You are on page 1of 4

‫س مزاح اور خوش طبعی‬ ‫ح ِ‬

‫دین انس انیت ہے‪،‬جس میں انس ان کے م زاج کی‬ ‫اس الم دین فط رت اور ِ‬
‫پوری رعایت رکھی گئی ہے۔مزاح اور خوش طبعی یا مذاق اور دل لگی‬
‫الی نے تقریب ا ً ہ ر انس ان میں‬
‫ای ک ایس ی پُرکی ف کیفیت ہے ج و ہللا تع ٰ‬
‫ودیعت فرم ائی ہے۔ یہ ال گ ب ات ہے کہ یہ م ادہ کس ی میں کم ت و کس ی‬
‫میںزیادہ رکھا ہے‪ ،‬سرور و انبساط کے موقع پر انسان س ے بک ثرت اس‬
‫ت خداون دی ہے۔ ج و‬ ‫کا ظہور ہوت ا رہت ا ہے۔ بالش بہ‪ ،‬یہ ای ک عظیم نعم ِ‬
‫دلوں کی پژمردگی کو دور کرکے انہیں سرور و انبساط کی کیفیت س ے‬
‫ہمکنار کرتی ہے۔‬
‫مزاح اور دل لگی انس انی فط رت ک ا ای ک الزمی حص ہ ہے‪ ،‬ج و خ ود‬
‫خ الق ومال ک نے اس میں ودیعت فرمای ا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہ ر ف ر ِد‬
‫بشر میں یہ وصف پایاجاتا ہے۔ ج و ش خص اس عط ائے ٰالہی ک وبروئے‬
‫منافع عظیمہ حاص ل‬ ‫ِ‬ ‫کار التا ہے‪ ،‬وہ صحیح معنی میں فوائ ِد کث یرہ اور‬
‫کرتا ہے۔ چنانچہ تج ربہ ش اہد ہے کہ ج و ش خص اس س ے اس تفادہ نہیں‬
‫کرتا‪ ،‬بلکہ بہ تکل ف اس ے دبات ا ہے۔ اپ نے اوپ ر وق ار اور س نجیدگی ک ا‬
‫مصنوعی خول چڑھا لیتاہے اوراپنے ٓاپ کو وق ار اور تمکنت ک ا مجس م‬
‫پیک ر بناکر لوگ وں کے س امنے پیش کرت ا ہے۔ اس ے مغ رور‪ ،‬متک بر‪،‬‬
‫بدمزاج‪ ،‬بدخلق‪ ،‬نک چڑھا جیسے القاب سے ن وازا جات ا ہے۔ ج و انس ان‬
‫اس نعمت خداوندی کو بروئے کارالتا ہے۔اہل دنیا اسے متواضع‪ ،‬منکسر‬
‫الم زاج‪ ،‬خ وش اخالق‪ ،‬خ وش طب ع‪ ،‬خ وش م زاج جیس ے الق اب س ے‬
‫نوازتے ہیں‪ ،‬اپنے متعلقین میں وہ بڑا ہی مقبول ومحبوب ہوتا ہے۔‪ ‬‬
‫دنیا میں وہ ہر د ل عزیز بن ک ر زن دگی بس ر کرت ا ہے ‪،‬کث یر تع داد میں‬
‫لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں ‪،‬نتیجتا ً اس کی ص الحیتوں اور اس تعداد‬
‫کو جال ملتی جاتی ہے اوراس کی قابلیت نکھر ک ر س امنے ٓاتی ہیں۔ یہی‬
‫وجہ ہے کہ انبی ائے ک رام علیہم الص ٰلوۃ والس الم بہ ہمہ وج وہ امت کے‬
‫فکر وغم میں مستغرق ہونے کے باوجود ان میں بھی ایک فط ری ج ذبہ‬
‫ہے۔ شریعت تمام امور میں اعتدال پس ند واق ع ہ وئی ہے‪ ،‬لہٰ ذا م زاح اور‬
‫خوش طبعی میں بھی اعتدال کو ملحوظ رکھا ہے۔ چنانچہ موقع اورمح ل‬
‫کی مناسبت سے مزاح اور دل لگی مباح بلکہ مستحب ہے۔‬
‫عالمہ نووی ؒفرماتے ہیں‪:‬جان ل و کہ م زاح وہ ممنوع ہے ج و ح د س ے‬
‫زیادہ ہو اور اس پر مداومت کی جائے کیونکہ یہ بہت زی ادہ ہنس نے اور‬
‫دل کے سخت ہونے کا باعث ہے‪ ،‬ذکر ٰالہی سے غافل کردیت اہے اور اہم‬
‫دینی امور میں غور وفکر سے باز رکھتا ہے۔ بسا اوقات ایذارسانی ت ک‬
