You are on page 1of 6

‫معاشی طور پہ مضبوط عورت اور طالق کی‬

‫بڑھتی شرح —‪ -‬عمارہ خان‬


‫ہمارے معاشرے میں اکثر یہ کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ “عورت معاشی طور پہ مضبوط ہوتے ہی اپنا گھر توڑلیتی‬
‫ہے یا پڑھی لکھی لڑکیوں میں طالق کی شرح زیادہ ہے”۔‬

‫ہم نے کبھی سوچا اگرایسا ہے تو کیوں ہے اور آخر وہ کیا وجہ ہے کہ ان پڑھ‪ ،‬گنوار اور غریب لڑکیاں‪ /‬عورتیں‬
‫اپنے گھروں میں زیادہ بستی ہیں بانسبت باشعور‪ ،‬آگاہی اور تعلیم کے زیور سے آرستہ لڑکیاں۔ وہ لڑکیاں جن کی‬
‫ذہانت کا ڈنکا بجتا رہا ہو ان کے گھروں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے؟ وہ جو ہزاروں روپے کی تخواہ لیتی ہیں یا تو‬
‫دنوں میں مرجھاجاتی ہیں یا خلع لے لیتی ہیں جبکہ ان کے برعکس وہ لڑکیاں اور عورتیں جن کے پاس کوئی آپشن‬
‫ہی نہی ہوتا وہ شوہر سے مار کھا کے‪ ،‬اس کی ذہنی الجھن خود پہ برداشت کر کے‪ ،‬سسرال والوں کے لیئے کچن‬
‫آباد کرکے اور اپنی ذات کی نفی کرکے گھر شاد و آباد رکھنے پہ “مجبور” ہوتی ہیں۔‬

‫بد قسمتی یہ نہیں کہ ہماری بچیاں پڑھ لکھ گئیں‪ ،‬ستم یہ ہے کہ ہمارے بچے یہ شعور نہیں رکھتے کہ بیوی کی ذمہ‬
‫داری کیاہے اور وہ ایک باندی یا مالزمہ نہیں بلکہ اپنی نسل کو پروان چڑھانے ایک جیتی جاگتی انسان ال رہے‬
‫ہیں۔‬

‫سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ ایک پڑھی لکھی لڑکی شعور حاصل کرکے خود کو انسان سمجھ لیتی ہے‪ ،‬اس کو‬
‫معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ بھی ہللا کی بنائی بلکل ویسی ہی مخلوق ہے جیسا مرد۔ اس لڑکی کو احساس ہو جاتا ہے کہ‬
‫اگر اوالد نہیں ہو رہی تو یہ اس اکیلے کا قصور نہیں‪ ،‬مرد بھی اس کی وجہ ہوسکتا ہے۔ اور جب وہ یہ بات ڈھکے‬
‫چھپے انداز میں کہنے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا ریت پہ بناہوا گھر ہلنے لگتا ہے۔‬

‫وہ جب شوہر کا اٹھا ہوا ہاتھ اپنی تنخواہ سے روکنا چاہتی ہے تو اسے یاد دالیا جاتا ہے کہ بی بی ہوش کے ناخن لو‪،‬‬
‫تم عورت ہو اپنے آدمی کی تابعداری کرنا تم پہ فرض ہے۔ اب اس تابعداری میں نجانے کب اور کس طرح شوہر‬
‫کے اماں ابا اور بہن بھائی کے موڈ کو دیکھ کے زندگی بتانا عورت پہ زبردستی الگو ہوگیا ہے۔ شادی شدہ زندگی‬
‫کا دار و مدار کب سے سسرالیوں کی رضا پہ منحصر ہوگیا یہ کسی کو علم نہیں‬

‫اخالقی پہلو اپنی جگہ کہ آپ شوہر کے گھر والوں سے نرمی اور اخالق سے پیش آئیں لیکن یہ اخالقی فرض‬
‫صرف لڑکی پہ الگو نہیں جو اپنا گھر ماں باپ دوست احباب سب چھوڑ کے انجان لوگوں میں تاحیات رہنے چلی‬
‫آتی ہے۔‬

