Professional Documents
Culture Documents
{ ٰۤیا َ ُّی َها الَّ ِذی َْن ٰا َم ُن ْوا اَل َیسْ َخرْ َق ْو ٌم مِّنْ َق ْو ٍم :اے ایمان والو !مرد دوس رے َم ردوں پ ر نہ
ہنسیں ۔} شا ِن نزول :اس ٓایت ِمبارکہ کے مختلف حصوں کOOا نOOزول مختلOOف واقعOOات
زیر تفسیر حصے کے نOOزول سOOے متعلOOق دو واقعOOات درج میں ہوا ہے اورٓایت کے ِ
ذیل ہیں
(…)1حضرت عبدہللا بن عباسَ رضِ َی ہللا َت َعالی َع ْن ُہ فرماتے ہیں : حضرت ثOOابت بن قیس
ٰ
ص &لَّی ہللا َت َع& ٰالی Oرکار دو عOOالَمَ
ِ ض & َی ہللا َت َع& ٰالی َع ْن ُہ اونچOOا سOOنتے تھے ،جب وہ سO
بن شماسَ ر ِ
ض&&& َی ہللاَ ت َع&&& ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس&&&لَّ َم کی مجلس شOOریف میں حاضOOر ہOOوتے تOOو صOOحابہ ٔکOOرامَ ر ِ
حضOOOور
ِ َع ْن ُہ ْم انہیں آگے بٹھاتے اور اُن کے لOOOئے جگہ خOOOالی کردیOOOتے تOOOاکہ وہ
صلَّی ہللا َت َع ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َسلَّ َم کے قریب حاضر رہ کر کالم مبارک سOOن سOOکیں ۔ایOOک اَقدسَ
روز انہیں حاضری میں دیر ہوگئی اور جب مجلس شریف خوب بھر گOOئی اس وقت
ٓاپ تشریف الئے اور قاعدہ یہ تھا کہ جو شخص ایسے وقت آتا اور مجلس میں جگہ
ض&& َی ہللا َت َع& ٰالی َع ْن ُہ آئے تOOو وہ نہ پاتا تو جہاں ہوتا وہیں کھڑا رہتOOا۔لیکن حضOOرت ثOOابتَ ر ِ
ص &لَّی ہللا َت َع& ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس&&لَّ َم کے قریب بیٹھنے کے لOOئے لوگOOوں کOOو ہٹOOاتے ل کریمَ رسو ِ
ص &لَّی ہللا َت َع& ٰالی Oور اَنOOورَ
ہOوئے یہ کہOتے چلے کہ’’ جگہ دو جگہ‘‘ یہOاں تOOک کہ حضِ O
ٰ
ص &لَّی ہللا َت َع& الی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس &لَّ َم کے اتنے قOریب پہنچ گOئے کہ اُن کے اور حضOور پُOر نOورَ
َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َسلَّ َم کے درمیان میں صرف ایک شخص رہ گیا ،انہوں نے اس سے بھی کہOOا
کہ جگہ دو ،اس نے کہOOا :تمہیں جگہ مOOل گOOئی ہے ا س لOOئے بیٹھ جOOائو ۔حضOOرت
ثابتَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی َع ْن ُہ غصّہ میں آکر اس کے پیچھے بیٹھ گئے ۔ جب دن خوب روشن
ہوا توحضرت ثابتَ رضِ َی ہللا َت َع& ٰالی َع ْن ُہ نے اس کا جسم دبOا کOر کہOا :کOون؟ اس نے کہOا:
میں فالں شخص ہوں ۔ حضرت ثابتَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی َع ْن ُہ نے اس کی ماں کا نام لے کر
کہا :فالنی کا لڑکا۔ اس پر اس شخص نے شرم سOOے سOOرجھکالیا کیOOونکہ اس زمOOانے
میں ایسا کلمہ عار دالنے کے لئے کہا جاتا تھا ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
( …)2حضر ت ضحاکَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی َع ْن ُہ فرماتے ہیں :یہ آیت بOنی تمیم کے ان افOراد
کے بOOارے میں نOOازل ہOOوئی جOOو حضOOرت عمOOار،حضOOرت خبOOاب ،حضOOرت بال
ل ،حضOOرت صOOہیب،حضOOرت سOOلمان اور حضOOرت سOOالم وغOOیرہ غOOریب صOOحابہ
ٔکرامَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالیَ ع ْن ُہ ْم کی ُغربَت دیکھ کر ان کا مذاق اُڑایاکرتے تھے ۔ ان کے بارے
میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ مردَ مردوں سOOے نہ ہنسOیں، یعOOنی مOOال
دار غریبوں کا ،بلند نسب والے دوسرے نسب والوں کا،تندرسOOت اپOOاہج کOOا اور ٓانکھ
والے اس کا مذاق نہ اُڑائیں جس کی آنکھ میں عیب ہو،ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسOOنے
والOOOOوں سOOOOے صOOOOدق اور اخالص میں بہOOOOتر ہOOOOوں ۔( خ&&&&&ازن ،الحج&&&&&رات ،تحت
آالیۃ)۱۶۹ / ۴ ،۱۱ :
کسی شخص میں فقر کے ٓاثار دیکھ کر اس کا مذاق نہ اُڑایا
جائے :
ٓ ایت کے دوسOOOرے شOOOا ِن نOOOزول سOOے معلOOOوم ہOOOو اکہ اگOOOر کسOOOی شOOOخص
میں فقر ،محتاجی اور غریبی کے ٓاثار نظر ٓائیں تو ان کی بنا پرا س کOOا مOOذاق
نہ اڑایا جائے ،ہو سکتا ہے کہ جس کا مOOذاق اڑایOOا جOا رہOOا ہے وہ مOOذاق اڑانے والے
کے مقابلے میں دینداری کے لحاظ سے کہیں بہتر ہو۔
ل کریمَ
ص&&لَّی ہللا حضرت انس بن مالکَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی َع ْن ُہ سے روایت ہے ،رسو ِ
َت َع ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َسلَّ َم نے ارشاد فرمایا’’ :کتنے ہی لوگ ایسOOے ہیں جن کے بOOال بکھرے
ہOOوئے اور غبOOار ٓالOOود ہOOوتے ہیں، ان کے پOOاس دو پُOOرانی چOOادریں ہOOوتی ہیں اور
تعOOالی کی بارگOOاہ میں ان کOOا رتبہ ومقOOام یہ ہوتOOا ہے
ٰ انہیں کOOوئی پنOOاہ نہیں دیتOOا( لیکن ہللا
تعOالی( وہ کOOام
ٰ تعالی فالں کام کرے گOOا) تOو ہللا
تعالی پر قسم کھالیں( کہ ہللاٰ کہ) اگروہ ہللاٰ
کOOر کے) ان کی قسOOم کOOو سOOچا کOOر دیتOOا ہے۔( ترم&&ذی ،کت&&اب المن&&اقب ،ب&&اب من&&اقب ال&&براء بن
مالک رضی ہّٰللا عنہ ،۴۵۹ / ۵ ،الحدیث)۳۸۸۰ :
ض&&& َی ہللا َت َع&&& ٰالی َع ْن ُہ سOOے روایت ہے،نOOبی
حضOOر ت حOOارث بن وہب خOOزاعیَ ر ِ
ص &لَّی ہللا َت َع& ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس &لَّ َم نے ارشاد فرمایOOا’’کیOOا میں تمہیں جنOOتی لوگOOوں کے
کریمَ
بOOOOارے میں نہ بتOOOOأوں ؟یہ ہOOOOر وہ شOOOOخص ہے جOOOOو کمOOOOزور اور( لوگOOOOOوں کی
Oالی ضOOرور اس تعالی پر قسOOم کھا لے تOOو ہللا تعٰ O نگاہوں میں ) گرا ہو اہے ،اگر وہ ہللاٰ
کی قسم سچی کر دے گا۔( ترمذی ،کتاب صفۃ جہ ّنم-۱۳ ،باب ،۲۷۲ / ۴ ،الحدیث)۲۶۱۴ :
{ َو اَل ن َِسآ ٌء مِّنْ ِّن َسآ ٍء َع ٰۤسى اَنْ َّی ُكنَّ َخیْرً ا ِّم ْنهُنَّ :اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر
ہنسیں ،ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں ۔} شا ِن نزولٓ :ایت
ِمبارکہ کے اس حصے کے نزول سے متعلق دو ِروایات درج ذیل ہیں،
ل ہللاَ
ص&&لَّی ہللا َت َع&& ٰالی َعلَ ْی ِہ ٓایت رسو ُ (…)1حضر ت انسَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی َع ْن ُہ فرماتے ہیں: یہ
ض & َی ہللا َت َع& ٰالیَ ع ْنہُنَّ کے متعلق نOOازل ہOOوئی ہے،انہOOوں نے زواج ُمطَہَّراتَ ر ِ
ِ َو ٰال ِٖہ َو َس &لَّ َم کی اَ
حضرت ِاُ ِّم سلمہَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی َع ْن َہا کوچھوٹے قد کی وجہ سے شرمندہ کیا تھا۔
