Professional Documents
Culture Documents
ویلنٹائن ڈے۔يوم محبت يادعوت تباہی
ویلنٹائن ڈے۔يوم محبت يادعوت تباہی
تباہی
اكرام الحق
14فروری آنے کو ہے۔دنیا بھر میں یہ دن ”یوم محبت “ کے نام سے منایا جاتا
ہے۔ قوم ،نسل اور مذہب کی قید سے بال تر ہو کر انسانوں کی ایک بڑی تعدا
د اس کا اہتمام کرتی ہے۔ جس میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ بد قسمتی سے
ایک بڑی تعداد اس دن کی تاریخی حقیقت سے واقف نہیں۔
یہاں یہ بات ذکر کرنا ضروری ہے کہ اسلم خوشی منانے کا ہر گز مخالف نہیں۔
لیکن جو تہوار کوئی مذہبی یا تہذیبی پس منظر رکھتے ہوں۔ جس کا منایا جانا
کسی مذہبی واقعے کی یاد دلتا ہو ،اس کو منانا اسلمی نقطہ نظر سے ٹھیک
نہیں۔ مذہبی تہواروں کی کو منانے کا مقصد کچھ روایات ،تصورات اور عقائد
کو انسانی معاشروں میں پروان چڑھانا ہوتا ہے۔ اس لئے دیگر مذاہب کے
مذہبی تہوار منانا خطرے سے خالی نہیں۔
حقیقت کچھ بھی ہو یہ دن عیسائی برادری کے لئے عید کی حیثیت اختیار کر
گیا ،جو پہلے پہل تو صرف بعض جگہوں پر منایا جاتا تھا لیکن ذرائع ابلغ کی
وسعت نے اس طرح کی کئی خبائث کو اسلمی معاشروں میں بھی پروان
چڑھا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ دن ہمارے ہاں بھی اسی اہتمام و احترام سے
منایا جانے لگا۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم احساس کمتری کا اس قدر شکار ہو چکے ہیں
کہ مغرب کی ہر روایت کو اپنا کر فخر محسوس کرتے ہیں اور ہمارے
معاشرے میں ماڈرن اور روشن خیال ہونے کی دلیل ہی مغرب کی تقلید بن
گئی ہے۔
اسلم ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ فطری مذہب ہے۔
خوشی اور محبت فطری جذبات ہیں اور اسلم اس کی اجازت بھی دیتا ہے ۔
لیکن اس کے اپنے اصول ہیں۔ مسلمانوں کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ ہر چیز
کو اسلم کی کسوٹی اور معیارات پر پرکھیں۔ اسلم خوشی اور تفریح سے
ہر گز منع نہیں کرتا بلکہ صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اسی
کے پیش نظر مسلمانوں کے لئے سال میں دو عیدیں رکھی ہیں۔ تا کہ
مسلمان اس دن خوشی کا اظہار کر سکیں ،ایک دوسرے کو تحائف دیں،
دعوتیں کریں۔
ان اسلمی ایام کے علوہ کسی بھی ایسے دن کا منانا جس کا ہماری روایات
سے تعلق نہیں علماءکے متفقہ فتو ٰی کے مطابق بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔
اور اس دن تحفے دینا اور کسی بھی سرگرمی میں شامل ہونا ”تعاون علی
الثم و العدوان“ )برائی اور زیادتی کے کام میں تعاون( کے تحت آتا ہے۔جس
كي اسلم میں سختي سے ممانعت ہے۔
ایک طبقہ کی رائے ہے کہ اسلم خوشی منانے سے ہر گز منع نہیں کرتا اس لئے
اس دن خوشی منانے میں کوئی حرج نہیں۔ مزید یہ کہ آپ ان کے طریقے مت
اپنائیں بلکہ اسلمی طریقے اپناکر اسلمی انداز میں یہ دن منا سکتے ہیں اس
میں کوئی مضائقہ نہیں۔۔ افسوس ہے ان دانشوروں پر ۔ طریقہ بدلنے سے
کوئی غلط کام جائز نہیں ہو جاتا۔ اگر خوشی ہی منانی ہے تو کسی اور دن
کا انتخاب کر لیجئے۔ اسی دن منانا ضروری ہے؟
اس دن خوشی منانے کا مطلب ان کی مشابہت اختیار کرنا ہے ،اور اسلم
کی واضح تعلیمات ہیں کہ ”جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہیں میں
سے ہے“ اب ہر انسان خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کن میں سے ہونا پسند
کرتا ہے۔
یہ تو مذہبی پہلو ہے۔ معاشرتی اور اخلقی پہلو سے یہ دن جو برائیاں ساتھ لتا
ہے وہ کوئی بھی شریف النفس قبول نہیں کر سکتا۔ مغربی اور غیر اسلمی
معاشروں کا جو کلچر میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کی ذہنوں یہ دن منانے
کی دعوت دیتا ہے ،وہ طریقے بھی سکھاتا ہے۔ محبت اور عشق کے
خوبصورت پردوں میں جنسی بے راہ روی اس دن کا خاصہ ہے۔
یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس برائی کو روکنے کے لئے ہر
ممکن کوشش کریں۔ لوگوں میں اسلمی تعلیمات کے حوالے سے آگہی پیدا
کریں ،اس دن اور ایسے دیگر تہواروں کی خرابیوں اور خرافات سے اپنی
نوجوان نسل کو آگا کرنے کے ساتھ اسے اس دلدل میں گرنے سے بچانے کی
کوشش کریں۔
بطور خاص وطن عزیز جن اخلقی ،معاشرتی ،اور معاشی بحرانوں سے
گزر رہا ہے وہ کسی صورت بھی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ حکومت کی
ذمہ داری ہے کہ ایسے تہواروں پر سرکاری طور پر پابندی لگائے۔ تاکہ اخلقی
اور جانی نقصان کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل کا نقصان بھی روکا جا سکے۔
اگر ہم نے ابھی آنکھیں نہ کھولیں ،اپنی روایات کا پاس نہ رکھا اور مغرب کی
تقلید میں مست رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اخلقی زوال میں مغرب سے
آگے نکل جائیں۔
اپنی ملت پے قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی