You are on page 1of 5

‫عورت کی کمائی اور خاندانی تنازعات‬

‫تاریخ اشاعت ‪ 23 -‬فروری‪2021 ،‬‬


‫ناز ٓافرین(رانچی)‬
‫جیسے جیسے دنیا بھ ر میں لڑکی وں کے درمی ان تعلیم ب ڑھی ہے اور ان کے ل یے روز‬
‫گار کے مواقع بڑھے ہیں تو لڑکیوں نے بھی پیشہ وارانہ زندگی س ے پیس ہ کم انے کے‬
‫میدان میں اچھی کارکردگی ک ا مظ اہرہ کی ا ہے۔ اب لڑکی اں اور خ واتین برس ر روزگ ار‬
‫ہوکر اپ نے اہ ِل خان دان کے س اتھ معاش ی زن دگی میں اور گھ ر اور خان دان کی معاش ی‬
‫برسر روزگار ہونے ک ا‬‫ِ‬ ‫خوشحالی میں شریک ہورہی ہیں۔ یہ لڑکیوں کے تعلیم یافتہ اور‬
‫ایک مثبت اور تعمیری پہلو ہے۔‬
‫ایک اور مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ معاشرے میں عورت اور تعلیم ی افتہ ل ڑکی س ماج کی‬
‫ایس ی بہت س ی ض روریات کی تکمی ل میں اپن ا ک ردار ادا ک ررہی ہے جس میں اس کی‬
‫کمی محس وس ہ وتی تھی اور جن می دانوں میں اس ک ا ٓاگے بڑھن ا ض روری تھ ا۔ مثالً‬
‫میڈیکل خدمات‪ ،‬تعلیم و تدریس اور سماجی خدمت کے بہت سے کام۔ ان کاموں میں ٓاگے‬
‫بڑھنے سے عورت کی خ ود کف الت ک ا تص ور بھی ع ام ہ وا ہے اور س ماج میں اس ک ا‬
‫تعمیری رول بھی بڑھا ہے لیکن بعض سماجی‪ ،‬معاشرتی اور اقتصادی پہلؤوں س ے اس‬
‫صورت حال نے عورت کی پرسکون زندگی ک و ش دید ط ور پ ر مت اثر بھی کی ا ہے اور‬
‫مذکورہ تمام مثبت پہلؤوں کے باوجود اسے نئے مس ائل س ے دوچ ار کی ا ہے۔ یہ مس ائل‬
‫دنیا بھر کے سبھی معاشروں میں تقریبا ً یکساں ہیں لیکن ہندوستانی معاش رے میں ان کی‬
‫نوعیت نسبتا ً زیادہ شدید اور عورت یا لڑکی کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہے۔‬
‫اگرہندوستانی معاشرے کے تناظر میں دیکھیں‪ ،‬جہاں جہیز جیسی بیماری ہ ر ل ڑکی کے‬
‫ساتھ جڑی ہے تو سماجی اللچ اور حرص کی ایک عجیب سے کیفیت نظر ٓاتی ہے۔ یہاں‬
‫جو لڑکی جس قدر تعلیم یافتہ ہے اس کے س اتھ وال دین کی ج انب س ے اس ی ق در زی ادہ‬
‫جہیز کی امیدیں جڑ جاتی ہیں اور معاشرہ اس بات کو قطع ا ً خ اطر میں نہیں الت ا کہ اس‬
‫لڑکی کے وال دین نے اس کی تعلیم پ ر کس ق در م الی وس ائل ص رف ک یے ہیں اور کس‬
‫محنت اور جاں فشانی سے اسے تعلیم یافتہ بناکر اس قابل بنایا ہے کہ وہ اہ ل خان دان کی‬
‫معاشی خوشحالی میں بھی معاون ہوسکے۔‬
