Professional Documents
Culture Documents
1
ضروریات ،مطالبات اور نخروں کو برداشت بھی کرے گی اور ان کی تکمیل بھی کرے
گی۔ ایسا بھی دیکھنے میں ٓاتا ہے کہ بعض لوگ ایسی لڑکی سے شادی ص رف اس وجہ
سے ک رتے ہیں کہ وہ کم انے والی ہے۔ اس میں اللچ کے عالوہ اور کچھ بھی نہیں ہوت ا
اور جب ان کے اللچ کا گھڑا نہیں بھرتا تو نت نئے قسم کے مسائل اس کے س امنے س ر
اٹھانے لگتے ہیں۔ ایسے اللچی لوگوں کو اس بات کی قطعا ً پرواہ نہیں ہ وتی کہ ق انونی،
سماجی یا مذہبی و دینی اعتبار سے لڑکی کے حقوق اور ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کے
اختیارات کیا ہیں۔ اک ثر اوق ات اس کیفیت میں م ذہب اور خط وں کی تفری ق کے بن ا تم ام
لوگ شامل نظر ٓاتے ہیں۔
اخالقی ،قانونی اور دینی اعتبار سے عورت ک و مکم ل م الی حق وق حاص ل ہیں۔ وہ کم ا
سکتی ہے ،پراپ رٹی بناس کتی ہے اور اپ نی کم ائی ک و اپ نی مرض ی کے مط ابق خ رچ
کرنے کا پورا حق رکھتی ہے۔ اسالم میں تو اس حق کی ب ڑی اہمیت ہے۔ فقہ کی کت ابوں
میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ بیوی اپنے ش وہر ک و زک ٰوۃ کی رقم دے س کتی ہے جبکہ
زکوۃ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ قانونی طور پر اس کا کفیل ہے۔شوہر اپنی بیوی کو ٰ
موجودہ دور کی کمأو عورت جو گھر اور معاش کا دوہرا بوجھ اٹھاتی ہے اکثر اس ب ات
کو لے کر ش دید دب أو ک ا ش کار رہ تی ہے اور گھ ر اور خان دان میں بھی روز روز کے
جھگڑے اس کی تنخواہ اور کمائی اور اس کے خرچ ک و لے ک ر ہ وتے رہ تے ہیں۔ اور
اکثر کمانے والے گھرانوں کا یہ بڑا مسئلہ بن جاتا ہے جو خاندان کے س کون کے س اتھ
ساتھ کمانے والی لڑکی کی زندگی کا سکون بھی غارت کردیتا ہے۔
یہ ای ک تلخ حقیقت ہے کہ ع ورت کی کم ائی پ ر اس کے م ائیکے اور سس رال والے
دونوں کی نظریں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگوں کومالی مدد کی امی دیں ہ وتی ہیں اور کچھ ل وگ
اس ے اپن ا ح ق س مجھتے ہیں۔لوگ وں ک ا تص ور یہ ہے کہ ش ادی کے بع د ع ورت کی
کم ائی ،اس کی ٓام دنی اس کے ش وہر اور سس رال وال وں کی ہ وتی ہے ۔اس کم ائی میں
بڑے اور چھوٹے سب اپنی ذہنی حصہ داری قائم کرلیتے ہیں۔ جب کہ اسالمی قانون کے
مطابق عورت اپنی کمائی پر پورا استحقاق رکھتی ہے ۔
ازدواجی زندگی میں داخل ہونے کے بعد ع ورت ک و حم ل ،والدت ،ریاض ت اور طبعی
حاالت سے گزرنا پڑتا ہے جو اس کے لیے ذہنی اور جسمانی طور سے تکلیف دہ ہوتے
ہیں۔ان حاالت میں عورت کمائی بھی کرے تو اس پر دہرا بوجھ ہوت ا ہی ہے اور ص حیح
وقت میں مناسب غ ذا و ٓارام نہ مل نے کی وجہ س ے اس کی ص حت مت اثر ہ وتی ہے۔ ان
