You are on page 1of 13

‫پاکستانی معاشرہ میں جہیز کے اثرات اور نقصانات‬

‫‪ ‬مصنف‪ :‬سیدعزیزہللا شاہ‪  ‬اگست ‪2016‬‬


‫صدیوں کے تسلسل کے ساتھ انسانی معاشرہ جس مض بوط بُنی اد پہ کھ ڑا ہے اُس‬
‫کا بُنیادی س تون خان دان ہے خان دان کی ک ئی اکائی اں ہیں جن میں ای ک اہم اک ائی‬
‫رشتہ ازدواج ہے جسے ش ادی ک ا بن دھن بھی کہ تے ہیں ُدنی ا کے ہ ر خطے میں‬
‫شادی کے موقع پر مخصوص رسو م و رواج کو پورا کرنے ک ا خ اص ط ور پ ر‬
‫اہتمام کیا جاتا ہے اگر کسی بھی خطے میں ہونے والی ش ادی کے رس وم و رواج‬
‫پورے نہ کے جائیں تو شادی کو ادھورا سمجھا جاتا ہے شادی کے کچھ لوازم ات‬
‫بہت ضروری ہیں جن کے ادا کرنے سے مذہبی طور پر شادی مکمل ہوتی ہے۔‪ ‬‬
‫مثالً‪ :‬اِسالم میں نکاح یعنی گواہوں کی موجودگی میں ایج اب و قب ول‪ ،‬ہن دوں کے‬
‫ہاں ور ماال‪ ،‬منگل سوتر پہنانا اور آگ ک و پ اک اور پ وتر م ان ک ر اس کے گ رد‬
‫چکر لگان ا‪ ،‬عیس ائیوںکا چ رچ ج ا ک ر پ ادری کے پیچھے ش ادی کے بن دھن میں‬
‫بندھنے کے لئے کلمات کو دہرانا جس میں ایک دوسرے کو می اں اور بی وی کے‬
‫طور پر قبول کرنا وغ یرہ ش امل ہیں ایس ے ہی ہ ر م ذہب میں کچھ نہ کچھ ایس ے‬
‫لوازمات ض روری ہیں جن کی انج ام دہی س ے ش ادی مکم ل ہ وتی ہے لیکن اس‬
‫کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے لوازمات بھی ہیں ج و کہ م ذہبی ی ا معاش رتی ط ور پ ر‬
‫ض روری نہیں ہیں لیکن ان کی انج ام دہی ان ض روری عوام ل س ے بھی زی ادہ‬
‫اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے کہ اگر ان کو ادا نہ کیا تو شادی مکمل نہیں ہ و‬
‫گی۔‬
‫اگر ہم پاکستانی معاشرے کی بات کریں تو یہ اں ج و بے مقص د رس ومات خ اص‬
‫طور پر انجام دی جاتی ہیں ان میں تیل‪ ،‬مہندی‪ ،‬مایوں‪ ،‬جوتی اترائی‪ ،‬پلّو پک ڑائی‬
‫خاص طور پر قابل ذکر ہیں اس کے ساتھ س اتھ واف ر‪ ،‬غ یر ض روری اور ناقاب ِل‬
‫برداشت جہیز کا دینا اگر غور کیا جائے تو ان رسومات کے بغ یر بھی ش ادی کی‬

‫‪1‬‬
‫انج ام دہی ممکن ہے لیکن افس وس کہ اب ان کے بن ائ‪ ۹۹ ‬فیص د ش ادیاں نہیں‬
‫ہوتیں چاہے قرض لے کر ہی ان رسومات کو ادا کیا جائے‪ ،‬لیکن کیا ضرور جاتا‬
‫ہے‬
‫بحیثیت مسلمان ہمیں شادی یا نکاح کو آسان سے آسان تر بنانا چاہیے کیونکہ ن بی‬
‫آخ ر الزام اں ﴿‪ ﴾w‬ک ا حکم اور اس الم کی منش ائ بھی یہی ہے لیکن معاش رہ اس‬
‫برائی میں اس قدر ڈوب چکا ہے کہ ان غیر ض روری اور بے ج ا اص راف س ے‬
‫بھر پور رسومات کی ادائیگی کے بغ یر ش ادی ہون ا ممکن نہیں ہ وتی اگ ر ک وئی‬
‫صاحب فہم و فراس ت ان رس ومات کے خالف آواز اٹھ ائے ت و بہت س ے غ ریب‬
‫خاندان جو ان رسومات کی بجا آوری کی سکت نہیں رکھتے اور ایسے بہت سے‬
‫باشعور اف راد ج و ان رس ومات ک و غ یر ض روری س مجھتے ہیں وہ چ اہنے کے‬
‫باوجود بھی ان رسومات کی مخ الف آواز میں اپ نی آواز نہیں مال س کتے کی ونکہ‬
‫ان پر خاندان کی جانب سے دبائو اور برادری میں اپ نی ن اک اونچی رکھ نے کی‬
‫مجبوری کی بنا پر اس بے جا اصراف سے بھر پور رسومات کی انجام دہی کرنا‬
‫پڑتی ہے ان رسومات میں س ے جہ یز وہ رس م ہے جس پ ر اخراج ات س ب س ے‬
‫عصر‬
‫ِ‬ ‫زیادہ اٹھنے کے ساتھ ساتھ معاشرے پر منفی اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں‬
‫حاضر میں جہیز کی رسم انفرادی نہیں اجتماعی معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے۔‬
‫جہیز کی شرعی حیثیت‪: ‬‬
‫جہیز کوسنت قرار دینے کے لئے اکثر جس بات کا ح والہ دی ا جات ا ہے وہ س یدہ‪،‬‬
‫طیبہ‪ ،‬طاہرہ‪ ،‬خاتو ِن جنت ﴿‪ ﴾k‬کے نکاح کے موقع پر سید ِکائنات ﴿‪ ﴾w‬ک ا آپ ﴿‪﴾k‬‬
‫ازواج مطہ رات ﴿‪﴾l‬‬
‫ِ‬ ‫ک و س امان عن ائت ک رنے ک ا واقعہ ہے بعین ہی آپ ﴿‪ ﴾w‬کی‬
‫بھی اپنے ساتھ جہیز کے نام پر کوئی سامان نہیں لے آئیں ما س وائے اُم الموم نین‬
‫حضرت اُم حبیبہ ﴿‪ ﴾k‬کے‪ ،‬جن کا نک اح س رور ک ونین ﴿‪ ﴾w‬کے س اتھ حبش ہ کے‬
‫فرمانروا نے پڑھایا اور حضور اکرم ﴿‪ ﴾w‬کی جانب سے مہ ر کی رقم ادا ک رنے‬

