Professional Documents
Culture Documents
1
انج ام دہی ممکن ہے لیکن افس وس کہ اب ان کے بن ائ ۹۹ فیص د ش ادیاں نہیں
ہوتیں چاہے قرض لے کر ہی ان رسومات کو ادا کیا جائے ،لیکن کیا ضرور جاتا
ہے
بحیثیت مسلمان ہمیں شادی یا نکاح کو آسان سے آسان تر بنانا چاہیے کیونکہ ن بی
آخ ر الزام اں ﴿ ﴾wک ا حکم اور اس الم کی منش ائ بھی یہی ہے لیکن معاش رہ اس
برائی میں اس قدر ڈوب چکا ہے کہ ان غیر ض روری اور بے ج ا اص راف س ے
بھر پور رسومات کی ادائیگی کے بغ یر ش ادی ہون ا ممکن نہیں ہ وتی اگ ر ک وئی
صاحب فہم و فراس ت ان رس ومات کے خالف آواز اٹھ ائے ت و بہت س ے غ ریب
خاندان جو ان رسومات کی بجا آوری کی سکت نہیں رکھتے اور ایسے بہت سے
باشعور اف راد ج و ان رس ومات ک و غ یر ض روری س مجھتے ہیں وہ چ اہنے کے
باوجود بھی ان رسومات کی مخ الف آواز میں اپ نی آواز نہیں مال س کتے کی ونکہ
ان پر خاندان کی جانب سے دبائو اور برادری میں اپ نی ن اک اونچی رکھ نے کی
مجبوری کی بنا پر اس بے جا اصراف سے بھر پور رسومات کی انجام دہی کرنا
پڑتی ہے ان رسومات میں س ے جہ یز وہ رس م ہے جس پ ر اخراج ات س ب س ے
عصر
ِ زیادہ اٹھنے کے ساتھ ساتھ معاشرے پر منفی اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں
حاضر میں جہیز کی رسم انفرادی نہیں اجتماعی معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے۔
جہیز کی شرعی حیثیت:
جہیز کوسنت قرار دینے کے لئے اکثر جس بات کا ح والہ دی ا جات ا ہے وہ س یدہ،
طیبہ ،طاہرہ ،خاتو ِن جنت ﴿ ﴾kکے نکاح کے موقع پر سید ِکائنات ﴿ ﴾wک ا آپ ﴿﴾k
ازواج مطہ رات ﴿﴾l
ِ ک و س امان عن ائت ک رنے ک ا واقعہ ہے بعین ہی آپ ﴿ ﴾wکی
بھی اپنے ساتھ جہیز کے نام پر کوئی سامان نہیں لے آئیں ما س وائے اُم الموم نین
حضرت اُم حبیبہ ﴿ ﴾kکے ،جن کا نک اح س رور ک ونین ﴿ ﴾wکے س اتھ حبش ہ کے
فرمانروا نے پڑھایا اور حضور اکرم ﴿ ﴾wکی جانب سے مہ ر کی رقم ادا ک رنے
2
کے س اتھ حض رت اُم ح بیبہ ﴿ ﴾kک و حبش ہ کی روای ات کے مط ابق س امان اور
تحائف پیش کئے جس کو جہیز کا نام دیا جاتا ہے لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں
ہوتی کہ اسالم میں جہیز دینا یا لینا الزم ہے نیز حضرت اُم ح بیبہ ﴿ ﴾kک امہر ج و
چارہزاردرہم تھا وہ رسول ہللا ﴿ ﴾wنے مقرر نہیںکیا تھا بلکہ نجاشی نے مقرر کیا
تھا۔
,وداود ،رقم الح,دیث ۶۰۱۲ :س,,نن
﴿سنن ترمذی ،رقم الح,,دیث ۷۱۱۱ :س,,نن ابْ ,
نِس,,ائی ،رقم الح,,دیث ۹۴۳۳:مس,,نداحمد ،ج ،۱:ص ،۰۴:المس,,تدرک ،ج ،۲:ص:
،۲۷۱جامع االصول ،رقم الحدیث﴾۲۸۹۴:
المرتضی ﴿ ﴾hکے موقعٔہ نکاح پ ر
ٰ اسی طرح خاتون جنّت ﴿ ﴾kاور حضرت علی
جو س امان دی ا گی ا اس کی روداد کچھ اس ط رح ہے کہ حض رت اب و ط الب کے
