Professional Documents
Culture Documents
If I Am A King 2023 - 1698795704
If I Am A King 2023 - 1698795704
یہ سوال جینا مزاخ بھرا ہے لیکن اس سوال کے جواب کی گہرائی اتنی ہی زیادہ ہے جتنا انسان کی سمجھ کام کرتی ہے۔
کڑواہٹ کی زندگی شروع سے گزارنے والوں کا کبھی سوچا نا گیا جب کے نظریات حکمرانوں کے ملک اور عوام سے پہلے اپنے
مفاد تھے۔ کہنے کو سچا کڑوا سچ ہو سکتا ہے درحقیقت جب شروعات صحیح نا ہو اور آخر کیسے اچھا ہو سکتا جیسے ایک
دو مہنے کے بچے کے ہاتھ میں قلم تھما دیا جاۓ اور کہا جاۓ کہ الف لکھ الف بول اور الف پڑھ کر سنا یہ تو اس معصوم بچے
کے ساتھ زیادہ ہو گی جو ابھی ماں سے پیٹ سے نکال ہو اور ابھی اس کی زندگی کو پختگی دینے کے لیے اسے ماں باپ کا
سہارا یا ترس پر جی رہا ہے کہ ماں باپ اس بچے کا کس طرح سے خیال رکھے کہ وہ بچہ جینے کے قابل بن جاۓ یہی حال
پاکستان کے ساتھ ہوا ہے۔ جس کے ہاتھ میں قلم آئی اس نے اپنے قلم کا استعمال کیا مگر ملک اور عوام کو ترقی اور
خوشحالی سے محروم رکھا اور قانون کی باال دستی آج تک مکمل طور پر عمل میں الیا نا جا سکا۔ ایک کہاوت ہے کہ جیسے
حکمران ویسے ہی اس کی عوام۔ آج ملک پر چاروں طرف سے تلوار دشمنوں کی لٹکی نظر آ رہی ہے اور ہم ایک آخر الئن کو
چھو چکے ہیں مگر نا سدھار دیکھائی دیتا ہے اور نا سدھار ہو سکتا ہے۔ جس معاشرے کی زہنیت اس سوچ پر مشتمل ہو کہ
پیسے آ جانے سے چار گارڈ نوکر چاکر اور عیاشی کی زندگی کی تمنا رکھنے کی سوچ اور علم کی ال علمی نے اس بدقسمت
عوام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے کہ خود کو خدا سمجھ کر اور خود کی غالمی میں زنجیروں میں پھنسانے والے
حکمران خود ہیں کہ یہ ملک اللہ چال رہا ہے جبکہ یہ سوچ کبھی نہیں آ رہی کہ موقع پر موقع دینے واال وہ غفور و رحیم
بادشاہ پوری کائنات کا تمھارے ضمیر کو اپنے وعدہ یاد دالنے کے لیے کبھی کس طرح کے آفات میں مبتال کرکے یوں نکال لے آتا
ہے کہ اب بھی وقت ہے سمبھل جاو اور وعدہ خالفی نا کرو جس کا اس عوام کے بزرگوں نے اپنے رب سے وعدہ کیا تھا اور
نئی نسل کو ان وعدوں کا معلوم ہوتے ہوئے انجان زندگی بسر کر رہے مگر زبان پر کچھ اور دل میں کچھ ۔ آج ہر انسان غصے
کا شکار ہے درحقیقت انسان تباہی کے اس راہ تک پہنچ چکا ہے ویسے جیسے اس کے اپنے اعمال ہیں۔ کہنے کو کیا کچھ نہیں
ہیں اس سر زمین کے خزانے میں مگر استعمال بدقسمتی سے اللہ نے محروم کر رکھا ہے۔ چھوٹی سی آزمائش آ جاتی ہے تو
دروازے مولویوں کے کھٹ کھٹا دیۓ جاتے ہیں کہ مولوی صاحب میرے لیے دعا کریں یا پھر دعا دے دیں تعویز کے روپ میں
