Professional Documents
Culture Documents
معاشی طور پہ مضبوط عورت اور طلاق کی بڑھتی شرح
معاشی طور پہ مضبوط عورت اور طلاق کی بڑھتی شرح
ہم نے کبھی سوچا اگرایسا ہے تو کیوں ہے اور آخر وہ کیا وجہ ہے کہ ان پڑھ ،گنوار اور غریب لڑکیاں /عورتیں
اپنے گھروں میں زیادہ بستی ہیں بانسبت باشعور ،آگاہی اور تعلیم کے زیور سے آرستہ لڑکیاں۔ وہ لڑکیاں جن کی
ذہانت کا ڈنکا بجتا رہا ہو ان کے گھروں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے؟ وہ جو ہزاروں روپے کی تخواہ لیتی ہیں یا تو
دنوں میں مرجھاجاتی ہیں یا خلع لے لیتی ہیں جبکہ ان کے برعکس وہ لڑکیاں اور عورتیں جن کے پاس کوئی آپشن
ہی نہی ہوتا وہ شوہر سے مار کھا کے ،اس کی ذہنی الجھن خود پہ برداشت کر کے ،سسرال والوں کے لیئے کچن
آباد کرکے اور اپنی ذات کی نفی کرکے گھر شاد و آباد رکھنے پہ “مجبور” ہوتی ہیں۔
بد قسمتی یہ نہیں کہ ہماری بچیاں پڑھ لکھ گئیں ،ستم یہ ہے کہ ہمارے بچے یہ شعور نہیں رکھتے کہ بیوی کی ذمہ
داری کیاہے اور وہ ایک باندی یا مالزمہ نہیں بلکہ اپنی نسل کو پروان چڑھانے ایک جیتی جاگتی انسان ال رہے
ہیں۔
سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ ایک پڑھی لکھی لڑکی شعور حاصل کرکے خود کو انسان سمجھ لیتی ہے ،اس کو
معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ بھی ہللا کی بنائی بلکل ویسی ہی مخلوق ہے جیسا مرد۔ اس لڑکی کو احساس ہو جاتا ہے کہ
اگر اوالد نہیں ہو رہی تو یہ اس اکیلے کا قصور نہیں ،مرد بھی اس کی وجہ ہوسکتا ہے۔ اور جب وہ یہ بات ڈھکے
چھپے انداز میں کہنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا ریت پہ بناہوا گھر ہلنے لگتا ہے۔
وہ جب شوہر کا اٹھا ہوا ہاتھ اپنی تنخواہ سے روکنا چاہتی ہے تو اسے یاد دالیا جاتا ہے کہ بی بی ہوش کے ناخن لو،
تم عورت ہو اپنے آدمی کی تابعداری کرنا تم پہ فرض ہے۔ اب اس تابعداری میں نجانے کب اور کس طرح شوہر
کے اماں ابا اور بہن بھائی کے موڈ کو دیکھ کے زندگی بتانا عورت پہ زبردستی الگو ہوگیا ہے۔ شادی شدہ زندگی
کا دار و مدار کب سے سسرالیوں کی رضا پہ منحصر ہوگیا یہ کسی کو علم نہیں
اخالقی پہلو اپنی جگہ کہ آپ شوہر کے گھر والوں سے نرمی اور اخالق سے پیش آئیں لیکن یہ اخالقی فرض
صرف لڑکی پہ الگو نہیں جو اپنا گھر ماں باپ دوست احباب سب چھوڑ کے انجان لوگوں میں تاحیات رہنے چلی
آتی ہے۔
قرآن میں عورتوں کا حاکم مرد کو جوتے مارنے ،ماں بہنوں کی چاکری کرنے نہیں بلکہ ان عورتوں یعنی اپنی
بیوی کی ذمہ داری اٹھانے اور نرمی کا سلوک کرنے پہ بنایا گیا ہے ،ایک بار سورہ النساء کا ترجمہ پڑھیں اور پھر
تجزیہ کریں۔
لمحہ بھر کو سوچیں ،اگر عورت کی کوئی اوقات ہی نا ہوتی تو ،رب کائنات اپنی کتاب کی ایک پوری سورہ کا نام
النساء رکھتے؟ وہ مردوں کو مخاطب کرکے فرماتے کہ ان کے ساتھ نرمی سے پیش آ ٔو ،حتی کہ جو تحائف تم ان
(بیوی) کو دے چکے وہ واپس مت لو۔ حق مہر جس پہ اکثر شادی کی تقریب بد مزہ ہو جاتی ہے وہ بھی عورتوں کا
حق بتایا گیا ہے۔ ان کو معاف کرانے سے منع فرمایا گیا ہے ،اگر بیوی اپنی رضا سے حق مہر معاف کردے تو الگ