انتقال کے بع د حض رت علی ﴿ ﴾hکی س ر پرس تی آنحض ور ﴿ ﴾wنے کی کی ونکہ
حضرت علی ﴿ ﴾hآنحضور ﴿ ﴾wکے زی ر کف الت تھے لہ ذا ض روریات ک و پ ورا
کرنا بھی حضور ﴿ ﴾wنے اپنے ذمہ لیا ہوا تھا زیر کف الت ہ ونے کے ب اعث آپ ﴿
﴾wحضرت علی ﴿ ﴾hکو اپنے ساتھ رکھتے اور ان کی ضروریات کا پ ورا خی ال
رکھتے اور ہر طرح کی دیکھ بھال فرماتے یہ اں ت ک کہ جب حض رت علی ﴿﴾h
جوان ہو گئے تو آپ ﴿ ﴾wنے اپنی ص احبزادی ک ا نک اح بھی حکم الہی کے تحت
آپ ﴿ ﴾hکے ساتھ ک ر دی ا اور جب رخص تی ک ا وقت آی ا ت و بہ ط ور س ر پرس ت
ضروریات زندگی کے لئے چندچیدہ چی دہ اش یائ ک ا انتظ ام بھی آپ نے کی ا جس
کی تفصیل یہ ہے کہ:
’’ سید کائن ات ﴿ ﴾wنے حض رت علی ﴿ ﴾hس ے قب ل از نک اح دری افت فرمای ا کہ
تمہ ارے پ اس کی ا کچھ ہے انہ وں نے ج واب دی ا کہ ای ک گھ وڑا اور ای ک زرہ
میرے پاس مو جود ہے آپ ﴿ ﴾wنے فرمایا گھوڑا تو تمہارے ل ئے ض رورت کی
بہت اہم چیز ہے البتہ ذرہ بیچ کر اس کی قیمت لے آئو حضرت علی ﴿ ﴾hنے اپنی
3
ذرہ فروخت کر دی اور رقم لے ک ر آپ ﴿ ﴾wکی خ دمت میں حاض ر ہ وئے آپ ﴿
﴾wنے حضرت بالل ﴿ ﴾hاور حضرت انس ﴿ ﴾hکی وال دہ اُم س لیم ﴿ ﴾kاور ک و یہ
رقم گھریلو ضروریات کے انتظام کے لئے کو عن ایت کی‘‘ ﴿ش رح ام ام زرق انی
علی المواہب اللدنیہ﴾
ایک اور روایت میں آتا ہے:
مجاہد بیان کرتے ہیںکہ حضرت علی اب ِن ابی ط الب﴿ ﴾hنے فرمایارس ول ہللا ﴿﴾w
نے مجھے لوہے کی ایک زرہ عطا فرمائی تھی آپ ﴿ ﴾wنے اس زرہ کے عوض
میرا حضرت فاطمہ(رض) سے نک اح کردی ا اور فرمای ا یہ زرہ ف اطمہ کے پ اس
بھیج دو بہ خدا اس کی قیمت چار سو اور کچھ درہم تھی‘‘
﴿مسند ابو یعلی رقم الحدیث ،۹۹۴:مسنداحمد،ج،۱:ص﴾۰۸:
حضرت بالل ﴿ ﴾hاور اُم سلیم ﴿ ﴾kنے درج ذیل چیزیں ،س ونے کے ل ئے ب ان کی
ایک چ ار پ ائی ،کھج ور کی پ تیوں س ے بھ را ہ و اچم ڑے ک ا گ دا ،پ انی کے دو
مش کیزے اور چکی ک ا انتظ ام کی ا یہی وہ ک ل س امان تھے جس ک و آپ ﴿ ﴾wنے
حض رت علی ﴿ ﴾hکی رقم س ے انتظ ام فرمای ا اب یہ ب ات روز روش ن کی ط رح
عیاں ہو گئی کہ حضرت فاطمہ ﴿ ﴾kکو جو اشیائ ِضرورت عط ا کی گ ئیں وہ آپ
﴿ ﴾wنے اپنی طرف سے نہیں دیں بلکہ زوجین کی وق تی ض رورتوں ک و ملح وظ
رکھتے ہوئے آنحضور ﴿ ﴾wنے حضرت علی ﴿ ﴾hہی کی رقم سے اس ک ا انتظ ام
فرمایا تھا اور کیوں نہ فرماتے جب کہ آپ ﴿ ﴾wہی دونوں طرف س ے م ربی اور
بچپن سے پرورش کرتے چلے آرہے تھے۔
اسالم دین فطرت ہونے کے باعث انسانوں کے لئے باعث رحمت اور آسانیاں پیدا
کرنے واال ہے لیکن اس بات ک و م دنظر رکھ تے ہ وئے معاش رے میں جہ یز کی
روایت کو سنت کے ن ام پ ر الزم نہیں ق رار دی ا ج ا س کتا ،لیکن جہ یز ک و بالک ل
