی سمجھتے ہیں۔ "‬
‫وہ خ اموش ہوا تو ڈیرے کے مالک نے کہا "میرے خیال میں اب ہمیں‬
‫سرکار علی محمد سے مالقات کے لیے چلنا چاہیے۔" تو ا ُس نے تائید‬
‫کی اور وہ سب ا ُن سے مالقات کے لیے روانہ ہو گئے۔ اسالم آباد کے‬
‫سیکٹر آئی۔نائن میں پہلی بار وہ ا ُن سے مالقات کے لیے پہنچا۔ ایک‬
‫فلیٹ کے الگ الگ کمروں میں لوگ بیٹھے تھے اور ایک کمرے کا‬
‫دروازہ بند تھا۔ ڈیرے کے مالک نے ا ُسے ایک کمرے میں انتظار‬
‫کرنے کو کہا اور خود بند کمرے کی جانب بڑھا۔ ا ُس کی شخصیت‬
‫ایسی تھی کہ لوگ خود بہ خود ا ُس کی جانب کھنچے چلے آتے‪ ,‬وہ‬
‫جس بھی محفل میں ہوتا سب نگاہیں ا ُس کی جانب ہو تیں۔ ا ُس روز بھی‬
‫ایسا ہی ہوا کہ وہاں جاتے ساتھ ہر شخص کی نظر ا ُسی پر تھی شاید‬
‫چ کی تھی‬ ‫ا ِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ا ُن سب میں یہ بات پھیل ُ‬
‫تالش حق میں محو ہے۔ کچھ‬ ‫ِ‬ ‫کہ کوئی شخص سات سال کی عمر سے‬
‫لوگوں نے ا ِسی بارے میں حیرت سے ا ُس سے پوچھا تو ا ُس نے کہا‬
‫‪141‬‬
‫ا ِس میں اتنا حیران ہونے کی بات نہیں‪ ,‬میں بھی آپ جیسا ہی ہوں‪ ,‬گناہ‬
‫گار ہوں‪ ,‬خطا کار ہوں‪ ,‬بس یہ الل ّٰ ہ کی مہربانی تھی کہ ا ُس نے ا ُس‬
‫عمر میں ایسی سوچ دی اور میرے بار بار بہکنے کے باوجود مجھے‬
‫بار بار وہ سوچ پھر سے عطا کی۔ تو ا ِس سب میرا کوئی کمال نہیں‬
‫ہے بس الل ّٰ ہ نے راستہ ہی کچھ ایسا رکھا تھا۔ "‬
‫ابھی وہ بات کر ہی رہا تھا کہ ڈیرے کا مالک ہانپتا ہوا اور تقریبا ً‬
‫بھاگتا ہوا آیا اور کہا "چلو بھائی سرکار ب ُ ال رہے ہیں۔" ا ُس کی حالت‬
‫سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ا ُس نے اپنے ُم رشد کا جالل دیکھا ہے۔ ڈیرے‬
‫کے مالک نے مزید کہا کہ "میں نے جیسے ہی بتایا کہ میں آپ کو‬
‫یہاں انتظار کرنے کے لیے بٹھایا ہے تو ناراض ہو گئے اور کہا کیا‬
‫تجھے نہیں پتہ کہ کس کو انتظار کروانا ہے اور کسے نہیں‪ ,‬جا فور ا ً‬
‫ا ُسے اندر لے کر آ۔" ا ُس کی بات س ُ نتے س ُ نتے وہ ا ُن کے کمرے کے‬
‫دروازے تک پہنچا اور کمرے کے اندر داخل ہو ا۔ کمرے کے فرش پر‬
‫دریاں بچھی ہوئی تھیں اور کمرے کے بیچ فرش پر ایک بستر بچھا‬
‫ہوا تھا جس پر سرکار علی محمد صاحب دیوار کے ساتھ تکیے رکھے‬
‫ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔ وہ ا ُن سے ملنے کے لیے ان کے پاس بیٹھا‬
‫تو انہوں نے ا ُسے گلے سے لگا لیا اور ا ُن کی سانس سے ھ ُ و ھ ُ و کی‬
‫ص دا پورے کمرے میں س ُ نائی دینے لگی۔ کافی دیر انہوں نے ا ُسے‬
‫سینے سے لگائے رکھا اور پھر ا ُسے اپنے پاس بٹھا لیا اور سب سے‬
‫کہا "دیکھو الل ّٰ ہ کہاں کہاں سے اپنے بندوں کو پ ُ کارتا ہے‪ ,‬ا ِس دنیا‬
‫میں لوگوں نے پیری ُم ریدی کو دھندا بنایا ہوا ہے‪ ,‬سچ کیا ہے‪ ,‬حق‬
‫کسے کہتے ہی ں نہ تو کسی کو پتا ہے اور نہ ہی کوئی بتاتا ہے۔" پھر‬
‫ا ُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا "ت ُو خوش قسمت ہے کہ ال ل ّٰ ہ نے‬
‫تجھے تیرے دل سے پ ُ کارا‪ ",‬پھر اپنے ُم ریدین سے کہا "الل ّٰ ہ انہیں‬
‫ملتا ہے جو ا ُسے اپنے اندر تالش کرتا ہے۔ یہ جو کچھ تم اپنے باہر‬
‫دیکھتے ہو یہ سب تو دھ وکہ ہے‪ ,‬فریب ہے‪ ,‬جسے اپنے اندر خدا نہ‬
‫خ دا مل‬ ‫مال ا ُس کے لیے کعبہ کلیسا ایک سا ہے‪ ,‬اور جسے اپنے اندر ُ‬
‫گیا ا ُس کعبے کلیسے کی حاجت ہی نہیں رہتی۔" ُم ریدین سے بات‬
‫کرتے کرتے انہوں نے ا ُس کی دراز زلفوں کو ہاتھ سے ا ُس کے‬
‫چہرے سے ہٹاتے ہوئے شرارت سے کہا "یار ت ُو تو بہت خوبصورت‬
‫ہے‪ ,‬لڑکیاں تو بہت مرتی ہوں گی تجھ پر۔" تو ا ُس نے نظر ج ھُ کا کر‬
‫‪142‬‬
‫ادب سے کہا "سرکار جو ا ُس پے مر ِم ٹا ہو ا ُس پے دنیا مرتی ہے‪ ,‬دو‬
‫چار مجھ پے َم ر گئیں تو کیا ہوا" انہوں نے ا ُس کے جواب پے مسکرا‬
‫کر کہا "اچھی خوبصورت شخصیت ہے تیری‪ ,‬آواز بھی زبردست ہے‪,‬‬
‫جا کوئی فلموں‪ ,‬ڈراموں میں کام کر‪ ,‬آج کل ویسے بھی اچھا پیسہ مل‬
‫جاتا ہے ا ِن کاموں میں‪ ,‬کہاں درویشوں میں آ بیٹھا ہے ت ُو۔؟" ا ُن کے‬
‫سوال پے ا ُس نے بدستور ادب سے جواب دیا "اگر ا ُس کا عطا کردہ‬
‫ح سن و جمال۔؟" انہوں ا ُس کا‬ ‫ح سن ا ُسی پر نہ ل ُ ٹایا‪ ,‬تو کس کام کا یہ ُ‬
‫ُ‬
‫ج واب س ُ نا اور مریدین کی جانب دیکھتے ہوئے ا ُس کو مخاطب کرتے‬
‫ہوئے مذاق ا ُڑانے والے انداز میں ہنستے ہوئے کہا "بھئی کوئی لڑکی‬
‫شڑکی پھنسائی ہے کبھی‪ ,‬کسی لڑکی کو چھیڑ کر تھپڑ بھی کھایا‬
‫کبھی۔؟ یا بس الل ّٰ ہ ہی ت الش کرتا رہا ہے‪ ,‬کوئی دلگی س ُ نا۔" ا ُس نے‬
‫مسکرا کر ا ُن کی جانب دیکھا۔ وہ جان گیا تھا کہ سرکار علی محمد‬
‫ا ُس کا امتحان لے رہے ہیں۔ ا ُس نے کہا "سرکار میں دنیا کا کوئی کام‬
‫نہیں چھوڑا‪ ,‬ہر طرح کی بات کرنا جانتا ہوں‪ ,‬لیکن الل ّٰ ہ والوں کے‬
‫سائے میں بیٹھ کے غیر الل ّٰ ہ کی باتیں نہیں کی جاتیں مجھ سے‪ ,‬اکثر‬
‫دوستوں کے ساتھ ہ وتا تھا تو وہ مجھ سے پاس سے گ ُ زرنے والی لڑکی‬
‫کے بارے میں بات کر رہے ہوتے تھے اور مجھے پتا ہی نہیں ہوتا تھا‬
‫کہ ا ُس کے لباس میں کیا کیا چیزیں نمایاں تھیں‪ ,‬اکثر دوست ا ِس بات‬
‫پر نظر کے ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ بھی دیتے اور پوچھتے‬
‫لڑکی تو دیکھی تھی نا ت ُو نے یا لڑکی ہی نظر نہیں آتی۔؟ تو میں کہتا‬
‫لڑکی تو نظر آ جاتی ہے پر وہ سب نظر نہیں آتا جو تمہیں دکھائی دیتا‬
‫ہے۔ بندہ ا ُس کو دیکھے جو ہمارے لیے ہو‪ ,‬پرائی عورت کو دیکھ کر‬
‫دل ترسانے کی کیا ضرورت ہے۔ لڑکیوں کے پیچھے بھاگنے کی‬
‫ضرورت نہیں پڑی مجھے کیونکہ لڑکیاں خود می رے پیچھے بھاگتی‬
‫تھیں‪ ,‬لیکن کبھی اس شکل کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا‪ ,‬اور تھپڑ آج تک‬
‫بچو ں کی ماں ہے۔" ا ِس‬ ‫ّ‬ ‫ایک ہی لڑکی سے کھایا ہے جو اب میرے دو‬
‫سوچ سے‪ ,‬کہ کہیں انہیں ا ُس کا بار بار بات پھرانا‪ ,‬ناگوار نہ گزرے‪,‬‬
‫ا ُس نے ک ھُ ل کے اپنی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا "سرکار ا ِن‬
‫باتوں میں میرا دل لگتا ہوتا تو میں درباروں کی خاک نہ چھانتا۔"‬
‫انہوں نے غور سے ا ُس کی جانب دیکھا اور کہا " ت ُو باہو سرکار کا‬

‫‪143‬‬
‫ُم رید ہے نا‪ ,‬تو چل کال ِم باہو س ُ نا" ا ُس نے ا ُن کی فرمائش کا احترام‬
‫کرتے ہوئے ب ُ لند آواز میں کال ِم باہ و پڑھنا شروع کیا‬
‫"الف ال ل ّٰ ہ‪ ,‬چنبے دی ب ُ وٹی‪ ,‬میرے من وچ ُم رشد الئی ھ ُ و۔ ۔ ۔ "‬
‫کالم پڑھتے ہوئے وہ س ُ لطان محمد اصغر علی رح کو سوچ رہا تھا اور‬
‫جب وہ یہ بیعت پڑھ رہا تھا "اے تن میرا چشمہ ہوئے‪ ,‬تے میں‬
‫ُم رشد ویکھ نہ رجاں ھ ُ و" تو یہ سوچ کر کہ وہ اب س ُ لطان محمد‬
‫ا صغر علی رح کو دوبارہ ا ُس روپ میں نہیں دیکھ سکتا‪ ,‬ا ُس کی آواز‬
‫بھ ّر ا گئی اور ا ُسے کالم پڑھتے پڑھتے ُر ک جانا پڑا۔ سرکار علی‬
‫محمد نے ا ُس کی کیفیت کو سمجھتے ہوئے ا ُس کے کندھے پے ہاتھ‬
‫رکھا اور کہا " غم نہ کر پ ُ تر تیرا ُم رشد ہر دم تیرے ساتھ ہے‪ ,.‬ال ل ّٰ ہ‬
‫والے اپنے چ اہنے والوں کے دل میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں " پھر‬
‫ح بِ ُم رشد‬ ‫اپنے ُم ریدین کی جانب دیکھتے ہوئے کہا " ا ِس سے سیکھو ُ‬
‫کیا ہوتا ہے‪ ,‬یہی وہ شئے ہے جو ُم رید کو فیضیاب کرتی ہے۔ ا ِس کا‬
‫ُم رشد سچ میں کامل ہے جس نے ا ِسے یہ سمجھ عطا کی‪ ,‬ت ُو ٹھیک‬
‫کہتا ہے پ ُ تر‪ ,‬الل ّٰ ہ والوں کے سائے میں بیٹھ کر غیر الل ّٰ ہ کی بات نہیں‬
‫کرتے۔ "‬

‫‪144‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫اسی دوران سرکار علی محمد کا ایک اور مرید اندر آیا اور بہت‬
‫عقیدت سے ا ُن کے ہاتھ چومے پھر ا ُن کی اجازت سے ا ُن کے منہ پے‬
‫بوسہ دیا تو انہوں نے بوسہ دینے والے کو بناوٹی غصے سے پیچھے‬
‫دھکیلت ے ہوئے کہا "یہاں میرے سامنے آ کے میرا منہ چوم رہا ہے‬
‫جیسے بڑی محبت ہے ُم رشد سے اور ویسے ُم رشد کو اپنا نوکر بنایا‬
‫ہوتا ہے‪ ,‬تیری جوتی گ ُ م گئی تو ا ُسے ڈھونڈ کے النا کیا میرا کام‬
‫ہے۔؟" آنے والے شخص نے فور ا ً ا ُن کے پاؤں پکڑ لیے تو انہوں نے‬
‫ُم ریدین کو مخاطب کر ک ے کہا "یہاں آتے ہوئے راستے میں ا ِس کی‬
‫جوتی گ ُ م ہو گئی تو یہ کہتا ہے کہ ُم رشد میری مدد کرو‪ ,‬اب کوئی‬
‫بتائے مجھے کہ ُم رشد کا یہ کام ہے کہ ا ِس کی جوتی ڈھونڈتا رہے۔"‬
‫ا ُن کی ا ِس بات پر محفل میں بہت سے لوگوں کی ہنسی کی آواز‬
‫گونجی۔ ا ُسے سرکار علی محمد صاحب سے دل ز بانی بات کرنے کا‬
‫بھی بہت ل ُ طف آیا۔ ا ُن کی بات پر ا ُس نے دل دل سے ا ُن سے کہا " ا ِس‬
‫طرح تو ہوتا ہے ا ِس طرح کے کاموں میں‪ ,‬ت ُو نے دیوانہ بنایا تو وہ‬
‫دیوانہ بنا‪ ,‬نہ دیتے ا ُس کی جوتی تو اگلی بار ایسا نہ ہوتا‪ ,‬اب ڈھونڈ‬
‫کے دی ہے تو ب ھُ گتیں" انہوں نے فور ا ً ا ُس کی طر ف دیکھا اور کہا‬
‫" پ ُ تر میں تو ب ھُ گتنے کے لیے تیار ہوں اور ا ِن کی جوتیاں بھی ڈھونڈ‬
‫کے دینے کو تیار ہوں لیکن یہ بھی تو بات سمجھیں‪ُ ,‬م رشد سے دنیا‬
‫ہی سیدھی کرواتے رہتے ہیں الل ّٰ ہ مانگنے کا خیال نہیں آتا انہیں۔ میں‬
‫کہتا ہوں جب تک میں ہوں‪ ,‬تب تک مجھ سے کچھ سیکھ ل یں یہ لوگ‪,‬‬
‫لیکن سیکھنے کا شوق ہی نہیں ہے انہیں‪ ,‬یہ تو دنیا سیدھی کروانے‬
‫آتے ہیں یہاں‪ ,‬کل کو میں نہ ہوا ت و کسی اور جگہ بیٹھے دنیا کی‬
‫بھیک مانگ رہے ہوں گے کیونکہ ا ِن کا مقصد الل ّٰ ہ نہیں بلکہ ا ِن کا‬
‫نفس ہے۔ ہم بھی سمجھاتے رہتے ہیں اور ا ِن کو َم ن مانی کرنے د یتے‬
‫ہیں کہ چل و میرے پاس بیٹھے ہیں تو کچھ تو الله والی بات سیکھ رہے‬
‫ہیں نا۔‬
‫ا ُسے پتا چال کہ سرکار علی محمد کسی کو اتنی آسانی سے بیعت نہیں‬
‫کرتے‪ ,‬کہتے کہ پہلے طالب بنو پھر بیعت کرنا‪ُ ,‬م رشد کی صحبت میں‬
‫بیٹھو جب بیعت کے الئق ہو جاؤ گے تو بیعت بھی ِم ل جائے گی‪,.‬‬

‫‪145‬‬
‫لوگ کئی کئی سال سے ا ُن کی صحبت میں بیٹھ رہے تھے لیکن بیعت‬
‫نصیب نہیں ہوتی تھی‪ ,‬جو لوگ بیعت تھے انہیں بھی کئی سالوں کی‬
‫صحبت کے بعد بیعت نصیب ہوئی تھی‪ ,‬ایک شخص کا پتا چال جو‬
‫قریب دس بارہ سال سے ا ُن کی خدمت میں بیٹھ رہا تھا لیکن ابھی تک‬
‫ف بیعت حاصل نہ یں ہوا تھا۔ ا ُس نے دل زبانی ا ُن سے کہا‬ ‫ا ُسے شر ِ‬
‫"آپ تو الل ّٰ ہ والے ہیں‪ ,‬کسی کا بھی دل بدل سکتے ہیں‪ ,‬پھر ایسا کیوں‬
‫ہے کہ اتنا طویل عرصہ آپ کی صحبت میں بیٹھنے کے باوجود یہ‬
‫لوگ ا ِس الئق بھی نہ ہو سکے کہ آپ کے ہاتھ پے بیعت کر سکیں۔؟"‬
‫تو انہوں نے پھر سے ا ُس سے ظاہری طور پے بات کی اور کہا " پ ُ تر‬
‫ہم کنجوس نہیں ہیں‪ ,‬بات یہ ہے کہ ہمارے پاس طالب نہیں آتا‪ ,‬کوئی‬
‫چ ا طالب ہو تو ہم ا ُسے خوار نہیں کرتے‪ ,‬لیکن جس میں الل ّٰ ہ کی‬‫س ّ‬
‫طلب ہی نہ ہو ا ُسے ُم رید بھی نہیں کرتے‪ ,‬پاس بٹھاتے ہیں‪ ,‬بات‬
‫سمجھاتے ہیں کہ جس دن بات سمجھ آ جائے گی ا ُس ِد ن وہ ُم ریدی کے‬
‫بھی الئق ہو جائے گا‪ ,‬اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ سیکھتے ہم‬
‫سے ہیں لیکن بیعت کرنے کے لیے کسی باشرعا بزرگ کو ڈھونڈتے‬
‫ہیں‪ ,‬ہمیں کوئی شوق نہیں ہے ُم ریدین کی ب ِھ یڑ اکھٹی کرنے کا‪ ,‬کوئی‬
‫آئے تو ہم روکتے نہیں کسی کو۔ اب تو ایسا دور آ گیا پیر بس ُم ریدین‬
‫کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں کہتے ہیں کہ چاہے گدھے ہوں پر ُم رید‬
‫ہوں۔ ایسے ُم رید نہیں چاہیے ہیں جو کسی جگہ بیٹھ کے ہمارا نام‬
‫خراب کریں‪ُ ,‬م رید تیرے جیسا ہونا چاہیے کہ پیر فخر سے کہہ سکے‬
‫کہ یہ میرا ُم رید ہے۔" ا ُن کی بات س ُ ن کر ا ُس نے شرمندگی سے سر‬
‫ج ھُ کایا اور کہا "سرکار میں بھی ا ِس الئق نہیں ہوں کہ مجھ پے فخر‬
‫کیا جا سکے‪ ,‬میں تو بہت ب ُ را ُم رید ہوں بلکہ ُم رید کہالنے کے الئق‬
‫بھی نہیں ہوں‪ ,‬بس قسمت سے ا ُن کا سایہ نصیب ہو گیا‪ ,‬معارفت کی‬
‫چار باتیں سمجھ آ گئیں تو لوگ مجھے بھی عارف سمجھ لیتے ہیں‪,‬‬
‫میرے ُم رشد کے ُم رید ین میں میری حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے‪,‬‬
‫بہت سے عالم‪ ,‬عارف‪ ,‬عاشق لوگ میرے ُم رشد کے سائے میں پروان‬
‫چڑھ رہے ہیں۔ اور میری سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ میں بے شرعا‬
‫ہوں۔" انہوں نے شفقت سے ا ُس کی جانب دیکھا اور کہا " ُم ریدی‬
‫نمازیں پڑھنے‪ ,‬روزے رکھنے کا نام نہیں ہے بلکہ الل ّٰ ہ سے دل‬
‫ج ڑ گیا ا ُس کا ہر کام نماز روزہ ہی ہے‬ ‫جوڑنے کا نام ہے‪ ,‬جس کا دل ُ‬
‫‪146‬‬
‫ج ڑا‪ ,‬ا ُس کا نماز‪ ,‬روزہ‪ ,‬حج وغیرہ سب‬ ‫اور جس کا الل ّٰ ہ سے دل نہ ُ‬
‫دنیا داری ہے۔ درویش کو لوگوں سے نمازی‪ ,‬پرہیزگار کا لیبل نہیں‬
‫چاہیے ہوتا‪ ,‬اور نہ ہی ا ُسے لوگوں کے آنے جانے سے کوئی فر ق‬
‫پڑتا ہے۔ درویش لوگوں کی عقیدت کا بھوکا نہیں ہوتا وہ تو لوگوں‬
‫سے دور بھاگتا ہے‪ ,‬ا ُس کے لیے ا ُس کا الل ّٰ ہ ہی کافی ہوتا ہے‪ ,‬وہ تو‬
‫کہتا ہے کہ بس میں ہوں اور میرا یار ہو‪ ,‬وہ لوگوں سے بیزار ہوتا‬
‫چ کا ہوتا ہے۔ پھر اگر وہ‬ ‫ہے ‪ ,‬کیوں درویش یار یار کرتے‪ ,‬یار ہی ہو ُ‬
‫ل وگوں میں بیٹھتا ہے تو یہ درویش کا احسان ہے لوگوں پر کہ وہ‬
‫دنیاداروں کو اپنے سائے میں جگہ دیتا ہے۔ جیسا کہ آقا پاک (صلی‬
‫الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم) سے جب جبرائیل نے پوچھا کہ احسان کیا ہے تو‬
‫آپ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز ادا کرے تو ایسے جیسے وہ‬
‫الل ّٰ ہ کو دیکھ رہا ہے ورنہ وہ تو تمہیں دیکھتا ہی ہے۔ اب ا ِس میں‬
‫احسان کہاں ہے‪ ,‬احسان کون کر رہا ہے اور کس پے کر رہا ہے یہ‬
‫سمجھنے کی چیز ہے۔ نماز الل ّٰ ہ کا گ ُ مان کرنے کا نام ہے‪ ,‬جیسے ہر‬
‫عبادت کرنے واال‪ ,‬دعا کرنے واال ا ُسے پ ُ کارتے ہوئے ا ُسے سوچنے‬
‫کی کوشش کرتا ہے ا ُسی سوچ کو قائم کرنا نماز کہالتا ہے۔ اگر کوئی‬
‫روز تیرے پاس آئے اور جذبات سے خالی دل لیے ایک ہی طرح کی‬
‫باتیں کرتا رہے تو کیا ت ُو بور نہیں ہو جائے گا۔؟ ظاہری نماز وہ سوچ‬
‫قائم کرنے کے لیے ہے‪ ,‬جب نماز قائم ہو جاتی ہے تو پھر ا ُس کا‬
‫کھانا‪ ,‬پینا‪ ,‬جاگنا‪ ,‬سونا سب نماز ہے‪ ,‬آقا پاک (صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم) نے زندگی بھر نماز ا ِس لیے ترک نہیں کی کیوں کہ وہ جانتے‬
‫تھے کہ میری ا ُمت میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زندگی بھر نماز‬
‫پڑھ پڑھ کر بھی نماز قائم نہ کر سکیں گے۔ جس کی نماز قائم ہو گئی‬
‫ا ُس کی نماز ہر وقت ادا ہو رہی ہے‪ ,‬ا ُس کی ن ماز کبھی قضا نہیں‬
‫خ دا وہ کامل مکمل ہستی‪ ,‬جس نے نہ ظاہر میں‬ ‫شیر ُ‬
‫ِ‬ ‫ہوتی‪ ,‬موال علی‬
‫کبھی نماز قضا کی اور نہ ہی باطن میں‪ ,‬اسی لیے ا ُن کی نماز کا قضا‬
‫ہونا نہ تو الل ّٰ ہ کو منظور تھا اور نہ ہی الل ّٰ ہ کے رسول کو منظور تھا‪,‬‬
‫خ دا نماز ادا کریں گے‬ ‫شیر ُ‬
‫ِ‬ ‫ا ِس لیے سورج کو واپس بھیجا کہ پہلے‬
‫پھر سورج غروب ہو گا۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ مومن کی نماز الل ّٰ ہ اور‬
‫ا ُس کے رسول کو اتنی پیاری ہے کہ وقت کو واپس کر دیا جاتا ہے‬
‫تاکہ ا ُن کی نماز نہ قضا ہو۔ تو نماز پڑھنے والے پڑھ کے چلے گئے‪,‬‬
‫‪147‬‬
‫ا ُسے تا حشر قائم بھی کر گئے۔ اب لوگ بس اصل نماز کی نقل کرتے‬
‫ہیں‪ ,‬تو جو جتنی اچھی نقل کر پاتا ہے وہ اتنا اصل ہو جاتا ہے۔ لیکن‬
‫یہ نقل کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اور یہ نقل داڑھی‪ ,‬ٹوپی‪ ,‬تسبیح‬
‫سے نہیں کی جا سکتی ا ِس کے لیے دل جالنا پڑتا ہے تاکہ ا ُس کی‬
‫روشنی میں روح اپنا آپ پہچان سکے‪ ,‬حضور غوث پاک کا فرمان ہے‬
‫کہ جو شخص الل ّٰ ہ کو پہچانتا ہی نہیں وہ ا ُس کی عبادت کیسے کر‬
‫سکتا ہے۔ یہ پہچان کیا ہے یہی بات سمجھنے کی چیز ہے۔ اور یہ بات‬
‫کسی سے سیکھے ب ِ نا سمجھ نہیں آتی۔ ُم رشد کا کام ُم ریدین کو الل ّٰ ہ کی‬
‫پہچان کرانا ہوتا ہے۔ لوگ سب ا ُلجھے ہوئے ہیں‪ُ ,‬م ّال نے سب کو‬
‫عبادتو ں میں ا ُلجھایا ہوا ہے‪ ,‬فالں طریقے سے ہاتھ پاؤں دھوئے تو‬
‫وضو ہے ورنہ نہیں ہے۔ فالں وقت نماز پڑھو اور فالں وقت نماز مت‬
‫پڑھو‪ ,‬فالں فالں سورت پڑھو اور فالں ترتیب سے ُر کوع سجود کرو‬
‫تو نماز ہوتی ہے ورنہ نماز ہی نہیں ہوتی۔ جسم و لباس کی پاکیزگی‬
‫اور طریقوں میں ا ُل جھایا ہوا ہے لوگوں کو۔ درویش لوگوں کو ا ِن‬
‫چا‬‫چیزوں میں نہیں ا ُلجھاتا۔ وہ سیدھے سیدھے دل کی بات بتاتا ہے۔ س ّ‬
‫ُم رشد لوگوں کو طور طریقوں میں ا ُلجھانے کی جگہ الل ّٰ ہ سے دل لگانا‬
‫سکھاتا ہے۔ الل ّٰ ہ سے دل لگانے کا سفر عبادت سے نہیں بلکہ سلوک‬
‫سے طے کیا جاتا ہے‪ ,‬اولی اء کی تربیت تو یہ ہے کہ نماز پڑھ کے‬
‫ایک ایک کو نماز نہ پڑھنے پر ٹوکنے سے بہتر ہے ت ُو خود بھی‬
‫نماز نہ پڑھتا۔ ایسی نماز‪ ,‬نمازی کے لیے عذاب کا باعث ہے جسے‬
‫پڑھ کر وہ دوسروں کو کمتر یا خود کو برتر محسوس کرنا شروع ہو‬
‫جائے۔ اور ایسی بےنمازی جو انسان کو عاجز بنائ ے‪ ,‬صرف انسان‬
‫ہونے کی بنیاد پر لوگوں کا احترام کرنا سکھائے وہ بےنمازی ق ُ ر بِ‬
‫ال ٰہ ی کا باعث ہے۔ ُم ّال نے دین کے نام پر لوگوں کو نماز‪ ,‬روزے کے‬
‫طریقوں میں ا ُلجھا کر الل ّٰ ہ کی راہ سے بھٹکایا ہوا ہے اسی لیے لوگ‬
‫دین کی بات کرتے ہوئے ایک دوسرے کا گریباں پکڑ رہے ہوت ے ہیں۔‬
‫لوگ دنیادار بیوقوف اور جاہل ہیں جو دین کو جانتے ہی نہیں ہیں اور‬
‫ُم ّال کے بتائے مسئلوں میں ا ُلجھے رہتے ہیں۔ بڑے فنکار ہوتے ہیں یہ‬
‫لوگ۔ یہ پہلے مسئلہ بناتے ہیں۔ وضو کے مسائل‪ ,‬نماز‪ ,‬روزے‪,‬‬
‫طہارت کے مسائل‪ ,‬وغیرہ وغیرہ۔ پھر ا ُس کے بعد مولوی صاحب‬
‫مسئلہ سم جھاتے ہیں اور لوگوں کے مسائل بڑھا دیتے ہیں۔ ایسا وضو‬
‫‪148‬‬
‫نہ ہو تو نماز نہیں ہو گی‪ ,‬بال‪ ,‬لباس‪ ,‬تلفظ‪ ,‬نماز پڑھنے کی جگہ‪,‬‬
‫تصویریں اور نہ جانے ِک ن ِک ن چیزوں کو ُم ّال ‪ ,‬انسان اور الل ّٰ ہ کے بیچ‬
‫کھڑا کر دیتا ہے۔ کیوں نہیں بتاتے یہ ُم ّال لوگوں کو کہ الل ّٰ ہ کی ذات‬
‫ح س ِن سلوک اور سب انسانوں کو ایک برابر‬ ‫کو اپ نے اندر تالش کرو۔؟ ُ‬
‫ِگ ن ّ ے کا درس کیوں نہیں دیتے یہ ُم ّال ‪ ,‬پنڈت‪ ,‬پادری وغیرہ۔؟کیونکہ‬
‫اگر وہ ایسا کریں گے تو دین دھرم کے نام پر ک ھُ لی ا ُن کی د ُکانیں بند‬
‫ہو جائیں گی۔‬

‫‪149‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫درویش کیونکہ لوگو ں کو اپنے پیچھے دوڑانے کا قائل نہیں ہوتا ا ِس‬
‫لیے وہ لوگوں کو مسئلوں میں نہیں ا ُلجھاتا بلکہ لوگوں میں مذہب و‬
‫مسلک کا فرق کیے بغیر انہیں حق بات بتاتا ہے‪ ,‬ا ِسی لیے لوگ‬
‫درویش کے دیوانے ہوتے ہیں۔ " بات کرتے کرتے سرکار علی محمد‬
‫نے ا ُس کی جانب دیکھا اور کہا "ت ُو بتا‪ ,‬تجھے الل ّٰ ہ کی تالش تھی‪,‬‬
‫مسجد‪ ,‬امام بارگاہ دیکھی‪ ,‬دربار دیکھا الل ّٰ ہ واال دیکھا‪ ,‬الل ّٰ ہ دیکھا کہ‬
‫نہیں۔؟ الل ّٰ ہ ِم ال کہ نہیں۔؟ " ا ُس نے ا ُن کے سوال پر مسکرا کر کہا‬
‫"جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں‪ ,‬وہ نکلے میرے‬
‫ظلمت خانئہ دل کے مکینوں میں" میں اپنے ُم رشد پاک سے ملنے تک‬
‫بہت ا ُلجھا رہا بہت سے سوال تھے دل میں‪ ,‬لیکن ُم رشد ملنے کے بعد‬
‫جواب ملنا شروع ہو گئے۔ جب میں شیعہ ہ ُوا تھا تو ایک دوست نے‬
‫پوچھا کہ کیا فرق پڑا تم پے شیعہ ہو جانے سے۔؟ تو میں نے کہا کہ‬
‫میں فرق ہی تالش کر رہا ہوں‪ ,‬میں شیعہ‪ ,‬س ُ ن ّ ی نہیں بلکہ انسان بننا‬
‫چاہتا ہوں‪ ,‬میں ا ِس مسئلے کی جڑ تک پہنچنا چاہتا ہوں‪ ,‬اور لوگوں‬
‫تک ا ِس کا حل پہنچانا چاہتا ہوں‪ ,‬میں نے جس دن پڑھا تھا کہ جستجو‬
‫کرنے والوں کو الل ّٰ ہ ہدایت ضرور دیتا ہے‪ ,‬ا ُس روز مجھے یقین ہو‬
‫گیا تھا کہ الل ّٰ ہ مجھے مل گیا ہے‪ ,‬مجھے دکھائی د ے گیا تھا کہ وہ‬
‫ہمیشہ میرے ساتھ ہی تھا‪ ,‬ال ل ّٰ ہ کا مل جانا یہی ہے کہ انسان کو ال ل ّٰ ہ‬
‫کے ساتھ کا احساس مل جائے‪ ,‬تو وہ احساس مجھے پہلے قدم پر ہی‬
‫مل گیا تھا لیکن میں پورا حق جاننا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تو سکون سے‬
‫گھر بیٹھ سکتا تھا کہ مجھے ا ُس کی ذات کا احساس نص یب ہو گیا‪ ,‬اب‬
‫تالش کی ضرورت نہیں‪ ,‬کیونکہ جب اپنے اندر ذات مل جائے تو باہر‬
‫ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ لیکن جب ذات محسوس ہوئی تو‬
‫دل نے مجھ سے سوال کیا کہ اپنی ہی قبر روشن کرنی ہے یا لوگوں کا‬
‫بھی کچھ احساس ہے۔ بڑی خوشی‪ ,‬بڑا اطمینان ہے تجھے‪ ,‬لیکن جن‬
‫لوگوں میں رہتے ہوئے تجھ پے یہ سب مہربانی ہوئی کیا ا ُن لوگوں کا‬
‫کوئی حق نہیں ہے تجھ پے۔؟ دل کی بات س ُ ن کر میں ڈر گیا اور ارادہ‬
‫‪150‬‬
‫کیا کہ پورا سچ جاننے اور لوگوں تک ا ُسے پہنچانے کی کوشش کروں‬
‫گا‪ ,‬ا ِس لیے مجھے جو راہ دکھائی دی میں نے ثابت قدمی سے ا ُس پر‬
‫چلنے کی کوشش کی ‪ ,‬الل ّٰ ہ نے بہت سا ق ُ رب عطا کیا‪ ,‬بہت سا راز‬
‫سمجھایا‪ ,‬اپنے ُم رشد پاک سے ِم لنے کے بعد جب میں نے پلٹ کر اپنی‬
‫گ ُ زشتہ زندگی کی کمزوریوں اور محرومیوں کی جانب دیکھا تو‬
‫مجھے ہر چیز درست نظر آئی اور میں اپنے ماضی کو الل ّٰ ہ کی رضا‬
‫و حکمت مان کر پ ُ رسکون ہو گیا‪ ,‬پھر م ستقبل پے نظر دوڑائی تو‬
‫ُم رشد نے الل ّٰ ہ کی رضا و حکمت سے ہر حال میں راضی اور پرامید‬
‫رہنے کا سبق دیا اور مستقبل کی ف ِ کر بھی ب ھُ ال دی‪ ,‬جب ماضی و‬
‫مستقبل سے چ ھُ ٹکارہ ِم ال تو حال نصیب ہ ُوا‪ ,‬حال نصیب ہ ُوا تو دل کی‬
‫گرہ ک ھُ لنا شروع ہو گئی اور بات پوری طرح سمجھ آنی شروع ہو گئی۔‬
‫ہر حال میں الل ّٰ ہ کی یاد قائم ہونا الل ّٰ ہ کا ِم ل جانا ہے‪ ,‬کھاتے‪ ,‬پیتے‪,‬‬
‫سوتے‪ ,‬جاگتے‪ ,‬غرض کے ہر حال میں ا ُس کی یاد میں محو رہنا الل ّٰ ہ‬
‫کے ق ُ رب کی دلیل ہے۔ اگرچہ کہ ابھی تک میں کچھ کر نہیں پایا لیکن‬
‫ارادہ ابھی تک پ ُ ختہ ہے۔" سرکار علی محمد نے ا ُسے ٹوکتے ہوئے‬
‫کہا "ت ُو اتنے سارے لوگوں کو اتنی ساری بات سمجھاتا ہے‪ ,‬لوگوں کو‬
‫ُم رشد والی راہ بتاتا ہے‪ ,‬اور کہتا ہے کہ کچھ کر نہیں پایا ابھی تک۔؟‬
‫اور کیا کرنا ہے ت ُو نے۔؟ یہی کام ہوتا ہے بندے کا کہ لوگوں کو‬
‫بندگی سکھائے۔" ا ُس نے کہا "سرکار یہ سب بہت ناکافی ہے‪ ,‬میں نے‬
‫بہت سے دعوے کیے تھے‪ ,‬الل ّٰ ہ سے کہا تھا کہ سب تک تیرا پیغام‬
‫پہنچاؤں گا‪ ,‬لیکن میں کچھ بھی نہیں کر پایا۔ روٹی کپڑا مکان میں‬
‫ج نبش بھی نہیں کر پاتا‪ ,‬بس اس کے‬ ‫ایسا ا ُلجھا ہوں کہ اپنی جگہ سے ُ‬
‫عالوہ اور کوئی فکر نہیں ہے۔ مجھے اپنے اوپر ذمہ داری کا ایک‬
‫شدید بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ لگتا ہے زمین پے ہونے والی ہر ب ُ رائی‬
‫ہر ظ ُ لم میں میری خاموشی کا دخل ہے۔ اگر میں خاموش نہ ہوتا تو‬
‫شاید لوگوں کی سوچ بدل سکتا۔ کچھ بڑا کر سکتا۔ لیکن میں سوائے‬
‫سوچنے اور بڑی بڑی باتیں کرنے کے‪ ,‬اور کچھ بھی نہیں کر پایا۔‬
‫ت آخر‬ ‫کبھی کبھی بہت ٹوٹ جا تا ہوں۔ تو خود سے کہتا ہوں کہ اب وق ِ‬
‫کی ابتد ہونے کو ہے ‪ ,‬ب ُ رائی اپنے عروج کو جا پہنچی تو اچھائی نے‬
‫بھی تمام در کھول دیے‪ ,‬ا ِس لیے مجھ جیسے لوگوں تک بھی درویشی‬
‫کی بات پہنچنا شروع ہو گئی ہے ورنہ یہ باتیں سمجھنے کی اوقات‬
‫‪151‬‬
‫نہیں ہے میری‪ ,‬درویشی کی چار باتیں سیکھ کر خود کو شاید کوئی‬
‫درویش سمجھنا شروع ہو گیا ہوں‪ ,‬یہ میرا نفس ہے شاید جو شہرت کا‬
‫بھوکا ہے۔ لیکن میں خود کو اس جواب پر مطمئن نہیں کر پاتا۔" کہتے‬
‫کہتے ا ُس کی آنکھ نم ہو گئی‪ ,‬اور وہ نظر ج ھُ کائے خاموش ہو گیا۔‬
‫تو سرکار علی محمد نے کہا "دیکھ ہم تک جو بھی ا چھی ب ُ ری بات‬
‫پہنچتی ہے وہ ہمارے پاس رحمان یا شیطان کی امانت ہوتی ہے۔ ا ُسے‬
‫آگے پہنچانا یا نہ پہنچانا انسان کا اپنا ظرف ہوتا ہے۔ ہم سب اپنے‬
‫پاس موجود امانتوں کے امین ہوتے ہیں اور ا ُس امانت کی صحیح‬
‫حقدار تک ترسیل کے لیے یا ا ُس امانت میں خیانت کرنے کے لیے‬
‫بےچی ن رہتے ہیں۔ جیسے بہت سے لوگ کسی کے راز کو راز نہیں‬
‫رکھ پاتے اور کچھ بہت اچھے ہمراز ہوتے ہیں۔ عام طور پے لوگ‬
‫راز رکھنے کے معاملے میں اپنے پرائے یا اپنے مفادات کو نظر میں‬
‫رکھتے ہیں‪ ,‬ا ِسی طرح الل ّٰ ہ والے الل ّٰ ہ کے ہمراز ہوتے ہیں۔ ا ُنہیں یہ‬
‫علم و معارفت ا ِس لی ے نہیں دیا جاتا کہ سینے سے لگا کر بیٹھ جائیں‬
‫بلکہ ا ِس لیے دیا جاتا ہے تاکہ وہ ا ُسے مخلوق کے فائدے کے لیے‬
‫استمعال کرے۔ اب اگر درویش وہ سب علم و معارفت ساتھ لے کر‬
‫جنگل میں بیٹھا الل ّٰ ہ ھ ُ و الل ّٰ ہ ھ ُ و کرتا رہے تو ا ِس کا مطلب کہ ا ُس نے‬
‫الل ّٰ ہ کی عطا کردہ امانت میں خیانت کی۔ اسی وجہ سے درویش کو‬
‫خانقاہ میں بیٹھنا پڑتا ہے‪ ,‬ا ُسے لوگوں کی عقیدتیں اکھٹی کرنے کا‬
‫شوق نہیں ہوتا لیکن لوگوں تک پیغام پہنچانے کی خاطر ا ُسے یہ سب‬
‫برداشت کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے عجز و عقیدت سے نفس بھاری ہوتا‬
‫ہے اور ال ل ّٰ ہ کی امانت حاصل کرنے والو ں کی سب سے بڑی آزمائش‬
‫یہی ہوتی ہے کہ کس طرح لوگوں کی بےجا عقیدت سے بچتے ہوئے‪,‬‬
‫لوگوں تک حق پہنچایا جا سکے۔ جب شمع جلتی ہے تو ا ُس کے گرد‬
‫چ ے پروانے نہیں‬ ‫بہت سے پروانے اکھٹے ہو جاتے ہیں لیکن وہ سب س ّ‬
‫ہوتے۔ ہر پروانہ شمع میں جلنے کا خواہشمند نہیں ہوتا‪ ,‬وہ تو بس ا ُس‬
‫کی ح د ّت محسوس کرنے کے لیے ا ُس کی روشنی سے محظوظ ہونے‬
‫کے لیے ا ُس کے ارد گرد اکھٹے ہوتے ہیں‪ ,‬شمع ایسے پروانوں کے‬
‫ج لنا قبول کرتی ہے‬ ‫لیے روشن نہیں ہوتی‪ ,‬وہ تو ا ُن پروانوں کے لیے َ‬
‫جو شمع میں جل کر شمع ہو جانے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ اسی لیے‬
‫بعض اولیاء نے مالم ت کی راہ اختیار کی۔ لوگ نماز روزے کے پابند‬
‫‪152‬‬
‫لوگوں سے بہت آسانی سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ درویش‪ ,‬دنیا و ع ُ قبا‬
‫کے طالبوں سے دور بھاگتا ہے‪ ,‬وہ تو بس الل ّٰ ہ کے طالب کا ُم نتظر‬
‫ہوتا ہے۔ الل ّٰ ہ کا طالب درویش کی شریعت پر نہیں بلکہ ا ُس کی عطا‬
‫پر نظر رکھتا ہے جبکہ دنیا و ع ُ قبا کا طالب درویش کی شریعت سے‬
‫چ ے اولیاء شریعت کی پاسداری‬ ‫ہی گھبرا کر بھاگ جاتا ہے۔ جو س ّ‬
‫کرتے ہیں وہ کچھ اور حساب سے دنیاداروں کو خود سے دور رکھتے‬
‫ہیں‪ ,‬لمبی لمبی گاڑیاں‪ ,‬بڑے بڑے گھر دنیا و ع ُ قبا کے طالبوں کو الل ّٰ ہ‬
‫والوں سے دور رکھنے کے کام بھی آتی ہیں۔ ت ُو بتا‪ ,‬ت ُو جب اپنے‬
‫ُم رشد کے پاس گیا تھا تو کیا ت ُو نے ا ُن کی گاڑی یا گھر وغیرہ پے‬
‫توجہ دی تھی۔؟" ا ُن کے سوال پر ا ُس نے نفی میں سر ہالیا تو انہوں‬
‫نے کہا "یہی سچے طالب کی نشانی ہے۔ ت ُو جب میرے پاس آیا تو ت ُو‬
‫نے باہر بیٹھے چرس اور شراب پیتے لوگوں کو دیکھ کر کیا سوچا۔؟"‬
‫ا ُس نے کہا "میں لوگوں کے اعمال پر کچھ خاص توجہ نہیں دیتا‪ ,‬ہر‬
‫شخص اپنی زبان سے اپنا اندر بیان کرتا ہے۔ یہ آپ کا پردہ ہے آپ‬
‫کی شریعت ہے جس کے جوابدہ آپ خود ہیں۔ لوگوں کا فیصلہ کرنے‬
‫کی مجھے عادت نہیں ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط اور اگر‬
‫یہ دیکھن ا ضروری ہو کہ کون کتنے پانی میں ہے تو ا ُس کی بات سے‬
‫ا ُس کے ظرف کا اندازہ کرتا ہوں۔" سرکار علی محمد نے اپنے‬
‫ُم ریدین سے کہا "دیکھو یہ ہے سچا طالب جسے الل ّٰ ہ والے سے صرف‬
‫الل ّٰ ہ ہی کی غرض ہے۔ تم لوگ دیکھ رہے ہو میں ا ِس سے جو جو‬
‫پوچھ رہا ہوں یہ سب بتا رہا ہے‪ ,‬ا ِ س کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ا ِسے‬
‫خود ن ُ مائی کا شوق ہے یا مجھے ا ِسے جاننے کے لیے ا ِس کا امتحان‬
‫لینے کی ضرورت ہے یہ سب کہا س ُ نی تم لوگوں کے لیے ہے تاکہ تم‬
‫سب کچھ سیکھو اور یہ جان سکو کہ تمھارے ُم رشد نے کسی اور کے‬
‫ُم رید کو اتنی اہمیت کیوں دی۔" پھر ا ُسے مخاطب کر کے کہا "جب ت ُو‬
‫آ کے مجھ سے ِم ال تو ا ِن میں سے بہت سے لوگوں نے سوچا کہ‬
‫سرکار ا ِسے اتنی عزت کیوں دے رہے ہیں تو میں نے سوچا انہیں‬
‫جواب دے دیا جائے" پھر اپنے ُم ریدین سے کہا "یہ ا ِس کی نہیں ا ِس‬
‫اظہار محبت‬
‫ِ‬ ‫کے ُم رشد کی عزت ہے‪ ,‬میں ا ِس کے ُم رشد کامل سے‬
‫کر رہا ہوں ۔" پھر ا ُس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا "میرے پاس آتے‬
‫رہتے ہیں دوسرے سلسلوں کے ُم رید‪ ,‬میں کسی کو لفٹ نہیں کراتا‬
‫‪153‬‬
‫لیکن ت ُو بہت پیاری روح ہے اور کامل ُم رشد واال ہے تیرے ُم رشد نے‬
‫تجھ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ورنہ بےشرعا درویشوں کی صحبت‬
‫سے بڑے بڑے لوگ بھاگ جاتے ہیں‪ ,‬میرا سالم ہے ایسے ُم رشد کو‬
‫جس نے اپنے ُم رید کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ "‬

‫‪154‬‬
‫''باب۔ ‪'' 01‬‬
‫ا س رات وہ ا ُنہی کے ڈیرے پے ُر کا اور صبح تک لوگوں کا آنا جانا‬
‫لگا رہا۔ ایک شخص ُم القات کے لیے آیا تو سرکار نے ا ُس شخص سے‬
‫ا ُس کی خیریت دریاف ت کرتے ہوئے پوچھا "سب خیر ہے۔؟" تو ا ُس نے‬
‫کہا "مالک کا بہت رحم و کرم ہے ُم رشد‪ ,‬اچھی گزر رہی ہے"۔ آنے‬
‫واال ُم رید بہت غور سے ا ُسے دیکھ رہا تھا کہ یہ شخص سرکار کے‬
‫اتنے قریب کیوں بیٹھا ہے۔ سرکار نے ا ُس شخص کی نظروں کو‬
‫دیکھتے ہوئے پنجابی زبان میں کہا "اے سمجھ و اال بندہ اے‪ ,‬ایدے‬
‫کولوں ِس کھو آدا ب ِ ُم رشد‪ ,‬جد ِس کھ جاؤ گے تے بے جانا میرے کول"‬
‫پھر ا ُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا " پڑھے لکھے لوگوں سے‬
‫سیکھنے کا جی کرتا ہے میرا‪ ,‬اچھا ت ُو مجھے یہ سمجھا کہ رحم اور‬
‫کرم میں کیا فرق ہے۔؟" تو ا ُس نے کہا "سرکار میں تو خود آپ سے‬
‫سیکھنے آیا ہوں‪ ,‬آپ خود ہی بیان کیجیئے" تو انہوں نے پھر سے ا ُس‬
‫شخص سے کہا "اے ہوندا اے درویش دا ادب‪ ,‬جواب معلوم اے پر‬
‫درویش دے سامنے اپنا علم جھاڑنے دا کوئی شوق نئی" پھر ا ُس سے‬
‫کہا "چل اب جواب دے‪ ,‬رحم تے کرم دا فرق دس۔" تو ا ُس نے موئدب‬
‫لہجے میں الفاظ سنبھالتے ہوئ ے کہا "سرکار‪ ,‬میرے خیال میں جو‬
‫طلب پے مل جائے وہ رحم اور جو بے طلب مل جائے وہ کرم ہے۔"‬
‫سرکار نے ا ُس کی تائید کرتے ہوئے کہا "ہاں ایسا ہی ہے چل اب یہ‬
‫بتا کہ ال ل ّٰ ہ سے کیا طلب کرنا چاہیے اور کیا نہیں ۔؟" وہ سرکار کا‬
‫نظریہ سمجھ گیا تھا کہ سرکار ا ُس کی باتوں سے ُم ریدن کو بات کے‬
‫ساتھ ساتھ بیان کرنے والے کی گہرائی بھی سمجھانے کی کوشش کر‬
‫رہے ہیں‪ ,‬ا ِس لیے ا ُس نے بات شروع کرتے ہوئے کہا "سرکار میں‬
‫نے سیکھا کہ الل ّٰ ہ سے الل ّٰ ہ کے سوا کچھ طلب نہیں کرنا چاہیے‪ ,‬ہر‬
‫عمل ہر سوچ کے اجر و عذاب کو الل ّٰ ہ کے ق ُ رب سے جوڑ لینا چاہ یے‪,‬‬
‫جیسے لوگ ہر اچھے ب ُ رے کام کے ساتھ گناہ ثواب کی باتیں کرتے‬
‫ہیں‪ ,‬پانی پ ِ ال دو دس نیکیاں ملیں گی‪ ,‬اذان ہو رہی ہے‪ ,‬ٹی وی مت‬
‫دیکھو‪ ,‬گناہ ملے گا‪ ,‬ایسی بہت سی باتیں لوگ ایک دوسرے سے کہتے‬
‫رہتے ہیں۔ میرے ُم رشد پاک نے مجھے سکھایا کہ اپنے گ ُ ناہ ثواب کو‬
‫‪155‬‬
‫الل ّٰ ہ کے ق ُ رب اور دوری سے جوڑ دو۔ الل ّٰ ہ کے ق ُ رب کے عالوہ کوئی‬
‫اجر مت مانگو اور الل ّٰ ہ سے دوری کے سوا کسی شئے کو عذاب مت‬
‫سمجھنا۔ تو میں نے اپنے ُم رشد کے ارشاد کے مطابق ثواب و عذاب‬
‫ا ُسی کی ذات کو مان لیا۔ جب یہ سمجھ آیا کہ انسان کو اپنا نصیب مل‬
‫کر رہتا ہے تو بےمقصد د ُعاؤں سے بھی جان چ ھُ وٹ گئی۔ جب دوبارہ‬
‫الل ّٰ ہ کی تالش شروع کی تو ایک رات شدید سردی کے باعث میں دو دو‬
‫کمبل اوڑھے ہوئے بھی سردی سے ٹھٹھر رہا تھا کہ رات تین بجے‬
‫کے آس پاس میری آنکھ ک ھُ ل گئی اور میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی‬
‫کمبل چہرے سے ہٹایا تو سامنے دیوار پر لگے فریم پر نظر پڑی جس‬
‫پے کچھ آیات درج تھیں۔ میری عادت تھی کہ رات جس بھی پہر آنکھ‬
‫ک ھُ لتی تو شروع کے الفاظ آنکھوں آنکھوں سے پڑھ لیتا تھا یا پہلے‬
‫لفظ کو دیکھتا رہتا تھا۔ "الل ّٰ ہ ُ ن ُ ور السمٰ وات واالرض" کے الفاظ سے‬
‫شروع ہونے والی آیات ا ُس رات بھی بستر میں لیٹے ہو ئے میری‬
‫نظروں کے سامنے تھی۔ میں کافی شدید نیند کے عالم میں تھا ا ِس لیے‬
‫ایک نظر دیکھ کے فور ا ً آنکھ بند کر لی‪ ,‬لیکن آنکھ بند کرتے ہوئے‬
‫چ بھن محسوس کی۔ جیسے کوئی کانچ کا‬ ‫آنکھوں میں ایک عجیب سی ُ‬
‫منظر میری آنکھ کے بند ہونے سے ٹوٹ رہا ہو۔ میں نے پھر سے نیند‬
‫نیند میں آنکھیں کھولیں اور شروع سے آخر تک وہ آیات پڑھیں اور‬
‫چ بھن ابھی بھی برقرار تھی اور دل نے‬ ‫پھر سے آنکھ بند کی لیکن ُ‬
‫مالمت کی کہ الل ّٰ ہ کے نام سے ذیادہ تجھے اپنی نیند پیاری ہے۔؟ میں‬
‫نے پھر سے آنکھیں کھولیں اور ایک بار پھر سے آیات پڑھیں لیکن‬
‫مجھے سکون نہ ِم ال میں بستر سے نکال اور جا کے آیت والے فریم کو‬
‫بوسہ دیا اور کئی بار اسے پڑھ کر جب مجھے کچھ سکون محسوس‬
‫ہوا تو واپس اپنے بستر کی جانب گیا لیکن بستر پر لیٹنے کی جگہ‬
‫بستر کے پاس گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا اور الل ّٰ ہ کو محسوس‬
‫کرنے کی کوشش کی لیکن خود پر اس بات کا کچھ خاص احساس‬
‫طاری نہ کر سکا کہ الل ّٰ ہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ تو میں نے الل ّٰ ہ سے کہا‬
‫"ال ل ّٰ ہ میاں میں جانتا ہوں کہ میں احساس سے خالی ہوں۔ مجھے‬
‫محسوس ہی نہیں ہو رہا کہ ت ُو مجھے دیکھ رہا ہے۔ شاید ا ِس لیے‬
‫کیونکہ میں اپنے دل میں تیرے سوا اور بھی خواہشات رکھتا ہوں۔ تو‬
‫آج میں ہر خواہش رد کرتا ہوں۔ جس طرح اپنا گرم بستر اور میٹھی‬
‫‪156‬‬
‫نیند چھوڑے بغیر مجھے تیرے نام کو پڑھ کر بھی سکون نہ مل سکا‬
‫شاید ا ُسی طرح اپنی خواہشات کی طلب چھوڑے بنا تیرا احساس بھی‬
‫میسر نہ آئے۔ ا ِس لیے میں نے آج تک جو کچھ مانگا اور جو کچھ بھی‬
‫میں اپنی تمام زندگی میں مانگوں گا۔ آج میں اپنی مانگی دنیا و نفس‬
‫کی سب دعائیں رد کرتا ہوں‪ ,‬مجھے ایسا کچھ عطا نہ کرنا جو تیرے‬
‫میرے بیچ دوری کا باعث بنتا ہو۔ ت ُو نے مجھے جو کچھ دیا اور جو‬
‫کچھ دینا ہے میں ہر شئے تیرے ق ُ رب پے ق ُ ربان کرتا ہوں۔ مجھے‬
‫معلوم ہے کہ میرے الفا ظ جذبات سے خالی ہیں تو اے رب میں تجھ‬
‫سے ا ُن جذبات کا سوال کرتا ہوں جن کی موجودگی مجھے تیرے ق ُ رب‬
‫کا احساس دے سکیں۔" اور ا ِس طرح د ُعا کر کے ا ُس رات میں سو‬
‫گیا۔ لیکن ا ُس کے بعد سے احساس کی دولت میسر آنا شروع ہو گئی۔‬
‫مجھے یہی سمجھ آیا کہ الل ّٰ ہ ا ُسی کو ملتا ہے جو الل ّٰ ہ کے سوا ہر‬
‫دوسری خواہش ترک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ا ِس کا یہ مطلب نہیں‬
‫ہے کہ ا ُس کے بعد میں نے الل ّٰ ہ سے کچھ مانگا نہیں لیکن ا ِس کے بعد‬
‫سے مجھے پرواہ نہیں ہوتی اپنی د ُعاؤں کی۔ پوری ہو جائے تو بھی‬
‫الحمدلل ّٰ ہ اور پوری نہ ہو تو ذیادہ ش ُ کر ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‬
‫جیسے ہم کسی شخص سے ا ُدھار مانگتے ہیں تو دینے والے کی‬
‫حیثیت کے مطابق ا ُس سے سوال کرتے ہیں۔ کوئی عام شخص ہو تو‬
‫ا ُس سے چند سو روپے مانگتے ہوئے بھی ہم سوچتے ہیں کہ پتا نہیں‬
‫ا ِس کے پاس ہوں گے بھی یا نہیں۔ لیکن کوئی بادشاہ سامنے ہو تو ہم‬
‫بڑی سے بڑ ی چیز طلب کرنے کی کوشش کریں گے۔ تو الل ّٰ ہ تو سب‬
‫سے بڑا ہے‪ ,‬ا ُس کے پاس تمام بادشاہی ہے‪ ,‬تو ا ُس سے مانگتے ہوئے‬
‫ہمیں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ ا ُس سے دنیا و نفس کی ل ذ ّ ت طلب‬
‫کرنے کی جگہ ا ُس کا ق ُ رب و وصال مانگا جائے۔ ا ِس سوچ سے میں‬
‫نے کبھی اپنے ُم رشد پاک سے اپن ی کسی بیماری کا ذکر نہیں کیا کیوں‬
‫کہ مجھے شرم آتی ہے الل ّٰ ہ والے سے غیر الل ّٰ ہ کا سوال کرتے ہوئے۔"‬
‫سرکار نے ا ُس سے پوچھا "تیری ٹانگوں میں کیا مسئلہ ہے۔؟" تو ا ُس‬
‫نے کہا "سرکار یہ مسئلہ بہت پ ُ رانا ہے۔ شاید اسکول کے زمانے سے‪,‬‬
‫جب میں نے م ارشل آرٹس شروع کیں تو ٹانگیں فٹ ہو گئیں تھیں‪,‬‬
‫لیکن جب ایکسرسائزز چھوڑ دیں تو آہستہ آہستہ مسئلہ بڑھنا شروع ہو‬
‫گیا‪ ,‬کئی سال تک یہ مسئلہ ن ُ مایاں نہیں تھا لیکن میرے ُم رشد پاک کے‬
‫‪157‬‬
‫وصال کے بعد سے یہ زیادہ ہو گیا ہے۔ میں کسی طرح کا وزن نہیں‬
‫چ وں کو بھی گود میں نہیں ا ُٹھا سکا‪ ,‬اکثر‬ ‫ا ُٹھا سکتا اسی لیے اپنے ب ّ‬
‫ا ِس معزوری سے بہت ٹوٹ سا جاتا تھا تو سوچتا کہ الل ّٰ ہ سے گ ُ زارش‬
‫کروں کہ ا ِس بیماری سے نجات ِم ل سکے‪ ,‬پھر سوچتا کہ اگر یہ‬
‫بیماری لگی ہے تو یقینا ً الل ّٰ ہ کی رضا ہی سے لگی ہو گی اور اگر میں‬
‫ا ِس سے تنگ ہوتا ہوں تو ا ِس کا مطلب کہ میں الل ّٰ ہ ک ی رضا میں‬
‫راضی نہیں ہوں۔ کئی بار سوچا ُم رشد پاک سے عرض کروں لیکن‬
‫غیر الل ّٰ ہ کا سوال دل کی زبان سے بھی نہیں کر سکا۔ میں چلتا ہوں تو‬
‫ہر دوسرے قدم پر ٹھوکر لگ جاتی ہے اکثر ِگ ر جاتا ہوں ایک دفعہ‬
‫ُم رشد پاک سے ملنے گیا تو بہت سوچ کے ارادہ کر کے گیا تھا کہ آج‬
‫ُم ر شد پاک سے اپنے عالج کے لیے کسی سبب کی درخواست کروں گا‬
‫س وا سوال نہیں کر‬ ‫لیکن جب سامنے پہنچا تو الل ّٰ ہ والے سے الل ّٰ ہ کے ِ‬
‫سکا اور دل زبانی صرف اتنا کہہ سکا کہ مجھے راضی بہ رضا رہنے‬
‫کی توفیق دی جائے اور یہ کہ ہر تکلیف پر الحمدلل ّٰ ہ کہنے کی عادت‬
‫عطا کی جائے۔ م یری یہ د ُعا قبول ہوئی اور ایسی عادت بن گئی کے‬
‫تکلیف کی حالت میں آہ کے ساتھ الحمدلل ّٰ ہ کا لفظ نکلنا شروع ہو گیا‬
‫بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آہ بعد میں نکلتی ہے اور الحمدلل ّٰ ہ کا لفظ‬
‫پہلے ادا ہوتا ہے۔" سرکار نے پوچھا "ت ُو نے کسی ڈاکٹر سے عالج‬
‫کروانے کی کوشش نہ یں کی۔؟" تو ا ُس نے کہا "ہمارے ہاں سرکاری‬
‫ہسپتالوں کا حال تو آپ کو پتا ہی ہے انسان اتنا بیمار بیماری سے نہیں‬
‫ہوتا جتنا عالج کی خاطر ہسپتالوں کے چ ک ّ ر لگا لگا کر ہو جاتا ہے‪,‬‬
‫پرائیویٹ عالج کروانے کی جیب اجازت نہیں دیتی لیکن میں نے‬
‫کوشش کی تھی عالج کروانے کی مگ ر کچھ نہ بن سکا۔ لیکن میں‬
‫پریشان نہیں ہوں۔ الل ّٰ ہ کا کرم ہے کہ ا ُس نے اپنی یاد سے غافل نہیں‬
‫رکھا‪ ,‬تو پھر وہ جیسا رکھے مجھے قبول ہے۔ "‬
‫لوگوں میں سے کسی نے کہا "اگر ُم رشد ملنے کے باوجود تیری‬
‫بیماری ختم نہیں ہوئی تو ُم رشد پکڑنے کا فائدہ۔؟" ا ُس نے مسکرا کر‬
‫معنی خیز انداز میں سرکار علی محمد کی جانب دیکھا ا ُن کے چہرے‬
‫پر بھی مسکراہٹ تھی انہوں نے اشارے سے ا ُسے بولنے کو کہا تو‬
‫ا ُس نے ا ُس شخص کی جانب دیکھتے ہوئے کہا " ُم رشد کا کام الل ّٰ ہ‬
‫ِم النا ہے دنیا ِم النا نہیں‪ ,‬اگرچہ کہ وہ باطن میں ال ل ّٰ ہ کے ا ِس قدر‬
‫‪158‬‬
‫قریب ہوتا ہے کہ ُم رید کے لیے دنیا کی خواہشات کی سفارش کر‬
‫سکتا ہے لیکن یہ چیزیں عطا کرنا ُم رشد کا کام نہیں ہے کیونکہ وہ‬
‫دنیا سے دور لے جانے واال ہوتا ہے۔ ا ُس کا کام ُم رید کے دل کو دنیا‬
‫کی محبت سے پاک کرنا ہوتا ہے۔ میں نے اپنی دنیا سیدھی کروانے‬
‫کے لیے نہیں بلکہ الل ّٰ ہ کی ت الش میں ُم رشد ہاتھ تھاما تھا۔ کہتے ہیں‬
‫کہ ُم رید وہ ہے جس کا خود کا کوئی ارادہ نہ ہو۔ جو شخص بیعت کرتا‬
‫ہے وہ اپنا ارادہ اپنے ُم رشد کو سونپتا ہے۔ ُم رشد‪ُ ,‬م رید سے ا ُس کا‬
‫ارادہ چھینتا نہیں ہے بلکہ ُم رید کو اختیار دیتا ہے کہ وہ ُم رشد کی‬
‫تربیت سے سیکھ کر اپنا ار ادہ خود اپنے ُم رشد کو پیش کرے۔ تو جو‬
‫اپنا ارادہ ُم رشد کو سونپ دیتا ہے ا ُس کے لیے ُم رشد سے سوال کرنا‬
‫ہی حرام ہے۔ مجھے میرے ُم رشد پاک نے سکھایا کہ لوگ الل ّٰ ہ سے‪,‬‬
‫الل ّٰ ہ والوں سے بہت سی چیزیں مانگتے ہیں کوئی الل ّٰ ہ مانگتا ہے تو‬
‫کوئی دنیا‪ ,‬کوئی اپنے لیے خوشی م انگتا ہے تو کوئی اپنوں کی خوشی‬
‫کی فریاد کرتا ہے‪ ,‬لیکن جو اپنا آپ الل ّٰ ہ کو سونپ دیتا ہے وہ خاموش‬
‫ہو جاتا ہے۔ مجھے اپنے ُم رشد سے جو چاہیے تھا وہ مجھے مل گیا‬
‫اب ا ُس کے ساتھ تھوڑی بہت آزمائش بھی ہو تو مجھے فرق نہیں پڑتا‪,‬‬
‫ا ِس معزوری میں کتنی حکمت ہے یہ الل ّٰ ہ مجھ سے بہتر جانتا ہے میں‬
‫کون ہوتا ہوں ا ُسے مشورے دینے واال کہ میرے لیے کیا صحیح ہے‬
‫اور کیا غلط‪ ,‬میری ٹانگوں کا مسئلہ دیکھ کے بہت سے لوگ بہت سی‬
‫باتیں کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ شیعہ ہوا تھا ا ِس لیے ا ِس‬
‫کے ساتھ ایسا ہوا۔ کوئی کہتا ہے کہ ا ِس نے شیعہ ہو کر پھر کسی کی‬
‫ُم ریدی اختیار کر لی ا ِس لیے ایسا ہوا‪ ,‬ہر شخص اپنی سوچ کے مطابق‬
‫کچھ نہ کچھ وجہ نکال ہی لیتا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ میرے‬
‫الل ّٰ ہ کا انعام ہے۔" سرکار علی محمد نے مسکراتے ہوئے ا ُس کے‬
‫کندھے پے ہاتھ رکھا اور کہا "ت ُو سچا مرید ہے‪ ,‬ہم سے ملتے رہن ا‪,‬‬
‫بول‪ !..‬ہم سے ملنا چھوڑے گا تو نہیں۔؟" ا ُس نے سرکار کا ہاتھ تھام‬
‫کے کہا سرکار میرا خود پے کوئی بس نہیں چلتا‪ ,‬الل ّٰ ہ جہاں لے جائے‬
‫میں پہنچ جاتا ہوں‪ ,‬میری کوشش ہو گی کہ ہمیشہ آپ سے مالقات رہے‬
‫لیکن اگر نہ مل سکا تو مجھے یاد ضرور رکھیے گا۔" سرکار نے ا ُس‬
‫کا ہ اتھ تھامے ہوئے کہا "چل پھر ہم تجھے بیعت بھی کر لیتے ہیں‬
‫تاکہ ہمارا رشتہ تیرے ساتھ پ َ ک ّ ا ہو جائے‪ ,‬ت ُو اپنے ُم رشد کا ہی ہے‪,‬‬
‫‪159‬‬
‫ا ُنہی کا رہے گا ہمیشہ‪ ,‬لیکن آج سے ت ُو ہمارا بھی ہے اور اب سے ہم‬
‫تیرے" ا ِن الفاظ کے ساتھ سرکار علی محمد نے ا ُسے بیعت کرتے‬
‫ہوئے اپنے سین ے سے لگا لیا اور کمرہ ایک بار پھر ا ُن کے سانس‬
‫کے ذکر سے س ُ نائی دیتی ھ ُ و ھ ُ و کی آواز سے گونج ا ُٹھا "‬