عوام کی نفسیات اتنی حد تک متاثر ہو چکی ہے کہ عوام خود سوچتی ہے کہ عوام کیا کرے چوری چکاری کرے یا پھر گناہوں
کے راہ پر گامزن ہو تا کہ اپنی بقا کی زندگی اور زمہ داری نبھا سکے پاکستان ایک سونے کی چڑیا یے جس کی کوئی قدر نہیں
کرتا قدر کرنے والے حملے کرنے کا سوچتے ہیں اور یہی وجہ سے ہم ان۔ خطرات کو دیکھ کر بھی عوام کو شہور نا دے سکے
جس کی بنیار ضرورتوں نے اتنے مشعول ہو گئے کہ یہ وطن کا دفاع ہر ایک انسان ،ہر ایک پاکستانی شہری ،اور ہر ایک مسلمان
پر زمہ داری ہے۔ جس کا جہاں بس چال بھوک نے لوگوں کے ضمیر بیچ دئیے اپنی اپنی فکری میں۔ مستقبل میں پاکستان جیسا
ایٹمی طاقت رکھنے واال ملک غالمی کی زنجیروں میں پھنستا دیکھائی دیتا ہے اور عوام کی سوچوں میں غزوہ ہند کا شوق
دیکھائی دیتا ہے اور فوج مظبوط ہونے کے باوجود پاکستانی سیاستدان نے اپنے ہی ملک کا بھروسہ دوسرے ممالک سے اتنا
کمزور کر لیا ہے کہ آج جنگ چھیڑ جاۓ تو ساتھ دینے والے ممالک شاید مدر کو اس لیے بھی نا پہنچ سکے کہ انھیں خود
امریکا ،اسرائیل جیسے دشمن ممالک سے انگیچ کر رکھا ہوگا اور معیشت کے حاالت اتنے بدکار ہیں کہ زریعہ آمدن کمزور ہے کہ
اپنے ملک کی کوئی چیز بھیچ کر بھی ہم دشمن سے لڑ سکے۔
میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے خود سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ہے ہمارا مستقبل قربانیاں دینے کو ہم ہر وقت تیار رہتے ہیں
جنگ میں ہم شہید ہو بھی جاتے ہیں تو کیا ہمارا ملک دشمنوں سے محفوظ رہے گا اور اگر ہم جنگ جیت جاتے ہیں تو کیا ہمارا
ملک اتنا مظبوط ہوگا کہ وہ روٹی تو چھوڑو اپنے ملک کی عورتوں کی عزت محفوظ کر سکے گا۔ مجھے نہیں لگتا ہم کیسے
بھروسہ کر سکتے ہیں کہ جب سے پاکستان بنا پاکستان کے نظام ملیامیٹ ہوگیا قانون کے محافظ کا کچھ پتہ نہیں قانون کا
پتہ نہیں کہ قانون امیروں کے کمزور اور غریبوں کے لیے طاقتور بنا پھرتا ہے۔ یہ انگلی نہیں اٹھا رہا یہ فکریہ مستقبل کے
حوالے سے سوال ہے جو ایک عام آدمی سوچتا ہے۔ فلسطین کو دیکھ لو سب کچھ لوٹ کیا ان کا مگر اللہ کی راہ سے نہیں
بھٹکے اور ہم دوسرے ممالک کو دیکھے اپنے ممالک کو دیکھے نظاموں میں فرق دیکھائی دیتا ہے۔ ہمارے نظام نے عورتوں کو
اتنا مجبور اور کمزور بنا دیا کہ ان کا مستقبل اپنا جسم بیچنے کے عالوہ کوئی راہ دیکھائی نہیں دیتا کہ وہ اپنے بچے کا حال
اور مستقبل کی روٹی کھال سکے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پڑھے لکھے لوگ نہیں ہیں عورتوں میں پڑھی لکھی عورتوں کی زندگی