شرعی طور پر ناجائز بھی نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ ہ ر ش ادی کے موق ع پ ر
4
صورتحال مختلف ہوتی ہے اس کو مدنظر رکھ ک ر فیص لہ کرن ا چ اہیے موج ودہ
وقت میں صورتحال یہ ہے کہ رشتہ ازواج میں منسلک ہونے س ے پہلے ع ورت
ٰ
تقوی کے شرف و قرابت کی دیانتداری ،حسن و جمال ،اخالق و سیرت اور علم و
صنف نازک کو ترجیح دی جاتی ہے جہاں
ِ کو پس پُشت ڈال کر عق ِد نکاح میں اُس
سے بے تحاشا جہیز کی صورت میں بے محنت مال ٹھال حاصل ہ ونے کی توق ع
ہو۔
ایسا رشتہ جو مال و دولت کی بنا ئی پر وجود میں آئے ی ا ج و رش تہ محض چن د
قیمتی اشیا کی بنیاد پر قائم ہوا ہو اس پر کیسے پیار اور محبت کی عمارت کھڑی
ہو سکتی ہے؟ وہ تعلق جو کہ خالصتا ً نفسیاتی و روح انی ہ و اُس کی بنی اد محض
مال ٹھال کے اللچ پر رکھنا کسی سمت س ے درس ت نہیں اس ض من میں ہم ارے
اسالف نے ہماری کیا رہنمائی فرمائی ،اس کا اندازہ ان کے قول و فعل س ے ہوت ا
ہے جس کے مطابق امام غزالی رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’ یہ چیز نہایت مذموم ہے کہ مرد عورتوں کی دولت پ ر نظ ر رکھے اور زی ادہ
جہ یز کی اللچ ک ریں ،ای ک اور جگہ فرمای ا کہ نک اح ،نک اح ہون ا چ اہیے نہ کہ
تجارت و جوا‘‘
﴿احیائ علوم ،ج ،۲:کتاب آداب نکاح ،ص﴾۶۵:
حضرت سفیان ثوری رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں کہ:
’’جب کوئی نکاح کرنے واال شخص یہ معلوم کرے کہ اس کی بیوی کیا الئی ہے
﴿جہیز کا سامان اور دولت﴾ تو یہ سمجھ لو کہ وہ شخص چور ہے‘‘
﴿احیائ علوم ،ج ،۲:کتاب آداب نکاح ،ص﴾۶۵:
اَسالف کے اقوال سے ہم یہ نتیجہ اخ ذ ک ر س کتے ہیں کہ اس المی معاش رے میں
جہیز کی نہ کوئی اصلیت ہے نہ حقیقت ،بلکہ یہ معاشرے کے ل ئے ای ک ناس ور
ہے جو معاشرے کو کھ و کھال کرت ا چال ج ا رہ ا ہے کی ونکہ وال دین کی خ واہش
5
ہ وتی ہے کہ وہ اپ نی بی ٹی ک و محبت اور ش فقت کے اظہ ار کے ل ئے اش یائ
ضرورت دیں اور بیٹی یا بہن خود بھی ماں باپ سے فرمائش کا پیدائشی ح ق ہے
اگرچہ اس کو مطالبے کے وقت اپنے ماں باپ کی حیثیت کا خی ال رکھن ا چ اہیے
یہ ایک الگ معاملہ ہے مگ ر یہ کہ ہ ونے واال دام اد اور ان کے گھ ر وال وں ک و
کہاں سے حق پہنچتا ہے کہ وہ لڑکی یا ان کے وال دین س ے جہ یز طلب ک ریں ی ا
کسی قسم کا نامناسب و ناروا سوال کریں
یہ مہذب قسم کی بھیک ہے جس کو رسم و رواج کا لب ادہ پہن ا ک ر ہم ارا معاش رہ
قبول کر رہا ہے۔
معاشرتی اثرات:
جہیز کسی نہ کسی صورت میں تقریب ا تم ام دنی ا میں مختل ف رس وم و رواج کے
ساتھ موجود ہے اگر تاریخ کا ج ائزہ لی ا ج ائے ت و پ رانی تہ ذیبوں میں بھی رس م