‫‪160‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫سرکار علی محمد کے ہاتھ بیعت‪ ,‬صُ حبت کی بیعت تھی۔ اور ا ُس کا‬
‫خیال تھا کہ ا ِس سے ا ُس کی پہلی بیعت پے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ا ِ س‬
‫لیے ا ُس نے بیعت والے واقعے کو سرسری لیا۔ لیکن گھر جا کر جب‬
‫ا ُس نے ا ِس بات کا ذکر اپنی بیوی‪ ,‬اپنے بھائی اور اپنے کزن سے کیا‬
‫تو ا ُسے کچھ ایسا ردعمل دکھائی دیا جیسے ا ُس نے کوئی شدید بھاری‬
‫غلطی کر دی ہو۔ ا ُس کے کزن نے کہا "تجھ سے ایسی حماقت کی امید‬
‫نہیں تھی ‪ ,‬اتنا سمجھدار ہو کر ت ُو نے ایسی غلطی کی‪ ,‬تجھے نہیں‬
‫پتا۔؟ کتنے سخت الفاظ میں س ُ لطان باہو رح نے ایسے شخص کا ذکر‬
‫کیا گیا ہے جو ا ُن کا ُم رید ہونے کے بعد کسی اور جگہ بیعت ہو‪ ,‬بیعت‬
‫کرنے کی کیا ضرورت تھی۔؟" تو ا ُس نے کہا "پہلی بات تو یہ کہ میں‬
‫جن کا ُم رید تھا‪ ,‬آ ج بھی ا ُنہی کا ُم رید ہوں‪ ,‬اور ا ِس بات کی دلیل‬
‫مجھے تم لوگوں سے نہیں چاہیے‪ ,‬میرے دل کا سکون مجھے یہ بات‬
‫سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ میں ابھی بھی اپنے ُم رشد پاک کے‬
‫سائے میں ہوں۔ تم لوگ کہتے ہو کہ میں سلسلے سے ہی خارج ہو گیا‬
‫ہوں لیکن میری روح کا سکون مجھے یقین دالتا ہے کہ ا ِس بیعت سے‬
‫میں اپنے ُم رشد سے دور نہیں ہوا۔ ایک ایسے ب ُ زرگ جو کسی کو‬
‫بیعت ہی نہیں کرتے‪ ,‬وہ مجھے اپنے ُم ریدین کے بیچ بیٹھ کر کہہ‬
‫رہے ہیں کہ چل آ تجھے بیعت بھی کر لیتا ہوں تو میں وہاں کیا کروں‪,‬‬
‫اپنا ہاتھ ا ُن کے ہاتھ سے چ ھُ ڑا لوں کہ نہیں جی میں تو س ُ لطان صاحب‬
‫کا ُم رید ہوں‪ ,‬میں تو بیعت نہیں کر سکتا آپ کے ہاتھ پر کیونکہ اگر‬
‫میں نے بیعت کر لی تو میں سلسلے سے باہر ہو جاؤں گا۔ س ُ لطان‬
‫صاحب کا فرمان سلسلہ چھوڑ کر کسی اور کا ُم رید بننے والے کے‬
‫لیے ہے لیکن میں نے سلسلہ تو نہیں چھوڑا‪ ,‬سوچ اگر میں انکار کرتا‬
‫تو ا ُن کے ُم ریدین کو کیسا لگتا۔؟ کیا وہ یہ نہیں سوچتے کہ جسے ا ُن‬
‫کے ُم رشد اتنی عزت دے رہے ہیں ا ُس کے دل میں ا ُن کے ُم رشد کا‬
‫یہ مقام ہے۔؟ یہ سب باتیں ا ُس وقت میں نے نہیں سوچیں تھیں اور‬
‫ابھی بھی ا ِن باتوں پر تم لوگوں کے سوالوں نے مجبور کیا ہے۔ اب تم‬
‫لوگوں کی مرضی ہے چاہو تو ا ِس مسئلے کو پیر بھائیوں کے سامنے‬
‫‪161‬‬
‫رکھو اور چاہو تو ُم رشد پاک کے سامنے لے چلو۔ اگر ُم رشد پاک نے‬
‫کہہ دیا کہ میں نے غلط کیا تو وہ جو سزا دیں مجھے قبول ہو گی۔"‬
‫ا ُس کے کزن نے ا ُس کی فکر میں تقریبا ً روتے ہوئے کہا " ُم رشد پاک‬
‫تک تو بات ضرور جائے گ ی بس د ُعا کرو کہ معافی ِم ل جائے" ا ُس‬
‫نے اپنے کزن کے جذبات محسوس کرتے ہوئے ا ُسے تسلی دیتے ہوئے‬
‫کہا "یار اتنا پریشان تو میں نہیں ہوں جتنا پریشان ت ُو ہو رہا ہے۔ الل ّٰ ہ‬
‫خیر کرے گا یار پریشان ہونے سے مسئلے اور خراب ہوتے ہیں۔" ا ُس‬
‫کے کزن نے ا ُس کے مطمئن لہجے پر ج ِھ نجھال کر کہا "تجھے کوئی‬
‫فکر نہیں ہے ا ِس بات کی کہ ت ُو سلسلے سے باہر کر دیا گیا تو تیرا‬
‫کیا ہو گا۔؟" تو ا ُس نے بدستور مطمئن لہجے میں کہا "یار تم لوگوں‬
‫کے کہنے پر میں نے فکر کرنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن کوشش‬
‫کے باوجود مجھے فکر نہیں ہو رہی‪ ,‬تو کیا کروں میں۔ ؟ جو کچھ تم‬
‫لوگ کہہ رہے ہو وہ مجھے محسوس نہیں ہو رہا۔" ا ُس کی بات س ُ ن کر‬
‫ا ُس کا بھائی اور بیوی جو خاموشی سے دونوں کی بات س ُ ن رہے تھے‬
‫وہاں سے ا ُٹھ کر چلے گئے۔ جاتے جاتے ا ُس کے بھائی نے ا ُس کے‬
‫کزن سے کہا "بھائی کو فی الحال ا ِن کے حال پے چھوڑ دیں۔ ہو سکتا‬
‫ہے س ُ لطان محمد علی صاحب اس ہفتے اسالم آباد تشریف الئیں۔ ا ُن‬
‫کے سامنے مسئلہ بیان کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کیا جواب ِم لتا ہے۔‬
‫ورنہ دربار پے چلے جائیں گے۔" ا ُس کے بھائی نے سوالیہ نظروں‬
‫سے ا ُس کی طرف دیکھا تو ا ُس نے کہا "ہاں ٹھیک ہے میں تیار ہوں"۔‬
‫ا ُس کے بھائی کے جانے کے بعد ا ُس کے کزن نے کہا " ت ُو نے آخر‬
‫کس لیے بیعت کی ا ُن کے ہاتھ پے۔؟ کس چیز کی کمی تھی جس کی‬
‫خاطر ت ُو نے بیعت کی۔؟ کیا ا ِس لیے کہ اپنی معزوری سے تنگ آ کر‬
‫اب کسی کرامت کا طلبگار ہے ت ُو۔؟ کیا انہوں نے تجھ سے ایسا کچھ‬
‫کہا کہ ت ُو بیعت کر لے گا تو تیری ٹان گیں ٹھیک ہو جائیں گی‪ ,‬یا اپنی‬
‫معزوری کے باعث تیرا اپنے ُم رشد سے یقین ا ُٹھ گیا ہے۔؟" ا ُس کے‬
‫کزن نے ایک ساتھ اپنے تمام خدشات ا ُس کے سامنے رکھ دیے۔ ا ِس‬
‫بار ا ُس نے سنجیدہ انداز میں اپنے کزن سے کہا "مجھے ا ِن چیزوں‬
‫چ ک ا ہوتا‪ ,‬تجھے معلوم‬ ‫کی طلب ہوتی تو میں بہت پہلے اپنا راستہ بدل ُ‬
‫ہے کہ میرا دل کوئی فیصلہ کر لے تو میں نہ تو کسی کی س ُ نتا ہوں‬
‫اور نہ ہی کسی سے ڈرتا ہوں‪ ,‬ت ُو جو کچھ سوچ رہا ہے اگر میں نے‬
‫‪162‬‬
‫ایسا کچھ سوچا ہوتا تو میں اقرار کرنے میں دیر نہ لگاتا‪ ,‬لیکن میں‬
‫نے ایسا کچھ نہیں سوچا۔ میرے دل میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور نہ ہی‬
‫مجھے کسی قسم کی کمی کا احساس ہے۔ جو سچ تھا میں نے تم لوگوں‬
‫کو بتا دیا اب تم جو سوچنا چاہو سوچ س کتے ہو‪ ,‬مجھے کوئی فرق‬
‫نہیں پڑتا اور جہاں تک ا ِس بیماری کی بات ہے تو میں ا ِس سے تنگ‬
‫ہوں مگر شفا دینے والے سے مایوس نہیں ہوں‪ ,‬مجھے معلوم ہے کہ‬
‫ا ِس کے پیچ ھے کچھ حکمت ضرور ہے۔ میرا رب جب بھی چاہے گا‬
‫مجھے پھر سے چلتا پھرتا کر دے گا۔ میں وہی ہوں جس نے اسالم آباد‬
‫کے ارد گرد کے کئی پہاڑ انہی ٹانگوں سے چل کے سَ ر کیے ہیں۔‬
‫کئی کئی گھنٹے ب ِ نا ُر کے‪ ,‬شدید گرمی میں بھی سخت سے سخت دوڑ‬
‫بھاگ اور ایکسرسائزز کی ہیں۔ آج اگر میری ٹانگیں میرے دماغ کے‬
‫اشارے پے حرکت نہیں کر رہیں تو ا ِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں‬
‫اپنے رب سے مایوس ہو گیا ہوں‪ ,‬اگر وہ وقت نہیں رہا تو یہ وقت بھی‬
‫نہیں رہے گا۔ ہو سکتا ہے کسی دن میں گھسٹ گھسٹ کے چلنے کے‬
‫الئق بھی نہ رہوں لیکن ا ِس جسم کا ٹوٹ جانا میرے اور م یرے ُم رشد‬
‫کے تعلق کو نہیں توڑ سکتا۔ الل ّٰ ہ سے جو رابطہ مجھے میرے ُم رشد‬
‫کے وسیلے سے عطا ہوا ا ُسے کوئی بیماری نہیں توڑ سکتی۔ خیر‪ ,‬اب‬
‫س ُ لطان محمد علی صاحب سے بات ہونے تک ا ِس مسئلے پر کوئی بات‬
‫نہیں ہو گی۔" اتنا کہہ کر ا ُس نے بات ختم کر دی اور ا ُس کا کزن ب ِ نا‬
‫ک چھ کہے ا ُس کے پاس سے ا ُٹھ کر چال گیا۔‬
‫سرکار علی محمد سے ِم ل کے ا ُسے بہت اچھا لگا تھا اور وہ بھی ا ُس‬
‫سے ِم ل کے خوش ہوئے تھے‪ ,‬ا ِس لیے وہ تقریبا ً ہر روز ا ُن سے‬
‫ملنے جاتا اور گھنٹوں ا ُن کے پاس بیٹھتا۔ سرکار کو پتا چال کہ وہ‬
‫شعر کہنے کا شوق بھی رکھتا ہے تو انہو ں نے ا ُس کا کالم س ُ ننا چاہا۔‬
‫ا ُس نے کہا مجھے اپنا لکھا یاد نہیں رہتا ا ِس لیے میں کسی دن اپنی‬
‫ڈائری لے کے آؤں گا تو س ُ ناؤں گا" سرکار نے کہا "شاعروں کو تو‬
‫اپنا کالم لوگوں کو س ُ نا س ُ نا کر ہی یاد ہو جاتا ہے‪ ,‬ت ُو کیسا شاعر ہے‪,‬‬
‫جسے کالم یاد نہیں۔؟" ا ُس نے کہا "ا صل میں‪ ,‬فی الحال صرف لکھنے‬
‫کا شوق ہے‪ ,‬س ُ نانے کے لیے زیادہ لوگ نہیں ہیں میرے پاس‪ ,‬اور ہر‬
‫ایک کی سمجھ کی چیز بھی نہیں ہے‪ ,‬ا ِس لیے بھی زیادہ س ُ نانے کا‬
‫موقع نہیں ملتا۔ بس لکھتا رہتا ہوں اور خود ہی پڑھ کے یا گھر میں‬
‫‪163‬‬
‫کسی کو س ُ نا کے خوش ہوتا رہتا ہوں۔" سرکار نے ک ہا "لوگوں کو‬
‫س ُ نایا کر اپنا کالم۔" تو ا ُس نے کہا "ایک دو دفعہ کوشش کی ہے لیکن‬
‫شاعری کے حوالے سے کوئی حوصلہ افزاء تاثرات نہیں ِم ال۔ ویسے‬
‫کچھ مضامین لکھنے کی کوشش بھی کرتا رہا ہوں‪ ,‬مضامین پر کافی‬
‫حوصلہ افزائی ہوئی لیکن شاعری پر مجھے کہا گیا کہ آپ سمجھتے‬
‫کیا ہیں اپنے آپ کو۔؟ کیا ہیں آپ‪ ,‬جو اتنی بڑی بڑی باتیں لکھتے‬
‫ہیں۔؟ انہیں شاعری سے زیادہ شاعر پے اعتراز تھا کہ آپ جیسا‬
‫شخص اتنے بڑے الفاظ کیوں کہہ رہا ہے۔ ا ُس وقت تو میرے دل کو‬
‫د ُکھ محسوس ہوا لیکن بعد میں مجھے احساس ہوا کہ جو ہ ُوا اچھا ہ ُوا‬
‫کیونکہ شاید ا ُس وقت میرے الفاظ میں اور ذات میں پ ُ ختگی کی کمی‬
‫تھی‪ ,‬بلکہ ابھی بھی ہے۔ ابھی بھی میں کافی بےباک قسم کی شعر کہہ‬
‫جاتا ہوں‪ ,‬جو میری ظاہری شخصیت سے میل نہیں کھاتے ا ِس لیے بس‬
‫لکھ کر اپنے پاس رکھ لیتا ہوں۔ مجھے اردو اتنی اچھی نہیں آتی‪ ,‬اور‬
‫ستائس‪ ,‬اٹھائس سال کی عمر اسالم آباد میں گ ُ زارنے کے باوجود میں‬
‫پنجابی زبان بھی ڈھنگ سے بولنے سے قاصر ہوں۔ لیکن جب قلم‬
‫ا ُٹھاتا ہوں تو خود بہ خود الفاظ ادا ہونا شروع ہو جاتے ہیں مجھے‬
‫خود سمجھ نہیں آتا کہ الفاظ کہاں سے آ رہے ہیں۔" سرکار نے ا ُس‬
‫سے پوچھا ایسا کیا ل ِ کھ دیا تھا ت ُو نے جو لوگوں کو اتنا بےباک‬
‫محسوس ہوا" تو ا ُس نے کہا "میں نے ایک نظم لکھی تھی‪ ,‬اس پے‬
‫بہت اعتراض ہوئے تھے‪ ,‬تھوڑی سی یاد ہے‪ ,‬کہ‬
‫جو کج وی اے سب میرا اے‬
‫میرے دل وچ ال ل ّٰ ہ ڈیرا اے‬
‫میرے دل وچ قبلہ کعبہ اے‬
‫نقش وعدہ اے‬ ‫ِ‬ ‫میرے دل ِو چ‬
‫مینوں دل وچ عرش افالک ِد کھے‬
‫ایتھے ہر تھاں ھ ُ و دا گھیرا اے‬
‫جو ک ُج وی اے سب میرا اے‬
‫میرے دل وچ ال ل ّٰ ہ ڈیرا اے‬

‫‪164‬‬
‫سرکار نے اشعار س ُ ن کے کہا "تو ا ِس میں اعتراض والی کیا بات‬
‫ہے۔؟" ا ُس نے کہا "لوگوں کو ا ِس بات پے اعتراض تھا کہ میں کس‬
‫منہ سے کہہ رہا ہوں کہ جو کچھ بھی ہے سب میرا ہے" تو سرکار نے‬
‫کہا "لیکن اگلے مصرعے ت ُو سب کچھ تیرا ہونے کی وجہ بھی تو بیان‬
‫کر رہا ہے یہ کہہ رہا ہے کہ میرے دل وچ الل ّٰ ہ ڈیرا ہے۔ تیری‬
‫شاعری اپنی پہچان کا بیان ہے‪ ,‬ا ِسے جاری رکھنا‪ ,‬اور مجھے بھی‬
‫س ُ نانا۔‬

‫‪165‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫اگلے روز جب وہ سرکار علی محمد کے پاس پہنچا تو ا ُس کے ہاتھ‬
‫میں ڈائری دیکھ کر سرکار نے کہا "آج تو ہم تیرا کالم س ُ نیں گے۔‬
‫ویسے ت ُو کہتا ہے کہ ت ُو س ُ لطان الفقر ذات کا ُم رید ہے۔ تو کیا کبھی‬
‫فقر کے بارے میں لکھا ہے ک ُ چھ۔؟ فقر کے بارے میں ک ُ چھ پتا بھی ہے‬
‫یا بس ایسے ہی ُم رید بنا بیٹھا ہے۔؟" سرکار کے سواالت کے ا لفاظ کا‬
‫انداز اکثر چوٹ پہنچانے واال ہوتا تھا لیکن درحقیقت ا ُن سواالت میں‬
‫کچھ خاص حکمت ہوتی تھی۔ ا ِس لیے ا ُس نے ادب سے فقر کی شان‬
‫میں لکھی اپنی نظم پڑھنی شروع کی۔‬
‫دو دھاری تلوار فقر‬
‫صاح بِ کن سرکار فقر‬
‫دے ال ل ّٰ ہ‪ ,‬ل ل ّٰ ہ واال‬
‫او بے پردہ دلدار فقر‬
‫طالب نوں مطلو ب مالوے‬
‫چ ن دل توں پردے چاوے‬ ‫ُچ ن ُ‬
‫دل نوں دل دیدار کراوے‬
‫س ر‪ ,‬ا ِسرار فقر‬ ‫محر ِم ِ‬
‫دو دھاری تلوار فقر‬
‫صاح بِ ک ن سرکار فقر‬
‫سرکار علی محمد نے ا ُس کا کالم س ُ ن کر ا ُس کی بہت حوصلہ افزائی‬
‫چ ن کر ا ُس کا وہ کالم س ُ نا جس پر لوگوں کو‬ ‫چن ُ‬‫کی۔ سرکار نے ُ‬
‫اعتراضات تھے۔ ا ُس کی نظم ختم ہونے پر سرکار نے کہا " ُم رشد کی‬
‫شان میں بھی کچھ لکھا ہو گا ت ُو نے وہ بھی س ُ نا۔" تو ا ُس نے اپنی‬
‫ایک اور نظم پڑھنی شروع کی۔‬
‫میرے قلب کو اپنا مقام کیا ہے‬
‫ُم رشد میرے کیا خوبصورت کام کیا ہے‬
‫پنہاں ہے سارا پنہاں ‪ ,‬بس اسم ال ل ّٰ ہ میں‬

‫‪166‬‬
‫اک لفظ میں سب ق ِ صّ ہ تمام کیا ہے‬
‫ُم رشد میرے کیا خوبصورت کام کیا ہے‬
‫وص ِل اصل کا عالم کوئی میرے دل سے پوچھے‬
‫ا ُس کی نگا ہِ ظالم کوئی میرے دل سے پوچھے‬
‫پوچھے کوئی دل سے میرے ل ذ ّ ت آشنائی‬
‫کعبے نے ہمیں جھک کر سالم کیا ہے‬
‫ُم رشد میرے کیا خوبصورت کام کیا ہے‬
‫وہ تقریبا ً روز ہی سرکار علی محمد کے ڈیرے پے جاتا تھا اور اکثر‬
‫اپنی ڈائری بھی ساتھ لے جایا کرتا جس میں وہ اکثر شاعری لکھنے‬
‫کی کوشش کرتا تھا ا ُس وقت بھی وہ ا ُن کے ڈیرے پے بیٹھا لوگوں کو‬
‫اپنا کالم س ُ نا رہا تھا جب ا ُس کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ اپنے‬
‫بھائی کا نمبر دیکھتے ہوئے ا ُس نے ُر ک کر کال ر یسیو کی تو ا ُس‬
‫کے بھائی نے تقریبا ً روتے ہوئے ا ُس سے کہا "بھائی آپ جہاں بھی‬
‫ہیں فور ا ً یہاں آ کر ُم رشد پاک سے ملیں‪ ,‬معافی مانگیں‪ ,‬د ُعا کریں کہ‬
‫ُم رشد پاک آپ کو معاف کر دیں‪ُ ,‬م رشد پاک نے جو جو باتیں کہیں ہیں‬
‫کسی اور سلسلے میں بیعت کرنے کے حوالے سے آپ س ُ نیں تو شاید‬
‫َم ر ہی جائیں۔ بس د ُعا کیجیئے کہ آپ کو معافی ِم ل جائے۔" ا ُس نے‬
‫اپنے بھائی کو تسلی دیتے ہوئے کہا "فکر مت کر‪ ,‬الل ّٰ ہ خیر کرے گا۔‬
‫ت ُو مجھے لینے آ سکتا ہے۔؟" تو ا ُس کے بھائی نے کہا " ُم رشد پاک‬
‫بہت تھوڑی دیر کے لیے آئے ہیں ہو سکتا ہے تھوڑی دیر میں واپس‬
‫چلے ج ائیں‪ ,‬آپ جتنا جلدی آ سکو آ جاؤ۔" ا ُس وقت سرکار وہاں نہیں‬
‫تھے اور وہ ڈیرے پر سرکار کے ُم ریدن کے ساتھ بیٹھا اپنا کالم پڑھ‬
‫کے س ُ نا رہا تھا‪ ,‬ا ُس نے ا ُن لوگوں سے اجازت لی اور وہاں سے نکل‬
‫کر اپنے ُم رشد پاک سے ملنے پہنچا۔ تمام راستہ وہ بار بار اسی‬
‫مسئلے پر سوچنے کی کوشش کرتا رہا لیکن ایک پل کو ا ُسے ا ِس بات‬
‫کی فکر نہ ہو سکی‪ ,‬وہ چاہ کر بھی ایسا کچھ محسوس نہیں کر پا رہا‬
‫تھا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو دور سے س ُ ل طان محمد علی صاحب کا سراپا‬
‫دیکھ کر ا ُسے س ُ لطان محمد اصغر علی رح یاد آ گئے ا ُس کا جی چاہا‬
‫کہ جا کے س ُ لطان محمد علی صاحب کے سینے سے لگ کر کہے‬
‫ُم رشد میں آپ کا ہوں‪ ,‬میں کہیں بھی چال جاؤں‪ ,‬کیسا بھی ہو جاؤں‪,‬‬
‫‪167‬‬
‫میں آپ کا ہی رہوں گا۔ مجھے الل ّٰ ہ میاں نے آپ کا بنایا ہے‪ ,‬میری‬
‫روح آپ کے ن ُ ور پے پل رہی ہے‪ ,‬میرا ماننا ہے کہ میں ازل سے آپ‬
‫کے نور سے ہوں‪( ,‬کیونکہ وہ جانتا تھا کہ تمام ن بی رسول الل ّٰ ہ صلی‬
‫الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے ہیں‪ ,‬سب ا ُمتیں اپنے اپنے نبی کے‬
‫نور سے ہوتی ہیں‪ ,‬اور اولیاء‪ ,‬صحابہ‪ ,‬صالحین‪ ,‬سب رسول الل ّٰ ہ صلی‬
‫الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کے نور سے ہیں اور ا ُن کے وقت کے باقی لوگ‬
‫ا ُن کے نور سے ہیں۔ وقت میں موجود سب لوگوں کا نور اپنے وقت‬
‫ج ڑا رہتا ہے۔ اس لیے جو اپنے وقت کے کسی‬ ‫کے صالحین سے ُ‬
‫درویش کا ہاتھ تھام لیتا ہے وہ ا ُسی کے نور میں گ ُ م ہو جاتا ہے‪ ,‬سو‬
‫وہ خود کو اپنے ُم رشد کے نور میں گ ُ م محسوس کرتا تھا اور اب تک‬
‫ا ُسے ایک پل کو بھی اپنے اور اپنے ُم رشد کے بیچ کسی قسم کی‬
‫دوری ک ا احساس نہیں تھا اسی لیے وہ پ ُ رسکون تھا مگر جب وہ‬
‫س ُ لطان محمد علی صاحب کے سامنے پیش ہونے جا رہا تھا تو ا ُس کے‬
‫دل میں خیال گ ُ زرا کہ کہیں یہ سکون میرا گ ُ مان تو نہیں۔؟ کہیں ایسا‬
‫تو نہیں کہ میں واقعی الگ ہو گیا ہوں اور مجھے احساس نہیں ہو پا‬
‫ج دا مت‬ ‫رہا ) ا ِس لیے ا ُس نے کہا " ُم رشد پاک مجھے خود سے ُ‬
‫کیجیئے گا۔" حس بِ معمول ُم رشد پاک کے سامنے ا ُس کی زبان نہ ک ھُ ل‬
‫سکی۔ س ُ لطان محمد علی صاحب نے بہت شفقت سے ا ُس کی خیریت‬
‫دریافت کی ا ُس کے کندھے پے ہاتھ رکھا اور وہ دل زبانی صرف اتنا‬
‫کہہ سکا کہ " ُم رشد مجھے اپنا رکھنا" کچھ دیر وہاں ُر کنے کے بعد وہ‬
‫باقی مریدین کے ساتھ کمرے سے باہر آ گیا۔ ایک اور ُم رید نے ا ُس‬
‫سے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ "میں س ُ لطان محمد اصغر‬
‫علی رح کا ُم رید ہوں‪ ,‬ا ُن کے وصال کے بعد جب میں س ُ لطان محمد‬
‫علی صاحب سے ملنے گیا تو دور دور سے س ُ لطان صاحب کو دیکھ‬
‫کر سوچ رہا تھا کہ اب وہ نظارہ کہاں‪ ,‬کہ جب س ُ لطان محمد اصغر‬
‫علی رح یہاں ہمارے سامنے ہوتے تھے‪ ,‬جب میں نے ایسا سوچا تو‬
‫آپ رح میرے تصور میں آئے اور فرمایا "ت ُساں کے سمجھا جی۔؟‪,‬‬
‫ا َسی َم ر گئے آں۔؟ نہیں۔ ا َسی اپنے ناں توں صرف 'اصغر' ہٹایا اے"‬
‫(تم نے کیا یہ سمجھا کہ ہم َم ر گئے ہیں۔؟ نہیں‪ ,‬ہم نے اپنے نام سے‬
‫صرف 'اصغر' ہٹایا ہے۔) اتنا س ُ ننا تھا کہ میرا دل پھر سے روشن ہو‬
‫گیا اور مجھے وہی ق ُ رب پھر سے محسوس ہونے لگا۔ " تھوڑی دیر بعد‬
‫‪168‬‬
‫وہ گھر کے لیے روانہ ہوا اور گھر پہنچ کر اپنے بھائی کا انتظار‬
‫کرنے لگا۔ جب ا ُس کا بھائی گھر واپس آیا تو ا ُس نے ا ُس سے پوچھا‬
‫کہ بتاؤ ُم رشد پاک سے کیا بات ہوئی۔؟ تو ا ُس کے بھائی نے مسکراتے‬
‫ہوئے کہا "کچھ نہیں کہا‪ ,‬آپ بس جلد از جلد س ُ لطان محمد علی صاحب‬
‫کے ہاتھ پر بیعت کر لیجیئے۔" ا ُس نے اپنے بھائی کی آنکھوں میں‬
‫دیکھتے ہوئے کہا "فون پے مجھ سے بات کرتے ہوئے تو ت ُو ایسے‬
‫رو رہا تھا جیسے ُم رشد پاک نے مجھے سلسلے سے ہی ن ِ کال دیا ہو‪,‬‬
‫اور اب ت ُو ایسے اطمینان کا اظہار کر رہا ہے جیسے کچھ بھی نہیں‬
‫ہوا ہو۔ جب میں ُم رشد پاک سے مالقات کے لیے پہنچا تھا تب بھی ت ُو‬
‫مسکرا رہا تھا‪ ,‬پ ُ رسکون تھا‪ ,‬مجھ سے بات کرنے سے لے کر م یرے‬
‫وہاں پہنچنے تک ایسا کیا ہوا۔؟" ا ُس کے بھائی نے بدستور مسکراتے‬
‫ہوئے کہا "ساری باتیں تو میں آپ کو نہیں بتاؤں گا کیونکہ اگر بتا دیں‬
‫تو آپ کچھ ذیادہ پھول جائیں گے‪ ,‬ا ِس لیے صرف اتنی بات بتاتا ہوں‬
‫کہ ُم رشد پاک نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ یہ ہمارا ہے اور ہمیش ہ‬
‫ہمارا ہی رہے گا‪ ,‬ا ِس کی فکر مت کیا کرو۔" اپنے بھائی کی بات س ُ ن‬
‫کر ا ُس نے کہا "میرے لیے اتنی بات کافی ہے ا ِس سے زیادہ بتانے‬
‫کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے دل کو پہلے بھی کسی قسم کا شک نہیں‬
‫تھا اور اب بھی میں پ ُ رسکون ہوں" ا ِس واقعے کہ کچھ وقت بعد ا ُس‬
‫نے وادی س ُ ون سکیسر میں انگہ شریف کے مقام پر س ُ لطان محمد علی‬
‫صاحب کے ہاتھ پے بیعت کر لی۔ س ُ لطان محمد علی صاحب کے ہاتھ‬
‫پے بیعت کرنے کے بعد وہ کچھ زیادہ ہی گوشہ نشین ہو گیا تھا۔ شاید‬
‫ا ِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب وہ چلنے پھرنے میں بہت دقت‬
‫محسوس کرتا تھا اور ہر دوسرے شخص کی نگاہ میں اپنے لیے رحم‬
‫یا حقارت کا تاثر دیکھنے سے بچنے کی کوشش نے ا ُسے سب سے‬
‫دور کر دیا تھا۔ لوگ ا ُس سے بات کرتے ہوئے ا ُس سے الل ّٰ ہ کا نام‬
‫س ُ ننے سے زیادہ ا ُسے ڈاکٹروں‪ ,‬حکیموں کے نام بتانے کے خواہشمند‬
‫نظر آتے تھے۔ اکثر وہ کسی کو تکلیف میں دیکھتا تو د َ م ک ر دیتا تھا‬
‫اور عام طور پے ا ُس کے د َ م سے لوگوں کو شفا بھی ِم ل جاتی تھی۔‬
‫ا ُس رات ا ُس کے ا ب ّو کی طبیعت کافی خراب تھی اور انہوں نے ا ُسے‬
‫د َ م کرنے کے لیے جگایا‪ ,‬ا ُس کے د َ م سے ا ُس کے والد کو کافی آرام‬
‫محسوس ہوا اور وہ سونے کے لیے لیٹ گئے لیکن پندرہ منٹ بعد ہی‬
‫‪169‬‬
‫ا ُس کے والد نے پھر سے ا ُسے جگایا اور ہسپتال چلنے کو کہا صبح‬
‫سوا سات بجے کے آس پاس ا ُس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اپنے والد‬
‫کی وفات پے ا ُس پے ایک عجیب سا سکوت طاری تھا‪ ,‬ایک بار آنسو‬
‫آنکھ تک آئے لیکن تمام گھر والوں کی اشکبار آنکھوں نے اور الل ّٰ ہ‬
‫سے ہر حال میں را ضی رہنے کے وعدے نے ا ُسے رونے کی اجازت‬
‫نہیں دی۔ ایک سکون اور اطمینان ا ُس کے چہرے اور آواز و انداز‬
‫اظہار‬
‫ِ‬ ‫سے واضح ہو رہا تھا جس کی وجہ سے جو لوگ ا ُس سے‬
‫افسوس کرنے آتے وہ بھی سوچتے کہ یہ تو پہلے ہی اتنا پ ُ رسکون ہے‬
‫اظہار افسوس کرنے میں کچھ لوگ شدید‬ ‫ِ‬ ‫ا ِسے کیا تسلی دی جائے۔‬
‫بناوٹ کا استمعال کرتے ہیں‪ ,‬ایسے کچھ لوگ جب فرد ا ً فرد ا ً سب سے‬
‫شدید اظہار افسوس کرتے ا ُس کی جانب آئے تو ا ُس نے پ ُ ر سکون‬
‫لہجے میں کہا "الل ّٰ ہ جو کرتا ہے بہترین کرتا ہے۔ الل ّٰ ہ نے کوئی ظلم‬
‫نہیں ہم پر اور نہ ہی کوئی د ُکھوں کا پہاڑ توڑا ہے۔ الحمدلل ّٰ ہ جو ہوا‪,‬‬
‫اچھا ہوا‪ ,‬یہ ا ُس کی رضا و حکمت ہے‪ ,‬ا ِس لیے یقینا ً یہی بات بہترین‬
‫ہے۔" ا ُس کی ا ِس بات پر کسی نے بعد میں ا ُسے ٹوکا کہ آپ نے‬
‫صحیح نہیں کیا تو ا ُس نے کہا "آج شام تک یا زیادہ سے زیادہ کل‬
‫صبح تک یہ سب جو آج شدید رنج میں ہیں‪ ,‬اپنے آپ کو اور ایک‬
‫دوسرے ک و یہی بات کہہ رہے ہوں گے کہ جو ہوا سب الل ّٰ ہ کی مرضی‬
‫تھی‪ ,‬الل ّٰ ہ جب کسی کو د ُکھ دیتا ہے تو ا ُسے سہنے کا حوصلہ بھی دیتا‬
‫ہے۔ جو بات کل ہر کوئی کہے گا وہی بات آج میں نے کہہ دی تو کیا‬
‫ب ُ را کیا۔‬

‫‪170‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫جب ا ُس کے والد کا جنازہ ا ُٹھایا گیا تو وہ دو ر بیٹھا دیکھ رہا تھا۔‬
‫ا ُسے یاد آیا کہ اپنے ایک مسیحی دوست کی والدہ اور والد کے‬
‫جنازوں کو جب اٹھانے کا وقت آیا تو ا ُس کے اہل خانہ کے ساتھ مل‬
‫کر ا ُس نے جنازہ ا ُٹھایا تھا۔ شاید مرنے والے کو اپنے قریبی لوگوں‬
‫کے کندھوں کی آرزو ہوتی ہو گی۔ لیکن آج وہ اپنی جسمانی حالت کے‬
‫باعث اپنے والد کے جنازے کو کندھا دینے کے قابل بھی نہیں تھا۔‬
‫بھیڑ میں کسی سے ٹکرانے کے باعث وہ گر سکتا تھا ا ِس لیے بھی‬
‫نماز جنازہ کے بعد قبرستان پہنچ کر‬ ‫ِ‬ ‫ا ُسے جنازے سے دور رہنا پڑا۔‬
‫ا ُس نے گ ُ زارش کی کہ کچھ دیر ا ُسے جنازے کے ساتھ چلنے دیا‬
‫جائے اور ا ِ س دوران ا ُس نے کچھ دیر جنازے پے ہاتھ رکھ کر چار‬
‫قدم چل کر خود کو تسلی دی کہ میں نے بھی اپنے والد کے جنازے کو‬
‫کندھا دے لیا۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد بڑا بیٹا ہونے کے باعث‬
‫ا ُس کی ذمہ داری بڑھ گئی تھی لیکن اپنی جسمانی حالت کے باعث وہ‬
‫اب کوئی ذمہ داری نبھان ے کے قابل نہیں رہا تھا۔ ا ُس کے دادا دادی‬
‫بھی ا ُس کے ساتھ ہی رہتے تھے ا ِس لیے بھی ا ُسے تسلی رہتی تھی۔‬
‫عجیب سوچ تھی ا ُس کی‪ ,‬اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات ا ُس کی‬
‫سوچ پر گہرا اثر چھوڑتے اور اپنی خود کی زندگی میں ہونے والے‬
‫واقعات کا احساس چاہ کر بھی ا ُس کی سوچ کا محور نہیں بن پاتے‬
‫تھے۔ ا ِس باعث گھر کی تمام ذمہ داری ا ُس کی والدہ‪ ,‬بیوی اور بھائی‬
‫پر آ گئی۔ ا ُس کے چھوٹے بھائی نے بڑے بیٹے کے فرائض سنبھالے‪,‬‬
‫ا ُس کی والدہ نے والد کی جگہ لی‪ ,‬اور ا ُس کی بیوی نے ا ُس کے‬
‫چ وں کے لیے ماں اور باپ دونوں کے فرائض سرانجام دیے۔ ا ُس نے‬ ‫ب ّ‬
‫اپنے آپ کو دفتر کے کام کاج میں ا ِس قدر مصروف کر لیا کہ اکثر‬
‫رات گئے گھر جاتا۔ دیر سے گھر جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ‬
‫اب وہ خود سے چل کر گھر سے دفتر نہیں جا پاتا تھا۔ جو راستہ پیدل‬
‫دس سے پندرہ منٹ میں آسانی سے طے کیا جا سکتا تھا ا ُس کے لیے‬
‫ا ُسے کسی سواری کی ضرورت پڑتی۔ اگرچہ ا ُس کا بھائی اور دوست‬
‫وغیرہ ہمیشہ ا ُس کی مدد کرتے رہتے تھے لیکن پھر بھی اکثر ا ُس‬
‫‪171‬‬
‫کے دل میں یہ بات آتی کہ وہ لوگوں کا محتاج ہوتا جا رہا ہے۔ یہ‬
‫محتاجی ا ُس کے جسم تک ہی محدود تھی۔ اپنے دفتری کام کاج کے‬
‫حوالے سے سب ا ُسے بہت عزت کی نگ اہ سے دیکھتے اور ا ُس کی‬
‫ذہانت کی داد دیتے تھے۔ ا ِس ذہانت نے ا ُسے اپنے ڈیپارٹمینٹ میں‬
‫بہت سی عزت اور شہرت دی لیکن ا ِس کے ساتھ ساتھ دفتر کی بہت‬
‫سی ذمہ داری ا ُس کے سر آ گئی تھی اور یہ ذمہ داری ا ُس کے پاس‬
‫ایک بہترین جواز تھا اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے دور بھاگن ے کا۔‬
‫ا ُس کے گھر والوں نے ا ُس کے ساتھ سمجھوتا کر لیا تھا۔ الل ّٰ ہ نے‬
‫ا ُسے بہت سی صالحیت دی تھی لیکن ا ُس نے اپنی صالحیت کا کبھی‬
‫کچھ خاص استمعال نہیں کیا۔ ‪ Touchstone Communications‬نامی‬
‫ایک معروف کال سینٹر جہاں کام کرنے کے لیے انگریزی زبان اہل‬
‫ذبان کی طرح بول نی پڑتی تھی وہاں ا ُس نے قریب ایک سال کام کیا۔‬
‫جہاں سے امریکہ کی مختلف اسٹیٹیس میں پاکستانی لڑکے لڑکیاں‬
‫مختلف امریکن بینکس کی طرف سے کالز کیا کرتے تھے۔ اپنے مالی‬
‫پیش نظر اور اپنی بیوی اور کزن کے پ ُ ر زور اسرار پر‬ ‫حاالت کے ِ‬
‫ا ُسے کال سینٹر میں کام کرنا پڑا۔ اک ثر لوگ ا ُسے حیرت سے دیکھتے‬
‫کہ ا ِس کی تعلمی قابلیت صرف انٹرمیڈیٹ ہے اور وہ کبھی پاکستان‬
‫سے باہر کسی ُم لک نہیں گیا۔ اکثر لوگوں سے آمنے سامنے انگریزی‬
‫زبان میں بات کرتے وہ جھجھک سا جاتا تھا لیکن کال پر امریکی‬
‫عوام سے بات چیت کرتے ا ُس کا اعتماد قاب ِل دید ہوتا ت ھا۔ جس‬
‫سرکاری محکمے میں وہ کام کرتا تھا وہاں ا ُسے آڈٹ اور اکاونٹس‬
‫کے بارے میں معلومات کے حوالے سے ایک ایکسپرٹ کی حیثیت‬
‫سے دیکھا جاتا۔ ا ُس کے ہاتھ کے لکھے سرکاری خطوط کی انگریزی‬
‫پڑھ کر اکثر لوگ مرعوب ہو جاتے تھے۔ لیکن ا ِن تمام صالحیتوں کے‬
‫باوجود وہ اپنے گھر بار کے لیے گ ُ زارے الئق آمدنی بھی اکھٹی نہیں‬
‫کر پاتا تھا۔ کیونکہ کہ سرکاری محکموں میں عام طور پر کام کرنے‬
‫اور کام نہ کرنے کی ایک سی تنخواہ ملتی ہے۔ اور زیادہ کام کرنے‬
‫والے کو ا ُس کی ایمانداری پر شاباشی کے عالوہ کچھ نہیں ملتا۔ تو‬
‫کچھ ایسے ہی حاالت کا سامنا ا ُسے بھی تھا لیکن الل ّٰ ہ نے کبھی ا ُسے‬
‫مایوسی کا شکار نہیں ہونے دیا اور ہمیشہ اپنی ش ُ کر گ ُ زاری پے‬
‫معمور رکھا۔ کم آمدنی اور سخت حاالت کے باوجود وہ اور ا ُس کے‬
‫‪172‬‬
‫گھر کے باقی لوگ خوش رہنا جانتے تھے۔ اپنے گھریلو حاالت سے‬
‫زیادہ ا ُسے لوگوں کی فکر کھائے جاتی تھی۔ جو شخص اپنے والد کی‬
‫اچانک موت پر ایک آنسو نہ رویا وہ ُم لک میں کسی جگہ ہونے والے‬
‫بم دھماکے میں مرنے والے لوگوں کا س ُ ن کر گھنٹوں رویا کرتا‬
‫تھا۔جوالئی ‪ 7442‬میں جب الل مسجد کا واقعہ پیش آیا تو وہ اندر سے‬
‫بہت زیادہ ٹوٹ گیا۔ ا ُس کا دفتر الل مسجد کے سامنے والی عمارت‬
‫میں تھا اور گھر بھی پاس ہی تھا ا ِس لیے ا ِس واقعے سے پہلے اور‬
‫بعد کے بہت سے حاالت ا ُس کی نظروں سے گ ُ زرے۔ ا ِس واقعے کے‬
‫دوارن ایک روز ا ُس کے بیٹے نے ایک ڈرائنگ بنا کر ا ُسے دکھائی۔‬
‫تو ا ُس نے ڈرائنگ دیکھ کر اپنے بیٹے سے پوچھا کہ یہ کیا بنایا ہے۔‬
‫تو ا ُس نے تصوی ر پر ا ُگلی رکھتے ہوئے کہا یہ مسجد ہے اور یہ سب‬
‫مولویوں کی الشیں ہیں۔ ا ُس نے چونک کر اپنے بیٹے کو دیکھا جو‬
‫ا ُس وقت پہلی جماعت میں پڑھتا تھا اور ا ُس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں‬
‫لے کر ا ُس کا ماتھا چوما ا ُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اپنے پانچ سالہ‬
‫بیٹے کو کیا کہے ‪ ,‬ب ہرحال ا ُس نے اپنے الفاظ اکھٹے کرتے ہوئے کہا‬
‫"بیٹا ایسی ڈرائنگ نہیں بناتے‪ ,‬ب ُ ری بات ہے" تو ا ُس کے بیٹے نے‬
‫کہا "بابا مولوی دہشتگرد ہوتے ہیں‪ ,‬وہ سب کو مار دیتے ہیں۔ بابا یہ‬
‫دہشتگرد مسلمان ہوتے ہیں۔؟" ا ُس نے بےبسی کے عالم میں اپنے‬
‫بیٹے کو گلے سے لگا لیا اور کہ ا "بیٹا دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں‬
‫ہوتا۔ اور کوئی مذہب دہشتگردی نہیں سکھاتا۔" کرفیو کے دوران جب‬
‫کچھ دیر کو لوگوں کو خریداری کے لیے گھروں سے نکلنے کی‬
‫اجازت ملی تو وہ بھی گھر سے باہر نکل کر کھڑا ہوا ا ُس کا بیٹا بھی‬
‫ساتھ تھا‪ ,‬گھر کے سامنے مارکیٹ میں ک ھُ لی د ُ کان دیکھ کر ا ُس کے‬
‫بیٹے نے کسی چیز کی فرمائش کی تو ا ُس نے اپنے بیٹے کے ہاتھ میں‬
‫پیسے دے کر کہا کہ جاؤ لے آؤ چیز‪ ,‬میں آپ کو دیکھ رہا ہوں۔ ا ُس‬
‫کے بیٹے نے ا ُس کے ہاتھ سے پیسے لیے اور بااعتماد انداز میں‬
‫مارکیٹ کی جانب بڑھا ا ُس روز ا ُس نے پہلی بار اپنے بیٹے کو اکیلے‬
‫بازار بھیجا تھا وہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ یقین بھی‬
‫عجیب چیز ہے جو کام انسان اپنی تمام تر طاقت اور حوصلے سے‬
‫نہیں کر پاتا وہ کام اکثر یقین سے ہو جاتا ہے‪ ,‬جب ا ُس نے اپنے بیٹے‬
‫کو خود بازار جانے کو کہا تو ا ُس کا بیٹا ایک پل کو سہم سا گیا لیکن‬
‫‪173‬‬
‫جب ا ُس نے کہا کہ میں آپ کو دیکھ رہا ہوں تو اس بات سے کہ ا ُس کا‬
‫باپ ا ُسے دیکھ رہا ہے ا ُس کے اندر ایک اعتماد جاگ ا ُٹھا‪ ,‬ا ُس نے‬
‫سوچا کہ الل ّٰ ہ بھی اپنے بندے سے یہی کہتا ہے میں تجھے دیکھ رہا‬
‫ہوں مگر ہم اس بات پر یقین نہیں کر پاتے۔ اتنی دیر میں ا ُس کا بیٹا‬
‫اپن ی مطلوبہ چیز لے کر پلٹ رہا تھا اور ا ُس کے اعتماد میں کوئی‬
‫فرق نہ تھا کہ اچانک ا ُس کی نظر ایک پولیس والے پر پڑی اور وہ‬
‫سہم سا گیا اور بھاگ کے ا ُس کے پاس آ کر کہنے لگا "بابا بھاگیں‬
‫ورنہ پولیس ہمیں گولی مار دے گی" ا ُس کا بیٹا بات کرتے کرتے‬
‫اپنے باپ کے پیچھے چ ھُ پنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ا ُس نے فور ا ً‬
‫اپنے بیٹے سے کہا "نہیں بیٹا وہ آپ کو نہیں ماریں گے‪ ,‬دوست ہیں وہ‬
‫آپ کے‪ ,‬دیکھو وہ دیکھ رہے ہیں آپ کو۔" کرفیو کے باعث عالقہ‬
‫س ُ نسان تھا اس لیے ا ُس کی اور ا ُس کے بیٹے کی تمام گفتگو واضح‬
‫طور پر پولیس والے کے کان تک پہنچ رہی تھی اور جس طرح وہ سہم‬
‫کر بھاگا تھا ا ُس سے بھی پولیس واال ا ُس کی جانب متوجہ تھا ا ُس نے‬
‫اپنے بیٹے کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے خود سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا‬
‫کیا اور کہا "دیکھو کسی نے آپ کو گولی نہیں ماری‪ ,‬وہ دوست ہیں‬
‫آپ کے جاؤ ا ُن سے ہاتھ ِم ال کر آؤ" ا ُس کا بیٹا تھوڑا سا جھجھکا مگر‬
‫پولیس والے کو مسکراتے ہوئے اپنی جانب دیکھتے ہوئے ا ُس نے ا ُس‬
‫کی جانب بڑھنا شروع کیا اور جا کر ا ُس سے ہاتھ مالیا۔ پولیس والے‬
‫نے بہت شفقت سے ا ُس سے ہاتھ مالیا اور ا ُس کے سر پے ہاتھ‬
‫پھیرتے ہوئے ا ُس سے ا ُس کا نام پوچھا اور ا ُس کا بیٹا اپنا نام بت ا کر‬
‫واپس لوٹ آیا۔ ا ِس تمام عرصے میں ا ُس نے اور ا ُس پولیس والے نے‬
‫ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔ اور دونوں کی آنکھوں میں‬
‫ایک سی ا ُلجھن تھی کہ کیا آنے والی نسل کو ِس سٹم پے یقین کرنے کا‬
‫حب‬‫درس دینا چاہیے یا نہیں‪ ,‬ایک پل کو ا ُس سپاہی نے ا ُس کی ُ‬
‫الوطنی کو بھی سراہا لیکن ُم لک و قوم کے کل کی ایک مایوسی‬
‫دونوں کی آنکھ میں موجود تھی جس کے باوجود ا ُن دونوں نے شاید‬
‫ایک پ ُ رامید پاکستانی ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کی۔ کرفیو کا‬
‫وقفہ ختم ہونے کو تھا ا ِس لیے وہ اپنے بیٹے کو لیے گھر واپس آ گیا۔‬
‫چہ‬‫مگر ا ُس کے اندر ایک جنگ س ی چل رہی تھی۔ ایک پانچ سال کے ب ّ‬
‫اتنا اثر لے رہا ہے حاالت کا کہ ا ُسے ہر مولوی دہشتگرد نظر آ رہا‬
‫‪174‬‬
‫ہے‪ ,‬اور اپنی قوم کے سپاہیوں پر سے بھی ا ُس کا اعتماد ا ُٹھ رہا ہے۔‬
‫ایک ہی دن میں ا ُس نے اپنے بیٹے کی دو غلط فہمیاں دور کرنے کی‬
‫کوشش کی تھی لیکن وہ سوچ رہا تھا ک ہ ا ُس نے صحیح کیا یا غلط۔‬
‫آنے والے کل میں ا ُس کا بیٹا کیا کہے گا کہ ا ُس کے باپ نے ا ُسے‬
‫صحیح سبق دیا تھا یا غلط۔ ا ِس کا فیصلہ آنے والے کل نے کرنا تھا‬
‫جو فی الحال ا ُس کی نظروں سے اوجھل تھا۔‬

‫‪175‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ا ُس کی شادی کی سالگرہ جوالئی کے مہینے میں ہی ہوتی تھی‪ ,‬ا ُس‬
‫کی بیوی نے ا ُسے یاد ِد الیا تو ا ُس نے غمگین لہجے میں کہا "اب شاید‬
‫ہم شادی کی سالگرہ کبھی نہ منائیں۔" ا ُس کی بیوی نے ا ُس کا اشارہ‬
‫سمجھتے ہوئے کہا "ہاں بہت سا خون ناحق بہہ رہا ہے" ا ُس نے کہا‬
‫"خو ِن ناحق تو آج ساری د ُنیا میں مسلمانوں کا ہی بہایا جا رہا ہے‪,‬‬
‫افسوس ا ِس بات کا ہے کہ ہم پر یہ وقت آ گیا ہے کہ دونوں جانب ہم‬
‫ہی ہیں‪ ,‬دونوں جانب انسان ہیں‪ ,‬دونوں جانب سے نعرہ تکبیر ب ُ لند ہو‬
‫رہا ہے‪ ,‬دونوں جانب سے ہم ہی قتل ہو رہے ہیں دونوں جانب سے‬
‫پاکستان ہی کا نقصان ہو رہا ہے۔ میں دونوں میں سے کس ی کے ساتھ‬
‫نہیں ہوں۔ میری فکر یہ ہے کہ حاالت یہاں تک پہنچے تو کیوں پہنچے‬
‫کہ آج ہم اپنے ہی ہاتھوں اپنا گلہ کاٹنے میں مصروف ہیں۔ ہم سب‬
‫اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہے ہیں۔ روز اس قبر میں ہم اپنے والدین‪,‬‬
‫اوالد‪ ,‬دوست وغیرہ سب کو دفنا رہے ہیں لیکن جاگنے کو تیار نہ یں‬
‫ہیں۔ کوئی بھی شخص اپنی خامی درست کرنے کا خواہاں نہیں ہے سب‬
‫یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ س ُ دھر جائیں۔ خود شناسی کسے کہتے‬
‫ہیں‪ ,‬خود بینی کس شئے کا نام ہے‪ ,‬ا ِن باتوں کا تو جیسے درس ہی‬
‫اٹھا لیا گیا ہے زمین سے۔" ا ُس کی بیوی نے پوچھا "آپ کس کے ساتھ‬
‫ہیں۔؟ حکومت کے یا الل مسجد والوں کے۔؟" تو ا ُس نے کہا "میں‬
‫دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہیں ہوں‪ ,‬دونوں کا مطالبہ درست مگر‬
‫طریق ہِ کار غلط ہے۔ اگر اسالم نافذ کرنا ہے تو لوگوں کے دل بدلنے‬
‫کی کوشش کیجیئے ا ُن میں سالمتی کی سوچ بھرنے کی کوشش‬
‫کیجیئے اسالم خود بہ خود نافذ ہو جائے گ ا۔ زنا کی خواہشمند قوم کو‬
‫زور زبردستی سے حجاب کروا کے اسالمی نظام کا نفاذ نہیں ہوتا۔‬
‫جب ا ُس کے اندر اسالم نہیں ہے تو ا ُس کے باہر اسالم پھیال دینے کا‬
‫کوئی فائدہ نہیں ہے‪ ,‬زبردستی کر کے آپ ا ُسے غالم کر سکتے ہیں‬
‫مسلمان نہیں۔ اکثر لوگ جو اپنے ماں باپ کے ڈر سے د اڑھی رکھتے‬
‫ہیں یا حجاب کرتے ہیں وہ روک ٹوک کرنے والے ماں باپ سے دور‬
‫ہوتے ساتھ ایسے حجاب کو ترک کرتے ہیں جیسے کسی عذاب میں‬
‫‪176‬‬
‫مبتال تھے۔ کیا فائدہ ایسے حجاب کا جس میں رہتے ہوئے بھی انسان‬
‫بےحیا ہو۔؟" ا ُس کی بیوی نے ا ُسے ٹوکتے ہوئے کہا "لیکن اگر سب‬
‫لوگ با پردہ ہ و کر پھرنا شروع کر دیں تو معاشرے میں کچھ تو‬
‫س ُ دھار پیدا ہو گا‪ ,‬لوگ دین کی طرف مائل ہوں گے۔ گناہ کے مواقع کم‬
‫ہوں گے تو گناہ بھی کم ہو گا‪ ,‬کسی جانب سے معاشرے میں س ُ دھار کا‬
‫سلسلہ شروع ہو گا‪ ,‬تو ایسی سختی میں فائدہ بھی تو ہو سکتا ہے۔ "‬
‫ا ُس نے مسکرا کر اپنی بیوی کی جانب دیکھا اور کہا "جب تک دل نہ‬
‫بدلے تب تک کچھ نہیں بدلتا‪ ,‬ایسے بہت سے ُم لک ہیں جہاں لوگ‬
‫حجاب کرتے ہیں لیکن ا ُن کا معاشرہ بھی گمراہیوں میں ڈوبا ہے اور‬
‫ہر طرح کا گناہ موجود ہے۔ اور پردے کی وجہ قانون ہے‪ ,‬الل ّٰ ہ نہیں۔‬
‫جب ا ُس کا عمل الل ّٰ ہ کے لیے نہیں ہے ت و ایسا عمل ب ِ گاڑ پیدا کرنے‬
‫کے عالوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ رسول الل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم‬
‫نے آہستہ آہستہ دین کو لوگوں کی زندگی میں داخل کیا‪ ,‬ایک معاشرے‬
‫دور جاہلیت کے ا ُن لوگوں سے‬ ‫ِ‬ ‫کی حیثیت سے ہم لوگ کسی بھی طرح‬
‫کم نہیں ہیں۔ ہم لوگ کسی بھی زاویے سے مسلما ن نہیں ہیں۔ مسلمان‬
‫ہونا محض مسلم نام رکھ لینا یا نماز روزہ ادا کر لینا نہیں ہے۔ بلکہ‬
‫کسی بھی مذہب کا پیروکار ہونا‪ ,‬محض ا ُن جیسا نام رکھنا‪ ,‬ا ُن جیسا‬
‫ح لیہ بنانا اور ا ُن کے طریقے سے عبادت کرنا‪ ,‬نہیں ہے۔‬ ‫ُ‬
‫دین و مذہب تو الل ّٰ ہ سے دل جوڑنے کا نام ہے دین تو لوگوں میں‬
‫سالمتی بانٹنے کا نام ہے۔ جس نبی نے پتھر کھا کر بھی لوگوں کو‬
‫طرز‬
‫ِ‬ ‫بد د ُعا نہیں دی ا ُس نبی کے نام لیوا لوگ جب ا ُسی کے نام پر یہ‬
‫عمل اپنا لیں کہ تم نے ہمارے اتنے لوگ مارے تھے ا ِس لیے اب ہم‬
‫تمھارے اتنے لوگ مار رہے ہیں۔ تو ا ُس قوم کو برباد ہونے سے کوئی‬
‫نہیں بچا سکتا۔ ا ِن لوگوں کو اگر بدلنا ہے تو ا ِن کے دل بدلنے کی‬
‫کوشش کرنی چاہیے‪ ,‬یہ ایسی قوم ہے کہ اگر ان کے دل بدل جائیں تو‬
‫یہ دنیا بدل دینے کی صالحیت رکھتے ہیں۔ لیکن ہم سب دل بدلنے کی‬
‫جگہ جسمانی تبدیلیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ انقالب ضرور آئے‬
‫گا لیکن ا ُس کے ل یے ہمیں اپنی سوچ میں انقالب النا پڑے گا۔ جب تک‬
‫ہماری سوچ نہیں بدلے گی تب تک کچھ نہیں بدلنے واال۔ "‬
‫چ کا تھا‬‫الل مسجد کے واقعے کے بعد ا ُس کے اندر بہت کچھ ٹوٹ ُ‬
‫آئے دن ُم لک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر رو رو کر‬
‫‪177‬‬
‫چ کے تھے۔ ا ُس کی بیوی بھی س ُ لطان‬ ‫خ شک ہو ُ‬‫ا ِب ا ُس کے اندر آنسو ُ‬
‫محمد اصغر علی رح کی ُم رید تھی اور ایک تربیت یافتہ اور باعمل‬
‫عورت تھی۔ ا ُس کے ُم رشد پاک نے لوگوں تک اولیاء کا پیغام پہنچانے‬
‫کے لیے جو جماعت قائم کی تھی‪ ,‬اسالم آباد میں ا ُس جماعت کی ایک‬
‫شاخ خواتین کے لیے بنانے کا کام ا ُس کی بیوی کے س ُ پرد کیا گیا۔ جب‬
‫لوگوں کو اپنے گھر درس پے ب ُ النے کا مرحلہ آیا تو ا ُس کی بیوی نے‬
‫ا ُس سے کہا "آپ مجھے بتائیں کہ محلے میں کس کس گھر میں دعوت‬
‫دوں اور کس گھر میں نہیں۔" تو ا ُس نے کہا "ہر گھر میں ۔۔‪ ,‬شیعہ‪,‬‬
‫س ُ ن ّ ی‪ ,‬مسیحی‪ ,‬ہماری گلی میں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں اور سب‬
‫کے گھر دعوت دینی ہے۔ کیونکہ ہم کسی مسلک مذہب کی نہیں بلکہ‬
‫الل ّٰ ہ کی دعوت دے رہے ہیں اور اس دعوت پے سب کا حق ہے" ا ُس‬
‫کی بیوی نے کہا "لیکن ہر کوئی تو نہیں آئے گا نا‪ ,‬میں نے سوچا تھا‬
‫کہ سب کے گھر جا کر خواتین کو میالد اور درس کی دعوت دوں گی‪,‬‬
‫لیکن اکثر لوگ تو میال د وغیرہ مانتے ہی نہیں ہیں تو ایسے لوگوں کو‬
‫دعوت دینے کا کیا فائدہ۔؟ اور غیر مذہب کے لوگ کیوں آئیں گے۔؟‬
‫بلکہ وہ تو دعوت دینے پر بھی ب ُ را مان جائیں گے۔" ا ُس نے کہا "نہیں‬
‫ایسا نہیں ہو گا‪ ,‬تم صرف یہ پیغام دو گی کہ ہم مذہب و مسلک سے ہٹ‬
‫ح بِ ال ٰہ ی کا درس دیں گے ا ِس لیے آپ سب تشریف الئیے‬ ‫کر صرف ُ‬
‫گا‪ ,‬جب تم شروع میں ہی وضاحت کر دو گی کہ فرقہ پرستی سے ہٹ‬
‫کر بات کی جائے گی تو لوگ کم سے کم ایک دفعہ تمھیں س ُ ننا ضرور‬
‫چاہیں گے‪ ,‬اور جب انہیں نظر آئے گا کہ تم سچ میں فرقہ واریت سے‬
‫ح بِ ال ٰہ ی کی بات کر رہی ہو تو وہ بار بار‬
‫پاک صرف اور صرف ُ‬
‫تمھیں س ُ ننے کی خواہش کریں گے۔ تمھارا کام پیغام پہنچانا ہے‪ ,‬لوگوں‬
‫کو کھینچ کر النا نہیں‪ ,‬دعوت سب کو دو‪ ,‬پھر جو آئے نہ آئے ا ُس کی‬
‫مرضی ہے" ا ُس کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور الل ّٰ ہ کی مہربانی سے‬
‫ا ُس درس میں شیعہ‪ ,‬س ُ نی‪ ,‬صوفی کے ساتھ مسیحی خواتین نے بھی‬
‫شرکت کی۔‬