‫‪2‬‬
‫کے س اتھ حض رت اُم ح بیبہ ﴿‪ ﴾k‬ک و حبش ہ کی روای ات کے مط ابق س امان اور‬
‫تحائف پیش کئے جس کو جہیز کا نام دیا جاتا ہے لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں‬
‫ہوتی کہ اسالم میں جہیز دینا یا لینا الزم ہے نیز حضرت اُم ح بیبہ ﴿‪ ﴾k‬ک امہر ج و‬
‫چارہزاردرہم تھا وہ رسول ہللا ﴿‪ ﴾w‬نے مقرر نہیںکیا تھا بلکہ نجاشی نے مقرر کیا‬
‫تھا۔‬
‫‪,‬وداود‪ ،‬رقم الح‪,‬دیث ‪  ۶۰۱۲ :‬س‪,,‬نن‬
‫﴿سنن ترمذی‪ ،‬رقم الح‪,,‬دیث ‪  ۷۱۱۱ :‬س‪,,‬نن اب‪ْ ,‬‬
‫نِس‪,,‬ائی‪ ،‬رقم الح‪,,‬دیث‪ ۹۴۳۳:‬مس‪,,‬نداحمد‪ ،‬ج‪ ،۱:‬ص‪ ،۰۴:‬المس‪,,‬تدرک ‪،‬ج‪ ،۲:‬ص‪:‬‬
‫‪ ،۲۷۱‬جامع االصول‪ ،‬رقم الحدیث‪﴾۲۸۹۴:‬‬
‫المرتضی ﴿‪ ﴾h‬کے موقعٔہ نکاح پ ر‬
‫ٰ‬ ‫‪ ‬اسی طرح خاتون جنّت ﴿‪ ﴾k‬اور حضرت علی‬
‫جو س امان دی ا گی ا اس کی روداد کچھ اس ط رح ہے کہ حض رت اب و ط الب کے‬
‫انتقال کے بع د حض رت علی ﴿‪ ﴾h‬کی س ر پرس تی آنحض ور ﴿‪ ﴾w‬نے کی کی ونکہ‬
‫حضرت علی ﴿‪ ﴾h‬آنحضور ﴿‪ ﴾w‬کے زی ر کف الت تھے لہ ذا ض روریات ک و پ ورا‬
‫کرنا بھی حضور ﴿‪ ﴾w‬نے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا زیر کف الت ہ ونے کے ب اعث آپ ﴿‬
‫‪ ﴾w‬حضرت علی ﴿‪ ﴾h‬کو اپنے ساتھ رکھتے اور ان کی ضروریات کا پ ورا خی ال‬
‫رکھتے اور ہر طرح کی دیکھ بھال فرماتے یہ اں ت ک کہ جب حض رت علی ﴿‪﴾h‬‬
‫جوان ہو گئے تو آپ ﴿‪ ﴾w‬نے اپنی ص احبزادی ک ا نک اح بھی حکم الہی کے تحت‬
‫آپ ﴿‪ ﴾h‬کے ساتھ ک ر دی ا اور جب رخص تی ک ا وقت آی ا ت و بہ ط ور س ر پرس ت‬
‫ضروریات زندگی کے لئے چندچیدہ چی دہ اش یائ ک ا انتظ ام بھی آپ نے کی ا جس‬
‫کی تفصیل یہ ہے کہ‪:‬‬
‫’’‪ ‬سید کائن ات ﴿‪ ﴾w‬نے حض رت علی ﴿‪ ﴾h‬س ے قب ل از نک اح دری افت فرمای ا کہ‬
‫تمہ ارے پ اس کی ا کچھ ہے انہ وں نے ج واب دی ا کہ ای ک گھ وڑا اور ای ک زرہ‬
‫میرے پاس مو جود ہے آپ ﴿‪ ﴾w‬نے فرمایا گھوڑا تو تمہارے ل ئے ض رورت کی‬
‫بہت اہم چیز ہے البتہ ذرہ بیچ کر اس کی قیمت لے آئو حضرت علی ﴿‪ ﴾h‬نے اپنی‬