‫قرآن میں عورتوں کا حاکم مرد کو جوتے مارنے‪ ،‬ماں بہنوں کی چاکری کرنے نہیں بلکہ ان عورتوں یعنی اپنی‬
‫بیوی کی ذمہ داری اٹھانے اور نرمی کا سلوک کرنے پہ بنایا گیا ہے‪ ،‬ایک بار سورہ النساء کا ترجمہ پڑھیں اور پھر‬
‫تجزیہ کریں۔‬

‫لمحہ بھر کو سوچیں‪ ،‬اگر عورت کی کوئی اوقات ہی نا ہوتی تو‪ ،‬رب کائنات اپنی کتاب کی ایک پوری سورہ کا نام‬
‫النساء رکھتے؟ وہ مردوں کو مخاطب کرکے فرماتے کہ ان کے ساتھ نرمی سے پیش آ ٔو‪ ،‬حتی کہ جو تحائف تم ان‬
‫(بیوی) کو دے چکے وہ واپس مت لو۔ حق مہر جس پہ اکثر شادی کی تقریب بد مزہ ہو جاتی ہے وہ بھی عورتوں کا‬
‫حق بتایا گیا ہے۔ ان کو معاف کرانے سے منع فرمایا گیا ہے‪ ،‬اگر بیوی اپنی رضا سے حق مہر معاف کردے تو الگ‬
‫بات ہے۔‬

‫ہماری پڑھی لکھی بچیوں کے گھر کیوں ٹوٹتے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ ان میں طالق‪ /‬خلع کی شرح زیادہ ہے؟ آپ‬
‫سکون سے قرآن کی ان آیتوں کو پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا آپ اپنی بیوی کے حقوق ادا کررہے ہیں جو ہللا نے‬
‫اپ کو اپنی کتاب کے زریعے حکم دیا ہے یا آپ ماں اور بیوی میں انصاف کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں اور اس کا‬
‫الزام بھی کمزور عورت یعنی بیوی پہ لگارہے ہیں؟‬
‫سورت النساء‬
‫آیت ‪19‬۔۔۔ ‪4‬۔۔۔۔ ‪24‬۔۔۔ ‪34‬‬

‫پاکستانی سماج اورعورت‪ :‬کیا پسند کی شادی گناہ ہے؟ نجیبہ عارف‬
‫پاکستانی سماج عورت کے معاملے میں ایک عجیب سی دورخی اور تضاد کا شکار ہے۔ یہ تضاد مذہب بالخصوص‬
‫اسالم کے نام پر عورت کی زندگی کاالئحہ عمل طے کرنے سے لے کر ترقی پسندی اور روشن خیالی کے نام پر‬
‫عورت کا استحصال کرنے تک ہزاروں طرح سے رو بہ عمل آتا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ عورت ہر دو قسم کے‬
‫استحصال سے نجات حاصل کرنے کے لیے قدم اٹھائے۔ اس تحریری سلسلے میں پاکستانی عورت کو درپیش ان‬
‫مسائل کا ذکر کیا جائے گا جنھیں ٹیبو یا ممنوعہ موضوع سمجھا جانے لگا ہے۔‬