‫‪178‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫باپ بیٹی کا رشتہ بہت انمول رشتہ ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ‬
‫بیٹیاں ماں سے ذیادہ باپ کے قریب ہوتی ہیں۔ ا ُس کی بیوی بھی اپنے‬
‫والد کے بہت قریب تھی اور چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ ا ِس لیے‬
‫بھی اپنے والد کا سارا پیار ا ُسے ہی ِم ال ۔ ا ُس کے والد بھی اپنے اندر‬
‫ج ستجو حق رکھتے تھے ا ِس لیے وہ ُم رشد کامل کی تالش میں الگ‬ ‫ُ‬
‫الگ بزرگوں کے پاس جاتے اور ہر بزرگ سے الل ّٰ ہ کی پہچان طلب‬
‫کرتے اور جہاں بات نہ بنتی وہاں جانا چھوڑ دیتے‪ ,‬کیونکہ ا ُن کی‬
‫چے‬‫چ ی تھی ا ِس لیے ذیادہ تر ا ُن کا رابطہ اچھے اور س ّ‬ ‫طلب س ّ‬
‫چ ے ب ُ زرگ حضرات کو مریدین کی تعداد بڑھانے‬ ‫بزرگوں سے ہ ُوا۔ س ّ‬
‫چ ے طالبوں کو ا ُن کی طلب کے مطابق‬ ‫کا شوق نہیں ہوتا ا ِس لیے وہ س ّ‬
‫آگے بھیج دیتے ہیں۔ ایک بزرگ سے جتنا فیض جس کے نصیب میں‬
‫ہوتا‪ُ ,‬م رید کی کیفیت کے مطابق‪ ,‬بزرگا ِن دین ا ُتنا فیض ا ُسے سونپ‬
‫کر ا ُسے ا ُس ب ُ زرگ کے حوالے کر دیتے ہیں جس کے پاس ُم رید کا‬
‫باقی کا فیض ہوتا ہے۔ ا ِسی ترتیب پر چلتے ہوئے وہ حاجی رحمت الل ّٰ ہ‬
‫المعروف پیر دھنکہ شریف تک پہنچے‪ ,‬اور کئی بار ا ُن کے پاس‬
‫حاضری دینے اور مسلسل الل ّٰ ہ کی پہچان اور ا ُس کے ق ُ رب کی التجاء‬
‫کرنے کے بعد ایک دن بابا دھنکہ شریف نے ا ُنھیں د ُعا دیتے ہوئے‬
‫کہا "جا خضر علیہ السالم تیری مدد کریں گے۔ "‬
‫وہ اپنی تمام کیفیات اپنی بیٹی سے شیئر کرتے اور ا ُن کی بیٹی بھی‬
‫اپنی دعاؤں کے ذریعے اپنے والد کی مدد کرنے کی کوشش کرتی‬
‫رہتی۔ دونوں باپ بیٹی عبادات میں ایک دوسرے پے سبقت لے جانے‬
‫ک ی کوشش کرتے۔ ایک دن میں ہزاروں بار درود شریف پڑھتے اور‬
‫الل ّٰ ہ سے الل ّٰ ہ کے قرب کا سوال کرتے۔ اور ایک دن ا ُس کے والد کی‬
‫مالقات س ُ لطان محمد اصغر علی رح کی قائم کردہ اصالحی جماعت‬
‫کے کار ک ُ نان سے ہوئی اور پہلی ہی ُم القات میں وہ ا ُن کار ک ُ نان کی‬
‫گفتگو سے شدید متا ثر ہوئے پھر س ُ لطان محمد اصغر علی رح سے‬
‫ف مالقات حاصل کیا اور ا ُن کے ُم رید ہوئے۔ انھوں نے اپنی بیٹی‬ ‫شر ِ‬
‫ح ب ال ٰہ ی کی دولت سے آراستہ کرتے ہوئے پروان چڑھایا تھا اور‬ ‫کو ُ‬

‫‪179‬‬
‫بیٹی نے بھی اپنے والد کی محنت ضائع نہیں ہونے دی۔ ا ُسے نماز اور‬
‫درود پڑھتے رہنے میں سکون ملتا تھا۔ جس عمر میں لڑکیاں فیشن‬
‫وغیرہ کی باتیں کرتی ہیں ا ُس ع ُ مر میں ا ُسے باپردہ رہنے کی فکر‬
‫رہتی۔ جب دوسری لڑکیاں اپنی کالسز چھوڑ کر کالج میں اپنی سہلیوں‬
‫کے ساتھ گھوما کرتی تھیں تب وہ کالس چھوڑ کر کالج میں موجود‬
‫مسجد میں بیٹھی عبادت میں مصروف رہتی تھی۔ ا ُس ک ی ٹیچرز نے‬
‫ا ُسے کئی بار تنبیہ کی کہ کالسز چھوڑ کر مسجد میں نہ بیٹھا کرے‬
‫لیکن وہ باز نہ آئی تو ایک دن ا ُسے کہا گیا کہ اگر ا ُس نے مسجد میں‬
‫بیٹھنا ترک نہ کیا تو کالج کی مسجد بند کرا دی جائے گی۔ تو ا ُس نے‬
‫جوابا ً کہا کہ آپ مسجد بند مت کیجیئے میں آپ کا کالج ہی چ ھوڑ دیتی‬
‫جڑ‬ ‫ہوں۔ اور ا ِس طرح ا ُس نے پڑھائی چھوڑ دی‪ ,‬ا ُس کا دل الل ّٰ ہ سے ُ‬
‫گیا تھا ا ِس لیے دنیاوی علم سے ا ُس کا جی ا ُچاٹ ہو ُ‬
‫چ کا تھا۔‬
‫ح ب ال ٰہ ی کا درس حاصل‬ ‫ایک لڑکی جس نے اپنے والد کی تربیت سے ُ‬
‫کیا اور ا ُسے اپنے جینے کا مقصد بنانے کی کوشش کی۔ ایک باپ جس‬
‫ح بِ ال ٰہ ی کی راہ پر ڈال کر تربیت کا حق ادا کر دیا۔‬‫نے اپ نی بیٹی کو ُ‬
‫انہی کی بدولت ا ُسے بھی س ُ لطان محمد اصغر علی رح تک پہنچنا‬
‫نصیب ہوا تھا۔ ا ُس کے س ُ سر ہی وہ شخص تھے جنہوں نے ا ُس کے دل‬
‫میں الل ّٰ ہ کی طلب محسوس کی اور ا ُسے اپنے ُم رشد پاک سے متعارف‬
‫کروایا۔ ا ُس کے س ُ سر شریعت کے سخت پابند انسان تھے۔ جب وہ پہلی‬
‫بار ا ُن کے ساتھ س ُ لطان محمد اصغر علی رح سے ملنے گیا تھا تو ا ُن‬
‫کی بیٹی بھی ساتھ تھی اور سارا راستہ ا ُس نے دیکھا کہ دونوں باپ‬
‫بیٹی کو صرف یہی فکر تھی کہ وہ وقت پے نماز ادا کر لیں۔ فرض‬
‫نمازوں کے ساتھ ساتھ دونوں نف لی نمازوں کے بھی سخت پابند تھے۔‬
‫جب وہ لوگ اسالم آباد سے جھنگ کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو ا ُس‬
‫نے سوچا کہ یہ لڑکی اتنا طویل سفر کیسے کرے گی۔؟ اور ا ُسے یہ‬
‫احساس بھی ہو رہا تھا کہ ا ِس کی موجودگی کی وجہ سے شاید سفر‬
‫اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ لیکن ا ُس لڑکی نے تمام راستہ اپنا حجاب‬
‫اور اپنا آپ ایسے سنبھاال کہ ا ُس کی نظر میں ا ُس لڑکی کے لیے بہت‬
‫سا احترام پیدا ہو گیا۔ س ُ لطان محمد اصغر علی رح سے شور کوٹ میں‬
‫مالقات کے بعد واپسی پر وہ لوگ غلطی سے کسی اور جانب چلے‬
‫گئے اور یہ بات انھیں تب سمجھ آئی جب گاڑی واال ا ُنھیں ایک در یا‬
‫‪180‬‬
‫کے کنارے ا ُتار کر واپس چال گیا۔ ا ُسے پتہ چال کہ دریا کے ا ُس پار‬
‫س ُ لطان باہو رح کا دربار ہے اور ا ُس لڑکی کا کہنا ہے کہ ہم اگر‬
‫راستہ بھٹک کر یہاں تک پہنچے ہیں‪ ,‬تو اب یہ بات جانتے ہوئے کہ ہم‬
‫گھر کی جانب نہیں بلکہ س ُ لطان باہو رح کے دربار کی جانب سفر کر‬
‫رہے تھے‪ ,‬ہمیں اپنا سفر ا ُن کے دربار کی جانب جاری رکھنا چاہیے‬
‫اور دربار پے حاضری دیے بغیر واپس نہیں جانا چاہیے۔ جب کہ ا ُس‬
‫کی سوچ یہ تھی کہ جلد از جلد اسالم آباد واپسی کا انتظام کیا جائے‬
‫کیوں کہ شام ہونے کو ہے اور ایسے دور دراز عالقوں میں شام کے‬
‫بعد کسی سواری کا ملنا ُم شکل ہو جاتا ہے۔ ا ُس نے اپنے س ُ سر سے‬
‫اپنے خدشے کا اظہار کیا اور اپنی بیٹی کو سمجھانے کو کہا تو انھوں‬
‫چ کا ہوں‪ ,‬آپ خود بات کر لیجیے‪ ,‬شاید آپ‬ ‫نے کہا کہ "میں کوشش کر ُ‬
‫کی بات سمجھ جائے۔ "‬
‫ا ُن کے کہنے پے وہ ا ُس لڑکی کی جانب بڑھا جو سب سے الگ تھلگ‬
‫دریا کنار ے نماز ادا کرنے کے بعد د ُعا میں مشغول تھی۔ ا ُسے اپنے‬
‫پاس کھڑا دیکھ کر وہ ا ُس کی جانب متوجہ ہوئی تو ا ُس نے اپنی رائے‬
‫کا اظہار کرتے ہوئے کہا "میرے خیال میں ہمیں واپسی کا سفر اختیار‬
‫کرنا چاہیے کیونکہ شام ہونے کو ہے" تو ا ُس لڑکی نے ا ُس کی بات‬
‫سمجھتے ہوئے اطمین ان سے کہا " ا ِس کائنات میں ہر کام کا ایک‬
‫مقررہ وقت ہے اور وہ الل ّٰ ہ کی رضا سے ا ُسی وقت پر ہو گا‪ ,‬نہ ایک‬
‫پل پہلے نہ ایک پل بعد‪ ,‬ہم انسان ب ِ الوجہ آنے والے وقت کو سوچ کر‬
‫پریشان ہوتے رہتے ہیں‪ ,‬جب کسی راستے پے جاتے ہوئے منزل سے‬
‫ایک قدم پہلے ال ل ّٰ ہ آپ کو روک کر ب تا دے کہ یہ راستہ فالں جانب‬
‫جاتا ہے تو ا ِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ آخری قدم آپ اپنی‬
‫مرضی سے ا ُٹھائیں۔ تو اب ہماری مرضی ہے کہ ہم اپنی خواہشات کو‬
‫اور اپنے دنیاوی آرام کو سوچتے ہوئے ا ِس راستے سے پلٹ جائیں یا‬
‫پھر ا ُس کی رضا سمجھتے ہوئے آخری قدم بھی ا ُس ی جانب ا ُٹھائیں‬
‫جس جانب وہ ہمیں لے جا رہا تھا" زندگی میں شاید پہلی بار کسی نے‬
‫ا ُسے الجواب کر دیا تھا۔ ا ُس نے کہا "جی آپ بلکل صحیح کہہ رہی‬
‫ہیں" اور اتنا کہہ کر وہ فور ا ً وہاں سے دور آ گیا۔ ا ُسی وقت واپسی‬
‫کی سواری کا انتظام ہوگیا اور وہ لوگ دریا کے سفر کی جگہ کسی‬
‫اور راستے سے س ُ لطان باہو رح کے دربار تک پہنچے۔ گ ُ زرتے‬
‫‪181‬‬
‫گ ُ زرتے دور سے ہیر رانجھا کا مزار بھی دیکھ اور س ُ لطان باہو رح‬
‫کے دربار پر حاضری دینے کے بعد اسالم آباد کی طرف روانہ ہو‬
‫گئے۔‬
‫ا ُس کی بیوی بہت اخالص و استقامت سے اپنے ُم رشد پاک کا پیغام عام‬
‫کرنے کی کوش ش کر رہی تھی‪ ,‬جس کا ثمر یہ تھا کہ یہ پیغام چند ماہ‬
‫میں ہی بہت سے لوگوں کو متاثر کر گیا اور خواتین تیزی سے ا ِس‬
‫جماعت کا ح صّ ہ بننا شروع ہو گئیں۔ ا ُس نے دن رات ایک کر کے‬
‫لوگوں تک پیغام پہنچایا اور اسی دوران اکتوبر ‪ 7442‬میں الل ّٰ ہ نے‬
‫ا ُسے ایک اور بیٹا دیا۔ اپن ے بڑے بیٹے کی پیدائش پے ا ُس کی بہت‬
‫خواہش تھی کہ اپنے ُم رشد پاک سے پوچھ کر اپنے بیٹے کا نام رکھے‬
‫لیکن وہ ُم رشد کے سامنے زبان نہ کھول سکا۔ ا ِس بیٹے کی پیدائش‬
‫پے ا ُس نے سوچا کہ نام پوچھنے کی مجال تو ہو گی نہیں میری‪ ,‬اس‬
‫لیے خود ہی نام رکھ دیتا ہوں۔ لیکن اس بار ا ُس کی خواہش پوری ہوئی‬
‫اور ا ُس ک ے مرشد کی بارگاہ سے اس کے بیٹے 'باہو' کا نام مال ۔‬
‫دونوں میاں بیوی اکثر رات گئے تک بیٹھ کر احادیث‪ ,‬یا اولیاء اللہ کی‬
‫تعلیمات پر ایک دوسرے سے بات کرتے۔ ا ُس کی بیوی اپنے والد کے‬
‫بعد ا ُسے اپنے ا ُستادوں میں شمار کرتی تھی۔ وہ اپن ے ُم رشد کے پیغام‬
‫کو عام کرنے کے لیے خود تو کچھ نہ کر سکا لیکن ا ِس کام میں اپنی‬
‫بیوی کی مدد کے لیے وہ جو کچھ کر سکتا تھا ا ُس نے کیا۔ ا ُس کی‬
‫والدہ نے بھی اپنی بہو کا ساتھ دیا۔ ایک ہی دن میں کئی جگہ جا کر‬
‫ح بِ ال ٰہ ی کا درس دینا ا ُس کی بیوی کے لیے عا م بات تھی۔‬‫خواتین کو ُ‬
‫اکثر وہ اپنی بیوی ک ے سو جانے کے بعد حسرت سے ا ُس کے پیر‬
‫دیکھت ا جو اکثر پیدل چل چل کر سوج جاتے تھے۔ اور سوچتا کہ اے‬
‫الل ّٰ ہ یہ کتنے خوش نصیب پیر ہیں جو تیری راہ میں چلتے ہیں ک اش‬
‫ایسے پیر میرے پاس بھی ہوتے۔ وہ اکثر اپنی بیوی سے کہتا کہ‬
‫" کاش میں بھی تمھاری طرح ُم رشد پاک کا پیغام عام کر رہا ہوتا‪,‬‬
‫لیکن مجھے یہ سعادت نصیب نہیں ہو سکی ا ِس لیے میں تمھارے لیے‬
‫آ سانی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور اپنی طرف سے ا ُس پیغام‬
‫کی کوشش میں اپنا ح صّ ہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں کیوں کہ جو کام‬
‫مجھے کرنا تھا وہ کام تم کر رہی ہو ۔ "‬

‫‪182‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ایک بار ا ُس کے دادا نے ا ُس سے کہا کہ "اپنی بیوی پر نظر رکھا‬
‫کرو‪ ,‬عورت ذات کو اتنی آزادی دینا ٹھیک نہیں ہے۔ تم ا ُس سے پوچھا‬
‫کرو کہ کہاں جا رہی ہے اور کب واپس آئے گی۔" تو ا ُس نے اپنے‬
‫دادا سے کہا کہ "مجھے اعتماد ہے‪ ,‬اور یقین ہے کہ میرے اعت ماد کو‬
‫ٹھیس نہیں پہنچے گی" ا ُس کے دادا نے ا ُسے ٹوکتے ہوئے کہا "کسی‬
‫پے اندھا اعتماد کرنا درست نہیں ہے‪ ,‬تمھیں یقینا ً اپنی بیوی پر اعتماد‬
‫ہو گا لیکن پھر بھی دھیان رکھنا چاہیے" تو ا ُس نے کہا " دادا جان‪,‬‬
‫میں نے کہا مجھے اعتماد ہے‪ ,‬یہ نہیں کہا کہ مجھے اپنی بیوی پے‬
‫اعتماد ہے‪ ,‬اگرچہ کہ مجھے ا ُس پر بھی اعتماد ہے‪ ,‬لیکن میرے ا ِس‬
‫رویے کی بنیاد الل ّٰ ہ پر اعتماد ہے‪ ,‬اپنے ُم رشد پر اور ا ُن کے پیغام پر‬
‫اعتماد ہے اور خود اپنے آپ پر اعتماد ہے۔ الل ّٰ ہ پر اعتماد کہ میں نے‬
‫ا ُس کے نام کی خاطر اپنی بیوی کو گھر سے باہر نکلنے کی اجا زت‬
‫دی ا ِس لیے وہ میری بیوی کو گ ُ مراہ نہیں ہونے دے گا اور ا ُس کی‬
‫حفاظت کرے گا‪ُ ,‬م رشد پے اور ا ُن کے پیغام پر اعتماد یہ کہ ا ُن کی‬
‫تربیت اور ا ُن کی کوشش کی برکت میری بیوی کو را ہ ِ راست پر‬
‫رکھے گی۔ اور اپنے اوپر اعتماد یہ کہ میں جب گھر سے دور ہوتا‬
‫ہوں تو اپنا آپ سنبھال کے رکھتا ہوں‪ ,‬جہاں کام کرتا ہوں وہاں لوگ‬
‫مجھ میں الکھ ب ُ رائی نکالیں گے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں‬
‫بدنظر ہوں۔ جب میں کسی کی بہن‪ ,‬بیٹی‪ ,‬بیوی کو ب ُ ری نظر سے نہیں‬
‫دیکھتا‪ ,‬جو جذبات میری بیوی کی امانت ہیں ا ُن میں خیانت نہیں کرتا‬
‫تو مجھے یقین رہتا ہے کہ میری بہن‪ ,‬بیٹی‪ ,‬بیوی بھی محفوظ رہے‬
‫گی‪ ,‬جو شخص خود خراب ہوتا ہے وہ سب پر شک کرتا ہے‪ ,‬جس‬
‫طرح کسی اور کی بہن‪ ,‬بیوی‪ ,‬بیٹی سے ِم لتا تھا ا ُسی طرح سوچتا ہے‬
‫کہ میری بہن‪ ,‬بیوی‪ ,‬بیٹی کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے‪ ,‬ا ِس‬
‫لیے ا ُن پر بےجا پابندی لگا کر‪ ,‬شک کر کے‪ ,‬اور اکثر مار پیٹ کر‬
‫کے بھی اپنے کرتوت کا پھل دیکھنے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے‪,‬‬
‫ت عمل ہے۔ جس نے کچھ غلط کرنا ہے وہ روک ٹوک‬ ‫لیکن دنیا مکافا ِ‬
‫کے باوجود کر جائے گا اور جس نے نہیں کرنا وہ آزاد رہ کر بھی‬

‫‪183‬‬
‫اپنی حدود کی پاسداری کرے گا۔ تو میرے خیال میں عورت پر بےجا‬
‫پ ابندی لگا کر خود پریشان رہنے اور ا ُسے پریشان کرنے کی جگہ‬
‫مرد کو اپنے اوپر پابندی لگانی چاہیے اور اپنا آپ درست رکھتے‬
‫ہوئے اپنی خواتین کی دیکھ بھال کرنی چاہیے جو شخص خود درست‬
‫ہو گا وہ کبھی بھی عورت پر بےجا پابندی نہیں لگائے گا۔ اور میری‬
‫بیوی تو الل ّٰ ہ کے نام کی خاطر گھر سے نکلی ہے ا ُس کے والد یا‬
‫بھائی وغیرہ ہمیشہ ا ُس کے ساتھ آتے جاتے ہیں اور میری ا ّم ی یا ا ُس‬
‫کی ا ّم ی بھی ہمیشہ ا ُس کے ساتھ ہوتی ہیں اس لیے فکر کی بات نہیں‬
‫ہے اطمینان رکھیے‪ ,‬الل ّٰ ہ خیر کرے گا۔" ا ُس کے دادا نے کہا "کبھی‬
‫کبھی تم اتنی سمجھداری کی بات کرتے ہو کہ میں حیران رہ جاتا ہوں‪,‬‬
‫ٹھیک ہے تم جو کہہ رہے ہو مجھے سمجھ آ گیا الل ّٰ ہ تمھیں اور‬
‫تمھارے ُم رشد کو سالمت رکھے جنھوں نے تم لوگوں کو اتنی اچھی‬
‫سمجھ اور شعور دیا۔ خوش رہو ہمیشہ‪ ,‬الل ّٰ ہ تم لوگوں کو ا ِس نیک‬
‫مقصد میں کامیاب کرے۔" ا ُس کے دادا نے ک ھُ لے د ل سے ا ُس کی‬
‫تعریف کی اور د ُعا دی۔‬
‫ایک دفعہ ا ُس کی بیوی نے بھی ا ُس سے شوخ سی ناراضگی سے کہا‬
‫"آپ مجھ سے کبھی نہیں پوچھتے کہ کہاں گئی تھی یا کہاں جا رہی ہو‬
‫کب آؤ گی‪ ,‬آپ نے تو کبھی منع بھی نہیں کیا مجھے کہیں آنے جانے‬
‫سے‪ ,‬آپ کو نہیں لگتا کہ بندے کو تھوڑا شوہر پ ن بھی دکھانا‬
‫چاہیے۔" تو ا ُس نے اپنی بیوی سے کہا "میرے خیال میں شوہر پن‬
‫بیوی پے روک ٹوک کرنا نہیں ہے۔ ویسے بھی تم خود ہمیشہ مجھے‬
‫بتا کر جاتی ہو۔ اور ال ل ّٰ ہ مجھے ایسی ذبان نہ دے‪ ,‬ایسا اختیار نہ دے‬
‫جو ا ِس راہ سے کسی کو روکنے کا سبب بنے۔ ایسا شوہر پن نہیں کرن ا‬
‫میں نے‪ ,‬جو میرے ُم رشد پاک کے پیغام کی ترسیل میں ُر کاوٹ بن‬
‫سکتا ہو۔ میں تمھیں اپنے تمام حقوق معاف کرتا ہوں۔ اپنے شوہر کے‬
‫لیے تمھاری جو ذمہ داریاں ہیں ا ُن میں اگر کوئی کمی واقع ہو جائے‬
‫تو میں الل ّٰ ہ کو حاضر ناظر جان کر وہ سب ذمہ داریاں تمھیں معاف‬
‫کرتا ہوں‪ ,‬اور میں تمھیں ال ل ّٰ ہ کے نام کے لیے وقف کرتا ہوں۔" ا ُس‬
‫کی بیوی نے کہا "الل ّٰ ہ کے نام کے لیے تو میں بھی خود کو وقف کرنا‬
‫چاہتی ہوں لیکن انشاء الل ّٰ ہ میں اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر نہیں‬
‫بلکہ تمام ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے اس پیغام کو عام کروں گی‪ ,‬یہ‬
‫‪184‬‬
‫میرے ا کیلے کی محنت نہیں ہے آپ سب ا ِس میں میرے ساتھ ہیں۔‬
‫انشاء الل ّٰ ہ یہ پیغام گھر گھر پہنچے گا۔ "‬
‫وہ جسمانی طور پر دن بہ دن ڈھلتا جا رہا تھا اور اپنی گھریلو ذمہ‬
‫چ کا تھا۔ جو شخص اپنے ُم رشد سے‬ ‫داریوں سے تقریبا ً الگ تھلگ ہو ُ‬
‫کبھی ہر ماہ ملنے جایا کرتا تھا اب وہ مہی نوں ا ُن سے مالقات نہ کر‬
‫پاتا۔ ایک الگ دنیا تھی ا ُس کی جس میں کسی کو آنے جانے کی‬
‫اجازت نہیں تھی۔ ا ُس نے اپنے آپ کو بہال لیا تھا کہ الل ّٰ ہ کی راہ میں‬
‫لوگوں کے لیے وہ بس اتنا ہی کر سکتا تھا‪ ,‬اکثر اپنے آپ کو مالمت‬
‫کرتے ہوئے وہ خود سے کہتا "تم کیا سمجھتے ہو خود کو‪ ,‬اپنی‬
‫گزشتہ زندگی دیکھو اور اپنی اوقات یاد کرو‪ ,‬شکر کرو کہ کسی الل ّٰ ہ‬
‫والے کا سایہ نصیب ہو گیا‪ ,‬تم کیوں اولیاء کے سلسلوں کو بدنام کرنا‬
‫چاہتے ہو‪ ,‬تم ا ِس الئق نہیں ہو کہ صوفیا کی بات کر سکو‪ ,‬یہ تمھارا‬
‫کام نہیں ہے اور شاید تمھاری معزوری بھی اسی وجہ سے ہے تاکہ تم‬
‫ایسے حلقوں سے دور رہ سکو جہاں الل ّٰ ہ کا ذکر ہو رہا ہو۔ اور‬
‫دھیرے دھیرے ا ُس نے اپنے دل کو ا ِس سوچ پر راضی کر لیا کہ میرا‬
‫کام یہیں تک تھا۔ میں لوگوں کے لیے ایک صُ بح ِ روشن کا طالب تھا‬
‫تو میرے ُم رشد پاک اور ا ُن کی جماعت دن رات ا ُسی کوشش میں‬
‫مصروف ہیں۔ مجھے لوگوں کی بہت فکر رہتی تھی نا‪ ,‬شاید اسی لیے‬
‫الل ّٰ ہ نے مجھے ا ُن لوگوں سے ِم لوا دیا جو لوگوں کی بہتری کے لیے‬
‫کچھ کر رہے ہیں اور مجھے یہ بھی بتا دیا کہ لوگوں کے لیے کچھ کر‬
‫جانے والے لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ افسوس کے میں ا ُن جیسا بھی نہ بن‬
‫سکا‪ ,‬اور ضروری تو نہیں کہ ہر وہ شخص جو ال ل ّٰ ہ کی طلب رکھتا ہو‬
‫ا ُسے ا ِس طلب کو عام کرنے کا بھی شرف حاصل ہو۔ تجھے ال ل ّٰ ہ کی‬
‫تالش تھی تو الل ّٰ ہ مل گیا تجھے بس تیرا کام یہیں تک تھا‪ ,‬لوگوں تک‬
‫پیغام پہنچانا تیرے بس کا کام نہیں ہے۔ ا ِن خیاالت نے ا ُسے ہر چیز‬
‫سے دور کر دیا گھنٹوں اکیلے بیٹھے رہنا ا ُس کا معمول بن گیا تھا‬
‫اور طبیعت میں ایک عجیب سا ِچ ڑچڑا پن پیدا ہو گیا جس کی وجہ‬
‫سے وہ اندر ہی اندر گ ھُ لتا جا رہا تھا۔ اس نے زندگی سے بیزار ہو کر‬
‫اپنا مزاج مزید بگاڑ لیا اور پھر وہ ا ِس قدر بگاڑ کا شکار ہوا کہ اس‬
‫کی بد مزاجی سے تنگ آ کر ا ُس کی ب یوی نے ا ُس سے علیحدگی‬
‫اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ لیکن اپنے شوہر کو بتائے بغیر جب وہ‬
‫‪185‬‬
‫اپنے والد کے ساتھ ا ُن کے گھر سے جانے کو تیار ہوئی تو گھر سے‬
‫نکلتے ہوئے ا ُس نے اپنے والد سے کہا "ابو میں کسے چھوڑ کر جا‬
‫رہی ہوں‪ ,‬ا ِس شخص سے میرا ایک رشتہ میرے ُم رشد کے توس ط سے‬
‫بھی تو ہے‪ ,‬میں ا ُنہیں ا ِس حال میں نہیں چھوڑ سکتی‪ ,‬وہ اتنے کمز ور‬
‫نہیں ہیں کہ اتنی چھوٹی سی بات سے ہار جائیں‪ ,‬میں پھر سے کوشش‬
‫کروں گی انہیں واپس النے کی‪ ,‬لیکن ا ِس بار میں اپنا شوہر جان کر‬
‫نہیں بلکہ اپنے ُم رشد پاک کا ُم رید سمجھ کر انہیں واپس النے کی‬
‫کوش ش کروں گی۔ ُم رشد کی ذات نے ا ُس کی بیوی کے دل میں ایسا‬
‫خیال ڈال کر اسے اپنا ارادہ تبدیل کرنے پر مائل کیا جس کے باعث‬
‫اس کا گھر ٹوٹنے سے محفوظ رہا اور ا ُسے پتہ بھی نہ چال کہ ا ُس‬
‫کے ساتھ کیا ہوتے ہوتے رہ گیا تھا۔‬

‫‪186‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ح بِ ال ٰہ ی سے متعلق سوال‬ ‫ا ُس کی بیوی نے پہلے کی طرح ا ُس سے ُ‬
‫کرنا شروع کیے تاکہ ا ُسے یاد دالیا جا سکے کہ وہ کون ہے۔ دونوں‬
‫میاں بیوی کے بیچ سوال و جواب کا یہ سلسلہ جو کئی سالوں سے‬
‫منقطع تھا ایک بار پھر شروع ہوا تو ا ُس پر ا ِس سب کا کافی اچھا اثر‬
‫پڑنا شروع ہوا۔ ا ِس دوران ایک روز ا ُس کی بیوی نے ا ُس سے کہا‬
‫"آج آپ مجھے شیطان کے بارے میں سمجھائیں‪ ,‬کیا ہے شیطان‪ ,‬اور‬
‫کیسے لوگوں کے ذہن پر قابض ہوتا ہے۔" تو ا ُس نے مسکرا کر کہا‬
‫"لوگ تم سے الل ّٰ ہ کے بارے میں پوچھتے ہیں اور تم مجھ سے شیطان‬
‫کے بارے میں پوچھ رہی ہو۔؟ تم خود بہتر جانتی ہو‪ ,‬مجھ سے کیا‬
‫پوچھ رہی ہو۔؟" ا ُس کی بیوی نے کہا "مجھے نہیں پتہ کہ میں کیا‬
‫جانتی ہوں اور کیا نہیں لیکن میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کیا جانتے‬
‫ہیں۔ "‬
‫ا ُس نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے بات شروع کرتے ہوئے کہا‬
‫"ابلیس وہ جن ہے جسے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ درجات کی ب ُ لندی‬
‫کے باعث وہ فرشتوں کا سردار بن بیٹھا‪ ,‬کسی بھی مخلوق کے درجات‬
‫تب ب ُ لند ہوتے ہیں جب الل ّٰ ہ ا ُس پے نظر کرتا ہے۔ جب الل ّٰ ہ نے ابلیس‬
‫کو مردود کیا تو الل ّٰ ہ نے ا ُس سے نظر پھیر لی۔ اور الل ّٰ ہ جس سے نظر‬
‫پھیر لے وہ شئے فنا ہو جاتی ہے لیکن ابلیس کو الل ّٰ ہ نے قیامت تک‬
‫ج ڑ گئی۔ ا ُس کی‬ ‫کی زندگی دی۔ اب ابلیس کی بقا انسان کی نظر سے ُ‬
‫کوشش ہوتی ہے کہ انسان کی نظروں کے سامنے رہ سکے‪ ,‬دنیا کی‬
‫ہر شئے شیطان کے کام کی چیز ہے کیونکہ ا ِن تمام چیزوں کے‬
‫ذریعے وہ لوگوں کی نظر میں آ سکتا ہے۔" ا ُس کی بیوی نے ا ُسے‬
‫ٹوکتے ہوئے کہا "لیکن زمین پر موجود ہر چیز کیسے ا ُس کے کام کی‬
‫ہو سکتی ہے۔؟" تو ا ُس نے مسکرا کر کہا "اب یہ سوال پوچھ ہی لیا‬
‫ہے تو خاموشی سے س ُ نو جواب طویل ہے۔ شیطان جب مردود ہوا تو‬
‫کہتے ہیں کہ ہزاروں سال تک وہ الل ّٰ ہ سے مانگتا رہا تھا اور ا ُس نے‬
‫جو جو مانگا الل ّٰ ہ نے ا ُسے سب دیا۔ یہ با ت س ُ ن کر میں نے سوچا کہ‬
‫کاش مجھے ایسا مجھے موقع ملتا تو میں ال ل ّٰ ہ سے ال ل ّٰ ہ کو ہی مانگ‬
‫‪187‬‬
‫لیتا‪ ,‬یا کم از کم معافی ہی طلب کر لیتا‪ ,‬لیکن شاید ابلیس انسان کے‬
‫خالف منصوبہ بندی میں مصروف تھا اور اپنی انا کی آگ میں جل رہا‬
‫تھا ا ِس لیے وہ معافی کا خواستگار نہیں ہو س کا۔ میں نے سوچا کہ اگر‬
‫میں ابلیس کی جگہ ہوتا تو انسان کی دشمنی میں الل ّٰ ہ سے کیا کیا‬
‫مانگتا۔ کسی کے سامنے آئے بنا ا ُس کے سامنے آنا‪ ,‬ا ُس کی سوچ میں‬
‫اپنی آواز بھرنا‪ ,‬اور انسان سے ا ُس کا ن ُ ور چھین کر خود کو طاقتور‬
‫بنانے کا فن‪ ,‬شاید میں ایسی ہی چیزیں مانگتا‪ ,‬ا ور جب جن ہونے سے‬
‫لے کر فرشتوں کا سردار ہونے تک کا سفر کیا ہوتا تو راہ میں جو‬
‫کچھ بھی میں نے دیکھا ہوتا ہر شئے کو انسان کے خالف استمعال میں‬
‫النے پر دسترس مانگتا۔ تاکہ میں انسان کو تقسیم کر سکوں۔ لوگوں کو‬
‫ایک دوسرے کے خالف کر سکوں اور ایک دوسرے کے خالف‬
‫سوچنے میں ا ِس قدر محو کر سکوں کہ وہ اپنا آپ سوچنا بھول جائیں۔‬
‫انسانوں کو تقسیم کرنے کا کام ابلیس نے انہی طاقتوں کے بل بوتے‬
‫پے کیا ہے۔ یاد کرو کہ زمین پے ہونے والے پہلے قتل کی وجہ انسان‬
‫کی اپنی خواہش تھی۔ سوچو کہ ا ُس وقت میں جب انسان گناہ کے وجود‬
‫سے ہی ناآشنا تھ ا ا ُس وقت ا ُس نے کس طرح گناہ کا ارادہ اور ترغیب‬
‫حاصل کی۔؟ یقینا ً یہ ا ُس کا نفس تھا جو شیطان کا پیروکار تھا اسی‬
‫لیے ا ُس نے قابیل کو الل ّٰ ہ کی نافرمانی کی راہ پر ڈال کر ا ُسے ابلیس‬
‫کے مشابہ کر دیا۔ ابلیس کا کام انسان کو ا ُس کے مقام سے ِگ ر جانے‬
‫کے خیال میں ُم ب تال کرنا ہے‪ ,‬اب ت ُو نے فالں کام کر لیا تو ت ُو اپنے‬
‫رب سے دور گیا‪ ,‬اب نیکی کرنے کا کیا فائدہ۔؟ ا ِس طرح کے بہت‬
‫سے خیاالت انسان کی سوچ میں گھر کیے رہتے ہیں۔ انسان چار‬
‫عناصر کا مرکب ہے آگ‪ ,‬ہوا‪ ,‬مٹی اور پانی۔ اصل میں مٹی ایسی چیز‬
‫ہے جس میں یہ تینوں چیزیں اکھٹی ہوتی ہیں۔ شیطان آگ ہے اور‬
‫انسان نور ہے۔ نور کی ظاہری صورت پانی ہے۔ اسی لیے سائنس پانی‬
‫کو زندگی کی بنیاد تسلیم کرتی ہے۔ انسان کے ظاہر ہونے سے پہلے‬
‫تمام مخلوق اپنے اپنے درجے پر موجود تھی آگ آگ تھی اور پانی‬
‫پانی تھا مگر جب انسان کا جسم تخلیق ہو رہا تھا تو فرش توں نے کہا‬
‫کہ یہ زمین میں فساد برپا کرے گا۔ شاید انہوں نے آگ اور پانی ایک‬
‫جسم میں یکجا ہوتے دیکھ کر یہ سوچا ہو گا کہ یہ فساد برپا کرے گا۔‬

‫‪188‬‬
‫گندم کا دانہ بھی انہی چار عناصر کا مرکب تھا اسی لیے ا ُس پیڑ سے‬
‫دور رہنے کا حکم ہوا۔‬
‫شیطان لوگوں کے خیاالت سے کھیلتا ہے ۔ ہر چیز کچھ نہ کچھ کہتی‬
‫ہے۔ دنیا کا مال اسباب دیکھ کر ہر شخص کے دل میں ا ُسے حاصل‬
‫کرنے کی چاہ پیدا ہوتی ہے۔ یہ اس تمام اسباب سے آتی ہوئی آواز ہے‬
‫جسے ہم اپنے نفس کے کانوں سے س ُ نتے ہیں‪ ,‬آئس کریم دیکھ کر آئس‬
‫کریم کھانے کا جی کرتا ہے‪ ,‬گاڑی‪ ,‬مکان‪ ,‬دکان‪ ,‬عورت وغ یرہ‪ ,‬ہر‬
‫اچھی چیز دیکھ کر انسان کے اندر ا ُسے حاصل کرنے کی خواہش‬
‫ہوتی ہے اور ہر غم‪ ,‬بیماری‪ ,‬د ُکھ‪ ,‬تکلیف سے انسان دور بھاگتا ہے۔‬
‫ج ڑی لذتیں انسان کو اپنی خواہش کرنے‬ ‫کیوں کہ دنیا اور نفس سے ُ‬
‫کی دعوت دیتی ہیں اور رنج و الم لوگوں کو خود سے دور رہنے کی‬
‫صدا دیتے ہی ں‪ ,‬اونچے اونچے محل ہوں یا چھوٹے چھوٹے مکان‪ ,‬سب‬
‫کچھ نہ کچھ کہتے ہیں‪ ,‬انسان ایک غیر محسوس انداز میں ا ِس زبان‬
‫کو س ُ نتا ہے اور ا ُس سے متاثر بھی ہوتا ہے۔ شیطان کو ا ِن تمام‬
‫زبانوں پر عبور حاصل ہے ا ِس لیے وہ امیروں کو غریبی سے ڈرا کر‬
‫گمراہ کرتا ہے اور غریبوں کو امیری کی چاہت میں مبتال کر کے را ہِ‬
‫ح سن پے‬ ‫راست سے دور کرتا ہے۔ خوبصورت کو ا ُس کے خود کے ُ‬
‫مغرور ہونے کا سبق اور کم صورت کو اپنی صورت کی فکر کرنے‬
‫کا درس‪ ,‬نفس کی زبانی شیطان ہی س ُ ناتا ہے۔ ا ُس نے انسانوں سے ا ُن‬
‫ح سن نظر آتا‬ ‫کا نور چھین چھین کر بہت کچھ بنا لیا ہے۔ آگ میں جت نا ُ‬
‫ہے یہ سب اس لیے دکھائی دیتا ہے کیونکہ ہم ا ُسے نور سے دیکھ‬
‫رہے ہوتے ہیں۔ تم مشینز کو دیکھو‪ ,‬لوگوں کی رہائشگاہوں کو دیکھو‬
‫جو وقت کے ساتھ ساتھ اور ذیادہ دلکش ہوتے جا رہے ہیں۔ کیمرہ‪,‬‬
‫تصویر‪ ,‬ٹیلی وژن کو دیکھو۔ کسی زمانے میں ٹی وی ایک نایاب شئے‬
‫ت ھا۔ لکڑی کے ڈبے میں‪ ,‬بڑے بڑے چینل یا بٹن وغیرہ اور پھر لوگ‬
‫جیسے جیسے ا ِس کے گرویدہ ہوتے گئے ویسے ویسے یہ ڈبہ خوب‬
‫سے خوب تر ہوتا گیا۔ ہم جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو درحقیقت ہم‬
‫اپنی نظر سے ا ُسے چھو رہے ہوتے ہیں۔ سائنس بتاتی ہے کہ جب دو‬
‫چیزیں آپس میں ٹکراتی ہ یں تو دونوں اجسام کے مولیکیولز کا کچھ نہ‬
‫کچھ ح صّ ہ ادھر سے ا ُدھر ضرور منتقل ہوتا ہے۔ جیسے ہر ا ُس چیز‬
‫کو جسے ہم چ ھُ وتے ہیں ا ُس پے ہمارا فنگر پرنٹ رہ جاتا ہے۔ اب‬
‫‪189‬‬
‫سوچو کہ شیطان کو ا ِس کا کیا فائدہ ہے۔؟ تو ا ُسے یہ فائدہ ہے کہ وہ‬
‫ہمارے لمس‪ ,‬ہماری سوچ اور ہماری ن ظر کے ذریعے اپنی ترقی کا‬
‫سامان کرتا ہے۔ اور ہمارے لیے بہتر سے بہتر پھندا تیار کرتا ہے۔‬
‫الل ّٰ ہ اپنی مخلوق کو رحم و کرم کی نظر سے دیکھتا ہے اور جب وہ‬
‫غضب و جالل کی نظر سے دیکھ لے تو اکثر پورے کا پورا شہر‬
‫نیست و نابود ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ نیست و نابود ہو جانا بھی نیست و‬
‫نابود ہو جانے والوں پے الل ّٰ ہ کا رحم ہی ہے کہ ا ُس نے ا ُنہیں مزید‬
‫گمراہی سے بچا لیا۔ اچھا‪ ,‬ب ُ را‪ ,‬مومن‪ ,‬کافر سب الل ّٰ ہ کی نظر میں‬
‫رہتے ہیں ا ِسی لیے ا ُن سب کا وجود زندہ رہتا ہے‪ ,‬لیکن جسے ا ُس نے‬
‫مردود کر دیا اور ا ُس پر نگاہ کرنا چھوڑ دیا وہ انسان کی نظر کا‬
‫محتاج ہو گیا۔ اسی لیے وہ انسان کی نظروں میں آنے کے بہانے تالش‬
‫ح سن پیدا کرنے کا‬‫کرتا رہتا ہے۔ کسی سنگ تراش کو پتھر میں ُ‬
‫مشورہ دیتا ہے تو کسی کو کسی کرتب کی ترکیب بتاتا ہے‪ ,‬امیر میں‬
‫اپنی امیری ظاہر کرنے کا شوق پیدا کرتا ہے اور غریب کو اپنی‬
‫مفلسی کی و جہ سے خود کو دوسروں سے کمتر سمجھنے کا خبط الحق‬
‫کرتا ہے۔ یہ سب شیطان کا کھیل ہے‪ ,‬ا ُس کا کام ہے لوگوں کو الل ّٰ ہ‬
‫کے خیال سے دور رکھنا‪ ,‬اور وہ لوگوں کو انہی کے خیاالت کے‬
‫مطابق شر انگیز گمانوں میں مبتال کرتا ہے۔ اور یہ سب کمال انسان‬
‫کی اپنی ہی نظر کا ہے۔ انسان جب کچھ دیکھتا‪ ,‬س ُ نتا‪ ,‬یا چکھتا ہے تب‬
‫ہی وہ ا ُس کی خواہش کرتا ہے اگر وہ کسی چیز کو جانتا نہ ہو تو وہ‬
‫ا ُس کی خواہش بھی نہ کرے۔ اسی لیے الل ّٰ ہ نے ہر چیز کی حد مقرر‬
‫کر دی۔ جب تک کوئی شئے ال ل ّٰ ہ کی مقرر کردہ حد میں ہے تب تک وہ‬
‫شیطان سے محفوظ ہے اور جہاں حد سے ت جاوز کیا وہاں وہ چیز‬
‫زیر اثر آ جائے گی۔ شیطان کو ہ َوا کی مانند پوری زمین‬ ‫ِ‬ ‫شیطان کے‬
‫میں ہر جگہ موجود ہونے کا اختیار حاصل ہے۔ اسی فضا میں تمام‬
‫انسانوں کا نور بھی موجود رہتا ہے جسے اپنی چالوں کے ذریعے‬
‫تقسیم کر کے‪ ,‬شیطان لوگوں کی سوچ تقسیم کرتا ہے۔‬
‫ہندوستانی‪ ,‬پاکستانی‪ ,‬کاال‪ ,‬گورا‪ ,‬مسلم‪ ,‬غیر مسلم‪ ,‬میرا محلہ‪ ,‬میری‬
‫گلی‪ ,‬میرا دوست‪ ,‬اور نہ جانے کس کس نام کی تقسیم کو انسانوں پر‬
‫ح بِ اہل و اعیال یا‬ ‫ح بِ دین‪ُ ,‬‬
‫ح ب الوطنی‪ُ ,‬‬‫چ کا ہے۔ ہم ُ‬ ‫مسلط کیا جا ُ‬
‫اپنی معاشی و معاشرتی مجبوریوں کے نام پر‪ ,‬یا ا ِسے اپنا عالقائی‪,‬‬
‫‪190‬‬
‫قومی‪ ,‬یا مذہ بی تشخص جان کر ا ِس تقسیم کو نبھائے چلے جا رہے‬
‫حب‬
‫ح ب آدم کے بنا نہ تو ُ‬
‫ہیں۔ اور ا ِس جانب توجہ ہی نہیں دیتے کہ ُ‬
‫ح بِ دین۔ جن قوموں کو اپنے‬‫الوطنی کام کی چیز ہے اور نہ ہی ُ‬
‫انسانی تشخص کی خبر نہیں وہ اپنے عالقائی اور قومی تشخص کے‬
‫نام پر ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے م یں مصروف ہیں۔‬

‫‪191‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫" شیطان ایک سوچ کا نام ہے۔ جسے وقت میں ایک مقام دیا گیا۔ یوں‬
‫سوچو کہ تمام زمین پر ایک آگ کی چادر سی بچھی ہوئی ہو‪ ,‬ا ُس آگ‬
‫کی چادر کو تم شیطان سمجھو جو ہوا کی لہروں کی مانند ہر جگہ‬
‫پھیال ہ ُوا ہے لیکن وہ نقصان تب پہنچائے گا جب انسان ا ُسے نقصان‬
‫پہنچانے کا موقع دے گا۔" ا ُس کی بیوی نے پھر سے ا ُسے ٹوکتے‬
‫ہوئے کہا "اگر شیطان اتنا پست ہے تو وہ لوگوں کے دماغ تک کیسے‬
‫پہنچ جاتا ہے۔؟" ا ُس نے مسکرا کر کہا "بتا رہا ہوں‪ ,‬تم سکون سے‬
‫سنو تو سہی‪ ,‬کوئی بات سمجھ نا آئے تو بعد میں پوچھ لینا‪ ,‬ویسے میں‬
‫کوشش کروں گا کہ مکمل بات کر سکوں۔ الل ّٰ ہ نے اپنے محبوب صلی‬
‫الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم اور دیگر انبیاء کی صورت ایک خاص لباس اور‬
‫انداز لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ داڑھی رکھنا‪ ,‬سطر ڈھانپنا‪ ,‬ا ُٹھنا‬
‫بیٹھنا‪ ,‬کھانا پینا‪ ,‬ان سب چیزوں کے طریقہ کار واضح کیے گئے۔ جو‬
‫رب یہ کہتا ہے کہ نہیں دیکھتا میں تمھارے چہرے کو بلکہ دیکھتا‬
‫ہوں تمھارے دل۔ ا ُسی رب نے جسم اور چہرے کے انداز بیان کیے‬
‫اور الگ الگ لباس و انداز کو پسند ناپسند فرمایا۔ضرور اس کی کوئی‬
‫خاص وجہ ہو گی۔ جب غور کیا تو سمجھ آیا کہ شیطان انسان کو اور‬
‫انسان شیطان کو دیکھ سکتا ہے۔ لیکن شیطان انسان کو تب دیکھ سکتا‬
‫ہے جب انسان شیطان کو موقع دیتا ہے۔ لباس دیکھو جیسے عرب‬
‫پہنتے ہیں جس میں تمام سطر چھپ جاتی ہے۔ لیکن انسان ایک‬
‫چ ست لباس میں دیکھنا پسند کرتا ہے۔ ا ِس کی‬ ‫دوسرے کو اور خود کو ُ‬
‫بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان آنکھ کے نور سے دیکھ رہا ہو تا ہے ا ِس‬
‫لیے آگ خوبصورت دکھائی دیتی ہیں۔ آگ اس لیے کہہ رہا ہوں کیوں‬
‫کہ ہم ظاہر میں جو کچھ بھی دیکھتے ہیں ا ُس پر آگ کا ایک غالف‬
‫موجود ہوتا ہے۔ جیسے اگر ہم سمندر کی تہہ میں جا کر اپنے ارد گرد‬
‫دیکھیں تو نظر آنے والی ہر چیز اور نظر کے بیچ پانی موجود ہو گا‬
‫ا ُس ی طرح زمین میں ہر جانب منظر اور نظر کے بیچ آگ رہتی ہے۔‬
‫یہ ہے شیطان جسے آگ سے پیدا کیا گیا اور ا ُس آگ کو زمین میں ہوا‬
‫کی مانند موجود رہنے کا اختیار دیا گیا‪ ,‬اور نظر سے اپنا خیال‬
‫‪192‬‬
‫دوسرے شخص کے دماغ تک پہنچانے کا فن عطا کیا گیا۔ جیسے ا ُس‬
‫حو ا کو گندم ک ا دانہ کھانے کی ترغیب دی‪ ,‬تو وہ ا ِسی‬ ‫نے حضرت ّ‬
‫نظر کی طاقت سے دی۔ ہم لوگ ا ُس وقت میں جی رہے ہیں جس میں‬
‫چ کا ہے۔ اور ہر اچھا ب ُ را انسان ا ِس نظام کا غ ُ الم‬ ‫دجال کا نظام قائم ہو ُ‬
‫ہے۔ جسے ہم 'سسٹم' کہتے ہیں۔ یہ نظام لوگوں کو اپنے حساب سے‬
‫چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ لوگ ہی ا ِس کا ح صّ ہ بنتے اور لوگ ہی‬
‫اسے چالتے بھی ہیں لیکن ا ِس کی ڈور شیطان کے ہاتھ میں ہے۔ سب‬
‫لوگ ذہنی طور پر ا ِس سسٹم کے غالم ہیں جو انھیں سوچنے کی‬
‫صالحیت سے محروم کرتا ہے اور دن رات یہی سوچ ہمارے ذہنوں‬
‫میں بھرنے کی کوشش میں محو رہتا ہے کہ تم ا ِس سسٹم کا کچھ نہیں‬
‫بگ اڑ سکتے اگر تم نے اس کے خالف جانے کی کوشش کی تو مار‬
‫دیے جاؤ گے‪ ,‬اور اکثر ہوتا بھی یہی ہے۔ سسٹم کی بنیاد ڈر پر ہے۔‬
‫شیطان کی چال یہ تھی کہ لوگوں کو بے لباس جسم دکھائے جائیں اور‬
‫جب بے لباس جسم دیکھنے والی نگاہیں کسی بالباس جسم کو دیکھتی‬
‫ہیں تو ا ُس لباس میں بے لباسی تالش کرتی ہیں۔ عورت کو فور ا ً‬
‫احساس ہو جاتا ہے کہ ا ُسے کس نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ بے لباس‬
‫جسموں کو دیکھ دیکھ کر اپنی نظر میں شہوت بھرنے والے لوگوں کی‬
‫ہ ِو س سے بھری نظریں صرف دوسری عورتوں پر نہیں بلکہ ا ُن‬
‫لوگوں کی اپنی ماں‪ ,‬بہن‪ ,‬بیوی‪ ,‬بیٹی پر بھی اثر ا نداز ہوتی ہیں خواہ‬
‫وہ انہیں پاک سوچ سے ہی کیوں نہ دیکھ رہے ہوں۔ یہ شہوت اور‬
‫ہ ِو س الل ّٰ ہ کی تجلیات دیکھ کر کم بھی کی جا سکتی ہے۔ جس طرح یہ‬
‫بے لباس اجسام شیطان کی تجلیات ہیں ا ُسی طرح ال ل ّٰ ہ کا نام‪ ,‬ال ل ّٰ ہ‬
‫والوں کی صورت‪ ,‬ال ل ّٰ ہ کی یاد دالنے والی ہر چیز ال ل ّٰ ہ کی ہی تجلی‬
‫ہے۔‬
‫ق جہان کی‬ ‫مسجد‪ ,‬مندر‪ ,‬کلیسا اور اس طرح کی سب جگہیں جو خال ِ‬
‫یاد دالئیں سب الل ّٰ ہ ہی کی تجلیات ہیں۔ جس طرح شیطان کی تجلیات‬
‫سے نظر شر آلودہ ہوتی ا ُسی طرح الل ّٰ ہ کی تجلیات سے نظر وسیع اور‬
‫پ ُ ر نور بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ہم ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ ہم سوچ‬
‫ہی نہیں پاتے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جب لوگ شیطان کے‬
‫نظام کے مغلوب ہوئے تو ا ِس نظام کے تحت ا ُس نے کم لباسی اور بے‬
‫لباسی کو عام کیا۔ ہم لوگ ایسا لباس پہننا پسند کرتے ہیں جس میں‬
‫‪193‬‬
‫ہماری سطر نمایاں ہو۔ جب ہم ایسے کپڑے پہنتے ہیں جن میں ہمارا‬
‫جسم نمایاں ہو تو دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ‪ ,‬ہماری شرمگاہوں‬
‫تک‪ ,‬شیطان کی نظر کی بھی رسائی ہو جاتی ہے اور وہ اپنی نظر کے‬
‫ذریعے ہمارے اندر شہوت‪ ,‬حرص‪ ,‬ہ ِو س‪ ,‬حسد‪ ,‬اللچ‪ ,‬بدگمانی اور‬
‫نفرت وغیرہ بھرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے انسان شیطان کے‬
‫اشاروں پر چلنے پے مجبور ہو جاتا ہے۔‬

‫آگ اور نور کی ایک ترتیب ہے۔ زمین پر ہر چیز میں آگ اور نور‬
‫ایک خاص تناسب سے موجود ہے۔ جیسے پھل‪ ,‬سبزی وغیرہ ا ُگاتے‬
‫ہوئے دھوپ اور پانی کی ضرورت پڑتی ہے‪ ,‬ہوا اور مٹی کی حاجت‬
‫ہوتی ہے ا ِن تمام چیزوں کو خاص تناسب سے اکھٹا کر کے کوئی بھی‬
‫پھل سبزی وغیرہ تیار ہوتا ہے اور جب انسان ا ُسے کھاتا ہے تو ا ُس‬
‫میں موجود نور انسان کے جسم میں گ ھُ ل جاتا ہے اور آگ ا ُس کے‬
‫جسم کے مختلف راستوں سے باہر نکل جاتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو‬
‫درست ہو گا کہ کھانے پینے کی اشیاء کا باطنی ح صّ ہ انسان کے باطن‬
‫میں مل جاتا ہے اور ا ُس کا ظاہری ح صّ ہ ا ُس کے جسم سے باہر آ‬
‫جاتا ہے۔ کھانا پکاتے ہوئے بھی ہم آگ اور پانی کا استمعال کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫ایک چیز پر غور کرنا کہ اکثر چیزوں میں ل ذ ّ ت پیدا کرنے کے لیے‬
‫ا ُسے مختلف مصالحہ جات میں زیادہ سے زیادہ پکایا جاتا ہے۔ خاص‬
‫کر ہمارے برصغیر میں کھانے کی ل ذ ّ ت کی خاطر اکثر ا ُس کی غذائیت‬
‫ہی مار دی جاتی ہے۔ ہم کھانے پکاتے ہوئے درحقیقت ا ُس میں موجود‬
‫نور کو جال کر ا ُس میں آگ بھر رہے ہوتے ہیں اسی وجہ سے انبیاء‪,‬‬
‫اولیاء‪ ,‬صالحین نے سادہ غذا پسند کی کیونکہ لذیذ کھانے انسان کے‬
‫نفس کو لذتوں کا عادی بناتے اور شہوت پر ا ُبھارتے ہیں‪ ,‬اکثر لوگ‬
‫شک ایت کرتے ہیں کہ ہم اپنی نفسانی خواہشات سے ہار جاتے ہیں ا ِس‬
‫کی بھی بنیادی وجہ ہمارا کھانا پینا ہی ہوتا ہے۔ لیکن ا ِس کھانے پینے‬
‫میں وہ سب بھی شامل ہوتا ہے جو ہم دیکھتے اور س ُ نتے ہیں۔ طرح‬
‫طرح کی خوارک ہم اپنے جسم و روح میں ا ُتارتے رہتے ہیں جو‬
‫ہماری گمراہیوں ا ور کوتاہیوں کا باعث بنتی ہے۔ اکثر تم نے س ُ نا ہو‬
‫گا کہ کسی کو کوئی بات سمجھ نہ آئے تو لوگ کہتے ہیں کہ بات ا ُس‬
‫‪194‬‬
‫کے اوپر سے گ ُ زر گئی۔ یعنی بات ا ُسے سمجھ نہیں آئی لیکن ا ِس بات‬
‫کی گہرائی یہ ہے کہ ہمارے س َ ر سے اوپر ایک نور کا سمندر موجود‬
‫ہے جس میں ہم اپنے جسم سے نہیں بلکہ اپنی عقل‪ ,‬اپنی سوچ اور‬
‫اپنے گ ُ مان کے مطابق سفر کرتے ہیں۔ یوں سوچو کہ آسمان سے لے‬
‫کر ہمارے دل تک نور کی ایک لہر موجود ہے اس لہر کا کچھ ح صّ ہ‬
‫ہمارے س َ ر سے لے کر سینے تک موجود ہے اور باقی ہمارے سَ ر‬
‫سے اوپر آسمان تک موجود ہے۔ انسان کے درجات‪ ,‬ا ُس کی س وچ‪ ,‬ا ُس‬
‫کا فہم‪ ,‬سب اسی لہر میں بلند ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص ہم سے‬
‫کوئی ایسی بات کرتا ہے جو ہمارے فہم سے ب ُ لند ہوتی ہے تو وہ بات‬
‫اسی نور میں محفوظ ہو جاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ انسان کا‬
‫فہم ا ُس بات تک پہنچ جاتا ہے اور وہ بات ا ُسے سمجھ آ جاتی ہے۔‬
‫بزرگوں کی محفل میں بیٹھنے کے لیے اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ‬
‫اکثر وقتی طور پر تو یہ باتیں انسان کی سمجھ میں نہیں آتیں لیکن یہ‬
‫باتیں ا ُس کے نور میں‪ ,‬جسے ہم لوگ الشعور کا نام بھی دیتے ہیں‪,‬‬
‫محفوظ ہو جاتیں ہیں اور انسان کی سوچ کو ب ُ لند کرنے میں مدد دیتی‬
‫ہیں۔ یہ نور ہمیں دکھائی نہیں دیتا لیکن شیطان ا ِس نور کو دیکھ سکتا‬
‫ہے اور ا ِس میں اپنے خیاالت باآسانی شامل کر سکتا ہے۔ ا ِس مقصد‬
‫کے لیے ضروری تھا کہ شیطان اتنا ب ُ لند ہو سکے کہ انسان کے قد‬
‫سے ذیادہ بڑے قد کا مالک بن سکے۔ جس طرح نوری اشیاء نور کی‬
‫عالمت ہیں ا ُسی طرح ناری اشیاء آگ کی آماجگاہ ہیں۔ ب ُ لند و باال‬
‫عمارتیں بھی ا ِس کام میں شیطان کی مدد کرتی ہیں۔ زمین کے اوپر‬
‫موجود چیزوں میں نورانیت ذیادہ ہوتی ہے اور زمین کے نیچے‬
‫موجود چیزوں میں آگ ذیادہ ہوتی ہے۔ جب ہم کوئی عمارت تعمیر‬
‫کرتے ہیں تو اگر کوئی کم ب ُ لند عمارت ہے تو محض مٹی او ر لکڑی‬
‫کے استمعال سے تعمیر ممکن ہے لیکن ذیادہ ب ُ لند عمارت بنانا مضبوط‬
‫دھاتوں کو استمعال میں الئے بغیر ممکن نہیں۔ ہر چیز کا کچھ نہ کچھ‬
‫مصرف ہے زمین پر موجود ہر چیز کسی نہ کسی طرح انسان کے حق‬
‫میں یا مخالف کچھ نہ کچھ کردار ضرور ادا کر رہی ہوتی ہے۔ جب ہم‬
‫آگ سے بنی چیزوں کو اپنے ارد گرد جگہ دیتے ہیں تو یہ سب چیزیں‬
‫شیطان کو ہمارے قریب ہونے اور قد میں ہم سے بلند ہونے میں مدد‬
‫کرتی ہیں۔ جس کے ذریعے وہ بلند سے بلند مقام سے ہمارے ذہن پے‬
‫‪195‬‬
‫حملہ آور ہو سکتا ہے۔" ا ُس کی بیوی نے کہا "لیکن کیسے‪ ,‬آخر‬
‫شیطان اتنا طاقتور کیسے ہو جاتا ہے۔؟" ا ُس نے کہا "تمھیں پتا ہے‬
‫شیطان کا قد کتنا ہے۔؟" ا ُس کس بیوی نے نفی میں سر ہالیا تو ا ُس نے‬
‫کہا "شیطان جس کا اصل قد ہمارے پاؤں کے انگوٹھے سے ذیادہ ب ُ لند‬
‫نہیں ہے آج وہ ہم سے اتنا ب ُ لند بنا بیٹھا ہے جتنی ب ُ لندی پر آج یہ‬
‫سیٹالئٹس گھوم رہی ہیں۔ اتنی ب ُ لندی سے جب وہ کسی کے دماغ میں‬
‫کوئی خیال ڈالتا ہے تو انسان کسی کٹھ پ ُ تلی کی طرح ا ُس کا کہا مانتا‬
‫ہے۔" ا ُس کی بیوی نے ا ُلجھے ہوئے لہجے میں کہا "یہ کیسے ہو‬
‫سکتا ہے کہ شیطان ا ِس طرح ہم سب کے دماغ پے اثر انداز ہوتا ہو‪,‬‬
‫اور الل ّٰ ہ نے کیوں دی ا ُسے اتنی طاقت‪ ,‬ا ور اگر ایسا ہے تو ہم ا ُس‬
‫سے کیسے بچ سکتے ہیں۔؟ "‬
‫ا ُس نے مسکرا کر کہا "تمھیں معلوم ہے نا کہ ہمارے ارد گرد ہر‬
‫طرف الگ الگ طرح کی لہریں موجود ہیں۔؟ ریڈیو‪ ,‬ٹی وی‪ ,‬موبائل‬
‫فون‪ ,‬اور نہ جانے کون کون سی لہروں کے جال نے ہمیں ہر طرف‬
‫سے گھیر رکھا ہے‪ ,‬ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے آس پاس ان لہروں کے‬
‫ساتھ کتنے قسم کے الفاظ اور تصاویر گھوم پھر رہے ہیں اور وہ الفاظ‬
‫اور تصاویر ہماری سوچ پر کیا اثر ڈال رہے ہیں۔ شیطان انہی لہروں‬
‫کے ساتھ شب و روز ہمیں اندر ہی اندر کھوکھال کرتا جا رہا ہے۔ جب‬
‫مجھے شیطان کی ا ِن سب طاقتوں کا علم ہوا تو میرے دل نے مجھ‬
‫سے سوال کیا کہ کیا تجھے شیطان سے ڈر نہیں لگ رہا تو میں نے‬
‫دل سے کہا کہ نہیں بلکہ یہ سب س ُ ن کر میں خود کو اور ذیادہ طاقتور‬
‫محسوس کر رہا ہوں کیونکہ وہ شیطان ہے مردود ہے اور انسان‬
‫اشرف المخلوقات ہے۔ تو یقینا ً انسان ا ُس سے کہیں ذیادہ طاقتور ہو گ ا۔‬
‫شیطان کی طاقت دیکھتے ہوئے انسان کو ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ اپنی‬
‫طاقت کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کہتے ہیں کہ کسی کی‬
‫طاقت کا اندازہ کرنا ہو تو ا ُس کے دشمن کو دیکھ لو۔ جتنا کوئی‬
‫شخص طاقتور ہو گا ا ُتنا ہی بڑا ا ُس کا دشمن بھی ہو گا۔ ویسے تو‬
‫معیار‬
‫ِ‬ ‫شیطان سبھی انسان وں کا دشمن ہے لیکن سب لوگ ا ُس کے‬
‫دشمنی تک نہیں پہنچ پاتے۔ کیونکہ عام طور پر لوگ خود ہی اپنے‬
‫دشمن بنے ہوتے ہیں۔ ا ِس لیے شیطان کے اصل دشمن وہ ہوتے ہیں جو‬
‫ا ُس کے بنائے پھندوں سے نکل جاتے ہیں۔ "‬
‫‪196‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ا ُس کی بیوی نے پریشان سے لہجے میں سوال کیا " لیکن اس قدر‬
‫طاقتور دشمن سے کوئی کیسے بچ سکتا ہے۔؟ کیا مکمل پردہ کر کے‪,‬‬
‫حجاب پہن کر شیطان سے بچا جا سکتا ہے۔؟ لیکن وہ تو اتنی ب ُ لندی‬
‫پے بیٹھا ہم سب کی سوچ سے کھیل رہا ہے‪ ,‬ہم کیسے اپنا دفاع کر‬
‫سکتے ہیں۔؟ کیا ا ِن اونچی اونچی عمارتوں کو گرا دیا جائے‪ ,‬کیا ا ِن‬
‫س یٹالئٹس کو تباہ کر دیا جائے‪ ,‬کیا ریڈیو‪ ,‬ٹی وی‪ ,‬موبائل فون وغیرہ‬
‫کو ختم کیے بغیر ہم شیطان سے چ ھُ ٹکارا حاصل نہیں کر سکتے۔؟" تو‬
‫ا ُس نے کہا "کر سکتے ہیں۔ ہم‪ ,‬شیطان سے اور ا ُس کے نظام سے‪,‬‬
‫کہیں ذیادہ طاقتور ہیں۔ شیطان نے خود ایک بات کہی تھی کہ اے الل ّٰ ہ‬
‫تیرے مخل ص بندوں کا میں کچھ نہیں بگاڑ سکوں گا۔ مانا کہ وہ ہمیں‬
‫چ کا ہے اور ہم مجبور ہیں ا ِس بے حجابی کو اپنانے پر۔‬ ‫بے حجاب کر ُ‬
‫کیونکہ ا ِس سسٹم کی غالمی کیے بغیر ہمارا جینا مشکل ہو جائے گا۔‬
‫چ کے ہیں‪ ,‬لیکن ا ِن سب چیزوں کو تباہ نہیں‬ ‫مانا کہ ہم لوگ بہت دور آ ُ‬
‫کرنا بلکہ ش یطان کے ہتھیار‪ ,‬ا ُسی کے خالف استمعال کرنے ہیں۔‬
‫ہمارے ارد گرد یہ جتنی لہریں ہیں یہ سب ہمارے ہی نور کے درجات‬
‫ہیں جن میں جگہ جگہ اب شیطان کا بسیرہ ہے۔ اگر ہم اپنا آپ جان‬
‫جائیں تو انہی لہروں کو اپنے حق میں بھی استمعال کر سکتے ہیں۔‬
‫لیکن اپنا آپ جاننے کے لیے ا ِس وقت میں سب سے پہلے تقسیم سے‬
‫نجات حاصل کرنی ہو گی۔ زمین پر کھنچی لکیروں کی بنیاد پر ہم سب‬
‫نے اپنے اپنے ِد ل میں جتنی لکیریں کھینچی ہیں سب کو ِم ٹا کر ایک‬
‫انسان بن کر سوچنا ہو گا۔ شیطان ہمیں بہکانے میں شیعہ‪ ,‬س ُ نی‪ ,‬ہندو‪,‬‬
‫مسلم نہیں دیکھتا۔ ا ُس کے لیے ہم سب انسا ن ہیں۔ ایک دوسرے کے‬
‫لیے یا الل ّٰ ہ کے لیے نہیں تو دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے ہی ہم‬
‫ایک بار اکھٹے ہو جائیں۔ ا ِس بار کسی ایک ُم لک یا قوم کے نام پر‬
‫نہیں بلکہ انسانیت کے نام پر ایک ہونے کی ضرورت ہے ہمیں۔‬
‫یہ سچ ہے کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شیطان ا ُسے اپنے گھ یرے‬
‫میں لینا شروع کر دیتا ہے۔ اور انسان اپنے دشمن کو پہچان ہی نہیں‬