جہیز کے شواہد ملتے ہیں اسی طرح ماضی ق ریب میں چین ،اف ریقہ اور ام ریکہ
میں جہیز دینے کا کلچر صاف نظر آت ا ہے موج ودہ دور میں ام ریکہ اور ی ورپ
میں ت و یہ رس م تقریب ا ً م تروک ہ و چکی ہے لیکن جن وبی ایش یا ،ای ران ،ت رکی،
افغانستان ،سنٹرل ایشیا ،م راکش وغ یرہ میں ابھی بھی مختل ف رس وم ورواج کے
ساتھ جاری ہے جہ یز کہیں ل ڑکے وال وں کی ط رف س ے دی ا جات ا ہے اور کہیں
لڑکی والوں کی ط رف س ے پاکس تان میں دون وں روای ات موج ود ہیں لیکن ث انی
الذکر کا چرچا زیادہ ہے جہیز کے نام پر کی گئی ڈیمان ڈ ک و پ ورا ک رتے غ ریب
آدمی کی کمر دہری ہو جاتی ہے بعض اوقات جہیز نہ ہونے کی بنا پر غ ریب کی
بیٹی کے سر میں چاندی واضح ہو جاتی ہے لیکن معاشرہ میں چھپے اس درد ک ا
مداوا کرنے کو کوئی تیار نہیں۔
ایشئین اکنامک اینڈ فنانشل ریویو کے مط ابق کے مط ابق ’’ %57.8م ڈل کالس،
لوئر کالس , %16.8اور ایلیٹ کالس %25.5جہیز لینے اور دینے کی پ ریکٹس
6
میں مشغول ہے پاکستان میں تقریب ا %95.5ش ادیوں میں جہ یز ک ا لین دین کی ا
جاتا ہے‘‘ لیکن م یرے ذاتی خی ال میں یہ ع دد پچ انوے کی بج ائے نن انوے ہون ا
چاہیے۔
جہ یز کی روایت روز ب روز بڑھ تی ج ا رہی ہے اور جہ یز میں دی ج انے والی
اش یائ میں بھی بہت زی ادہ اض افہ دیکھ نے میں آ رہ ا ہے اس کے س اتھ س اتھ ان
اشیائ کی نمائش کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اہل محلہ اور رشتہ داروں
کو بطور خاص مدعو کیا جاتا ہے تاکہ وہ جہیز میں دیے جانے والے س امان ک و
دیکھ لیں اس کام میں عموما خ واتین زی ادہ دلچس پی رکھ تی ہیں اور نس بتا ً ان ک ا
رجحان اور یاداشت گھریلو اس تعمال کی چ یزوں اور ک پڑوں کے پ رنٹ اور کل ر
وغیرہ کے بارے میں تیز ہوتی ہے کہ کب ،کہ اں اور کس موق ع پ ر کس نے کی ا
چیز لی یا پہنی تھی۔
اس کو ذہن میں رکھ کر خواتین اپنی بی ٹیوں ک و ی ا لڑکی اں خ ود زی ادہ جہ یز ک ا
مطالبہ کرتی ہیں کہ کم از کم فالں سے تو زیادہ س امان ہون ا چ اہیے آخ ر خان دان
اور معاشرے میں ہماری عزت ہے اپنی ناک کو اونچا کرنا کے لئے بوڑھے باپ
اور جوان بھائی کی کمر کتنی جھک رہی ہے جہیز کے مطالبے پورا کرنے کے
لئے س ود ی قرض ے ت ک اٹھ انے س ے گری ز نہیں کی ا جات ا اور پھ ر ان س ودی
قرضوں کو ادا کرنے کے لئے عمریں بیت جاتی ہیں ،لوگوں کو اپنے گھر گروی
رکھنے پڑتے ہیں مگر یہ موذی عذاب پیچھا نہیں چھوڑتا۔
وراثت اور جہیز:
جہیز لینے دینے کے معامالت میں صرف عورتوں ک و م ورد ال زام نہیں ٹھہرای ا
جا سکتا بلکہ اس شریکہ داری میں مرد حض رات بھی کس ی س ے کم نہیں ہ وتے
بلکہ شہ دیتے نظر آتے ہیں کہ اگر اتنا جہیز فالں نے دیا تھا تو ہم ان س ے زی ادہ