‫پہلی قسم کا استحصال تو وہ ہے جو مذہب کے نام پر کلچر سے حاصل شدہ تصورات کے ذریعے رو بہ عمل الیا‬
‫جاتا ہے۔شادی اور اس کے متعلقات ہی کی مثال لے لیجیے۔ اسالمی شادی کی بنیاد نکاح ہے اور نکاح کی بنیاد‬
‫ایجاب و قبول ہے۔ اسالم میں ایجاب و قبول کی شرط محض ایک رسمی کارروائی نہیں ہےبلکہ نکاح کی اصل روح‬
‫ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی سماج میں یہ رسم محض خانہ پری بن کر رہ گئی ہے۔ شادی کے بھرے پنڈال میں سجی‬
‫سنوری لڑکی کا سر پکڑ کر ہال دینا ہی ایجاب و قبول کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ نکاح کے لیے مرد و زن‬
‫دونوں کی رضامندی پہلی اور بنیادی شرط ہے۔ اگر فریقین رضامند نہ ہوں تو پورا خاندان کیا‪ ،‬پوری خدائی بھی‬
‫رضامند ہوجائے‪ ،‬نکاح کی شرط پوری نہیں ہوتی۔ یہ انتہائی افسوس ناک اور تکلیف دہ حقیقت ہےکہ پاکستان میں‬
‫شادی کے معاملے میں اپنی پسند یا مرضی کا اظہار لڑکیوں کے لیے ایک تہمت بن کر رہ گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ‬
‫شادی کے لیے اپنی پسند کااظہار کرنے والی لڑکیاں سماج کو للکار رہی ہیں اور پورا سماج ان کے خالف صف آرا‬
‫ایک ایسا الزام بن جاتی ہے جس سے ہر کوئی انکار کرنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ پسند کی شادی ہونے پر متفق ہے۔‬
‫جو لڑکیاں کسی نہ کسی طور پسند کی شادی کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہیں‪ ،‬وہ بھی اس بات کو چھپانے پر‬
‫مجبور ہوتی ہیں اور یہی ظاہر کرنے میں اپنی عزت اور عافیت سمجھتی ہیں کہ شادی خاندان والوں کی پسند سے‬
‫طرز عمل صریحا ً اسالمی تعلیمات کے خالف ہے۔‬
‫ِ‬ ‫ہوئی ہے۔یہ‬
‫پسند کی شادی کے خالف جو دلیل ہمارے معاشرے میں بہت مقبول ہے وہ یہ ہے کہ نوجوانی میں انسان خود اپنے‬
‫برے بھلے سے واقف نہیں ہوتا اور والدین یا خاندان کے بزرگوں کی عقل و دانش سے استفادہ کرنا ہی اس کے حق‬
‫میں بہتر ہوتا ہے۔ اس دلیل میں کچھ وزن ضرور ہے۔ زندگی کے تجربے سے حاصل ہونے والی دانش یقینا ً قاب ِل‬
‫قدر اور قاب ِل احترام ہوتی ہے مگر شادی ایک ایسا معاملہ ہے جو ایک طرف تو خاندان اور سماج کی بنیادی اکائی‬
‫کو تشکیل دیتا ہے تو دوسری طرف دو افراد کی قلبی و روحانی مسرت کا ضامن یا اس کا قاتل بھی بن سکتا‬
‫محض معاشرتی عمل نہیں ہے‪ ،‬انسان کی نجی جذباتی و نفسیاتی کیفیات سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ شادی ہے۔‬
‫بزرگوں کی عقل و دانش پہلے معاملے میں تو رہنمائی کر سکتی ہے لیکن دوسرے پہلو تک رسائی نہیں‬
‫رکھتی۔یعنی شادی کے سماجی و معاشرتی پہلو تو شاید بزرگوں کی رہنمائی میں زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو سکیں‬
‫لیکن شخصی وجذباتی پہلوؤں کاٹھیک ٹھیک اندازہ کرنا بزرگوں کے لیے ممکن نہیں۔ یہ کام اس عمل کے متاثرین‬
‫کو خود کرنا چاہیے۔والدین کا فرض صرف اتنا ہے کہ وہ مجوزہ رشتے کے سماجی و معاشرتی مضمرات کو ان‬
‫کے سامنے واضح کر دیں اور پھر انھیں اپنی مرضی کی راہ چننے کے لیے آزاد چھوڑ دیں۔ فیصلہ کرنے کا بار‬
‫اٹھانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ تجربہ اور مشاہدہ دونوں شاہد ہیں کہ جب نوجوان اپنی زندگی کا ساتھی خود اپنی مرضی‬
‫سے چنتے ہیں تو اس رشتے کو نبھانے اور کامیاب بنانے کے لیے کوشش بھی زیادہ کرتے ہیں۔ لیکن اس کوشش‬
‫میں انھیں خود سے جنگ نہیں کرنی پڑتی کیوں کہ انھیں اپنے جذبے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔‬
‫بدقسمتی سےشادی کے معاملے میں لڑکیوں پر جبر کرنا ایک مقبول سماجی روایت اور نام نہاد شرافت کا نشان بن‬
‫چکا ہے جس کانتیجہ ایک طرف بے جوڑ اور زبردستی کی شادیوں کے منفی معاشرتی اثرات کی صورت میں‬
‫سامنے آتاہے تو دوسری طرف بغاوت اور سرکشی پیدا ہوتی ہے جو نہ صرف لڑکیوں اور ان کے خاندانوں کے‬
‫لیے ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہے بلکہ معاشرے کی بنیادی اکائی کی توڑ پھوڑ کا باعث بھی بنتی ہے۔ میرے‬
‫خیال میں اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ہمارے بزرگ اور والدین اپنے بچوں کو برے بھلے کی تمیز سکھائیں‪ ،‬اپنی‬
‫تہذیبی اقدار سے آشنا کریں‪ ،‬علم و عقل سے بہرہ ور کریں اور جسمانی بلوغت کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی و فکری‬
‫بلوغت کا بھی اہتمام کریں۔ اس کے بعد انھیں اپنی زندگی کے بارے میں اہم فیصلے کر نے کا پورا موقع دیں۔ لیکن‬
‫یہ تبھی ممکن ہے جب والدین یا بزرگوں کے مرتبے تک پہنچ جانے والے افراد خود ذہنی و فکری بلوغت کے‬
‫حامل ہوں گے۔‬