بات ہے۔
ہماری پڑھی لکھی بچیوں کے گھر کیوں ٹوٹتے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ان میں طالق /خلع کی شرح زیادہ ہے؟ آپ
سکون سے قرآن کی ان آیتوں کو پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا آپ اپنی بیوی کے حقوق ادا کررہے ہیں جو ہللا نے
اپ کو اپنی کتاب کے زریعے حکم دیا ہے یا آپ ماں اور بیوی میں انصاف کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں اور اس کا
الزام بھی کمزور عورت یعنی بیوی پہ لگارہے ہیں؟
سورت النساء
آیت 19۔۔۔ 4۔۔۔۔ 24۔۔۔ 34
پاکستانی سماج اورعورت :کیا پسند کی شادی گناہ ہے؟ نجیبہ عارف
پاکستانی سماج عورت کے معاملے میں ایک عجیب سی دورخی اور تضاد کا شکار ہے۔ یہ تضاد مذہب بالخصوص
اسالم کے نام پر عورت کی زندگی کاالئحہ عمل طے کرنے سے لے کر ترقی پسندی اور روشن خیالی کے نام پر
عورت کا استحصال کرنے تک ہزاروں طرح سے رو بہ عمل آتا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ عورت ہر دو قسم کے
استحصال سے نجات حاصل کرنے کے لیے قدم اٹھائے۔ اس تحریری سلسلے میں پاکستانی عورت کو درپیش ان
مسائل کا ذکر کیا جائے گا جنھیں ٹیبو یا ممنوعہ موضوع سمجھا جانے لگا ہے۔
پہلی قسم کا استحصال تو وہ ہے جو مذہب کے نام پر کلچر سے حاصل شدہ تصورات کے ذریعے رو بہ عمل الیا
جاتا ہے۔شادی اور اس کے متعلقات ہی کی مثال لے لیجیے۔ اسالمی شادی کی بنیاد نکاح ہے اور نکاح کی بنیاد
ایجاب و قبول ہے۔ اسالم میں ایجاب و قبول کی شرط محض ایک رسمی کارروائی نہیں ہےبلکہ نکاح کی اصل روح
ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی سماج میں یہ رسم محض خانہ پری بن کر رہ گئی ہے۔ شادی کے بھرے پنڈال میں سجی
سنوری لڑکی کا سر پکڑ کر ہال دینا ہی ایجاب و قبول کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ نکاح کے لیے مرد و زن
دونوں کی رضامندی پہلی اور بنیادی شرط ہے۔ اگر فریقین رضامند نہ ہوں تو پورا خاندان کیا ،پوری خدائی بھی
رضامند ہوجائے ،نکاح کی شرط پوری نہیں ہوتی۔ یہ انتہائی افسوس ناک اور تکلیف دہ حقیقت ہےکہ پاکستان میں
شادی کے معاملے میں اپنی پسند یا مرضی کا اظہار لڑکیوں کے لیے ایک تہمت بن کر رہ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ
شادی کے لیے اپنی پسند کااظہار کرنے والی لڑکیاں سماج کو للکار رہی ہیں اور پورا سماج ان کے خالف صف آرا
ایک ایسا الزام بن جاتی ہے جس سے ہر کوئی انکار کرنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ پسند کی شادی ہونے پر متفق ہے۔
جو لڑکیاں کسی نہ کسی طور پسند کی شادی کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہیں ،وہ بھی اس بات کو چھپانے پر
مجبور ہوتی ہیں اور یہی ظاہر کرنے میں اپنی عزت اور عافیت سمجھتی ہیں کہ شادی خاندان والوں کی پسند سے
طرز عمل صریحا ً اسالمی تعلیمات کے خالف ہے۔
ِ ہوئی ہے۔یہ
پسند کی شادی کے خالف جو دلیل ہمارے معاشرے میں بہت مقبول ہے وہ یہ ہے کہ نوجوانی میں انسان خود اپنے
برے بھلے سے واقف نہیں ہوتا اور والدین یا خاندان کے بزرگوں کی عقل و دانش سے استفادہ کرنا ہی اس کے حق
