You are on page 1of 3

‫اگر میں حکمران ہوتا تو کیا ہوتا‬

‫اگر میں حکمران ہوتا تو میں کیا کرتا‬

‫یہ سوال جینا مزاخ بھرا ہے لیکن اس سوال کے جواب کی گہرائی اتنی ہی زیادہ ہے جتنا انسان کی سمجھ کام کرتی ہے۔‬
‫کڑواہٹ کی زندگی شروع سے گزارنے والوں کا کبھی سوچا نا گیا جب کے نظریات حکمرانوں کے ملک اور عوام سے پہلے اپنے‬
‫مفاد تھے۔ کہنے کو سچا کڑوا سچ ہو سکتا ہے درحقیقت جب شروعات صحیح نا ہو اور آخر کیسے اچھا ہو سکتا جیسے ایک‬
‫دو مہنے کے بچے کے ہاتھ میں قلم تھما دیا جاۓ اور کہا جاۓ کہ الف لکھ الف بول اور الف پڑھ کر سنا یہ تو اس معصوم بچے‬
‫کے ساتھ زیادہ ہو گی جو ابھی ماں سے پیٹ سے نکال ہو اور ابھی اس کی زندگی کو پختگی دینے کے لیے اسے ماں باپ کا‬
‫سہارا یا ترس پر جی رہا ہے کہ ماں باپ اس بچے کا کس طرح سے خیال رکھے کہ وہ بچہ جینے کے قابل بن جاۓ یہی حال‬
‫پاکستان کے ساتھ ہوا ہے۔ جس کے ہاتھ میں قلم آئی اس نے اپنے قلم کا استعمال کیا مگر ملک اور عوام کو ترقی اور‬
‫خوشحالی سے محروم رکھا اور قانون کی باال دستی آج تک مکمل طور پر عمل میں الیا نا جا سکا۔ ایک کہاوت ہے کہ جیسے‬
‫حکمران ویسے ہی اس کی عوام۔ آج ملک پر چاروں طرف سے تلوار دشمنوں کی لٹکی نظر آ رہی ہے اور ہم ایک آخر الئن کو‬
‫چھو چکے ہیں مگر نا سدھار دیکھائی دیتا ہے اور نا سدھار ہو سکتا ہے۔ جس معاشرے کی زہنیت اس سوچ پر مشتمل ہو کہ‬
‫پیسے آ جانے سے چار گارڈ نوکر چاکر اور عیاشی کی زندگی کی تمنا رکھنے کی سوچ اور علم کی ال علمی نے اس بدقسمت‬
‫عوام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے کہ خود کو خدا سمجھ کر اور خود کی غالمی میں زنجیروں میں پھنسانے والے‬
‫حکمران خود ہیں کہ یہ ملک اللہ چال رہا ہے جبکہ یہ سوچ کبھی نہیں آ رہی کہ موقع پر موقع دینے واال وہ غفور و رحیم‬
‫بادشاہ پوری کائنات کا تمھارے ضمیر کو اپنے وعدہ یاد دالنے کے لیے کبھی کس طرح کے آفات میں مبتال کرکے یوں نکال لے آتا‬
‫ہے کہ اب بھی وقت ہے سمبھل جاو اور وعدہ خالفی نا کرو جس کا اس عوام کے بزرگوں نے اپنے رب سے وعدہ کیا تھا اور‬
‫نئی نسل کو ان وعدوں کا معلوم ہوتے ہوئے انجان زندگی بسر کر رہے مگر زبان پر کچھ اور دل میں کچھ ۔ آج ہر انسان غصے‬
‫کا شکار ہے درحقیقت انسان تباہی کے اس راہ تک پہنچ چکا ہے ویسے جیسے اس کے اپنے اعمال ہیں۔ کہنے کو کیا کچھ نہیں‬
‫ہیں اس سر زمین کے خزانے میں مگر استعمال بدقسمتی سے اللہ نے محروم کر رکھا ہے۔ چھوٹی سی آزمائش آ جاتی ہے تو‬
‫دروازے مولویوں کے کھٹ کھٹا دیۓ جاتے ہیں کہ مولوی صاحب میرے لیے دعا کریں یا پھر دعا دے دیں تعویز کے روپ میں‬