‫‪3‬‬
‫ذرہ فروخت کر دی اور رقم لے ک ر آپ ﴿‪ ﴾w‬کی خ دمت میں حاض ر ہ وئے آپ ﴿‬
‫‪ ﴾w‬نے حضرت بالل ﴿‪ ﴾h‬اور حضرت انس ﴿‪ ﴾h‬کی وال دہ اُم س لیم ﴿‪ ﴾k‬اور ک و یہ‬
‫رقم گھریلو ضروریات کے انتظام کے لئے کو عن ایت کی‘‘ ﴿ش رح ام ام زرق انی‬
‫علی المواہب اللدنیہ﴾‬
‫ایک اور روایت میں آتا ہے‪:‬‬
‫مجاہد بیان کرتے ہیںکہ حضرت علی اب ِن ابی ط الب﴿‪ ﴾h‬نے فرمایارس ول ہللا ﴿‪﴾w‬‬
‫نے مجھے لوہے کی ایک زرہ عطا فرمائی تھی آپ ﴿ ‪ ﴾w‬نے اس زرہ کے عوض‬
‫میرا حضرت فاطمہ(رض) سے نک اح کردی ا اور فرمای ا یہ زرہ ف اطمہ کے پ اس‬
‫بھیج دو بہ خدا اس کی قیمت چار سو اور کچھ درہم تھی‘‘‬
‫﴿مسند ابو یعلی رقم الحدیث ‪ ،۹۹۴:‬مسنداحمد‪،‬ج‪،۱:‬ص‪﴾۰۸:‬‬
‫حضرت بالل ﴿‪ ﴾h‬اور اُم سلیم ﴿‪ ﴾k‬نے درج ذیل چیزیں‪ ،‬س ونے کے ل ئے ب ان کی‬
‫ایک چ ار پ ائی‪ ،‬کھج ور کی پ تیوں س ے بھ را ہ و اچم ڑے ک ا گ دا‪ ،‬پ انی کے دو‬
‫مش کیزے اور چکی ک ا انتظ ام کی ا یہی وہ ک ل س امان تھے جس ک و آپ ﴿‪ ﴾w‬نے‬
‫حض رت علی ﴿‪ ﴾h‬کی رقم س ے انتظ ام فرمای ا اب یہ ب ات روز روش ن کی ط رح‬
‫عیاں ہو گئی کہ حضرت فاطمہ ﴿‪ ﴾k‬کو جو اشیائ ِضرورت عط ا کی گ ئیں وہ آپ‬
‫﴿‪ ﴾w‬نے اپنی طرف سے نہیں دیں بلکہ زوجین کی وق تی ض رورتوں ک و ملح وظ‬
‫رکھتے ہوئے آنحضور ﴿‪ ﴾w‬نے حضرت علی ﴿‪ ﴾h‬ہی کی رقم سے اس ک ا انتظ ام‬
‫فرمایا تھا اور کیوں نہ فرماتے جب کہ آپ ﴿‪ ﴾w‬ہی دونوں طرف س ے م ربی اور‬
‫بچپن سے پرورش کرتے چلے آرہے تھے۔‬
‫اسالم دین فطرت ہونے کے باعث انسانوں کے لئے باعث رحمت اور آسانیاں پیدا‬
‫کرنے واال ہے لیکن اس بات ک و م دنظر رکھ تے ہ وئے معاش رے میں جہ یز کی‬
‫روایت کو سنت کے ن ام پ ر الزم نہیں ق رار دی ا ج ا س کتا‪ ،‬لیکن جہ یز ک و بالک ل‬
‫شرعی طور پر ناجائز بھی نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ ہ ر ش ادی کے موق ع پ ر‬