( …)2حضرت عبدہللا بن عبا سَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی َع ْن ُہ َما فرماتے ہیںٓ : ایت کOOا یہ حصOOہ اُ ُّم
ض&& َی ہللا َت َع&& ٰالی َع ْن َہا کے حOOق میں اس وقت نOOازل ہOOوا حیَیَ ر ِ
المومنین حضرت صفیہ بنت ُ
ص&&لَّی ہللا َت َع&& الی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس&&لَّ َم کی ایOOک زوجٔہ ُمطَہَّرہ نے یہOOودی
ٰ حضور اَقدسَ ِ جب انہیں
کی بیٹی کہا۔( خازن ،الحجرات ،تحت آالیۃ)۱۶۹ / ۴ ،۱۱ :
اس واقعے کی تفصOOOیل بیOOOان کOOOرتے ہOOOوئے حضOOOرت انسَ ر ِ
ض&&& َی ہللا َت َع&&& ٰالی
ض&& َی ہللا َت َع&& ٰالی َع ْن َہا کOOو معلOOوم ہOOوا کہ َع ْن ُہ فرمOOاتے ہیں : ا ُ ُّم المومOOنین حضOOرت صOOفیہَ ر ِ
حضرت حفصہَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی َع ْن َہا نے انہیں یہودی کی لڑکی کہOا ہے(،اس پOOر انہیں رنج
سرکار دوعOالَمَ
ص &لَّی ہللا َت َع& ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس &لَّ َم ان کے پOاس ِ ہOOوا اور)ٓاپ ر ونے لگیں ، جب
تشریف الئے اور انہیں روتا ہوا پایا تو ارشاد فرمایOOا’’تم کیOOوں رو رہی ہOOو؟عOOرض
Oور
ض & َی ہللا َت َع& ٰالی َع ْن َہا نے مجھے یہOOودی کی لOOڑکی کہOOا ہے۔ حضِ O کی:حضOOرت حفصہَ ر ِ
ص &لَّی ہللا َت َع& ٰالی َعلَ ْی ِہَ وال ِٖہ َو َس &لَّ َم نے ارشOOادفرمایا ’’ تم نOOبی زادی ہOOو،تOOیرے چچOOا نOOبی
ٰ اکOOرمَ
ض&& َی ہللا ہیں اور نبی کی بیوی ہو ،توتم پر وہ کیا فخر کرتی ہیں اور حضرت حفصہَ ر ِ
تعالی سOOے ڈرو۔( ترم&&ذی ،کت&&اب ض&& َی ہللا َت َع&& ٰالی َع ْن َہ&&ا ہللاٰ
َت َع ٰالی َع ْن َہا سے فرمایا’’ اے حفصہَ ر ِ
المناقب ،باب فضل ازواج ال ّنبی ،۴۷۴ / ۵ ،الحدیث)۳۹۲۰ :
ن وٹٓ :ایت ِمبOOارکہ میں عورتOOوں کOOا جOOداگانہ ذکOOر اس لOOئے کیOOا گیOOا کہ
عورتوں میں ایک دوسرے کامذاق اُڑانے اوراپنے ٓاپ کوبڑاجاننے کی عOOادت بہت
زیادہ ہOوتی ہے ،نOیز ٓایت ِمبOOارکہ کOا یہ مطلب نہیں ہے کہ عOورتیں کسOOی صOورت
ٓاپس میں ہنسOOOی مOOOذاق نہیں کOOOر سOOOکتیں بلکہ چنOOOد شOOOرائط کے سOOOاتھ ان کOOOا ٓاپس
اعلی حضرت امOOام احمOOد رضOOا خOOانَ رحْ َمۃُہللا
ٰ میں ہنسی مذاق کرنا جائز ہے ،جیسا کہ
َت َع ٰالی َعلَ ْی ِہ فرماتے ہیں ( :عورتوں کی ایک دوسOOرے سOOے) جائز ہنسOOی جس میں نہ فحش
ہو نہ ایذائےُ مسلم،نہ بڑوں کی بے ادبی،نہ چھوٹوں سے بد لحOOاظی،نہ وقت و محOOل
کے نظر سے بے موقع،نہ اس کی کثرت اپنی ہمسر عورتوں سے جOOائز ہے۔( فتOOاوی
رضویہ)۱۹۴ / ۲۳ ،
مذاق اُڑانے کا شرعی حکم اور اس فعل کی مذمت:
المصطفی
ٰ مذاق اُڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت عالمہ عبد
اعظمیَ رحْ َمۃُہللا َت َع ٰالی َعلَ ْی ِہ فرماتے ہیں :اہانت اور تحقیر کیلئے زبان یا اشارات ،یا کسی
اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان
کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اوردکھ
دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے واال کام ہے۔( جہنم کے خطرات،ص)۱۷۳