‫‪197‬‬
‫پاتا اور ا ُس کے بنائے گڑھوں میں ہی اپنی پوری زندگی گ ُ زار کر‬
‫گمراہی کی موت مر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان سے بچنے کے‬
‫لیے الل ّٰ ہ کے ساتھ خالص ہونا ضروری ہے۔ جو الل ّٰ ہ کے ساتھ خالص‬
‫ہو گیا وہ کچھ بھی کرتا پھرے‪ ,‬بے لباس ہو‪ ,‬بے حجاب ہو‪ ,‬بے شرعا‬
‫ہو‪ , ,‬اگر ا ُس کے اعمال سے حقوق العباد متاثر نہیں ہوتے تو ا ِس کا‬
‫مطلب ہے کہ ا ِن تمام تر ب ُ رائیوں کے باوجود شیطان ا ُس کا کچھ نہیں‬
‫بگاڑ سکا اور ایک شخص نمازی ہو‪ ,‬اپنے لباس کا خیال رکھتا ہو‪,‬‬
‫اپنی نظر کی حفاظت کرتا ہو‪ ,‬با اخالق ہو‪ ,‬لوگوں کے حقوق بھی‬
‫پورے کرنے کی کوشش کرتا ہو اور گناہوں سے بھی دور رہتا ہو‬
‫لیکن اگر وہ الل ّٰ ہ کے ساتھ خالص نہ ہو تو سب اعما ِل صالحا کرنے‬
‫کے باوجود وہ گمراہ ہی ہے۔ ا ِس کا مطلب یہ کہ باقی رہ جانے واال‪,‬‬
‫قائم رہ جانے واال اور سچا عمل‪ ,‬الل ّٰ ہ کے ساتھ خالص ہونا ہی ہے اس‬
‫کے عالوہ ہر عمل فانی ہے۔ جس کاغذ پر الل ّٰ ہ کا نام لکھ دیا جائے ا ُس‬
‫کی قدر و منزلت بدل جاتی ہے۔ ا ُسی طرح زندگی کا جو پل الل ّٰ ہ کے‬
‫لیے گ ُ زرا وہی پل زندگی ہے۔ تو جو شخص الل ّٰ ہ کے لیے جینا شروع‬
‫کرتا ہے ا ُس کا ہر کام عبادت ہے‪ ,‬الل ّٰ ہ کے ق ُ رب کا سفر ہے۔ اور جو‬
‫الل ّٰ ہ کے سوا کسی اور مقصد کو اپنی ذندگی کا محور بناتا ہے ا ُس کی‬
‫عبادت و ریاضت بھی گمراہی ہی ہے۔" ا ُس کی بیوی نے حیرت سے‬
‫پوچھا "کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ الل ّٰ ہ کے ساتھ خالص ہو جانے کہ‬
‫بعد گناہ بے اثر ہو جاتا ہے۔؟ وہ گناہ بھی ک رے تو وہ الل ّٰ ہ کے ق ُ رب‬
‫میں ہوتا ہے اور گناہ ا ُسے الل ّٰ ہ سے دور نہیں کرتا۔؟" ا ُس نے مسکرا‬
‫کر کہا "ہاں میں یہی کہہ رہا ہوں۔ جو ال ل ّٰ ہ کے ساتھ خالص ہو جاتا ہے‬
‫ا ُس کا غلط بھی صحیح ہوتا ہے۔ کیونکہ ا ُس کا صحیح اور غلط دونوں‬
‫الل ّٰ ہ کے لیے ہوتا ہے ا ِس لیے وہ ہر ط رح سے صحیح ہوتا ہے۔‬
‫اگرچے کہ لوگ ا ُسے غلط سمجھتے ہوں۔‬
‫جیسے ایک بار بابا فرید رح نے رمضان کے مہینے میں عصر کے‬
‫وقت ایک مہمان ہندو کا دل رکھنے کی غرض سے ا ُس کا الیا ہوا‬
‫شربت پی لیا تو ُم ریدین نے ایک ہندو کی فرمائش پر روزہ توڑ دینے‬
‫پر سخت تنقید کی مگر دوسرے دن سب تنقید کرنے والے شرمندہ ہو‬
‫گئے جب آپ رح کی ا ِس ادا پر ا ُس شخص کا تمام عالقہ مسلمان ہونے‬
‫کے لیے آپ رح کے پاس آ گیا اور کہا کہ کتنا عظیم الشان مذہب ہے‬
‫‪198‬‬
‫آپ کا‪ ,‬جس کے ماننے والے اپنا روزہ توڑنا تو گوارہ کر لیتے ہیں‬
‫لیکن کسی کا دل نہیں توڑتے۔ یہ ا ِسی بات کی م ثال ہے کہ جو الل ّٰ ہ‬
‫کے ساتھ خالص ہو جاتا ہے ا ُس کا غلط بھی صحیح ہو جاتا ہے۔ ایسی‬
‫اور بہت سی مثالیں موجود ہیں جو ا ِس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ‬
‫گناہ یا ثواب کا فیصلہ عمل کرنے والے کے دل کے حال پے ہوتا ہے۔‬
‫قتل کرنے کا حکم ایک جج بھی دیتا ہے اور ایک دہشتگردوں کا لیڈر‬
‫بھی‪ ,‬لیکن دونوں کے حکم میں صحیح اور غلط کا فرق ا ُن کی جگہ‬
‫سے ناپا جاتا ہے نہ کہ ا ُن کے فیصلے سے۔ جب ہم شیطان کا قد سوچ‬
‫کر گھبراتے ہیں تو ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر ا ُس کا قد‬
‫سیٹالئٹس تک ہے تو ہمارا قد تو الہوت تک ہے اگر ہم اپنی روح کے‬
‫اصل قد س ے آشنا ہو جائیں تو شیطان ہم سے گھبرانا شروع ہو جائے‬
‫گا۔شیطان کا یہ کھیل تماشہ انسان کو ا ُس کے اصل کی جانب لوٹنے‬
‫سے روکنے کی سازش ہے اور یہ سازش ا ُسی وقت تک کارگر ہے‬
‫جب تک کہ انسان اپنی پہچان سے دور ہے۔ جس انسان کو اپنی پہچان‬
‫حاصل ہو جائے شیطان ا ُس کا کچھ ن ہیں بگاڑ سکتا۔ جوش ملیح آبادی‬
‫کی ایک رباعی ہے کہ‬

‫ہر رنگ میں ابلیس سزادیتا ہے‬


‫انسان کو بہرطور دغا دیتا ہے‬
‫کرسکتے نہیں گناہ جو احمق ان کو‬
‫بے روح نمازوں میں لگا دیتا ہے‬

‫ا ُس کی بیوی نے غور سے ا ُس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا "کیا ان‬


‫سب باتوں سے آپ مجھے یہ سمجھانا چاہ رہے ہیں کہ آپ ا ُس مقام کو‬
‫چ کے ہیں جہاں غلط بھی صحیح ہو جاتا ہے۔؟" تو ا ُس نے ہنستے‬ ‫پہنچ ُ‬
‫ہوئے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا "نہیں میں تمھارے سوال‬
‫کا جواب دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور اولیاء کا مقام سمجھا رہا‬
‫تھا۔ میں تو بہت ناقص شخص ہوں‪ ,‬میں تو اخال ص والوں کی گرد کو‬
‫بھی نہیں پہنچ سکتا۔" ا ُس کی بیوی نے ا ُداس سے لہجے میں کہا "آپ‬
‫اپنے دشمن کو اتنی اچھی طرح پہچانتے ہیں پھر بھی آپ ا ُس کی چال‬
‫میں پھنسے ہوئے ہیں‪ ,‬کیا فائدہ ایسے علم کا جس سے آپ اپنا آپ ہی‬
‫‪199‬‬
‫درست نہیں کر پائے‪ ,‬یہ سب مایوسی کیوں ہے آپ کے ساتھ۔؟ اگر آپ‬
‫شیطان کو اور ا ُس کے کھیل کو اتنی اچھی طرح سمجھتے ہیں تو‬
‫کیوں ا ُس کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔؟" تو ا ُس نے کہا "میں‬
‫کھلونا نہیں ہوں‪ ,‬مجھ سے کھیلنے کے لیے شیطان کو دو چار دفعہ‬
‫اور پیدا ہونا پڑے گا۔ میں جیسا بھی ہوں‪ ,‬جو بھی کرنے میں مگن ہوں‬
‫لیکن اپن ے رب کی یاد سے غافل نہیں ہوں۔ میں ٹوٹ رہا ہوں‪ ,‬لیکن‬
‫ابھی بکھرا نہیں ہوں۔ ڈوب رہا ہوں‪ ,‬لیکن ابھی ڈوبا نہیں ہوں‪,‬‬
‫ضروری تو نہیں ہے کی ڈوب ہی جاؤں۔ ا ُبھر بھی تو سکتا ہوں۔ اپنی‬
‫تمام تر ب ُ رائی کے باوجود مجھے یقین ہے کہ میرا ُم رشد میرے ساتھ‬
‫ہے۔ اولیاء الل ّٰ ہ ہر ط رح کے اچھے ب ُ رے لوگوں کو ا ِس خاطر بھی‬
‫فیضیاب کر دیتے ہیں تاکہ ہر طرح کی اچھی ب ُ ری محفلوں تک الل ّٰ ہ کا‬
‫پیغام پہنچ سکے۔ گناہگار ہونا الل ّٰ ہ سے دور ہونے کی یا نیکوکار ہونا‬
‫الل ّٰ ہ کے قریب ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ کسی شخص کا معیار صرف‬
‫معیار گ ُ فتگو سے ہی پر کھا جا سکتا ہے۔ اگر تاریخ ا ُٹھا کر‬
‫ِ‬ ‫ا ُس کے‬
‫دیکھو تو بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں جو ویسے تو شرابی قسم کے‬
‫لوگ تھے لیکن ا ُن کا لکھا کالم مسجدوں‪ ,‬درگاہوں‪ ,‬میالد وغیرہ میں‬
‫دلگیر عقیدتوں اور بے اختیار رقتوں کے ساتھ س ُ نا اور س ُ نایا جاتا ہے۔‬
‫اور بہت سے عابد‪ ,‬زاہد لوگوں کے پا س تنقید کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔‬
‫تم جو کہہ رہی ہو میرے ذہن میں بھی ایسے خیال آتے رہتے ہیں لیکن‬
‫میں خود کو راضی نہیں کر پاتا۔ میں ہمیشہ اپنے رب کو محسوس کر‬
‫کے چال ہوں ا ُس کا احساس کم یا ذیادہ ہوتا محسوس ہو جاتا ہے‬
‫مجھے‪ ,‬لیکن میں اپنی تمام غلطیوں کے باوجود ا ِس احساس کو کم ہوتا‬
‫محسوس نہیں کرتا شاید ا ِسی لیے ا ِس سب کو بدلنے کی فکر بھی نہیں‬
‫کر پایا۔ لیکن تمھاری بات میں دم ہے۔ میں انشاء الل ّٰ ہ کوشش ضرور‬
‫کروں گا ۔‬

‫‪200‬‬
‫''باب۔ ‪'' 01‬‬
‫اتنا کہہ کر ا ُس نے اپنی بات پے واپس آتے ہوئے کہا "ایک دفعہ میں‬
‫نے سوچا کہ شیطان ہمارے ارد گرد موجود ہے تو ہم ا ُسے اور وہ‬
‫ہمیں ضرور چ ھُ وتا ہو گا لیکن ا ِس بات کی عقلی دلیل کیا ہے۔؟ ا ِس‬
‫بات کو کس طرح ثابت کیا جا سکتا ہے کہ آگ ہمیں یا ہم آگ کو‬
‫چ ھُ وتے ہیں۔؟ کوئی ظاہری روپ‪ ,‬کوئی ظاہری اثر ایسا ضرور ہو گا‬
‫جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو گی۔ جب ا ِس سوال میں ا ُلجھ گیا تو‬
‫س ُ لطان محمد علی صاحب سے یہی سوال دل زبانی پوچھا تو جواب‬
‫میں ایک اور سوال ِم ال‪" ,‬تم نے ناخن تراشے کہ نہیں۔؟" میں نے کہا‬
‫"جی دو تین دن پہلے ہی تراشے تھے‪ ,‬آپ حکم کریں تو دوبارہ تراش‬
‫لیتا ہوں۔ لیکن ا ِس بات کا کوئی جواب نہ ِم ال۔ تو میں نے سوچا کہ‬
‫شاید میرے ناخن میں کوئی ایسی ناپاکی موجود ہے جس کے باعث‬
‫ُم رشد پاک نے مجھے میرے سوال کا جواب دینے کی جگہ مجھے‬
‫ناخن تراشنے کو کہا ہے لیکن ناخن تو بہت چھوٹے ہیں میرے‪ ,‬اور‬
‫صاف بھی ہیں۔ خیر میں نے انہیں پھر سے تراشنے کا ارادہ کیا‪ ,‬مگر‬
‫جب ارادہ کیا تو ایک سوچ آئ ی کہ ُم رشد پاک نے ناخن تراشنے کی‬
‫بات کہی‪ ,‬کہیں یہی میرے سوال کا جواب تو نہیں۔؟ جب غور کیا تو‬
‫پتا چال کہ آگ ہمارے جسم کو چند مقامات سے قدرتی طور پر چ ھُ وتی‬
‫ہے اور ان مقامات پر آگ کا کچھ ح صّ ہ رہ جاتا ہے اسی لیے ناخن‬
‫اور جسم کے کچھ ح صّ وں کے بال تراشنے کو کہا ج اتا ہے۔ جسم کے‬
‫ا ِن خاص ح صّ وں کے عالوہ بھی شیطان ہمارے پورے جسم کو شہوت‬
‫کا نمونہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ چہرہ‪ ,‬بال‪ ,‬سینہ‪ ,‬کمر‪ ,‬ٹانگیں ہر‬
‫چیز کو آگ کے لحاظ سے ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ عورت اور‬
‫مرد کی خوبصورتی کا ایک معیار صبح شام ہمارے سامنے پیش کیا‬
‫جاتا ہے او ر ہم سب ا ُس معیار پر پورا ا ُترنے کی کوشش میں مصروف‬
‫رہتے ہیں۔ مرد چاہے کتنا ہی کم صورت ہو لیکن خوبصورت بیوی کا‬
‫خواہشمند رہتا ہے۔ یہ خواہش ایک حد تک جائز ہے لیکن ا ُس سے‬
‫آگے یہ خواہش فتنہ فساد کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔اکثر لوگ دل سے‬
‫بہت حسین ہوتے ہیں لیکن شیطان نے جو پیمانے لوگوں کی آنکھوں‬

‫‪201‬‬
‫میں گھول رکھے ہیں ا ُن کے باعث ہم ا ُن لوگوں کی خوبصورتی دیکھ‬
‫ہی نہیں پاتے۔‬
‫میں جب ‪ 6‬ویں کالس میں تھا تو اردو کی کتاب میں عالمہ اقبال رح‬
‫کی نظم شکوہ‪ ,‬جوا بِ شکوہ پڑھنے کا موقعہ مال۔ اردو کے ٹیچر کو‬
‫نہ جانے مجھ میں ایسا کیا نظر آیا کہ انہوں نے مجھے 'شکوہ' یاد‬
‫کرنے اور صبح اسمبلی میں سارے اسکول کے بچوں کے سامنے‬
‫پڑھنے کے لیے کہا اور مجھے ایک شعر کی بھی سمجھ نہیں تھی‪,‬‬
‫بہت مشکل سے میں نے وہ الفاظ یاد کیے تھے اور تھر تھر کانپتے‬
‫ہوئے پورے اسکول کے سامنے اتنا ب ُ را پڑھا تھا کہ کئی دن لڑکے‬
‫م جھے جہاں دیکھتے تو کہتے کہ "ہمیں تم سے یہ شکوہ ہے کہ تم نے‬
‫'شکوہ' بہت ب ُ را پڑھا۔" لیکن وقت کے ساتھ ا ُس کی سمجھ بھی ِم ل‬
‫گئی۔ اپنے کالم 'شکوہ' میں ایک جگہ اقبال رح فرماتے ہیں کہ‬
‫ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر ‪..‬‬
‫کہیں مسجود تھے پتھر‪ ,‬کہیں معبود شجر ‪..‬‬
‫پیکر محسوس تھی انساں کی نظر ‪..‬‬ ‫ِ‬ ‫وگر‬
‫خ ِ‬ ‫ُ‬
‫مانتا پھر کوئی اندیکھے ُ‬
‫خ دا کو کیونکر ‪..‬‬
‫ا ُس کی بیوی نے کہا "بس ایک مصرعہ سمجھ نہیں آیا" تو ا ُس نے‬
‫ایک بھر پور مسکراہٹ سے کہا "جو مصرعہ سمجھ نہیں آیا ا ُسی کو‬
‫خ وگر" مطلب‬ ‫سمجھانے کے لیے اتنی ساری تمہید باندھی ہے۔ " ُ‬
‫"پیکر محسوس" مطلب ایسا پیکر جسے محسوس کیا جا‬ ‫ِ‬ ‫طلبگا ر۔‬
‫سکے۔ اقبال رح یہاں یہ بات کہ رہے ہیں کہ لوگ خدا کے نام پر کسی‬
‫ایسے سراپے کا اقرار کرتے تھے کہ جسے وہ دیکھ سکتے۔ تو اقبال‬
‫اپنا شکوہ بیان کرتے ہوئے اسالم سے پہلے کا منظر بتاتے ہیں کہ‬
‫خ داؤں کی پرستش میں محو تھا‬ ‫مسلمانوں سے پہلے انسان ایس ے ُ‬
‫جسے وہ دیکھ سکتا تھا‪ ,‬چ ھُ و سکتا تھا‪ ,‬محسوس کر سکتا تھا‪ ,‬تو‬
‫خ دا کو کیسے مانتا۔‬‫ایسے وقت میں کوئی اندیکھے ُ‬
‫شیطان اسی چال سے انسان کو بے وقوف بناتا آیا ہے کہ وہ انسان کی‬
‫پیکر محسوس" بناتا ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫وگر‬
‫خ ِ‬ ‫نظر کے ذریعے ا ُس کی سوچ کو " ُ‬
‫زمین میں ہمیں اپنے ارد گرد جو کچھ بھی دکھائی دیتا ہے ہم ا ُسے‬
‫ظاہری طور پر چ ھُ و کر جان سکتے ہیں لیکن اپنی ذات کے لیے الل ّٰ ہ‬
‫چ نا جسے نہ چ ھُ وا جا سکے اور نہ دیکھا جا سکے۔ ا ُس‬ ‫نے ایسا روپ ُ‬
‫‪202‬‬
‫نے ہر شئے میں سما کر‪ ,‬ہر جگہ موجود رہ کر بھی ہر ایک کی نظر‬
‫سے پوشیدہ رہ نے کا فیصلہ کیا۔ انسان کی فطرت ہے کہ یہ ماحول‬
‫سے مانوس ہو جاتا ہے۔ لوگوں نے جب ہر چیز کو الگ الگ وجود‬
‫کے ساتھ دیکھا تو الل ّٰ ہ کو بھی مجسم صورت میں دیکھنے کی چاہ پیدا‬
‫ہوئی اور اسی بات کا فائدہ ا ُٹھا کر شیطان نے ا ُنہیں آگ‪ ,‬جانوروں‪,‬‬
‫اور پارسا لوگوں سے لے کر س ورج‪ ,‬چاند‪ ,‬ستاروں تک ہر دوسری‬
‫شئے کو سجدہ کرنے پر مجبور کیا۔ دھیرے دھیرے لوگوں کو سمجھ‬
‫خ دا یہ سب نہیں بلکہ ا ِس سب کا پیدا کرنے واال ہے۔ آہستہ‬ ‫آئی کہ ُ‬
‫خ دا کی ذات سمجھ آنا شروع ہوئی تو انہیں‬ ‫آہستہ لوگوں کو ا َن دیکھے ُ‬
‫خ دا کی موجودگی کا احساس ملنا شروع ہوا ل یکن جب ہم شیطان کے‬ ‫ُ‬
‫وگر‬
‫خ ِ‬ ‫بنائے ہوئے نظام کے غالم ہوئے تو ا ُس نے پھر سے ہمیں " ُ‬
‫پیکر محسوس" بنانا شروع کر دیا۔ انبیاء‪ ,‬اولیاء‪ ,‬صالحین کی کرامتوں‬ ‫ِ‬
‫پر شک کرنا لوگوں کی عادت ہے کیونکہ ہم دن رات بناوٹ میں‬
‫سچائی دیکھنے کے عادی ہیں۔ ہم اپنی نارمل زندگی میں کسی مرد یا‬
‫عورت کو ا ُتنے زاویوں سے نہیں دیکھتے جتنے زاویوں سے ہماری‬
‫فلمیں اور ڈرامے ہمیں مرد و زن کا جسم دکھاتے ہیں۔ عام زندگی میں‬
‫ہم اتنے حادثات بھی نہیں دیکھتے جتنے حادثات ہمیں ٹی وی دکھا دیتا‬
‫ہے۔ جرائم‪ ,‬دھوکہ‪ ,‬محبت‪ ,‬نفرت اور نہ جانے کون کون سے‬
‫ج ڑی داستانیں ہمارے گمان کے دریچوں میں گھر‬ ‫موضوعات سے ُ‬
‫کیے رہتی ہیں اور انسان انہی جھوٹی کہانیوں میں اپنی زندگی کی‬
‫سچائی تالش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ ساتھ ساتھ ا ُسے یہ بھی‬
‫سمجھ آتا جاتا ہے کہ صفائی اور سچائی سے جھوٹ بولنا بھی ایک فن‬
‫ہے جسے خلوص سے نبھانے واال ایک سچا فن کار کہالتا ہے۔ جب ہم‬
‫جھوٹ میں سچائی تالش کرنے کے عادی ہو گئے تو ہمیں ہر سچ میں‬
‫جھوٹ دیکھنے کی عادت ہو گئی۔ ہم الل ّٰ ہ اور الل ّٰ ہ والوں سے بدگمان‬
‫ہونا شروع ہو گئے۔ ہم میں سے چند لوگ اپنی دنیاوی خواہشات کے‬
‫ہاتھوں کسی ڈھونگی پیر وغیرہ کا نشانہ بنتے ہیں اور ایس ی وارداتوں‬
‫کی کہانیاں ہزاروں لوگوں کو سچے ال ل ّٰ ہ والوں سے دور کرنے کے‬
‫خ دا کے انکار میں محو ہیں۔ اگر‬ ‫کام آتی ہیں۔ ہم پھر سے ا َن دیکھے ُ‬
‫َم ن چاہی عزت‪ ,‬دولت‪ ,‬شہرت وغیرہ ہے تو الل ّٰ ہ ساتھ ہے اور اگر یہ‬
‫سب نہیں ہے تو ال ل ّٰ ہ ساتھ نہیں ہے۔ ال ل ّٰ ہ واال اگر اچھی نوک ری‪ ,‬اچھی‬
‫‪203‬‬
‫عورت‪ ,‬اچھا کاروبار دیتا ہے تو وہ الل ّٰ ہ واال ہے اور اگر ہماری‬
‫خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو وہ الل ّٰ ہ واال ہی نہیں ہے۔ آج ہم سورج‪,‬‬
‫چاند‪ ,‬ستاروں جیسی چیزوں کی جگہ دنیا‪ ,‬نفس‪ ,‬اور شیطان کی‬
‫پرستش میں محو ہیں۔ جس طرح وہ لوگ ظاہری صورت کی خاطر‬
‫مختلف مخلوق کی پوجا میں مصروف تھے ا ُسی طرح ہم بھی آج اپنی‬
‫خواہشات کی پرستش میں مصروف ہیں۔‬
‫دور جاہلیت کے وہ ب ُ ت پرست‪ ,‬وہ کافر‪ ,‬وہ یہود و نصارا شاید ہم سے‬ ‫ِ‬
‫بہتر تھے‪ ,‬کیونکہ ا ُن کے ب ُ ت‪ ,‬ا ُن کا ک ُ فر سب کے سامنے تھا۔ لیکن ہم‬
‫تو اپنے ب ُ ت‪ ,‬اپنا ک ُ فر‪ ,‬اپنی روح میں چ ھُ پائے جی رہے ہیں۔ وہ لوگ‬
‫جو بیٹیوں کو زندہ دفنا کر دیا کرتے تھے وہ شاید اپنے گناہوں کی‬
‫ادائیگی میں ہم سے زیادہ صاف گو تھے۔ ہمارے معاشرے میں بیٹیوں‬
‫کو زندہ دفنانے کی رسم تو نہیں ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ایسی‬
‫بہت سی رسمیں ہیں جن کے باعث بہت سی بیٹیاں جیتے جی ہر روز‬
‫ب ار بار دفن کی جاتی ہیں اور ہم ا ِس عمل کو گناہ ماننے کی جگہ ا ِس‬
‫سب کو اپنا فرض یا حق سمجھ کر نبھاتے ہیں۔ یہود و نصارا جن کے‬
‫بارے میں قرآن کی زبانی الل ّٰ ہ نے کہا کہ یہ کبھی تمھارے دوست نہیں‬
‫ہو سکتے وہ یہود و نصارا آج ہمارے اندر موجود ہیں۔ یہ یہود و‬
‫نصارا امر یکہ‪ ,‬اسرائیل وغیرہ نہیں بلکہ نفس اور دنیا کی خواہشات‬
‫ہیں جس نے تمام انسانوں کو مذہب و مسلک کی تمیز کے بغیر اپنے‬
‫شکنجے میں پھنسا کر ذلیل کر رکھا ہے۔ ہم امریکہ‪ ,‬اسرئیل یا انڈیا‬
‫سے جنگ کرنے کو جہاد کہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خالف جنگ کو‬
‫اپنا مقصد بتاتے ہیں لیکن ن فس کے خالف‪ ,‬دنیا اور شیطان کے خالف‬
‫جنگ کرنے کا کسی کو خیال نہیں آتا۔ ہم لوگوں کو ال ل ّٰ ہ‪ ,‬ایشور‪,‬‬
‫عیسی ‪ ,‬محمد کے نام پر‬ ‫ٰ‬ ‫موسی ‪,‬‬
‫ٰ‬ ‫بھگوان کے نام پر اعتراض ہے‪,‬‬
‫اعتراض ہے‪ ,‬ا ِن مقدس ناموں کے عالوہ اور بہت سے نام ہیں جن کی‬
‫بنیاد پر ہم مذہب‪ ,‬مسلک‪ ,‬رنگ و نسل کی دشمنی نبھانے میں مصروف‬
‫ہیں۔ لیکن ا ِس مشترکہ دشمن 'شیطان' پر تو سب کی رائے ایک ہے نا۔‬
‫اس دشمن سے لڑنے کی خاطر ہی ایک ہو جائیں۔ جیسے اکثر فلموں‬
‫میں دکھاتے ہیں کہ کسی دوسری دنیا کی مخلوق زمین پر حملہ کر‬
‫دیتی ہے۔ ا ُسی طرح اگر سچ میں کوئی مخلوق حملہ آور ہو جائے تو‬
‫سب زمین والے محض انسانیت کی بقا کے لیے اکھٹے ہو کر ا ُس‬
‫‪204‬‬
‫مخلوق کا مقابلہ کریں گے۔ تو ا ِس وقت شیطان کی طرف سے انسان‬
‫کے خالف یہی جنگ چل رہی ہے۔ لیکن ہم میں کسی کو ا ِس جنگ کی‬
‫پرواہ نہیں ہے۔‬

‫‪205‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ا ُس نے سگریٹ س ُ لگاتے ہوئے اداس سے لہجے میں ک ہا "میری بہت‬
‫خواہش تھی کہ ا ِس جنگ میں انسانیت کی کچھ مدد کر سکتا لیکن میں‬
‫کچھ بھی نہیں کر پایا‪ ,‬انسانیت کی مدد تو دور‪ ,‬میں تو اپنی مدد بھی‬
‫نہیں کر پایا۔ تو ا ُس کی بیوی نے ا ُس کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش‬
‫کرتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا "آپ اتنی بڑی بڑی باتیں اتنی‬
‫آسانی سے سمجھا جاتے ہیں کہ جن کے لیے ہمیں الفاظ ہی نہیں ملتے۔‬
‫یہ مت سوچیں کہ آپ کچھ نہیں کر سکتے بلکہ یہ سوچیں کہ آپ سب‬
‫کچھ کر سکتے ہیں‪ ,‬شیطان آپ کے حوصلے توڑنے کی کوشش میں‬
‫ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر آپ ا ُس کے خالف کھڑے ہو گئے تو‬
‫وہ آپ کا کچھ بھی نہیں بگ اڑ پائے گا‪ ,‬ا ِس خوف سے وہ آپ کو آپ کی‬
‫ہی نظروں میں کمزور ثابت کر کے آپ کو آپ کے مقصد سے دور کر‬
‫رہا ہے۔" ا ُس نے خالی خالی آنکھوں سے اپنی بیوی کی جانب دیکھتے‬
‫ہوئے کہا "میرا مقصد تم لوگوں کو آگے النا تھا‪ ,‬اب تم لوگ اپنی جگہ‬
‫پہنچ گئے ہو‪ ,‬اس لیے اب میرے ہونے کا مقصد ختم ہو گیا ہے" ا ُس‬
‫کی بیوی نے ا ُس کے کندھے پکڑ کر ا ُسے جھجھوڑتے ہوئے کہا "یہ‬
‫فیصلہ کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں کہ کس کا مقصد پورا ہو گیا اور‬
‫کس کا نہیں‪ ,‬اگر آپ کا مقصد پورا ہو گیا ہوتا تو آپ ا ِس وقت زندہ ہی‬
‫نہیں ہوتے‪ ,‬آپ زندہ ہیں‪ ,‬ا ِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا مقصد ابھی‬
‫باقی ہے۔ موت تب آئے گی جب ا ُس نے آنا ہے‪ ,‬ال ل ّٰ ہ نے ہم سب کو‬
‫ایک مقررہ وقت دیا ہے لیکن ا ِس وقت کو کس طرح گ ُ زارنا ہے یہ‬
‫ہماری مرضی پر ہے‪ ,‬انسان کی اصل شخصیت ا ُس کا دنیاوی کام کاج‬
‫نہیں بلکہ ا ُس کا دل ہوتا ہے‪ ,‬وہ کسی فیکٹری کا مالک ہو یا کوئی ع ام‬
‫مزدور‪ ,‬الل ّٰ ہ ا ُسے ا ُس کے دل کے حال سے جانتا ہے‪ ,‬آپ ا ِس بات کی‬
‫پرواہ چھوڑ دیجیے کہ آپ الل ّٰ ہ کا پیغام عام کر سکتے ہیں یا نہیں۔ آپ‬
‫ا ُس کے ساتھ زبردستی تو نہیں کر سکتے نا‪ ,‬ا ُس کی مرضی ہے کہ وہ‬
‫جس کو چاہے اپنے پیغام کی ترسیل کے لیے استمعال کرے اور جسے‬
‫چاہے چ ھُ پا کر رکھے۔ تو آپ کیوں ا ِس فکر میں خود کو تباہ کرنے‬
‫میں مصروف ہیں کہ میں پیغام عام نہیں کر رہا۔ جب ال ل ّٰ ہ چاہے گا تو‬
‫‪206‬‬
‫خود بہ خود آپ اس پیغام کا ح صّ ہ بن جائیں گے۔ اور انشاء الل ّٰ ہ وہ‬
‫وقت ضرور آئے گا جب آپ ُم رشد پاک کا پیغام وہاں تک پہنچائیں گے‬
‫جہاں میں ب ھی نہیں پہنچا سکی لیکن تب تک خود کو سنبھال کر‬
‫رکھیں‪ ,‬آپ اپنے دشمن کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں‪ ,‬لیکن ا ُس کا‬
‫مقابلہ کرنے کی جگہ آپ ہتھیار ڈال کر میدان چھوڑنے کی تیاری میں‬
‫مشغول ہیں۔ بس یہی غلطی ہے آپ کی۔ اور یہی آپ کے دشمن کی فتح‬
‫ہے" اپن ی بیوی کی بات س ُ ن کر ا ُس کی مایوسی میں ڈوبی آنکھوں میں‬
‫ا ُمید کی ایک مدھم سی کرن نمودار ہو رہی تھی۔ ا ُس نے کہا "ہاں شاید‬
‫تم ٹھیک کہہ رہی ہو ۔ میں کوشش کروں گا خود کو ا ِس مایوسی سے‬
‫نکالنے کی" ا ُس کی بیوی نے کہا "میں آپ کے ساتھ ہوں‪ ,‬آپ کوشش‬
‫کیجیے انشاء الل ّٰ ہ مہربانی ہو گی۔ آپ کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے‬
‫کہ آپ نے ُم رشد پاک سے ظاہری طور پر ملنا چھوڑ دیا ہے۔ آپ کے‬
‫الفاظ بار بار ا ِس بات ثبوت پیش کرتے ہیں کہ ُم رشد پاک سے آپ کا‬
‫باطنی رابطہ بہت مضبوط ہے لیکن ظاہری رابطہ بھی کچھ معانی‬
‫رکھتا ہے اور ا ِس سب مسئلے کی جڑ یہی ہے کہ آپ نے ظاہری‬
‫راب طہ ختم کر لیا ہے ا ِسی لیے آپ کا ظاہر بگڑنا شروع ہو گیا ہے۔"‬
‫ا ُس نے اپنی بیوی کی تائید کرتے ہوئے کہا "ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔‬
‫الل ّٰ ہ خیر کرے گا‪ ,‬انشاء الل ّٰ ہ میں ضرور کوشش کروں گا۔ اور اب تم‬
‫پریشان نہیں ہونا‪ ,‬مجھے بات سمجھ آ گئی ہے‪ ,‬تھینکس‪ ,‬تم نے مجھے‬
‫وہ کچھ س مجھایا جو میں خود سے سمجھنا نہیں چاہ رہا تھا۔ اصل میں‬
‫میری چال ہی ا ُلٹی ہے شاید‪ ,‬ایک دفعہ مجھے استھما کا مرض ہو گیا‬
‫تھا۔ ایک دن اٹیک ہوا تو میں تھوڑا سا گھبرایا‪ ,‬دوسرے دن دفتر میں‬
‫ایک سموسہ کھایا اور ٹھنڈا یخ پانی پیا اور ساتھ ہی سگریٹ س ُ لگا لیا۔‬
‫ابھی ایک دو کش ہی لگائے تھے کہ سانس آنا تقریبا ً بند ہو گیا‪,‬‬
‫گھبراہٹ سے آنکھ سے خود بہ خود آنسو آنا شروع ہوئے تو میں اپنی‬
‫حالت پے بے ساختہ مسکرا ا ُٹھا۔ دفتر کے لوگ ڈاکٹر کے پاس لے کر‬
‫گئے تو ڈاکٹر نے مجھے نیبالئز کرنے کے بعد مجھے کہا کہ ٹھنڈی‬
‫اور کھٹی چیزیں بلکل نہیں استمعال کرنی ہیں آپ نے‪ ,‬تو میرے ساتھ‬
‫گئے دفتر والوں میں سے ایک نے کہا ڈاکٹر صاحب اسے سگریٹ سے‬
‫بھی تو منع کیجیے‪ ,‬تو ڈاکٹر نے چونک کر مجھ سے پوچھا تم سگریٹ‬
‫پیتے ہو۔؟ خبردار سگریٹ تو تمھارے جیسے مریض کے لیے خود‬
‫‪207‬‬
‫کشی ہے۔ اگر تم نے سگریٹ پیا‪ ,‬تو اگلی دفعہ اٹیک ہو تو میرے پاس‬
‫نہیں آنا۔ ڈاکٹر کی بات س ُ ن کر میں اور ڈر گیا۔ دوپہر میں ایک بجے‬
‫کے آس پاس مجھے اٹیک ہوا تھا اور شام پانچ‪ ,‬ساڑھے پانچ تک میں‬
‫نے ڈر کے مارے ایک سگریٹ بھی نہیں پیا۔ لیکن شام کو جب میں‬
‫گھر سے باہر نکال تو دل میں خیال آیا کہ شاید شیطان نے میرے‬
‫سا نس کے ذکر پر حملہ کیا ہے۔ یہ سوچ کر میں نے کہا اے شیطان‬
‫تیری یہ ہمت کہ ت ُو میرے ذکر پے حملہ آور ہوتا ہے۔ اتنا کہتے ہوئے‬
‫دل میں خیال آیا کہ ت ُو تو خود شیطان سے ڈرا ہوا ہے کہ کہیں یہ پھر‬
‫سے میرا سانس بند نہ کر دے‪ ,‬اسی لیے تین چار گھنٹے سے ت ُو نے‬
‫کچھ بھی نہیں کھایا پیا۔ پھر ت ُو کس منہ سے شیطان پر بھڑک رہا ہے۔‬
‫یہ سوچ آتے ہی میں نے بازار کا ُر خ کیا۔ چاٹ والے سے تیز مرچ‬
‫مصالے والی چاٹ بنانے کو کہا اور ساتھ ہی ٹھنڈے یخ سوڈے کا‬
‫گالس خریدا اور چاٹ کے ساتھ ساتھ سوڈا ختم کیا پھر سگریٹ س ُ لگا‬
‫کر ایک اور دکان پر گیا اور ٹھنڈی ٹھنڈی لسی پی۔ اور گھر واپس‬
‫آنے تک تین چار سگریٹ اور پی لیے۔‬
‫اب یہ عالج نہیں بلکہ خود کشی کی ہی کوشش گنی جائے گی لیکن یہ‬
‫حرکت کرنے کے بعد سے آج تک مجھے دوبارہ سانس کا مسئلہ نہیں‬
‫ہ ُوا۔ خیر وہ سب اپنی جگہ لیکن انشاء الل ّٰ ہ میں خود کو بدلنے کی‬
‫کوشش ضرور کروں گا۔ تم پریشان مت ہو۔ الل ّٰ ہ خیر کرے گا۔ تم نے‬
‫بیوی کا حق ادا کر دیا‪ ,‬مجھے ناز ہے تم پر اور میں الل ّٰ ہ کا شکر‬
‫گزار ہوں کہ ا ُس نے اتنی اچھی بیوی دی مجھے۔" ا ُس کی تعریف پر‬
‫ا ُس کی بیوی نے دھیمی سی مسکراہٹ سے کہا "یہ سب میں اپنے‬
‫شوہر کے لیے نہیں بلکہ اپنے ُم رشد پاک کے ُم رید کے لیے کر رہی‬
‫ہوں‪ ,‬جب تک شوہر کے لیے کوشش کرتی رہی تب تک میں ناکام ہی‬
‫رہی لیکن آج جب الل ّٰ ہ کا بندہ سمجھ کر‪ ,‬ایک بیوی کی سوچ سے نکل‬
‫کر‪ ,‬محض ایک انسان بن کر ایک انسان کی مدد کرنے کی کوشش کر‬
‫رہی ہوں‪ ,‬تو سب آسان لگ رہا ہے۔ میں بیوی کی طرح آ پ کی مدد‬
‫نہیں کر سکی‪ ,‬بہت جلدی مایوس ہو جاتی تھی‪ ,‬لیکن اب میں پ ُ ر امید‬
‫ہوں۔ الل ّٰ ہ کرم کرے گا۔ انشاء الل ّٰ ہ کوئی ایسا سبب بنے گا کہ سب‬
‫ٹھیک ہو جائے گا۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ ُم رشد پاک نے آپ کو جو‬
‫ڈھیل دی ہوئی ہے وہ جلد ہی ختم ہونے والی ہے اور ُم رشد پاک آپ‬
‫‪208‬‬
‫ک و کان سے پکڑ کر واپس لے کر آئیں گے۔ آپ کی بات مجھے سمجھ آ‬
‫رہی ہے شاید ا ِس سب میں میری اپنی تربیت بھی پوشیدہ تھی۔ میں نے‬
‫اپنے دل میں آپ کی محبت کا ایک بہت بڑا ب ُ ت تراش رکھا تھا جو‬
‫شاید آپ کو مایوسی میں ڈولتے دیکھ کر ٹوٹ گیا۔ ا ِسی لیے میں نے‬
‫آپ کو چھوڑ کر جا نے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لیکن آج آپ کی بات س ُ ن‬
‫کر مجھے آپ میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ لیکن یہ سب آپ جیسے‬
‫شخص کو زیب نہیں دیتا‪ ,‬اب میں آپ کو کسی چیز سے نہیں روکوں‬
‫گی۔ اب آپ کو ُم رشد پاک خود ہی روکیں گے۔ مجھے آپ سے کسی‬
‫قسم کا کوئی شکوہ نہیں ہے۔ اگر آپ خود کو م جھ سے دور نہ کرتے‬
‫تو شاید میں اپنا آپ کبھی نہ پہچان سکتی۔ مجھے معلوم تھا کہ آپ‬
‫غلط نہیں ہیں لیکن میں خود کو سمجھانے سے قاصر تھی۔ کامل ُم رشد‬
‫کی شان ہے کہ طالب کے دل میں رکھے تمام ب ُ ت توڑ کر ا ُس دل کو‬
‫کعبہ بناتا ہے۔ اگر آپ یہ سب نہ کرتے تو میں خود پر کبھی اع تماد نہ‬
‫کر پاتی۔ ا ِس سب کے پیچھے آپ کے لیے بھی کچھ سبق تھے اور‬
‫میرے لیے بھی لیکن ا ِب بس کریں۔ اپنا آپ سنبھالیں واپس پلٹیں۔ ابھی‬
‫بہت سا کام باقی ہے اور جو آپ کے ح صّ ے کا کام ہے وہ آپ ہی نے‬
‫کرنا ہے ا ُسے کوئی اور نہیں کر سکتا۔ ا ِس لیے ا ِن مایوسی کے‬
‫خیاالت سے ک نارہ کیجیئے اور واپس آئیں۔ چلیں اب سو جائیں صبح‬
‫دفتر بھی جانا ہے آپ نے" ا ُس رات جب وہ سونے کے لیٹا تو بہت دیر‬
‫تک اپنی بیوی کی باتوں پر غور کرتا رہا۔ ا ُس نے اپنے دل میں اپنے‬
‫دشمن سے لڑنے کا اور خود کو بدلنے کا ارادہ کر لیا تھا۔‬
‫ابھی اپنی بیوی سے وہ سب باتیں کیے ا ُسے چند دن ہی گ ُ زرے تھے‬
‫کہ اصالحی جماعت کی ایک معتبر شخصیت حاجی محمد نواز صاحب‬
‫ا ُس کے گھر تشریف الئے اور آتے ساتھ گھر کے مالک سے ملنے کی‬
‫خواہش ظاہر کی۔ جب وہ ا ُن کے سامنے گیا تو انہوں نے بہت شفقت‬
‫سے ا ُس کی خیر خیریت دریافت کی۔ وہ حاجی نواز صاحب کا بہ ت‬
‫گرویدہ تھا اور ا ُس روز وہ ا ُس کے گھر میں ا ُس کی نظروں کے‬
‫سامنے بیٹھے ا ُس سے مح ِو گفتگو تھے۔ ا ُس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ‬
‫بات کرتے جائیں اور وہ انہیں س ُ نتا جائے۔ جب گفتگو کے دوران‬
‫انہوں نے ا ُس سے پوچھا کہ دل پے اس ِم الل ّٰ ہ کیسے نقش کرتے ہو تو‬
‫ا ُس نے جان بو جھ کر ا ُن کے سامنے ا ُلٹا نقش کر کے بتایا تاکہ حاجی‬
‫‪209‬‬
‫نواز صاحب ا ُسے اور زیادہ سمجھائیں اور یہی ہوا بھی۔ جب ا ُس نے‬
‫دل پر اس ِم الل ّٰ ہ کا نقش ا ُلٹا بنایا تو حاجی صاحب نے فور ا ً ا ُس سے کہا‬
‫"آپ نے اپنے موبائل فون میں ِس م ہی ا ُلٹی ڈالی ہوئی ہے تو موبائل‬
‫کام کیسے کر ے گا۔ اس ِم الل ّٰ ہ کا نقش ایسے نہیں بلکہ ایسے کرتے ہیں"‬
‫اور ی ہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنی انگشت شہادت سے ا ُس کے دل پر‬
‫اس ِم الل ّٰ ہ نقش کیا۔ اور ایک پل میں ا ُس نے اپنے اندر ایک عجیب سی‬
‫تبدیلی محسوس کی۔ جسے الفاظ میں بیان کرنا مشکل تھا۔‬

‫‪210‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫حاجی نواز صاحب کے جانے کے بعد شام تک وہ اپنے آپ کو بدلنے‬
‫کے بارے میں سوچتا رہا ا ِس سوچ کا اختتام ایک مضبوط ارادے پر‬
‫ہ ُوا ‪ .‬جس کے بعد وہ اپنی زندگی کی طرف واپس لوٹ آیا ‪ .‬ا ِس سب‬
‫مایوسی سے جان چ ھُ ڑانے میں ا ُس کا ساتھ دینے والوں میں سب سے‬
‫بڑا کردار ا ُس کی بیوی نے ادا کیا۔ ا ُس کا حوصلہ بڑھایا‪ ,‬دن رات ا ُس‬
‫کی خدمت کی اور ا ُسے دوبارہ زندگی میں آگے بڑھنے کی ا ُمید دی ۔‬
‫انسان اکثر اپنی کم عقلی کے باعث نعمت کو زحمت سمجھ لیتا ہے‬
‫لیکن وقت انسان کو احساس ِد ال دیتا ہے کہ وہ غلط تھا اور الل ّٰ ہ نے‬
‫ا ُس کی بہتری ہی سوچ رکھ ی تھی۔‬

‫ا ُس کی والدہ حج ِ بیت الل ّٰ ہ کا ارادہ رکھتی تھیں اور ہمیشہ ا ُس سے کہا‬


‫کرتی تھیں کہ "حج پے محرم کے طور پر تم چلنا میرے ساتھ۔‬
‫تمہارے ا ب ّو زندہ ہوتے تو ا ُن کے ساتھ جاتی لیکن ا ِب وہ نہیں ہیں تو‬
‫میں چاہتی ہوں کہ تم میرے ساتھ چلو۔" اور وہ جوابا ً ہمیشہ اپن ے‬
‫چھوٹے بھائی کا نام لیا کرتا اور کہتا کہ "آپ حج پر ا ُسے ساتھ لے‬
‫کر جائیے گا‪ ,‬آپ کے ساتھ کوئی ایسا ہو جو آپ کا خیال رکھ سکے‪,‬‬
‫میں تو ا ُلٹا آپ کے لیے بوجھ بن جاؤں گا۔" تو ا ُس کی والدہ کہتیں کہ‬
‫"اوالد کیسی ہی کیوں نہ ہو‪ ,‬ماں کے لیے بوجھ نہیں ہوتی‪ ,‬تم بس‬
‫ارادہ کرو باقی سب سبب ال ل ّٰ ہ خود بنا دے گا۔" اور وہ اپنی والدہ کی‬
‫بات س ُ ن کر الجواب ہو جاتا تھا اور کہتا کہ جب وقت آئے گا تو‬
‫سوچوں گا۔ سن ‪ 7444‬میں ا ُس کی والدہ نے حج پے جانے کا ارادہ‬
‫کیا تو انہوں نے پھر سے ا ُسے ساتھ چلنے کو کہا۔ ا ُس نے جواب دیا‬
‫کہ "ا ّم ی اب تو میں ایک ہاتھ میں چھڑی پکڑنے کے باوجود دوسری‬
‫جانب بھی سہارے کا محتاج ہوں۔ اب میں کیسے جا سکتا ہوں اور آپ‬
‫اکیلے مجھے کیسے سنبھالیں گی۔؟" تو ا ُس کی والدہ نے کہا "میں‬
‫اکیلی کہاں ہوں بیٹا‪ ,‬الل ّٰ ہ ہے نا میرے ساتھ‪ ,‬ا ُس کے ساتھ کے سہارے‬
‫میں نے تمہیں ا ُس وقت سنبھاال تھا جب تم نہ چل پھر سکتے تھے اور‬
‫نہ ہی بول سکتے تھے۔ تو اب بھی وہی ال ل ّٰ ہ مدد کرے گا‪ ,‬بس تم ارادہ‬
‫‪211‬‬
‫کرو باقی سب الل ّٰ ہ پر چھوڑ دو۔" لیکن ا ُس نے اپنے بھائی سے کہا کہ‬
‫تم اپنا پاسپورٹ بنوا لو میں ایسے نہیں جانا چاہتا۔ ا ُس کے بھائی نے‬
‫کہا کہ "آپ نہیں جائیں گے تو ظاہر ہے کہ مجھے ہی جانا ہو گا لیکن‬
‫میری بھی ہمیشہ سے یہی خواہش ہے کہ ا ّم ی کے ساتھ آپ جائیں۔" تو‬
‫ا ُس نے ذرا تیز لہجے میں کہا "ت ُو سمجھتا نہیں ہے میں ا ّم ی کے لیے‬
‫اور مسئلہ بن جاؤں گا" تو ا ُس کے بھائی نے بدستور دھیمے لہجے‬
‫میں کہا "شاید ا ِس وقت آپ کو ضرورت ہے ا ّم ی کی بات سمجھنے‬
‫کی۔ آپ اپنے آپ کو کمزور جان کر ایسا کہہ رہے ہیں۔ جبکہ آپ‬
‫کوشش کریں تو کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔" ا ُس نے اپنے بھائی کی‬
‫بات کا کوئی جواب نہ دیا اور کمرے سے چال گیا۔ اگلے روز ا ُس کے‬
‫دل نے ا ُسے سمجھایا کہ جب قسمت سے وہاں جانا نصیب ہو رہا ہے‬
‫ت و ت ُو کیوں نہ نہ کر رہا ہے۔ ہاں بول اور قدم بڑھا جس نے تیرے‬
‫لیے ا ِس سفر کا ب ُ الوا بھیجا ہے سفر بھی وہ خود ہی سنبھالے گا۔ اور‬
‫آخر کار ا ُس نے اپنی والدہ کے ساتھ حج کے لیے جانے کی حامی بھر‬
‫لی۔ حج کے لیے تمام کاغذی کاروائی وغیرہ باآسانی حل ہو گئی۔‬
‫بہت عرصے بعد ا ُس نے پھر سے نماز پڑھنا شروع کی۔ ایک طویل‬
‫عرصے سے وہ ظاہری نماز و روزے کا پابند نہ تھا۔ کبھی کبھی نماز‬
‫پڑھتا بھی تو کسی بھی وقت ب ِ نا نیت کے صرف دو رکعت نماز پڑھتا۔‬
‫وہ جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتا تھا۔ جب ا ُس نے س ُ لطان محمد‬
‫ت بیعت تھاما تھا تو ا ُس نے باجماعت نماز ادا‬ ‫اصغر علی رح کا دس ِ‬
‫کرنی شروع کر دی تھی لیکن باجماعت نماز میں ا ُسے حالوت‬
‫محسوس نہیں ہوتی تھی۔ باجماعت نماز میں حالوت محسوس نہ ہونے‬
‫کو وہ ا ِس طرح دیکھتا تھا کہ کیونکہ جماعت میں بیمار یا بوڑھے‬
‫لوگوں کی موجودگی کے باعث مولوی صاحب نماز تیز تیز پڑھا تے‬
‫ہیں اس لیے حالوت محسوس نہیں ہوتی لیکن باجماعت نماز کے بارے‬
‫میں تاکید کو سوچ کر ا ُس نے باجماعت نماز ترک نہیں کی۔ باجماعت‬
‫نماز سے دل کو وہ س ُ رور و سکون نہیں ملتا تھا اس لیے وہ جماعت‬
‫کے بعد الگ سے دو رکعت نماز ادا کر لیا کرتا تھا۔‬
‫اکثر باجماعت نماز میں ا ُس کا دل ایک صدا ب ُ لند کرتا "امام کی نیت‬
‫میرے قدموں کے نیچے" وہ اپنے دل کی صدا پے کئی بار استغفار‬
‫پڑھتا۔ ایک روز جب وہ دفتر سے نکل کر ظہر کی نماز باجماعت ادا‬
‫‪212‬‬
‫کرنے کی خاطر مسجد گیا تو نماز شروع کرتے ہی دل نے پھر سے‬
‫وہی صدا ب ُ لند کی "امام کی نیت میرے قدموں کے نیچے" تو ا ُس نے‬
‫دل سے کہا "اے دل ت ُو کیوں نماز میں ک ُ فر ب َ کتا ہے۔" تو دل نے کہا‬
‫"میں ک ُ فر نہیں کہتا میں تو حق بیان کرتا ہوں‪ ,‬جس شخص نے الل ّٰ ہ کو‬
‫جانا ہی نہیں‪ ,‬جو نماز میں حاضر ہی نہیں ہوتا ا ُس کے پیچھے ا ُٹھک‬
‫بیٹھک کرنے سے کیا حاصل۔؟ ت ُو ُم ردوں کے بیچ کھڑا ایک ایسے‬
‫شخص کی اقتدا میں نماز پڑھ رہا ہے جو نماز میں حاضر ہی نہیں‬
‫ہے۔" تو ا ُس نے دل کو سمجھاتے ہوئے کہا "باجماعت نماز اگر ُم نافق‬
‫کے پیچھے بھی ادا کرنی پڑے تو کرنی چاہیے" تو دل نے ا ُس کی‬
‫ہنسی ا ُڑاتے ہوئے کہا "لیکن ا ِس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ کسی کے‬
‫بھی پی چھے نماز ادا کر لو۔ ُم نافق ہونا اور بات ہے۔ اور نماز میں غیر‬
‫حاضر ہونا اور بات ہے۔ ہو سکتا ہے کے مولوی صاحب ہر طرح سے‬
‫ایک اچھے انسان ہوں لیکن نماز میں غیر حاضر ہونے سے نماز ہی‬
‫نہیں ہوتی ایسی باجماعت نماز سے کون سا ثواب کمانا چاہتا ہے ت ُو۔؟"‬
‫دل کی اس بات پر ا ُس نے ج ِھ ال کر دل سے کہا "میں ثواب کی نیت‬
‫سے کچھ بھی نہیں کرتا‪ ,‬میں تو ا ُس کی رضا کی خاطر ا ُسے الئ ِ‬
‫ق‬
‫عبادت جان کر ا ُس کی پرستش کرنے کی کوشش کرتا ہوں‪ ,‬اور ت ُو‬
‫مجھے بہکانے کی کوشش کر رہا ہے" دل نے کہا "الل ّٰ ہ کو سوچ کر‬
‫نماز پڑھنے واال کسی ایسے شخص کی ا ِقتد ا میں کیسے نماز ادا کر‬
‫سکتا ہے جس کے ذہن پر اپنی بیٹی کی بیماری کی فکر سوار ہو۔" اتنا‬
‫کہہ کر دل خاموش ہو گیا۔ نماز اختتام کو پہنچی تو ا ُس نے سالم‬
‫پھیرنے کے بعد دو رکعت نماز اور پڑھی۔ تب تک کافی سارے لوگ‬
‫چ کے تھے۔ وہ مسجد کے فرسٹ فلور پر نماز پڑھا‬ ‫نماز پڑھ کر جا ُ‬
‫کرتا تھا کیوں کہ وہاں لوگ کم ہوتے تھے اکثر نماز کے بعد مولوی‬
‫صاحب کچھ بیان کیا کرتے تھے اور اکثر بہت سی اچھی باتیں س ُ ننے‬
‫کو ِم ل جایا کرتی تھیں ا ِس وجہ سے وہ مولوی صاحب کو عزت کی‬
‫نگاہ سے دیکھا کرتا تھا۔ ا ُس روز وہ اپنے دل کی باتوں پے کافی‬
‫ا ُلجھا ہوا ت ھا ا ِس لیے سوچا کہ جا کے مولوی صاحب کا درس س ُ ن لیتا‬
‫ہوں شاید کچھ سکون ِم ل جائے۔ مگر جب وہ مسجد کے فرسٹ فلور‬
‫سے ا ُتر کر مسجد کے ہال میں گیا تو مولوی صاحب دکھائی نہ دیے‬
‫ا ُس نے دیکھا کہ کچھ لوگ جو اکثر مولوی صاحب کا س ُ نا کرتے تھے‬
‫‪213‬‬
‫مسجد کی اگلی صفوں میں بیٹھے ہ یں۔ وہ ا ُن کے ذرا قریب ہ ُوا تو‬
‫کسی کو کہتے س ُ نا کہ "مولوی صاحب کی بیٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں‬
‫تھی ا ِس لیے وہ آج جلدی گھر چلے گئے ہیں‪ ,‬آج درس نہیں ہو گا۔" یہ‬
‫الفاظ س ُ ن کر ا ُسے ایک جھٹکا سا لگا اور دل کے الفاظ یاد آئے۔ ا ُس‬
‫نے سوچا کہ صوفی سرمد شہید رح کے یہ الفا ظ شاید ا ُسے ا ِسی لیے‬
‫س ُ نائی دے رہے تھے کیونکہ ا ِس دور میں نماز پڑھنے والے اور‬
‫پڑھانے والے دونوں کی سوچ بس دنیا اور دنیا داری ہی رہ گئی ہے۔‬
‫نماز میں الل ّٰ ہ کے سوا ہر قسم کا خیال انسان کی سوچ کا محور رہتا‬
‫ہے۔ ایسی باجماعت نماز سے بہتر ہے کہ انسان تنہائی میں نماز‬
‫اختیار کرے۔ ا ُس دن کے بعد سے ا ُس نے باجماعت نماز ترک کر کے‬
‫اکیلے نماز پڑھنا شروع کر دی تھی۔ ا ُسے کائنات میں غور کرنا اچھا‬
‫لگتا تھا۔ شاید ا ُس کے رب نے ا ُسے سوال کرنے کا ہ ُنر سکھا رکھا تھا‬
‫ا ِسی لیے ا ُسے اکثر اپنے سوالوں کے جواب باآسانی مل جایا کرتے‬
‫تھے۔ لوگ ا ُس پے ک ُ فر و شرک کے فتوے لگائیں گے لیکن وہ ایسا ہی‬
‫تھا اور ا ُسے ا ِس بات کی پرواہ بھی نہیں تھی کہ لوگ ا ُس کے بارے‬
‫میں کیا سوچیں گے۔ ا ُسے خود کے لیے کچھ نہیں چاہیے تھا۔ عجیب‬
‫سوچ تھی ا ُس کی۔ نہ دوزخ کا خوف‪ ,‬نہ جنت کا اللچ‪ ,‬نہ دنیا کی‬
‫چاہت‪ ,‬اور نہ آخرت کی فکر۔ فکر تھی تو فقط اتنی کہ کسی طرح‬
‫چ نگل سے آزاد کرایا جا سکے۔ وہ اکثر الل ّٰ ہ‬ ‫انسانوں کو شیطان کے ُ‬
‫سے د ُعا کرتا کہ "مجھے بس ایک بار کچھ ایسا سمجھا دیجیے جس‬
‫سے میں انسانوں کو ایک کر سکوں۔ اپنی بات لوگوں کے دل تک‬
‫پہنچانے کا فن عطا کر کے‪ ,‬بس ایک بار لوگوں تک بات پہنچانے کا‬
‫موقعہ دے دیجیے۔ پھر ا ُس کے بعد بیشک مجھے ہمیشہ کے لیے‬
‫دوزخ میں جال دینا مجھے پرواہ نہیں ہے۔ مجھے نہیں جاننا کہ کس‬
‫کے دل میں کیا ہے"۔ جیسے ق ُ ر بِ ال ٰہ ی کی راہ پر چلنے والے اکثر‬
‫لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں انبیاء‪ ,‬اولیاء اور دیگر شخصیات کا دیدار‬
‫ہو ‪ ,‬ا ِس طرح سے ا ُس نے کبھی کسی شخصیت کے دیدار کی خواہش‬
‫نہیں کی۔ باطن میں روحانی طور پر بہت کچھ ہوتا ہے لیکن ا ُس نے‬
‫کسی شئے کی طلب نہ کی۔ اگر مانگا تو الل ّٰ ہ سے لوگوں کے لیے الل ّٰ ہ‬
‫ہی مانگا اور ا ِس کام کا وسیلہ بننا طلب کیا۔ ا ُس کی خواہش فقط اتنی‬