‫‪4‬‬
‫صورتحال مختلف ہوتی ہے اس کو مدنظر رکھ ک ر فیص لہ کرن ا چ اہیے موج ودہ‬
‫وقت میں صورتحال یہ ہے کہ رشتہ ازواج میں منسلک ہونے س ے پہلے ع ورت‬
‫ٰ‬
‫تقوی کے شرف و قرابت‬ ‫کی دیانتداری‪ ،‬حسن و جمال‪ ،‬اخالق و سیرت اور علم و‬
‫صنف نازک کو ترجیح دی جاتی ہے جہاں‬
‫ِ‬ ‫کو پس پُشت ڈال کر عق ِد نکاح میں اُس‬
‫سے بے تحاشا جہیز کی صورت میں بے محنت مال ٹھال حاصل ہ ونے کی توق ع‬
‫ہو۔‬
‫ایسا رشتہ جو مال و دولت کی بنا ئی پر وجود میں آئے ی ا ج و رش تہ محض چن د‬
‫قیمتی اشیا کی بنیاد پر قائم ہوا ہو اس پر کیسے پیار اور محبت کی عمارت کھڑی‬
‫ہو سکتی ہے؟ وہ تعلق جو کہ خالصتا ً نفسیاتی و روح انی ہ و اُس کی بنی اد محض‬
‫مال ٹھال کے اللچ پر رکھنا کسی سمت س ے درس ت نہیں اس ض من میں ہم ارے‬
‫اسالف نے ہماری کیا رہنمائی فرمائی‪ ،‬اس کا اندازہ ان کے قول و فعل س ے ہوت ا‬
‫ہے جس کے مطابق امام غزالی رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’‪ ‬یہ چیز نہایت مذموم ہے کہ مرد عورتوں کی دولت پ ر نظ ر رکھے اور زی ادہ‬
‫جہ یز کی اللچ ک ریں‪ ،‬ای ک اور جگہ فرمای ا کہ نک اح‪ ،‬نک اح ہون ا چ اہیے نہ کہ‬
‫تجارت و جوا‘‘‬
‫﴿احیائ علوم‪ ،‬ج‪ ،۲:‬کتاب آداب نکاح ‪ ،‬ص‪﴾۶۵:‬‬
‫حضرت سفیان ثوری رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’جب کوئی نکاح کرنے واال شخص یہ معلوم کرے کہ اس کی بیوی کیا الئی ہے‬
‫﴿جہیز کا سامان اور دولت﴾ تو یہ سمجھ لو کہ وہ شخص چور ہے‘‘‬
‫﴿احیائ علوم‪ ،‬ج‪ ،۲:‬کتاب آداب نکاح ‪ ،‬ص‪﴾۶۵:‬‬
‫اَسالف کے اقوال سے ہم یہ نتیجہ اخ ذ ک ر س کتے ہیں کہ اس المی معاش رے میں‬
‫جہیز کی نہ کوئی اصلیت ہے نہ حقیقت‪ ،‬بلکہ یہ معاشرے کے ل ئے ای ک ناس ور‬
‫ہے جو معاشرے کو کھ و کھال کرت ا چال ج ا رہ ا ہے کی ونکہ وال دین کی خ واہش‬

‫‪5‬‬
‫ہ وتی ہے کہ وہ اپ نی بی ٹی ک و محبت اور ش فقت کے اظہ ار کے ل ئے اش یائ‬
‫ضرورت دیں اور بیٹی یا بہن خود بھی ماں باپ سے فرمائش کا پیدائشی ح ق ہے‬
‫اگرچہ اس کو مطالبے کے وقت اپنے ماں باپ کی حیثیت کا خی ال رکھن ا چ اہیے‬
‫یہ ایک الگ معاملہ ہے مگ ر یہ کہ ہ ونے واال دام اد اور ان کے گھ ر وال وں ک و‬
‫کہاں سے حق پہنچتا ہے کہ وہ لڑکی یا ان کے وال دین س ے جہ یز طلب ک ریں ی ا‬
‫کسی قسم کا نامناسب و ناروا سوال کریں‬
‫یہ مہذب قسم کی بھیک ہے جس کو رسم و رواج کا لب ادہ پہن ا ک ر ہم ارا معاش رہ‬
‫قبول کر رہا ہے۔‬
‫معاشرتی اثرات‪: ‬‬
‫جہیز کسی نہ کسی صورت میں تقریب ا تم ام دنی ا میں مختل ف رس وم و رواج کے‬
‫ساتھ موجود ہے اگر تاریخ کا ج ائزہ لی ا ج ائے ت و پ رانی تہ ذیبوں میں بھی رس م‬
‫جہیز کے شواہد ملتے ہیں اسی طرح ماضی ق ریب میں چین‪ ،‬اف ریقہ اور ام ریکہ‬
‫میں جہیز دینے کا کلچر صاف نظر آت ا ہے موج ودہ دور میں ام ریکہ اور ی ورپ‬
‫میں ت و یہ رس م تقریب ا ً م تروک ہ و چکی ہے لیکن جن وبی ایش یا‪ ،‬ای ران‪ ،‬ت رکی‪،‬‬
‫افغانستان‪ ،‬سنٹرل ایشیا‪ ،‬م راکش وغ یرہ میں ابھی بھی مختل ف رس وم ورواج کے‬
‫ساتھ جاری ہے جہ یز کہیں ل ڑکے وال وں کی ط رف س ے دی ا جات ا ہے اور کہیں‬
‫لڑکی والوں کی ط رف س ے پاکس تان میں دون وں روای ات موج ود ہیں لیکن ث انی‬
‫الذکر کا چرچا زیادہ ہے جہیز کے نام پر کی گئی ڈیمان ڈ ک و پ ورا ک رتے غ ریب‬
‫آدمی کی کمر دہری ہو جاتی ہے بعض اوقات جہیز نہ ہونے کی بنا پر غ ریب کی‬
‫بیٹی کے سر میں چاندی واضح ہو جاتی ہے لیکن معاشرہ میں چھپے اس درد ک ا‬
‫مداوا کرنے کو کوئی تیار نہیں۔‬
‫ایشئین اکنامک اینڈ فنانشل ریویو کے مط ابق کے مط ابق ’’ ‪%57.8‬م ڈل کالس‪،‬‬
‫لوئر کالس‪ , %16.8‬اور ایلیٹ کالس ‪ %25.5‬جہیز لینے اور دینے کی پ ریکٹس‬