کثOOیر اَحOOادیث میں اس فعOOل سOOے ممOOانعت اور اس کی شOOدید مOOذمت اور
ض&& َی ہللا َت َع&& ٰالی َع ْن ُہ سOOے روایت ہے،
شناعت بیان کی گئی ہے ،جیسا کہ حضرت عباسَ ر ِ
صلَّی ہللا َت َع ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َسلَّ َم نے ارشاد فرمایا’’ :اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو،
نبی کریمَ
نہ اس کا مذاق اڑائو ،نہ اس سے کوئی ایسا وعOOدہ کOOرو جس کی خالف ورزی کOOرو۔
( ترمذی ،کتاب البرّ والصّلۃ ،باب ما جاء فی المرائ ،۴۰۰ / ۳ ،الحدیث)۲۰۰۲ :
ا ُ ُّم المومنین حضرت عائشOOہ صOOدیقہَ ر ِ
ض & َی ہللا َت َع& ٰالی َع ْن َہا سOOے روایت ہے ،نOOبی
ص&&لَّی ہللا َت َع&& ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس&&لَّ َم نے ارشOOادفرمایا’’ میں کسOOی کی نقOOل اتارنOOا پسOOند
کOOریمَ
نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے۔( اب&&و دأود ،کت&&اب االدب ،ب&&اب
فی الغیبۃ ،۳۵۳ / ۴ ،الحدیث)۴۸۷۵ :
رسOOالتَ
ہے،تاجدار
ص&&لَّی ہللا َت َع&& ٰالی
ِ روایت حسنَ رضِ َی ہللا َت َع&& ٰالی َع ْن ُہ سے
حضرت
َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس &لَّ َم نے ارشOOاد فرمایOOا ’’ :قیOOامت کے دن لوگOOوں کOOا مOOذاق اڑانے والے کے
سامنے جنت کا ایک دروازہ کھوال جائے گOا اور کہOا جOائے گOا کہ آؤ آؤ ،تOو وہ بہت
ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا مگOOر جیسOOے ہی
وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو جائے گا ،پھر ایک دوسOرا جنت کOا
دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جOOائے گOOا :آؤ یہOOاں آؤ ،چنOOانچہ یہ بے چیOOنی اور
رنج وغم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گOOا تOOو وہ دروازہ بنOOد ہOOو جOOائے
گا،اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہو تا رہے گا یہOOاں تOOک کہ دروازہ کھلے گOOا اور
پکارپڑے گی تو وہ ناامیدی کی وجہ سے نہیں جائے گا۔( اس طOOرح وہ جنت میں داخOOل
ہو نے سے محروم Oرہے گا)( موسوعۃ ابن ابی دنیا ،الصّمت وٓاداب اللّسان ،باب م&&ا نہی عنہ العب&&اد ان
یسخر ...الخ ،۱۸۳ / ۷ ،الحدیث)۲۸۷ :
Oطفی اعظمیَ رحْ َمۃُہللا َت َع&& ٰالی َعلَ ْی ِہ فرمOOاتے ہیں :کسOOی
حضرت عالمہ عبد المصٰ O
کو ذلیل کرنے کے لیے اور اس کی تحقیر کرنے کے لیے اس کی خامیوں کو ظاہر
کرنا ،اس کا مذاق اڑانا،اس کی نقل اتارنایا اس کو طعنہ مارنا یا عار دالنOOا یOOا اس پOOر
ہنسنا یا اس کو بُرے بُرے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اُڑانا مثالً آج کOOل کے
عم خود اپOOنے آپ کOOو ُعOOرفی ُشOرفاء کہالنے والے کچھ قومOOوں کOOو حقOOیر و ذلیOOل بَزَ ِ
سمجھتے ہیں اور محض قOOو ِمیَّت کی بنOOا پOOر ان کOOا تَ َم ْسُ Oخر اور اِسOOتہزاء کOOرتے اور
مOOذاق اڑاتے رہOOتے ہیں اور قِسOOم قسOOم کے دل آزار اَلقOOاب سOOے یOOاد کOOرتے رہOOتے
ہیں ،کبھی طعنہ زنی کOOرتے ہیں ،کبھی عOOار دالتے ہیں ،یہ سOOب حرکOOتیں حOOرام و
گناہ اور جہنم میں لے جOOانے والے کOOام ہیں ۔ل ٰہ Oذا ان حرکتOOوں سOOے تOOوبہ الزم ہے،
ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے۔ اسی طOOرح سOOیٹھوں اور مالOOداروں کی عOOادت ہے
کہ وہ غریبوں کے ساتھ تَ َم ْس ُخر اور اہOOانت آمOOیز القOOاب سOOے ان کOOو عOOار دالتے اور
طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں اور طرح طرح سے ان کا مOOذاق اڑایOOا کOOرتے ہیں جس
سے غریبوں کی دل آزاری ہوتی رہتی ہے ،مگر وہ اپنی ُغربَت اور ُمفلسی کی وجہ
سے مالداروں کے سامنے دَم نہیں مار سکتے۔ ان مالدارو ں کOOو ہOOوش میں آ جانOOا
چاہیے کہ اگر وہ اپنے ان َکرتُوتوں سے توبہ کرکے باز نہ آئے تو یقینا وہ ِ
قہر قَہّOOار
ب َجبّOOار میں گرفتOOار ہOOو کOOر جہنم کے سOOزاوار بOOنیں گے اور دنیOOا میں ان و غض ِ O
قہر خداوندی کا سیالب بن کر ان مالOOداروں کے محالت کOOو خَس غریبوں کے آنسو ِ
و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں گے۔(جہنم کے خطرات،ص)۱۷۶-۱۷۵
خوش طبعی کرنے کا حکم:
یاد رہے کہ کسی شخص سے ایسا مذاق کرنا حرام ہے جس سے اسOOے اَ ِذیَّت
پہنچے البتہ ایسا مذاق جوا سے خوش کر دے ،جسے خوش طبعی اور خوش مزاجی
کہOOتے ہیں، جOOائز ہے ،بلکہ کبھی کبھی خOOوش طبعی کرنOOا سOOنت بھی ہے جیسOOا کہ
مفتی احمد یار خان نعیمیَ رحْ َمۃُہللا َت َع&& ٰالی َعلَ ْی ِہ فرماتے ہیں’’ حضور پُرنOOورَ
ص&&لَّی ہللا َت َع&& ٰالی
َعلَ ْی ِہ َو َسلَّ َم سے کبھی کبھی خوش طبعی کرنا ثابت ہے ،اسی لیے علماِئ کOرام فرمOاتے
مراۃ المناجیح)۴۹۴-۴۹۳ / ۶ ، ت ُمسْتحبہ ہے۔(ٰ
ہیں کہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سن ِ
امام محمد غزالیَ رحْ َمۃُہللا َت َع ٰالی َعلَ ْی ِہ فرماتے ہیں: اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ
صلَّی ہللا َت َع ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہَ و َسلَّ َم اور صحابہ ٔکرامَ رضِ َی ہللاَ ت َع&&& ٰالی َع ْن ُہ ْم قادر تھے
جس پر نبی کریمَ
کہ مزاح( یعنی خوش طبعی) کرتے وقت صرف حق بات کہو،کسی کے دل کو اَ ِذیَّت نہ
پہنچأو،حد سے نہ بڑھو اور کبھی کبھی مزاح کرو تو تمہارے لئے بھی کOOوئی حOOرج
نہیں لیکن مزاح کو پیشہ بنا لینا بہت بڑی غلطی ہے۔( احیاء علوم الدین ،کتاب ٓافات اللّس&&ان،
آالفۃ العاشرۃ المزاح)۱۵۹ / ۳ ،
مزید فرماتے ہیں: وہ مزاح ممنوع ہے جOOو حOOد سOOے زیOOادہ کیOOا جOOائے اور
ہمیشہ اسی میں مصروف رہا جائے اور جہاں تک ہمیشہ مزاح کرنے کOOا تعلOOق ہے
تو اس میں خرابی یہ ہے کہ یہ کھیل کود اور غیر سنجیدگی ہے ،کھیل اگرچہ( بعض
صورتوں میں ) جائز ہے لیکن ہمیشہ اسی کام میں لگ جانا مOOذموم ہے اور حOOد سOOے
زیادہ مزاح کرنے میں خرابی یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زیادہ ہنسی پیدا ہOOوتی ہے
اور زیادہ ہنسنے سے دل مر دہ ہوجاتا ہے ،بعض اوقات دل میں بغض پیدا ہOOو جاتOOا
ہے اور ہَیبَت و وقار ختم ہو جاتا ہے ،لہٰ ذا جو مزاح ان اُمOOور سOOے خOOالی ہOOو وہ قابِ Oل
صلَّی ہللا َت َع ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس&&لَّ َم نے ارشاد فرمایOOا’’بے شOOک
مذمت نہیں ، جیسا کہ نبی کریمَ
میں بھی مزاح کرتا ہوں اور میں( خوش طبعی میں ) سچی بOات ہی کہتOا ہOوں ۔( معجم