کچھ مختلف ہے مگر اس قابل نہیں کہ وہ ان کمزوروں کا مستقبل بن سکے۔ جو سوچ آج کی نسل میں پائی جاتی ہے کہ
شوہر ہو تو صرف میرا کوئی اور نا ہو اس کی زندگی میں اور اگر ہو تو مجھے طالق دے۔ میں اپنی سوتن کو برداشت نہیں
کرتی۔ سوچوں میں فرق آدمیوں کے سخت فیصلے ملک کی بنیاد بھی کمزور کرتے ہیں۔ یہی ایک وجہ ہے کہ پڑھے لکھے انسان
بھی وہ غلط فیصلے کر جاتے ہیں جو عام انسان ان پڑھ نہیں کرتا بلکہ نبھاتا بھی ہے آخری سانس تک۔ اگر یہی ان پڑھ جاہل
پڑھے لکھے ہوتے تو پاکستان کا مستقبل بہترین بن سکتا ہے مگر ہمارے سیاستدان کی بے رحمی اور تعلیم کے ادارے پیسے
کمانے کی بنیاد پر ٹیکی ہوئی ہے کہ موقع ہے بچہ پڑھانا ہے تو فیس دو علم کو مفت مت کرو تا کہ علم ہر انسان تک پہنچے
جس کے پاس پیسے نہیں اس کو علم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اور اگر کسی کو علم حاصل کرنے کا شوق نہیں تو اس
کے پاس ہنر نہیں اور وہ غالمی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ سوال ہے کہ اگر میں حکمران ہوتا تو میں کیا کرتا۔
یہی تو سوال کا جواب دینے کی کوشیش کر رہا ہے کہ ہمارے ملک اور معاشرتی نظام میں کیا خامیاں ہیں اب دیکھو ایک
غریب کا بچہ کہا پڑھے گا جب اس کے پاس پیسے نہیں ہونگے تو وہ کیا کرے گا چوری کرے گا اور کیا کرے گا زیادتی تو ہو
رہی ہے نا یا نہیں پھر گولی مار کر عوام جان بھی لے لیتی ہے کیوں کیونکہ اس نے چوری کی اور وہ چور بنا تو اس کو جینے
کو کوئی حق نہیں اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ حکومت اسے کونٹیبل کی نوکری دے کہ تو دروازے پر پولیس اسٹیشن کھڑا
رہ بلکہ نوکری بھی میڑک پاس والے کو ملے گی کیونکہ ہم ترقیاتی ملک ہیں تو وہ ان پڑھ چوری کرے گا۔ گیس ،بجلی ،پانی
کو دیکھ لو۔ مثالل ہے گیس کی چوری ہوتی ہے پتہ حکمران کو نہیں گیس کیسے چوری ہوتی ہے کیونکہ عوام کو پتہ ہے کہ
گیس کا میٹر چیک کرنے واال اس تاریخ سے اس تاریخ تک آۓ گا۔ یہی حال بجلی کا ہے اور لوڈ شیڈنگ الگ ہوتی ہے اور اندر
کی کمائی الگ باہر کی کمائی الگ پانی کو دیکھ لو پانی اتنا گندا گھر میں آتا ہے کہ گڑٹر کی بدبو آتی ہے انسان لگتا ہے کہ
عوام جانور ہیں اور حکمران مالک کیونکہ انھیں صحت کی صرورت ہے ملک چالنا ہے تو حکمران کو تو صاف پانی ملنا چاہیے
عوام اپنا کچھ نا کچھ کر لے گی دوا ہے نا دوائی عالج کر دے گی اور لوگ پھر سے گندہ پانی پی لیں گے۔ پاکستان کا 65
فیصد پانی گندہ ہے اور 35,فیصد صاف پانی نہروں ،دریاوں سے آتے آتے گندہ ہو جاتا ہے۔ پانی کے صفائی کا بھی ایک نظام