‫پہنچاتا ہے۔ بغض وعناد پی دا ک رنے ک ا ب اعث بنت ا ہے‪ ،‬ج و ش خص ان‬
‫امور سے محفوظ ہوتو اس کے لئے مب اح ہے ‪،‬یہ عم ل خ ود رس ول ہللا‬
‫ﷺ نے کبھی کبھار کسی مصلحت کے پیش نظر مخاطب کو بے تکلف‬
‫ت مستحبہ ہے۔(مرق اۃ ج‪۸‬‬ ‫اور مانوس بنانے کے لئے انجام دیا اور یہ سن ِ‬
‫ص‪)۶۱۷‬‬
‫حارث سے مروی ہےکہ میں نے رسول ہللا ﷺ س ے‬ ‫ؓ‬ ‫حضرت عبدہللا بن‬
‫ت م زاح‬ ‫زیادہ کثیرالمزاح کسی ک و نہیں پای ا۔ چ ونکہ رس ول ہللا ﷺک ثر ِ‬
‫کے مفاسد سے محفوظ تھے ‪،‬ل ٰہذا ٓاپ کے لئے وہ مباح تھا۔‬
‫حض رت عم رہ بنت عب دالرحمن ؓفرم اتی ہیں کہ میں نے ام المٔوم نین‬
‫حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے دریافت کیا کہ جب حضور ﷺ گھر تشریف‬
‫التے تو حضور ﷺ کا طریقٔہ کار کیا تھا؟ٓاپ نے فرمای ا‪ٓ :‬اپ ک ا س لوک‬
‫عام لوگ وں کی ط رح تھااورحض ورﷺ س ب س ے زی ادہ ک ریم االخالق‬
‫ان‬
‫ِ‬ ‫تھے‪ ،‬ہنس تے اور مس کراتے بھی تھے ۔ لیکن ٓاپ ﷺکی ش‬
‫تبس م اعت دال اور می انہ روی‬‫ظرافت ‪،‬خوش طبعی‪،‬دل لگی اور دل ٓاویز ّ‬
‫ول اک رمﷺ نے‬ ‫ک ا مرقّ ع تھ ا۔حض رت عم ر ؓ س ے م روی ہے کہ رس ِ‬
‫کوۃ ص‬‫فرمایا‪،‬میں مزاح تو کرتا ہ وں ‪،‬لیکن ہمیش ہ س چ کہت ا ہ وں۔(مش ٰ‬
‫‪)۴۱۶‬‬
‫ت اقدس میں ٓاکر سواری کی درخواست کی‪ٓ ،‬اپﷺ‬ ‫ایک شخص نے خدم ِ‬
‫نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گ ا۔ وہ ش خص ح یران‬
‫ہوگیا‪ ،‬کیوں کہ وہ تو سواری کے لیے مفید نہیں ہوتا۔ عرض کیا یارسول‬
‫ہللاﷺ! میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا؟ ٓاپﷺ نے ارش اد فرمای ا‪:‬‬
‫کوئی اونٹ ایسا بھی ہوتا ہے جو اونٹنی کا بچہ نہ ہو! (شمائل ترمذی)‬
‫حض رت انسؓ س ے م روی ہے کہ رس ول ہللا ﷺ نے ان س ے فرمای ا‪ :‬اے‬
‫انس س ے ”اے‬ ‫والے۔(مشکوۃ ص‪)۴۱۶‬رسول ہللا ﷺ کا حضرت ؓ‬ ‫ٰ‬ ‫دوکان‬
‫دو کان والے“ کہنا بھی ظ رافت اور خ وش طبعی کے ط ورپر تھ ا اور‬
‫ظرافت کا یہ انداز تو ہمارے ع رف میں بھی رائج ہے‪ ،‬مثالً کبھی اپ نے‬
‫بے تکلف دوست یا ذہین طالب علم سے ناراضی کا اظہار اس ان داز میں‬
‫کیاجاتا ہے کہ ای ک چپت رس ید ک روں گ ا ت و تمہ ارا س ر دوک انوں کے‬
‫درمیان ہوجائے گا۔ حاالنکہ وہ پہلے سے وہیں پر ہوتا ہے۔‬
‫انس حضور ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ٓاپ نے ایک بوڑھی‬ ‫حضرت ؓ‬
‫عورت سے فرمایاکہ بڑھی ا جنت میں داخ ل نہیں ہ وگی۔ اس نے ع رض‬
‫کیا ‪،‬بوڑھی کے لئے کیا چیز دخو ِل جنت سے مانع ہے؟ حض ور ﷺنے‬
‫فرمایا ‪،‬کیا تم نے قرٓان میں نہیں پڑھ ا ہم جنتی عورت وں ک و پی دا ک ریں‬
‫ٰ‬