االوسط ،باب االلف ،من اسمہ :احمد ،۲۸۳ / ۱ ،الحدیث)۹۹۵ :
لیکن یہ بات تو ٓاپ کے ساتھ خاص تھی کہ مزاح بھی فرمOOاتے اور جھوٹ
بھی نہ ہوتا لیکن جہOOاں تOOک دوسOOرے لوگOOوں کOOا تعلOOق ہے تOOو وہ مOOزاح اسOOی لOOئے
کرتے ہیں کہ لوگوں کOOو ہنسOOائیں خOOواہ جس طOOرح بھی ہOOو ،اور( اس کی وعیOOد بیOOان
صلَّی ہللا َت َع&& ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس&&لَّ َم نے ارشاد فرمایا’’ایOOک شOOخص کOOوئی
کرتے ہوئے) نبی اکرمَ
بات کہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپOOنے ہم مجلس لوگOOوں کوہنسOOاتا ہے ،اس کی وجہ
سے ثُ َریّا ستارے سے بھی زیادہ دور تک جہنم میں گرتا ہے۔( مسند امام احمد ،مسند ابی
ہریرۃ رضی ہّٰللا عنہ ، ۳۶۶ / ۳ ، الحدیث ،۹۲۳۱ :احیاء علوم الدین ،کتاب ٓاف&&ات اللس&&ان ،آالفۃ العاش&&رۃ
المزاح)۱۵۸ / ۳ ،
تعالی ہمیں جائز خوش طبعی کرنے اور ناجائز خوش طبعی سے بچنے
ہللاٰ
ٰ
فرمائے،امین۔ کی توفیق عطا
سلینَ صلَّی ہللا َت َع ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َسلَّ َم کی خوش طبعی:
سیّد المر َ
ص &لَّی ہللا َت َع&& ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس &لَّ َم کی
المرسOلینَ
َ یہاں موضوع کی مناسبت سے سیّد
خوش طبعی کے چار واقعات بھی مالحظہ ہوں ۔
(…)1حضرت زید بن اسلمَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی َع ْن ُہ فرماتے ہیں :حضرت ا ُ ِّم ایمنَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی
ص&&لَّی ہللا َت َع&& ٰالیَ علَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس&&لَّ َم کی بارگOOاہ میں حاضOOر ہOOوئیں اور عOOرض َع ْن َہا نOOبی کOOریمَ
کیOOOا:مOOOیرے شOOOوہر ٓاپ کOOOو بال رہے ہیں ۔ارشOOOاد فرمایOOOا’’کOOOون،وہی Oجس کیٓ انکھ
Oالی کی قسOOم !ان کی ٓانکھ میں سOOفیدی نہیں ہے ۔ میں سفیدی ہے؟عOOرض کی:ہللا تعٰ O
ارشOOOاد فرمایOOOا’’کیOOOوں نہیں ،بے شOOOک اس کی ٓانکھ میں سOOOفیدی ہے ۔عOOOرض
ص&&&&لَّی ہللا َت َع&&&& ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس&&&&لَّ َم نے
تعOOOالی کی قسOOOم!ایسOOOا نہیں ہے۔نOOOبی کOOOریمَ
ٰ کی :ہللا
ارشاد فرمایOOا’’ کیOOاکوئی ایسOOا ہے جس کی ٓانکھ میں سOOفیدی نہ ہو(ٓاپ نے اس سOOے وہ
سفیدی مراد لی تھی جو ٓانکھ کے سیاہ حلقے کے ارد گرد ہوتی Oہے)۔(س&&بل الہ&&دی والرش&&اد ،جم&&اع
ابواب صفاتہ المعنویۃ ،الباب الثانی والعشرون فی مزاحہ ...الخ)۱۱۴ / ۷ ،
کOOریمَ
ص&&لَّی ہللا َت َع&& ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ ض&& َی ہللا َت َع&& ٰالی َع ْن ُہ فرمOOاتے ہیں :نOOبی ( …)2حضOOرت انسَ ر ِ
َو َس &لَّ َم ہم میں گھلے ملے رہتے ،حتّی کہ مOOیرے چھوٹے بھائی سOOے فرمOOاتے’’ ابOOو ٰ
عمیر !چڑیا کا کیا ہوا۔( بخاری ،کتاب االدب ،باب االنبساط الی الناس ،۱۳۴ / ۴ ،الحدیث)۶۱۲۹ :
ص&&لَّی ل ہللاَ ( …)3حضرت انسَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی َع ْن ُہ فرماتے ہیں : ایک شOOخض نے رس&&و ُ