میں بہتر ہوتا ہے۔ اس دلیل میں کچھ وزن ضرور ہے۔ زندگی کے تجربے سے حاصل ہونے والی دانش یقینا ً قاب ِل
قدر اور قاب ِل احترام ہوتی ہے مگر شادی ایک ایسا معاملہ ہے جو ایک طرف تو خاندان اور سماج کی بنیادی اکائی
کو تشکیل دیتا ہے تو دوسری طرف دو افراد کی قلبی و روحانی مسرت کا ضامن یا اس کا قاتل بھی بن سکتا
محض معاشرتی عمل نہیں ہے ،انسان کی نجی جذباتی و نفسیاتی کیفیات سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ شادی ہے۔
بزرگوں کی عقل و دانش پہلے معاملے میں تو رہنمائی کر سکتی ہے لیکن دوسرے پہلو تک رسائی نہیں
رکھتی۔یعنی شادی کے سماجی و معاشرتی پہلو تو شاید بزرگوں کی رہنمائی میں زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو سکیں
لیکن شخصی وجذباتی پہلوؤں کاٹھیک ٹھیک اندازہ کرنا بزرگوں کے لیے ممکن نہیں۔ یہ کام اس عمل کے متاثرین
کو خود کرنا چاہیے۔والدین کا فرض صرف اتنا ہے کہ وہ مجوزہ رشتے کے سماجی و معاشرتی مضمرات کو ان
کے سامنے واضح کر دیں اور پھر انھیں اپنی مرضی کی راہ چننے کے لیے آزاد چھوڑ دیں۔ فیصلہ کرنے کا بار
اٹھانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ تجربہ اور مشاہدہ دونوں شاہد ہیں کہ جب نوجوان اپنی زندگی کا ساتھی خود اپنی مرضی
سے چنتے ہیں تو اس رشتے کو نبھانے اور کامیاب بنانے کے لیے کوشش بھی زیادہ کرتے ہیں۔ لیکن اس کوشش
میں انھیں خود سے جنگ نہیں کرنی پڑتی کیوں کہ انھیں اپنے جذبے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔
بدقسمتی سےشادی کے معاملے میں لڑکیوں پر جبر کرنا ایک مقبول سماجی روایت اور نام نہاد شرافت کا نشان بن
چکا ہے جس کانتیجہ ایک طرف بے جوڑ اور زبردستی کی شادیوں کے منفی معاشرتی اثرات کی صورت میں
سامنے آتاہے تو دوسری طرف بغاوت اور سرکشی پیدا ہوتی ہے جو نہ صرف لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کے
لیے ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہے بلکہ معاشرے کی بنیادی اکائی کی توڑ پھوڑ کا باعث بھی بنتی ہے۔ میرے
خیال میں اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ہمارے بزرگ اور والدین اپنے بچوں کو برے بھلے کی تمیز سکھائیں ،اپنی
تہذیبی اقدار سے آشنا کریں ،علم و عقل سے بہرہ ور کریں اور جسمانی بلوغت کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی و فکری
بلوغت کا بھی اہتمام کریں۔ اس کے بعد انھیں اپنی زندگی کے بارے میں اہم فیصلے کر نے کا پورا موقع دیں۔ لیکن
یہ تبھی ممکن ہے جب والدین یا بزرگوں کے مرتبے تک پہنچ جانے والے افراد خود ذہنی و فکری بلوغت کے
حامل ہوں گے۔
سسرالی کنبے سے تعاون ،مہر و محبت اور ان کی عزت کرنا ایک خوش گوار دوطرفہ رشتے کو قائم کرنے کے
لیے ضروری ہے۔ جس طرح ہمسایوں کے حقوق ہیں ،اسی طرح رشتے داروں کے بھی حقوق ہیں اور ان میں اپنے
اور شوہر کے تمام رشتے دار شامل ہیں۔ لیکن صرف عورت کو اس امر پر مجبور کرناکہ وہ ہر حال میں اپنے
سسرال کی اطاعت اور خدمت کو اپنا شعار بنائے ،اور مرد کا اپنے سسرالی رشتے داروں سے ال تعلقی پر اترانا،نہ