‫اں اور رشتوں کا بار — نجیبہ عارف‬


‫پاکستانی سماج میں عورت کے حقوق و فرائض کی فہرست نئے سرے سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ قدیم‬
‫جنوب ایشیائی تمدن کے زیر اثرعورت کو بال معاوضہ تمام گھریلو امور کی ذمہ داری سونپ دینا اور اسے عورت‬
‫کا مذہبی اور اخالقی فریضہ قرار دینا؛ خاص طور پر عورت کو سسرالی کنبے کی غالمی اختیار کرنے پر مجبور‬
‫کرناہمارے معاشرے میں باہمی انسانی رشتوں میں زہر بھر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسالمی تعلیمات کہیں بھی‬
‫عورت پر یہ الزمی قرار نہیں دیتیں کہ شوہر اور اس کے پورے خاندان کی خدمت کرے ۔ اسالم میں تو عورت کو‬
‫یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ چاہے تو اپنے گھر کے‪ ،‬یعنی شوہر کا وہ گھر جس میں وہ خود‪ ،‬اس کا شوہر اور بچے‬
‫رہتےہوں‪ ،‬تمام امور کی انجام دہی ‪،‬یہاں تک کہ بچے کو دودھ پالنے کا بھی‪ ،‬معاوضہ طلب کر سکتی ہے۔ یہ الگ‬
‫بات ہے کہ وہ حسن اخالق اور مہربانی کے جذبے سے مغلوب ہو کر اپنے شوہر کی مالی حیثیت کا خیال رکھتے‬
‫حسن عمل شمار ہوگا اور بیوی‬
‫ِ‬ ‫ہوئے ‪،‬برضا اس کے گھریلو امور سرانجام دیتی رہے۔ ایسی صورت میں یہ اس کا‬
‫کی حیثیت سے مستحسن اور افضل عمل قرار پائے گا لیکن اسی عمل میں اگر جبر و اکراہ کا عنصر شامل ہو جائے‬
‫تو گھریلو زندگی ایک عذاب بن جانے کا اندیشہ ہے۔ بیوی کی مالی کفالت شوہر کی ذمہ داری ہے لیکن یہ کفالت‬
‫ق زوجیت کے صلے کے طور پر عورت کو حاصل ہوتی ہے۔ اس مالی کفالت کے بدلے عورت پر‬ ‫صرف حقو ِ‬
‫صرف یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے سوا کسی اور کو اپنی خواب گاہ تک رسائی نہ دے۔‬
‫مگر ہمارے معاشرے میں بیویانہ فرائض کی مفصل فہرست دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے عورت نکاح کے دو‬
‫بول اور مہر کے وعدے کے عوض ہمیشہ کے لیے شوہر کی زرخرید غالم بن جاتی ہے۔‬
‫جذبہ محبت کو قائم رکھنا بھی عورت ہی کا فریضہ سمجھا جاتا‬‫ٔ‬ ‫خدمت ہی نہیں‪ ،‬بلکہ شوہر کے دل میں اپنے لیے‬
‫ہے۔ اس مقصد کے لیے اس پر الزم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی پسند کا رنگ پہنے‪ ،‬اس کی پسند کی وضع قطع‬
‫اختیار کرے‪ ،‬اس کی پسند کے مطابق بول چال اور اٹھنا بیٹھنا اختیار کرے تاکہ شوہر کا دل اس سے بھر نہ جائے۔‬
‫سچ تو یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان کوئی بھی رشتہ ہو‪ ،‬اسے دیرپا بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک‬
‫دوسرے کی پسند ناپسند کا احترام کریں اور اگر ہو سکے تو ایثار سے کام لیتے ہوئے اپنی مرضی کو دوسرے کی‬
‫مرضی پر قربان کر دیں۔ لیکن یہ عمل دو طرفہ بنیاد پر ہو تو دونوں کے لیے خوش گوار اور مسرت انگیز ہو سکتا‬
‫ہے۔ اگر صرف ایک فریق کو جبرا ً اس کا پابند بنایا جائے اور دوسرا فریق اسے اپنا حق سمجھتے ہوئے اس کا‬
‫تقاضا کرے تو یہ ایک سزا بن جاتا ہے۔ ہم اگر میاں بیوی کے درمیان موافقت اور ہم آہنگی بڑھانا چاہتے ہیں تو‬
‫دونوں کو ایک دوسرے کی پسند ناپسند کا احترام کرنے کا پابند ہونا چاہیے۔یا پھر دونوں کے دل میں اتنی وسعت‬
‫ہوکہ دونوں ایک دوسرے کو بحیثیت آزاد فرد ارتقا پانے کے مواقع فراہم کر سکیں۔ مگر اس دوسری بات کے لیے‬
‫غالبا ً ابھی ہمارے سماج کو طویل مدت تک انتظار کرنے پڑے گا۔‬

