You are on page 1of 2

‫دیکھئیے ہم جس دور میں رہ رہے ہیں وہ نہ وہ واال قبائلی دور ہے ‪ ،‬نہ بادشاہت کا اور نہ عملی اعتبار سے دست بدست

لڑائی کا کہ‬
‫جس میں آپ کا جوش و جذبہ اپنے جنون وعشق کی حدودیں پار کر رہا ہو تو آپ فیصلہ کن ثابت ہو سکیں۔یہ دور جہاں تمدنی‬
‫اعتبار سے قبائل کی جگہ ریاست سے بدل چکا ہے وہاں بادشاہت کی جگہ امر ھم شوری بینھم کی مصداق ہر خیال اور ہر فکر کے‬
‫لوگوں پر مشتمل طرز حکمرانی کی صورت اختیار کر چکا ہے اس ارتقاء کو تسلیم کیجئے تو آپ کے مسائل حل ہو جائیں گے۔‬
‫اس بدالؤ نے انسان میں ریاست کا "میری ریاست میری حکمرانی واال عنصر" پیدا کیا تو کاوش جو پہلے ایک خاندان کی حکومت یا‬
‫قبیلے کی خاطر ہوتی تھی وہ اپنی خاطر ہوگئی یوں تقریبا ہر طبقہ اور ہر ایک ریاست سے متعلق ہوگیا اور نوع انسانی کی‬
‫صالحتیوں کی مشترکہ کاوش نے نئی دنیا تخلیق کی جس میں میری حکمرانی کا نشان "ریاست" قرار پائی اس حکمرانی کی مشترکہ‬
‫کوشش نے ریاستوں کو نت نئی صالحیتوں سے نوازا۔ جس کا بیان بھی ممکن نہیں۔‬
‫اب نئی دنیا میں کسی بھی فرد کا اور اس کی اجتماعیت یعنی قبیلے یا گروہ کا الگ ہو کر رہنا یا خود مختار حیثت برقرار رکھنا‬
‫ممکن نہیں ہاں ایک آپشن یہ کہ وہ اس دور کے دستیاب تقاضوں اور صالحیتوں پر مکمل عبور رکھتا ہو اگر وہ عبور رکھے گا تو‬
‫الزما کسی ریاست کی شکل ہی میں سامنے آئے گا اس صورت میں کامیابی ممکن ہے یہی زمانے کا تقاضا بھی ہے اور خدائی‬
‫قانون بھی ہے‬
‫البتہ خدائی قانون کی ایک اور ڈائمنشن ہے جس کو غلط جگہ پر رکھ کر لوگوں کے جذبات سے کھیال جاتا ہے کہ اگر آپ کم ہیں‬
‫اور صالحیت کے اعتبار سے بھی مقابل سے کم تر ہیں تو ایک وہاں واحد راستہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے قول اور قرار میں سچے ثابت‬
‫ہوں اور آپ کے اقدامات و اعمال فطرت کے ہم آہنگ ہیں یعنی خدا کے رنگ میں رنگے ہوئے ہوں تو پھر آپ کی طرف داری کے‬
‫لیے بھی فطرت حرکت میں آتی ہے یعنی خدا خود آپ کا ممد و معاون بن جاتا ہے لیکن اس کے لیے اپنا کردار مومنانہ پیدا کرنا‬
‫الزم ہے ۔ یہ کردار آج بحیثت مجموعی کسی بھی جگہ آپ کو ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔‬
‫اس پس منظر میں حالیہ اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو مشرق میں موجود مغرب کی ناپاک ریاست کے خالف اقدام کی بھی سمجھ‬
‫آجائے گی ان کو درست کہنا اور نتیجہ خیر قرار دینا چاہے‬
‫وہ اپنی حکمت عملی کے اعتبار سے بہت عمدہ ہوں‪ ،‬وقت کا تقاضا ہوں یا آخری آپشن ہو یا ایمانی تقاضا کا عملی مظاہرہ ہوں‪،‬‬
‫مظلوم کی دادرسی کے لیے بہانے تو ہوسکتے ہیں لیکن حقیقی اعتبار سے وہ کارگر نہیں ہے اور نہ ہو گا اور نہ کبھی ہو سکتا ہے‬
‫وہ دو ماہ‪ ،‬چار ماہ یا سال تک آپ کے جذبہ ایمانی و جوش کی بدولت برقرار رہ سکتا ہے لیکن ریاست کی منظم طاقت کے خالف‬
‫زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکتا وہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں صدیوں تک جاری رہ سکتا ہے اور رہے گا لیکن پھر جان لیجئے پائیدار‬
‫نہیں ہوگا۔ وجہ وہی جو ممکن صورتیں ہیں ان میں سے کوئی بھی اپنی کامل شکل میں موجود نہیں۔‬
‫ایک اور اعتبار سے اسی چیز کو دیکھ لیں تو اگر ریاست کا مقابلہ ریاست سے ہو تعداد کم ہو اسلحہ کا فرق ہو آپ کے جذباتی دالئل‬
‫مانے جاسکتے ہیں لیکن ریاست کا ایک تنہاہ گروہ سے مقابلہ ہو جس کی عالمی لیول پر بھی وہ پذیرائی ملنا ممکن نہ ہو تو سمجھیں‬
‫کہ آپ کا اقدام آہ بیل مجھے مار واال ہی تصور ہوگا۔‬
‫چلیں اگر قابض ریاست اندر سے کھوکھلی ہو گئی بس گرتی دیوار کو دھکے کی ضرورت ہے تب بھی اس دنیا میں ریاستوں کا‬
‫ریاستوں سے مفادات کا رشتہ ہے اس کے لیے بھی کسی ریاست کو زیر کرنا کسی گروہ کی طرف اردگرد کی ریاستوں کے‬
‫آشیرباد سے ہی ممکن ہے۔ ورنہ آپ کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔‬
‫اس لیے آپ کے جذبات کو سالم یہی جسد واحد ہونے کی پہچان ہے لیکن اس بدلی دنیا میں جو دستیاب آپشن ہے اگر آپ وہ اپنائیں‬
‫گے تو فائدہ ہوگا۔‬
‫یہ اقدام کو جسٹفائی کرنے کا طریقہ ہرگز کار کارگر نہیں ہوسکتا کہ آپ نعرہ تکبیر لگا کر خوشی بنا کر ریلی نکال کر گھر بیٹھ‬
‫جائیں اور غبارے میں مزید ہوا بھر کر فضا میں چھوڑ دیں بلکہ آپ کا متعلقہ مؤثر فورم ہے آپ کی اپنی ریاست۔۔‬
‫آپ اس کو کس حد تک مجبور کر کے اس اقدام اور محنت کو ایک پروڈیکٹیو ایکٹیویٹی میں بدل سکتے ہیں یہ آپ کی ریاست کی‬
‫مرہون منت ہے۔‬
‫آپ کو واقعی ہمدردی ہے تو بھائی ریاست کو مجبور کریں کہ وہ دو اور دو چار کی طرح واضح پالیسی کا اعالن ہی نہ کرے بلکہ‬
‫بڑھ کر اقدام کے لیے متعلقہ دستیاب آپشنز پر کام بھی شروع کر دے اگر آپ اپنی ریاست کو یہ کرنے کے پوزیشن میں ال سکتے‬
‫ہیں یا الچکے ہیں تو آپ کا جذبہ اور خوشی کے دالئل معنی رکھتے ہیں نہیں تو محض جزباتی اقدام پر مزید تیل چھڑکنے کے‬
‫مترادف ہوگا۔‬
‫اگر پاکستان کی صورتحال کو دیکھا جائے تو پاکستان براہ راست اس ناپاک ریاست پر تو حملہ نہیں کرسکتا اس کا ارادہ بھی ہوا کر‬
‫برعظیم پاک ہند میں اس اقدام کا دوسرا محاذ کھل جائے گا لیکن ایران کے توسط سے اردگرد کے ممالک کے توسط سے اپنا کردار‬
‫ادا کر سکتا ہے۔‬
‫اور کچھ نہیں تو انٹرنیشل لیول پر تمام مسلمان ممالک کو ایک موقف پر تو قائل کی کوشش تو کرسکتا ہے اور یاد رکھیں اقدام کے‬
‫مرحلے میں موقف دو ریاستی حل نہیں ہوتا وہ اقدام جیسا موقف ہی ہوتا ہے اور وہ صرف اور صرف واحد مسلم ریاست کا قیام کا‬
‫موقف ہو سکتا ہے اور یہی بحیثیت مجموعی امت کا موقف ہے اور ہوگا تو امت مانی جائے گی البتہ غیروں اور قابضین ریاست‬
‫کے شہریوں کا کیا ہوگا ان کو بطور اس مسلم کے شہری کی قبولیت تو ممکن ہو سکتی ہے۔‬