‫برسر روزگار لڑکی جب اپنی ازدواجی زندگی شروع کرتی ہے تو اس کا‬ ‫ِ‬ ‫ایک کمأو اور‬
‫برسر روزگار ہونا بعض اوقات اس کے لیے شدید قسم کے مس ائل اور‬ ‫ِ‬ ‫یہ تعلیم یافتہ اور‬
‫ذہنی اذیت کا باعث بن جاتا ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جہاں شوہر بے روزگار‬
‫ہو یا اپنی خصلت اور مزاج کے اعتبار سے نکما اور کام چور ہو۔ ایسی صورت میں ت و‬
‫اس کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ ایک عام سا تصور ہمارے معاش رے میں یہ پای ا جات ا‬
‫ہے کہ ٓانے والی بہ و اگ ر کم انے والی ہے ت و وہ تم ام سس رالی رش تہ داروں کی‬

‫‪1‬‬
‫ضروریات‪ ،‬مطالبات اور نخروں کو برداشت بھی کرے گی اور ان کی تکمیل بھی کرے‬
‫گی۔ ایسا بھی دیکھنے میں ٓاتا ہے کہ بعض لوگ ایسی لڑکی سے شادی ص رف اس وجہ‬
‫سے ک رتے ہیں کہ وہ کم انے والی ہے۔ اس میں اللچ کے عالوہ اور کچھ بھی نہیں ہوت ا‬
‫اور جب ان کے اللچ کا گھڑا نہیں بھرتا تو نت نئے قسم کے مسائل اس کے س امنے س ر‬
‫اٹھانے لگتے ہیں۔ ایسے اللچی لوگوں کو اس بات کی قطعا ً پرواہ نہیں ہ وتی کہ ق انونی‪،‬‬
‫سماجی یا مذہبی و دینی اعتبار سے لڑکی کے حقوق اور ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کے‬
‫اختیارات کیا ہیں۔ اک ثر اوق ات اس کیفیت میں م ذہب اور خط وں کی تفری ق کے بن ا تم ام‬
‫لوگ شامل نظر ٓاتے ہیں۔‬
‫اخالقی‪ ،‬قانونی اور دینی اعتبار سے عورت ک و مکم ل م الی حق وق حاص ل ہیں۔ وہ کم ا‬
‫سکتی ہے‪ ،‬پراپ رٹی بناس کتی ہے اور اپ نی کم ائی ک و اپ نی مرض ی کے مط ابق خ رچ‬
‫کرنے کا پورا حق رکھتی ہے۔ اسالم میں تو اس حق کی ب ڑی اہمیت ہے۔ فقہ کی کت ابوں‬
‫میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ بیوی اپنے ش وہر ک و زک ٰوۃ کی رقم دے س کتی ہے جبکہ‬
‫زکوۃ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ قانونی طور پر اس کا کفیل ہے۔‬‫شوہر اپنی بیوی کو ٰ‬
‫موجودہ دور کی کمأو عورت جو گھر اور معاش کا دوہرا بوجھ اٹھاتی ہے اکثر اس ب ات‬
‫کو لے کر ش دید دب أو ک ا ش کار رہ تی ہے اور گھ ر اور خان دان میں بھی روز روز کے‬
‫جھگڑے اس کی تنخواہ اور کمائی اور اس کے خرچ ک و لے ک ر ہ وتے رہ تے ہیں۔ اور‬
‫اکثر کمانے والے گھرانوں کا یہ بڑا مسئلہ بن جاتا ہے جو خاندان کے س کون کے س اتھ‬
‫ساتھ کمانے والی لڑکی کی زندگی کا سکون بھی غارت کردیتا ہے۔‬