دیں گے وغ یرہ وغ یرہ اس کے س اتھ س اتھ وراثت ج و کہ ای ک ش رعی ح ق ہے
7
عورت کو اس سے محروم رکھ ا جات ا ہے اس بنی ادی اور ض روری بلکہ ف رض
عمل کی ادائیگی کے لئے نہ تو کوئی روایت بنی اور نہ ہی کوئی جذبہ جاگا بلکہ
اگر کوئی شخص خشیت ٰالہی کو مدنظر رکھ کر اپنی بیٹیوں بہنوں کو جائیداد میں
حصہ دیتا ہے تو خاندان کے سب سیانے بشمول ع ورتیں اس ک و س مجھانے پہنچ
جاتے ہیں کہ بھائی یہ کیا کام کر رہے ہو ،ایسا مت کرواپنے پاوں پر کلہاڑی مت
مارو اور خاندان میں نئی روایات کی داغ بیل مت ڈالو
اگر تمھیں زیادہ ہی شوق ہے عورتوں کو حصہ دینے کا ت و جہ یز کی مق دار میں
اضافہ کر دین ااس ط رح ج و تم نے وراثت میں دین ا ہے وہ جہ یز میں دے دو اس
ط رح جہ یز آہس تہ آہس تہ وراثت ک ا نعم الب دل بن گی ا پہلے ت و بی ٹی کے ذہن میں
دوران تربیت سوشیالوجی کی اصطالح میں ’’پدر سری‘‘ معاشرے کے اصول و
ضوابط کے تحت یہ بٹھا دیا جاتا ہے کہ اس نے جائی داد میں حص ہ نہیں لین ا لہ ذا
وہ ’’اچھی بی ٹی‘‘ بن کرخ ود ہی اپ نے حص ے س ے دس تبردار ہ و ج اتی ہے
دوسرے حصے میںاگر کوئی بی ٹی ی ا بہن ج رٔات ک ر کے وراثت میں اپن ا حص ہ
طلب کر ہی لے تو اس کا سوشل بائیکاٹ کردیا جاتا ہے ساتھ ہی یاد کروای ا جات ا
ہے کہ شادی کو موقع پ ر تمھیں ج و اتن ا جہ یز دی ا گی ا تھ ا وہ اس ی ل ئے تھ ا کہ
وراثت میں تمھارا حصہ نہیں ہو گا
اس دبائو میں آ کروہ اپنے مطالبے سے دستبردار ہو ک ر پھ ر’’ راہ راس ت‘‘ پ ر
آجاتی ہے اور خاندان بھی اسے صبح کا بھوال شام کو گھر آجائے تو اس ے بھ وال
نہیں کہتے کے مصداق معاف کر دیتا ہے یوں اس سے تعلقات بحال ہو جاتے ہیں
لیکن اتنی احتیاط البتہ ضرور برتی جاتی ہے کہ خاندان کی کم عم ر لڑکی وں ک و
اس کی صحبت سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ ان کے دیدوں ک ا پ انی خش ک نہ ہ و
یعنی وہ وراثت میں اپنے حق کی بات نہ کریں اس کے بعد بھی اگر کوئی بیٹی ی ا
بہن نہ مانے اور حق وراثت کے حصول کے لیے آخری حد تک جانے کے ل ئے
8
تیار ہو تو اس کو جائیداد میں حصہ تو مل جاتا ہے لیکن وہ اِس حق ک و پ انے کی
کیا سزا پاتی ہے اور اُس بیچاری پہ کیا بیتتا ہے یہ وہی محس وس ک ر س کتی ہے
عموما ً معاشرے میں یہ رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
اِس بہأو میں اچھے برے سب کو رگڑ دینا مناسب نہیں ہوگا ،یہ اں اُن نی ک طینت
خراج تحس ین پیش کی ا جان ا چ اہئے ج و خان دان
ِ اور با انصاف لوگوں کو ضرور
کے طعنے جھگڑے سہہ ک ر بھی اپ نی بی ٹیوں اور بہن وں ک و الزم ا ً ح ِّ
ق وراثت
دیتے ہیں شاید ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے معاشرے میں اچھائی ن ام کی ک وئی