‫اور ویسے پاکستان کا ایک سابق آرمی چیف تو امت کی فوج کا آرمی چیف بنا ہوا ہے اس کی چربی بھی تو کم ہونا چاہیے وہ بھی (‬
‫)اس مقصد کے لیے بنایا گیا فورم تھا کہ مسلم ریاستوں کو پروٹیکشن میسر آسکے‬

‫اگر آپ اقدام کو درست مانتے ہیں اور اس کو جسٹیفائی کرنا چاہتے ہیں تو یہی الئحہ عمل ہے ورنہ آپ بھی قتل اور غارت کے‬
‫جواز دینے والوں میں برابر کے شریک ہوں گے ان کے لیے تو شہادت ہے اپ کے اور میرے لیے تو کوئی جواز نہیں سوائے‬
‫منافقت اور باہر باہر سے نعرے لگانے کہ۔‬
‫چونکہ اس ملک میں دو ہی قومیں آباد ہیں ایک ضیاء الحق کی روایتی و ‪ 14‬صدیاں پہلی ذہنی صالحیتوں والی معنوی اوالد اور‬
‫دوسری مشرف کی جدیدیت کے لبادے میں موجود نیم حکیمی اوالد‬
‫اس لیے ان کا لعن طعن بلکل درست سمجھا جائے اور انہیں انہی کے حال پر چھوڑا جائے اور اپنی راہ پر استقامت دکھائی جائے ۔‬

‫‪Israr ahmad‬‬

You might also like