‫گے۔(مشکوۃ ص‪)۴۱۶‬‬ ‫گے‪ ،‬پس ہم انہیں کنواریاں بنادیں‬
‫ایک اور روایت میں یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ اس‬
‫صحابیہ عورت نے جو ب وڑھی تھیں‪ٓ ،‬اپ س ے دخ و ِل جنت کی دع ا کی‬
‫درخواست کی تو اس پر ٓاپ نے مزاحا ً فرمایا کہ بوڑھی عورت تو جنت‬
‫میں داخل نہیں ہوگی‪ ،‬یہ سن کر اسےبڑا رنج ہوا اور روتے ہوئے واپس‬
‫چلی گ ئیں ت و ٓاپ ﷺنے فرمای ا کہ ج اکر اس ے کہہ دو کہ ع ورتیں‬
‫الی نے‬
‫بڑھ اپے کے س اتھ جنت میں داخ ل نہیں ہ وں گی کی ونکہ ہللا تع ٰ‬
‫فرمایاہے ”اِنَّا انشئاناہ َُّن اِنشا ًء فَ َج َع ٰلنہُ ّن اَبک اراً“ حض ور ﷺک ا م زاح اس‬
‫واقعے میں بھی مبنی برحق تھا مگرٓاپ نے ایک سچی ب ات ک و م زاحیہ‬
‫انداز میں بیان کرکے امت ک و یہ تعلیم دی کہ کبھی کبھ ار م ذاق اور دل‬
‫لگی بھی کرلینی چاہئے۔‬
‫ایک انصاری صحابیہ ٓاﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں‪ٓ ،‬اپ ﷺنے اس‬
‫سے فرمایا‪ ،‬ج ا جل دی س ے اپ نے خاون د کے پ اس اس کی ٓانکھ وں میں‬
‫س فیدی ہے ‪،‬وہ ای ک دم گھبراکرخاون د کے پ اس پہنچی ت و خاون د نے‬
‫پوچھا ‪،‬کی ا ب ات ہے؟ اس ط رح گھ براکر دوڑی کی وں چلی ٓائی ہ و؟ اس‬
‫نے کہا کہ مجھے م یرے ن بی ﷺ نے خ بر دی ہے کہ تمہ اری ٓانکھ وں‬
‫میں س فیدی ہے‪ ،‬اس نے کہ ا‪،‬ٹھی ک ہے ‪،‬مگ ر س یاہی بھی ت و ہے‪ ،‬تب‬
‫اسے اندازہ ہوا کہ یہ مزاح تھا‪ ،‬وہ ہنس کر خوش ہوئی ‪ ،‬فخ ر محس وس‬
‫کیا کہ ہللا کے رسول ﷺمجھ س ے اس ق در بے تکل ف ہ وئے کہ م یرے‬
‫س اتھ م زاح فرمای ا۔ (لط ائف علمیہ ص ‪ )۱۰‬اس کے عالوہ بھی ٓاپ ﷺ‬
‫کے مزاح کے بہت سے واقعات کتب احادیث میں موج ود ہیں ج و م زاح‬
‫ت مستحبہ ہونے پر دلیل ہیں۔‬ ‫کی سن ِ‬
‫خالص ٴہ کالم یہ کہ م زاح ای ک فط ری ج ذبہ ہے ‪،‬انس ان س ے اس ک ا‬
‫ظاہرہون ا عیب کی ب ات نہیں ‪،‬بلکہ اس ک ا ص دورانبیائے ک رام علیہم‬
‫الصلوۃ والسالم س ے بھی ہ وا ہے ‪،‬ص حابٔہ ک رام ؓس ے بھی اور اولی ائے‬ ‫ٰ‬
‫ت مستحبہ ہے جولوگ‬ ‫کرام سے بھی۔ غرض مزاح اور دل لگی ایک سن ِ‬
‫اسے اپنے وقار اور شان کے خالف س مجھتے ہیں ‪،‬وہ بہت ب ڑی غلطی‬
‫پر ہیں۔البتہ یہ خیال ضروررہے کہ ہمارا مزاح اور دل لگی کسی کی دل‬
‫شکنی اور ایذاء رسانی کا سبب نہ ہ و۔ اس ل یے کہ کس ی مس لمان بھ ائی‬
‫کی ایذارسانی‪،‬اس ے کم ت ر س مجھنا‪،‬اس ک ا تمس خر اڑان ا اس س ے ایس ا‬
‫م ذاق کرن ا ج و اس ے ن اگوار گ زرے اور اس کے ل یے ذہ نی اذیت‬
‫اورتکلیف کا باعث ہو ‪،‬یہ عمل ازروئے شریعت ممنوع اور ناج ائز ہے۔‬
‫لہٰ ذا ایسے ہر اقدام سے گریز کرن ا چ اہیے‪ ،‬ج و لوگ وں کےل یے تکلی ف‬
‫اور اذیت کا باعث ہو۔‬

You might also like