صرف اسالمی تعلیمات بلکہ اخالق و انسانیت کے بھی منافی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں بہت سی خوبیاں اور
فائدے ہیں لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ یہ نظام دونوں فریقوں کے درمیان باہمی رضامندی اور دونوں کے مفادات
کے تحفظ کی بنیاد پر قائم ہو۔ صرف ایک فریق پر اس نظام کو قائم رکھنے کا بوجھ ڈال دینا مناسب نہیں ،خواہ وہ
بہو ہو یا سسرال۔ مشترکہ خاندانی نظام کے فوائد و برکات حاصل کرنے کے لیے فریقین کو کچھ لو اور کچھ دو
کے اصول پر متفق ہونا پڑتا ہے ورنہ یہ معاشرے کے لیے ایک ناسور بن سکتا ہے جس کی ایک انتہائی صورت
ان دنوں ہمارے کم و بیش تمام ٹیلی ویژن چینل مسلسل اور بڑے اہتمام سے دکھا رہے ہیں ۔ والدین کی خدمت اوالد
کے لیے سعادت کی بات ہے لیکن اس معاملے میں بھی ہمارے ہاں عجیب رویہ ہے۔ یعنی مرد کے ذمے اپنے
والدین کی خدمت اور عورت کے ذمے شوہر کے والدین کی خدمت۔یہ طرز عمل اسالم اور انسانیت دونوں کے
منافی ہے۔ مثالی رویہ تو یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں مل کر دونوں کے والدین کی دیکھ بھال میں شریک ہوں
لیکن اگر ایسا نہ کر سکیں تو پھر عورت کو بھی اپنے والدین کی دیکھ بھال اور خدمت کا ویسا ہی موقع ملنا چاہیے،
جیسا مرد کو ملتا ہے۔ البتہ اس کی قبیح ترین صورت یہ ہے کہ دونوں اپنے اپنے والدین سے غافل ہو جائیں۔
مالزمت پیشہ یا کماؤ عورت ہمارے معاشرے میں دہری اذیت کا شکار ہے۔ ایک طرف اس پر گھر داری کا بوجھ
جوں کا توں ہے اور دوسری طرف کمائی کی ذمہ داری بھی الحق ہے۔ اس کمائی سے عورت کرتی کیا ہے؟ میرا
ااندازہ ہے کہ کم وبیش ننانوے فی صد عورتیں اپنی کمائی کا بیشتر حصہ اپنے بچوں اور گھر کی ضروریات پوری
کرنے میں خرچ کر دیتی ہیں۔ اس دہری محنت کے باوجود وہ مسلسل زیر عتاب رہتی ہیں ۔ سسرال والوں کو شکوہ
ہے کہ بہو خدمت نہیں کرتی ،شوہر کو شکایت ہے کہ پوری توجہ نہیں ملتی ،بچوں کو گلہ ہے کہ امی ہر وقت
مصروف رہتی ہیں۔ دوست احباب ،عزیز رشتے دار بھی خوش نہیں ،کوئی نہ کوئی غفلت شعاری کا الزام عائد کر
ہی دیتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان سب شاکی طبقوں میں سے کوئی بھی دل سے یہ نہیں چاہتا کہ عورت سچ مچ
کام کاج چھوڑ کر ،اچھی بھلی کمائی کو الت مار کر گھر بیٹھ جائے۔ اس کے باوجود عورت کی کمائی اور اس کی
آمدنی کی اہمیت کو تسلیم کرنا مردانہ انا کے لیے عار کا باعث ہے۔ جب بھی کسی محفل میں ذکر آتا ہے ،شوہر
حضرات بڑے دھڑلے سے یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ہماری بیگم صاحبہ تو اپنے شوق کے لیے نوکری
کرتی ہیں ،ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔یہ منافقانہ روش اتنی عام ہو گئی ہے کہ کوئی اسے جھٹالنے تک کی زحمت
حتی کہ عورت بھی مسکرا کر کہہ دیتی ہے ،جی ہاں ،یہ میرا شوق ہے۔ مالزمت پیشہ عورت گوارا نہیں کرتا۔ ٰ
خاندان کی معاشی زندگی میں توازن قائم رکھنے میں جو کردار ادا کرتی ہے ،اس کی تحسین و تائید تو کجا ،اس کا
اعتراف بھی نہیں کیا جاتا۔