چیز موجود ہے معاشرے کا فرض ہے کہ ایس ے لوگ وں کی حوص لہ اف زائی کی
جائے تاکہ باقی لوگ بھی اُن سے سیکھ سکیں کی ونکہ جتن ا زی ادہ مثبت رویّہ ک ا
پرچار کیا جائے گا لوگ اتنا زیادہ مثبت سوچ کو اختیار کریں گے
لیکن یہاں یہ حقیقت ذہن سے نہیں نکالنی چاہئے کہ ایسے اچھے لوگوں کی تعداد
آٹے میں نمک کے برابر ہے یہ اندازہ اِ س ام ر س ے بھی لگای ا ج ا س کتا ہے کہ
پاکستان میں کل زمین کی ملکیت کا صرف %1حص ہ خ واتین کے ن ام ہے ب اقی
خواتین کو یا تو وراثت میں حصہ س رے س ے ملت ا ہی نہیں ی ا جہ یز کے ن ام پ ر
ٹرخا دیا جاتا ہے۔
اکثر یہ بھی دیکھنے میں آ یا ہے کہ بوقت شادی جہیز طلب کیا جاتا ہے ی ا ش ادی
کے کچھ عرصے کے بعد لڑکی کو اس کے ماں باپ کے گھر بھیج دی ا جات ا ہے
کہ اگر اس گھر میں رہنا ہے تو اپنے والد سے فالں فالں چیز مانگو یہ بھی جہیز
کی ہی ایک قسم ہے اس مانگ کو اگر ہم ’’جبری بھیک‘‘ اور مانگنے والے ک و
’’ غیرت سے ناآشنا بھکاری‘‘ کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
9
جہیز دینے سے جہاں معاشرے میں ای ک اب تری کی س ی ص ورتحال درپیش ہے
اسی طرح جہالت کے باعث جہیز نہ دینے کے بھی چند نقص انات ہیں س ب س ے
پہلے تو جس لڑکی کو ماں باپ جہیز نہ دے سکیں اس کے اپنے دل میں اپ نی ن ا
قدری کا احساس جاگتا ہے ،جذباتی طور پر وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا ش کار ہ و
جاتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق وہ خ واتین جن ک و ماض ی میں اپ نے م اں
باپ سے جہیز نہیں مال ہوتا وہ اپنی بیٹیوں کو زیادہ جہیز دینا چاہتی ہیں اس سے
اپنے کمی کے احس اس ک ا ازالہ ک رنے کی کوش ش ک رتی ہیں ج و لڑکی اں زی ادہ
جہیز کے ساتھ میکے سے سسرال رخصت ہوتی ہیں ان کو عموما ً عزت اور قدر
و منزلت کی نگاہ سے دیکھ ا جات ا ہے لیکن اس کے ب رعکس ج و لڑکی اں زی ادہ
جہیز کے ساتھ رخصت نہیں ہو پاتیں ان کو سس رال میں مش کالت ک ا بھی س امنا
کرنا پڑتا ہے۔
حتی کہ بہت سی خواتین ظلم سہتے سہتے اتنی تنگ پ ڑ ج اتی کہ خ ود کش ی ک ر
بیٹھیں اور بہت سی خواتین کو قتل تک کروا دیا گیا ایسے بہت س ے کیس روزانہ
کی بُنیاد پہ منظر عام پر آ تے رہتے ہیں اور رجسٹرڈ بھی ہ و تے ہیں لیکن ای ک
ب ڑی تع داد ایس ی بھی ہے جن ت ک متعلقہ محکم وں ی ا اداروں کی رس ائی ممکن
نہیں ہو سکی پاکستان میں ہر سال تقریبا دو ہ زار خ واتین کم جہ یز النے کی وجہ
سے موت کا سامنا کرتی ہیں۔
( Subhani, D., Imtiaz, M., & Afza, S. (2009). To estimate an
)equation explaining the determinants of Dowry
ملک میں ایس ی ص ورتحال ک و دیکھ تے ہ وئے وال دین اپ نی بی ٹیوں کی ج ان کی
حفاظت کی خاطر بھی انہیں زیادہ جہیز دیتے ہیں