‫‪6‬‬
‫میں مشغول ہے پاکستان میں تقریب ا ‪  %95.5‬ش ادیوں میں جہ یز ک ا لین دین کی ا‬
‫جاتا ہے‘‘ لیکن م یرے ذاتی خی ال میں یہ ع دد پچ انوے کی بج ائے نن انوے ہون ا‬
‫چاہیے۔‬
‫جہ یز کی روایت روز ب روز بڑھ تی ج ا رہی ہے اور جہ یز میں دی ج انے والی‬
‫اش یائ میں بھی بہت زی ادہ اض افہ دیکھ نے میں آ رہ ا ہے اس کے س اتھ س اتھ ان‬
‫اشیائ کی نمائش کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اہل محلہ اور رشتہ داروں‬
‫کو بطور خاص مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ جہیز میں دیے جانے والے س امان ک و‬
‫دیکھ لیں اس کام میں عموما خ واتین زی ادہ دلچس پی رکھ تی ہیں اور نس بتا ً ان ک ا‬
‫رجحان اور یاداشت گھریلو اس تعمال کی چ یزوں اور ک پڑوں کے پ رنٹ اور کل ر‬
‫وغیرہ کے بارے میں تیز ہوتی ہے کہ کب‪ ،‬کہ اں اور کس موق ع پ ر کس نے کی ا‬
‫چیز لی یا پہنی تھی۔‬
‫‪ ‬اس کو ذہن میں رکھ کر خواتین اپنی بی ٹیوں ک و ی ا لڑکی اں خ ود زی ادہ جہ یز ک ا‬
‫مطالبہ کرتی ہیں کہ کم از کم فالں سے تو زیادہ س امان ہون ا چ اہیے آخ ر خان دان‬
‫اور معاشرے میں ہماری عزت ہے اپنی ناک کو اونچا کرنا کے لئے بوڑھے باپ‬
‫اور جوان بھائی کی کمر کتنی جھک رہی ہے جہیز کے مطالبے پورا کرنے کے‬
‫لئے س ود ی قرض ے ت ک اٹھ انے س ے گری ز نہیں کی ا جات ا اور پھ ر ان س ودی‬
‫قرضوں کو ادا کرنے کے لئے عمریں بیت جاتی ہیں‪ ،‬لوگوں کو اپنے گھر گروی‬
‫رکھنے پڑتے ہیں مگر یہ موذی عذاب پیچھا نہیں چھوڑتا۔‬
‫وراثت اور جہیز‪: ‬‬
‫جہیز لینے دینے کے معامالت میں صرف عورتوں ک و م ورد ال زام نہیں ٹھہرای ا‬
‫جا سکتا بلکہ اس شریکہ داری میں مرد حض رات بھی کس ی س ے کم نہیں ہ وتے‬
‫بلکہ شہ دیتے نظر آتے ہیں کہ اگر اتنا جہیز فالں نے دیا تھا تو ہم ان س ے زی ادہ‬
‫دیں گے وغ یرہ وغ یرہ اس کے س اتھ س اتھ وراثت ج و کہ ای ک ش رعی ح ق ہے‬

‫‪7‬‬
‫عورت کو اس سے محروم رکھ ا جات ا ہے اس بنی ادی اور ض روری بلکہ ف رض‬
‫عمل کی ادائیگی کے لئے نہ تو کوئی روایت بنی اور نہ ہی کوئی جذبہ جاگا بلکہ‬
‫اگر کوئی شخص خشیت ٰالہی کو مدنظر رکھ کر اپنی بیٹیوں بہنوں کو جائیداد میں‬
‫حصہ دیتا ہے تو خاندان کے سب سیانے بشمول ع ورتیں اس ک و س مجھانے پہنچ‬
‫جاتے ہیں کہ بھائی یہ کیا کام کر رہے ہو‪ ،‬ایسا مت کرواپنے پاوں پر کلہاڑی مت‬
‫مارو اور خاندان میں نئی روایات کی داغ بیل مت ڈالو‬
‫اگر تمھیں زیادہ ہی شوق ہے عورتوں کو حصہ دینے کا ت و جہ یز کی مق دار میں‬
‫اضافہ کر دین ااس ط رح ج و تم نے وراثت میں دین ا ہے وہ جہ یز میں دے دو اس‬
‫ط رح جہ یز آہس تہ آہس تہ وراثت ک ا نعم الب دل بن گی ا پہلے ت و بی ٹی کے ذہن میں‬
‫دوران تربیت سوشیالوجی کی اصطالح میں ’’پدر سری‘‘ معاشرے کے اصول و‬
‫ضوابط کے تحت یہ بٹھا دیا جاتا ہے کہ اس نے جائی داد میں حص ہ نہیں لین ا لہ ذا‬
‫وہ ’’اچھی بی ٹی‘‘ بن کرخ ود ہی اپ نے حص ے س ے دس تبردار ہ و ج اتی ہے‬
‫دوسرے حصے میںاگر کوئی بی ٹی ی ا بہن ج رٔات ک ر کے وراثت میں اپن ا حص ہ‬
‫طلب کر ہی لے تو اس کا سوشل بائیکاٹ کردیا جاتا ہے ساتھ ہی یاد کروای ا جات ا‬
‫ہے کہ شادی کو موقع پ ر تمھیں ج و اتن ا جہ یز دی ا گی ا تھ ا وہ اس ی ل ئے تھ ا کہ‬
‫وراثت میں تمھارا حصہ نہیں ہو گا‬
‫اس دبائو میں آ کروہ اپنے مطالبے سے دستبردار ہو ک ر پھ ر‪’’  ‬راہ راس ت‘‘ پ ر‬
‫آجاتی ہے اور خاندان بھی اسے صبح کا بھوال شام کو گھر آجائے تو اس ے بھ وال‬
‫نہیں کہتے کے مصداق معاف کر دیتا ہے یوں اس سے تعلقات بحال ہو جاتے ہیں‬
‫لیکن اتنی احتیاط البتہ ضرور برتی جاتی ہے کہ خاندان کی کم عم ر لڑکی وں ک و‬
‫اس کی صحبت سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ ان کے دیدوں ک ا پ انی خش ک نہ ہ و‬
‫یعنی وہ وراثت میں اپنے حق کی بات نہ کریں اس کے بعد بھی اگر کوئی بیٹی ی ا‬
‫بہن نہ مانے اور حق وراثت کے حصول کے لیے آخری حد تک جانے کے ل ئے‬