‫‪214‬‬
‫تھی کہ ایک ا لل ّٰ ہ کے نام پر سب انسانوں کو ایک کیا جا سکے۔ بس اس‬
‫سے زیادہ ا ُس کی اور کوئی خواہش نہیں تھی۔‬
‫تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں ‪..‬‬
‫میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں ‪..‬‬
‫اقبال رح کے بہت سے اشعار ا ُسے اپنی زندگی کا ح صّ ہ محسوس‬
‫ہوتے تھے اور اکثر اپنی حالت بیان کرنے میں ا ُس کے لیے مددگار‬
‫بھی ثابت ہوتے تھے۔ اکثر جب لوگ ا ُس کے الفاظ سے متاثر ہوتے‬
‫ہوئے ا ُس کے ظاہر پر ا ُنگلی ا ُٹھاتے تو وہ عالمہ اقبال رح کا یہ شعر‬
‫اکثر پڑھا کرتا تھا کہ‬
‫اقبال بڑا اپدیشک ہے‪َ ,‬م ن باتوں میں موہ لیتا ہے ‪..‬‬
‫گ ُ فتار کا غازی تو یہ بنا‪ ,‬کردار کا غازی بن ن ہ سکا ‪..‬‬

‫‪215‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫جیسے جیسے ا ُس کا حج پے جانے کا وقت قریب آ رہا تھا ویسے‬
‫ویسے ا ُس کا دل اور زور سے دھڑک رہا تھا۔ جس جس کو بھی پتا‬
‫چال کہ وہ حج کے لیے جانے کا ارادہ رکھتا ہے ا ُس نے اپنی اپنی‬
‫سوچ کے مطابق ا ُسے کچھ نہ کچھ کہنا ضروری سمجھا۔ کسی نے‬
‫اپنے لیے د ُعا کرنے کے لیے کہا تو کسی نے اپنوں کے لیے د ُعا‬
‫کرنے کی گزارش کی‪ ,‬کچھ لوگوں نے ا ُس کی ٹانگوں کے مسئلے کے‬
‫پیش نظر ا ُسے حج کے فیصلے پر نظر ثانی کا مشورہ دیا۔ تو کچھ نے‬ ‫ِ‬
‫کعبے کے سامنے اپنی صحت یابی کے لیے د ُعا کرنے کے لیے کہا۔‬
‫تقریبا ً ہر دوسرے ش خص نے ا ُسے بتایا کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر‬
‫پڑتے ہی جو د ُعا مانگو قبول ہوتی ہے۔ ا ِس لیے فالں د ُعا مانگنا اور‬
‫فالں فریاد کرنا۔ لیکن سب لوگوں کی د ُعائیں دنیا تک ہی محدود تھیں۔‬
‫ہر ایک کو وہ اپنی بات سمجھا نہیں سکتا تھا ا ِس لیے خاموشی سے‬
‫سب کے مشورے س ُ نتا رہتا۔ ایک حافظ صاحب‪ ,‬جو بہت خوبصورت‬
‫قاری بھی تھے‪ ,‬ا ُس کے صاح بِ فہم دوستوں میں سے ایک تھے‪,‬‬
‫انہوں نے بھی جب ا ُس سے یہی بات کہی کہ خانہ کعبہ کو دیکھتے‬
‫ساتھ پہلی نظر میں اپنی صحت یابی کے لیے د ُعا مانگیے گا تو ا ُس‬
‫سے رہا نہ گیا اور ا ُس نے کہا "یار حافظ صاحب آپ سے پہل ے بھی‬
‫چ کے ہیں مجھے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اگر الل ّٰ ہ‬ ‫کئی لوگ یہ مشورہ دے ُ‬
‫سے مانگنے کے لیے کسی کے پاس ایک ایسا موقعہ ہو جس میں ا ُسے‬
‫یقین ہو کہ ا ُس کی د ُعا رد نہیں ہو گی تو کیا یہ ا ُس کی خود غرضی‬
‫کی انتہا نہیں ہو گی کہ وہ محض اپنی ذات کے لیے کچھ مانگ لے۔‬
‫ایسے ش اندار موقعے پر تو ا ُسے تمام انسانوں کی بھالئی طلب کرنی‬
‫چاہیے۔ تاکہ وہ ا ُس کی عطا کا کچھ حق ادا کر سکے۔ اگر میں آپ سے‬
‫کہوں کہ حافظ صاحب جو مانگنا ہے مانگو تو آپ مجھ سے میری‬
‫اوقات کے مطابق مجھ سے بہت ذیادہ مانگ لیں گے تو دس بیس ہزار‬
‫روپے کا سوال کریں گے‪ ,‬یہی بات آپ سے کوئی بادشاہ کہے تو آپ‬
‫بادشاہ کی اوقات اور سخاوت کو م ِد نظر رکھتے ہوئے کوئی سلطنت یا‬
‫مال و دولت کا تقاضہ کریں گے‪ ,‬لیکن جب ک ُ ل جہانوں کا بادشاہ کسی‬

‫‪216‬‬
‫مقدس مقام کو خود سے منسلک کر کے ا ُس در کی فضیلت بیان کرتے‬
‫ہوئے لوگوں کو یہ کہتا ہے کہ میرے در پے آ کر جو سوال کرو گے‬
‫میں قبول کروں گا تو ہم یہاں دینے والے کی شان کے مطابق ا ُس سے‬
‫تمام انسانوں کی بھالئی کیوں نہیں مانگتے۔؟ میری د ُعا ہے کہ الل ّٰ ہ‬
‫مجھے اگر ایسا موقع دے تو ا ُس موقعے پر ایسی د ُعا مانگنے کی‬
‫توفیق بھی دے جس میں سب کی بھالئی ہو۔ ورنہ مجھ سے بڑا‬
‫خ ودغرض کوئی نہ ہو گا۔ تو میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے کہ میں‬
‫اتنے اچھے موقعے کو ا ِس طرح ضائع کر دوں۔ ویسے میرے خیال‬
‫میں د ُعا کی قبولیت صرف اور صرف الل ّٰ ہ کی رضا پر منحصر ہے۔‬
‫الل ّٰ ہ کی رضا‪ ,‬د ُعا کرنے والے کے دل کی حالت‪ ,‬د ُعا کے الفاظ‪ ,‬اور‬
‫ا ُس د ُعا کے مقصد پر منحصر ہوتی ہے۔ نہ کہ د ُعا کرنے والے کے‬
‫ظاہری مقام پر۔ لوگ کعبے کو دیکھ کر نہ جانے کیا کیا مانگتے ہوں‬
‫گے۔ لیکن ہر ایک کو وہ سب ظاہری طور پر عطا نہیں کیا جاتا۔‬
‫د ُعائیں ضرور د ُعا کرنے والوں کے اعمال ناموں میں محفوظ ہو جاتی‬
‫ہوں گی لیکن ظاہری قبولیت کے پیچھے ب ہت سی رمز پوشیدہ ہوتی‬
‫ہے۔ جس کے باعث انسان ظاہر میں الل ّٰ ہ کی حکمت کو نظر انداز‬
‫کرتے ہوئے بے مقصد د ُعائیں کر کر کے عطا کرنے والے سے‬
‫بدگمان ہو جاتا ہے۔ یہ شیطان ہے جو اپنی تمام تر طاقت کا استمعال‬
‫صرف اور صرف انسان کے اندر بے مقصد خواہشات پیدا کرنے کے‬
‫لیے کر تا ہے۔ انہی خواہشات کے دھارے بہہ کر ہم یہ بھول جاتے ہیں‬
‫کہ استقامت‪ ,‬طلب سے بہتر راستہ ہے۔ کیونکہ طلب کرنے واال اپنی‬
‫طلب کے مطابق حاصل کرتا ہے اور طلب پوری نہ ہونے پر یا طلب‬
‫سے کم ملنے پر‪ ,‬عطا کرنے والے سے بد گ ُ مان ہو کر راہ سے بھٹک‬
‫سکتا ہے لیکن استقامت رکھ نے واال ہر حال میں الل ّٰ ہ سے راضی رہنے‬
‫کی کوشش میں رہتا ہے ا ِس لیے ا ُس پر عطا‪ ,‬عطا کرنے واال اپنی‬
‫شان کے مطابق کرتا ہے۔ جب کوئی شخص الل ّٰ ہ سے ہر حال میں‬
‫راضی ہو جاتا ہے تو الل ّٰ ہ بھی ا ُس کے ہر حال سے راضی ہو جاتا‬
‫ہے۔" حافظ صاحب نے ا ُس کی بات اطمینان سے س ُ ن ی اور کہا "سبحان‬
‫الل ّٰ ہ کیا سوچ ہے آپ کی۔ یقینا ً الل ّٰ ہ نے کسی خاص مصلحت سے آپ کو‬
‫اس آزمائش میں ڈال رکھا ہے۔ "‬

‫‪217‬‬
‫حج کے سفر کے بارے میں سوچ کر وہ اکثر اپنی والدہ کے لیے‬
‫پریشان ہو جایا کرتا تھا۔ کبھی کبھی ا ُسے یہ خیال بھی آتا کہ شاید ا ِس‬
‫سفر میں میری موت لکھی ہ و۔ اور وہ اکثر اپنے قریبی دوستوں سے‬
‫ا ِس خدشے کا ذکر کرتے ہوئے کہتا کہ "کہ شاید حج کے دوران میری‬
‫موت واقع ہو جائے‪ ,‬تو کہا س ُ نا معاف کر دینا" ایک دفعہ ا ُس کی اس‬
‫بات پر ا ُس کے ایک دوست نے مذاق کرتے ہوئے ا ُسے کہا "بھائی ت ُو‬
‫بے فکر رہ ت ُو نہیں مرتا‪ ,‬ایسے مقدس م قامات پر نیک لوگ مرتے ہیں‬
‫ا ِس لیے ت ُو بے فکر رہ‪ ,‬کچھ نہیں ہو گا تجھے‪ ,‬کچھ عرصے بعد ت ُو‬
‫پھر سے یہیں ہمارے ساتھ بیٹھا سموسے کھا رہا ہو گا۔"‬
‫دن رات تیزی سے گ ُ زر رہے تھے اور جلد ہی وہ دن آن پہنچا جب وہ‬
‫اپنی والدہ کے ساتھ اسالم آباد ایرپورٹ کی جانب مح ِو سفر تھا ۔ عجیب‬
‫حال تھا ا ُس کا‪ ,‬ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرا ہاتھ اپنی والدہ کے‬
‫کندھے پے رکھے وہ دل میں ندامت لیے آگے بڑھ رہا تھا۔ اسالم آباد‬
‫ایرپورٹ سے ہی الل ّٰ ہ کی مدد لوگوں کی صورت ا ُن کے ساتھ ہو گئی‬
‫تھی۔ لوگوں نے ہر ممکن حد تک ا ُن کے کام آنے کی کوشش کی۔ م ک ّ ہ‬
‫پہن چتے ساتھ رہائش گاہ پے سامان رکھنے کے بعد سب لوگ مسجد‬
‫الحرام کی جانب روانہ ہوئے۔ م ک ّ ہ کی فضا میں ایک جالل کی سی‬
‫کیفیت رہتی ہے۔ لوگوں کے برتاؤ میں بھی ایک سختی سی محسوس‬
‫ہوتی ہے۔ جیسے ہر شئے الل ّٰ ہ کے گھر کے ادب و احترام کا اشارہ کر‬
‫رہی ہو۔ مسجد کے باہر ایسے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو معزور اور‬
‫بزرگ لوگوں کو وہیل چیئر پر بٹھا کر ا ُجرتا ً طواف اور سعی وغیرہ‬
‫ف کعبہ کرنا پڑا۔ ا ُسے اچھی‬ ‫کروا دیتے ہیں۔ ا ُسے بھی ایسے ہی طوا ِ‬
‫طرح یاد تھا کہ ا ُس نے کیا د ُعا مانگنی ہے۔ ویسے بھی ایک طویل‬
‫عرصے سے ا ُسے صرف ایک د ُعا مانگنے کی عا دت تھی۔ "اے الل ّٰ ہ ‪..‬‬
‫سب کو مل جا" بس وہ یہی مانگا کرتا تھا اور ا ُس دن بھی خانہ کعبہ‬
‫کو دیکھ کر ا ُس کے دل سے یہی الفاظ نکلے کہ "اے الل ّٰ ہ سب کو اپنی‬
‫ذات‪ ,‬اپنا قرب عطا فرما‪ ,‬الل ّٰ ہ میاں ہم سب انسان آپ سے بہت دور آ‬
‫گئے ہیں‪ ,‬شیطان نے ہمیں ٹ ُکڑے ٹ ُکڑے کر دیا ہ ے‪ ,‬ہم نے غلطی کی‬
‫چ کا ہے کہ‬ ‫شیطان کی پیروی کر کے‪ ,‬وہ ہمیں تجھ سے اتنا دور کر ُ‬
‫اب تیرا پتہ بھی یاد نہیں ہمیں‪ ,‬اے الل ّٰ ہ ہم نے اپنی جانوں پے ظلم کیا‬
‫اور شیطان کی پیروی کرتے ہوئے تباہی و بربادی کو اپنا مقدر بنا لیا‪,‬‬
‫‪218‬‬
‫اور آج شیطان ہمارا قت ِل عام کرنے میں مصروف ہ ے اور ہم سب‬
‫خاموشی سے اپنی اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ایک دوسرے کو‬
‫قتل ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اگر ت ُو نے ہم پے رحم نہ کیا تو ہمیں برباد‬
‫ہو جانے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اے الل ّٰ ہ مجھے میرے لیے کچھ‬
‫نہیں چاہیے‪ ,‬میں جس حال میں بھی ہوں‪ ,‬خوش ہوں‪,‬بس اتنی سی‬
‫ت انسان کی حالت پے رحم فرمایا جائے اور‬ ‫گزارش ہے کہ حضر ِ‬
‫ہمیں ایک ہو کر اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی‬
‫جائے" الل ّٰ ہ کے گھر کی شان و عظمت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا‬
‫سکتا۔ ایک ایسا جالل کا عالم جس میں زبان گنگ اور ذہن ماؤف ہو‬
‫جاتا ہے اور انسان کسی خوا ب کے عالم میں چال جاتا ہے۔ کعبے کا‬
‫منظر ابھی آنکھوں میں ٹھیک سے سما نہ پایا تھا کہ طواف کا مرحلہ‬
‫اختتام کو پہنچ گیا۔ سعی سے فارغ ہو کر ا ُس نے اور ا ُس کی والدہ‬
‫نماز فجر ادا کی اور ع ُ مرے کے باقی مناسک سے فراغت کے بعد‬ ‫ِ‬ ‫نے‬
‫واپس رہائشگاہ کا ُر خ کیا۔ ابھی انہیں آئے ایک دو دن ہی گزرے تھے‬
‫سفر مدینہ کا اعالن ہوا۔ ا ِس اعالن کے ساتھ ہی ایک عجیب سے‬ ‫ِ‬ ‫کہ‬
‫احساس نے ا ُس کے دل کو گھیر لیا تھا۔ جیسے کوئی آغوش جس میں‬
‫ا ُس کی روح گ ھُ لی جا رہی تھی۔ مکہ میں ا ُس کی رہائش حرم سے‬
‫کافی فاصلے پر تھی ا ِس لیے ا ُس کے لیے بار بار حرم جانا مشکل‬
‫تھا۔ ا ُس کے ساتھ جتنے لوگ تھے سب نے اپنی جانب سے ا ُس کی ہر‬
‫ممکن مدد کی اور کسی تکلیف کا احساس نہ ہونے دیا۔ مدینہ جاتے‬
‫ہوئے ا ُسے یہی ڈر تھا کہ یہاں بھی اگر رہائش دور ِم لی تو یہاں بھی‬
‫ا ُسے حرم میں ذیادہ وقت گ ُ زارنے کا موقع نہیں ملے گا۔ عجب حالت‬
‫تھی دل ک ی‪ ,‬جب ا ُن کی بس حرم کے ارد گرد چلتی ہوئی کبھی حرم‬
‫کے قریب سے گ ُ زرتی تو کبھی دور سے۔ بس میں موجود ہر شخص‬
‫کی خواہش تھی کہ حرم کے قریب رہائش ملے اور الل ّٰ ہ کا کرنا ایسا‬
‫ہوا کہ مسج ِد نبوی کے بلکل سامنے روضۂ رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و‬
‫آلہ وسلم کے قریب ہی رہائش ملی جب پہلی بار مسج ِد نبوی‪ ,‬روضۂ‬
‫رسول صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے لیے جانے کا مرحلہ‬
‫آیا تو ا ُس کے ساتھ موجود سب لوگوں نے ا ُس کی والدہ کو یقین ِد الیا‬
‫کہ وہ ا ُس کا خیال رکھیں گے اور ا ُس کے ساتھ رہیں گے۔ لیکن مسج ِد‬
‫نبوی صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم میں داخل ہوتے ساتھ سب لوگ ا ُس‬
‫‪219‬‬
‫سے الگ ہو گئے اور وہ تنہا ہو گیا۔ ا ُسے چلنے پھرنے کے لیے کسی‬
‫کے کندھے پے ہاتھ رکھنا پڑتا تھا اور بنا سہارے کے وہ چلتے چلتے‬
‫ِگ ر جایا کرتا تھا ا ِس لیے خود کو اتنی بھیڑ میں اکیال دیکھ کر وہ ایک‬
‫پل کو گھبرا سا گیا۔ لیکن دور سے نظر آت ی روضۂ رسول صلی الل ّٰ ہ‬
‫علیہ و آلہ وسلم کی جالیوں اور گنب ِد ِخ ضرہ کے منظر نے ا ُسے تھام‬
‫لیا اور اکیلے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ اپنے بچپن میں ا ُسے ایک‬
‫ہی نعت یاد تھی اور یہی نعت وہ ہر جگہ پڑھا کرتا تھا۔ ا ُس روز‬
‫روضۂ رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب قد م بڑھاتے وہی‬
‫نعت ا ُس کی سوچ کے جہان میں گونج رہی تھی۔‬
‫فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر‬
‫ہم بھی بے بس نہیں بے سہارا نہیں‬
‫خود ا ُنہی کو پ ُ کاریں گے ہم دور سے‬
‫راستے میں اگر پاؤں تھک جائیں گے‬
‫جیسے ہی سبز گنبد نظر آئے گا‬
‫بندگی کا قرینہ بدل جائے گا‬
‫حج کے ِد نوں میں ایک جانب سے روضۂ رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ‬
‫وسلم کی زیارت کے لیے راستہ بند کر دیا جاتا ہے اور دوسری جانب‬
‫سے لوگوں کو روضۂ رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی زیارت کے‬
‫لیے ایک طویل قطار میں لگنا پڑتا ہے۔ جس جانب روضۂ رسول صلی‬
‫الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم ہے ا ُس جانب وہاں کی انتظامیہ کے لوگ کھڑے‬
‫ہوتے ہیں جو لوگوں کو دوسری طرف سے آنے کا کہتے ہیں۔ وہ دور‬
‫سے دیکھ رہا تھا کہ وہ لوگ سخت انداز میں لوگوں کو وہاں سے‬
‫پیچھے دھکیل رہے تھے۔ ا ُسے لگا شاید ا ُسے بھی دھکیل دیا جائے گا‬
‫لیکن ایسا ن ہ ہوا بلکہ ا ُس کی حالت دیکھتے ہوئے ایک شخص نے‬
‫آگے بڑھ کر ا ُس کا ہاتھ تھاما اور ا ُسے لے جا کر روضۂ رسول صلی‬
‫الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی جالیوں کے سامنے ایک ستون کے ساتھ کھڑا‬
‫کر دیا۔‬

‫‪220‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫دل کا عجیب حال تھا۔ اپنی حالت پے ندامت سے زمین میں گڑھ جانے‬
‫کو جی چاہ رہا تھا۔ الل ّٰ ہ کے رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کے‬
‫حضور پیش کرنے کے لیے ا ُس کے پاس ندامت کے سوا کچھ نہیں‬
‫عرض تمنا کرنے کو کہہ رہا تھا مگر‬ ‫ِ‬ ‫تھا۔ دل تھا کہ ا ُسے بار بار‬
‫احترا ِم بارگاہ رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم میں جیسے ا ُس کے‬
‫الفاظ کی جرا عت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ پھر ا ُس نے دل سے پ ُ کارتے‬
‫ہوئے کہا "یارسول الل ّٰ ہ میرے دل پے ہاتھ رکھ دیجیے تاکہ میری‬
‫دھڑکنوں کو کچھ قرار نصیب ہو اور مجھے اجازت دیجیئے کہ جو‬
‫میں کہنے کی خواہش رکھتا ہوں وہ آج آپ سے کہہ سکوں۔ مجھے ڈر‬
‫ہے کہ میری آواز حد سے تجاوز نہ کر جائے‪ ,‬مجھے ڈر ہے کہ‬
‫میرے الفاظ کسی گستاخی کے مرتکب نہ ٹھریں۔ مجھے بات کرنے کا‬
‫سلیقہ نہیں ہے۔ مجھے اجازت دیجیئے کہ میں اپنی فریاد اپنے انداز‬
‫میں بیان کر سکوں۔ میں جانتا ہوں کہ میرے ادب کا ب ُ لند و محتاط‬
‫ترین معیار بھی بارگاہ اقدس کے آداب کے شایاں نہیں ہے‪ ,‬اس لیے‬
‫یارسول الل ّٰ ہ‪ !..‬ا ِس گندے کو‪ ,‬ا ِس بے ادب و گستاخ کو اپنی بات کہنے‬
‫کے لیے اپنے ٹوٹے پھوٹے عشق و ایمان کی امان درکار ہے۔ مجھے‬
‫اجازت دیجیئے کہ میں اپنا ُم دعا بیان کر سکوں۔ "‬
‫اسی اثناء میں انتظامیہ کہ لوگوں نے رش کم کرنے کی خاطر جالیوں‬
‫کے سامنے کھڑے لوگوں کو وہاں سے ہٹانا شروع کر دیا۔ ویسے بھی‬
‫ایشیا کے سارے مسلمان ا ُنہیں مشرک دکھائی دیتے ہیں ا ِس لیے ہم پے‬
‫کچھ زیادہ سختی کی جاتی ہے اور شرک سے روکنے کی بھی پوری‬
‫کوشش کی جاتی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ایک پل کو ا ُسے خیال آیا کہ‬
‫شاید ا ُسے اپنا حال بیان کرنے کی اجازت ن ہیں ملی‪ ,‬اور ا ِسی بات کے‬
‫اظہار میں ا ُسے یہاں سے دھکیل دیا جائے گا۔ لیکن دوسرے ہی پل‬
‫ا ُس کی غلط فہمی دور ہو گئی جب ا ُس کے ساتھ کھڑے دوسرے‬
‫لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیا گیا اور کسی نے ا ُسے نظر بھر کے بھی‬
‫نہیں دیکھا تو یہ سوچ کر ا ُس کا دل خوشی سے جھوم ا ُٹھا کہ ال ل ّٰ ہ کے‬
‫رسول رحمت اللعالمین صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم نے ا ُسے فریاد کی‬

‫‪221‬‬
‫اجازت دے دی۔ ا ُس نے اپنے ُم ضترب دل کو سنبھاال‪ ,‬آنکھوں سے‬
‫بہتے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے‪ ,‬آواز و انداز‬
‫کو اور موئدب کرنے کی کوشش کی‪ ,‬اپنے الفاظ سنبھالے اور دل کی‬
‫زبان سے آق ائے دو جہاں صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے گزارش‬
‫کرتے ہوئے کہا "یارسول الل ّٰ ہ میں ا ُس وقت کے لوگوں میں سے ایک‬
‫چ کا ہے۔‬ ‫ہوں جس وقت میں زمین پے انسان ِذ ل ّ ت کی انتہا کو پہنچ ُ‬
‫لوگ جہالت میں پیدا ہوتے ہیں اور جہالت کے رائج کردہ نظام کے‬
‫تحت‪ ,‬موت آنے تک ہر پل جہالت کے ہاتھوں‪ ,‬ایک نئی موت َم ر َم ر‬
‫کر زندگی جیتے ہیں۔ ہم اپنے اخالق‪ ,‬اپنا کردار‪ ,‬اپنی ُو سعت سب کچھ‬
‫چ کے ہیں۔ حضور میں اپنے وقت کا گناہگار ترین شخص ہوں۔‬ ‫کھو ُ‬
‫اور اتنا شدید گناہگار ہوں کہ مجھے ہر گناہ کرنے والے کی مجبوری‬
‫سمجھ آ جاتی ہے ا ِس لیے میں ا ُن سے نفرت نہ یں کر پاتے۔ مجھے‬
‫د ُکھ ہوتا ہے روز َم رتی ہوئی انسانیت کو دیکھ کر۔ سڑک پے بھیک‬
‫مانگنے والے شخص سے لے کر تخت و تاج والوں تک اور پانچ‬
‫نمازیں پڑھانے والے ُم ّال سے لے کر بڑی بڑی درگاہوں کے گدی‬
‫نشنیوں تک سب اپنی اپنی فکر میں جی رہے ہیں۔ کسی کو بھی‬
‫ح جرہ‪,‬‬ ‫انسانیت کی یا ا نسانوں کی پرواہ نہیں ہے سب اپنی مسجد‪ ,‬اپنا ُ‬
‫اپنا ُم لک‪ ,‬شہر یا قصبہ‪ ,‬قبیلہ بچانے کی فکر میں ُم بتال ہیں۔ اور اب تو‬
‫چ کی ہے کہ ہم نے ا ِسے صرف اپنی ذات‬ ‫یہ تقسیم ہم میں ا ِس قدر گ ھُ ل ُ‬
‫تک بھی محدود کرنا سیکھ لیا ہے۔ ہم میں جو ہدایت والے ہیں وہ‬
‫لوگوں کی جہالت کے باعث اپنا آپ چ ھُ پائے بیٹھے ہیں۔ اور ا ِس عالم‬
‫میں ہر مذہب میں بیٹھے دین کے ٹھیکے داروں نے مذہب کے نام پر‬
‫انسانیت کا قت ِل عام شروع کیا ہوا ہے۔ آپ محس ِن انسانیت ہیں تمام‬
‫جہانوں کے لیے رحمت ہیں تمام انسان اور ہر طرح کی مخلوق کا‬
‫وجود صرف اور صرف آپ کی ذات ا قدس کے اظہار کی خاطر ہے۔‬
‫آپ نے ا ِس وقت کے بارے میں جو کچھ کہا تھا سب ا ُسی طرح پورا ہو‬
‫رہا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ روز َم رتے ہیں‪ ,‬نہ مارنے والے کو پتہ ہے‬
‫کہ وہ کیوں کسی کی جان لے رہا ہے اور نہ ہی َم رنے واال جانتا ہے‬
‫کہ ا ُس کی جان کیوں لی گئی۔ آج ہمارا قبلہ عورت ہ ے۔ ہماری تمام‬
‫خواہشات کا ُر خ دنیا‪ ,‬نفس اور شیطان کی جانب ہے۔ اہل الل ّٰ ہ ا ِسی‬

‫‪222‬‬
‫باعث ہم سے دور ہو گئے ہیں کیونکہ ہم ا ُن سے بھی الل ّٰ ہ نہیں بلکہ‬
‫دنیا و نفس کی ل ذ ّ ت طلب کرتے ہیں۔‬
‫آج دنیا پرست‪ ,‬نفس پرست اور شیطانیت کی پوجا کرنے والے لوگوں‬
‫کو واپس ب ُ النے واال کوئ ی نہیں ہے۔ کیونکہ انہوں نے خود اپنے اوپر‬
‫سب دروازے بند کر لیے ہیں۔ یارسول الل ّٰ ہ وہی حال ہے جو آپ کے‬
‫ظہور سے پہلے تھا بلکہ ہم لوگ شاید ا ُن سب سے بھی گئے گ ُ زرے‬
‫ہیں۔ میں ا ُنہی گناہگاروں میں سے ایک ہوں۔ میرا تعلق ا ُس دور سے‬
‫جب بے لباسی‪ ,‬جھوٹ‪ ,‬دھوکہ‪ ,‬زنہ‪ ,‬چوری ‪ ,‬سب عام ہے۔ ل ُ وٹ‬
‫کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ گناہوں کی بارش ہے‪ ,‬یارسول الل ّٰ ہ میں‬
‫گناہوں سے اپنا دامن نہیں بچا پایا۔ بلکہ دامن بچانے کی کوشش بھی‬
‫نہیں کر پایا۔ میں اپنے وقت کے لوگوں سے مشابہ تقریبا ً سبھی گناہوں‬
‫کا آئینہ ہوں۔ میں اپنے لوگوں کی جانب سے آپ سے گ ُ زا رش کرتا ہوں‬
‫کہ ہمیں ہمارے دشمن نے قید کر لیا ہے۔ ہماری مدد کیجیے۔ اور اگر‬
‫آپ نے ہماری مدد نہیں کی تو یقینا ً ہم برباد ہو جائیں گے۔ یارسول الل ّٰ ہ‬
‫ہم جو بھی ہیں‪ ,‬جیسے بھی ہیں‪ ,‬آپ کے ہیں‪ ,‬الل ّٰ ہ نے ہمیں آپ کی‬
‫ا ُمت میں پیدا کیا ا ِس نسبت سے ہماری داد رسی بھی آپ کے ہاتھ ہے۔‬
‫یارسول الل ّٰ ہ میرے لوگوں پے رحم فرمائیں۔ یارسول الل ّٰ ہ ہمیں ایک کر‬
‫دیجیے۔ یارسول الل ّٰ ہ ہم لوگ شیطان کی قید میں مجبوری کی ا ُس حد‬
‫تک جا پہنچے ہیں جہاں پاکباز عورتوں کو جسم اور ولی صفت‬
‫چ پن اور‬ ‫چ وں سے ا ُن کا ب ّ‬
‫َم ردوں کو ضمیر بیچنا پڑ جاتا ہے۔ ب ّ‬
‫بو ڑھوں سے ا ُن کے بڑھاپے کا سہارا چھین لیا جاتا ہے۔ ہم سب‬
‫خاموش تماشائیوں کی طرح ایک دوسرے کی عزت کو پامال ہوتا‬
‫دیکھتے ہیں۔ انسان کو انسان کے ہاتھوں جانوروں کی طرح ذبح ہوتے‬
‫دیکھتے ہیں لیکن کچھ نہیں بولتے‪ ,‬یارسول الل ّٰ ہ ہمیں شیطان کے ا ِس‬
‫ق ٰال ہی کے سحر میں ُم بتال کر‬ ‫سحر سے نکال کر محبت و عش ِ‬
‫دیجیئے۔ میں جانتا ہوں کہ میں جو مانگ رہا ہوں ہم لوگ ا ُس سب کے‬
‫اہل نہیں ہیں لیکن ہمیں اہل بننے کی جانب دھکیال تو جا سکتا ہے۔‬
‫ق حقیقی کو پہنچ سکیں۔‬ ‫تاکہ ہم نہیں تو ہماری آنے والی نسلیں تو عش ِ‬
‫یارسول الل ّٰ ہ میری اور کوئی د ُعا نہ یں ہے۔ مجھے بس میرے لوگوں‬
‫کی خیر درکار ہے۔ پلیز الل ّٰ ہ سے کہیے کہ ہمیں اپنی جانب پھیر لے۔‬
‫ال ل ّٰ ہ آپ کا ہے اور ہمیں ہمارا ال ل ّٰ ہ تبھی ملے گا جب ہم آپ کے ہوں‬
‫‪223‬‬
‫گے۔ یارسول الل ّٰ ہ آپ رحمت اللعالمین ہیں پلیز میرے لوگوں پے اپنی‬
‫رحمت برسا دیجیے۔ یارسول الل ّٰ ہ آج وہ وقت ہے جب دنیا بھر میں‬
‫چ کا ہے۔ ہم سب خود بھی اپنے مذہب کو‬ ‫مسلمان ہونا ایک گالی بن ُ‬
‫گالی دیتے ہیں اور دوسرے بھی ہمیں ہمارے مذہب کے باعث انسانیت‬
‫کا دشمن گردانتے ہیں۔ یارسول الل ّٰ ہ وہ مذہب جس کا نام ہی سالمتی‬
‫ہے‪ ,‬وہ مذہب جو تمام انسانیت کی بھالئی کے لیے ا ُتا را گیا آج وہی‬
‫مذہب ظلم و دہشت کا نشان بنا ہوا ہے۔ یارسول الل ّٰ ہ ا ِس مذہ بِ اسالم کو‬
‫پھر سے سب انسانوں کے لیے سالمتی کا باعث بننے کا موقع دیجیئے۔‬
‫ہم میں موجود ا ُن خاص بندوں کو لوگوں پے ظاہر کر دیجیئے جو ہمیں‬
‫ایک کر سکتے ہیں۔ ہمیں برباد مت ہونے دیجیئے۔ یارسول الل ّٰ ہ ہمیں‬
‫بچا لیجیئے۔ ہمیں پھر سے ایک کر دیجیئے۔ میرے لوگوں کو بچا‬
‫لیجیئے۔ میرے لوگوں کو بچا لیجیئے۔ "‬
‫شدید رقت کے عالم میں وہ روضۂ رسول کے سامنے کھڑا آج اپنے دل‬
‫کی ہر بات الل ّٰ ہ کے رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے کہہ دینا‬
‫چ کا تھا۔ ا ِس لیے وہ جو کچھ کہہ‬ ‫چاہتا تھا ا ُس کے ضبط کا بند ٹوٹ ُ‬
‫سکتا تھا ا ُس نے سب کہہ دیا۔ ا ِس دوران کسی شخص نے ا ُسے وہاں‬
‫سے ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔ "یارسول الل ّٰ ہ میں نے سوچا تھا کہ آپ‬
‫کے روضے کی جالیوں میں سے آپ کے روضے کے اندر کا منظر‬
‫دکھائی دیتا ہو گا لیکن یہاں تو اندر بھی پردہ پڑا ہوا ہے شاید یہ‬
‫ہماری ہی آنکھوں پے پڑے دنیا و نفس کے پردوں کا اثر ہے جس کے‬
‫باعث ہمیں اندر جھانکنے کی اجازت نہیں ہے۔ یا پھر یہ سعودی‬
‫حکومت کی ہمیں شرک سے روکنے کی کوشش ہے۔ خیر جو بھی ہے‬
‫مگر آپ کے اور ہمارے بیچ پڑا یہ پردہ بہت تکلیف دہ ہے۔ یارسول‬
‫الل ّٰ ہ ی ہ پردہ ا ُٹھا دیجیئے‪ ,‬ہمیں اپنا جلوہ دکھا دیجیئے۔ ا ِس روتی‪,‬‬
‫سسکتی انسانیت کو ظ ُ لمت سے نکال لیجیئے۔" اسی دوران ا ُس کے‬
‫ساتھ آئے لوگوں میں سے ایک شخص ا ُس تک پہنچ گیا اور ا ُس کا ہاتھ‬
‫پکڑ کر جالیوں کے قریب لے گیا۔ روضۂ رسول کی جالیوں سے کچھ‬
‫فاصلے پر ایک اور آڑ کھڑی کی جاتی ہے تاکہ ایشین مسلمان روضۂ‬
‫رسول کی جالیوں کو چ ھُ و کر بھی شرک نہ کر سکیں۔ کچھ دیر ا ُس آڑ‬
‫کے پاس کھڑے ہونے کے بعد ا ُس کے ساتھ موجود شخص نے ا ُس کا‬
‫ہاتھ تھاما اور ا ُسے لے جا کر روضۂ رسول کے ساتھ موجود ستونوں‬
‫‪224‬‬
‫کے بیچ کھڑا کر دیا۔ وہ سب عشاء کی جماع ت ہو جانے کے بعد مسج ِد‬
‫نبوی پہنچے تھے ا ِس لیے ا ُس کی عشاء کی نماز ابھی رہتی تھی۔ ا ُس‬
‫جگہ بھی بہت شدید رش تھا اور حج کے ِد نوں میں کسی کو بھی وہاں‬
‫زیادہ نماز نہیں پڑھنے دیتے بلکہ انتظامیہ کہ لوگ نماز کے دوران‬
‫بھی لوگوں کو ا ُٹھا دیتے ہیں لیکن ا ُس نے سکون سے ن ماز ادا کی اور‬
‫کسی نے ا ُسے وہاں سے بھی نہیں ہٹایا۔ نماز ادا کرنے کے بعد ایک‬
‫اور شخص ا ُسے ِم ال جو ا ُس کا ہاتھ پکڑ کر ا ُسے واپس رہائشگاہ کی‬
‫طرف لے گیا۔ وہ بھیڑ میں چل پھر نہیں سکتا تھا ا ِس لیے ا ُسے کسی‬
‫شہر رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ‬
‫ِ‬ ‫سہارے کی ضرورت پڑتی تھی اور‬
‫وسلم کی ایسی مہربان فضا تھی کہ جہاں ا ُسے ضرورت محسوس ہوتی‬
‫ا ُسی جگہ کوئی نہ کوئی شخص ا ُس کی مدد کے لیے موجود ہوتا تھا۔‬

‫‪225‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫جب وہ اپنی رہائش پر پہنچا تو کمرے کی کھڑکی سے گنب ِد ِخ ضرہ‬
‫سامنے دکھائی دیتا تھا۔ صاف س ُ تھرے کمرے اور آرام دے بس تر‬
‫ت عالم کی رحیمی کا نمونہ ہو۔ ا ُس کے ساتھ‬ ‫جیسے ہر چیز رحم ِ‬
‫موجود تقریبا ً سبھی لوگوں نے ا ِس بات کا ذکر کیا۔ سب کو ا ِس بات‬
‫احساس شاید ا ِس لیے بھی ذیادہ تھا کیونکہ م ک ّ ہ میں ملنے والے بستر‬
‫چھوٹے اور کم آرام دہ تھے۔ا ُس نے سوچ رکھا تھا کہ جب سونے کے‬
‫خ دا سے اور ذیادہ التجائیں‬ ‫لیے لیٹوں گا تو آنکھ بند کر کے رسو ِل ُ‬
‫کروں گا۔ مگر جب سونے کا وقت ہوا تو ا ُسے لگا کہ ا ُس کے پاس‬
‫ج ملہ بار بار‬‫الفاظ ختم ہو گئے ہیں۔ ِر ق ّ ت کے عالم میں بس ایک ہی ُ‬
‫ا ُس کے ذبان و ِد ل سے ادا ہو رہا تھا۔ "یارسول الل ّٰ ہ میرے لوگوں کو‬
‫بچا لیجیئے ۔ ی ارسول الل ّٰ ہ میرے لوگوں کو بچا لیجیئے۔" میرے لوگ‪,‬‬
‫میرے لوگ‪ ,‬کہتے کہتے کب وہ نیند کی وادی میں ا ُتر گیا ا ُسے پتہ‬
‫بھی نہ چال۔ فجر کے وقت آنکھ ک ھُ لی اور روضۂ رسول کے پاس‬
‫مسجد کے صحن میں نماز ادا کرنے کے بعد وہ بہت دیر تک دور بیٹھا‬
‫روضۂ رسول کو‪ ,‬گنب ِد خضرہ کو اور گنبد کے پس منظر میں چمکتے‬
‫چاند کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اکثر اس ِم الل ّٰ ہ کو اپنے تصور میں رکھتا۔ اور‬
‫ہر وقت اپنی سوچ کے ہر منظر میں الل ّٰ ہ کے نام کو ساتھ رکھنے کی‬
‫کوشش کرتا۔ اسی سوچ میں وہ اکثر اس ِم محمد اور اس ِم علی بھی دیکھا‬
‫کرتا اور دل زبانی اپنی کیفیت بیان کر کے سکون حاصل کر لیتا تھا۔‬
‫ایک دفعہ ا ُس نے ا ِس بات کا ذکر کسی دوست سے کیا تو ا ُس کے‬
‫دوست نے پوچھا "تم ا ِن ناموں کا تصور کرتے ہو‪ ,‬ا ُن سے بات کرتے‬
‫ہو‪ ,‬تو کیا ا ُن کی طرف سے جواب بھی آتا ہے۔؟" تو ا ُس نے جواب دیا‬
‫کہ "مجھے کسی نہ کسی صورت اپنے سوالوں کے ج واب مل ہی جاتے‬
‫ہیں۔ ا ُن ناموں سے میں نے کبھی جواب کی ضد نہیں کی۔ میں بس کہہ‬
‫دیتا ہوں اور کہیں نہ کہیں سے مجھے جواب بھی ِم ل جاتا ہے۔ میں تو‬
‫بس ا ِن مقدس ناموں سے اپنا احساس بیان کرنے پے یقین رکھتا ہوں۔‬
‫جواب آئے یا نہ آئے سوال کرتے رہنے چاہیے۔ اور ویسے بھی جو‬
‫لوگ جواب آ جانے کو سوال س ُ ن لیے جانے کی دلیل سمجھتے ہیں وہ‬
‫‪226‬‬
‫اکثر جواب نہ ملنے پر مایوس ہو جایا کرتے ہیں۔ وہ مقدس ہستیاں ہیں‬
‫میری ہمت نہیں ہوتی کے جواب کی خاطر بار بار سوال کروں۔ ا ِس‬
‫لیے میں سوال کر کے س ُ ن لیے جانے کا یقین کر لیتا ہوں اور اعتماد‬
‫رکھتا ہوں ک ہ اگر میرا سوال جواب کے الئق ہوا تو جواب ضرور ملے‬
‫گا اور جواب نہ ملے تو میں جواب کی ضد کرنے کی جگہ اپنا سوال‬
‫بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ "‬
‫ا ُس روز گ ُ نب ِد ِخ ضرہ کے پس منظر میں چمکتے چاند کو دیکھتے‬
‫ہوئے جب ا ُس نے اپنے تصور پے غور کیا تو ا ُسے اس ِم علی دکھائی‬
‫د یا اور یاد آیا کہ یہ تصور ا ُس وقت سے مسلسل ا ُس کے ساتھ ہے جب‬
‫وہ روضۂ رسول کے ساتھ ریاض الجنئہ میں مختلف ستونوں کے قریب‬
‫نماز ادا کر کے آیا تھا۔ ا ُسے یاد آیا کہ ا ُن ستونوں کے بیچ ایک ستون‬
‫کا نام ستو ِن علی تھا۔‬
‫مسج ِد نبوی میں شدید رش کے باعث وہ دوبارہ روضۂ رسول کی‬
‫جالیوں کے سامنے نہیں جا سکا۔ قریب نو دن ا ُسے مدینہ میں گ ُ زارنے‬
‫کا موقع ِم ال۔ ہر روز وہ فجر کی نماز کے بعد اپنی رہائش پے آتا اور‬
‫جب ظہر کی نماز کے لیے مسج ِد نبوی میں جاتا تو عشاء پڑھ کر ہی‬
‫واپس آتا۔ لوگوں کو آتا جاتا دیکھنا اور اپنی سوچ کی زبانی الل ّٰ ہ کے‬
‫محبوب صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے مح ِو فریاد رہنا ا ُس کا معمول‬
‫تھا۔ لوگ نماز کے بعد تالوت کرتے نفلی نمازیں اور مسنون د ُعائیں‬
‫پڑھتے جبکہ وہ نماز پڑھ کر اکثر سو جایا کرتا تھا یا پھر درود‬
‫شریف پڑھتا رہتا تھا۔ اور ب ِ نا کچھ کھائے پیے ظہر سے عشاء تک کا‬
‫وقت گ ُ زارتا۔ ا ُسے ہر وقت سگریٹ پینے کی عادت تھی لیکن مسج ِد‬
‫نبوی کے سرور میں ا ُسے سگریٹ کی بھی طلب نہیں ہوتی تھی۔ ا ُسے‬
‫م سج ِد نبوی کے ارد گرد موجود بلند و باال عمارتیں عجیب لگ رہی‬
‫تھیں ا ُسے یاد آیا کہ م ک ّ ہ میں بھی ا ُسے حرم کے ِگ رد حرم سے اونچی‬
‫عمارات دیکھ ک ر بہت عجیب محسوس ہوا تھا۔ دل نے ا ُسے سمجھایا‬
‫کہ "بادشاہوں کی خواہشات کی تکمیل میں آج کل کے علم و حکمت‬
‫کے ٹھیکے دار کچھ بھی کہہ دینے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ بات‬
‫سمجھتے ہوئے ت ُو ا ِس سب کو دیکھ کر حیران کیوں ہوتا ہے۔ اپنے‬
‫وقت کے لوگوں کو دیکھ‪ ,‬کیا انہیں ا ِس سب س ے کوئی فرق پڑتا ہے‬

‫‪227‬‬
‫کہ الل ّٰ ہ کے گھر کی عمارت اونچی ہونی چاہیے ی ا نیچی۔؟ یہ تو بس‬
‫اپنی دنیا بلند کرنا چاہتے ہیں اور بس۔"‬

‫مسج ِد نبوی میں روز وہ بہت سے لوگوں کو دیکھتا الگ الگ ُم لکوں‬
‫سے آئے مسلمانوں کو الگ الگ انداز میں ایک ساتھ باجماعت نماز‬
‫پڑھتے دیکھ کر ا ُ س کے دل کو ایک گہرا سرور حاصل ہوتا تھا۔‬
‫سعودی عرب میں ایک مسلک کے عالوہ کسی دوسرے مسلک کی‬
‫تبلیغ کی اجازت نہیں ہے۔ حج پے جاتے ہوئے آپ کسی قسم کی کوئی‬
‫کتاب نہیں لے جا سکتے۔ لیکن تمام راستہ ایک خاص قسم کا لِ ٹریچر‬
‫پڑھنے کے لیے دیا جاتا ہے جو ایک خاص سوچ کی تبل یغ کرتا ہے۔‬
‫جہاں مختلف مسلک رسول الل ّٰ ہ کو محترم اور مکرم ترین ذات مانتے‬
‫ہوئے ا ُن کی پیروی کرتے ہوئے ب ُ لند ہونے کی بات کرتے ہیں وہیں‬
‫ا ِس سوچ کے ماننے والے‪ ,‬لوگوں کو رسو ِل ُ‬
‫خ دا کو اپنے برابر ال کر‬
‫سوچنے کا درس دیتے ہیں۔ ا ُنہیں اپنی طرح کا انسان سمجھ کر دین‬
‫سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اسی لیے اکثر لوگ حج و ع ُ مرہ کر‬
‫لینے کے بعد شرک و بدعت کے فتوے صادر کرنے میں بہت ماسٹر ہو‬
‫جاتے ہیں۔ ویسے تو یہ لوگ ہر بات کا ریفرنس پوچھنے کے بھی‬
‫ماسٹر ہوتے ہیں لیکن اپنی بات کے ریفرینس میں عام طور پر ا ِن کے‬
‫پاس ایک ہی بات ہوتی ہے ک ہ ہم نے یہ بات حرم میں س ُ نی ہے۔‬
‫لیکن ا ُس نے کبھی کسی کتابی ریفرینس پر کسی بات کو قبول یا رد‬
‫نہیں کیا تھا کیونکہ ا ُس کا ماننا تھا کہ حق خود اپنے ہونے کی دلیل‬
‫ہوتا ہے ا ِسی لیے وہ ہر بات کو ا ِسی روشنی میں دیکھتا تھا۔‬

‫‪228‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ایک صاحب مسج ِد نبوی میں الگ الگ لوگوں سے بات کرتے ہوئے‬
‫ا ُسے روز دکھائی دیتے تھے۔ لیکن انہوں نے کبھی ا ُس سے بات‬
‫کرنے کی کوشش نہیں کی۔ شاید ا ِس کی ایک وجہ ا ُس کا کاال لباس‬
‫بھی تھا۔ ا ُس روز وہ آنکھ بند کیے لیٹا ہوا تھا اور دل دل میں درود‬
‫شریف پڑھ رہا تھا کہ اپنے پاس بیٹھے لوگوں کی گ فتگو س ُ ن کر وہ ا ُٹھ‬
‫کر بیٹھ گیا۔ ا ُس نے دیکھا کہ وہی صاحب کسی شخص کو یہ‬
‫سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ "صرف الل ّٰ ہ سے مانگو‪ ,‬الل ّٰ ہ‬
‫کے سوا کسی سے بھی کچھ بھی مانگنا شرک ہے۔ کسی سے کیوں کہا‬
‫جائے کہ میرے لیے د ُعا کیجیئے جب الل ّٰ ہ تمھاری شہ رگ سے زیادہ‬
‫قریب ہے تو تمھیں چاہیے کہ تم خود ا ُس سے مانگو۔" ا ُسے اپنی‬
‫جانب متوجہ دیکھ کر ا ُن صاحب نے اور زور سے اپنی بات جاری‬
‫رکھتے ہوئے کہا "کسی پیر‪ ,‬فقیر سے جا کر کیوں کہا جائے کہ‬
‫ہمارے لیے د ُعا کرو۔ اگر وہ اتنا قریب ہوتا تو اپنے لیے د ُعا کر کے‬
‫خود امیر نہ ہو جاتا۔؟ گھر بن ا لیتا‪ ,‬فقیر کیوں بنا پھر رہا ہے۔؟ لوگوں‬
‫کو ایسی د ُعاؤں کے اللچ دے کر یہ پیر وغیرہ لوگوں کو شرک و‬
‫بدعت پر مائل کرتے ہیں اور لوگوں کے مال کے ساتھ ساتھ ا ُن کا‬
‫ایمان بھی ل ُ وٹ لیتے ہیں۔ دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا بدعت‬
‫ہے۔ اب آپ بتائیں کہ کیا کبھی صحابہ نے رسول الل ّٰ ہ کا میالد منایا ہو۔‬
‫یہ سب کیا ہے یہ گیارویں منانا‪ ,‬جمعراتیں منانا۔ اور آج کل تو میوزک‬
‫چ کا ہے۔ مطلب ایک تو بدعت کا عذاب اوپر سے‬ ‫بھی ا ِس کا ِح صّ ہ بن ُ‬
‫ایک اور حرام چیز کو ساتھ شامل کرنے کا عذاب الگ سے ہے۔ بیشک‬
‫گ ُ مراہی مذید گ ُ مراہی کا باعث بنتی ہے۔ آپ چلیں میرے ساتھ موالنا‬
‫صاحب کا بیان س ُ نیں اور اپنے دین کو پہچانیں‪ ,‬ہدایت حاصل کریں۔"‬
‫ا ُس نے اور دوسرے شخص نے کوئی جواب نہ دیا تو ا ُس شخص نے‬
‫مذید کہا "آپ لوگ اتنی دور سے یہاں آئے ہیں محض نمازیں اور‬
‫تالوت مت کیجیئے۔ اپنے دین کو سمجھنے کی کوشش کیجیئے ہم‬
‫ان جانے میں ایسی بہت سی حرکتیں کر جاتے ہیں جو شرک و بدعت‬
‫کے ُز مرے میں آتی ہیں یہاں آئے ہیں تو کچھ سیکھ کر جائیں۔" ا ُس‬
‫‪229‬‬
‫شخص کے شدید اصرار پر ا ُس نے سوچا کہ ا ِن صاحب کی اتنی ساری‬
‫ص لے میں انہیں کچھ نہ کچھ جواب تو دینا ہی چاہیے ا ِس‬ ‫محنت کے ِ‬
‫لیے ا ُس نے کہا"جی انشاء الل ّٰ ہ ضرور سیکھنے کی کوشش کریں گے۔‬
‫ماشاء الل ّٰ ہ آپ بہت محنت اور لگن سے لوگوں تک دین کی سمجھ‬
‫کار خیر کتنے عرصے سے‬ ‫پہنچانے کا کام کر رہے ہیں۔ ویسے آپ یہ ِ‬
‫سر انجام دے رہے ہیں۔؟" ا ُس کے ُم نہ سے اپنی تعریف س ُ ن کر ا ُن‬
‫صاحب نے فور ا ً ترنگ میں آتے ہوئے کہا "بس میں تو اپنی پوری‬
‫زندگی دین کے لیے وقف کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں بھی آپ‬
‫بھائیوں کی طرح پاکستان سے ہوں۔ ہر سال الل ّٰ ہ مجھے میرے دوسرے‬
‫ساتھیوں کے ساتھ ا ِس پاک سر زمین پر آنے کا موقع دیتا ہے۔ میں آٹھ‬
‫چ کا ہوں اور بہت سے ع ُ مرے بھی کیے۔ ہماری جماعت ہر‬ ‫حج کر ُ‬
‫سال لوگوں کو یہاں بھیجتی ہے ہم تبلیغ بھی کرتے ہیں اور حج و‬
‫ع ُ مرہ کی سعادت بھی حاصل کرتے ہیں۔ "‬
‫ا ُن صاحب کی بات پر ا ُس نے کہا "میں جب یہاں آ رہا تھا تو اتنے‬
‫سارے لوگوں نے د ُعا کرنے کو کہا تھا۔ آپ تو ہر سال یہاں آتے ہیں‬
‫آپ سے بھی بہت سارے لوگ د ُعا کرنے کو کہتے ہو ں گے نا۔؟" تو‬
‫ا ُن صاحب نے بدستور اپنی سعادتوں پے ا ِتراتے ہوئے کہا "ہاں بہت‬
‫سے لوگ ہر سال بہت سی دعائیں کرنے کو کہتے ہیں میں نے تو‬
‫ڈائری رکھی ہوئی سب کی د ُعائیں لکھ کر لے آتا ہوں اور کعبے کے‬
‫سامنے بیٹھ کر سب کی د ُعائیں الل ّٰ ہ کے گھر تک پہنچا دیتا ہوں۔" ا ُن‬
‫کی بات س ُ ن کر ا ُس نے ُم سکراتے ہوئے کہا "آپ نے وہاں کبھی کسی‬
‫کو یہ نہیں کہا کہ ال ل ّٰ ہ سے مانگو مجھ سے کیوں مانگ رہے ہو یا یہ‬
‫کہ ال ل ّٰ ہ سے ڈائریکٹ د ُعا مانگو وہ تمھاری شہ رگ سے بھی قریب‬
‫ہے۔ وہاں نہیں بتایا لوگوں کو کہ کسی سے د ُعا کرنے کو کہنا شرک‬
‫ہو جاتا ہے۔ ؟ اگر آپ اپنی ڈائری میں د ُعا نوٹ کر کے الل ّٰ ہ کے گھر‬
‫تک پہنچا سکتے ہیں تو یقینا ً جس کا دل الل ّٰ ہ کا گھر ہو وہ بھی لوگوں‬
‫کی د ُعا الل ّٰ ہ تک پہنچا سکتا ہے۔ ایسے کئی واقعات ہیں جن میں لوگوں‬
‫نے رسول ال ل ّٰ ہ صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم سے د ُعا کرنے کو کہا۔ میں‬
‫نے تو نہیں س ُ نا کہ کسی کو یہ جواب مال ہو کہ مجھ سے نہیں الل ّٰ ہ‬
‫سے مانگو۔" ا ُن صاحب نے متذبب لہجے میں کہا "اور یہ جو قبروں‬
‫سے جا کے د ُعائیں مانگتے ہیں یہ بھی تو شرک ہی ہے۔ قبروں سے‬
‫‪230‬‬
‫کیوں مانگتے ہیں لوگ۔؟ جب کہ مرنے واال َم ر گیا اب تو وہ خود‬
‫محتاج ہے ا ُس نے کسی کے لیے کیا کرنا ہے اب۔؟ بجائے ا ِس کے کہ‬
‫صاحب قبر کے لیے د ُعا کی جائے یہ لوگ ا ُلٹا ا ُنہی سے د ُعا مانگنے‬
‫لگ جاتے ہیں‪ ,‬یہ لوگ پیروں فقیروں کو پتا نہیں کیا سمجھتے ہیں‪,‬‬
‫مرنے واال مر گیا‪ ,‬پتہ نہیں قبر میں ہڈیاں بھی ہوں گی کہ نہیں اور یہ‬
‫لوگ ا ُن سے ا ِس طرح مدد ما نگتے ہیں جیسے وہی سب کچھ ہوں۔"تو‬
‫ا ُس نے ذرا سنجیدہ لہجے میں کہا "قبر میں ہڈیاں‪ ,‬آپ کی اور میرے‬
‫جیسے لوگوں کی سڑائی جاتی ہیں الل ّٰ ہ والے ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔‬
‫ا ِس کی واضح مثال ہمیں واقعہ معراج میں ملتی ہیں۔ وہ انبیاء جنہوں‬
‫نے رسول الل ّٰ ہ کی اقتدا میں بیت الم قدس میں نماز ادا کی تھی وہ سب‬
‫ا ُس وقت صاح بِ قبر تھے۔ ہم مسلمانوں پر پانچ نمازیں اور تیس‬
‫روزے بھی کسی صاح بِ قبر ہی کے مشورے کے باعث فرض ہوئیں‬
‫موسیٌ ا ُس وقت صاحب قبر ہی تھے جب انہوں نے رسول الل ّٰ ہ‬ ‫ٰ‬ ‫تھیں۔‬
‫سفر معراج کے دوران مالقات کی۔ کیا ا ِس واقعے سے یہ ثابت‬ ‫ِ‬ ‫سے‬
‫نہیں ہوتا کہ صاح بِ قبر س ُ نتے بھی ہیں اور سفارش بھی کرتے ہیں۔"‬
‫ا ُن صاحب نے ِچ ڑ کر کہا "آپ انبیاء کی بات کر رہے ہیں۔ آج کل وہ‬
‫لوگ کہاں۔؟ " تو اُس نے کہا "انبیاء کی بات اِس لیے کر رہا ہوں تاکہ آپ انبیاء‬
‫غالموں کا مقام تو بعد کی بات ہے۔" تو‬ ‫کے سردار کا مقام سمجھ سکیں اُن کے ُ‬
‫اُن صاحب نے کہا "خیر انبیاء کی تو بات ہی الگ ہے اُن کے بارے میں ہم ناقص‬
‫العقل لوگ کیا کہہ سکتے ہیں اللّٰہ کی اپنی حکمت ہے اور باقی پیروں‪ ,‬فقیروں‬
‫کے بارے میں ایسے سوچنا کہ وہ مرنے کے بعد بھی زندہ ہو سکتے ہیں یہ بلکل‬
‫جائز نہیں ہے۔" تو اُس نے کہا "کیا مرنے کے بعد آپ قبر میں زندہ نہیں ہوں‬
‫گے۔؟" تو انہوں نے چونک کر پوچھا "کیا مطلب۔؟" تو اُس نے مسکرا کر کہا‬
‫"قبر میں سوال جواب سب کس کے ساتھ ہو گا۔؟ آپ زندہ ہوں گے تو آپ کو اجر‬
‫و عذاب محسوس ہو گا نا۔ قبر یا تو دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے یا‬
‫جنت کے باغوں میں سے ایک باغ۔ انسان قبر میں زندہ ہو گا تو ہی جنت دوزخ‬
‫کا مزا لے سکے گا نا۔ اس کا مطلب کہ انسان کی روح اپنی قبر میں ہی موجود‬
‫ہوتی ہے اور انسان کے اعمال کے حساب سے اُس پے قبر تنگ یا ُکشادہ ہو‬
‫جاتی ہے اور مرنے کے بعد وہ اپنے اعمال اور اللّٰہ کے ساتھ اپنے ُگمان کے‬
‫مطابق قبر کی زندگی ُگزارتا ہے۔ کیا قبرستان سے ُگزرتے ہوئے 'اسالم و علیکم‬
‫یا اہل القبور' پڑھنے کو نہیں کہا جاتا۔؟ اگر وہاں کوئی نہیں ہے تو سالم کس کو‬
‫‪231‬‬
‫روضہ رسول پر‬
‫ٔ‬ ‫ٌٰ‬
‫عیسی‬ ‫کیا جاتا ہے۔؟ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب حضرت‬
‫حاضر ہو کے سالم عرض کریں گے اور سالم کا جواب آئے گا جسے ہر خاص‬
‫ب قبر کی‬‫سن سکے گا۔ عجیب بات ہے نا کہ ایک طرف آپ ثواب و عذا ِ‬ ‫و عام ُ‬
‫بھی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب اللّٰہ کے ُمقرب بندوں کو اپنی قبروں میں‬
‫زندہ ماننے کو شرک و بدعت جیسے نام بھی دیتے ہیں۔ قبر میں تو سبھی زندہ ہی‬
‫ہوتے ہیں تبھی اُن کو ثواب و عذاب محسوس ہوتا ہے اور اللّٰہ کے مقرب بندے‬
‫زمین کے اوپر بھی لوگوں کے اور اللّٰہ کے بیچ رابطہ ہوتے ہیں اور زمین کے‬
‫نیچے بھی اُن کا کام مخلوق کی بھالئی ہوتا ہے۔ اسی لیے لوگ اُن سے دُعا کی‬
‫درخواست کرتے ہیں۔ اللّٰہ بیشک ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے لیکن‬
‫اُس کی محبت اور قُرب اِس بات پر منحصر ہے کہ آپ اُس کے کتنے قریب ہیں‬
‫سنتا ہے لیکن کوئی کوئی اُس کے اتنا قریب ہوتا ہے جو اپنی بات‬ ‫وہ تو سب کی ُ‬
‫اُس سے منوا لیتا ہے۔ اور جہاں تک رسول اللّٰہ کی شان میں اشعار پڑھنے کی‬
‫بات ہے تو ایسی بہت سی روایات موجود ہیں جن میں صحابہ نے رسول اللّٰہ کی‬
‫شان میں اشعار کہے۔ اللّٰہ والوں کی شان بیان کرنا کوئی نئی چیز نہیں ہے‪ ,‬یہ‬
‫ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ جو اللّٰہ کی شان بیان کرتے ہیں لوگ اُن کی شان بیان‬
‫کرتے ہیں۔ عجیب سوچ ہے کہ کسی سیاسی لیڈر‪ ,‬کسی عورت‪ ,‬حتکہ ٹوتھ پیسٹ‬
‫اور ٹوتھ برش کی بھی تعریف میں اشعار کہے جاتے ہیں۔ لیکن جب کوئی بات‬
‫اللّٰہ والوں سے منسوب ہوتی ہے تو اُس میں نقطے نِکالنا شروع کر دیے جاتے‬
‫طرز بیاں ہوتا ہے۔ اللّٰہ کے کالم 'قرآن' کا بھی ایک انداز‬
‫ِ‬ ‫ہیں۔ ہر بیان کا ایک‬
‫بیاں ہے۔ آیات کا ایک لہجہ ہے۔ اُسی طرح ہر انسان کا اپنا لہجہ ہوتا ہے جس‬
‫طرز محبت پے ٹوکنے کی‬ ‫ِ‬ ‫سے وہ اپنی محبت بیان کرتا ہے۔ کسی کو اُس کے‬
‫موسی سے ناراضگی کا اظہار کیا۔ یاد کیجیئے جو‬ ‫ٌٰ‬ ‫وجہ سے اللّٰہ نے حضرت‬
‫ٌٰ‬
‫موسی‬ ‫شخص اللّٰہ سے کہہ رہا تھا کہ آ تیرے بالوں میں کنگی کروں وغیرہ۔ جب‬
‫نے اُسے ٹوکا تو اللّٰہ نے کہا اُس کا اظہار مجھے کتنا پسند آ رہا تھا آپ سوچ نہیں‬
‫سکتے۔ تو جس بات کی اجازت اللّٰہ نے ایک نبی کو نہیں دی ہم وہ بات کرنا اپنا‬
‫اظہار محبت کرنے‬ ‫ِ‬ ‫دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اپنے انداز میں اپنے محبوب سے‬
‫کی اجازت ہر شخص کو ہے۔ نعت رسول اللّٰہ کے زمانے میں بھی پڑھی جاتی‬
‫تھی اور آج بھی پڑھی جاتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ اکثر لوگ اپنا منفرد‬
‫انداز‬
‫ِ‬ ‫انداز بناتے بناتے کچھ ذیادہ ہی منفرد ہو جاتے ہیں اور ا ُن کا‬
‫بیاں اکثر ادب کی حد سے باہر ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی یہ سب شرک‬
‫و بدعت میں نہیں آتا۔ "بھر دو جھولی میری یامحمد" ا ِس طرح کے‬
‫‪232‬‬
‫اشعار کو اکثر لوگ شرک گردانتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ جو‬
‫ذات ہمارے وجود کی وجہ ہے‪ ,‬ک ُ ل کائنات کا نظام جن کے اظہار کی‬
‫خاطر بنا وہ ذات جس کے صدقے آسمان بارشیں برساتا اور زمین اناج‬
‫ا ُگاتی ہے‪ ,‬وہ ذات جس کی وجہ سے انسان کو الل ّٰ ہ سے عشق کرنے‬
‫کی اجازت ملی۔ وہ ذات جس کی وجہ سے عجز و ایمان کی جھولی‬
‫عطا ہوئی اگر وہ ذات بھی ا ِس جھولی کو نہیں بھر سکتی تو پھر ا ِسے‬
‫کوئی بھی نہیں بھر سکتا۔ الل ّٰ ہ کو لوگ جس کے وسیلے سے جانتے‬
‫ہیں۔ جن کا نام لے کر لوگ الل ّٰ ہ کے دین میں داخل ہوتے ہیں جن کی‬
‫محبت کو الل ّٰ ہ نے خود تک پہنچنے کا ذریعہ بنایا ا ُن سے سوال نہیں‬
‫کریں گے تو کس سے کریں گے۔ سب الل ّٰ ہ ہی سے ہوتا ہے لیکن الل ّٰ ہ‬
‫نے ہر چیز کا سبب بنا رکھا ہے۔ ا ُس سبب کو پ ُ کارنا پڑتا ہے۔ اکثر‬
‫س ُ نا ہو گا کہ اگر جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو الل ّٰ ہ سے مانگو۔‬
‫لیکن الل ّٰ ہ سے مانگنا یہ نہیں ہے کہ ظاہری وسیلے کو نظر انداز کر‬
‫دیا جائے۔ الل ّٰ ہ آپ کو تسمہ ال کر نہیں دیتا بلکہ آپ کے لیے سبب بنا‬
‫دیتا ہے تسمہ آپ کو بازار سے ہی خریدنا پڑتا ہے آسمان سے نازل‬
‫نہیں ہوتا۔ کسی دوست سے ا ُدھار مانگنا‪ ,‬کسی ڈاکٹر کے عالج سے‬
‫شفایاب ہو جانے ک ی امید رکھنا‪ ,‬کسی سرکاری اہل کار کو رشوت دے‬
‫کر اپنا کام ن ِ کلوانے کی امید رکھنا یہ سب چیزیں بڑے آرام سے سمجھ‬
‫آ جاتی ہیں اور یہاں شرک محسوس نہیں ہوتا لیکن جب کوئی شخص‬
‫الل ّٰ ہ کے رسول یا صالحین کی ارواح سے دین کی سیکھ سمجھ حاصل‬
‫کرنے کا سوال کرتا ہے یا اپنی ظاہ ری زندگی کی مشکالت میں آسانی‬
‫کی سفارش کرنے کو کہتا ہے تو ہم شرک کے ف ٰت وے صادر کرنے لگ‬
‫جاتے ہیں۔ "‬