‫سسرالی کنبے سے تعاون‪ ،‬مہر و محبت اور ان کی عزت کرنا ایک خوش گوار دوطرفہ رشتے کو قائم کرنے کے‬
‫لیے ضروری ہے۔ جس طرح ہمسایوں کے حقوق ہیں‪ ،‬اسی طرح رشتے داروں کے بھی حقوق ہیں اور ان میں اپنے‬
‫اور شوہر کے تمام رشتے دار شامل ہیں۔ لیکن صرف عورت کو اس امر پر مجبور کرناکہ وہ ہر حال میں اپنے‬
‫سسرال کی اطاعت اور خدمت کو اپنا شعار بنائے‪ ،‬اور مرد کا اپنے سسرالی رشتے داروں سے ال تعلقی پر اترانا‪،‬نہ‬
‫صرف اسالمی تعلیمات بلکہ اخالق و انسانیت کے بھی منافی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں بہت سی خوبیاں اور‬
‫فائدے ہیں لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ یہ نظام دونوں فریقوں کے درمیان باہمی رضامندی اور دونوں کے مفادات‬
‫کے تحفظ کی بنیاد پر قائم ہو۔ صرف ایک فریق پر اس نظام کو قائم رکھنے کا بوجھ ڈال دینا مناسب نہیں‪ ،‬خواہ وہ‬
‫بہو ہو یا سسرال۔ مشترکہ خاندانی نظام کے فوائد و برکات حاصل کرنے کے لیے فریقین کو کچھ لو اور کچھ دو‬
‫کے اصول پر متفق ہونا پڑتا ہے ورنہ یہ معاشرے کے لیے ایک ناسور بن سکتا ہے جس کی ایک انتہائی صورت‬
‫ان دنوں ہمارے کم و بیش تمام ٹیلی ویژن چینل مسلسل اور بڑے اہتمام سے دکھا رہے ہیں ۔ والدین کی خدمت اوالد‬
‫کے لیے سعادت کی بات ہے لیکن اس معاملے میں بھی ہمارے ہاں عجیب رویہ ہے۔ یعنی مرد کے ذمے اپنے‬
‫والدین کی خدمت اور عورت کے ذمے شوہر کے والدین کی خدمت۔یہ طرز عمل اسالم اور انسانیت دونوں کے‬
‫منافی ہے۔ مثالی رویہ تو یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں مل کر دونوں کے والدین کی دیکھ بھال میں شریک ہوں‬
‫لیکن اگر ایسا نہ کر سکیں تو پھر عورت کو بھی اپنے والدین کی دیکھ بھال اور خدمت کا ویسا ہی موقع ملنا چاہیے‪،‬‬
‫جیسا مرد کو ملتا ہے۔ البتہ اس کی قبیح ترین صورت یہ ہے کہ دونوں اپنے اپنے والدین سے غافل ہو جائیں۔‬