‫یہ ای ک تلخ حقیقت ہے کہ ع ورت کی کم ائی پ ر اس کے م ائیکے اور سس رال والے‬
‫دونوں کی نظریں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگوں کومالی مدد کی امی دیں ہ وتی ہیں اور کچھ ل وگ‬
‫اس ے اپن ا ح ق س مجھتے ہیں۔لوگ وں ک ا تص ور یہ ہے کہ ش ادی کے بع د ع ورت کی‬
‫کم ائی ‪،‬اس کی ٓام دنی اس کے ش وہر اور سس رال وال وں کی ہ وتی ہے ۔اس کم ائی میں‬
‫بڑے اور چھوٹے سب اپنی ذہنی حصہ داری قائم کرلیتے ہیں۔ جب کہ اسالمی قانون کے‬
‫مطابق عورت اپنی کمائی پر پورا استحقاق رکھتی ہے ۔‬
‫ازدواجی زندگی میں داخل ہونے کے بعد ع ورت ک و حم ل‪ ،‬والدت‪ ،‬ریاض ت اور طبعی‬
‫حاالت سے گزرنا پڑتا ہے جو اس کے لیے ذہنی اور جسمانی طور سے تکلیف دہ ہوتے‬
‫ہیں۔ان حاالت میں عورت کمائی بھی کرے تو اس پر دہرا بوجھ ہوت ا ہی ہے اور ص حیح‬
‫وقت میں مناسب غ ذا و ٓارام نہ مل نے کی وجہ س ے اس کی ص حت مت اثر ہ وتی ہے۔ ان‬
‫ح االت میں اس ے نفس یاتی ط ور پ ر بھی ٓارام و س کون اور محبت و اپن ائیت کی ب ڑی‬
‫ضرورت ہوتی ہے ۔ مگر اسے یہ چیزیں گھر اور خاندان کا ماحول نہ صرف فراہم نہیں‬
‫کرتا بلکہ الٹا اس کے ذہنی و جسمانی سکون کو غارت ک رنے ک ا ذریعہ بنت ا ہے وہ اس‬
‫طرح کہ متوس ط طبقے کی خ واتین کے ش وہر اک ثر اس کی تنخ واہ ’چھین‘ لی تے ہیں ‪،‬‬
‫انکار کی صورت میں گالی گلوچ اورلڑائی جھگڑے ہ وتے ہیں۔ بعض نش ے کی لت میں‬
‫‪2‬‬
‫گرفتار شوہر تو شراب پی کر راتوں ک و م ارپیٹ بھی ک رتے ہیں۔ یہ اں ت ک کہ اپ نی ہی‬
‫کمائی پ ر انھیں روزانہ ش وہر ی ا س اس وخس ر س ے ٓام د و رفت (‪ )transport‬کے ل یے‬
‫کرایہ تک مانگنا پڑتا ہے۔ خواتین کے لیے یہ ای ک ذہ نی اذیت ہے جس س ے وہ روزانہ‬
‫گزرتی ہیں۔جب وہ بسوں میں سوار ہو کر دفتر کے ل یے ج اتی ہیں ت و کت نے ہی بیہ ودہ‬
‫فقروں کو س ننا پڑت ا ہے اورکت نے ہی م ردوں کے س اتھ ‪ body touch‬ہوت ا ہے ۔ وہ یہ‬
‫س ب ک راہیت کے س اتھ برداش ت ک رتی ہیں مگ ر اک ثر گھ ر کے اف راد ک و ان ب اتوں ک ا‬
‫احساس تک نہیں ہوتا۔ اس کے بعد گھر ٓانے پر سارے کام منتظر ہوتے ہیں‪ ،‬جہاں ک وئی‬
‫اس ک ا ہ اتھ بٹ انے واال اور م ددگار ت ک نہیں ہوت ا۔ ڈاک ٹر ف وزیہ س عید نے اپ نی کت اب‬
‫‪Working with Sharks‬میں ایسی گیارہ خ واتین کی س چی کہ انیوں ک و پیش کی ا ہے‬