اِسی طرح ایسے س فید پ وش ل وگ جن کی بیٹیوںک ا رش تہ دولت من د خان دان میں
رشتہ ہو جائے تو وہ اپنی عزت و سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے بھی زیادہ
10
مقدار میں اور زیادہ قیمتی جہ یز دی تے ہیں اُس کے ل ئے اُنہیں چ اہے ق رض لین ا
پڑے یا اپنی کوئی ملکیّت وغیرہ بیچنی پڑے۔
اصالح احوال اور جہیز سے نجات کے لئے تجاویز:
٭ فرم ان ِ رس ول ﴿ ﴾wہے کہ حکمت م ومن کی گمش دہ م یراث ہے آج اگ ر ہم
مغربی معاشروں کی طرف نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں سے جہیز دینے
اور ڈیمانڈ کرنے کی رسم اس طرح غائب ہوئی ہے کہ جیسے وہاں کبھی تھی ہی
نہیں ہم اری ن اقص رائے میں اس کی وجہ مغ رب میں تعلیم ک ا ع ام ہون ا ہے،
س روے رپ ورٹس کے مط ابق مغ رب میں یونیورس ٹیز اور الئ بریریز کی تع داد
ث
ہمارے مقابل بہت زیادہ ہے اگ ر ہم ان کے اس اچھے چلن ک و اپن ا لیں ت و ح دی ِ
رسول ﴿ ﴾wکی روشنی میں بھی کوئی مضائقے والی بات نہیں۔
لہٰ ذا اپنے معاشرے کو اس بیمار ذہنیت سے بچانے کے ل ئے مل ک میں تعص بات
اور دوہرے معیارات سے پاک تعلیم کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے اس لئے
اصالح احوال کے لئے تعلیم کا عام ہونا الزم ہے تاکہ ہر آدمی خود داری کا سبق
ِ
سیکھ لے اور اپنے پاوں پر خود کھڑا ہو اور کسی پر اضافی بوجھ نہ بنے ،اپنے
گھر کو خود بنائے اور سنوارے ،نہ کہ کس ی کی بہن ،بی ٹی ک ا ش وہر ہ ونے کی
حیثیت کا ناج ائز فائ دہ اٹھ اتے ہ وئے اپ نے سس رال وال وں ک و بلی ک می ل ک رے
ت مدینہ کے م وقعہ پہ انص اری ص حابہ ک رام نے مہ اجرین ص حابہ ک رام
مواخا ِ
﴿رضوان ہللا علیہم اجمعین﴾ کو کیا کچھ پیش نہیں کیا تھا مگر اُنہوں نے کہا کہ:
’’ہمیں بازار کی راہ ِدکھأو ،ہم اپنے ہاتھ سے محنت کر لیں گے‘‘
٭ معاشرے سے جہیز سے خالصی کے نیک اور بلند مقصد کام ک و پ ایہ تکمی ل
تک پہنچانے کے لئے خانقاہی نظام اپنا بھر پور ک ردار ادا ک ر س کتا ہے کی ونکہ
شیوخ طریقت کی عزت و اکرام ک رتے ہیں اور ان کی ب ات مانن ا اپ نے
ِ عام آدمی
لئے باعث فخر سمجھتے ہیں ل ٰہذا خانقاہی نظام سے وابستہ افراد کو اس رسم کے
11
خالف پ رزور تحری ک چالنے کی ض رورت ہے الحم د ہلل درب ار ع الیہ ُس لطان
العارفین حضرت سخی سلطان باھو(رح) رحمۃ ہللا علیہ سے نسبت خاص رکھنے
والی اصالحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین اس تحریک کی داغ بی ل ڈال چکی
ہے اور اِس موضوع پہ بڑے پیمانے پہ انفرادی تربیّت کا اہتمام کیا گیا ہے۔
٭ یہ ذمہ داری معاشرے کے ہر طبقہ کے افراد جن میں وکالئ ،علمائ ،فنک ار،
صحافی اور اساتذہ وغیرہ ش امل ہیں ان ک و جہ یز کے خالف مس تقل بنی ادوں پ ر