‫عوام کی نفسیات اتنی حد تک متاثر ہو چکی ہے کہ عوام خود سوچتی ہے کہ عوام کیا کرے چوری چکاری کرے یا پھر گناہوں‬
‫کے راہ پر گامزن ہو تا کہ اپنی بقا کی زندگی اور زمہ داری نبھا سکے پاکستان ایک سونے کی چڑیا یے جس کی کوئی قدر نہیں‬
‫کرتا قدر کرنے والے حملے کرنے کا سوچتے ہیں اور یہی وجہ سے ہم ان۔ خطرات کو دیکھ کر بھی عوام کو شہور نا دے سکے‬
‫جس کی بنیار ضرورتوں نے اتنے مشعول ہو گئے کہ یہ وطن کا دفاع ہر ایک انسان‪ ،‬ہر ایک پاکستانی شہری‪ ،‬اور ہر ایک مسلمان‬
‫پر زمہ داری ہے۔ جس کا جہاں بس چال بھوک نے لوگوں کے ضمیر بیچ دئیے اپنی اپنی فکری میں۔ مستقبل میں پاکستان جیسا‬
‫ایٹمی طاقت رکھنے واال ملک غالمی کی زنجیروں میں پھنستا دیکھائی دیتا ہے اور عوام کی سوچوں میں غزوہ ہند کا شوق‬
‫دیکھائی دیتا ہے اور فوج مظبوط ہونے کے باوجود پاکستانی سیاستدان نے اپنے ہی ملک کا بھروسہ دوسرے ممالک سے اتنا‬
‫کمزور کر لیا ہے کہ آج جنگ چھیڑ جاۓ تو ساتھ دینے والے ممالک شاید مدر کو اس لیے بھی نا پہنچ سکے کہ انھیں خود‬
‫امریکا‪ ،‬اسرائیل جیسے دشمن ممالک سے انگیچ کر رکھا ہوگا اور معیشت کے حاالت اتنے بدکار ہیں کہ زریعہ آمدن کمزور ہے کہ‬
‫اپنے ملک کی کوئی چیز بھیچ کر بھی ہم دشمن سے لڑ سکے۔‬
‫میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے خود سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ہے ہمارا مستقبل قربانیاں دینے کو ہم ہر وقت تیار رہتے ہیں‬
‫جنگ میں ہم شہید ہو بھی جاتے ہیں تو کیا ہمارا ملک دشمنوں سے محفوظ رہے گا اور اگر ہم جنگ جیت جاتے ہیں تو کیا ہمارا‬
‫ملک اتنا مظبوط ہوگا کہ وہ روٹی تو چھوڑو اپنے ملک کی عورتوں کی عزت محفوظ کر سکے گا۔ مجھے نہیں لگتا ہم کیسے‬
‫بھروسہ کر سکتے ہیں کہ جب سے پاکستان بنا پاکستان کے نظام ملیامیٹ ہوگیا قانون کے محافظ کا کچھ پتہ نہیں قانون کا‬
‫پتہ نہیں کہ قانون امیروں کے کمزور اور غریبوں کے لیے طاقتور بنا پھرتا ہے۔ یہ انگلی نہیں اٹھا رہا یہ فکریہ مستقبل کے‬
‫حوالے سے سوال ہے جو ایک عام آدمی سوچتا ہے۔ فلسطین کو دیکھ لو سب کچھ لوٹ کیا ان کا مگر اللہ کی راہ سے نہیں‬
‫بھٹکے اور ہم دوسرے ممالک کو دیکھے اپنے ممالک کو دیکھے نظاموں میں فرق دیکھائی دیتا ہے۔ ہمارے نظام نے عورتوں کو‬
‫اتنا مجبور اور کمزور بنا دیا کہ ان کا مستقبل اپنا جسم بیچنے کے عالوہ کوئی راہ دیکھائی نہیں دیتا کہ وہ اپنے بچے کا حال‬
‫اور مستقبل کی روٹی کھال سکے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پڑھے لکھے لوگ نہیں ہیں عورتوں میں پڑھی لکھی عورتوں کی زندگی‬
‫کچھ مختلف ہے مگر اس قابل نہیں کہ وہ ان کمزوروں کا مستقبل بن سکے۔ جو سوچ آج کی نسل میں پائی جاتی ہے کہ‬