‫جنھیں کام کی جگہ پر تنگ کیا جاتا رہا ہے۔ اس کتاب ک و پڑھ نے س ے مالزمت ک رنے‬
‫والی خواتین کے مسائل کو سمجھا جا س کتا ہے ۔کچھ ورکن گ ویمن س ے ان کی تنخ واہ‬
‫پر بات ہوئی۔پروفیسر شہناز رعنا کا کہنا ہے‪:‬‬
‫’’جب سے میری نوکری ہوئی تب سے اپنے سارے اخراج ات میں خ ود اٹھ اتی ہ وں‪،‬نہ‬
‫میں نے شوہر سے کبھی مانگا اور نہ ہی انھوں نے کبھی دیا۔‘‘‬
‫ڈاکٹر مسرت عمران‪،‬گائناکلوجسٹ فرماتی ہیں ‪:‬‬
‫’’ شوہر کھلے طور پر کبھی تقاضا نہیں کرتے لیکن ہر م اہ کے اخراج ات پ وچھ لی تے‬
‫ہیں ۔ ایک طرح سے خیال رکھنا ہوتا ہے کہ حساب دینا ہے ۔‘‘‬
‫اعلی تعلیم یافتہ اور ان پیشوں سے وابستہ خ واتین کی کیفیت ہے جنھیں س ماج میں‬
‫ٰ‬ ‫یہ تو‬
‫عزت و شرافت کی عالمت سمجھا جاتا ہے۔ ان کی روشنی میں ٓاپ عام قس م کی خ واتین‬
‫کے مسائل کا صرف اندازہ لگاسکتے ہیں۔ یہ بات بھی قاب ِل ذکر ہے کہ کت نی ہی خ واتین‬
‫اپنے شوہروں سے صرف اس وجہ سے الگ ہوجاتی ہیں کہ ان پر ان کی کمائی ک و لے‬
‫کر ناقاب ِل برداشت قسم کا بوجھ تھا جسے وہ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔‬
‫عورت کے معاشی تنازعات کا حل‪:‬‬
‫عورت کے کسب معاش اختیار کرنے کی وجہ سے کچھ مسائل و تنازع ات یقین ا کھ ڑے‬
‫ہ وتے ہیں جنھیں ص رف اخالقی اور اس المی اص ولوں کی روش نی میں ہی ح ل کی ا ج ا‬
‫سکتا ہے۔ اسالم نے عورت کو معاشی مصروفیت اختیار کرنے کی اجازت دی ہے لیکن‬
‫والد یا شوہر یا بھائی اسے ج براً ک ام ک رنے کے ل یے مجب ور نہیں ک ر س کتے۔ وہ اپ نی‬
‫کمائی جیسے چاہے‪ ،‬جہاں چاہے اپنی ضرورت سے استعمال کرے۔ اس کے لیے ک وئی‬
‫اس سے استفسار کا قانونی حق نہیںرکھت ا ح تی کہ ش وہر بھی نہیں۔جبکہ اص والً‪ ،‬اخالق ا ً‬
‫اور قانون ا ً ع ورت ش وہر کی ٓام دنی پ ر پ ورا ح ق رکھ تی ہے اور اس کے ن ان نفقہ کی‬
‫ادائیگی شوہر کا ذمہ ہے ۔اس میں صرف ایک اخالقی پہلو ہے اور وہ یہ کہ عورت غیر‬
‫اخالقی اور ناج ائز جگہ وں پ ر م ال خ رچ ک رے ت و اس کی نگ رانی اور اس پ ر ٹوکن ا‬

‫‪3‬‬
‫معاشرتی و اخالقی ذمہ داری کا حصہ ہے۔ جہاں تک ض رورتا ً اپ نے ش وہر ی ا وال د کی‬
‫مالی مدد اور معاشی جدوجہد میں ان کا تعاون ک رنے کی ب ات ہے ت و اس ے دوہ را اج ر‬
‫ہے۔جب کہ معاشی ذمہ اری سے ٓازاد عورت اپنے شوہر کے مال کی م الکن ہ وتی ہے ۔‬
‫مالکن کی حیثیت سے وہ اس میں تصرف کا پورا حق رکھتی ہے۔‬