‫‪8‬‬
‫تیار ہو تو اس کو جائیداد میں حصہ تو مل جاتا ہے لیکن وہ اِس حق ک و پ انے کی‬
‫کیا سزا پاتی ہے اور اُس بیچاری پہ کیا بیتتا ہے یہ وہی محس وس ک ر س کتی ہے‬
‫عموما ً معاشرے میں یہ رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔‬
‫اِس بہأو میں اچھے برے سب کو رگڑ دینا مناسب نہیں ہوگا‪ ،‬یہ اں اُن نی ک طینت‬
‫خراج تحس ین پیش کی ا جان ا چ اہئے ج و خان دان‬
‫ِ‬ ‫اور با انصاف لوگوں کو ضرور‬
‫کے طعنے جھگڑے سہہ ک ر بھی اپ نی بی ٹیوں اور بہن وں ک و الزم ا ً ح ِّ‬
‫ق وراثت‬
‫دیتے ہیں شاید ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے معاشرے میں اچھائی ن ام کی ک وئی‬
‫چیز موجود ہے معاشرے کا فرض ہے کہ ایس ے لوگ وں کی حوص لہ اف زائی کی‬
‫جائے تاکہ باقی لوگ بھی اُن سے سیکھ سکیں کی ونکہ جتن ا زی ادہ مثبت رویّہ ک ا‬
‫پرچار کیا جائے گا لوگ اتنا زیادہ مثبت سوچ کو اختیار کریں گے‬
‫لیکن یہاں یہ حقیقت ذہن سے نہیں نکالنی چاہئے کہ ایسے اچھے لوگوں کی تعداد‬
‫آٹے میں نمک کے برابر ہے یہ اندازہ اِ س ام ر س ے بھی لگای ا ج ا س کتا ہے کہ‬
‫پاکستان میں کل زمین کی ملکیت کا صرف ‪ %1‬حص ہ خ واتین کے ن ام ہے ب اقی‬
‫خواتین کو یا تو وراثت میں حصہ س رے س ے ملت ا ہی نہیں ی ا جہ یز کے ن ام پ ر‬
‫ٹرخا دیا جاتا ہے۔‬
‫اکثر یہ بھی دیکھنے میں آ یا ہے کہ بوقت شادی جہیز طلب کیا جاتا ہے ی ا ش ادی‬
‫کے کچھ عرصے کے بعد لڑکی کو اس کے ماں باپ کے گھر بھیج دی ا جات ا ہے‬
‫کہ اگر اس گھر میں رہنا ہے تو اپنے والد سے فالں فالں چیز مانگو یہ بھی جہیز‬
‫کی ہی ایک قسم ہے اس مانگ کو اگر ہم ’’جبری بھیک‘‘ اور مانگنے والے ک و‬
‫’’ غیرت سے ناآشنا بھکاری‘‘ کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔‬

‫جہیز نہ دینے کے نقصانات‪:‬‬

‫‪9‬‬
‫جہیز دینے سے جہاں معاشرے میں ای ک اب تری کی س ی ص ورتحال درپیش ہے‬
‫اسی طرح جہالت کے باعث جہیز نہ دینے کے بھی چند نقص انات ہیں س ب س ے‬
‫پہلے تو جس لڑکی کو ماں باپ جہیز نہ دے سکیں اس کے اپنے دل میں اپ نی ن ا‬
‫قدری کا احساس جاگتا ہے‪ ،‬جذباتی طور پر وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا ش کار ہ و‬
‫جاتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق وہ خ واتین جن ک و ماض ی میں اپ نے م اں‬
‫باپ سے جہیز نہیں مال ہوتا وہ اپنی بیٹیوں کو زیادہ جہیز دینا چاہتی ہیں اس سے‬
‫اپنے کمی کے احس اس ک ا ازالہ ک رنے کی کوش ش ک رتی ہیں ج و لڑکی اں زی ادہ‬
‫جہیز کے ساتھ میکے سے سسرال رخصت ہوتی ہیں ان کو عموما ً عزت اور قدر‬
‫و منزلت کی نگاہ سے دیکھ ا جات ا ہے لیکن اس کے ب رعکس ج و لڑکی اں زی ادہ‬
‫جہیز کے ساتھ رخصت نہیں ہو پاتیں ان کو سس رال میں مش کالت ک ا بھی س امنا‬
‫کرنا پڑتا ہے۔‬
‫حتی کہ بہت سی خواتین ظلم سہتے سہتے اتنی تنگ پ ڑ ج اتی کہ خ ود کش ی ک ر‬
‫بیٹھیں اور بہت سی خواتین کو قتل تک کروا دیا گیا ایسے بہت س ے کیس روزانہ‬
‫کی بُنیاد پہ منظر عام پر آ تے رہتے ہیں اور رجسٹرڈ بھی ہ و تے ہیں لیکن ای ک‬
‫ب ڑی تع داد ایس ی بھی ہے جن ت ک متعلقہ محکم وں ی ا اداروں کی رس ائی ممکن‬
‫نہیں ہو سکی پاکستان میں ہر سال تقریبا دو ہ زار خ واتین کم جہ یز النے کی وجہ‬
‫سے موت کا سامنا کرتی ہیں۔‬
‫( ‪Subhani, D., Imtiaz, M., & Afza, S. (2009). To estimate an‬‬
‫‪)equation explaining the determinants of Dowry‬‬
‫ملک میں ایس ی ص ورتحال ک و دیکھ تے ہ وئے وال دین اپ نی بی ٹیوں کی ج ان کی‬
‫حفاظت کی خاطر بھی انہیں زیادہ جہیز دیتے ہیں‬
‫اِسی طرح ایسے س فید پ وش ل وگ جن کی بیٹیوںک ا رش تہ دولت من د خان دان میں‬
‫رشتہ ہو جائے تو وہ اپنی عزت و سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے بھی زیادہ‬

‫‪10‬‬
‫مقدار میں اور زیادہ قیمتی جہ یز دی تے ہیں اُس کے ل ئے اُنہیں چ اہے ق رض لین ا‬
‫پڑے یا اپنی کوئی ملکیّت وغیرہ بیچنی پڑے۔‬
‫اصالح احوال اور جہیز سے نجات کے لئے تجاویز‪:‬‬
‫٭ فرم ان ِ رس ول ﴿‪ ﴾w‬ہے کہ حکمت م ومن کی گمش دہ م یراث ہے آج اگ ر ہم‬
‫مغربی معاشروں کی طرف نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں سے جہیز دینے‬
‫اور ڈیمانڈ کرنے کی رسم اس طرح غائب ہوئی ہے کہ جیسے وہاں کبھی تھی ہی‬
‫نہیں ہم اری ن اقص رائے میں اس کی وجہ مغ رب میں تعلیم ک ا ع ام ہون ا ہے‪،‬‬
‫س روے رپ ورٹس کے مط ابق مغ رب میں یونیورس ٹیز اور الئ بریریز کی تع داد‬
‫ث‬
‫ہمارے مقابل بہت زیادہ ہے اگ ر ہم ان کے اس اچھے چلن ک و اپن ا لیں ت و ح دی ِ‬
‫رسول ﴿‪ ﴾w‬کی روشنی میں بھی کوئی مضائقے والی بات نہیں۔‬
‫لہٰ ذا اپنے معاشرے کو اس بیمار ذہنیت سے بچانے کے ل ئے مل ک میں تعص بات‬
‫اور دوہرے معیارات سے پاک تعلیم کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے اس لئے‬
‫اصالح احوال کے لئے تعلیم کا عام ہونا الزم ہے تاکہ ہر آدمی خود داری کا سبق‬
‫ِ‬
‫سیکھ لے اور اپنے پاوں پر خود کھڑا ہو اور کسی پر اضافی بوجھ نہ بنے‪ ،‬اپنے‬
‫گھر کو خود بنائے اور سنوارے‪ ،‬نہ کہ کس ی کی بہن‪ ،‬بی ٹی ک ا ش وہر ہ ونے کی‬
‫حیثیت کا ناج ائز فائ دہ اٹھ اتے ہ وئے اپ نے سس رال وال وں ک و بلی ک می ل ک رے‬
‫ت مدینہ کے م وقعہ پہ انص اری ص حابہ ک رام نے مہ اجرین ص حابہ ک رام‬
‫مواخا ِ‬
‫﴿رضوان ہللا علیہم اجمعین﴾ کو کیا کچھ پیش نہیں کیا تھا مگر اُنہوں نے کہا کہ‪: ‬‬
‫’’ہمیں بازار کی راہ ِدکھأو‪ ،‬ہم اپنے ہاتھ سے محنت کر لیں گے‘‘‬
‫٭ معاشرے سے جہیز سے خالصی کے نیک اور بلند مقصد کام ک و پ ایہ تکمی ل‬
‫تک پہنچانے کے لئے خانقاہی نظام اپنا بھر پور ک ردار ادا ک ر س کتا ہے کی ونکہ‬
‫شیوخ طریقت کی عزت و اکرام ک رتے ہیں اور ان کی ب ات مانن ا اپ نے‬
‫ِ‬ ‫عام آدمی‬
‫لئے باعث فخر سمجھتے ہیں ل ٰہذا خانقاہی نظام سے وابستہ افراد کو اس رسم کے‬