ح االت میں اس ے نفس یاتی ط ور پ ر بھی ٓارام و س کون اور محبت و اپن ائیت کی ب ڑی
ضرورت ہوتی ہے ۔ مگر اسے یہ چیزیں گھر اور خاندان کا ماحول نہ صرف فراہم نہیں
کرتا بلکہ الٹا اس کے ذہنی و جسمانی سکون کو غارت ک رنے ک ا ذریعہ بنت ا ہے وہ اس
طرح کہ متوس ط طبقے کی خ واتین کے ش وہر اک ثر اس کی تنخ واہ ’چھین‘ لی تے ہیں ،
انکار کی صورت میں گالی گلوچ اورلڑائی جھگڑے ہ وتے ہیں۔ بعض نش ے کی لت میں
2
گرفتار شوہر تو شراب پی کر راتوں ک و م ارپیٹ بھی ک رتے ہیں۔ یہ اں ت ک کہ اپ نی ہی
کمائی پ ر انھیں روزانہ ش وہر ی ا س اس وخس ر س ے ٓام د و رفت ( )transportکے ل یے
کرایہ تک مانگنا پڑتا ہے۔ خواتین کے لیے یہ ای ک ذہ نی اذیت ہے جس س ے وہ روزانہ
گزرتی ہیں۔جب وہ بسوں میں سوار ہو کر دفتر کے ل یے ج اتی ہیں ت و کت نے ہی بیہ ودہ
فقروں کو س ننا پڑت ا ہے اورکت نے ہی م ردوں کے س اتھ body touchہوت ا ہے ۔ وہ یہ
س ب ک راہیت کے س اتھ برداش ت ک رتی ہیں مگ ر اک ثر گھ ر کے اف راد ک و ان ب اتوں ک ا
احساس تک نہیں ہوتا۔ اس کے بعد گھر ٓانے پر سارے کام منتظر ہوتے ہیں ،جہاں ک وئی
اس ک ا ہ اتھ بٹ انے واال اور م ددگار ت ک نہیں ہوت ا۔ ڈاک ٹر ف وزیہ س عید نے اپ نی کت اب
Working with Sharksمیں ایسی گیارہ خ واتین کی س چی کہ انیوں ک و پیش کی ا ہے
جنھیں کام کی جگہ پر تنگ کیا جاتا رہا ہے۔ اس کتاب ک و پڑھ نے س ے مالزمت ک رنے
والی خواتین کے مسائل کو سمجھا جا س کتا ہے ۔کچھ ورکن گ ویمن س ے ان کی تنخ واہ
پر بات ہوئی۔پروفیسر شہناز رعنا کا کہنا ہے:
’’جب سے میری نوکری ہوئی تب سے اپنے سارے اخراج ات میں خ ود اٹھ اتی ہ وں،نہ
میں نے شوہر سے کبھی مانگا اور نہ ہی انھوں نے کبھی دیا۔‘‘
ڈاکٹر مسرت عمران،گائناکلوجسٹ فرماتی ہیں :
’’ شوہر کھلے طور پر کبھی تقاضا نہیں کرتے لیکن ہر م اہ کے اخراج ات پ وچھ لی تے
ہیں ۔ ایک طرح سے خیال رکھنا ہوتا ہے کہ حساب دینا ہے ۔‘‘
اعلی تعلیم یافتہ اور ان پیشوں سے وابستہ خ واتین کی کیفیت ہے جنھیں س ماج میں
ٰ یہ تو
عزت و شرافت کی عالمت سمجھا جاتا ہے۔ ان کی روشنی میں ٓاپ عام قس م کی خ واتین
کے مسائل کا صرف اندازہ لگاسکتے ہیں۔ یہ بات بھی قاب ِل ذکر ہے کہ کت نی ہی خ واتین
اپنے شوہروں سے صرف اس وجہ سے الگ ہوجاتی ہیں کہ ان پر ان کی کمائی ک و لے
کر ناقاب ِل برداشت قسم کا بوجھ تھا جسے وہ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔
عورت کے معاشی تنازعات کا حل:
عورت کے کسب معاش اختیار کرنے کی وجہ سے کچھ مسائل و تنازع ات یقین ا کھ ڑے
ہ وتے ہیں جنھیں ص رف اخالقی اور اس المی اص ولوں کی روش نی میں ہی ح ل کی ا ج ا
سکتا ہے۔ اسالم نے عورت کو معاشی مصروفیت اختیار کرنے کی اجازت دی ہے لیکن