‫دور نبوی ﷺ میں عورتوں کے معاشی مشاغل کی بات کی جائے تو کچھ روشن مث الیں‬
‫اطمہ‬
‫ؓ‬ ‫ملتی ہیں۔ حضرت خدیجہ ؓ بین االقوامی سطح کی پہلی مسلم تاجرہ تھیں۔ حض رت ف‬
‫ودہ چم ڑے ک ا‬‫کھی تی ک رتیں اور رس ول ہللا ﷺ اس ان اج ک و کھ اتے تھے۔ حض رت س ؓ‬
‫صفیہ عط ر تی ار ک رتی تھیں ۔ اُم رُمیص ہ اور اُم‬
‫ؓ‬ ‫خولہ اور‬
‫ؓ‬ ‫کاروبار کرتی تھیں۔ حضرت‬
‫موتہ سونے کی ناک بنا کر لگاتی تھیں۔اسالمی ت اریخ میں ک ئی ایس ی خ واتین بھی مل تی‬ ‫ؓ‬
‫ہیں جو طب کے پیشے سے وابستہ تھیں۔ غرض کہ ہر خاتون اپنی صالحیت کے اعتبار‬
‫سے سماج کو مضبوطی عط ا ک رتے ہ وئے اس کی خ دمت میںاپن ا رول ادا ک ررہی تھی‬
‫لیکن ان تمام مثالوں میں اور بعد کے ادوار میں ہمیں کہیں یہ بات نظر نہیں ٓاتی کہ بیوی‬
‫کی کمائی کے سلسلے میں گھریلو تنازعات پیدا ہوئے ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی نظر‬
‫ٓاتی ہے کہ اس دور میں لوگ عورت کے معاشی و مالی حقوق کو جانتے اور س مجھتے‬
‫تھے اور ساتھ ہی ان کا احترام کرتے ہ وئے ع ورت کے اختی ارات میں م داخلت ک رنے‬
‫کے بجائے تعاون کا رویہ اپنائے ہوئے تھے۔‬
‫عورت کی کمائی کو لے کر ہونے والے گھریل و اور خان دانی تنازع ات ک ا ح ل ع ورت‬
‫کے مالی حقوق اور اختیارات کے احترام میں پوشیدہ ہے۔ اہ ِل خاندان کے ل یے الزم ہے‬
‫کہ وہ اللچ اور حرص کو چھ وڑ ک ر کم انے والی ع ورت کے س اتھ تع اون اور گھریل و‬
‫کاموں میں مدد کا رویہ اختیار کریں۔‬
‫عورت جو کچھ کماتی ہے‪ ،‬ظاہر ہے وہ اس ے اپ نے ش وہر‪ ،‬بچ وں‪ ،‬سس رال وال وں اور‬
‫دیگر قریبی رش تہ داروں پ ر ہی خ رچ ک رے گی۔ ایس ے میں ح رص‪ ،‬اللچ اور ج بر ک ا‬
‫رویہ قرٓان کے اس اصول کے خالف ہے جس میں اپنا م ال باط ل ط ریقے س ے کھ انے‬
‫سے منع کیا گیا ہے۔ (البقرۃ‪)188:‬‬
‫اص ولی ب اتوں کے عالوہ کچھ اخالقی ق دریں بھی ہیں جن کے اختی ار ک رنے س ے بہت‬
‫سے خاندانی مسائل خاص طور پر مذکورہ مسئلے حل ک یے جاس کتے ہیں۔ ان میں ای ک‬
‫بات یہ ہے کہ خوش حالی اور مال خرچ کرنے کی بہترین ش کل یہ ہے کہ اس ے قری بی‬
‫رشتہ داروں پر خرچ کیا جائے مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم م ال کی محبت س ے‬
‫نکل کر ہللا کی رضا کے طالب ہوں۔ ایک طرف زبردستی مال ہڑپ کرنے کا رویہ ہے‪،‬‬