اس کا دوسرا اہم پہلو ،جسے بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے ،یہ ہے کہ اسالم نے عورت کو جو معاشی خود
مختاری دی ہے اس کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ایک طرف تو باپ کی جائیداد میں بیٹی کو حصہ دینے سے کھلم کھال
گریز کیا جاتا ہے اور دوسری طرف شوہر پر اپنی معاشی حیثیت کے مطابق عورت کو ،نان نفقے کے عالوہ ،جیب
خرچ دینے کی جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے وہ سرے سے بھال دی گئی ہے۔یہاں جیب خرچ سے مراد وہ رقم ہے
جو عورت خود اپنی مرضی سے ،کہیں بھی ،کبھی بھی خرچ کر سکتی ہے۔ ہمارے ہاں تو حالت یہ ہے کہ بیوی
کوحق مہر کی رقم ادا کرنا بھی بوجھ محسوس ہوتا ہے اور عموما ً اچھے بھلے صاح ِ
ب حیثیت افراد مہر مقرر
کرتے ہوئے اپنی مالی حیثیت کے بجائے ’’شرعی مہر ‘‘کے پردے میں چھپ جاتے ہیں۔حاالنکہ شرعی مہر بھی
حیثیت کے مطابق ہوتا ہے ،نہ کہ بتیس روپے چھے آنے۔ اگر یہ دونوں حقوق عورت کو مل جائیں تو بہت سی
عورتیں مالزمت کے جھمیلوں کو ترک کرکے ،اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنی خدمات وقف کر سکتی ہیں
جو عورت کی ذمہ داری ہی نہیں ،اس کی جذباتی ضرورت اور دلی مسرت بھی ہے۔
ہر عورت ماں بن کر خوشی محسوس کرتی ہے اور مادرانہ کردار ادا کر کے اپنی ذات کی توسیع و تجلیل کرتی
الخر عورت نے اپنے مادرانہ کردار ہے۔مغرب میں بھی معاشی جد و جہد کے کئی مراحل طے کرنے کے بعد با ٓ
کے اثبات کا ارادہ کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ماں بننے والی عورت کو ایک اور بعض صورتوں میں دو سال
تک تمام مراعات اور تنخواہ سمیت مالزمت سے چھٹی ملتی ہے تاکہ وہ بچے کی ،جو صرف ایک فرد یا جوڑے
کی اوالد نہیں ،ایک قوم کا نووارد فرد بھی ہوتا ہے ،مناسب اور مکمل دیکھ بھال کر سکے۔ ہمارے ہاں یہ دستور
الٹا ہے۔ ماں بننے والی مالزمت پیشہ عورت کو مراعات تو کجا ،الٹا مسلسل طعن و تشنیع اور کڑی نگرانی کا نشانہ
بنایا جاتا ہے اور اس پر مسلسل نظر رکھی جاتی ہے کہ کہیں وہ اپنے بچے کی محبت میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض
سے غفلت تو نہیں برت رہی۔ یہ ایک مجرمانہ عمل ہے اور ایسا سلوک ماں اور بچے کی حق تلفی ہی نہیں بلکہ
پورے معاشرے کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں مالزمت پیشہ خواتین کے لیے میٹرنٹی
لیوصرف نوے دن تک محدود ہوتی ہے جس پر یہ شرط بھی الگو ہوتی ہے کہ بچے کی والدت سے ۴۵دن پہلے
شروع ہو جائے اور ۴۵دن بعدختم ہو ۔ عام طور پر ممتا کی ماری مائیں ڈاکٹروں سے غلط سرٹیفکیٹ بنوا کر حمل
کے آخری دن تک نوکری پر حاضر رہتی ہیں تاکہ اس مختصر چھٹی کے زیادہ سے زیادہ دن اپنے بچے کے ساتھ
گزار سکیں۔ نوے دن کی چھٹی دے کر عورت پر احسان نہیں کیا جاتا بلکہ اسے ایک معاشرتی فریضہ ادا کرنے
کی مہلت دی جاتی ہے۔ یہ فریضہ بذاتہ اتنا عظیم ہے کہ اس مقصد کے لیے کم از کم ایک سال کی چھٹی دی جانی
چاہیے۔ ہم ہر معاملے میں مغرب کی تقلید کرتے ہیں تو اس معاملے میں بھی ان کی روش اختیارکرلی جائے۔ وہاں
تو باپ کو بھی بچے کی دیکھ بھال کے لیے چھٹی مل سکتی ہے۔