‫‪233‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ا ُس شخص نے ج ِھ ال کر کہا "اور یہ جو لوگ یاعلی مدد کہتے ہیں یا‬
‫حضرت علی کو ُم شکل ک ُ شا کہتے ہیں کیا یہ شرک نہیں ہے۔؟" تو ا ُس‬
‫نے کہا "میں ٹھیک سے چل پھر نہیں سکتا اگر میں کسی شخص سے‬
‫مدد مانگوں گا تو کیا میں شرک کا ارتکاب کروں گا۔؟" ا ُس شخص نے‬
‫چکرا کر کہا "لیکن جو موجود ہی نہیں وہ آپ کی مدد کیسے کر سکتا‬
‫ہے۔؟" تو ا ُس نے کہا "موجود اور غیر موجود کی بات میں آپ سے‬
‫چ کا ہوں ا ِس لیے د ُ ہراؤں گا نہیں۔ خیر آپ کا موبائل‬
‫پہلے بھی کہہ ُ‬
‫فون بہت اچھا لگا مجھے‪ ,‬کتنے کا ہے۔؟" ان صاحب نے فور ا ً اپنے‬
‫قیمتی موبائل کی قیمت بتائی تو ا ُس نے کہا "ویسے یہ موبائل فون‬
‫بھی بہت کمال کی چیز ہے ا ِس موبائل کے بنانے والے کی ذہانت کی‬
‫داد دینی چاہیے جس کے دماغ نے لوگوں کے لیے ا تنی آسانیاں پیدا‬
‫کر دیں۔" تو ا ُن صاحب نے کہا "داد کا اصل مستحق تو گراہم بیل ہے‬
‫جس نے فون ایجاد کیا تھا۔ حج کے سفر میں ہم لوگوں کے لیے ا ِس‬
‫سے بہت آسانی ہو گئی ہے لوگوں کو ڈھونڈنا بہت آسان ہو گیا ہے۔‬
‫میں تو گراہم بیل کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں اگرچہ وہ غیر مس لم تھا‬
‫لیکن تمام انسانوں کی بہت سی مشکالت آج بھی ا ُس کے دم سے حل ہو‬
‫رہی ہیں۔" ا ُس نے ا ُس شخص کی بات پر مسکراتے ہوئے کہا "ویسے‬
‫کیا گراہم بیل کو ا ُس کی موت کے بعد شکریہ کہنا شرک نہیں ہے۔؟"‬
‫ا ُس شخص نے چونک کر ا ُس کی طرف دیکھا تو ا ُس نے مذید کہا‬
‫"عجیب بات ہے ن ا کہ گراہم بیل تو مرنے کے بعد بھی لوگوں کی مدد‬
‫کر رہا ہے ا ُن کی ُم شکلیں آسان کر رہا ہے اور ا ُسے خراج ِ تحسین‬
‫پیش کرنے میں بھی کوئی ب ُ رائی نہیں ہے لیکن الل ّٰ ہ کے مقرب بندے‬
‫جن کی زندگی کے حاالت‪ ,‬جن کے فرمان‪ ,‬رہتی دنیا تک تمام انسانوں‬
‫کے لیے مشع ِل راہ ہیں ا ُن سے کچھ سیکھ کر یا ا ُن کے بلند مرتبہ کو‬
‫دیکھ کر اگر کوئی ا ُن سے مدد طلب کرے یا ا ُنہیں اپنی مشکل حل‬
‫کرنے واال کہہ کر پ ُ کارے تو ہم ا ُسے خارج از دین کہنا شروع کر‬
‫دیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس ایسی سوچ پر اور ایسے ع ُ لماء پر جو‬
‫معاشرت و ثقافت کو دین کے ساتھ ایسا گڈ م ڈ کر کے پیش کرتے ہیں‬
‫‪234‬‬
‫کہ لوگ نہ دین کے رہتے ہیں نہ دنیا کے۔ تو ا ُن صاحب نے کہا کہ‬
‫"میں تو ابھی طالب علم ہوں اور زندگی بھر طالب علم ہی رہوں گا‪,‬‬
‫انسان زندگی بھر سیکھتا رہتا ہے۔ لیکن جس کا دل الل ّٰ ہ نے ہدایت کے‬
‫لیے بند کر دیا ہو ایسا شخص کبھی کچھ نہیں سیکھ سکت ا۔ ہم تو بحث‬
‫نہیں کرتے کسی سے۔ تمھارا دین تمھارے لیے اور ہمارا دین ہمارے‬
‫لیے۔" پھر ا ُس شخص نے رازدارانہ انداز میں ا ُس سے سوال کیا "آپ‬
‫یہاں اور لوگوں سے تو بات نہیں کرتے۔؟" تو ا ُس نے سرد سے لہجے‬
‫میں کہا "میں یہاں لوگوں سے بات کرنے نہیں آیا ہوں۔ ہاں اگر کسی‬
‫کو بہت شوق ہو بات کرنے کا تو ا ُس سے ا ُس کی تسلی کی خاطر بات‬
‫کر لیتا ہوں۔ آپ بے فکر رہیں آپ کے ح صّ ے کے بیوقوفوں کو میں‬
‫یہاں کچھ نہیں کہوں گا۔ اب آپ جائیں کسی اور کو جا کہ شرک و‬
‫بدعت سمجھائیے گا۔" وہ صاحب ا ُس کا انداز دیکھ کر بنا کچھ کہے‬
‫چ کے تھے کہ ا ُن‬ ‫اپنی جگہ سے ا ُٹھ کر چلے گئے۔ کیونکہ وہ سمجھ ُ‬
‫کی دال یہاں نہیں گلنے والی۔‬
‫ا ُس شخص کے جانے کے بعد ا ُس نے خود کو مالمت کی کہ ت ُو نے‬
‫ا ُس کا ِد ل د ُکھایا لیکن ِد ل نے کہا کہ "وہ جس ارادے سے آیا تھا ا ُسے‬
‫ایسا ہی جواب ملنا چاہیے تھا ورنہ وہ جان نہ چھوڑتا اور نہ جانے‬
‫کون کون سے ف ٰت وے س ُ ننے کو ملتے ا ِس لیے جو ہوا اچھا ہوا۔ ادھورا‬
‫علم فتنہ ہوتا ہے۔ عجیب لوگ ہیں خود مانتے ہیں کہ ابھی طالب علم‬
‫ہیں اور پھر بھی ا ُستاد بن کے لوگوں کو ِس کھانے کی کوشش کرتے‬
‫س کھانے کی کوشش کرنا۔‬ ‫ہیں‪ ,‬پہلے اپنی تعلیم تو مکمل کر لو پھر ِ‬
‫ایسے بہت سے لو گ ہیں معاشرے میں جو کسی بھی بات کو پوری‬
‫طرح جانے بغیر ہی ا ُسے آگے بیان بھی کرتے ہیں اور اپنے نظریے‬
‫کی پیروی کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں‪ ,‬یہی نہیں بلکہ اپنا نظریہ‬
‫نہ ماننے والوں کو خارج از دین گرداننے سے بھی باز نہیں آتے۔‬
‫کسی جاننے والے کا عاجزی میں خود کو ک م علم کہنا جائز ہے لیکن‬
‫جو شخص علم واال ہو ا ُس کی کیفیت یہ نہیں ہوتی ہے کہ میں تو کم‬
‫علم ہوں‪ ,‬وہ تو کہتا ہے کہ جس چیز کے بارے میں پوچھنا چاہو پوچھ‬
‫لو‪ ,‬میں جواب دوں گا۔ اگر کوئی شخص خود کو کم علم سمجھتا ہے تو‬
‫ا ُسے اپنی زبان بند رکھنی چاہیے۔ یا پھر اپنی رائے کو آخری رائے‬
‫سمجھتے ہوئے دوسروں کے دماغ پر الدنے کی کوشش نہیں کرنی‬
‫‪235‬‬
‫چاہیے۔ جب تک کسی شخص کو کسی چیز کا پورا علم نہ ہو تو ہم عام‬
‫زندگی میں بھی ا ُس کا اعتبار نہیں کرتے لیکن دین مذہب کے معاملے‬
‫میں فور ا ً یقین کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کوئی شخص یہ کہے کہ‬
‫میں نے میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا ہے آئیے میں آپ کا عالج کر‬
‫دوں تو آپ ا ُسے کہیں گے کہ بھائی پہلے اپنی ڈگری مکمل کر لے بعد‬
‫میں میرا عالج کر لینا۔ لیکن دین کے معاملے میں لوگ کالج میں‬
‫ایڈمشن لیے بغیر ہی ایک دوسرے کا آپریشن کرتے پھرتے ہیں اور‬
‫لوگ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ا ِس آپریشن میں ا ُن کا ِد ل نکال لیا گیا ہے‬
‫اور ُم ردہ جسم کو لوگوں کے بیچ تعفن پھیالنے کے لیے چھوڑ دیا گیا‬
‫ہے۔‬
‫ا ِس طرح کے لوگ ہر مذہب و مسلک میں ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے‬
‫دماغ چھوٹے اور ُم نہ بڑے ہوتے ہیں ا ِس لیے ایسے لوگ دین دھرم‬
‫کے معاملے میں اکثر بہت جلد ی آگ بگوال ہو جاتے ہیں یہ لوگ بہت‬
‫پ ُ ر اعتماد انداز میں اپنی ناقص رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ مانتے بھی‬
‫ہیں کہ ا ُن کی رائے ناقص ہے مگر پھر بھی اظہار کرنا ضروری‬
‫سمجھتے ہیں۔ ا ِس دنیا میں ہر مذہب کے لوگ اپنے مذہب کی اصل‬
‫تعلیمات سے غافل ہیں اور اسی لیے ایسی ناقص را ئے رکھنے والے‬
‫لوگ دین اور علم کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو بہکانے میں کامیاب ہو‬
‫جاتے ہیں۔"‬
‫ا ُس نے اپنے ِد ل کی طویل تقریر س ُ ن کے کہا "اے ِد ل ت ُو ٹھیک کہتا‬
‫ہے لیکن ا ُس کی ِد ل آزاری ہوئی بس یہ بات مناسب نہیں لگی مجھے۔"‬
‫تو دل نے کہا "یہ تمھارا ظرف ہے کہ تم یہ محس وس کر رہے ہو۔ یہ‬
‫اعلی ظرفی ہے کہ تم اپنے دشمن کو معاف کر دو لیکن جو ال ل ّٰ ہ کا‬
‫دشمن ہے‪ ,‬یا الل ّٰ ہ کی مخلوق کا دشمن ہے‪ ,‬ا ُسے معاف کرنے کا‬
‫اختیار تمھارے پاس نہیں ہے۔ یہاں بات ظرف کی نہیں ذمہ داری کی‬
‫ہے۔ جو شخص لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش میں لگا ہو ا ُس کی‬
‫ِد ل آزاری کر دینی چاہیے‪ ,‬ہو سکتا ہے کہ ا ِسی بہانے وہ را ہِ راست‬
‫پر آ جائے اور اگر یہ نہ ہو تو کم از کم اگلی بار کسی سے ایسی بات‬
‫کرتے ہوئے وہ ایک بار سوچے تو صحیح کہ وہ جو بات کہنے جا رہا‬
‫ہے ا ُس کا مکمل علم بھی ہے ا ُس کے پاس یا نہیں۔" ا ُس نے کہا "میں‬
‫سمجھتا ہوں تیری بات لیکن میں تو سب کو ایک ہونے کا درس دینا‬
‫‪236‬‬
‫چاہتا ہوں۔" تو دل نے ا ُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا "سب لوگ ایک‬
‫نہیں ہو سکتے‪ ,‬حق و باطل قیامت تک کے لیے ہیں۔ سب کو ایک‬
‫کرنے کی کوشش اچھی ہے لیکن سب کسی ایک جانب تو نہیں آ سکتے‬
‫نا۔ کوئی نہ کوئی تو مخالف رہے گا ہی۔ اور جو بات تم کہنے جا رہے‬
‫ہو‪ ,‬ا ُس میں تو مخالفوں کی قطار لگنے والی ہے۔ کس کس کی ِد ل‬
‫آزاری سے بچنے کی کوشش کرو گے۔؟ اور اگر یہی کرتے رہو گے‬
‫تو اپنی بات کیسے پہنچاؤ گے لوگوں تک۔؟ ا ِس لیے حق بات کے بیان‬
‫میں حق کے سوا کسی کی پرواہ مت کرنا۔ ب ِ نا تصدیق بات کرنے والے‬
‫بہت ہوتے ہیں تصدیق کے ساتھ بات کرنے واال کوئی کوئی ہوتا ہے۔‬
‫اور بات کی تصدیق حدیث کا ریفرینس جان لینے سے نہیں بلکہ دل‬
‫کے اقرار سے ہوتی ہے۔ اگر ریفرینس سے دل کی تصدیق ہو جاتی‬
‫ہوتی تو آج زمین پر ایک ہی مذہب ہوتا۔ اگر تمھیں تورات یا انجیل‬
‫کے صدیوں پرانے ن ُ سخے مل جائیں تو کیا ا ُنہیں پڑھ کر تم اپنا مذہب‬
‫بدل لو گے۔؟ مذہب تو دور لوگ محض احادیث کے ریفرنسز سے خود‬
‫اپنے دل کو اپنے مسلک پر بھی راضی نہیں کر پاتے۔ کتابیں پڑھ‬
‫لینے سے تصدیق نہیں مل جاتی‪ ,‬تصدیق تب تک نہیں ملتی جب تک‬
‫کہ ِد ل کو احساس حاصل نہ ہو۔ حق کو م حسوس کیے بغیر انسان اپنے‬
‫جسم کو اپنے دماغ کو راضی کر سکتا ہے لیکن ا ِس سے ِد ل راضی‬
‫نہیں ہوتا۔ ب ِ نا تصدیق کے بات آگے بیان کر دینے والوں کو اسی لیے‬
‫ناپسند کیا گیا ہے کیونکہ تصدیق سے خالی زبان کا علم فتنہ کے سوا‬
‫کچھ بھی نہیں۔ آج ہر مذہب و مسلک بلکہ زندگی کے ہر ش ُ عبے میں‬
‫ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنے ادھورے علم سے دوسرے لوگوں‬
‫کا نقصان کرنے کے در پے رہتے ہیں۔ بس یہی غلطی ہے ہماری کہ‬
‫ہم ایسے لوگوں کو جواب دینے کی جگہ ا ُن کی ہاں میں ہاں مالنے‬
‫لگ جاتے ہیں۔ اگر انسانوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہو تو ا ُنہیں سب‬
‫سے پہلے ا پنے ادھورے علم کے اظہار سے روکنے کی کوشش کرو‬
‫تاکہ لوگ مکمل بات کرنے والوں کی بات پر کان دھر سکیں۔" ا ُس نے‬
‫کہا "اے دل میں پہلے کبھی تجھ سے جیت سکا ہوں جو آج جیت جاؤں‬
‫گا۔؟ ت ُو ٹھیک کہتا ہے مگر پھر بھی میں کم سے کم ایک بار اپنی بات‬
‫سب کو سمجھانے کی کوشش ضرور کروں گا پھر الل ّٰ ہ کی مرضی وہ‬
‫جسے چاہے ہدایت دے اور جسے چاہے گ ُ مراہ کرے۔"‬
‫‪237‬‬
‫مسج ِد نبوی میں ا ُسے بہت سے لوگ ملے جنہیں وہ جانتا نہیں تھا۔ ا ُن‬
‫انجان لوگوں میں کچھ ایسے تھے کہ انہیں دیکھ کر دل عقیدت سے‬
‫ج ھُ کا جاتا تھا اور کچھ ایسے تھے جنہیں دیکھ کر ہی ا ُس کا دل ا ُنہیں‬
‫سخت الفاظ میں مخاطب کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ ا ُس نے دونوں‬
‫جگہ دل کو سنبھالنے کی کوشش کی اور خود کو میانہ روی پر مائل‬
‫رکھنے کی کوشش کی۔‬
‫لوگوں کے بارے میں سوچتے ہوئے ا ُسے اکثر خیال آتا کہ اقبال کے‬
‫اشعار جو انہوں نے "ابلیس کا پیغام اپنے سیاسی فرزندوں کے نام"‬
‫کے عنوان سے کہے تھے‪ ,‬آج ہم ان اشعار کی ایسی تصویر بنے‬
‫بیٹھے ہیں گویا ابلیس کا وہ فرمان ا ُس کے سیاسی فرزند حرف بہ‬
‫چ کے ہوں۔‬
‫حرف پورا کر ُ‬
‫ال کر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں‬
‫زناریوں کو دیر کہن سے نکال دو‬
‫وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا‬
‫روح محمد اس کے بد ن سے نکال دو‬
‫فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیالت‬
‫اسالم کو حجاز و یمن سے نکال دو‬
‫افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ عالج‬
‫مال کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو‬
‫اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو‬
‫آہو کو مرغزار ختن سے نکال دو‬
‫اقبال کے نفس سے ہے اللے کی آگ تیز‬
‫ایسے غزل سرا کو چم ن سے نکال دو‬

‫‪238‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫مدینہ میں اپنے سبھی دن رات ا ُس نے مسج ِد نبوی میں یا اپنے ہوٹل‬
‫کے کمرے میں گ ُ زارے۔ ا ُس کے ساتھ کے سب لوگ مختلف زیارتوں‬
‫پر گئے مگر وہ کسی زیارت پر نہیں گیا۔ ا ُس کی والدہ اور ا ُس کے‬
‫ساتھ موجود اکثر لوگوں کو ا ُس کی یہ حرکت ناگوار گ ُ زری ۔ مگر ا ُس‬
‫نے کسی کو کوئی جواب نہیں دیا۔‬
‫ا ُس کا ماننا تھا کہ ہم کسی ظاہری مقام سے الل ّٰ ہ کے قریب یا دور نہیں‬
‫ہو سکتے بلکہ وہ تو گناہ اور ثواب کے بارے میں بھی یہی فلسفہ‬
‫رکھتا تھا کہ کوئی گناہ انسان کو الل ّٰ ہ سے دور نہیں کرتا اور نہ ہی‬
‫ثواب الل ّٰ ہ کے قریب کرت ا ہے۔ ا ُس کے کسی دوست نے ا ُس کی یہ بات‬
‫س ُ ن کر کہا "بھائی عجیب سائنس ہے تیری‪ ,‬اگر گناہ ثواب بندے کو‬
‫قریب یا دور نہیں کرتے تو گناہ ثواب کا مقصد کیا رہ گیا۔" تو ا ُس نے‬
‫کہا "جو ہر جگہ موجود ہو ا ُس سے کیسی دوری اور کیسا ق ُ رب۔ یہ‬
‫گناہ ثواب انسان کی اپنی سوچ کے پ ردے ہیں۔ اصل میں جب ہم گناہ‬
‫کرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو پست کر رہے ہوتے ہیں۔ انسان کا ایک‬
‫اصل مقام ہوتا ہے اور ا ُس اصل مقام سے پست درجات کے بہت سے‬
‫کام انسان پر فرض ہوتے ہیں۔ ا ِس بات کو یوں دیکھو کہ جیسے کھانا‬
‫پینا وغیرہ انسان کی شخصیت کا ح صّ ہ نہیں ہے بلکہ ا ُس کی جسمانی‬
‫ضرورت ہے۔ وہ کسی بھی درجے کا انسان ہو ا ُس کے لیے کھانا پینا‬
‫ضروری ہے لیکن ہم کسی انسان کو ا ُس کے کھانے پینے سے نہیں‬
‫بلکہ ا ُس کے اخالق و کردار کی بنیاد پر پرکھتے ہیں ہر شخص اپنے‬
‫درجات سے ا ُتر کر ن ِ چلے درجات پر جاتا ہے اور پھر واپس اپنے‬
‫اعلی شخص رفع حاجت کرتا ہے‪,‬‬ ‫ٰ‬ ‫اعلی سے‬
‫ٰ‬ ‫اصل مقام پر آ جاتا ہے۔‬
‫ہم بستری کرتا ہے‪ ,‬لیکن یہ سب ا ُس کا کردار نہیں ہوتا۔ ایک جائز حد‬
‫ہے جہاں تک انسان جا سکتا ہے‪ ,‬ا ُس حد سے تجاوز انسان کو گناہ‬
‫میں ُم بتال کرتا ہے۔ گناہ کرنے سے انسان اپنے نفس کی نظر میں چور‬
‫بن جاتا ہے۔ جیسے ک سی شخص کے سامنے کوئی گناہ کرنا انسان کو‬
‫ا ُس شخص کی نظر میں ِگ را دیتا ہے اور اس وجہ سے ہم خود ا ُس کے‬
‫سامنے بھالئی کی بات کرتے ہوئے جھجھک تے ہیں۔ جیسے جس‬

‫‪239‬‬
‫شخص کو پتا ہو کہ ہم نماز کے پابند نہیں ہیں ا ُس شخص کو ہم نماز‬
‫پڑھنے کا کہتے ہوئے جھجھکتے ہیں لیکن جو ہمی ں نہیں جانتا ا ُس‬
‫کے نماز نہ پڑھنے پر ہم ا ُسے سختی سے ٹوکنے سے بھی باز نہیں‬
‫آتے۔ اسی طرح ہم اچھائی یا ب ُ رائی کر کے اپنے نفس کی نظر میں ب ُ لند‬
‫یا پست ہوتے ہیں جسے ہم عام طور پر الل ّٰ ہ کے قریب یا دور ہونا‬
‫سمجھتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو ی ہی‬
‫نفس ا ُس کا آئینہ بن کر ا ُس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے کہ ت ُو نے‬
‫فالں گناہ کر لیا اب ت ُو الل ّٰ ہ سے دور ہو گیا ہے یا پھر یہ کہ ت ُو نے‬
‫فالں نیکی کی اب تو ت ُو الل ّٰ ہ کے بہت قریب ہو گیا ہے۔ یہ دونوں‬
‫سوچیں باطل ہیں۔ الل ّٰ ہ اعمال سے نہیں خلوص سے ملتا ہے اور‬
‫خلوص یہی ہے کہ اپنا آپ ا ُس کی ذات میں گ ُ م کر دیا جائے۔ ا ُسے گناہ‬
‫و ثواب‪ ,‬اجر و عذاب کی سوچ سے ہٹ کر سوچا جائے۔ ایک دوست‬
‫کی طرح ا ُسے ہر وقت ساتھ رکھا جائے اور ایک دوست کی طرح‬
‫مخاطب کر کے ا ُس سے بات کی جائے" ا ُس کے دوست نے حیرت‬
‫سے کہا "دوست کی طرح مخاطب کر کے کی سے بات کی جا سکتی ہے‬
‫الل ّٰ ہ سے۔؟ ا ُس سے بات کرنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ ب ِ نا وضو کے‬
‫تو ہم نماز نہیں پڑھ سکتے ا ُس سے ہمکالم ہونا تو دور کی بات ہے۔"‬
‫تو ا ُس نے کہا کہ "اسی لیے تو الل ّٰ ہ نے کہا کہ میں اپنے بندے کے‬
‫گمان کے مطابق ہوں وہ میرے ساتھ جیسا چاہے گمان ک رے۔ جو لوگ‬
‫ا ُسے ثواب‪ ,‬عذاب‪ ,‬حساب‪ ,‬کتاب واال سمجھتے ہیں ا ُن کے ساتھ وہ‬
‫ویسا ہی بن کے ملتا ہے اور جو لوگ ا ُسے اپنا دوست سمجھ کر ساتھ‬
‫رکھتے ہیں ا ُن کے ساتھ وہ دوست بن کر ہی رہتا ہے۔ جیسے کسی‬
‫بھی غلطی کے باوجود اپنی ماں سے انسان یہ امید رکھتا ہے کہ وہ‬
‫ا ُسے معا ف کر دے گی ا ُسی طرح کی امید الل ّٰ ہ سے بھی رکھنی چاہیے‬
‫اور کسی گناہ کو اپنے اور الل ّٰ ہ کے بیچ حائل نہیں کرنا چاہیے۔ اصل‬
‫دوری یہی ہے کہ الل ّٰ ہ کی جانب جاتے ہوئے کسی خطا کو مانع سمجھا‬
‫جائے۔ یہ نفس ہے جو انسان کو کسی نہ کسی بہانے الل ّٰ ہ کی جانب‬
‫جانے کا حوصلہ ا کھٹا کرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ بس‬
‫پہال قدم ہی فیصلہ کرتا ہے کہ انسان میں راہ چلنے کا حوصلہ ہے کہ‬
‫نہیں‪ ,‬اور شیطان اسی پہلے قدم کو روکنے کے لیے انسان کی سوچ‬
‫میں ک ُ وٹ ک ُ وٹ کر یہ بات بھرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ت ُو ال ل ّٰ ہ کی‬
‫‪240‬‬
‫جانب پلٹ نہیں سکتا۔ جو لوگ پھر بھ ی حوصلہ کرتے ہیں شیطان‬
‫ا ُنہیں پاکی ناپاکی کی فکر میں مبتال کرتا ہے اور مسائل میں ا ُلجھانے‬
‫کی کوشش کرتا ہے۔ اب کوشش تو شروع ہو گئی لیکن شک جان نہیں‬
‫چھوڑتا۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو بدنی پاکیزگی کے حوالے سے‬
‫خود کو مطمئن کر پاتے ہیں۔ اور سوچتے ہیں کہ جیسا بھی ہ وں الل ّٰ ہ‬
‫کے سامنے حاضر ہو جانا چاہیے کیونکہ میں ہر حالت میں ا ُسی کے‬
‫سامنے حاضر ہوں۔ ہر انسان جانتا اور مانتا ہے کہ ہر حالت میں وہ‬
‫الل ّٰ ہ کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ گناہ کے ارادے سے لے کر گناہ کر‬
‫لینے کے بعد تک انسان کسی کی نظر میں ہو یا نہ ہو لیکن الل ّٰ ہ کے‬
‫سامنے ضرور ہوتا ہے‪ ,‬یہ بات ا ِس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کسی‬
‫بھی حال میں الل ّٰ ہ سے دور نہیں ہوتا بلکہ یہ صرف ایک احساس یا‬
‫ایک سوچ ہوتی ہے جو ا ُس کی روح کو مفلوج کر رہی ہوتی ہے۔ اکثر‬
‫لوگ نماز ترک کر دینے کا ذمہ دار لباس کی ناپاکی کو قرار دے کر‬
‫اپنے دل کو تسکی ن پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ‬
‫عمل‪ ,‬سوچ اور کوشش کو اکھٹا کر کے پاکی ناپاکی کے شک پر قابو‬
‫پانے کی کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو شیطان انہیں مذہب‬
‫ج ڑی باتوں میں ا ُلجھاتا ہے اور یہ‬ ‫میں موجود مسلکوں کی تقسیم سے ُ‬
‫باتیں نہ ختم ہونے والی ہیں۔ کس کس کو ماننا ضروری ہے اور کس‬
‫کس کو نہ ماننا ضروری ہے۔ کس طریقے سے نماز ہوتی ہے اور کس‬
‫طریقے سے نماز نہیں ہوتی‪ ,‬کس کس کا عمل درست نہیں تھا‪ ,‬کون‬
‫کون گمراہ ہوا اور کون راہ پر رہا ا ِس کا پرچار کر کر کے ایک‬
‫دوسرے کو برباد تصور کرنا ہی تصور کی بربادی اور فساد کی جڑ‬
‫ہے ۔ ال ل ّٰ ہ اپنی تمام مخلوق کے لیے کافی ہے۔ وہ ہر انسان کا رب ہے۔‬
‫ا ُس کی جنت دوزخ الل ّٰ ہ کے ہاتھ ہے الل ّٰ ہ کی مرضی ہے کہ وہ ا ُس‬
‫سے راضی ہو گا یا نہیں۔ لیکن ا ِس بات کو لے کر ہم کیوں ایک‬
‫دوسرے کی جنت دوزخ کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں۔؟" ا ُس کے‬
‫دوست نے پوچھا تو پھر ش یطان سے بچنے کا کیا راستہ ہے کیا ہے وہ‬
‫دین جسے تھام کہ ہم شیطان کی چالوں سے بچ سکتے ہیں۔؟ شیطان‬
‫بہت طاقتور ہے ا ُس کے پاس اتنے سارے حربے موجود ہیں۔ " تو ا ُس‬
‫نے کہا "دین ایک دوسرے کے عیب بیان کرنا ایک دوسرے کو ا ُس‬
‫کے عقائد کے اعتبار سے کافر‪ ,‬مشرک گرداننا نہی ں ہے۔ دین سالمتی‬
‫‪241‬‬
‫کا نام ہے۔ دین اپنی اصالح کا نام ہے۔ انبیاء‪ ,‬اولیاء‪ ,‬صالحین ا ِن سب‬
‫کا ذکر لوگوں تک قرآن و حدیث اور دیگر کتابوں کے ذریعے ا ِس لیے‬
‫پہنچایا گیا تاکہ لوگ اپنی اصالح کریں اور ا ُن کے جیسے کردار کا‬
‫حامل بننے کی کوشش کریں۔ دنیا کے کسی بھی مذہب و مس لک کے‬
‫ماننے والے جتنا زور دوسرے لوگوں پر اپنے پیشوا کی عظمت ثابت‬
‫کرنے میں لگاتے ہیں ا ُتنا زور اگر وہ اپنے پیشوا کا کردار اپنانے‬
‫میں صرف کریں تو لوگ خود بہ خود ا ُن کے پیشوا کو حق مان لیں‬
‫گے۔ لیکن سب کے سب محض باتوں سے اپنا مذہب و مسلک ثابت‬
‫کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طریقہ اپنے لوگوں میں بیٹھ کر ا ُن‬
‫سے اپنے فہم و فراست کی داد وصولنے کی حد تک یا لوگوں کو اپنے‬
‫اپنے مسلک سے جوڑے رکھنے کی غرض تک تو ٹھیک ہے لیکن‬
‫ایک معاشرے کی حیثیت سے‪ ,‬بنی نو انسان کی حیثیت سے زمین پر‬
‫امن کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے یہ طریقہ غیر مو ضوع ہے۔‬
‫تمام لوگ کسی ایک مذہب کا حصہ تب بن سکتے ہیں جب کسی مذہب‬
‫کے لوگ آپسی جھگڑے ختم کر کے تمام انسانوں کے لیے سالمتی کا‬
‫باعث بننے کی کوشش کریں گے۔ یہ سب تب ممکن ہے جب ہم ہر ایک‬
‫کو مذہب و مسلک اور ذات برادری وغیرہ سے ہٹ کر صرف انسان‬
‫مانتے ہوئے ا ُس کی اور ا ُس کے مذہب کی عزت کرنے کی کوشش‬
‫کریں گے۔ دین کی بات یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو اپنے اندر‬
‫موجود حرص‪ ,‬ہوس‪ ,‬اللچ‪ ,‬ب ُ غض‪ ,‬اور نفرت جیسے دشمنوں سے لڑ کر‬
‫ایک بہتر انسان بننے کی کوشش کرنے کا سبق دیا کریں‪ ,‬دنیا اور‬
‫شیطان سے مقابلہ کرنے اور ایک دوسرے کو ال ل ّٰ ہ کی جان ب بڑھنے کا‬
‫حوصلہ دینا دین کی بات ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی بات کرتا ہے جو‬
‫انسان کو انسان کا دشمن بناتی ہو تو وہ کوئی بھی ہو وہ دین کی نہیں‬
‫بلکہ گمراہی اور فساد کی بات کر رہا ہے۔ کیونکہ رحمٰ ن و رحیم ذات‬
‫کا دین انسانیت کے لیے رحمت بننے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تو جو‬
‫خ لقی اور رحیمی کو‬ ‫خ دا سے بھالئی کرنے کو‪ ,‬خوش ُ‬ ‫ق ُ‬
‫لوگ مخلو ِ‬
‫دین سمجھتے ہیں وہ کسی بھی مسلک و مذہب میں رہتے ہوئے ال ل ّٰ ہ کو‬
‫راضی کر لیتے ہیں اور جو یہ نہیں سمجھ پاتے ا ُن کا کسی بھی‬
‫مسلک و مذہب کو اپنانا بےمعنی ہے۔" ا ُس دن ا ُس کا دوست تو ا ُس کی‬
‫بات اچھی طرح سمج ھ گیا تھا لیکن وہ یہ بات جانتے ہوئے کہ ہر‬
‫‪242‬‬
‫شخص میری بات کو نہیں سمجھے گا‪ ,‬اپنی بات ہر شخص تک ایک‬
‫بار ضرور پہنچانے کا خواہشمند تھا۔‬
‫مدینے کی فضائیں ا ُس کے وجدان کو وسیع سے وسیع تر کر رہی تھیں‬
‫اور انسانوں کی گمراہی کا غم ا ُس کے دل کو ُر الئے جا رہا تھا۔ وہ‬
‫بےچ ین تھا لوگوں کو کسی ایسی راہ کی خبر دینے کے لیے جو انہیں‬
‫ث رحمت بننے‬ ‫ا ُن کی جگہ پر رہتے ہوئے‪ ,‬تمام لوگوں کے لیے باع ِ‬
‫کی سعی کرنے کا درس دے سکے۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ رحمت‬
‫ث‬
‫خ دا کے لیے باع ِ‬ ‫اللعالمین صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کا دین مخلو ِ‬
‫ق ُ‬
‫رحمت بننے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔‬

‫‪243‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫رات دن تیزی سے گ ُ زر رہے تھے ا ُس کی آتے جاتے ایک ہی رٹ تھی‬
‫"یا رسول الل ّٰ ہ میرے لوگوں پے اپنی رحمت برسا دیجیئے۔ میرے‬
‫لوگوں کی مدد کیجیئے۔ الل ّٰ ہ میاں سے میری فریاد کہہ دیجیئے۔ میں‬
‫جانتا ہوں کہ ہم لوگ بہت گناہ گار ہیں۔ اگر الل ّٰ ہ کی رحمت ہم سے‬
‫ہماری گناہ گاری کی وجہ سے دور ہے تو الل ّٰ ہ سے کہیے کہ ان سب‬
‫روز حشر لوگ ایک‬‫ِ‬ ‫کے گناہ مجھے دے دے۔ میں نے س ُ نا ہے کہ‬
‫چ رانے کی کوشش کرتے ہوں گے کہ کہیں یہ ہم‬ ‫دوسرے سے نظریں ُ‬
‫سے ہماری نیکیاں نہ مانگ لے۔ یہ بھی س ُ نا ہے کہ لوگوں کے حساب‬
‫کتاب کے دوران ا ُن کے گناہ و ثواب دوسرے ` لوگوں کو دے دیے‬
‫جائیں گے۔ تو میں رہتی دنیا میں اپنا آپ الل ّٰ ہ کے حضور پیش کرتا‬
‫ہوں کہ میرے لوگوں کے سب گناہ مجھے دے دیجیئے لیکن انہیں ایک‬
‫کر دیجیئے۔ اب بس کر دیجیئے ہم انسان اور خصوصا ً مسلمان پوری‬
‫دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ ہمیں معاف کر دیجیئے ہمیں پھر‬
‫سے اپنی جانب پلٹا لیجیئے۔ میرے لوگوں کو معاف کر دیجیئے۔"‬
‫مسج ِد نبوی میں گ ُ زارے اپنے تمام وقت میں ا ُس نے صرف ایسی ہی‬
‫د ُعائیں مانگیں۔ کبھی دل میں اپنے لیے کچھ مانگنے کا خیال آتا تو وہ‬
‫بار بار ایک ہی ب ات د ُہراتا کہ "میرا رب مجھے جس حال میں رکھے‬
‫میں ا ُس سے راضی ہوں۔ مجھے الل ّٰ ہ سے کچھ اور طلب نہیں ہے۔"‬
‫اکثر اپنے لیے کچھ طلب کرنے کا خیال آنے پر وہ الحول بھی پڑھتا‬
‫پھر کچھ سوچ کر کہتا کہ "ال ل ّٰ ہ سے اگر اپنے لیے کچھ مانگنا ہی ہے‬
‫تو پھر لوگوں تک ال ل ّٰ ہ کا پیغ ام پہنچانے کا ذریعہ ہونا طلب کرنا‬
‫چاہیے۔" پھر وہ یہی مانگتا کہ ا ُسے الل ّٰ ہ کی سچی راہ عام کرنے کا‬
‫سبب ہونا نصیب کیا جائے۔‬
‫ایک صاحب جن کا نام عطا الل ّٰ ہ تھا‪ ,‬وہ اور ا ُن کے چند رشتے دار ا ُس‬
‫کے حج کے سفر کے ساتھی تھے۔ عطا الل ّٰ ہ صاحب بھی ایک سرکاری‬
‫مالزم تھے اور جلد ریٹائر ہونے والے تھے۔ مسج ِد نبوی آتے جاتے‬
‫ہوئے وہ تقریبا ً ہمیشہ ا ُس کے ساتھ ہوتے تھے۔ مسج ِد نبوی سے آخری‬
‫بار باہر آتے ہوئے وہ عطا الل ّٰ ہ صاحب کے کندھے پے ہاتھ رکھے‬

‫‪244‬‬
‫دوسرے ہاتھ سے اپنی چھڑی سنبھالتے ہوئے دھیرے دھیرے آگے بڑھ‬
‫رہا تھا اور بار بار دل کی زباں سے ایک ہی بات دہرا رہا تھا "یا‬
‫رسول الل ّٰ ہ میرے لوگوں کو معاف کر دیجیئے"۔ وہ بار بار پلٹتا‪,‬‬
‫روضۂ رسول کی جانب دیکھتا کہ شاید دل کو کوئی آواز سنائی دے کہ‬
‫"جا تیرے لوگوں کو بخش دیا گیا" اور کچھ نہ سنائی دینے پے دوبارہ‬
‫آگے کی جانب قدم ا ُٹھانا شروع کر دی تا۔‬
‫اقبال کا یہ شعر اکثر ا ُس کے ذہن میں گردش کرتا رہتا تھا۔‬
‫ت ویراں سے ‪..‬‬ ‫نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کش ِ‬
‫ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ‪..‬‬
‫مسجد کے باہری دروازے کے قریب پہنچ کر ا ُس نے پھر پلٹ کے‬
‫روضۂ رسول کی جانب دیکھنے کا ارادہ کیا تو اچانک ا ُس کے دل‬
‫میں ایک جوش سخاوت سے بھرپور آواز کی گ َ رج س ُ نائی دی "کون‬
‫ہیں تیرے لوگ۔؟" ایک پل کو ا ُس کا دل دھڑکنا بھول گیا‪ ,‬زبان گنگ‬
‫سی ہو گئی مگر دوسرے ہی پل ا ُس نے موقع غنیمت جانتے ہوئے‬
‫فور ا ً کہا "جتنے انسان ہیں سب میرے لوگ ہیں۔" دل زبانی یہ بات‬
‫کہتے کہتے ا ُس ن ے اپنا ُر خ روضۂ رسول کی جانب پھیرتے ہوئے کہا‬
‫"یا رسول الل ّٰ ہ میں تمام انسانوں کی بھالئی چاہتا ہوں۔ میں اپنے وقت‬
‫کے بد ترین لوگوں سے لے کر بہترین لوگوں تک کے لیے خیر مانگنا‬
‫چاہتا ہوں۔ ہر سینے میں دل ہے‪ ,‬تو ہر دل میں رب بسنا چاہیے۔ یہ‬
‫گناہوں میں ڈوبے‪ ,‬شیطان کے ہاتھوں کٹھ پ ُ تلی بنے لوگ‪ ,‬میرے لوگ‬
‫ہیں‪ ,‬یہ ایک دوسرے کا خون بہانے والے‪ ,‬غریبوں کا خون چوسنے‬
‫والے‪ ,‬میرے لوگ ہیں۔ وہ لوگ جو ہر پل مر مر کے زندگی گ ُ زارتے‬
‫ہیں اور پھر بھی ال ل ّٰ ہ کو یاد نہیں کرتے‪ ,‬وہ بھی میرے لوگ ہیں۔‬
‫یارسول الل ّٰ ہ یہ ظالم کرنے والے اور ظلم سہنے والے‪ ,‬سب میرے‬
‫لوگ ہیں۔ میں ا ِن سب کی بھالئی چاہتا ہوں۔ یارسول الل ّٰ ہ میری بس یہی‬
‫عرض ہے کہ میرے لوگوں پے رحم ہو۔ یارسول الل ّٰ ہ میری گزارش‬
‫ہے کہ نس ِل آدم پے رحم کیا جائے اور ا ُنہیں کشت و خوں سے نکال‬
‫لیا جائے۔‬
‫یارسول الل ّٰ ہ ہمارے وقت کے پارسا لوگ گناہ گاروں سے دور رہتے‬
‫ہیں کہ کہیں ا ُن کی پارسائی پے حرف نہ آئے۔ اور گناہ گار نیک‬
‫لوگوں کے رویے کی وجہ سے نیکی ہی سے بدظن ہو جاتے ہیں۔ ب ُ رے‬
‫‪245‬‬
‫لوگ‪ ,‬ب ُ روں کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ جو خود کو اچھا‬
‫سمجھتے ہیں وہ صرف اپنے جیسوں کو ہی اچھائی کے الئق سمجھتے‬
‫ہ یں۔ یارسول الل ّٰ ہ ہم سب ایک دوسرے کے خالف شیطان کے مددگار‬
‫بنے بیٹھے ہیں۔ اگر کسی کا گناہ پتا چل جائے تو ا ُسے ا ِس قدر زلیل‬
‫کیا جاتا ہے کہ وہ یا تو گناہ کو ہی زندگی بنانے پے مجبور ہو جاتا‬
‫ہے یا پھر زندگی ہی ختم کر لیتا ہے۔ الل ّٰ ہ معاف کر دیتا ہے لیکن ہم‬
‫لوگ ایک دوسرے کو کبھی نہیں معاف کرتے۔ عمر بھر ایک ہی خطا‬
‫کی سزا دیتے رہتے ہیں۔ اگر آپ بھی ہماری دادرسی نہیں کریں گے‬
‫تو ہم گناہگاروں کی کون سنے گا۔ میں اپنے وقت کے گناہگاروں کی‬
‫طرف سے آپ سے فریاد کرتا ہوں ہماری مدد کیجیئے۔ میں الل ّٰ ہ میاں‬
‫سے اکثر کہتا ہوں کہ یہ سب میرے نہیں بلکہ تیرے لوگ ہیں پھر پتا‬
‫نہیں کیوں ا ِن سب کا درد مجھے محسوس ہوتا۔ نہ جانے کیوں مجھے‬
‫لگتا ہے کہ اگر یہ گناہگار پلٹے تو دنیا پلٹ دیں گے۔ میں کچھ کرنا‬
‫چاہتا ہوں ا ِن لوگوں کے لیے‪ ,‬الل ّٰ ہ کی جانب پلٹنے میں لوگوں کی مدد‬
‫کرنا چاہتا ہوں۔ اگر میری نی ت میں کھوٹ ہے یا میرے جیسا خطاکار‬
‫ا ِس سعادت کے الئق نہیں ہے تو جو ا ِس الئق ہے ا ُسے دنیا پے ظاہر‬
‫کر دیجیئے۔ کچھ ایسا ہو جائے کہ جسے دیکھ کر لوگ ا ُس کی جانب‬
‫رجوع کر سکیں۔ بس اور کچھ نہیں چاہیے مجھے۔" ا ُسے کوئی جواب‬
‫نہ ِم ال اور وہ سر ج ھُ کائے اپنی رہائش کی جان ب چل پڑا۔ مگر اب ا ُس‬
‫کے دل کو ایک سکون سا تھا کہ ا ُس نے اپنی عرضی پیش کر دی۔‬
‫عالمہ اقبال کا کالم‪ ,‬نسل آدم کے لیے ا ُن کے دل میں موجود شدید‬
‫ق کائنات سے‬ ‫محبت و فکر کا‪ ,‬منہ بولتا ثبوت ہے۔ مگر ایک جگہ خال ِ‬
‫گویا مح ِو شکوہ ہوتے ہیں اور ا ُس کی کائنات کی فکر کو ا ُسی کے‬
‫حوالے کرتے ہوئے کچھ اشعار فرماتے ہیں۔ ا ُس کی حالت بھی اقبال‬
‫کے ان اشعار سے ملتی جلتی تھی۔‬

‫اگر کج رو ہیں انجم‪ ,‬آسماں تیرا ہے یا میرا‬


‫‪246‬‬
‫فکر جہاں کیوں ہو‪ ,‬جہاں تیرا ہے یا میرا‬ ‫ِ‬ ‫مجھے‬
‫اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے المکاں خالی‬
‫خطا کس کی ہے یارب۔؟ المکاں تیرا ہے یا میرا‬
‫ا ُسے صبح ِ ازل انکار کی ُ‬
‫ج ر أت ہوئی کیونکر‬
‫مجھے معلوم کیا‪ ,‬وہ رازداں تیرا ہے یا میرا‬
‫محمد بھی تیرا‪ ,‬جبریل بھی‪ ,‬قرآن بھی تیرا‬
‫ف شیریں ترجماں‪ ,‬تیرا ہے یا میرا‬ ‫مگر یہ حر ِ‬
‫اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن‬
‫زوا ِل آد ِم خاکی‪ ,‬زیاں تیرا ہے یا میرا‬

‫جس بات کی فریاد وہ کئی روز سے کر رہا تھا آج ا ُس بات کے حوالے‬


‫شہر مدینہ سے جانے کا خیال ا ُسے بےچین‬ ‫ِ‬ ‫سے وہ پ ُ رسکون تھا۔ لیکن‬
‫کر رہا تھا۔ مدینہ جانے سے پہلے جب وہ شاعروں کا ایسا کالم پڑھتا‬
‫شہر مدینہ کا ذکر ہوتا تھا تو وہ ہمیشہ یہی سوچتا‬ ‫ِ‬ ‫یا س ُ نتا تھا جس میں‬
‫ت ھا کہ شاید یہ سب شاعر‪ ,‬مدینہ شہر سے اپنی محبت کے اظہار میں‬
‫قیاس آرای کر رہے ہیں لیکن ا ُس شہر کی فضاؤں نے ا ُس کے دل پر‬
‫یہ حقیقت واضح کی کہ واقعتا ً شہر مدینہ کی فضاؤں کا بیان قلم و‬
‫زباں سے ممکن ہی نہیں ہے۔‬
‫جب وہ مدینہ سے واپس مکہ پہنچا اور اپنی والدہ کے ساتھ ع ُ مرہ‬
‫کرنے مسج ِد حرم پہنچا تو کسی وہیل چیئر کا انتظام نہ ہو سکا ا ِس‬
‫بات پر ا ُس کی والدہ خاصی پریشان تھیں۔ ا ُس نے اپنی والدہ کو تسلی‬
‫دی کے ال ل ّٰ ہ کرم کرے گا‪ ,‬جس نے اپنے گھر ب ُ الیا ہے وہی طواف و‬
‫سعی بھی کروائے گا۔ آپ بے فکر رہیں‪ ,‬ال ل ّٰ ہ پے بھروسا رکھیں‪ ,‬ال ل ّٰ ہ‬
‫کرم کرے گا۔" دو رکعت نماز ادا کرنے کے بعد ا ُس نے دعا کی کہ‬
‫ث‬‫"الل ّٰ ہ میاں مجھے ہمت دیجیئے گا‪ ,‬میں اپنی والدہ کے لیے باع ِ‬
‫زحمت نہیں بننا چاہتا" د ُعا کرنے کے بعد ا ُس نے اپنی والدہ کے‬
‫ف کعبہ‬ ‫کندھے پے ہاتھ رکھا اور دوسرے ہاتھ سے چھڑی پکڑ کر طوا ِ‬
‫کیا۔ ا ُس روز ا ُس نے اپنے اندر ایک عجیب سی طاقت محسوس کی‬
‫نماز فجر کے‬ ‫ِ‬ ‫جس نے ا ُسے پیدل چلتے رہنے کا حوصلہ دیے رکھا۔‬
‫بعد جب وہ اپنی والدہ کے ساتھ حرم سے باہر آیا اور رہائشگاہ تک‬
‫پہنچنے کے لیے ٹیکسی تالش کی تو کچھ عرب ٹیکسی والوں سے‬
‫‪247‬‬
‫سامنا ہوا جو لوگوں سے کافی بدتہذیبی سے پیش آ رہے تھے‪ ,‬ایک‬
‫ٹیکسی والے نے پچیس ریال مانگے۔ ‪ :‬جب کہ ا ُس کی والدہ کا اصرار‬
‫تھا کہ ہم پندرہ ریال دے کر آئے تھے ا ِس لیے پندرہ ریال سے ذیادہ‬
‫نہیں دینے چاہیے۔ ابھی ا ُس کی والدہ یہ بات کر ہی رہیں تھی کہ‬
‫ٹیکسی ڈرایور نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور گاڑی چ التے ہوئے‬
‫کہا بیس ریال۔ شاید وہ یہ سمجھانا چاہ رہا تھا کہ اب تو تم میری گاڑی‬
‫میں بیٹھ گئے ہو ا ِس لیے تم مجھ سے بھاؤ تاؤ نہیں کر سکتے اور‬
‫میں جو رقم مانگوں گا تمھیں ادا کرنی پڑے گی۔ پھر سارا راستہ وہ‬
‫ڈرایور ا ِس بات کا اظہار کرتا رہا کہ مجھے راستہ سمجھ نہیں آ رہا‬
‫کہ تم کس جگہ جانے کا کہہ رہے ہو۔ جبکہ وہ مشہور جگہ تھی اور‬
‫جگہ پوچھ کر ہی تو ا ُس نے کرایہ بتایا تھا۔ راستے میں ا ُس نے ایک‬
‫ایشین شخص کے پاس گاڑی روکی جو اردو اور عربی دونوں بول‬
‫سکتا تھا ا ُس شخص نے ا ُس سے پوچھ کر ڈرائیور کو راستہ سمجھایا‬
‫مگر تھوڑی دیر بعد ڈرائیور گاڑی گ ھُ ما کر دوبارہ ا ُسی شخص کے‬
‫پاس پہنچ گیا۔ ا ُس نے ا ُس شخص سے کہا " ا ِسے میری بات سمجھ نہیں‬
‫آ رہی لیکن آپ کی بات تو سمجھ آنی چاہیے۔ میں ایک بلڈنگ کا نام‬
‫لے رہا ہوں کوئی لمبا چوڑا راستہ تو نہیں بتا رہا جو سمجھ نہیں آ‬
‫رہا" تو ا ُس شخص نے کہا "می ں نے سمجھایا ہے راستہ لیکن پتہ نہیں‬
‫کیوں ا ِسے سمجھ نہیں آ رہا خیر میں پھر سمجھاتا ہوں۔" اتنے میں‬
‫ڈرائیور نے کرایہ بڑھاتے ہوئے پچیس ریال کہا تو ا ُس نے فور ا ً کہا‬
‫"اچھا تو یہ بات ہے۔" پھر اپنی والدہ سے کہا کہ فور ا ً نیچے ا ُتر‬
‫جائیں اور جیب سے پچیس کی جگہ تیس ر یال نکال کر ڈرائیور کے‬
‫ہاتھ پے رکھتے ہوئے دوسرے شخص سے کہا "آپ مت سمجھائیں‬
‫ا ِسے کیونکہ سمجھنے کی ضرورت ا ِسے نہیں مجھے تھی کہ یہ‬
‫ڈرائیور صاحب ہمیں مجبور سمجھ کر ہماری مجبوری سے فائدہ‬
‫ا ُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ا ِس سے بس یہ کہیں کہ الل ّٰ ہ کے شہر‬
‫میں لوگوں ک ے بھروسے سے مت کھیلے" اپنی بات مکمل کر کے وہ‬
‫پیدل ہی اپنی والدہ کے ساتھ رہائشگاہ کی طرف چل پڑا۔‬
‫الل ّٰ ہ کی ذات کا طلب کرنے والے اکثر کسی خاص کیفیت کے متالشی‬
‫رہتے ہیں۔ کوئی خاص حالت کوئی خاص سرور جس سے وہ اپنے‬
‫جسم کو‪ ,‬اپنی سوچ کو اور اپنے دل کو مطمئن کر سکیں کہ ال ل ّٰ ہ ا ُن‬
‫‪248‬‬
‫کے ساتھ ہے۔ کچھ لوگ معاشی و معاشرتی خوشحالی یا بدنی صحت و‬
‫تندرستی وغیرہ کو الل ّٰ ہ کی رحمت کی دلیل سمجھتے ہیں اور کچھ‬
‫روحانی لطائف کے حصول کو الل ّٰ ہ کے ق ُ رب کی دلیل مانتے ہیں۔ لیکن‬
‫ا ُس کی سوچ ا ِن دونوں سے الگ تھی۔ ا ُس کا ماننا تھا کہ انسان کو‬
‫کسی بھی چیز کو الل ّٰ ہ کے ق ُ رب یا دوری کی دلیل نہیں ماننا چاہیے‬
‫بلکہ اپنے حال پر الل ّٰ ہ سے راضی رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‬
‫جیسے ہو‪ ,‬جس حال میں ہو‪ ,‬ا ُسی حال میں الل ّٰ ہ کی عطا کردہ نعمتوں‬
‫سے راضی ہونے کی اور ا ُس کا ش ُ کر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‬
‫ا ُس کی عادت تھی کہ کبھی کھانا کھاتے ہوئے کھانے کے بےذائقہ یا‬
‫بدمزا ہونے کا شکوہ نہیں کرتا تھا کیونکہ ا ُس کا کہنا تھا کہ جب‬
‫کھانا سامنے آ گیا تو یہ وہ کھانا نہیں ہے جو میری بیوی نے پکایا ہے‬
‫بلکہ یہ وہ رزق ہے جو الل ّٰ ہ نے میرے لیے بھیجا۔ ا ِس لیے سامنے‬
‫آئے رزق کو الل ّٰ ہ کی عطا مانتے ہوئے ش ُ کر کے ساتھ کھانا چاہیے۔ وہ‬
‫اپنی پوری زندگی اسی تصور میں ڈھالنے کی کوشش میں مگن رہتا‬
‫تھا۔ اور کبھی کسی دلیل کے مل جانے سے حیران ہو کر خود کو ق ُ رب‬
‫واال نہیں تسلیم کرتا تھا اور نہ ہی دلیل نہ ملنے پے پریشان ہوتا کہ‬
‫دور ہو گیا ہوں۔‬

‫‪249‬‬
‫''باب ۔ ‪'' 01‬‬
‫مدینہ سے واپس آ کر حج تک کا اپنا تمام وقت ا ُس نے مکہ میں ہی‬
‫گ ُ زارا۔ ایک صاحب جن کا نام 'نیاز' تھا‪ ,‬پاکستانی تھے اور کئی سال‬
‫سے م ک ّ ہ میں مقیم تھے۔ ا ُن کی وساطت سے ا ُسے حج سے پہلے‬
‫نی اور جمرات وغیرہ جانے کا موقع ِم ال۔ ا ِس دوران‬ ‫میدا ِن عرافات‪ِ ,‬م ٰ‬
‫ا ُسے جب ِل رحمت (وہ مقام جہاں آد مٌ کی توبہ قبول ہوئی تھی) پے‬
‫جانے کا موقع ِم ال۔ جب وہ جب ِل رحمت کے قریب پہنچا تو سب نے‬
‫ا ُسے اوپر ا ُس نشان تک جانے سے منع کیا۔ مگر ا ُس نے ا ِصرار کیا‬
‫کہ وہ جائے گا۔ نیاز صاحب کے کندھے پے ہاتھ رکھے ا ُس نے‬
‫سیڑھیاں چڑھیں اور ا ُس نشان ت ک جا کر ایک بار پھر الل ّٰ ہ سے فریاد‬
‫کی اور کہا کہ "جس مقام پر ت ُو نے آد مٌ کی توبہ قبول کی ا ُس مقام پر‬
‫میں تجھ سے نس ِل آدم کی توبہ کا سوال کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ت ُو‬
‫توبہ قبول کرنے واال ہے ا ِس لیے ت ُو توبہ کرنے کی توفیق ا ُسی کو‬
‫دیتا ہے جس کی توبہ ت ُو نے قبول کرنی ہوتی ہے۔ اے رب ہمیں وہ‬
‫توبہ دے دے۔"‬
‫حج سے پہلے کے تمام دن ا ُس نے مکہ میں رہائشگاہ پر ہی گ ُ زارے۔‬
‫نماز جمعہ کے سوا تقریبا ً سبھی نمازیں ا ُس نے رہائش کے قریب‬
‫موجود مسجد کی جگہ اپنے کمرے میں ہی پڑھیں۔ معزوری کے باعث‬
‫ا ُس کے لیے روز خانہ کعبہ جانا مشکل تھا اور پھر ا ُس کی وجہ سے‬
‫ا ُس کی والدہ کو بھی کافی زحمت ہوتی تھی۔ ا ِس لیے ا ُس نے حد سے‬
‫بڑھنے کی کوشش نہیں کی۔‬
‫عدیل اور عمیر نامی دو لوگ اور حج کے سفر میں ا ُس کے ساتھ‬
‫تھے۔ ویسے تو عدیل اسالم آباد میں ا ُس کے گھر کے پاس ہی رہتا تھا‬
‫لیکن کبھی مالقات نہیں ہو س کی۔ اور عمیر بھی اسالم آباد ہی سے تھا۔‬
‫حج کے تمام سفر میں عدیل اور عمیر نے بھی ا ُس کی بہت مدد کی۔‬
‫سامان ا ُٹھانا‪ ,‬کھانا النا یا کوئی اور کام کاج ہوتا تو یہ سب ا ُس کی مدد‬
‫میں پیش پیش ہوتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے وسیلے سے ال ل ّٰ ہ‬
‫نے ا ُس کے لیے حج کا سفر انتہا ئی آسان بنا دیا تھا۔ جب حج کا وقت‬
‫منی جانے کے لیے‬ ‫ٰ‬ ‫آیا تو وہ احرام باندھے رہائش سے باہر آیا اور‬