‫شوہر ہو تو صرف میرا کوئی اور نا ہو اس کی زندگی میں اور اگر ہو تو مجھے طالق دے۔ میں اپنی سوتن کو برداشت نہیں‬
‫کرتی۔ سوچوں میں فرق آدمیوں کے سخت فیصلے ملک کی بنیاد بھی کمزور کرتے ہیں۔ یہی ایک وجہ ہے کہ پڑھے لکھے انسان‬
‫بھی وہ غلط فیصلے کر جاتے ہیں جو عام انسان ان پڑھ نہیں کرتا بلکہ نبھاتا بھی ہے آخری سانس تک۔ اگر یہی ان پڑھ جاہل‬
‫پڑھے لکھے ہوتے تو پاکستان کا مستقبل بہترین بن سکتا ہے مگر ہمارے سیاستدان کی بے رحمی اور تعلیم کے ادارے پیسے‬
‫کمانے کی بنیاد پر ٹیکی ہوئی ہے کہ موقع ہے بچہ پڑھانا ہے تو فیس دو علم کو مفت مت کرو تا کہ علم ہر انسان تک پہنچے‬
‫جس کے پاس پیسے نہیں اس کو علم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اور اگر کسی کو علم حاصل کرنے کا شوق نہیں تو اس‬
‫کے پاس ہنر نہیں اور وہ غالمی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ سوال ہے کہ اگر میں حکمران ہوتا تو میں کیا کرتا۔‬
‫یہی تو سوال کا جواب دینے کی کوشیش کر رہا ہے کہ ہمارے ملک اور معاشرتی نظام میں کیا خامیاں ہیں اب دیکھو ایک‬
‫غریب کا بچہ کہا پڑھے گا جب اس کے پاس پیسے نہیں ہونگے تو وہ کیا کرے گا چوری کرے گا اور کیا کرے گا زیادتی تو ہو‬
‫رہی ہے نا یا نہیں پھر گولی مار کر عوام جان بھی لے لیتی ہے کیوں کیونکہ اس نے چوری کی اور وہ چور بنا تو اس کو جینے‬
‫کو کوئی حق نہیں اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ حکومت اسے کونٹیبل کی نوکری دے کہ تو دروازے پر پولیس اسٹیشن کھڑا‬
‫رہ بلکہ نوکری بھی میڑک پاس والے کو ملے گی کیونکہ ہم ترقیاتی ملک ہیں تو وہ ان پڑھ چوری کرے گا۔ گیس‪ ،‬بجلی‪ ،‬پانی‬
‫کو دیکھ لو۔ مثالل ہے گیس کی چوری ہوتی ہے پتہ حکمران کو نہیں گیس کیسے چوری ہوتی ہے کیونکہ عوام کو پتہ ہے کہ‬
‫گیس کا میٹر چیک کرنے واال اس تاریخ سے اس تاریخ تک آۓ گا۔ یہی حال بجلی کا ہے اور لوڈ شیڈنگ الگ ہوتی ہے اور اندر‬
‫کی کمائی الگ باہر کی کمائی الگ پانی کو دیکھ لو پانی اتنا گندا گھر میں آتا ہے کہ گڑٹر کی بدبو آتی ہے انسان لگتا ہے کہ‬
‫عوام جانور ہیں اور حکمران مالک کیونکہ انھیں صحت کی صرورت ہے ملک چالنا ہے تو حکمران کو تو صاف پانی ملنا چاہیے‬
‫عوام اپنا کچھ نا کچھ کر لے گی دوا ہے نا دوائی عالج کر دے گی اور لوگ پھر سے گندہ پانی پی لیں گے۔ پاکستان کا ‪65‬‬
‫فیصد پانی گندہ ہے اور ‪35,‬فیصد صاف پانی نہروں‪ ،‬دریاوں سے آتے آتے گندہ ہو جاتا ہے۔ پانی کے صفائی کا بھی ایک نظام‬
‫ہوتا ہے کہ پانی ہر ایک کی ضرورت ہے جتنے پچھلے حکمران گزرے میرے خواہش ہے کہ انھیں ایک دن اور ایک گالس پانی‬