‫معاشی خود مختاری کاجھانسہ — نجیبہ عارف‬


‫ایک طرف مذہب کے نام پر عورت کا استحصال ہوتا ہے تو دوسری طرف روشن خیالی اور ترقی پسندی کے نام‬
‫پر۔ اس کی ایک مثال عورت کی مالزمت ہے۔ مالزمت پیشہ عورت کے بارے میں جو سنہری خواب ہمیں دکھائے‬
‫جاتے ہیں‪ ،‬ان میں سے اکثر کاملمع بہت جلد اتر جاتا ہے۔ ان میں سے ایک خواب تو یہ ہے کہ مالزمت سے‬
‫عورت معاشی طور پر خود مختار ہو جاتی ہے اور یوں مرد کے زیر تسلط نہیں رہتی۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ‬
‫ہے کہ مرد عورت کو معاشی خود مختاری کا جھانسا دے کر خود اپنی تمام ذمہ داریوں سے فارغ ہو جاتا ہے۔ جوں‬
‫ہی کوئی عورت مالزمت اختیار کرتی ہے‪ ،‬اس کی ضروریات پوری کرنے سے پہلو تہی کرنے لگتا ہے۔‬

‫مالزمت پیشہ یا کماؤ عورت ہمارے معاشرے میں دہری اذیت کا شکار ہے۔ ایک طرف اس پر گھر داری کا بوجھ‬
‫جوں کا توں ہے اور دوسری طرف کمائی کی ذمہ داری بھی الحق ہے۔ اس کمائی سے عورت کرتی کیا ہے؟ میرا‬
‫ااندازہ ہے کہ کم وبیش ننانوے فی صد عورتیں اپنی کمائی کا بیشتر حصہ اپنے بچوں اور گھر کی ضروریات پوری‬
‫کرنے میں خرچ کر دیتی ہیں۔ اس دہری محنت کے باوجود وہ مسلسل زیر عتاب رہتی ہیں ۔ سسرال والوں کو شکوہ‬
‫ہے کہ بہو خدمت نہیں کرتی‪ ،‬شوہر کو شکایت ہے کہ پوری توجہ نہیں ملتی‪ ،‬بچوں کو گلہ ہے کہ امی ہر وقت‬
‫مصروف رہتی ہیں۔ دوست احباب‪ ،‬عزیز رشتے دار بھی خوش نہیں‪ ،‬کوئی نہ کوئی غفلت شعاری کا الزام عائد کر‬
‫ہی دیتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان سب شاکی طبقوں میں سے کوئی بھی دل سے یہ نہیں چاہتا کہ عورت سچ مچ‬
‫کام کاج چھوڑ کر‪ ،‬اچھی بھلی کمائی کو الت مار کر گھر بیٹھ جائے۔ اس کے باوجود عورت کی کمائی اور اس کی‬
‫آمدنی کی اہمیت کو تسلیم کرنا مردانہ انا کے لیے عار کا باعث ہے۔ جب بھی کسی محفل میں ذکر آتا ہے‪ ،‬شوہر‬
‫حضرات بڑے دھڑلے سے یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ ہماری بیگم صاحبہ تو اپنے شوق کے لیے نوکری‬
‫کرتی ہیں‪ ،‬ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔یہ منافقانہ روش اتنی عام ہو گئی ہے کہ کوئی اسے جھٹالنے تک کی زحمت‬
‫حتی کہ عورت بھی مسکرا کر کہہ دیتی ہے‪ ،‬جی ہاں‪ ،‬یہ میرا شوق ہے۔ مالزمت پیشہ عورت‬ ‫گوارا نہیں کرتا۔ ٰ‬
‫خاندان کی معاشی زندگی میں توازن قائم رکھنے میں جو کردار ادا کرتی ہے‪ ،‬اس کی تحسین و تائید تو کجا‪ ،‬اس کا‬
‫اعتراف بھی نہیں کیا جاتا۔‬