‫‪250‬‬
‫بس میں سوار ہونے کے مرحلے سے گ ُ زرا۔ لوگوں میں ایک عجیب‬
‫سی بےصبری تھی۔ ہر شخص بھاگ بھاگ کر بس میں سوار ہونا چاہ‬
‫رہا تھا دھکم پیل میں ا ُس کے لیے بس میں سوار ہونا کافی مشکل تھا‬
‫اور پھر پاکستانی عوام کے لیے حج کا انتظام بھی کرپشن کی بدولت‬
‫کافی خراب تھا۔ بڑی مشکل سے ایک بس میں جگہ ملی تو رہائشگاہ‬
‫منی کی جانب جاتے ہوئے راستے میں دوسرے ممالک سے آنے‬ ‫ٰ‬ ‫سے‬
‫والے حاجیوں کو بھی بس میں سوار ہوتے دیکھنے کا موقع مال۔‬
‫دوسرے ممالک کے حاجیوں کو قطار بنا کر نظم و ضبط کے ساتھ‬
‫بسوں میں سوار ہوتے دیکھ کر ا ُس کا سر شرم سے ج ھُ ک گیا۔ کیونکہ‬
‫ایسا نظم و ضبط پاکستانی حاجیوں میں کہیں نظر نہیں آتا تھا۔ وہ لوگ‬
‫جنہیں اکثر پاکستانی حقارت سے کاال یا حبشی کہتے ہیں۔ وہ لوگ جن‬
‫کے چھوٹے قد یا چھوٹی آنکھ یں اکثر لوگوں کو عجیب یا مضحکہ خیز‬
‫محسوس ہوتی ہیں‪ ,‬وہ چھوٹی آنکھوں اور کالی رنگت والے لوگ ا ُسے‬
‫نظم و ضبط میں اپنے ہم وطنوں سے بہت آگے دکھائی دے رہے تھے۔‬
‫ا ُسے احساس ہوا کہ اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے آج کل ہمارے‬
‫پاس صرف اور صرف اپنا نام و نسب ہی رہ گیا ہے۔ کردار سے خالی‬
‫لوگ ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے صرف اپنے‬
‫دنیاوی ُر تبے یا مال و زر اور خاندان کا نام لیتے ہیں۔ وسوسہ شاید‬
‫انسان کے ساتھ یہی دھوکہ کرتا ہو گا کہ ا ُس کی سوچ کو حق کے‬
‫معیار سے ہٹا کر باطل پر رکھ دیتا ہو گا اور جب معیار ہی بدل گیا تو‬
‫سوچ خود بہ خود باطل ہو جاتی ہے۔ لوگوں پر ایک عجیب سا خوف‬
‫سوار رہتا ہے۔ اور ننانوے فیصد یہ خوف بےجا ہوتا ہے۔ مرد کی‬
‫نسبت یہ خوف عورتوں میں ذیادہ پایا جاتا ہے۔ جب تک بیٹا گھر نہ آ‬
‫جائے تب تک بیٹے کی ماں جاگتی رہتی ہے اور باپ پریشان تو ہوتا‬
‫ہے لیکن اکثر ا ُسے نیند آ ہی جاتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو ب ُ رے‬
‫خیال آتے ہیں۔ یہ نہ ہو جائے اور وہ نہ کھو جائے‪ ,‬ایسا ہ ُوا تو۔؟ اور‬
‫ایسا نہ ہ ُوا تو۔؟ یہ سب سوال ہم سے ہمارا نفس ہی پوچھا کرتا ہے اور‬
‫انسان انہی سواالت سے پیدا ہونے والے خطرات سے ڈرتے ہوئے‬
‫انہی خیاالت میں ڈوبے زند گی گ ُ زارتا رہتا ہے۔ کچھ لوگ ان خطرات‬
‫میں ڈوبے دنیا کمانے میں لگ جاتے ہیں اور کچھ لوگ آخرت کی چاہ‬
‫ج ال رنگ‬ ‫میں لگ جاتے ہیں اور کچھ لوگ دنیا اور آخرت کا ایک ِم ال ُ‬
‫‪251‬‬
‫اپنا کر خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کچھ اپنا الگ‬
‫رنگ تراشنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ا ِن لوگوں‬
‫کے پاس دنیا اور آخرت کی نعمتوں کے انبار بھی لگ جائیں لیکن‬
‫ایسے لوگ زندگی بھر خود کو نفس اور شیطان سے آزاد نہیں کروا‬
‫خ دا سے ناآشنائی میں ہی زندگی گ ُ زار دیتے‬‫پاتے اور خود سے اور ُ‬
‫ہیں۔ جو شخص اپنے اندر سے آتی آواز کو نہیں پہچانتا کہ یہ نف س کی‬
‫صدا ہے یا دل کی آواز۔؟ وہ خودی کو کیا جانے گا۔؟ نفس انسان کو‬
‫بےسکون کرتا ہے‪ ,‬بدلہ‪ ,‬نفرت‪ ,‬ناز‪ ,‬خودغرضی‪ ,‬بھوک‪ ,‬ل ذ ّ ت وغیرہ‬
‫سب نفس کی خواہشات ہیں جو کسی نہ کسی روپ میں انسان کو‬
‫بےچین رکھتی ہیں۔ یہ خواہشات ا ُن لوگوں کو ذیادہ تنگ کرتی ہیں جو‬
‫اپنے نفس کو الل ّٰ ہ کی مرضی پر راضی ہونا نہیں سکھاتے۔ غ ُ ربت‬
‫اکثر انسان کو اپنی خواہشات مارنا سکھا دیتی ہے۔ لیکن عموما ً لوگ‬
‫ا ِسے اپنے لیے عذاب سمجھتے ہیں اور خواہشات کی چاہ میں الل ّٰ ہ کی‬
‫راہ بھول جاتے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے اندر سے آتی ہر آواز‬
‫کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر ا ُس پر عمل کرنے سے پہلے ا ُسے‬
‫اچھی طرح پرکھے۔ اگر وہ آواز‪ ,‬زبان‪ ,‬آنکھ‪ ,‬کان‪ ,‬ناک یا جسم کے‬
‫ج ڑی ہے تو وہ نفس کی آواز ہے۔ ایک‬ ‫کسی اور ح صّ ے کی لذت سے ُ‬
‫حد تک ا ِن لذتوں کو پورا کرنا فرض ہے۔ جیسے ہر شخص کو کھانے‬
‫پینے یا شادی کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن جب کوئی حد سے تجاوز‬
‫کرتا ہے تو یہی لذتیں ا ُس کے نفس کو ا ُس پر حاوی کرنے کا باعث‬
‫بن جاتی ہیں۔ جب نفس حاوی ہوتا ہے تو اکثر انسان میں خوف پیدا‬
‫ہوتا ہے اور لوگ ا ِس خوف کو عبادت سے َر د کرنے کی کوشش میں‬
‫لگ جاتے ہیں۔ ا ِس کوشش میں اکثر خواتین زیادہ کامیاب رہتی ہیں۔‬
‫مرد کے پاس دنیا کے بہت سے کام ہوتے ہیں جن میں ا ُسے گناہ کے‬
‫بہت سے موقعے مل جاتے ہیں اور وہ خود کو عبادت کرنے کے الئق‬
‫سمجھنا ہی چھوڑ دیتا ہے لیکن جب دنیا ا ُسے ٹ ھُ کرا دیتی ہے یا جب‬
‫وہ دنیا کے الئق نہیں رہتا تو وہ بھی خود کو عبادت کرنے کا عادی بنا‬
‫ہی لیتا ہے۔ کچھ لوگ اپ نے نفس کے ساتھ مل کر بغاوت پر ا ُتر آتے‬
‫ہیں اور "میں تو بس ایسا ہی ہوں" کا لیبل لگا کر زندگی گ ُ زارنے میں‬
‫مصروف ہو جاتے ہیں۔ لوگوں کے عیب تالش کرنا اور ا ُن کی تشہیر‬
‫کرنا‪ ,‬نفس کی خواہش ہے۔ غیبت‪ ,‬غصہ‪ ,‬نفرت‪ ,‬شہوت سب نفس کی‬
‫‪252‬‬
‫خواہش ہے۔ کسی انسان سے محبت ہو جانا ب ُ رائی نہیں ہے لیکن ا ُس‬
‫ایک انسان کو الل ّٰ ہ سے یا الل ّٰ ہ کے فیصلوں سے ذیادہ اہمیت دینا ب ُ رائی‬
‫ہے۔ اکثر لوگ کسی بچھڑ جانے والے کی یاد میں اپنی پوری زندگی‬
‫ا ُداسی کا دامن تھام کے گ ُ زارنا قبول کر لیتے ہیں۔ اور انہیں یاد ہی‬
‫نہیں رہتا کہ الل ّٰ ہ ا ُن کے ساتھ ہے اور ہر ایک سے بڑھ کر ا ُن سے‬
‫محبت کرتا ہے۔ کسی کے دیے ہوئے تحفے دیکھ دیکھ کر رونے والے‬
‫لوگوں کو الل ّٰ ہ کے تحائف دیکھ کر خوش ہونے کا خیال تک نہیں آتا۔‬
‫اگر کوئی محبت کو زندگی سمجھتا ہے تو ا ُسے چاہیے کہ وہ ا ُس سے‬
‫محبت کرے جو محبت کا اصل حقدار ہے۔ اور ا ُس کی محبت ک و ہر‬
‫محبت پر حاوی رکھے۔ اپنی خوشی اپنا غم سب الل ّٰ ہ کی ذات سے‬
‫منسوب رکھے۔ الل ّٰ ہ کے سوا کسی شئے کو اپنے رنج و راحت کی وجہ‬
‫نہ سمجھے۔ لیکن یہ سب تب ممکن ہے جب انسان اپنے اندر سے آتی‬
‫آواز کو جواب دینے کی عادت ڈالے۔ اپنی خواہش کو اور ِد ل میں پیدا‬
‫ہونے والے وسو سوں کو الل ّٰ ہ کی رحمت و حکمت پر یقین کی زبانی‬
‫جواب دینے کی کوشش کرے۔ جب دل کو خیال آئے کے میری اوالد کو‬
‫کچھ ہو جائے گا تو ا ِس خیال کو فور ا ً جواب دینا چاہیے کہ مجھے الل ّٰ ہ‬
‫پے بھروسا ہے وہ یقینا ً اپنی مخلوق پے مہربان ہے اور اگر کوئی‬
‫حادثہ پیش آ بھی گیا تو ا ِ سی میں بھالئی ہو گی‪ ,‬میں اپنے رب سے ہر‬
‫حال میں راضی ہوں۔ اپنی سوچ کو الل ّٰ ہ کی یاد دالنے کی عادت ڈالنی‬
‫ج ر أت کم سے کم ہو۔" کوئی ا ُس کے اندر‬ ‫چاہیے تاکہ ا ُسے بہکنے کی ُ‬
‫بیٹھا کہتا رہتا اور وہ س ُ نتا رہتا تھا۔ "اگر لوگ اپنے اندر چ ھُ پی نفرت‬
‫اور خوف پر قابو پانے کی کوشش کریں تو باہر کی دنیا میں بہت کچھ‬
‫بدل سکتے ہیں۔ لیکن لوگ شیطان کے ا ِس جال سے ن ِ کل ہی نہیں‬
‫پاتے۔ یہی وسوسے ایمان کی کمزوری کا باعث بنتے ہیں اور یہی وہ‬
‫بنیادی چیز ہے جس میں بگاڑ ہر طرح کی گمراہی کا موجب ہے۔ لوگ‬
‫اپنے دل کی آواز پہچان ہی نہیں پاتے۔ شاید وہ نہیں جانتے کہ دل‬
‫انسان کو مایوس ہونا نہیں بلکہ حوصلہ کرنا سکھاتا ہے‪ ,‬دل لوگوں کو‬
‫حقارت سے نہیں بلکہ رحیمی اور شفقت سے دیکھنے کا درس دیتا‬
‫ہے‪ ,‬دل محبت کا پیغام دیتا ہے اور الل ّٰ ہ پے یقین کرنا سکھاتا ہے۔ دل‬
‫انسان کو کمزور نہیں طاقتور بناتا ہے۔" وہ خود کو س ُ ن رہا تھا اور‬

‫‪253‬‬
‫سوچ رہا تھا کہ یہ سب حکمت عام لوگوں تک کیسے پہنچائی جا سکتی‬
‫ہے۔ خود سے ا ُلجھے ہوئے ا ُس نے کچھ اشعار کہے۔‬

‫وسوسوں میں عشق کے الہام رہ گئے ‪..‬‬


‫انسان مر گئے سبھی اجسام رہ گئے ‪..‬‬
‫تنقید کرنا اور پر فرض سمجھا جاتا ہے ‪..‬‬
‫ذکر مذہب تو فقط الزام رہ گئے ‪..‬‬‫ِ‬
‫اپنے بڑوں کی تربیت تلقین چھوڑ کر ‪..‬‬
‫نسبت جتانے کے لیے سب نام رہ گئے ‪..‬‬
‫جوروشنی تھی علم کی د ُھندال گئی تعلیم سے ‪..‬‬
‫یاد کر لیں آیتیں پیغام رہ گئے ‪..‬‬
‫منی کی‬
‫ٰ‬ ‫وہ بس میں بیٹھا اپنی سوچ میں مگن تھا اور بس آہستہ آہستہ‬
‫جانب بڑھ رہی تھی جہاں حج کے مناسک پورے ہونے تک سب لوگوں‬
‫نے قیام کرنا تھا۔‬

‫‪254‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫حج کا تمام سفر ا ُسے بہت کچھ دیکھنے اور جاننے کا موقعہ ِم ال۔ بلکہ‬
‫اپنی تمام زندگی ا ُس نے لوگوں سے سیکھنے کی کوشش کی۔ ا ُن کا‬
‫درد‪ ,‬ا ُن کا کرب محسوس کرنے کی کوشش کی اور ا ِس کوش ش میں‬
‫اکثر ا ُسے اپنا درد بھول جاتا۔ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کو ا ِس بے‬
‫چینی سے نکالنے کی کسی ترکیب کی خاطر ا ُس نے اپنی سوچ کو‬
‫وقف کر دیا تھا۔ ا ُس کا ذہن ہر وقت کسی حل کی تالش میں رہتا تھا۔‬
‫وہ جب بھی لوگوں کو لڑتے جھگڑتے دیکھتا تو ا ُس کا دل بیقرار ہو‬
‫جاتا۔ وہ سوچتا کہ ایسے لوگوں کو کس طرح سمجھایا جا سکتا ہے۔؟‬
‫نماز‬
‫ِ‬ ‫منی پہنچ کر پہلی ہی نماز پر لوگوں میں بحث دیکھنے کو ملی۔‬
‫ٰ‬
‫عصر کا وقت تھا اور باجماعت دو رکعت پڑھنے کے بعد جب امامت‬
‫کروانے والے صاحب نے تیسری رکعت کے لیے تکبیر پڑھی تو کچھ‬
‫لوگ تیسری رکعت کے لیے کھڑ ے ہو گئے اور کچھ لوگ بیٹھے‬
‫دوسری رکعت مکمل کر کے نماز ختم کر رہے تھے۔ کہ ایک صاحب‬
‫نے نماز توڑتے ہوئے ب ُ لند آواز میں کہا "اگر آپ لوگ فالں امام کو‬
‫مانتے ہیں تو آپ کو دو رکعت نماز پڑھانی چاہیے اور جو جو فالں‬
‫فقہ کے ماننے والے ہیں ا ُنہیں چاہیے کہ چار رکعت نماز پڑھنے کے‬
‫بعد اپنا مسلک بھی تبدیل کر لیں"۔ ا ُن صاحب کی یہ حرکت تقریبا ً‬
‫سبھی کو کافی ناگوار گ ُ زری کہ اگر انہیں کچھ کہنا ہی تھا تو جماعت‬
‫ختم ہونے کے بعد بھی کہہ سکتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ حج کے‬
‫منی میں ہی قیام کیا جاتا ہے تو حج کرنے‬ ‫ٰ‬ ‫مناسک پورے ہونے تک‬
‫نی میں قیام کے دوران نماز پوری پڑھے گا یا قصر کرے گا۔‬ ‫واال م ٰ‬
‫لوگوں کے پاس اپنا اپنا نقطہ نظر ثابت کرنے کے لیے بس غصہ اور‬
‫بدتمیزی ہی رہ گئی ہی شاید‪ ,‬لوگوں نے دین کسی ایسی شئے کا نام‬
‫رکھ لیا ہے جس میں اپنی بات منوانا ہی سب سے اہم نقطہ ہے۔‬
‫دورا ِن حج کسی شخص نے کہا "لوگ کتنی مشقت ا ُٹھا رہے ہیں الل ّٰ ہ‬
‫ا ِن سب لوگوں کا حج قبول فرمائے" تو ا ُس نے کہا "ال ل ّٰ ہ ہمیں دین کی‬
‫سمجھ عطا فرمائے بس یہی قبولیت ہے۔ ہر سال اتنے سارے لوگ حج‬
‫کرتے ہیں اگر محض مناسک کی احسن طور پر ادائیگی ہی حج ہوتا تو‬

‫‪255‬‬
‫آج ہم ایک قوم کی حیثیت سے بہتری کی ج انب رواں ہوتے۔ د ُعا‬
‫کیجیئے کہ الل ّٰ ہ ہمیں اپنی راہ کی سمجھ عطا فرمائے"۔‬
‫الل ّٰ ہ کے بارے میں ا ُس کی سوچ کچھ الگ ہی تھی۔ جب پہلی بار ا ُس‬
‫نے اپنی والدہ سے پوچھا تھا "ا ّم ی الل ّٰ ہ میاں کون ہیں۔؟" تو ا ُس کی‬
‫والدہ نے کہا "الل ّٰ ہ میاں ہمارے دوست ہیں‪ ,‬وہ ہر وقت ہمار ے ساتھ‬
‫رہتے ہیں‪ ,‬ہمارا خیال رکھتے ہیں‪ ,‬ہم سے پیار کرتے ہیں‪ ,‬سب لوگ‬
‫ہمیں چھوڑ دیتے ہیں لیکن الل ّٰ ہ ہمیں کبھی اکیال نہیں چھوڑتا" ا ُس نے‬
‫پوچھا "ا ّم ی الل ّٰ ہ میاں صرف ہمارے ہیں نا۔؟" تو ا ُس کی والدہ نے کہا‬
‫"نہیں بیٹا۔ الل ّٰ ہ میاں سب کے ہیں۔ اور وہ ہر ایک کے لیے کافی ہیں"‬
‫اپنی والدہ کے بیان کردہ گمان کو ا ُس کے معصوم دل نے حرف بہ‬
‫حرف جذب کر لیا تھا۔ ا ُس نے الل ّٰ ہ کو ہمیشہ اپنا دوست مانا اور ہر‬
‫حال میں ا ُسے اپنے ساتھ محسوس کیا۔ لیکن اپنے ارد گرد کے لوگوں‬
‫کو ایک دوسرے کو مذہب و مسلک کی بنیاد پر کافر اور بدبخت‬
‫خ دا کے بیچ کہیں ا ُلجھ کر رہ‬
‫گردانت ے ہوئے دیکھ کر وہ مذہب اور ُ‬
‫گیا۔ عبادت کا کون سا طریقہ درست ہے اور کون سا نہیں‪ ,‬کس کس کو‬
‫چ ا ماننا چاہیے اور کس کس کو جھوٹا کہنا ضروری ہے‪ ,‬کس مسلک‬ ‫س ّ‬
‫کی بنیاد کون لوگ ہیں اور کون سے مذہب کے لوگ زیادہ کمتر ہیں‪,‬‬
‫کس صحابی کا درجہ ب ُ ل ند ہے اور کون سے ب ُ زرگ زیادہ شان والے‬
‫ہیں‪ ,‬لوگوں کے پاس انہی سوالوں اور جوابوں کے مجموعے کا نام‬
‫دین تھا۔ وہ لوگ ایک دوسرے سے دین کی روشنی میں عبادت و‬
‫طہارت سے لے کر ہمبستری تک کے اصول جاننے پے تو بہت زور‬
‫دیتے تھے لیکن ا ُس دین کی روشنی میں ڈھل کے روشن ہونے کا‬
‫چ کا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے نماز‬ ‫سوال ا ُن کے گمانوں سے ِم ٹ ُ‬
‫روزے کے طریقوں کو غلط صحیح ثابت کرنے کو فصاحت و بالغت‬
‫کا درجہ دیتے۔ کسی آیت کا مفہوم اپنے مطلب کی بات تک لے آنے کو‬
‫یا اپنے مطلب کی بات قرآن و حدیث سے ثابت کر دینے کو علم سمجھا‬
‫جاتا۔ لوگ اپنی تصحی ح کرنے کو تیار نہیں تھے اور ایک دوسرے کی‬
‫تصحیح کرنے کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے تھے۔ حضرت علی کے‬
‫نام کے ساتھ رضی الل ّٰ ہ عنہ کہنا چاہیے یا علیہ السالم کہنا چاہیے۔‬
‫لوگ اسی بات پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جاتے اور ا ُن‬
‫کے فرمان میں موجود نصیحت سے سبق لینا بھ ول جاتے۔ مسجدوں‬
‫‪256‬‬
‫میں ثواب و عذاب کے ق صّ ے‪ ,‬امام بارگاہوں میں تفضی ِل علی‪,‬‬
‫درگاہوں پے شا ِن اولیاء‪ ,‬اور دینی مجلسوں میں صحابہ کی عظمت‬
‫ت رسول کا بیان جگہ جگہ جاری تھا مگر ا ُس کے دور میں‬ ‫اور س ُ ن ِ‬
‫لوگ ا ِن بیانات سے اپنا آپ نہیں س ُ دھارتے تھے بلکہ ا ُس میں سے‬
‫نقطے یاد کرنے کی کوشش کرتے اور ا ُس علم کو دوسرے مسلک و‬
‫مذہب پر اپنی برتری کا ثبوت بنا کر محفلوں میں بیان کرتے۔ یہ سب‬
‫دیکھ کر وہ سوچتا کہ اگر یہ سب بیان لوگوں کے دل میں انسان و‬
‫انسانیت کی محبت پیدا نہیں کرتے تو یہ سب بیان بے س ُ ود ہیں۔ مسئلہ‬
‫علم میں نہیں بلکہ تعلیم م یں ہے۔‬

‫دین کی بات ہمیں بتائی ہی ایسے جاتی ہے جیسے ہم تمام دوسرے‬


‫ت جنگ میں ہیں اور اگر وہ سب ہمارے مذہب و مسلک‬ ‫مذاہب سے حال ِ‬
‫کے پیروکار نہ بن سکیں تو ا ُن کی تباہی یقینی ہے۔ اسالم تو سالمتی‬
‫واال دین ہے۔ لیکن ا ُسے اپنے ارد گرد کے لوگوں کے دین میں سالمتی‬
‫کی کو ئی عالمت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ا ُسے اپنے آپ میں ایک‬
‫یقین تھا کہ الل ّٰ ہ کی راہ محدود نہیں ہو گی۔ جو ذات ہر جگہ موجود‬
‫ہے ا ُس تک پہنچنے کے لیے کسی راستے کی حاجت نہیں ہے بلکہ‬
‫ا ُس ذات کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے ا ُس نے بہت‬
‫سے راستے بنا دیے تاکہ لوگ ہر راہ سے ا ُس کی جانب بڑھیں اور‬
‫ا ُسے محسوس کر سکیں۔ ہر مذہب انسان اور انسانیت کی بھالئی کا‬
‫دعوی کرتا ہے لیکن پھر بھی مذہبی سطح پر دوسرے مذاہب سے‬ ‫ٰ‬
‫عداوت کا بھی ایک پہلو سامنے رکھتا ہے۔ ہر مذہب کی بنیاد محبت پر‬
‫خ دا سے بھالئی کرن ے کو اپنے‬‫ق ُ‬‫خ دا کی خاطر مخلو ِ‬ ‫ہے‪ ,‬ہر مذہب ُ‬
‫مذہب کی اصل گردانتا ہے۔‬
‫اسالم پسندیدہ ترین دین ہے لیکن ا ِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باقی‬
‫مذاہب دین نہیں ہیں‪ ,‬بلکہ ا ِس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسالم کے‬
‫عالوہ جتنے دین ہیں وہ بھی الل ّٰ ہ کے پسندیدہ دین ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں‬
‫پسندیدہ‪ ,‬اسالم کی ُر و سے دی کھا جائے تو اپنے اپنے وقت میں ہر نبی‬
‫کی شریعت پسندیدہ ترین شریعت تھی۔ ایک کے بعد ایک نبی کے آنے‬
‫سے پچھلے نبی کی شریعت کی تجدید ہوتی ہے لیکن ا ِس سے پچھلے‬
‫نبی کی نبوت ختم نہیں ہو جاتی۔ ال ل ّٰ ہ نے ایک الکھ چوبیس ہزار انبیاء‬
‫‪257‬‬
‫میں سے صرف چند کے نام زندہ رکھے اور ا ُن چند ناموں میں سے‬
‫صرف چند ہی ناموں کے نام لیوا زمین میں رہنے دیے باقی سب ناپید‬
‫ہو گئے۔ ا ِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ الل ّٰ ہ کو ا ُن چند ناموں سے کچھ‬
‫خاص محبت تھی اسی لیے ا ُس نے وقت میں ا ُن کا وجود رہنے دیا۔‬
‫اہ ِل کتاب سے نکاح کی اجازت دینے واال مذہب یقینا ً اہ ِل کتاب سے‬
‫محبت کرنے کا درس دیتا ہو گا۔ بلکہ اسالم تو تمام مخلوق سے ب ِ ال‬
‫امتیاز محبت کرنے کا درس دیتا ہے۔ مگر ا ُس کے ارد گرد کا ماحول‬
‫اسالم کے نام پر ایک دوسرے سے نفرت سے بھرا پڑا تھا۔ لوگ کسی‬
‫سے صرف ا ِس لیے نفرت کرتے تھے کہ وہ ا ُن کے مذہب یا مسلک‬
‫سے ہٹ کر ک سی اور عقیدے کی پیروی کرتا تھا۔ مسلمان گھرانوں میں‬
‫پیدا ہونے والے لوگ خود کو مسلمان کہتے اور دوسرے مذاہب کے‬
‫لوگوں کو حقارت سے یا غرور سے دیکھتے۔ کوئی غیر مذہب کا‬
‫شخص کچھ اچھا کرے تو لوگ ا ُس کی تعریف بھی کرتے لیکن نفرت‬
‫کا ایک عنصر ضرور ساتھ رکھتے۔ لوگ بہت س ے فرقوں میں بٹے‬
‫ہوئے تھے۔ اور ا ُن کے فرقے صرف مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ‬
‫رنگ‪ ,‬نسل‪ُ ,‬م لک‪ ,‬قوم‪ ,‬قبیلہ اور عالقے سے لیکر پیشے ‪ ,‬مال و دولت‪,‬‬
‫اور امیری غریبی تک کی بنیادوں پر بھی فرقے موجود تھے۔ اور لوگ‬
‫حق و باطل کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے اپنے فرقے کے مفاد کی ب نیاد‬
‫پر فیصلے کرتے تھے۔ ا ُن کا صحیح غلط کا معیار اپنے مسلک و مذہب‬
‫پر آ کر ختم ہو جاتا تھا۔ لوگ لوگوں کے ناموں میں ا ُن کا مذہب و‬
‫مسلک ڈھونڈنے کے بعد صحیح اور غلط کا فیصلہ کرتے تھے۔ لوگوں‬
‫نے سبق حاصل کرنا چھوڑ دیا تھا‪ ,‬انہوں نے ال ل ّٰ ہ والوں کے ناموں کا‬
‫بٹوار ہ کر رکھا تھا اور اپنے اپنے نظریے کو صحیح اور دوسرے کے‬
‫نظریے کو غلط ثابت کرنا ا ُن کا علم تھا۔ جس قوم کے نبی نے ا ُن سے‬
‫تعالی نے آدم کو مٹی‬
‫ٰ‬ ‫کہا تھا کہ "تمام لوگ آدم کی اوالد ہیں اور اللہ‬
‫سے پیدا کیا تھا۔ اے لوگو! سنو تمہارا رب ایک رب ہے‪ ،‬کسی عربی‬
‫کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی‬
‫پر کوئی فضیلت ہے۔ نہ کوئی کاال کسی گورے سے بہتر ہے اور نہ‬
‫تقوی کے سبب ہے۔" وہ قوم‬ ‫ٰ‬ ‫گورا کالے سے۔ فضیلت صرف اور صرف‬
‫تقوی کے بغیر ہی محض مسلمان گھرانوں میں پیدا‬ ‫ٰ‬ ‫سوچتی کہ ہم لوگ‬
‫ہونے کی وجہ سے بخش دیے جائیں گے اور باقی سب مذہب کے لوگ‬
‫‪258‬‬
‫صرف ا ِس لیے جہنم میں جائیں گے کیونکہ وہ کسی اور مذہب میں پیدا‬
‫کیے گئے تھے۔ ا ُس نے دیکھا کہ وہ جس قوم میں پیدا ہوا ہے وہ تباہی‬
‫کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ہر شخص اپنی ایک الگ فکر لے کر چل رہا‬
‫ہے۔ کسی کو اپنی معاشرتی پہچان کی فکر ہے تو کسی ک و روٹی‪ ,‬کپڑا‪,‬‬
‫مکان کا غم‪ ,‬کسی کو طاقت کا نشہ ہے تو کسی کو دولت پر ناز‪ ,‬اہ ِل‬
‫ممبر و محراب اپنی اپنی گ د ّی مضبوط کرنے میں مصروف تھے۔ کسی‬
‫ق رسول ہونے کا‬ ‫کو بھی انسانوں کی فکر نہیں تھی‪ ,‬کوئی عاش ِ‬
‫ح بِ اہ ِل بیت میں سرشاری کا چرچا کرنے میں‬ ‫دعویدار تھا تو کوئی ُ‬
‫ت صحابہ کے دالئل دینے کی د ُھن سوار تھی‬ ‫محو تھا۔ کسی پر عظم ِ‬
‫اور کوئی لوگوں پر شرک و بدعت کے فتوے گڑہنے میں مصروف تھا۔‬
‫کسی کو بھی انسانیت کی فکر نہیں تھی۔ وہ لوگ جن معتبر ہستیوں کا‬
‫نام لیا کرتے تھے ا ُن کی زندگیاں ا ُنہی ہستیوں کے فرمانوں کی تردید‬
‫ت انسان کا مذہب‬ ‫نظر آتی تھی۔ ا ُس نے جانا کہ ا ُس کے وقت میں اکثری ِ‬
‫کوئی تاریخ کی کتاب تھی جس کا اطالق صرف عبادت گاہوں تک‬
‫محدود تھا۔ عبادت گاہ سے باہر وہ لوگ نہ ہندؤ تھے نہ مسلم تھے وہ‬
‫سب کے سب انسان تھے شیطان کی غالمی میں قید‪ ,‬ڈرے سہمے لوگ‪,‬‬
‫خ دا کے نام پر‬ ‫شیطان ا ُنہیں کٹھ پ ُ تلی کی طرح نچا تا تھا‪ ,‬دین‪ ,‬مذہب‪ُ ,‬‬
‫انسان کو انسان کے ہی ہاتھوں قتل کیا کرتا تھا اور لوگ سب سمجھتے‬
‫ہوئے بھی خود کو شیطان کی پیروی کرنے پر مجبور پاتے تھے۔ ا ُن‬
‫حرص دنیا کا ایک جال تھا جسے وہ اپنی دنیا کا نظام‬ ‫ِ‬ ‫کے گرد‬
‫گردانتے تھے اور خود کو ا ِس نظام کا یرغمال م انتے ہوئے اپنی عمر‬
‫گزارہ کرتے تھے۔ لوگوں کو مذہب کچھ خاص مواقع اور خاص محفلوں‬
‫میں ہی یاد آتا تھا۔ جس قوم کے نبی نے ا ُنہیں کافر کو بھی کافر کہنے‬
‫سے منع کیا تھا‪ ,‬جس قوم کے نبی نے ا ُنہیں جھوٹے ُ‬
‫خ داؤں کو ب ُ را‬
‫کہنے سے منع کیا تھا‪ ,‬وہ قوم زور و شور سے اسی کام کو دینی‬
‫دعوی تھا کہ ا ُس‬
‫ٰ‬ ‫فریضہ سمجھ کر سرانجام دے رہی تھی۔ ا ُس قوم کا‬
‫کے پاس مکمل دین ہے مگر وہ قوم ا ُس دین کی کاملیت سے ناآشنا‬
‫تھی۔ ا ُن کے پاس وہ دین تھا جس کی سرپرستی میں ہر مذہب و بے‬
‫مذہب شخص کے لیے امان تھی لیکن کسی کو ا ِس بات کی سمجھ نہیں‬
‫تھی۔ الل ّٰ ہ کے رسول صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں سے نفرت‬
‫نہیں کی بلکہ محبت سے ا ُنہیں ال ل ّٰ ہ کے دین کی طرف مائل کیا۔ لوگوں‬
‫‪259‬‬
‫خ دا صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ‬
‫کے دی ِن اسالم میں داخل ہونے کی وجہ رسو ِل ُ‬
‫وسلم کا کردار تھا جو کال ِم الہی پر لوگوں کے یقین کی بنیاد بنا قرآن‬
‫بعد می ں نازل ہوا‪ ,‬نبوت کا اظہار بھی چالیس برس کی عمر میں ہوا‬
‫مگر رسول الل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم نے تبلیغ دین تمام عمر کی۔‬
‫اپنے اخالق سے‪ ,‬خلوص و محبت سے لوگوں کے دل میں گھر کیا۔‬
‫لوگوں سے بھالئی کا سلوک کیا‪ ,‬ا ُن کا بوجھ ا ُٹھایا‪ ,‬گالیاں س ُ ن کر‪,‬‬
‫پتھر کھا کر‪ ,‬لوگوں کو د ُعائیں دیں‪ ,‬الل ّٰ ہ کی طرف سے لوگوں کی‬
‫بربادی پر اختیار رکھتے ہوئے بھی سب کو معاف کیا‪ ,‬کسی سے بدلہ‬
‫نہ لیا۔ رسول الل ّٰ ہ صلی الل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے کردار سے اور‬
‫اپنے اخالق سے لوگوں کے دل جیتے تبھی لوگ ا ُن کے بتائے دین میں‬
‫داخل ہوئے۔ مگر لوگ کردار اپنانے اور کردار سے سیکھنے کی جگہ‬
‫کردار کو تولنا شروع کر دیتے تھے۔ اور جب انہوں نے کردار اپنانا‬
‫چھوڑ دیا تو ا ُن کے کالم سے اثر ا ُٹھا لیا گیا۔ اب وہ الکھ عبادت و‬
‫ریاضت کریں یا تبلیغ کریں ا ُن کا سب عمل بے روح ہے۔ دین عبادتوں‬
‫خ لق کا نام ہے۔ ہم اپنے مذہب و مسلک‬ ‫ح س ِن ُ‬
‫کے طریقوں کا نہیں بلکہ ُ‬
‫چ ے ہیں یا جھوٹے یہ فیصلہ کرنا الل ّٰ ہ کا حق ہے۔‬ ‫کے طریقوں میں س ّ‬
‫کیونکہ ہر ماننے واال اپنے مذہب و مسلک کو الل ّٰ ہ کے لیے اپناتا ہے‬
‫پس ا ُس کا اجر و عذاب بھی الل ّٰ ہ ہی کے حوالے دوسروں کے قلب میں‬
‫جھانکنے کی کوشش کرتے رہنا ہ ی اصل فساد ہے۔ کیونکہ جو دوسروں‬
‫کے عیب تالش کرتا ہے وہ اپنے عیب نہیں دیکھ پاتا۔‬

‫‪260‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫وہ اکثر سوچتا کہ جب جب الل ّٰ ہ نے کوئی نبی مبعوث کیا تو کچھ‬
‫لوگوں کو تو ا ُس نبی پر اور ا ُس کے کالم پر ب ِ نا کسی دلیل کے دل‬
‫سے یقین ہو گیا اور کچھ کے دل کو مع جزات سے تقویت ملی اور وہ‬
‫ایمان لے آئے۔ کچھ ایمان ال کر بھی شکوک میں رہے اور کچھ کے‬
‫شکوک نے انہیں ایمان ہی نہ النے دیا۔ الل ّٰ ہ اور الل ّٰ ہ کے کالم پر یقین‬
‫کی بنیاد ہمیشہ الل ّٰ ہ کے بندے بنے۔ کسی انسان کو دیکھ کر ہی انسانوں‬
‫نے الل ّٰ ہ کو پہچانا۔ اگر یوں کہا جائ ے تو یقینا ً درست ہو گا کہ الل ّٰ ہ کے‬
‫بندے پر ایمان‪ ,‬الل ّٰ ہ پر ایمان النے کی وجہ بنا۔ مگر حقیقت میں ایمان‬
‫کم ہی لوگوں کو نصیب ہوا۔ لوگ ایک دوسرے سے نبی کا ذکر س ُ نتے‬
‫ق ایسا ہے اور وہ ایسے رحیم و شفیق ہیں اور وہ‬ ‫تھے کہ ا ُن کا اخال ِ‬
‫سچ بولتے ہیں اور لوگوں سے بھال ئی کا سلوک کرتے ہیں وغیرہ‬
‫وغیرہ۔ پھر جب لوگ ملتے اور نبی کو جیسا س ُ نا تھا ویسا ہی پاتے تو‬
‫ا ُن کے دل کا یقین اور پ ُ ختہ ہو جاتا تھا۔ سبھی انبیاء نے ایک دوسرے‬
‫کی بھالئی چاہنے کا درس دیا۔ مگر ا ُن کے جانے کے بعد ہر قوم نے‬
‫دین کو اپنے لیے خاص کر لیا اور ا ُس سے باہر موجود لوگوں کو خود‬
‫سے کمتر جانا۔ ہمارا نبی ہی الل ّٰ ہ کے بعد کائنات کی افضل ترین ذات‬
‫ہے۔ اسی بات پر خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہوئے یہود نے‬
‫عیسیٌ کو ماننے سے انکار کیا تھا اور پھر دونوں مذاہب نے‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫اسالم کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ ا ِس حقیقت کو تس لیم کرنا‬
‫مسلمانوں کے لیے آسان ہے کہ تمام نبی ایک ہی نبی کا عکس ہیں۔‬
‫دوسرے مذاہب کے لیے جو سختی کا رویہ ا ُس وقت کے ک ُ فار میں پایا‬
‫جاتا تھا وہی رویہ آج کے مسلمانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ بہت سے‬
‫مسلم حکمرانوں کا نام بہت سے غیر مسلم ممالک میں بہت ادب و‬
‫احترام س ے لیا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے دوسرے مذاہب کا احترام کیا‬
‫اور ا ُن کے اسی اخالق کو دیکھتے ہوئے دوسرے مذاہب کے لوگوں‬
‫نے دی ِن اسالم میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔ آج وہ کردار‪ ,‬وہ اخالق‪,‬‬
‫چ کا ہے۔ جب کوئی غیر مذہب کا شخص اسالم‬ ‫ت مسلمہ سے ناپید ہو ُ‬ ‫ام ِ‬
‫کے بارے میں پڑھت ا ہے اور پھر مسلمانوں کا حال دیکھتا ہے تو ا ُسے‬

‫‪261‬‬
‫مسلمانوں میں اسالم کی کوئی جھلک نہیں دکھائی دیتی۔ ہم ایسی قوم‬
‫چ کے ہیں جسے خود غرضی‪ ,‬اللچ‪ ,‬ہ ِو س اور حرص نے ب ُ ری طرح‬ ‫بن ُ‬
‫جکڑ رکھا ہے۔ لوگ اپنا مذہب و مسلک تاریخ کی روشنی میں ثابت‬
‫کرنے کو دین گردانتے ہیں۔ اسی لیے ایک دوسرے کو اپنے مسلک کی‬
‫برتری ثابث کر کے ا ُسے اپنا ہم مسلک بنانے کی کوشش کرتے ہیں‬
‫کیونکہ ہمارے نزدیک دین محض عبادت کا انداز ہے۔ کس کس دن اور‬
‫کس کس وقت بھوکا رہنا ہے اور کس کس وقت مسجد ‪ ,‬مندر میں جانا‬
‫ہے اور کس کس انداز میں سجدہ کرنا ہے بس یہی انداز اپنان ا لوگوں‬
‫کا مذہب ہے۔ جبکہ دین عبادت کا انداز نہیں بلکہ عبد بننے کا انداز‬
‫ہے۔ جب لوگوں نے دین اور بھالئی کو اپنی عبادتوں کے طریقے اور‬
‫اپنے عقائد کے ساتھ مخصوص کر لیا تو ا ُنہوں نے اپنا دین برباد کر‬
‫ت العالمین کا نام لینے والی قوم جب ن ماز‪,‬‬ ‫لیا۔ رب العالمین اور رحم ِ‬
‫روزے کے طریقوں پر یا تاریخی مسائل پر اپنا اپنا نظریہ بیان کرتے‬
‫ہوئے خود کو باقی مسلمانوں سے الگ اور خود کو جنتی اور دوسروں‬
‫کو جہنمی قرار دیتی تو وہ سوچتا کہ یہ لوگ ایک طرف تو ا ُسے‬
‫عالمین کا رب مانتے ہیں اور دوسری جانب ا ُسی کی رحمت کو خود‬
‫تک محدود سمجھ تے ہیں۔ یقینا ً ایسا کر کے وہ الل ّٰ ہ کی رحمت کو تو‬
‫محدود نہیں کر پاتے مگر اپنی سوچ ضرور محدود کر لیتے ہیں۔ مذہب‬
‫و مسلک کی بنیاد پر دوسرے مذاہب کے لیے ایک خاص قسم کی‬
‫حقارت‪ ,‬نفرت‪ ,‬غصہ یا ب ُ رائی اپنی سوچ کے کسی کونے میں ہر‬
‫شخص چ ھُ پائے بیٹھا ہے اور یہی وہ چیز ہ ے جو سوچ کو تقسیم کرتی‬
‫ہے اور انسان کے اندر تفرقے کو جنم دیتی ہے۔ ال ل ّٰ ہ انسانوں کو‬
‫جوڑتا ہے اور شیطان انسانوں کو توڑتا ہے یہ تقسیم صرف سوچ سے‬
‫ہی ہوتی ہے اور سوچ میں ہی رہ کر انسانوں کو تقسیم کرتی ہے۔ لوگ‬
‫ج لتے ہیں ایک دوسرے کے غم و خوشی میں‬ ‫ایک دوسرے سے ملتے ُ‬
‫شریک ہوتے ہیں مگر اپنی سوچ کے جہان میں خود کو دوسروں سے‬
‫الگ کر کے رکھنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اکثر ا ُس کی سوچ‬
‫ا ُسے فرقہ واریت سے ا َٹے معاشرے کی سیر کرواتی جہاں ہر فرقہ‬
‫خ دائے واحد کی اشرف‬ ‫اپنے اپنے مفاد کے مطابق کام کر رہا تھا۔ ُ‬
‫ترین مخلوق کو ا ِن بے شمار ٹ ُکڑوں میں منقسم دیکھ کر وہ ہمیشہ بے‬
‫تاب ہو جاتا تھا کہ کسی طرح ا ِن ٹ ُکڑوں کو سمیٹ سکے۔ ا ِسی سوچ‬
‫‪262‬‬
‫اور جستجو نے ا ُسے تالش میں رکھا۔ وہ لوگوں کو ا ِس تقسیم سے باہر‬
‫نکالنے کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا مگر وہ کچھ بھی نہ کر پایا۔ حج‬
‫سے واپس آ کر وہ اپنی پ ُ ر انی زندگی میں پھر سے محو ہو گیا۔ وقت‬
‫گ ُ زرتا گیا اور وہ اپنے اندر ہی اندر ڈوبتا گیا۔ وہ اپنے آپ میں ایک‬
‫گناہگار شخص تھا مگر ا ُس کے پاس بہت سے سوالوں کے جواب‬
‫تھے۔ اور وہی جواب لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری ا ُس کے دل کو‬
‫سکون نہیں لینے دیتی تھی۔ ا ِس لیے وہ لوگو ں تک کسی نہ کسی رنگ‬
‫میں اپنی بات پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ مگر یہ سب ا ُسے بہت‬
‫ناک افی محسوس ہوتا تھا ۔ ایک وسیع سوچ کے عالوہ ا ُس کے پاس کچھ‬
‫بھی نہ تھا۔ اپنی سوچ کے مطابق وہ کوئی بھی قاب ِل ذکر کام نہیں کر‬
‫پایا اس لئے ا ُس کی کہانی یہاں اختتام پزیر ہوتی ہے ۔‬

‫لوگ کہتے ہیں کہ جو لوگ کچھ نہیں کر سکتے وہ باتیں کرتے ہیں‪,‬‬
‫مگر میرے خیال میں زمین میں سب کاموں کی بنیاد باتوں پر ہی ہے۔‬
‫انسان کا بیان ہی ا ُس کے اندر کا اظہار ہوتا ہے۔ ا ِس اظہار کو‬
‫دوسرے لوگ پہچان سکیں یا نہیں لیکن یہ انسان خود اپنا گواہ ہے اور‬
‫الل ّٰ ہ سب کے دل کا حال جانتا ہے۔ اضطراری اور غیر اضطراری‬
‫طور پر ہم جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ سب کسی جگہ پہلے الفاظ کی‬
‫صورت جنم لیتا ہے پھر ظاہر میں ا ُس کی کوئی صورت تیار ہوتی‬
‫ہے۔ بات باتوں میں نہیں بلکہ کہنے والے کے دل میں ہوتی ہے۔ اگر‬
‫چ ائی ہو تو ا ُس کی بات س ُ نے والے کے دل‬‫کہنے والے کے دل میں س ّ‬
‫پر ضرور اثر کرے گی۔یہ کہانی لکھنے کے دوران میں نے اکثر‬
‫سوچا کہ میں اکیال کیا کر سکتا ہوں۔؟ کتنے لوگ ہوں گے جن تک‬
‫میری بات پہنچے گی۔؟ لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے ایسی باتوں کے‬
‫لیے۔ کوئی نہیں چاہتا س ُ دھرنا۔ لوگ بس باتیں س ُ ننے کے شوقی ن ہوتے‬
‫ہیں۔ پاکستانی قوم کو انقالب چاہیے ہی نہیں۔ ا ِن کا مسئلہ بجلی‪ ,‬پانی‪,‬‬
‫گیس ہے۔ غریبی اور بے روزگاری ہے۔ جس شخص کو دو وقت کی‬
‫روٹی میسر نہیں ہے ا ُسے میرے انسان اور انسانیت کے فلسفے میں‬
‫کیا دلچسپی ہو سکی ہے۔ جس کی بیوی پیسوں کے لیے ہر وقت ا ُس‬
‫چ ے بھوک سے ب ِ لکتے رہتے ہوں‪ ,‬وہ شخص ہندؤ‬ ‫سے لڑتی رہتی ہو‪ ,‬ب ّ‬
‫یا مسلم کچھ بھی ہو ا ِس سے کیا فرق پڑتا ہے۔؟ فرقوں میں ایک فرقۂ‬
‫‪263‬‬
‫انسان بنا لینے سے ایک عام آدمی کی صحت پر کیا اثر پڑے گا۔؟‬
‫لوگوں کو اپنی روزی روٹی کی فکر چھوڑے گی تو وہ الل ّٰ ہ کے بارے‬
‫میں سوچیں گے۔ میں جانتا ہو ں کہ لوگوں پر ایسا ایسا وقت گ ُ زرتا ہے‬
‫کہ وہ الل ّٰ ہ کی ذات کا ہی انکار کر دیتے ہیں۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ‬
‫جس ُم لک کی بنیاد اقبال کے خواب پر ہے ا ُس کی تعبیر یہ نہیں ہو‬
‫سکتی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جو اسالم کا وہ چہرہ دنیا‬
‫کے سامنے ال سکتے ہیں جس کی خاطر " پاکستان کا مطلب ال الہ‬
‫اال ال ل ّٰ ہ مح ّم د رسول الله ﷺ " بتایا گیا تھا۔ مجھے پتہ ہے کے‬
‫میری بات پر یقین کرنا مشکل ہے۔ لیکن میرا ایک خواب ہے کہ میرے‬
‫ُم لک کے لوگ الل ّٰ ہ کی خاطر‪ ,‬دی ِن اسالم کی خاطر‪ ,‬اپنی خاطر اور‬
‫تمام انسانیت کی خاطر اپنے ِد ل و دماغ میں پل تی نفرت کو نکال کر‬
‫چ ے آ کر‬ ‫ایک دوسرے کا احترام کرنے کی ِر یت ڈالیں۔ جب ہمارے ب ّ‬
‫ہم سے کسی دوسرے مذہب یا مسلک کے بارے میں پوچھیں تو ہم ا ُن‬
‫کی ب ُ رائی بیان کرنے کی جگہ بچوں کو یہ بات سمجھائیں کہ مذہب و‬
‫مسلک کا فیصلہ الل ّٰ ہ کے ہاتھ ہے‪ ,‬ہمارا کام فقط لوگوں سے ب ھالئی‬
‫ہے۔ جب لوگ اپنے دل سے ایک دوسرے کے لیے نفرت و حقارت‬
‫جیسے جذبوں کو الگ کریں گے تو وہ ایک دوسرے کے خالف شیطان‬
‫کے مددگار بننا چھوڑ دیں گے۔ بس ہمیں ا ِس وقت صرف ا ِسی چیز کی‬
‫ضرورت ہے۔ لوگ عبادات کی کوشش کرتے ہیں اور خود کو عبادات‬
‫کا پابند بنانے میں ناکام پ اتے ہیں۔ ا ِس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ‬
‫الل ّٰ ہ کا بندہ بننے کی کوشش کیے بغیر ہی عبادت کرنے کی کوشش‬
‫کرتے ہیں۔ الل ّٰ ہ کا بندہ وہ ہے جو الل ّٰ ہ کے لیے لوگوں سے محبت کرتا‬
‫ہو۔ لوگوں سے محبت کرنا الل ّٰ ہ اور ا ُس کے بندوں کی س ُ ن ّ ت ہے۔ جو‬
‫ا ِس س ُ ن ّ ت کو اپنا لیتا ہے و ہ الل ّٰ ہ کا بندہ بن جاتا ہے۔ کوئی شخص‬
‫دعوی کرتا ہو کہ وہ آپ کا مالزم ہے اور وہ آپ کی جگہ کسی اور‬ ‫ٰ‬
‫شخص کے پاس کام کرتا ہو تو کیا آپ ا ُسے اپنا مالزم مان لیں گے۔؟‬
‫یقینا ً نہیں۔ یہی حال ا ِس وقت اوال ِد آدم کی اکثریت کا ہے۔ یہ عبادت‬
‫ثواب کمانے کے لیے کرتے ہیں تاک ہ انہیں جنت حاصل ہو سکے یا‬
‫ا ِس لیے کرتے ہیں کہ وہ دوزخ میں نہ ڈالے جائیں۔ بات ایک ہی ہے‬
‫کہ ا ُن کی طلب الل ّٰ ہ نہیں بلکہ الل ّٰ ہ کی نعمتیں ہیں۔ لوگ صرف اپنے‬
‫لیے آسائش چاہتے ہیں جب وہ اپنی آسائش چاہتے ہیں تو وہ الل ّٰ ہ کے‬
‫‪264‬‬
‫لیے دنیا کی تکالیف ا ُٹھانے سے پرہیز کرن ے کی کوشش کرتے ہیں‬
‫اور اپنی زندگی کی آزمائش کے آگے سر ٹیک دیتے ہیں۔ جب وہ دل‬
‫میں ہار مان لیتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی طاقت‬
‫گنوا دیتے۔ جب لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو‬
‫وہ اپنی اپنی آسائش کا سامان اکھٹا کرنے کی صورت تالش کرنا‬
‫شر وع کر دیتے ہیں۔ آج جو لوگ خود کو ہندؤ‪ ,‬مسلم‪ ,‬مسیحی یا کوئی‬
‫اور نام دیتے ہیں ا ُن کی کثیر اکثریت اپنے مذہب کی تعلیمات کے‬
‫خالف چل رہی ہے۔ ا ِن لوگوں میں مذہب کا صرف نام رہ گیا ہے اور‬
‫وہ ا ِس نام کو اپنی دنیاوی ضرورت کے تحت استمعال کرتے ہیں۔ یہ‬
‫لوگ عبادتگاہیں بن اتے ہیں الل ّٰ ہ والوں کی یاد میں بڑی بڑی محفلیں‬
‫سجاتے ہیں مگر ا ِس کا مقصد لوگوں میں محبت بانٹنا نہیں بلکہ اپنی‬
‫تقسیم واضح کرنا ہوتا ہے۔ جب ا ِن محفلوں میں دوسرے مذہب و‬
‫مسلک کے لوگوں کے لیے تمسخر و تکبر کی کیفیت لیے عیب دار‬
‫لوگ اکھٹے ہوتے ہیں اور واپس جا کر د وبارہ ا ُنہی گناہوں میں کھو‬
‫جاتے ہیں تو وہ لوگ درحقیقت ا ُنہی ناموں کو بدنام کرتے ہیں ِج ن کا‬
‫ذکر وہ اپنی عبادتگاہوں میں کیا کرتے ہیں۔ کیا آج کے یہودی‪,‬‬
‫مسیحی‪ ,‬یا مسلمان اپنے اپنے مذہب کے نام پر دھبہ نہیں ہیں۔؟ مقدس‬
‫ہستیوں کے نام لینے والے ہی اپنے اپنے اخالق س ے‪ ,‬اپنی سوچ سے‪,‬‬
‫اور اپنے الفاظ سے ا ُن کی شان میں گ ُ ستاخی کرنے میں محو ہیں۔ پھر‬
‫کون سے مذہب و مسلک کی بات کرتے ہیں لوگ۔ کس بات پر خود کو‬
‫دوسروں سے الگ مانتے ہیں۔ غور سے دیکھیں تو سبھی مذاہب‬
‫گمراہی کی راہ چل رہے ہیں۔ شیطان سبھی مذاہب کے انسانوں کا‬
‫یکساں دشمن ہے۔ وہ کسی بھی مذہب کے انسانوں کا دوست نہیں ہے۔‬
‫انسانیت کی تقسیم ہی شیطان کا ہتھیار ہے۔ جب تک کوئی ایک مذہب‬
‫سبھی مذاہب کے لوگوں کو انسانیت کے نام پر ایک کرنے کا بیڑا نہیں‬
‫ا ُٹھائے گا تب تک ہم سب بے جا تقسیموں کی بنیاد پر ایک دوسرے‬
‫سے لڑتے ہی رہیں گے اور ای ک دوسرے کے خالف شیطان کی مدد‬
‫کرتے رہیں گے۔ جو لوگ شیطان کے مددگار بن کے زندگی گزار‬
‫رہے ہوں ا ُن کا سب عمل فتنہ فساد ہی ہے کیونکہ وہ شیطان کے بندے‬
‫ہیں۔‬

‫‪265‬‬
‫''باب۔ ‪'' 00‬‬
‫ص ہ(‬
‫(آخری ح ّ‬
‫لوگوں کو اپنے اندر سے یہ فساد ختم کرنا ہو گا۔ ہم مسلمان الل ّٰ ہ کے‬
‫آخری نبی کے ماننے والے ہیں۔ رحمت العالمین کی رحمت کو دنیا‬
‫میں عام کرنے کی ذمہ داری ا ُسی قوم پر ہے جو ا ُن کی رحمت کے‬
‫دعوی کرتی ہے۔ بہت فخر ہے مسلمانوں کو‬ ‫ٰ‬ ‫سائے میں ہونے کا‬
‫مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے پر۔ مسلمان ہونے کے باعث ایک دن‬
‫بخش دیے جانے کا بھی یقین رکھتے ہیں او ر باقی سب مذاہب کے‬
‫اعلی ہیں‬
‫ٰ‬ ‫لوگوں کا مقدر جہنم بھی سمجھتے ہیں۔ اگر ہم سچ میں اتنے‬
‫تو ہمیں اپنے ا ِس مقام کی قدر کرنی چاہیے۔ اگر ہم بڑے ہیں تو ہمیں‬
‫خ دا صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ‬
‫اپنے بڑے پن کا اظہار کرنا چاہیے۔ رسو ِل ُ‬
‫وسلم کی پیروی میں ا ُن کا کردار اپنانے کی کو شش کرنی چاہیے۔ اور‬
‫عال ِم اسالم کو تمام مذاہب کے لیے سالمتی کا باعث بنا کر پیش کرنا‬
‫چاہیے۔ میں نہیں کہتا کہ لوگوں کو عبادات نہیں کرنی چاہیے مگر میں‬
‫یہ ضرور کہتا ہوں کہ ِد ل کو نفرت سے پاک کیے بغیر عبادت کسی‬
‫کام کی نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر لوگ عبادات میں غفل ت کر بھی‬
‫جائیں تو بھی ا ُنہیں اپنی اخالقیات میں غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ اپنی‬
‫سوچ میں غفلت کر کے شیطان کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ ا ِس وقت میں‬
‫زیر سایہ لوگوں کو اعمال کے پیچھے دوڑایا جاتا ہے اور‬ ‫ِ‬ ‫ُم ّال ازم کے‬
‫نیتوں کی تربیت پر دھیان نہیں دیا جاتا۔ ا ِس لیے عموما ً ل وگ بے روح‬
‫اعمال سے تھک جاتے ہیں یا خود کو اعمال کا عادی بنا کر دین کے‬
‫معاملے میں دوسروں پے سختی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بس ایک ہی‬
‫رٹ ہے سب کی کہ ہمارے طریقے سے چلو تو راہ پر ہو ورنہ گمراہ‬
‫ہو جبکہ الل ّٰ ہ کی راہ نماز روزے کے طریقے یا تاریخی عقائد نہیں‬
‫بلکہ ال ل ّٰ ہ کی راہ تو اخالص‪ ,‬اخالق اور بھالئی کی راہ ہے‪ ,‬نبی اکرم‬
‫صلی ال ل ّٰ ہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام زندگی اسی بات کا اظہار ہے کہ‬

‫‪266‬‬
‫الل ّٰ ہ کی راہ ہر خاص و عام کے لیے رحمت کی انتہا بن کے دکھانے‬
‫کا نام ہے۔ زمین پے موجود لوگ جن ہستیوں کو مقدس جانتے ہیں‬
‫انہوں نے تمام ا نسانوں کی بھالئی کے لیے کام کیا۔ ا ُن سب کا سلوک‪,‬‬
‫ا ُن کا اخالق‪ ,‬ا ِس بات کا سبب بنا کہ لوگوں نے ا ُن کی پیروی کی اور‬
‫چ ی پیروی کرنے والوں نے ہمیشہ اپنے کردار سے ثابت کیا کہ وہ‬ ‫س ّ‬
‫کس کے پیروکار ہیں۔ اسی لیے ا ُن کے نام باقی رہ گئے۔ میرا کہنا بس‬
‫اتنا ہے کہ دین کو اگر دوسروں پر ثابت کرنا ہی مقصود ہے تو اپنے‬
‫کردار سے کیجیئے اور اگر کردار سے نہیں کر سکتے تو کم از کم‬
‫ایسی بات کیجیئے جو لوگوں میں نفرت پھیالنے کا باعث نہ بنے۔ ا ِس‬
‫وقت میں ہمیں صرف انسانیت اپنانے کی ضرورت ہے اور بس۔ سب‬
‫انسان کسی ایک مذہب یا مسلک پر متفق نہ یں ہو سکتے مگر سب‬
‫انسان انسانیت کے نام پر ایک ہونے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔‬
‫ا ِس وقت میں ا ِس کوشش کی سب سے زیادہ ضرورت مسلمانوں کو‬
‫ہے۔ ہم دنیا بھر میں مسلمان ہونے کے باعث قتل کیے جا رہے ہیں۔‬
‫اور حد یہ ہے کہ ہم مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو‬
‫ایک دوسرے کو غیر مسلک مسلمان ہونے کی وجہ سے قتل کرنا ثواب‬
‫کا باعث سمجھتے ہیں۔ جس مذہب کی تعلیمات یہ کہتی ہوں کہ ایک‬
‫انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے ا ُس مذہب میں جب ایسے لوگ‬
‫منبر پر جا بیٹھیں جو ایک کلمہ گو کو دوسرے کلمہ گو کے خون کا‬
‫پیاسا بناتے ہوں تو ا ُس قوم کا قت ِل عام واجب ہو جاتا ہے۔ اگر لوگ‬
‫ایسے لوگوں کے پیچھے کھڑی ب ِ ھیڑ کا ح صّ ہ بننا چھوڑ دیں تو ا ُن کی‬
‫طاقت کم کی جا سکتی ہے۔ جب تک ہم اپنا اصل نہیں اپناتے تب تک‬
‫ہو س‪ ,‬حرص‪ ,‬اللچ اور شہوت‬ ‫ہم بہتری کی جانب نہیں بڑھ سکتے۔ ّ‬
‫سے بھرے دل لیے لوگ ایک دوسرے کا حق مارتے ہیں اور خود کو‬
‫کسی مقدس ہستی کا منتظر بھی بتاتے ہیں۔ اپنی آنکھوں میں اپنے‬
‫کرب کی داستان لیے فریاد بھری نگاہوں سے آسمان کو دیکھتے رہنے‬
‫سے کوئی مسیحا نازل نہیں ہو گا جب تک کہ لوگ اپنے دل کی دنیا‬
‫کو ا ُس مسیحا کی آمد کے لیے نہیں سجاتے۔ میری نظر میں ہر ان سان‬
‫کے لیے حق وہی ہے جس پے ب ِ نا کسی دلیل کے ا ُس کے دل کو یقین آ‬
‫جائے۔ ہم قرآن و حدیث کی ہزاروں دلیلیں دے کر کسی کو مسلمان‬
‫نہیں کر سکتے کیونکہ جب ا ُس کا ِد ل ہی ایک شئے کا انکار کرتا ہے‬
‫‪267‬‬
‫تو وہ کس طرح ا ُس کی بات مان سکتا ہے۔؟ لیکن اگر ہم ہمیشہ ا ُس‬
‫کے ساتھ بھال ئی کا سلوک روا رکھیں‪ ,‬ا ُس سے ادب و احترام سے پیش‬
‫ح س ِن سلوک سے متاثر ہو‬ ‫آئیں تو ہو سکتا ہے کہ ایک ِد ن وہ ہمارے ُ‬
‫ح س ِن اخالق‬ ‫کر ہمارے مذہب میں داخل ہو جائے۔ دی ِن اسالم کی تبلیغ ُ‬
‫اور صلہ رحمی سے ہوئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسالم پھیالنے والے‬
‫مسلمان باکردار‪ ,‬بااخالق اور لوگوں پر رحم کرنے والے تھے۔ ہم سب‬
‫گناہگار لوگ ہیں لیکن گناہگار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم الل ّٰ ہ‬
‫کی جانب پلٹنے کا حوصلہ ہی چھوڑ دیں۔ شیطان کی بہترین چالوں‬
‫احساس گناہ میں ڈبو کر‬
‫ِ‬ ‫میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ انسان کو‬
‫انسان سے الل ّٰ ہ کی جانب پلٹنے کا ح وصلہ بھی چھین لیتا ہے۔ جب‬
‫لوگوں کی اکثریت عبادتگاہوں میں اور اپنی محفل و تنہائی میں حق‬
‫کے نعرے لگانے کی جگہ اپنی عام زندگی میں حق کہنا اور س ُ ننا پسند‬
‫کرنا شروع کر دے گی تو انسانیت کی بھالئی کی راہیں ک ھُ لنا شروع‬
‫ہو جائیں گی۔ جب تک لوگ اپنی ذات میں انقالب نہ یں الئیں گے تب‬
‫تک کسی قسم کا کوئی انقالب نہیں آنے واال۔ ہم وہ لوگ ہیں جو حیرت‬
‫سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ شاید یہ‬
‫شخص ہمارا ساتھ دے گا۔ شاید یہ ہماری بھالئی کا سبب بنے گا۔ شاید‬
‫یہ ہمیں نجات دالئے گا۔ ہر شخص ایک الگ الگ ''شاید'' کی بنیاد پر‬
‫اپنے آنے والے کل کا خواب دیکھتا ہے۔ اور ا ُس میں بہتری کی ا ُمید‬
‫کرتا ہے۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو ہر طرح کے "شاید" سے بچنے‬
‫کی کوشش کرتے ہوئے الل ّٰ ہ پے یقین کر کے زندگی گزارنے کی‬
‫کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دنیا اور دنیا والوں سے ہٹ کر‬
‫خود پر بھروسا کرنا پڑتا ہے‪ ,‬اسباب کو چھوڑ کر مسبب االسباب کا‬
‫دامن تھامنا پڑتا ہے۔ ہمارا انقالب ہماری اپنی روح میں قید ہے۔ ہم‬
‫لوگ بہتر سیاسی‪ ,‬سماجی نظام بنا کر کوئی تبدیلی نہیں ال سکتے‬
‫کیونکہ ہم اپنے دل نہیں بدلتے۔ ا ِس وقت میں ہمیں روح کے انقالب‬
‫کی ضرورت ہے۔ ہم جب تک اپنی رو ح میں انقالب نہیں الئیں گے تب‬
‫تک ہم یوں ہی جلتے َم رتے رہیں گے۔ ا ِس وقت میں بہترین عمل یہ‬
‫ہے کہ الل ّٰ ہ کی محبت میں لوگوں سے بھالئی کی جائے۔‬