‫دوسری طرف خوش دلی سے رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی بات ہے۔ اول ال ذکر فس اد‬
‫کا سبب ہے اور دوسرا دلوں کو جیتنے اور گھ ر ک و پ رامن و پرس کون بن انے واال اور‬
‫دلوں کو جیتنے واال ہے۔‬

‫‪4‬‬
‫عورت کا کمانا اور اہ ِل قرابت پر خ رچ کرن ا احس ان کی روش ہے جبکہ اس کی کم ائی‬
‫پر اللچ کی نظر اخالقی خرابی ہے‪ ،‬خواہ وہ کسی بھی جانب سے ہو۔ احسان پسندیدہ ہے‬
‫اور اللچ ناپس ندیدہ۔ اچھی چ یز ک و اپنان ا اور ب رائی س ے دوری پرس کون زن دگی کی‬
‫ضمانت ہے۔ ایساہوا تو اس کی زندگی کے مختلف شعبے امن کا گہوارہ بن س کتے ہیں ۔‬
‫اس ض من میں ع ورت اس الم کے اص ولی ق وانین ک و س مجھ ک ر اپ نی زن دگی میں ناف ذ‬
‫کرے ۔ اسالمی اصولوں اور ہدایات پر عملکیا جائے ت و مش کلیں ب اقی نہیں رہیں گی۔ ان‬
‫حدود کی پابن د ی س ے م احول میں مثبت اث رات م رتب ہ وں گے۔اس دور میں بھی ک ئی‬
‫ایسی خواتین ہیں جنھوں نے کسب معاش کے ساتھ ساتھ اس المی ط رز فک ر و عم ل ک و‬
‫اختیار کیا۔ وہ خوداعتمادی اور یقین کے ساتھ ملک کی معیش ت ک و مض بوط بن انے میں‬
‫اپنا رول ادا کر رہی ہیں۔‬
‫جس گھر میں عورت جاب کرتی ہو اس گھر کے لوگوں کا اخالقی فریض ہ ہے کہ اس ے‬
‫گھریلو کاموںسے حتی االمکان فارغ ک ر دیں ۔ معاش ی جدوجہ د اس کی ذمہ داری بالک ل‬
‫بھی نہیں ہے نیز وہ اپنی تعلیمی صالحیتوں یا گھریلو مسائل کو دیکھتے ہ وئے مالزمت‬
‫کرتی ہے تو یہ گھر کے افراد پر اس کا احسان ہے اور احسان کا بدال حس ن اخالق ہے ۔‬
‫شوہر صاحب حیثیت ہے تو بیوی گھر کے کاموں کے لیے خ ادمہ کے مط البے ک ا ح ق‬
‫بھی رکھتی ہے‪ ،‬بلکہ اپنی تنخواہ سے خود بھی رکھ س کتی ہے۔ یہ ال گ ب ات ہے کہ وہ‬
‫گھریلو کاموں کو اپنا اخالقی فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دے۔‬
‫مالزمت پیشہ عورت کو بھی چاہئے کہ فراخدلی اپنائے ‪،‬گھ ر وال وں ک و موق ع بہ موق ع‬
‫کچھ تحفے وغ یرہ دی ا ک رے۔ واض ح رہے کہ تحفے کی مختل ف ش کلیں ہیں اور م ادہ‬
‫پرستی کے اس دور میں روپے کی ضرورت کا ص حیح اس تعمال ض روری ہے ۔ اس الم‬
‫نے عورت کے وقار کو بلندی عطا کی‪ ،‬اسے تحفظ بخش ا‪ ،‬س کون و اطمین ان کے س اتھ‬
‫معاشی تگ و دو کی اجازت دی اور اپنی بقا ء کو قائم رکھنے کے راستے دکھائے۔‬
‫‪Email: naaza55@gmail.com‬‬

‫‪5‬‬

You might also like