‫اس کا دوسرا اہم پہلو‪ ،‬جسے بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے‪ ،‬یہ ہے کہ اسالم نے عورت کو جو معاشی خود‬
‫مختاری دی ہے اس کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ایک طرف تو باپ کی جائیداد میں بیٹی کو حصہ دینے سے کھلم کھال‬
‫گریز کیا جاتا ہے اور دوسری طرف شوہر پر اپنی معاشی حیثیت کے مطابق عورت کو‪ ،‬نان نفقے کے عالوہ‪ ،‬جیب‬
‫خرچ دینے کی جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے وہ سرے سے بھال دی گئی ہے۔یہاں جیب خرچ سے مراد وہ رقم ہے‬
‫جو عورت خود اپنی مرضی سے‪ ،‬کہیں بھی‪ ،‬کبھی بھی خرچ کر سکتی ہے۔ ہمارے ہاں تو حالت یہ ہے کہ بیوی‬
‫کوحق مہر کی رقم ادا کرنا بھی بوجھ محسوس ہوتا ہے اور عموما ً اچھے بھلے صاح ِ‬
‫ب حیثیت افراد مہر مقرر‬
‫کرتے ہوئے اپنی مالی حیثیت کے بجائے ’’شرعی مہر ‘‘کے پردے میں چھپ جاتے ہیں۔حاالنکہ شرعی مہر بھی‬
‫حیثیت کے مطابق ہوتا ہے‪ ،‬نہ کہ بتیس روپے چھے آنے۔ اگر یہ دونوں حقوق عورت کو مل جائیں تو بہت سی‬
‫عورتیں مالزمت کے جھمیلوں کو ترک کرکے‪ ،‬اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنی خدمات وقف کر سکتی ہیں‬
‫جو عورت کی ذمہ داری ہی نہیں‪ ،‬اس کی جذباتی ضرورت اور دلی مسرت بھی ہے۔‬

‫ہر عورت ماں بن کر خوشی محسوس کرتی ہے اور مادرانہ کردار ادا کر کے اپنی ذات کی توسیع و تجلیل کرتی‬
‫الخر عورت نے اپنے مادرانہ کردار‬ ‫ہے۔مغرب میں بھی معاشی جد و جہد کے کئی مراحل طے کرنے کے بعد با ٓ‬
‫کے اثبات کا ارادہ کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ماں بننے والی عورت کو ایک اور بعض صورتوں میں دو سال‬
‫تک تمام مراعات اور تنخواہ سمیت مالزمت سے چھٹی ملتی ہے تاکہ وہ بچے کی‪ ،‬جو صرف ایک فرد یا جوڑے‬
‫کی اوالد نہیں‪ ،‬ایک قوم کا نووارد فرد بھی ہوتا ہے‪ ،‬مناسب اور مکمل دیکھ بھال کر سکے۔ ہمارے ہاں یہ دستور‬
‫الٹا ہے۔ ماں بننے والی مالزمت پیشہ عورت کو مراعات تو کجا‪ ،‬الٹا مسلسل طعن و تشنیع اور کڑی نگرانی کا نشانہ‬
‫بنایا جاتا ہے اور اس پر مسلسل نظر رکھی جاتی ہے کہ کہیں وہ اپنے بچے کی محبت میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض‬
‫سے غفلت تو نہیں برت رہی۔ یہ ایک مجرمانہ عمل ہے اور ایسا سلوک ماں اور بچے کی حق تلفی ہی نہیں بلکہ‬
‫پورے معاشرے کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں مالزمت پیشہ خواتین کے لیے میٹرنٹی‬
‫لیوصرف نوے دن تک محدود ہوتی ہے جس پر یہ شرط بھی الگو ہوتی ہے کہ بچے کی والدت سے ‪ ۴۵‬دن پہلے‬
‫شروع ہو جائے اور ‪ ۴۵‬دن بعدختم ہو ۔ عام طور پر ممتا کی ماری مائیں ڈاکٹروں سے غلط سرٹیفکیٹ بنوا کر حمل‬
‫کے آخری دن تک نوکری پر حاضر رہتی ہیں تاکہ اس مختصر چھٹی کے زیادہ سے زیادہ دن اپنے بچے کے ساتھ‬
‫گزار سکیں۔ نوے دن کی چھٹی دے کر عورت پر احسان نہیں کیا جاتا بلکہ اسے ایک معاشرتی فریضہ ادا کرنے‬
‫کی مہلت دی جاتی ہے۔ یہ فریضہ بذاتہ اتنا عظیم ہے کہ اس مقصد کے لیے کم از کم ایک سال کی چھٹی دی جانی‬
‫چاہیے۔ ہم ہر معاملے میں مغرب کی تقلید کرتے ہیں تو اس معاملے میں بھی ان کی روش اختیارکرلی جائے۔ وہاں‬
‫تو باپ کو بھی بچے کی دیکھ بھال کے لیے چھٹی مل سکتی ہے۔‬

You might also like