ہللا َت َع ٰالی َعلَ ْی ِہ َو ٰال ِٖہ َو َسلَّ َم سے سواری مانگی تو ارشOOاد فرمایOOا’’ ہم تمہیں اونٹOOنی کے بچے
پر سوار کریں گے۔اس نے عOOرض کی :میں اونٹOOنی کے بچے کOOا کیOOا کOOروں گOOا؟
ص &لَّی ہللا َت َع& ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َس &لَّ َم نے ارشOادفرمایا’’ اونٹ کOو اونٹOنی ہی تOو جنم ل کOریمَ
رسو ِ
دیتی ہے۔( ترمذی ،کتاب البرّ والصّلۃ ،باب ما جاء فی المزاح ،۳۹۹ / ۳ ،الحدیث)۱۹۹۹ :
ض & َی ہللا َت َع& ٰالی َع ْن ُہ فرمOOاتے ہیں : نOOبی اکOOرمَ
ص&&لَّی ہللا َت َع&& ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ ( …)4حضOOرت انسَ ر ِ
َو َسلَّ َم نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا ’’:جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہ جOOائے
گی۔انہوں نے( پریشان ہOOو کOOر) عرض کی :تOو پھر ان کOا کیOOا بOنے گOOا؟( حOOاالنکہ) وہ
صلَّی ہللا َت َع ٰالی َعلَ ْی ِہَ و ٰال ِٖہ َو َسلَّ َم نے ارشاد فرمایا’’ تھی۔تاجدار رسالتَ ِ عورت قرآن پڑھاکرتی
کیا تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا کہ
شآ ۙ ًء(َ )۳۵ف َج َع ْل ٰنهُنَّ اَ ْب َكارً ا‘‘(واقعہ)۳۵،۳۶:
’’ ِا َّن ۤا اَ ْن َشاْ ٰنهُنَّ ِا ْن َ
ترجمۂکن ُزالعِرفان :بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں کو ایک خOOاص انOOداز سOOے پیOOدا کیOOا۔تOOوہم نے
ٰ
مش&&کوۃ المص&&ابیح ،کت&&اب آالداب ،ب&&اب الم&&زاح ،الفص&&ل الث&&انی،۲۰۰ / ۲ ،انہیں کنواریOOاں بنایOOا۔(
الحدیث)۴۸۸۸ :
{ َو اَل َت ْل ِم ُز ۤ ْوا اَ ْنفُ َس ُك ْم :اورٓاپس میں کس ی ک وطعنہ نہ دو۔} یعنی قOOول یOOا اشOOارے کے
ذریعے ایک دوسرے پر عیب نہ لگائو کیOOونکہ مOOومن ایOOک جOOان کی طOOرح ہے جب
کسی دوسرے مومن پرعیب لگایاجائے گاتوگویااپنے پرہی عیب لگایاجOOائے گOOا۔( روح
المعانی ،الحجرات ،تحت آالیۃ)۴۲۴ / ۱۳ ،۱۱ :
طعنہ دینے کی مذمت:
اَحادیث میں طعنہ دینے کی بہت مOOذمت بیOOان کی گOOئی ہے ،یہOOاں اس سOOے
متعلق2 اَحادیث مالحظہ ہوں ،
ل ہللاَ
صلَّی ہللا َت َع& ٰالی َعلَ ْی ِہ ،رسو ُ
( …)1حضرت ابودرداءَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی َع ْن ُہ سے روایت ہے
َو ٰال ِٖہَ و َس&&&لَّ َم نے ارشOOOاد فرمایOOOا’’ :بہت لعن طعن کOOOرنے والے قیOOامت کے دن نہ گOOOواہ
والص &لۃ وآالداب ،ب&&اب ال ّنہی عن لعن ال &دّواب وغیرہ&&ا ،ص &
ّ ہوں گے نہ شOOفیع۔( مس&&لم ،کت&&اب ال&&برّ
،۱۴۰۰الحدیث))۲۵۹۸(۸۵ :
ل ہللاَ
ص&&لَّی ہللا ہے ،رس&&و ُ ( …)2حضرت عبدہللا بن مسعودَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی َع ْن ُہ سے روایت
َت َع&& ٰالی َعلَ ْی ِہ َو ٰال ِٖہ َو َس&&لَّ َم نے ارشOOاد فرمایOOا ’’مOOومن نہ طعن کOOرنے واال ہوتOOا ہے ،نہ لعنت
والص&لۃ ،ب&&اب م&&ا ج&&اء
ّ کرنے واال ،نہ فحش بکنے واال بے ہودہ ہوتا ہے۔( ترمذی ،کتاب البرّ
فی اللّعنۃ ،۳۹۳ / ۳ ،الحدیث)۱۹۸۴ :
ٰ
فرمائے،امین۔ تعالی ہمیں طعنہ دینے سے محفوظ ہللاٰ
ب :اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھ و۔} بOOرے نOOام رکھنے { َو اَل َت َنا َب ُز ْوا ِبااْل َ ْل َقا ِ