‫پالیا جاۓ اور کہا جاۓ کہ واہ آپ نے ہم عوام کے اوپر جتنے کام کیۓ ہیں انھیں سہرایہ جاۓ لیکن ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ‬
‫ایک عام آدمی کیا کر سکتا ہے۔ اگر یقین نا آۓ تو پاکستان کے ہر شہر کے گھروں کی ٹیکی چیک کروائی جائے آپ کو یقین آۓ‬
‫گا کہ ہاں یہ سچ ہے مگر ہمیں گندگی کی عادت ہو چکی ہے اور ہم بدلنا نہیں چاہتے اپنے پاکستان کے مستقبل کو کہنے کو بہت‬
‫کچھ ہے تب ہی یہ سب کچھ لکھ رہا ہوں یوں سمجھ لیں میری بڑھاس اس قلم سے میرے کتاب پر اتر جائے اور یہ کتاب‬
‫کاش اللہ کی دربار میں پیش کیا جائے تا کہ ایک عوام کا ایک معمولی شہری کا مقدمہ قیامت کے روز ان حکمرانوں پر بھاری‬
‫پڑ سکے جو وہ سوچتے ہیں کہ انھوں نے اپنی حکومت میں نیک کام سر انجام دئیے یہ زمہ داری کسی ایک کی نہیں ہے بلکہ‬
‫پورے پاکستان کی ہے۔ کبھی چھپکلی کا زہر پانی میں ملتا ہے تو کبھی اللبیک کا اور انسان کا روایہ کیوں نہیں جانوروں واال‬
‫ہوگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہو کی حکومت یاد آتی ہے مگر کیا ان کا بھی حساب نہیں ہوگا بے شک ہوگا تو یہ عام حکمران‬
‫ہیں حکمرانی زمہ داری ہے جو زمہ داری کوئی نہیں نبھا رہا بلکہ اپنا پیٹ بھرنے کو ترجی دے رہا ہے کوئی مرتا ہے تو مر جائے‬
‫کسی کو کیا فکر بس یہ کہہ دیں گے مر گیا اللہ جنت میں اعلی مقام دے کہانی ختم لیکن درحقیقت کہانی کی شروعات تو‬
‫اب شروع ہوئی ہے۔ دنیا گھول ہیں اور رہنے والے لوگ بھی گول ہیں ہر کوئی اپنے مفاد پر مر رہا ہے دنیا کو اہنی جنت بنانا‬
‫چاہتا ہے جبکہ یہ دنیا فانی ہے یہ میں نھی جانتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں لیکن لکھنا ضروری ہے۔ ایک پارٹی دوسری پارٹی‬
‫کے ساتھ قدم سے قدم مال کر چل رہی یہی کہانی کاروباریوں کا ہے یہی حال ہر نظام کا ہے کوئی کسی کے نظام میں دخل‬
‫اندازی نہیں دے سکتا اور اگر دخل اندازی ہوتی ہے تو اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اگر ملک کو ترقی پر النا ہے تو ایک‬
‫چیین بنانا ضروری ہے پانی‪ ،‬بجلی‪ ،‬گیس‪ ،‬روٹی‪ ،‬گھر‪ ،‬کمائی‪ ،‬صفائی‪ ،‬عالج‪ ،‬صحت‪ ،‬اناج‪ ،‬قانون‪ ،‬علم‪ ،‬انصاف‪،‬اعتبار‪ ،‬اعتماد‪،‬‬
‫ایمان‪ ،‬صبر‪ ،‬روزگار‪ ،‬ہر ایک چیز کو ایک چیین میں النا ہوگا اور وہ چین صرف نظام ہی ال سکتا ہے۔ جو کہ مشکل ہے باری‬
‫باری بیٹھے لوگ نہیں ال سکتے نا ال سکے گے۔ آج ہم سنتے ہیں کہ ایک حکومت دنیا پر یقینی طور پر مشکل ہے مگر یہودی اپنے‬
‫مقاصد پر پہنچ چکے کوئی سوچتا ہے کہ پاکستان میں جنگ پاکستان کی ترقی کا زریعہ معاش بن سکتا ہے تو غلط فہمی ہے‬
