You are on page 1of 3

‫ویلنٹائن ڈے۔يوم محبت يادعوت‬

‫تباہی‬
‫اكرام الحق‬

‫‪14‬فروری آنے کو ہے۔دنیا بھر میں یہ دن ”یوم محبت “ کے نام سے منایا جاتا‬
‫ہے۔ قوم‪ ،‬نسل اور مذہب کی قید سے بال تر ہو کر انسانوں کی ایک بڑی تعدا‬
‫د اس کا اہتمام کرتی ہے۔ جس میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ بد قسمتی سے‬
‫ایک بڑی تعداد اس دن کی تاریخی حقیقت سے واقف نہیں۔‬
‫یہاں یہ بات ذکر کرنا ضروری ہے کہ اسلم خوشی منانے کا ہر گز مخالف نہیں۔‬
‫لیکن جو تہوار کوئی مذہبی یا تہذیبی پس منظر رکھتے ہوں۔ جس کا منایا جانا‬
‫کسی مذہبی واقعے کی یاد دلتا ہو‪ ،‬اس کو منانا اسلمی نقطہ نظر سے ٹھیک‬
‫نہیں۔ مذہبی تہواروں کی کو منانے کا مقصد کچھ روایات ‪ ،‬تصورات اور عقائد‬
‫کو انسانی معاشروں میں پروان چڑھانا ہوتا ہے۔ اس لئے دیگر مذاہب کے‬
‫مذہبی تہوار منانا خطرے سے خالی نہیں۔‬

‫ویلنٹائن کی حقیقت کیا ہے؟‬


‫یہ رسم کئی صدیاں پرانی ہے۔ تاریخی اعتبار سے اس دن کی حقیقت کے‬
‫بارے میں مختلف آراءہیں۔ جن میں سے “سینٹ ویلنٹائن“ کی طرف منسوب‬
‫کی جانے والی کہانی زیادہ مشہور ہے لیکن اس کے بھی کئی ورژن ہیں ۔ قصہ‬
‫اس طرح ہے کہ رومیوں میں بت پرستی عام تھی ‪،‬رومیوں کے ایک پوپ‬
‫ویلنٹائن نے بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت قبول کر لی۔ جس کے جرم میں‬
‫اسے سزائے موت دے دی گئی۔ لیکن بعد میں جب رومیوں نے عیسائیت قبول‬
‫کر لی تو انہوں نے پوپ ویلنٹائن کے یوم وفات کو ”یوم محبت “ کے طور پر‬
‫منایا۔ اس طرح ویلنٹائن ڈے کا آغاز ہوا۔‬
‫ایک روایت یہ بھی ہے کہ رومی فوج کو افراد کی کمی کا سامنا تھا‪ ،‬لوگ فوج‬
‫میں بھرتی ہونے سے کتراتے تھے۔ بادشاہ نے جب محسوس کیا کہ شادی شدہ‬
‫لوگ اپنے اہل و عیال کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تو اس نے شادیوں پر‬
‫پابندی لگا دی۔ ایک رائے یہ ہے کہ بادشاہ کا خیال تھا کہ بہادر اور جرات مند‬
‫فوجی کا غیر شادی شدہ ہونا ضروری ہے۔ کیوں کہ ایسے نوجوان دیگر افکار‬
‫سے آزاد ہوتے ہیں ۔ الغرض فلسفہ جو بھی تھا ‪ ،‬بادشاہ نے شادی پر پابندی‬
‫لگا دی۔ ویلنٹائن نامی ایک پادری نے بادشاہ کے حکم کے خلف چھپ کر‬
‫شادیاں کروانا شروع کردیں‪ ،‬یا خود شادی کر لی۔ جس کی پاداش میں‬
‫اسے سزائے موت دے کی گئی۔ اور یہ ‪14‬فروری کا دن تھا۔‬
‫یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ویلنٹائن نے ایک راہبہ سے ‪14‬فروری کو یہ کہہ کر شادی‬
‫رچالی کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ‪14‬فروری کا دن ایسا ہے کہ اس دن اگر‬
‫راہب اور راہبہ آپس میں میلپ کر لیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جاتا‪ ،‬یاد رہے‬
‫کہ عیسائی مذاہب میں ایک فرقے کے عقائد کے مطابق راہب اور راہبہ زندگی‬
‫بھر کنوانے رہتے ہیں۔ ان کی مذہبی تعلیمات کے مطابق جو کوئی اپنے آپ کو‬
‫کلیساءکی خدمت کے لئے پیش کر دے تو وہ عمر بھر شادی نہیں کر سکتا‪،‬‬
‫ویلنٹائن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے راہبہ نے ہاں کر دی اور انہوں‬
‫نے شادی رچا لی۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں سزا ئے موت دے دی گئی۔‬
‫تب سے لوگ اس دن کو "یوم محبت" کے نام سے مناتے ہیں۔‬
‫عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ عیسائی مذہب کے مطابق اس دن کو ”یوم مذمت‬
‫“ کے طور پر منايا جاتا۔ کیوں کہ اس دن ان كي ایک مذہبی روایت کے خلف‬
‫قدم اٹھایا گیا ۔ لیکن اسے یوم محبت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس سے ظاہر‬
‫ہوتا ہے کہ اہل کلیسا کے لئے شادی پر پابندی غیر فطری عمل ہے۔‬
‫مزے کی بات یہ ہے کہ عیسائی تاریخ میں ویلنٹائن نامی تین افراد کا ذکر ملتا‬
‫ہے اور تینوں کو کسی نہ کسی جرم میں موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔‬

‫حقیقت کچھ بھی ہو یہ دن عیسائی برادری کے لئے عید کی حیثیت اختیار کر‬
‫گیا‪ ،‬جو پہلے پہل تو صرف بعض جگہوں پر منایا جاتا تھا لیکن ذرائع ابلغ کی‬
‫وسعت نے اس طرح کی کئی خبائث کو اسلمی معاشروں میں بھی پروان‬
‫چڑھا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ دن ہمارے ہاں بھی اسی اہتمام و احترام سے‬
‫منایا جانے لگا۔‬
‫ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم احساس کمتری کا اس قدر شکار ہو چکے ہیں‬
‫کہ مغرب کی ہر روایت کو اپنا کر فخر محسوس کرتے ہیں اور ہمارے‬
‫معاشرے میں ماڈرن اور روشن خیال ہونے کی دلیل ہی مغرب کی تقلید بن‬
‫گئی ہے۔‬
‫اسلم ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ فطری مذہب ہے۔‬
‫خوشی اور محبت فطری جذبات ہیں اور اسلم اس کی اجازت بھی دیتا ہے ۔‬
‫لیکن اس کے اپنے اصول ہیں۔ مسلمانوں کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ ہر چیز‬
‫کو اسلم کی کسوٹی اور معیارات پر پرکھیں۔ اسلم خوشی اور تفریح سے‬
‫ہر گز منع نہیں کرتا بلکہ صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اسی‬
‫کے پیش نظر مسلمانوں کے لئے سال میں دو عیدیں رکھی ہیں۔ تا کہ‬
‫مسلمان اس دن خوشی کا اظہار کر سکیں‪ ،‬ایک دوسرے کو تحائف دیں‪،‬‬
‫دعوتیں کریں۔‬
‫ان اسلمی ایام کے علوہ کسی بھی ایسے دن کا منانا جس کا ہماری روایات‬
‫سے تعلق نہیں علماءکے متفقہ فتو ٰی کے مطابق بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔‬
‫اور اس دن تحفے دینا اور کسی بھی سرگرمی میں شامل ہونا ”تعاون علی‬
‫الثم و العدوان“ )برائی اور زیادتی کے کام میں تعاون( کے تحت آتا ہے۔جس‬
‫كي اسلم میں سختي سے ممانعت ہے۔‬

‫ایک طبقہ کی رائے ہے کہ اسلم خوشی منانے سے ہر گز منع نہیں کرتا اس لئے‬
‫اس دن خوشی منانے میں کوئی حرج نہیں۔ مزید یہ کہ آپ ان کے طریقے مت‬
‫اپنائیں بلکہ اسلمی طریقے اپناکر اسلمی انداز میں یہ دن منا سکتے ہیں اس‬
‫میں کوئی مضائقہ نہیں۔۔ افسوس ہے ان دانشوروں پر ۔ طریقہ بدلنے سے‬
‫کوئی غلط کام جائز نہیں ہو جاتا۔ اگر خوشی ہی منانی ہے تو کسی اور دن‬
‫کا انتخاب کر لیجئے۔ اسی دن منانا ضروری ہے؟‬
‫اس دن خوشی منانے کا مطلب ان کی مشابہت اختیار کرنا ہے‪ ،‬اور اسلم‬
‫کی واضح تعلیمات ہیں کہ ”جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہیں میں‬
‫سے ہے“ اب ہر انسان خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کن میں سے ہونا پسند‬
‫کرتا ہے۔‬
‫یہ تو مذہبی پہلو ہے۔ معاشرتی اور اخلقی پہلو سے یہ دن جو برائیاں ساتھ لتا‬
‫ہے وہ کوئی بھی شریف النفس قبول نہیں کر سکتا۔ مغربی اور غیر اسلمی‬
‫معاشروں کا جو کلچر میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کی ذہنوں یہ دن منانے‬
‫کی دعوت دیتا ہے ‪ ،‬وہ طریقے بھی سکھاتا ہے۔ محبت اور عشق کے‬
‫خوبصورت پردوں میں جنسی بے راہ روی اس دن کا خاصہ ہے۔‬

‫یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس برائی کو روکنے کے لئے ہر‬
‫ممکن کوشش کریں۔ لوگوں میں اسلمی تعلیمات کے حوالے سے آگہی پیدا‬
‫کریں‪ ،‬اس دن اور ایسے دیگر تہواروں کی خرابیوں اور خرافات سے اپنی‬
‫نوجوان نسل کو آگا کرنے کے ساتھ اسے اس دلدل میں گرنے سے بچانے کی‬
‫کوشش کریں۔‬
‫بطور خاص وطن عزیز جن اخلقی‪ ،‬معاشرتی‪ ،‬اور معاشی بحرانوں سے‬
‫گزر رہا ہے وہ کسی صورت بھی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ حکومت کی‬
‫ذمہ داری ہے کہ ایسے تہواروں پر سرکاری طور پر پابندی لگائے۔ تاکہ اخلقی‬
‫اور جانی نقصان کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل کا نقصان بھی روکا جا سکے۔‬
‫اگر ہم نے ابھی آنکھیں نہ کھولیں‪ ،‬اپنی روایات کا پاس نہ رکھا اور مغرب کی‬
‫تقلید میں مست رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اخلقی زوال میں مغرب سے‬
‫آگے نکل جائیں۔‬
‫اپنی ملت پے قیاس اقوام مغرب سے نہ کر‬
‫خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‬

You might also like