سے کیا مراد ہے ا س کے بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں، ان میں سOOے
تین قول درج ذیل ہیں
ض & َی ہللا َت َع& ٰالی َع ْن ُہ َما نے فرمایOا’’ ایOک دوسOرے کے (…)1حضOرت عب&دہللا بن عبOاسَ ر ِ
برے نام رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے کسی برائی سے توبہ کOOرلی
ہو تو اسے توبہ کے بعد اس برائی سے عار دال ئی جOOائے ۔یہOOاںٓ ایت میں اس چOOیز
سے منع کیا گیا ہے ۔
حدیث ِپاک میں اس عمل کی وعید بھی بیان کی گOOئی ہے ،جیسOOا کہ حضOOر
ل ہللاَ
ص&&&لَّی ہللا َت َع&&& ٰالی َعلَ ْی ِہ َو ٰال ِٖہ ض&&& َی ہللا َت َع&&& ٰالی َع ْن ُہ سOOے روایت ہے ،رس&&و ُ
ت معOOاذ بن جبلَ ر ِ
َو َسلَّ َم نے ارشاد فرمایا’’ :جس شخص نے اپنے بھائی کواس کے کسی گنOOاہ پرشOOرمندہ
کیا تووہ شخص اس وقت تک نہیں مOOرے گOOاجب تOOک کہ وہ اس گنOOاہ کOOا اِرتکOOاب نہ
کرلے ۔( ترمذی ،کتاب صفۃ القیامۃ...الخ-۵۳ ،باب ،۲۲۶ / ۴ ،الحدیث)۲۵۱۳ :
(…)2بعض علماء نے فرمایا ’’برے نام رکھنے سے مراد کسی مسلمان کOOو کتOOا ،یOOا
گدھا ،یا سور کہنا ہے ۔
(…)3بعض علماء نے فرمایا کہ اس سOOے وہ اَلقOOاب مOOراد ہیں جن سOOے مسOOلمان کی
برائی نکلتی ہو اور اس کو ناگوار ہو( لیکن تعریف Oکے القاب جو سچے ہوں ممنOOوع نہیں ،
ض & َی ہللا َت َع& ٰالی
ض & َی ہللا َت َع& ٰالی َع ْن ُہ کOOا لقب عOOتیق اور حضOOرت عمرَ ر ِ
جیسOOے کہ حضOOرت ابOOوبکرَ ر ِ
ض&& َی ہللا ورین اور حضرت علیَ ر ِ َع ْن ُہ کا فاروق Oاور حضرت عثمان غنیَ رضِ َی ہللا َت َعالی َع ْن ُہ کا ذوالنُّ َ
ٰ
َت َع ٰالی َع ْن ُہ کا ابوتُراب اور حضرت خالدَ رضِ َی ہللا َت َع ٰالی َع ْن ُہ کاَ سیْفُ ہللا تھا) اور جو اَلقOOاب گویOOا
کہ نام بن گئے اور اَلقاب والے کOو نOاگوار نہیں وہ القOاب بھی ممنOوع نہیں، جیسOے
عرج وغیرہ۔( خازن ،الحجرات ،تحت آالیۃ)۱۷۰ / ۴ ،۱۱ : اَع َمش اور اَ َ
ان :مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہالنا کیا ہی برا نام س ااِل سْ ُم ْالفُس ُْو ُق َبعْ دَ ااْل ِ ْی َم ِ
{ ِبْئ َ
ہے۔} ارشاد فرمایا :مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہالنا کیا ہی برا نام ہے تو اے
مسلمانو ،کسی مسلمان کی ہنسی بنا کر یا اس کو عیب لگا کر یا اس کا نام بگاڑ کر
اپنے آپ کو فاسق نہ کہالؤ اور جو لوگ ان تمام افعال سے توبہ نہ کریں تو وہی
ظالم ہیں ۔( خازن ،الحجرات ،تحت آالیۃ)۱۷۰ / ۴ ،۱۱ :
َق ْ&&&و ٌم‘‘ س ے معل وم ہ ونے والے ٓایتٰۤ ’’ یا َ ُّی َه&&&ا الَّ ِذی َْن ٰا َم ُن ْ
&&&وا اَل َی ْس&&& َخرْ
مسائل:
اس ٓایت سے تین مسئلے معلوم ہوئے
( …)1مسلمانوں کی کوئی قوم ذلیل نہیں ،ہر مومن عزت واال ہے ۔
تقوی و پرہیز گاری پر ہے ۔ ( …)2عظمت کا دار و مدار محض نسب پر نہیںٰ
( …)3مسلمان بھائی کو نسبی طعنہ دینا حرام اور مشرکوں کا طریقہ ہے ٓاج کOOل یہ
بیمOOOOOاری مسOOOOOلمانوں میں عOOOOOام پھیلی ہOOOOOوئی ہے۔ نسOOOOOبی طعنہ کی بیمOOOOOاری
عورتوں میں زیادہ ہے ،انہیں اس ٓایت سے سبق لینOOا چOOاہیے نہ معلOOوم بارگOOا ِہ ٰالہی
میں کون کس سے بہتر ہو۔