ہوتا ہے کہ پانی ہر ایک کی ضرورت ہے جتنے پچھلے حکمران گزرے میرے خواہش ہے کہ انھیں ایک دن اور ایک گالس پانی
پالیا جاۓ اور کہا جاۓ کہ واہ آپ نے ہم عوام کے اوپر جتنے کام کیۓ ہیں انھیں سہرایہ جاۓ لیکن ایسا ہو نہیں سکتا کیونکہ
ایک عام آدمی کیا کر سکتا ہے۔ اگر یقین نا آۓ تو پاکستان کے ہر شہر کے گھروں کی ٹیکی چیک کروائی جائے آپ کو یقین آۓ
گا کہ ہاں یہ سچ ہے مگر ہمیں گندگی کی عادت ہو چکی ہے اور ہم بدلنا نہیں چاہتے اپنے پاکستان کے مستقبل کو کہنے کو بہت
کچھ ہے تب ہی یہ سب کچھ لکھ رہا ہوں یوں سمجھ لیں میری بڑھاس اس قلم سے میرے کتاب پر اتر جائے اور یہ کتاب
کاش اللہ کی دربار میں پیش کیا جائے تا کہ ایک عوام کا ایک معمولی شہری کا مقدمہ قیامت کے روز ان حکمرانوں پر بھاری
پڑ سکے جو وہ سوچتے ہیں کہ انھوں نے اپنی حکومت میں نیک کام سر انجام دئیے یہ زمہ داری کسی ایک کی نہیں ہے بلکہ
پورے پاکستان کی ہے۔ کبھی چھپکلی کا زہر پانی میں ملتا ہے تو کبھی اللبیک کا اور انسان کا روایہ کیوں نہیں جانوروں واال
ہوگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہو کی حکومت یاد آتی ہے مگر کیا ان کا بھی حساب نہیں ہوگا بے شک ہوگا تو یہ عام حکمران
ہیں حکمرانی زمہ داری ہے جو زمہ داری کوئی نہیں نبھا رہا بلکہ اپنا پیٹ بھرنے کو ترجی دے رہا ہے کوئی مرتا ہے تو مر جائے
کسی کو کیا فکر بس یہ کہہ دیں گے مر گیا اللہ جنت میں اعلی مقام دے کہانی ختم لیکن درحقیقت کہانی کی شروعات تو
اب شروع ہوئی ہے۔ دنیا گھول ہیں اور رہنے والے لوگ بھی گول ہیں ہر کوئی اپنے مفاد پر مر رہا ہے دنیا کو اہنی جنت بنانا
چاہتا ہے جبکہ یہ دنیا فانی ہے یہ میں نھی جانتا ہوں اور آپ بھی جانتے ہیں لیکن لکھنا ضروری ہے۔ ایک پارٹی دوسری پارٹی
کے ساتھ قدم سے قدم مال کر چل رہی یہی کہانی کاروباریوں کا ہے یہی حال ہر نظام کا ہے کوئی کسی کے نظام میں دخل
اندازی نہیں دے سکتا اور اگر دخل اندازی ہوتی ہے تو اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اگر ملک کو ترقی پر النا ہے تو ایک
چیین بنانا ضروری ہے پانی ،بجلی ،گیس ،روٹی ،گھر ،کمائی ،صفائی ،عالج ،صحت ،اناج ،قانون ،علم ،انصاف،اعتبار ،اعتماد،
ایمان ،صبر ،روزگار ،ہر ایک چیز کو ایک چیین میں النا ہوگا اور وہ چین صرف نظام ہی ال سکتا ہے۔ جو کہ مشکل ہے باری
باری بیٹھے لوگ نہیں ال سکتے نا ال سکے گے۔ آج ہم سنتے ہیں کہ ایک حکومت دنیا پر یقینی طور پر مشکل ہے مگر یہودی اپنے
مقاصد پر پہنچ چکے کوئی سوچتا ہے کہ پاکستان میں جنگ پاکستان کی ترقی کا زریعہ معاش بن سکتا ہے تو غلط فہمی ہے