‫‪268‬‬
‫روحوں کے انقالب کی کو ئی بات کیجیئے ۔‬
‫دل کو عقل کی قید سے آزاد کیجیئے۔‬
‫جسموں کی تربیت سے نہ کچھ بات بنے ہے۔‬
‫جب تک کہ نہ ا ِس روح کو آباد کیجیئے۔‬
‫فط رت یہی ہے ازل سے خود آشناؤں کی۔‬
‫سَ ر دیجیئے پر راز کو نہ فاش کیجیئے۔‬
‫ِح کمت یہی ہے دیجیئے درس عشق کا۔‬
‫انسانیت سے انساں کو آباد کیجیئے۔‬
‫ما نگتا ہے خو ِن دل انقال بِ انقالب۔‬
‫س لسلہ آغاز کیجیئے۔‬ ‫خود میں خودی کا ِ‬
‫الل ّٰ ہ نے سب کو ایک دوس رے سے مختلف مگر ایک سا بنایا ہے۔ ایک‬
‫سا ا ِس لیے کہ ہم سب کو ا ُس نے انسان بنایا مگر ہر ایک کو ایک‬
‫الگ سراپا ایک الگ سوچ عطا کی۔ لوگ الگ الگ طرح کا لباس پہن‬
‫کر‪ ,‬طرح طرح کے بال بنا کر‪ ,‬خود کو دوسروں سے منفرد ثابت‬
‫کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اپنے اندر چ ھُ پی انفر ادیت تالش نہیں‬
‫کرتے۔ یہ نہیں سوچتے کہ الل ّٰ ہ نے پہلے ہی سے ہمیں ایک دوسرے‬
‫سے منفرد تخلیق کیا ہے۔ ہم سب انسانوں میں پیدا ہوتے ہیں‪ ,‬انسانوں‬
‫کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں‪ ,‬مگر اپنے آپ میں ہم‪ ,‬ہر دوسرے انسان‬
‫ج دا‪ ,‬اپنا ایک الگ وجود رکھتے ہیں۔ ہر انسان کے الگ الگ‬ ‫سے ُ‬
‫فنگر پرنٹس بنانے والے نے پہلے ہی سے سب کو الگ الگ رنگ دے‬
‫رکھا ہے۔ ضرورت صرف اپنا رنگ پہچاننے کی ہے۔ جس ذات نے‬
‫اپنی کائنات میں اتنی ساری انفرادیت رکھی وہ یقینا ً چاہتا ہو گا کہ‬
‫لوگ الگ الگ رنگ میں ا ُسے چاہیں۔ غور کریں تو کسی مشہور‬
‫شخص کو اپنے چاہنے والوں کے مذہب‪ ,‬مسلک‪ ,‬قوم‪ ,‬قبیلے سے کوئی‬
‫غرض نہیں ہوتی۔ ا ُس کے لیے صرف یہ بات اہم ہوتی ہے کہ لوگ ا ُس‬
‫کے ساتھ ہیں یا نہیں۔ ہم لوگ اپنی روز م ّر ہ کی زندگی میں بھی لوگوں‬
‫کے برتاؤ کے اعتبار سے ہی ا ُن پر بھروسا یا شک کرتے ہیں۔ دنیا کا‬
‫نظام اسی اعتبار پر چل رہا ہے۔ ہم لوگ ایک دوسرے کی دوستی‬
‫دشمنی سے غرض رکھتے ہیں۔ لوگوں کو ا ُن کے رویے اور اپنے‬
‫مفادات کی بنیاد پر پرکھنے والے لوگ جب اپنے رب کو بیان کرتے‬
‫‪269‬‬
‫ہیں تو کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کو ا ُن کے دل سے نہیں بلکہ مذہب و‬
‫مسلک کی بنیاد پر پرکھتا ہے۔ افسوس ہوتا ہے مجھے لوگوں کی سوچ‬
‫دی کھ کر۔ ہمارے پاس سب کچھ ہے بس شعور کی کمی ہے۔‬
‫مجھے یقین ہے کہ جس جس شخص تک میرا یہ پیغام پہنچے گا وہ‬
‫ایک بار میری بات کو سوچے گا ضرور۔ میں الل ّٰ ہ کی ا ِس کائنات بہت‬
‫چھوٹا سا ح صّ ہ ہوں۔ اگر ا ِس کتاب سے ایک بھی شخص کا دل نہیں‬
‫بدلتا تو بھی مجھے افسوس نہیں ہو گا کیونکہ میرا کام صرف صاف‬
‫صاف بات بیان کرنا تھا۔ کون سیکھتا ہے اور کون نہیں یہ میرا مسئلہ‬
‫نہیں ہے۔ ا س کا اختتام کرتے ہوئے میں اپنے سبھی پڑھنے والوں کا‬
‫ش ُ کریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اب تک کے تمام سفر میں میرا‬
‫ساتھ دیا اور میرا حوصلہ بڑھایا۔ کچھ لوگوں نے حوصلہ شکنی کی‬
‫کوشش بھی کی ا ُن سب کا بھی بہت بہت ش ُ کریہ۔ مجھے سب لوگوں‬
‫کے رویے سے بہت کچھ سیکھنے کو مال۔ بہت سے باشعور لوگوں نے‬
‫مجھے جوائن کیا جنہیں دیکھ کر مجھے اپنی بات بیان کرنے کا‬
‫حوصلہ ِم ال۔ ا ِس کہانی کے بیان کرنے کا مقصد لوگوں میں الل ّٰ ہ کی‬
‫جانب بڑھنے کا حوصلہ پیدا کرنا اور ا ِس کوشش میں مذہب و مسلک‬
‫کی تمیز کے بغیر ایک دوسرے کی مدد کرنے کا شعور پیدا کرنا تھا۔‬
‫شیطان تمام انسانوں کا دشمن ہے۔ اور دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔‬
‫اب ا ِس دشمنی میں ہماری مرضی ہے کہ ہم انسانوں کے مختلف‬
‫گروہوں سے دشمنی کر کے شیطان کو دوست بنائیں یا انسانوں سے‬
‫دوستی کر کے الل ّٰ ہ کے دشمن کو زیر کرنے کی کوشش کریں۔ فرقۂ‬
‫درس انسانیت ہے۔ جب اتنے سارے فرقے پہلے سے موجود ہیں‬ ‫ِ‬ ‫انسان‬
‫تو چلیں ایک اور فرقہ بنا لیتے ہیں۔ ایک ایسا فرقہ جس میں ہر مذہب‬
‫و مسلک کے لوگ موجود ہوں۔ ایک ایسا فرقہ جو ہر رن گ و نسل کے‬
‫لوگوں کو محض انسان ہونے کی بنیاد پر عزت کی نگاہ سے دیکھتا‬
‫ہو۔ ایک ایسا مسلک جس میں لوگ اپنے اخالق کی ب ُ لندی سے اپنے‬
‫اخالص کا اظہار کرتے ہوں۔ ایسے لوگ جو الل ّٰ ہ کی خاطر ایک‬
‫دوسرے سے محبت کرتے ہوں۔ انسانوں کا ایک ایسا گروہ جو لوگوں‬
‫کو الل ّٰ ہ کی جا نب بڑھنے کا حوصلہ دے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو‬
‫اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ اپنی زندگی میں آنے جانے والے لوگوں‬
‫ج دائی میں اس طرح کھو جاتے ہیں کہ گویا ا ُن کا کوئی‬ ‫کے ق ُ رب و ُ‬
‫‪270‬‬
‫رب ہی نہ ہو۔ لوگ شیطان کی بچھائی بساط میں پھنس کر کیڑوں‬
‫مکوڑوں کی سی زندگی گ ُ زانا قبول کر لیتے ہیں اور اپنے اصل مقام‬
‫سے ناآشنا رہتے ہیں۔ لوگ چیزوں کو اور رشتوں کو ا ِس قدر چاہتے‬
‫ہیں کہ ا ُن کے نا ملنے پر اپنا جینا حرام کر لیتے ہیں۔ کسی بیوفا کی‬
‫یادوں میں جلتے رہنے کی عادت‪ ,‬کسی نہ ملنے والی چیز کے غم کو‬
‫سینے سے لگائے روتے رہنے کا جنوں‪ ,‬یہ سب شیطان کے بنائے‬
‫پھندے ہیں ِج ن میں گھیر کر وہ لوگوں کو الل ّٰ ہ کی یاد سے غافل رکھتا‬
‫چ کے ہیں شاید‬ ‫ہے۔ دنیا اور آخرت کی محبت میں انسان انسانیت بھول ُ‬
‫اسی لیے دنیا یا جنت حاصل کرنے کے نام پر وہ انسانوں کا خون‬
‫بہانے سے بھی باز نہیں آتے۔ میں نہیں کہتا کہ لوگوں کو پانچ وقت‬
‫کی عبادت نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہر وقت‬
‫کی عبادت‪ ,‬وقتی عبادات سے زیادہ اہم ہے۔ زمین میں چلتے پھرتے‬
‫ص لہ رحمی کا رویہ اختیار کرنا اصل‬ ‫ح س ِن سلوک اور ِ‬ ‫لوگوں سے ُ‬
‫عبادت ہے۔ اگر ہم یہ عبادت نہیں کر سکتے تو ہمیں عبادتگاہوں میں‬
‫جا ک ر دنیا کو یہ دکھانے کا بھی کوئی حق نہیں ہے کہ ہم ا ُن مقدس‬
‫ہستیوں کے ماننے والے ہیں جن کی تمام زندگی لوگوں سے بھالئی کا‬
‫سلوک کرنے کا درس ہے۔ سب لوگ کسی ایک مکت بِ فکر کو نہیں اپنا‬
‫سکتے۔ سب لوگ کسی ایک بزرگ کے ُم رید نہیں بن سکتے‪ ,‬نہ ہی‬
‫سب لوگ کسی ایک مسلک یا مذہب کے پیروکار بن سکتے ہیں۔ سب‬
‫لوگوں کو اگر کسی ایک بات پر متفق کیا جا سکتا ہے تو وہ انسانیت‬
‫کی سالمتی ہے۔ کسی کو ب ُ را مت کہیئے‪ ,‬اپنے اندر کی ب ُ رائی پر نظر‬
‫رکھیے۔ جب ہم سب اپنی اپنی ب ُ رائی کو صاف کرنے کی کوشش کریں‬
‫گے تو انشاء ال ل ّٰ ہ ہم ضرور دنیا میں بھالئ ی کا نظام رائج کر سکیں‬
‫گے۔ ا ِس وقت میں ہمیں اپنی نظر میں حیا پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫اپنے دل میں نرمی اور باتوں میں خلوص پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫ہم لوگ ایک قوم کی حیثیت سے بہت خوفزدہ لوگ ہیں۔ ہم کسی کے‬
‫بھی خالف انقالب نہیں ال سکتے کیونکہ ہم ا ِس نظام سے ڈر کے جینا‬
‫چ کے ہیں۔ لیکن اپنے آپ کے خالف انقالب النا ابھی بھی ہمارے‬ ‫سیکھ ُ‬
‫بس میں ہے۔ کہتے ہیں کہ جس قوم کے اعمال حد سے زیادہ ب ُ رے ہو‬
‫جاتے ہیں ا ُس پر ب ُ رے حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ کیا پتہ ہمارا‬
‫انقالب ہمارے خود کے اندر موجود ہو اور ہم ا ُسے باہر تالش کرتے‬
‫‪271‬‬
‫پھر رہے ہوں۔‬
‫ہم سب کو ایک دوسرے سے رحیمی کا سلوک کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫ایک دوسرے کا سہارا بننے کی کوشش کیجیئے۔ ہم الل ّٰ ہ کی حدود سے‬
‫چ کا ہے۔ ا ِس‬
‫بہت دور آ چکے ہیں۔ شیطان ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر ُ‬
‫تاریکی سے نکلنے کا واحد راستہ بس یہی ہے کہ ایک دوسرے کا‬
‫ہاتھ تھاما جائے اور آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے۔ جب ہم ایک‬
‫دوسرے کا ہاتھ تھامیں گے تو ہمیں احساس ہو گا کہ الل ّٰ ہ کی راہ ایک‬
‫دوسرے کی مدد کرنا ہی تھا۔ اس کہانی کو محض ایک کہانی سمجھتے‬
‫ہوئے ا ِس کہانی کے مرکزی کردار کو اپنے اندر تالش کیجیئے۔‬
‫لوگوں کا درد محسوس کرنے واال ا ُن کے لیے د ُعائیں کرنے واال ایک‬
‫شخص ہم سب کے اندر موجود ہے۔ ایک دوسرے کو معاف کرنے کی‬
‫ِر یت ڈالنے کی کوشش کیجیئے۔ انشاء الل ّٰ ہ ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔‬
‫الل ّٰ ہ بہت مہربان ہے ا ُس کی رحمت لوگوں میں بانٹنے کی کوشش‬
‫ث رحمت بن سکتی ہے۔ الل ّٰ ہ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب‬ ‫ہمارے لیے باع ِ‬
‫کو اپنی راہ میں کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)‬

‫‪272‬‬
‫فرقوں میں ایک فرق ِہ انسان چاہیے‬
‫تالش حق کی ایک سچی کہانی))‬ ‫ِ‬

‫مقدمہ‬
‫یہ کہانی لکھنے کے دوران اور کہانی ختم ہونے سے لے کر اب تک مجھے‬
‫بہت سی مثبت و منفی آراء کا سامنا رہا۔ میں اُن سبھی لوگوں کا مشکور ہوں‬
‫جنہوں نے میری اِس کوشش کو اپنی آراء پیش کرنے کے الئق سمجھا۔ اِن سبھی‬
‫آراء نے مجھے مذید سوچنے اور کہانی کو مختلف پہلوؤں سے پرکھنے کا‬
‫موقعہ فراہم کیا۔ میں سبھی طرح کی آراء پیش کرنے والوں کا احترام کرتا ہوں‬
‫اور اگر میں کسی کے اعتراض کا جواب دے رہا ہوں تو اُس کی بنیاد صرف یہ‬
‫سن کر مجھے‬ ‫ہے کہ اِس کہانی کا مصنف ہونے کی حیثیت سے کچھ اعتراضات ُ‬
‫محسوس ہوا کہ اِس بات کی وضاحت طلب کرنا میرے پڑھنے والوں کا حق ہے۔‬
‫کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کہانی کا نام اور کہانی آپس میں میل نہیں کھاتے۔ یا یہ‬
‫ب‬
‫کہ نام تو "فرقوں میں ایک فرق ِہ انسان چاہیے" ہے لیکن کہانی ایک خاص مکت ِ‬
‫ب فکر کو تنقید کا نشانہ‬
‫فکر کے ِگرد گھومتی نظر آتی ہے اور چند خاص مکات ِ‬
‫بناتی ہے۔ اگرچے کہ کہانی پر لگائے گئے بہت سے اعترضات کے جواب کہانی‬
‫میں پہلے ہی سے بیان کیے جا ُچکے ہیں لیکن پھر بھی کچھ باتوں کو مذید‬
‫واضح کرتے ہوئے پھر سے کہنا چاہوں گا کہ اِس کتاب کا بنیادی مقصد فرقہ‬
‫واریت کی بنیاد پر برپا فسادات کی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہے۔ اِس آگ سے نکلنے‬
‫کے لیے سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگ ایک دوسرے کے‬
‫مسلک و مذہب پر بےجا تنقید کرنا بند کریں۔ اِس کہانی میں ا ُس تمام بےجا تنقید‬
‫کے مضامین کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ لوگ اپنے دِل‬
‫صاف کر سکیں اور اللّٰہ کی بنائی انفرادیت کا احترام کر سکیں۔ کہانی کا کردار‬
‫ب فکر سے ُگزر رہا ہے جو اِس وقت میں سب سے ذیادہ اعتراضات کی‬ ‫اُن مکات ِ‬
‫زد میں ہیں اِس لیے یہ ایک فطری سی بات ہے کہ وہ اُنہی اعتراضات کا جواب‬
‫دے گا جو اُس کی فکر کو نشانہ بناتے ہوں گے۔ اِس سب کے باوجود کہانی بار‬
‫دین حق اللّٰہ کی خاطر مخلوق سے محبت کرنا‬ ‫بار اسی بات پر زور دیتی ہے کہ ِ‬
‫ہے۔ سبھی مذاہب کے پیروکار اِس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص‬
‫حقوق العباد میں درست نہیں ہے تو اُس کی کوئی بھی عبادت کارآمد نہیں ہے۔ تو‬
‫‪273‬‬
‫پھر ہم سب حقوق العباد کا درس چھوڑ کر حقوق اللّٰہ کے طریقوں پر ایک‬
‫دوسرے سے کیوں جھگڑ رہے ہیں۔؟ ہم جن باتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کو‬
‫جہنمی ثابت کرنے کی کوشش میں محو ہیں اُن میں سے اکثر باتیں بےبنیاد ہیں‬
‫اور محض نفرت سے بھرے بیمار ذہنوں کی پیداوار ہیں۔ کہانی کا نام اپنے پیغام‬
‫کی پوری طرح وضاحت کرتا ہے کہ ہم سب جن فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اُنہی‬
‫فرقوں میں رہتے ہوئے اگر صرف انسانیت اپنانے کی کوشش کی جائے تو‬
‫ہمارے بیچ پھیلی اِس آگ پر قاب ِل ذکر حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم سب‬
‫ایک دوسرے کا احترام‪ ,‬مذہب‪ ,‬مسلک‪ ,‬قوم‪ ,‬قبیلے کی جگہ‪ ,‬اُس شخص میں‬
‫موجود انسانیت کی بنیاد پر کریں تو ہم ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔‬
‫اِس کہانی کے بیان کرنے سے میرا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ اِسے پڑھنے‬
‫والے اپنا مسلک چھوڑ دیں بلکہ اِسے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پڑھنے‬
‫والے کے دِل سے دوسرے کے مسلک کو چھیڑنے کا خیال َرد کیا جا سکے۔‬
‫لوگ اپنے اپنے مسلک پر اپنے دل کو راضی رکھنے کی کوشش کرتے کرتے‬
‫اِس َحد تک سخت ہو ُچکے ہیں کہ اپنی بات کے سامنے کسی کی بھی بات کو‬
‫ب فکر سے تعلق‬ ‫قاب ِل غور ہی نہیں سمجھتے‪ ,‬اگر کہنے واال کسی دوسرے مکت ِ‬
‫رکھتا ہو تو ساری توجہ اُس کے بیان میں غلطی نکالنے پر صرف کی جاتی ہے‪,‬‬
‫اور اگر وہ ہم مسلک ہے تو اُس کی ہر بات کی ِبنا سوچے سمجھے تائید کی‬
‫جاتی ہے۔ اکثر غیر مسلک شخص سے بات کرتے ہوئے اِس بات کا خاص خیال‬
‫رکھا جاتا ہے کہ سامنے سے آنے والی ہر بات شیطان کا ہتھیار ہے۔ جب دو‬
‫لوگ ایک دوسرے کو شیطان کا روپ سمجھ کے بات کرتے ہیں تو دونوں ہی‬
‫شیطان کے ہاتھوں کٹھ پُتلی بن جاتے ہیں شیطان اِسی طرح لوگوں میں نفرت کا‬
‫زہر بھرتا ہے۔ فرقوں میں بٹی ہوئی مسلمان قوم کے سبھی فرقے اپنے اپنے انداز‬
‫سے خود کو فرقہ کہنے سے کتراتے ہیں اور اپنے آپ کو اصلی اور باقی سب‬
‫کو نقلی یا نامکمل مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میرا کہنا بس اتنا‬
‫ہے کہ اگر ہم انسانیت کی بھالئی کے لیے کام نہیں کرتے‪ ,‬لوگوں سے اللّٰہ کے‬
‫لیے محبت نہیں کرتے‪ ,‬آپس میں اُنس و محبت پیدا کرنے کی جگہ نفرت اور‬
‫حقارت کی َر ِوش کو فروغ دیتے ہیں تو ہمارا خود کو کسی بھی مذہب یا مسلک‬
‫کا پیروکار گرداننا ہی بےمعنی ہے کیونکہ را ِہ ُخدا تو انہی چیزوں میں پوشیدہ‬
‫تھی جنہیں ہم نے ترک کر دیا۔‬

‫ب فکر سے تعلق رکھنے والے‬


‫ایک ہی جگہ کام کرنے والے مختلف مکات ِ‬
‫‪274‬‬
‫سکھ دُکھ میں‬ ‫مسلمان حضرات ایک دوسرے کے کام آتے ہیں ایک دوسرے کے ُ‬
‫شریک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے اچھے کردار کے باعث اُنہیں سراہتے‬
‫زیر بحث آ جائے تو وہ ایک دوسرے کو‬ ‫ہیں مگر اُنہی لوگوں کے بیچ اگر مذہب ِ‬
‫جہنمی ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتے۔ جب نماز کا وقت آتا ہے تو‬
‫وہ سب الگ الگ جگہ کا ُرخ کرتے ہیں اور اپنے ُرخ کو بہترین جانتے ہوئے‬
‫دوسرے کو خود سے کمتر سمجھتے ہیں۔ ایک جگہ کام کرنے والے یا پڑھنے‬
‫والے مرد و زن اگر ایک دوسرے کی محبت میں ُمبتال ہو جائیں تو اکثر ُجدائی‬
‫کی وجہ مسلک ہوتا ہے۔ محبت کرتے ہوئے کسی کو خیال نہیں آتا کہ وہ غیر‬
‫مسلک ہے مگر جب شادی کی بات آتی ہے تو وہ گھرانے جن میں نماز روزہ نام‬
‫کو بھی نہیں ہوتا وہ بھی اپنے اپنے مسلک کا فرق لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ایک‬
‫عام آدمی کی زندگی میں دین کا سوال صرف چند خاص مقامات پر ہی آتا ہے۔‬
‫لوگ اپنی روز َم ّرہ زندگی میں دین‪ ,‬مذہب‪ ,‬مسلک کے مطابق کچھ نہیں کرتے‬
‫اور انہیں دین یاد آتا ہے تو محض اُس وقت جب کوئی پیدا ہوتا ہے یا َمر جاتا ہے‬
‫یا پھر کسی کی شادی یا طالق کا کوئی مسئلہ درپیش آ جائے تو دین اور دینداری‬
‫یاد آ جاتی ہے۔ ایسے لوگ جن کی ذاتی زندگی میں دین نام کو بھی نہیں ہوتا وہ‬
‫ایک دوسرے کو دین کے نام پر کافر ُمشرک کہہ کر پُکارتے پھرتے ہیں۔ میرا‬
‫ب فکر سے تعلق‬ ‫کہنا صرف یہ ہے کہ ہم سب مانتے ہیں کہ ہم کسی بھی مکت ِ‬
‫تقوی‬
‫ٰ‬ ‫ب‬
‫رکھتے ہوں مگر ہم تب تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم صاح ِ‬
‫طرز فِکر کو نشانہ‬‫ِ‬ ‫نہیں بن جاتے۔ تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ایک دوسرے کے‬
‫بنانے کی جگہ اپنا نُقطہ نظر اپنے کردار اور اپنے اخالق سے ثابت کرنے کی‬
‫الہی کی‬‫ب ٰ‬ ‫کوشش کریں۔ اور اگر دعوت دینی ہی ہے تو ایک دوسرے کو ُح ِ‬
‫تقوی کی تلقین کیجیے۔ اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو خاموش‬ ‫ٰ‬ ‫دعوت دیجیے۔‬
‫رہیے اور اِس فرقہ واریت کی آگ کو ہَوا دینے سے پرہیز کیجیے۔ کیا اللّٰہ کا دین‬
‫یہ ہے کہ ہم طرح طرح کے ُحلیے بنائیں اور الگ الگ رنگ کے کپڑے پہن کر‬
‫الگ الگ انداز سے رکوع و سجود کریں جب کہ ہمارے دِل ایک دوسرے کی‬
‫نفرت میں ُمبتال ہوں۔؟ اور ہماری د ُعاؤں کا مضمون اپنی بھالئی اور دوسروں‬
‫کی بربادی ہو۔؟ اہل ممبر کے پاس اپنے عقائد کی وضاحت کے ِسوا بیان کرنے‬
‫کو کچھ نہیں بچا شاید۔ اسی لیے وہ لوگوں کو اُن عقائد کا نچوڑ نہیں سکھاتے۔‬
‫اکثر اذان کی آواز کے ساتھ لوگ ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہیں اور‬
‫پوچھتے ہیں کہ یہ کون سی اذان ہے۔؟ اچھا یہ فالں مسلک والوں کی اذان ہے۔‬
‫انہیں بڑی جلدی ہوتی ہے اذان دینے کی‪ ,‬یا پھر یہ کہتے ہیں کہ انہیں اب یاد آئی‬
‫‪275‬‬
‫انداز تکلم رکھنے والی قوم‬‫ِ‬ ‫ہے اذان۔ ایک دوسرے کے مسلک کے بارے ایسا‬
‫سنّی‪ ,‬وہابی کا بُالوہ سمجھ کر اُس پے طنز‬ ‫جو اذان کو اللّٰہ کا نہیں بلکہ شیعہ‪ُ ,‬‬
‫کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ قوم خود کو مسلمان کہہ کر نہ ہی پُکارے تو اچھا‬
‫ہے۔ یہ کہانی اِس جانب اشارہ کرتی ہے کہ دین کسی کتاب سے تب تک حاصل‬
‫نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ انسان اُسے اپنے آپ سے حاصل نہیں کرتا۔ اللّٰہ نے‬
‫تمام جہانوں کا علم اور حکمت انسان کے اپنے دِل میں رکھ دیا ہے ضرورت اِس‬
‫بات کی ہے کہ اُس علم و حکمت سے آشنائی حاصل کی جائے۔ تمام آسمانی‬
‫زرگان دین نے‬
‫ِ‬ ‫کتابیں اُسی علم و حکمت سے آشنائی کا درس دیتی ہیں۔ سبھی بُ‬
‫اسی بات کی تلقین کی ہے کہ خود آشنائی ہی ُخدا آشنائی ہے۔ جن مقدس ہستیوں‬
‫کے نام پر ہم اپنی اپنی تفریق واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں اُن میں سے‬
‫سنّی وغیرہ نہیں کہالتا تھا۔ جن ہستیوں کی کتابوں کے‬ ‫کوئی بھی خود کو شیعہ‪ُ ,‬‬
‫حوالے دے کر ہم اپنا اپنا مسلک ثابت کرتے ہیں اُنہوں نے کبھی آپس میں ایک‬
‫دوسرے کو کافر‪ُ ,‬مشرک یا جہنمی نہیں کہا تو ہم کس بنیاد پر اِس چیز کو دین‬
‫ق ُخدا کے لیے ُخدا‬ ‫بنائے بیٹھے ہیں۔؟ دین اللّٰہ سے دِل لگانے کا نام ہے۔ مخلو ِ‬
‫کی رحمت بن کر زندگی ُگزارنا را ِہ حق ہے۔ استقامت والوں کی راہ پر چلنا‬
‫سیدھا راستہ ہے۔ اللّٰہ کس سے راضی ہے اور کس سے ناراض یہ فیصلہ ہماری‬
‫رائے کا محتاج نہیں ہے اِس لیے اِس سوال کو ترک کر دینا ہی بہتر ہے اور اِس‬
‫بات پر غور کرتے رہنا چاہیے کہ میں نے کس طرح اللّٰہ کی رضا حاصل کرنی‬
‫ہے اور اِس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی شخص اللّٰہ کے ساتھ خالص‬
‫ہے تو اُس کا ہر عمل اللّٰہ کے سامنے مقبول ہے اور اگر کوئی اللّٰہ کے ساتھ ہی‬
‫سنّی‪ ,‬ہندو‪ ,‬مسیحی یا کچھ اور کہنے کا‬ ‫خالص نہیں ہے تو اُس کا خود کو شیعہ‪ُ ,‬‬
‫کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔‬

‫کچھ لوگوں نے اس کہانی کے بارے میں یہ بھی کہا کے یہ کہانی عامر خان‬
‫کی فلم" پی ‪-‬کے " سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے۔ اِس بات کے جواب میں بس‬
‫یہ کہنا چاہوں گا کہ "‪ "P.K‬ایک تخیالتی کہانی ہے اور یہ ایک سچی کہانی ہے۔‬
‫" پی ‪-‬کے " کے لئے وہ سب بات کرنا نسبتا ً آسان تھا کیونکہ اُس کا خود کا‬
‫کوئی مذہب نہ تھا لیکن اِس کہانی کا کردار کسی دوسرے سیارے کی مخلوق‬
‫نہیں ہے بلکہ اسی دنیا کا باشندہ ہے جہاں روز مذہب و مسلک کے نام پر‬
‫انسانیت کا قتل کیا جاتا ہے۔ اور اِس کردار کے پاس محض سوال نہیں بلکہ اُن کا‬

‫‪276‬‬
‫ت مسلمہ‬ ‫جواب اور خاطر خواہ وضاحت بھی موجود ہے۔ اِس کہانی کا مقصد اُم ِ‬
‫کے بیچ پھیلی نفرتوں کو کم کرنا ہے۔ اپنے اور دوسروں کے مسلک کو لے کر‬
‫ہم لوگ ایک بےجا جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ ہر مسلک ہر جماعت ہر گروہ‬
‫دعوی ہے کہ صرف ہم ہی حق پر ہیں اور باقی سب باطل ہیں یا اُن کا حق‬
‫ٰ‬ ‫کا یہ‬
‫نامکمل ہے اور ہمارے پاس کامل حق ہے۔ اگر انسان زمین میں رہتے ہوئے اللّٰہ‬
‫ث رحمت بن کر زندگی ُگزارنا نہیں سیکھتے تو‬ ‫کی خاطر مخلوق کے لیے باع ِ‬
‫انہوں نے کسی بھی عبادت سے کچھ نہیں حاصل کیا۔‬

‫اس کہانی پر ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ کہانی بار بار سبھی مذاہب کو‬
‫تقوی ہے تو وہ کسی بھی مذہب‬‫ٰ‬ ‫ب‬
‫کامیابی کی راہ بتاتی ہے کہ اگر کوئی صاح ِ‬
‫تقوی نہیں ہے تو خود کو کسی بھی مذہب‬ ‫ٰ‬ ‫میں رہتے ہوئے کامیاب ہے اور اگر‬
‫یا مسلک کا پیروکار کہالنا بےمعنی ہے۔ اگر ایسا ہے تو مختلف انبیاء اولیاء نے‬
‫تبلیغ کیوں کی۔؟ وہ سب کو کہہ دیتے کہ بس قناعت اختیار کرو بیشک بُتوں کی‬
‫سنتا ہے اِس لیے اپنا مذہب مت بدلو بس‬ ‫پوجا کرتے رہو اللّٰہ تمھاری ہر بات ُ‬
‫گناہوں سے توبہ کرو لوگوں کی خدمت کرو اور بس تم کامیاب ہو۔‬
‫دین اسالم کی‬
‫اِس اعتراض کی وضاحت میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تمام انبیاء نے ِ‬
‫ہی تبلیغ کی‪ ,‬اگر غور کیا جائے تو مذاہب کے مابین فرق صرف اللّٰہ والوں کے‬
‫نام کا ہے۔ عقائد بھی تقریبا ً ایک جیسے ہی ہیں۔ صرف طریقوں میں فرق ہے۔‬
‫عبادات سب کرتے ہیں‪ ,‬ہر مذہب بھالئی کی ترغیب دیتا ہے‪ ,‬کوئی بھی مذہب‬
‫بُرائی کی دعوت نہیں دیتا‪ ,‬ہر مذہب اپنے پیروکار کو تب صادق تسلیم کرتا ہے‬
‫جب وہ لوگوں کے لیے بھالئی کا سبب ہو یا کم از کم لوگ اُس کے شر سے‬
‫محفوظ ہوں۔ ہم مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہر روح مسلمان پیدا کی جاتی ہے‬
‫پھر اُس کا مذہب اُسے اُس کے والدین سے ملتا ہے۔ اِس بات سے ایک مطلب یہ‬
‫بھی نکلتا ہے کہ مسلمان ہونا یا نہ ہونا ایک روحانی چیز ہے اور مذہب جسم سے‬
‫ُجڑا ہے جس کے ذریعے اپنی روح کی پہچان کی جاتی ہے۔ کئی دوسرے مذاہب‬
‫میں بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہر روح ہمارے مذہب کی پیروکار پیدا ہوتی‬
‫ہے اور پھر اُس کے والدین اُسے اپنے مذہب کا پیروکار بنا دیتے ہیں۔ اِس بات کا‬
‫پرچار اس لیے بھی کیا جاتا ہے تاکہ ہر مذہب کے ماننے والے اپنے پیروکاروں‬
‫کو یہ واضح کر سکیں کہ اللّٰہ سب کے ساتھ انصاف کرتا ہے۔ عجیب سوچ ہے‬
‫نا‪ ,‬کہ جو رب ہر روح کو مسلمان رکھتا ہے وہ اُسے غیر مسلم مذہب کے ماننے‬

‫‪277‬‬
‫روز محشر وہ اُس سے اسی بات پر ناراض‬ ‫والوں میں پیدا کر دیتا ہے‪ ,‬اور پھر ِ‬
‫بھی ہو گا کہ تُو مسلمان کیوں نہیں ہُوا۔ سچ تو یہ ہے کہ جو ذات انسان کی روح‬
‫کو مسلمان پیدا کرتی وہ اُسے کسی بھی مذہب میں رکھتے ہوئے مسلمان رکھنے‬
‫دین اسالم کی ہی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر‬ ‫پر بھی قادر ہے۔ اگر ہم ِ‬
‫مذہب و مسلک کے لوگوں کو اُن کی اخالقیات اور کردار کی بنیاد پر پرکھنا‬
‫شروع کریں تو ہمیں دکھائی دے گا کہ خود کو مسلمان کہنے والے بہت سے‬
‫لوگ اسالم کی ُرو سے مسلمان ہی نہیں ہیں اور خود کو غیر مسلم کہنے والے‬
‫بہت سے لوگ درحقیقت مسلمان ہیں۔ انسان کی روح جو فطری طور پر اللّٰہ کی‬
‫عبد ہے اُسے زمین میں ایک جسم عطا کیا جاتا ہے کہ وہ اُس میں رہتے ہوئے‬
‫اللّٰہ کو پہچان سکے۔ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد مذاہب میں‬
‫تقسیم‪ ,‬ترامیم اور توجیہات ہوتی رہیں لیکن کوئی نیا مذہب نہیں آیا۔ یہی بات اِس‬
‫شئے کی دلیل ہے کہ اللّٰہ کا دین مکمل ہو ُچکا ہے۔ تبلیغِ دین اِس لیے کی گئی‬
‫تاکہ اللّٰہ کی طرف سے نازل کردہ تجدید رائج کی جا سکے لیکن کسی بھی‬
‫شخص کو طاقت کے زور پر اپنا مذہب بدلنے کو نہیں کہا گیا بلکہ ہر مذہب کے‬
‫ماننے والوں کے ساتھ صلہ رحمی کا درس دیا گیا۔ اولیاء اللّٰہ نے لوگوں پر اُن کا‬
‫مذہب بدلنے کے لیے زور نہیں دیا بلکہ اپنے کردار اور اخالق سے خالق کی‬
‫دین اسالم‬ ‫خاطر مخلوق پر رحیم ہونے کا درس دیا اور یہی حیلہ اُن لوگوں کے ِ‬
‫میں داخل ہونے کا وسیلہ بنا۔ حق کی تبلیغ کرنا ضروری ہے لیکن اُس کا طریقہ‬
‫وہ نہیں ہے جو آج کل ہم لوگوں نے اپنا رکھا ہے۔ جس دن ہم مسلمانوں نے صبر‬
‫و قناعت کی اور خالق کی خاطر مخلوق سے محبت کی تبلیغ شروع کر دی اُس‬
‫دن لوگ خود بہ خود ہمارے مذہب کو قبول کر لیں گے۔ لیکن فی الحال تو ا ُ ّمت‬
‫ُمسلمہ دہشتگرد کے نام سے مشہور ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم سالمتی‬
‫ظلم کی تبلیغ کرنے میں مصروف ہیں۔ اللّٰہ نے ہر‬ ‫والے دین کے نام پر نفرت اور ُ‬
‫سن سلوک عطا کیا ہے۔ اور ہر مذہب کا‬ ‫مذہب کے ماننے والوں کو ایک سا ُح ِ‬
‫سن سلوک کو اپناتا ہے تو اُس‬ ‫ماننا ہے کہ اگر کوئی اپنے نبی کے تلقین کردہ ُح ِ‬
‫کی عبادات قبول ہوں گی ورنہ ُخدائے بزرگ و برتر کی خوشنودی کے لیے اُس‬
‫کی جانب سے کی جانے والی ہر کوشش رد کر دی جائے گی۔‬
‫فرقہ پرستی کے خالف ہونے اور اِس تقسیم کو پُر زور انداز میں َرد کرنے کے‬
‫باوجود اپنی ذاتی زندگی میں کسی نہ کسی ایک مقام پر مجھے بھی خود کو کسی‬
‫ایک تقسیم کا حصہ کہنا پڑتا ہے۔ دیگر مسلمانوں کی طرح میں بھی اپنے مذہب‬
‫کو دیگر مذاہب سے ُمقدم جانتا ہوں کیونکہ میں نے جو کچھ سیکھا وہ بھی کسی‬
‫‪278‬‬
‫زیر سایہ رہ کر ہی سیکھا۔ اگر دیکھا جائے تو اپنی اِس کتاب کے‬ ‫ب فکر کے ِ‬ ‫مکت ِ‬
‫ب فکر کی تبلیغ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن‬ ‫ذریعے میں بھی اپنی مکت ِ‬
‫ب فکر کو اپنے آباؤ اجداد کے کردار سے نہیں بلکہ اپنے کردار‬ ‫میں اپنے مکت ِ‬
‫سے ثابت کرنے میں یقین رکھتا ہوں۔ آواز بُلند کرنے کی جگہ اگر الفاظ بُلند کر‬
‫لیے جائیں تو لوگوں کے دل زیر ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ جیسے حضرت علی‬
‫ابن ابی طالب کا فرمان ہے کہ "لوگوں کے دل صحرائی جانور (کی مانند) ہیں‪,‬‬
‫(پس) جو اِنہیں سدھائے گا‪ ,‬یہ اُسی کی طرف ج ُھکیں گے۔" میں اپنے ارد گرد‬
‫موجود غیر مذہب و مسلک سے تعلق رکھنے والوں کے لیے جیسا محسوس کرتا‬
‫ہوں ویسے ہی احساس کی تبلیغ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ابرہیم علیہ السالم کو‬
‫اللّٰہ نے ایک حیلہ عطا فرمایا تھا کہ جس کے تحت آپ نے ستارہ پرست قوم کے‬
‫سامنے ستارے کی جانب اشارتا ً فرمایا کہ یہ میرا رب ہو سکتا ہے۔ تو ستارہ‬
‫پرستوں نے آپ کو پسندیدگی اور حیرت سے دیکھا اور اُن کے دل آپ کی بات‬
‫توجہ سے سننے پر مائل ہو گئے یہی ماجرہ چاند اور سورج کی پرستش کرنے‬
‫والوں کے ساتھ بھی پیش آیا اور جب سب آپ کی بات میں دلچسپی لینے لگے تو‬
‫ت توحید پیش فرمائی۔ لوگوں کا میالن اپنی جانب راغب کر کے اُنہیں‬ ‫آپ نے دعو ِ‬
‫اپنی بات کا وزن سمجھانا آسان ہو جاتا ہے۔ انبیاء اولیاء اور دیگر بُزرگ ہستیوں‬
‫نے اسی طرح تبلیغِ دین فرمائی کہ پہلے لوگوں کے دل اپنی جانب مائل کیے اور‬
‫پھر انہیں اللّٰہ کی جانب پھیر دیا۔ ہمارے دور کے ُم ّال طبعیت لوگ اگر اُس وقت‬
‫میں بھی ہوتے تو یقینا ً ابرہیم علیہ السالم کے اِس حیلے کی تکمیل سے پہلے ہی‬
‫فتوی صادر کرنے میں دیر نہ‬ ‫ٰ‬ ‫اُنہیں نعوذ بللّٰہ مشرک گردان کر واجب القتل کے‬
‫ب قیامت سے قبل کی بڑی بڑی نشانیوں کے منتظر ہیں۔ ہم جن‬ ‫لگاتے۔ ہم سب قُر ِ‬
‫مقدس ہستیوں کی آمد کے ُمنتظر ہیں کیا ہم نے اُن کی آمد کے لیے خود کو تیار‬
‫کیا ہے۔؟ کیا ہم نے اپنی اپنی تقسیم سے ہٹ کر صرف انسان بن کر کبھی کچھ‬
‫سوچا ہے۔؟ میرا خواب ہے کہ اہ ِل اسالم اہ ِل زمین میں انسان سے محبت کا‬
‫انقالب برپا کریں۔ لیکن جب تک ہم اپنے اندر محبت کا انقالب پیدا نہیں کریں گے‬
‫وہ انقالب ہمارے باہر نہیں آ سکے گا۔ اِس وقت میں شاید ہمیں ویسے ہی کسی‬
‫حیلے کی ضرورت ہے جیسا کہ ابرہیم علیہ السالم کو عطا کیا گیا تھا۔ یہ کتاب یہ‬
‫سبق بھی دینے کی کوشش کرتی ہے کہ دوسروں پر تنقید اور اُن کی تزلیل کیے‬
‫سننے کے‬ ‫بغیر بھی اپنی بات بیان کی جا سکتی ہے۔ ہم لوگ ایک دوسرے کو ُ‬
‫لیے ہی تیار نہیں ہیں۔ اور جب تک ہم ایک دوسرے کا احترام نہیں کریں گے تب‬
‫تک ہم اہ ِل اسالم ہی نہیں بن سکتے۔ مسلمان ہونا اور تبلیغِ اسالم کرنا تو بہت دور‬
‫‪279‬‬
‫کی بات ہے۔ میری سوچ کے مطابق اس وقت میں ہم سبھی کو اپنے اپنے مذہب و‬
‫مسلک پر قائم ہونے کی ضرورت ہے۔ جب ہم اپنی اپنی جگہ اپنا آپ درست کریں‬
‫گے تو یقینا ً ہم حق کی جانب راغب ہونا شروع ہو جائیں گے۔ فی الحال تو ہم سب‬
‫دنیا و نفس کے پنجروں میں قید ہیں اور یہاں رہتے ہوئے اگر ہم یہی بات سمجھ‬
‫لیں کہ تمام عبادات اللّٰہ ہی کے لیے ہیں اور اُن کے قبول یا رد ہو جانے کا فیصلہ‬
‫بھی اللّٰہ ہی کے ہاتھ میں ہے تو بہت کافی ہے۔ ایک دوسرے کے اعمال کا فیصلہ‬
‫کرنے کی جگہ اپنے اعمال کے فیصلے کی فکر حاصل ہو جانا بھی بڑی نعمت‬
‫ہے۔ کس کا مذہب درست ہے اور کس کا مذہب غلط اِس سوال سے زیادہ اہم سوال‬
‫یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے مذہب پر قائم بھی ہیں کہ نہیں۔‬
‫فصاحت و بالغت سے بھرے سب قول و بیاں تب کارآمد ہیں جب وہ لوگوں کو‬
‫جوڑنے والے ہوں ورنہ اُن سے فتنہ و فساد ہی پھیلتا ہے۔ اِس کتاب کا مقصد‬
‫انسانوں اور خاص کر خود کو مسلمان کہنے والی قوم کے درمیان موجود ایسی‬
‫ہی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ اللّٰہ تمام جہانوں کا پالنے واال ہے اور وہ ہر‬
‫ایک کے لیے رحمٰ ن و رحیم ہے۔ وہ کسی سے ناانصافی نہیں کرتا کسی پر ظلم‬
‫رازق‪ ,‬خالق‪ ,‬مالک وہی ہے۔ وہ اپنی تمام مخلوق سے محبت‬ ‫نہیں کرتا۔ سب کا ِ‬
‫کرنے واال ہے۔ کسی شخص پر اگر عذاب بھی نازل ہو رہا ہے تو وہ عذاب بھی‬
‫اللّٰہ کی طرف سے اُس شخص کے لیے رحمت ہی ہے۔ یہ وہ سب باتیں ہیں‬
‫ت مسلمہ کی ہر جماعت تسلیم کرتی ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ سب یہ بھی‬ ‫جنہیں اُم ِ‬
‫تقوی ہی اصل ہے تو ہم‬ ‫ٰ‬ ‫تقوی کے ِبنا سب کچھ ادھورا ہے۔ اگر‬
‫ٰ‬ ‫مانتے ہیں کہ‬
‫تقوی اختیار کرنے کو کیوں ترجیح نہیں دیتے۔؟ کیوں ایک دوسرے کے‬ ‫ٰ‬ ‫سب‬
‫طریقے کو غلط اور اپنے طریقے کو صحیح ثابت کرنے کو تبلیغِ دین اور حق کا‬
‫پرچار سمجھ کر نبھانے میں مصروف ہیں لوگ۔؟ شاید اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے‬
‫کہ لوگ خود کو قناعت اختیار کرنے سے معزور پاتے ہیں۔ اپنی خواہشات کی‬
‫پیروی چھوڑنا ناممکن نظر آتا ہے۔ خودغرضی ترک کرنے میں اور اخالق‬
‫سدھارنے میں تکلیف ہوتی ہے۔ اپنے نفس سے جیتنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ جب‬ ‫ُ‬
‫ہم اپنے عمل سے اخالق سے اور کردار سے اپنا عقیدہ ثابت نہیں کر پاتے تو‬
‫پھر ہم اپنے عقائد کو تاریخ سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ فالں حدیث‬
‫اور فالں آیت کی ُرو سے ہمارا عقیدہ درست ہے اور تمھارا عقیدہ غلط‪ ,‬ہم تو حق‬
‫ب فکر کے‬ ‫بیان کرتے ہیں کوئی مانے یا نا مانے۔ یہ وہ تسلیاں ہیں جو ہر مکت ِ‬
‫لوگ اپنے آپ کو دیتے ہیں اور خود کو پُرسکون کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‬
‫تقوی ہے۔ اللّٰہ کی‬
‫ٰ‬ ‫ب‬
‫جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دین دار صرف وہ ہے جو صاح ِ‬
‫‪280‬‬
‫شان کریمی پے نظر کرتا ہوں اور ایک غیر مذہب شخص کو دیکھتا ہوں تو‬ ‫ِ‬
‫نقش قدم‬ ‫ٌٰ‬
‫عیسی کے ِ‬ ‫مجھے دکھائی دیتا ہے کہ اگر ایک مسیحی شخص سچ میں‬
‫سر محشر اللّٰہ اپنی رحمت کے صدقے اُس‬ ‫پر زندگی ُگزار کر اللّٰہ تک پہنچے تو َ‬
‫ق معبودیت معاف بھی کر سکتا ہے۔ لیکن حقوق العباد پر وہ‬ ‫شخص کو اپنا ح ِ‬
‫انسان کی پکڑ کرنے واال ہے۔ جس چیز پر ہم سب کے مذاہب کے مطابق ہماری‬
‫سخت پکڑ ہونی ہے اُس چیز کی پرواہ چھوڑ کر ہم کون سے مذہب یا مسلک کے‬
‫پیروکار بنتے ہیں۔؟ ایک دوسرے سے حقوق اللّٰہ کی ادائیگی کے موضوع پر‬
‫صرف ہو گا اُسی وقت کو اپنا آپ درست کرنے میں‬ ‫جھگڑنے میں جو وقت َ‬
‫صرف کریں یا پھر لوگوں کو اللّٰہ کی رحمت سے اُمید باندھے رکھنا ِسکھائیں۔‬
‫ایک دوسرے کے سجدوں پے شک کرتے رہنا دین نہیں ہے۔ دین اپنے سجدے‬
‫میں یقین بھرنے کا نام ہے۔‬
‫ق آدم سے لے کر اب تک کی تاریخ کو انسان اور خالق کے رشتے کی‬ ‫اگر تخلی ِ‬
‫ُرو سے دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ ّاول ّاول اللّٰہ نے آدم علیہ السالم کو بھیجا‪,‬‬
‫زمین میں مخلوق بسائی۔ آہستہ آہستہ انسان کو زمین میں رہنے کا ڈھنگ سکھانے‬
‫والے نے انسان کو بااختیار کیا اور اپنے اختیار پر پردے ڈالنے شروع کر دیے۔‬
‫میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہابیل اور قابیل کے لیے کتنا آسان تھا اللّٰہ سے اپنی اپنی‬
‫محبت کے بارے میں فیصلہ لینا۔ اگر آج کے دَور میں اللّٰہ لوگوں کو یہ کہے کہ‬
‫ت حق کا متالشی ہے‪ ,‬فالں پہاڑ پر اپنی قُربانی رکھ کر مجھ‬ ‫ہر وہ شخص جو ذا ِ‬
‫سے میری مرضی جان لے تو یقینا ً ایک وسیع اکثریت اپنی اپنی قُربانی اللّٰہ کے‬
‫حضور اِس مقصد سے پیش کرے گی کہ اُسے صحیح مذہب و مسلک سمجھا دیا‬
‫جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ سب سہولتیں ختم ہوتی گئیں۔ اور انسان اور اللّٰہ‬
‫کے بیچ پردے حائل ہوتے گئے یہاں تک کہ لوگ اُس کی صفات سے ہی نا آشنا‬
‫ہو گئے۔ لوگ اُس کے وجود کا احساس رکھتے ہوئے اُس کی پہچان بھول گئے۔‬
‫اِسی لیے وہ سورج‪ ,‬چاند‪ ,‬ستاروں کو اُس کا روپ سمجھ کر اُسی ُخدا کی پرستش‬
‫کرنے کی کوشش کرتے تھے جس نے اُنہیں بنایا تھا۔ جتنے بھی مذاہب ہیں اُن‬
‫سب میں ُخدا کا تصور موجود ہے اور ہر وقت کے انسان میں ُخدا کی ذات کا‬
‫کچھ نہ کچھ نقش موجود تھا مگر وہ اُس کی صفات سے ناآشنا تھا اسی لیے انسان‬
‫طاقت کے نشے میں ُخدائی کا دعویدار بن بیٹھتا تھا اور لوگ کسی نہ کسی‬
‫غرض کے تحت ا ُس کی پرستش کرتے تھے۔ انسان سے اپنا آپ چ ُھپا لینے کے‬
‫بعد اُس نے خود ہی اُن کی راہنمائی کے لیے اُن میں پیغمبر بھیجنے شروع کیے‬
‫اور اُنہیں اپنی جانب راغب کرنا شروع کیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ اللّٰہ نے اپنے انبیاء‬
‫‪281‬‬
‫کے ذریعے یا اُن کے ساتھ ہونے کے اظہار میں انسان کو کچھ معجزے دکھائے‬
‫جن سے انسان پر اللّٰہ کی قُدرت آشکار ہوئی اور وہ سمجھ پایا کہ اللّٰہ سورج‪,‬‬
‫چاند‪ ,‬ستاروں کا بھی خالق و مالک ہے اور اُن سب سے افضل و بزرگ ہستی‬
‫ہے۔ جب لوگ اِس بات کا یقین کر ُچکے کہ اللّٰہ ہی ہے جو زندگی و موت پر‬
‫عیسی ابن‬
‫ٰ‬ ‫قُدرت رکھنے واال ہے۔ وہی ہے جو بیماروں کو شفا دیتا ہے تو اللّٰہ نے‬
‫مریم علیہ السالم کو مبعوث فرما دیا اور وہ صفات‪ ,‬جنہیں انسان اب تک صرف‬
‫اللّٰہ کی ذات سے وابسطہ کرتا تھا‪ ,‬اپنے نبی کی ذات سے ظاہر فرما دیں۔ اللّٰہ نے‬
‫اپنے انبیاء کی صورت اپنی صفات کا اظہار فرمایا اور آخری نبی پر اپنی ذات کا‬
‫اظہار مکمل فرما دیا۔ اُس نے بنانے سے مٹانے تک اور مٹا کر پھر سے بنا‬
‫ت انسان کو پیش کر‬ ‫دینے تک کی صفات کا اظہار اپنے انبیاء کی صورت حضر ِ‬
‫دیا تھا تاکہ انسان پہلے اُن صفات کو سمجھ لے جن کا مجموعہ وہ انسانیت کو‬
‫مظہر ذات میں ہی اکھٹا ہو‬ ‫ِ‬ ‫مظاہر صفات کا مجموعہ بیشک‬ ‫ِ‬ ‫عطا کرنے واال ہے۔‬
‫سکتا ہے۔ اِسی لیے گزشتہ انبیاء کے بہت سے معجزات نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ‬
‫ت اطہر سے ظاہر ہوئے اور جو معجزات آپ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ‬ ‫وسلم کی ذا ِ‬
‫وسلم نے خود نہیں دکھائے وہ معجزات آپ کی پیروی کرنے والوں سے ظاہر‬
‫ہوئے۔ ہر دوسرے نبی کی آمد سے انسانیت کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بنی انسان‬
‫کے نام نازل ہونے واال اللّٰہ کا پیغام بھی پروان چڑھتا رہا اور آخری نبی کی آمد‬
‫پر پایہ تکمیل کو پہنچا۔ کچھ لوگوں نے نئی شریعت کی اتباع کی اور کچھ لوگوں‬
‫نے اُس کی پیروی کرنے سے انکار کیا۔ اِس طرح مذاہب کی تقسیم وجود میں آئی‬
‫اور ہر مذہب کے پیروکاروں نے وقتا ً فوقتا ً اپنے اپنے مذاہب کی تبلیغ جاری‬
‫رکھی اور اُس کی بقا اور سربُلندی کے لیے کوشاں رہے۔ انبیاء کا اللّٰہ کی عطا‬
‫کردہ شریعت کی تبلیغ کرنا اِس لیے بھی ضروری تھا کیوں کہ وہ اللّٰہ کے دین‬
‫کو مکمل کرنے والے تھے۔ اس سب کے باوجود سب نے ایک ہی دین کی تبلیغ‬
‫عیسی علیہ السالم کی طرح خاتم‬ ‫ٰ‬ ‫موسی علیہ السالم اور حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫کی۔ حضرت‬
‫دین ابرھیمی کی ہی تبلیغ فرمائی۔ اس‬ ‫النبین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی ِ‬
‫سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام مذاہب ایک ہی بنیاد پر قائم ہیں اور وہ بنیاد عبادت کا‬
‫الہی میں خالص ہونا ہے۔‬
‫ب ٰ‬ ‫طریقہ نہیں بلکہ ُح ِ‬

‫اللّٰہ کی صفات کے مظاہر سے لے کر اللّٰہ کی ذات کے مظہر تک پہچان کی‬


‫الہی‬
‫ت ٰ‬ ‫ایک منزل مکمل ہوئی اور اہ ِل زمین پر اللّٰہ کا دین مکمل ہو گیا۔ مگر ذا ِ‬
‫کی پہچان کا سفر تب مکمل ہو گا جب مظہر ذات کی پہچان مکمل ہو گی اسی‬
‫‪282‬‬
‫لیے وقت کا سفر ابھی بھی جاری ہے کیونکہ جس کے لیے سب کچھ بنایا گیا اُس‬
‫کی پہچان ابھی باقی ہے۔ جب تک یہ پہچان مکمل نہیں ہو جاتی قیامت قائم نہیں‬
‫سن سلوک کی تبلیغ تھی اور اُسی ُح ِ‬
‫سن‬ ‫بزرگان دین نے جو تبلیغ کی وہ ُح ِ‬
‫ِ‬ ‫ہو گی۔‬
‫دین اسالم میں داخل ہوئے۔ اگر دیکھا جائے تو میں‬ ‫سلوک سے متاثر ہو کر لوگ ِ‬
‫انداز‬
‫ِ‬ ‫دین اسالم کی ہی تبلیغ کر رہا ہوں۔ بس میں اُس‬
‫بھی اپنی اس کتاب ذریعے ِ‬
‫تبلیغ کے خالف ہوں جس کے ذریعے ہم اپنے مسلک و مذاہب کی تبلیغ کے نام‬
‫پر انسانوں کے مابین نفرت کو پروان چڑھا رہے ہیں۔‬
‫وہ ا ُ ّمت جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اُس کے درجات انبیاء کی مانند ہوں‬
‫گے اِس وقت زمین پر موجود ہے۔ مگر وہ درجات کہاں ہیں۔؟‬

‫اِس ا ُ ّمت میں پیدا ہونے والے اللّٰہ کے سبھی برگزیدہ بندوں نے اپنے کردار و‬
‫ت اقدس کی بڑائی اور رحیمی و کریمی کا پیغام دیا۔ یہ سب‬ ‫اخالق سے اُسی ذا ِ‬
‫الہی کی پہچان واضح کرنے کے لیے ہی بھیجی گئیں۔ یہی وہ‬ ‫ت ٰ‬ ‫مظہر ذا ِ‬
‫ِ‬ ‫ہستیاں‬
‫ہستیاں ہیں جن کے درجات انبیاء کی مانند ہیں اور ایسی ہستیاں ہر وقت میں‬
‫موجود ہوتی ہیں۔ لیکن اِس وقت میں ہم لوگ اپنی سوچ‪ ,‬نیت اور عمل کے باعث‬
‫اُن ہستیوں سے بہت دور آ ُچکے ہیں۔ جب تک ہم اپنے اندر سے نفرت کی‬
‫غالظت صاف نہیں کریں گے تب تک ہم حق سے دور ہی رہیں گے کیونکہ حق‬
‫تو سراپا عشق ہے‪ ,‬حق تو بال امتیاز رحمت بانٹنے اور بھالئی کرنے کا درس‬
‫ضد ہے۔ اِس لیے جب تک ہم نفرت کی روش کو‬ ‫ہے۔ اور نفرت اِس سب کی ِ‬
‫دعوی نہیں کر سکتے۔‬
‫ٰ‬ ‫ترک نہیں کرتے ہم اہ ِل حق ہونے کا‬

‫اللّٰہ کا دین کسی ظاہری ُحلیے کا محتاج نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بھی روپ‬
‫انسان کے باطن پر دال ہوتا ہے۔ انسان کی پہچان اُس کے ُحلیے سے نہیں بلکہ‬
‫اُس کی بات سے ہوتی ہے۔ ایک خیال اکثر لوگوں کے دل میں آتا ہے کہ دین کی‬
‫راہ چلے تو داڑھی رکھنی پڑے گی پردہ کرنا پڑے گا کیسے کروں گا۔؟ لوگ کیا‬
‫کہیں گے۔؟ وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ دین کی راہ دِل کی راہ ہے۔ جب تک انسان کا دِل‬
‫نہ بدلے تب تک اُس کے ُحلیہ بدل لینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور جب دِل بدل‬
‫گیا تو ُحلیہ خود بہ خود بن جاتا ہے۔ داڑھی رکھے بغیر بھی اپنا اخالق و کردار‬
‫درست کیا جا سکتا ہے۔ اور جب دل بن جائے تو پردہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے‬
‫لیکن پہلے دل کو تو اللّٰہ کی جانب مائل کیا جائے۔ کیونکہ اصل شئے تو اپنے دل‬
‫‪283‬‬
‫کو اللّٰہ کے ساتھ خالص کرنا ہے اور یہ صفت کسی ُحلیے کی محتاج نہیں ہے۔‬
‫آپ خواہ کسی بھی مسلک و مذہب سے ہیں اگر اُسے تالش کرنا چاہتے ہیں تو‬
‫اپنے اندر تالش کیجیے۔ آپ کیسے بھی ہوں لیکن جب لوگوں سے بات کیجیے تو‬
‫کوئی ایسی بات کیجیے جس سے آپ لوگوں کو اللّٰہ کی جانب راغب کر سکیں‪,‬‬
‫اُن کے بیچ پھیلی نفرت کی آگ کو کم کر کے اُن کے دل میں ایک دوسرے کے‬
‫لیے محبت پیدا کر سکیں‪ ,‬اللّٰہ آپ کا دل دیکھتا ہے بس اِس دل کی تربیت کیجیے‬
‫جب دل کی تربیت ہو جائے گی تو آپ کی گفتگو آپ کی آئینہ دار ہو گی۔ لوگ‬
‫اکثر کہنے والے کا ُحلیہ دیکھ کر اُس کی بات کا وزن جانچنے کی کوشش کرتے‬
‫ہیں۔ اِسی وجہ سے کچھ لوگ‪ ,‬محض داڑھی رکھ کر‪ ,‬پانچ وقت مسجد میں جا‬
‫کر‪ ,‬لوگوں کے ذہن زیر کرنے اور اُنہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‬
‫حضرت علی ابن ابی طالب کا فرمان ہے کہ "یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے‬
‫بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔" عام طور پر ہم لوگ بس یہی دیکھتے رہ‬
‫سننے کے بعد بھی ذہن اسی بات میں‬ ‫جاتے ہیں کہ کون کہہ رہا ہے اور بات ُ‬
‫اٹکا رہتا ہے کہ یہ بات ہمارے مسلک کے مولوی صاحب نے کہی تھی تو یقینا ً‬
‫یہ بات سو فیصد درست ہی ہو گی اور اسی سوچ کے تحت ہم بات میں غور کیے‬
‫بغیر ہی اُسے تسلیم کر لیتے ہیں۔ بس اسی بات کی ضرورت ہے ہمیں کہ ہم‬
‫"کون" کی جگہ "کیا" پر دھیان دیں اور جس شئے کو دل تسلیم نہ کرے اُسے‬
‫پرکھنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ جو لوگ اللّٰہ کے لیے جستجو کرتے ہیں‪ ,‬اللّٰہ‬
‫اُنہیں ضرور ملتا ہے۔‬

‫‪284‬‬
‫آدم کو آدمیت کا ساز بیچتا ہوں‪..‬‬
‫سکو تو میں بھی آواز بیچتا ہوں‪..‬‬ ‫سن َ‬‫َگر ُ‬
‫میں صوفی و ُم ّال نہ کوئی عا ِلم و ِ‬
‫عامل‪..‬‬
‫فر عشق کے انداز بیچتا ہوں‪..‬‬ ‫کافر ہوں‪ُ ,‬ک ِ‬
‫جوہر کامل پوشیدہ ہے تُجھی میں‪..‬‬ ‫ِ‬ ‫وہ‬
‫سمجھو اگر تو میں خودی کا راز بیچتا ہوں‪..‬‬
‫گہرائیوں سے ڈھونڈ کر اونچائیاں التا ہوں اور‪..‬‬
‫ُکوزے میں بھر کے ِبحر کے اعجاز بیچتا ہوں‪..‬‬
‫سن ذرا‪ ,‬مجھ سے بھی کر سوداگری‪..‬‬ ‫سننے والے ُ‬ ‫او ُ‬
‫میں کَرگسوں کے بدلے شہباز بیچتا ہوں‪..‬‬
‫مسجو ِد مالئک ہے مسجود کا لبادہ‪..‬‬
‫مسجد کے نمازی کو نماز بیچتا ہوں‪..‬‬
‫میرے پاس جو گوہر ہیں تمھاری ہی امانت ہیں‪..‬‬
‫میں تم کو تمھارے ہی الفاظ بیچتا ہوں‪..‬‬
‫مسلک انسان کا ہوں پیروکار اے دوست‪..‬‬ ‫ِ‬ ‫میں‬
‫تفریق کے جھگڑوں سے بے نیاز بیچتا ہوں‪..‬‬
‫)ختم ُ‬
‫شد(‬

‫‪285‬‬
‫رابطہ‬
‫مح ّم د کامران احمد‬
muhammadkamranahamd@outlook.com
https://facebook.com/muhammadkamranahmad
Join us on facebook page and Youtube Channel
https://facebook.com/Firqaeinsan/
https://www.youtube.com/channel/UC6ThdifkKmKb1rVi_xRN
adQ

286
Muhammad Kamran Ahmad

287

You might also like