والد یا شوہر یا بھائی اسے ج براً ک ام ک رنے کے ل یے مجب ور نہیں ک ر س کتے۔ وہ اپ نی
کمائی جیسے چاہے ،جہاں چاہے اپنی ضرورت سے استعمال کرے۔ اس کے لیے ک وئی
اس سے استفسار کا قانونی حق نہیںرکھت ا ح تی کہ ش وہر بھی نہیں۔جبکہ اص والً ،اخالق ا ً
اور قانون ا ً ع ورت ش وہر کی ٓام دنی پ ر پ ورا ح ق رکھ تی ہے اور اس کے ن ان نفقہ کی
ادائیگی شوہر کا ذمہ ہے ۔اس میں صرف ایک اخالقی پہلو ہے اور وہ یہ کہ عورت غیر
اخالقی اور ناج ائز جگہ وں پ ر م ال خ رچ ک رے ت و اس کی نگ رانی اور اس پ ر ٹوکن ا
3
معاشرتی و اخالقی ذمہ داری کا حصہ ہے۔ جہاں تک ض رورتا ً اپ نے ش وہر ی ا وال د کی
مالی مدد اور معاشی جدوجہد میں ان کا تعاون ک رنے کی ب ات ہے ت و اس ے دوہ را اج ر
ہے۔جب کہ معاشی ذمہ اری سے ٓازاد عورت اپنے شوہر کے مال کی م الکن ہ وتی ہے ۔
مالکن کی حیثیت سے وہ اس میں تصرف کا پورا حق رکھتی ہے۔
دور نبوی ﷺ میں عورتوں کے معاشی مشاغل کی بات کی جائے تو کچھ روشن مث الیں
اطمہ
ؓ ملتی ہیں۔ حضرت خدیجہ ؓ بین االقوامی سطح کی پہلی مسلم تاجرہ تھیں۔ حض رت ف
ودہ چم ڑے ک اکھی تی ک رتیں اور رس ول ہللا ﷺ اس ان اج ک و کھ اتے تھے۔ حض رت س ؓ
صفیہ عط ر تی ار ک رتی تھیں ۔ اُم رُمیص ہ اور اُم
ؓ خولہ اور
ؓ کاروبار کرتی تھیں۔ حضرت
موتہ سونے کی ناک بنا کر لگاتی تھیں۔اسالمی ت اریخ میں ک ئی ایس ی خ واتین بھی مل تی ؓ
ہیں جو طب کے پیشے سے وابستہ تھیں۔ غرض کہ ہر خاتون اپنی صالحیت کے اعتبار
سے سماج کو مضبوطی عط ا ک رتے ہ وئے اس کی خ دمت میںاپن ا رول ادا ک ررہی تھی
لیکن ان تمام مثالوں میں اور بعد کے ادوار میں ہمیں کہیں یہ بات نظر نہیں ٓاتی کہ بیوی
کی کمائی کے سلسلے میں گھریلو تنازعات پیدا ہوئے ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہی نظر
ٓاتی ہے کہ اس دور میں لوگ عورت کے معاشی و مالی حقوق کو جانتے اور س مجھتے
تھے اور ساتھ ہی ان کا احترام کرتے ہ وئے ع ورت کے اختی ارات میں م داخلت ک رنے
کے بجائے تعاون کا رویہ اپنائے ہوئے تھے۔
عورت کی کمائی کو لے کر ہونے والے گھریل و اور خان دانی تنازع ات ک ا ح ل ع ورت
کے مالی حقوق اور اختیارات کے احترام میں پوشیدہ ہے۔ اہ ِل خاندان کے ل یے الزم ہے
کہ وہ اللچ اور حرص کو چھ وڑ ک ر کم انے والی ع ورت کے س اتھ تع اون اور گھریل و
کاموں میں مدد کا رویہ اختیار کریں۔
عورت جو کچھ کماتی ہے ،ظاہر ہے وہ اس ے اپ نے ش وہر ،بچ وں ،سس رال وال وں اور
دیگر قریبی رش تہ داروں پ ر ہی خ رچ ک رے گی۔ ایس ے میں ح رص ،اللچ اور ج بر ک ا
رویہ قرٓان کے اس اصول کے خالف ہے جس میں اپنا م ال باط ل ط ریقے س ے کھ انے
سے منع کیا گیا ہے۔ (البقرۃ)188:
