Professional Documents
Culture Documents
تعصب یا مذہبی تحفظ
تعصب یا مذہبی تحفظ
دنیا میں بسنے والے اکثر لوگوں کی اپنی زبان ،نسل ،برادری اور سرزمین سے مانوسیت و
محبت فطری سی بات ہے ۔ ان ہی عوامل کے پیش نظرلوگ آپس میں اپنے جیسے لوگوں
سے جڑنا پسند کرتے ہیں اور ایک گروہ یا قوم کی شکل میں وابستگی پر بہت فخرمحسوس
کرتے ہیں۔ اجتماعیت کے اس تصور کے پیچھے اصل میں وہ آسرا اور سہارا ہوتا ہے جو
لوگوں کو ایک دوسرے سے کسی خاص وابستگی کی بنیاد پر ملتا ہے۔
جیسے کہ ایک بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو اپنی ماں کی گود کو وہ اپنا سب سے محفوظ
ٹھکانہ محسوس کرتا ہے۔ اسے کسی طرف سے بھی کسی خطرے یا نقصان کا خدشہ الحق
ہو تو فوراً وہ اپنی ماں کے سینے سے لپٹ کر خود کو ہر قسم کے نقصان سے بچانے کی
پوری کوشش کرتا ہے۔ پھر جب یہی بچہ شعور کی پہلی سیڑھی چڑھتا ہے تو اسے
محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا میں اکیال نہیں؛ اس کے اردگرد اس کی اپنی زبان،
برادری ،عالقے اور قبیلے کے کئی لوگ ایک قوم کی صورت میں اس کے ساتھ ہر وقت
موجود ہیں جو اس کا ایک مضبوط قلعہ بن جاتے ہیں اور جن میں رہ کر اسے تحفظ و
مانوسیت کا احساس ہوتا ہے۔
ان سب عوامل سے انسان کی مانوسیت اور لگاؤ کا انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ محبت
سنگین شکل تب اختیار کرلیتی ہے جب اپنی قوم کا بدترین انسان بھی اسے بھال معلوم ہوتا
ہے اور وہ اپنی قوم کی تب بھی حمایت کرتا ہے جب وہ غلطی پر ہو اور دوسروں کے
ساتھ ظلم کارویہ روا رکھا ہو۔ بعض مرتبہ تعصب ہی انسان کو اپنی قوم کی حمایت پر
اکساتا ہے خواہ اس کے لوگ کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی ہی میں کیوں نہ ملوث ہوں۔
تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو کتنی ہی خطرناک جنگیں قوم ،قبیلے یا عالقے سے تعصب
کی بنیاد پر لڑی گئیں جبکہ مختلف قبائل میں تصادم اور لڑائیاں آج کے دور میں بھی
دیکھنے کو ملتی ہیں۔
حضور اکرم صلى هللا علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ یارسول ہللا ،کیا اپنی قوم سے محبت
کرنا بھی تعصب وعصبیت ہی کا حصہ ہے؟ آپ صلى هللا عليه وسلم نے فرمایا:
’’نہیں! (یعنی قوم سے محبت کرنا کوئی برا نہیں اور نہ یہ تعصب کہالتا ہے بلکہ)
ٰ
مشکوة/ عصبیت یہ ہے کہ آدمی اپنی قوم کی ظلم پر مدد کرے۔‘‘ (رواہ احمد و ابن ماجہ،
۴۱۸۔)
تعصب یا عصبیت کی سب سے بڑی مثال اسالم سے قبل عرب قوم میں ملتی ہے۔ عربوں
کے ہاں ایک مثل بہت مشہور تھی کہ اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔
یہی وجہ تھی کہ عرب کے لوگ زمانہ جاہلیت میں قبائلی عصبیت کے سہارے جیتے اور
مرتے تھے؛ اور یہی ان کو باہم جوڑے رکھنے کا واحد ذریعہ بھی تھی۔ اقتدار اور عزت و
بزرگی کی ہوس اکثر قبائل کے مابین جنگ کرنے کی بڑی وجہ بن جاتی تھی اور قبائل کا
سارا وقت ایک دوسرے کے خالف جنگ کرنے میں لگ جاتا جس کے نتیجے میں کبھی
کوئی قبیلہ غالب آجاتا تو کبھی کوئی مغلوب۔
اسالم بعض معامالت میں انسان کی ایسی رہنمائی کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے
اورانسان اس بات کو ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ کام جو انسان شاید صدیوں تک نہ
کرسکتے ،ایک مذہب نے چند سال میں کر دکھایا۔ اسالم اپنی قوم ،سرزمین یا قبیلے سے
محبت اور مانوسیت سے منع نہیں کرتا ،بس ایک حد ضرور مقرر کر دیتا ہے کہ محبت
اتنی شدت اختیار نہ کر جائے کہ قوم کا جبر ،ظلم و ستم ،زیادتی اور ناانصافی سب جائز
لگنے شروع ہو جائیں۔ اسالم نے جہاں زمانہ جاہلیت کے اتنے رسم و رواج اور عادات کو
بدال تو وہیں ایک بہت بڑی تبدیلی قبائل میں عصبیت کے عنصر کو مغلوب کرکے باہمی
محبت اور رواداری کے کلچر کو فروغ دینا بھی تھی۔ وہ قوم جو قبائلی عصبیت اور
تعصب کی وجہ سے جانی اور مانی جاتی تھی ،اس کے اندرسے تعصب کے عنصر کو
نکال باہر پھینکا اور ایک عقیدے اور ہللا کی محبت کی بنیاد پر سب کو ایک صف میں ال
مسدس حالی میں کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
ِ کھڑا کیا۔ الطاف حسین حالی نے
ڈرایا تعصب سے ان کو یہ کہہ کر
کہ زندہ رہا اور مرا جو اسی پر
ہوا وہ ہماری جماعت سے باہر
وہ ساتھی ہمارا نہ ہم اس کے یاور
نہیں حق سے کچھ اس محبت کو بہرہ
کہ جو تم کو اندھا کرے اور بہرہ
مسلمانوں کے دلوں میں ہللا کی محبت کی جڑ کو اتنا گہرا کردیا کہ یہ محبت ہر رشتے،
نسل ،عالقے اور قبیلے پر غالب آنے لگی اور جب بہت سارے دلوں میں ایسی بے لوث
محبت کے جذبے اکٹھے ہونے لگے تو عرب کے صحرا نشین اپنے آپ کو ایک قوم ،ایک
امت سمجھنے لگے۔ پھر انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ کوئی ہللا کا بندہ چاہے وہ
کسی بھی سرزمین ،قبیلے ،زبان یا عالقے سے ہو ،اس کا تعلق ان کے ساتھ ایک مذہب
اسالم کی بنیاد پر بہت گہرا قائم ہوچکا ہے۔ اسالم نے قوموں کے تصور کو نسلوں ،زبانوں،
خطّوں اور عالقوں سے بڑھا کر پوری دنیا کے مسلمانوں میں پھیالدیا اور پوری دنیا کو
ایک امت کی طاقت دکھا دی۔ مسلمانوں میں باہمی الفت ،محبت اوراتحاد ہی آج اس امت کی
سب سے بڑی طاقت ہے۔