بے مقصد لوگوں کی جان جانا بھی گناہ ہے اس ملک کی حکمرانی کرنے والے اور سمبھالنے والوں پر جو کہ شاید کوئی نہیں
کرنا چاہتا مگر ہو رہا ہے افسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ ہم دوسروں کو کمزور دیکھنے سے پہلے ہم اپنی خود کی کمزوری کو
ناپے تو بہت بہتر ہوگا اور وہ بہتری سبق حاصل کرنے سے ہوگا جو پچھلے کئی سالوں سے کرتے آ رہے ہیں۔ عوام تھک چکی ہے
مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی آ جائے وہ آۓ جو کام کرے اور کام کر کے دیکھاۓ اور حکومت چال کر دیکھاۓ جو
امن کا مقام پاکستان نے کھو دیا ہے اسے بحال کرے۔ چوروں کو سزا سر عام عوام کے درمیان کسی ایسے انسان جس پر فرد
جرم عائد ہوتا ہے معصوم نا ہو اسے سربازار اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے اور عالج بھی کیا جائے انسانی ھمدردی کے طور پر
اور قانون پاس کیا جائے کہ چوری کی سزا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ ہاتھ وہ کاٹا جائے جس ہاتھ سے وہ جرم کرتا تھا چاہے
وہ سیدھا ہاتھ ہو یا الٹا اور سات سال قید دی جائے جس میں اسے دینی تعلیم ،اور ہنر سیکھانے کے ساتھ اس جگہ پر کام
بھی دیا کاۓ تا کہ اس کی فیملی کو تکلیف نا ملے تا کہ پاکستان کی عزت محفوظ رہے یہ مثال ہی ایک حل ہے جو ملک کو
بہتری کی طرح لے جانے کی شروعات کرے گی۔ ہمارے ملک پاکستان میں کچرے سے کھربوں کا کام کیا جا رہا ہے صرف
کھربوں کا جس کا علم حکومت کو ہے مگر چند روپے میں بک جانے والے لوگ بہت ہیں۔ لوگ کاروبار کر رہے ہیں مگر ٹیکس کا
کچھ پتہ نہیں کہاں جا رہا ہے 24کروڑ انسان رہنے والے پاکستان میں اگر پانچ روپے ٹیکس ایک آدمی پر لگایا جاۓ تو ہر مہنے
کا تو 48کروڑ بنتا ہے اور ایک ایک چیز پر ایک دو روپے کرکے چھوٹی موٹی چیزوں پر ٹیکس لگا کر اگر چوبیس کروڑ افراد
صرف مہنے کا سو روپے دیں تو 24,000,000,000کی کمائی کر سکتا ہے صرف کھانے پیسے کی اشیاہ پر یا ایک ساتھ کہہ
دیا جائے کہ ہر انسان نے ہر مہنے 100روپے دینا ہے یہ زمہ داری عوام کو اٹھانی پڑے گی اگر ملک کو برہان سے نکالنا ہے تو ہر
دوائی پر ایک روپیہ ٹیک لگا جاۓ جو عوام کی جیب سے نکلے گی دکان داروں سے ساالنہ فیس لیا جائے گا .میں اور بہت
کچھ لکھنا چاہتا ہوں الکھوں راستے موجود ہیں ترقی کے لیکن کیا فائدہ حکمران میں بن نہیں سکتا اور سدھرنے والے
پاکستان کی عوام نہیں تو کیا فائدہ اس سے بہتر ہے اہنا وقت ظائع کرنے سے بہتر یہاں پر یہ ٹوپک اختتام کرتا ہوں۔
اپنا اور اپنا گھر والوں کا خیال رکھیں اللہ حافظ