‫‪11‬‬
‫خالف پ رزور تحری ک چالنے کی ض رورت ہے الحم د ہلل درب ار ع الیہ ُس لطان‬
‫العارفین حضرت سخی سلطان باھو(رح) رحمۃ ہللا علیہ سے نسبت خاص رکھنے‬
‫والی اصالحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین اس تحریک کی داغ بی ل ڈال چکی‬
‫ہے اور اِس موضوع پہ بڑے پیمانے پہ انفرادی تربیّت کا اہتمام کیا گیا ہے۔‬
‫٭ یہ ذمہ داری معاشرے کے ہر طبقہ کے افراد جن میں وکالئ ‪ ،‬علمائ‪ ،‬فنک ار‪،‬‬
‫صحافی اور اساتذہ وغیرہ ش امل ہیں ان ک و جہ یز کے خالف مس تقل بنی ادوں پ ر‬
‫تحریک چالنے کی ضرورت ہے چاہے وہ چھوٹے پیمانے پ ر ہ و ی ا ب ڑی س طح‬
‫پر‪ ،‬معاشرے ک و اس تحری ک کی اش د ض رورت ہے‪ ،‬ت اکہ ہم جہ یزکے عف ریت‬
‫سے جان چھڑا سکیں صدیوں سے مروج اس بے ج ا رس م کے خ اتمہ یقین ا ات نی‬
‫آسانی سے نہیں ہ و گ ا لیکن اگ ر ہم اس کے خ اتمے کے ل ئے خل وص کے س اتھ‬
‫کمر ہمت باندھ لیں تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ مد ِد خدا شامل نہ ہو اور اس ط رح ہم‬
‫ِ‬
‫کچھ عرصے میں اپنی آنے والی نسلوں کو اس بے جا رسم سے نجات دال س کیں‬
‫گے۔‬
‫یاد رہے کہ جو لوگ بھی جہیز کے خالف اٹھ کھڑے ہوں گے ان کو وہ تمام پہلو‬
‫مدنظر رکھنے ہوں گے جن کو بنیاد بنا کر جہیز نہ لے کر آنے والی لڑکی وں ک و‬
‫ذہنی اذیت کا شکار بنایا جاتا ہے ان باہمت لڑکوں اور ان کے خاندانوں کو اپنا دل‬
‫کھال اور ذہن وسیع کرنے ہوں گے اور ایسی بہادر خاتون جو جہیز نہ ال کر ایک‬
‫نئی اور عمدہ مثال قائم کرنے چلے گی اس کی ہر سطح پر م دد کرن ا ہ و گی اور‬
‫یقینا ً اس کی روک تھام کا زیادہ اثر اِس بات میں ہو گا کہ ل ڑکے کے گھ ر وال وں‬
‫کی طرف سے جہیز نہ لینے کا اعالن و اعالم کیا ج ائے‪ ،‬کی ونکہ ق ری ِن انص اف‬
‫ب ثروت و خوشحال لوگ اگ ر اس کی‬
‫بھی یہی ہے خاص کر معاشرے کے صاح ِ‬
‫روایت ڈالیں گے تو سفید پوش اور کم ثروت کے لوگوں کے ل ئے تقلی د آس ان ہ و‬
‫جائے گی۔‬

‫‪12‬‬
‫٭ اگر جہیز کی بُرائی کو چھوڑ کر نکاح کو آسان نہ کر دیا گیا ت و معاش رہ مزی د‬
‫بے راہروی کا شکار ہو جائے گا لہٰ ذا اسالمی جمہوریّہ پاکستان کی حکومتوں کو‬
‫چاہیے کہ جہیز کی روک تھام کے لئے قوانین واض ح ک رے اور ان ک ا نف اذ بھی‬
‫کرائے حکومت ک و معاش رتی برائی وں کے خ اتمے کے ل ئے ای ک خ اص م ٔوثر‬
‫سکیم کا اجرا کرنا چاہیے کہ جو ان معاش رتی بیم اریوں کے س اتھ س اتھ ان س ے‬
‫جڑی دوسری معاشرتی برائیوں کے تدارک کا کام سر انجام دیں۔‬
‫بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جہ یز ای ک ش ہری ک ا ذاتی مع املہ ہے اِس ل ئے‬
‫حکومت مداخلت نہیں ک ر س کتی اُن کے ل ئے ع رض ہے کہ ش ادی ک ا وقت اور‬
‫طعام‪ ،‬یہ دونوں بھی تو شہریوں کے ذاتی معامالت ہیں مگر سنگل ڈش ک ا ق انون‬
‫اور رات دس بجے تک شادی کی تقریب بہر صورت ختم کرنے کا قانون بھی ت و‬
‫موجود ہیں اور حکومت شہریوں کے ذاتی معامالت میں مداخلت کر رہی ہے ل ٰہذا‬
‫اصالح عوام اور نامعقول و فضول روایات و رسومات کے خاتمے کے لئے اگ ر‬
‫ِ‬
‫حکومت ایسے معامالت میں مداخلت کرے گی تو اس س ے ع ام ش ہریوں ک ا بھال‬
‫ہی ہو گا۔‬
‫٭ صاحبان علم و شعور کو چاہیے کہ وہ جہیز اور جہ یز جیس ی دوس ری بے ج ا‬
‫رسموں کے خالف آواز بلند کریں ت اکہ جہ یز کی رس م پ ر اور اس ذہ نیت پ ر کہ‬
‫جس میں سمجھا جاتا ہے کہ جہیز کے بنا۔‬

‫‪13‬‬

You might also like