اص ولی ب اتوں کے عالوہ کچھ اخالقی ق دریں بھی ہیں جن کے اختی ار ک رنے س ے بہت
سے خاندانی مسائل خاص طور پر مذکورہ مسئلے حل ک یے جاس کتے ہیں۔ ان میں ای ک
بات یہ ہے کہ خوش حالی اور مال خرچ کرنے کی بہترین ش کل یہ ہے کہ اس ے قری بی
رشتہ داروں پر خرچ کیا جائے مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم م ال کی محبت س ے
نکل کر ہللا کی رضا کے طالب ہوں۔ ایک طرف زبردستی مال ہڑپ کرنے کا رویہ ہے،
دوسری طرف خوش دلی سے رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی بات ہے۔ اول ال ذکر فس اد
کا سبب ہے اور دوسرا دلوں کو جیتنے اور گھ ر ک و پ رامن و پرس کون بن انے واال اور
دلوں کو جیتنے واال ہے۔
4
عورت کا کمانا اور اہ ِل قرابت پر خ رچ کرن ا احس ان کی روش ہے جبکہ اس کی کم ائی
پر اللچ کی نظر اخالقی خرابی ہے ،خواہ وہ کسی بھی جانب سے ہو۔ احسان پسندیدہ ہے
اور اللچ ناپس ندیدہ۔ اچھی چ یز ک و اپنان ا اور ب رائی س ے دوری پرس کون زن دگی کی
ضمانت ہے۔ ایساہوا تو اس کی زندگی کے مختلف شعبے امن کا گہوارہ بن س کتے ہیں ۔
اس ض من میں ع ورت اس الم کے اص ولی ق وانین ک و س مجھ ک ر اپ نی زن دگی میں ناف ذ
کرے ۔ اسالمی اصولوں اور ہدایات پر عملکیا جائے ت و مش کلیں ب اقی نہیں رہیں گی۔ ان
حدود کی پابن د ی س ے م احول میں مثبت اث رات م رتب ہ وں گے۔اس دور میں بھی ک ئی
ایسی خواتین ہیں جنھوں نے کسب معاش کے ساتھ ساتھ اس المی ط رز فک ر و عم ل ک و
اختیار کیا۔ وہ خوداعتمادی اور یقین کے ساتھ ملک کی معیش ت ک و مض بوط بن انے میں
اپنا رول ادا کر رہی ہیں۔
جس گھر میں عورت جاب کرتی ہو اس گھر کے لوگوں کا اخالقی فریض ہ ہے کہ اس ے
گھریلو کاموںسے حتی االمکان فارغ ک ر دیں ۔ معاش ی جدوجہ د اس کی ذمہ داری بالک ل
بھی نہیں ہے نیز وہ اپنی تعلیمی صالحیتوں یا گھریلو مسائل کو دیکھتے ہ وئے مالزمت
کرتی ہے تو یہ گھر کے افراد پر اس کا احسان ہے اور احسان کا بدال حس ن اخالق ہے ۔
شوہر صاحب حیثیت ہے تو بیوی گھر کے کاموں کے لیے خ ادمہ کے مط البے ک ا ح ق
بھی رکھتی ہے ،بلکہ اپنی تنخواہ سے خود بھی رکھ س کتی ہے۔ یہ ال گ ب ات ہے کہ وہ
گھریلو کاموں کو اپنا اخالقی فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دے۔
مالزمت پیشہ عورت کو بھی چاہئے کہ فراخدلی اپنائے ،گھ ر وال وں ک و موق ع بہ موق ع
کچھ تحفے وغ یرہ دی ا ک رے۔ واض ح رہے کہ تحفے کی مختل ف ش کلیں ہیں اور م ادہ
پرستی کے اس دور میں روپے کی ضرورت کا ص حیح اس تعمال ض روری ہے ۔ اس الم
نے عورت کے وقار کو بلندی عطا کی ،اسے تحفظ بخش ا ،س کون و اطمین ان کے س اتھ
معاشی تگ و دو کی اجازت دی اور اپنی بقا ء کو قائم رکھنے کے راستے دکھائے۔
Email: naaza55@gmail.com
5