‫بے مقصد لوگوں کی جان جانا بھی گناہ ہے اس ملک کی حکمرانی کرنے والے اور سمبھالنے والوں پر جو کہ شاید کوئی نہیں‬
‫کرنا چاہتا مگر ہو رہا ہے افسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ ہم دوسروں کو کمزور دیکھنے سے پہلے ہم اپنی خود کی کمزوری کو‬
‫ناپے تو بہت بہتر ہوگا اور وہ بہتری سبق حاصل کرنے سے ہوگا جو پچھلے کئی سالوں سے کرتے آ رہے ہیں۔ عوام تھک چکی ہے‬
‫مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی آ جائے وہ آۓ جو کام کرے اور کام کر کے دیکھاۓ اور حکومت چال کر دیکھاۓ جو‬
‫امن کا مقام پاکستان نے کھو دیا ہے اسے بحال کرے۔ چوروں کو سزا سر عام عوام کے درمیان کسی ایسے انسان جس پر فرد‬
‫جرم عائد ہوتا ہے معصوم نا ہو اسے سربازار اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے اور عالج بھی کیا جائے انسانی ھمدردی کے طور پر‬
‫اور قانون پاس کیا جائے کہ چوری کی سزا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ ہاتھ وہ کاٹا جائے جس ہاتھ سے وہ جرم کرتا تھا چاہے‬
‫وہ سیدھا ہاتھ ہو یا الٹا اور سات سال قید دی جائے جس میں اسے دینی تعلیم‪ ،‬اور ہنر سیکھانے کے ساتھ اس جگہ پر کام‬
‫بھی دیا کاۓ تا کہ اس کی فیملی کو تکلیف نا ملے تا کہ پاکستان کی عزت محفوظ رہے یہ مثال ہی ایک حل ہے جو ملک کو‬
‫بہتری کی طرح لے جانے کی شروعات کرے گی۔ ہمارے ملک پاکستان میں کچرے سے کھربوں کا کام کیا جا رہا ہے صرف‬
‫کھربوں کا جس کا علم حکومت کو ہے مگر چند روپے میں بک جانے والے لوگ بہت ہیں۔ لوگ کاروبار کر رہے ہیں مگر ٹیکس کا‬
‫کچھ پتہ نہیں کہاں جا رہا ہے ‪ 24‬کروڑ انسان رہنے والے پاکستان میں اگر پانچ روپے ٹیکس ایک آدمی پر لگایا جاۓ تو ہر مہنے‬
‫کا تو ‪ 48‬کروڑ بنتا ہے اور ایک ایک چیز پر ایک دو روپے کرکے چھوٹی موٹی چیزوں پر ٹیکس لگا کر اگر چوبیس کروڑ افراد‬
‫صرف مہنے کا سو روپے دیں تو ‪ 24,000,000,000‬کی کمائی کر سکتا ہے صرف کھانے پیسے کی اشیاہ پر یا ایک ساتھ کہہ‬
‫دیا جائے کہ ہر انسان نے ہر مہنے ‪ 100‬روپے دینا ہے یہ زمہ داری عوام کو اٹھانی پڑے گی اگر ملک کو برہان سے نکالنا ہے تو ہر‬
‫دوائی پر ایک روپیہ ٹیک لگا جاۓ جو عوام کی جیب سے نکلے گی دکان داروں سے ساالنہ فیس لیا جائے گا ‪.‬میں اور بہت‬
‫کچھ لکھنا چاہتا ہوں الکھوں راستے موجود ہیں ترقی کے لیکن کیا فائدہ حکمران میں بن نہیں سکتا اور سدھرنے والے‬
‫پاکستان کی عوام نہیں تو کیا فائدہ اس سے بہتر ہے اہنا وقت ظائع کرنے سے بہتر یہاں پر یہ ٹوپک اختتام کرتا ہوں۔‬
‫اپنا اور اپنا گھر والوں کا خیال رکھیں اللہ حافظ‬

‫‪© 2018-2020 dndsofthub All Rights Reserved‬‬

You might also like