تحریک چالنے کی ضرورت ہے چاہے وہ چھوٹے پیمانے پ ر ہ و ی ا ب ڑی س طح
پر ،معاشرے ک و اس تحری ک کی اش د ض رورت ہے ،ت اکہ ہم جہ یزکے عف ریت
سے جان چھڑا سکیں صدیوں سے مروج اس بے ج ا رس م کے خ اتمہ یقین ا ات نی
آسانی سے نہیں ہ و گ ا لیکن اگ ر ہم اس کے خ اتمے کے ل ئے خل وص کے س اتھ
کمر ہمت باندھ لیں تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ مد ِد خدا شامل نہ ہو اور اس ط رح ہم
ِ
کچھ عرصے میں اپنی آنے والی نسلوں کو اس بے جا رسم سے نجات دال س کیں
گے۔
یاد رہے کہ جو لوگ بھی جہیز کے خالف اٹھ کھڑے ہوں گے ان کو وہ تمام پہلو
مدنظر رکھنے ہوں گے جن کو بنیاد بنا کر جہیز نہ لے کر آنے والی لڑکی وں ک و
ذہنی اذیت کا شکار بنایا جاتا ہے ان باہمت لڑکوں اور ان کے خاندانوں کو اپنا دل
کھال اور ذہن وسیع کرنے ہوں گے اور ایسی بہادر خاتون جو جہیز نہ ال کر ایک
نئی اور عمدہ مثال قائم کرنے چلے گی اس کی ہر سطح پر م دد کرن ا ہ و گی اور
یقینا ً اس کی روک تھام کا زیادہ اثر اِس بات میں ہو گا کہ ل ڑکے کے گھ ر وال وں
کی طرف سے جہیز نہ لینے کا اعالن و اعالم کیا ج ائے ،کی ونکہ ق ری ِن انص اف
ب ثروت و خوشحال لوگ اگ ر اس کی
بھی یہی ہے خاص کر معاشرے کے صاح ِ
روایت ڈالیں گے تو سفید پوش اور کم ثروت کے لوگوں کے ل ئے تقلی د آس ان ہ و
جائے گی۔
12
٭ اگر جہیز کی بُرائی کو چھوڑ کر نکاح کو آسان نہ کر دیا گیا ت و معاش رہ مزی د
بے راہروی کا شکار ہو جائے گا لہٰ ذا اسالمی جمہوریّہ پاکستان کی حکومتوں کو
چاہیے کہ جہیز کی روک تھام کے لئے قوانین واض ح ک رے اور ان ک ا نف اذ بھی
کرائے حکومت ک و معاش رتی برائی وں کے خ اتمے کے ل ئے ای ک خ اص م ٔوثر
سکیم کا اجرا کرنا چاہیے کہ جو ان معاش رتی بیم اریوں کے س اتھ س اتھ ان س ے
جڑی دوسری معاشرتی برائیوں کے تدارک کا کام سر انجام دیں۔
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ جہ یز ای ک ش ہری ک ا ذاتی مع املہ ہے اِس ل ئے
حکومت مداخلت نہیں ک ر س کتی اُن کے ل ئے ع رض ہے کہ ش ادی ک ا وقت اور
طعام ،یہ دونوں بھی تو شہریوں کے ذاتی معامالت ہیں مگر سنگل ڈش ک ا ق انون
اور رات دس بجے تک شادی کی تقریب بہر صورت ختم کرنے کا قانون بھی ت و
موجود ہیں اور حکومت شہریوں کے ذاتی معامالت میں مداخلت کر رہی ہے ل ٰہذا
اصالح عوام اور نامعقول و فضول روایات و رسومات کے خاتمے کے لئے اگ ر
ِ
حکومت ایسے معامالت میں مداخلت کرے گی تو اس س ے ع ام ش ہریوں ک ا بھال
ہی ہو گا۔
٭ صاحبان علم و شعور کو چاہیے کہ وہ جہیز اور جہ یز جیس ی دوس ری بے ج ا
رسموں کے خالف آواز بلند کریں ت اکہ جہ یز کی رس م پ ر اور اس ذہ نیت پ ر کہ
جس میں سمجھا جاتا ہے کہ جہیز کے بنا۔
13